زبیر علی زئی تحقیقات کی روشنی میں ٢

ابو ہریرہ رضی الله تعالی عنہ سے مروی عذاب قبر سے متعلق کچھ متضاد روایات پیش کی جاتی ہیں ان میں سے ایک سنن ابن ماجہ، مسند احمد  میں بیان ہوئی ہے

زبیر علی زئی  توضح الاحکام میں اس کوعود روح کی دلیل پر پیش کرتے ہیں

tozeh-555

مسند احمد  کی روایت  ہے

حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: ” إِنَّ الْمَيِّتَ تَحْضُرُهُ الْمَلَائِكَةُ، فَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ الصَّالِحُ، قَالُوا: اخْرُجِي أَيَّتُهَا النَّفْسُ  الطَّيِّبَةُ، كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الطَّيِّبِ، اخْرُجِي حَمِيدَةً، وَأَبْشِرِي بِرَوْحٍ، وَرَيْحَانٍ، وَرَبٍّ غَيْرِ غَضْبَانَ “، قَالَ: ” فَلَا يَزَالُ يُقَالُ ذَلِكَ حَتَّى تَخْرُجَ، ثُمَّ يُعْرَجَ بِهَا إِلَى السَّمَاءِ، فَيُسْتَفْتَحُ لَهَا، فَيُقَالُ: مَنْ هَذَا؟ فَيُقَالُ: فُلَانٌ، فَيَقُولُونَ: مَرْحَبًا بِالنَّفْسِ الطَّيِّبَةِ، كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الطَّيِّبِ، ادْخُلِي حَمِيدَةً، وَأَبْشِرِي بِرَوْحٍ، وَرَيْحَانٍ، وَرَبٍّ غَيْرِ غَضْبَانَ ” قَالَ: ” فَلَا يَزَالُ يُقَالُ لَهَا حَتَّى يُنْتَهَى بِهَا إِلَى السَّمَاءِ الَّتِي فِيهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ السَّوْءُ، قَالُوا: اخْرُجِي أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِيثَةُ، كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الْخَبِيثِ، اخْرُجِي ذَمِيمَةً، وأَبْشِرِي بِحَمِيمٍ وَغَسَّاقٍ، وَآخَرَ مِنْ شَكْلِهِ أَزْوَاجٍ، فَلَا تَزَالُ تَخْرُجُ، ثُمَّ يُعْرَجَ بِهَا إِلَى السَّمَاءِ، فَيُسْتَفْتَحُ لَهَا، فَيُقَالُ: مَنْ هَذَا؟ فَيُقَالُ: فُلَانٌ، فَيُقَالُ: لَا مَرْحَبًا بِالنَّفْسِ الْخَبِيثَةِ، كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الْخَبِيثِ، ارْجِعِي ذَمِيمَةً، فَإِنَّهُ لَا يُفْتَحُ لَكِ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، فَتُرْسَلُ مِنَ السَّمَاءِ، ثُمَّ تَصِيرُ إِلَى الْقَبْرِ، فَيُجْلَسُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ، فَيُقَالُ لَهُ: مِثْلُ مَا قِيلَ لَهُ فِي الْحَدِيثِ الْأَوَّلِ، وَيُجْلَسُ الرَّجُلُ السَّوْءُ

اس روایت کا بقیہ حصہ ابن مآجہ بَابُ ذِكْرِ الْقَبْرِ وَالْبِلَى  میں بیان ہوا ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ

إِنَّ الْمَيِّتَ يَصِيرُ إِلَى الْقَبْرِ، فَيُجْلَسُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ فِي قَبْرِهِ، غَيْرَ فَزِعٍ، وَلَا مَشْعُوفٍ، ثُمَّ يُقَالُ لَهُ: فِيمَ كُنْتَ؟ فَيَقُولُ: كُنْتُ فِي الْإِسْلَامِ، فَيُقَالُ لَهُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ؟ فَيَقُولُ: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ فَصَدَّقْنَاهُ، فَيُقَالُ لَهُ: هَلْ رَأَيْتَ اللَّهَ؟ فَيَقُولُ: مَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَرَى اللَّهَ، فَيُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةٌ قِبَلَ النَّارِ، فَيَنْظُرُ إِلَيْهَا يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا، فَيُقَالُ لَهُ: انْظُرْ إِلَى مَا وَقَاكَ اللَّهُ، ثُمَّ يُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةٌ قِبَلَ الْجَنَّةِ، فَيَنْظُرُ إِلَى زَهْرَتِهَا، وَمَا فِيهَا، فَيُقَالُ لَهُ: هَذَا مَقْعَدُكَ، وَيُقَالُ لَهُ: عَلَى الْيَقِينِ كُنْتَ، وَعَلَيْهِ مُتَّ، وَعَلَيْهِ تُبْعَثُ، إِنْ شَاءَ اللَّهُ، وَيُجْلَسُ الرَّجُلُ السُّوءُ فِي قَبْرِهِ، فَزِعًا مَشْعُوفًا، فَيُقَالُ لَهُ: فِيمَ كُنْتَ؟ فَيَقُولُ: لَا أَدْرِي، فَيُقَالُ لَهُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ؟ فَيَقُولُ: سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ قَوْلًا، فَقُلْتُهُ، فَيُفْرَجُ لَهُ قِبَلَ الْجَنَّةِ، فَيَنْظُرُ إِلَى زَهْرَتِهَا وَمَا فِيهَا، فَيُقَالُ لَهُ: انْظُرْ إِلَى مَا صَرَفَ اللَّهُ عَنْكَ، ثُمَّ يُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةٌ قِبَلَ النَّارِ، فَيَنْظُرُ إِلَيْهَا، يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا، فَيُقَالُ لَهُ: هَذَا مَقْعَدُكَ، عَلَى الشَّكِّ كُنْتَ، وَعَلَيْهِ مُتَّ، وَعَلَيْهِ تُبْعَثُ، إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى

اس کا ترجمہ ارشد کمال المسند فی عذاب القبر میں کرتے ہیں

arshad-taseer-ila-qbr

یہ  دو روایات ہیں اور ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، کی سند سے آ رہی ہے

 مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ الْقُرَشِيّ العامري اور ابن أبي ذئب ثقه  ہیں لیکن  ابن أبي ذئب یعنی محمَّد ابن عبد الرحمن بن المغيرة بن الحارث کے لئے احمد کہتے ہیں ( سوالات ابی داود، تہذیب الکمال ج ٢٥ ص ٦٣٠

 إلا أن مالكًا أشد تنقية للرجال منه، ابن أبي ذئب لا يبالي عمن يحدث

بے شک امام مالک ان سے زیادہ رجال کو پرکھتے تھے جبکہ  ابن أبي ذئب اس کا خیال نہیں رکھتے کہ کس سے روایت کر رہے ہیں

  اس ر وایت کا متن  مبہم اور منکر ہے

اس روایت میں ہے کہ مومن کی

حَتَّى يُنْتَهَى بِهَا إِلَى السَّمَاءِ الَّتِي فِيهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ.

روح اوپر لے جائی جاتی ہے حتی کہ اس آسمان پر جا پہنچتی ہے جس پر الله عَزَّ وَجَلَّ ہے

قرآن کہتا ہے کہ الله عرش پر ہے اور راوی کہہ رہے ہیں کہ اللّہ تعالی کسی آسمان پر ہے

 زبان و ادب میں  اللہ کو آسمان والا کہا جاتا ہے

  صحیح مسلم کی روایت ہے

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈى سے پوچھا تھا كہ : اللہ کہاں ہے ؟ تو اس نے کہا : آسمان میں ، پھر آپ نے فرمایا : میں کون ہوں ؟ تو اس نے کہا : آپ اللہ کے رسول ہیں ، تو آپ نے ارشاد فرمایا : اسے آزاد کردو ، یہ ایمان والی ہے

قرآن کہتا ہے

الرحمن علی العرش الستوی   طٰہٰ :۵

رحمن عرش پر مستوی ہوا۔

سوره الحدید میں ہے
هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاء وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ

وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں‌پیدا کیا ، پھر عرش  پر متمکن ہو گیا ۔ وہ اسے بھی جانتا ہے جو کچھ زمین میں‌داخل ہوتا ہے اور جو کچھ اس میں سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمانوں سے اترتا ہے اورجو کچھ اس میں‌ چڑھتاہے ، اور وہ تمہارے ساتھ ہے خواہ تم کہیں بھی ہو ۔ اور جو کچھ بھی تم کیا کرتے ہواسے وہ دیکھتا ہوتا ہے سورہ الحدید

بخاری میں ہے کہ رسول الل صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

(( اِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ کِتَابًا… فَھُوَ مَکْتُوْبٌ عِنْدَہُ فَوْقَ الْعَرْشِ )) [بخاری،کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالٰی : { بل ھو قرآن مجید ¡ فی لوح محفوظ} (۷۵۵۴)]

’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ایک کتاب لکھی ہے … جو اس کے پاس عرش کے اوپر ہے۔

لیکن اس روایت  زیر بحث میں روح کو خاص اس آسمان پر لے جایا جا رہا ہے جس پر الله ہے  جو ایک غلط عقیدہ ہے

اہل حدیث زبیر علی زئی نے   اس روایت کو  اپنے مضمون عذاب قبر حق ہے شمارہ الحدیث میں پیش کیا اور جو نتائج اخذ کیے ان پر نظر ڈالتے ہیں

غور کریں کے نتائج میں نتیجہ نمبر ٦ میں   زبیر علی نے لکھا ہے

اللہ تعالی ساتویں آسمان سے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے

جبکہ ابن ماجہ کی روایت میں یہ  سرے سے موجود ہے ہی نہیں  اور اسی سند سے مسند احمد  میں جو متن آیا ہے اس میں ہے کہ اللہ تعالی کسی آسمان پر ہیں- راوی  نے واضح نہیں کیا کہ پہلا ، دوسرا ، تیسرا ، چوتھا ، پانچواں ، چھٹا یا ساتواں

راقم کہتا ہے   آنکھوں میں دھول جھوکنے میں اہل حدیث کو ملکہ حاصل ہے

اللہ کا شکر جس نے اس جھمی   عقیدے کی  روایت سے   ہم  کو  نجات دی – و للہ الحمد

اشاعرہ میں ملا علی القاری نے ان الفاظ کی تاویل کی ہے

إِلَى السَّمَاءِ الَّتِي فِيهَا اللَّهُ) أَيْ: أَمْرُهُ وَحُكْمُهُ أَيْ: ظُهُورُ مُلْكِهِ وَهُوَ الْعَرْشُ، وَقَالَ الطِّيبِيُّ: أَيْ: رَحْمتُهُ بِمَعْنَى الْجَنَّةِ

اس آسمان پر لے جاتے ہیں جس میں اللہ تعالی ہیں یعنی اس کا حکم یعنی اس کی مملکت کا ظہور جو عرش ہے اور طیبی نے کہا یعنی رحمت جو جنت ہے

البتہ سلفی اصول کہتا ہے کہ قرآن و حدیث میں جب بھی اللہ تعالی کا ذکر ہو تو اس کی  تاویل نہیں کی جائے گی اور متن کو اس کے ظاہر پر لیا جائے گا

اس حساب سے یہ تاویل سلفی و وہابی فرقے کے موقف کے خلاف ہے

زاذان کی روایت میں ہے کہ روح کو سات آسمان پر لے جایا جاتا ہے

 حتى ينتهي بها إلى السماء السابعة

یہاں تک کہ وہ ساتویں آسمان پر پہنچ جاتی ہے

ان دونوں احادیث  سے ثابت ہوا کہ  اللہ تعالی عرش پر نہیں ساتویں آسمان پر ہے

چونکہ یہ بات قرآن کے خلاف ہے یہ روایات صحیح ممکن نہیں ہیں افسوس ان کو قبول کر کے ان پر عقیدہ رکھا گیا ہے

اضطراب سند 

کتاب اخبار الدجال از عبد الغني بن عبد الواحد بن علي بن سرور المقدسي الجماعيلي الدمشقي الحنبلي، أبو محمد، تقي الدين (المتوفى: 600هـ)  سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کی سند میں مجہول راوی ہے

قال محمد بن عمرو فحدثني سعيد بن معاذ عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال إن الميت تحضره الملائكة فإذا كان الرجل الصالح قالوا اخرجي أيتها النفس الطيبة كانت في الجسد الطيب واخرجي حميدة وأبشري بروح وريحان ولا يزال يقال لها ذلك حتى تخرج ثم يعرج بها إلى السماء فيستفتح له فيقال من هذا فيقال فلان فيقال مرحبا بالنفس الطيبة كانت في الجسد الطيب ادخلي حميدة وأبشري بروح وريحان ورب غير غضبان فلا يزال يقال لها ذلك حتى ينتهى بها إلى السماء التي فيها الله عز وجل وتعالى فإذا كان الرجل السوء قالوا اخرجي أيتها النفس الخبيثة كانت في الجسد الخبيث اخرجي منه ذميمة وأبشري بحميم وغساق وآخر من شكله أزواج فلا يزال يقال لها ذلك حتى تخرج ثم يعرج بها إلى السماء فيستفتح لها فيقال من هذا فيقال فلان فيقال لا [ص:84] مرحبا بالنفس الخبيثة التي كانت في الجسد الخبيث ارجعي ذميمة فإنه لا تفتح لك أبواب السماء فيرسل من السماء ثم يصير إلى القبر فيجلس الرجل الصالح

مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ نے اس کو کسی سعید بن معاذ سے سنا تھا نہ کہ سعید بن یسار سے

سعید بن معاذ ایک مجہول راوی ہے

کتاب جمع الجوامع المعروف بـ «الجامع الكبير» از سیوطی کے مطابق یہ سعید بن مینا ہے نہ کہ سعید بن یسار

ابن ماجه في الزهد عن أَبى بكر بن أَبِى شيبة عن شبابة عن ابن أَبى ذئب عن محمد بن عمرو بن عطاء عن سعيد بن ميناءَ عن أَبى هريرة مرفوعًا) (1).

العلل دارقطنی میں ہے

فَرَوَاهُ إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ السَّلَامِ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، فَقَالَ: عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَوَهِمَ فِي ذَلِكَ

مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ نے اس متن کو سعید بن مسیب سے بھی  روایت  کیا ہے

دارقطنی کا خیال ہے کہ یہ غلطی ابراہیم بن عبد السلام نے کی ہے – جبکہ راقم کی تحقیق سے ثابت ہو رہا ہے کہ یہ نام بدلنا ایک سند میں نہیں   بہت سی سندوں میں ہے

اغلبا مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ کو یاد نہیں رہا کہ اس نے کس سعید سے سنااور اس نے چار  الگ الگ نام روایات میں بیان کر دیے

ان شبھات کی موجودگی  میں اس سند کو صحیح نہیں سمجھا جا سکتا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *