حیات بعد الموت ٢

[عام انسانوں کیلیے اموات غیر احیاء اور شہید کیلیے بل احیا کیوں کہا گیا ؟ شہدا کی کیا خصوصیت رہی پھر؟]

سوال یہ ہے کہ شہدا کو بھی برزخی زندگی ملتی ہے اور عام انسانوں کو بھی – عام انسانوں کیلیے اموات غیر احیاء اور شہید کیلیے بل احیا کیوں کہا گیا ؟ شہدا کی کیا خصوصیت رہی پھر؟ جب دونوں برزخی زندگی میں ہیں جبکہ شہدا کے بارے میں کہا گیا کہ انکو مردہ نہ کہو.

پلیز.وضاحت کر.دیجیے شکریہ

جواب

اس سوال کا جواب طبری نے اپنی تفسیر میں دیا ہے
وإذا كانت الأخبار بذلك متظاهرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فما الذي خُصَّ به القتيل في سبيل الله، مما لم يعم به سائر البشر غيره من الحياة، وسائرُ الكفار والمؤمنين غيرُه أحياءٌ في البرزخ، أما الكفار فمعذبون فيه بالمعيشة الضنك، وأما المؤمنون فمنعَّمون بالروح والريحان ونَسيم الجنان؟
قيل: إنّ الذي خَصّ الله به الشهداء في ذلك، وأفادَ المؤمنين بخبره عنهم تعالى ذكره، إعلامه إياهم أنهم مرزوقون من مآكل الجنة ومطاعمها في بَرْزَخِهم قَبل بعثهم، ومنعَّمون بالذي ينعم به داخلوها بعد البعث من سائر البشر، من لذيذ مطاعمها الذي لم يُطعمها الله أحدًا غيرَهم في برزخه قبل بعثه. فذلك هو الفضيلة التي فضَّلهم بها وخصهم بها من غيرهم، والفائدة التي أفادَ المؤمنين بالخبر عنهم
اور روایات میں ہے جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے مروی ہیں کہ جو سبیل الله میں قتل ہوئے ان کی خصوصیت (کس طرح) ہے….. کہ تمام کفار و مومن البرزخ میں ہی زندہ ہیں- جو کفار ہیں وہ تنگ زندگی میں عذاب میں ہیں اور جو مومن ہیں وہ رحمت و نعمت میں اور جنت کی ہواووں میں ہیں ؟

کہا جاتا ہے : جو الله نے سبیل الله میں مرنے والوں کے لئے خاص کیا وہ مومنوں کو اس خبر کا فائدہ دیا تو ان کو جنت میں اس کی نعمت اور کھانے انکی برزخ میں قیامت سے پہلے مل گئے ہیں جبکہ باقی بشر کو یہ قیامت کے بعد ملین گے پس یہ شہداء کی فضیلت ہے یہ انکی وہ خصوصیت ہے جس کی خبر سے مومنوں کو فائدہ ہوا
———-

شہید جنت میں کھا پی رہے ہیں جبکہ عام مومن وہاں صرف سونے جیسی کیفیت میں ہیں
اسی طرح بڑے کفار اگ کا عذاب دیکھ رہے ہیں اس کی تپش محسوس کر رہے ہیں

[/EXPAND]

[کیا فرقہ پرستوں کے نزدیک عذاب قبر غیب کا معاملہ ہے ؟]

جواب

کہا جاتا ہے کہ مردہ قبر میں عالم البرزخ میں ہوتا ہے اس کے اور ہمارے درمیان آڑ ہے ہم نہیں دیکھ سکتے لیکن

فتاوی علمائے حدیث   میں ہے

روحوں کی آمد-١

روحوں کی آمد٢١

غیر مقلد عالم نے تصوف  کے کشف قبور کے عمل کو بطور دلیل پیش کیا ہے

کتاب مجموع فتاوى ورسائل فضيلة الشيخ محمد بن صالح العثيمين  کے مطابق سعودی عالم العثيمين سے سوال ہوتا ہے جس کے جواب میں وہابی  عالم  محمد بن صالح العثيمين نے ابن تیمیہ کی بات پیش کی کہ عذاب میت کوبھی ہوتا ہے

قال شيخ الإسلام ابن تيمية: إن الروح قد تتصل بالبدن فيعذب أو ينعم معها، وأن لأهل السنة قولاً آخر بأن العذاب أو النعيم يكون للبدن دون الروح واعتمدوا في ذلك على أن هذا قد رئي حسّاً في القبر فقد فتحت بعض القبور ورئي أثر العذاب على الجسم، وفتحت بعض القبور ورئي أثر النعيم على الجسم، وقد حدثني بعض الناس أنهم في هذا البلد هنا في عنيزة كانوا يحفرون لسور البلد الخارجي، فمروا على قبر فانفتح اللحد فوجد فيه ميت أكلت كفنه الأرض وبقي جسمه يابساً لكن لم تأكل منه شيئاً حتى إنهم قالوا: إنهم رأوا لحيته وفيها الحنا وفاح عليهم رائحة كأطيب ما يكون من المسك.

ابن تیمیہ کہتے ہیں

بے شک روح بدن سے متصل ہوتی ہے پس بدن عذاب پاتا ہے یا راحت،

 اور اہل السنہ کے ہاں ایک اور قول ہے کہ عذاب صرف بدن کو روح کے بغیر ہوتا ہے اور اس پر اعتماد کیا گیا ہے کہ بے شک اس کا قبر میں ہونے کا احساس دیکھا گیا ہے پس بعض قبروں کو کھولا گیا اور جسم  پر عذاب کا اثر دیکھا گیا اور بعض قبروں کو کھولا گیا اور جسم  پر راحت کا اثر دیکھا گیا اس عنيزة کے شہر والوں نے مجھے بتایا کہ وہ شہر کے باہر پھر رہے تھے پس قبر پر گزرے اور اسکو کھولا جس میں میت پائی جس کا کفن (زمین نے) کھا لیا تھا اور تازہ جسم باقی تھا جس میں سے کچھ کھایا نہ گیا تھا پس یہاں تک انہوں نے کہا انہوں نے دیکھا کہ جسم کی داڑھی پر مہندی ہے اوراس میں سے اچھی خوشبو ا رہی ہے لیکن مشک نہ تھی

ارشد کمال المسند فی عذاب القبر ص ١٣٥ پر لکھتے ہیں

arshad-135

اقبال کیلانی کتاب عذاب قبر کا بیان میں واقعہ لکھتے ہیں

اسی کتاب میں ص ٧١ تا ٧٣ پر سکھ مذھب کے ثقات کی خبر پر اسلامی عقیدہ کا بیان کیا گیا

بہر حال غیب میں جھانکنا  ان لوگوں  کے حساب سے ممکن ہے  جس کی امثال یہاں دی گئی ہیں

[/EXPAND]

[کیا میت زیارت قبر کرنے والے کو جانتی ہے]

جواب

ابن قیم نے کتاب الروح میں کہا
والسّلف مجمعون على هذا، وقد تواترت الآثار بأنّ الميّت يعرف زيارة الحيّ له ويستبشر به
سلف کا اس پر اجماع ہے کہ اور متواتر احادیث سے معلوم ہے کہ میت جانتی ہے ان زندوں کو جو اس کی زیارت کریں اور اس پر خوش ہوتی ہے

ظاہر ہے میت جب جانے گی تو اس کو معلوم ہو گا کہ انے والا مرد ہے یا عورت ہے
———

وہابی کہتے ہیں میت جانتی ہے جو قبر پر آئے
صالح المنجد کا فتوی ہے
https://islamqa.info/ar/111939
—-
جبکہ وہابی مفتی بن باز کہتے ہیں مردہ زائر کو پہچانتا ہے معلوم نہیں ہے
http://www.binbaz.org.sa/fatawa/4813
وأما كونه يشعر أو لا يشرع هذا يحتاج إلى دليل واضح – والله أعلم سبحانه وتعالى
جہاں تک یہ ہے کہ مردہ کو شعور ہے زائر کا تو یہ اس پر واضح دلیل نہیں ہے و الله اعلم
——-

اہل حدیث میں سے ایک مولوی سوال (کیا مردے، زندہ زائرین کو دیکھتے ہیں ؟ ) پر کہتا ہے

یہ صرف سلام کے ساتھ مخصوص ہے
http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/11447/753/44

———–
سلف کے ائمہ میں ابن قیم ، ان تیمیہ ، العزّ بن عبد السّلام، ابن عبد البر ، سیوطی وغیرہ یہ سب قائل ہیں کہ مردہ زائر کو پہچانتا ہے اسی بنا پر سلام کا جواب دیتا ہے

ان قائلین عود روح میں سے کسی نے کہا پرندہ بھی پہچان لیتا ہے سر دست یاد نہیں کس کا قول ہے
البتہ ابن قیم کتاب زاد المعاد في هدي خير العباد میں کہتے ہیں

الْحَادِيَةُ وَالثَّلَاثُونَ: إِنَّ الْمَوْتَى تَدْنُو أَرْوَاحُهُمْ مِنْ قُبُورِهِمْ، وَتُوَافِيهَا فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ، فَيَعْرِفُونَ زُوَّارَهُمْ وَمَنْ يَمُرُّ بِهِمْ، وَيُسَلِّمُ عَلَيْهِمْ، وَيَلْقَاهُمْ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ أَكْثَرَ مِنْ مَعْرِفَتِهِمْ بِهِمْ فِي غَيْرِهِ مِنَ الْأَيَّامِ، فَهُوَ يَوْمٌ تَلْتَقِي فِيهِ الْأَحْيَاءُ وَالْأَمْوَاتُ، فَإِذَا قَامَتْ فِيهِ السَّاعَةُ الْتَقَى الْأَوَّلُونَ وَالْآخِرُونَ، وَأَهْلُ الْأَرْضِ وَأَهْلُ السَّمَاءِ، وَالرَّبُّ وَالْعَبْدُ، وَالْعَامِلُ وَعَمَلُهُ، وَالْمَظْلُومُ وَظَالِمُهُ، وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ، وَلَمْ تَلْتَقِيَا قَبْلَ ذَلِكَ قَطُّ، وَهُوَ يَوْمُ الْجَمْعِ وَاللِّقَاءِ، وَلِهَذَا يَلْتَقِي النَّاسُ فِيهِ فِي الدُّنْيَا أَكْثَرَ مِنِ الْتِقَائِهِمْ فِي غَيْرِهِ، فَهُوَ يَوْمُ التَّلَاقِ. قَالَ أبو التياح يزيد بن حميد: كَانَ مُطَرِّفُ بْنُ عَبْدِ اللِّهِ يُبَادِرُ فَيَدْخُلُ كُلَّ جُمُعَةٍ، فَأَدْلَجَ حَتَّى إِذَا كَانَ عِنْدَ الْمَقَابِرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، قَالَ: فَرَأَيْتُ صَاحِبَ كُلِّ قَبْرٍ جَالِسًا عَلَى قَبْرِهِ، فَقَالُوا: هَذَا مطرف يَأْتِي الْجُمُعَةَ، قَالَ: فَقُلْتُ لَهُمْ، وَتَعْلَمُونَ عِنْدَكُمُ الْجُمُعَةَ؟ قَالُوا: نَعَمْ، وَنَعْلَمُ مَا تَقُولُ فِيهِ الطَّيْرُ، قُلْتُ: وَمَا تَقُولُ فِيهِ الطَّيْرُ؟ قَالُوا: تَقُولُ رَبِّ سَلِّمْ سَلِّمْ يَوْمٌ صَالِحٌ.

جمعہ کے دن مردوں کی روحیں قبروں کے قریب آتی ہیں اور اپنے زائرین کو پہچانتی ہیں اور جو ان پر گزریں ان کو بھی اور دیگر ایام کی بنسبت اس دن میں ان کی معرفت زیادہ ہوتی ہے ‘اس دن میں زندہ لوگ مردوں سے ملاقات کرتے ہیں پھر کہا کہ ابو لتیاح لاحق بن حمید نے کہا کہ مطرف بن عبداللہ بدر میں تھے جب جمعہ آتا تو اندھیرے میں نکل پڑتے یہاں تک جمعہ کے دن چڑھے قبرستان پہنچ جاتے وہ کہتے ہیں کہ میں نے ہر قبر والے کو اپنی قبر پر بیٹھے دیکھا لوگ (یعنی مردے ایک دوسرے سے) کہتے ہیں کہ یہ مطرف ہے جو جمعہ کو آتا ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا تم جمعہ کو جانتے ہو انہوں نے کہا ہاں اور ہم (مردے یہ بھی) جانتے ہیں اس دن پرندے کیا کہتے ہیں میں نے کہا پرندے اس دن کیا کہتے ہیں تو انہوں نے (یعنی مردوں نے ) کہا پرندے کہتے ہیں :یہ اچھا دن ہے یا اللہ بچا یا اللہ بچا

==================

ڈاکٹر عثمانی نے برزخی جسم کا عقیدہ بیان کیا ہے – اہل حدیث نے افواہ پھیلائی کہ یہ عقیدہ سلف میں کسی کا نہیں تھا اور اس کو مرزا قادیانی نے پہلی بار پیش کیا
اس کا جواب یہاں ہے

⇓ برزخی جسم کیا ہے کہا جاتا ہے ١٤٠٠ سو سال میں ایسا کسی عالم نے نہیں کہا بلکہ یہ غلام احمد قادیانی دجال کا دعوی تھا حقیقت کیا ہے ؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/عقائد/حیات-بعد-الموت/

مزید دیکھیں
https://www.islamic-belief.net/روح-کے-بدلتے-قالب/

[/EXPAND]

[حدیث میں الفاظ أَرْوَاحُهُمْ كَطَيْرٍ خُضْرٍ بھی اتے ہیں  مراد ہے کہ روحیں سبز پرندوں کی طرح اڑتی ہیں ]

جواب

یہ الفاظ أَرْوَاحُهُمْ كَطَيْرٍ خُضْرٍ – ارواح سبز پرندوں کی طرح صرف اعمش کی سند سے ہیں
لیکن ایمان ابن مندہ میں ہے
أَنْبَأَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَحْيَى، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَا: ثَنَا أَبُو مَسْعُودٍ، أَنْبَأَ أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ، ثَنَا الْأَعْمَشُ، ح، وَأَنْبَأَ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثَنَا يَحْيَى بْنُ مَنْصُورٍ الْهَرَوِيُّ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، ثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، وَأَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: ثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقِ بْنِ الْأَجْدَعِ، قَالَ: سَأَلْنَا عَبْدَ اللَّهِ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ {وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا [ص:401] بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ} [آل عمران: 169] ، فَقَالَ: أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: ” أَرْوَاحُهُمْ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ لَهَا قَنَادِيلُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ تَسْرَحُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ شَاءَتْ ثُمَّ تَأْوِي إِلَى تِلْكَ الْقَنَادِيلِ فَاطَّلَعَ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ اطِّلَاعَةً، فَقَالَ: هَلْ تَشْتَهُونَ شَيْئًا؟، فَقَالُوا: أَيُّ شَيْءٍ نَشْتَهِي وَنَحْنُ نَسْرَحُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ شِئْنَا؟ فَفَعَلَ بِهِمْ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَلَمَّا رَأَوْا أَنْ لَنْ يُتْرَكُوا مِنْ أَنْ يَشَاءُوا شَيْئًا، قَالُوا: يَا رَبِّ نُرِيدُ أَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا حَتَّى نُقْتَلَ فِي سَبِيلِكَ مَرَّةً أُخْرَى فَلَمَّا رَأَى أَنْ لَيْسَ لَهُمْ حَاجَةٌ تُرِكُوا رَوَاهُ ابْنُ عُيَيْنَةَ، وَجَرِيرٌ، وَعِيسَى بْنُ يُونُسَ
یہاں الفاظ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ سبز پرندوں کے پیٹوں میں ہیں جو اعمش کی ہی سند سے ہیں
معلوم ہوتا ہے یہ الفاظ کی تبدیلی اعمش کرتے ہیں
صحیح مسلم میں بھی اعمش کی سند سے ہی ہے

اعمش کی ہی سند سے بعض احادیث میں متن میں فِي حَوَاصِلِ طَيْرٍ خُضْرٍ سبز پرندوں کے پیٹوں کے الفاظ ہیں

بعض روایت میں فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ سبز پرندوں کے پیٹوں میں کے الفاظ ہیں
یہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ابن عمر کا قول ہے
حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ ثَوْرٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: الْجَنَّةُ مَطْوِيَّةٌ مُعَلَّقَةٌ بِقُرُونِ الشَّمْسِ , تُنْشَرُ فِي كُلِّ عَامٍ مَرَّةً وَأَرْوَاحُ الْمُؤْمِنِينَ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ , كَالزَّرَازِيرِ , يَتَعَارَفُونَ وَيُرْزَقُونَ مِنْ ثَمَرِ الْجَنَّةِ.

فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ سبز پرندوں کے پیٹوں میں کے الفاظ ابن عباس سے مروی ایک مرفوع روایت میں بھی ہیں

[/EXPAND]

[تخلیق انسان اور روح کب اتی ہے  پر سوال ہے]

انسان کیا زمیں سے اگا ہے ؟

سورہ نوح کی آیات نمبر 17-18.اور اللہ نے تمھیں سبزے کی طرح زمین سے اُگایا ۔۔اور پھر اسی میں تم کو لوٹایا جا ئے گا ۔۔۔۔ بھائی اس کی تفسیر کیا ہوگی انسان کی تخلیق کا عمل بیان کیا گیا ہے؟

بچے کی زندگی رحم مادر میں زندہ خلیوں کی ذریعے سے پہلے دن سے ہی شروع ہو جاتی ہے کروڑوں حیاتی خلیات میں سے چند رحم مادر میں پہنچتے ہیں اور باقی راستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں اور ان سے ہی زندگی کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔۔۔۔۔جبکہ سورہ نوح کی آیت نمبر 17کی تاویل اس طرح کی جاتی ہے کہ ہم نے تم کو سبزے کی طرح اگایا ۔۔۔ یعنی انسان کو زمین سے اگایا بُت بنا کر روح پھونکنے کا ذکر نہیں

جواب

الله تعالی نے کہا
{واللّهُ أنْبتكُمْ مِن الْأرْضِ نباتا (17) ثُمّ يُعِيدُكُمْ فِيها ويُخْرِجُكُمْ إِخْراجا (18)}.
اور الله نے تم کو زمین میں سے اگایا – پھر تم کو اسی میں لوٹا دے گا اور نکالے گا

یہ جسد آدم کی بات ہے اور جب بھی آدم کا ذکر ہوتا ہے تمام بنی آدم پر وہ منطبق ہوتا ہے اس وجہ سے جمع کا صیغہ اتا ہے

قرآن میں ہے
وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلائِكَةِ اسْجُدُوا لآدَمَ
اور بے شک ہم نے تم کو سب کو خلق کیا پھر صورت گری کی پھر فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو

یعنی بنی آدم کی تمام ارواح خلق کیں اور تقدیر میں تمام کی صورت لکھی اور پھر آدم کے لئے سجدہ کا حکم کیا

قرآن میں بلاغت کا انداز ہے

انسان کی تخلیق میں منی کے جرثومہ میں زندگی ہوتی ہے اور جب انسان مرتا ہے تو جسم کے جراثیم بھی بھی زندہ رہتے ہیں ان کو مرنے میں مدت لگتی ہے اور درحقیقیت یہی تغیر و تبدل کے عمل میں ہوتا ہے کہ عناصر بدلتے ہیں جسم گوشت سے مٹی کی حالت پر اتا ہے ظاہر ہے اس میں بھی کیمیاآئی عمل ہوتا ہے
اگر انسان کو جلا دیا جائے تو اس کا جسم ایندھن کی طرح جلتا ہے بال کھال – سائنس کہتی ہے کہ ایندھن جب جلتا ہے تو پانی اور کاربنڈائی آکسائڈ بن جاتا ہے گویا انسان کا کچھ وجود گیس کی حالت میں تبدیل ہو کر کرہ ارضی کے گرد حالت گیس میں بکھر جاتا ہے
یہ سب سائنس میں ہے کیونکہ اس میں روح نہیں ہے وہ روح کے وجود کو نہیں مانتی کیونکہ نہ تو روح کی پیمائش ممکن ہے نہ حجم ہے نہ وزن ہے جب اپ کسی چیز کو ناپ نہ سکیں اس کے وجود کا کوئی اشارہ ہی نہ ہو تو اسی چیز کو سائنس نہیں مانتی
————–

مذھب میں روح کا ہی ذکر ہے اسی سے زندگی بنتی ہے ختم ہوتی ہے
انسان کو درخت سے تشبیہ دی گئی ہے کہ انسان اس طرح نشو نما پاتا ہے کہ گویا ایک درخت ہو
اور آخرت میں جب آسمان سے بارش ہو گی تو تمام خلقت پودوں کی طرح دوبارہ پیدا ہو گی
جیسا حدیث میں ہے
——
اپ دونوں کو ملا دین گے تو کچھ نتیجہ نہ نکال سکیں گے
یہ بات کہ انسان زمیں سے اگا یہ یونانی فلسفیوں کی رائے ہے
Thales the Milesian (639-544 B.C.)
کے مطابق انسانی زندگی پانی پر شروع ہوئی
باطنی شیعوں کا بھی یہی قول تھا کہ آسمان سے بارش ہوئی اس سے زمین پر تالاب بن گئے اس میں زندگی شروع ہوئی
بعد میں اخوان الصفا نے اس کو بیان کیا اور اندلس کے مسلمان فلسفیوں نے بھی
لیکن یہ قرآن کی آیات سے متصادم قول ہے جس کے مطابق زندگی آدم سے شروع ہوئی جنت میں
———
اس میں تطبیق اس طرح دینے کی کوشش کی گئی کہ مودودی نے کہا کہ وہ جنت زمیں کا ہی ایک ٹکڑا تھی دلیل یہ ہے کہ آدم نے کسی باغ کا بھل کھایا اگر جنت کا کھایا ہوتا تو مرتے نہیں
اس قسم کی بات مودودی نے رسائل و مسائل میں کہیں کہی ہے
تفہیم میں کہا
وہ جنت ممکن ہے کہ آسمانوں میں ہو اور ممکن ہے کہ اِسی زمین پر بنائی گئی ہو۔
http://www.urduquran.net/?surah=20&rukuh=7
پرویز نے بھی اسی طرح کا کوئی قول کہا ہے
لیکن یہ تمام باتیں بے ربط ہیں
—————
آدم عبرانی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہی سرخ مٹی ہے

—–

رحم مادر میں ٦ ہفتوں میں (٤٢ دن بعد) منی کی آمد کے بعد دل دھڑکنا شروع ہوتا ہے
اس کو ٨وں ہفتے سے سنا جا سکتا ہے

حذیفہ بن اسید غفاری سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے جب نطفے پر ٤٢ راتیں گزر جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کے پاس ایک فرشتے کو بھیجتاہے ‘ جو اس کی صورت ‘کان ‘آنکھ ‘کھال’ گوشت اور ہڈیاں بناتا ہے ‘پھر عرض کر تاہے اے پروردگار، یہ مرد ہے یا عورت ‘پھر جو مرضی الٰہی ہوتی ہے وہ فرماتاہے ‘فرشتہ لکھ دیتاہے ‘پھر عرض کرتاہے ‘ اے پروردگار اس کی عمر کیاہے ‘چنانچہ اللہ تعالیٰ جو چاہتاہے حکم فرماتا ہے اورفرشتہ وہ لکھ دیتا ہے پھر عرض کرتاہے کہ اے پروردگار اس کی روزی کیا ہے ‘چنانچہ پروردگار جو چاہتاہے وہ حکم فرمادیتاہے اورفرشتہ لکھ دیتاہے اور پھر وہ فرشتہ وہ کتاب اپنے ہا تھ میں لے کر باہر نکلتاہے جس میں کسی بات کی کمی ہوتی ہے اورنہ زیادتی ” (صحیح مسلم باب القدر)

انس بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اﷲ تعالیٰ نے رحم مادر پر ایک فرشتہ مقرر فرما رکھا ہے۔ وہ یہ عرض کرتا رہتا ہے اے میرے (رب ابھی تک) یہ نطفہ (کے مرحلہ میں) ہے۔ اے میرے رب (اب)یہ علقہ (یعنی جمے ہوئے خون کے مرحلہ میں) ہے۔ اے میرے رب (اب) یہ مضغہ (یعنی گوشت کے لوتھڑے کے مرحلے میں) ہے۔ پھر جب اﷲ تعالیٰ اس کی خلقت کو پورا کرنے کا ارادہ (ظاہر) کرتے ہیں تو فرشتہ پوچھتا ہے اے میرے رب (اس کے متعلق کیا حکم ہے) یہ مردہو گا یا عورت، بدبخت ہوگا یا نیک بخت، اس کا رزق کتنا ہوگا اور اس کی عمر کتنی ہوگی۔ تو ماں کے پیٹ میں ہی وہ فرشتہ یہ سب باتیں ویسے ہی لکھ دیتا ہے۔ جیسا اسے حکم دیا جاتا ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ہر بچہ اپنا رزق اور عمر لیکر پیدا ہو تا ہے ۔

مضغہ کی حالت (لغوی مفہوم چبایا ہوا مادہ) کے بعد ہی بچہ دانی میں دل دھڑکتا ہے
گویا یہ اب ایک بت بن چکا ہوتا ہے جس میں روح اتی ہے

بیالیس دن بعد فرشتہ کا آنا اور اسی پر دل کی دھڑکن کا سنا جانا ایک بات ہے اس طرح حدیث اور سائنس ایک ہی بات کہتے ہیں
=======

اب ایک متضاد روایت جو صحیح بخاری میں ابن مسعود سے مروی ہے جس کے مطابق ١٢٠ دن بعد یعنی ٤ ماہ بعد روح اتی ہے
حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ المَصْدُوقُ، قَالَ: ” إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ مَلَكًا فَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، وَيُقَالُ لَهُ: اكْتُبْ عَمَلَهُ، وَرِزْقَهُ، وَأَجَلَهُ، وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ، ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ، فَإِنَّ الرَّجُلَ مِنْكُمْ لَيَعْمَلُ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الجَنَّةِ إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ كِتَابُهُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، وَيَعْمَلُ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الكِتَابُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الجَنَّةِ ”

تم میں سے ہر ایک کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں مکمل کی جاتی ہے۔ چالیس دن تک نطفہ رہتاہے پھراتنے ہی وقت تک منجمد خون کا لوتھڑارہتا ہے پھر اتنے ہی روز تک گوشت کا لوتھڑا رہتاہے اس کے بعد اللہ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتوں کا حکم دیا جاتا ہے کہ اس کا عمل ‘اس کا رزق اوراس کی عمر لکھ دے اوریہ بھی لکھ دے کہ بدبخت ہے یا نیک بخت ،اس کے بعد اس میں روح پھونک دی جاتی ہے ….”(صحیح بخاری باب بدء الخلق ۔صحیح مسلم باب القدر)

اس روایت کو اگرچہ امام بخاری و مسلم نے صحیح کہا ہے لیکن اس کی سند میں زید بن وھب کا تفرد ہے اور امام الفسوی کے مطابق اس کی روایات میں خلل ہے

طحاوی نے مشکل الاثار میں اس روایت پر بحث کی ہے اور پھر کہا
وَقَدْ وَجَدْنَا هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ رِوَايَةِ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ , عَنِ الْأَعْمَشِ , بِمَا يَدُلُّ أَنَّ هَذَا الْكَلَامَ مِنْ كَلَامِ ابْنِ مَسْعُودٍ , لَا مِنْ كَلَامِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
اور ہم کو ملا ہے جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ , عَنِ الْأَعْمَشِ , سے کہ یہ کلام ابن مسعود ہے نہ کہ کلام نبوی

لیکن طحاوی نے کہا یہ بات ابن مسعود کو نبی صلی الله علیہ وسلم نے بتائی ہو گی

راقم کہتا ہے اس کی جو سند صحیح کہی گئی ہے اس میں زید کا تفرد ہے جو مضبوط نہیں ہے

اس حدیث پر لوگوں کو شک ہوا لہذا کتاب جامع العلوم والحكم في شرح خمسين حديثا من جوامع الكلم از ابن رجب میں ہے
وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ الْأَسْفَاطِيِّ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا يَرَى النَّائِمُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ الَّذِي حَدَّثَ عَنْكَ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ. فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” وَالَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ حَدَّثْتُهُ بِهِ أَنَا ” يَقُولُهُ ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ غَفَرَ اللَّهُ لِلْأَعْمَشِ كَمَا حَدَّثَ بِهِ، وَغَفَرَ اللَّهُ
مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ الْأَسْفَاطِيِّ نے روایت کیا کہ میں نے خواب میں نبی کو دیکھا کہا اے رسول الله حدیث ابن مسعود جو انہوں نے اپ سے روایت کی ہے کہا سچوں کے سچے نے کہا ؟ فرمایا وہ جس کے سوا کوئی الہ نہیں میں نے ہی اس کو ان سے روایت کیا تھا تین بار کہا پھر کہا الله نے اعمش کی مغفرت کی کہ اس نے اس کو روایت کیا

یہ انداز تھا تصحیح احادیث کے لیے ائمہ کا

[/EXPAND]

[دو زندگیاں دو موت میں پہلی موت سے کیا مراد ہے ؟]

جواب

اس میں لوگوں کے اقوال ہیں یا تفسیری آراء ہیں
مثلا بعض کہتے ہیں جب انسان نہیں تھا یعنی جب اپ پیدا نہیں ہوئے تھے وہ وقت موت تھا جس کو حالت عدم بھی کہتے ہیں
بعض کے نزدیک یہ جنین کی حالت ہے جس میں روح نہیں ہے
طبری کے نزدیک دونوں قول صحیح ہیں
———–
تفسیر ابی حاتم میں ابن عباس کا قول ہے
حَدَّثَنَا أَبِي ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى أَنْبَأَ هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: كُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ فِي أَصْلابِ آبَائِكُمْ لَمْ تَكُونُوا شَيْئًا حَتَّى خَلَقَكُمْ، ثُمَّ يُمِيتُكُمْ مَوْتَةَ الْحَقِّ، ثُمَّ يُحْيِيِكُمْ حِينَ يَبْعَثُكُمْ «3» . قَالَ: وَهِيَ مِثْلُ قَوْلِهِ:
أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ. وَرُوِيَ عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ وَالْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ وَأَبِي صَالِحٍ وَالسُّدِّيِّ وَقَتَادَةَ نَحْوُ ذَلِكَ.
تم مردہ تھے پھر تم کو تمھارے باپوں کے اندر زندگی دی گئی تم کوئی چیز نہ تھے یہاں تک کہ خلق ہوئے پھر مرو گے موت جو حق ہے پھر دوبارہ زندہ ہو گے
ایسا ہی أَبِي الْعَالِيَةِ وَالْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ وَأَبِي صَالِحٍ وَالسُّدِّيِّ وَقَتَادَةَ نے کہا
اس کی سند صحیح ہے
یعنی ان کے نزدیک حالت عدم موت تھی

——–

تفسیر طبری میں ابن عباس سے منسوب دوسرا قول ہے
حُدثت عن المنجاب، قال: حدثنا بشر بن عمارة، عن أبي روق، عن الضحاك، عن ابن عباس، في قوله:”أمتَّنا اثنتين وأحييتنا اثنتين”، قال: كنتم تُرابًا قبل أن يخلقكم، فهذه ميتة، ثم أحياكم فخلقكم، فهذه إحياءة. ثم يميتكم فترجعون إلى القبور، فهذه ميتة أخرى. ثم يبعثكم يوم القيامة، فهذه إحياءة. فهما ميتتان وحياتان، فهو قوله:”كيف تكفرون بالله وكنتم أمواتًا فأحياكم ثم يميتكم ثم يحييكم، ثم إليه ترجعون”.
الضحاك نے کہا ابن عباس نے کہا … تم مٹی تھے خلق ہونے سے پہلے پس یہ مردہ ہے پھر زندہ ہوئے تخلیق پر یہ زندگی ہے
سند منقطع ہے
الضحاك بن مزاحم الهلالي صاحب التفسير كان شعبة ينكر أن يكون لقي بن عباس
شعبہ نے راوی کے سماع کا انکار کیا ہے

طبری نے کہا
وأما وجه تأويل قول قتادة ذلك: أنهم كانوا أمواتًا في أصلاب آبائهم. فإنه عنى بذلك أنهم كانوا نطفًا لا أرواح فيها، فكانت بمعنى سائر الأشياء الموات التي لا أرواح فيها. وإحياؤه إياها تعالى ذكره، نفخُه الأرواح فيها، وإماتتُه إياهم بعد ذلك، قبضُه أرواحهم. وإحياؤه إياهم بعد ذلك، نفخُ الأرواح في أجسامهم يوم يُنفخ في الصّور، ويبْعثُ الخلق للموعود.
اور قتادہ کے قول کا جہاں تک تعلق ہے کہ تم مردہ تھے اپنے باپوں کے صلب میں تو معنی ہے کہ تم نطفہ تھے جس میں روح نہیں تھی تو ان معنوں میں تمام اشیاء حالت موت میں ہیں جن میں روح نہیں ہے

یہاں تم مردہ تھے مراد راقم سمجھتا ہے حالت عدم ہے یعنی جب ہم نہیں تھے تو گویا ہم مردہ تھے

[/EXPAND]

[سبز پرندوں والی روایت موقوف ہے ؟]

جواب

سند صحابی پر جا کر رک جائے تو حدیث موقوف ہے
اس کی سند میں ایسا ہے لیکن متن میں الفاظ ہیں
قَالَ: أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِكَ , فَأُخْبِرْنَا
ہم نے بھی اس پر سوال کیا تھا پس ہم کو خبر دی گئی

ابن مسعود کو یہ خبر یقینا رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے ملی کیونکہ کوئی اور غیب کی یہ خبر نہیں دے سکتا

بیہقی نے کتاب إثبات عذاب القبر وسؤال الملكين کی حدیث کے بعد ابن عباس کی روایت بھی دی ہے اس کے بعد کہا
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحُسَيْنِ الْقَاضِي، بِمَرْوَ، ثَنَا الْحَارِثُ بْنُ أَبِي أُسَامَةَ، ثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، ثَنَا الْحَارِثُ بْنُ فُضَيْلٍ الْأَنْصَارِيُّ، عَنْ مَحْمُودَ بْنِ لُبَيْدٍ الأَنْصَارِىُّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الشُّهَدَاءُ عَلَى بَارِقِ – نَهْرٍ بِبَابِ الْجَنَّةِ – فِي قُبَّةٍ خَضْرَاءَ يَخْرُجُ عَلَيْهِمْ رِزَقُهُمْ بُكْرَةً وَعَشِيًّا»

قَالَ الشَّيْخُ : الْحَدِيثُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ مِنْ هَذَا، وَرُوِيَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ بیہقی نے کہا پہلی ابن مسعود والی حدیث ابن عباس کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے اور ابن عباس نے اس کو نبی صلی الله علیہ وسلم سے ہی روایت کیا ہے جیسا کہ حدیث ابن مسعود میں ہے

اس روایت کو مرفوع ہی لیا گیا ہے
https://www.islamic-belief.net/روح-کے-بدلتے-قالب/

الألباني في ” السلسلة الصحيحة ” 6 / 279 :
أخرجه مسلم ( 6 / 38 – 39 ) و الترمذي ( 3014 ) و الدارمي ( 2 / 206 ) و ابن
ماجه ( 2 / 185 ) و البيهقي في ” الشعب ” ( 4 / 19 – 20 ) و الطيالسي ( 38 /
294 ) و ابن أبي شيبة ( 5 / 308 ) و هناد في ” الزهد ” ( 154 ) و الطبري ( 8206
) من طرق عن الأعمش عن عبد الله بن مرة عن مسروق قال : سألنا عبد الله [ بن
مسعود ] عن هذه الآية *( و لا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا بل
أحياء عند ربهم يرزقون )* ؟ قال : أما إنا قد سألنا عن ذلك ؟ فقال : … فذكره
. و السياق لمسلم ، و الزيادة للترمذي ، و قال : ” حديث حسن صحيح ” . قلت : هو
مرفوع في صورة موقوف ، فإن النبي صلى الله عليه وسلم لم يذكر فيه صراحة ، لكنه
في حكم المرفوع قطعا ، و ذلك لأمرين : الأول : أن قوله : ” سألنا عن ذلك ؟ فقال
: ” لا يمكن أن يكون المسؤول و القائل إلا الرسول صلى الله عليه وسلم ، لأنه هو
مرجعهم في بيان ما أشكل أو غمض عليهم و الآخر : أن ما في الحديث من فضل الشهداء
عند الله ، و مخاطبته تعالى إياهم و جوابهم و طلبهم منه أن ترد أرواحهم إلى
أجسامهم ، كل ذلك مما لا يمكن أن يقال بالرأي . و لذلك قال النووي في ” شرح
مسلم ” : ” و هذا الحديث مرفوع لقوله : ” إنا قد سألنا عن ذلك ، فقال ، يعني
النبي صلى الله عليه وسلم ” . و أمر ثالث : أنه قد جاء طرف منه مرفوعا من حديث
ابن عباس رضي الله عنه عند أحمد

البانی نے کہا میں کہتا ہوں یہ مرفوع ہے صورت میں موقوف لگ رہی ہے کیونکہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا اس میں صراحت سے ذکر نہیں ہے لیکن یہ مرفوع قطعی ہے اور اس کی دو وجوہات ہیں اول اس میں قول ہے کہ ہم نے اس پر سوال کیا تھا پس یہ ممکن نہیں کہ سوال جس سے کیا گیا اور جس نے جواب دیا وہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے سوا کوئی اور ہو کیونکہ ان سے ہی اشکال پر سوال کیا جاتا تھا یا جس میں اغمض ہو دوم اس میں شہداء کی فضیلت کا ذکر ہے … اور اس کا جواب رائے سے نہیں دیا جا سکتا اور ایسا ہی نووی نے شرح صحیح مسلم میں کہا ہے کہ یہ حدیث مرفوع ہے

ملا علی قاری کتاب مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں کہتے ہیں
قُلْتُ: أَيْضًا: جَلَالَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ تَأْبَيْ أَنْ يَسْأَلَ عَنْ ذَلِكَ غَيْرَهُ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
میں بھی نووی کی طرح یہی کہتا ہوں کہ ابن مسعود کی جلالت شان کے خلاف ہے کہ وہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے سوا کسی سے سوال کرتے

الكوكب الوهاج شرح صحيح مسلم میں محمد الأمين بن عبد الله الأُرَمي العَلَوي الهَرَري الشافعي یہی کہتے ہیں کہ یہ مرفوع ہے
ما حرف استفتاح وتنبيه أي انتبهوا واستمعوا ما أقول لكم أيها المخاطبون إنا معاشر الصحابة سألنا رسول الله صلى الله عليه وسلم (عن ذلك) أي عن معنى هذه الآية وتأويلها فيكون الحديث مرفوعًا يدل على ذلك قرينة الحال فإن ظاهر حال الصحابي أن يكون سؤاله من النبي صلى الله عليه وسلم لا سيما في تأويل آية كهذه اهـ من المرقاة وعبارة القرطبي قوله (أما إنا سألنا عن ذلك فقال) رسول الله صلى الله عليه وسلم في جواب سؤالنا كذا صحت الرواية ولم يذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم ولكن هو المراد منها قطعًا ألا ترى قوله (فقال) وأسند الفعل إلى ضميره وإنما سكت عنه للعلم به فهو مرفوع وليس هذا المعنى الذي في هذا الحديث مما يتوصل إليه بعقل ولا قياس وإنما يتوصل إليه بالوحي فلا يقال هو موقوف على عبد الله بن مسعود اهـ من المفهم.

———
یاد رہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا حکم ہے کہ کسی کو قرآن سیکھنا ہو تو ابن مسعود سے سیکھے

[/EXPAND]

[آج کے دور کے اہل حدیثوں کے نزدیک یہ روایت ضعیف ہے]

تم میں سے جب کوئی سلام کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ میری طرف میری روح کو لوٹا دیتا ہے یہاں تک کہ میںً اسکے سلام کا جواب دیتا ہوں
اور یہ روایت پہلے کے اہل حدیث کے کونسے علماء نےصحیح روایت سمجھ کر جو اوپر بیان کی ہے مسند احمد کی روایت پر عقیدہ بنایا تھا اس شخصیت کا نام کے ساتھ حوالہ چاہیے بہت شکریہ جزاک اللہ

جواب

خواجہ محمد قاسم نے کتاب کراچی کا عثمانی مذہب میں اس روایت کو ضعیف کہا ہے
زبیر علی زئی نے سوالات میں کہا ہے
زبیر علی زئی کتاب توضیح الاحکام میں ضعیف کہا ہے
https://www.youtube.com/watch?v=s5rsyFMYpg0
اسی ویڈیو میں ٥٤:٣٤ منٹ پر قبر میں روح لوٹائے جانے والی روایت پر سوال ہوا

اس کتاب میں اس کی تفصیل ہے

https://www.islamic-belief.net/وفات-النبی-پر-کتاب/

مختصرا یہ کتاب اکابر پرستی و صراط مستقیم میں مضمون مصطفی سراپا رحمت پہ لاکھوں سلام کے نام سے بھی ہے

[/EXPAND]