میں نے نور دیکھا یا وہ نور ہے کیسے دیکھتا

یہ مضمون کتاب لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ سے لیا گیا ہے

[wpdm_package id=’8843′]

==========================================================

قرآن میں اللہ تعالی نے فرمایا

اَللّهُ نُـوْرُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ ۚ مَثَلُ نُـوْرِهٖ كَمِشْكَاةٍ فِيْـهَا مِصْبَاحٌ ۖ اَلْمِصْبَاحُ فِىْ زُجَاجَةٍ ۖ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّـهَا كَوْكَبٌ دُرِّىٌّ يُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُـوْنَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَّّلَا غَرْبِيَّةٍ ۙ يَكَادُ زَيْتُـهَا يُضِيٓءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ۚ نُّوْرٌ عَلٰى نُـوْرٍ ۗ يَـهْدِى اللّـٰهُ لِنُـوْرِهٖ مَنْ يَّشَآءُ ۚ وَيَضْرِبُ اللّـٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ ۗ وَاللّـٰهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْـمٌ (35)

اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے طاق میں چراغ ہو، چراغ شیشے کی قندیل میں ہے، قندیل گویا کہ موتی کی طرح چمکتا ہوا ستارا ہے زیتون کے مبارک درخت سے روشن کیا جاتا ہے نہ مشرق کی طرف ہے اور نہ مغرب کی طرف، اس کا تیل قریب ہے کہ روشن ہوجائے اگرچہ اسے آگ نے نہ چھوا ہو، روشنی پر روشنی ہے، اللہ جسے چاہتا ہے اپنی روشنی کی راہ دکھاتا ہے، اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے، اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔

اس آیت   کے  ابتدائی حصے کو لے کر اور اس  کے آگے کے متن کو صرف نظر کر کے دعوی کیا جاتا ہے کہ الله تعالی  نور ہے  – نور اس کی صفت ہے –

آیت میں الله تعالی کو نور  ، نور ہدایت کے معنوں میں کہا گیا ہے نہ کہ ان معنوں میں کہ وہ نور ہے –   اگر الله نور ہے تو النور  الله کا نام بن جائے گا  یہ بات مسئلہ الصفات میں بالکل  واضح قبول کی جاتی ہے – الله تعالی  کے  نام  ننانوے  ہیں  جس کی خبر حدیث میں ہے اور یہ قرآن و حدیث سے لئے جاتے ہیں – ان میں النور کو الله کا نام  نہیں کہا  جا سکتا  کیونکہ  الله تعالی نے خبر دی کہ نور اس کی مخلوق ہے-   سورہ الانعام میں ہے

اَلْحَـمْدُ لِلّـٰهِ الَّـذِىْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُـمَاتِ وَالنُّوْرَ ۖ ثُـمَّ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّـهِـمْ يَعْدِلُوْنَ (1)

سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جس نے آسمان اور زمین بنائے اور اندھیرا اور اجالا بنایا، پھر بھی یہ کافر اوروں کو اپنے رب کے ساتھ برابر ٹھہراتے ہیں۔

معلوم ہوا کہ نور  تو اللہ  تعالی کی مخلوق ہے اسی کو ہم  دیکھ رہے ہیں –  اگ جلتی ہے تو نور نکلتا ہے – نور سورج سے چاند سے نکلتا ہے  لہذا اس کی کیفیت معلوم ہے مجہول نہیں ہے – سورہ نور کی آیت میں سمجھا کر بتایا گیا ہے کہ الله کا نور      ایسا ہے جیسا زیتون کا خالص  تیل  ہو جو     جب   بطور ایندھن        جلتا  ہے تو اس میں سے (رات)  میں کرنیں  پھوٹتی ہیں تو ماجول   منور ہو جاتا ہے، اسی طرح کفر کے ظلمات  میں ایمان کا نور  جگمگاتا ہے  اور اس کا رسول  سراجا منیرا ہے   یعنی ایک  چمکتا چراغ-

آیت میں الله نے اپنے نور کی مثال زیتون کے جلتے تیل سے دی ہے-  یہ مثال الله کی ذات کے لئے نہیں ہے کیونکہ اس نے خود فرما دیا

لیس کمثلہ شی
اس کی مثال کوئی چیز نہیں

لہذا زیتون  کا  جلتا تیل الله   تعالی کے  نور ذات کو بیان نہیں کر رہا     اس کے نور ہدایت کو بیان کر رہا ہے-  اس کو   اردو اور عربی میں تشبیہ دینا کہا جاتا ہے-

الله مسلسل ہدایت دے رہا ہے اور اسی کو نور کہا گیا ہے کہ مومن کو ظلمت سے نکال کر نور کی طرف لے آتا ہے- الله تعالی کے  ننانوے  نام ہیں ان کو اسماء الحسنی کہا جاتا ہے اور یہی حدیث میں ہے –  اور قرآن میں بھی اسماء الحسنی سے مانگنے کا ذکر ہے-  لہذا اسماء الحسنی   ننانوے  سے اوپر نہیں ہیں-   جو بھی الله کا نام ہے وہ الله کے لئے خاص ہے اور کسی اور کا نہیں ہو سکتا-    البانی کا   کہنا ہے کہ اس   پر کوئی صحیح حدیث نہیں کہ النور الله کا اسم ہو [1]

لا أعلم أن (النور) من أسماء الله عز وجل في حديث صحيح[2]

میں نہیں جانتا کہ کسی صحیح حدیث میں النور کو الله   تعالی  کا   اسماء  الحسنی  میں  ذکر کیا گیا ہو

صحیح مسلم ،  ابن ماجہ، مسند احمد  میں ہے

حِجَابُهُ النُّورُ، لَوْ كَشَفَهَا لَأَحْرَقَتْ سُبُحَاتُ وَجْهِهِ كُلَّ شَيْءٍ أَدْرَكَهُ بَصَرُهُ

النور اس کا حجاب ہے اگر وہ اس  النور کو اٹھادے تو اس کے    وَجْهِهِ   کا        (جمال   یا )  جلال و عظمت[3]  اس سب کو جلا دیں گی جہاں تک الله تعالی کی نگاہ جائے

 یعنی تمام مخلوق بھسم ہو جائے گی-معلوم ہوا کہ النور نام نہیں کیونکہ یہ حجاب عظمت کا نام ہے-

صحیح مسلم میں ہے کہ نور اللہ کا حجاب ہے تو ظاہر ہے الله کا نور اور اس کا حجاب ایک نہیں ہیں-

صحیح مسلم کی ایک مضطرب المتن روایت کا ذکر 

صحیح مسلم کی ایک اور حدیث ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ؟ قَالَ: «نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ»

ابو ذر رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کیا اپ نے اپنے رب کو دیکھا ؟ رسول الله نے فرمایا میں نے ایک نور دیکھا

سمجھا جا سکتا ہے کہ صرف حجاب کو دیکھا البتہ    اس روایت کی دو سندیں ہیں ایک میں عُمَرُ بْنُ حَبِيبٍ الْقَاضِيُّ ضعیف الحَدِيث ہے –   ابن عدی الکامل میں روایت پیش کرتے ہیں

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنا مُحَمد بْنُ الْمِنْهَالِ، حَدَّثَنا عُمَر بن حبيب، حَدَّثَنا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلالٍ عَنْ عَبد اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ، عَن أَبِي ذَرٍّ، قالَ: قُلتُ يَا رَسُولَ اللهِ هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ قَالَ كَيْفَ أَرَاهُ، وَهو نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ.

وَهَذَا الْحَدِيثُ بِهَذَا الإِسْنَادِ عَنْ خَالِدٍ الحذاء غير محفوظ.

کہتے ہیں یہ روایت خَالِدٍ الحذاء کی سند سے غیر محفوظ ہے-  اس روایت کے دوسرے طرق میں يزِيد بن إِبْرَاهِيم التسترِي ہے اور اس طرق سے امام مسلم نے صحیح میں اس کو نقل کیا ہے-  کتاب ذخيرة الحفاظ از ابن القيسراني (المتوفى: 507هـ) کے مطابق

حَدِيث: نور أَنى أرَاهُ. رَوَاهُ يزِيد بن إِبْرَاهِيم التسترِي: عَن قَتَادَة، عَن عبد الله بن شَقِيق قَالَ: قلت لأبي ذَر: لَو رَأَيْت رَسُول الله لسألته، قَالَ لي: عَمَّا كنت تسأله؟ قَالَ: كنت أسأله: هَل رأى ربه عز وَجل؟ فَقَالَ: قد سَأَلته، فَقَالَ: نور أريه مرَّتَيْنِ أَو ثَلَاثًا. وَهَذَا لم بروه عَن قَتَادَة غير يزِيد هَذَا، وَلَا عَن يزِيد غير مُعْتَمر بن سُلَيْمَان، وَكِلَاهُمَا ثقتان، وَحكي عَن يحيى بن معِين أَنه قَالَ: يزِيد فِي قَتَادَة لَيْسَ بذلك وَأنكر عَلَيْهِ رِوَايَته: عَن قَتَادَة عَن أنس.

حدیث میں نے نور دیکھا اس کو يزِيد بن إِبْرَاهِيم التسترِي نے قتادہ سے انہوں نے عبد الله بن شقیق سے روایت کیا ہے کہا ہے میں نے ابو ذر سے پوچھا کہ اگر رسول الله کو دیکھتا تو پوچھتا ؟ انہوں نے کہا کیا پوچھتے ؟ میں نے کہا پوچھتا کہ کیا انہوں نے اپنے رب کو دیکھا ؟ ابو ذر نے کہا میں نے پوچھا تھا پس کہا میں نے دو یا تین بار نور دیکھا اور اس کو روایت نہیں کیا قتادہ سے مگر یزید نے اور یزید سے کسی نے روایت نہیں کیا سوائے معتمر بن سلیمان کے اور یہ دونوں ثقہ ہیں اور یحیی بن معین سے حکایت کیا گیا ہے کہ انہوں نے کہا یزید قتادہ سے روایت کرنے میں ایسا اچھا نہیں ہے اور اس کی روایات کا انکار کیا جو قتادہ عن انس سے ہوں

ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق میں الذھبی کہتے ہیں     قال القطان ليس بذاك

تاریخ الاسلام میں الذھبی کہتے ہیں  وَقَالَ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ: هُوَ فِي قَتَادَةَ لَيْسَ بِذَاكَ   ابن معین کہتے ہیں قتادہ سے روایت کرنے میں ایسا (اچھا) نہیں ہے

ميزان الاعتدال في نقد الرجال میں الذھبی اس نور والی روایت کا يزيد بن إبراهيم کے ترجمہ میں ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں اس میں اس کا اور معتمر کا تفرد ہے

محمد بن وزير الواسطي، حدثنا معتمر بن سليمان، عن يزيد بن إبراهيم، عن قتادة، عن عبد الله بن شقيق، قال: قلت لأبي ذر: لو رأيت النبي صلى الله عليه  وسلم لسألته: هل رأى ربه؟ فقال: قد سألته فقال لي: نور إني أراه مرتين أو ثلاثا تفرد به عن قتادة وما رواه عنه سوى معتمر

صحیح مسلم کی جیسی سند سے اس روایت کی تخریج  ابن خزیمہ نے اپنی کتاب التوحید میں بھی کی ہے وہاں اس کو ذکر کیا

حَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ الْقُرَشِيُّ، قَالَ: ثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِأَبِي ذَرٍّ لَوْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَسَأَلْتُهُ، قَالَ: عَمَّا كُنْتَ تَسْأَلُهُ؟ قَالَ: كُنْتُ أَسْأَلُهُ: هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ؟ قَالَ أَبُو ذَرٍّ: قَدْ سَأَلْتُهُ، قَالَ: «نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ»  قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِي الْقَلْبِ مِنْ صِحَّةِ سَنَدِ هَذَا الْخَبَرِ شَيْءٌ، لَمْ أَرَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِنَا مِنْ عُلَمَاءِ أَهْلِ الْآثَارِ فَطِنَ لِعِلَّةٍ فِي إِسْنَادِ هَذَا الْخَبَرِ، فَإِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ شَقِيقٍ، كَأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يُثْبِتُ أَبَا ذَرٍّ، وَلَا يَعْرِفُهُ بِعَيْنِهِ وَاسْمِهِ وَنَسَبِهِ  لِأَنَّ أَبَا مُوسَى مُحَمَّدَ بْنَ الْمُثَنَّى ثَنَا قَالَ: ثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ، فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ عَلَى غَرَائِرَ سُودٍ، يَقُولُ: «لِيَبْشِرْ أَصْحَابُ الْكُنُوزِ بُكْرَةً فِي الْحَيَاةِ وَالْمَوْتِ» فَقَالُوا: هَذَا أَبُو ذَرٍّ، صَاحِبُ رَسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَقِيقٍ يَذْكُرُ بَعْدَ مَوْتِ أَبِي ذَرٍّ، أَنَّهُ رَأَى رَجُلًا يَقُولُ هَذِهِ الْمَقَالَةَ، وَهُوَ قَائِمٌ عَلَى غَرَائِرَ سُودٍ، خُبِّرَ أَنَّهُ أَبُو ذَرٍّ، كَأَنَّهُ لَا يُثْبِتُهُ وَلَا يَعْلَمُ أَنَّهُ أَبُو ذَرٍّ –  وَقَوْلُهُ: «نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ» ، يَحْتَمِلُ مَعْنَيَيْنِ: أَحَدُهُمَا نَفْيٌ، أَيْ: كَيْفَ أَرَاهُ، وَهُوَ نُورٌ، وَالْمَعْنَى الثَّانِي أَيْ: كَيْفَ رَأَيْتَهُ، وَأَيْنَ رَأَيْتَهُ، وَهُوَ نُورٌ، لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ إِدْرَاكَ مَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ مِنَ الْمَخْلُوقِينَ، كَمَا قَالَ عِكْرِمَةُ: «إِنَّ اللَّهَ إِذَا تَجَلَّى بِنُورِهِ لَا يُدْرِكُهُ شَيْءٌ» وَالدَّلِيلُ عَلَى صِحَّةِ هَذَا التَّأْوِيلِ الثَّانِي: أَنَّ إِمَامَ أَهْلِ زَمَانِهِ فِي الْعِلْمِ وَالْأَخْبَارِ: مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ بُنْدَارٌ ثَنَا بِهَذَا الْخَبَرِ قَالَ

حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ،: قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ،….  فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ: قَدْ سَأَلْتُهُ، فَقَالَ: «رَأَيْتُ نُورًا»

 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، قَالَ: ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، بِمِثْلِ حَدِيثِ أَبِي مُوسَى، وَقَالَ: «نُورًا أَنَّى أَرَاهُ»

 حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، أَيْضًا، قَالَ: ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قَالَ: ثَنَا يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التُّسْتَرِيُّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ….: «نُورًا أَنَّى أَرَاهُ

كَذَا قَالَ لَنَا بُنْدَارٌ» أَنَّى أَرَاهُ “، لَا كَمَا قَالَ أَبُو مُوسَى، فَإِنَّ أَبَا مُوسَى قَالَ: «أَنَّى أَرَاهُ

عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ نے کہا ایک شخص نے ابو ذر رضی الله عنہ سے    کہا   کہ  اگر  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   کو دیکھتا تو ان سے سوال کرتا- ابو ذر نے پوچھا کیا سوال کرتے ؟  کہا  میں سوال کرتا کہ کیا انہوں نے اپنے رب کو دیکھا تھا ؟  ابو ذر نے کہا میں نے یہ سوال کیا تھا  تو انہوں نے کہا    نور میں نے دیکھا  (نور ،  میں کیسے دیکھتا )-    أبو بكر محمد بن إسحاق بن خزيمة   (المتوفى: 311هـ) نے کہا  دل میں اس سند کی صحت  پر کوئی چیز  (کھٹکتی ) ہے-     اہل اثار    یا محدثین  علماء  میں سے   جو ہمارے اصحاب میں سے ہیں کسی کو نہ دیکھا    جو  اس   خبر کی سند کی علت  پر  جانتے ہوں   کیونکہ    عبد الله بن شقیق   کی روایت ابو ذر  سے مضبوط نہیں ہے   اور نہ یہ     آنکھ سے دیکھا گیا ہے   نہ نام و نسب سے جانا جاتا ہے  – کیونکہ أَبَو مُوسَى مُحَمَّدَ بْنَ الْمُثَنَّى ثَنَا قَالَ: ثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ  نے عبد الله بن شقیق سے روایت کیا کہ   میں مدینہ پہنچا تو  ایک شخص   کالے خیمہ میں  کھڑا    کہہ رہا تھا     خزانوں   کے اصحاب کو بشارت دو   کہ   زندگی کی صبح   ہے اور موت ہے – پس  (لوگوں  نے ) کہا یہ ابو ذر  ہیں  صاحب رسول الله صلی الله علیہ وسلم  –   ابن خزیمہ نے کہا پس عبد الله بن شقیق نے   ابو ذر کی موت   کے بعد    کا ذکر کیا   کہ اس نے ایک شخص  کو     کالے خیمہ   میں   کچھ کہتے سنا     ،  خبر دی یہ ابو ذر  تھے   ،  گویا یہ اس کو    بات   ثابت نہیں کہتے  اور   نہ   یہ  جانتے تھے کہ ابو ذر کون ہیں-   پھر اس کا یہ قول   بھی ذو معنی  ہے  ایک   میں نفی ہے   یعنی  اس کو کیسے دیکھتا   وہ نور ہے  اور دوسرا معنی  ہے   اس کو   کیسے کہاں دیکھ پاتا   وہ نور ہے  – …. دوم :   امام اہل زمانہ   علم و اخبار امام بندار نے     اس حدیث پر کہا

    مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ   نے روایت کیا ہے   ….     میں نے   نور دیکھا

اور يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ   نے  أَبَو مُوسَى مُحَمَّدَ بْنَ الْمُثَنَّى     کی طرح روایت کیا ہے ….. میں نے نور دیکھا

اور عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ  نے روایت کیا ہے  …..   نور ہے میں کیسے دیکھتا

اسی طرح بندار نے کہا  اور وہ نہیں کہا جو  أَبَو مُوسَى مُحَمَّدَ بْنَ الْمُثَنَّى       نے روایت کیا ہے

مسند احمد میں ہے

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، وَبَهْزٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ بَهْزٌ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي ذَرٍّ: لَوْ أَدْرَكْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلْتُهُ. قَالَ: عَنْ أَيِّ شَيْءٍ؟ قُلْتُ: هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ؟ فَقَالَ: قَدْ سَأَلْتُهُ، فَقَالَ: «نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ» يَعْنِي عَلَى طَرِيقِ الْإِيجَاب. (حم)

21392

فرمایا   نور ہے، کیسے دیکھتا !  یعنی  قبول و ایجاب کے انداز میں کہا

 اس  روایت کا متن مضطرب تو ہے ہی  عبد الله بن شقیق کا ابوذر  رضی الله عنہ سے ملنا بھی مشکوک ہے  کیونکہ یہ دور عمر  رضی الله عنہ کا وقوعہ  بیان کیا گیا ہے

مسند البزار میں ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: نَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ عَلَى غَرَايِرَ سُودٍ يَقُولُ: ” أَلَا أُبَشِّرُ أَصْحَابَ الْكُنُوزِ بِكَيٍّ فِي الْجِبَاهِ وَالْجُنُوبِ، فَقَالُوا: هَذَا أَبُو ذَرٍّ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيق   نے کہا  میں مدینہ  پہنچا   تو  ایک شخص   کالے خیمہ میں  کھڑا    کہہ رہا تھا   خبر دار   میں    خزانوں   کے اصحاب کو بشارت   نہ دوں     وہ   اپنے آگے   اور پہلو پر روئیں  گے  – پس  (لوگوں  نے ) کہا یہ ابو ذر  ہیں  صاحب رسول الله صلی الله علیہ وسلم  –

سنن الکبری البیہقی میں ہے

وَأَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْمُؤَمَّلِ، ثنا أَبُو عُثْمَانَ عَمْرُو بْنُ عَبْدِ اللهِ الْبَصْرِيُّ , ثنا أَبُو أَحْمَدَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ أنبأ يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، ثنا الْأَعْمَشُ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ إِيَاسٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ الْعُقَيْلِيِّ قَالَ: أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ فَإِذَا رَجُلٌ طَوِيلٌ أَسْوَدُ , فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ أَبُو ذَرٍّ فَقُلْتُ: لَأَنْظُرَنَّ عَلَى أِيِّ حَالٍ هُوَ الْيَوْمَ , قَالَ: قُلْتُ: أَصَائِمٌ أَنْتَ؟ قَالَ: ” نَعَمْ ” وَهُمْ يَنْتَظِرُونَ الْإِذْنَ عَلَى عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فَدَخَلُوا فَأُتِينَا بِقِصَاعٍ فَأَكَلَ فَحَرَّكْتُهُ أُذَكِّرُهُ بِيَدِي فَقَالَ: ” إِنِّي لَمْ أَنْسَ مَا قُلْتُ لَكَ أَخْبَرْتُكَ أَنِّي صَائِمٌ إِنِّي أَصُومُ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَأَنَا أَبَدًا صَائِمٌ “

عبد الله بن شقیق نے کہا  میں مدینہ پہنچا وہاں ایک بہت لمبا آدمی دیکھا جو کالا  تھا  میں نے پوچھا یہ کون ہے ؟  کہا  گیا ابو ذر  میں نے اس سے کہا  میں دیکھ رہا ہوں کہ آج تم  (ابو ذر ) کس حال میں ہو –  کہا  میں نے کہا  : کیا روزے سے ہو ؟   ابو ذر  نے کہا  ہاں   اور وہ عمر  رضی الله عنہ کی آواز    کا انتظار کر رہے تھے پس ایک  کھانا آیا  اس کو کھایا … پھر کہا   میں تم کو نہیں جانتا  میں نے تم کو جو کہا اس کی خبر دیتا ہوں میں روزے سے تھا میں ہر مہینہ کے   تین دن روزہ رکھتا ہوں پس میں ہمیشہ روزے سے ہوں

طبقات الکبری از ابن سعد میں ہے

كُنَّا جُلُوسًا بِبَابِ عُمَرَ وَمَعَنَا أَبُو ذَرٍّ، فَقَالَ: إِنِّي صَائِمٌ، ثُمَّ أَذِنَ عُمَرُ، فَأُتِيَ بِالْعَشَاءِ، فَأَكَلَ

ہم سب مل کر عمر  کے گھر کے باب پر پہنچے اور ابو ذ ر ساتھ تھے – انہوں نے کہا میں روزے سے ہوں  پھر عمر  نے ان کو اجازت دی    تو رات کا کھانا  کھایا –

اس کلام میں کس قدر اضطراب ہے کہ عمر  رضی الله عنہ جن کے دور میں اصحاب رسول فارغ البال  تھے مدینہ میں غلاموں کی کثرت تھی اس دور میں ابو ذر  کے پاس کھانے پینے کو کچھ نہ تھا ؟  یا للعجب

پھر  جندب بن جنادة    ابو ذر غفاری  رضی الله عنہ  سے عبد الله بن شقیق  دور عمر میں مدینہ میں ملے تو ان کا سماع کثیر اصحاب رسول سے کیوں نہیں ہے ؟   تاریخ الکبیر از امام بخاری میں ہے

قال عَبّاس بن الوَلِيد: حدَّثنا عَبد الأَعلى  ، حدَّثنا الجُرَيرِيّ، عَنْ عَبد اللهِ بْنِ شَقِيق، قَالَ: جاورتُ أبا هُرَيرةَ سَنَةً.

عبد الله بن شقیق نے کہا میں نے ابو ہریرہ کے ساتھ ایک سال گزارا

جب  عبد الله بن شقیق نے دور   عمر  پا لیا تو   خود عمر  رضی الله عنہ سے ان کی روایت کی تعداد اتنی کم کیوں ہے جبکہ انہوں نے مدینہ میں ایک سال  گزارا ہے  جو کوئی کم مدت نہیں ہے –  عبد الله  بن  شقیق  نے نہ تو عثمان      رضی الله عنہ سے روایت کیا ہے نہ علی       رضی الله عنہ   سے نہ ابو سعید الخدری       رضی الله عنہ  سے نہ جابر بن  عبد الله     رضی الله عنہ سے

 محدثین میں   بعض کی رائے عبد الله بن شقیق پر منفی ہے –

العقيلي نے  عبد الله بن شقیق کا شمار  الضعفاء  میں کیا ہے   اور  خبر دی کہ

  كَانَ التَّيْمِيُّ سَيِّءَ الرَّأْيِ فِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ

 سُلَيْمَانُ   بن طرخان    التّيميّ   کی    عبد الله بن شقیق پر    بری  رائے تھی

اس بحث سے معلوم ہوا کہ صحیح مسلم کی اس حدیث میں محدثین نے کلام کیا تھا    اور اس روایت کے متن میں اضطراب ہے یہاں تک کہ عبد اللہ بن شقیق کی ابو ذر سے ملاقات ہوئی بھی یا نہیں اس پر بھی  شک  ہے

لہذا    اول تو یہ روایت صحیح   نہیں ہے پھر دوسری    حدیث   جو  صحیح ہے اس میں حجاب کو نور کہا گیا ہے

النور اسماء الحسنی میں  مانا جائے ورنہ  اللہ تعالی کی صفات محدود ہو جائیں گی ؟ 

کہا  جاتا ہے کہ اگر ہم کہیں کہ نام صرف ننانوے ہیں  یا  اسماء الحسنی محدود ہیں جو ہمارے علم میں ہیں یا آپ کے علم میں ہیں تو اس سے صفات بھی محدود ہو  جائیں گی  اور ایسا ہونے سے خدا ، خدا کیسے رہے   گا ؟ اس  پر    راقم  کہتا ہے وہ تمام صفات جو کسی ذات کو معبود و اله و رب قرار دیتی ہوں وہ   ان ننانوے ناموں میں سمٹ  کر بیان ہو چکی ہیں – اس سے  الله کی    تعریف  محدود   نہیں  ہوئی بلکہ  ان ناموں کی شرح  مزید کی جا سکتی ہے      – صفت سے مراد لغوی طور پر تعریف ہے لیکن یہ اصلا  فلسفہ کی اصطلاح ہے  جس کی مراد ہے کہ   وہ چزیں جو   کسی  ذات یا جسم کو  دیگر سے ممتاز کر دیں-    جب ہم کسی چیز کو الله کی صفت کہیں گے اور وہ کسی اور میں بھی ہو تو پھر وہ صفت الله کا نام نہیں ہے-

کہا  جاتا ہے کہ  اگر نور  الله  تعالی  کا نام نہیں  تو   بھی یہ صفت تو ممکن ہے –  راقم کہتا ہے  یہ ممکن  نہیں کیونکہ مسلئہ  صفات  میں یہ  بات معروف ہے کہ جو بھی چیز الله کی صفت ہے وہ اس کا نام بن   جاتی ہے    –  لہذا   الله نور سماوات میں نور ہدایت ہی ہے یہ صفت نہیں ہے کیونکہ نور مخلوق ہے

سوال ہو سکتا ہے کہ یہ خوبی  مخلوق میں بھی تو ہو سکتی ہے ؟  تو اس کا جواب ہے کہ   اللہ  کی صفت  اللہ کے لئے خاص ہے کیونکہ یہ اس   نوعیت کی صفت  ہے کہ   اس کے سوا  کسی اور میں ممکن نہیں ہے-  مثلا  بندے کو صرف رحیم کہا جاتا ہے    الرحیم  نہیں کہا  جا سکتا  کیونکہ الرحیم  صرف   الله کا نام ہے- مخلوق اس درجہ  کو نہیں پہنچ سکتی-  الله تعالی رحم کرتا ہے اس کے جیسا کوئی رحم  نہیں کر سکتا اس لئے الرحیم ہے-

انسان کو الله نے حواس خمسہ دیے ہیں اور اس کے لئے کہا

فجعلناه سَمِيعاً بَصِيراً
ہم نے اس کو سننے والا دیکھنے والا بنا دیا

لیکن البصیر نہیں کہا بصیر کہا لہذا البصیر الله ہے

ابن حزم کتاب الفصل في الملل والأهواء والنحل میں کہتے ہیں
قَالَ الله تبَارك وَتَعَالَى {لَيْسَ كمثله شَيْء وَهُوَ السَّمِيع الْبَصِير} فَقُلْنَا نعم إِنَّه سميع بَصِير لَا كشيء من البصراء وَلَا السامعين مِمَّا فِي الْعَالم وكل سميع وبصير فِي الْعَالم فَهُوَ ذُو سمع وبصر فَالله تَعَالَى بِخِلَاف ذَلِك بِنَصّ الْقُرْآن فَهُوَ سميع كَمَا قَالَ لَا يسمع كالسامعين وبصير كَمَا قَالَ لَا يبصر كالمبصرين لَا يُسَمِّي رَبنَا تَعَالَى إِلَّا بِمَا سمى بِهِ نَفسه وَلَا يخبر عَنهُ إِلَّا بِمَا أخبر بِهِ عَن نَفسه فَقَط كَمَا قَالَ الله تَعَالَى {هُوَ السَّمِيع الْبَصِير} فَقُلْنَا نعم هُوَ السَّمِيع الْبَصِير وَلم يقل تَعَالَى إِن لَهُ سمعا وبصرا فَلَا يحل لأحد أَن يَقُول إِن لَهُ سمعا وبصراً فَيكون قَائِلا على الله تَعَالَى بِلَا علم وَهَذَا لَا يحل وَبِاللَّهِ تَعَالَى

الله تعالی کہتا ہے لَيْسَ كمثله شَيْء وَهُوَ السَّمِيع الْبَصِير اس کے جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ السَّمِيع الْبَصِير ہے پس ہم کہتے ہیں ہاں وہ سننے والا دیکھنے والا ہے لیکن کسی بینا کی طرح نہیں اور کسی سننے والے کی طرح نہیں جو اس عالم میں ہیں ، اور ہر سننے والا اور دیکھنے والا جو اس عالم میں ہے تو وہ سمع و بصر والا ہے- لیکن الله تعالی کے لئے اس کے خلاف قرآن میں نص ہے پس وہ سننے والا ہے جیسا اس نے کہا ، نہ کہ وہ سنتا ہے ایسے جسے کوئی (انسان یا جانور) سنّتا ہے، اور دیکھتا ہے جیسا اس نے کہا، مگر ایسے نہیں جسے کوئی دیکھنے والا دیکھتا ہے – ہمارے رب تعالی نے کوئی نام نہ رکھا سوائے وہ جو اس نے خود رکھا اور کسی دوسرے نام کی خبر نہیں دی سوائے ان کے جن کی اس نے خبر دی- الله نے کہا کہ هُوَ السَّمِيع الْبَصِير پس ہم کہتے ہیں ہاں وہ السَّمِيع الْبَصِير ہے اور الله نے اپنے لئے (قوت) سمع اور بصر نہیں کہا سو یہ حلال نہیں کسی کے لئے بھی کہ وہ الله کے لئے سمع و بصر کہے کیونکہ وہ الله پر وہ بات بولے گا جس کا علم نہیں اور یہ حلال نہیں ہے

  الله تعالی نے رسول الله  صلی الله علیہ وسلم کو     رحيم  قرار ديا

لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ

بے شک تمہارے پاس   تم میں سے رسول آ گیا ہے اسے تمہاری تکلیف گراں معلوم ہوتی ہے تمہاری بھلائی پر، وہ حریص (فکرمند) ہے مومنوں پر، نہایت شفقت کرنے والا مہربان ہے۔

أور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو    رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ       قرار دیا

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ

اور ہم نے اپ کو  تمام جہانوں کے  لئے  رحمت بنا کر بھیجا ہے

   رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تعریف کی گئی کہ وہ رحم کرتے ہیں یہ الله کا حکم ہے جس پر نبی صلی الله علیہ وسلم نے عمل کیا لہذا مالک نے خوش ہو کر اس کا ذکر کیا – لیکن رحم رسول الله  صلی الله علیہ وسلم کے علاوہ   اور   لوگ  بھی  کر سکتے ہیں- وہ لوگ بھی رحیم ہو سکتے ہیں  قرآن میں ہے

إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُّنِيبٌ

بیشک ابراہیم  بردبار، نرم دل والا والا بہت رجوع  کرنے والا ہے۔

یہ تمام خوبیاں ابراہیم  علیہ السلام کو بھی رحیم بنا دیتی ہیں

 الله کا نام الرحیم ہے اس کے جیسا کوئی نہیں- العلی الله کا نام ہے اس کے سوا کوئی نہیں-  ایک انسان دوسرے انسان پر رحم کرتا ہے تو رحیم ہوا     –   انسان  کی عزت کی جاتی ہے اس لئے علی ہوا-  یہ  اللہ تعالی   کا  پرتو یا عکس  یا تجلی   نہیں بلکہ الله کے امر   و حکم پر  مخلوق کا عمل  ہے – رسول الله لوگوں پر رحیم تھے کیونکہ یہ الله کا حکم ہے چونکہ وہ  شفقت سے پیش آتے مالک   نے اس  کا خاص ذکر   نبی علیہ السلام کے لئے   کیا ہے- آ پ   صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کو بد دعا بھی نہیں دی اس کے برعکس بعض  انبیاء   نے اپنی   قوموں کو   بد دعا دی  جس کے نتیجے میں وہ عذاب عام سے ہلاک ہوئیں-  اس وجہ سے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم رحمت للعالمین ہیں یعنی  اب آنے والے دور کے لئے ایک نمونہ  –

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ  کائنات کی سب چیزیں حق تعالی کے اسماء وصفات کا مظہر ہیں اور تمام مخلوقات میں سے انسان  مظہرِ کامل ہے اور انسانوں میں کے مظہرِ کامل و مکمل و اتّم حضور    (ص)ہیں۔    راقم   کہتا ہے  ہمارا رحم کرنا یقینا الله کی طرف سے عطا کردہ ہے  لیکن اگر کوئی قہر کرے اور کہے کہ یہ میرے رب کی طرف سے ہے وہ القہار ہے مجھ میں اس کی صفت منعکس ہو رہی ہے تو        ہم      کیا اس کو اسماء و صفات  کا مظہر قرار دیں  گے  ؟    لہذا ہم اس کو مظہر نہیں کہتے ہم اس کو حکم الله پر عمل کہتے ہیں- رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بھی الله کے حکم پر عمل کیا   اور  اپنی قوم پر رحم کیا ان کو فتح مکہ کے دن معاف کر دیا –

غور طلب ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم   رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ  کب سے ہیں ؟  کیا  بطن آمنہ سے پیدا ہونے سے قبل سے تمام زمین پر رحمت فرما رہے تھے ؟  ظاہر ہے ایسا نہیں ہے – اللہ تعالی نے  رحمت للعالمین قرار دیا تو اس کا مطلب  بعثت  کے  بعد کا  دور ہے قبل ولادت کا دور   ممکن نہیں ہے- اسی طرح  خاتم النبیین اور رحمت للعالمین کا اصل مدعا ہدایت کا پہنچانا ہے-  یعنی آخری نبی   کے آنے کے بعد سے قیامت تک کا دور مراد ہے-    اللہ تعالی کہتا ہے

قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِنَ الرُّسُلِ
کہو میں رسولوں میں کوئی نیا  (یا انوکھا) نہیں ہوں

خود رسول الله   صلی الله علیہ وسلم   کا فرمان ہے     جس نے کہا میں یونس بن متی   (علیہ السلام)سے بہتر ہوں وہ جھوٹا ہے

 الله تعالی نے رسول الله   صلی الله علیہ وسلم  کو رحمت للعالمین کہا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم زمین پر آدم علیہ السلام کے ساتھ تھے- رحمت کا مطلب  بعثت  کے بعد آنے  والا  دور کے بارے میں ہے نہ کہ ماضی کے بارے میں-   مثلا   قرآن میں ہے ہم نے عیسیٰ اور اس کی ماں کو نشاني بنایا   وَجَعَلْنَا ٱبْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُۥٓ ءَايَةً    یعنی بعد والوں کے لئے-   بني اسرائیل کو تمام جہانوں میں فضیلت دی   وأني فضلتكم على العالمين یعنی ماضی میں-

   سورہ مائدہ   میں ہے

اے اہلِ کتاب! بیشک تمہارے پاس ہمارے (یہ) رسول تشریف لائے ہیں جو تمہارے لئے بہت سی ایسی باتیں (واضح طور پر) ظاہر فرماتے ہیں جو تم کتاب میں سے چھپائے رکھتے تھے اور (تمہاری) بہت سی باتوں سے درگزر (بھی) فرماتے ہیں۔ بیشک تمہارے پاس اﷲ کی طرف سے ایک نور آ گیا ہے اور ایک روشن کتاب

اس آیت کی تفسیر میں بعض مفسرین نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو نور کہا ہے ان میں امام طبری بھی ہیں –اور طبری وضاحت کرتے ہیں کہ  ان کی مراد رسول الله کو الله کی طرف سے ہدایت کا نور کہنا ہے طبری نے   تفسیر میں لکھا ہے

يعني بالنور، محمدًا صلى الله عليه وسلم الذي أنار الله به الحقَّ، وأظهر به الإسلام
نور یعنی محمد جن سے الله نے حق کو روشن کیا اور اسلام کو غالب

ان مفسرین نے حدیث جابر کی بنیاد پر ایسا نہیں کہا نہ اس کا ذکر کیا ہے

اس حوالے سے کہ  رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نوری ہیں  ایک دعا کا حوالہ  بھی  دیا جاتا ہے  جو صحیح مسلم میں ہے اور اس کو تہجد کی نماز میں پڑھا جاتا ہے – الفاظ ہیں

وَکَانَ فِي دُعَائِهِ اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا وَفِي بَصَرِي نُورًا وَفِي سَمْعِي نُورًا وَعَنْ يَمِينِي نُورًا وَعَنْ يَسَارِي نُورًا وَفَوْقِي نُورًا وَتَحْتِي نُورًا وَأَمَامِي نُورًا وَخَلْفِي نُورًا وَعَظِّمْ لِي نُورًا

آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دعا کی اے اللہ میرا دل روشن فرما اور میری آنکھیں روشن فرما اور میرے کانوں میں نور اور میرے دائیں نور اور میرے بائیں نور اور میرے اوپر نور اور میرے نیچے نور اور میرے آگے نور اور میرے پیچھے   نور   کر  اور میرے لئے نور کو   بڑھا دے

 رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنے  لئے  اس دعا میں نور طلب کیا  تو اس حوالے سے  درست  بات یہ ہے  ہے کہ یہ بطور اضافہ ہے – ساتھ ہی آپ نے یہ دعا مومنوں کو بھی سکھا دی –  اب  نور مومن بھی مانگ رہا ہے –  سوال یہ ہے کہ   ١٤ صدیوں  سے  کیا کوئی مومن مستجاب الدعوات اس امت میں نہیں گذرا جس کی نور والی دعا پوری ہوئی  ہو  اور وہ سراپا نور بن گیا ہو؟ اگر    اس نور سے مراد  نوری ہو جانا ہے  اور    اگر  کسی کی دعا   پوری ہوئی  ہے تو پھر  نوری ہونا  رسول الله   صلی الله علیہ وسلم   کی خصوصیت نہیں رہتی-  امت کے بہت سے لوگوں کا نوری ہونا قبول کرنا ہو گا- ظاہر ہے یہ نور بطور عنصر تخلیق   مراد و منشا  نہیں ہو سکتا کیونکہ انسان بشر ہے نوری نہیں-

اگر منشا یہ تھی کہ انسانی جسم نوری بن جائے لگے تو بشری لیکن اندر نوری ہو تو  اصحاب رسول اور انبیاء  اور اولیاء  تمام پر نور کا اثبات کرنا ہو گا –   یہ عجیب و غریب   بات ہے  اور   باقی مخلوق  سے عظیم تبدیلی ہے،  جس سے باقی انبیاء بے خبر رہے ہیں اور کسی صحیح مستند روایت میں بھی   اس کا ذکر نہیں  ہے  – اس عظیم الشان تغیر کا ذکر اصحاب کبار – مہاجرین و انصار میں سے کسی نے نہیں کیا یہ کیسے ممکن ہے؟

صحیح مسلم کی ایک  حدیث   جس    میں ہے کہ میرے جسم میں نور کر دے اس کی مثال ہے کہ دن کی  نماز کی دعائے استفتاح  میں ہے

اللهم اغسل خطاياي بالماء والثلج و البرد
میرے گناہ پانی سے، برف سے، سردی سے دھو دے

جبکہ گناہ معاف کرنا اللہ کا فعل ہے موسموں  اور بارش  سے گناہ معاف نہیں ہوتے – اب اس  قول  کی تاویل ہی کی جائے گی-

ضمنی بحث 

آدم  جب کیچڑ کو مٹی کے درمیان تھے اس وقت بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم  موجود تھے  ؟ 

کہا  جاتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا تھا  کہ

میں     اپنے پروردگار کے ہاں خاتم النبیین ہو چکا تھا اور آدم ابھی پانی اور کیچڑ کے درمیان تھے

اگر اس  حدیث کو     تقدیری امر     پر ملحوظ   کیا   جائے   یا     حق تعالی کے علم کے لحاظ سے  قرار دیا  جائے    تو پھر یہ  رسول الله صلی الله علیہ وسلم       کی کوئی خصوصیت قرار نہیں پاتی کیونکہ تقدیر میں تو ہر چیز   موجود ہے اور حق تعالی کے علم میں بھی ہر چیز ہے پھر اس کو بیان کرنے کا مقصد و منشا کیا ہے؟

راقم  کہتا ہےاول   سندا  یہ مضبوط  روایت  نہیں ہے –  اس  روایت کو عبد الله بن شقیق  نے روایت کیا ہے  جس کا ذکر اسی مضمون میں پیچھے  گذر چکا ہے –     راقم کو     اس روایت  کے کسی متن میں  خاتم  النبیین  کے الفاظ نہیں ملے

عبد الباقي بن قانع   نے  کتاب جملة الصحابة میں ذکر کیا

 ثنا موسى بن زكريا التستري ثنا طرخان بن العلاء ثنا يزيد بن زريع، ثنا خالد بن الحذاء عن عبد الله بن شقيق العقيلي عن أبيه قال: قام أبي فقال: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم متى كنت نبيا؟ فقال الناس: مه. فقال: «دعوه كنت نبيا وآدم بين الروح والجسد

عبد الله بن شقيق العقيلي نے اپنے باپ سے روایت کیا کہ  میرے باپ کھڑے ہوئے انہوں نے کہا  یا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم آپ کب سے نبی تھے ؟ پس لوگوں نے کہا  مہ (یعنی اس سوال کو برا جانا )  پس نبی نے فرمایا میں  نبی تھا اور آدم جسد و روح کے بیچ تھے

یہاں بھی  روایت کے الفاظ میں اضطراب  مل رہا ہے  بعض اوقات  عبد اللہ  بن شقیق نے کہا ہے میرے باپ نے کھڑے ہو کر سوال کیا گویا کہ دیکھ رہا ہو   پھر بعض اوقات اس کو مَيْسَرَةَ الْفَجْر رضی الله عنہ کی حدیث کہا ہے-  مسند احمد میں ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ بُدَيْلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ مَيْسَرَةَ الْفَجْرِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَتَى كُتِبْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ: «وآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ»

بعض اوقات اس کو  کسی بدو کا سوال کہا ہے  –   کتاب القدر از فریابی  اور الإبانة الكبرى لابن بطة   میں ہے

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: قَالَ أَعْرَابِيٌّ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  : مَتَى كُنْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ لَهُ النَّاسُ: مَهْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «دَعُوهُ، كُنْتُ نَبِيًّا وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ»

بعض  اوقات اس کو    غیر معروف صحابی    ابْنِ الْجَدْعَاءِ  کی حدیث قرار دیا ہے – کتاب  الأحاديث المختارة  از ضياء الدين أبو عبد الله محمد بن عبد الواحد المقدسي (المتوفى: 643هـ) میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ نَصْرٍ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَتْهُمْ أبنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أبنا سُلَيْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ الطَّبَرَانِيُّ ثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْفَضْلِ الأَسْفَاطِيُّ ثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ ثَنَا هُشَيْمٌ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ عَنِ ابْنِ الْجَدْعَاءِ قَالَ قَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَتَى كُتِبْتَ نَبِيًّا قَالَ وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ

بعض اوقات اس   نے   نام     ابْنِ أَبِي الْجَدْعَاءِ     لیا ہے –  کتاب   الرد على الجهمية از  أبو سعيد عثمان بن سعيد    الدارمي السجستاني (المتوفى: 280هـ) میں ہے

 حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَنْبَأَ هُشَيْمُ، عَنْ خَالِدٍ وَهُوَ الْحَذَّاءُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي الْجَدْعَاءِ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَتَى كُتِبْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ: «وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ

 امام مسلم نے    کتاب  المنفردات و  الواحدان  میں   عبد الله بن أبي الجدعاء   اور عبد الله بن  ابن أبي الحمساء کو الگ الگ افراد قرار دیا ہے –   عبد الله بن أبي الجدعاء   اور عبد الله بن  ابن أبي الحمساء   دو اصحاب رسول بقول  عبد الله بن شقیق ہیں اور ان سے روایت کرنے میں عبد الله بن شقیق کا تفرد ہے

 یہ    روایت معجم طبرانی میں  ابن عباس رضی الله عنہ  سے بھی منسوب ہے

 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْعَبَّاسِ الْبَجَلِيُّ الْكُوفِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَارَةَ بْنِ صُبَيْحٍ، ثنا نَصْرُ بْنُ مُزَاحِمٍ، ثنا قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللهُ مَتَى كُتِبْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ: «وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ

یہاں سند میں   قيس بن الربيع الأسدي أبو محمد الكوفي   ضعیف ہے

ایک دوسرے طرق سے بھی یہ قول  معجم طبرانی میں آ تا ہے

حَدَّثَنَا عَبْدَانُ بْنُ أَحْمَدَ، ثنا زَيْدُ بْنُ الْحَرِيشِ، ثنا يَحْيَى بْنُ كَثِيرٍ أَبُو النَّضْرِ، عَنْ جُوَيْبِرٍ، عَنِ الضَّحَّاكِ بْنِ مُزَاحِمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ , مَتَى أُخِذَ مِيثَاقُكَ؟ قَالَ: «وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ»

اس طرق  میں جویبر ضعیف ہے

اس روایت کو ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے بھی منسوب کیا گیا ہے

مستدرک الحاکم   اور سنن ترمذی میں ہے

حَدَّثَنَاهُ أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ، أَنْبَأَ سُلَيْمَانُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْفَضْلِ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ هَاشِمٍ الْبَعْلَبَكِّيُّ، ثنا   الْوَلِيدِ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قِيلَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَتَى وَجَبَتْ لَكَ النُّبُوَّةُ؟ قَالَ: «بَيْنَ خَلْقِ آدَمَ وَنَفْخِ الرُّوحِ فِيهِ

سند میں  يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ  مدلس   کا عنعنہ  ہے   اور الولید بن مسلم بھی مدلس ہے  اس کا سماع  الاوزاعی  سے نہیں ہے

اگر ان روایات   کو قبول بھی کر لیں  تو   راقم  کہتا ہے  یہ تقدیر سے ہی متعلق قول ہے اور اس میں سب ایک ہیں- اس کی وجہ ہے کہ بعض اوقات تکرار کے لئے بھی چیزوں کو بیان کیا جاتا ہے – سب کو معلوم ہے الله نے تقدیر لکھی ہے اور اس میں انبیاء کا کوئی استثنی نہیں ان کی تقدیر بھی لکھی گئی-  جہاں تک رہی تقدیر    اور علم   کی بات تو اس کی مثال اس طرح ہے کہ   الله تعالی نے ہی سب انسانوں کو خلیفہ مقرر کیا ہے لیکن فرشتوں کے سوال پر پیش صرف آدم علیہ السلام کو کیا تھا تمام انسانوں کو نہیں-

قرآن میں   سوره الأعراف    میں ہے

 وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ لَمْ يَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ

اور بے شک ہم نے تم سب کو خلق کیا پھر تم سب کی  صورت بنائی پھر فرشتوں کو ہم نے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو (پس کیا سب نے ) سوائے ابلیس کے – جو سجدہ کرنے والوں میں سے نہ ہوا

اس آیت  میں ہے کہ تمام انسان خلق ہوئے ان کی شکل و صورت بھی  آدم کو سجدے کرنے سے پہلے  بن چکی تھی –  اس سے ظاہر ہے کہ تمام مخلوق کی ارواح کو خلق کیا گیا – ان کی شکل و صورت کو لوح میں    جمع کر دیا گیا اور اس میں انبیاء و رسل بلکہ تمام مخلوق شامل ہے-  لہذا جب آدم   علیہ السلام  کا جسم وجود لے رہا تھا   تو ارواح  بن چکی تھیں   اور یہی مفہوم اس حدیث میں بیان ہوا کہ میں خاتم النبین  ہو چکا تھا جب آدم مٹی میں بن رہے تھے

==================================================

حواشی

[1]

ابن خزیمہ نے کتاب التوحید میں لکھا اور اس کو بلا جزم کہا

فالنور وإن كان اسمًا لله، فقد يقع اسم النور على بعض المخلوقين، فليس معنى النور الذي هو اسم لله في المعنى مثل النور الذي هو خلق الله

اور النور اگر الله کا نام  ہو تو پھر اس اسم نور کا اطلاق مخلوق پر بھی کیا گیا  ہے لہذا نور کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ الله  کا وہ  اسم ہے جو ان معنوں میں  ہے کہ وہ مخلوق جیسا ہو گا

[2] https://www.youtube.com/watch?v=IPlrzAU1_90&feature=youtu.be

[3]

مجمع بحار الأنوار في غرائب التنزيل ولطائف الأخبار  از  جمال الدين، محمد طاهر بن علي الصديقي الهندي الفَتَّنِي الكجراتي (المتوفى: 986هـ)  کے مطابق  سبحات” وجهه، هي جلاله وعظمته، وأصلها جمع سبحة

: كتاب العين از  الخليل بن أحمد بن عمرو بن تميم الفراهيدي البصري (المتوفى: 170هـ) نے اس کی شرح  ہے کہ

وقال سعد بن مسمع:  ذا سُبْحَةٍ لو كان حلو المعجم  أي: ذا جمال. وهذا من سُبُحات الوجه، وهو محاسنه

سعد بن مسمع نے کہا … یعنی جمال  اور یہ سُبُحات الوجه ہے یعنی محاسن

الأسماء والصفات للبيهقي از  البيهقي (المتوفى: 458هـ) میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيُّ , أنا أَبُو الْحَسَنِ الْكَارِزِيُّ , أنا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ , عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ قَالَ: يُقَالُ فِي السُّبْحَةِ: إِنَّهَا جَلَالُ وَجْهِ اللَّهِ , وَمِنْهَا قِيلَ سُبْحَانَ اللَّهِ إِنَّمَا هُوَ تَعْظِيمٌ لَهُ وَتَنْزِيهٌ

الأسماء والصفات للبيهقي میں ہے

 إِنَّ سُبُحَاتٍ مِنَ التَّسْبِيحِ الَّذِي هُوَ التَّعْظِيمُ

بے شک یہ سُبُحَاتٍ  اس تسبیح میں سے  ہے جو اس  کی تعظیم ہے

===============

قال العثمانی رحمہ اللہ تعالی

part 1

part 2

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *