Category Archives: دجال – Dajjal

دجال اور یاجوج ماجوج ایلین ہیں ؟؟

السلام علیکم

اس ویڈیو پر رائے درکار  ہے

و علیکم السلام

قرآن قریش کی عربی میں نازل ہوا ہے اور دور نبوی میں ایلین مخلوق کا کوئی تصور نہیں تھا لہذا قرانی الفاظ کا وہی مطلب لیا جائے گا جو دور نبوی میں رائج تھا

ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًا

سورہ کہف ٩٢

عربی میں سبب کے بہت سے مفہوم ہیں – سبب کہتے ہیں رسی کو جو چھت سے لٹک رہی ہو
في حديث عوف بن مالك: “أَنَّه رأَى في المنامِ كأنّ سَبَباً دُلِّىَ من السَّماء
صحابی نے خواب میں (سبب ) دیکھا کہ ایک رسی ہے جو آسمان سے زمین کی طرف آ رہی ہے اس کو رسول اللہ نے جب چھوڑا تو ابو بکر نے پکڑا
وأرى “سببا” وأصلا إلى السماء
دیکھا سببا رسی کو جس کی جڑ آسمان میں تھی
یہاں رسی کو سبب کہا ہے

سورہ حج میں ہے
مَن كَانَ يَظُنُّ أَن لَّن يَنصُرَهُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ فَلْيَمْدُدْ بِسَبَبٍ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ لْيَقْطَعْ فَلْيَنظُرْ هَلْ يُذْهِبَنَّ كَيْدُهُ مَا يَغِيظُ
جو کوئی (منافق) یہ گمان کرتا ہے کہ اللہ دینا و آخرت میں اس (رسول) کی مدد نہ کرے گا وہ آسمان پر رسی ڈال کر (اپنے گلے کو) کاٹ دے

یہاں سبب کا مطلب رسی ہے

سوره غافر المومن میں ہے
أَسْبَابَ السَّمَاوَاتِ فَأَطَّلِعَ إِلَىٰ إِلَٰهِ مُوسَىٰ وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ كَاذِبًا ۚ
فرعون نے کہا ہامان سے کہ کوئی بلند عمارت بناو کہ میں آسمانوں میں کوئی اشارہ پاؤں اور موسی کے رب کو جانوں

یہاں اسباب یا اشارہ پانے کے لئے اس نے ٹاور بنانے کا حکم کیا

سورت قصص ٣٨ میں ہے
فَاجْعَلْ لِي صَرْحاً
میرے لئے ٹاور بناو

آیات کو ملا کر سمجھا جا سکتا ہے کہ فرعون کوئی مینار یا ٹاور بنوانے کا حکم کر رہا تھا جس پر چڑھ کر موسی کے رب کا سبب پاوں
اس اشارہ لینے کو کو قرآن میں اسباب کہا گیا ہے

ذو القرنین کے قصے میں سورہ کہف میں ہے

إِنَّا مَكَّنَّا لَهُۥ فِى ٱلْأَرْضِ وَءَاتَيْنَـٰهُ مِن كُلِّ شَىْءٍۢ سَبَبًۭا
ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًا
تم نے اس کو زمین پر تمکنت دی تھی اور اس کو ہر چیز پر سبب (اشارہ ) دیا تھا
پھر اس نے ایک سبب (اشارہ) کو فالو کیا

میں سمجھتا ہوں کہ شاہ ذو القرنین کو اللہ نے قوت و علم دیا کہ چیز دیکھ کر وہ اس کی حکمت جان جاتے تھے
اب چونکہ ان کا پلان تھا کہ تمام زمین پر جہاں تک ہو سکے وہ توحید کو قائم کریں وہ اس مقام سے آئی چیز دیکھ کر اشارہ پاتے اور پھر سفر کرتے وہاں تک جاتے
اور سبب یا اشارہ کو فالو کرتے اگرچہ ان علاقوں میں پہلے کبھی نہ گئے تھے

شاہ ذو القرنین کو تین اشارات ملے ایک کی وجہ سے مشرق تک کا سفر کیا
ایک سے مغرب تک کا سفر کیا
اور ایک کی وجہ سے یاجوج ماجوج کے علاقے تک کا سفر کیا

و اللہ اعلم

سبب کو انگلش میں
lead
ملنا کہہ سکتے ہیں
مثلا ہم کہتے ہیں
He got the lead and solved the problem

یا اردو میں کہتے ہیں کو سرا مل گیا اور مسئلہ حل ہو گیا
رسی کا سرا ہوتا ہے

اس طرح عربی کا سبب یا اردو کا سرا ایک ہے


یاجوج ماجوج کے حوالے سے میرا علم کہتا ہے کہ وہ انسان نہیں ہیں ایلین بھی نہیں ہیںزمیں کے اندر ہی کوئی الگ مخلوق ہے جو سو رہی ہے ، نکلنے پر انسانوں کو قتل کرے گی اور حشر برپا ہو جائے گا

راقم کی  کتاب  یاجوج ماجوج پر دیکھیں

سامری کا مذھب ٣

قصہ مختصر
سامری نے نبی اسرائیلیوں سے دھات کے زیور لے کر ایک بچھڑے کی مورت بنائی جس میں سے آواز نکلتی تھی – قرن اول میں اس پر ابن عباس کے بعض شاگردوں نے سامری کے حوالے سے ایک عجیب قصہ بیان کیا کہ سامری کو اللہ تعالی نے بچایا جب ال فرعون بنی اسرائیل کو قتل کر رہے تھے اور جبریل نے سامری کی مدد کی – سامری بچین سے جبریل کو پہچانتا تھا لہذا جب اس نے جبریل کو سمندر پھٹنے پر دیکھا تو ان کے قدم کی مٹی لی اور اس کو بت گری میں شامل کیا – معجزھ ہوا اور بچھڑا بولنے لگا
راقم کہتا ہے یہ اسرائیلیات کی خبر ہے جو ابن جریج اور الكلبي نے ابن عباس سے منسوب کر دی ہے

قرآن سورہ طہ میں ہے
قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي

اس آیت کی قرات میں اختلاف بھی ہے – برواية خلف عن حَمْزَةُ و برواية َالْكِسَائِيُّ و برواية َالْأَعْمَشُ وَ برواية خَلَفٌ نے اس آیت کی قرات اس طرح کی
قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ تَبْصُرُوا بہ
سامری نے کہا میں نے وہ دیکھا جو تم نے نہیں دیکھا

اور رواية قالون، رواية ورش اور عاصم کی قرات میں ہے
قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ
سامری نے کہا میں نے وہ دیکھا جو انہوں نے نہیں دیکھا

قرطبی نے سورہ طہ کی اس آیت کی شرح میں لکھا
وَيُقَالُ: إِنَّ أُمَّ السَّامِرِيِّ جَعَلَتْهُ حِينَ وَضَعَتْهُ فِي غَارٍ خوفا
مِنْ أَنْ يَقْتُلَهُ فِرْعَوْنُ، فَجَاءَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَجَعَلَ كَفَّ السَّامِرِيِّ فِي فَمِ السَّامِرِيِّ، فَرَضَعَ الْعَسَلَ وَاللَّبَنَ فَاخْتَلَفَ إِلَيْهِ فَعَرَفَهُ مِنْ حِينِئِذٍ

کہا جاتا ہے کہ سامری کی ماں نے اس کو ایک غار میں چھوڑ دیا جب اس کو جنا کہ کہیں فرعون اس کو قتل نہ کر دے پس جبریل علیہ السلام آئے اور اس کو دودھ اور شہد سے پالا – پس سامری خروج مصر کے وقت جبریل کو پہچان گیا

اسی طرح ایک اور قصہ ذکر کیا
وَيُقَالُ: إِنَّ السَّامِرِيَّ سَمِعَ كَلَامَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ، حَيْثُ عَمِلَ تِمْثَالَيْنِ مِنْ شَمْعٍ أَحَدُهُمَا ثَوْرٌ وَالْآخَرُ فَرَسٌ فَأَلْقَاهُمَا فِي النِّيلِ طَلَبَ قَبْرَ يُوسُفَ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَكَانَ فِي تَابُوتٍ مِنْ حَجَرٍ فِي النِّيلِ فَأَتَى بِهِ الثَّوْرُ عَلَى قَرْنِهِ
سامری نے موسی کا کلام سنا جب وہ ایک بیل اور گھوڑے کا بت بنا رہا تھا
اس نے ان بتوں کو نیل میں ڈالا اور بیل کا بت یوسف کے پتھر کے تابوت کو سر پر اٹھائے نیل میں سے نکل آیا

السراج المنير في الإعانة على معرفة بعض معاني كلام ربنا الحكيم الخبير از شمس الدين، محمد بن أحمد الخطيب الشربيني الشافعي (المتوفى: 977هـ) میں ہے
فقال ابن عباس في رواية الكلبي: إنما عرفه لأنه رباه في صغره، وحفظه من القتل حين أمر فرعون بذبح أولاد بني إسرائيل، فكانت المرأة إذا ولدت طرحت ولدها حيث لا يشعر به آل فرعون، فتأخذ الملائكة الولدان ويربونهم حتى يترعرعوا ويختلطوا بالناس، فكان السامري ممن أخذه جبريل عليه السلام، وجعل كف نفسه في فيه، وارتضع منه العسل واللبن، فلم يزل يختلف إليه حتى عرفه، فلما رآه عرفه؛ قال ابن جريح: فعلى هذا قوله: بصرت بما لم يبصروا به يعني: رأيت ما لم يروه.
کلبی کی ابن عباس سے روایت ہے کہ سامری ، جبریل کو بچپن سے جانتا تھا کیونکہ جبریل نے اس کو پالا تھا اور اس کو فرعون کے قتل سے بچایا تھا جب اس نے حکم دیا کہ بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کر دیا جائے – عورتیں اپنے بچوں کو پھینک دیتی تھیں کہ کہیں ال فرعون دیکھ کر قتل نہ کر دیں ، ان بچوں کو فرشتے لے جاتے اور ان کو پالتے حتی کہ یہ بڑے ہوتے اور اور لوگوں میں مل جاتے – سامری ان بچوں میں سے تھا جن کو جبریل نے پالا اور اس کو دودھ و شہد پلایا پس سامری نے ان کو پہچاننا نہ چھوڑا اور جب (خروج مصر پر ) دیکھا تب پہچان گیا
ابن جریج نے کہا پس اس کا ذکر اس قول تعالی میں ہے کہ سامری نے کہا میں نے وہ دیکھا جو دوسروں نے نہ دیکھا

تفسیر طبری میں ہے
حدثنا القاسم، قال: ثنا الحسين، قال: ثني حجاج، عن ابن جُرَيج، قال: لما قتل فرعون الولدان قالت أمّ السامريّ: لو نحيته عني حتى لا أراه، ولا أدري قتله، فجعلته في غار، فأتى جبرائيل، فجعل كفّ نفسه في فيه، فجعل يُرضعه العسل واللبن، فلم يزل يختلف إليه حتى عرفه، فمن ثم معرفته إياه حين قال: (فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِنْ أَثَرِ الرَّسُولِ)

الْحُسَيْنُ بْنَ داود (لقب سنيد ) نے حجاج بن مُحَمَّدٍ الْأَعْوَرُ سے روایت کیا ہے اور انہوں نے ابن جریج سے روایت کیا –

الحسين بن داود کو سُنَيد بن داود بھی سندوں میں کہا جاتا ہے – ان پر نسائي کا قول ہے : ليس بثقة یہ ثقہ نہیں ہے
خطیب بغدادی کا قول ہے
قُلْتُ لا أعلم أي شيء غمصوا عَلَى سنيد، وقد رأيت الأكابر من أهل العلم رووا عنه، واحتجوا به، ولم أسمع عنهم فيه إِلا الخير، وقد كَانَ سنيد لَهُ معرفة بالحديث، وضبط لَهُ، فالله أعلم.
وذكره أَبُو حاتم الرَّازِيّ فِي جملة شيوخه الذين روى عنهم، وَقَالَ: بغدادي صدوق
ان کی حدیث قابل دلیل ہے اور ابو حاتم رازی کے شیوخ میں سے ہیں اور وہ کہتے ہیں یہ صدوق ہیں

ابن سعد نے طبقات میں حجاج بن مُحَمَّدٍ الْأَعْوَرُ پر ذکر کیا
وكان ثقة كثير الحديث عن ابن جريج
یہ ثقہ ہیں اور ابن جریج سے اکثر احادیث روایت کرتے ہیں

حجاج بن مُحَمَّدٍ الْأَعْوَرُ مختلط بھی ہوئے لیکن معلوم نہیں کہ سنید نے کس دور میں ان سے سنا

ابن جریج کی کسی صحابی سے ملاقات نہیں ہے لہذا اس روایت کی سند معضل یعنی ٹوٹی ہوئی ہے – البتہ جو معلوم ہوا وہ یہ کہ ابن جریج اس قصے کو لوگوں کو سناتے تھے اور کسی مقام پر ان سے اس قصے کا رد منقول نہیں ہے

دوسرا قصہ جو سعید بن جبیر نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منسوب کیا ہے اس کے مطابق سامری بنی اسرائیل میں سے نہیں تھا
وَكَانَ السَّامِرِيُّ مِنْ قَوْمٍ يَعْبُدُونَ الْبَقَرَ جِيرَانٍ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ، وَلَمْ يَكُنْ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ
سامری گائے کی عبادت کرتا تھا اور بنی اسرائیل کی طرف سے مجاورت کرتا تھا اور یہ بنی اسرائیل میں سے نہیں تھا
سند میں أصبغ بن زيد ہے جو بقول ابن سعد حدیث میں ضعیف ہے- ابن عدي: له أحاديث غير محفوظة- دارقطنی نے اس کو ثقہ کہا ہے اس طرح یہ مختلف فیہ راوی ہے

ان قصوں کو اس طرح ابن عباس سے منسوب کیا گیا ہے

حدیث مغیرہ (رض) کا مطلب

صحیح بخاری کی حدیث ہے

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي قَيْسٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ لِي الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ :‏‏‏‏ “مَا سَأَلَ أَحَدٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الدَّجَّالِ أَكْثَرَ مَا سَأَلْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّهُ قَالَ لِي:‏‏‏‏ مَا يَضُرُّكَ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ لِأَنَّهُمْ يَقُولُونَ إِنَّ مَعَهُ جَبَلَ خُبْزٍ وَنَهَرَ مَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ هُوَ أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ ذَلِكَ”.

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا مجھ سے اسماعیل نے بیان کیا، ان سے قیس نے بیان کیا، کہ مجھ سے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ دجال کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جتنا میں نے پوچھا اتنا کسی نے نہیں پوچھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھا کہ اس سے تمہیں کیا نقصان پہنچے گا۔ میں نے عرض کیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ روٹی کا پہاڑ اور پانی کی نہر ہو گی، فرمایا کہ وہ اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ ذلیل ہے۔

بعض  مترجمین    کی جانب سے    روایت مغیرہ رضی اللہ عنہ کو پیش کر کے اس کا ترجمہ کیا  جاتا ہے

هُوَ أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ ذَلِكَ

وہ الله پر اس سے بھی زیادہ آسان ہے

پھر ثابت کیا جاتا ہے کہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مغیرہ رضی اللہ عنہ  کو دجال سے مزید ڈرایا   کہ اللہ کے لئے آسان ہے کہ دجال کو    استدراج و آیت و معجزہ   دے – افسوس مطلب براری کے لئے  مترجمین  نے حدیث کا مفہوم ہی بدل دیا – نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو انکار کیا کہ دجال مومنوں کو کچھ نقصان دے گا ،  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے دجال کو کم تر و حقیر قرار دیا نہ کہ اس کے استدراج کو من جانب اللہ قرار دیا

اس حدیث کے تراجم میں لوگ تبدیلی کرتے رہتے ہیں –  بعض مترجمین نے صحیح  ترجمہ  بھی  کیا ہے مثلا

http://www.hadithurdu.com/09/9-5-59/

جلد پنجم قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والی نشانیاں اور دجال کا ذکر مشکوۃ شریف

مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والی نشانیاں اور دجال کا ذکر ۔

حدیث 59

اہل ایمان کو دجال سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں

عن المغيرة بن شعبة قال ما سأل أحد رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الدجال أكثر مما

سألته وإنه قال لي ما يضرك ؟ قلت إنهم يقولون إن معه جبل خبز ونهر ماء . قال هو أهون

على الله من ذلك . متفق عليه .

  اور حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ دجال کے بارے میں

جس قدر میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ہے اتنا کسی اور نے نہیں

پوچھا ! چنانچہ (ایک دن ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ ” دجال تمہیں

کوئی ضرر نہیں پہنچا سکے گا یعنی تمہارے اوپر چونکہ حق تعالیٰ کی عنایت وحمایت کا

سایہ ہوگا اس لئے دجال تمہیں گمراہ نہیں کر سکے گا ” میں نے عرض کیا کہ لوگ یہ

کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ روٹیوں کا پہاڑ ( یعنی پہاڑ کے بقدر غذائی ضروریات کا

ذخیرہ ) ہوگا اور پانی کی نہر اس وقت جب کہ لوگ قحط سالی کا شکار ہوں گے اگر کوئی

شخص بھوک و پیاس سے اضطرار کی حالت کو پہنچ جائے تو وہ کیا کرے ؟ آنحضرت

صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دجال اللہ تعالیٰ کی نزدیک اس سے زیادہ ذلیل ہے ۔ بخاری ومسلم  

تشریح  : اس سے زیادہ ذلیل ہے ” کا مطلب یہ ہے کہ دجال اپنی طاقت وقوت کے جو مظاہر پیش کرے گا وہ سب بے حقیقت ہونگے کہ ان چیزوں کی حیثیت شعبدہ بازی ، فریب کاری اور نظر بندی سے زیادہ اور کچھ نہیں ہوگی وہ اللہ کے نزدیک اس قدر ذلیل و بے حیثیت ہے کہ حقیقت کے اعتبار سے اس کو اتنی زیادہ طاقت وقدرت عطانہیں ہو سکتی اور وہ اس بات پر قادر ہی نہیں ہو سکتا کہ اپنے عقیدہ وعمل پر مضبوطی سے قائم رہنے والے اہل ایمان کو گمراہ کر سکے لہٰذا اہل ایمان دجال کی اس مافوق الفطرت طاقت کو دیکھ کر کہ جو صرف ظاہر میں طاقت نظر آئے گی اور حقیقت میں دھوکہ کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا ہرگز خوفزدہ نہیں ہوں گے بلکہ وہ تو اس کی شعبدہ بازیوں اور اس کے محیر العقول کارناموں کو دیکھ کر اس کے دجل وفریب اور جھوٹ پر اپنے یقین کو اور زیادہ پختہ  کریں گے ۔

http://www.hadithurdu.com/musnad-ahmad/11-8-60/?s=&st1=&st2=%20هو%20أهون%20على%20الله%20&st3=&st4=

مسند احمد ۔ جلد ہشتم ۔ حدیث 60

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ إِسْمَاعِيلَ عَنْ قَيْسٍ عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ مَا سَأَلَ أَحَدٌ

النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرَ مِمَّا سَأَلْتُ أَنَا عَنْهُ فَقَالَ إِنَّهُ لَا يَضُرُّكَ قَالَ قُلْتُ إِنَّهُمْ يَقُولُونَ مَعَهُ

نَهَرٌ وَكَذَا وَكَذَا قَالَ هُوَ أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ ذَاكَ

حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دجال کے متعلق جتنی کثرت کے ساتھ

میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال پوچھے ہیں کسی نے نہیں پوچھے نبی

کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا کہ وہ تمہیں کچھ نقصان نہ پہنچاسکے گا

میں نے عرض کیا کہ لوگ کہتے ہیں اس کے ساتھ ایک نہر بھی ہوگی اور فلاں فلاں چیز

بھی ہوگی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ اللہ کے نزدیک اس سے بہت حقیر

ہے۔

http://www.hadithurdu.com/musnad-ahmad/11-8-70/?s=&st1=&st2=%20هو%20أهون%20على%20الله%20&st3=&st4=

مسند احمد ۔ جلد ہشتم ۔ حدیث 70

حَدَّثَنَا يَزِيدُ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ مَا

سَأَلَ أَحَدٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الدَّجَّالِ أَكْثَرَ مِمَّا سَأَلْتُهُ عَنْهُ فَقَالَ لِي أَيْ بُنَيَّ وَمَا

يُنْصِبُكَ مِنْهُ إِنَّهُ لَنْ يَضُرَّكَ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُمْ يَزْعُمُونَ أَنَّ مَعَهُ جِبَالَ الْخُبْزِ وَأَنْهَارَ الْمَاءِ

فَقَالَ هُوَ أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ ذَاكَ

حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دجال کے متعلق جتنی کثرت کے ساتھ

میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال پوچھے ہیں کسی نے نہیں پوچھے نبی

کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا کہ وہ تمہیں کچھ نقصان نہ پہنچاسکے گا

میں نے عرض کیا کہ لوگ کہتے ہیں اس کے سا تھا ایک نہر بھی ہوگی اور فلاں فلاں

چیزبھی ہوگی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ اللہ کے نزدیک اس سے بہت

حقیر ہے۔

http://www.hadithurdu.com/musnad-ahmad/11-8-101/?s=&st1=&st2=%20هو%20أهون%20على%20الله%20&st3=&st4=

مسند احمد ۔ جلد ہشتم ۔ حدیث 101

حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنِي قَيْسٌ قَالَ قَالَ لِي الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ مَا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ

عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الدَّجَّالِ أَحَدٌ أَكْثَرَ مِمَّا سَأَلْتُهُ وَإِنَّهُ قَالَ لِي مَا يَضُرُّكَ مِنْهُ قَالَ قُلْتُ إِنَّهُمْ يَقُولُونَ إِنَّ

مَعَهُ جَبَلَ خُبْزٍ وَنَهْرَ مَاءٍ قَالَ هُوَ أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ ذَاكَ

حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دجال کے متعلق جتنی کثرت کے ساتھ

میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال پوچھے ہیں کسی نے نہیں پوچھے نبی

کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا کہ وہ تمہیں کچھ نقصان نہ پہنچا سکے گا

میں نے عرض کیا کہ لوگ کہتے ہیں اس کے سا تھا ایک نہر بھی ہوگی اور فلاں فلاں

چیز بھی ہوگی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ اللہ کے نزدیک اس سے بہت

حقیر ہے۔

اب غلط ترجمہ دیکھتے ہیں

سنن ابن ماجہ

4073

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ  بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ: مَا سَأَلَ أَحَدٌ النَّبِيَّ ﷺ، عَنِ  الدَّجَّالِ أَكْثَرَ مِمَّا سَأَلْتُهُ ( وَقَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ أَشَدَّ سُؤَالا مِنِّي ) فَقَالَ: ” لِي مَا تَسْأَلُ عَنْهُ؟ ” قُلْتُ: إِنَّهُمْ  يَقُولُونَ: إِنَّ مَعَهُ الطَّعَامَ وَالشَّرَابَ،قَالَ: ” هُوَ أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ ذَلِكَ “۔

تخريج: خ/الفتن ۲۷ (۷۱۲۲)، م/الفتن ۲۲ (۲۹۳۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۲۳)، وقد

أخرجہ: حم (۴/۲۴۶، ۲۴۸، ۲۵۲) (صحیح)

۴۰۷۳-

 مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے دجا ل کے بارے میں جتنے سوالا ت میں نے کئے ہیں، اتنے کسی اور نے نہیں کئے ،(ابن نمیر کی روا یت میں یہ الفا ظ ہیں ” أَشَدَّ سُؤَالا مِنِّي ” یعنی مجھ سے زیا دہ سوال اور کسی نے  نہیں کئے)، آخر آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ”تم اس کے با رے میں کیا پو چھتے ہو؟  میں نے عرض کیا : لوگ کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ کھانا اور پا نی ہو گا ،آپ ﷺ نے

فرمایا:” اللہ تعالیٰ پر وہ اس سے بھی زیادہ آسان ہے ۱ ؎ ۔

وضاحت ۱ ؎ : یا اللہ تعالی پر یہ با ت دجال سے زیادہ آسان ہے، یعنی جب اس نے دجال کو پیدا کر دیا تو اس کو کھانا پانی دینا کیا مشکل ہے، صحیحین کی روایت میں ہے کہ میں نے عرض کیا: لوگ کہتے ہیں کہ اس کے پاس روٹی کا پہاڑ ہوگا اور پانی کی نہریں  ہوں گی، تب آپ نے یہ فرمایا – اور ممکن ہے کہ حدیث کا ترجمہ یوں کیا جا ئے کہ اللہ تعالی پر یہ بات آسان ہے دجال سے زیادہ یعنی جب ا س نے دجال کو پیدا کردیا تو اس کو کھانا پانی دینا کیا مشکل ہے ، اور بعضوں نے کہا مطلب یہ ہے کہ دجال ذلیل ہے ، اللہ تعالی کے نزدیک اس سے کہ ان چیزوں کے ذریعے سے اس کی تصدیق کی جائے کیونکہ

اس کی پیشانی اور آنکھ پر اس کے جھوٹے ہونے کی نشانی ظاہر ہوگی ، واللہ اعلم۔

یہاں  مترجم نے ترجمہ غلط کیا ہے-   اپنے  موقف کہ دجال کو اختیار من جانب اللہ ملے گا   ، اس  کو متن میں ملا دیا ہے لیکن  شرح میں جو صحیح ترجمہ تھا اس کا بھی ذکر کر دیا ہے  – اب   سوال ہے کہ  أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ   کا درست ترجمہ کیا   آسان کرنا ہے  یا کسی کو ذلیل و حقیر قرار دینا ہے ؟

اس کا جواب حدیث لٹریچر میں ہی مل جاتا ہے  – سنن دارمی کی حدیث ہے

http://www.hadithurdu.com/10/10-2-578/?s=أَهْوَنُ+عَلَى+اللَّهِ

سنن دارمی ۔ جلد دوم ۔ دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان ۔ حدیث 578

دنیا کا اللہ کے نزدیک بے حثییت ہونا۔

أَخْبَرَنَا حَجَّاجٌ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ أَبِي الْمُهَزِّمِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ  وَسَلَّمَ مَرَّ بِسَخْلَةٍ جَرْبَاءَ قَدْ أَخْرَجَهَا أَهْلُهَا قَالَ تُرَوْنَ هَذِهِ هَيِّنَةً عَلَى أَهْلِهَا قَالُوا نَعَمْ قَالَ وَاللَّهِ لَلدُّنْيَا  أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ عَلَى أَهْلِهَا

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ایک خارش زدہ بکری کے پاس سے  گزرے جس کو اس کے مالک نے باہر پھینک دیا تھا نے دریافت کیا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ اس کے مالک کے نزدیک اس کی کوئی حثییت نہیں ہے لوگوں نے عرض کی جی ہاں – آپ نے فرمایا اللہ کی قسم یہ اپنے مالک کے نزدیک جتنی بے حثییت ہے دنیا اللہ کی نزدیک اس سے زیادہ کہیں بے حثییت ہے۔

http://www.hadithurdu.com/musnad-ahmad/11-4-1560/?s=أَهْوَنُ+عَلَى+اللَّهِ

مسند احمد ۔ جلد چہارم ۔ حدیث 1560

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَذْهَبَ عَنْكُمْ عُبِّيَّةَ  الْجَاهِلِيَّةِ وَفَخْرَهَا بِالْآبَاءِ مُؤْمِنٌ تَقِيٌّ وَفَاجِرٌ شَقِيٌّ وَالنَّاسُ بَنُو آدَمَ وَآدَمُ مِنْ تُرَابٍ لَيَنْتَهِيَنَّ أَقْوَامٌ  فَخْرَهُمْ بِرِجَالٍ أَوْ لَيَكُونُنَّ أَهْوَنَ عَلَى اللَّهِ مِنْ عِدَّتِهِمْ مِنْ الْجِعْلَانِ الَّتِي تَدْفَعُ بِأَنْفِهَا النَّتَنَ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے  فرمایا اللہ تبارک وتعالیٰ نے تم سے جاہلیت کا تعصب اور اپنے آباواجداد پر فخر کرنا دور  کردیا ہے۔ اب یا تو کوئی شخص متقی مسلمان ہوگا یا بدبخت گناہ گار ہوگا سب لوگ آدم  علیہ السلام کی اولاد ہیں اور آدم علیہ السلام کی پیدائش مٹی سے ہوئی تھی لوگ آپنے آباؤ  اجداد پر فخر کرنے سے باز آجائیں ورنہ اللہ کی نگاہوں میں وہ اس بکری سے بھی زیادہ  حقیرہوں گے جس کے جسم سے بدبو آنا شروع ہوگئی ہو اور وہ اسے اٹھانے کے لئے پیسے دینے پر تیار ہوں۔

http://www.hadithurdu.com/musnad-ahmad/11-4-3542/?s=أَهْوَنُ+عَلَى+اللَّهِ

مسند احمد ۔ جلد چہارم ۔ حدیث 3542

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ عَنِ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَيَدَعَنَّ رِجَالٌ فَخْرَهُمْ بِأَقْوَامٍ إِنَّمَا هُمْ فَحْمٌ مِنْ فَحْمِ جَهَنَّمَ أَوْ لَيَكُونُنَّ أَهْوَنَ عَلَى اللَّهِ مِنْ الْجِعْلَانِ الَّتِي تَدْفَعُ بِأَنْفِهَا النَّتِنَ وَقَالَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَذْهَبَ عَنْكُمْ عُبِّيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ وَفَخْرَهَا  بِالْآبَاءِ مُؤْمِنٌ تَقِيٌّ وَفَاجِرٌ شَقِيٌّ النَّاسُ بَنُو آدَمَ وَآدَمُ مِنْ تُرَابٍ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے  فرمایا لوگ اپنے آباؤ اجداد پر فخر کرنے سے باز آجائیں ورنہ اللہ کی نگاہوں میں وہ اس  بکری سے بھی زیادہ حقیر ہوں گے جس کے جسم سے بدبو آنا شروع ہوگئی ہو اللہ تبارک  وتعالیٰ نے تم سے جاہلیت کا تعصب اور اپنے آباؤ اجداد پر فخر کرنا دور کردیا ہے اب یا  تو کوئی شخص متقی مسلمان ہوگا یا بدبخت گناہگار ہوگا سب لوگ آدم علیہ السلام کی اولاد  ہیں اور آدم علیہ السلام کی پیدائش مٹی سے ہوئی تھی۔

روایت میں الفاظ   موجود ہیں   لَيَكُونُنَّ أَهْوَنَ عَلَى اللَّهِ مِنْ الْجِعْلَانِ  کہ  وہ بکری سے بھی زیادہ حقیر ہوں گے

معلوم ہوا کہ  صحیح ترجمہ   حدیث مغیرہ  رضی اللہ عنہ  کا یہی ہے کہ دجال حقیر  و کم تر ہے کہ اللہ تعالی  اس کو آیات  و معجزات  و استدراج    عطا کرے

حدیث  سنن نسائی میں ہے

لزوال الدّنيا أهون على الله من قتل رجل مسلم

دنیا کو ختم کرنا اللہ کے نزدیک قتل مسلم سے بھی حقیر ہے

یعنی مومن کا قتل بہت بڑی چیز ہے

اس روایت میں جو بیان ہوا ہے اس کو ضروری نہیں خرق عادت قرار دیا جائے مثلا پہاڑ تو عرب صفا و مروہ کو بھی کہتے ہیں اور آپ نے اگر ان کو دیکھا ہو تو وہ کوئی بہت بڑے نہیں ہیں-  پانی کی نہر سے مراد پانی کی فراہمی ہے –  اسی طرح روایت میں دجال کی جنت جہنم کا ذکر ہے اس کی تاویل بھی ممکن ہے  مثلا  لیکویڈ نٹروجن   دیکھنے میں   پانی کی مانند ہے لیکن جسم کو اس قدر ٹھنڈا کر دیا گی کہ سیکنڈ وں میں برف بن جائے – اس دوران  شدید جلن کا احساس ہو گا جیسے  بدن آگ  میں  جل رہا ہو-  دجال کی  ان شعبدہ بازیوں کی تاویل ممکن ہے –

تقابل

عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ مروی عن حُذَيْفَةَ  اور   َأَبُو مَسْعُود  و   رجل میں اصحاب النبی

 

صحیح ابن حبان  ٦٨٠٠

مسند احمد

مستخرج أبو عَوانة  ٩٣٨٠

صحیح مسلم  ٢٩٢٩

مسند احمد

23090

23683

23684

23685

صحیح ابن حبان ٦٧٩٩

قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ بَلَغَنِي أَنَّ مَعَ الدَّجَّالِ جِبَالُ الْخُبْزِ وَأَنْهَارُ الْمَاءُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “هُوَ أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ ذَلِكَ”. قَالَ الْمُغِيرَةُ: فَكُنْتُ مِنْ أَكْثَرِ النَّاسِ سُؤَالًا عَنْهُ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “لَيْسَ بِالَّذِي يَضُرُّكَ

 

مغیرہ رضی الله عنہ نے کہا یا رسول الله مجھ تک پہنچا کہ دجال کے ساتھ روٹی کا پہاڑ اور پانی کی نہریں ہوں گی ؟ رسول الله نے فرمایا : الله کے نزدیک یہ اس سے زیادہ ذلیل ہے

 

يَسِيرُ مَعَهُ جِبَالُ الْخُبْزِ وَأَنْهَارُ الْمَاءِ

دجال اپنے ساتھ روٹی کے پہاڑ اور پانی کی نہریں لے کر چلے گا

 

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ أَبِي هِنْدَ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، قَالَ: اجْتَمَعَ حُذَيْفَةَ وَأَبُو مَسْعُودٍ، فَقَالَ حُذَيْفَةَ: أَنَا أَعْلَمُ بِمَا مَعَ الدَّجَّالِ مِنْهُ، إِنَّ مَعَهُ نَهْرًا مِنْ نَارٍ، وَنَهْرًا مِنْ مَاءٍ، فَالَّذِي  يَرَوْنَ أَنَّهُ نَارٌ: مَاءٌ، وَالَّذِي يَرَوْنَ أَنَّهُ مَاءٌ: نَارٌ، فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ، فَأَرَادَ الْمَاءَ فَلْيَشْرَبْ مِنَ الَّذِي يَرَى أَنَّهُ نَارٌ، فَإِنَّهُ سَيَجِدُهُ مَاءً. قَالَ أَبُو مَسْعُودٍ: هَكَذَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يقول

رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ نے کہا ہم حُذَيْفَةَ وَأَبُو مَسْعُودٍ کے پاس جمع ہوئے – حُذَيْفَةَ بولے  مجھے معلوم ہے دجال کے پاس  کیا ہو گا – اس سے پاس اگ کی نہر ہو گی اور پانی کی – تو جو اگ نظر آئی گی وہ پانی ہو گا اور جو پانی نظر آئے گا وہ اگ ہو گی – پس تم میں کوئی اس کو پائے تو اس میں سے پی لے جو اگ لگے اس کو پانی ملے گا – ابو مسعود نے کہا ایسا ہی  میں نے رسول اللہ سے سنا

 

 مغیرہ  رضی اللہ عنہ  کا سوال  اس حدیث پر تھا جو حُذَيْفَةَ  اور   َأَبُو مَسْعُود   رضی اللہ  عنہما    نے بیان کی تھی- اور دونوں حُذَيْفَةَ   اور    َأَبُو مَسْعُود  رضی اللہ  عنہما   نے وضاحت کی کہ ان کے نزدیک بھی دجال کے پاس فراڈ ہو گا نہ کہ حقیقی آیات – مغیرہ نے اس پر سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے خبر دی کہ دجال کم تر و حقیر ہے

محدث ابن حبان کہتے ہیں

قَالَ أَبُو حَاتِمٍ : إِنْكَارِ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمُغِيرَةِ بِأَنَّ مَعَ الدَّجَّالِ أَنْهَارُ الْمَاءِ لَيْسَ يُضَادُّ خَبَرَ أبي مسعود والذي ذَكَرْنَاهُ، لِأَنَّهُ أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ أَنْ يَكُونَ مَعَهُ نَهْرُ الْمَاءِ يَجْرِي وَالَّذِي مَعَهُ يُرَى أَنَّهُ مَاءٌ وَلَا مَاءَ، مِنْ غَيْرِ أن يكون بينهما تضاد.

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار مغیرہ سے کہ دجال کے پاس پانی کی نہر ہو گی اس ابو مسعود کی خبر کا انکار نہیں ہے بلکہ دجال اللہ کے نزدیک ذلیل ہے کہ اس کے پاس پانی کی نہر ہو جو جاری ہو بلکہ اس پاس جو ہو گا وہ دیکھنے میں پانی لگے گا نہ کہ واقعی پانی  ہو گا

علي القاري  “شرح المشكاة”  کی تعلیق میں  حدیث کے الفاظ پر  کہتے ہیں: “هو أهون على الله من ذلك”: أي: هو أحقر من أن الله تعالى يحقق له ذلك، وإنما هو تخييل وتمويه للابتلاء

وہ اللہ کے نزدیک اس سے بھی ذلیل ہے یعنی وہ ذلیل ہے کہ اللہ تعالی اس کو یہ حق دے بلکہ یہ سب تخیل و   جھوٹ    ابتلاء کے لئے ہو گا

أنور الكشميري   “فيض الباري” 4/  ١٩    میں کہتے ہیں : واعلم أنه لا يكون مع الدجال إلا تخيلات ليس لها حقائق فلا يكون لها ثبات، وإنما يراه الناس في أعينهم فقط.

اور جان لو کہ دجال کے پاس محض   تخیلات ہوں گے نہ کہ حقیقی چیزیں پس ان کو ثبات نہ ہو گا ، بس وہ لوگوں کو   فقط  آنکھوں سے نظر آئیں گی

طحاوی  مشکل الاثار میں   اسی روایت پر کہتے ہیں

يُوهِمُهُ الدَّجَّالُ النَّاسَ بِسِحْرِهِ أَنَّهُ مَاءٌ وَخُبْزٌ، فَيَرَوْنَهُ كَذَلِكَ بِسِحْرِهِ الَّذِي يَكُونُ مَعَهُ مِمَّا يَقْدِرُ بِهِ عَلَيْهِمْ، حَتَّى يَرَوْنَ أَنَّ ذَلِكَ فِي  الْحَقِيقَةِ كَمَا يَرَوْنَهُ بِأَعْيُنِهِمْ فِي ظُنُوُنِهِمْ، وَلَيْسَ كَذَلِكَ

دجال لوگوں کو اپنے  جادو سے وہم میں ڈالے گا کہ اس پر روٹی و پانی ہے پس وہ لوگوں کو نظر آئے  گا بسبب سحر کہ دجال کے پاس روٹی و پانی ہے   یہاں تک کہ وہ   اس کو حقیقت  جانیں گے  کہ گویا   اپنے گمان کو آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں گے اور ایسا حقیقت میں نہیں ہو گا

قاضی  ابن العربي کے نزدیک

  إنما هو تخييل وشبه على الأبصار، فيثبت المؤمن ويزل الكافر

یہ سب تخیل و شبہ ہو گا

كشف المشكل من حديث الصحيحين میں ابن جوزی کا کہنا ہے

 أَنه تخييل لَا حَقِيقَة  یہ تخیل ہو گا نہ کہ حقیقت

سیوطی  شرح ابن ماجہ میں کہتے ہیں

هُوَ اهون على الله من ذَلِك أَي من ان يُعْطِيهِ هَذَا الخارق الْعَظِيم لَكِن يموه ويشعبد مثل هَذَا الشعبدات وَلَيْسَ الا تخيل مَحْض لَيْسَ من نفس الْأَمر فِيهِ شَيْء كَمَا هُوَ مشَاهد من أهل النير بخات والطلسمات فِي زَمَاننَا

وہ دجال اللہ کے نزدیک اس سے بھی ذلیل ہے یعنی    کہ دجال ذلیل ہے کہ اللہ اس کو اس طرح کی خارق  عادت چیزیں دے لیکن یہ سب فراڈ  اور شعبدہ بازی ہو گی جیسا  شعبدہ باز  کرتے ہیں اور یہ نہیں ہے سوائے  تخیل  محض  کے نہ کہ نفس امر کوئی چیز بدلے گی   جیسا  آجکل ہم دیکھتے ہیں  اپنے دور کے اہل  النير بخات والطلسمات      (جادو گروں )  میں

نزول المسیح و خروج الدجال پر کتاب ٢

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

کتاب کا موضوع   روایات   نزول مسیح و خروج  دجال ہے  جو صحیح احادیث سے ثابت ہے لیکن ان   روایات میں تمام صحیح نہیں – بعض اہل کتاب کے اقوال ، سیاسی بیانات اور   ذاتی آراء بھی ہیں جو حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم  سمجھی جانے لگی ہیں-   امت  میں نزول مسیح اور قتل دجال کے مقام کے حوالے سے اختلاف چلا آ رہا ہے اور یہ اختلاف مشہور محدثین میں بھی موجود ہے –  امام مسلم نے غلطی سے     اس  حدیث  کو صحیح سمجھا ہے جو نواس   رضی اللہ عنہ سے منسوب  کی گئی ،  جبکہ   راقم کے نزدیک  یہ کعب  الاحبار کے   خیالات  اور اسرائیلیات   کا مجموعہ   ہے –  نواس   رضی اللہ عنہ سے منسوب  کی گئی  اس حدیث کے مطابق  عیسیٰ علیہ السلام کا   نزول دمشق میں ہے  اور دجال کا قتل لد پر ہو گا – دوسری طرف   محدث ابن خزیمہ اس کے قائل تھے کہ دجال بیت المقدس میں  ایک زلزلہ میں ہلاک ہو گا- ابن خزیمہ نے ان احادیث کو  اپنی   صحیح میں نقل نہیں کیا جن میں   ہے کہ دجال لد پر قتل ہو  گا- سیوطی  اور ملا علی قاری بھی  اس کے قائل ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کا نزول   بیت المقدس میں ہو گا -بعض علماء کا قول یہ بھی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا نزول دمشق سے باہر مشرق کی سمت پر ہو گا مثلا  امام حاکم اس کے قائل ہیں کہ مسیح کا نزول   مشرقی دمشق   میں ہو گا ( نہ کہ وسط دمشق  میں الفاظ ہیں  فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ )- امام  ابن حبان اور امام بخاری  نے اپنی  اپنی صحیح  میں حدیث نواس رضی اللہ عنہ  کو درج نہیں کیا اور نزول مسیح کے مقام سے متعلق کوئی روایت نہیں دی،  نہ ان دونوں نے سفید  مینار کا  کوئی  ذکر کیا ہے – ابن حبان اگرچہ  ایک دوسری سند سے اس کے قائل ہیں کہ دجال کا قتل لد پر ہو گا – امام   ابی حاتم کے نزدیک اس حوالے سے بعض  روایات اصلا کعب الاحبار کے اقوال ہیں –    راقم کی تحقیق سے امام ابی حاتم کا قول ثابت ہوتا ہے-

بعض روایات صریحا خلاف قرآن ہیں لیکن افسوس ان بھی قبول کر لیا گیا ہے مثلا درخت  غرقد  کی خبر  کہ وہ اللہ اور اس کے رسولوں کا دشمن ہے   یا خبر  کہ  حربی  یہود  کے علاوہ    سب یہود  کو  بلا   امتیاز  قتل کیا جائے گا-  اسی طرح  بعض  خبریں  دجال کی  الوہی صفات   پر ہیں مثلا اس کا  مردے  کو زندہ کرنا، آسمان و زمین کا اس کی اطاعت کرنا- افسوس ان میں سے ایک آدھ خبر صحیح بخاری و مسلم میں بھی موجود ہے  جن کا تعاقب  علماء  و محدثین  کے اقوال ، زمینی حقائق، قرائن، اسرائیلیات   کی روشنی   میں  کیا گیا ہے – استدراج  دجال کے حوالے سے   امت میں اختلاف موجود ہے –  بعض کے نزدیک یہ محض دھوکہ ہے ، بعض کے نزدیک جادو ، بعض  کے نزدیک فن سائنس میں  انسانی ترقی     وغیرہ –

 ابن حزم،  الفصل في الملل والأهواء والنحل    میں لکھتے ہیں

إِن الْمُسلمين فِيهِ على أَقسَام فَأَما ضرار ابْن عمر وَسَائِر الْخَوَارِج فَإِنَّهُم ينفون أَن يكون الدَّجَّال جملَة فَكيف أَن يكون لَهُ آيَة وَأما سَائِر فرق الْمُسلمين فَلَا ينفون ذَلِك والعجائب الْمَذْكُورَة عَنهُ إِنَّمَا جَاءَت بِنَقْل الْآحَاد وَقَالَ بعض أَصْحَاب الْكَلَام أَن الدَّجَّال إِنَّمَا يَدعِي الربوبية ومدعي الربوبية فِي نفس قَوْله بَيَان كذبه قَالُوا فظهور الْآيَة عَلَيْهِ لَيْسَ مُوجبا لضلال من لَهُ عقل وَأما مدعي النُّبُوَّة فَلَا سَبِيل إِلَى ظُهُور الْآيَات عَلَيْهِ لِأَنَّهُ كَانَ يكون ضلالا لكل ذِي عقل قَالَ أَبُو مُحَمَّد رَضِي الله عَنهُ وَأما قَوْلنَا فِي هَذَا فَهُوَ أَن الْعَجَائِب الظَّاهِرَة من الدَّجَّال إِنَّمَا هِيَ حيل…. وَمن بَاب أَعمال الحلاج وَأَصْحَاب الْعَجَائِب

مسلمان دجال کے حوالے سے  منقسم  ہیں پس ضرار ابْن عمر  اور تمام خوارج یہ اس کا ہی انکار کرتے ہیں کہ دجال ہے پس دجال کی  نشانیاں (ان کے نزدیک ) پھر کیوں ہوں گی – اور جہاں تک باقی مسلمان فرقے ہیں تو وہ دجال کی نفی نہیں کرتے  اور بعض اصحاب اہل کلام کہتے ہیں کہ  دجال یہ رب ہونے کا مدعی ہو گا اور اپنے لئے ایسا قول کہنا ہی اس کے کذاب ہونے کو ظاہر کرتا ہے – وہ کہتے ہیں کہ  جس کے پاس بھی عقل ہے وہ جانتا ہے کہ  دجال سے نشانیوں کا ظہور ہو بھی جائے تو یہ اس کے گمراہ ہونے کی دلیل نہیں ہے  …. امام ابن حزم  نے کہا : ہمارا قول ہے اس پر کہ دجال کے عجائب جو ظہور ہوں گے یہ حیل و فریب ہوں گے  جیسا  …. حلاج کے اصحاب نے یا عجائب کے اصحاب نے کیا

ابن کثیر نے لکھا  ہے

وَقَدْ تَمَسَّكَ بِهَذَا الْحَدِيثِ طَائِفَةٌ مِنَ الْعُلَمَاءِ كَابْنِ حَزْمٍ وَالطَّحَاوِيِّ وَغَيْرِهِمَا فِي أَنَّ الدَّجَّالَ مُمَخْرِقٌ  مُمَوِّهٌ لَا حَقِيقَةَ لِمَا يُبْدِي لِلنَّاسِ مِنَ الْأُمُورِ الَّتِي تُشَاهَدُ فِي زَمَانِهِ

ان احادیث سے علماء کے ایک گروہ مثلا ابن حزم اور امام طحاوی نے تمسک کیا ہے کہ دجال ایک شعبدہ باز ہو گا  جو حقیقت پر منبی نہ گا جب وہ ان امور کو اپنے زمانے کے لوگوں کو دکھائے گا

– البيضاوي (ت 685هـ) کے مطابق دجال کا عمل شعبذة الدجال یعنی  شعبدہ بازی ہے

موجودہ دور میں    ایک بد ترین  گمراہی   یہ بھی پیدا ہو چکی ہے کہ استدراج دجال کو آیات انبیاء کا مماثل قرار دیا جا رہا ہے   اور ان کو بھی معجزات کی قبیل  میں سمجھا جانے لگا ہے – نعوذباللہ  من تلک الخرافات-

راقم  کہتا ہے کہ فرعون کے جادو گروں نے جادو کیا تھا  جس سے نظر و  تخیل   کو بدلا    گیا تھا اور یہ    عمل  سحر  تھا جو شیاطین کی مدد سے کیا گیا-     سحر کا اثر وقتی و    چند لمحوں  کا تھا    (سحر کے حوالے سے راقم کی کتاب ویب سائٹ پر موجود ہے ) البتہ    روایات  میں    دجال   کے عجائب  کل   وقتی  و ہنگامی نوعیت کے بیان  نہیں  ہوئے ہیں بلکہ اس میں  تخیل  و سحر سے بڑھ کر صفات الہیہ  کے ظہور    کا ذکر   آیا  ہے   مثلا دجال کے پاس قوت الاحیاء الموتی کا  ہونا ،   اس کا زمین کی گردش بدلنا   اور دنوں کو  طویل کرنا ، دجال  کا آسمان و زمین کو حکم کرنا   اور   زمین  و آسمان  کا    بلا چون و چرا  دجال   کی   اطاعت کرنا وغیرہ – لہذا  ان روایات کی مکمل چھان بین کرنا ضروری ہے  –

خروج دجال سے متعلق  روایات میں    اختلاف پایا جاتا ہے جن کی وجہ سے دجال ایک مسلمان سے یہودی بن جاتا ہے – نزول مسیح     میں التباس پیدا ہوتا ہے اور   آخر میں  شریعت   کے حکم کہ غیر حربی کفار و اہل کتاب کا اور خاص کر عورتوں بچوں اور بوڑھوں کا قتل نہ ہو گا ، اس کا انکار ہوتا ہے –  صدیوں سے سنتے آئے قصوں کو    تاریخ کی کسوٹی پر   پرکھنا  مشکل کام ہے – اس تحقیق سے ہر ایک کا متفق ہونا بھی ضروری نہیں ہوتا  – لیکن   راقم   تک جو علم آیا ہے  اور جو شواہد مل گئے ہیں ان کی بنیاد پر  اب یہ  مشکل امر ہے کہ وہ  اس   سب   کو      چھپا   دے  جو معلوم ہوا – لہذا  جو معلوم ہوا    ان  میں سے  کچھ ضروری  باتیں   و اسرار    اس کتاب میں    آپ کے سامنے  لائے جائیں گے-  اس کتاب کو سن  ٢٠١٧ میں ویب سائٹ پر رکھا گیا تھا  – اس پر قارئین  نے سوالات کیے  اور مزید مباحث  پیدا ہوئے   جن کی بنا پر اس کتاب کی نئی تہذیب کی گئی ہے اور اضافہ ہوا ہے

و ما علینا الا البلاغ المبین –  وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَىٰ تَنفَعُ الْمُؤْمِنِينَ

ابو شہر یار

٢٠١٩

https://www.islamic-belief.net/حَتَّى-إِذَا-فُتِّحَتْ-يَاجُوجُ-وَمَ/
یاجوج ماجوج   کا خروج قتل دجال کے فورا بعد ہے یا قیامت کی آخری نشانی ہے ؟
اس سوال  پر اس کتاب میں بحث ہے

اہل تشیع اور دجال

عموما اہل تشیع  دجال کی روایات بیان نہیں کرتے لہذا یہاں ان کی کتب کی کچھ روایات نقل کی جاتی ہیں تاکہ دیکھیں کہ اس کے بارے میں ان کی کیا آراء ہیں

الكافي – از  الكليني – ج 8 – ص 296 – 297 کی روایت ہے

حمید بن زياد ، عن الحسن بن محمد الكندي ، عن غير واحد من أصحابه عن أبان بن عثمان ، عن أبي جعفر الأحول : والفضيل بن يسار ، عن زكريا النقاض ( 4 ) . عن أبي جعفر ( عليه السلام ) قال : سمعته يقول : الناس صاروا بعد رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) بمنزلة من اتبع هارون ( عليه السلام ) ومن اتبع العجل وإن أبا بكر دعا فأبى علي ( عليه السلام ) ( 5 ) إلا القرآن ‹ صفحة 297 › وإن عمر دعا فأبى علي ( عليه السلام ) إلا القرآن وإن عثمان دعا فأبى علي ( عليه السلام ) إلا القرآن وإنه ليس من أحد يدعو إلى أن يخرج الدجال إلا سيجد من يبايعه ومن رفع راية ضلال [ – ة ] فصاحبها طاغوت .

زكريا النقاض  ، ابی جعفر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابی جعفر علیہ السلام کو سنا کہہ رہے تھے لوگ رسول الله صلى الله عليه وآله  کے بعد ہو گئے اس کے ساتھ جس کی منزلت ان کی سی تھی جنہوں نے ہارون کی اتباع کی اور (دوسرا گروہ) ان کی جنہوں نے گوسالہ پرستی کی اور ابو بکر نے پکارا تو علی نے انکار کیا سوائے قرآن کے لئے (ابو بکر کی اتباع کی)  اور عمر نے پکارا تو علی نے انکار کیا  سوائے قرآن کے لئے (عمر کی اتباع کی)  اور عثمان نے پکارا تو علی نے انکار کیا سوائے قرآن کے لئے (عثمان کی اتباع کی)  اور ایسا کوئی نہ ہو گا کہ وہ دجال کے لئے پکارے  تو وہ خود ان میں  سے ہو جائے گا  جوگمراہی کا جھنڈا اٹھائے ہوں اور طاغوت کے  ساتھی ہوں

الأمالي – از الصدوق – ص 345 – 347 کی روایت ہے

حدثنا محمد بن إبراهيم بن إسحاق ( رحمه الله ) ، قال : حدثنا عبد العزيز ابن يحيى الجلودي ، قال : [ حدثنا محمد بن عطية ، قال : حدثنا عبد الله بن عمرو بن سعيد البصري ، قال : حدثنا ] ( 3 ) هشام بن جعفر ، عن حماد ، عن عبد الله بن سليمان ( 4 ) ، وكان قارئا للكتب ، قال : قرأت في الإنجيل : يا عيسى ، جد في أمري ولا ‹ صفحة 346 › تهزل ، واسمع وأطع ، يا بن الطاهرة الطهر البكر البتول ، أتيت ( 1 ) من غير فحل ، أنا خلقتك آية للعالمين ، فإياي فاعبد ، وعلي فتوكل ، خذ الكتاب بقوة ، فسر لأهل سوريا السريانية ، وبلغ من بين يديك أني أنا الله الدائم الذي لا أزول ، صدقوا النبي ( صلى الله عليه وآله ) الأمي صاحب الجمل والمدرعة ( 2 ) والتاج – وهي العمامة – والنعلين والهراوة – وهي القضيب – الأنجل العينين ( 3 ) ، الصلت الجبين ( 4 ) ، الواضح ( 5 ) الخدين ، الأقنى الانف ، المفجل ( 6 ) الثنايا ، كأن عنقه إبريق فضة ، كأن الذهب يجري في تراقيه ، له شعرات من صدره إلى سرته ، ليس على بطنه ولا على صدره شعر ، أسمر اللون ، دقيق المسربة ( 7 ) ، شثن ( 8 ) الكف والقدم ، إذا التفت التفت جميعا ، وإذا مشى كأنما يتقلع ( 9 ) من الصخرة وينحدر من صبب ( 10 ) ، وإذا جاء مع القوم بذهم ( 11 ) ، عرقه في وجهه كاللؤلؤ ، وريح المسك ينفح منه ، لم ير قبله مثله ولا بعده ، طيب الريح ، نكاح النساء ذو النسل القليل ، إنما نسله من مباركة لها بيت في الجنة ، لا صخب فيه ولا نصب ، يكفلها في آخر الزمان كما كفل زكريا أمك ، لها فرخان مستشهدان ، كلامه القرآن ، ودينه الاسلام ، وأنا السلام ، طوبى لمن أدرك زمانه ، وشهد أيامه ، وسمع كلامه . ‹ صفحة 347 › قال عيسى ( عليه السلام ) : يا رب ، وما طوبى ؟ قال : شجرة في الجنة ، أنا غرستها ، تظل الجنان ، أصلها من رضوان ، ماؤها من تسنيم ، برده برد الكافور ، وطعمه طعم الزنجبيل ، من يشرب من تلك العين شربة لا يظلما بعدها أبدا . فقال عيسى ( عليه السلام ) : اللهم اسقني منها . قال : حرام – يا عيسى – على البشر أن يشربوا منها حتى يشرب ذلك النبي ، وحرام على الأمم أن يشربوا منها حتى تشرب أمة ذلك النبي ، أرفعك إلي ثم أهبطك في آخر الزمان لترى من أمة ذلك النبي العجائب ، ولتعينهم على العين الدجال ، أهبطك في وقت الصلاة لتصلي معهم إنهم أمة مرحومة

عبد الله بن سليمان جو کتب سماوی کو پڑھنے والے تھے کہتے ہیں میں نے انجیل میں پڑھا … عیسیٰ نے الله سے کہا اے رب یہ طوبی کیا ہے ؟ کہا جنت کا درخت ہے  اس کا پانی تسنیم ہے اس کی ٹھنڈک کافور جیسی ہے اور کھانا زنجبیل جیسا ہے اور جو اس چشمہ سے پی لے اس کو پیاس نہ لگے گی کبھی بھی عیسیٰ نے کہا اے الله مجھے پلا دے فرمایا حرام ہے اے عیسیٰ کہ کوئی اس میں سے بشر پئے جب تک اس کو النبی (محمد) نہ پئے اور اس کی امت پر حرام ہے حتی کہ انکا النبی نہ پئے- میں تجھ کو اٹھا لوں گا پھر واپس آخری زمانے میں تیرا هبوط ہو گا کہ تم اس النبی العجائب کی امت دیکھو گے اور اس امت کی لعین دجال کے مقابلے میں مدد کرو گے اور تمہارا هبوط نماز کے وقت ہو گا کہ تم اس رحمت والی امت کے ساتھ نماز پڑھو

انجیل میں  طوبی کا کہیں نہیں لکھا عبد بن سلیمان کو یہ انجیل کہاں سے ملی پتا نہیں

الخصال – از الصدوق – ص 431 – 432 کی روایت ہے

عن أبي الطفيل ( 2 ) ، عن حذيفة بن أسيد قال : اطلع علينا رسول الله صلى الله عليه وآله من غرفة له ونحن نتذاكر الساعة ، قال رسول الله صلى الله عليه وآله : لا تقوم الساعة حتى تكون عشر آيات : الدجال ، والدخان ، وطلوع الشمس من مغربها ، ودابة الأرض ، و يأجوع ومأجوج ، وثلاث خسوف : خسف بالمشرق وخسف بالمغرب وخسف بجزيرة ‹ صفحة 432 › العرب ، ونار تخرج من قعر عدن تسوق الناس إلى المحشر ، تنزل معهم إذا نزلوا وتقيل معهم إذا قالوا . عشر خصال جمعها الله عز وجل لنبيه وأهل بيته صلوات الله عليهم

حذيفة بن أسيد کہتے ہیں ان کو رسول الله صلى الله عليه وآله نے خبر دی اپنے  غرفة میں  اور ہم وہاں قیامت کا ذکر کر رہے تھے  رسول الله صلى الله عليه وآله  نے فرمایا قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ دس نشانیاں ہوں دجال دھواں سورج کا مغرب سے طلوع ہونا  دابه الارض یاجوج اور ماجوج  تین خسوف مغرب مشرق اور عرب میں اور اگ جو عدن کی تہہ سے نکلے گی اور لوگوں کو محشر کی طرف جمع کرے گی

ثواب الأعمال – از الصدوق – ص 54  کی روایت ہے

 ومن صام من رجب أربعة أيام عوفي من البلايا كلها من الجنون والجذام والبرص وفتنة الدجال واجبر من عذاب القبر

 جس نے رجب کے چار دن کے  روزے رکھے  وہ اس کو بچائیں گے جنون سے جذام سے برص سے اور دجال کے فتنہ سے اور عذاب قبر سے بھی

الأمالي – از الصدوق – ص 681

 حدثنا محمد بن علي ماجيلويه ( رحمه الله ) ، قال : حدثني عمي محمد ابن أبي القاسم ، قال : حدثني محمد بن علي الكوفي ، عن المفضل بن صالح الأسدي ، عن محمد بن مروان ، عن أبي عبد الله الصادق ، عن أبيه ، عن آبائه ( عليهم السلام ) ، قال : قال رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) : من أبغضنا أهل البيت بعثه الله يوم القيامة يهوديا . قيل : يا رسول الله ، وإن شهد الشهادتين ؟ قال : نعم ، فإنما احتجز بهاتين الكلمتين عن سفك دمه ، أو يؤدي الجزية عن يد وهو صاغر . ثم قال : من أبغضنا أهل البيت بعثه الله يهوديا . قيل : فكيف ، يا رسول الله ؟ قال : إن أدرك الدجال آمن به

أبي عبد الله الصادق اپنے باپ اور ان کے اجداد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) نے فرمایا جس نے ہم اہل بیت سے بغض کیا اللہ اس کو قیامت کے دن یہودی بنا کر اٹھائے گا کہا گیا اے رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) اور اگر وہ دو شہادتیں دے دے  فرمایا ہاں ….   رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) نے پھر فرمایا جس نے ہم اہل بیت سے بغض کیا اللہ اس کو قیامت کے دن یہودی بنا کر اٹھائے گا کہا گیا کیسے اے رسول الله ؟ فرمایا جب وہ دجال کو پائے گا تو اس پر ایمان لائے گا

یہ روایت دلیل ہوئی کہ دجال یہودی ہو گا اس کو ذہن میں رکھیں ابھی نیچے اس پر بحث آ رہی ہے

وسائل الشيعة (آل البيت) – الحر العاملي – ج 14 – ص 348

 وبإسناده عن الحسين بن سعيد ، عن صفوان وابن فضال ، عن ابن بكير ، عن أبي عبد الله عليه السلام قال : ذكر الدجال فقال : لا يبقى ( 1 ) منهل إلا وطأه إلا مكة والمدينة ، فإن على كل ثقب من أثقابها ( 2 ) ملكا يحفظها من الطاعون والدجال

أبي عبد الله عليه السلام نے فرمایا اور انہوں نے دجال کا ذکر کیا پس فرمایا اس سے کوئی (شہر) نہ بچے گا کہ جو  اس کا مطیع نہ ہو سوائے مکہ مدینہ کے کہ  اس کے ہر گھڑے اور خندق میں فرشتہ ہو گا اور وہاں دجال اور طاعون نہ آ سکے گا

وسائل الشيعة (آل البيت) – الحر العاملي – ج 16 – ص 179

وفي ( صفات الشيعة ) عن محمد بن موسى بن المتوكل ، ( عن محمد بن يحيى ، عن أحمد بن محمد ، ) ( 1 ) عن الحسن بن علي الخزاز قال : سمعت الرضا ( عليه السلام ) يقول : إن ممن ينتحل مودتنا أهل البيت من هو أشد فتنة على شيعتنا من الدجال ، فقلت : بماذا ؟ قال : بموالاة أعدائنا ، ومعاداة أوليائنا إنه إذا كان كذلك اختلط الحق بالباطل ، واشتبه الامر فلم يعرف مؤمن من منافق

الحسن بن علي الخزاز کہتے ہیں انہوں نے امام الرضا علیہ السلام کو سنا انہوں نے کہا جس کے اندر ہماری محبت ہو وہ اس دجال کے فتنہ میں اس پر بہت سخت ہو گا میں نے پوچھا ایسا کیوں؟ فرمایا ہمارے دشمنوں سے دوستی کی وجہ سے اور ہمارے دوستوں سے عداوت رکھنے کی وجہ سے سو جب ایسا ہو تو حق و باطل مل جائے گا اور امر مشتبہ ہو جائے گا لہذا مومن اور منافق پہچان نہ سکیں گے

یہ روایات اہل تشیع  کی کتب کی ہیں – ان میں اہم بات ہے کہ امام مہدی کا ذکر ہی نہیں حالانکہ امام مہدی اور  عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر شیعہ اور سنی ایک ساتھ بیان کرتے ہیں- اہل تشیع نے اس کا حل نکالا کہ صرف امام مہدی کا ذکر کرو- دجال کی روایات وہ مجلس میں بیان نہیں کرتے اور اس میں ایک عام شیعہ کا تصور ہے کہ قرب قیامت میں صرف امام مہدی آئیں گے اور سنی ختم ہو جائیں گے صرف شیعہ رہ جائیں گے لیکن یہاں روایات میں ہے کہ اہل بیت کے دشمن دجال کی تمیز کھو دیں گے اور ایسا کیسے ممکن ہے کہ امام مہدی کے بعد انے والے دجال کے وقت تک اہل بیت کے دشمن ہوں- یہ تضاد ہے جو امام مہدی اور خروج دجال کے حوالے سے ان کی کتب میں پایا جاتا ہے

عصر حاضر کے شیعہ محققین اور شارحین نے ایک نئی شخصیت سفیانی کو دجال سے ملا دیا ہے – سفیانی ایک شخص بتایا جاتا ہے جو ابو سفیان رضی الله عنہ کی نسل سے ہے اس کا نام عثمان بن عنبسہ  لیا جاتا ہے اور اس  کے لئے کہا جا رہا ہے کہ وہ روم سے آئے گا اس کا چہرہ سرخ اور انکھیں نیلی ہوں گی اور گلے میں صلیب ہو گی (صدوق، کمال الدین و تمام النعمة، ص651۔  نعمانی، الغیبة، ترجمه: جواد غفاری، ص435۔  طوسی، الغیبة، بصیرتی، قم، ص278۔   مجلسی، بحارالانوار، ج52، ص205) –

سفیانی کے لئے شیعہ کتب میں  کچھ روایات میں ہے

وخروج السفياني براية خضراء وصليب من ذهب» (مختصر بصائر الدرجات للحسن بن سليمان الحلي: ص199

سفیانی کا خروج سبز جھنڈے اور سونے کی صلیب کے ساتھ ہے

وعن بشير بن غالب قال: يقبل السفياني من بلاد الروم منتصرا في عنقه صليب وهو صاحب القوم) (كتاب الغيبة للشيخ الطوسي: ص463

سفیانی بلاد روم سے مدد لے گا گلے میں صلیب ہو گی اور اس قوم میں سے ہو گا

السفياني… لم يعبد الله قط ولم ير مكة ولا المدينة قط» (بحار الأنوار للعلامة المجلسي: ج52، ص254

سفیانی الله کی عبادت نہ کبھی کرے گا نہ مکہ دیکھے گا نہ مدینہ

یعنی سفیانی ایک نصرانی ہو گا  اللہ کی عبادت نہ کرتا ہو گا اور روم کی مدد لے گا اور انہی میں سے ہو  گا

یہ روایات الکافی کی نہیں ہیں – الکافی میں دجال سے متعلق  اس قسم کی کوئی روایت نہیں

اس کے برعکس اہل سنت کے مطابق دجال ایک گھنگھریالے بال والا ہو گا اس کی شکل عربوں میں حجازیوں جیسی ہو گی اور ایک انکھ پھولنے والے انگور جیسی ابلی پڑ رہی ہو گی- گویا دجال اہل سنت بد صورت ہو گا اور دجال اہل تشیع کے ہاں نیلی آنکھوں والا رومیوں جیسا ( اغلبا حسین) ہو گا

اب ابو سفیان رضی الله عنہ کی نسل کے لوگ کب روم منتقل ہوئے الله کو پتا ہے اور وہاں سے ایک خالص عربی نام  عثمان بن عنبسہ  کے ساتھ اس کا خروج بھی عجیب بات ہے – دوم سفیانی کے گلے میں صلیب بھی ہے یعنی اگر سفیانی دجال ہے تو اہل تشیع کا دجال اب عیسائیوں میں سے ہے اور اہل سنت اس کو یہودی بتاتے ہیں یہ بھی اختلاف اہم ہے

سفیانی کی حقیقت – کتب شیعہ میں

تاریخ کے مطابق  السفیانی   سے مراد  يزيد بن عبد الله بن يزيد بن معاوية بن أبي سفيان  جو   معاویہ رضی الله عنہ کے پڑ پوتے ہیں  انہوں نے دمشق  میں بنو امیہ کے آخری دور میں  خروج کیا-

الكافي – از الكليني – ج ٨ – ص ٢٦٤ – ٢٦٥

 عدة من أصحابنا ، عن أحمد بن محمد ، عن عثمان بن عيسى ، عن بكر بن محمد ، عن سدير قال : قال أبو عبد الله ( عليه السلام ) : يا سدير ألزم بيتك وكن حلسا من  أحلاسه  واسكن ما سكن الليل والنهار فإذا بلغك أن السفياني قد خرج فارحل إلينا ولو على رجلك

أبي عبد الله ( عليه السلام )  نے کہا اے سدير اپنے گھر میں رہو .. پس جب السفیانی کی خبر آئے تو ہمارے طرف سفر کرو چاہے چل کر آنا پڑے

تبصرہ السفیانی سے مراد ایک اموی ہیں جو ابو سفیان رضی الله تعالی عنہ کے پڑ پڑ پوتے ہیں. تاریخ الیعقوبی از الیعقوبی المتوفی ٢٨٤ ھ کے مطابق

وخرج أبو محمد السفياني، وهو يزيد بن عبد الله بن يزيد بن معاوية بن أبي سفيان، بما لديه……… ، وكان ذلك سنة ١٣٣ ھ

اور ابو محمد السفیانی کا خروج ہوا اور وہ ہیں اور یہ سن ١٣٣ ھ میں ہوا-   امام جعفر المتوفی ١٤٨ ھ کے دور میں السفیانی کا خروج ہو چکا تھا

السفیانی کا خروج ہو گیا

الكافي – از الكليني – ج ٨ – ص ٢٠٩

 علي بن إبراهيم ، عن أبيه ، عن ابن محبوب عن إسحاق بن عمار ، عن أبي عبد الله ( عليه السلام ) قال : لا ترون ما تحبون حتى يختلف بنو فلان  فيما بينهم فإذا اختلفوا طمع الناس وتفرقت الكلمة وخرج السفياني

أبي عبد الله ( عليه السلام )  نے کہا کیا تم دیکھتے نہیں جو تم کو پسند ہے کہ بنو فلاں میں جو ان کے پاس ہے اس پر اختلاف ہوا ، پس جب اختلاف ہوا لوگوں کا لالچ بڑھا اور وہ بکھر گئے اور السفیانی کا خروج ہوا

تبصرہ    بنو فلاں سے مراد بنو امیہ ہیں جن میں آپس میں خلافت پر  پھوٹ پڑھ گئی تھی. امام جعفر کے مطابق السفیانی کا خروج ہو گیا ہے یہ دور ١٢٦ سے ١٣٣ ھ کا  ہے

السفیانی  کو قتل کر دیا جائے گا

الكافي – از الكليني – ج ٨ – ص ٣٣١

حميد بن زياد ، عن أبي العباس عبيد الله بن أحمد الدهقان ، عن علي ابن الحسن الطاطري ، عن محمد بن زياد بياع السابري ، عن أبان ، عن صباح بن سيابة عن المعلى بن خنيس قال : ذهبت بكتاب عبد السلام بن نعيم وسدير وكتب غير واحد إلى أبي عبد الله ( عليه السلام ) حين ظهرت المسودة قبل أن يظهر ولد العباس بأنا قد قدرنا أن يؤول هذا الامر إليك فما ترى ؟ قال : فضرب بالكتب الأرض ثم قال : أف أف ما أنا لهؤلاء بإمام أما يعلمون أنه إنما يقتل السفياني

جب (بنو عبّاس سے پہلے) المسودہ  ظاہر ہوئے  (ابو عبدللہ سے بذریعہ خط ان کی رائے پوچھی گئی تو) انہوں نے خط زمین پر پھینک دیا پھر أبي عبد الله ( عليه السلام )  نے کہا اف اف کیا میں ان لوگوں کے نزدیک امام نہیں،   کیا ان کو پتا نہیں کہ  یہی تو السفیانی کو قتل کریں گے

تبصرہ      حاشیہ میں المسودہ سے مراد أصحاب أبي مسلم المروزي لکھا ہے جو درست ہے ابو مسلم خراسانی کالے کپڑے اور کالے پگڑیاں باندھ کر نکلے تھے .امام جعفر کا گمان درست ثابت ہوا السفیانی کو قتل کیا گیا

المھدی کا اعلان

بحارالانوارج۲۵ص۹۱۱ص٨٤   میں روایت ہے  ،    ابوبصیر ابوعبداللہ الصادق علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہیں

 راوی: میں نے عرض کیا میں آپ علیہ السلام پر قربان جاﺅں،قائم علیہ السلام کا خروج کب ہوگا؟

 امام جعفر صادق:اے ابامحمد!ہم اہل بیت علیہ السلام اس وقت کو متعین نہیں کرتے،آپ نے فرمایا کہ وقت مقرر کر دینے والے جھوٹے ہیں، لیکن اے ابومحمد قائم کے خروج سے پہلے پانچ کام ہوں گے

 ماہ رمضان میں آسمان سے نداءآئے گی  سفیانی کاخروج ہوگا  ، خراسانی کا خروج ہوگا،   نفس ذکیہ کاقتل ہوگا  بیداءمیں زمین دھنس جائے گی۔

راوی: میں نے پوچھا کس طرح نداءآئے گی؟

 امام علیہ السلام:حضرت قائم علیہ السلام کا نام اور آپ کے باپ کے نام کےساتھ لیا جائے گا اور اسی طرح اعلان ہوگا   فلاں کا فلاں بیٹا قائم آل محمد علیہم السلام ہیں، ان کی بات کو سنو اور ان کی اطاعت کرو، اللہ کی کوئی بھی ایسی مخلوق نہیں بچے گی کہ جس میں روح ہے مگر یہ کہ وہ اس آواز کو سنے گی سویا ہوا اس آواز سے جاگ جائے گا اور اپنے گھر کے صحن میں دوڑ کر آ جائے گا اور پردہ والی عورت اپنے پردے سے باہر نکل آئے گی، قائم علیہ السلامیہ آواز سن کر خروج فرمائیں گے یہ آوازجبرئیل علیہ السلام کی ہوگی

تبصرہ ابو مسلم خراسانی کا خروج ہو گیا اور محمّد بن عبدللہ المھدی نفس الزکیہ کا بھی خروج ہو چکا. ان روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ رویوں کا گمان تھا کہ   حسین  کی نسل سے  المہدی ظاہر ہونے والا ہے-  لیکن دو نشانیاں  رمضان  میں آسمان سے نداء  اور  بیدا میں زمین کا دھنسنا نہیں ہوا-

 یہ تمام نشانیاں    ایک ساتھ ظاہر ہونی تھیں  لیکن نہیں ہوئیں

سفیانی کو اہل تشیع کا اب دجال کہنا سراسر غلط ہے اور اوپر والی روایت کو جو دجال سے متعلق تھیں ان میں زبر دستی اپنی رائے کو شامل کرنے کے مترادف ہے

عثمان بن عنبسة بن أبي سفيان بن حرب بن أمية

عثمان بن عنبسة بن أبي سفيان بن حرب بن أمية نام کے ابو سفیان رضی الله عنہ کے ایک پوتے تھے جو اپنے زمانے میں ایک معتدل شخصیت تھے اور قبول عامہ ایسی تھی کہ لوگ ثآلث مقرر کرتے تھے

ابن حزم نے کتاب  جمهرة أنساب العرب  میں لکھا ہے

أراد أهل الأردن القيام به باسم الخلافة، إذ قام مروان: أمه زينب بنت الزبير بن العوام

اہل اردن نے ارادہ کیا تھا  کہ مروان کے قیام (خلافت) پر ان کے نام پر خلافت قائم کرنے کا – ان کی والدہ کا نام زينب بنت الزبير بن العوام ہے

کتاب نسب قريش از أبو عبد الله الزبيري (المتوفى: 236هـ) کے مطابق کے والد عنبسة بن عمرو بن عثمان بن عفان ہیں

اغلبا شیعان کو خطرہ تھا کہ کہیں اہل اردن (جن میں ممکن ہے عیسائی ہوں ) کہیں اس شخص کے لئے خلافت  قائم نہ کر دیں – یہ ابو سفیان رضی الله عنہ کی اولاد میں سے بھی ہیں لہذا اس بنیاد پر عثمان بن عنبسة بن أبي سفيان بن حرب بن أمية کے خلاف روایات بنا دی گئیں – عثمان بن عنبسة بن أبي سفيان بن حرب بن أمية تو انتقال کر گئے لیکن روایات شیعوں کے پاس رہ گئیں

عبد الله بن زبیر رضی الله عنہ کی خلافت مکہ سے بصرہ تک تھی اور عبد الملک کی شام میں دونوں میں رابطہ کے فرائض عثمان بن عنبسة  انجام دیتے تھے کیونکہ عثمان بن عنبسة دونوں کے رشتہ دار تھے عبد الله بن زبیر رضی الله عنہ عثمان بن عنبسة کے ماموں تھے

یعنی  اہل تشیع جس السفیانی کا انتظار کر رہے ہیں وہ گزر چکا  ہے چاہے يزيد بن عبد الله بن يزيد بن معاوية بن أبي سفيان ہوں یا عثمان بن عنبسة بن أبي سفيان بن حرب بن أمية ہوں

الله ہم سب کو ہدایت دے