Category Archives: یہود – Jews

دور نبوی کے ادیان باطلہ

  تمام  انبیاء و رسل ، اولیاء اللہ  ، ربانی  اہل  کتاب  کا دین اسلام تھا – اب چاہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وسلم کی بعثت سے صدیوں  پہلے کے ہوں – یعنی  وہ دین  جو  آدم  علیہ السلام سے چلا  آ رہا ہے وہ دین، وہی ہے جس  کا  حکم  تمام بعد کے انبیاء  نے کیا ہے –  اس کو اسلام  کہا  جاتا ہے  –  اسلام  کا مطلب  شریعت  محمد ہی نہیں ہے بلکہ  شریعت  موسوی بھی اسلام ہی  ہے ، یہودیت نہیں ہے – قوم موسی کے مومن  مسلم  تھے – بنی اسرائیل  میں سے   عیسیٰ  کے  حواری بھی  مسلم تھے –  یعنی یہ سب دین اسلام پر عمل پیرا  تھے  –  اگرچہ عیسیٰ  علیہ السلام کے حواری ،  ہیکل سلیمانی میں جا کر سوختی  قربانی دیتے یا  مناسک ہیکل بجا  لاتے تھے  اور کعبہ کی  طرف نہیں بلکہ ہیکل سلیمانی کی طرف منہ  کر کے نماز پڑھتے تھے ، قرآن  میں ان سب کو مسلم  کہا  گیا ہے – معلوم ہوا   شریعت  کا ظاہر  الگ  تھا  لیکن باطن ایک تھا –

  اس دین  سے جو روز الست سے   چلا آ رہا  ہے ،  الگ  ہو  جانے والے  فرقہ ہیں – سورہ ال عمران ١٩ میں ہے

اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّـٰهِ الْاِسْلَامُ ۗ وَمَا اخْتَلَفَ الَّـذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتَابَ اِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَآءَهُـمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَـهُـمْ ۗ وَمَنْ يَّكْـفُرْ بِاٰيَاتِ اللّـٰهِ فَاِنَّ اللّـٰهَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ  

بےشک دین اللہ کے ہاں اسلام  ہی ہے، اور جنہیں کتاب دی گئی تھی انہوں نے صحیح علم ہونے کے بعد آپس کی ضد کے باعث اختلاف کیا، اور جو شخص اللہ کی آیات  کا انکار کرے تو اللہ جلد ہی حساب لینے والا ہے۔

اب جب دین   ایک ہی قابل قبول ہے تو وہ اسلام ہے –  قرآن سورہ الانعام  میں ہے

 إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۚ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ

وہ جنہوں نے  اپنے دین میں فرقے  کیے   اور گروہوں  میں  بٹ گئے   ان سے  آپ کا کوئی سروکار  نہیں ہے – ان  کا فیصلہ  اللہ پر ہے ، پھر  وہ ان کو بتائے  گا کہ انہوں نے کیا  کارگزاری کی 

عرف  عام  میں ہم  یہودیت، نصرانیت  وغیرہ  کو ہم  الگ  دین کہتے ہیں  لیکن قرآن کی ڈکشنری  میں یہ  فرقے ہیں  جو اصل  صراط سے ہٹ   گئے ہیں

یہود کے نزدیک  توریت  آخری  منزل من اللہ کتاب ہے اور  آخری  نبی ملاکی

Malachi

ہے   جس  کا دور سن ٤٢٠ ق م کا کہا  جاتا ہے –  راقم   کے نزدیک  بائبل کی کتاب جو اس نبی سے منسوب  ہے گھڑی ہوئی ہے –   قتل  انبیاء  و رسل  کو  یہودی حلقوں میں  فخر  و افسوس دونوں طرح بیان کیا جاتا ہے – یہود کے نزدیک  اصل اہمیت  اس بات کی  ہے کہ یہود  تمام قوموں  میں اللہ  تعالی کے پسندیدہ ہیں  اور  اللہ نے ارض  مقدس ان کے نام  لکھ دی ہے – یہود کے مطابق  ان کے بعض  سفھاء  و جہلاء  نے انبیاء  و رسل کا قتل کیا جس کی بنا پر ان پر عذاب آیا  جو بابل و اشوری قوم کی طرف سے ان کا   حشر  اول   تھا  یعنی  یہود کو جمع کیا گیا ان کی زمین سے نکالا گیا  –   یہود کے نزدیک حشر  دوم   عذاب نہیں آزمائش  تھا کیونکہ  اس  دور میں  انہوں نے کسی اللہ کے  رسول  کا قتل نہ کیا ( یاد رہے کہ عیسیٰ   ان کے نزدیک رسول و پیغبر نہیں ہیں ) بلکہ بعض لوگوں  نے مسیح کے ظاہر  ہونے  کا جلد گمان  کیا  اور وقت سے  پہلے ان کے  مجاہدوں   نے رومی فوج  کے خلاف  خروج کر دیا  یہ سوچ کر کہ دور خروج   مسیح  آ گیا ہے –  وقت  خروج  کے تعین  میں  اس صریح   غلطی کی وجہ سے  رومی ، یہود  پر  غالب آئے – ہیکل سلمانی فنا  ہو گیا ، یہود  کا حشر  دوم ہوا –  یہود کے مطابق   وہ ابھی بھی اللہ کے محبوب  ہیں اور جہنم میں نہیں  جائیں گے  اگر گئے بھی تو سات دن سے زیادہ نہیں جلیں گے –

عیسیٰ  و  محمد  صلی اللہ علیھما   یہود  کے نزدیک  جھوٹے  انبیاء  تھے  اسی لئے تلمود کے مطابق   عیسیٰ کو رجم کر دیا گیا اور   خیبر  میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر دیا گیا  – احمق  راویوں  نے بیان کیا کہ اسی  زہر کے زیر اثر  وفات النبی  ہوئی  جبکہ یہ جھوٹ ہے

قرآن  میں اس کا صریح  رد ہے کہ عیسیٰ  کا قتل ہوا – قرآن میں ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام  کا رفع  ہوا ان کو زندہ حالت نیند  میں آسمان پر  اٹھا لیا گیا

صابئی

Sabians

کے نزدیک ان  کا مذھب  شیث بن آدم  و نوح  علیھما السلام  سے اتا ہے –  یہ انوخ کی نبوت کے بھی قائل ہیں –  کہا جاتا  ہی کہ ان کے نزدیک  آخری پیغمبر یحیی علیہ السلام   تھے اور آخری منزل من اللہ کتاب زبور ہے – یہ  لوگ عراق  میں آج بھی  آباد ہیں- البیرونی کے مطابق یہ  یہودی قبائل تھے جو غلام بنا کر  بابل  لائے  گئے تھے – وہاں یہ جادو و کہانت سے متاثر  ہوئے – اصل توریت کو کھو بیٹھے –  صابئیوں  پر معلومات  کا مصدر  صرف  ایک کتاب  ہے   جس کا نام ہے

الفلاحة النبطية   یا   الزراعة النبطية

 The Nabataean Agriculture

ہے – جو  أبو بكر أحمد بن علي بن قيس  المعروف  ابن وحشية النبطي کی تالیف ہے- کہا  جاتا  ہے کہ یہ سن ٢٩١ ھ  میں لکھی گئی تھی –  یہ کتاب   صلاح الدین  ایوبی  کے   طبیب   یہودی  حبر    میمونید

Maimonides

کے پاس بھی تھی اور اس نے بھی اس کے حوالے  اپنی کتب میں دیے ہیں

راقم البیرونی کی رائے سے متفق نہیں ہے – صابئی  کو روحانیون بھی کہا  جاتا ہے  – یہ عقیدے رکھتے ہیں کہ جو چیز آسمان میں ہے اور زمین پر اتی ہے اس کی روح ہے مثلا شہاب یا قوس قزح یا ستاروں و سیاروں میں روح ہے اور اہرام مصر انبیاء کی قبروں پر ہیں

مجوس  کے نزدیک  آخری  نبی فارس  میں زرتشت  تھے – ان کے اقوال کا مجموعہ   اوستا ہے –  مقدس آگ  رب نہیں ہے مظہر  الہی ہے ، قبلہ نما ہے  جس کو مخصوص طریقہ سے جلایا جاتا ہے –  –  مجوس  کا لفظ اصل میں فارسی میں   مگوس  ہے  ( جو معرب  ہوا تو مجوس ہوا )  – مگؤس سے ہی  میگی

Magi

کا لفظ نکلا ہے  یعنی آتش   پرست – نصرانیوں  کے نزدیک یہ علم ہیت سے واقف تھے اور   انجیل میں ذکر ہے کہ پیدائش عیسیٰ پر   ستارہ بیت لحم  پر  ظاہر ہوا اور تین مگؤس   وہاں اس ستارہ کو دیکھتے دیکھتے پہنچے  (گویا مجوس بھی منتظر  مسیح  تھے) پھر انہوں نے تحائف  عیسیٰ علیہ السلام کو عطا کیے جس طرح ایک  بادشاہ کو دیے جاتے ہیں –

انگریزی میں  میگی  کا لفظ   میجی بھی ہوا اور اسی سے میجک یعنی جادو  کا لفظ نکلا ہے

 دور  عمر  میں فتح فارس  ایک روایت کے مطابق   مجوس  کے علماء کو جادو  گر قرار دے کر قتل کر دیا گیا تھا

امام شافعی اور دیگر فقہاء   نے  مجوس و صابئیوں  کا شمار اہل کتاب میں کیا ہے  ان کے ذبیحہ کو حلال قرار دیا ہے

نصرانی   (الله کی پناہ) کہتے ہیں کہ عیسیٰ رب ہے – الله  کا ایک جز  (الروح آیلوھم / نور   ) عرش سے زمین تک  آیا –  ایک عورت کو حمل رکھوا دیا اور پھر اس کا وجود کا حصہ عالم بشری میں پیدا ہوا-  اس طرح عیسیٰ کو رب کہتے ہیں آج کل یہی نصرانی مذھب ہے

دور نبوی میں یا اس سے پہلے ایک فرقہ تھا جو کہتا تھا کہ عیسیٰ الله کا منہ بولا بیٹا تھا،  انسان ہی تھا  لیکن یہ فرقہ عام  نصاری کے نزدیک بدعتی تھا اور اب معدوم ہے- قرآن  میں اس کا بھی رد ہے

نصرانیوں کے نزدیک الله  تعالی  خود کو تین اقانیم   ثلاثہ   میں منقسم کرتا ہے  – اس کو لاھوت  کا  ناسوت  میں جانا کہتے ہیں – قرآن  کے مطابق  اللہ  تعالی  کے تین ٹکڑے کرنا کہ کہنا کہ   رب تعالی :   روح القدس اور عیسیٰ اور الله  ہے – یہ کفر ہے   اور اس میں شرک بھی ہے-  اس عقیدے  کو سورہ  المائدہ  میں کفر   کہا گیا  ہے کہ  نصرانیوں  نے کہا الله تو اب تین میں سے ایک  ہے- یہ عقیدہ  آجکل تمام نصرانیوں  کا ہے

سوال اٹھتا ہے کہ اگر یہی عقیدہ صحیح تھا تو اللہ  تعالی  نے توریت  میں اس کا ذکر  کیوں نہ کیا ؟ اس اشکال  کا جواب نصرانی علماء  اس طرح دیتے ہیں کہ   یہود کی کم  عقلی کی وجہ سے اصل مذھب موسی نے توریت میں نہیں بتایا تھا کہ الله تین کا ایک ہے بلکہ اس میں ایک ہی  رب کا ذکر کیا گیا  لیکن اشارات  چھوڑے  گئے کہ  رب منقسم ہوتا ہے – نصرانیوں نے  اپنے فلسفہ سے  الله  تعالی کی ذات کے تین حصے کیے اور کہا کہ یہ تین رب نہیں،  ایک ہی ہیں،  صرف متشکل تین طرح ہوتے ہیں-  یعنی الله تو ایک ہی ہے لیکن ظہور الگ الگ ہے-  آج کل  نصرانی عامیوں  کی جانب سے اس کی مثال پانی سے دی جاتی ہے کہ پانی  زندگی ہے  جو  بھاپ ہے ، مائع ہے اور برف بھی ہے-   الله نے اس  عقیدے کو کفر کہا

 نصرانی اپنے مذھب کا شمار

Monotheism

یا توحیدی مذھب میں کرتے ہیں – جو ان کی خود فریبی ہے-  یعنی یہ بھی مانتے ہیں کہ الله کی تین شکیں یا ظہور یا تجلیات ہیں لیکن اس کو ایک ہی رب بھی کہتے ہیں –  نصرانی  عبادت  میں  پطرس کا اور اپنے اولیاء  کا وسیلہ بھی لیتے ہیں- پوپ

ویٹی کن میں موجود  قبر پطرس کو سجدہ  کرتا ہے

پوپ قبر پطرس کو سجدہ کرتے ہوئے

اللہ  تعالی   قرآن سورہ  المائدہ ٦٩ میں کہتا  ہے کہ وہ   یہودی ، نصرانی ، صائبی  میں سے ان کو معاف  کرے  گا  جو  اللہ  تعالی  اور روز جزا پر ایمان  لائیں  گے

اِنَّ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَالَّـذِيْنَ هَادُوْا وَالصَّابِئُـوْنَ وَالنَّصَارٰى مَنْ اٰمَنَ بِاللّـٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْـهِـمْ وَلَا هُـمْ يَحْزَنُـوْنَ  

بے شک مسلمان اور یہودی اور صابئی اور عیسائی جو کوئی بھی   اللہ اور قیامت پر ایمان لایا اور نیک کام کیے تو ان پر کوئی خوف نہیں ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

سورہ  حج ١٧  میں ہے کہ   یہودی، نصرانی ، صائبی، مجوسی ، مشرکین  سب کا فیصلہ  اللہ کرے گا

اِنَّ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَالَّـذِيْنَ هَادُوْا وَالصَّابِئِيْنَ وَالنَّصَارٰى وَالْمَجُوْسَ وَالَّـذِيْنَ اَشْرَكُوْاۖ اِنَّ اللّـٰهَ يَفْصِلُ بَيْنَـهُـمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ شَهِيْدٌ (17)

بے شک اللہ مسلمانوں اور یہودیوں اور صابیوں اور عیسائیوں اور مجوسیوں اور مشرکوں میں قیامت کے دن فیصلہ کرے گا، بے شک ہر چیز اللہ کے سامنے ہے۔

یہ وہ   لوگ  ہیں  جو رسول  اللہ صلی اللہ علیہ  وسلم سے قبل گزرے  ہوں گے – بعثت  محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کا اقرار   قرآن کی دوسری آیات سے معلوم ہے کہ  اخروی  کامیابی  کے لئے  ضروری امر ہے –  اللہ نے  خبر دے دی ہے کہ وہ شرک کو معاف   نہیں کرے  گا

ملت کا فرق اور قول معروف

93 Downloads

شعائر اسلام کی دین میں اہمیت ہے یعنی وہ چیزیں یا باتیں جس سے غیر مسلموں کو معلوم ہو جائے کہ یہ لوگ مسلم ہیں
ایک ملت اسلامیہ ہے ایک ملت یہود ہے ایک ملت نصاری ہے ایک ملت کفر ہے – قرآن میں ہے کہ یہودی و نصرانی راضی نہ ہوں گے جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی ملت پر نہیں چلتے

ایک مسلمان دوسرے مذہب سے اس طرح الگ ہو جاتا ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ ان سب کا معاشرتی لباس و انداز رہن سہن ایک ہو – مثلا ایک عرب یہودی کی بھی داڑھی ہے اور ایک مسلمان کی بھی ہے – ان دونوں کا لباس ایک جیسا ہے – یعنی کلچر ایک ہے اگرچہ ملت الگ ہے – اس سادہ بات کو لوگوں نے گنجلک بنا کر کچھ سے کچھ بنا دیا ہے – پھر اس طرح یہ غیر عرب _ مغربی و چینی کلچر کی ہر چیز کو حرام قرار دے دیتے ہیں – کوٹ ، پتلون شرٹ غیر اسلامی قرار دے دیے جاتے ہیں اور جبہ اور واسکٹ اسلامی سمجھے جانے لگ جاتے ہیں – داڑھی کو بھی ان لوگوں نے اسی طرح ملت و سنت سمجھا ہے جبکہ اس کا تعلق اس سے نہیں تھا

ملحمہ الکبری کی بڑھ

الملحمة الكبرى کی روایات

126 Downloads

یہودیوں  نے خبر دی ہے کہ یروشلم میں لومڑیاں نظر آ  رہی ہیں –  اس قسم کی خبر کہا جاتا ہے کہ کتاب گریہ بائبل میں موجود ہے جس میں گیڈروں کے گزرنے  کا ذکر ہے

https://biblehub.com/lamentations/5-18.htm

for Mount Zion, which lies desolate, with jackals prowling over it.

صیھون کے پہاڑ  پر بربادی ہو گی اور اس پر گیڈر چلیں گے 

اول تو کوہ  صیھون کہاں ہے اس پر یہود میں خود اختلاف ہے – خاص وہ مقام جہاں مسجد بیت المقدس ہے وہ کوہ صیھون نہیں ہے

بہرحال  میڈیا میں مسلسل یہودی اپنی جنگ کا ذکر کرتے رهتے ہیں

ملحمہ سے مراد
Armageddon
ہے – جس کی اسلام میں کوئی دلیل نہیں ہے- یہ یہود و نصاری کی بڑھ ہے جس میں ان کے مطابق اہل کتاب تمام دنیا پر غالب ہوں گے

اللہ تعالی نے قرآن سوره أل عمران میں بتایا ہے کہ یہود کی سرکشی کی وجہ سے اس نے یہود پر ذلت و مسکنت قیامت تک لکھ دی ہے

ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُوا إِلا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ الأنْبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ
ان پر ذلت کی مار ہے جہاں بھی جائیں مگر ساتھ اللہ کی (وقتی ) پناہ سے یا لوگوں کی (وقتی ) پناہ سے اور وہ اللہ کے غضب میں گھرے ہوۓ ہیں اور ان پر پستی لازم کی گئی، یہ اس لیے ہے کہ اللہ کی آیات کا کفر کرتے تھے اور انبیاء کو ناحق قتل کرتے تھے، یہ لیے کہ انہوں نے سرکشی کی اور حد کو پار کیا

اس آیت سے بتایا گیا کہ مدینہ کے یہودی ہوں یا کہیں اور کے ہوں – یہودی ، اللہ کے نزدیک معذب ہیں – ان کی کامیابی یا دولت زیادہ عرصے نہ رہے گی – دوسری طرف یہود نے اپنے انبیاء کے نام پر یہ آیات گھڑیں کہ عنقریب ان کا باقی دنیا سے معرکہ ہو گا اور وہ تمام عالم پر غالب ہو جائیں گے – اس بات کو گمراہ ہونے والے نصرانییوں نے بھی مان لیا اور نصرانییوں نے اس کو اپنے لئے بیان کیا ہے –

نام

Armageddon

پر اہل کتاب کے علماء کا کہنا ہے کہ یہ اصل مقام
Megiddo
ہے   جو اب اسرائیل میں ہے – اس کا ذکر صرف عہد نامہ جدید میں ہے – کتاب الرویا از مجہول الحال یحیی میں ہے

Revelation 16:16
And they assembled them at the place that in Hebrew is called Harmagedon.
اور وہ اس جگہ جمع ہوں گے جس کو عبرانی میں ہر مجدون کہتے ہیں

فَجَمَعَهُمْ إِلَى الْمَوْضِعِ الَّذِي يُدْعَى بِالْعِبْرَانِيَّةِ «هَرْمَجَدُّونَ كتاب الرويا

ھر کا مطلب عبرانی میں پہاڑ یا جبل ہے اور مجدون جگہ کا مقام ہے جو آجکل
bikat megiddon
کہلاتا ہے -اس  کا ذکر بائبل کتاب زکریا میں ہے اور اس کو یروشلم میں ایک مقام بتایا گیا ہے
Zechariah (12:11)
In that day there shall be a great mourning in Jerusalem, like the mourning at Hadad Rimmon in the plain of Megiddo.
اس روز یروشلم میں خوب رونا پیٹنا ہو گا جیسے حداد رمؤن میں مجدوں میں ہوا تھا

فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ يَعْظُمُ النَّوْحُ فِي أُورُشَلِيمَ كَنَوْحِ هَدَدْرِمُّونَ فِي بُقْعَةِ مَجِدُّونَ.
زكريا 12 : 11
اصل لفظ مَجِدُّونَ کا پہاڑ ہے جو اصل میں بیت المقدس ہی مراد ہے –

یعنی
Armageddon
سے مراد جنگ کے بعد یروشلم میں اس مقام پر نوحہ و گریہ زاری ہے

اب سوال یہ ہے کہ بائبل کے انبیاء کی کتب میں اس مقام کا ذکر کیوں ہے ؟ وہاں کون گریہ کرے گا ؟ راقم نے اس سوال پر دو سال تحقیق کی ہے اور جو معلوم ہوا وہ یہ ہے کہ یہ آیات یہود نے گھڑی ہیں – ان آیات کو گھڑنے کا اصل مدعا یہ تھا حشر دوم کے بعد یہود جب واپس اسرائیل پہنچے تو دیکھا کہ وہاں غیر یہودی آباد ہیں – شروع میں انے والے گروہوں نے مقامی آبادی میں شادیان کر لیں اور مسجد اقصی کو تعمیر بھی کیا – وہاں اس وقت  متعین ایک افسر عزیر
Ezra

بھی تھا  جو فارسیوں کا ملازم تھا –  نوٹ کیا گیا  کہ بنی اسرائیل میں بغاوت کے جذبات آ رہے ہیں وہ نسل داود سے واپس کسی کو بادشاہ مقرر کرنا چاہتے ہیں – اس دوران دو فارس مخالف انبیاء ظاہر ہوۓ ایک نام زکریا تھا اور دوسرے کا نام حججی تھا – اسی طرح چند اور لوگوں نے دعوی کیا کہ ان کو بنی اسرائیل کے سابقہ انبیاء کے نام سے کتب ملی ہیں جن میں کتاب یسعیاہ، یرمییاہ ، حزقی ایل ، عموس وغیرہ ہیں – یعنی  یہودی اپس میں لڑنے لگے اور انبیاء کے نام پر کتب ایجاد کیں – یہ بات  یہود کی  ان کتب انبیاء  کو پڑھنے اور تقابل کرنے پر ظاہر ہو جاتی ہے کیونکہ اگر ان کتب کا اپس میں تقابل کیا جائے تو باہم متضاد اور مخالف بیانات ملتے ہیں – انبیاء جھوٹ نہیں بولتے  یہ یہودی جھوٹے ہیں جنہوں نے ان کے نام سے کتب کو جاری کیا – یہود   میں فارس کے خلاف  بغاوت کے جذبات پیدا ہو چلے تھے – فارس کے خلاف بغاوت کی سازش کرنے لگے- اس بغاوت کو کچلنے کے لئے فارسیوں نے ایک افسر نحمیاہ کو بھیجا   اور اس نے سختی سے اس بغاوت کو کچل دیا اورمیں  نبوت  کے دعویداروں کا قتل بھی ہوا اور ہیکل کے پروہتوں  کا بھی

فرضی نبی زکریا نے  ہر مجدون میں جس رونے پیٹنے کا ذکر کیا ہے وہ اصل میں انہی اپس کے اختلاف پر یہود کا ایک دوسرے کو قتل کرنا ہے – واضح رہے یہ زکریا وہ نبی نہیں جن کا ذکر قرآن میں  ہے بلکہ ان کا دور اس فرضی نبی سے کئی سو سال بعد کا ہے

  اب عزیر ایک بیوروکریٹ تھا اور نحمیاہ ان کا نیا گورنر تھا – عزیر نے ایک نئی توریت یہود کو دی اور الہامی متن کو تبدیل کیا – توریت اصلا عبرانی میں تھی عزیر نے اس کو بدل کر آشوری میں کر دیا – یہود کے اپس کے اس جھگڑے میں لیکن ایک مسیح کا تصور باقی رہ گیا کہ کوئی نسل داود سے آئے گا جو بنی  اسرائیل کو غیر قوموں کے چنگل سے نکالے گا – اس بغاوت کے قریب ٥٠٠ سال بعد اللہ تعالی نے مسیح عیسیٰ ابن مریم علیھما السلام کو بھیجا- اس وقت تک بنی اسرائیل پر رومیوں کا قبضہ ہو چکا تھا لیکن یہود کے معاملات  پر وہ حاکم  تھے جو عزیر کی دی گئی توریت کو پڑھتے تھے – عزیر خود یہود کے مطابق اللہ کا نبی نہیں تھا وہ محض ایک سرکاری افسر تھا جو فارس کا مقرر کردہ تھا البتہ بعض یہودی فرقوں نے اس سوال کا جواب کہ اس نے توریت کو اشوری میں کیسے کر دیا اس طرح دیا کہ اس کو اللہ کا بیٹا کہنا شروع کر دیا – جس کو وہ بنو الوھم کہتے تھے یعنی اللہ کے بیٹے جن پر روح القدس کا نزول ہوا اور توریت موسی ، اصلی  عبرانی سے فارس میں بولی جانے والی اشوری میں بدل گئی

افسوس مسلمانوں نے عزیر کو نبی کہنا دینا شروع کر دیا ہے اور اس کے ساتھ علیہ السلام کا لاحقہ بھی لگایا جاتا ہے جبکہ ابی داود کی حدیث ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

مَا أَدْرِي أَعُزَيْرٌ نَبِيٌّ هُوَ أَمْ لَا
مجھے نہیں پتا کہ عزیر نبی ہے یا نہیں

جیسا عرض کیا کہ یہود نے انبیاء کے نام پر کتب گھڑیں تو وہ ان میں باقی رہ گئیں اور عیسیٰ علیہ السلام کے بعد انہی کتب کو گمراہ ہونے والے نصرانییوں نے لیا اور انہوں نے ذکر کردہ بغاوت اور نتیجے میں ہونے والی جنگ پر استخراج کیا کہ سابقہ انبیاء سے منسوب  کتب میں جس  جنگ کا ذکر ہے وہ نصرانییوں کی جھوٹے مسیح  سے جنگ کے بارے میں ہے –

دو مسیح کا تصور انہی انبیاء سے منسوب   کتب میں اختلاف  سے نکلا ہے

ایک داود کی نسل کا اور ایک یوسف کی نسل کا

یا 

ایک حاکم مسیح اور ایک منتظم مسجد  و روحانی مسیح

یا

ایک اصلی مسیح اور ایک دجال

یہ تصورات یہود میں عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے سے آ گئے تھے – ان کی بازگشت بحر مردار کے طومار

Dead Sea Scrolls

میں سنی جا سکتی ہے

حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے مسیح ابن مریم رسول اللہ کو بھیجا ہے یعنی وہ مسیح جو کسی نسب کا نہیں ہے نہ داود کی نسل سے ہے نہ یوسف کی نسل سے وہ نبی   ہے شاہ نہیں  اور مسیح عیسیٰ علیہ السلام  کا مشن  کسی عالمی  جنگ کی سربراہی کرنا نہیں ہے بلکہ توحید کا سبق دینا ہے اصل کامیانی آخرت کی ہے دنیا کی جنگوں  نہیں – نزول ثانی پر عیسیٰ علیہ السلام کا مشن جنگیں کرنا نہیں  بلکہ گمراہ مسلمان فرقوں کو توحید کی تبلیغ کرنا ہو گا – اسی لئے حدیث نبوی  میں دجال اور عیسیٰ دونوں کا کعبہ کا طواف کرنے کا ذکر ہے

عرب نصرانی اسی جنگ کو ملحمہ الکبری کہتے ہیں – اور یہود میں سے مسلمان ہونے والا کعب الاحبار اسی کو الْمَلْحَمَةَ الْعُظْمَى یا الْمَلْحَمَةَ الْكُبْرَى کہتا تھا (کتاب الفتن از نعیم بن حماد )- شامی مسلمانوں نے الْمَلْحَمَةَ الْكُبْرَى سے متعلق اقوال کو حدیث نبوی بنا کر پیش کر دیا ہے

عصر حاضر میں اس جنگ کا ذکر پھر سننے میں آ رہا ہے جبکہ یہ محض یہود کا پروپیگنڈا تھا اور اب اسی کو بعض لا علم لوگ حدیث رسول بنا کر پیش کر رہے ہیں-احادیث رسول سے معلوم ہے کہ دجال سے جنگ مسلمان نہیں کریں گے وہ پہاڑوں میں روپوش رہیں گے اور نزول عیسیٰ پر دجال فورا ہی عیسیٰ ابن مریم کے ہاتھوں قتل ہو جائے گا

مسند احمد اور سنن ترمذی کی روایت ہے
حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَابِتِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ يَخَامِرَ، عَنْ مُعَاذٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” عُمْرَانُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ خَرَابُ يَثْرِبَ، وَخَرَابُ يَثْرِبَ خُرُوجُ الْمَلْحَمَةِ، وَخُرُوجُ الْمَلْحَمَةِ فَتْحُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ، وَفَتْحُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ خُرُوجُ الدَّجَّالِ “. ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى فَخِذِ الَّذِي حَدَّثَهُ أَوْ مَنْكِبِهِ، ثُمَّ قَالَ: ” إِنَّ هَذَا لَحَقٌّ (1) كَمَا أَنَّكَ هَاهُنَا “. أَوْ كَمَا ” أَنَّكَ قَاعِدٌ ” يَعْنِي: مُعَاذًا
مُعَاذٍ رضی الله عنہ نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بیت المقدس کی آبادی، مدینہ کی بربادی ہے اور مدینہ کی بربادی ملحمہ (خون ریز جنگیں) کا نکلنا ہے اور ملحمہ کا نکلنا الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ کی فتح ہے اور الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ کی فتح دجال کا خروج ہے
اس کی سند ضعیف ہے سند میں عبد الرحمن بن ثوبان ہے جس کی وجہ سے مسند احمد کی تعلیق میں شعيب الأرنؤوط نے اس روایت کو رد کیا ہے- نسائی نے اس راوی کو ليس بالقوي قرار دیا ہے
کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق لابن أبي حاتم کہتے ہیں
سمعت أبي يقول عبد الرحمن بن ثابت بن ثوبان قد أدرك مكحولا ولم يسمع منه شيئا
میں نے اپنے باپ سے سنا عبد الرحمن بن ثابت بن ثوبان نے مکحول شامی کو پایا لیکن ان سے سنا نہیں
زیر بحث روایت بھی مکحول سے اس نے روایت کی ہے
ابو حاتم کہتے ہیں وتغير عقله في آخر یہ آخری عمر میں تغیر کا شکار تھے
ضعفاء العقيلي کے مطابق امام احمد نے کہا لم يكن بالقوي في الحديث حدیث میں قوی نہیں ہے
الكامل في ضعفاء الرجال کے مطابق يَحْيى نے کہا یہ ضعیف ہے
ابو داود میں روایت کی سند میں ہے جو شعَيب الأرنؤوط – محَمَّد كامِل قره بللي کے مطابق ضعیف ہے اور البانی نے صحيح الجامع: 4096 , المشكاة: 5424 میں اس کو صحیح کہا ہے – راقم کے نزدیک شعَيب الأرنؤوط – محَمَّد كامِل قره بللي کی تحقیق صحیح ہے

اس متن کا ایک دوسرا طرق ہے جو مصنف ابن ابی شیبہ میں ح 37209 ہے
حَدَّثَنَا – أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ مَكْحُولٍ، أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، قَالَ: ” عِمْرَانُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ خَرَابُ يَثْرِبَ وَخَرَابُ يَثْرِبَ خُرُوجُ الْمَلْحَمَةِ , وَخُرُوجُ الْمَلْحَمَةِ فَتْحُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ , وَفَتْحُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ خُرُوجُ الدَّجَّالِ , ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى مَنْكِبِ رَجُلِ وَقَالَ: وَاللَّهِ إِنَّ ذَلِكَ لَحَقٌّ
اس روایت کی علت کا امام بخاری اور ابن ابی حاتم نے اپنی کتاب تاریخ اور علل میں ذکر کی ہے کہ ابو اسامہ نے عبد الرحمان بن یزید بن تمیم کا نام غلط لیا ہے اور دادا کا نام ابن جابر کہا ہے
جبکہ یہ نام غلط ہے اصلا یہ عبد الرحمان بن یزید بن تمیم ہے جو منکر الحدیث ہے

مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنِي بَحِيرُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ ابْنِ أَبِي بِلَالٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ بُسْرٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” بَيْنَ الْمَلْحَمَةِ وَفَتْحِ الْمَدِينَةِ سِتُّ سِنِينَ، وَيَخْرُجُ مَسِيحٌ الدَّجَّالُ فِي السَّابِعَةِ
عَبْدِ اللهِ بْنِ بُسْر نے روایت کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خون زیر جنگوں اور مدینہ کی فتح میں چھ سال ہیں اور ساتویں سال دجال نکلے گا

شعيب الأرنؤوط – عادل مرشد کہتے ہیں
إسناده ضعيف لضعف بقية- وهو ابن الوليد- ولجهالة ابن أبي بلال – واسمه عبد الله

مسند احمد کی حدیث ہے
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَرْطَاةَ، قَالَ: سَمِعْتُ جُبَيْرَ بْنَ نُفَيْرٍ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” فُسْطَاطُ الْمُسْلِمِينَ يَوْمَ الْمَلْحَمَةِ الْغُوطَةُ، إِلَى جَانِبِ مَدِينَةٍ يُقَالُ لَهَا: دِمَشْقُ
أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمانوں کا کیمپ ملحمہ کے دن غوطہ میں ہو گا اس شہر کی جانب جس کو دمشق کہا جاتا ہے

مسند احمد میں اس کو بعض اصحاب رسول سے مرفوع نقل کیا گیا ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «سَيُفْتَحُ عَلَيْكُمُ الشَّامُ وَإِنَّ بِهَا مَكَانًا يُقَالُ لَهُ الْغُوطَةُ، يَعْنِي دِمَشْقَ، مِنْ خَيْرِ مَنَازِلِ الْمُسْلِمِينَ فِي الْمَلَاحِمِ
اس میں رجل من اصحاب النبی کہا ہے نام نہیں لیا – بہت سے محدثین کے نزدیک یہ سند قابل قبول نہیں ہے

ان اسناد میں روایت کو مرفوع روایت کیا گیا ہے لیکن تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ محدثین کے نزدیک یہ حدیث مرفوع نہیں قول تبع التابعی ہے

مختصر سنن أبي داود از المؤلف: الحافظ عبد العظيم بن عبد القوي المنذري (المتوفى: 656 هـ) میں ہے
وقال يحيى بن معين -وقد ذكروا عنده أحاديث من ملاحم الروم- فقال يحيى: ليس من حديث الشاميين شيء أصح من حديث صدقةَ بن خالد عن النبي -صلى اللَّه عليه وسلم-: “معقل المسلمين أيام الملاحم: دمشق”.
ابن معین نے کہا اور ملاحم روم کے بارے میں حدیث ذکر کیں پھر ابن معین نے کہا شامییوں کی احادیث میں اس سے زیادہ کوئی اصح حدیث نہیں جو صدقةَ بن خالد (تبع تابعی) نے نبی صلى اللَّه عليه وسلم سے روایت کی ہے کہ ملاحم کے دنوں میں مسلمانوں کا قلعہ دمشق ہو گا

یعنی ابن معین کے نزدیک یہ روایت صحیح نہیں جیسا کہ انہوں نے ابو درداء کی روایت کا ذکر نہیں کیا

تاريخ ابن معين (رواية الدوري) میں ہے

قَالَ يحيى وَكَانَ صَدَقَة بن خَالِد يكْتب عِنْد الْمُحدثين فِي أَلْوَاح وَأهل الشَّام لَا يَكْتُبُونَ عِنْد الْمُحدثين يسمعُونَ ثمَّ يجيئون إِلَى الْمُحدث فَيَأْخُذُونَ سماعهم مِنْهُ
ابن معین نے کہا کہ صدقه بن خالد محدثین سے لکھتے تھے الواح پر اور اہل شام محدثین سے نہیں لکھتے تھے وہ بس سنتے تھے پھر محدث کے پاس جاتے اور ان سے سماع کرتے

معلوم ہوا کہ صدقه بن خالد کے لکھنے کی وجہ سے ابن معین کے نزدیک ان کی سند صحیح تھی جبکہ باقی اہل شام کی روایات پر ان کو شک تھا

ابو داود میں ہے
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا بُرْدٌ أَبُو الْعَلَاءِ، عَنْ مَكْحُولٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: “مَوْضِعُ فُسْطَاطِ الْمُسْلِمِينَ فِي الْمَلَاحِمِ أَرْضٌ يُقَالُ لَهَا الْغُوطَةُ

اس میں مکحول کوئی صحابی نہیں لیکن لوگوں نے اس سند کو بھی صحیح کہہ دیا ہے

فضائل صحابہ از احمد کے مطابق یہ قول تابعی مکحول کا تھا
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قثنا أَبُو سَعِيدٍ قثنا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ قَالَ: نا مَكْحُولٌ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «فُسْطَاطُ الْمُؤْمِنِينَ فِي الْمَلْحَمَةِ، الْغُوطَةُ مَدِينَةٌ يُقَالُ لَهَا دِمَشْقُ هِيَ خَيْرُ مَدَائِنِ الشَّامِ» .

الولید بن مسلم المتوفی ١٥٩ ھ نے ان اس روایت میں اضافہ کیا – کتاب الفتن از نعیم بن حماد میں ہے
حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ ….وَيَظْهَرُ أَمْرُهُ وَهُوَ السُّفْيَانِيُّ، ثُمَّ تَجْتَمِعُ الْعَرَبُ عَلَيْهِ بِأَرْضِ الشَّامِ، فَيَكُونُ بَيْنَهُمْ قِتَالٌ حَتَّى يَتَحَوَّلَ الْقِتَالُ إِلَى الْمَدِينَةِ، فَتَكُونُ الْمَلْحَمَةُ بِبَقِيعِ الْغَرْقَدِ»
ولید بن مسلم نے کہا سفیانی کے خروج کے بعد عرب شام میں جمع ہوں گے پھر یہ جدل و قتال مدینہ منتقل ہو گا بقیع الغرقد پر

ولید اپنے دور کی ہی بات کر رہا ہے جب بنو امیہ میں سے سفیانی کا خروج ہوا اور امام المہدی محمد بن عبد اللہ نے مدینہ میں اپنی خلافت کا اعلان سن ١٢٥ ھ میں مدینہ میں کر چکا تھا
سفیانی سے مراد يزيد بن عبد الله بن يزيد بن معاوية بن أبي سفيان ہیں اور یہ خروج سفیانی سن ١٣٣ ھ میں ہوا-

سنن ابو داود میں ہے
حدَّثنا عبد الله بن محمَّد النُّفيليُّ، حدَّثنا عيسى بن يونس، عن أبي بكر بن أبي مريم، عن الوليد بن سُفيان الغسانيِّ، عن يزيد بن قُطَيب السَّكونىِّ، عن أبي بحرية
عن معاذ بنِ جبلِ، قال: قالَ رسولُ الله – صلَّى الله عليه وسلم -: الملحمَةُ الكبرى وفتحُ القُسطنطينية وخروجُ الدجال في سَبعَة أشهر

معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بڑی خونریز جنگوں اور فتح القُسطنطينية اور خروج دجال میں سات ماہ ہیں

شعیب کہتے ہیں سند ضعیف ہے
إسناده ضعيف لضعف أبي بكر بن أبي مريم والوليد بن سفيان، ولجهالة يزيد بن قُطيب. أبو بحرية: هو عبد الله بن قيس

ابو داود نے دوسرا طرق دیا ہے اور کہا
حد ثنا حيوة بن شُرَيح الحمصيُّ، حدَّثنا بقيَّة، عن بَحِيْرٍ، عن خالدٍ، عن ابن أبي بلالٍ
عن عبدِ الله بن بُسرٍ، أن رسولَ الله – صلَّى الله عليه وسلم – قال: “بين الملحمةِ وفتح المدينة ستُّ سنينَ، ويخرج المسيحُ الدَّجالُ في السابعة”
قال أبو داود: هذا أصحُّ من حديثِ عيسى
یہ طرق عيسى بن يونس سے اصح ہے

لیکن اس طرق کو بھی شعیب نے رد کیا ہے
إسناده ضعيف لضعف بقية -وهو ابن الوليد الحمصي- وجهالة ابن أبي بلال -واسمه عبد الله- خالد: هو ابن معدان الكلاعي، وبَحِير: هو ابن سعد السَّحُولي
اور ابن ماجہ کی تعلیق میں البانی نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے

الغرض ملحمہ ایک فرضی جنگ کا قصہ ہے اور یہود کا پروپیگنڈا تھا جو ان سے نصرانییوں کو ملا اور پھر اسرائیلیات پسند کرنے والے راویوں کی وجہ سے اس کا ذکر احادیث میں شامل ہو گیا

واضح رہے کہ دنیا میں جنگیں  ہوتی رہتی ہیں – جنگ عظیم اول و دوم کا ہم کو علم ہے لیکن ان جنگوں کو مذھب کے تحت کوئی اخروی معرکہ نہیں سمجھتا – اسی طرح مستقبل کی بھی کسی بھی جنگ کو آخری معرکہ قرار دینا غیر دانشمندی ہے
مسلمانوں کے دانشمند اسی قسم کے مغالطے دیتے رہے ہیں مثلا عباسی خلیفہ واثق پر یاجوج ماجوج کا اتنا اثر ہوا کہ خواب میں دیکھا کہ ان کا خروج ہو گیا ہے فورا ایک شخص کو بھیجا کہ جا کر خبر لائے اور اس شخص نے جا کر یاجوج ماجوج کو بھی دیکھ لیا -یا للعجب –  اسی طرح تاتاریوں کے حملے کو بھی خروج یاجوج موجوج سمجھ کر ان سے جنگ نہ کی گئی – ان کا اتنا رعب بیٹھا کہ تلوار تک نہ اٹھا سکے

عصر حاضر میں اصل میں یہود یہ چاہتے ہیں کہ ملحمہ ہو جس کا ذکر اصل میں ان کی کتب میں موجود ہے – یہ کوئی نئی بات نہیں ایسا یہودی کرتے آئے ہیں قرآن میں ہے
كُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ المائدة:64
جب بھی یہ جنگ کی اگ بھڑکاتے ہیں اللہ اس کو بجھا دیتا ہے

سوال ہے کہ یہود ایسا کیوں کرتے ہیں ؟ تو اس کا جواب راقم نے یہود کی کتب میں پڑھا ہے کہ اس کا مقصد ہے کہ اللہ کو نعوذ باللہ مجبور کیا جائے کہ وہ اصلی مسیح کو ظاہر کرے

اللہ سب مسلمانوں کو کفار کے شر سے اور فتنوں سے محفوظ رکھے

نزول المسیح و خروج الدجال پر کتاب ٢

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

کتاب کا موضوع   روایات   نزول مسیح و خروج  دجال ہے  جو صحیح احادیث سے ثابت ہے لیکن ان   روایات میں تمام صحیح نہیں – بعض اہل کتاب کے اقوال ، سیاسی بیانات اور   ذاتی آراء بھی ہیں جو حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم  سمجھی جانے لگی ہیں-   امت  میں نزول مسیح اور قتل دجال کے مقام کے حوالے سے اختلاف چلا آ رہا ہے اور یہ اختلاف مشہور محدثین میں بھی موجود ہے –  امام مسلم نے غلطی سے     اس  حدیث  کو صحیح سمجھا ہے جو نواس   رضی اللہ عنہ سے منسوب  کی گئی ،  جبکہ   راقم کے نزدیک  یہ کعب  الاحبار کے   خیالات  اور اسرائیلیات   کا مجموعہ   ہے –  نواس   رضی اللہ عنہ سے منسوب  کی گئی  اس حدیث کے مطابق  عیسیٰ علیہ السلام کا   نزول دمشق میں ہے  اور دجال کا قتل لد پر ہو گا – دوسری طرف   محدث ابن خزیمہ اس کے قائل تھے کہ دجال بیت المقدس میں  ایک زلزلہ میں ہلاک ہو گا- ابن خزیمہ نے ان احادیث کو  اپنی   صحیح میں نقل نہیں کیا جن میں   ہے کہ دجال لد پر قتل ہو  گا- سیوطی  اور ملا علی قاری بھی  اس کے قائل ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کا نزول   بیت المقدس میں ہو گا -بعض علماء کا قول یہ بھی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا نزول دمشق سے باہر مشرق کی سمت پر ہو گا مثلا  امام حاکم اس کے قائل ہیں کہ مسیح کا نزول   مشرقی دمشق   میں ہو گا ( نہ کہ وسط دمشق  میں الفاظ ہیں  فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ )- امام  ابن حبان اور امام بخاری  نے اپنی  اپنی صحیح  میں حدیث نواس رضی اللہ عنہ  کو درج نہیں کیا اور نزول مسیح کے مقام سے متعلق کوئی روایت نہیں دی،  نہ ان دونوں نے سفید  مینار کا  کوئی  ذکر کیا ہے – ابن حبان اگرچہ  ایک دوسری سند سے اس کے قائل ہیں کہ دجال کا قتل لد پر ہو گا – امام   ابی حاتم کے نزدیک اس حوالے سے بعض  روایات اصلا کعب الاحبار کے اقوال ہیں –    راقم کی تحقیق سے امام ابی حاتم کا قول ثابت ہوتا ہے-

بعض روایات صریحا خلاف قرآن ہیں لیکن افسوس ان بھی قبول کر لیا گیا ہے مثلا درخت  غرقد  کی خبر  کہ وہ اللہ اور اس کے رسولوں کا دشمن ہے   یا خبر  کہ  حربی  یہود  کے علاوہ    سب یہود  کو  بلا   امتیاز  قتل کیا جائے گا-  اسی طرح  بعض  خبریں  دجال کی  الوہی صفات   پر ہیں مثلا اس کا  مردے  کو زندہ کرنا، آسمان و زمین کا اس کی اطاعت کرنا- افسوس ان میں سے ایک آدھ خبر صحیح بخاری و مسلم میں بھی موجود ہے  جن کا تعاقب  علماء  و محدثین  کے اقوال ، زمینی حقائق، قرائن، اسرائیلیات   کی روشنی   میں  کیا گیا ہے – استدراج  دجال کے حوالے سے   امت میں اختلاف موجود ہے –  بعض کے نزدیک یہ محض دھوکہ ہے ، بعض کے نزدیک جادو ، بعض  کے نزدیک فن سائنس میں  انسانی ترقی     وغیرہ –

 ابن حزم،  الفصل في الملل والأهواء والنحل    میں لکھتے ہیں

إِن الْمُسلمين فِيهِ على أَقسَام فَأَما ضرار ابْن عمر وَسَائِر الْخَوَارِج فَإِنَّهُم ينفون أَن يكون الدَّجَّال جملَة فَكيف أَن يكون لَهُ آيَة وَأما سَائِر فرق الْمُسلمين فَلَا ينفون ذَلِك والعجائب الْمَذْكُورَة عَنهُ إِنَّمَا جَاءَت بِنَقْل الْآحَاد وَقَالَ بعض أَصْحَاب الْكَلَام أَن الدَّجَّال إِنَّمَا يَدعِي الربوبية ومدعي الربوبية فِي نفس قَوْله بَيَان كذبه قَالُوا فظهور الْآيَة عَلَيْهِ لَيْسَ مُوجبا لضلال من لَهُ عقل وَأما مدعي النُّبُوَّة فَلَا سَبِيل إِلَى ظُهُور الْآيَات عَلَيْهِ لِأَنَّهُ كَانَ يكون ضلالا لكل ذِي عقل قَالَ أَبُو مُحَمَّد رَضِي الله عَنهُ وَأما قَوْلنَا فِي هَذَا فَهُوَ أَن الْعَجَائِب الظَّاهِرَة من الدَّجَّال إِنَّمَا هِيَ حيل…. وَمن بَاب أَعمال الحلاج وَأَصْحَاب الْعَجَائِب

مسلمان دجال کے حوالے سے  منقسم  ہیں پس ضرار ابْن عمر  اور تمام خوارج یہ اس کا ہی انکار کرتے ہیں کہ دجال ہے پس دجال کی  نشانیاں (ان کے نزدیک ) پھر کیوں ہوں گی – اور جہاں تک باقی مسلمان فرقے ہیں تو وہ دجال کی نفی نہیں کرتے  اور بعض اصحاب اہل کلام کہتے ہیں کہ  دجال یہ رب ہونے کا مدعی ہو گا اور اپنے لئے ایسا قول کہنا ہی اس کے کذاب ہونے کو ظاہر کرتا ہے – وہ کہتے ہیں کہ  جس کے پاس بھی عقل ہے وہ جانتا ہے کہ  دجال سے نشانیوں کا ظہور ہو بھی جائے تو یہ اس کے گمراہ ہونے کی دلیل نہیں ہے  …. امام ابن حزم  نے کہا : ہمارا قول ہے اس پر کہ دجال کے عجائب جو ظہور ہوں گے یہ حیل و فریب ہوں گے  جیسا  …. حلاج کے اصحاب نے یا عجائب کے اصحاب نے کیا

ابن کثیر نے لکھا  ہے

وَقَدْ تَمَسَّكَ بِهَذَا الْحَدِيثِ طَائِفَةٌ مِنَ الْعُلَمَاءِ كَابْنِ حَزْمٍ وَالطَّحَاوِيِّ وَغَيْرِهِمَا فِي أَنَّ الدَّجَّالَ مُمَخْرِقٌ  مُمَوِّهٌ لَا حَقِيقَةَ لِمَا يُبْدِي لِلنَّاسِ مِنَ الْأُمُورِ الَّتِي تُشَاهَدُ فِي زَمَانِهِ

ان احادیث سے علماء کے ایک گروہ مثلا ابن حزم اور امام طحاوی نے تمسک کیا ہے کہ دجال ایک شعبدہ باز ہو گا  جو حقیقت پر منبی نہ گا جب وہ ان امور کو اپنے زمانے کے لوگوں کو دکھائے گا

– البيضاوي (ت 685هـ) کے مطابق دجال کا عمل شعبذة الدجال یعنی  شعبدہ بازی ہے

موجودہ دور میں    ایک بد ترین  گمراہی   یہ بھی پیدا ہو چکی ہے کہ استدراج دجال کو آیات انبیاء کا مماثل قرار دیا جا رہا ہے   اور ان کو بھی معجزات کی قبیل  میں سمجھا جانے لگا ہے – نعوذباللہ  من تلک الخرافات-

راقم  کہتا ہے کہ فرعون کے جادو گروں نے جادو کیا تھا  جس سے نظر و  تخیل   کو بدلا    گیا تھا اور یہ    عمل  سحر  تھا جو شیاطین کی مدد سے کیا گیا-     سحر کا اثر وقتی و    چند لمحوں  کا تھا    (سحر کے حوالے سے راقم کی کتاب ویب سائٹ پر موجود ہے ) البتہ    روایات  میں    دجال   کے عجائب  کل   وقتی  و ہنگامی نوعیت کے بیان  نہیں  ہوئے ہیں بلکہ اس میں  تخیل  و سحر سے بڑھ کر صفات الہیہ  کے ظہور    کا ذکر   آیا  ہے   مثلا دجال کے پاس قوت الاحیاء الموتی کا  ہونا ،   اس کا زمین کی گردش بدلنا   اور دنوں کو  طویل کرنا ، دجال  کا آسمان و زمین کو حکم کرنا   اور   زمین  و آسمان  کا    بلا چون و چرا  دجال   کی   اطاعت کرنا وغیرہ – لہذا  ان روایات کی مکمل چھان بین کرنا ضروری ہے  –

خروج دجال سے متعلق  روایات میں    اختلاف پایا جاتا ہے جن کی وجہ سے دجال ایک مسلمان سے یہودی بن جاتا ہے – نزول مسیح     میں التباس پیدا ہوتا ہے اور   آخر میں  شریعت   کے حکم کہ غیر حربی کفار و اہل کتاب کا اور خاص کر عورتوں بچوں اور بوڑھوں کا قتل نہ ہو گا ، اس کا انکار ہوتا ہے –  صدیوں سے سنتے آئے قصوں کو    تاریخ کی کسوٹی پر   پرکھنا  مشکل کام ہے – اس تحقیق سے ہر ایک کا متفق ہونا بھی ضروری نہیں ہوتا  – لیکن   راقم   تک جو علم آیا ہے  اور جو شواہد مل گئے ہیں ان کی بنیاد پر  اب یہ  مشکل امر ہے کہ وہ  اس   سب   کو      چھپا   دے  جو معلوم ہوا – لہذا  جو معلوم ہوا    ان  میں سے  کچھ ضروری  باتیں   و اسرار    اس کتاب میں    آپ کے سامنے  لائے جائیں گے-  اس کتاب کو سن  ٢٠١٧ میں ویب سائٹ پر رکھا گیا تھا  – اس پر قارئین  نے سوالات کیے  اور مزید مباحث  پیدا ہوئے   جن کی بنا پر اس کتاب کی نئی تہذیب کی گئی ہے اور اضافہ ہوا ہے

و ما علینا الا البلاغ المبین –  وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَىٰ تَنفَعُ الْمُؤْمِنِينَ

ابو شہر یار

٢٠١٩

https://www.islamic-belief.net/حَتَّى-إِذَا-فُتِّحَتْ-يَاجُوجُ-وَمَ/
یاجوج ماجوج   کا خروج قتل دجال کے فورا بعد ہے یا قیامت کی آخری نشانی ہے ؟
اس سوال  پر اس کتاب میں بحث ہے

ہیکل سلیمانی ، زکریا اور مریم

مزید تفصیل کے لئے پڑھیں
تاریخ قبلتین

143 Downloads

یہود مسجد الاقصی کو هيكل سلیمان بولتے تھے اور ہیں – مسجد عربی کا لفظ ہے جس کا مطلب عبادت کا مقام ہے اور الاقصی بھی عربی کا لفظ  ہے جس کا مطلب دور ہے – اور یہ دور اصل میں مکہ سے دوری کے طور پر بولا گیا تھا جب واقعہ معراج کا ذکر الله تعالی نے سورہ بنی اسرائیل میں کیا

سُبْحَانَ الَّـذِىٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَى الَّـذِىْ بَارَكْنَا حَوْلَـهٝ لِنُرِيَهٝ مِنْ اٰيَاتِنَا ۚ اِنَّهٝ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْـرُ (1)

پاک ہے وہ  (رب) جو لے گیا سفر میں  اپنے بندے کو رات  میں مسجد الحرام سے مسجد الاقصی جس کا ماحول ہم نے  با برکت کیا ہے  کہ اس کو اپنی کچھ نشانیاں دکھائے بے شک وہ  (الله) سننے دیکھنے والا ہے

الْاَقْصَى اصل میں فاصلے پر نسبت ہے  کہ اتنی دور ایک رات میں ہی لے کر گئے- ظاہر ہے دور سلیمان و داود میں اور اس کے بعد بھی یروشلم میں رہنے والے احبار و ربانی  اہل کتاب اس مسجد کو مسجد الاقصی نہیں بولتے ہوں گے- بنی اسرائیل کی تاریخ کے مطابق اس مسجد کو ہیکل سلیمان کے نام سے یاد کیا جاتا تھا

هيكل کا لفظ  عربی اور عبرانی دونوں میں مستعمل ہے اور عربی لغت تاج العروس من جواهر القاموس میں بھی موجود ہے  

الهَيْكَلُ: الضَّخْمُ مِنْ كُلِّ شَيْء یعنی کسی بھی چیز کا بڑا ہونا – ہیکل سلیمان کا مطلب  ہے مسجد الاقصی بہت بڑی تھی

لغت مجمع بحار الأنوار في غرائب التنزيل ولطائف الأخبار از  جمال الدين، محمد طاهر بن علي الصديقي الهندي الفَتَّنِي الكجراتي (المتوفى: 986هـ) میں ہے

الهيكل – ذو الضخامة والشرف، ثم استعمل فيما يكتب من الأسماء الإلهية والأدرعة الربانية ونحو ذلك

الهيكل – بہت عظمت و شرف   والا پھر اس لفظ کا استمعال ہوا اگر اسماء الہی  وغیرہ لکھے ہوں

ظاہر ہے یہ لفظ عربی میں بھی موجود ہے تو مسجد الاقصی کو اگر ہیکل کہا جائے تو اس میں کوئی عیب نہیں کیونکہ دور سلیمان میں ظاہر ہے اس کو الاقصی نہیں کہا جا سکتا – سلیمان  علیہ السلام کی مملکت ارض مقدس میں تھی

ہیکل سلیمانی  کا مطلب ہے سلیمان علیہ السلام کا بنایا ہوا ہیکل

Heikal

جس میں ایک    چٹان یا  الصخرہ تھی اس کو یہودی زمین کا سب سے مقدس مقام سمجھتے ہیں اور ان کے مطابق زمیں کا آغاز اسی چٹان سے ہوا اور مسلمان ہونے والے  یمنی یہودیوں کے مطابق اس کے نیچے تمام دنیا کی ہوائیں اور نہریں ہیں  جیسا کہ ایک روایت میں ہے- یہود کے مطابق اس چٹان پر تابوت سکینہ رکھا ہوا تھا اور معلوم ہوا ہے کہ اس ہیکل پر کسوہ کعبہ کی طرح کا ایک غلاف بھی ہوتا تھا  اس کے سامنے

Altar

تھا جس میں قربانی کا گوشت جلا کر الله کی نذر کیا جاتا تھا اور خون کوقربان گاہ پر  چھڑکا جاتا- اس قربان گاہ کے پاس حجرات تھے جن میں منتظم سامان رکھتے اور اس مسجد کے صحن سے بھی زمزم کی طرح ایک چشمہ ابلتا تھا جس کو جیحوں

Gihon

کہا جاتا ہے

مسلمان مورخین کے مطابق تبع نے بعثت نبوی سے کئی سو سال پہلے سب سے پہلے غلاف کعبہ دیا – تبع (المتوفی ٤٢٠ بعد مسیح عیسوی ) ایک  یمنی یہودی بادشاہ تھا جس  نے کعبہ کو سب سے پہلے غلاف دیا کیونکہ مسجد اقصی میں ہیکل سلیمانی میں قدس الاقدس پر بھی غلاف تھا اس کا ذکر انجیل میں ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی مزموعہ صلیب کے وقت مقدس کا غلاف یا کسوہ پھٹ گیا

At that moment the curtain of the temple was torn in two from top to bottom. The earth shook, the rocks split

اور اس ( موت کے) وقت ہیکل کا کسوہ اوپر سے نیچے تک  پھٹ گیا زمیں لرز گئی اور چٹانیں چٹخ گئیں

http://biblehub.com/matthew/27-51.htm

قرآن میں ذکر ہے کہ زوجہ عمران  نے منت مانی کہ اگر لڑکا ہوا تو میں اس کو الله کی نذر کر دوں گی –

إِذْ قَالَتِ امْرَأَتُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

اور جب مریم کی ماں  نے کہا اے رب  میرے بطن میں جو ہے اس کو نذر کر رہی ہوں وقف کرتے ہوئے پس اس کو قبول کر بے شک توسننے والا جاننے والا ہے 

اس میں محرر کا لفظ ہے یعنی اب اس بطن میں جو ہے وہ تمام عمر کے لئے وقف نذر ہو چکا ہے – اس نذر کی بنا پر مریم اب کبھی بھی شادی نہیں کر سکتی تھیں –

قرآن میں مریم کو اخت ہارون کہا گیا یعنی وہ ہارون علیہ السلام کی نسل سے تھیں اور اس طرح ان کے والد عمران بھی نسل ہارون میں سے تھے – اہل کتاب کے  مطابق ہیکل سلیمان یا مسجد الاقصی  میں رسوم کی ادائیگی صرف نسل ہارون والے کر سکتے ہیں –  بہر حال زوجہ عمران نے لڑکے کی بجائے ایک لڑکی مریم کو جنا اور ان کو بطور منت کی ادائیگی ہیکل سپرد کر دیا گیا –

نذر کا مطلب تورات کتاب گنتی باب ٦ میں موجود ہے

اسلام میں بھی معتکف بال نہیں کاٹ سکتا

اس منت کو پورا کرانے کے لئے  اقلام ڈالے گئے یعنی قرع اندازی ہوئی  کہ کون مریم کی کفالت کرے گا

 ذَٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۚ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلَامَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَ 

يه غیب کی خبریں ہیں جو ہم الوحی کر رہے ہیں تم ان کے ساتھ نہ تھے جب یہ اقلام پھینک رہے تھے کہ کون مریم کی دیکھ بھال کرے گا اور نہ ساتھ تھے جب یہ اس (کفالت ) کے لئے لڑ رہے تھے

ہیکل میں امور سر انجام دینے کے لئے اقلام کیسے ڈالے جاتے  تھے اس کا ذکر یہود کی کتاب  مشنا میں ہے

The officials of Temple said to them, Come and cast lots to decide who among  them would kill the sacrifice, who would sprinkle the blood and who would clear the altar of  ashes, who would light the menorah ” ∗. The room Gazith (Lots casting room) was in form of  large Hall. The casting took place from the east side of it. With an elder sitting on the west. The priest stood about in a circle and official grabbed the hat off this or that person, and by this they understood where the lot was to begin

Mishnah Tamid 3.1; see from Jesus Christ in Talmud by J. Lightfoot published in 1658

ہیکل سلیمانی میں خدمت انجام دینے کے لئے مسجد اقصی کے منتظمین کہتے کہ اقلام ڈالو اور ہم فیصلہ کریں کہ کون قربانی کرے گا کون خون کو چھڑکے گا کون قربان گاہ کی راکھ کو صاف کرے گا اور کون منورہ میں شمع جلاۓ گا – ایک بہت بڑا  حجرہ غازث (مسجد الاقصی میں) تھا جس میں اقلام ڈالے جاتے تھے اور وہ اس کے مشرق سے شروع کیا جاتا جب ایک عالم کرسی پر بیٹھتا اور تمام خدمت گزار ایک دائرے کی صورت کھڑے ہوتے اور عالم اشارہ دیتا  کہ اقلام ڈالنا کہاں سے شروع ہو گا

اس اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقلام ڈالنا مسجد الاقصی میں کیا جاتا تھا اور قرآن میں بھی اس کا ذکر ہے جس سے ظاہر ہے نسل ہارون یا خدمت  گزار  لوگ  جن کو لاوی کہا جاتا تھا اس  اقلام ڈالنے میں شریک ہوتے تھے

قرآن میں مزید موجود ہے کہ مریم علیہ السلام جس مقام پر  منت کر رہی تھیں وہ المحراب تھی – یہ اس قدر واضح اشارہ ہے کہ شاید ہی کوئی اور اشارہ قرآن میں اس کے سوا ہو کہ یہ اعتکاف مسجد الاقصی میں تھا اور جب الله نے اس کا ذکر کیا تو کسی بھی یہودی پر یہ مخفی نہ رہا ہو گا-المحراب اصل میں مسجد الاقصی کا ایک حجرہ تھا جو اس کے شمال میں تھا یہ  کمرہ خدمت گزاروں کے لئے وقف تھا وہ  وہاں رکتے نماز پڑھتے اور اپس میں مسجد کے انتظام کا ذکر کرتے تھے –

Bet ha-Moed or Bet Hamoked (Chamber of the Hearth) was the domed chamber in temple, was in north of the ’Azarah (inner court where burning altar was placed), See Jewish Encyclopedia

بیت ہا معید یا بیت ہموکد ایک گنبد نما حجرہ ہیکل میں تھا جو مسجد اقصی کے صحن کے شمالی سمت میں تھا

This dome-covered structure was the quarters for the priests who performed the services

محراب نما حجرہ متظمین ہیکل کے لئے تھا

Architecture of Herod, the Great Builder by Ehud Netzer, Baker Academic, October 1, 2008

Beth-haMoked,  … was built on arches

بیت ہموکد میں محرابیں تھیں

The Temple–Its Ministry and Services by Alfred Edersheim

قرآن میں موجود ہے کہ زکریا علیہ السلام نماز محراب میں پڑھ رہے تھے جب ان پر الوحی ہوئی کہ یحیی علیہ السلام کی ولادت ہو گی

فَخَرَجَ عَلَىٰ قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ فَأَوْحَىٰ إِلَيْهِمْ أَن سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا

پس زکریا محراب سے باہر نکل کر قوم کے پاس آیا اور ان کو اشارہ کیا کہ صبح و شام تسبیح کرو

اسی طرح ذکر ہے کہ جب بھی زکریا محراب میں اتے تو مریم کے پاس رزق ہوتا

كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِندَهَا رِزْقًا

محراب میں جب بھی زکریا مریم کے پاس داخل ہوتے ان کے پاس رزق پاتے 

 یعنی یہ محراب ایک بہت بڑا حجرہ تھا جس میں مریم بھی تھیں اور زکریا بھی تھے اور  یہاں مریم معتکف تھیں ان کے باقی حجرہ کے درمیان ایک پردہ تھا اور وہ اس حجرہ کے مشرق میں تھیں

وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِيًّا (16) فَاتَّخَذَتْ مِن دُونِهِمْ حِجَابًا فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا

أور الكتاب  میں مریم کا ذکر کرو جب وہ اپنے اہل کو چھوڑ(محراب میں ) شرقی جانب میں (معتکف ہو) گئی اور اپنے اور باقی لوگوں کے درمیان ایک پردہ ڈالا تو ہم نے ایک روح (ناموس یا فرشتہ) اس کی طرف بھیجا جو ایک آدمی کی صورت ظاہر ہوا

یقینا مریم اس اشکال میں ہوں گی کہ وہ ایک لڑکی ہیں اور مسجد الاقصی میں کس طرح ان کا قیام جاری رہے گا – لہذا ان کو خبر دی گئی کہ وہ اب حیض کی حالت میں کبھی نہ جائیں گی – اللہ نے خبر دی

وَإِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَىٰ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ

اور فرشتوں نے مریم سے کہا اے مریم الله نے اپ کو منتخب کر لیا ہے اور پاک کر دیا ہے   تمام عالمین کی عورتوں میں سے اپ کو چنا ہے

طہر کا لفظ  اشارہ ہے کہ مریم اب کبھی بھی نطفہ سے ماں نہیں بن سکیں گی اور نہ ان کو  عام عورتوں کی طرح حیض آئے گا – ساتھ ہی خبر دی گئی کہ وہ بن بیاہی ماں بن جائیں گی

إِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ (45)

اور جب فرشتوں نے کہا اے مریم بے شک الله اپ کو بشارت دیتا ہے اپنے جانب سے کلمہ کی جس کا نام المسیح عیسیٰ بن مریم ہو گا دنیا و آخرت میں مقربوں میں سے ہو گا

یقینا مریم اہل کتاب کی اس خواہش  کا علم رکھتی ہوں گی جس کا ذکر کتاب یسعیاہ میں ہے کہ ان میں ایک کنواری کے بطن سے مسیح کا ظہور ہو جو  مردوں کو زندوں کر دے جو نابینا کو نگاہ دے اور جو اپاہج کو صحیح کر دے  – فرشتوں نے ان کو خبر دی کہ وہ وہ کنواری ہیں جو المسیح کو جنم دے گی

اللہ نے اس طرح  مسیح کو کسی بھی نسب کا نہ کیا کیونکہ اہل کتاب میں اختلاف چل رہا تھا ایک گروہ کا دعوی تھا کہ مسیح داود کی نسل سے ہو گا اور دوسرے گروہ کا دعوی تھا کہ یوسف کی نسل سے ہو گا – الله نے نسل ہارون کو پسند کیا اس کی لڑکی کو المسیح کی ماں بننے کا شرف ملا اس طرح ان تمام جھگڑوں کو ختم کر دیا جو مسیح کے نسب پر اہل کتاب میں تھا

و الله اعلم

یسعیاہ، ابن سبا، الرجعة اورعود روح

قرن اول میں امت میں ایک عقیدہ پھیلایا گیا جس کو عقیدہ  الرجعة  یا رجعت کہا جاتا ہے – اس عقیدے کے اہل سنت انکاری ہیں  اور شیعہ اقراری ہیں-  عقیدہ الرجعة کیا ہے کتب شیعہ سے سمجھتے ہیں

سوره البقرہ کی آیت  ألم تر إلى الذين خرجوا من ديارهم وهم ألوف حذر الموت فقال لهم الله موتوا ثم أحياهم إن الله لذو فضل على الناس ولكن أكثر الناس لا يشكرون(243) پر بحث کرتے ہوئے شیعہ عالم  أبي جعفر محمد بن الحسن الطوسي المتوفی ٤٦٠ ھ  تفسیر التبيان في تفسير القرآن میں لکھتے ہیں

وفي الاية دليل على من أنكر عذاب القبر والرجعة معا، لان الاحياء في القبر، وفي الرجعة مثل إحياء هؤلاء الذين أحياهم للعبرة.

اور اس آیت میں دلیل ہے اس پر جو عذاب قبر کا اور رجعت کا انکار کرے کیونکہ قبر میں زندہ ہونا اور رجعت میں ان کی مثل ہے جن (کا ذکر آیت میں ہے جن کو) کو عبرت کے لئے زندہ کیا گیا

آیت فرحين بما آتاهم الله من فضله ويستبشرون بالذين لم يلحقوا بهم من خلفهم ألا خوف عليهم ولاهم يحزنون(170) کی تفسیر  میں  أبي على الفضل بن الحسن الطبرسي المتوفی ٥٤٨ ھ  لکھتے ہیں

وفي الآية دليل على أن الرجعة إلى دار الدنيا جائزة لاقوام مخصوصين

اور اس آیت میں دلیل ہے کہ دار دنیا میں مخصوص اقوام کی رجعت جائز ہے

آیت ثمَّ بَعَثْنَكُم مِّن بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكمْ تَشكُرُونَ(56) کی تفسیر میں شیعہ عالم تفسیر میں  تفسير مجمع البيان لکھتے ہیں

  و استدل قوم من أصحابنا بهذه الآية على جواز الرجعة و قول من قال إن الرجعة لا تجوز إلا في زمن النبي (صلى الله عليه وآله وسلّم) ليكون معجزا له و دلالة على نبوته باطل لأن عندنا بل عند أكثر الأمة يجوز إظهار المعجزات على أيدي الأئمة و الأولياء و الأدلة على ذلك مذكورة في كتب الأصول

اور ہمارے اصحاب کی ایک قوم نے اس آیت سے استدلال کیا ہے رجعت کے جواز پر  اور کہا کہ جس نے کہا رجعت جائز نہیں ہے سوائے  دور نبوی صلی الله علیہ و الہ وسلم کے کہ وہ معجزہ ہوتا ان کی نبوت کی دلیل پر تو یہ باطل قول ہے کیونکہ ہمارے اکثر ائمہ  اور اولیاء  کے ہاتھ پر  معجزات کا ظہور جائز  ہے جس پر دلائل مذکورہ کتب اصول میں موجود ہیں

ائمہ شیعہ کے مطابق الرجعة کا ایک خاص وقت ہے جس  کا انکار لوگوں نے کیا کیونکہ وہ اس کی تاویل تک نہیں پہنچ سکے

قرآن کی آیت ربنا أمتنا اثنتين وأحييتنا اثنتين وہ کہیں گے اے رب ہم کو دو بار زندہ کیا گیا اور دو بار موت دی گئی پر بھی اہل سنت اور اہل تشیع کا اختلاف ہے – اہل سنت اس کو عموم کہتے ہیں جبکہ اہل تشیع اس کو خاص – اہل سنت کے مطابق تمام لوگوں کو دو زندگیاں اور دو موتیں ملیں ہیں اور اہل تشیع کے مطابق صرف ان دشمنان اہل بیت کو ملی ہیں جن کے گناہوں کا عذاب ان کو دنیا میں نہیں ملا اور مر گئے لہذا ان کو زندہ کیا جائے گا اسی طرح اہل بیت کو بھی قیامت سے قبل زندہ کیا جائے گا

تفسیر نور ثقلین  از عبد على بن جمعة العروسى الحويزى  المتوفی ١١١٢ ھ کے مطابق

وقال على بن ابراهيم رحمه الله في قوله عزوجل : ربنا أمتنا اثنتين و أحييتنا اثنتين إلى قوله من سبيل قال الصادق عليه السلام : ذلك في الرجعة

علی بن ابراہیم نے کہا الله کا قول ربنا أمتنا اثنتين و أحييتنا اثنتين تو اس پر امام جعفر نے کہا یہ رجعت سے متعلق ہے

اہل تشیع میں یہ عقیدہ اصلا ابن سبا سے آیا- یہود بھی رجعت کا عقیدہ رکھتے ہیں اور ان کے مطابق مسیح آ کر مردوں کو زندہ کرے گا

http://www.come-and-hear.com/sanhedrin/sanhedrin_90.html

اس کی دلیل بائبل کی کتاب  یسعیاہ    باب ٢٦ آیت  ١٩ ہے

Your dead shall live; their bodies shall rise.

                     You who dwell in the dust, awake and sing for joy

           For your dew is a dew of light,

                     and the earth will give birth to the dead.

تمھارے مردے جی اٹھیں گے ان کے اجسام زندہ ہوں گے

تم وہ جو خاک میں ہو اٹھو اور گیت گاؤ

کیونکہ تمہاری اوس، روشنی کی شبنم ہے

اور زمیں مردہ کو جنم دے گی

حزقی ایل کی کتاب میں رجعت کا ذکر ہے کہ یہود کو کس طرح جی بخشا جائے گا

Behold I will open your graves and raise you from your graves, My people; and I will bring you into the Land of Israel. You shall know that I am G‑d when I open your graves and when I revive you from your graves, My people. I shall put My spirit into you and you will live, and I will place you upon your land, and you will know that I, G‑d, have spoken and done, says G‑d.” (Ezekiel 37:12-14)

خبردار میں تمہاری قبریں کھول دوں گا اور تم کو جی بخشوں گا میرے لوگ! اور میں تم کو ارض مقدس لاؤں گا

تم جان لو گے کہ میں ہی الله ہوں میں  قبروں کو کھولوں گا

آور تم کو ان میں سے اٹھاؤں گا میرے لوگ ! میں اپنی روح تم میں ڈالوں گا

اور تم زندہ ہو گے اور میں تم کو تمہاری زمین پر رکھوں گا اور تم جان لو گے کہ میں رب نے جو کہا پورا کیا

 

ان آیات کی بنیاد پر یہود کہتے ہیں کہ مسیح مردوں کو بھی زندہ کرے گا اور یہی عقیدہ اہل تشیع کا بھی ہے جس کی قلمیں قرانی آیات میں لگائی گئیں تاکہ اس عقیدہ کو ایک اسلامی عقیدہ  ثابت کیا جا سکے

لہذا قرن اول میں یہ عقیدہ شیعوں میں پھیل چکا تھا اور اہل سنت اس  کا انکار کرتے تھے کہ رجعت ہو گی البتہ  کچھ شیعہ عناصر نے اس کو بیان کیا جو کوفہ کے عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ کے شاگرد تھے- اب اپ کبری صغری کو ملائیں – ابن سبا عثمان رضی الله عنہ کے دور میں یمن سے حجاز آیا اپنا عقیدہ پھیلانے لگا اور وہاں سے مصر اور عراق میں آیا- اسی دوران ابن مسعود کی وفات ہوئی عثمان کی شہادت ہوئی اور علی خلیفہ ہوئے – تاریخ دمشق کے مطابق وہاں کوفیوں میں ابن سبا بھی تھا جس نے ایک دن مجمع میں علی سے کہا

انت انت

تو، تو ہے

یعنی تو اے علی رب العالمین ہے – اس کی وضاحت کے لئے ویب سائٹ پر کتاب مجمع البحرین دیکھیں

کتاب رجال ابن داود از ابن داوود الحلي کے مطابق

 عبدالله بن سبا ي (جخ) رجع إلى الكفر وأظهر الغلو (كش) كان يدعي النبوة وأن عليا عليه السلام هو الله، فاستتابه عليه السلام (ثلاثة أيام) فلم يرجع فأحرقه في النار في جملة سبعين رجلا ادعوا فيه ذلك

عبد الله بن سبا ان ستر میں تھا جن کو جلا دیا گیا

الکشی کہتے ہیں امام جعفر نے کہا

أن عبدالله بن سبأ كان يدعي النبوة ويزعم أن أمير المؤمنين ( عليه السلام ) هو الله

ابن سبا نبوت کا مدعی تھا اور دعوی کرتا تھا کہ علی وہ الله ہیں

کتاب   خلاصة الاقوال از  الحسن بن يوسف بن علي بن المطهر الحلي کے مطابق

عبدالله بن سبا بالسين المهملة والباء المنقطة تحتها نقطة واحده غال ملعون حرقه أميرالمؤمنين عليه السلام بالنار كان يزعم أن عليا عليه السلام إله وأنه نبي لعنه الله.

عبد الله بن سبا کو علی نے جلوا دیا کیونکہ اس نے ان کو الہ کہا

بعض مستشرقین نے یہودی سازش کی چھپانے کے لئے یہ شوشہ چھوڑا کہ اس ابن سبا کی حکایت میں سَيْفُ بْنُ عُمَرَ التَّمِيمِيُّ  ضعیف ہے اس کے بعد شیعہ حضرات بہت خوش ہوئے اور اپنے ائمہ پر جھوٹ گھڑنے کا اتہام لگا دیا جو ابن سبا کا ذکر کرتے آئے ہیں – اہل سنت میں سَيْفُ بْنُ عُمَرَ التَّمِيمِيُّ  سے بعض روایات ابن سبا سے متعلق لی گئی ہیں لیکن کیا کتب شیعہ میں ابن سبا کی تمام خبریں سَيْفُ بْنُ عُمَرَ التَّمِيمِيُّ  کی سند سے ہیں ؟ نہیں ان کے مختلف راوی ہیں جو ثقہ سمھجے جاتے ہیں اور متقدمیں شیعہ ابن سبا کو ایک حقیقی شخص سمجھتے آئے ہیں- اس کے علاوہ اہل سنت کی کتب میں ٢٠ سے ٣٠ راوی ایسے ہیں جو کھلم کھلا اپنے اپ کو سبائی کہتے ہیں یا محدثین إن کو السبئية یا السبائية مين شمأر کرتے ہیں یا وہ رجعت کا عقیدہ رکھتے ہیں – جن  میں سے بعض سَيْفُ بْنُ عُمَرَ التَّمِيمِيُّ  سے پہلے کے ہیں

 السبئية سے متعلق  روایات کو محمد بن حنفیہ کے  بیٹے علی بن محمد بن علی نے جمع کیا تھا یعنی علی رضی الله عنہ کے پوتے نے اس کی خبر امام فسوی المعروفة والتاريخ میں دیتے ہیں

 وكان عَبد الله جمع أحاديث السبئية

اور عبد الله نے  السبئية کی روایات جمع کیں

مورخین کے نزدیک السبئية  سے مراد وہ قبائل بھی ہیں جو یمن میں آباد تھے اور وہیں سے ابن سبا کا تعلق تھاجو یمن سے کوفہ پہنچا اور مورخین کے مطابق اس کی ماں کالی تھی – یہ ایک لطیف نکتہ ہے کہ یہ اصلی یہودی بھی نہیں تھا کیونکہ یہود کے مطابق  کالے لوگ اصلی یہود نہیں اگرچہ اتھوپیا میں کالے یہودی ہیں لیکن باقی یہودی ان کو اصل نہیں مانتے دوسرا یہود میں نسل باپ سے نہیں ماں سے چلتی ہے

قرن اول میں  کوفہ میں ابن سبا رجعت کا عقیدہ بھی پھیلا رہا ہے اور وہاں   شیعہ  زاذان ہیں جو عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ کی وفات کے بعد اب   اصحاب علی  میں سے ہیں،  وہ روایت کرتے ہیں کہ مردہ میں عود روح ہوتا ہے – اس بات کو زاذان  سے پہلے،  نہ بعد میں ، کوئی روایت نہیں کرتا – عود روح کی یہ واحد روایت ہے جس میں صریحا جسد میں روح کے لوٹنے کا ذکر ہے

اس روایت کو زاذان سے ایک  اور متعصب شیعہ المنھال بن عمرو روایت کرتا ہے  یا عدی بن ثابت روایت کرتا ہے  یہ بھی شیعہ ہیں

اس طرح ابن سبا کے  عقیدہ رجعت کا  اسلامی عقیدہ کے طور پر ظہور ہوتا  ہے اور اب اہل سنت میں بھی مردہ قبر میں زندہ ہو جاتا ہے- عود روح کی روایت کے مطابق  روح آسمان پر نہیں جا سکتی لھذا وہ قبر میں ہی رہتی ہے گویا اب صرف انتظار ہے کہ    الساعہ  (وہ گھڑی) کب ہو گئی – اہل سنت جب اس روایت کو دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں اس میں الساعہ  سے مراد روز محشر ہے جبکہ  الساعہ  سے مراد رجعت ہے اسی لئے امام المہدی کو القائم کہا جاتا ہے جو صحیح غلط کا فیصلہ کریں گے اور انتقام لیں گے

شیعہ کتب کے مطابق  ابوحمزہ ثمالي کہتے ہیں: میں نے امام باقر علیہ السلام سے پوچھا: اے  فرزند رسول    کیا آپ سارے ائمہ قائم بالحق نہیں ہیں؟  فرمایا: کیوں نہیں؟  میں نے عرض کیا: تو پھر صرف امام مہدی  کیوں القائم قرار دیئے گئے ہیں اور صرف امام مہدی   کو ہی کیوں القائم کہا جاتا ہے؟  فرمایا: جب میرے جد امجد امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے تو کائنات کے فرشتوں کے رونے کی صدائیں بلند ہوئیں اور سارے فرشتے بارگاہ الہی میں شدت سے روئے اور عرض کیا: پروردگارا  کیا آپ بہترین بندے اور اشرف مخلوقات کے فرزند اور مخلوقات میں پسندیدہ ترین ہستی کے قاتلوں کو ان کے اپنے حال پر چھوڑ دے گا؟  اللہ تعالی نے انہیں وحی فرمائی کہ: میرے فرشتوں  پرسکون ہوجاؤ۔ میں اپنی عزت و جلال کی قسم کھاتا ہوں کہ ان سے انتقام لونگا خواہ یہ انتقال طویل زمانے گذرنے کے بعد ہی کیوں نہ ہو؛ اس کے بعد اللہ تعالی نے فرشتوں کو امام حسین علیہ السلام کی اولاد سے آنے والے ائمہ کا دیدار کرایا تو فرشتے مسرور ہوئے اور سب نے اچانک دیکھا کہ ائمہ میں سے ایک امام کھڑے ہوئے ہیں اور نماز ادا کررہے ہیں۔ اللہ تعالی نے فرشتوں سے خطاب کرکے فرمایا: میں اس القائم کے ذریعے ان سے انتقام لوں گا

اس طرح عقیدہ عود روح ابن سبا  کے دور میں ہی کوفہ میں شیعان علی میں پھیل چکا تھا – یہ ایک خفیہ تحریک تھی علی رضی الله عنہ  کو بھی اس  تحریک کا احساس دیر سے ہوا جب ابن سبا نے کھلم کھلا ان کو مجمع میں  رب العالمین کہا- علی نے اس  کے اصحاب کو مدائن کی طرف ملک بدر کر دیا  اور بعض اور کو جلا ڈالا – جس کی خبر،  علی کے گورنر ، ابن عباس رضی الله عنہ کو بصرہ میں ہوئی لیکن دیر ہو چکی تھی ابن عباس نے کہا اس  عمل سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے منع کیا تھا

الغرض عقیدہ رجعت اور عقیدہ عود روح ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں- اس بات کو خوب اچھی طرح سمجھ لیں

جادو برج فرشتے اور محدثین ٢

قرآن میں سوره البقرہ میں ہے  کہ بابل میں یہود سحر کا علم حاصل کرتے تھے جو ان کی آزمائش تھا آیات ہیں

واتبعوا ما تتلو الشياطين على ملك سليمان وما كفر سليمان ولكن الشياطين كفروا يعلمون الناس السحر وما أنزل على الملكين ببابل هاروت وماروت وما يعلمان من أحد حتى يقولا إنما نحن فتنة فلا تكفر فيتعلمون منهما ما يفرقون به بين المرء وزوجه وما هم بضارين به من أحد إلا بإذن الله ويتعلمون ما يضرهم ولا ينفعهم ولقد علموا لمن اشتراه ما له في الآخرة من خلاق ولبئس ما شروابه أنفسهم لو كانوا يعلمون

اور  (یہود) لگے اس  (علم) کے پیچھے جو شیطان مملکت سلیمان کے حوالے سے پڑھتے تھے اور سلیمان  نے تو کفر نہیں کیا، بلکہ شیاطین نے کفر کیا جو لوگوں کو سحر سکھاتے تھے اور جو بابل میں فرشتوں هاروت وماروت پر نازل ہوا تھا تو (وہ بھی) اس میں سے کسی کو نہ سکھاتے تھے حتی کہ کہتے ہم فتنہ ہیں، کفر مت کر!  لیکن وہ (یہودی) پھر بھی سیکھتے، تاکہ مرد و عورت میں علیحدگی کرائیں اور وہ کوئی نقصان نہیں کر سکتے تھے الا یہ کہ الله کا اذن ہو-  اور وہ ان سے (سحر) سیکھتے جو نہ فائدہ دے سکتا تھا نہ نقصان- اوروہ جانتے تھے کہ وہ کیا خرید رہے ہیں،  آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہ ہو گا اور بہت برا سودا کیا اگر ان کو پتا ہوتا

سحر کا علم ان کو فرشتوں هاروت وماروت  سے ملا  تھا لیکن ان کو پتا تھا کہ یہ فتنہ ہے لیکن اپنی سابقہ حرکتوں کو توجیہ دینے کے لئے انہوں نے تمام علوم کا مخزن چاہے ( شرک و سحر ہی کیوں نہ ہو ) سانپ کو  قراردیا – یہود کے مطابق یہ سب اس شجر علم میں چھپا تھا جو جنت عدن کے بیچوں بیچ تھا –  واضح رہے کہ موجودہ  توریت کی  کتاب پیدائش میں سانپ سے مراد شیطان نہیں ہے بلکہ انسانوں کا ہمدرد ایک مخلوق ہے جو چھپ کر انسان کو علم دیتا ہے جبکہ الله تعالی کا ارادہ انسان کو کم علم رکھنے کا تھا – یہ سب کیوں لکھا گیا اس پر آپ تفصیل

https://www.islamic-belief.net/muslim-belief/satan/ابراہیمی-ادیان-میں-شیطان-کا-تصور/

میں پڑھ سکتے ہیں

سحر کا علم دنیا میں ہاروت و ماروت سے پہلے مصریوں کے پاس بھی تھا جس کا ذکر موسی علیہ السلام کے حوالے سے قرآن میں موجود ہے کہ جادو گرووں نے موسی علیہ السلام اور حاضرین  کا تخیل تبدیل کر دیا اور ایک عظیم سحر کے ساتھ ائے جس میں لاٹھیاں اور رسیاں چلتی ہوئی محسوس ہوئیں

یہاں سوره البقرہ میں بتایا گیا کہ بابل میں یہود کا ذوق شادی شدہ عورتوں کو حاصل کرنے کی طرف ہوا جس میں ان کو طلاق دلانے کے لئے سحر و جادو کیا جاتا – اگر سحر صرف نظر بندی ہوتا تو یہ ممکن نہ تھا لہذا اس کو ایک شیطانی عمل  کہا جاتا ہے جس میں شریعت کی پابندی کو رد کیا جاتا ہے اور حسد انسان کو سحر کی طرف لے جاتا ہے

اس میں گرہ لگا کر پھونکا جاتا ہے سوره الفلق

تیسری صدی میں جب معتزلہ کا زور تھا انہوں نے مجوسیوں کی طرح الله کی طرف شر کو منسوب کرنے سے انکار کیا اور سوال اٹھایا کہ کیا حسن کی طرح قبیح و سحر و شر کی نسبت الله کی طرف درست ہے ؟ کیا الله خالق سحر و شر ہے ؟

علماء نے اس کا جواب دیا کہ قرآن سے ثابت ہے کہ الله ہی شیطان کا خالق ہے اور تمام گناہ اس نے لکھ دیے ہیں لہذا وہی شر کا خالق ہے – کسی بھی علم کا اثر انگیز ہونا بھی اسی حکم کے تحت ہے لہذا اگرچہ سحر شرک و ناپسندیدہ ہے اس کی تاثیر من جانب الله ہے

 ہاروت و ماروت الله کے دو فرشتے تھے جو سحر کا علم لے کر بابل میں اترے اور یہود کی آزمائش بنے- اگر ہاروت و ماروت نے جادو نہیں سکھایا تو وہ یہ کیوں کہتے تھے کہ ہم فتنہ ہیں کفر مت کرو

دوسری صدی ہجری

سابقہ یمنی یہودی کعب الاحبار ایک قصہ سناتے

تفسیر عبد الرزاق  المتوفي ٢١١ هجري کی روایت ہے

عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَال – نا الثَّوْرِيُّ , عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ , عَنْ سَالِمٍ , عَنِ ابْنِ عُمَرَ , عَنْ كَعْبٍ , قَالَ: «ذَكَرَتِ الْمَلَائِكَةُ أَعْمَالَ بَنِي آدَمَ , وَمَا يَأْتُونَ مِنَ الذُّنُوبِ» فَقِيلَ لَهُمْ: «اخْتَارُوا مَلَكَيْنِ , فَاخْتَارُوا هَارُوتَ وَمَارُوتَ» قَالَ: فَقَالَ لَهُمَا: «إِنِّي أُرْسِلُ رُسُلِي إِلَى النَّاسِ , وَلَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَكُمَا رَسُولٌ , انْزِلَا وَلَا تُشْرِكَا بِي شَيْئًا , وَلَا تَزْنِيَا , وَلَا تَسْرِقَا» قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: قَالَ كَعْبٌ: «فَمَا اسْتَكْمَلَا يَوْمَهُمَا الَّذِي أُنْزِلَا فِيهِ حَتَّى عَمِلَا مَا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِمَا»

کعب نے کہا : ذکر کیا فرشتوں کا ان کا جو نبی آدم پر نگہبان تھے اور جو ان کے گناہوں کے بارے میں ہے پس ان فرشتوں سے کہا گیا کہ چن لو فرشتوں کو انہوں نے ہاروت و ماروت کو چنا اور ہاروت و ماروت سے کہا میں اپنے سفیر بنی آدم کی طرف بھیج رہا ہوں اور میرے اور تمھارے درمیان کوئی اور نہیں ہو گا بنی آدم  پر نازل ہو اور شرک نہ کرنا نہ زنا اور نہ چوری – ابن عمر رضی الله عنہ نے کہا کہ کعب نے کہا انہوں نے وہ کام نہ کیا جس پر نازل کیا گیا تھا یہاں تک کہ حرام کام کیا

اسنادی حیثیت سے قطع نظر ان روایات میں یہود کی کتاب

Book of Enoch

Book of Jubilees

کا قصہ نقل کیا گیا ہے ہبوط شدہ فرشتے

Fallen Angels

یا

Watchers

اپنے ہی ہبوط شدہ فرشتوں میں سے دو کو انسانوں کو سحر سکھانے بھیجتے ہیں

یہود کے مطابق انوخ اصلا ادریس علیہ السلام  کا نام ہے

ایک روایت قتادہ بصری سے منسوب ہے

عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ نا مَعْمَرٌ , عَنْ قَتَادَةَ قَالَ: «كَتَبَتِ الشَّيَاطِينُ كُتُبًا فِيهَا كُفْرٌ وَشِرْكٌ , ثُمَّ دَفَنَتْ تِلْكَ الْكُتُبَ تَحْتَ كُرْسِيِّ سُلَيْمَانَ , فَلَمَّا مَاتَ سُلَيْمَانُ اسْتَخْرَجَ النَّاسُ تِلْكَ الْكُتُبَ» فَقَالُوا: هَذَا عِلْمٌ كَتَمَنَاهُ سُلَيْمَانُ فَقَالَ اللَّهُ: {وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُوا الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ} [البقرة: 102]

شیاطین نے کتابیں لکھیں جس میں کفر و شرک تھا پھر ان کو سلیمان  کے تخت کے نیچے چھپا دیا پھر جب سلیمان کی وفات  ہوئی تو لوگوں نے ان کو نکالا اور کہا یہ وہ علم ہے جو سلیمان نے ہم سے چھپایا پس الله نے کہا{وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُوا الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ} [البقرة:

تذكرة الحفاظ از الذھبی کے مطابق مفسر مجاہد نے تحقیق کی

ذكر محمد بن حميد أخبرنا عبد الله بن عبد القدوس عن الأعمش قال: كان مجاهد لا يسمع بأعجوبة إلا ذهب لينظر إليها. ذهب الى حضرموت ليرى بئر برهوت وذهب الى بابل وعليه وال فقال له مجاهد: تعرض على هاروت وماروت فدعا رجلا من السحرة فقال: اذهب به فقال اليهودي بشرط ألا تدعو الله عندهما قال فذهب به الى قلعة فقطع منها حجرا ثم قال خذ برجلى فهوى به حتى انتهى الى جوبة فإذا هما معلقين منكسين كالجبلين فلما رأيتهما قلت سبحان الله خالقكما فاضطربا فكأن الجبال تدكدكت فغشي على وعلى اليهودي ثم أفاق قبلى فقال قد أهلكت نفسك وأهلكتنى.

الأعمش نے کہا کہ مجاہد عجوبہ بات نہیں سنتے یہاں تک کہ اس کو دیکھتے وہ حضر الموت گئے تاکہ برهوت کا کنواں دیکھیں اور بابل گئےوہاں افسر تھا اس سے کہا مجھ پر ہاروت و ماروت کو پیش کرو پس  جادو گروں کو بلایا گیا ان سے کہا کہ وہاں تک لے چلو ایک یہودی نے کہا اس شرط پر کہ وہاں ہاروت و ماروت کے سامنے اللہ کو نہیں پکارو گے  – پس وہ وہاں گئے قلعہ تک اس کا پتھر نکالا گیا پھر یہودی نے پیر سے پکڑا اور لے گیا جہاں دو پہاڑوں کی طرح ہاروت و ماروت معلق تھے پس ان کو دیکھا  (تو بے ساختہ مجاہد بولے) سبحان الله جس نے ان کو خلق کیا – اس پر  وہ (فرشتے) ہل گئے اور مجاہد  اور یہودی غش کھا گئے پھرجب  افاقہ ہوا تو یہودی بولا:  تم نے تو اپنے آپ کو اور مجھے مروا ہی دیا تھا

تیسری صدی ہجری

امام احمد اس قصے  کو منکر کہتے تھے – الكتاب: أنِيسُ السَّاري في تخريج وَتحقيق الأحاديث التي ذكرها الحَافظ ابن حَجر العسقلاني في فَتح البَاري از آبو حذيفة، نبيل بن منصور بن يعقوب بن سلطان البصارة الكويتي

وقال أحمد بن حنبل: هذا منكر، إنما يروى عن كعب” المنتخب لابن قدامة ص 296 ہ

امام احمد نے کہا یہ منکر ہے اس کو کعب نے روایت کیا ہے

چوتھی صدی ہجری

تفسیر ابن ابی حاتم کی روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبِي ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ- يَعْنِي ابْنَ عُمَرَ- عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو وَيُونُسَ بْنِ خَبَّابٍ عَنْ مُجَاهِدٍ. قَالَ: كُنْتُ نَازِلا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ فِي سَفَرٍ فَلَمَّا كَانَ ذَاتَ لَيْلَةٍ قَالَ لِغُلامِهِ. انْظُرْ طَلَعَتِ الْحَمْرَاءُ لَا مَرْحَبًا بِهَا وَلا أَهْلا وَلا حَيَّاهَا اللَّهُ هِيَ صَاحِبَةُ الْمَلَكَيْنِ- قَالَتِ الْمَلائِكَةُ: رَبِّ كَيْفَ تَدَعُ عُصَاةَ بَنِي آدَمَ وَهُمْ يَسْفِكُونَ الدَّمَ الْحَرَامَ، وَيَنْتَهِكُونَ مَحَارِمَكَ، وَيُفْسِدُونَ فِي الأَرْضِ؟  قَالَ: إِنِّي قَدِ ابْتَلَيْتُهُمْ فَلَعَلِّي إِنِ ابْتَلَيْتُكُمُ بِمِثْلِ الَّذِي ابْتَلَيْتُهُمْ بِهِ فَعَلْتُمْ كَالذي يَفْعَلُونَ قَالُوا: لَا. قَالَ: فَاخْتَارُوا مِنْ خِيَارِكُمُ اثْنَيْنِ، فَاخْتَارُوا هَارُوتَ وَمَارُوتَ فَقَالَ لَهُمَا إِنِّي مُهْبِطُكُمَا إِلَى الأَرْضِ وَعَاهِدٌ إِلَيْكُمَا أَنْ لَا تُشْرِكَا وَلا تَزْنِيَا، وَلا تَخُونَا. فَأُهْبِطَا إِلَى الأَرْضِ، وَأَلْقَى عَلَيْهِمَا الشَّبَقَ وَأُهْبِطَتْ لَهُمَا الزُّهْرَةُ فِي أَحْسَنِ صُورَةِ امْرَأَةٍ فَتَعَرَّضَتْ

مجاہد کہتے ہیں ہم سفر  میں آبن عمر رضی الله عنہ کے ساتھ تھے  پس جب رات ہوئی انہوں نے لڑکے سے کہا دیکھو الْحَمْرَاءُ کا طلوع ہوا اس میں خوش آمدید نہیں ہے نہ اس کے اہل کے لئے … یہ ان فرشتوں کی ساتھی ہے – فرشتوں نے کہا اے رب ہم انسانوں کے گناہوں کو کیسے دور کریں وہ خون بہا رہے ہیں اور زمین پر فساد برپا کر رہے ہیں؟ کہا : بے شک میں ان کی آزمائش کروں گا جس طرح میں نے تم کو آزمائش میں ڈالا اور دیکھوں گا کیسا عمل کرتے ہیں ؟ … پس اپنے فرشتوں میں سے چنوں دو کو – انہوں نے ہاروت و ماروت کو چنا ان سے کہا زمین پر ہبوط کرو اور تم پر عہد ہے نہ شرک کرنا نہ زنا اور نہ خیانت پس وہ زمین پر اترے اور ان پر شہوانیت القی کی گئی اور الزہرا کو بھی اترا یا ایک حسین عورت کی شکل میں اور ان کا دیکھنا ہوا

سياره الزهراء يا

Venus

کو الْحَمْرَاءُ کہا گیا ہے یعنی سرخی مائل اور اس کو ایک عورت کہا گیا ہے جو مجسم ہوئی اور فرشتوں ہاروت و ماروت کی آزمائش بنی  خبر دی گئی کہ فرشتے انسانوں سے جلتے تھے اس تاک میں رہتے کہ الله تعالی کے سامنے ثابت کر سکیں کہ ہم نے جو پہلے کہا تھا کہ یہ انسان فسادی ہے اس کو صحیح ثابت کر سکیں – اس پر الله نے کہا کہ تم فرشتوں سے خود دو کو چنوں اور پھر وہ فرشتے کیا آزمائش بنتے وہ خود الزہرا پر عاشق ہو گئے

کتاب العلل از ابن ابی حاتم میں ابن ابی حاتم نے اپنے باپ سے اس روایت پر سوال کیا

وسألتُ أَبِي عَنْ حديثٍ رَوَاهُ معاذ بن خالد العَسْقلاني عَنْ زُهَير (1) بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ جُبَير (2) ، عَنْ نَافِعٍ، عن عبد الله بْنِ عُمَرَ؛ أنَّه سَمِعَ النبيَّ (ص) يقول: إِنَّ آدَمَ [لَمَّا] (3) أَهْبَطَهُ (4) اللهُ إلَى الأَرْضِ، قَالَتِ المَلاَئِكَةُ: أَيْ رَبِّ! {أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ} (5) ، قَالُوا: رَبَّنَا، نَحْنُ أَطْوَعُ لَكَ مِنْ بَنِي آدَمَ … وذكَرَ الحديثَ: قِصَّةَ (6) هاروتَ وماروتَ؟

قَالَ أَبِي: هذا حديثٌ مُنكَرٌ

میرے باپ نے کہا یہ منکر ہے

ابن ابی حاتم اپنی تفسیر کے ج 10، ص 3241-3242 پر ایک واقعہ نقل کرتے ہیں

قَوْلُهُ تَعَالَى: وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَانَ وَأَلْقَيْنَا عَلَى كُرْسِيِّهِ جَسَدًا ثُمَّ أَنَابَ
18355 – وَبِسَنَدٍ قَوَيٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: أَرَادَ سُلَيْمَانُ عَلَيْهِ السَّلامُ أَنْ يَدْخُلَ الْخَلاءَ فَأَعْطَى الْجَرَادَةَ خَاتَمَهُ وَكَانَتِ امْرَأَتُهُ، وَكَانَتْ أَحَبَّ نِسَائِهِ إِلَيْهِ فَجَاءَ الشَّيْطَانُ فِي صُورَةِ سُلَيْمَانَ فَقَالَ لَهَا: هَاتِي خَاتَمِي فَأَعْطَتْهُ فَلَمَّا لَبِسَهُ دَانَتْ لَهُ الْجِنُّ وَالْإِنْسُ وَالشَّيَاطِينُ، فَلَمَّا خَرَجَ سُلَيْمَانُ عَلَيْهِ السَّلَامُ مِنَ الْخَلَاءِ قال لها: هَاتِي خَاتَمِي فَقَالَتْ: قَدْ أَعْطَيْتُهُ سُلَيْمَانَ قَالَ: أَنَا سُلَيْمَانُ قَالَتْ: كَذَبْتَ لَسْتَ سُلَيْمَانَ فَجَعَلَ لَا يَأْتِي أَحَدًا يَقُولُ: أَنَا سُلَيْمَانُ إِلا كَذَّبَهُ حَتَّى جَعَلَ الصِّبْيَانُ يَرْمُونَهُ بِالْحِجَارَةِ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ عَرَفَ أَنَّهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَقَامَ الشَّيْطَانُ يَحْكُمُ بَيْنَ النَّاسِ.
فَلَمَّا أَرَادَ اللَّهُ تَعَالَى أَنْ يَرُدَّ عَلَى سليمان عليه السلام سلطانه ألْقَى فِي قُلُوبِ النَّاسِ إِنْكَارَ ذَلِكَ الشَّيْطَانِ فَأَرْسَلُوا إِلَى نِسَاءِ «1» سُلَيْمَانَ عَلَيْهِ السَّلامُ فَقَالُوا لهن أيكون من سليمان شيء؟ قلنا: نَعَمْ إِنَّهُ يَأْتِينَا وَنَحْنُ حُيَّضٌ، وَمَا كَانَ يَأْتِينَا قَبْلَ ذَلِكَ

قوی سند کے ساتھ ابن عباس سے نقل کیا گیا ہے کہ جب سلیمان علیہ السلام بیت الخلاء میں جاتے، اپنی انگوٹھی جرادہ کو دیتے، جو کہ ان کی بیوی تھی، اور سب سے عزیز تھی۔ شیطان حضرت سلیمان کی صورت میں اس کے پاس آیا، اور کہا کہ مجھے میری انگوٹھی دو۔ تو اس نے دے دی۔ جب اس نے پہن لی، تو سب جن و انس و شیطان اس کے قابو میں آ گئے۔ جب سلیمان علیہ السلام نکلے، تو اس سے کہا کہ مجھے انگوٹھی دو۔ اس نے کہا کہ وہ تو میں سلیمان کو دے چکی ہوں۔ آپ نے کہا کہ میں سلیمان ہوں۔ اس نے کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو، تم سلیمان نہیں۔ پس اس کے بعد ایسا کوئی نہیں تھا کہ جس سے انہوں نے کہا ہو کہ میں سلیمان ہوں، اور ان کی تکذیب نہ کی گئی ہو۔ یہاں تک کہ بچوں نے انہیں پتھروں سے مارا۔ جب انہوں نے یہ دیکھا تو سمجھ گئے کہ یہ اللہ کا امر ہے۔ شیطان لوگوں میں حکومت کرنے لگا- جب اللہ نے اس بات کا ارادہ کیا کہ حضرت سلیمان کو ان کی سلطنت واپس کی جائے تو انہوں نے لوگوں کے دلوں میں القا کیا کہ اس شیطان کا انکار کریں۔ پس وہ ان کی بیویوں کے پاس گئے اور ان سے پوچھا کہ آپ کو سلیمان میں کوئی چیز نظر آئی؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! اب وہ ہمارے پاس حیض کے دونوں میں بھی آتے ہیں، جب کہ پہلے ایسا نہیں تھا۔

یہاں اس پر قوی سند لکھا ہوا ہے راقم کہتا ہے

تفسیر ابن حاتم ٩٠٠ صفحات کی کتاب ہے اس میں کسی بھی روایت پر سند قوی یا ضعیف یا صحیح نہیں ملتا
یہ واحد روایت 18355 ہے جس پر وَبِسَنَدٍ قَوَيٍ سند قوی ملتا ہے لیکن حیرت ہے کہ اس کی سند ابن ابی حاتم نے نہیں دی
لگتا ہے اس میں تصرف و تحریف ہوئی ہے جب سند ہے ہی نہیں تو قوی کیسے ہوئی؟

اس کی سند ہے
ومن أنكرها أيضًا ما قال ابن أبي حاتم: حدثنا علي بن حسين، قال: حدثنا محمد بن العلاء وعثمان بن أبي شيبة وعلي بن محمد، قال: حدثنا أبو معاوية، قال: أخبرنا الأعمش، عن المنهال بن عمرو، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس -رضي الله عنهما- في قوله – تعال ى-: {وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَانَ وَأَلْقَيْنَا عَلَى كُرْسِيِّهِ جَسَدًا ثُمَّ أَنَابَ}، قال: أراد سليمان -عليه الصلاة والسلام- أن يدخل الخلاء وكذا وكذا؛ ذكر الرواية التي سبق ذكرها

اس کی سند میں المنهال بن عمرو ہے جو ضعیف ہے

چوتھی صدی کے ہی  ابن حبان اس روایت کو صحیح ابن حبان المتوفی ٣٥٤ ھ  میں نقل کرتے ہیں

أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكير عَنْ زُهَيْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُوسَى بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:  (إِنَّ آدَمَ ـ لَمَّا أُهْبِطَ إِلَى الْأَرْضِ ـ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ: أَيْ رَبِّ! {أَتَجْعَلُ فِيهَا مِنْ يُفسد فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ ونُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ} [البقرة: 30] قَالُوا: رَبَّنَا نَحْنُ أَطْوَعُ لَكَ مِنْ بَنِي آدَمَ قَالَ اللَّهُ لِمَلَائِكَتِهِ: هَلُمُّوا مَلَكَيْنِ مِنَ الْمَلَائِكَةِ فَنَنْظُرَ كَيْفَ يَعْمَلَانِ قَالُوا: رَبَّنَا هَارُوتُ وَمَارُوتُ قَالَ: فَاهْبِطَا إِلَى الْأَرْضِ قَالَ: فَمُثِّلَتْ لَهُمُ الزُّهْرةُ امْرَأَةً مِنْ أَحْسَنِ الْبَشَرِ فَجَاءَاهَا فَسَأَلَاهَا نَفْسَهَا فَقَالَتْ: لَا وَاللَّهِ حَتَّى تكَلِّما بِهَذِهِ الْكَلِمَةِ مِنَ الْإِشْرَاكِ قَالَا: وَاللَّهِ لَا نُشْرِكُ بِاللَّهِ أَبَدًا فَذَهَبَتْ عَنْهُمَا ثُمَّ رَجَعَتْ بصبيٍّ تَحْمِلُه فَسَأَلَاهَا نَفْسَهَا فَقَالَتْ: لَا وَاللَّهِ حَتَّى تَقْتُلَا هَذَا الصَّبِيَّ فَقَالَا: لَا وَاللَّهِ لَا نَقْتُلُهُ أَبَدًا فَذَهَبَتْ ثُمَّ رَجَعَتْ بِقَدَحٍ مِنْ خَمْرٍ تَحْمِلُه فَسَأَلَاهَا نَفْسَهَا فَقَالَتْ: لَا وَاللَّهِ حَتَّى تَشْرَبَا هَذَا الْخَمْرَ فَشَرِبَا فَسَكِرَا فَوَقَعَا عَلَيْهَا وَقَتَلَا الصَّبِيَّ فَلَمَّا أَفَاقَا قَالَتِ الْمَرْأَةُ: وَاللَّهِ مَا تركتُما مِنْ شَيْءٍ أَثِيمًا إِلَّا فَعَلْتُمَاهُ حِينَ سَكِرْتُما فخُيِّرا ـ عِنْدَ ذَلِكَ ـ بَيْنَ عَذَابِ الدُّنْيَا وَعَذَابِ الآخرة فاختارا عذاب الدنيا)

قَالَ أَبُو حَاتِمٍ: الزُّهرة ـ هَذِهِ ـ: امْرَأَةٌ كَانَتْ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ، لَا أَنَّهَا الزُّهرة الَّتِي هِيَ فِي السَّمَاءِ، الَّتِي هِيَ مِنَ الخُنَّسِ.

ابن عمر رضی الله عنہ سے مروی ہے انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا فرمایا: جب آدم کا زمین کی طرف ہبوط ہوا فرشتوں نے کہا اے رب کیا اس کو خلیفہ کیا ہے کہ اس میں فساد کرے اور خون بہائے اور ہم آپ کی تعریف کرتے ہیں اور تقدس کرتے ہیں ؟ فرمایا : میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے – فرشتوں نے کہا  ہمارے رب ہم انسانوں سے بڑھ کر آپ کے اطاعت گزار ہیں الله تعالی نے فرشتوں سے کہا : فرشتوں کو لو پس دیکھیں یہ کیا عمل کرتے ہیں- فرشتوں نے کہا : آے رب ہاروت و ماروت ہیں- حکم الہی ہوا : زمین کی طرف ہبوط کرو – وہاں الزہرا انسانوں میں سے ایک حسن عورت ان کو ورغلائے گی پس وہ ان فرشتوں کے پاس گئی اور نفس کے  بارے میں سوال کیا (یعنی زنا کی ہاروت و ماروت نے ترغیب دی) اور بولی : نہیں الله کی قسم میں نہیں کروں گی یہاں تک کہ تم شرکیہ کلمات ادا کرو – ہاروت و ماروت نے کہا و الله ہم یہ کلمات نہیں بولیں گے پس وہ لوٹ گئی ایک لڑکے کے ساتھ اور واپس انہوں نے  نفس کا سوال کیا  وہ بولی میں اس لڑکے کو مار ڈالوں گی فرشتوں نے کہا نہیں مارو وہ لوٹ گئی پھر آئی ایک قدح لے کر شراب کا اس پر سوال کیا فرشتوں نے کہا ہم نہیں پییں گے یہاں تک کہ وہ پی گئے پس وہ واقعہ ہوا (زنا) اور لڑکے کو قتل کیا – جب افاقہ ہوا عورت بولی الله کی قسم میں نے تم کو کہیں کا نہ چھوڑا گناہ میں کوئی چیز نہیں جو تم نہ کر بیٹھے ہو اور تم نے نہیں کیا جب تک شراب نہ پی لی  … تم نے دنیا و آخرت میں سے دنیا کا  عذاب چنا

ابو حاتم ابن حبان نے کہا الزہرہ یہ اس دور میں عورت تھی وہ وہ نہیں جو آسمان میں ہے جو الخنس ہے

ابن حبان نے اس روایت کو صحیح میں لکھا اس میں اختلاف صرف یہ کیا کہ الزہرہ کو ایک مسجم عورت کی بجائے ایک حقیقی عورت کہا

البدء والتاريخ  از المطهر بن طاهر المقدسي (المتوفى: نحو 355هـ)  قصة هاروت وماروت،  اختلفوا المسلمون [1] فيه اختلافا كثيرا

القدسی نے تاریخ میں لکھا کہ مسلمانوں کا اس پر اختلاف ہے

یعنی ابن ابی حاتم اس کو منکر کہتے ہیں اور ابن حبان صحیح

العلل دارقطنی از امام دارقطنی المتوفی ٣٨٥ ھ  میں ہے

وَسُئِلَ عَنْ حَدِيثِ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عليه وسلم: أن آدم لما أهبطه الله إلى الأرض قالت الملائكة: أي رب: {أتجعل فيها من يفسد فيها ويسفك الدماء} ، قالوا: ربنا، نحن أطوع لك من بني آدم، قال الله للملائكة: هلموا ملكين … فذكر قصة هاروت وماروت.

فقال: اختلف فيه على نافع:

فرواه موسى بن جبير، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

وَخَالَفَهُ مُوسَى بْنُ عقبة، فرواه عن نافع، عن ابن عمر، عن كعب الأحبار، من رواية الثوري، عن موسى بن عقبة.

وقال إبراهيم بن طهمان: عن موسى بن عقبة، عن سالم، عن أبيه، عن كعب.

دارقطنی نے العلل میں اس کی اسناد نقل کیں لیکن رد نہیں کیا

پانچویں صدی ہجری

امام حاکم  المتوفی ٤٠٥ ھ مستدرک میں اس قصہ  کو صحیح کہتے ہیں

آٹھویں صدی ہجری

الذھبی سیر میں لکھتے ہیں

قُلْتُ: وَلِمُجَاهِدٍ أَقْوَالٌ وَغَرَائِبُ فِي العِلْمِ وَالتَّفْسِيْرِ تُسْتَنْكَرُ، وَبَلَغَنَا: أَنَّهُ ذَهَبَ إِلَى بَابِلَ، وَطَلَبَ مِنْ مُتَوَلِّيْهَا أَنْ يُوْقِفَهُ عَلَى هَارُوْتَ وَمَارُوْتَ.

میں کہتا ہوں : مجاہد کے اقوال اور علم و تفسیر میں غریب باتیں ہیں جن کا انکار کیا جاتا ہے اور ہم تک پہنچا ہے کہ یہ بابل گئے اور وہاں کے متولی سے کہا کہ ہاروت و ماروت سے ملاو

لیکن  الذھبی مستدرک حاکم کی تلخیص میں ہاروت و ماروت کے  اس قصہ  کو صحیح کہتے ہیں

أَخْبَرَنَا أَبُو زَكَرِيَّا الْعَنْبَرِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ السَّلَامِ، أَنْبَأَ إِسْحَاقُ، أَنْبَأَ حَكَّامُ بْنُ سَلْمٍ الرَّازِيُّ وَكَانَ ثِقَةً، ثنا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عَبَّادٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ} [البقرة: 102] الْآيَةُ. قَالَ: ” إِنَّ النَّاسَ بَعْدَ آدَمَ وَقَعُوا فِي الشِّرْكِ اتَّخَذُوا هَذِهِ الْأَصْنَامَ، وَعَبَدُوا غَيْرَ اللَّهِ، قَالَ: فَجَعَلَتِ الْمَلَائِكَةُ يَدْعُونَ عَلَيْهِمْ وَيَقُولُونَ: رَبَّنَا خَلَقْتَ عِبَادَكَ فَأَحْسَنْتَ خَلْقَهُمْ، وَرَزَقْتَهُمْ فَأَحْسَنْتَ رِزْقَهُمْ، فَعَصَوْكَ وَعَبَدُوا غَيْرَكَ اللَّهُمَّ اللَّهُمَّ يَدْعُونَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ لَهُمُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: إِنَّهُمْ فِي غَيْبٍ فَجَعَلُوا لَا يَعْذُرُونَهُمْ ” فَقَالَ: اخْتَارُوا مِنْكُمُ اثْنَيْنِ أُهْبِطُهُمَا إِلَى الْأَرْضِ، فَآمُرُهُمَا وَأَنْهَاهُمَا ” فَاخْتَارُوا هَارُوتَ وَمَارُوتَ – قَالَ: وَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ فِيهِمَا – وَقَالَ فِيهِ: فَلَمَّا شَرِبَا الْخَمْرَ وَانْتَشَيَا وَقَعَا بِالْمَرْأَةِ وَقَتَلَا النَّفْسَ، فَكَثُرَ اللَّغَطُ فِيمَا بَيْنَهُمَا وَبَيْنَ الْمَلَائِكَةِ فَنَظَرُوا إِلَيْهِمَا وَمَا يَعْمَلَانِ فَفِي ذَلِكَ أُنْزِلَتْ {وَالْمَلَائِكَةُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ، وَيَسْتَغْفِرُونَ لِمَنْ فِي الْأَرْضِ} [الشورى: 5] الْآيَةُ. قَالَ: فَجَعَلَ بَعْدَ ذَلِكَ الْمَلَائِكَةُ يَعْذُرُونَ أَهْلَ الْأَرْضِ وَيَدْعُونَ لَهُمْ «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ»

[التعليق – من تلخيص الذهبي]  3655 – صحيح

نویں صدی ہجری

هیثمی  المتوفی ٨٠٧ ہجری کتاب مجمع الزوائد میں لکھتے ہیں

وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا – قَالَ: اسْمُ الْمَلَكَيْنِ اللَّذَيْنِ يَأْتِيَانِ فِي الْقَبْرِ مُنْكَرٌ وَنَكِيرٌ، وَكَانَ اسْمُ هَارُوتَ وَمَارُوتَ – وَهُمَا فِي السَّمَاءِ – عَزَرًا وَعَزِيزًا ..  رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوْسَطِ، وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ.

اس کی اسناد حسن ہیں

ابن حجر المتوفي ٨٥٢ هجري  فتح الباری میں کہتے ہیں

قال الحافظ: وقصة هاروت وماروت جاءت بسند حسن من حديث ابن عمر في مسند أحمد

اور ہاروت و ماروت کا قصہ حسن سند سے مسند احمد میں ہے ابن عمر کی سند سے

دسویں صدی ہجری

التخريج الصغير والتحبير الكبير  ابن المِبْرَد الحنبلي (المتوفى: 909 هـ)

حديث: “هَارُوتَ وَمَارُوتَ” الإمام أحمد، وابن حبان، بسند صحيح.

ابن المِبْرَد  کے مطابق مسند احمد اور صحیح ابن حبان میں اس کی سند صحیح ہے

الدرر المنتثرة في الأحاديث المشتهرة از عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (المتوفى: 911هـ)

قصة هاروت وماروت.  وفي مسند أحمد، وصحح ابن حبان من حديث ابن عمر بسند صحيح.

قلت: لها طرق عديدة استوعبتها في التفسير المسند، وفي تخريج أحاديث الشفاء، انتهى.

قصہ ہاروت و ماروت کا یہ مسند احمد صحیح ابن حبان میں ہے صحیح سند سے ابن عمر رضی الله عنہ کی

میں السيوطي کہتا ہوں اس کے بہت سے طرق مسند احمد کی تفسیر میں ہے اور احادیث کتاب الشفاء کی تخریج میں

کتاب  تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة  المؤلف: نور الدين، علي بن محمد بن علي بن عبد الرحمن ابن عراق الكناني (المتوفى: 963هـ)

” وَمن طَرِيقه (خطّ) من حَدِيث ابْن عمر، وَفِيه قصَّة لنافع مَعَ ابْن عمر وَلَا يَصح، فِيهِ الْفرج بن فضَالة، وسنيد ضعفه أَبُو دَاوُد وَالنَّسَائِيّ (تعقبه) الْحَافِظ ابْن حجر فِي القَوْل المسدد فَقَالَ: أخرجه أَحْمد فِي مُسْنده وَابْن حبَان فِي صَحِيحه من وَجه آخر، وَله طرق كَثِيرَة جمعتها فِي جُزْء مُفْرد يكَاد الْوَاقِف عَلَيْهَا لكثرتها وَقُوَّة مخارج أَكْثَرهَا يقطع بِوُقُوع هَذِه الْقِصَّة، انْتهى قَالَ السُّيُوطِيّ: وجمعت أَنا طرقها فِي التَّفْسِير الْمسند وَفِي التَّفْسِير الْمَأْثُور فَجَاءَت نيفا وَعشْرين طَرِيقا مَا بَين مَرْفُوع وَمَوْقُوف، وَلِحَدِيث ابْن عمر بِخُصُوصِهِ طرق مُتعَدِّدَة.

اور جو طرق حدیث ابن عمر کا ہے اور اس میں نافع کا ابن عمر کے ساتھ کا قصہ ہے صحیح نہیں ہے اس میں فرج بن فضالہ ہے اور سنید ہے جس کی تضعیف کی ہے ابو داود نے اور نسائی نے اس کا تعقب کیا ہے ابن حجر نے کتاب القول لمسدد میں اور کہا ہے اس کی تخریج کی ہے احمد نے مسند میں ابن حبان نے صحیح میں  دوسرے طرق سے اور اس کے کثیر طرق ہیں جو سب مل کر ایک جز بن جاتے ہیں اور واقف جان جاتا ہے اس کثرت پر اور مخارج کی قوت پر … السُّيُوطِيّ نے کہا اور میں نے جمع کر دیا ہے اس کے طرق تفسیر میں اور … خاص کر ابن عمر کی حدیث کے تو بہت طرق ہیں

تذكرة الموضوعات میں محمد طاهر بن علي الصديقي الهندي الفَتَّنِي (المتوفى: 986هـ) لکھتے ہیں

قِصَّةُ هَارُوتَ وَمَارُوتَ مَعَ الزَّهْرَةِ وَهُبُوطِهِ إِلَى الأَرْضِ امْرَأَةً حَسَنَةً حِينَ طَغَتِ الْمَلائِكَةُ وَشُرْبِهِمَا الْخَمْرَ وقتلهما النَّفس وزناهما» عَن ابْن عمر رَفعه وَفِيه مُوسَى ابْن جُبَير مُخْتَلف فِيهِ وَلَكِن قد توبع، وَلأبي نعيم عَن عَليّ قَالَ «لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الزَّهْرَةَ وَقَالَ إِنَّهَا فتنت الْملكَيْنِ» وَقيل الصَّحِيح وَقفه على كَعْب وَكَذَا قَالَ الْبَيْهَقِيّ، وَفِي الْوَجِيز قصتهما فِي الْفرج بن فضَالة: ضَعِيف قلت قَالَ ابْن حجر لَهَا طرق كَثِيرَة يقطع بوقوعها لقُوَّة مخارجها.

قصہ ہاروت و ماروت کا الزہرا کے ساتھ اور ان کا زمین پر ہبوط کرنا ایک حسین عورت کے ساتھ اور فرشتوں کا بغاوت کرنا اور شراب پینا اور قتل نفس کرنا اور زنا کرنا جو ابن عمر سے مروی ہے ان تک جاتا ہے اور اس میں موسی بن جبیر ہے مختلف فیہ ہے لیکن اس کی متابعت کی ہے ابو نعیم نے علی کی روایت سے کہ الله کی لعنت ہو الزہرا پر اور کہا اس نے فرشتوں کو آزمائش میں ڈالا اور کہا ہے صحیح ہے کعب پر موقوف ہے اور اسی طرح کہا ہے البیہقی نے اور فرج کےقصہ پر کہا ضعیف ہے میں کہتا ہوں ابن حجر نے کہا ہے کہ اس کے طرق بہت سے ہیں

ابن کثیر نے تفسیر میں لکھا

ابن کثیر نے بھی اپنی تفسیر، ج 7، ص 59-60 میں درج کیا ہے۔ سند کے بارے میں انہوں نے بھی یہی کہا ہے کہ

إسناده إلى ابن عباس رضي الله عنهما قَوِيٌّ، وَلَكِنَّ الظَّاهِرَ أَنَّهُ إِنَّمَا تَلَقَّاهُ ابْنُ عباس رضي الله عنهما إِنْ صَحَّ عَنْهُ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَفِيهِمْ طائفة لا يعتقدون نبوة سليمان عليه الصلاة والسلام فَالظَّاهِرُ أَنَّهُمْ يَكْذِبُونَ عَلَيْهِ، وَلِهَذَا كَانَ فِي هذا السِّيَاقِ مُنْكَرَاتٌ مِنْ أَشَدِّهَا ذِكْرُ النِّسَاءِ فَإِنَّ المشهور عن مجاهد وغير واحد من أئمة السلف أَنَّ ذَلِكَ الْجِنِّيَّ لَمْ يُسَلَّطْ عَلَى نِسَاءِ سليمان بل عصمهن الله عز وجل منه تشريفا وتكريما لنبيه عليه السلام. وَقَدْ رُوِيَتْ هَذِهِ الْقِصَّةُ مُطَوَّلَةً عَنْ جَمَاعَةٍ من السلف رضي الله عنهم كَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ وَزَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ وَجَمَاعَةٍ آخَرِينَ وَكُلُّهَا مُتَلَقَّاةٌ مِنْ قَصَصِ أَهْلِ الْكِتَابِ، والله سبحانه وتعالى أعلم بالصواب.

اس کی سند ابن عباس تک قوی ہے۔ لیکن بظاہر یہ ان کو اہل کتاب سے ملی جسے انہوں نے صحیح مانا۔ جب کہ ان میں ایک گروہ تھا جو کہ حضرت سلیمان کی نبوت کا منکر تھا۔ اور بظاہر ان کی تکذیب کرتا تھا۔ اور اس میں شدید منکر باتیں ہیں خاص کر بیویوں والی۔ اور مجاھد اور دیگر ائمہ سے مشہور ہے کہ جن ان کی بیویوں پر مسلط نہیں ہوا تھا۔ بلکہ اللہ نے ان کی عصمت رکھی اور شرف و تکریم بخشا۔ اور یہ واقعہ سلف میں ایک جماعت نے نقل کیا جیسا کہ سعید بن مسیت، زید بن اسلم، اور بعد کی ایک جماعت نے بھی جن کو یہ اہل کتاب کے قصوں سے ملا

راقم کہتا ہے ابن کثیر کا قول باطل ہے یہ کام ابن عباس رضی الله عنہ کا نہیں کہ اہل کتاب سے روایت کریں بلکہ اس میں جرح منہال بن عمرو پر ہے

چودھویں صدی ہجری

کتاب التحرير والتنوير از محمد الطاهر بن محمد بن محمد الطاهر بن عاشور التونسي (المتوفى : 1393هـ) کے مطابق

وَلِأَهْلِ الْقِصَصِ هُنَا قِصَّةٌ خُرَافِيَّةٌ مِنْ مَوْضُوعَاتِ الْيَهُودِ فِي خُرَافَاتِهِمُ الْحَدِيثَةِ اعْتَادَ بَعْضُ الْمُفَسِّرِينَ ذِكْرَهَا مِنْهُمُ ابْنُ عَطِيَّةَ وَالْبَيْضَاوِيُّ وَأَشَارَ الْمُحَقِّقُونَ مِثْلُ الْبَيْضَاوِيِّ وَالْفَخْرِ وَابْنِ كَثِيرٍ وَالْقُرْطُبِيِّ وَابْنِ عَرَفَةَ إِلَى كَذِبِهَا وَأَنَّهَا مِنْ مَرْوِيَّاتِ كَعْبِ الْأَحْبَارِ وَقَدْ وَهِمَ فِيهَا بَعْضُ الْمُتَسَاهِلِينَ فِي الْحَدِيثِ فَنَسَبُوا رِوَايَتَهَا عَنِ النَّبِيءِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ عَنْ بَعْضِ الصَّحَابَةِ بِأَسَانِيدَ وَاهِيَةٍ وَالْعَجَبُ لِلْإِمَامِ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى كَيْفَ أَخْرَجَهَا مُسْنَدَةً لِلنَّبِيءِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَعَلَّهَا مَدْسُوسَةٌ عَلَى الْإِمَامِ أَحْمَدَ أَوْ أَنَّهُ غَرَّهُ فِيهَا ظَاهِرُ حَالِ رُوَاتِهَا مَعَ أَنَّ فِيهِمْ مُوسَى بْنَ جُبَيْرٍ وَهُوَ مُتَكَلَّمٌ فِيهِ

اور اہل قصص کے لئے اس میں بہت سے یہودیوں کے گھڑے ہوئے قصے ہیں جس سے مفسرین دھوکہ کھا گئے ان میں ابن عطیہ اور بیضاوی ہیں اور محققین مثلا بیضاوی اور فخر الرازی اورابن کثیر اور قرطبی اور ابن عرفہ نے ان کے کذب کی طرف اشارہ کیا ہے  جو  بے شک کعب الاحبار کی مرویات ہیں اور اس میں وہم ہے بعض متساهلین کا حدیث کے لئے تو انہوں نے ان قصوں کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دیا ہے  یا بعض اصحاب رسول کی طرف واہیات اسناد کے ساتھ اور عجیب بات ہے کہ امام احمد بن حنبل الله رحم کرے نے ان کو کیسے مسند میں لکھا اور ہو سکتا ہے وہ بہک گئے ہوں اس کے ظاہر حال پر اس میں موسی بن جبیر ہے اور متکلم فیہ ہے

یہ بھی لکھتے ہیں

وَ (هَارُوتَ وَمَارُوتَ) بَدَلٌ مِنَ (الْمَلَكَيْنِ) وَهُمَا اسْمَانِ كَلْدَانِيَّانِ دَخَلَهُمَا تَغْيِيرُ التَّعْرِيفِ لِإِجْرَائِهِمَا عَلَى خِفَّةِ الْأَوْزَانِ الْعَرَبِيَّةِ، وَالظَّاهِرُ أَنَّ هَارُوتَ مُعَرَّبُ (هَارُوكَا) وَهُوَ اسْمُ الْقَمَرِ عِنْدَ الْكَلْدَانِيِّينَ وَأَنَّ مَارُوتَ مُعَرَّبُ (مَا رُودَاخَ) وَهُوَ اسْمُ الْمُشْتَرِي عِنْدَهُمْ وَكَانُوا يَعُدُّونَ الْكَوَاكِبَ السَّيَّارَةَ مِنَ الْمَعْبُودَاتِ الْمُقَدَّسَةِ الَّتِي هِيَ دُونَ الْآلِهَةِ لَا سِيَّمَا الْقَمَرِ فَإِنَّهُ أَشَدُّ الْكَوَاكِبِ تَأْثِيرًا عِنْدَهُمْ فِي هَذَا الْعَالَمِ وَهُوَ رَمْزُ الْأُنْثَى، وَكَذَلِكَ الْمُشْتَرِي فَهُوَ أَشْرَفُ الْكَوَاكِبِ السَّبْعَةِ عِنْدَهُمْ وَلَعَلَّهُ كَانَ رَمْزَ الذَّكَرِ عِنْدَهُمْ كَمَا كَانَ بَعْلٌ عِنْدَ الْكَنْعَانِيِّينَ الْفِنِيقِيِّينَ.

اور ہاروت و ماروت فرشتوں کا بدل ہیں اور یہ نام کلدانی کے ہیں ان کو شامل کیا گیا ہے تبدیل کر کے عربیوزن پر اور ظاہر ہے ہاروت معرب ہے ہاروکا کا جو چاند کا نام ہے کلدانیوں کے نزدیک اور ماروت معرب ہے ماروداخ کا جو مشتری کا نام ہے ان کے ہاں – اور یہ کواکب کو مقدس معبودات میں شمار کرتے تھے  خاص طور پر چاند کو کیونکہ یہ کواکب میں سب سے بڑھ کر تاثیر رکھتا ہے ان کے نزدیک تمام عالم میں اور یہ رمز ہے مونث پر اور اسی طرح مشتری سات کواکب میں سب سے با عزت ہے جو اشارہ ہے مذکر پر ان کے نزدیک جیسا کہ بعل تھا فونشیوں  اور کنعآنیوں کے نزدیک

صحیح ابن حبان کی تعلیق میں  شعيب الأرنؤوط   لکھتے ہیں

قلت: وقول الحافظ ابن حجر في “القول المسدد” 40-41 بأن: للحديث طرقاً كثيرة جمعتها في جزء مفرد يكاد الواقف عليه أن يقطع بوقوع هذه القصة لكثرة الطرق الواردة فيها وقوَّة مخارج أكثرها، خطأ مبين منه -رحمه الله- ردَّه عليه العلامة أحمد شاكر -رحمه الله- في تعليقه على “المسند” (6178) فقال: أمَّا هذا الذي جزم به الحافظ بصحة وقوع هذه القصة صحة قريبة من القطع لكثرة طرقها وقوة مخارج أكثرها، فلا، فإنها كلها طرق معلولة أو واهية إلى مخالفتها الواضحة للعقل، لا من جهة عصمة الملائكة القطعية فقط، بل من ناحية أن الكوكب الذي نراه صغيراً في عين الناظر قد يكون حجمه أضعاف حجم الكرة الأرضية بالآلاف المؤلفة من الأضعاف، فأنَّى يكون جسم المرأة الصغير إلى هذه الأجرام الفلكية الهائلة!

  شعيب الأرنؤوط نے ابن حجر کی تصحیح کو ایک غلطی قرار دیا اور احمد شاکر نے بھی ابن حجر کی رائے کو رد کیا

بابل کا مذھب

بابل میں مردوک

Marduk

 کی پوجا ہوتی تھی – بابلی زبان میں مردوک کو

Marutuk

ماروتک

بولا جاتا تھا

 Frymer-Kensky, Tikva (2005). Jones, Lindsay, ed. Marduk. Encyclopedia of religion 8 (2 ed.). New York. pp. 5702–5703. ISBN 0-02-865741-1.

https://en.wikipedia.org/wiki/Marduk

بعض مغربی محققین اس بات تک پہنچے ہیں کہ یہ بابلی دیوتا اصلا فرشتے تھے تصاویر میں بھی اس کو پروں کے ساتھ دکھایا جاتا ہے

جادوگروں نے اس قصے میں  سیارہ الزہرا یعنی وینس ، چاند اور مشتری کا  اثر  تمثیلی انداز میں سکھایا  ہے کہ یہ چاند اور مشتری کا جادو الزہرا کی موجودگی میں بڑھ جاتا ہے – چاند کی بہت اہمیت ہے کیونکہ اس کی ٢٧ منزلیں  ہیں جن میں چاند گھٹتا اور بڑھتا ہے اور عبرانی کے بھی ٢٧ حروف ہیں لہذا کلمات شرکیہ کو ان سے ملا کر اخذ کیا جاتا  تھا

In general, though not always, the zodiac is divided into 27 or 28 segments relative to fixed stars – one for each day of the lunar month, which is 27.3 days long

https://en.wikipedia.org/wiki/Lunar_mansion

بابل کی اسیری سے پہلے بنی اسرائیل جو عبرانی استمال کرتے تھے اس کو

Palaeo-Hebrew alphabet

کہا جاتا ہے جس میں ٢٢ حروف تھے جو ابجد حروف کہلاتے ہیں

یہود کے مطابق بابل کی اسیری میں کسی موقع پر ان  کی زبان تبدیل ہوئی جس میں اشوری اور بابلی زبان سے حروف لئے گئے

بائیس حروف کو ٢٧ میں بدلنے کے پیچھے کیا چاند کی ٢٧ منازل تھیں ؟ راقم کے نزدیک اس کا جواب ہمارے اسلامی جادو یا سحر کی کتب میں ہے جس پر کسی اور بلاگ میں بحث ہو گی

ذي القرنين  أفريدون سے  سكندر تک

ارنسٹ والس بج  ایک مغربی  تاریخ دان تھے اور قدیم کتب کا ترجمہ کرنے میں ماہر تھے مثلا انہوں نے اہرام مصر کی دیواروں پر موجود عبارت کا ترجمہ کیا اسی طرح ایک کتاب ان کو ملی جو سکندر کے سفر نامے پر تھی اور اس  کے دو نسخنے ہیں –  والس نے اس نسخے کا ترجمہ کیا جو سریانی  کی زبان میں تھا-  سریانی زبان والا نسخہ میں  کہانی کا ایک  حصہ جو ہماری دلچپسی کا ہے اس میں ہے کہ مصر اسکندریہ میں  سکندر ایک جنگ کا اردہ کرتا ہے اور خدا سے مدد مانگتا ہے

And king Alexander bowed himself and did reverence, saying, “0 God, Lord of kings and judges, thou who settest up kings and destroyest their power, I know in my mind that thou hast exalted me above all kings, and thou hast made me horns upon my head, wherewith I might thrust down the kingdoms of the world۔

اور شاہ سکندر نے سجدہ کیا اور کہا اے رب مالک الملک والقضآة  جو بادشاہ کرتا ہے اور انکی قوت کو تباہ کرتا ہے مجھے اپنے نفس میں خبر ہے آپ نے مجھ کو تمام بادشاہوں پر بلند کیا اور آپ نے میرے سر پر سینگ کیے جس سے میں بادشاہتوں کو دھکیل دیتا ہوں

The History of Alexander the Great,  Being the Syriac Version of the Pseudo-Callisthenes,

Volume 1″,page 146, The University Press, 1889.  By Ernest A. Wallis Budge

یہاں والس ایک نوٹ لگاتے ہیں

wallis-note

دو سینگوں والا ایک مشھور لقب ہے سکندر کا اتھوپیا کے مسودہ میں ہے …. دو سینگ – قرآن سوره 18 – کچھ کہتے ہیں کہ قرآن میں اس سے مراد سکندر ہے جبکہ دوسرے کہتے ہیں ابراہیم کا ہم عصر ہے جو فارس کا بادشاہ تھا اور کچھ یمن کے بادشاہ کو کہتے ہیں

حکایت کے مطابق سکندر  مصر کے لوہاروں کو لیتا ہے اور عراق سے ہوتا ہوا ارمنینا تک جاتا ہے اور وہاں ایک ایسے مقام تک پہنچ جاتا ہے جس کے قریب جنت ہے اور وہ سمندر، جھیل اور نہروں میں گھری ہے

wallis-2

اے بادشاہ ہم اور ہمارے اجداد اس پہاڑ پر نہیں چڑھ پاتے اور یہ ایک سرحد کے طور ہمارے اور دیگر قوموں کے بیچ ہے سکندر نے پوچھا اس پہاڑ کے اندر تم کس قوم کو دیکھتے ہو ؟ بوڑھے نے کہا  “ھن” کو – سکندر نے پوچھا ان کے بادشاہ کون ہیں ؟ بوڑھے نے کہا یاجوج اور ماجوج اور نوال جو جافث کی نسل سے ہیں اور جج اورتیمروں اور تمروں اور یکشفر اور سلگادو اور نسلک اور معرفل اور کوزہ ھن کے شاہ ہیں – سکندر نے پوچھا یہ دیکھنے میں کیسے ہیں کیا پہنتے ہیں کیا بولتے ہیں؟

سریانی میں سکندر کی اس کہانی میں یاجوج ماجوج کو بہت سے بادشاہوں میں سے  چند  بتایا گے ہے جو نہ صرف بائبل کے خلاف ہے بلکہ قرآن  کے بھی خلاف ہے –

 سکندر اپنی فوج سے کہتا ہے

wallis-3

سکندر نے اپنی فوج سے کہا کیا تم سمجھتے ہو ہمیں اس جگہ کوئی عظیم کام کرنا چاہیے ؟ فوج نے کہا جیسا آپ کا حکم سکندر نے کہا ایک دروازہ اس درہ کے بیچ بناؤ جس سے اس کو پاٹ دیں – اور سکندر نے 3 ہزار آدمی اس کام پر لگا دیے اور انہوں نے آٹے کی طرح لوہا اور تانبہ گوندھ دیا جس سے دروازہ بنا ….

والس یہاں نوٹ لکھتے ہیں

wallis-4

یہ گزرگاہ یا درہ وہی ہے .. جس کو ترک

 Demir Kapija

کہتے تھے  –

 دمیر کاپیا کا مطلب ہے آہنی دروازہ –

Demir Kapija

میسی ڈونیا (مقدونیہ) کے علاقے میں ایک جگہ کا نام ہے نہ کہ ارمنینا میں

بحر الحال اس کتاب کے قصے سے  بعض مستشرقین  کو اشتباہ ہوا کہ یہ وہی دیوار ہے جس کا قرآن میں  ذی القرنین کے قصے میں ذکر ہے

سفرنامہ سکندر پر کتاب کا  ایک دوسرا نسخہ بھی ہے جو ارمیننا کی زبان کا ہے

THE ROMANCE OF ALEXANDER THE GREAT BY PSEUDO-CALLISTHENES

Translated from the Armenian Version  with an Introduction by

Albert Mugrdich Wolohojian

COLUMBIA UNIVERSITY PRESS New York and London 1969

دوسرا  نسخہ میں جو ارمنینا کا ہے اس میں سرے سے اس   دیوار کے قصے کا ذکر ہی نہیں کہ سکندر نے آرمینا میں کچھ بنوایا بھی تھا یا نہیں – اس کے علاوہ یاجوج و ماجوج کا ذکر بھی نہیں ہے

لاطینی سیاح مارکو پولو کے بقول انہوں نے بھی سد سکندری

Rampart of Alexander

کو دیکھا

The Travels of Marco Polo: The Complete Yule-Cordier Edition By Marco Polo, Sir Henry Yule, Henri Cordier

ہینری کوردئر اس پر تبصرہ کرتے ہیں  کہ یہ مفروضہ کہ تاتار ، یاجوج و ماجوج ہیں ، سد سکندری  کو دیوار چین سے ملانے کا سبب بنا – یعنی مارکو پولو دیوار چین کو سد سکندری سمجھ بیٹھا

لیکن وہاں ایک اور دلچسپ حوالہ دیتے ہیں

henry-marco-1

ریکولڈ مونٹکرو دو دلیل دیتے ہیں جس سے یہود  کو تاتاریوں سے ملایا گیا ہے جن کو سکندر نے دیوار سے بند کیا ایک یہ کہ تاتاری سکندر کے نام سے ہی نفرت کرتے ہیں اور وہ اس کو سن نہیں سکتے اور دوسرا یہ کہ ان کی تحریر بابل جیسی ہے جو سریانی کی طرح ہے  لیکن وہ کہتے ہیں کہ یہود کی اس سے کوئی مماثلت نہیں ہے اور ان کو شریعت کا پتا نہیں ہے

پس ظاہر ہوا کہ  جان بوجھ کر اتھوپیا کے عیسائیوں  نے یہود کی مخالفت میں اس کتاب

THE ROMANCE OF ALEXANDER THE GREAT BY PSEUDO-CALLISTHENES

کو گھڑا

اسلام سے قبل  عیسائیوں اور یہود میں بنتی نہیں تھی – اس دور چپقلش میں عیسائیوں  نے یہ کتاب گھڑی جس میں اپنی  مذہبی آراء کو یہود کے خلاف استمعال کیا – اس کے لئے انہوں نے سکندر کا کردار چنا – وجہ یہ تھی کہ یہود بابل کے غلام تھے پھر فارس  نے بابل پر قبضہ کیا اور یہود کو واپس یروشلم جانے کی اجازت دی یہود نے اپنی حکومت وہاں بنا لی لیکن سکندر کے بعد یونانیوں نے یہود کو غلام بنا لیا- یہود میں اس پر یونان  مخالف جذبات پیدا ہوئے اور وہ فارس کی طرف دیکھتے کہ کوئی ائے اور ان کو بچائے –

عیسیٰ علیہ السلام کے بعد یہود اور نصاری میں خوب جگھڑے ہوئے اور بالاخر عیسائیوں  نے یہود کے مخالف کے طور پر سکندر کے اوپر ایک فرضی داستان گھڑی – سکندر ایک بت پرست مشرک تھا لیکن عیسائیوں  نے اس کو کہانی میں الہ پرست   قرار دیا – اس کو مسیح کا منتظر دکھایا جو یروشلم کو مسیح کے حوالے کرے اور یہود کا مذاق اڑایا کہ سکندر نے  ایک  دیوار بنا کر ان وحشی یہود کو باقی دنیا سے الگ کر دیا

واضح رہے کہ بائبل کی کتاب  حزقی ایل کی کتاب کے مطابق یاجوج ایک شخص ہے اور ماجوج قوم ہے – لیکن عیسائیوں  نے ارمیننا کے “ھن” قوم کے  بادشاہوں میں ماجوج کو بھی ایک بادشاہ قرار دے دیا اس طرح یاجوج و ماجوج قوموں کی بجائے بادشاہوں کے نام بنا دیے- اتھوپیا کے عیسائیوں  نے سکندر کو ایک افریقی گینڈے کی طرح تشبیہ دی جو اپنے سینگوں سے مخالف حکومتوں کو دھکیلتا ہے-

نزول قرآن کے دور میں  یہود بھی یہی کہتے ہونگے کہ ذو القرنین سکندر نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہود کو بخوبی پتا تھا کہ سکندر کا یاجوج ماجوج سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ جب سکندر پیدا بھی نہیں ہوا تھا حزقی ایل جو بابل میں غلام تھے وہ یاجوج ماجوج کا تذکرہ اپنی کتاب میں کر چکے تھے – تاریخ کے مطابق  سکندر کے یہود سے اچھے تعلقات تھے یہاں تک کہ یہود نے اس کی اجازت سے کوہ گزیرم پر موجود یروشلم مخالف  سامرہ کے یہودیوں کی عبادت گاہ کو مسمار کیا اور وہاں موجود   اس فرقے کا قتل عام کیا – گویا سکندر یروشلم پہنچ کر مسیحا کے لئے گدی چھوڑنے کی بجائے خود یہود سے دوستی کر چکا تھا – عیسائیوں  کا  اس کتاب کو گھڑنا یہود کے لئے نہ تھا بلکہ وہ اپنے ہی ہم مسلک عیسائیوں  کو جھوٹی کہانیاں سنا کر تسلیاں دے رہے تھے

اب  اس سوال کی طرف  توجہ کرتے ہیں کہ ذوالقرنین کس دور میں گذرا- بابل کی غلامی کے دور میں یہود اس کی شخصیت سے واقف ہوئے جب نہ کورش تھا ن سکندر لہذا یہ  ان دونوں سے قبل گزرنے والی کوئی شخصیت ہے-

قدیم مورخین کے مطابق ذو القرنین  افریدوں

Fereydun

Faridon

Fereydoun

ہے جس کا ذکر قدیم فارس کی

Proto- Iranian

داستانوں میں ہے یعنی یہ ایک ایسی شخصیت ہے جو تاریخ لکھے جانے سے پہلے کا دور ہے یہی وجہ ہے کہ اس پر معلومات کم تھیں اور یہود و نصاری میں اس شخصیت پر جھگڑا تھا کہ کون ہے

فریدوں کی ایک تصویر ١٩ صدی میں بنائی گئی جس میں اس کے ہاتھ میں عصآ ہے جس پر دو سینگ ہیں

https://en.wikipedia.org/wiki/Fereydun

 یقینا مصور کے پاس اس پر کوئی معلومات تھیں جس کی بنا پر افریدوں کو دو سینگوں کے ساتھ دکھایا گیا

اس سب تفصیل کو بٹاتے کا مقصد ہے کہ بعض مستشرقین  نے اس مذکورہ کتاب کو قرآن کی سوره الکھف کا منبع قرار دیا اور ثابت کرنے کی کوشش کی کہ گویا ذو القرنین کا قصہ اصلا اس کتاب کا سرقه ہے

http://wikiislam.net/wiki/Dhul-Qarnayn_and_the_Alexander_Romance#Early_Jewish_Legends

سوره کہف ، حکایات سکندر  سے گھڑنے کی بات کس قدر احمقانہ ہے اس کا اندازہ اسی سے ہو جاتا ہے خود اہل کتاب   نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے ذو القرنین پر سوال کیا تھا – انکو عیسائیوں  کی یہود مخالف تحاریر کا بھی علم تھا اور اگر مذکورہ بالا  سکندر پر کتاب اس وقت  موجود تھی تو یقینا اس کا بھی یہود و نصاری کو  علم ہو گا

اول  قرآن نے یاجوج ماجوج کو قوم قرار دیا نہ کہ بادشاہ

دوم قرآن نے یاجوج ماجوج کو یہود قرار نہیں دیا

سوم ذو القرنین کو سکندر نہیں کہا حالانکہ  سکندر جیسا مشہور حاکم  قرار دینا نہایت آسان تھا

واللہ اعلم

حشر دوم سے عبد الملک تک

قصہ مختصر
اصل مسجد الاقصی یروشلم میں تھی- یہ سن ٧٠ بعد مسیح میں رومیوں کی جانب سے تباہ کر دی گئی اور اس کے اثر کو زمین سے مٹا دیا گا یہاں تک کہ یہودی مورخ جوسیفث کے بقول کوئی اس مقام سے گزرتا تو اس کو یقین تک نہ اتا کہ یہاں کبھی کوئی بستا بھی تھا -صحیح ابن حبان اور سنن ترمذی کی روایت کے مطابق معراج کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان سے ہی اصل مسجد الاقصی دکھائی گئی اور پھر آپ علیہ السلام سات آسمان کی طرف چلے گئے – سن ١٧ ھ میں عمر رضی اللہ عنہ نے یروشلم میں ایک رومی قلعہ پر مسجد عمر بنا دی – اس کو بعد میں مسجد بیت المقدس کہا جانے لگا اور الولید بن عبد الملک کے دور میں مسجد عمر کے پاس قبہ الصخرہ بنایا گیا جس کا مقصد زائرین بیت المقدس کے لئے ایک ہوٹل یا سرائے بنانا تھا – بعد کے ادوار میں مسجد عمر کو مسجد القبلی کہا جانے لگا اور یہاں تک کہ اس کا نام پھر مسجد الاقصی ہی رکھ دیا گیا – اس بلاگ میں اس چیز کی وضاحت ہے کہ مسجد القبلی ، مسجد الاقصی نہیں ہے یہ مسجد عمر ہے – اصل مسجد الاقصی کسی زندہ بشر کو معلوم نہیں کہاں ہے – نہ کسی صحابی کو معلوم تھی – نہ  آج کسی مسلمان کو معلوم ہے نہ کسی یہوودی کو معلوم ہے

مزید تفصیل کے لئے پڑھیں
تاریخ قبلتین

143 Downloads

قرآن سوره الاسراء کی آیات ہیں کہ

سُبْحَانَ الَّـذِىٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَى الَّـذِىْ بَارَكْنَا حَوْلَـهٝ لِنُرِيَهٝ مِنْ اٰيَاتِنَا ۚ اِنَّهٝ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْـرُ  

پاک ہے وہ  (رب) جو لے گیا سفر میں  اپنے بندے کو رات  میں مسجد الحرام سے مسجد الاقصی جس کا ماحول ہم نے  با برکت کیا ہے  کہ اس کو اپنی کچھ نشانیاں دکھائے بے شک وہ  (الله) سننے دیکھنے والا ہے

یہ معراج کا واقعہ تھا جس میں جسمانی طور پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سفر کیا ایک گھوڑے اور خچر نما مخلوق پر جس کو براق کہا جاتا ہے- اس میں ایک ان میں آپ مسجد الحرام سے اصلی مسجد الاقصی پہنچ  گئے اور آپ کے ہمراہ جبریل علیہ السلام بھی تھے

دوسرے دن آپ نے جب قریش کو اس کی خبر دی تو انہوں نے آزمائشی سوالات کیے اور حجر یا حطیم میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا کہ بیت المقدس شہر کو آپ کے سامنے کر دیا گیا

الله تعالی فرماتے ہیں

فإذا جاء وعد الآخرة ليسوءوا وجوهكم وليدخلوا المسجد كما دخلوه أول مرة وليتبروا ما علوا تتبيرا عسى ربكم أن يرحمكم وإن عدتم عدنا وجعلنا جهنم للكافرين حصيرا

پس جب دوسرا وعدا ہونے کو  آیا کہ چہروں کو بگاڑ دے اور اسی طرح مسجد میں داخل ہوں جیسے پہلے ہوا تھا اور تتر  بتر کر دیں جس پر بھی غلبہ پائیں ہو سکتا ہے کہ اب تم پر تمہارا رب رحم کرے لیکن اگر تم پلٹے تو ھم بھی پلٹیں گے   اور  ہم جہنم کو  تمام کافروں کے لئے گھیرا بنائیں گے

arch-titus

روم میں آرچ اف ٹائیتس پر بنا ایک نقش -رومی فوجی قدس الاقدس کا خالص سونے کا چراغ مال غنیمت کے طور پر لے جا رہے ہیں

یہودی مورخ جوسفس لکھتا ہے

For the same month and day were now observed, as I said before, wherein the holy house was burnt formerly by the Babylonians 

– Josephus Wars chapter 4

قدس الاقدس اسی مہینے اور دن جلایا گیا جس دن بابلیوں نے اس کو جلایا تھا

ظاہر ہے اصل مسجد الاقصی کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو بیت المقدس شہر دکھایا گیا اور کفار مکہ نے بھی اسی شہر پر سوالات کیے وہاں کوئی مسجد تھی ہی نہیں لہذا جو بھی دیکھا وہ اصلی مسجد الاقصی  اور اس کا ماحول تھا جو الله کی قدرت کا نمونہ تھا کہ اسی مسجد کو اصل حالت میں  دکھایا گیا  جبکہ وہ وہاں تباہ شدہ حال میں تھی یعنی یہ ایک نشانی تھی جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے لئے خاص تھی

ایک بات سمجھنے کی ہے اور قرآن میں یہی بات سوره الاسراء کے شروع میں بیان ہوئی ہے اور معراج کے ساتھ مسجد الاقصی کی تباہی کا خاص ذکر ہے تاکہ غور کرنے والے بات سمجھیں

رومی مشرکوں کا بیت المقدس کو آباد کرنا

یروشلم کے لئے بیت المقدس بہت بعد میں مستعمل ہوا مشرکین مکہ اس شہر کو عیلیا کہتے تھے

بیت المقدس اصلا یہود کی زبان  کا لفظ ہے عرب مشرکین اس کو عیلیا کہتے تھے جو اصل میں

AELIA CAPITOLINA

ہے  جو ایک رومن کالونی تھی جو ہیرود کے شہر پر بنی

عیلیا کپٹلونا کو رومن ملٹری کیمپ بنانے کا حکم شاہ ہیڈرین

Hadrian

نے دیا جو رومن سلطنت کا ١٤ واں بادشاہ تھا اس کا مکمل نام تھا

Publius Aelius Hadrianus Augustus

لہذا اپنے نام

Aelius

پر اس نے یروشلم کا نام رکھا جو بعد میں ایلیا میں بدل گیا

CAPITOLINA

کا مطلب دار الحکومت ہے یعنی ایسا مقام جہاں سے اس صوبے کی عمل داری ہو گی اسی سے انگریزی لفظ کیپٹل نکلا ہے

–واضح رہے کہ  شاہ ہیڈرین کے  وقت اس شہر میں نہ عیسائیوں کے کلیسا تھے نہ یہود کے معبد  تھے کیونکہ اس دور میں یروشلم تباہ شدہ کھنڈرات کا شہر تھا – مشرک رومی فوجیوں  نے اس شہر میں ١٣٥ بعد مسیح میں پڑاو کیا اور وہاں یہودی بدعتی فرقہ عیسیٰ کے ماننے والوں کو انے دیا اور یہود  کا داخلہ بند رہا –  سن ٣٢٥ ع  ب م میں  رومن بادشاہ کونسٹنٹین عیسائی ہوا جو دین متھرا پر تھا  – اس وقت اس شہر پر متھرا دھرم کا راج تھا اور تمام مندر اسی مذھب والوں کے تھے جن میں رومیوں کی کثرت تھی جو اجرام فلکی اور برجوں  کے پجاری تھے  – متھرا اصلا ایک فارسی مذھب تھا لیکن اس کی اپیل بہت تھی انہی کا تہوار نو روز ہے جس کو آج تک ایران سے لے کر ترکی  تک منایا جاتا ہے –  عیلیا کپٹلونا کو مختصر کر کے اور ساتھ ہی  اس لفظ  کو تبدیل کر کے  اہل کتاب اور مسلمانوں نے  ایلیا کہنا شروع کر دیا  جبکہ ایلیا  عبرانی میں ایک نبی کا نام تھا نہ کہ اس شہر کا نام– یہ ایک تاریخی غلط العام چیز ہے

یہود میں ایلیا اصل میں  عیسیٰ سے 9 صدیوں قبل انے والے ایک نبی الیاس علیہ السلام کا نام ہے جو یروشلم میں نہیں آئے تھے ان کا نام انگریزی میں

Elijah

ہے جو شمال میں ایک  علاقے میں آئے تھے اور یروشلم میں کبھی بھی نہیں آئے

AELIA CAPITOLINA , name given to the rebuilt city of Jerusalem by the Romans in 135 c.e. Following the destruction of Jerusalem by the Romans in 70 c.e. the city remained in ruins except for the camp (castrum) of the Tenth Legion (Fretensis), which was situated in the area of the Upper City and within the ruins of the Praetorium (the old palace of Herod the Great), protected, according to the first-century historian Josephus (War, 7, 1:1) by remnants of the city wall and towers on the northwest edge of the city. Although Jews were banished from the city (except apparently during the Ninth of *Av), some Jewish peasants still lived in the countryside, and remains of houses (with stone vessels) have been found immediately north of Jerusalem (close to Tell el-Ful).

http://www.encyclopedia.com/article-1G2-2587500497/aelia-capitolina.html

عیلیا کپٹلونا نام ہے جو یروشلم کو دیا گیا رومیوں کی جانب سے سن ١٣٥ ب م میں جب یروشلم تباہ ہوا رومیوں کے ہاتھوں سن ٧٠ ب م میں اور اس کے کھنڈرات پر ایک لشکر تعنات ہوا جو پرایتروریم (جو ہیرود کا محل تھا)  پر رکا – اور پہلی صدی کے جوزیفس مورخ  (کتاب جنگیں ج ٧ ) کہتے ہیں شہر کی دیوار کے کنارے اور ان میناروں کے پاس جو شمال مغربی کناروں پر تھیں وہاں پڑاؤ ڈالا  – اگرچہ یہود پر داخلہ بند تھا (سوائے او کے ماہ کی نویں تاریخ پر ) کچھ یہودی کسان اس کے باہر آباد تھے جن کے گھروں کی باقیات ملی ہیں یروشلم کے شمال میں

آج اس   پرایتروریم

Praetorium

 پر ہی مسجد الأقصى ہے

فتح بیت المقدس اور عمر رضی الله عنہ کی آمد

سوره  الاسراء میں بتایا گیا کہ رومیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے دور کی مسجد  الاقصی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور ہر اس چیز کو تباہ کر دیا جس پر ان کا ہاتھ پڑا بالکل اسی طرح جس طرح اس سے پہلے اس کواشوریوں کے ذریعہ  تباہ کیا گیا یعنی الله کا عذاب بن کر اشوری یروشلم پر پڑے اور انہوں نے حشر اول کیا اس کے بعد رومیوں نے حشر دوم کیا-مسجد الاقصی ٧٠ بعد مسیح  میں رومیوں نے مسمار کی اور انجیل کے مطابق یہ عیسیٰ کی زبان سے اہل کتاب پر  لعنت تھی کہ  اس مسجد کا ایک پتھر بھی اپنی جگہ نہ رہے گا یہاں تک کہ اس کا نشان مٹا دیا گیا اور صخرہ چٹان تک کو کھود دیا گیا اس وجہ سے اس کا مقام انسانوں سے محو ہو گیا

جب عمر رضی الله  عنہ ١٧ ہجری میں  بیت المقدس میں داخل ہوئے تو طبری کی تاریخ کی ایک بے سند روایت میں ہے کہ ان کے ساتھ أبو إسحاق كعب بن ماتع الحميرى اليمنى( یمن کے حبر یعنی یہودی عالم تھے- عمر رضی الله عنہ کے دور میں ایمان لائے لیکن شاید ہی انہوں نے کبھی مسجد الاقصی کا سفر کیا ہو کیونکہ یہودی ہونے کی وجہ سے    ان پر یروشلم میں  داخلے پر پابندی تھی-  انہوں)  نے عمر رضی الله عنہ کو مشورہ دیا کہ الصخرہ پر مسجد الاقصی  تھی-

عمر رضی الله عنہ نے اجتہاد سے کام لیا اور  مسجد الاقصی کو  الگ رومی فورٹ انتونیا   ( پرایتروریم ) پر ایک مقام پر بنایا اور  وہ یروشلم کا سب سے اونچا مقام تھا – لہذا مسجد الاقصی ایک غیر متنازعہ  جگہ بنائی گئی-  بعض مسلمانوں کو روایات میں الفاظ ملے ہیں کہ عمر رضی الله عنہ نے  یروشلم میں محراب داودی پر نماز پڑھی لیکن ان محققین  کو خود نہیں پتا کہ محراب داودی کی کوئی اصل نہیں – یہ اصل میں جافا گیٹ

Jaffa Gate

ہے  جو عمر رضی الله عنہ کی بنائی مسجد  ( موجودہ الاقصی) سے بہت دور شہر کا مخالف سمت میں دروازہ ہے جو یقینا داود علیہ السلام کا بنایا ہوا نہیں ہے بلکہ رومیوں کی تعمیر ہے  اس کو بعض  باب الخلیل بھی کہتے ہیں -عمر رضی الله عنہ کی بنائی ہوئی مسجد الاقصی اصل میں   عمر رضی الله  عنہ نے اپنے اجتہاد سے بنائی –     عمر رضی الله عنہ نے کعب  الاحبار سے پوچھا کہ  مسجدالاقصی کہاں تھی،   جس سے ظاہر ہے ان کو خود عمر  کو بھی معلوم نہ تھا کہ کہاں تھی نہ کسی اور صحابی نے اس کی کوئی مر فوع حدیث میں بیان کردہ  کوئی ایسی نشانی بتائی جس سے اس تک پہنچا جاتا-

طبری کی عمر رضی الله عنہ  اور کعب کے مکالمے کی  اس  روایت کی سند ہے وعن رجاء بْن حيوة، عمن شهد، قال جس میں مجھول راوی ہے

مسند احمد کی روایت ہے

حدثنا أسود بن عامر حدثنا حماد بن سلمة عن أبي سنان عن عُبيد بن آدم وأبي مريم وأبي شعيب: أن عمر بن الخطاب كان بالجابية، فذكر فتح بيت المقدس، قال: فقال أبو سلمة: فحدثني أبو سنان عن عبيد بن آدم قال: سمعت عمر بن الخطاب يقول لكعب: أين ترى أن أصلي؟ فقال: إن أخذت عني صليت خلف الصخرة فكانت القدس كلها بين يديك! فقال عمر: ضاهيت اليهودية، لا، ولكن أصلى حيث صلى رسول الله – صلى الله عليه وسلم -، فتقدم إلى القبلة فصلى، ثم جاء فبسط رداءه، فكنس الكناسة في ردائه وكنس الناس.

أبو سنان ،  عبيد بن آدم سے روایت کرتا ہے کہ میں نے سنا عمر رضی الله عنہ نے کعب سے پوچھا کہ تمھاری رائے میں کہاں نماز پڑھیں ؟ کعب نے کہا اگر میں پڑھوں تو صخرہ سے پیچھے پڑھوں گا اس طرح پورا قدس آپ کے سامنے ہو گا پس عمر نے کہا یہودیوں کی گمراہی ! نہیں ہم نماز پڑھیں گے جہاں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے پڑھی پس آگے بڑھ کر قبلہ کی طرف نماز پڑھی

اس کی سند میں أَبُو سِنَانٍ  عِيسَى بْنُ سِنَانٍ الْقَسْمَلِيُّ   ہے جس کی تضعیف محدثین نے کی ہے ابو حاتم کہتے ہیں  ليس بقوي في الحديث حدیث میں قوی نہیں ہے  ابن معين وأحمد بن حنبلاس کو ضعیف کہتے ہیں اور أبو زرعة  اس کو مخلط ضعیف الحدیث کہتے ہیں الذھبی کہتے ہیں ضعیف ہے متروک نہیں ہے ابن حجر لین الحدیث کہتے ہیں البیہقی سنن الکبری میں ضعیف کہتے ہیں المعلمي  بھی ضعیف کہتے ہیں یہ روایت صرف بصرہ کی ہے کیونکہ اس راوی نے اسکو بصرہ میں بیان کیا ہے اسکی وفات  141 – 150 ھ کے دوران ہوئی ہے

مسند احمد کی روایت کی سند میں عبید بن ادم بھی مجھول ہے – المعلمي  کہتے ہیں لم يُذْكرْ له راوٍ إلا أبو سنان اس سے صرف ابو سنان ہی روایت کرتا ہے

شعيب الأرناؤوط کہتے ہیں اسکی سند ضعیف ہے حیرت ہے کہ اس روایت کو  ابن کثیر اور احمد شاکر حسن کہتے ہیں

کتاب فضائل بيت المقدس از المقدسی  کی روایت کی  ابو سنان کی روایت ہے

أَبُو أُسَامَةَ عَنْ عِيسَى بْنِ سَنَانَ الشَّامِيِّ عَنِ الْمُغِيرَةِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ عُمَرَ فِي كَنِيسَةٍ يُقَالُ لَهَا كَنِيسَةُ مَرْيَمَ فِي وَادِي جَهَنَّمَ قَالَ ثُمَّ دَخَلْنَا الْمَسْجِدَ فَقَالَ عُمَرُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّيْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي فِي مَقْدِمِ الْمَسْجِدِ ثُمَّ دَخَلْتُ إِلَى الصَّخْرَةِ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ

ابو سنان ، المغیرہ سے وہ اپنے باپ سے روایت کرتا ہے کہ میں نے عمر رضی الله عنہ کے ساتھ چرچ میں نماز پڑھی جس کو مریم کا چرچ کہا جاتا ہے جو وادی جہنم میں ہے –  کہا پھر ہم مسجد میں آئے اور عمر نے کہا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ  معراج کی رات میں نے مسجد کے مقام پر نماز پڑھی پھر صخرہ آیا اور بیت المقدس شہر میں داخل ہوا

دوسری تاریخی روایات کے مطابق تو عمر رضی الله عنہ نے کسی چرچ میں نماز نہ پڑھی ابو سنان کی یہ دونوں روایآت ضعیف ہیں اگرچہ اس میں ایک نئی چیز ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے نماز مسجد الاقصی پر پڑھی اور پھر صخرہ تک آئے جبکہ شیعہ روایات کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم صخرہ آئے جو مسجد تھی اس پر تفصیل نیچے آئے گی

کنیسہ مریم

وادی ہنوم/وادی جہنم میں کنیسہ مریم کا اندرونی منظر قبر مریم کا مقام 

Church of Assumption

قبروں پر نماز پڑھنا منع ہے – عمر رضی الله عنہ , مریم علیہ السلام کی قبر پر نماز کیوں پڑھتے –  یہ نحوست ابو سنان  کی ہے

ابو سنان کی بیت المقدس کی ان روایات میں تفرد ہے انکو کوئی اور بیان نہیں کرتا خود یہ فلسطین کے ہیں اور بصرہ جا کر اس قسم کی روایات بیان کی ہیں

مسجد الاقصی

الغرض عمر اور کعب کی صخرہ کے حوالے سے بحث  فرضی اور من گھڑت قصہ ہے اس کی کوئی صحیح سند نہیں ہے اور ١٥٠ سال بعد کی قصہ گوئی ہے

عیسائیوں کے مطابق 

کہا جاتا ہے کہ الصخرہ پر عیسائیوں  کا ایک چرچ  ، چرچ اف  ہولی وسڈوم   تھا  جس کو ٦١٤ ع میں فارس والوں نے تباہ  کیا – یہ وہی حملہ تھا جس کا ذکر سوره الروم میں ہے کہ روم پر(فارسی) غالب آ گئے – شاید اسی کلیسا کا ملبہ الصخرہ پر تھا-   اس کا تذکرہ    عیسائیوں  کی کتاب   زیارت  میں ملتا ہے   جس کا عنوان ہے

Bordeaux Pilgrim

سن  ٣٣٣ ع  میں ایک عیسائی  زائر نے یروشلم کا دورہ کیا اور بتایا کہ   قلعہ انتونیا پر ایک چٹان پر ایک چرچ ہے جہاں پلاٹس نے عیسیٰ  پر    فیصلہ سنایا –  اس چٹان کا یہودی مورخ  جوسیفس  نے بھی ذکر کیا ہے

The tower of Antonia…was built upon a rock fifty cubits high and on all sides precipitous…the rock was covered from its base upwards with smooth flagstones”

(Jewish War, V.v,8 para.238)

انتونیا کا مینار  جو ٥٠ کیوبت بلند اور تمام طرف سے عمودی ہے اس نے  چٹان کو گھیرا ہوا ہے اس کی تہہ سے اوپر تک پتھر جڑے ہیں  

یعنی ہیرود کے رومی قلعہ پر بھی ایک چٹان تھی  اسی کو اب  الصخرہ کہا جاتا ہے

عیسائیوں میں یہ مشہور ہوا کہ اور اس پر عیسیٰ کے قدم کے نشان ہیں  ( جیسے  ہم مقام ابراہیم کے لئے مانتے ہیں کہ اس پر ابراہیم علیہ السلام کے قدم کے نشان تھے) کہ جب ان سے رومی تفتیش کر رہے تھے ان کو اس چٹان پر کھڑا کیا گیا اسلام کے مطابق ایسا کوئی موقعہ ہی نہیں آیا عیسیٰ کا اس سب سے قبل رفع ہو گیا لیکن عسائیوں کو اپنے مذھب کی حقانیت  کے لئے کچھ اقوال درکار تھے جس میں سے ایک یہ بھی ہے

 –  شاید یہی وجہ کے کہ  عبد الملک نے  قبہ الصخرہ کی  عمارت پر جو آیات  لکھوائیں ان میں عیسیٰ کی الوہیت کا انکار ہے  اور ہیکل کی تباہی سے متعلق ایک آیت   بھی نہیں-

صلاح الدین ایوبی کے دور کے عزالدین الزنجلی  نے اس جھگڑے کو ختم کرنے کے لئے اسی پلیٹ فارم پر ایک  قبه المعراج بنوایا جہاں آج بھی عیسائی آ کر رفع عیسیٰ کی تقریبات کرتے ہیں  – صلیبی جنگوں کا اصل مدعآ تھا کہ قبه الصخرہ اصل میں ایک چرچ ہے جیسے سوفیا چرچ یا چرچ اف ہولی وسڈوم کہا جاتا تھا جب بیت المقدس عسائیوں سے آزاد ہوا تو اس مسئلہ کو سمجھتے ہوئے اسی پلیٹ فارم پر ایک نیا قبه رفع

Dome of Ascension

بنا دیا گیا اور مسلمانوں کے لئے اس کو قبه المعراج  کہا گیا

صليبي عسائیوں نے یروشلم پر قبضہ ہی اس مقام کی اہمیت کی وجہ سے کیا- اب کتاب البدایہ و النہایہ از ابن کثیر کی ایک بے سند روایت کا قول جو روینا یعنی ہم سے روایت کیا گیا ہے سے شروع ہو رہا ہے اس میں لکھا ہے

 وَقَدْ كَانَتِ الرُّومُ جَعَلُوا الصَّخْرَةَ مَزْبَلَةً ; لِأَنَّهَا قِبْلَةَ الْيَهُودِ، حَتَّى إِنَّ الْمَرْأَةَ كَانَتْ تُرْسِلُ خِرْقَةَ حَيْضَتِهَا مِنْ دَاخِلِ الْحَوْزِ لِتُلْقَى فِي الصَّخْرَةِ

اور اہل روم نے صخرہ کو کوڑا ڈالنے کی جگہ بنایا ہوا تھا کہ یہ یہود کا قبلہ ہے یہاں تک کہ انکی عورتیں اپنے حیض کا کپڑا بھی اس پر پھینکتیں 

 عیسائیوں میں حیض کوئی نا پاک چیز نہیں رہی تھی –  یہ توریت کا حکم تھا جوانکے مطابق  عیسیٰ کے انے پر معطل ہو چکی ہے

صلیبی عسائیوں نے قبه الصخرہ کو

Templum Domini

کا نام دیا اور یہ اس دور کا ایک مقدس چرچ تھا اس کو انکی مہروں پر بھی بنایا گیا – جبکہ موجودہ مسجد الاقصی کو انہوں نے محل میں تبدیل کر دیا-  اب پروٹسٹنٹ کے نزدیک صلیبیوں کی طرح قبه  متبرک  ہے اصل ہیکل سلیمانی کا مقام ہے

یہود کے مطابق

    یہود کے مطابق ہیکل  سلیمانی کا سب سے اہم مقام ایک  چٹان تھی جس کو کعبہ  کی طرح  قبلہ سمجھا جاتا اورقُدس‌الاقداس   (ہولی آف ہولیز) کہا جاتا تھا –  قُدس‌الاقداس کے گرد  ، تباہ ہونے سے پہلے،  غلاف کعبہ کی طرح    ایک   دبیز پردہ تھا –  سال میں صرف ایک دن  امام یا  پروہت  اس   میں  سے  داخل ہوتا تھا-  لیکن یہود  کو خود پتا نہیں کہ اصل مسجد الاقصی کس مقام پر تھی – جب انہوں نے دیکھا کہ  مسلمانوں نے پرایتروریم پر  ایک مقام پر مسجد  کو مسجد سلیمان سے نسبت دیتے ہوئے مسجد الاقصی کہنا شروع کر دیا ہے تو انہوں بھی اس پر دعوی دائر کر دیا ہے جبکہ خود انکی کتب میں اس پر اشارات موجود ہیں کہ اس کا مقام موجودہ مسجد الاقصی والا نہیں ہے

پہلی دلیل  یہود کی کتاب تلمود کے مطابق ہیرود کے محل سے ہیکل سلیمانی میں اٹھنے والا الاو اور بخور دیکھا جا سکتا تھا اور مقصد تھا کہ ہر وقت ہیکل پر نگاہ رکھی جائے جیسا کہ آجکل سعودی حکومت نے عین حرم کے سامنے بلند عمارت بنوا رکھی ہیں بالکل اسی طرح شاہ ہیرود کی محل سے  ہیکل پر نظر تھی  اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہیکل سلیمانی (اصل مسجد الاقصی) نیچے اور ہیرود کا محل اوپر ہوں جیسا کہ یہودی مورخ جوسیفس نے کہا ہے کہ ہیرود کا محل پرتوریم پر فورٹ انتونیا پر تھا جہاں آج مسجد الاقصی ہے یعنی اسلامی مسجد الاقصی ایک سابقہ قلعہ پر ہے اور یہود کی اس سے نیچے تھی

دوسری دلیل ہے کہ آج جس مقام پر مسجد الاقصی ہے وہ تاریخی شہر سے جو سلیمان یا دود علیہ السلام نے آباد کیا اس سے باہر ہے – کیا یہ  انبیاء کی سنت تھی کہ وہ مسجد شہر سے باہر  بناتے اور  اپنے گھر کے برابر میں نہیں بناتے ہیں؟ سیرت النبوی میں تو ایسا نہیں ہے اور یہی انبیاء کی سنت ہو گی

سوم اصل مسجد کے صحن سے جیحوں کا چشمہ ابلتا تھا جو آج دریافت ہو چکا ہے اور وہ بھی موجودہ مسجد سے دور قدیم شہر ہی میں ہے اور یہودی موجودہ مسجد الاقصی کی بنیادیں کھودتے رہتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس کے نیچے پانی کا کوئی چشمہ ہے لہذا اس کے سکین کرتے ہیں – پرتوریم کا پلیٹ فارم اصلا مختلف آرچ پر بنا کر کھڑا کیا گیا ہے اگر وہ ستون ہلا دے جائیں تو پورا پلیٹ فارم اور اس کے اوپر موجود عمارتیں دھنس جائیں گئی

چوتھی دلیل ہے کہ مسجد الاقصی کسی ہموار مقام پر نہ تھی جیسی آج ہے جیسے جیسے آدمی ہیکل سلیمانی  میں داخل ہوتا تھا وہ سیڑھیاں چڑھتا جاتا اور بلند ہوتا جاتا تھا جیسا کہ کتاب

Book of Kings

اور

Book of Chronicles

میں ہے

یعنی اصل مسجد ایک سطح مرتفع پر تھی اور آج اگر قدیم  داودی یروشلم سے موجودہ مسجد الاقصی کی سمت میں چلا جائے  تو سطح بلند ہوتی جاتی ہے

 پانچویں دلیل قدس الاقدس سے مشرقی سمت میں کوہ زیتون تھا  آج اس کوہ کا نام

Hill of  Gethsemane

رکھ دیا گیا ہے اور کوہ زیتون کو پرتوریم کے پاس بتایا جاتا ہے کیونکہ اہل کتاب کے ذہن میں ہے کہ موجودہ مسجد الاقصی ہی اصل ہیکل سلیمانی تھا – جس  پہاڑ کو کوہ زیتون کہا جا رہا ہے وہ اصلا صحیح نہیں ہے یہ بات انجیل سے پتا چلتی ہے کہ آخری وقت میں رفع سے پہلے عیسیٰ اسی پہاڑ میں چھپے ہوئے تھے اس کا  نام اب لاطینی میں گھاتصمنی  رکھ دیا گیا ہے جبکہ یہ اصل کوہ زیتون ہے

اگر اس پہاڑ کا مقام دیکھا جائے تو یہ بھی اصل مسجد الاقصی کو قدیم شہر میں لے اتی ہے

چھٹی دلیل ہیکل سلیمانی  کا مطلب ہے سلیمان علیہ السلام کا بنایا ہوا ہیکل

Heikal

جس میں ایک    چٹان یا  الصخرہ تھی اس کو یہودی زمین کا سب سے مقدس مقام سمجھتے ہیں اور ان کے مطابق زمیں کا آغاز اسی چٹان سے ہوا اور مسلمان ہونے والے  یمنی یہودیوں کے مطابق اس کے نیچے تمام دنیا کی ہوائیں اور نہریں ہیں  جیسا کہ ایک روایت میں ہے-الصخرہ  جو قبه الصخرہ کے نیچے ہے وہ بنیادی طور پر ایک چھوٹا سا غار ہے –   اصل الصخرہ جو ہیکل میں قدس الاقداس میں تھی اس کے بارے میں کسی بھی یہودی کتاب میں  غار کی خبر نہیں -ہاں وہاں ایک معمولی ابھری ہوئی چٹان ضرور تھی ( لیکن اتنی بے ہنگم   ابھری ہوئی چٹان نہ تھی جیسی کہ قبه الصخرہ کے نیچے ہے )– ہیکل کی سطح اس معمولی ابھری چٹان کے باوجود بھی ایسی تھی کہ اس پر پروہت کھڑا ہوتا تھا  جبکہ الصخرہ کے نیچے والی چٹان ہموار نہیں ہے – چٹان جو ہیکل میں تھی وہ چھوٹی تھی اور ہیکل کی جو پیمائش یہودی کتب میں ہیں ان کو جب قبه الصخرہ کے اوپر رکھا جاتا ہے تو قبه الصخرہ والی چٹان بہت بڑی ہے

ساتویں دلیل یہودی مسجد الاقصی کی ایک دیوار جس کو دیوار گریہ  کہتے ہیں اس کے پاس عبادت کرتے ہیں کیونکہ اس دیوار پر ایک آیت لکھی ہے جس میں ہے

And when ye see this, your heart shall rejoice, and their bones as grass

اور جب تم اس کو دیکھو گے تمہارا دل باغ ہو گا اور انکی ہڈیاں گھانس جیسی

یہ یسیعآہ باب ٦٦ کی ١٤ وین آیت ہے جو عین دیوار گریہ پر لکھی ہے اس میں اشارہ ہے کہ یہ مقام کسی دور میں قبرستان تھا چونکہ یہود کے مطابق یہ جگہ ہیکل تھی وہ اب  کہتے ہیں کہ کسی نے غلط آیت غلط مقام پر لکھ دی ہے لیکن یہ آج ان کا موقف  ہے جب شروع میں یہودی واپس اس شہر میں آئے ہوں گے تو اسی دیوار پر آیت دیکھ کر ہی  یہاں جمع ہوئے اور انکی غلطی کو چھپا کر موجودہ مسجد الاقصی پر انہوں نے دعوی کیا ہے

آٹھویں دلیل صخرہ کا پتھر لائم اسٹون

Lime Stone

ہے جبکہ یہود کے مطابق یہ چٹان دنیا کی پہلی تخلیق ہے یہود اسکو

Eben haShetiya

کہتے ہیں یعنی بنیاد کا پتھر لہذا اگر یہ اتنی قدیم  چٹان ہے  تو اس کا پتھر اگنیوس

Igneous

ہونا چاہیے جو لاوا سے بنا ہو کیونکہ چٹانوں میں لائم اسٹون بعد کے ہیں اگنیوس ان سے بھی  قدیم ہیں

نویں دلیل یہودی مورخ جوسیفس لکھتا ہے

It was so thoroughly laid even with the ground by those that dug it up to the foundation, that there was nothing left to make those that came thither believe it   had ever been inhabited.   – War VII.1,1.

رومیوں نے مسجد الاقصی کو مکمل تباہ کر دیا زمین تک یہاں تک کہ اسکی بنیادیں کھود دیں اور اس پر کچھ باقی نہ رہا کہ جو اس پر سے گزرتا اس کو یقین تک نہ اتا کہ کبھی یہاں کوئی رہتا بھی تھا

یعنی صخرہ تک کو کھود دیا گیا یہ الله کا عذاب تھا کیونکہ قدس الاقدس کی دیواروں میں سونا لگا ہوا تھا  یہاں تک کہ جوسیفس کے بقول جب اس میں روشنی ہوتی تو دیکھنے والے کو نگاہ ہٹآنی پڑتی- جوسیفس لکھتا ہے جب مسجد الاقصی کو اگ لگائی گئی تو

Moreover, the hope of plunder induced many to go on; as having this opinion, that all the places within were full of money: and as seeing that all round about it was made of gold. And besides, one of those that went into the place prevented Cæsar, when he ran so hastily out to restrain the soldiers: and threw the fire upon the hinges of the gate, in the dark. Whereby the flame burst out from within the holy house itself immediately: when the commanders retired, and Cæsar with them; and when nobody any longer forbad those that were without to set fire to it. And thus was the holy house burnt down, without Cæsar’s approbation.

War 4,7

رومی فوجی اپے سے باہر ہو چکے تھے یہاں تک کہ اگرچہ مسجد الاقصی جل رہی تھی اس کا قدس الاقدس نہیں جلا تھا اور انکا کمانڈر سیزر مسلسل فوجیوں کو اگ لگانے سے منع کر رہا تھا لیکن فوج میں اس قدر غصہ تھا اور شاید سونے کی لالچ تھی کہ انہوں نے اس کے دروازے پر اگ پھینکی اور اور قدس الاقدس بھڑک گیا ظاہر ہے اس میں موجود  سونا پگھل کر صخرہ پر پھیل گیا ہو گا اور  اسکو حاصل کرنے کے لئے صخرہ کو توڑ توڑ کر سونا نکالا گیا  ہو گا – لہذا  ممکن ہے اصل  صخرہ اس طرح معدوم ہو گیا

اہل سنت  اور مسجد الاقصی

مسلمانوں میں  عمر رضی الله عنہ کی بنائی مسجد کو  آہستہ آہستہ مسجد الاقصی کہا جانے لگا اور دوسری طرف امت میں تعمیراتی جھگڑے  بھی ہو رہے تھے

کعبہ کو ابن زبیر کے دور میں  جمادى الآخرة   ٦٤ ھ  میں گرایا گیا اور دوبارہ  بنایا گیا جس میں حطیم کو اس میں شامل کر دیا گیا

 اموی خلیفہ عبد الملک  بن مروان  نے  ابن زبیر کی تعمیراتی کاوش کو کم کرنے کے لئے دو سال کے اندر  صخرہ پر (چٹان)  پر ایک   آٹھ کونوں والی عمارت بنوائی جس میں عیسیٰ کے بارے میں آیات ہیں کیونکہ عسائیوں کے مطابق یہ ہیرود کا محل تھا اور اس میں چٹان پر عیسیٰ کے قدموں کے نشان تھے

 اور اس کو مسجد میں آنے والوں کے لئے سرائے کہا ساتھ  یہ سرائے اب مسجد کا ہی حصہ بن گئی

کتاب   الأنس الجليل بتاريخ القدس والخليل  میں   عبد الرحمن بن محمد الحنبلي، أبو اليمن (المتوفى: 928هـ)  لکھتے ہیں

فَلَمَّا دخلت سنة سِتّ وَسِتِّينَ ابْتَدَأَ بِبِنَاء قبَّة الصَّخْرَة الشَّرِيفَة وَعمارَة الْمَسْجِد الْأَقْصَى الشريف وَذَلِكَ لِأَنَّهُ منع النَّاس عَن الْحَج لِئَلَّا يميلوا مَعَ ابْن الزبير فضجوا فقصد أَن يشغل النَّاس بعمارة هَذَا الْمَسْجِد عَن الْحَج فَكَانَ ابْن الزبير يشنع على عبد املك بذلك وَكَانَ من خبر الْبناء أَن عبد الْملك بن مَرْوَان حِين حضر إِلَى بَيت الْمُقَدّس وَأمر بِبِنَاء الْقبَّة عل الصَّخْرَة الشَّرِيفَة بعث الْكتب فِي جَمِيع عمله وَالِي سَائِر الامصار إِن عبد الْملك قد أَرَادَ أَن يَبْنِي قبَّة على صَخْرَة بَيت الْمُقَدّس تَقِيّ الْمُسلمين من الْحر وَالْبرد وَأَن يَبْنِي الْمَسْجِد وَكره أَن يفعل ذَلِك دون رَأْي رَعيته فلتكتب الرّعية إِلَيْهِ برأيهم وَمَا هم عَلَيْهِ فوردت الْكتب عَلَيْهِ من سَائِر عُمَّال الْأَمْصَار نر رَأْي أَمِير الْمُؤمنِينَ مُوَافقا رشيدا إِن شَاءَ الله

پس جب سن ٦٦ ہجری  شروع ہوا تو   قبہ   الصَّخْرَة   اور مسجد الاقصی کی تعمیر  شروع ہوئی  اور یہ یوں کہ   عبد الملک لوگوں کو حج سے  منع کرنا چاہتا تھا کہ ممکن ہے ان کا میلان ابن زبیررضی الله عنہ  کی طرف ہو جائے     اور وہ (واپس آ کر اس کے خلاف)  شور کریں  پس اس نے لوگوں کو اس عمارت کی تعمیر میں حج میں مشغول کیا –  پس ابن زبیر نے عبد الملک کو اس  کام سے منع کیا    اور  تعمیر کی خبر میں ہے کہ  عبد الملک    بن مروان جب بیت المقدس پہنچا اور قبہ بنانے کا حکم دیا  تو اس نے اپنے تمام گورنروں کو لکھا اور ساری مملکت میں  لکھ بھیجا کہ  بے شک  عبد الملک نے ارادہ کیا ہے چٹان پر قبہ بنانے کا ،    بیت المقدس میں،    تاکہ مسلمانوں کو سردی ،گرمی سے بچائے اور مسجد کو بنائے   اور وہ کراہت کرتے ہیں کہ ایسا کریں سوائے اس کے کہ رعیت بھی اس کے حق میں ہو سو تمام گورنروں نے لکھا کہ ہم امیر المومنین کی رائے سے موافقت   رشید رکھتے ہیں    جیسا الله نے چاہا!

عبد الملک کا مقابلہ ابن زبیر رضی الله عنہ سے تھا جو مکہ میں اپنی خلافت میں کعبه کو بدل رہے تھے  اور اس میں حطیم کو شامل کر رہے تھے دوسری طرف عبد الملک بن مروان اپنے علاقہ شام میں  صخرہ پر تعمیر کر رہے تھے اس طرح کے تعمیراتی منصوبوں کا مقصد رائے عامہ کو اپنی طرح متوجہ کرنا تھا

کتاب  ابن تيمية  (اقتضاء الصراط المستقيم) میں اور ابن القيم  (المنار المنيف) میں اور محمد بن إبراهيم بن عبد اللطيف آل الشيخ (المتوفى: 1389هـ) اپنے  فتاوى ورسائل میں بیان کرتے ہیں کہ

 عن كعب أنه قال: قرأت في ” التوراة” أن الله يقول للصخرة أنت عرشي الأدنى إلخ …
كذب وافتراء على الله، وقد قال عروة بن الزبير لما سمع ذلك عن كعب الأحبار عند عبد الملك بن مروان قال عروة: سبحان الله؟

کعب سے روایت کیا جاتا ہے کہ اس نے توریت  میں سے پڑھا بے شک الله صخرہ کے لئے کہتا ہے تو میرا نچلا عرش ہے … محمد بن ابراہیم نے کہا یہ جھوٹ ہے اور بے شک عروہ نے جب اسکو سنا عبد الملک سے تو کہا سبحان اللہ

یعنی صخرہ پر تعمیر کے وقت کعب الاحبار کے اقوال سے دلیل لی گئی

تاریخ الیعقوبی ج ٢ ص  ٣٦١ اور کے  الدولَة الأمويَّة  از عَلي محمد محمد الصَّلاَّبي مطابق

  معظم العالم الإسلامي كان قد بايع عبد الله بن الزبير بالخلافة (64 ـ 73هـ) ما عدا إقليم الأردن (2)، فقد قال في كتابه: ومنع عبد الملك أهل الشام من الحج، وذلك لأن ابن الزبير كان يأخذهم إذا حجوا بالبيعة، فلما رأى عبد الملك ذلك منعهم من الخروج إلى مكة فضج الناس وقالوا: تمنعنا من حج بيت الله الحرام، وهو فرض علينا، فقال: هذا ابن شهاب الزهري يحدثكم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا تشد الرحال إلا إلى ثلاث مساجد: المسجد الحرام، ومسجدي ومسجد بيت المقدس. وهو يقوم لكم مقام المسجد الحرام، وهذه الصخرة التي يروى أن رسول الله صلى الله عليه وسلم وضع قدمه لما صعد إلى السماء

عالم اسلامی کی اکثریت نے عبد الله بن زبیر کی خلافت کی بیعت کی سوائے اردن  کے اور اپنی کتاب میں یعقوبی نے لکھا کہ عبد الملک نے شام والوں کو حج پر جانے سے منع کیا اور یہ اس وجہ سے کہ ابن زبیر ان سے زبردستی بیعت لیتے پس جب عبد الملک نے یہ دیکھا ان کے خروج پر پابندی عائد کر دی اور لوگ بگڑ گئے اور کہا ہم حج بیت الله کرنا چاہتے ہیں یہ فرض ہے ہم پر پس عبد الملک نے کہا کہ ابن شہاب الزہری تم سے حدیث بیان کرتے ہیں کہ بے شک رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ سواری نہ کسی جائے سواۓ تین مسجدوں کے لئے مسجد الحرام میری مسجد اور مسجد بیت المقدس اور وہ تو مسجد الحرام ہے اور یہ صخرہ اس کے لئے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس پر قدم رکھا جب آسمان کی طرف گئے

اس پر اعتراض اتا ہے

 تاريخ دمشق 11/ ق66 پر ابن عساکر کہتے ہیں

أخبرنا أبو القاسم السمرقندي أنا أبو بكر محمد بن هبة الله أنامحمد بن الحسين أنا عبد الله نا يعقوب نا ابن بكير قال قال الليث: وفي سنة اثنتين وثمانين قدم ابن شهاب على عبد الملك

امام الزہری سن ٨٢ ھ میں عبد الملک کے پاس پہنچے اور ابن زبیر کی شہادت ٧٢ ھ میں ہوئی

وبالإسناد السابق نا يعقوب قال سمعت ابن بكير يقول: مولد ابن شهاب سنة ست وخمسين

امام الزہری سن ٥٦ ھ میں پیدا ہوئے یعنی امام الزہری دس سال کے تھے جب قبه الصخرہ پر تعمیر کی گئی لہذا یعقوبی کی بات صحیح نہیں ہو سکتی

الغرض مسجد عمر وقت کے ساتھ مسجد الاقصی بن گئی اور قبه الصخرہ کو مقام معراج کہا جانے لگا جبکہ اصلا نہ یہ مسجد الاقصی ہے نہ معراج کا مقام ہے  جن روایات میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے معراج کی رات اس   کو دیکھا تو اس سے مراد نہ مسجد عمر ہو سکتی ہے نہ عبد الملک کا قبه الصخرہ کیونکہ یہ بعد کی تعمیرات ہیں  اصل مسجد  الاقصی کا مقام اب  شاید ابد تک مخفی ہی رہے گا کیونکہ اس کا مقصد و غایت فنا ہو گئی و الله اعلم

الصخرہ

قبه الصخرہ  کا اندرونی منظر  اس چٹان کے نیچے غار ہے

well of souls

Well of Souls- sakhrh cave روحوں کا غار

اہل تشیع کی معراج سے متعلق مضطرب روایات

الأمالي – از الصدوق – ص 534 – 538 کی روایت ہے

حدثنا الحسن بن محمد بن سعيد الهاشمي ، قال : حدثنا فرات بن إبراهيم بن فرات الكوفي ، قال : حدثنا محمد بن أحمد بن علي الهمداني ، قال : حدثنا الحسن بن علي الشامي ، عن أبيه ، قال : حدثنا أبو جرير ، قال : حدثنا عطاء الخراساني ، رفعه ، عن عبد الرحمن بن غنم ، …..   ثم مضى حتى إذا كان بالجبل الشرقي من بيت المقدس ، وجد ريحا حارة ، وسمع صوتا قال : ما هذه الريح يا جبرئيل التي أجدها ، وهذا الصوت الذي أسمع ؟ قال : هذه جهنم ، فقال النبي ( صلى الله عليه وآله ) : أعوذ بالله من جهنم . ثم وجد ريحا عن يمينه طيبة ، وسمع صوتا ، فقال : ما هذه الريح التي أجدها ، وهذا الصوت الذي أسمع ؟ قال : هذه الجنة . فقال : أسأل الله الجنة . قال : ثم مضى حتى انتهى إلى باب مدينة بيت المقدس ، وفيها هرقل ، وكانت أبواب المدينة تغلق كل ليلة ، ويؤتى بالمفاتيح وتوضع عند رأسه ، فلما كانت تلك الليلة امتنع الباب أن ينغلق فأخبروه ، فقال : ضاعفوا عليها من الحرس . قال : فجاء رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) فدخل بيت المقدس ، فجاء جبرئيل عليه السلام إلى الصخرة فرفعها ، فأخرج من تحتها ثلاثة أقداح : قدحا من لبن ، وقدحا من عسل ، وقدحا من خمر ، فناوله قدح اللبن فشرب ، ثم ناوله قدح العسل فشرب ، ثم ناوله قدح الخمر ، فقال : قد رويت يا جبرئيل . قال : أما إنك لو شربته ضلت أمتك وتفرقت عنك . قال : ثم أم رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) في مسجد بيت المقدس بسبعين نبيا . قال : وهبط مع جبرئيل ( عليه السلام ) ملك لم يطأ الأرض قط ، معه مفاتيح خزائن الأرض ، فقال : يا محمد ، إن ربك يقرئك السلام ويقول : هذه مفاتيح خزائن الأرض ، فإن شئت فكن نبيا عبدا ، وإن شئت فكن نبيا ملكا . فأشار إليه جبرئيل ( عليه السلام ) أن تواضع يا محمد . فقال : بل أكون نبيا عبدا . ثم صعد إلى السماء ، فلما انتهى إلى باب السماء استفتح جبرئيل ( عليه السلام ) ، ‹ صفحة 536 › فقالوا : من هذا ؟ قال : محمد . قالوا : نعم المجئ جاء فدخل فما مر على ملا من الملائكة إلا سلموا عليه ودعوا له ، وشيعه مقربوها ، فمر على شيخ قاعد تحت شجرة وحوله أطفال ، فقال رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) : من هذا الشيخ يا جبرئيل ؟ قال : هذا أبوك إبراهيم . قال : فما هؤلاء الأطفال حوله ؟ قال : هؤلاء أطفال المؤمنين حوله يغذوهم .

عبد الرحمن بن غنم سے مروی ہے (کہ جبریل آئے اور نبی کو بیت المقدس لے کر گئے )…  یہاں تک کہ بیت المقدس کے ایک مشرقی پہاڑ پر سے گزرے جہاں کی ہوا گرم تھی اور آواز سنی رسول الله نے پوچھا  جبریل ! یہ کیسی بو ہے جو آئی اور جو آواز سنی؟ جبریل نے کہا یہ جہنم ہے – رسول الله صلی الله علیہ و الہ  نے فرمایا اس سے الله کی پناہ – پھر ایک خوشبو آئی اور آواز آئی پوچھا یہ کیا ہے ؟ جبریل نے کہا یہ جنت ہے – آپ صلی الله علیہ و الہ نے فرمایا میں الله سے جنت کا سوال کرتا ہوں – پھر چلے یہاں تک کہ بیت المقدس کے شہر کے دروازے تک پہنچے اور وہاں ہرقل تھا اور شہر کے دروازے تمام رات کو بند رھتے- … پس رسول الله بیت المقدس میں داخل ہوئے اور جبریل صخرہ تک آئے اس کو اٹھایا اور اس کے نیچے سے تین قدح نکالے – ایک قدح دودھ کا تھا ایک شہد کا ایک شراب کا – پس رسول الله نے دودھ پسند کیا اور پیا – پس کہا کہ جبریل بیان کرو- انہوں نے کہا اگر آپ اس شراب سے پی لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی اور اس میں تفرقہ ہوتا –  پھر رسول الله نے ستر انبیاء کی امامت کی  اور کہا جبریل کے ساتھ اترآ ایک فرشتہ جو اس سے پہلے زمین پر نہیں آیا تھا ….. پھر آپ آسمان پر پہنچے اور ایک شیخ پر سے گزرے جن کے ساتھ بچے تھے پوچھا یہ کون شیخ ہیں ؟ کہا گیا ابراہیم آپ کے باپ – رسول الله نے فرمایا اور ان کے ارد گرد یہ بچے ؟ جبریل نے کہا یہ مومنوں کی اولاد ہیں

اس روایت کے مطابق جنت و جہنم دونوں بیت المقدس میں ہیں اور صخرہ سے آپ کو آسمان پر لے جایا گیا اور وہاں تمام انبیاء سے نہیں صرف ٧٠ کی امامت کی

صخرہ  کو اصل مسجد الاقصی بھی بیان کیا گیا ہے

بیت المقدس میں جہنم کا ہونا ایک یہودی قول ہے جس کو ہنوم کی وادی کہا جاتا ہے

اہل تشیع کی ایک دوسری روایت کے مطابق مسجد الاقصی سے مراد بیت المعمور ہے

کتاب  اليقين – السيد ابن طاووس – ص 294 –  میں  علی کی امامت پر روایت ہے جس  کی سند اور متن ہے

حدثنا أحمد بن إدريس قال : حدثنا أحمد بن محمد بن عيسى قال : حدثنا الحسين بن سعيد عن فضالة بن أيوب عن أبي بكر الحضرمي عن أبي عبد الله عليه السلام قال : أتى رجل إلى أمير المؤمنين وهو في مسجد الكوفة وقد احتبى بحمائل سيفه . فقال : يا أمير المؤمنين ، إن في القرآن آية قد أفسدت علي ديني وشككتني في ديني ! قال : وما ذاك ؟ قال : قول الله عز وجل * ( واسئل من أرسلنا من قبلك من رسلنا ، أجعلنا من دون الرحمان آلهة يعبدون ) *   ، فهل في ذلك الزمان نبي غير محمد صلى الله عليه وآله فيسأله عنه ؟ . فقال له أمير المؤمنين عليه السلام : إجلس أخبرك إنشاء الله ، إن الله عز وجل يقول في كتابه : * ( سبحان الذي أسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام إلى المسجد الأقصى الذي باركنا حوله لنريه من آياتنا ) * ، فكان من آيات الله التي أريها محمد صلى الله عليه وآله أنه انتهى جبرئيل إلى البيت المعمور وهو المسجد الأقصى ، فلما دنا منه أتى جبرئيل عينا فتوضأ منها ، ثم قال يا محمد ، توضأ . ‹ صفحة 295 › ثم قام جبرئيل فأذن ثم قال للنبي صلى الله عليه وآله : تقدم فصل واجهر بالقراءة ، فإن خلفك أفقا من الملائكة لا يعلم عدتهم إلا الله جل وعز . وفي الصف الأول : آدم ونوح وإبراهيم وهو وموسى وعيسى ، وكل نبي بعث الله تبارك وتعالى منذ خلق الله السماوات والأرض إلى أن بعث محمدا صلى الله عليه وآله . فتقدم رسول الله صلى الله عليه وآله فصلى بهم غير هائب ولا محتشم . فلما انصرف أوحى الله إليه كلمح البصر : سل يا محمد * ( من أرسلنا من قبلك من رسلنا أجعلنا من دون الرحمان آلهة يعبدون ) * . فالتفت إليهم رسول الله صلى الله عليه وآله بجميعه فقال : بم تشهدون ؟ قالوا : نشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأنت رسول الله وأن عليا أمير المؤمنين وصيك ، وأنت رسول الله سيد النبيين وإن عليا سيد الوصيين ، أخذت على ذلك مواثيقنا  لكما بالشهادة . فقال الرجل : أحييت قلبي وفرجت عني يا أمير المؤمنين

ایک شخص، علی رضی الله عنہ کے پاس آیا اور وہ مسجد کوفہ میں تھے اور ان کی تلوار ان کی کمر سے بندھی تھی – اس شخص نے علی سے کہا اے امیر المومنین قرآن میں آیت ہے جس نے  مجھے اپنے دین میں اضطراب میں مبتلا کیا ہے انہوں نے پوچھا کون سی آیت ہے وہ شخص بولا

  واسئل من أرسلنا من قبلك من رسلنا ، أجعلنا من دون الرحمان آلهة يعبدون

اور پوچھو  پچھلے بھیجے جانے والے رسولوں  میں سے کیا ہم نے  رحمان کے علاوہ کوئی اور الہ بنایا جس کی انہوں نے  عبادت  کی ؟

امام علی نے کہا بیٹھ جاؤالله نے چاہا تو میں بتاتا ہوں- الله نے قرآن میں کہا متبرک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو رات میں مسجد الحرام سے مسجد الاقصی جس کو با برکت بنایا تاکہ اپنی کچھ نشانیاں دکھائے

ایک نشانی جو دکھائی گئی وہ یہ تھی کہ محمد صلی الله علیہ و الہ کو جبریل بیت المعمور لے گئے جو مسجد الاقصی ہے – وہ وضو کا پانی لائے اور جبریل نے اذان دی اور محمد کو کہا کہ آگے آئیے اور امامت کرائیے- فرشتے صفوں میں کھڑے ہوئے اور ان کی تعداد الله ہی جانتا ہے اور پہلی صف میں آدم، عیسیٰ اور ان سے پہلے گزرے انبیاء  تھے – جب نماز سے فارغ ہوئے تو ان کو کہا گیا کہ رسولوں سے پوچھیں کہ کیا انہوں نے الله کے سوا دوسرے خدائوں کی عبادت کی ؟ تو جب انہوں نے پوچھا تو رسولوں نے کہا ہم گواہی دتیے ہیں کہ الله کے سوا کوئی الہ نہیں، آپ الله کے رسول ہیں اور علی امیر المومنین آپ کے وصی ہیں – آپ سید الانبیاء ہیں اور علي،  سيد الوصيين ہیں اس کے بعد انہوں نےعہد کیا  – وہ شخص بولا اے امیر المومنین آپ نے میرے دل کو خوشی دی اور مسئلہ کھول دیا

بحار الأنوار – العلامة المجلسي – ج 18 – ص ٣٩٤ میں  اس  روایت کی سند ہے

 كشف اليقين : محمد بن العباس ، عن أحمد بن إدريس ، عن ابن عيسى ، عن الأهوازي عن فضالة ، عن الحضرمي عن أبي عبد الله ( عليه السلام ) قال : أتى رجل إلى أمير المؤمنين ( عليه السلام ) وهو في مسجد الكوفة

کتاب  تأويل الآيات – شرف الدين الحسيني – ج 2 – ص  ٥٦٤ کے مطابق سند ہے

وروى محمد بن العباس ( رحمه الله ) في سورة الإسراء عن أحمد بن إدريس عن أحمد بن محمد بن عيسى ، عن الحسين بن سعيد ، عن فضالة بن أيوب ، عن أبي بكر الحضرمي ، عن أبي عبد الله عليه السلام قال : أتى رجل إلى أمير المؤمنين عليه السلام وهو في مسجد الكوفة وقد احتبى بحمائل سيفه ، فقال : يا أمير المؤمنين إن في القرآن آية قد أفسدت علي ديني وشككتني في ديني قال : وما ذاك ؟ قال : قول الله عز وجل : ( وسئل من أرسلنا من قبلك من رسلنا أجعلنا من دون الرحمن آلهة يعبدون ) فهل كان في ذلك الزمان نبي غير محمد فيسأله عنه ؟

أحمد بن محمد بن عيسى الأشعري کو   أحمد بن محمد أبو جعفر اور أحمد بن محمد بن عيسى الأشعري القمي بھی کہا جاتا ہے یہ الحسين بن سعيد الأهوازي سے روایت کرتے ہیں مندرجہ بالا تمام کتب میں مرکزی راوی  الحسين بن سعيد ہیں  جو فضالة سے روایت کرتے ہیں  کتاب  معجم رجال الحديث – السيد الخوئي – ج 14 – ص 290 – ٢٩١ کے مطابق

 قال لي أبو الحسن بن البغدادي السوراني البزاز : قال لنا الحسين ابن يزيد السوراني : كل شئ رواه الحسين بن سعيد عن فضالة فهو غلط ، إنما هو الحسين عن أخيه الحسن عن فضالة ، وكان يقول إن الحسين بن سعيد لم يلق فضالة ، وإن أخاه الحسن تفرد بفضالة دون الحسين ، ورأيت الجماعة تروي ‹ صفحة 291 › بأسانيد مختلفة الطرق ، والحسين بن سعيد عن فضالة ، والله أعلم

ابو الحسن نے کہا کہ الحسین بن یزید  نے کہا کہ جو کچھ بھی حسین بن سعید ، فضالة سے روایت کرتا ہے وہ غلط ہے بے شک وہ حسین اپنے بھائی حسن سے اور وہ فضالة سے روایت کرتا ہے اور کہتے تھے کہ حسین کی فضالة

 سے تو ملاقات تک نہیں ہوئی اور ان کا بھائی حسن ، فضالة سے روایت میں منفرد ہے  اور ایک جماعت  اس سے روایت کرتی ہے .. و الله اعلم

عمر رضی الله عنہ کی بنائی مسجد الاقصی اور اموی خلیفہ عبد الملک کے تعمیر شدہ قبه الصخرہ کی اہمیت پر اہل تشیع کا جلوس نکالنا اور اس کے حق میں تقریریں کرنا بھی عجیب  بات ہے- کسی بھی شیعہ امام کا مسجد الاقصی جا کر عبادت کرنا ثابت نہیں ہے

=========

یہ بلاگ چند سال پہلے کا ہے – سن ٢٠١٧ میں یہ ویڈیو یو ٹیوب پر آئی ہے جس کے مطابق اصل مسجد اقصی داود علیہ السلام کے شہر میں تھی آج جہاں کہا جا رہا ہے وہاں نہیں تھی

اصف بن بر خیا کا راز

قرآن میں بعض واقعات کا ذکر ہے جن کی صحیح تعبیر کا علم نہیں دیا گیا مثلا سلیمان علیہ السلام کے دربار میں جب سلیمان نے سوال کیا کہ کون ہے جو ملکہ سبا کا عرش یہاں یروشلم  میں  لے آئے تو

قال عفريت من الجن أنا آتيك به قبل أن تقوم من مقامك وإني عليه لقوي أمين 

قال الذي عنده علم من الكتاب أنا آتيك به قبل أن يرتد إليك طرفك فلما رآه مستقرا عنده قال هذا من فضل ربي ليبلوني أأشكر أم أكفر ومن شكر فإنما يشكر لنفسه ومن كفر فإن ربي غني كري

 عفریت میں سے ایک نے کہا میں لاتا ہوں اس سے پہلے کہ یہ اجلاس برخاست ہو اس پر ایک شخص جس کو کتاب کا علم تھا اس نے کہا میں اس کو پلک جھپکتے میں ہی لاتا ہوں اور یکایک عرش  اہل دربار کے سامنے تھا – سلیمان نے  اس پر الله کا شکر ادا کیا

مقصد یہ تھا کہ جنات کی قوت کو  انسانی علم سے کم تر کیا گیا کہ اگرچہ جنات میں قوت ہے لیکن انسانوں کی طرح  علم مکمل نہیں ہے انسان علم میں ان سے بڑھ کر ہیں- ان کے مقابلے پر سرکش جنات کا  علم  اصل میں سحر و کہانت ہے جس میں انسانوں میں سے بعض ان کی مدد حاصل کرتے ہیں اور یہ شیطانی علوم ہیں

سوره النمل كي اس آیت کی  مختلف فرقوں نے تاویلات کی ہیں

اہل سنت ہوں یا اہل تشیع ، دونوں اپنی تفسیروں میں ایک شخصیت آصف بن برخیا کا ذکر کرتے ہیں

اہل تشیع کی آراء

سلیمان کے دربار کے اس شخص کے بارے میں جس کو کتاب کا علم دیا دیا تھا ، الکافی باب ١٦ کی روایت ہے کہ

محمد بن يحيى وغيره ، عن أحمد بن محمد ، عن علي بن الحكم ، عن محمد بن  الفضيل قال : أخبرني شريس الوابشي ، عن جابر ، عن أبي جعفر عليه السلام قال : إن اسم الله  الأعظم على ثلاثة وسبعين حرفا وإنما كان عند آصف منها حرف واحد فتكلم به فخسف  بالأرض ما بينه وبين سرير بلقيس حتى تناول السرير بيده ثم عادت الأرض كما  كانت أسرع من طرفة عين ونحن عندنا من الاسم الأعظم اثنان وسبعون حرفا ، وحرف  واحد عند الله تعالى استأثر به في علم الغيب عنده ، ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي  العظيم

شريس الوابشي نے جابر سے انہوں نے ابی جعفر علیہ السلام سے روایت کیا کہ

الله کے اسم اعظم کے تہتر ٧٣ حروف ہیں. ان میں سے اصف نے صرف ایک حرف کو ادا کیا تھا کہ اسکے اور ملکہ بلقیس کے عرش کے  درمیان زمین کو دھنسا دیا گیا کہ اس نے تخت تک ہاتھ بڑھا لیا اور زمین واپس اپنی جگہ لوٹ آئی. یہ سب پلک جھپکتے میں ہوا.  ہمارے پاس اسم اعظم کے بہتتر ٧٢ حروف ہیں . الله نے  بس علم  غیب میں  ہم سے ایک حرف  پوشیدہ رکھا ہے

کتاب بصائر الدرجات کی روایت ہے

وعن ابن بكير، عن أبي عبد الله [عليه السلام]، قال: كنت عنده، فذكروا سليمان وما أعطي من العلم، وما أوتي من الملك.

 فقال لي: وما أعطي سليمان بن داود؟ إنما كان عنده حرف واحد من الاسم الأعظم، وصاحبكم الذي قال الله تعالى: قل: كفى بالله شهيداً بيني وبينكم ومن عنده علم الكتاب. وكان ـ والله ـ عند علي [عليه السلام]، علم الكتاب.

 فقلت: صدقت والله جعلت فداك

ابن بکیر ابی عبد الله امام جعفر سے روایت کرتے ہیں  کہ میں ان کے پاس تھا پس سلیمان اور ان کو جو علم عطا ہوا اس کا ذکر ہوا اور جو فرشتہ لے کر آیا  پس  انہوں (امام جعفر) نے مجھ سے کہا اور سلیمان بن داود کو کیا ملا ؟ اس کے پاس تو الاسم الأعظم کا صرف ایک ہی حرف تھا اور ان کے صاحب جن کے لئے الله تعالی کہتا ہے : قل كفى بالله شهيداً بيني وبينكم ومن عنده علم الكتاب الرعد: 43  اور وہ تو الله کی قسم ! علی علیہ السلام کے پاس ہے علم الکتاب

تفسير القمي ج1 ص368 کے مطابق

عن أبي عبد الله [عليه السلام]، قال: الذي عنده علم الكتاب هو أمير المؤمنين

ابی عبد الله سے روایت ہے کہ  قال الذي عنده علم الكتاب  یہ امیر المومنین (علی) ہیں

کہتے ہیں سلیمان علیہ السلام کے دربار میں اس  شخص کا نام اصف بن برخیا تھا  یعنی علی کرم الله وجھہ  اس دور میں اصف بن برخیا   کی شکل میں تھے

اٹھارہ ذی الحجہ یعنی عید الغدیر کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے کتاب  السرائر – ابن إدريس الحلي – ج 1 – ص 418 میں لکھتے ہیں

وفيه أشهد سليمان بن داود سائر رعيته على استخلاف آصف بن برخيا وصيه ، وهو يوم عظيم ، كثير البركات

اور اس روز سلیمان بن داود اور تمام عوام کو اصف بن برخیا  کی خلافت کی وصیت کی اور وہ دن بہت عظیم اور بڑی برکت والا ہے

کتاب الإمامة والتبصرة از ابن بابويه القمي  میں نے اصف کی خلافت کا ذکر کیا ہے

کتاب  الأمالي – الشيخ الصدوق – ص 487 – 488 میں  اور كمال الدين وتمام النعمة از الشيخ الصدوق  ص ٢١٢ میں ہے

وأوصى داود ( عليه السلام ) إلى سليمان ( عليه السلام ) ، وأوصى سليمان ( عليه السلام ) إلى آصف بن برخيا ، وأوصى آصف بن برخيا إلى  زكريا ( عليه السلام 

 اور داود نے سلیمان علیہ السلام کی وصیت کی اور سلیمان نے اصف بن برخیا کی وصیت کی اور اصف بن برخیا نے زکریا علیہ السلام کی وصیت کی

کتاب تحف العقول – ابن شعبة الحراني – ص 476 – 478 کے مطابق  يحيى بن أكثم  نے علی بن محمد الباقر سے سوال کیا

قلت : كتب يسألني عن قول الله : ” قال الذي عنده علم من الكتاب أنا آتيك به قبل أن يرتد إليك طرفك  ” نبي الله كان محتاجا إلى علم آصف  ؟

میں يحيى بن أكثم نے پوچھا :   (میرے نصیب میں ) لکھا ہے کہ میں سوال کروں گا اللہ کے قول قال الذي عنده علم من الكتاب أنا آتيك به قبل أن يرتد إليك طرفك  پر  کہ   الله کا نبی کیا اصف کا محتاج تھا ؟

امام الباقر نے جواب دیا

سألت : عن قول الله جل وعز : ” قال الذي عنده علم من الكتاب ” فهو آصف بن برخيا ولم يعجز سليمان عليه السلام عن معرفة ما عرف آصف لكنه صلوات الله عليه أحب أن يعرف أمته من الجن والإنس أنه الحجة من بعده ، وذلك من علم سليمان عليه السلام أودعه عند آصف بأمر الله ، ففهمه ذلك لئلا يختلف عليه في إمامته ودلالته كما فهم سليمان عليه السلام في حياة داود عليه السلام لتعرف نبوته وإمامته من بعده لتأكد الحجة على الخلق

تم نے سوال کیا کہ قول الله جل وعز : ” قال الذي عنده علم من الكتاب پر تو وہ اصف بن برخیا ہیں اور سلیمان عاجز نہیں تھے اس معرفت میں جو اصف کو حاصل تھی لیکن آپ صلوات الله عليه نے اس کو پسند کیا کہ اپنی جن و انس کی امت پر اس کو حجت بنا دیں اس کے بعد اور یہ سلیمان کا علم تھا جو اصف کو ان سے عطا ہوا تھا-  اس کا فہم دینا  تھا کہ بعد میں امامت و دلالت پر کہیں (بنو اسرائیل) اختلاف نہ کریں جیسا ان سلیمان  کے لئے  داود کی  زندگی میں  (لوگوں کا ) فہم تھا کہ انکی نبوت و امامت کو مانتے تھے تاکہ خلق پر حجت کی تاکید ہو جائے

یعنی آصف اصل میں سلیمان علیہ السلام کے خلیفہ ہونے کو تھے تو ان کو ایک علم دیا گیا تاکہ عوام میں ان کی دھاک بٹھا دی جائے اور بعد میں کوئی اس پر اختلاف نہ کر سکے

کتاب مستدرك الوسائل – الميرزا النوري الطبرسی – ج 13 – ص 105 میں ہے کہ

 العياشي في تفسيره : عن أبي بصير ، عن أبي جعفر ( عليه السلام ) قال : ” لما هلك سليمان ، وضع إبليس السحر ، ثم كتبه في كتاب وطواه وكتب على ظهره : هذا ما وضع آصف بن برخيا للملك سليمان بن داود ( عليهما السلام ) من ذخائر كنوز العلم ، من أراد كذا وكذا فليقل كذا وكذا ، ثم دفنه تحت السرير ، ثم استثاره لهم ، فقال الكافرون : ما كان يغلبنا سليمان الا بهذا ، وقال المؤمنون : هو عبد الله ونبيه ، فقال الله في كتابه : ( واتبعوا ما تتلوا الشياطين على ملك سليمان )   اي : السحر

العياشي اپنی تفسیر میں کہتے ہیں عن أبي بصير ، عن أبي جعفر ( عليه السلام ) سے کہ امام ابی جعفر نے کہا جب سلیمان ہلاک ہوئے تو ابلیس نے سحر لیا اور ایک کتاب لکھی  ..(اور لوگوں کو ورغلایا). یہ وہ کتاب تھی جو اصف کو سلیمان سے حاصل ہوئی جو علم کا خزانہ ہے جو اس میں یہ اور یہ کہے اس کو یہ یہ ملے گا پھر اس سحر کی کتاب کو تخت کے نیچے دفن کر دیا پھر اس کو (دھوکہ دینے کے لئے واپس) نکالا اور کافروں نے  کہا ہم پر سلیمان غالب نہیں آ سکتا تھا  سوائے اس (جادو) کے (زور سے) اور ایمان والوں نے کہا وہ تو الله کے نبی تھے پس الله نے اپنی کتاب میں کہا اور لگے وہ (یہود)  اس علم کے پیچھے جو شیاطین ملک سلیمان کے بارے میں پڑھتے تھے یعنی جادو

یعنی شیعوں کے نزدیک اصف بن برخیا  اصل میں سلیمان علیہ السلام کے امام بنے اور وہ ایک خاص علم رکھتے تھے بعض کے نزدیک علی رضی الله عنہ ہی تھے اور اس دور  میں وہ اصف بن بر خیا کہلاتے تھے یہاں تک کہ اصف نے مریم علیہ السلام کے کفیل زکریا علیہ السلام کے وصی ہونے کی وصیت کی  گویا اصف کئی ہزار سال تک زندہ ہی تھے پتا نہیں  شیعوں کے نزدیک اب وفات ہو گئی یا نہیں

اہل سنت  کی آراء

تفسیر السمرقندي یا تفسير بحر العلوم أز أبو الليث نصر بن محمد بن أحمد بن إبراهيم السمرقندي (المتوفى: 373هـ) میں ہے

ويقال: إن آصف بن برخيا لما أراد أن يأتي بعرش بلقيس إلى سليمان- عليه السلام- دعا بقوله يا حي يا قيوم- ويقال: إن بني إسرائيل، سألوا موسى- عليه السلام- عن اسم الله الأعظم فقال لهم: قولوا اهيا- يعني يا حي- شراهيا- يعني يا قيوم-

اور کہا جاتا ہے جب اصف بن برخیا نے بلقیس کا عرش سلیمان کے پاس لانے کا ارادہ کیا تو انہوں نے کہا يا حي يا قيوم- اور کہا جاتا ہے نبی اسرئیل نے موسی سے اسم الأعظم کا سوال کیا تو ان سے موسی نے کہا کہو اهيا- يعني يا حي- شراهيا- يعني يا قيوم-

تفسیر القرطبی میں ہے

وَقَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ” إِنَّ اسْمَ اللَّهِ الْأَعْظَمَ الَّذِي دَعَا بِهِ آصَفُ بْنُ بَرْخِيَا يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ” قِيلَ: وَهُوَ بِلِسَانِهِمْ، أَهَيَا شَرَاهِيَا

اور عائشہ رضی الله عنہا  کہتی ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا وہ اسم اللَّهِ الْأَعْظَمَ جس سے اصف نے دعا کی وہ يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ ہے  ان کی زبان میں تھا َاهَيَا شَرَاهِيَا

اهَيَا شَرَاهِيَا کا ذکر شوکانی کی فتح القدیر اور تفسیر الرازی میں بھی ہے

اس سے قطع النظر کہ وہ الفاظ کیا تھے جو بولے گئے جو بات قابل غور ہے وہ اصف بن برخیا کا ذکر ہے جو اہل سنت کی کتب میں بھی ہے

صوفیاء نے اس آیت سے ولی کا تصور نکالا کہ ولی نبی سے بڑھ کر ہے اور محی الدین ابن العربی کی کتب میں اس قول کو بیان کیا گیا اور صوفیاء میں اس کو تلقہا بالقبول کا درجہ حاصل ہوا

پردہ اٹھتا ہے

اصف بن برخیا کا کردار اصلا یمنی یہودیوں کا پھیلایا ہوا ہے جو اغلبا عبد الله ابن سبا سے ہم کو ملا ہے اگرچہ اس بات کی کوئی صریح دلیل نہیں ہے لیکن شواہد بتاتے ہیں کہ اصل میں چکر کچھ اور ہی ہے

 اصف بن برخیا کا ذکر بائبل کی کتاب تواریخ  میں ہے

Asaph the son of Berechiah, son of Shimea

اس نام کا ایک شخص اصل میں غلام بنا جب اشوریوں نے مملکت اسرایل پر حملہ کیا- سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد نبی اسرائیل میں پھوٹ پڑی اور ان کی مملکت دو میں تقسیم ہو گئی ایک شمال میں تھی جس کو اسرئیل کہا جاتا تھا اور دوسری جنوب میں تھی جس میں یروشلم تھا اور اس کو یہودا کہا جاتا تھا- سلیمان علیہ السلام کی وفات کے کئی سو سال بعد ختم ہونے والی ان دو  ریاستوں میں بادشاہت رہی اور  کہیں بھی اتنی طویل مدت تک زندہ رہنے والے شخص کا ذکر ملتا

سلیمان علیہ السلام (وفات ١٠٢٢ ق م) کے بعد ان کے بیٹے رهوبم خلیفہ ہوئے اور اس کے بعد مملکت دو حصوں میں ٹوٹ گئی جس میں شمالی سلطنت کو ٧١٩  قبل مسیح میں اشوریوں نے تباہ کیا – یعنی مفسرین کے مطابق ٣٠٣ سال بعد جب اشوریوں نے غلام بنایا تو ان میں سلیمان کے درباری اصف بن برخیا بھی تھے جو ایک عجیب بات ہے

شمال میں اسرائیل  میں دان اور نفتالی کے یہودی  قبائل رہتے تھے جو اشوریوں کے حملے کےبعد یمن منتقل ہوئے اور بعض وسطی ایشیا میں آرمینیا وغیرہ میں  – دان اور نفتالی قبائل کا رشتہ اصف بن برخیا سے تھا کیونکہ وہ  مملکت اسرئیل کا تھا اور وہیں سے غلام بنا اور چونکہ یہ ایک اہم شخصیت ہو گا اسی وجہ سے اس کے غلام بننے کا خاص طور پر بائبل کی کتاب میں ذکر ہے-

ابن سبا بھی یمن کا ایک یہودی تھا جو شاید انہی قبائل سے ہو گا جن کا تعلق دان و نفتالی قبائل سے تھا- پر لطف بات ہے کہ ان میں سے ایک قبیلے  کا نشان ترازو  تھا اور عدل کو اہمیت دیتا تھا جو ان کے مطابق توحید کے بعد سب سے اہم رکن تھا – شمال میں امراء پر جھگڑا رہتا تھا اور ان پر قاضی حکومت کرتے تھے ایک مرکزی حکومت نہیں تھی یہاں تک کہ آج تک  ان کے شہر کو

Tel Dan

یا

Tel Qadi

کہا جاتا ہے

یعنی اس قبیلہ میں امراء کے خلاف زہر اگلنا اور عدل کو توحید کے بعد سب سے اہم سمجھنا پہلے سے موجود ہے اور ابن سبا نے انہی فطری اجزا کو جمع کیا اور اس پر مصر میں  اپنا سیاسی منشور مرتب کیا

اهَيَا شَرَاهِيَا بھی اصلا عبرانی الفاظ ہیں جو یمنی یہودیوں نے اصف سے منسوب کیے اور یہ توریت سے لئے گئے جس میں موسی علیہ السلام  اور الله تعالی کا مکالمہ درج ہے – توریت کا یہ حصہ یقینا موسی علیہ السلام کی وفات کے بعد کا ہے کیونکہ اصلی توریت  میں احکام درج تھے  لہذا اهَيَا شَرَاهِيَا کو اصلا الحی القیوم کہنا راقم کے نزدیک ثابت نہیں ہے

اصف بن بر خیا اصل میں یہود کی جادو کی کتب کا راوی ہے اور اس سے منسوب ایک کتاب کتاب الاجنس ہے جس میں انبیاء پر جادو کی تہمت ہے اس قسم کے لوگ جن پر اشوری قہر الہی بن کر ٹوٹے ان کو مفسرین نے سلیمان علیہ السلام کا درباری بنا کر ایک طرح سے  جادو کی کتاب  کے اس راوی کی ثقاہت قبول کر لی

 بائبل ہی میں یہ بھی ہے کہ اصف نام کا ایک شخص داود علیہ السلام کے دور میں  ہیکل میں موسیقی کا ماہر تھا  – کتاب سلاطین  میں پہلے ہیکل میں موسیقی کا کوئی ذکر نہیں جبکہ کتاب تواریخ میں اس کا ذکر ہے لہذا  اس پر اعتراض اٹھتا ہے کہ موسیقی کا عبادت میں دخل بعد میں کیا گیا ہے جو اغلبا عزیر اور نحمیاہ نے کیا ہو گا اور انہوں نے جگہ جگہ اصف کا حوالہ موسیقی کے حوالے سے شامل کیا

داود علیہ السلام اسلامی روایات کے مطابق موسیقی اور سازوں کی مدد سے عبادت نہیں کرتے تھے یہ یقینا اہل کتاب کا اپنے  دین میں اضافہ ہے اور اس میں انہوں نے اصف نام کا ایک شخص گھڑا جو موسیقار تھا اور  مسجد سلیمان ہر وقت موسیقی سے گونجتی رہنے کا انہوں نے دعوی کیا  اور اس کو سند دینے کے لئے اصف کو  پروہتوں کے قبیلہ لاوی سے بتایا پھر اس کی مدت  عمر کو اتنا طویل کہا کہ وہ داود و سلیمان سے ہوتا ہوا اشوریوں کا قیدی تک بنا

یہ سب داستان بائبل کی مختلف کتب میں ہے جس کو ملا کر آپ کے سامنے پیش کیا گیا ہے

اسلامی کتب میں الفہرست ابن ندیم میں بھی اس کا ذکر ہے یہاں بات کو بدل دیا ہے

وكان يكتب لسليمان بن داود آصف بن برخيا

اور اصف بن برخیا سلیمان کے لئے لکھتے تھے

یعنی اصف بن بر خیا ایک کاتب تھے نہ کہ موسیقار

اصف کو یہود ایک طبیب بھی کہتے ہیں اور اس سے منسوب ایک کتاب سفرریفوط  ہے جس میں بیماریوں کا ذکر ہے

زبور کی مندرجہ ذیل ابیات کو اصف کی ابیات کہا جاتا ہے

Asaph Psalm 50, 73, 74,75,76,77,78,79,80,81,82,83

گویا خود یہود کے اس پر اتنے اقوال ہیں کہ اس کی شخصیت خود ان پر واضح نہیں

یہود مسلم تعلقات اور روایات

متشدد تنظیمیں  جن کے خیال میں اس صدی میں قیامت آ جائے گی اور دجال اور عیسی کا معرکہ بھی ہو جائے گا انہوں نے کتب ستہ اور اس سے باہر کی کتب کو کھنگال کر وہ تمام روایات جو بین المذاھب شدت پسندی پر اکساتی ہوں ان کو جمع کر دیا ہے –اس قسم کی کتب ایک منیول کی طرح تشدد پر اکسا رہی ہیں اور   عصر حاضر میں مسلمانوں میں تشدد کی جو لہر چلی ہے اس کو روکنے کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں –  متشدد عناصر عرب علماء سے درس لے کر خود کش حملے کر رہے ہیں اور دنیا کے مسائل کا کوئی حل ان کے مطابق ڈائلاگ سے ممکن نہیں بلکہ تمام فساد کی جڑ غیر مسلم اقوام خاص کر یہود کو قرار دینا ایک معمول بن چکا ہے

ضروری ہے کہ یہود مسلم تعلقات پر بحث کی جائے تاکہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور اصحاب رسول کا منہج سمجھا جا سکے اور صحیح و ضعیف کو پرکھا جائے – یہود اپنے آپ کو دور نبوی میں بڑے شوق سے عیسیٰ کا قاتل کہتے تھے اور عیسائیوں سے ان کی بنتی نہ تھی- اس دور میں  یہ قرآن تھا جس نے ان سے اس بات کو اٹھایا کہ یہود نے عیسیٰ علیہ السلام کا قتل  نہیں کیا – لیکن افسوس وہ اس بات کو سمجھ نہ سکے یہاں تک کہ آج یہودی کتابوں میں لکھ رہے ہیں کہ ہم نے نہیں بلکہ رومیوں نے عیسیٰ کا قتل کیا

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے وعظ  و نصیحت کی دقت کو وہ سمجھ نہ سکے اور اپنے مولویوں کے چکر میں رہے یہاں تک کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر دس یہودی ایمان لے آئیں تو تمام یہودی ایمان لے آئیں گے

افسوس یہ موقعہ نہ آ سکا اور قرآن کہتا ہے کہ انہوں نے اپنے احبار کو رب بنا لیا

اس پس منظر کو متشدد یہودیوں نے خوب اچھالا کہ ہم سے مدینہ میں زبردستی غلط سلط عقائد منوائے جا نے کا مطالبہ تھا اور اہانت رسول کرنے میں  انہوں نے کوئی شرم محسوس نہ کی دوسری طرف ترکی بہ ترکی کی روایت پر بعض مسلمانوں نے بھی خود کش حملوں کا جواز پیدا کیا اور اسطرح پوری دنیا میں ایک بے کلی کی کیفیت نے جنم لیا – نصیحت تو اہل تقوی کو ہی کارگر ہوتی ہے اس بنیاد پر کچھ روایات کو سمجھنا ضروری ہے

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَيْمُونٍ، حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، قَالَ: آخِرُ مَا تَكَلَّمَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَخْرِجُوا يَهُودَ أَهْلِ الْحِجَازِ، وَأَهْلِ نَجْرَانَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَاعْلَمُوا أَنَّ شِرَارَ النَّاسِ الَّذِينَ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ

ابو عبيدة بن الجراح  کہتے ہیں کہ آخری کلام جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہا وہ یہ تھا کہ یہود کو حجاز میں سے نکال دو

اس کی سند میں سعد  بن سَمُرَة بن جُنْدَب الفَزَاري ہے – کتاب  الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة از ابن قُطْلُوْبَغَا السُّوْدُوْنِي   (المتوفى: 879هـ)  میں سعد  بن سَمُرَة بن جُنْدَب الفَزَاري کے لئے  کہتے ہیں

قلت: حديثه عن أبيه عن أبي عبيدة رَفَعَهُ: «أخرِجُوا اليهود من الحجاز

میں ابن قُطْلُوْبَغَا کہتا ہوں:  اس کی حدیث اپنے باپ سے ان کی ابو عبیدہ سے اس نے رفع کی ہے

ابن قُطْلُوْبَغَا  کا مطلب ہے کہ سند ابوعبیدہ رضی الله عنہ تک نہیں جاتی

مزید براں اس روایت کی تمام  اسناد میں إبراهيم بن ميمون الصائغ المروزي کا تفرد  ہے اس کو ابن معين  نے ثقه کہا  أبو زرعة نے کہا  لا بأس به کوئی برائی نہیں اور  أبو حاتم لا يحتج به ، نا قابل دلیل کہا ہے- لہذا یہ ضعیف روایت ہے

روایت سراسر غلط ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے آخری الفاظ ہم تک صحیح اسناد سے پہنچ چکے ہیں کہ انہوں نے قرآن کی آیت پڑھی اور کہا اے الله تو ہی رفیق الاعلی ہے

صحیح ابن حبان اور صحیح مسلم کی روایت ہے رسول الله  صلى الله عليه وسلم نے فرمایا

  لأخرجن اليهود والنصارى من جزيرة العرب حتى لا أدع إلا مسلماً” (رواه مسلم/كتاب الجهاد برقم (1767

میں  یہود و نصاری کو جزیرہ العرب سے نکال دوں گا یہاں تک کہ اس میں صرف مسلمان ہوں گے

اس کی سند میں مدلس أبو الزبير  محمد بن مسلم بن تُدرُس المكي ہے

كتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از  صلاح الدين   العلائي (المتوفى: 761هـ)   کے مطابق

محمد بن مسلم أبو الزبير المكي مشهور بالتدليس قال سعيد بن أبي مريم ثنا الليث بن سعد قال جئت أبا الزبير فدفع لي كتابين فانقلبت بهما ثم قلت في نفسي لو أني عاودته فسألته اسمع هذا كله من جابر قال سألته فقال منه ما سمعت ومنه ما حدثت عنه فقلت له اعلم لي على ما سمعت منه فاعلم لي على هذا الذي عندي ولهذا توقف جماعة من الأئمة عن الاحتجاج بما لم يروه الليث عن أبي الزبير عن جابر وفي صحيح مسلم عدة أحاديث مما قال فيه أبو الزبير عن جابر وليست من طريق الليث وكأن مسلما رحمه الله اطلع على أنها مما رواه الليث عنه وإن لم يروها من طريقه والله أعلم

محمد بن مسلم أبو الزبير المكي تدلیس کے لئے مشھور ہیں – سعيد بن أبي مريم نے لیث بن سعد سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا میں ابو الزبیر کے پاس گیا اس نے دو کتابیں دیں ان کو لے لر واپس آیا – پھر میں نے  دل میں کہا جب اس کے پاس جاؤں گا تو اس سے پوچھوں گا کہ کیا یہ سب اس نے جابر بن عبد الله رضی الله عنہ سے سنا بھی ہے ؟ لیث نے ابو الزبیر سے (واپس جا کر) سوال کیا تو اس نے جواب میں کہا:  اس میں ہے جو ان سے سنا اور وہ بھی جو میں نے  ان سے روایت کر دیا ہے- میں (لیث) نے اس سے کہا: مجھے اس کا علم دو جو تم نے سنا ہو-  پس اس نے صرف وہ بتایا اور یہ اب میرے پاس ہے-اس وجہ سے ائمہ (حدیث) کی جماعت نے اس (ابو الزبیر) سے دلیل نہیں لی سوائے اس کے کہ جو لیث کی سند سے ہو – اور صحیح مسلم  میں اس کی چند روایات ہیں جس میں ابو الزبیر عن جابر کہا ہے جو لیث کی سند سے نہیں اور امام مسلم اس بات سے واقف تھے کہ اس کی لیث کی سند والی روایات کون سی ہیں ، انہوں نے اس کو اس طرق سے روایت نہیں کیا الله آعلم

یعنی یہ امام مسلم کا مخصوص عمل ہے کہ انہوں نے ائمہ حدیث کے خلاف جا کر ابو الزبیر کی جابر سے وہ روایت بھی لے لی ہیں جو لیث کے طرق سے نہ تھیں- اس سے معلوم ہوا کہ یہ  مخصوص روایت تمام محدثین کے نزدیک صحیح نہیں تھی

مسند البزار کی سند ہے

وَحَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ قُمَيْرٍ قَالَ: نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْكَرِيمِ الصَّنْعَانِيُّ قَالَ: نا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَقِيلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ: أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَأُخْرِجَنَّ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ حَتَّى لَا أَدَعَ فِيهَا إِلَّا مُسْلِمًا» وَلَا نَعْلَمُ رَوَى وَهْبُ بْنُ مُنَبِّهٍ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ عُمَرَ. إِلَّا هَذَا الْحَدِيثَ وَقَدْ رَوَى وَهْبٌ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَادِيثَ صَالِحَةً

وھب بن منبہ کہتے ہیں کہ جابر رضی الله عنہ نے عمر رضی الله عنہ سے روایت کیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے … پھر یہ روایت بیان کی

جامع التحصيل في أحكام المراسيل از  صلاح الدين  العلائي (المتوفى: 761هـ) کہتے ہیں

وهب بن منبه قال بن معين لم يلق جابر بن عبد الله إنما هو كتاب وقال في موضع آخر هو صحيفة ليست بشيء

وھب بن منبہ : ابن معین کہتے ہیں اس کی جابر بن عبد الله سے ملاقات نہیں ہوئی – بلکہ ایک کتاب تھی اور ایک دوسرے مقام پر کہا یہ کتاب کوئی چیز نہیں

مسند البزار کی روایت بھی ضعیف ہے

المعجم الكبير طبراني کی روایت ہے

حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى السَّاجِيُّ، ثنا بُنْدَارٌ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ صَالِحٍ النَّرْسِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَا: ثنا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، ثنا أَبِي، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَخْرِجُوا الْيَهُودَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ

أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ کہتے ہیں کہ ام سلمہ رضی الله عنہا نے فرمایا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہود کو جزیرہ العرب سے نکال دو

اسکی سند میں يَحْيَى بنُ أَيُّوْبَ أَبُو العَبَّاسِ الغَافِقِيُّ ہے جن  کے لئے  ابو حاتم کہتے ہیں  أَبُو حَاتِمٍ: وَمَحَلُّهُ الصِّدْقُ، وَلاَ يُحْتَجُّ بِهِ ان کا مقام صدق ہے اور  ناقابل دلیل ہے – نسائی ان کو قوی نہیں کہتے ہیں الدارقطني کہتے ہیں  في بعض حديثه اضطراب سيء الحفظ ان کی بعض احادیث مضطرب ہیں اور خراب حافظہ کے حامل ہیں ابن سعد کہتے ہیں  منكر الحديث ہے

لہذا روایت ضعیف ہے

موطآ امام مالک کی روایت ہے

 وَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلى الله عَلَيه وَسَلم قَالَ لا يجتمع دينان في جزيرة العرب

امام الزہری نے کہا کہ  نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا عرب میں دو دین جمع نہ ہوں گے

اس کی سند منقطع ہے – امام الزہری سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم تک کی سند نہیں ہے

امام مالک اس کے ذیل میں کہتے ہیں

 قَالَ مَالِك: وَقَدْ أَجْلَى عُمَر بْنُ الخَطَّابِ يَهُودَ نَجْرَانَ وَفَدَكَ. اور عمر نے نجران اور فدک کے یہود کو جلا وطن کیا

امام مالک نے وضاحت کی کہ عمر نے (صرف) نجران اور فدک (خیبر)  کے یہود کو جلاوطن کیا نہ کہ تمام جزیرہ عرب کے یہود کو-  عرب میں یمن شامل ہے اس میں یہود آج تک رہ رہے ہیں

شرح صحیح المسلم میں النووی کہتے ہیں

وَالصَّحِيحُ الْمَعْرُوفُ عَنْ مَالِكٍ أَنَّهَا مَكَّةُ وَالْمَدِينَةُ واليمامة وَالْيَمَامَةُ وَالْيَمَنُ 

اور صحیح و معروف امام مالک سے ہے کہ جزیرہ العرب سے مراد مکہ مدینہ یمامہ اور یمن ہے

مصنف ابن ابی شیبه کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: «لَا يَتْرُكُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى بِالْمَدِينَةِ فَوْقَ ثَلَاثٍ قَدْرَ مَا يَبِيعُوا سِلْعَتَهُمْ»، وَقَالَ: «لَا يَجْتَمِعُ دِينَانِ فِي جَزِيرَةِ الْعَرَبِ»

عمر رضی الله عنہ نے کہا … عرب میں دو دین جمع نہ ہوں گے

کتاب الأموال لابن زنجويه کی روایت ہے کہ یہ عمر رضی الله کی رائے تھی نہ کہ حدیث رسول  ہے

أنا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ، أَخْرَجَ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى وَالْمَجُوسَ مِنَ الْمَدِينَةِ، وَضَرَبَ لِمَنْ قَدِمَهَا مِنْهُمْ أَجَلًا، إِقَامَةُ ثَلَاثِ لَيَالٍ قَدْرَ مَا يَبِيعُونَ سِلَعَهُمْ، وَلَمْ يَكُنْ يَدَعْ أَحَدًا مِنْهُمْ يُقِيمُ بَعْدَ ثَلَاثِ لَيَالٍ، وَكَانَ يَقُولُ: «لَا يَجْتَمِعُ دِينَانِ فِي جَزِيرَةِ الْعَرَبِ

ابن عمر کہتے ہیں عمر رضی اللہ نے یہود اور نصآری اور مجوس کو مدینہ سے نکال دیا اور ان کو پابند کیا کہ تین رات کی مقدار مدینہ میں بزنس کریں اور اس کے بعد تین دن سے زیادہ کوئی نہ رکے اور کہتے کہ عرب میں دو دین جمع نہ ہوں گے

طحآوی مشکل الاثآر میں کہتے ہیں

قَالَ: أَبُو عُبَيْدَةَ جَزِيرَةُ الْعَرَبِ بَيْنَ حَفْرِ أَبِي  مُوسَى إِلَى أَقْصَى الْيَمَنِ فِي الطُّولِ , وَأَمَّا الْعَرْضُ فَمَا بَيْنَ رَمْلِ يَبْرِينَ إِلَى مُنْقَطَعِ السَّمَاوَةِ قَالَ: وَقَالَ الْأَصْمَعِيُّ جَزِيرَةُ الْعَرَبِ مِنْ أَقْصَى عَدَنَ أَبْيَنَ إِلَى رِيفِ الْعِرَاقِ فِي الطُّولِ , وَأَمَّا الْعَرْضُ فَمِنْ جُدَّةَ وَمَا وَالِاهَا مِنْ سَاحِلِ الْبَحْرِ إِلَى أَطْرَارِ الشَّامِ

ابوعبیدہ نے کہا جزیرہ العرب حفر ابو موسی سے لے کر دور یمن تک طول میں ہے اور … الْأَصْمَعِيُّ نے کہا کہ عدن یمن سے لے کر عراق کے ملک تک ہے

سنن ابی داود کی روایت ہے

حدَّثنا محمودُ بن خالدٍ، حدَّثنا عمرُ – يعني ابنَ عبد الواحد قال: قال سعيدٌ -يعني ابنَ عبد العزيز-: جزيرةُ العرب ما بين الوادي إلى أقصى اليمن إلى تُخُومِ العِراق إلى البحر

سعيد بن عبد العزيز التّنوخي الدمشقى کہتے ہیں کہ جزیرہ العرب یمن سے لے کر عراق کی سرحد تک ہے سمندر تک

صحیح بخاری میں ہے

وَقَالَ يَعْقُوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ، سَأَلْتُ المُغِيرَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ جَزِيرَةِ العَرَبِ: فَقَالَ مَكَّةُ، وَالمَدِينَةُ، وَاليَمَامَةُ، وَاليَمَنُ، وَقَالَ يَعْقُوبُ وَالعَرْجُ أَوَّلُ تِهَامَةَ

يَعْقُوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ کہتے ہیں میں نے المُغِيرَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ سے جزیرہ العرب پر سوال کیا انہوں نے کہا مکہ مدینہ یمامہ یمن

یعنی یمن بھی جزیرہ العرب کا حصہ ہے اب یہ کیسے ممکن ہے کہ اگر یہود کو جزیرہ العرب سے نکالنے کا کوئی حکم نبوی تھا تو اس پر ابو بکر رضی الله عنہ کے دور میں عمل نہ ہوا بلکہ عمر رضی الله عنہ نے اس پر واجبی عمل کیا ؟ – اوپر عمر رضی الله عنہ کے اقوال دیے گئے ہیں کہ انہوں نے مدینہ میں یہود کے تین دن سے اوپر رہنے پر پابندی لگا دی تھی اور وہ شاید اس کو تمام عرب پر لگانا چاھتے تھے لیکن ایسا کر نہ سکے-

عثمان رضی الله عنہ نے بھی یمن کے یہود کو چھوڑ دیا بلکہ عبد الله ابن سبا جس نے عثمان رضی الله عنہ کے دور میں فتنہ پردازی کی وہ بھی یمن سے تھا

مسند احمد کی روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے علی رضی الله عنہ کو مرض وفات میں نصیحت کی کہ

جب تم خلیفہ بنو تو یہود کو یمن سے نکال دینا

 اس کی سند میں قيس ابن الربيع الأسدي الكوفي متکلم فیہ راوی ہے

وقال ابن هانىء: وسئل (يعني أبا عبد الله) عن قيس بن الربيع؟ فقال: ليس حديثه بشيء. «سؤالاته» (2267

ابن ہانی کہتے ہیں میں نے امام احمد سے قیس پر سوال کیا کہا اس کی حدیث کوئی چیز نہیں 

وقال المروذي: سألته (يعني أبا عبد الله) عن قيس بن الربيع، فلينه

مروزی کہتے ہیں امام احمد سے قیس پر سوال کیا تو انہوں نے کہا اس میں کمزوری ہے

  تاریخ کے مطابق علی رضی الله عنہ خود مدینہ چھوڑ کر کوفہ منتقل ہوئے یعنی جزیرہ العرب (جو بقول روایات  عمر نے یہود سے خالی کرا دیا تھا  )   اس کو چھوڑ کر یہود جہاں رہتے تھے (یعنی عراق و بابل) وہاں منتقل ہو گئے

یہ تاریخی شواہد ثابت کرتے ہیں کہ اس طرح کا کوئی حکم نبوی نہ تھا اگر ہوتا تو خلفا اربع سب سے پہلے اس پر عمل کرتے-

سوال ہے کیا کوئی وصیت رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے؟

صحیح بخاری کی روایت ہے

طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى – رضي الله عنهما -: هَلْ أَوْصَى رَسُولُ اللهِ – صلى الله عليه وسلم -؟ , فَقَالَ: لَا , قُلْتُ: كَيْفَ كُتِبَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ الْوَصِيَّةُ؟ , أَوْ فَلِمَ أُمِرُوا بِالْوَصِيَّةِ؟ , قَالَ: ” أَوْصَى بِكِتَابِ اللهِ – عزَّ وجل

طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ کہتے ہیں میں نے صحابی رسول عَبْدَ اللهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى رضی الله عنہ سے سوال کیا کہ کیا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے وصیت کی ؟ انہوں نے کہا نہیں میں نے کہا کیسے جبکہ مسلمانوں پر وصیت فرض ہے یا ان کو وصیت کا حکم ہے ؟ عبد الله نے کہا انہوں نے کتاب اللہ کی وصیت کی

صحیح مسلم کی روایت ہے

حدَّثنا مُسدَّدٌ ومحمدُ بن العلاءِ، قالا: حدَّثنا أبو معاويةَ، عن الأعمشِ، عن أبي وائلٍ، عن مسروقٍ عن عائشة، قالتْ: ما تركَ رسولُ الله – صلَّى الله عليه وسلم – ديناراً، ولا درهماً، ولا بعيراً، ولا شاةً، ولا أوصىَ بشيءٍ

عائشہ رضی الله عنہآ فرماتی ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے نہ دینار چھوڑا نہ درہم نہ بعیر نہ بکری اور نہ کسی چیز کی وصیت کی

مسند احمد کی روایت ہے

عَنِ الْأَرْقَمِ بْنِ شُرَحْبِيلَ قَالَ: سَافَرْتُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ – رضي الله عنهما – مِنَ الْمَدِينَةِ إِلَى الشَّامِ … فَمَاتَ رَسُولُ اللهِ – صلى الله عليه وسلم – وَلَمْ يُوصِ

الْأَرْقَمِ بْنِ شُرَحْبِيلَ روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی الله عنہ کے ساتھ مدینہ سے شام تک کا سفر کیا …. (اس دوران سوالات کیے).. ابن عباس رضی الله عنہ نے کہا – رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور انہوں نے کوئی وصیت نہ کی

شعيب الأرنؤوط اور احمد شاکر اس کو إسناده صحيح کہتے ہیں

یعنی عبد بن ابی اوفی رضی الله عنہ ، عائشہ رضی الله عنہا اور ابن عباس رضی الله عنہ سب بیان کر رہے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کوئی وصیت نہیں کی

اب ایک اور روایت صحیح بخاری میں ہے جو ان تمام اوپر والی روایات کی مخالف ہے

سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي مُسْلِمٍ الأَحْوَل کہتے ہیں انہوں نے  سَعِيدَ بْنَ جُبَيْر سے سنا انہوں نے َ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا سے سنا … ابن عباس کہتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے تین وصیتیں کیں

أَخْرِجُوا المُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ العَرَبِ

مشرکین کو جزیرہ العرب سے نکال دینا

وَأَجِيزُوا الوَفْدَ بِنَحْوِ مَا كُنْتُ أُجِيزُهُمْ

وفود کے ساتھ ایسا برتاؤ کرنا جیسا میں کرتا ہوں

تیسری وصیت راوی سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي مُسْلِمٍ الأَحْوَل  بھول گیا

عجیب بات ہے یہ اتنی اہم وصیت جو ابن عباس سے سعید بن جبیر نے سنی انہوں نے کسی اور کو نہ بتائی

 صحیح بخاری میں سفیان بن عینیہ کہتے ہیں سلیمان الأَحْوَل بھول گیا تھا  اور اگر سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي مُسْلِمٍ الأَحْوَل بھول گیا تو کوئی اور راوی  ہی بتا دیتا – سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي مُسْلِمٍ الأَحْوَل بصرہ کے ہیں اور  المدائن  میں قاضی تھے – تاریخ بغداد میں ہے

علي بْن عبد اللَّه ابْن المديني، قَالَ: سمعت يحيى بْن سعيد، وذكر عنده عاصم الأحول، فقال يحيى: لم يكن بالحافظ

علی المدینی کہتے ہیں انہوں نے یحیی بن سعید کو سنا اور ان کے سامنے عاصم الأحول کا ذکر ہوا انہوں نے کہا حافظ نہیں ہے

 اس کے برعکس  مصنف عبد الرزاق اور مسند الحمیدی کے مطابق سلیمان  الأحول خود کہتے

  فَإِمَّا أَنْ يَكُونَ سَعِيدٌ سَكَتَ عَنِ الثَّالِثَةِ عَمْدًا، وَإِمَّا أَنْ يَكُونَ قَالَهَا فَنَسِيتُهَا

پتا نہیں سعید بن جبیر اس تیسری وصیت پر عمدا خاموش رہے یا انہوں نے کہا بھول گئے

یعنی تیسری وصیت کو میں نے نہیں سعید بن جبیر بھولے یا چھپایا

واضح رہے کہ اس موقعہ پر ایک حدیث پیش کی جائے جس میں ہے کہ جس نے کوئی علمی بات جو اس کو پتا ہو چھپایا اس کو اگ کا طوق ڈالا جائے گا

یہ کیسے ممکن ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ایک وصیت جو امت میں صرف سعید بن جبیر کو پتا تھی اور انہوں نے بھی صرف سلیمان الأحول کو بتائی وہ خود یا سلیمان اس کو بھول گئے؟  دوم یہود نہیں بلکہ مشرکین کو نکالنے کا حکم دیا  سوم  قرآن  سوره النصر کے مطابق عرب میں وفات رسول تک مشرکین جوق در جوق اسلام قبول کر چکے تھے اور اسلام عرب کے تمام ادیان پر غالب تھا – -اس تناظر میں واضح ہے کہ ایسے کوئی مشرکین رہے ہی نہ تھے  جن کی کوئی اجتمآعیت ہو اور ان کو نکالنے کا کوئی حکم رہ گیا  اور مرض وفات میں اس کا حکم عام نہ کیا بلکہ صرف ابن عباس رضی الله عنہ کو دیا- یہی روایت  صحیح مسلم میں  طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ  ابن عباس رضی الله عنہ سے ایک دوسری سند سے مروی ہیں جن میں  ان تین وصیتوں کا ذکر نہیں ہے

شیعہ حضرات کو بخاری کی اس روایت سے ایک جواز مل گیا کہ وہ کہہ سکیں کہ صحابہ نے علی وصی الله کی بات چھپائی لیکن اصل میں یہ راوی کی غلطی ہے – خود ابن عباس رضی الله  عنہ کے مطابق  رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کوئی وصیت نہ کی

ہر راوی اپنے اپنے ذوق کے مطابق وصیت گنوا رہا تھا

بعض کہتے تھے علی کی خلافت کی وصیت کی

بعض کہتے یہود کو جزیرہ العرب سے نکالنے کی وصیت کی

بعض کہتے تھے مشرکین کو جزیرہ العرب سے نکالنے کی وصیت کی

انہی اقوال کو اب متشدد شیعہ تنظیمیں اور سنی جہادی تنظیمیں استمعال کر رہی ہیں تاکہ حکمرانوں پر جرح کر سکیں بلکہ خود شیعہ و سنی آپس میں انہی روایات کی وجہ سے الجھتے ہیں

رسول الله کی وصیت سے متعلق روایات میں جو اضطراب ہے وہ آپ نے دیکھ لیا الغرض یہود کو عرب سے نکالنا بھی ایک فرضی وصیت ہے

صحیح بخاری کی حدیث ہے  ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے یہود مدینہ کو کہا

اعْلَمُوا أَنَّمَا الْأَرْضُ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ، وَأَنِّي أُرِيدُ أَنْ أُجْلِيَكُمْ مِنْ هَذِهِ الْأَرْضِ، فَمَنْ وَجَدَ مِنْكُمْ بِمَالِهِ شَيْئًا فَلْيَبِعْهُ، وَإِلَّا فَاعْلَمُوا أَنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ

جان لو کہ زمین الله اور اسکے رسول کی ہے اور میرا ارادہ ہے کہ تم کو جلاوطن کر دوں اس زمین سے پس تم میں جو مال پائے وہ اسکو بیچ دے اور جان لو کہ زمین الله اور اس کے رسول کی ہے

شارحیں حدیث نے اس روایت  کی تاویل کی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے صرف مدینہ کے یہود کو نکالنے کا اردہ کیا تھا نہ کہ تمام عرب کے  اور جیسا کہ صحیح احادیث میں ہے  مرض وفات میں زرہ گروی رکھ کر انہی یہودیوں سے آپ نے جو ادھار لیا  – کتاب  إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري از القسطلاني(المتوفى: 923هـ ) میں الزركشي  نے رسول الله کے قول کی وضاحت میں کہا

إن اليهود هم بنو النضير والظاهر أنهم بقايا من اليهود تخلفوا بالمدينة بعد إجلاء بني قينقاع وقريظة والنضير والفراغ من أمرهم، لأن هذا كان قبل إسلام أبي هريرة لأنه إنما جاء بعد فتح خيبر كما هو معروف، وقد أقر -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يهود خيبر على أن يعملوا في الأرض واستمروا إلى أن أجلاهم عمر -رضي الله عنه-

یہ یہودی  بنو نضیر کے (باقی رہ جانے والے لوگ) تھے اور ظاہر ہے کہ یہ وہ باقی رہنے والے یہودی تھے جو بني قينقاع وقريظة والنضير کی جلا وطنی کے بعد رہ گئے تھے ( کیونکہ انکا جلاوطن کیا جانا ) ابو ہریرہ کے اسلام لانے سے قبل  ہوا اور ابو ہریرہ فتح خیبر کے بعد (ایمان) آئے اور رسول الله نے خیبر کے یہود کو (خیبر میں) ٹہرنے کی اجازت دی کہ اپنی زمین پر عمل داری کریں اور رکیں یہاں تک کہ عمر نے انکو جلا وطن کیا

کتاب  مصابيح الجامع از  ابن الدماميني  (المتوفى: 827 ھ)  میں  ابن المنیر کا قول ہے

قال ابن المنير: لا يُتصور أن يروي أبو هريرة حديثَ بني النضير وإجلائهم، ولا أن يقول: بينا نحن في المسجد خرج علينا رسولُ الله – صلى الله عليه وسلم -، ثم يقتص بإجلاء بني النضير، وذلك أن إجلاءهم في أول السنة الرابعة من الهجرة اتفاقاً، وإسلامُ أبي هريرة إنما كان بعدَ هذا بكثير، يقال: إنه أسلم في السنة السابعة، وحديثه صحيح، لكنه لم يكن في بني النضير، بل فيمن بقي من اليهود بعدهم كان – صلى الله عليه وسلم –  يتربص بجلائهم أن يوحى إليه،فتأخر ذلك إلى مرض [موته -عليه السلام-، فأُوحي إليه بإجلائهم، فأوصى أن لا يبقى دينان في جزيرة العرب] ، ثم تأخر الأمر إلى زمان عمر -رضي الله عنه

ابن المنیر کے کہا یہ متصور(ممکن) نہیں کہ اس روایت کو ابو ہریرہ رضی الله عنہ نے روایت کیا ہو بنی النضیر کی جلا وطنی کے لئے ، نہ وہ کہہ سکتے ہیں کہ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ نکلا اور پھر بنی النضیر کی جلا وطنی کا قصہ نقل کریں کیونکہ وہ تو چار ہجری کے شروع میں باتفاق ہوئی ہے اور ابو ہریرہ کے بارے میں بکثرت پتا ہے وہ سن سات میں اسلام لائے اور حدیث تو صحیح ہے لیکن یہ بنو النضیر سے متعلق نہیں ہو سکتی بلکہ ان کے بارے میں ہے جو یہودی (مدینہ میں) باقی رہ گئے تھے-  پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے وحی کا انتظار کیا  اس بارے میں اور ارادہ موخر کیا اپنے وفات تک اور پھر اسکی وصیت کی پھر اس میں دیر ہوئی اور عمر رضی الله عنہ کے دور میں اس کو کیا گیا

اس بات پر وہی اعترض اٹھتا ہے کہ ابو بکر رضی الله عنہ نے اس پر عمل کیوں نہ کیا ؟ 

ممکن ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس کا ارادہ کیا لیکن قرآن میں جزیہ لینے  کا حکم آ گیا

قرآن میں سوره التوبة، الآية: 29 میں ہے

 قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآَخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ

اور جو الله اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور اس کو حرام نہیں کرتے جس کو الله اور اس کا رسول حرام کر رہے ہیں اور نہ وہ جن کو ہم نے کتاب دی دین حق کو تسلیم کرتے ہیں، ان سے قتال کرو،   یہاں تک کہ جزیہ دیں اپنے باتھ سے اور کم تر ہو جائیں

قرآن کا حکم ہے کہ   اہل کتاب سے جزیہ لیا جائے اور جب وہ جزیہ دیں تو ان کے اموال کی حفاظت کی ذمہ داری مسلمانوں پر عائد ہو جاتی ہے لہذا یہ ممکن نہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس قرانی حکم کے خلاف تمام اہل کتاب کو جزیرہ العرب سے نکالنے کا حکم دیتے

بالفرض ان روایات کو تسلیم کر بھی لیں تو اس پر بھی غور کرنا چاہیے کہ اس سے کیا حاصل ہوا ؟

جزیرہ العرب سے یہود عراق و بابل میں اور مصر میں ان بستیوں میں جا کر ٹہرے ہوں گے جہاں ازمنہ قدیم سے بعثت رسول سے بھی پہلے سے رہ رہے تھے بلکہ وہ عباسی دور تک رہے – یہاں تک کہ ایک یمنی یہودی موسى بن ميمون (١)  مسلمانوں کے امیر صلاح الدین ایوبی کا سرکاری طبیب تھا  اور صلاح الدین ایوبی کی وفات کے بعد اپنی موت تک سرکاری طبیب رہا -یہ آج تک یہود کا ایک اہم حبر ہے

(١)Maimonides

بعض یہود رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے مخالف تھے لیکن رسول الله نے ان پر بالعموم کوئی زیادتی نہیں کی – ایک قبیلہ کو فتنہ پردازی پر جلا وطن کیا اور ایک کو عہد شکنی کی سزا دی لیکن ان کے علاوہ یہودی مدینہ میں رہتے رہے – صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ جب یہودی کا جنازہ گزرتا تو آپ صلی الله علیہ وسلم اس کے احترام میں کھڑے ہو جاتے –  احادیث کے مطابق یہودی عورتوں کا امہات المومنین کے پاس آنا جانا تھا اور وہ ان کے لئے اچھی دعآ بھی کرتیں مثلا دس ہجری میں عائشہ رضی الله عنہا کے پاس یہودی عورتیں آئیں اور واپس جاتے وقت انہوں نے عائشہ رضی الله عنہا کے لئے دعا کی کہ الله ان کو عذاب قبر سے بچائے – بلکہ خود رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مرض وفات سے پہلے ایک یہودی کے پاس اپنا جنگی سامان گروی رکھ کر جو لیا – حدیث کے مطابق ایک مسلمان اور یہودی میں موسی اور رسول الله صلی الله علیھما کی فضیلت پر جھگڑا ہوا کہ کون افضل ہے اس بحث میں مسلمان نے یہودی کو تھپڑ مار دیا اور یہودی روتا ہوا رسول الله کے پاس پہنچ گیا – نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا  کہ روز محشر جب میں اٹھوں گا تو مجھ سے پہلے موسی عرش الہی کے پاس ہوں گے یعنی آپ نے حتی المقدور کوشش کی کہ ابرآہیمی ادیان میں اصول میں  اختلاف ، ذاتی عناد میں اور ظلم میں تبدیل نہ ہو اور جس کو جو فضیلت ملی اس کو تسلیم کیا جائے

یاد رہے کہ قرآن کا حکم ہے

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ

اے ایمان والوں الله کے لئے عدل کے گواہ بن کر کھڑے ہو  اور ایسا نہ ہو کہ کسی قوم کی دشنمی تم کو اکسائے کہ عدل نہ کرو  عدل کرو یہ تقوی کے قریب ہے اور الله سے ڈرو بے شک الله جانتا ہے جو تم کرتے ہو

توریت کے تین حکم

مدینہ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کے مد مقابل ٹھیٹھ مولوی تھے جنہوں نے دین کو پیشہ بنا رکھا تھا اور کتاب الله یعنی توریت کو چھپایا جاتا اور اس کے مقابلے پر اپنا مسلک و روایت پیش کی جاتی – مدینے میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم حاکم تھے اور کئی موقعوں پر آپ نے یہود کو دین کی طرف بلایا اور صحیح بخاری کے مطابق ان کے مدارس بھی گئے

صحیح بخاری کی حدیث ہے

أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ فِي المَسْجِدِ، خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «انْطَلِقُوا إِلَى يَهُودَ»، فَخَرَجْنَا حَتَّى جِئْنَا بَيْتَ المِدْرَاسِ فَقَالَ:  أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا، وَاعْلَمُوا أَنَّ الأَرْضَ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ

ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ ہم مسجد میں تھے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نکلے اور کہا یہود کی طرف چلو پس ہم نکلے یہاں تک کہ بیت المدارس پہنچے پس آپ نے فرمایا اسلام قبول کرو امان ملے گا اور جان لو کہ زمین الله اور اس کے رسول کے لئے ہے

ہمارے راویات پسند علماء کی غلطی ہے کہ انہوں نے یہ دعوی کیا کہ سابقہ شریعت منسوخ ہے جبکہ قرآن سوره المائدہ میں  اہل کتاب کو کہتا ہے

قل ياأهل الكتاب لستم على شيء حتى تقيموا التوراة والإنجيل وما أنزل إليكم من ربكم وليزيدن كثيرا منهم ما أنزل إليك من ربك طغيانا وكفرا فلا تأس على القوم الكافرين

کہو اے اہل کتاب تم کوئی چیز نہیں جب تک تم توریت و انجیل کو قائم نہیں کرتے اور وہ جو تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے اور اس پر جو تم پر نازل ہوا ہے ان کی سر کشی و بغاوت میں ہی اضافہ ہوا – پس انکاریوں  کی حالت پر افسوس نہ کرو

یعنی قرآن میں یہ واضح ہے کہ توریت و انجیل اہل کتاب کو پتا ہے لیکن اس کو چھپاتے ہیں اور اس کو قائم نہیں کرتے-

یہ بحث  کہ اصل توریت کیا ہے اس کے لئے اس  ویب سائٹ پر کتاب

In Search of Hidden Torah

دیکھئے

اس میں اہل کتاب کی کتب اور قرآن و حدیث کا تقابل کر کے واضح کیا گیا ہے کہ اصل  توریت کتاب  استثنا کے باب ١٢ یا ٢٦ میں ہے جس کا اقرار اہل کتاب آج کر رہے ہیں کہ اس کی عبرانی باقی توریت سے الگ  ہے – اس کو انگریزی میں

Book of Deuteronomy

کہا جاتا ہے – عجیب بات ہے جب بھی قرآن کہتا ہے ہم نے توریت میں یہ حکم دیا تو وہ استثنا کے اسی باب ١٢ یا ٢٦ میں موجود ہے جو آہل ایمان کے لئے نشانی ہے

تورات کا ایک حکم – رجم  کی سزا

نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس   یہودیوں کے زنا کا مقدمہ پیش ہوا –  یہود نے اس کی سزا گدھے پر بٹھا کر منہ کالا کرنا بتائی –   نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے توریت لانے اور اسکو پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا : میں تورات ہی کے مطابق فیصلہ کروں گا ۔ چنانچہ (اُس یہودی اور یہودیہ کے بارے میں) حکم دیا گیا اور وہ دونوں سنگ سار کر دیے گئے

تورات کتاب استثنا باب ٢٢ کی آیت  ٢٠  اگر کوئی شادی شدہ مرد اپنی بیوی میں باکرہ ہونے کی علامت نہ پائے تو ایسی عورت کو سنگسار کر دو

استنسنا2121

یہودیوں میں توریت پر فقہی مباحث جاری تھے اور اس مجموعے کو تلمود کہا جاتا ہے اس پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے دور میں یروشلم اور بابل میں کام جاری تھا تلمود کے مطابق( سات) بڑے گناہوں  کی سزا کوڑے ہے اور قتل یا رجم نہیں کیونکہ زنا کی سزا کے لئے دو گواہ ہونے چاہییں – اگردو گواہ مرد و عورت کو حالت زنا میں دیکھیں اور بولیں الگ ہو جاؤ اور وہ زانی الگ ہو جائیں تو توریت کا حکم نہیں لگے گا -یہ علماء کا فتوی تھا جو تلمود میں ہے-  لیکن مدنیہ والے ان سے بھی ایک ہاتھ آگے تھے انہوں نے فتوی دیا کہ صرف گدھے پر منہ کالا کر کے بیٹھا دو- نہ کوڑے کی سزا دے رہے تھے جو تلمود میں ہے،  نہ رجم کر رہے تھے جو توریت میں ہے

تفصیل کے لئے  کتاب دیکھئے

The Religious and Spiritual Life of the Jews of Medina
By Haggai Mazuz, Brill Publisher, 2014

صحیح مسلم کی ایک مدلس الْأَعْمَشِ کی عن سے  روایت میں ہے مَجْلُودًا   کہ ان یہودیوں کو کوڑے بھی مارے گئے لیکن  یہ روایت غریب اور شاذ  ہے کوڑے مارنے کا  مجموعہ کتب حدیث میں کہیں اور  ذکر نہیں ہے جس حدیث میں بھی اس واقعہ کا ذکر ہے وہاں صرف منہ کالا کرنا اور گدھے پر بیٹھانا لکھا ہے

رجم کا یہ حکم توریت سے لیا گیا اور اخلاقا یہ ممکن نہیں کہ یہودیوں کے زانی کو تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم توریت کا حوالہ دے کر رجم کا حکم دیں اور مسلمانوں کو بچا لیں لہذا  شادی شدہ مسلمان زانی کے لئے یہی حکم جاری ہوا

عینی عمدہ القاری میں لکھتے ہیں کہ بعض معتزلہ اور خوارج نے  رجم کی سزا کا انکار کیا – اسی طرح بعض اہل سنت کو اس میں اشتباہ ہوا اور انہوں نے اس سلسلے میں انے والی صحیح و ضعیف روایات کو ملا کر ان پر تبصرہ کیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ان تمام روایات میں اضطراب ہے –   دوسری طرف روایت پسند علماء نے رجم کی ایک ایک روایت کو صحیح کہہ دیا جس سے مسئلہ سلجھنے کی بجائے اور الجھ گیا – عصر حاضر میں   مصری علماء مثلا محمد الصادق عرجون نے رجم  کی روایات پر جرح کی  – اسی طرح برصغیر میں جاوید احمد غامدی نے اس سزا کو واپس موضوع بحث بنایا اور اس پر اپنی کتاب میزان میں تبصرہ کیا اور اپنی ویب سائٹ پر اس سسلے کی ضعیف و صحیح روایات باہم ملا کر ان پر تبصرہ کر دیا-

غامدي صاحب رجم کی سزا کو مانتے ہیں کہ یہ دی جا سکتی ہے لیکن اس کی دلیل وہ سوره المائدہ سے لیتے ہیں کہ جو لوگ بغاوت کریں اور فساد کریں ان کو سولی دی جائے، ملک بدر کیا جائے، ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ دے جائیں –

سوره المائدہ کی آیت ٣٣ ہے

بیشک جو لوگ اﷲ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد انگیزی کرتے پھرتے ہیں ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کئے جائیں یا پھانسی دیئے جائیں یا ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹے جائیں یا زمین سے دور (یعنی ملک بدر یاقید) کر دیئے جائیں۔ یہ (تو) ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لئے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہے

اس طرح غامدی صاحب رجم کی سزا کو فساد فی الارض کے زمرے میں یا لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ  لے کرموقف رکھتے ہیں کہ حاکم وقت چاہے تو یہ سزا دے سکتا ہے اس کا تعلق خاص شادی شدہ زانی کے لئے نہیں بلکہ اس موقف کے تحت غیر شادی شدہ کو بھی رجم کی سزا دی جا سکتی ہے اگر وہ غنڈہ ہو اور زنا بالجبر کرتا ہو- اس کے لئے ان کی تحاریر دیکھی جا سکتی ہیں – لیکن اس موقف میں کئی خامیاں ہیں اول سوره المائدہ کی آیات قرآن كي سب سے آخر میں نازل ہونے والی سورتوں میں سے ہے جس میں  اليوم أكملت لكم دينكم   کی آیت بھی ہے – قرطبی کہتے ہیں سوره المائدہ سب سے آخر میں نازل ہونے والی سورت ہے (الهداية إلى بلوغ النهاية في علم معاني القرآن وتفسيره)- کہا جاتا ہے مَا نَزَلَ لَيْسَ فِيهَا مَنْسُوخٌ اس میں سے کچھ منسوخ نہیں ہے (تفسیر القرطبی) –  محمد سيد طنطاوي التفسير الوسيط للقرآن الكريم میں کہتے ہیں أن سورة المائدة من آخر القرآن نزولا بے شک سوره المائدہ قرآن میں سب سے آخر میں نازل ہوئی – سوره المائدہ کی آیات حجه الوداع پر مکمل ہوئیں یعنی ١٠ ہجری میں اور ١١ ہجری میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی –  اب مسئلہ یہ اٹھتا ہے دور نبوی میں جن افراد کو رجم کی سزا دی گئی وہ سب ظاہر ہے اس سوره المائدہ کے نزول کے بعد ہی دی گئی ہو گی تو اس ایک سال میں اتنے سارے لوگوں کو رجم کیا گیا – مدینہ میں ایسی کیا ہیجانی کیفیت تھی کہ حجه الوداع کے بعد اتنی زنا بالجبر کی کروائیاں ہو رہی تھیں اس کی تہہ میں کیا تحریک پوشیدہ تھی ؟ غامدی صاحب اس سب کو گول کر جاتے ہیں اور چونکہ ایک عام آدمی اس سب سے لا علم ہے وہ ان کی تحقیق کا تجزیہ کرنے میں ناکام رہتا ہے  اور اس پر ان کی تحقیق کا جھول واضح نہیں ہوتا – دوم سوره النور  میں جو زانی کی سزا ہے اور بقول غامدی صاحب  ” چنانچہ یہ آیت بھی اِس معاملے میں بالکل صریح ہے کہ زانی شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ ، اُس کے جرم کی انتہائی سزا قرآن مجید کی رو سے سو کوڑے ہی ہے ۔ قرآن کی اِن دونوں آیات میں سے سورۂ نور کی آیت ۸ کے بارے میں کوئی دوسری رائے ابھی تک ہمارے سامنے نہیں آئی ” (برہان از جاوید غامدی)  – یعنی غامدی صاحب کے نزدیک  سوره النور کی آیات  کا تعلق  شادی شدہ یا غیر شادی شدہ دونوں سے ہے – سوال ہے کیا اس کا  حکم  سوره المائدہ کی آیت سے منسوخ ہے ؟  اپنی مختلف تحاریر میں اس سے خوبصورتی سے کترا جاتے ہیں

غامدی صاحب کی پیش کردہ روایات مندرجہ ذیل ہیں جن سب کو صحیح سمجھتے ہوئے انہوں نے ان میں اضطراب ثابت کرنے کی کوشش کی ہے

رجم کی ضعیف روایات

مسند احمد کی روایت ہے

 عن الشعبی ان علیاً جلد شراحۃ یوم الخمیس ورجمھا یوم الجمعۃ وقال: اجلدھا بکتاب اللّٰہ وارجمھا بسنۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم.(احمد، رقم ۸۳۹) ’

 شعبی سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے شراحہ نامی عورت کو جمعرات کے دن کوڑے لگوائے اور جمعہ کے دن اُسے رجم کرا دیا اور فرمایا: میں نے اِسے کتاب اللہ کے مطابق کوڑے لگائے ہیں اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق سنگ سار کرتا ہوں۔‘‘

کتاب  جامع التحصيل في أحكام المراسيل  از العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق

عامر بن شراحيل الشعبي أحد الأئمة روى عن علي رضي الله عنه…..وهو لا يكتفي بمجرد إمكان اللقاء

عامر بن شراحيل الشعبي ائمہ میں سے ایک ہیں علی سے روایت کرتے ہیں اور…. یہ امکان لقاء کی بنیاد پر مجردا صحیح نہیں

یعنی شعبی کا سماع علی رضی الله عنہ سے مشکوک ہے

دوسری ضعیف روایت

 سنن ابو داود کی روایت ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ أَبُو يَحْيَى الْبَزَّازُ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، «أَنَّ رَجُلًا زَنَى بِامْرَأَةٍ فَلَمْ يَعْلَمْ بِإِحْصَانِهِ، فَجُلِدَ، ثُمَّ عَلِمَ بِإِحْصَانِهِ، فَرُجِمَ

 عن جابر ان رجلاً زنیٰ بامراۃ، فامر بہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فجلد الحد، ثم اخبر انہ محصن فامر بہ فرجم.(ابوداؤد، رقم ۴۴۳۸)

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے

کہ ایک شخص نے کسی عورت کے ساتھ بدکاری کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کے بارے میں سزا کا حکم دیا ۔ چنانچہ اُسے کوڑے لگائے گئے۔ پھر معلوم ہوا کہ وہ محصن (شادی شدہ) ہے تو حکم دیا گیا اور اُسے رجم کر دیا گیا۔

اس کی سند میں محمد بن مسلم أبو الزبير المكي مدلس ہے –  کتاب التبيين لأسماء المدلسين از  ابن العجمي کے مطابق   مشهور بالتدليس یہ تدلیس کے لئے مشھور ہے- البانی اس  روایت کو ضعیف کہتے ہیں

تیسری ضعیف روایت

طبقات الکبری از ابن سعد کی روایت ہے

قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنِي هشام بن عاصم بن الْمُنْذِرِ بْنِ جَهْمٍ أَنَّ عَمْرَو بْنَ حَمْزَةَ بْنِ سِنَانٍ كَانَ قَدْ شَهِدَ الْحُدَيْبِيَةَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَدِمَ الْمَدِينَةَ ثُمَّ اسْتَأْذَنَ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَنْ يَرْجِعَ إِلَى بَادِيَتِهِ فَأَذِنَ لَهُ فَخَرَجَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِالضَّبُّوعَةِ عَلَى بُرَيْدٍ مِنَ الْمَدِينَةِ عَلَى الْمَحَجَّةِ إِلَى مَكَّةَ لَقِيَ جارية من العرب وضيئة فنزعه الشَّيْطَانُ حَتَّى أَصَابَهَا وَلَمْ يَكُنْ أُحْصِنَ. ثُمَّ نَدِمَ فَأَتَى النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَأَخْبَرَهُ فَأَقَامَ عَلَيْهِ الْحَدَّ. أَمَرَ رَجُلا أَنْ يَجْلِدَهُ بَيْنَ الْجِلْدَيْنِ بِسَوْطٍ قَدْ رُكِبَ بِهِ ولان.

عمرو بن حمزہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیبیہ میں حاضر تھے ۔ وہ مدینہ آئے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اجازت چاہی کہ اپنے بادیہ کی طرف لوٹ جائیں۔ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی تو نکلے، یہاں تک کہ جب مدینہ سے مکہ کی طرف راستے کے درمیان ایک منزل ضبوعہ پہنچے تو عرب کی ایک خوب صورت لونڈی سے ملاقات ہوئی۔ شیطان نے اکسایا تو اُس سے زنا کر بیٹھے اور اُس وقت وہ محصن نہ تھے۔ پھر نادم ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر آپ کو بتایا۔ چنانچہ آپ نے اُن پر حد جاری کر دی

اس نسخہ میں اس روایت کی سند میں غلطی ہے کتاب تلخيص المتشابه في الرسم از  الخطيب البغدادي (المتوفى: 463هـ)  کے مطابق اصل میں راوی يَحْيَى بْنُ هِشَامِ بْنِ عَاصِمٍ الأَسْلَمِيُّ الْمَدِينِيُّ ہے جو  الْمُنْذِرِ بْنِ جَهْمٍ سے روایت کرتا ہے اور یحیی سے مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ الْوَاقِدِيُّ نے  كِتَابِ الْمَغَازِي میں روایت لکھی ہے- لہذا یہی راوی ہے جس سے واقدی نے روایت کیا اور ان سے ابن سعد نے – اب  چاہے یہ يَحْيَى بْنُ هِشَامِ بْنِ عَاصِمٍ  ہو یا هِشَامِ بْنِ عَاصِمٍ  – دونوں کا حال مجھول ہے

لہذا روایت ضعیف ہے

چوتھی ضعیف روایت

سنن ابو داود کی روایت ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ هَارُونَ الْبُرْدِيُّ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ فَيَّاضٍ الْأَبْنَاوِيِّ، عَنْ خَلَّادِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ  ، عَنِ ابْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ” أَنَّ رَجُلًا مِنْ بَكْرِ بْنِ لَيْثٍ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقَرَّ أَنَّهُ زَنَى بِامْرَأَةٍ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ، فَجَلَدَهُ مِائَةً، وَكَانَ بِكْرًا، ثُمَّ سَأَلَهُ الْبَيِّنَةَ عَلَى الْمَرْأَةِ، فَقَالَتْ: كَذَبَ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَجَلَدَهُ حَدَّ الْفِرْيَةِ ثَمَانِينَ “

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلۂ بکر بن لیث کا ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اُس نے چار مرتبہ اقرار کیا کہ اُس نے ایک عورت سے زنا کیا ہے ۔ وہ کنوارا تھا۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے سو کوڑے لگوائے ۔ پھر اُس سے عورت کے خلاف ثبوت چاہا تو اُس بی بی نے کہا : اللہ کی قسم ، اِس نے جھوٹ بولا ہے ، یا رسول اللہ ۔ اِس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے قذف کے اسی کوڑے لگوائے

البانی اس  روایت کو منکر کہتے ہیں

پانچویں ضعیف روایت

أَخْبَرَنَا أَبُو مُصْعَبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ , أَنَّهُ بَلَغَهُ , أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ أُتِيَ بِامْرَأَةٍ قَدْ وَلَدَتْ فِي سِتَّةِ أَشْهُرٍ , فَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُرْجَمَ، فَقَالَ لَهُ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ: لَيْسَ ذَلِكَ عَلَيْهَا ,وقد قال اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي كِتَابِهِ: {وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلاَثُونَ شَهْرًا} , وَقَالَ: {وفصاله في عامين} وقال: {وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلاَدَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ} قال: والرضاعة أربعة وعشرون شهراً والْحَمْلُ سِتَّةَ أَشْهُرٍ فأمر بها عُثْمَانُ أن ترد , فَوَجَدَت قَدْ رُجِمَتْ

ایک عورت نے عثمان رضی الله عنہ کے دور میں شادی کے بعد چھ ماہ میں بچا جنا – اس کا مقدمہ عثمان رضی الله عنہ پر پیش ہوا انہوں نے اس کو رجم کرا دیا –  بعد میں جب ان کو سمجھایا گیا کہ کم از کم مدت حمل چھ ماہ ہے تو انہوں نے حکم واپس لیا لیکن اس وقت تک عورت رجم کی جا چکی تھی

موطآ امام مالک کی روایت ہے کہ امام مالک کو یہ بات پہنچی ہے – امام مالک نے اس کی سند نہیں دی لہذا یہ بھی ایک ضعیف روایت ہے- اگر اس کو صحیح مانا جائے تو خلیفہ اور اس کی شوری کی اجتماعی غلطی ہے جبکہ اس میں جلیل القدر اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم شامل ہیں  اور ان سے یہ غلطی ممکن نہیں

چھٹی ضعیف روایت

مصنف عبد الرزاق کی روایت ہے جو مسروق کا قول ہے

عَبْدُ الرَّزَّاقِ،  عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ: «الْبِكْرَانِ يُجْلَدَانِ أَوْ يُنْفَيَانِ، وَالثَّيِّبَانِ يُرْجَمَانِ وَلَا يُجْلَدَانِ، وَالشَّيْخَانِ يُجْلَدَانِ وَيُرْجَمَانِ

کنوارے زانی کی سزا سو کوڑے اور جلا وطنی ہے۔ شادی شدہ زانی کو صرف رجم کی سزا دی جائے گی اور بوڑھے زانیوں کو پہلے کوڑے مارے جائیں گے او ر اِس کے بعد رجم کیا جائے گا

یہ نہ مرفوع حدیث ہے نہ موقوف قول صحابی ہے نہ مرسل روایت ہے – یہ ایک تابعی کا قول ہے- دلیل نہیں بن سکتا

ساتویں روایت ہے

صحیح مسلم کی روایت ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللهِ الرَّقَاشِيِّ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خُذُوا عَنِّي، خُذُوا عَنِّي، قَدْ جَعَلَ اللهُ لَهُنَّ سَبِيلًا، الْبِكْرُ بِالْبِكْرِ جَلْدُ مِائَةٍ وَنَفْيُ سَنَةٍ، وَالثَّيِّبُ بِالثَّيِّبِ جَلْدُ مِائَةٍ، وَالرَّجْمُ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھ سے لو ، مجھ سے لو ،مجھ سے لو ، زانیہ عورتوں کے معاملے میں اللہ نے ان کے لئے رستہ نکالا (جو حکم نازل کرنے کا وعدہ کیا تھا، وہ نازل فرما دیا )۔ غیر شادی شدہ مرد کی غیرشادی شدہ عورت سے بدکاری کے لیے سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی اور شادی شدہ مرد کی شادی شدہ عورت سے بدکاری کے لیے سو کوڑے اور رجم

اسکی سند میں الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ ہیں  جو مدلس ہیں اور عن سے روایت کر رہے ہیں – اس روایت کا کوئی اور طرق نہیں ملا اور دیگر روایات کے خلاف ہے لہذا ضعیف ہے

  مسند الإمام الشافعي  میں اس روایت پر ہے

وَقَدْ حَدَّثَنِي الثِّقَةُ: أنَّ الحَسَنَ كانَ يَدْخُلُ بَيْنَهُ وبينَ عبَادةَ حِطَّانَ الرَّقَاشي

اور ایک ثقہ نے بتایا کہ حسن بصری اپنے اور عبَادةَ حِطَّانَ الرَّقَاشي کے درمیان ایک دوسرے شخص کو داخل کرتے تھے

مسند البزار میں ہے

 وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنِ  الْحَسَنِ، عَنْ عُبَادَةَ مُرْسَلًا

اور ایک سے زیادہ نے اس کو حسن بصری سے انہوں نے  عبادہ سے مرسل  روایت  کیا ہے

یعنی صحیح مسلم کی یہ روایت ضعیف ہے اور اس کو صحیح میں لکھنا امام مسلم کی غلطی ہے ان  کے ہم عصر علماء اس کو مرسل کہتے تھے

اب ان تمام روایات سے کوئی نتیجہ اخذ کرنا یا ان کو صحیح روایات کے ساتھ ملا کر خلط مبحث کرنا غیر مناسب ہے کیونکہ یہ  ہیں ہی ضعیف  روایات – غامدی صاحب نے ان ضعیف روایات کو صحیح سے ملا کر ایک کھچڑی بنا دی ہے اور پھر اس طرح تمام روایات پر جرح کرکے  آن روایات میں اضطراب ثابت کیا جاتا ہے – حقیقیت میں اوپر والی روایات ضعیف ہیں

رجم سے  متعلق  بعض صحیح روایات

سنن النسائی کی روایت ہے

أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ طَهْمَانَ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لَا يَحِلُّ دَمَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثِ خِصَالٍ: زَانٍ مِحْصَنٌ يُرْجَمُ، أَوْ رَجُلٌ قَتَلَ رَجُلًا مُتَعَمِّدًا فَيُقْتَلُ، أَوْ رَجُلٌ يَخْرُجُ مِنَ الْإِسْلَامِ لِيُحَارِبَ اللهَ عَزَّ وَجَلّ وَرَسُولَهُ فَيُقْتَلُ أَوْ يُصْلَبُ أَوْ يُنْفَى مِنَ الْأَرْضِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مسلمان کا خون صرف تین صورتوں میں حلال ہے : ایک شادی شدہ زانی  اُسے رجم کیا جائے گا۔ دوسرے وہ شخص جس نے کسی کو جان بوجھ کر قتل کیا ہو، اُسے اس شخص کے قصاص میں قتل کیا جائے گا ۔ تیسرے وہ شخص جو اسلام چھوڑ کر اللہ اور اس کے رسول سے آمادۂ جنگ ہو ، اُسے قتل کیا

جائے گا یا سولی دی جائے گی یا وہ جلا وطن کر دیا جائے گا

البانی اس کو صحیح کہتے ہیں

نتیجہ :  ایک شادی شدہ زانی  رجم کیا جائے گا۔

صحیح بخاری کی روایت ہے

ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ اور زین بن خالد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھگڑتے ہوئے آئے ان میں سے ایک نے کہا ہمارے درمیان کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کیجئے دوسرے نے کہا ہاں یا رسول اللہ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کیجئے اور مجھ کو واقعہ عرض کرنے کی اجازت دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیان کرو۔اس نے کہا میرا بیٹا اس شخص کے ہاں مزدوری کرتا تھا اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا۔ لوگوں نے مجھ سے کہا کہ تیرے بیٹے کو سنگسار کیا جائے گا ۔میں نے اس کے بدلے میں سو بکریاں اور ایک لونڈی دے دی۔پھر میں نے علماء سے مسئلہ پوچھا انہوں نے کہا کہ تیرے بیٹے کو سو کوڑے لگائے جائیں گے اور ایک سال کے لئے جلا وطن کیا جائے گا اور سنگساری کی سزا اس کی عورت کو ملے گی (اس لئے کہ وہ شادی شدہ ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعہ سن کر فرمایا۔خبردار قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کروں گا۔تیری لونڈی اور تیری بکریاں تجھ کو واپس ملیں گی اور تیرے بیٹے کو سو کوڑوں کی سزا دی جائے گی اور ایک سال کے لئے جلا وطن کیا جائے گا۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے انیس! تو اس عورت کے پاس جا اگر وہ جرم کا اقرار کرے تو اس کو سنگسار کر دے چنانچہ عورت نے اقرار کیا اور انیس رضی اللہ عنہ نے اس کو سنگسار کر دیا۔(بخاری و مسلم)

روایت اپنے متن میں بالکل واضح ہے کہ شادی شدہ عورت  کو رجم کر دیا گیا اور شریعت کا حکم آگے پیچھے کرنے کے جرم میں  کنوارے آدمی کو سو کوڑے کے ساتھ جلا وطن بھی کیا گیا – غامدی صاحب  نے اس کو تفتیش کا کیس بنا کر بیانات و شواہد کا  مطالبہ کیا ہے جو صرف اور صرف خلط مبحث ہے اور اس بحث سے روایت میں جو بیان ہوا ہے اس پر کیا اثر پڑتا ہے ؟  غیر شادی شدہ نے ایک شادی شدہ کے ساتھ زنا کیا – مجرم کے باپ نے معاملہ ڈیل میں تبدیل کیا لیکن بلاخر مقدمہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم تک پہنچا – یہ کس قسم کا خاندان تھا یا یہ کوئی سازش تھی یہ غیر ضروری سوالات ہیں کیونکہ یہ اعتراض تو کسی بھی مقدمہ پر ہو سکتا ہے

نتیجہ : شادی شدہ زانی رجم کیا جائے گا اور غیر شادی شدہ کو کوڑے مارے جائیں گے اور اگر ڈیل کرنے کی کوشش کرے تو جلا وطن بھی کیاجائے گا

يه روایت دلیل ہے کہ  اگر کوئی غیر شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت سے بدکاری کا ارتکاب کرے تو اُس کی سزا  غیر شادی شدہ کے لئے کوڑے  ہونی چاہیے

لیکن اگر   شادی شدہ مرد یا عورت  غیر شادی شدہ مرد یا  عورت سے زنا کرے تو شادی شدہ کو رجم کیا جائے گا

موطأ  اور بخاری كي ایک   روایت

امام مالک ، امام یحییٰ بن سعید سے وہ سعید بن المسیب سے روایت کرتے ہیں کہ عمر رضی الله عنہ نے کہا

قَالَ:  إِيَّاكُمْ أَنْ تَهْلِكُوا عَنْ آيَةِ الرَّجْمِ». أَنْ يَقُولَ قَائِلٌ لَا نَجِدُ حَدَّيْنِ فِي كِتَابِ اللَّهِ. فَقَدْ رَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا. وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْلَا أَنْ يَقُولَ النَّاسُ: زَادَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِي كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى لَكَتَبْتُهَا – الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ فَارْجُمُوهُمَا أَلْبَتَّةَ – فَإِنَّا قَدْ قَرَأْنَاهَا

قَالَ مَالِكٌ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ:، قَالَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ: «فَمَا انْسَلَخَ ذُو الْحِجَّةِ حَتَّى قُتِلَ عُمَرُ رَحِمَهُ اللَّهُ» قَالَ يَحْيَى: سَمِعْتُ مَالِكًا يَقُولُ: قَوْلُهُ الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ يَعْنِي: «الثَّيِّبَ وَالثَّيِّبَةَ فَارْجُمُوهُمَا أَلْبَتَّةَ

تم آیت رجم کا انکار کر کے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے سے بچو۔ ایسا نہ ہو کہ کہنے والے کہیں کہ ہم تو اللہ کی کتاب میں دو سزاؤں (تازیانہ اور رجم) کا ذکر کہیں نہیں پاتے ۔ بے شک ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رجم کیا او ر ہم نے بھی ۔ اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے ، مجھے اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ لوگ کہیں گے کہ عمر نے اللہ کی کتاب میں اضافہ کر دیا تو میں یہ آیت : الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ فَارْجُمُوهُمَا أَلْبَتَّةَ  ’’بوڑھے زانی اور بوڑھی زانیہ کو لازماً رجم کردو ، قرآن مجید میں لکھ دیتا، اِس لیے کہ ہم نے یہ آیت خود تلاوت کی ہے ۔

امام مالک نے کہا کہ یحیی بن سعید نے کہا کہ سعید بن المسیب نے کہا  الشَّيْخُ وَالشَّيْخَة  سے مراد الثَّيِّبَ وَالثَّيِّبَةَ   (شادی شدہ زانی) ہے – یہ ادبی انداز ہے کہ انداز ہے کہ بڈھا یا بڈھی کو رجم کرو اس میں یہ مستمر ہے کہ وہ شادی شدہ ہیں –

موطا کی  روایت  کی سند کا مسئلہ ہے کہ اس میں سعید بن المسیب کا سماع عمر رضی الله عنہ سے نہیں ہے

کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل  از العلائي (المتوفى: 761هـ)  کے مطابق

قال يحيى القطان سعيد بن المسيب عن عمر رضي الله عنه مرسل

یحیی بن سعید جو اس روایت کے ایک راوی ہیں وہ خود کہتے ہیں کہ سعید بن المسیب کی عمر رضی الله عنہ سے روایت مرسل ہے

کیونکہ سعید بن المسیب  ، عمر رضی الله عنہ کے دور میں پیدا ہوئے ہیں اور انہوں نے عمر کو دیکھا  کچھ سنا نہیں

شاید اسی وجہ سے امام بخاری نے یہ روایت ایک دوسری سند سے دی ہے – امام بخاری اس کو عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ کی سند سے صحیح میں دو جگہ لکھا ہے

(عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ) بے شک ، اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا اور اُن پر اپنی کتاب نازل کی۔ اُس میں آیت رجم بھی تھی ۔ چنانچہ ہم نے اُسے پڑھا اور سمجھا اور یاد کیا ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اِسی بنا پررجم کیا اور اُن کے بعد ہم نے بھی رجم کیا ۔ مجھے اندیشہ ہے کہ لوگوں پر کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرے گا کہ کہنے والے کہیں گے کہ ہم تو رجم کی آیت اللہ کی کتاب میں کہیں نہیں پاتے اور اِس طرح اللہ کے نازل کردہ ایک فرض کو چھوڑ کر گم راہ ہوں گے ۔ یاد رکھو، رجم اللہ کی کتاب میں ہر اُس مرد و عورت پر واجب ہے جو شادی کے بعد زنا کرے

نتیجہ : شادی شدہ زانی رجم کیا جائے گا

غامدی صاحب نے الشیخ اور الشیخہ سے ایک بوڑھا اور بوڑھی لیا اور اس کو ایک مہمل بات قرار دیا ہے – حالانکہ جب بات زنا کے  تناظر میں ہو تو اس کو سمجھنا مشکل نہیں – مثلا آج الشیخ کا لفظ علماء کے لئے عرب ملکوں میں عام ہے کسی کو الشیخ بولا جائے تو وہ ہو سکتا ہے کوئی امیر آدمی ہو یا عالم ہو یا قبیلہ کا سردار ہو- آج سیدنا کا لفظ انبیاء کے ساتھ استعمال ہونے لگا ہے خود غامدی صاحب بھی کرتے ہیں لیکن سو سال پہلے اس طرف انبیاء کے ساتھ سیدنا نہیں لکھا جاتا تھا – اسی طرح  علم حدیث کے قدیم قلمی نسخوں  میں کہیں بھی انبیاء کے ناموں کے ساتھ صلی الله علیہ وسلم یا علیہ السلام نہیں لکھا ملتا لیکن آج جو نئی کتب چھپ رہی ہیں ان میں یہ لاحقہ عام ہے – نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور میں الشیخ ایک عمر رسیده اور منجھے ہوئے شخص کے لئے بولا جاتا تھا اور عربوں میں ایسے لوگ  عموما شادی شدہ ہی ہوتے تھے-   قرآن میں شیخآ کا لفظ ہے جس کو سارہ علیہ السلام نے ابراہیم علیہ السلام کے لئے استعمال کیا  (سوره الهود)– الشيخ كبير كا لفظ يعقوب عليه السلام  کے لئے سوره یوسف میں ہے  اور شیخ مدین سسر موسی کے لئے سوره قصص میں ہے – اور سوره الغآفر میں شیوخا کا لفظ ہے –  یعنی بعض کا  یہ کہنا کہ شیخ کا لفظ غیر قرانی ہے اور مخمل میں ٹآٹ کا پیوند ہے صحیح نہیں –  الشیخ و الشیخہ کے حوالے سے   کتب شیعہ مثلا  تهذيب الأحكام للطوسي 8/195، الاستبصار ً 3/377، اور وسائل الشيعة از آلحر العاملي 15/610  میں بھی روایت ہے جس کو بعض متقدمین شیعہ جمع القرآن پر اعتراض کے حوالے سے پیش کرتے ہیں اس میں بما قضيا الشهوة کے الفاظ بھی ہیں – ان کے اس پرو پگندے سے متاثر ہو کر بعض لوگوں نے یہ حل نکالا کہ اس روایت کا انکار کر دیا جائے – اور اسی وجہ سے اس پر بحث کا باب کھل گیا اور دور قدیم سے ابھی تک اس میں ایک خلجان پایا جاتا ہے – فقہاء نے اس کا حل یہ دیا کہ آیت منسوخ ہوئی اور اس کا حکم باقی ہے –  اہل تشیع کے مطابق امام جعفر اس آیت کو اس طرح پڑھتے تھے الشيخ والشيخة فارجموهما البتة بما قضيا الشهوة  اور رجم کا حکم دیتے یعنی رجم کی سزا کا حکم ان کے ہاں بھی ہے – اہل تشیع کا جمع القرآن پر اعتراض غیر منطقی ہے کیونکہ قرآن ابو بکر رضی الله عنہ  نے جمع ضرور کیا لیکن وہ عثمان رضی الله عنہ  کے دور تک تقسیم نہیں ہوا تھا – عمر رضی الله عنہ کے دور میں بھی جو قرآن پڑھا جاتا تھا  اس کا کوئی ایک نسخہ نہ تھا مختلف قرات تھیں اور یہ قرات  علی اور عمر رضی الله عنہما اس وقت تک کر رہے تھے جس سے ظاہر ہے کہ یہ آیت نہ علی کی قرات میں تھی نہ عمر کی-  سوال اٹھتا ہے کہ شیعوں نے اس قرات کو کب اور کیوں چھوڑا اگر یہ علی رضی الله عنہ  اور اہل بیت کی قرات تھی؟ اس کا جواب ان کے پاس بھی نہیں ہے اور امام جعفر کو تو پتا ہو گا کہ اصلی قرآن کیا ہے تو ایک دفعہ ہی اس کو املا کرا دیتے – انہوں نے بھی ایسا نہیں کیا

بخاری کی اس حدیث میں  کسی علت کا علم نہیں ہے لہذا اس کو رد نہیں کیا جاتا – ممکن ہے رجم کی یہ آیت ہو اور منسوخ ہو گئی ہو ایسا دوسری آیات میں بھی ہوا ہے – لیکن یہاں اس کو ایک اور زاویہ سے بھی دیکھ سکتے ہیں

اگر کوئی رجم کی سزا  کو توریت کے تناظر میں سمجھے تو مسئلہ فورا حل ہو جاتا ہے کہ یہ حکم یہود کے لئے  توریت سے لیا گیا اور ایسا ممکن نہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی جانب سے  یہود پر سخت سزا اور مسلمانوں پر کم تر سزا نافذ کی جاتی –  سوال اٹھتا ہے کہ اس کی کیا دلیل ہے کہ شادی شدہ یہودی نے شادی شدہ مسلمان سے پہلے زنا کیا اور مقدمہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس پیش ہوا؟  مدینہ میں یہود کے تین  بڑےقبائل تھے دو نکال دے گئے – تسرے قبیلہ بنو قريظة کے مردوں  کو قتل کیا گیا جس کا ذکر آ رہا ہے یہ سب سن ٥ ہجری ميں ہوا –  ایک روایت کے مطابق یہود نے جب زنا کی اپنی خود ساختہ سزا کو   نافذ کیا تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان  کو کہا   کہ توریت لاو اور پڑھو تو ان کے ایک  عالم عَبْدَ اللهِ  ابْنَ صُورِيَا نے اس کو پڑھا  اور آیات پر ہاتھ رکھ کر اسکو چھپایا (مسند الحميدي، مسند أحمد، صحیح ابن حبان، شرح مشکل الآثار، البداية والنهاية ) –   سیرت  ابن اسحٰق  اور البداية والنهاية از ابن کثیر کے مطابق یہ اس وقت عرب میں یہود کا سب سے بڑا عالم تھا  اور بَنِي ثَعْلَبَةَ بْنِ الْفِطْيَوْنِ  میں سے تھا –- سنن الکبری البیہقی  کے مطابق اس توریت کو پڑھنے والے واقعہ کے وقت ابن صوریا کے ساتھ بنی قریظہ والے تھے – ایک دوسری روایت کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سب سے پہلے جن کو رجم کا حکم دیا وہ یہودی تھے (مصنف عبد الرزاق)- ان تمام شواہد کی روشنی میں واضح ہے کہ یہود پر رجم کی حد سن ٥ ہجری یا اس سے قبل لگی اور یہ مدینہ میں سب سے پہلے یہود پر لگی

توریت کا دوسرا حکم – عہد شکنی کی سزا

جنگ خندق میں بنو قریظہ  کی عہد شکنی کے معآملے میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم  نے سعد بن معاذ رضی الله عنہ پر فیصلہ چھوڑا – انہوں نے عہد شکنی کی سزا تجویز کی کہ  جس پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تم نے بادشاہ کا فیصلہ دیا یعنی الله کا فیصلہ-

توریت کتاب استثنآ باب ٢٠ آیات ١٠  تا  ١٤ ہے

استنسنا٢٠١٣

صحیح مسلم کی روایات ہیں

۔ و حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنّٰی وَابْنُ بَشَّارٍ وَأَلْفَاظُهُمْ مُتَقَارِبَةٌ قَالَ أَبُو بَکْرٍ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ عَنْ شُعْبَةَ و قَالَ الْآخَرَانِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ بْنَ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ قَالَ نَزَلَ أَهْلُ قُرَيْظَةَ عَلٰی حُکْمِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلٰی سَعْدٍ فَأَتَاهُ عَلٰی حِمَارٍ فَلَمَّا دَنَا قَرِيبًا مِنَ الْمَسْجِدِ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْأَنْصَارِ قُومُوا إِلٰی سَيِّدِکُمْ أَوْ خَيْرِکُمْ ثُمَّ قَالَ إِنَّ هٰٓؤُلَآءِ نَزَلُوا عَلٰی حُکْمِکَ قَالَ تَقْتُلُ مُقَاتِلَتَهُمْ وَتَسْبِي ذُرِّيَّتَهُمْ قَالَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَيْتَ بِحُکْمِ اللہِ وَرُبَّمَا قَالَ قَضَيْتَ بِحُکْمِ الْمَلِکِ وَلَمْ يَذْکُرْ ابْنُ الْمُثَنّٰی وَرُبَّمَا قَالَ قَضَيْتَ بِحُکْمِ الْمَلِکِ۔

 ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن مثنی، ابن بشار، ابوبکر، غندر، شعبہ، سعد بن ابراہیم ابوامامہ، سہل بن حنیف،   ابوسعید رضی اللہ عنہ خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بنو قریظہ والوں نے   سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے فیصلہ پر اتر آنے کی رضا مندی کا اظہار کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   ، سعد رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا تو وہ گدھے پر حاضر ہوئے، جب وہ مسجد کے قریب پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا اپنے سردار یا اپنے افضل ترین کی طرف اٹھو، پھر فرمایا یہ لوگ تمہارے فیصلہ پر اترے ہیں سعد رضی اللہ عنہ نے کہا ان میں سے لڑائی کرنے والے کو قتل کر دیں اور ان کی اولاد کو قیدی بنالیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اللہ کے حکم کے مطابق ہی فیصلہ کیا ہے اور کبھی فرمایا تم نے بادشاہ کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ کیا ہے، ابن مثنی نے بادشاہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کرنے کو ذکر نہیں کیا۔

مسلم کی ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں کہ سعد نے  کہا کہ میں ان کے بارے میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان میں سے لڑائی کرنے والے کو قتل کر دیں اور عورتوں اور بچوں کو قیدی بنالیں اور ان کے مال کو تقسیم کر لیں

انکار حدیث کے رد میں کہا جاتا ہے کہ یہ سزا قرآن میں نہیں لہذا یہ حدیث میں ہے جو وحی خفی یا غیر متلو کی مثال

 ہے یہ ہمارے علماء کی غلطی ہے اصلا یہ سزا توریت کی ہے – وحی غیر متلو تو تب بنتی جب یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے تجویز کی ہوتی اور ہم اسکو قرآن میں نہ پاتے – یہ تو سعد کی تجویز کردہ سزا ہے اور توریت سے مطابقت رکھتی ہے اسی لئے کہا گیا کہ تم نے بادشاہ یعنی الله کے فیصلے کے مطابق حکم دیا-  سعد بن معآذ مدینہ کے قبیلہ کے سردار تھے اور یہود کا قبیلہ بھی ان کو سردار مانتا تھا

توریت کا تیسرا حکم – ارتاد کی سزا

توریت کا حکم ہے کہ مرتد کی سزا موت ہے- مرتد کے حوالے سے  غامدی صاحب  کا موقف یہ ہے کہ یہ سزا صرف نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور کے مرتدین کے  لئے تھی جو مشرک تھے  ،اس کے بعد کسی شخص کو ارتداد کی یہ سزا نہیں دی جاسکتی ۔[برھان ،ص:۱۴۲،۱۴۳]۔ لیکن یہ دعوی بلا دلیل ہے – توریت کا انکار ہے

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنا دین(اسلام) تبدیل کرے اس کو قتل کردو

غامدی صاحب لکھتے ہیں

ارتداد کی سزا کا یہ مسئلہ محض ایک حدیث کا مدعا نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ابن عباس کی روایت سے یہ حدیث بخاری میں اِس طرح نقل ہوئی ہے – جو شخص اپنا دین تبدیل کرے، اُسے قتل کردو۔ ہمارے فقہا اِسے بالعموم ایک حکم عام قرار دیتے ہیں جس کا اطلاق اُن کے نزدیک اُن سب لوگوں پرہوتا ہے جوزمانۂ رسالت سے لے کر قیامت تک اِس زمین پر کہیں بھی اسلام کو چھوڑ کر کفر اختیار کریں گے۔اُن کی راے کے مطابق ہر وہ مسلمان جو اپنی آزادانہ مرضی سے کفر اختیار کرے گا، اُسے اِس حدیث کی رو سے لازماً قتل کردیا جائے گا۔اِس معاملے میں اُن کے درمیان اگر کوئی اختلاف ہے تو بس یہ کہ قتل سے پہلے اِسے توبہ کی مہلت دی جائے گی یا نہیں اور اگر دی جائے گی تو اُس کی مدت کیا ہونی چاہیے۔فقہاے احناف، البتہ عورت کو اِس حکم سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں۔اُن کے علاوہ باقی تمام فقہا اِس بات پر متفق ہیں کہ ہر مرتد کی سزا،خواہ وہ عورت ہو یا مرد، اسلامی شریعت میں قتل ہی ہے۔ لیکن فقہا کی یہ راے محل نظر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم تو، بے شک ثابت ہے، مگر ہمارے نزدیک یہ کوئی حکم عام نہ تھا، بلکہ صرف اُنھی لوگوں کے ساتھ خاص تھا جن پر آپ نے براہ راست اتمام حجت کیا اور جن کے لیے قرآن مجید میں ’مشرکین‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔

غامدی صاحب کی رائے میں اس سزا کو مشرکین پر لگایا گیا کیونکہ ان پر اتمام حجت ہو گیا تھا – لیکن کیا اہل کتاب پر اتمام حجت ہونے سے رہ گیا ظاہر ہے جس کو بھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خبر پہنچی اس پر اتمام حجت ہو گیا اور سوره البقرہ میں اس کا مکمل بیان ہے کہ اتمام حجت میں یہود شامل ہیں

اصل میں ارتاد کی سزا کا  تعلق اصلا اہل کتاب سے ہے –  اہل کتاب  کی اسٹریٹجی تھی کہ صبح کو ایمان لاو اور شام کو کافر ہو جاؤ غامدی صاحب سوره ال عمران کی آیات ٨٢ تا ٨٤ کا ترجمہ کرتے ہیں

اور اہل کتاب کا ایک گروہ کہتا ہے کہ مسلمانوں پر جو کچھ نازل ہوا ہے ، اُس پر صبح ایمان لاؤ اورشام کو اُس کا انکار کردیا کر و تاکہ وہ بھی برگشتہ ہوں۔ اور اپنے مذہب والوں کے سوا کسی کی بات نہ مانا کرو ۔۔۔ اِن سے کہہ دو، (اے پیغمبر ) کہ ہدایت تو اصل میں اللہ کی ہدایت ہے ۔۔۔ (اِس لیے کسی کی بات نہ مانا کرو کہ ) مبادا اِس طرح کی چیز کسی اور کو بھی مل جائے جو تمھیں ملی ہے یا تم سے وہ تمھارے پروردگار کے حضور میں حجت کرسکیں۔ اِن سے کہہ دو کہ فضل تو اللہ کے ہاتھ میں ہے ، جسے چاہتا ہے عطاکردیتا ہے اوراللہ بڑی وسعت اوربڑے علم والا ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے، اپنی رحمت کے لیے خاص کرلیتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔

اس رجحان کو روکنے کے لئے حکم نبوی تھا کہ جو دین بدلے اس کو قتل کر دو –  یہود کے مطابق اسی حکم کی  بنیاد پر عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کا فتوی دیا گیا تھا کہ اس نے  (نعوذ باللہ) ابن الله ہونے کا دعوی کیا ہے (جو اصلا یہود کا اتہام ہے) – توریت کی   استثنا کے باب ١٣ کی آیات ٦ تا ١٠ ہے

استنسنا١٣٦

ارتاد پر مشرکین اور اہل کتاب کا قتل ہوا  مثلا یمن میں جب معآذ بن جبل  رضی الله عنہ پہنچے تو دیکھا ایسا ایک مقدمہ مرتد یہودی پر چل رہا ہے انہوں نے کہا میں گھوڑے سے نہ اتروں گا جب تک اس کا قتل نہ ہو

یہودی تعداد میں کم تھے لہذا ان میں قتل کی سزا عملا ختم ہو چکی تھی  وہ توریت کی ان آیات پر عمل نہ کرنا چاہتے تھے اور قرآن نے سوره المائدہ میں اہل کتاب  کو کہا کہ جو الله کا حکم نافذ نہ کرے وہ کافر ہے وہ ظالم ہے وہ فاسق ہے

لہذا رجم ہو یا عہد شکنی ہو یا ارتاد ہو ان سب کا  حکم توریت سے لیا گیا اور اسی کو اسلام میں جاری رکھا گیا – کیا یہ منبی بر انصاف تھا کہ ان سخت حدوں کو اہل کتاب پر تو لگایا جائے لیکن اہل اسلام کو بچا لیا جائے؟ سوچئے

و سلام على من اتبع الهدى

Second Temple Period

For our Jewish and Christian readers:

In this book an attempt has been made to remove the cloak of mystery over the
early statges of Second Temple period. Researchers are now convinced that the
Second Temple Period is the formative period of present five books of Torah. The
author proposes that not only Torah but also the prophetic literature is actually an
outcome of political rifts and religious divisions in this period.
There is a growing awareness of importance of the Second Temple Period
among the Judo-christian scholars. We can see number of books published in
recent years which are devoted to this important era of Jewish history. The focal
point of this study is also the Second Temple politics. If one reads prophetic
literature, one would find that pre-exilic prophets like Ezekiel and Jeremiah etc
have discussed issues related to early second temple period. For example walls
surrounding Jerusalem and mixed marriages issues which were actually the point
of strife in the early second temple period. Authors thus projected themselves
in the pre-exilic period and tried to change the present. Because of these political
and religious contentions, bible and prophetic literature become the corpus of
conflicting prophecies and ideas. Later Jews and Christians used the same conflicting
prophesies for the arrival of Messiah figure. The concept of two messiahs
was present among Qumran community as revealed by dead sea scrolls  and the
second coming of the Christ is also deduced from the similar conflicting verses of
the prophetic books.
A natural question arises that why these prophets are discussing issues which
occurred in early second temple period, though they claimed they belong to different
ages. The reason of development of biblical literature was priestly differences
in the early second temple period. There are number of questions for example:

 Why the author of Book of Jeremiah did mistakes in calculating the period
of captivity?
 How the visions of Ezekiel are related to second temple period?
 Who was the true root of Davidic dynasty?
 How Messianic ideas are weaved into biblical literature to fulfill some political
needs?
 What differences in priestly lines caused the murder of the Prophet Zechariah?
 How the Nehemiah and Ezra high-lighted their political agenda in the Torah?
 What caused the Samaritan schism?

It is explained in this book that the authors of book of Jeremiah, Amos, Zephaniah,
Ezekiel belong to the group supporting Ezra and Nehemiah whereas the
authors of books of Haggai and Zechariah were supporters of Zerrubabel i.e. they
belong to anti-Ezra group. The bloody feud resulted in murder of the prophet
Zechariah son of Iddo, as informed by Jesus in gospel of Mathew. The scribal
editions and ”corrections” have masked the influence of the Persia on Judean politics.
The question of credibility of prophetic literature in bible is evaluated under the
light of internal evidences present in the historical books like Kings, Chronicles,
Ezra, Nehemiah and prophetic literature.
To correct the history, in the book of Nehemiah, it is informed that Ezra the
scribe recited the whole Torah with verses never heard before. The complex characters
of Ezra and Nehemiah have caused the Samaritan schism in Judaism. Further
if we analyze the bible through Grafian Hypothesis- the doctrine that the
Levitical Law and the connected parts of Pentateuch were not written till after the
fall of kingdom of Judah, and that the Pentateuch in its present compass was not
publicly accepted as authoritative till the reformation of Ezra, the compilation of
bible would become a human endeavor to win over the opponents. 1
The most noteworthy exploration of this Hypothesis is by Richard E. Friedman.
His research is now available in books titled Who wrote the Bible? and
The Bible with Sources revealed. The hypothesis is now called Documentary hypothesis.
Elliot has proposed that the bible especially the so called five books of
Moses are composed of different writings. These writings were created under the
influence of different political conditions and tastes. For example the details of
Temple services in Bible comes from Priestly Writings. Then there are writings
which have clear influence of politics of southern and northern kingdoms. Some
parts of the biblical text we have today are made up of the interweaving done by
the Redactor. Not only that but the last book Deuteronomy has three different
writings called Dtr1, Dtr2 and the text ranging from chapter 12 till chapter 26 of
Deuteronomy, which has not been specified to any body.2 In a recently published
book ’The origins of the Second Temple’ author claims that the editors of Haggai
and Zechariah had mistakenly set the event of building of Second Temple under
Darius I. The basis of this conclusion is the presumption that the prophetic literature
like Ezekiel and Jeremiah was present before the end of Babylonian captivity.

However there is no need of these corrections as the text itself speaks out in opposite.
The conflicting voices of Zerrubabel and Ezra in the Second Temple Period
cannot be silenced by mere readjustment of the dates.
It is proposed in the present work that one can go back even further down in
history to know the motives behind these writings. Early stages of Second Temple
Period thus become the starting point of the analysis. The theory proposed may
helps in explaining not only the complexity of the Pentateuch but also the so called
prophetic literature along with it.

Abu Shahiryar
2006