Category Archives: غلو – Exaggerators in Islam

اپنے دین میں غلو مت کرو

[wpdm_package id=’8843′]

فہرست
ايقاظ 5
نور محمدی کا ذکر 27
حدیث نور کا متن 54
نور محمدی کا عالم ارضی میں ظہور ہونا 62
اَللّهُ نُوْرُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ 89
رسول الله کی تخلیق ہزار سال پہلے ہوئی 118
رسول الله کے والدین 121
رسول الله کے چچا 127
صحیحین کی روایات 131
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا زندہ کرنا 149
آپ ﷺ تمام عالمین میں حاضر ہیں 155
الم تری– کیا تم نے دیکھا؟ 162
سرور کائنات کون ؟ 170
رسول اللہ ، کلمہ اللہ ہیں ؟ 172
رسول الله ﷺ کو سید المرسلین کہنا 174
کہو جو الله تعالی چاہے پھر اس کا رسول چاہے 178
وہی ہو گا جو رسول الله ﷺچاہیں ؟ 181
رسول الله ﷺ شارع مجاز تھے ؟ 185
رسول الله مختون پیدا ہوئے 193
جب قبر النبوی ﷺ شق ہو گی تب 197
خزانوں کی کنجیاں دیا جانا 214
تمہارا ذکر بلند کیا 237
مصطفی کا پیچھے دیکھنا 239
سات آسمان والوں سے افضل 244
قبر نبی ﷺ پر جا کر طلب کرنا 248
اولیاء کی قبریں مرکز تجلیات ؟ 254
أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ 257
ابدال 263
مخلوق الله کا کنبہ ہے ؟ 275
میں ایک خزانہ تھا 282
ابو بکر رضی الله عنہ کے حوالے سے غلو 289
عمر رضی الله عنہ کے حوالے سے غلو 294
علی رضی الله عنہ کے حوالے سے غلو 309
خضر ہر دور میں ہیں ؟ 324
کیا علم من الکتاب والا مومن صوفی تھا؟ 335
اویس قرنی سب کے پیارے 339
آصف بن برخیاہ کے راز 360
منصور حلاج کے حوالے سے غلو 372
ضمیمہ جات ١ 378
سب سے پہلے قلم خلق ہوا 378

امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ

[wpdm_package id=’9813′]

فہرست

پیش لفظ 6
علی کی خواہش 8
حدیث منزلتین 9
حدیث غدیر خم 14
حدیث الْمَارِقِينَ 21
حدیث طیر 27
حدیث ثقلین 31
حدیث حواب 49
حدیث خوارج 50
حدیث کساء 51
حدیث مباھلہ 56
بیعت خلافت کے قصے 62
سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ کی روایت 62
واقدی کی روایت 67
حسن بصری کی روایت 69
اشتر کی روایت 69
طارق بن شہاب کی روایت 73
عمرو یا عمر بن جاوان کی روایت 74
وَضَّاحُ بْنُ يَحْيَى النَّهْشَلِيُّ کی روایت 80
سعد بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف کی روایت 81
الْحَارِث بن كعب الوالبي کی روایت 82
أبو المتوكل الناجي البصري کی روایت 83
علی کا لشکر اور قبائلی عصبیت 85
خلافت علی پرتوقف کرنے والے 98
ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کا توقف 98
ابن عمر رضی اللہ عنہ کا توقف 99
اسامہ بن زید کا توقف 100
عقیل بن ابی طالب کی بیزاری 102
بصرہ کا قصد 103
تذکرہ جنگ جمل 106
شہادت طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ 106
شہادت زبیر بن العوام 109
مصنف ابن ابی شیبہ کی ضعیف روایات 112
مصنف ابن ابی شیبہ کی صحیح السند روایات 137
رافضی روایت 141
جنگ کے بعد اصلی نماز 143
جنگ کے نتائج 147
تذکرہ جنگ صفین 151
مصنف ابن ابی شیبہ میں جنگ صفین کا احوال 151
صلح اور خروج خوارج 161
تذکرہ جنگ نہروان 167
زید بن وھب الجھنی کی روایت 167
عبيدة السلماني المرادي الهمداني کی روایت 177
عُبَيْدِ اللهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، مَوْلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کی روایت 178
أَبُو الْوَضِيئِ کی روایت 180
أَبِي مَرْيَمَ کی روایت 181
أَبِي بَرَكَةَ الصَّائِدِيِّ کی روایت 183
الرَّيَّانُ بْنُ صَبِرة کی روایت 183
بکر بن قرواش کی روایت 184
الضَّحَّاكُ بْنُ مُزَاحِمٍ کی روایت 185
رَبِيعَةَ بْنِ نَاجِدٍ کی روایت 187
عبد الله بن شداد کی روایت 188
قول نبوی کے مطابق یہ آخری دور میں ہو گا 199
قول نبوی : ان کو پاتا تو قتل کرتا 203
سمت و جہت کی اہمیت 204
یہ عربی النسل ہوں گے 207
نتائج 219
روایات ابو سعید الخدری رضی الله عنہ 221
خوارج جہنم کے کتے ہیں؟ 224
علی رضی الله عنہ کی عراق میں تقریریں 235
شام اور قصاص عثمان 254
محمد بن ابی بکر کا انجام 254
عبد الرحمن بن عُدَيْسٍ کا انجام 260
حسن کی شادیاں 263
مصادر اہل تشیع میں حسن کی شادیوں کا ذکر 265
فتنہ ابن سبا 270
علی الیاس ہیں اورآنے والا دابة الارض ہیں 278
علی ہارون ہیں 282
حسن و حسین کو بنی ہارون کے نام دینا 284
شبر و شبیر کا بھیانک انجام 291
عقیدہ رجعت کی تبلیغ 294
علي ذوالقرنین ہیں؟ 304
علی دربار سلیمان میں بھی موجود تھے ؟ 311
شہادت علی 321
علی کا معاویہ کے لئے حکم 335
حسن کی خلافت پر تعیناتی 336

================

بسم اللہ الرحمان الرحیم

پیش لفظ

امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ قریش میں بنو ہاشم میں سے تھے اور خلافت کی تمنا دل میں رکھتے تھے – ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہ کے بعد عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ نے عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کیا – علی رضی اللہ خلیفہ نہ ہو پائے – دور نبوی سے لے کر خلافت عثمانی تک علی کو کسی بھی مقام پر گورنر مقرر نہیں کیا گیا –
غیر قریشی اصحاب رسول جو عثمان کو ناپسند کرتے تھے ، علی کے گرد جمع ہوئے اور ان لوگوں نے علی کے لئے ان کی خلافت کو ہموار کیا – علی خلیفہ ہوئے اور مدینہ پر کسی بھی شمالی جانب سے حاجیوں کے بھیس میں حملہ کے خطرہ کی وجہ سے انہوں نے دار الخلافہ مدینہ سے عراق منتقل کر دیا – وہاں وہ مصریوں ، کوفیوں ، یمنیوں میں گھر گئے – چند اہل بیت مثلا ابن عباس ، قثم بن عباس وغیرہ ان کے ساتھ ہوئے – چند دن بعد کوفہ میں ان کے خالص ہمدردوں کا ایک گروہ اس بات پر ان کی خلافت سے خروج کرگیا کہ انہوں نے معاویہ سے صلح کیوں کر لی ؟

خوارج نے کوفہ کے مضافات میں لوٹ مار شروع کر دی اور اپنا ایک لیڈر نامزد کر دیا – علی نے ان سے قتال کیا اور یہ بھاگ کھڑے ہوئے، معدوم نہ ہوئے – اسی دوران لشکر معاویہ نے مصر پر حملہ کیا اور قاتلین عثمان میں سے محمد بن ابی بکر، عبد الرحمان وغیرہ کا قتل کر دیا اور مصر پر قبضہ کر لیا – خوارج نے گوریلا وار شروع کی اور ایک حملہ میں علی پر وار کیا جو ان کی شہادت کی وجہ بنا –
علی کی شخصیت پر لوگ بٹ گئے – ایک فرقہ اہل سنت کا بنا ، ایک شیعہ کہلایا ، ایک خارجی کہلایا ، ایک باطنی کہلایا ، ایک سبائی کہلایا ، اس طرح بہت سے غالی فرقے نکلے یہاں تک کہ علی ، بشر سے رب بن بنا دیے گئے – اس کتاب میں علی کی سیاسی زندگی پر بحث کی گئی ہے – ان سے متعلق غالی روایات پر بحث راقم کی کتاب الغلو فی علی میں ہے

ابو شہر یار
٢٠٢٠

علی پر غلو

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

پیش لفظ 4
علی کعبه اور زحل 6
روح علی کی کعبہ میں آمد 13
علی غیب جانتے ہیں 27
علی ، شہر علم کا دروازہ ہیں 40
علی سب سے پہلے ایمان لائے 43
علی نے سب سے پہلے نماز پڑھی 44
علی ،ذو القرنین ہیں 51
تو ، تو ہی ہے 53
علی اب بادلوں میں ہیں 62
جنگ خیبر کے حوالے سے 77
علی، عیسیٰ کی مانند ہیں 81
علی سے اختلاف کرنا علامت نفاق ہے؟ 87
علی، الیاس کی مانند ہیں 92
علی، ہارون کی مانند ہیں 96
علی ، آصف کی مانند ہیں 98
حدیث منزلتین 108
علی پر دوسرے نکاح کی پابندی 114
من كنت مولاه فعلي مولاه 122
علی قتال کریں گے کی خبر دی گئی تھی 128
علی سید العرب تھے 132
أشهد أن عليا ولي الله 134
علی معراج کا راز تھے 144
علی تمام صحابہ سے افضل ہیں 151
علی بطور قاضی 162
علی کا خفیہ علم 165
علی تاویل قرآن پر جنگ کریں گے ؟ 177
علی ، وصی ہیں 183
علی خوارج کو بد دعائیں دیتے تھے ؟ 184
علی کو اپنی شہادت کی خبر تھی 190
کتاب نہج البلا غہ اہل سنت کی نظر میں 196
فَلْيَشْهَدِ الثقلانِ أني رافضي 200
نسائی اور خصائص علی 207

————————————————————-
بسم اللہ الرحمان الرحیم

علی  رضی اللہ عنہ   ،  صحابی  رسول   ہیں –   رشتہ  میں   علی  ،   رسول اللہ    صلی اللہ علیہ وسلم کے   چچا زاد  بھائی   تھے  اور   ان کے  داماد بھی   تھے –   علی   اس طرح اہل بیت النبی کی ایک نمایاں  شخصیت  تھے  اور   مسلمانوں  کے چوتھے  خلیفہ ہیں –      علی   کے دور   میں البتہ  ان کے   گرد  بہت سے لوگ جمع ہوئے     ان میں سے بعض   ان کو الوہی  صفات  سے متصف  سمجھنے  لگے تھے – بعض   ان کی شہادت  کے انکاری تھے  کہ علی   وفات ہی نہیں پا سکتے بلکہ بادلوں میں بسیرا   کرتے ہیں –  بعض   اس کے قائل    تھے  کہ  علی  کا مرتبہ    انبیاء   جیسا    بلند ہے –  ان میں سے بعض  نظریات ابھی تک    شیعہ و روافض   میں موجود  ہیں –

دور  صحابہ    میں    علی    کے لشکریوں  کو شیعان   علی  کہا  جاتا تھا    جو مختلف الخیال   لوگوں  کا ایک  مجموعہ  تھا –   وقت کے ساتھ لفظ شیعہ   صرف   اہل بیت  کے سیاسی ہمدردوں   کے لئے خاص ہو گیا   – باقی   مسلمانوں نے   اہل سنت   کا لقب پسند کیا –    تاریخ ابن خلدون  کے مطابق    سن  ١٢٨ ھ   سے پہلے  کسی موقعہ  پر   علی  کے  پڑ  پوتے  امام    زید بن علی  بن  حسین بن علی    کا    بعض    شیعوں  (جو امام جعفر کے ساتھ تھے )  سے جھگڑا ہوا  اور انہوں نے پہلی بار ان لوگوں کو   رفضونی   کہہ کر پکارا   یعنی مجھ کو چھوڑنے  والے –   اس طرح شیعوں    کے   لیے  ایک نئی اصطلاح     رافضی  بھی اہل سنت  میں مشہور ہو   گئی  – سن ١٠٠ ہجری  کے آس پاس  محدثین نے  یغلو  فی التشیع    کے الفاظ   جرح  میں استعمال   کرنا شروع کیے   کہ یہ  شخص    تشیع     میں غلو  کرتا ہے – عربی  میں غالی  کا مطلب  شدید عشق ہونا  بھی ہے  اور یہ لفظ   آج بھی  عربی  گانوں میں استعمال ہوتا ہے –   محدثین نے   ان شیعوں  پر    غالی    کا اطلا ق  کیا     جو  علی    کو شیخین   ابو بکر و عمر  سے افضل بنا رہے ہوں –         محدثین  میں  بعض   شیعہ  غالی  بھی   موجود تھے  مثلا      علی  بن جعد ،  عدی بن ثابت  وغیرہ   -یہ   شیعہ    محدثین     اہل سنت  میں بھی مقبول  تھے  یہاں تک کہ  بعض شیعہ مساجد کے ذاکر  تھے  –  اسی طرح بعض  غالی نہیں تھے  لیکن   شیعہ   تھے – ان کی  شیعی  روایات  محدثین  چھان   پھٹک   کر  لیتے تھے مثلا اعمش  وغیرہ – بعض   اختلاط   کا شکار  ہو کر شیعی   روایات بیان کر رہے تھے مثلا امام   عبد الرزاق –      امام   بخاری   و مسلم  نے بھی   ان  لوگوں سے  حدیث روایت کی ہے – روافض  راوی     بہت تھے  اور ان میں وضاع  (حدیث گھڑنے  والے )  بھی  تھے-  اس طرح   علی  کے حوالے سے   شام  و عراق   میں غلو  بہت   بڑھا  ہوا  تھا  –

علی   کو  برا کہنے والے   اہل سنت  کو سن ٢٠٠  ھ   کے آس پاس  ناصبی  کہا  جاتا تھا  –     کچھ  محدثین نصب  کا شکار  تھے  لیکن ان کی خوبی یہ تھی کہ روایات نہیں گھڑتے  تھے –  نصب   ان  راویوں  میں   در  کر آیا   تھا  جن  کے رشتہ دار    جنگ جمل  و صفین   میں قتل ہوئے تھے  لیکن ان   راویوں   کی تعداد    البتہ  آٹے  میں نمک برابر  ہے –     کتب اہل سنت   میں  ایسی کوئی  روایت نہیں  جس    کو نصب  یا تنقیص  علی   پر محمول  کیا جا سکے  البتہ   بعض ایسی ضرور ہیں  جو  علی کے حوالے سے غلو پر منبی ہیں –  اس  سے اندازہ ہوتا ہے  کہ   کس قسم کے راویوں کی تعداد زیادہ تھی –

اس کتاب میں  علی  رضی اللہ عنہ سے متعلق  ان روایات  کا ذکر ہے جو    آجکل      یو ٹیوب پر   اکثر  سننے کو مل رہی ہیں    اور ان  پر   تحقیق  پیش کی گئی ہے-    کتاب پڑھ  کر آپ کو  اندازہ ہو جائے گا کہ   علی   کی شخصیت  پر   اس قدر جھوٹ بولا گیا ہے-

ابو شہریار

٢٠٢٠

نبی کا پیٹھ پیچھے دیکھنا

مستخرج ابو عوانہ میں ہے

فوالله إنّي أراكم من خلفي” أو قال: “من خلف ظهري إذا ركعتم  وسجدتم

اللہ کی قسم میں   اپنی پیٹھ پیچھے سے تم کو دیکھ لیتا ہوں  جب تم رکوع یا سجدے  کرتے ہو

اس    روایت   میں   ہے کہ   نبی صلی اللہ علیہ  وسلم   نے فرمایا     نماز  میں جب  میں امام   ہوتا ہوں تو  میں تم کو     اپنے پیچھے سے بھی دیکھ لیتا ہوں –   بعض    فقہاء کا قول  تھا کہ یہ ایک  اسی طرح ہے کہ امام  جب   رکوع  میں جاتا ہے   تو اس کی نظر   پیچھے صف پر بھی جاتی ہے  اور اس کو معلوم ہو جاتا ہے کون  صف میں صحیح طرح کھڑا ہے اور کون نہیں کھڑا    البتہ ان فقہاء  کا نام   بعد والوں نے  چھپا دیا ہے –   قرن ثالث  تک    بعض   فقہاء     مثلا  امام احمد  نے استنباط   کیا ہے کہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے بھی دیکھ سکتے تھے  –    شرح  ابن بطال   میں ہے

وقال أحمد بن حنبل فى هذا الحديث: إنه كان يرى من وراءه كما يرى بعينه

احمد نے کہا  حدیث میں ہے وہ  اسی طرح پیچھے بھی دیکھتے تھے جس طرح آگے  آنکھ  سے

فتح الباری  از ابن رجب  میں ہے

وأما قَوْلِ النَّبِيّ – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: ((إني أراكم من وراء ظهري)) ، فليس المراد مِنْهُ: أَنَّهُ كَانَ يلتفت ببصره فِي صلاته إلى من خلفه حَتَّى يرى صلاتهم، كما ظنه بعضهم، وقد رد الإمام أحمد عَلَى من زعم ذَلِكَ، وأثبت ذَلِكَ من خصائص النَّبِيّ – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

جہاں تک نبی کا قول ہے کہ میں پیٹھ   پیچھے بھی دیکھ لیتا ہوں تو اس سے مراد یہ نہیں کہ ان کی نظر   نماز میں پیچھے  جاتی تھی یہاں تک کہ وہ  مقتدی کی نماز دیکھ لیتے تھے جیسا بعض  کا گمان ہے بلکہ بے شک امام احمد  کا دعوی ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ہے

التمہید از ابن عبد البر میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عِيسَى الْوَرَّاقُ أَخْبَرَنَا الْخَضِرُ بْنُ دَاوُدَ قَالَ أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ الْأَثْرَمُ قَالَ قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ يَعْنِي أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ رَحِمَهُ اللَّهُ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي أَرَاكُمْ مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِي فَقَالَ كَانَ يَرَى مِنْ خَلْفِهِ كَمَا يَرَى مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ قُلْتُ لَهُ إِنَّ إِنْسَانًا قَالَ لِي هُوَ فِي ذَلِكَ مِثْلُ غَيْرِهِ وَإِنَّمَا كَانَ يَرَاهُمْ كَمَا يَنْظُرُ الْإِمَامُ مِنْ عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ فَأَنْكَرَ ذَلِكَ إِنْكَارًا شَدِيدًا

امام احمد کے شاگرد  اثرم   نے اسی مسئلہ  پر سوال کیا   کہ ایک انسان   کا قول ہے   کہ یہ محض   دیکھنا ہے تو احمد نے شدت سے انکار کیا

یعنی امام احمد کے نزدیک یہ معجزہ النبی ہے کہ وہ پیٹھ پیچھے بھی دیکھ لیتے تھے

 تفسير الموطأ از عبد الرحمن بن مروان بن عبد الرحمن الأنصاري، أبو المطرف القَنَازِعي (المتوفى: 413 هـ) میں ہے

 أبومُحَمدٍ: كَانَ بالمَدِينَةِ مُنَافِقُونَ يَسْتَخْفُونَ بالصَّلاَةِ خَلْفَ رَسُولِ اللهِ – صلى الله عليه وسلم – فَوَبَّخَهُم بِفِعلهِم، وقالَ: “إني أَرَاكمْ مِنْ وَرَاءِ ظَهْري” ، وهذا مِنْ عَلاَمَة نُبُوَّتِه.

ابو محمد نے کہا  مدینہ میں نماز میں پیچھے منافق ہوتے تھے  تو ان منافقوں کو ان کے افعال پر توبیخ کی گئی کہ فرمایا میں پیٹھ پیچھے دیکھ لیتا ہوں یہ رسول اللہ  کی نبوت کی علامات میں سے ہے

راقم  کے نزدیک یہ معجزہ   نہیں تھا بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے منصب میں امت کی تربیت   کرنا شامل تھا  اور وہ ایک استاد کی طرح امت کی نماز کی تصحیح  کرتے تھے   لہذا وہ نماز میں دیکھ سکتے تھے اگرچہ   یہ امتی  کو  نماز   میں     دیکھنا  منع  ہے  –   احادیث میں واقعات موجود ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف میں زائد عمل  کیا گیا اور آپ کو معلوم نہیں ہوا کس نے کیا مثلا       ابو بکرہ   رضی  اللہ عنہ   آئے  اور نبی   صلی   اللہ علیہ   وسلم نماز پڑھا رہے تھے  – ابو بکرہ نے الگ رکوع کیا اور نماز میں شامل ہوئے – نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا

   أيكم الذي ركع دون الصف

تم  میں سے کس نے  صف  سے  الگ   ہو کر  رکوع کیا؟

اگر  پیچھے دیکھ سکنا  معجزہ تھا تو یہ ممکن نہیں کہ نبی نہ دیکھ پاتے کیونکہ معجزہ بے عیب ہوتا ہے

اسی طرح نبی نماز پڑھا رہے تھے پیچھے صف میں ایک صحابی نے پڑھا

 رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ

نماز ختم ہونے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کس نے ان الفاظ کو ادا کیا ؟    میں نے تیس فرشتوں کو دیکھا وہ ان کو لکھنے کی جلدی کر رہے تھے

صحیح بخاری ح ٧٩٩ میں یہ واقعہ مذکور ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ المُجْمِرِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَحْيَى بْنِ خَلَّادٍ الزُّرَقِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ الزُّرَقِيِّ، قَالَ: ” كُنَّا يَوْمًا نُصَلِّي وَرَاءَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرَّكْعَةِ قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ “، قَالَ رَجُلٌ وَرَاءَهُ: رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ: «مَنِ المُتَكَلِّمُ» قَالَ: أَنَا، قَالَ: «رَأَيْتُ بِضْعَةً وَثَلاَثِينَ مَلَكًا يَبْتَدِرُونَهَا أَيُّهُمْ يَكْتُبُهَا أَوَّلُ

لہذا    حدیث کے الفاظ   میں پیٹھ   پیچھے  دیکھ لیتا ہوں  سادہ الفاظ  ہیں  معجزہ  کی خبر نہیں ہیں  –    صحیح ابن حبان میں ہے

أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْهَمْدَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ قَتَادَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ زُرَارَةَ بْنَ أَوْفَى يُحَدِّثُ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، صَلَّى الظُّهْرَ، فَجَعَلَ رَجُلٌ يَقْرَأُ خَلْفَهُ بِـ: {سَبِّحِ اسْمَرَبِّكَ الْأَعْلَى} ، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ: “أَيُّكُمُ الَّذِي قرأ، أو أيكم القارىء”؟ فَقَالَ رَجُلٌ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: “قد عرفت أن بعضكم خالجنيها

 عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ  رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ظہر کی نماز پڑھ رہے تھے  تو ایک آدمی نے  سورہ اعلی پڑھی  پس جب نماز ختم ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کون قرات کر رہا تھا ؟ وہ شخص بولا  میں اے  رسول اللہ –

ان روایات  سے واضح ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں پیٹھ پیچھے اس طرح    نہیں   دیکھتے تھے کہ تمام مقتدی نظر آ جائیں – اگر یہ معجزہ  ہوتا تو وہ شخص نگاہ رسول سے بچ نہ سکتا تھا- معلوم ہوا کہ نبی کے قول کا مطلب ہے کہ وہ ان مقتدیوں کو دیکھ لیتے ہیں جو   ان کے قریب آگے والی صف میں  ہوتے ہیں – اس سے مراد معجزہ  کی خبر دینا   نہیں ہے

و اللہ اعلم

نور محمدی کا ذکر ٣

متروک و منکر روایات  کو  محراب و  منبر پر بیان کرنے والے  طارق  جمیل  صاحب کی جانب سے ایک روایت پیش کی جا رہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تخلیق ، تخلیق مخلوق سے ہزار سال پہلے ہوئی اور ان کا ایک نام یاسین ہے

٩ منٹ پر

اس قول  کا تعاقب کیا گیا اور یہ معلوم ہوا ہے

کتاب الروض الباسم  از ابو سلیمان جاسم  کے مطابق

– أخبرنا خيثمة بن سليمان: نا جعفر بن محمد بن زياد الزّعفراني الرازي ببغداد: نا إبراهيم بن المنذر الحِزامي (ح). وأخبرنا أبو عبد الله محمد بن إبراهيم بن عبد الرحمن (1) القرشي قراءةً عليه: أنا أبو عبد الملك أحمد بن إبراهيم القرشي قراءةً عليه، قالا (2): نا إبراهيم بن المنذر، -وهو الحِزامي-: نا إبراهيم بن مهاجر بن مِسمار عن عمر بن حفص بن ذكوان عن مولى الحُرَقَة.عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: “إنّ اللهَ -عَزَّ وجَلَّ- قرأ (طه) و (ياسين) قبلَ أن يخلقَ آدمَ بألف عامٍ، فلمّا سَمِعَ الملائكةُ القرآنَ قالوا: طُوبى لأمّةٍ يُنزَّل هذا عليها، وطوبى لأجوافٍ تحمل هذا، وطوبى لألسنٍ تكلَّمُ بهذا”.

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک اللہ تعالی نے  تخلیق آدم سے ہزار سال قبل  (طه) و (ياسين) کی قرات کی جب فرشتوں نے قرآن سنا تو کہا خوشخبری ہو اس امت پر جس پر یہ نازل ہو اور خوشخبری ہو ان جسموں پر جو اس کو اٹھائیں (یعنی حفظ کریں ) اور ان زبانوں پر جو اس کے الفاظ  کو ادا کریں

سند میں ابراہیم بن مہاجر بن مسمار ضعیف ہے

کتاب  الإيماء إلى زوائد الأمالي والأجزاء – زوائد الأمالي والفوائد والمعاجم والمشيخات على الكتب الستة والموطأ ومسند الإمام أحمد

المؤلف: نبيل سعد الدين سَليم جَرَّار کے مطابق

قال الشيخ الإمام أبوبكر الخطيب هذا حديث غريب من حديث عبدالرحمن بن يعقوب مولى الحرقة عن أبي هريرة، تفرد بروايته إبراهيم بن مهاجر بن مسمار المديني، عن حفص بن عمر بن ذكوان.

وقال المنذري: إبراهيم بن مهاجر ضعيف

خطیب بغداد ی نے کہا یہ حدیث غریب ہے  …  منذری نے کہا اس میں ابراہیم بن مھاجر ضعیف ہے

سنن الدارمی میں ہے

– حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُهَاجِرِ بْنِ [ص:2148] الْمِسْمَارِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ حَفْصِ بْنِ ذَكْوَانَ، عَنْ مَوْلَى الْحُرَقَةِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَرَأَ طه وْ يس قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِأَلْفِ عَامٍ، فَلَمَّا سَمِعَتِ الْمَلَائِكَةُ الْقُرْآنَ، قَالَتْ: طُوبَى لِأُمَّةٍ يَنْزِلُ هَذَا عَلَيْهَا، وَطُوبَى لِأَجْوَافٍ تَحْمِلُ هَذَا، وَطُوبَى لِأَلْسِنَةٍ تَتَكَلَّمُ بِهَذَا “

[تعليق المحقق  حسين سليم أسد الداراني ] إسناده ضعيف جدا عمر بن حفص بن ذكوان قال أحمد: تركنا حديثه وحرقناه

سند میں عمر بن حفض  متروک ہے

طارق جمیل نے ذکر کیا کہ نبی مختون پیدا ہوئے اس قول پر امام الذھبی کا کہنا ہے

علّق عليه الحافظ الذهبي في “تلخيص المستدرك” بقوله: ما أعلم صحة ذلك فكيف يكون متواترا؟

اس روایت کی صحت ہی معلوم ہی نہیں ہے ، متواتر کیسے ہے ؟

عرش عظیم اور بعض محدثین کا غلو

قرآن کی سوره بنی اسرائیل کی آیت ہے

عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا

ہو سکتا ہے کہ آپ کا رب  آپ کو مقام محمود پر مبعوث کرے

بخاری کی حدیث میں ہے کہ یہ روز قیامت ہو گا جب نبی صلی الله علیہ وسلم  الله  سے دعا کریں  گے جو ان کی نبی کی حیثیت سے وہ خاص دعا ہے جو رد نہیں ہوتی اور تمام انبیاء اس کو کر چکے سوائے نبی صلی الله علیہ وسلم کے

پس بخاری کی حدیث میں  آتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سجدہ میں دعا کریں گے. رب تعالی کہے گا

ثم يقول ارفع محمد، وقل يسمع، واشفع تشفع، وسل تعطه

محمد اٹھو ، کہو سنا جائے گا ، شفاعت کرو قبول ہو گی، مانگو ، دیا جائے گا

نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

وهذا المقام المحمود الذي وعده نبيكم صلى الله عليه وسلم

اور یہ وہ مقام محمود ہے جس کا تمھارے نبی صلی الله علیہ وسلم سے وعدہ کیا گیا ہے

معلوم ہوا کہ یہ قدر و منزلت کا مقام ہے

ظالموں نے یہ بات تک بیان کی ہے کہ الله عرش پر نبی صلی الله علیہ وسلم کو بٹھائے گا !   افسوس صوفیوں کو برا کہنے والے اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھیں-

ابن أبي يعلى کتاب  الاعتقاد میں لکھتے ہیں

وقال ابن عمير: سمعت أبا عبد الله أحمد بن حنبل  وسئل عن حديث مجاهد: ” يُقعد محمداً على العرش “. فقال: قد تلقته العلماء بالقبول، نسلم هذا الخبر كما جاء

ابن عمیر کہتے ہیں انہوں نے احمد بن حنبل کو سنا ان سے مجاہد کی حدیث پر سوال ہوا کہ محمد کو عرش پر بٹھایا جائے گا پس انہوں نے کہا علماء نے اس کو قبولیت دی ہے ہم اس خبر کو جیسی آئی ہے مانتے ہیں

القاضي أبو يعلى ، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء (المتوفى : 458هـ) کتاب إبطال التأويلات لأخبار الصفات میں لکھتے ہیں

ونظر أَبُو عبد اللَّه فِي كتاب الترمذي، وقد طعن عَلَى حديث مجاهد فِي قوله: {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} فَقَالَ: لَمْ هَذَا عَن مجاهد وحده هَذَا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وقد خرجت أحاديثا فِي هَذَا، وكتبها بخطه وقرأها

اور  ابو عبدللہ امام احمد نے ترمذی کی کتاب دیکھی اور اس نے مجاہد کی حدیث پر طعن کیا  اس قول عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا کے حوالے سے پس امام احمد نے کہا مجاہد پر ہی کیوں؟ ایسا ابن عباس سے بھی مروی ہے اور اس کی احادیث نکالیں اور ان کو بیان کیا

کتاب الاعتقاد از ابن أبي يعلى میں ابن حارث کہتے ہیں

وقال ابن الحارث: ” نعم يقعد محمدا على العرش” وقال عبد الله بن أحمد: “وأنا منكر على كل من رد هذا الحديث“.

ابن حارث کہتے ہیں ہاں عرش پر محمّد کو الله بٹھائے گا اور عبدللہ بن احمد کہتے ہیں میں ہر اس شخص کا انکار کرتا ہوں جو اس حدیث کو رد کرے

کتاب السنہ از ابو بکر الخلال میں ہے کہ

قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: لَا يَرُدُّ هَذَا إِلَّا أَهْلُ الْبِدَعِ وَالْجَهْمِيَّةُ

ابو قلابہ نے کہا کہ اس کو سوائے اہل بدعت اور جھمیہ کے کوئی رد نہیں کرتا

یہ سراسر عیسائی عقیدہ ہے کہ عیسیٰ وفات کے بعد الله کے ساتھ عرش پر بیٹھا ہے مسلمانوں میں بھی یہ غلو  در کر آیا ہے

سعودی مفتی  ابن باز کے استاد اور سعودی عرب کے سابق مفتی اکبر علامہ محمد بن ابراہیم بھی  کہتے ہیں کہ  مقام محمود سے شفاعت عظمیٰ اور عرش پر بٹھایا جانا دونوں ہی مراد ہیں اور ان میں کوئی تضاد  نہیں وہ اس کو اہل سنت کا قول بھی کہتے ہیں

قيل الشفاعة العظمى، وقيل إِنه إِجلاسه معه على العرش كما هو المشهور من قول أَهل السنة

فتاوى ورسائل سماحة الشيخ محمد بن إبراهيم بن عبد اللطيف آل الشيخ

جلد2 ، ص136

دوسرے حنبلی مقلد عالم محمّد صالح المنجد اس پر لکھتے ہیں   کہ  امام ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ امام احمد کا یہ قول فضائل کی وجہ سے ہے[1]

لیکن المنجد صاحب کی یہ بات صرف اس پر مبنی ہے کہ امام احمد فضائل کی وجہ سے مجاہد کا قول  رد نہیں کرتے تھے لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ باقی لوگ اس کو احمد کا عقیدہ بھی کہتے ہیں دوئم ابن تیمیہ کے پاس کیا سند ہے کہ یہ امام احمد کا عقیدہ نہیں تھا انہوں نے صرف حسن ظن کی بنیاد پر اس کو رد کیا ہے

الذھبی کتاب العلو میں لکھتے ہیں

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عرش پر براجمان ہونے کے بارے میں کوئی نص ثابت نہیں ہے، بلکہ اس بارے میں ایک واہی حدیث ہے

العلو 2/1081، رقم/422

میزان الاعتدال میں الذھبی،  مجاهد بن جبر  المقرئ المفسر، أحد الاعلام الاثبات  کے ترجمے میں  کہتے ہیں

ومن أنكر ما جاء عن مجاهد في التفسير في قوله  : عسى أن يبعثك ربك مقاما محمودا – قال: يجلسه معه على العرش

تفسیر میں مجاہد سے منقول جس قول کو “منکر” کہا گیا ہے وہ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} فرمانِ باری تعالی کی تفسیر میں انہوں نے کہا ہے کہ : اللہ تعالی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ عرش پر بیٹھائے گا

الطبری تفسیر ج ١٥ ص ٥١ میں آیت عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا کی شرح میں  مجاہد کے قول پر لکھتے ہیں

فَإِنَّ مَا قَالَهُ مُجَاهِدٌ مِنْ أَنَّ اللَّهَ يُقْعِدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عَرْشِهِ، قَوْلٌ غَيْرُ مَدْفُوعٍ صِحَّتُهُ، لَا مِنْ جِهَةِ خَبَرٍ وَلَا نَظَرٍ

پس جو مجاہد نے کہا ہے کہ الله تعالی محمد صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا وہ قول صحت پر نہیں نہ خبر کے طور سے نہ (نقد و) نظر کے طور سے

مجاہد کے اس شاذ قول کو امام احمد اور ان کے بیٹے ایمان کا درجہ دیتے تھے-

ابو بکر الخلال المتوفی ٣١١ ھ کتاب السنہ میں لکھتے ہیں کہ امام ابو داود بھی مجاہد کے اس شاذ قول  کو پسند کرتے تھے اور لوگ  ترمذی پر جرح کرتے تھے

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، عَنِ ابْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: يُقْعِدُهُ عَلَى الْعَرْشِ ” وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ مَنْزِلَتُهُ عِنْدَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَكْثَرَ مِنْ هَذَا، وَمَنْ رَدَّ عَلَى مُجَاهِدٍ مَا قَالَهُ مِنْ قُعُودِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْعَرْشِ وَغَيْرَهُ، فَقَدْ كَذَبَ، وَلَا أَعْلَمُ أَنِّي رَأَيْتُ هَذَا التِّرْمِذِيَّ الَّذِي يُنْكِرُ حَدِيثَ مُجَاهِدٍ قَطُّ فِي حَدِيثٍ وَلَا غَيْرِ حَدِيثٍ. وَقَالَ أَبُو دَاوُدَ السِّجِسْتَانِيُّ: أَرَى أَنْ يُجَانَبَ كُلُّ مَنْ رَدَّ حَدِيثَ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ: يُقْعِدُهُ عَلَى الْعَرْشِ “، وَيُحَذَّرُ عَنْهُ، حَتَّى يُرَاجِعَ الْحَقَّ، مَا ظَنَنْتُ أَنَّ أَحَدًا يُذَكِّرُ بِالسُّنَّةِ يَتَكَلَّمُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ إِلَّا إِنَّا عَلِمْنَا أَنَّ الْجَهْمِيَّةَ

هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ نے سے  انہوں نے ابْنِ فُضَيْلٍ سے  انہوں نے  لَيْثٍ سے انہوں نے مجاہد سے کہا ان (محمّد) کو عرش پر بٹھائے گا اور میں امید کرتا ہوں کہ الله تعالی کے پاس ان کی منزلت اس سے بھی بڑھ کر ہے اور جو مجاہد کے اس قول کو رد کرے اس نے جھوٹ بولا اور میں نے نہیں دیکھا کہ   التِّرْمِذِيَّ کے علاوہ کسی نے اس کو رد کیا ہو اور  (سنن والے امام) ابو داود کہتے ہیں کہ جو لیث کی مجاہد سے حدیث رد کرے اس سے  دور رہو اور بچو حتی کہ حق پرآجائے اور میں گمان نہیں رکھتا کہ کسی اہل سنت نے اس میں کلام کیا ہو سواۓ الْجَهْمِيَّةَ کے

ابو بکر  الخلال کتاب السنہ میں لکھتے ہیں

وَقَالَ هَارُونُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْهَاشِمِيُّ: جَاءَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّ هَذَا التِّرْمِذِيَّ الْجَهْمِيَّ الرَّادَّ لِفَضِيلَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْتَجُّ بِكَ، فَقَالَ: كَذَبَ عَلَيَّ، وَذَكَرَ الْأَحَادِيثَ فِي ذَلِكَ، فَقُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ: اكْتُبْهَا لِي، فَكَتَبَهَا بِخَطِّهِ، حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، قَالَ: ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ فِي قَوْلِهِ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: «يُقْعِدُهُ عَلَى الْعَرْشِ» ، فَحَدَّثْتُ بِهِ أَبِي رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ يُحَدِّثُ بِهِ، فَلَمْ يُقَدِّرْ لِي أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْهُ، فَقَالَ هَارُونُ: فَقُلْتُ لَهُ: قَدْ أُخْبِرْتُ عَنْ أَبِيكَ أَنَّهُ كَتَبَهُ عَنْ رَجُلٍ، عَنِ ابْنِ فُضَيْلٍ، فَقَالَ: نَعَمْ، قَدْ حَكَوْا هَذَا عَنْهُ

اور هَارُونُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْهَاشِمِيُّ  کہتے ہیں میرے پاس عبد الله بن احمد (المتوفی ٢٩٠ ھ) آئے میں نے ان سے کہا یہ جوالتِّرْمِذِيَّ الْجَهْمِيَّ  ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی فضیلت کا منکر ہے وہ آپ سے استدلال کرتا ہے (یعنی دلیل لیتا ہے) پس انہوں نے کہا مجھ پر جھوٹ بولتا ہے اور احادیث ذکر کیں  پس میں نے عبدللہ سے کہا میرے لئے لکھ دیں سو انہوں نے وہ  اپنے باتھ سے لکھیں   حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، قَالَ: ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ فِي قَوْلِهِ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: «يُقْعِدُهُ عَلَى الْعَرْشِ» اس سے متعلق مجاہد کہتے ہیں کہ انھیں  (نبی کو)عرش پر بٹھایا جائیگا . اس کو میں نے اپنے باپ  احمد  سے بیان کیا تو انھوں نے کہا کہ محمّد بن فضیل ایسا ہی بیان کرتے ہیں لیکن میں یہ ان سے براہ راست نہیں سن سکا . ہارون نے کہا کہ میں نے ان یعنی عبدالله سے کہا کہ مجھے تمہارے باپ احمد سے متعلق خبر دی گئی ہے کہ انھوں نے عن رجل کے واسطے سے ابن فضیل سے لکھا ہے. عبدالله نے جواب دیا ہاں اس معامله کو لوگ ان سے ایسا  ہی بیان کرتے ہیں   

ابو بکر الخلال کتاب السنہ میں لکھتے ہیں

حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، ثَنَا أَبُو الْهُذَيْلِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: «يُجْلِسُهُ مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ» ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: سَمِعْتُ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ جَمَاعَةٍ، وَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنَ الْمُحَدِّثِينَ يُنْكِرُهُ، وَكَانَ عِنْدَنَا فِي وَقْتٍ مَا سَمِعْنَاهُ مِنَ الْمَشَايِخِ أَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ إِنَّمَا تُنْكِرُهُ الْجَهْمِيَّةُ، وَأَنَا مُنْكَرٌ عَلَى كُلِّ مَنْ رَدَّ هَذَا الْحَدِيثَ، وَهُوَ مُتَّهِمٌ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ابو مَعْمَرٍ نے  أَبُو الْهُذَيْلِ سے انہوں نے محمّد بن فُضَيْلٍ سے انہوں نے لیث سے انہوں نے مجاہد سے کہا  عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا [الإسراء: 79] کہا ان کو عرش پر بٹھائے گا. عبد اللہ  (بن احمد) نے کہا میں نے اس حدیث کو ایک جماعت سے سنا ہے اور میں نے محدثین میں سے کسی کو نہیں دیکھا جو اس کو رد کرتا ہو اور ہم اپنے الْمَشَايِخِ  سے سنتے رہے ہیں کہ اس کو سوائے الْجَهْمِيَّةُ کے کوئی رد نہیں کرتا اور میں ہر اس شخص کا منکر ہوں جو اس حدیث کو رد کرے

ابو بکر الخلال کتاب السنہ میں لکھتے ہیں

 وَقَدْ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْمَرُّوذِيُّ، رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عَنِ الْأَحَادِيثِ الَّتِي تَرُدُّهَا الْجَهْمِيَّةُ فِي الصِّفَاتِ، وَالرُّؤْيَةِ، وَالْإِسْرَاءِ، وَقِصَّةِ [ص:247] الْعَرْشِ، فَصَحَّحَهَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ، وَقَالَ: ” قَدْ تَلَقَّتْهَا الْعُلَمَاءُ بِالْقَبُولِ، نُسَلِّمُ الْأَخْبَارَ كَمَا جَاءَتْ

اور بے شک أَبُو بَكْرٍ الْمَرُّوذِيُّ نے روایت کیا انہوں نے امام ابو عبد اللہ (احمد بن حنبل) سے سوال کیا کہ ان احادیث پر جن  کو الْجَهْمِيَّةُ  رد کرتے ہیں یعنی الصِّفَاتِ، وَالرُّؤْيَةِ، وَالْإِسْرَاءِ، وَقِصَّةِ  الْعَرْشِ،  وغیرہ کی پس ابو عبد اللہ نے کہا  ہم ان کو صحیح قرار دیا اور کہا علماء نے ان کو قبول کیا ہے کو تسلیم کرتے ہیں جیسی آئی ہیں

کتاب إبطال التأويلات لأخبار الصفات از القاضي أبو يعلى ، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء (المتو فى:458ھ) کے مطابق

الْمَرُّوذِيُّ  نے اس پر باقاعدہ ایک کتاب بنام كتاب الرد عَلَى من رد حديث مجاهد  مرتب کی تھی

ابو بکر الخلال کتاب السنہ میں لکھتے ہیں

وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ الْمَرُّوذِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: قَالَ مُجَاهِدٌ: «عَرَضْتُ الْقُرْآنَ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ». قَالَ أَبُو بَكْرٍ الْخَلَّالُ: قَرَأْتُ كِتَابَ السُّنَّةِ بِطَرَسُوسَ مَرَّاتٍ فِي الْمَسْجِدِ الْجَامِعِ وَغَيْرِهِ سِنِينَ، فَلَمَّا كَانَ فِي سَنَةِ اثْنَتَيْنِ وَتِسْعِينَ قَرَأْتُهُ فِي مَسْجِدِ الْجَامِعِ، وَقَرَأْتُ فِيهِ ذِكْرَ الْمَقَامِ الْمَحْمُودِ، فَبَلَغَنِي أَنَّ قَوْمًا مِمَّنْ طُرِدَ إِلَى طَرَسُوسَ مِنْ أَصْحَابِ التِّرْمِذِيِّ الْمُبْتَدِعِ أَنْكَرُوهُ، وَرَدُّوا فَضِيلَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَظْهَرُوا رَدَّهُ فَشَهِدَ عَلَيْهِمُ الثِّقَاتُ بِذَلِكَ فَهَجَرْنَاهُمْ، وَبَيَّنَا أَمْرَهُمْ، وَكَتَبْتُ إِلَى شُيُوخِنَا بِبَغْدَادَ، فَكَتَبُوا إِلَيْنَا هَذَا الْكِتَابَ، فَقَرَأْتُهُ بِطَرَسُوسَ عَلَى أَصْحَابِنَا مَرَّاتٍ، وَنَسَخَهُ النَّاسُ، وَسَرَّ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَهْلَ السُّنَّةِ، وَزَادَهُمْ سُرُورًا عَلَى مَا عِنْدَهُمْ مِنْ صِحَّتِهِ وَقَبُولِهِمْ

اور ابو بکر المروزی نے خبر دی انہوں نے امام احمد سے سنا کہ مجاہد نے کہا میں نے قرآن کو ابن عباس پر تین دفعہ پیش کیا ابن بکر الخلال کہتے ہیں میں نے کتاب السنہ کو مسجد الجامع میں طَرَسُوسَ میں پڑھا پس جب سن ٢٩٢ ھ آیا اور مقام محمود کے بارے میں پڑھا پتا چلا کہ طَرَسُوسَ میں ترمذی کے مبتدعی اصحاب اس کا انکار کرتے ہیں  اور رسول الله کی فضیلت کے انکاری ہیں  اور وہاں ان کا رد کرنا  ظاہر ہوا .  اس پر ثقات نے شہادت دی لہذا ان کو برا  کہا اور ان کا معاملہ (عوام پر)  واضح کیا گیا اور اپنے شیوخ کو(بھی) بغداد (خط) لکھ بھیجا پس انہوں نے جواب بھیجا جس کو طَرَسُوسَ میں اپنے اصحاب پر کئی دفعہ پڑھا  اور لوگوں نے اس کو نقل (لکھا) کیا اور الله تعالی نے اہل السنت کو بلند کیا اور ان کا سرور بڑھایا اس سے جو ان کے پاس ہے اس کی صحت و قبولیت(عامہ) پر

معلوم ہوا کہ ترمذی کے مبتدعی اصحاب اس عقیدے کے انکاری تھے اور علماء بغداد اس کے اقراری

ابو بکر الخلال نے کتاب السنہ میں ترمذی کو کبھی  الْعَجَمِيُّ التِّرْمِذِيُّ     کہا   اور کبھی  الْجَهْمِيَّ الْعَجَمِيَّ کہا

ترمذی کون ہے؟

ان حوالوں میں ترمذی کون ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں  اس سے مراد الجھم بن صفوان المتوفی ١٢٨ ھ ہے لیکن یہ قول صحیح نہیں کیونکہ  کتاب السنہ از ابو بکر الخلال کے مطابق یہ امام احمد اور ان کے بیٹے کا ہم عصر ہے

کتاب  السنة از ابو بکر الخلال جو  دکتور عطية الزهراني  کی تحقیق کے ساتھ  دار الراية – الرياض  سے سن ١٩٨٩ میں شائع ہوئی ہے اس کے محقق کے مطابق یہ جھم نہیں

بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ صاحب الزاهد أبو عبدالله محمد بن علي ابن الحسن بن بشر الحكيم الترمذي المتوفی ٣٢٠ ھ  ہیں  لیکن یہ صوفی تھے اور اس عقیدے پر تو یہ ضررور خوش ہوتے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھایا جائے گا

حکیم الترمذی کتاب نوادر الأصول في أحاديث الرسول صلى الله عليه وسلم میں لکھتے ہیں

حَتَّى بشر بالْمقَام الْمَحْمُود قَالَ مُجَاهِد {عَسى أَن يَبْعَثك رَبك مقَاما مَحْمُودًا} قَالَ يجلسه على عَرْشه

یہاں تک کہ مقام محمود کی بشارت دی جائے گی مجاہد کہتے ہیں ان کو عرش پر بٹھایا جائے گا

لہذا یہ حکیم ترمذی بھی نہیں

کتاب  السنہ از الخلال میں ہے

الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ…ذَكَرَ أَنَّ هَذَا التِّرْمِذِيَّ الَّذِي رَدَّ حَدِيثِ مُجَاهِدٍ مَا رَآهُ قَطُّ عِنْدَ مُحَدِّثٍ

الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ( المتوفی ٢٧١ ھ ) کہتے ہیں جب ان کے سامنے ترمذی کا ذکر ہوا جو مجاہد کی حدیث رد کرتا ہے کہا میں نے اس کو  کسی محدث کے پاس نہیں دیکھا

معلوم ہوا کہ  الترمذی،  الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ( المتوفی ٢٧١ ھ )  کا ہم عصر ہے

  االْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ( المتوفی ٢٧١ ھ ) کا   یہ    قول تعصب پر مبنی ہے یا واقعی یہ ترمذی کوئی جھمی ہی ہے یہ کیسے ثابت ہو گا؟ اس طرح کے اقوال امام ابو حنیفہ کے لئے بھی ہیں جس میں لوگ ان کو جھمی بولتے ہیں اور کہتے ہیں حدیث میں یتیم تھے لیکن ان کو جھمی نہیں کہا جاتا . اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ ترمذی محدث نہیں تو  عجیب بات ہے کہ  اس عقیدے کے رد میں   اس زمانے  کا  کوئی محدث  بھی نہیں ملتا-

الذہبی کتاب العرش میں بلا دلیل  اپنا خیال پیش کرتے  ہیں

الترمذي ليس هو أبو عيسى صاحب “الجامع” أحد الكتب الستة، وإنما هو رجل في عصره من الجهمية ليس بمشهور اسمه

یہ الترمذي ،  أبو عيسى  نہیں جو  صاحب “الجامع” ہیں الستہ میں سے بلکہ یہ کوئی اور شخص ہے اسی دور کا جو جھمیہ میں سے  ہے  لیکن مشہور  نہیں

ہماری رائے میں یہ  اغلبا امام ترمذی محدث   ہیں اگر کسی کے پاس اس کے خلاف کوئی دلیل ہو تو ہمیں خبر دے

 امام ترمذی سنن میں روایت کرتے ہیں

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ يَزِيدَ الزَّعَافِرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَوْلِهِ: {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] وَسُئِلَ عَنْهَا قَالَ: «هِيَ الشَّفَاعَةُ»: ” هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَدَاوُدُ الزَّعَافِرِيُّ هُوَ: دَاوُدُ الْأَوْدِيُّ بْنُ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَهُوَ عَمُّ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِدْرِيسَ

ابو هُرَيْرَةَ رضی الله عنہ نے کہا کہ رسول اللہ نے الله کے قول عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79]  پر  فرمایا جب میں نے سوال کیا کہ یہ شفاعت ہے

امام ترمذی نے ایک دوسری سند سے اس کو مکمل روایت کیا سند ہے

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ

اس کے آخر میں ہے

وَهُوَ المَقَامُ المَحْمُودُ الَّذِي قَالَ اللَّهُ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] ” قَالَ سُفْيَانُ: لَيْسَ عَنْ أَنَسٍ، إِلَّا هَذِهِ الكَلِمَةُ. «فَآخُذُ بِحَلْقَةِ بَابِ الجَنَّةِ فَأُقَعْقِعُهَا»: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ» وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الحَدِيثَ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ

اور یہ مقام محمود ہے جس کا اللہ نے ذکر کیا ہے  …. اور بعض نے اس کو أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ سے بھی روایت کیا ہے

امام ترمذی نے نہ صرف آیت کی شرح میں مقام محمود سے مراد شفاعت لیا بلکہ کہا  کہ ابی نضرہ  سے ، ابن عبّاس سے بھی ایسا ہی منقول ہے

لیکن ان کے مخالفین کو یہ بات پسند نہیں آئی کیونکہ وہ تو ابن عباس سے دوسرا قول منسوب کرتے تھے  لہذا کتاب السنہ از ابو بکر الخلال میں ہے

قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ: وَبَلَغَنِي عَنْ بَعْضِ الْجُهَّالِ دَفْعُ الْحَدِيثِ بَقِلَّةِ مَعْرِفَتِهِ فِي رَدِّهِ مِمَّا أَجَازَهُ الْعُلَمَاءُ مِمَّنْ قَبْلَهُ مِمَّنْ ذَكَرْنَا، وَلَا أَعْلَمُ أَحَدًا مِمَّنْ ذَكَرْتُ عَنْهُ هَذَا الْحَدِيثَ، إِلَّا وَقَدْ سَلَّمَ الْحَدِيثَ عَلَى مَا جَاءَ بِهِ الْخَبَرُ، وَكَانُوا أَعْلَمَ بِتَأْوِيلِ الْقُرْآنِ وَسُنَّةِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّنْ رَدَّ هَذَا الْحَدِيثَ مِنَ الْجُهَّالِ، وَزَعَمَ أَنَّ الْمَقَامَ الْمَحْمُودَ هُوَ الشَّفَاعَةُ لَا مَقَامَ غَيْرُهُ.

محمد بن عثمان نے کہا اور مجھ تک پہنچا کہ بعض جھلا اس (مجاہد والی) حدیث کو قلت معرفت کی بنا پر رد کرتے ہیں … اور دعوی کرتے ہیں کہ مقام محمود سے مراد شفاعت ہے کچھ اور نہیں

امام ترمذی نے كتاب التفسير اور كتاب التاريخ بھی لکھی تھیں جو اب مفقود ہیں اور ممکن ہے مجاہد کے قول پر تفسیر کی کتاب میں  جرح  بھی کی ہو

مخالفین کو اعتراض ہے کہ اس آیت کی شرح میں یہ کیوں کہا جا  رہا ہے کہ اس سے مراد صرف شفاعت ہے کچھ اور نہیں

امام احمد کی اقتدہ  

علی بن داود کہتے ہیں

أَمَّا بَعْدُ: فَعَلَيْكُمْ بِالتَّمَسُّكِ بِهَدْيِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَإِنَّهُ إِمَامُ الْمُتَّقِينَ لِمَنْ بَعْدَهُ، وَطَعْنٌ لِمَنْ خَالَفَهُ، وَأَنَّ هَذَا التِّرْمِذِيَّ الَّذِي طَعَنَ عَلَى مُجَاهِدٍ بِرَدِّهِ فَضِيلَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُبْتَدَعٌ، وَلَا يَرُدُّ حَدِيثَ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ عَنْ مُجَاهِدٍ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: يُقْعِدُهُ مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ «إِلَّا جَهْمِيُّ يُهْجَرُ، وَلَا يُكَلَّمُ وَيُحَذَّرُ عَنْهُ، وَعَنْ كُلِّ مَنْ رَدَّ هَذِهِ الْفَضِيلَةَ وَأَنَا أَشْهَدُ عَلَى هَذَا التِّرْمِذِيِّ أَنَّهُ جَهْمِيُّ خَبِيثٌ

اما بعد تمھارے لئے امام احمد بن حنبل  کی ہدایت ہے جو امام المتقین ہیں بعد والوں کے لئے اور اس پر  طعن کرو  جو ان کی مخالفت کرے اور بے شک یہ ترمذی جو مجاہد پر طعن کرتا ہے اس فضیلت والی حدیث پر….. وہ مبتد عی ہے  اور اس روایت  کو سوائے الجہمی کے کوئی رد نہیں کرتا اس کو برا کہو اس سے کلام نہ کرو اس  سے دور رہو اور میں گواہی دیتا ہوں یہ ترمذی جھمی خبیث ہے

امام احمد اس عرش پر بٹھائے جانےکے  بدعتی عقیدے  والوں کے امام تھے ابو بکر الخلال کی کتاب السنہ میں ہے کہ محمد بن یونس البصری کہتے ہیں

فَمَنْ رَدَّ هَذِهِ الْأَحَادِيثَ، أَوْ طَعَنَ فِيهَا فَلَا يُكَلَّمُ، وَإِنْ مَاتَ لَمْ يُصَلَّ عَلَيْهِ، وَقَدْ صَحَّ عِنْدَنَا أَنَّ هَذَا التِّرْمِذِيَّ تَكَلَّمَ فِي هَذِهِ الْأَحَادِيثِ الَّتِي يَحْتَجُّ بِهَا أَهْلُ السُّنَّةِ، وَهَذَا رَجُلٌ قَدْ تَبَيَّنَ أَمْرُهُ، فَعَلَيْكُمْ بِالسُّنَّةِ وَالِاتِّبَاعِ، وَمَذْهَبِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَهُوَ الْإِمَامُ يُقْتَدَى بِهِ

پس جو اس حدیث کو رد کرے اور اس طعن کرے اس سے کلام نہ کرو اور اگر مر جائے تو جنازہ نہ پڑھو اور یہ ہمارے نزدیک صحیح ہے کہ یہ ترمذی اس پر کلام کرتا ہے جس سے اہل سنت احتجاج کرتے ہیں اور اس شخص  کا معاملہ  واضح ہے . پس تمھارے لئے سنت اور اسکا اتباع ہے اور ابو عبدللہ امام احمد بن حنبل کا مذبب ہے جو امام ہیں جن کا اقتدہ کیا جاتا ہے 

کتاب إبطال التأويلات لأخبار الصفات از القاضي أبو يعلى ، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء (المتوفى :458هـ) کے مطابق

وَذَكَرَ أَبُو عبد اللَّه بْن بطة فِي كتاب الإبانة، قَالَ أَبُو بكر أحمد بْن سلمان النجاد: لو أن حالفا حلف بالطلاق ثلاثا أن اللَّه تَعَالَى: يقعد محمدا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ معه عَلَى العرش …….ہ 

اور ابو عبدللہ بن بطة نے کتاب الإبانة میں ذکر کیا کہ  أَبُو بكر أحمد بْن سلمان النجاد  نے کہا اگر میں قسم لو تو تین طلاق کی قسم لوں (اگر ایسا نہ ہو) کہ  بے شک الله تعالی ، محمّد صلی الله علیہ وسلم کو اپنے ساتھ عرش پر بٹھائے گا 

یہ قسم اٹھانے کا اس وقت کا انداز تھا کہ اس عقیدے پر اتنا ایمان تھا کہ تین طلاق تک کی قسم کھائی جا رہی ہے

 مشہور  امام أبو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) کتاب الشريعة لکھتے ہیں

قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ رَحِمَهُ اللَّهُ: وَأَمَّا حَدِيثُ مُجَاهِدٍ فِي فَضِيلَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَتَفْسِيرُهُ لِهَذِهِ الْآيَةِ: أَنَّهُ يُقْعِدُهُ [ص:1613] عَلَى الْعَرْشِ , فَقَدْ تَلَقَّاهَا الشُّيُوخُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ وَالنَّقْلِ لِحَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , تَلَقَّوْهَا بِأَحْسَنِ تَلَقٍّ , وَقَبِلُوهَا بِأَحْسَنِ قَبُولٍ , وَلَمْ يُنْكِرُوهَا , وَأَنْكَرُوا عَلَى مَنْ رَدَّ حَدِيثَ مُجَاهِدٍ إِنْكَارًا شَدِيدًا وَقَالُوا: مَنْ رَدَّ حَدِيثَ مُجَاهِدٍ فَهُوَ رَجُلُ سُوءٍ قُلْتُ: فَمَذْهَبُنَا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ قَبُولُ مَا رَسَمْنَاهُ فِي هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ مِمَّا تَقَدَّمَ ذِكْرُنَا لَهُ , وَقَبُولُ حَدِيثِ مُجَاهِدٍ , وَتَرْكُ الْمُعَارَضَةِ وَالْمُنَاظَرَةِ فِي رَدِّهِ , وَاللَّهُ الْمُوَفِّقُ لِكُلِّ رَشَادٍ وَالْمُعِينُ عَلَيْهِ , وَقَدْ حَدَّثَنَاهُ جَمَاعَةٌ

الآجُرِّيُّ کہتے ہیں جہاں تک مجاہد کی نبی صلی الله علیہ وسلم کی تفضیل سے متعلق روایت ہے تو وہ اس آیت کی تفسیر ہے کہ بے شک ان کو عرش پر بٹھایا جائے گا اس کو اہل علم اور حدیث کو نقل کرنے والے لوگوں (یعنی محدثین) کے شیوخ نے قبول کیا ہے بہت بہترین انداز سے اور حسن قبولیت دیا ہے اور انکار نہیں کیا ہے بلکہ ان کا انکار کیا ہے جو مجاہد کی حدیث کو رد کریں شدت کے ساتھ اور کہا ہے کہ جو مجاہد کی حدیث قبول نہ کرے وہ برا آدمی ہے میں کہتا ہوں پس ہمارا مذھب یہی ہے الحمدللہ …..جو ایک جماعت نے روایت کیا ہے 

الآجُرِّيُّ  کی اس بات سے ظاہر ہے کہ جب ابن تیمیہ پیدا بھی نہیں ہوئے تھے انکے من پسند اہل علم مجاہد کے اس قول کو قبولیت کا درجہ دے چکے تھے

أبو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي، سنن ابی داود کے مولف امام ابو داود کے بیٹے أبوبكر بن أبي داود عبدالله بن سليمان بن الأشعث السجستاني (ت316هـ)  کے شاگرد ہیں

آٹھویں صدی میں جا کر الذھبی اور ابن تیمیہ کے دور میں علماء کا ماتھا اس روایت پر ٹھنکا اور اس کا انکار کیا گیا اسی وجہ سے الذھبی نے کتاب العلو للعلي الغفار في إيضاح صحيح الأخبار وسقيمها میں اس کا رد کیا  لیکن الذھبی نے یہ مانا کہ امام ابو داود اس کو تسلیم کرتے تھے دوسری طرف ابو بکر الخلال کی کتاب السنہ سے واضخ ہے امام ابوداود اور ان کے  استاد امام احمد دونوں اس  قول کو مانتے تھے

الذہبی کتاب العلو للعلي الغفار في إيضاح صحيح الأخبار وسقيمها میں لکھتے ہیں

فَمِمَّنْ قَالَ أَن خبر مُجَاهِد يسلم لَهُ وَلَا يُعَارض عَبَّاس بن مُحَمَّد الدوري الْحَافِظ وَيحيى بن أبي طَالب الْمُحدث وَمُحَمّد بن إِسْمَاعِيل السّلمِيّ التِّرْمِذِيّ الْحَافِظ وَأَبُو جَعْفَر مُحَمَّد بن عبد الْملك الدقيقي وَأَبُو دَاوُد سُلَيْمَان بن الْأَشْعَث السجسْتانِي صَاحب السّنَن وَإِمَام وقته إِبْرَاهِيم بن إِسْحَاق الْحَرْبِيّ والحافظ أَبُو قلَابَة عبد الْملك بن مُحَمَّد الرقاشِي وحمدان بن عَليّ الْوراق الْحَافِظ وَخلق سواهُم من عُلَمَاء السّنة مِمَّن أعرفهم وَمِمَّنْ لَا أعرفهم وَلَكِن ثَبت فِي الصِّحَاح أَن الْمقَام الْمَحْمُود هُوَ الشَّفَاعَة الْعَامَّة الْخَاصَّة بنبينا صلى الله عَلَيْهِ وَسلم

 الكتاب  قمع الدجاجلة الطاعنين في معتقد أئمة الإسلام الحنابلة از المؤلف: عبد العزيز بن فيصل الراجحي
الناشر: مطابع الحميضي – الرياض الطبعة: الأولى، 1424 هـ

میں مولف ، الذہبی کی یہی بات نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں

وأثبتها أيضا أئمة كثير، غير من سمى الذهبي هنا، منهم:. محمد بن مصعب العابد شيخ بغداد.
. والإمام الحجة الحافظ أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني (ت 241 هـ) ، إمام أهل السنة قاطبة.
. وعبد الله بن أحمد بن حنبل الحافظ (ت 290 هـ) .
اور اس کو مانا ہے ائمہ کثیر نے جن کا نام الذہبی نے نہیں لیا ان میں ہیں محمد بن مصعب العابد شيخ بغداد  اور  لإمام  الحجة الحافظ أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني (ت 241 هـ)  اور عبدللہ بن احمد بن حنبل

 صالح بن فوزان  ، عبد العزیز بن فیصل  کی تحقیق پر مہر ثبت کر چکے ہیں اور عبد العزیز کے نزدیک  عرش پر نبی کو بٹھایا جانا، امام احمد بن حنبل کا عقیدہ ہے اور ان کے بیٹے کا  بھی اور المالکی جو کہتا ہے یہ امام احمد کا عقیدہ نہیں جھوٹ بولتا ہے  

ابن قیم کتاب  بدائع الفوائد میں لسٹ دیتے ہیں جو اس عقیدے کو مانتے ہیں جن میں امام دارقطنی بھی ہیں اور کے اشعار  لکھتے ہیں

قال القاضي: “صنف المروزي كتابا في فضيلة النبي صلى الله عليه وسلم وذكر فيه إقعاده على العرش” قال القاضي: “وهو قول أبي داود وأحمد بن أصرم ويحيى بن أبي طالب وأبى بكر بن حماد وأبى جعفر الدمشقي وعياش الدوري وإسحاق بن راهوية وعبد الوهاب الوراق وإبراهيم الأصبهإني وإبراهيم الحربي وهارون بن معروف ومحمد بن إسماعيل السلمي ومحمد بن مصعب بن العابد وأبي بن صدقة ومحمد بن بشر بن شريك وأبى قلابة وعلي بن سهل وأبى عبد الله بن عبد النور وأبي عبيد والحسن بن فضل وهارون بن العباس الهاشمي وإسماعيل بن إبراهيم الهاشمي ومحمد بن عمران الفارسي الزاهد ومحمد بن يونس البصري وعبد الله ابن الإمام والمروزي وبشر الحافي”. انتهى.

ابن قیم  امام دارقطنی کے اس عقیدے کے حق میں  اشعار بھی نقل کرتے ہیں کہتے ہیں

وهو قول أبي الحسن الدارقطني ومن شعره فيه

حديث الشفاعة عن أحمد … إلى أحمد المصطفى مسنده
وجاء حديث بإقعاده … على العرش أيضا فلا نجحده
أمروا الحديث على وجهه … ولا تدخلوا فيه ما يفسده
ولا تنكروا أنه قاعده … ولا تنكروا أنه يقعده

معلوم ہوا کہ محدثین کے دو گروہ تھے ایک اس عرش پر بٹھائے جانے والی بات کو رد کرتا تھا جس میں امام الترمذی تھےاور دوسرا گروہ اس بات کو شدت سے قبول کرتا تھا جس میں امام احمد اور ان کے بیٹے ، امام ابو داود وغیرہ تھے اوریہ اپنے مخالفین کو الْجَهْمِيَّةُ  کہتے تھے

ہمارے نزدیک یہ عقیدہ  کہ الله تعالی ، نبی صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا صحیح نہیں اور ہم اس بات کو مجاہد سے ثابت بھی نہیں سمجھتے جیسا کہ الذہبی نے تحقیق کی ہے-

افسوس الذھبی کے بعد بھی اس عقیدے کو محدثین نے قبول کیا مثلا

شمس الدين أبو الخير محمد بن عبد الرحمن بن محمد السخاوي (المتوفى: 902هـ  کتاب القَولُ البَدِيعُ في الصَّلاةِ عَلَى الحَبِيبِ الشَّفِيعِ میں ایک روایت نقل کرتے ہیں

 وعن رويفع بن ثابت الأنصاري رضي الله عنه قال قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم – من قال اللهم صل على محمد وأنزله المقعد المقرب عندك يوم القيامه وجبت له شفاعتي

رواه البزار وابن أبي عاصم وأحمد بن حنبل وإسماعيل القاضي والطبراني في معجميه الكبير والأوسط وابن بشكوال في القربة وابن أبي الدنيا وبعض أسانيدهم حسن قاله المنذري

 اور رويفع بن ثابت الأنصاري رضي الله عنه کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جو کہے اے الله محمّد پر رحمت نازل کر اور روز محشر ان کو پاس بیٹھنے والا مقرب بنا، اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گئی

اس کو   البزار اورابن أبي عاصم اورأحمد بن حنبل اورإسماعيل القاضي اورالطبراني نے معجم الكبير اورالأوسط میں اور ابن بشكوال نے القربة میں اور ابن أبي الدنيا نے روایت کیا ہے اور المنذري کہتے ہیں  اس کی بعض اسناد حسن ہیں

 اس کے بعد السخاوي تشریح کرتے ہیں

والمقعد المقرب يحتمل أن يراد به الوسيلة أو المقام المحمود وجلوسه على العرش أو المنزل العالي والقدر الرفيع والله أعلم

اور قریب بیٹھنے والا ہو سکتا ہے اس سے مراد الوسيلة ہو یا المقام المحمود یا عرش پر بٹھایا جانا ….

السخاوي اگر ان الفاظ کی تشریح نہیں کرتے تو ہم سمجھتے کہ ہو سکتا ہے ان کے نزدیک یہ روایت صحیح نہ ہو -لیکن جس طرح انہوں نے اس کی تشریح کی ہے اس سے ظاہر ہے ان کا عقیدہ بھی اس پر تھا

ابن کثیر کتاب النهاية في الفتن والملاحم  میں لکھتے ہیں

وَقَدْ رَوَى لَيْثُ بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ، وَأَبُو يَحْيَى الْقَتَّاتُ، وَعَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ وَجَابِرٌ الْجُعْفِيُّ، عَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّهُ قَالَ فِي تَفْسِيرِ الْمَقَامِ الْمَحْمُودِ: إِنَّهُ يُجْلِسُهُ مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ، وَرُوِيَ نَحْوُ هَذَا عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بن سلام، وجمع فيه أبو بكر المروزي جزءاً كبيراً، وحكاه هو وغيره وغير وَاحِدٍ مِنَ السَّلَفِ وَأَهْلِ الْحَدِيثِ كَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ بْنِ رَاهَوَيْهِ وَخَلْقٍ وَقَالَ ابْنُ جَرِيرٍ: وَهَذَا شَيْءٌ لَا يُنْكِرُهُ مُثْبِتٌ وَلَا نَافٍ، وَقَدْ نظمه الحافظ أبو الحسن الدارقطني في صيدة لَهُ.
قُلْتُ: وَمِثْلُ هَذَا لَا يَنْبَغِي قَبُولُهُ إلا عن معصوم، ولم يثبت فيه حَدِيثٌ يُعَوَّلُ عَلَيْهِ، وَلَا يُصَارُ بِسَبَبِهِ إِلَيْهِ، وقول مجاهد في هذا المقام ليس بحجة بمفرده، وَلَكِنْ قَدْ تَلَقَّاهُ جَمَاعَةٌ مِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ بالقبول

ابن کثیر کہتے ہیں میں کہتا ہوں مجاہد کا منفرد قول حجت نہیں لیکن اس کو اہل حدیث نے قبول کیا ہے

عصر حاضر میں  مختصر العلو للعلي العظيم للذهبي ص ٢٣٤ میں البانی اپنے حاشیہ میں کہتے ہیں

وان عجبي لا يكاد ينتهي من تحمس بعض المحدثين السالفين لهذا الحديث الواهي والاثر المنكر ومبالغتم في الانكار على من رده واساءتهم الظن بعقيدته  وهب أن الحديث في حكم المرسل فكيف تثبت به فضيلة؟! بل كيف يبنى عليه عقيده أن الله يقعد نبيه – صلى الله عليه وسلم – معه على عرشه

اور میں حیران ہو کہ سلف میں بعض محدثین کا اس واہی حدیث اور منکر اثر پر جوش و خروش کی کوئی انتہا نہیں تھی اور( حیران ہوں کہ) محدثین کا اپنے مخالفین کے انکار اور رد میں مبالغہ آمیزی اور عقیدے میں ان کو برا کہنے پر … اور حدیث مرسل ہے تو اس سے فضیلت کیسے ہوثابت ہو گئی؟ بلکہ یہ عقیدہ ہی کیسے بنا لیا کہ الله عرش پر نبی  صلی الله علیہ وسلم کو بٹھائے گا!

 الله ہم سب کو غلو  سے بچائے

مخالفین کا جواب 

راقم کی اس تحریر کا جواب لوگوں نے دینے کی کوشش کی ہے جس میں اس فرقے کے موقف کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ عقیدہ صحیح نہیں ہے کہ عرش پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کو بٹھایا جائے گا لیکن یہ بات حق ہے کہ اس غلط عقیدے کو  محدثین نے  قرن دوم و سوم میں  قبول کر لیا تھا – قرن دوم میں اس عقیدے کو رد کرنے والے صرف  جھمی  تھے  – قرن دوم میں کوئی محدث نہیں تھا جو  اس عقیدے کو رد   کرتا ہو

راقم کا جوابا کہنا ہے کہ اگر کوئی محدث اس عقیدے کو رد نہیں کرتا تھا تو اس کو  آٹھویں صدی میں جا کر ابن تیمیہ  کی جانب سے  رد کیوں  کیا گیا ؟ الذھبی  نے بھی رد کیا –  البانی نے بھی رد کیا – لیکن سعودی عرب کے بعض چوٹی کے مفتیان کا عقیدہ ابھی تک اسی عقیدے پر ہے –  مزید یہ کہ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ   ترمذی جو اس عقیدے کو رد کر رہے ہیں وہ کوئی اور نہیں محدث امام ترمذی ہی   تھے جن کوقرن دوم میں  جھمی کہا جا رہا تھا – اغلبا یہی وجہ رہی کہ امام ابن حزم کے نزدیک امام ترمذی ایک مجہول تھے

—————————————

[1] http://islamqa.info/ur/154636

نوٹ

ابن تیمیہ کے نزدیک امام ترمذی کے اقوال جھمیوں جیسے ہیں

امام ترمذی سنن میں ایک حدیث بَابٌ: وَمِنْ سُورَةِ الحَدِيدِ میں لکھتے ہیں

وَفَسَّرَ بَعْضُ أَهْلِ العِلْمِ هَذَا الحَدِيثَ، فَقَالُوا: إِنَّمَا هَبَطَ عَلَى عِلْمِ اللهِ وَقُدْرَتِهِ وَسُلْطَانِهِ. عِلْمُ اللهِ وَقُدْرَتُهُ وَسُلْطَانُهُ فِي كُلِّ مَكَانٍ، وَهُوَ عَلَى العَرْشِ كَمَا وَصَفَ فِي كِتَابهِ.

بعض اہل علم نے اس حدیث کی تفسیر کی ہے کہ وہ کہتے ہیں اللہ کا علم نیچے اتا ہے اور اس کی قدرت و سلطان اس کا علم قدرت و حکومت ہر مقام پر ہے اور وہ عرش پر ہے جیسا اس کی صفت کتاب میں ہے

ابن قیم کتاب مختصر الصواعق المرسلة على الجهمية والمعطلة میں لکھتے ہیں کہ ترمذی نے کہا

فَحَكَى التِّرْمِذِيُّ عَنْ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْمَعْنَى يَهْبِطُ عَلَى عِلْمِ اللَّهِ وَقُدْرَتِهِ وَسُلْطَانِهِ، وَمُرَادُهُ عَلَى مَعْلُومِ اللَّهِ وَمَقْدُورِهِ وَمُلْكِهِ، أَيِ انْتَهَى عِلْمُهُ وَقُدْرَتُهُ وَسُلْطَانُهُ إِلَى مَا تَحْتَ التَّحْتِ، فَلَا يَعْزُبُ عَنْهُ شَيْءٌ.

 ابن قیم کتاب مختصر الصواعق المرسلة على الجهمية والمعطلة میں لکھتے ہیں

وَأَمَّا تَأْوِيلُ التِّرْمِذِيِّ وَغَيْرِهِ بِالْعِلْمِ فَقَالَ شَيْخُنَا: هُوَ ظَاهِرُ الْفَسَادِ مِنْ جِنْسِ تَأْوِيلَاتِ الْجَهْمِيَّةِ

اور جہاں تک ترمذی اور دوسروں کی تاویل کا تعلق ہے تو شیخ ابن تیمیہ کہتے ہیں وہ ظاہر فساد ہےاور جھمیہ کی
تاویلات کی جنس میں سے ہے

علی ، کعبہ اور زحل

ایک فلم نبأ السماء یعنی آسمانی خبر کے عنوان سے بن رہی ہے جس کو ایک کویتی رافضی فلم ڈائریکٹر عباس الیوسفی بنا رہے ہیں
فلم کا ایک ٹریلیر راقم نے دیکھا اور اچھا لگا البتہ اس میں ضعیف روایات پر منظر کشی کی گئی ہے
مثلا ایک مجہول الحال راوی یزید بن قعنب کے قول پر فاطمہ بنت اسد کا قصہ دکھایا گیا ہے کہ وہ کعبہ میں چلی گئیں اور علی رضی اللہ عنہ  کی وہاں پیدائش ہوئی
قابل غور کہ شیعہ مورخین کے پاس اس واقعہ کی کوئی سند نہیں سوائے اس ایک  یزیدی خبر کے
یزید بن قعنب کا احوال راقم کافی دن سے مصادر اہل تشیع و اہل سنت میں ڈھونڈھ رہا ہے لیکن ابھی تک نہ متقدمین میں نہ متاخرین میں اس شخص  پر کوئی قول ملا ہے

فلم میں علی اور سیارہ زحل کو بھی دکھایا گیا ہے جو آج اس بلاگ کا موضوع ہے


اس منظر کی وجہ راقم نے ڈھونڈی تو  مندرجہ ذیل روایت ملی – مستدرك سفينة البحار از علي النمازي اور بحار الأنوار / جزء 26 / صفحة[112] از ملا باقر مجسلی، الخصال از الصدوق
أبى جعفر محمد بن علي بن الحسين بن بابويه القمى المتوفى 381 ہجری میں ہے

حدثنا محمد بن موسى بن المتوكل رضي الله عنه قال : حدثنا علي بن الحسين
السعد آبادي ، عن أحمد بن أبي عبد الله البرقي ، عن أبيه ، وغيره ، عن محمد بن سليمان
الصنعاني ( 1 ) ، عن إبراهيم بن الفضل ، عن أبان بن تغلب

قال: كنت عند أبي عبد الله (عليه السلام) إذ دخل عليه رجل من أهل اليمن فسلم عليه فرد أبو عبد الله (عليه السلام) فقال له: مرحبا يا سعد، فقال له الرجل: بهذا الاسم سمتني امي، وما أقل من يعرفني به، فقال أبو عبد الله (عليه السلام): صدقت يا سعد المولى. فقال الرجل: جعلت فداك، بهذا كنت القب، فقال أبو عبد  الله (عليه السلام): لا خير في اللقب إن الله تبارك وتعالى يقول في كتابه: ” ولا تنابزوا بالالقاب بئس الاسم الفسوق بعد الايمان ” (1) ما صناعتك يا سعد ؟ فقال: جعلت فداك إنا أهل بيت ننظر في النجوم لا يقال: إن باليمن أحدا أعلم بالنجوم منا. فقال أبو عبد الله (عليه  السلام): كم ضوء المشترى على ضوء القمر درجة ؟ فقال اليماني: لا أدري، فقال أبو عبد الله (عليه السلام): صدقت، كم ضوء المشتري على ضوء عطارد درجة ؟ فقال اليماني: لا أدري، فقال له أبو عبد الله (عليه السلام): صدقت، فما اسم النجم الذي إذا طلع هاجت الابل ؟
فقال اليماني: لا أدري، فقال له أبو عبد الله (عليه السلام): صدقت، فما اسم النجم الذي إذا طلع هاجت البقر ؟ فقال اليماني: لا أدري، فقال له أبو عبد الله (عليه السلام) صدقت، فما اسم النجم الذي إذا طلع هاجت الكلاب ؟ فقال اليماني: لا أدري. فقال له أبو عبد الله (عليه السلام). صدقت في قولك: لاأدري، فما زحل عندكم في النجم ؟ فقال اليماني: نجم نحس، فقال أبو عبد الله (عليه السلام): لا تقل هذا فانه نجم أمير المؤمنين صلوات الله عليه فهو نجم الاوصياء عليهم السلام وهو النجم الثاقب
الذي قال الله في كتابه (2). فقال اليماني: فما معنى الثاقب ؟ فقال: إن مطلعه في السماء السابعة فإنه ثقب بضوئه حتى أضاء في السماء الدنيا فمن ثم سماه الله النجم الثاقب، ثم قال: يا أخا العرب عندكم عالم ؟ قال اليماني: نعم جعلت فداك إن باليمن قوما ليسوا كأحد من الناس في علمهم. فقال أبو عبد الله (عليه السلام): وما يبلغ من علم عالمهم ؟ قال اليماني إن عالمهم ليزجر الطير ويقفو الاثر في ساعة واحدة مسيرة شهر للراكب المحث (3)، فقال أبو عبد الله (عليه السلام): فان عالم المدينة أعلم من
عالم اليمن، قال اليماني: وما يبلغ من علم عالم المدينة ؟ قال: إن علم عالم المدينة ينتهي إلى أن يقفوا الاثر ولا يزجر الطير ويعلم ما في اللحظة الواحدة مسيرة الشمس تقطع اثنى عشر برجا واثنى عشر برا واثنى عشر بحرا واثنى عشر عالما، فقال له اليماني: ما ظننت أن أحدا يعلم هذا وما يدرى ما كنهه  قال: ثم قام اليماني ،

أبان بن تغلب نے کہا میں امام ابو عبد اللہ جعفر کے ساتھ تھا جب یمن کے کچھ لوگ آئے وہ ان کے پاس گئے سلام کیا اور امام نے جواب دیا مرحبا اے سعد- اس یمنی شخص نے کہا یہ نام مجھ کو میری ماں نے دیا ہے لیکن کچھ ہی لوگ اس بات سے واقف ہیں – امام نے فرمایا اے سعد المولی سچ کہا – وہ شخص بولا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ نے مجھے لقب دے دیا – امام نے فرمایا القاب میں خیر نہیں ہے اللہ تعالی نے کتاب اللہ میں کہا ہے کہ برے القاب دینے سے پرہیز کرو فسق میں نام کرنا سب سے برا کام ہے – تیرا کیا کام ہے اے سعد ؟ وہ بولا ہم فدا ہوں: ہم اہل بیت ستاروں کو دیکھتے ہیں یا نہیں ؟ اس نے کہا ہم یمنییوں میں نجوم کو سب سے زیادہ دیکھتے ہیں – امام بولے یہ مشتری کی روشنی کا درجہ چاند کی روشنی پر کتنا ہے ؟ یمنی بولا معلوم نہیں – امام نے فرمایا تو سچ بولا، یہ مشتری کی روشنی و چمک عطارد کے مقابلے میں کس درجہ پر ہے ؟ یمنی بولا معلوم نہیں – امام نے فرمایا تو نے سچ کہا –  پھر امام نے پوچھا وہ کون سا ستارہ ہے جو جب طلوع ہوتا ہے تو اونٹ و اونٹنی جماع کرتے ہیں ؟ یمنی بولا معلوم نہیں – امام نے فرمایا تو نے سچ کہا – امام نے پوچھا وہ کون سا ستارہ ہے جو جب طلوع ہوتا ہے تو گائے و بیل جماع کرتے ہیں ؟
یمنی بولا معلوم نہیں – امام نے فرمایا تو نے سچ کہا
وہ کون سا ستارہ ہے جو جب طلوع ہوتا ہے تو کتے جماع کرتے ہیں ؟
یمنی بولا معلوم نہیں – امام نے فرمایا تو نے سچ کہا
امام نے پوچھا : یہ زحل تیرے نزدیک کیا ہے ؟
یمنی بولا ایک بد بختی لانے والا ستارہ ہے
امام نے فرمایا ایسا مت بولو یہ تو امیر المومنین صلوات الله عليه کا ستارہ ہے یہ الاوصياء کا ستارہ ہے اور یہی نجم ثاقب ہے جس کا ذکر اللہ تعالی نے کتاب اللہ (سورہ الطارق ) میں کیا ہے
یمنی بولا : الثاقب سے کیا مراد ہے ؟ امام نے فرمایا یہ ساتویں آسمان میں طلوع ہوتا ہے اور اس سے آسمان دنیا روشن ہو جاتا ہے
اسی بنا پر اللہ نے اس کا نام نجم الثاقب رکھا ہے
امام نے پوچھا کہ اے عرب بھائیوں کیاتم میں کوئی عالم بھی ہے ؟
یمنی بولا جی ہاں، ہم فدا ہوں ، یمن میں ایک قوم ہے جن سے بڑھ کر کسی قوم کا علم نہیں ہے
امام نے فرمایا مدینہ کا عالم تو یمن کے عالم سے بڑھ کر ہے
یمنی بولا یمنییوں کے عالم تو پرندہ کی اڑان سے، اور اثر کے نشان سے گزرے ہونے مسافر تک کی خبر کر دیتے ہیں جس کو ایک ماہ ہوا ہو اور اس مقام سے گزرا ہو
امام نے فرمایا مدینہ کے عالم کا علم تو یہاں تک جاتا ہے کہ پرندہ کی اڑان دیکھنے والا یمنی عالم تک اس کی حد تک نہیں جا سکتا – مدینہ کا عالم تو ایک لمحہ میں جان لیتا ہے کہ  سورج نے کن بارہ ستاروں کو پار کیا، کن بارہ صحراؤں کو پار کیا ، کن بارہ سمندروں کو پار کیا ، کن بارہ عالموں کو پار کیا
یمنی بولا میں فدا ہوں میں نہیں سمجھتا کہ کوئی اس قدر جان سکا ہے اور مجھے نہیں معلوم یہ سب کیا ہے
پھر وہ یمنی اٹھا اور چلا گیا

نوٹ راوی محمد بن سليمان الصنعاني پر کوئی تعدیل و جرح شیعہ کتب میں نہیں ملیں لہذا یہ مجہول ہوا
اسی طرح راوی إبراهيم بن الفضل پر کتاب أصحاب الامام الصادق (ع) – عبد الحسين الشبستري میں لکھا ہے
أبو اسحاق ابراهيم بن الفضل الهاشمي، المدني. محدث مجهول الحال،

شیعہ کتاب بحار الانور از مجلسی میں ہے

الكافي: عن علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن ابن محبوب، عن مالك بن عطية، عن سليمان بن خالد، قال: سألت أبا عبد الله عليه السلام عن الحر والبرد ممن (2) يكونان ؟ فقال لي: يا أبا أيوب، إن المريخ كوكب حار وزحل كوكب بارد فإذا بدأ المريخ في الارتفاع انحط
زحل، وذلك في الربيع، فلا يزالان كذلك كلما ارتفع المريخ درجة انحط زحل درجة ثلاثة أشهر حتى ينتهي المريخ في الارتفاع وينتهي زحل في الهبوط، فيجلوا المريخ فلذلك يشتد الحر، فإذا كان في آخر الصيف وأوان (3) الخريف بدأ زحل في الارتفاع وبدأ المريخ في
الهبوط، فلا يزالان كذلك كلما ارتفع زحل درجة انحط المريخ درجة حتى ينتهي المريخ في الهبوط وينتهي زحل في الارتفاع، فيجلو زحل وذلك في أول (4) الشتاء وآخر الصيف (5) فلذلك يشتد البرد، وكلما ارتفع هذا هبط هذا وكلما هبط هذا ارتفع هذا، فإذا كان في
الصيف يوم بارد فالفعل في ذلك للقمر، وإذا كان في الشتاء يوم حار فالفعل في ذلك للشمس، هذا تقدير العزيز العليم، وأنا عبد رب العالمين (

الکافی میں ہے عن علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن ابن محبوب، عن مالك بن عطية کی سند سے ہے کہ سليمان بن خالد نے امام جعفر سے سوال کیا کہ سردی و گرمی کیوں ہوتی ہے ؟ امام نے فرمایا اے ابو ایوب مریخ یہ گرمی کا ستارہ ہے اور زحل یہ
سردی کا ستارہ ہے – پس جب مریخ زحل کے انحطط پر طلوع ہونا شروع ہوتا ہے تو موسم بہار اتا ہے یہ کیفیت ختم نہیں ہوتی یہاں تک کہ تین ماہ رہتی ہے حتی کہ مریخ الارتفاع و بلند ہوتا ہے اور زحل کا ہبوط و نیچے جانا ختم ہو جاتا ہے
پس مریخ سرخ ہوتا ہے پس یہ گرمی کی شدت ہوتی ہے پھر جب گرمیاں ختم ہوتی ہیں اور موسم سرما شروع ہوتی ہے تو سردی کی شدت ہوتی ہے پس ایک کا ارتفاع ہوتا ہے تو دوسرے کا ہبوط ہوتا ہے اور جب ایک کا ہبوط ہوتا ہے تو دوسرے کا ارتفاع ہوتا ہے – پس جب گرمی میں اگر سردی ہو جائے تو یہ چاند کی بنا پر ہوتی ہے اور سردیوں میں اگر گرم دن آ جائے تو یہ سورج کی وجہ سے ہوتا ہے  اور یہ سب اللہ تعالی کی تدبیر ہے جو عزیز و علیم ہے اور میں عبد رب العالمین ہوں

شیعہ کتاب وسائل الشيعة از محمد بن الحسن الحر العاملي (1033 – 1104 هـ). میں ہے

وعن علي بن إبراهيم ، عن أبيه ، عن ابن أبي عمير ، عن جميل بن صالح ، عمن أخبره ، عن أبي عبدالله ( عليه السلام ) قال : سئل عن النجوم ؟ قال : ما يعلمها إلا أهل بيت من العرب وأهل بيت من الهند
امام جعفر نے فرمایا جب کسی نے علم نجوم پر سوال کیا کہ عرب میں اہل بیت سب سے بڑھ کر علم نجوم کو جانتے ہیں اور ہندوستان میں اہل بیت اس کو جانتے ہیں

معلوم نہیں کہ راوی کا ہندوستان کے اہل بیت سے کیا مراد تھی

بہر حال ان روایات کو یہاں پیش کیا گیا ہے کہ قرن دوم میں علی اور سیارہ زحل کو اپس میں ملایا گیا ہے – ہندوؤں میں زحل کو شنی دیو کہا جاتا ہے جو نحوست کا دیوتا ہے -اسلامی شیعی لٹریچر میں علی کو زحل سے ملایا گیا ہے اور زحل کو خوش بختی کہا گیا ہے
راقم سمجھتا ہے کہ راوی یزید بن قعنب اورابراهيم بن الفضل دونوں کسی شیعی فرقے کے تھے جو غالی تھے – یہ علم نجوم کے دلدادہ اور سیارہ زحل کے اثر کو ماننے والے تھے جن کے مطابق روح زحل کعبہ میں داخل ہو کر علی کی شکل میں
مجسم ہو گئی

شیعہ تفسیر تفسير علي بن إبراهيم میں ہے
والطارق الذي يطرق الأئمة من عند الله مما يحدث بالليل والنهار، وهو الروح الذي مع الأئمة يسددهم
الطارق وہ ہے جو ائمہ کے ساتھ چلتا ہے اللہ کی طرف سے جو دن و رات میں ہوتا ہے اور یہ ایک روح ہے جو ائمہ کے ساتھ ہے ان کی مدد گار

کعبہ کے گرد طواف کو زحل کے گرد دائروں سے علم نجوم والے آج بھی ملاتے ہیں

شیعہ کتاب رسائل المرتضى جلد ٣ ص ١٤٥ از الشريف المرتضى میں ہے

وزعم بعض الناس أن بيت الله الحرام كان بيت زحل
بعض لوگوں نے دعوی کیا ہے کہ بیت اللہ یہ بیت زحل ہے

زحل سے شیعہ راوی متاثر تھے کہ ایک بصری عمر بن عبدالعزيز البصري أبو حفص بن ابي بشار، المعروف بزحل نے اپنا لقب ہی زحل رکھا ہوا تھا

اختيار معرفة الرجال میں ہے کہ یہ لقب سیارہ زحل پر لیا گیا تھا

زحل عمر بن عبدالعزيز عمربن عبدالعزيز بن أبي بشار بفتح الموحدة وتشديد المعجمة، لقبه زحل بضم الزاي وفتح المهملة واللام، على اسم سابع السيارات، وكنيته أبوحفص

زحل کا تذکرہ بعد میں شیعی مسلم فلکیات دانوں بو علی سینا اور الفارابی کی کتب میں بھی ملتا ہے جس میں افلاک کو علی و فاطمہ سے ملایا گیا ہے

شیعہ عالم رضي الدين أبي القاسم علي بن موسى بن جعفر بن محمد بن طاووس الحسيني المتوفی ٦٦٤ نے باقاعدہ علم نجوم پر کتاب فرج المهموم في تاريخ علماء النجوم لکھی ہے جس میں ائمہ اہل بیت کو علم نجوم کا شوقین ثابت کیا گیا ہے
اور ان شیعہ علماء کا رد کیا گیا ہے وہ علم نجوم کے استعمال سے روک رہے تھے

متفرق ٥

مصنف ابن أبى شيبة كتاب (الزهد) میں – ج 13 ص 259 برقم 16279 پر أبى بكر الصديق – رضي الله عنه کا کلام نقل کیا گیا ہے

قال أبو معاوبة: عن جويبر، عن الضحاك قال: رأى أبو بكر الصديق طيرا واقفا على شجرة فقال: “طوبى لك يا طير، والله لوددت أنى كنت مثلك: تقع على الشجرة وتأكل من الثمر، ثم تطير وليس عليك حساب ولا عذاب، والله لوددت أنى كنت شجرة الى جانب الطريق مر علىَّ جمل فأخذنى فأدخلنى فاه فلاكنى ثم ازدردنى ثم أخرجنى بعرا ولم أكن بشرا”.

اس کا ذکر تاريخ الخلفاء از السيوطي (المتوفى: 911هـ) میں بھی ہے

أخرج أبو أحمد الحاكم عن معاذ بن جبل قال: دخل أبو بكر حائطًا وإذا بدبسي في ظل شجرة، فتنفس الصعداء، ثم قال: طوبى لك يا طير! تأكل من الشجر، وتستظل بالشجر، وتصير إلى غير حساب، يا ليت أبا بكر مثلك.

معاذ بن جبل نے کہا میں ابو بکر کے پاس ایک باغ میں گیا وہ درخت کے نیچے تھے … انہوں نے کہا خوشخبری ہو تیرے لئے اے پرندے جو درخت سے کھاتا ہے اور اس کے سایہ میں رہتا ہے اور تیرا کوئی حساب نہ ہو گا کاش ابو بکر بھی تیرے جیسا ہوتا

كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال از علاء الدين المتقي الهندي (المتوفى: 975هـ) میں ہے

عن الضحاك بن مزاحم قال قال أبو بكر الصديق ونظر إلى عصفور: طوبى لك يا عصفور؟ تأكل من الثمار وتطير في الأشجار، لا حساب عليك ولا عذاب، والله! لوددت أني كبش يسمنني أهلي، فإذا كنت أعظم ما كنت وأسمنه يذبحوني فيجعلوني بعضي شواء وبعضي قديدا، ثم أكلوني ثم ألقوني عذرة في الحش وأني لم أكن خلقت بشرا. “ابن فتحويه في الوجل”.

الضحاك بن مزاحم نے کہا کہ ابو بکر نے چڑیا کو دیکھ کر کہا خوشخبری ہو تیرے لئے اے چڑیا تم بھل کھاتی ہو ، درختوں پر اڑتی ہو ، تم پر کوئی حساب و عذاب نہیں – و اللہ میری تمنا ہے کہ میں ایک دنبہ ہوتا جس کی کھال اس کے اہل اتارتے …. پھر مجھ کو گندگی پر پھینک دیا جاتا – کاش میں انسان ہی نہ ہوتا

شعب الإيمان للبيهقي میں سند ہے

وَحَدَّثَنَا قَالَ : وَحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أنا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ جُوَيْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاكِ ، قَالَ : مَرَّ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى طَيْرٍ قَدْ وَقَعَ عَلَى شَجَرَةٍ ، فَقَالَ : ” طُوبَى لَكَ يَا طَيْرُ! تَطِيرُ فَتَقَعُ عَلَى الشَّجَرِ ، ثُمَّ تَأْكُلُ مِنَ الثَّمَرِ ، ثُمَّ تَطِيرُ لَيْسَ عَلَيْكَ حِسَابٌ ، وَلا عَذَابٌ يَا لَيْتَنِي كُنْتُ مِثْلَكَ ! وَاللَّهِ لَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ شَجَرَةً إِلَى جَانِبِ الطَّرِيقِ فَمَرَّ عَلَيَّ بَعِيرٌ فَأَخَذَنِي ، فَأَدْخَلَنِي فَاهُ فَلاكَنِي ، ثُمَّ إزْدَرَدْنِي ، ثُمَّ أَخْرَجَنِي بَعْرًا ، وَلَمْ أَكُنْ بَشَرًا ” .

الزهد شئ أبو السَّرِي هَنَّاد بن السَّرِي الكوفي (المتوفى: 243هـ) میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , عَنْ جُوَيْبِرٍ , عَنِ الضَّحَّاكِ قَالَ: مَرَّ أَبُو بَكْرٍ بِطَيْرٍ وَاقِعٍ عَلَى شَجَرَةٍ , فَقَالَ: «طُوبَى لَكَ يَا طَيْرُ؛ تَقَعُ عَلَى الشَّجَرِ وَتَأْكُلُ الثَّمَرَ , ثُمَّ تَطِيرُ وَلَيْسَ عَلَيْكَ حِسَابٌ وَلَا عَذَابٌ يَالَيْتَنِي كُنْتُ مِثْلَكَ؛ وَاللَّهِ لَوَدِدْتُ أَنَّ اللَّهَ خَلَقَنِي شَجَرَةً إِلَى جَانِبِ الطَّرِيقِ , فَمَرَّ بِي بَعِيرٌ فَأَخَذَنِي فَأَدْخَلَنِي فَاهُ فَلَاكَنِي , ثُمَّ ازْدَرَدَنِي , ثُمَّ أَخْرَجَنِي بَعْرًا وَلَمْ أَكُ بَشَرًا» قَالَ: وَقَالَ عُمَرُ: «يَا لَيْتَنِي كُنْتُ كَبْشَ أَهْلِي، سَمَّنُونِي مَا بَدَا لَهُمْ حَتَّى إِذَا كُنْتُ أَسْمَنَ مَا أَكُونُ زَارَهُمْ بَعْضُ مَا يُحِبُّونَ فَجَعَلُوا بَعْضِي شِوَاءً وَبَعْضِي قَدِيدًا ثُمَّ أَكَلُونِي , فَأَخْرَجُونِي عَذِرَةً وَلَمْ أَكُ بَشَرًا» قَالَ: وَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: «يَا لَيْتَنِي كُنْتُ شَجَرَةً تُعْضَدُ وَلَمْ أَكُ بَشَرًا»

ان تمام روایات کی سند منقطع ہے الضحاك بن مزاحم کا سماع صحابہ کبار سے نہیں ہے بلکہ صحابہ صغار میں ابن عمر اور ابن عباس سے بھی نہیں ہے دوم جُوَيبر بْن سَعِيد، البَلخِيّ. سند میں متروک ہے النسائي والدارقطني کے نزدیک

تاريخ بغداد للخطيب عند الترجمة لأبي خالد السقا رقم 7720 ج 14 ص 402 میں اس کو قول نبوی کے طور پر بھی پیش کیا گیا ہے

أخبرني محمَّد بن أحمد بن يعقوب أخبرنا محمَّد بن نعيم الضبى قال: سمعت أبا الفضل الحسن بن يعقوب المعدل يقول: سمعت أبا أحمد محمَّد بن عبد الوهاب الفراء، يقول: سمعت أبا خالد السقا يقول: سمعت أنس بن مالك يقول: سمعت رسول الله – صلى الله عليه وسلم – يقول ونظر إلى طير فقال: “طوبى لك يا طير تأوى إلى الشجر وتأكل الثمر

سند میں أبو خالد، السقاء مجہول الحال ہے

اس روایت سے دلیل لی جاتی ہے کہ انسان اپنے آپ کو سگ مدینہ کہہ سکتا ہے

وہ رجعت پر ایمان رکھتے تھے

مفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام از دکتور جواد علی  میں ہے
الرجعة: واعتقد قوم من العرب في الجاهلية بالرجعة: أي الرجوع إلى الدنيا بعد الموت فيقولون أن الميت يرجع إلى الدنيا كرة أخرى ويكون فيها حيًّا كما كان
جاہلی عربوں کی ایک قوم رجعت کا عقیدہ رکھتی تھی کہ مرنے والا واپس دنیا میں موت کے بعد آ جاتا ہے اور اسی طرح زندہ ہو جاتا ہے جیسے پہلے تھا

وفات النبی کے وقت اس قسم کا قول عمر رضی اللہ عنہ نے بھی بولا
طبری میں ہے
فَحَدَّثَنَا ابْنُ حميد، قال: حدثنا سلمة، عن ابن إسحاق، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، …. لما توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم، قام عمر بن الخطاب، فقال: إن رجالًا من المنافقين يزعمون أن رسول الله توفي، وأن رسول الله والله ما مات،
ولكنه ذهب إلى ربه كما ذهب موسى بن عمران، فغاب عن قومه أربعين ليلة، ثم رجع بعد أن قيل قد مات، والله ليرجعن رسول الله فليقطعن أيدي رجال وأرجلهم يزعمون أن رسول الله مات
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو عمر بن الخطاب نے کہا منافقوں میں بعض مرد کہہ رہے ہیں کہ رسول اللہ کی وفات ہو گئی ہے اور بے شک آپ کی وفات نہیں ہوئی لیکن آپ اپنے رب کے پاس گئے ہیں جیسے موسی علیہ السلام
اپنے رب کے پاس گئے اور چالیس رات اپنی قوم پر غائب رہے پھر رجع کیا بعد اس کے کہا گیا کہ وہ مر گئے ہیں – اللہ کی قسم رسول اللہ واپس آئیں گے وہ ان منافقوں کے ہاتھ پیر کاٹ ڈالیں گے کہ ان کا دعوی ہے کہ رسول اللہ وفات پا گئے ہیں

عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول کو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے سختی سے رد کیا – بلا شبہ اس وقت جو غم کی کیفیت تھی اس کی وجہ سے عمر ایسا کہہ گئے

عقیدہ رجعت لیکن ایک عقیدے کے طور پر یہود میں موجود ہے اور آج بھی یہود اس کے قائل ہیں کہ اصلی مسیح کے ظہور پر بنی اسرائیلی زندہ ہوں گے – اس عقیدے کا پرچار ابن سبا نے سب سے پہلے کیا

ابن سبأ أول من قال بالرجعة

ابن سبا نے سب سے پہلے رجعت کا قول کہا

اس کے بعد رجعت کا قول شیعہ رویوں میں قرن اول سے ہی چل رہا ہے جن میں بعض بہت مشہور ہیں مثلا

أبو الطفيل عامر بن واثلة المتوفی 110 ہجری پر ابن قتیبہ کا المعارف میں قول ہے
وكان مع «المختار» صاحب رايته، وكان يؤمن بالرّجعة
یہ مختار ثقفی کے جھنڈے تلے تھے اور رجعت پر ایمان رکھتے تھے

جابر الجعفي المتوفی ١٣٠ ھ کے لئے ابن قتیبہ المعارف میں لکھتے ہیں
جابر بن يزيد. وكان ضعيفا في حديثه. وهو من الرّافضة الغالية، الذين يؤمنون بالرّجعة
یہ حدیث میں ضعیف ہے رافضی غالی ہے رجعت پر ایمان رکھتا تھا

کتاب از الفسوی میں ہے
قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَحَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ: كَانَ النَّاسُ يَحْمِلُونَ عَلَى جَابِرٍ قَبْلَ أَنْ يُظْهِرَ مَا أَظْهَرَ، فَلَمَّا أَظْهَرَ مَا أَظْهَرَ اتَّهَمَهُ النَّاسُ فِي حَدِيثِهِ، وَتَرَكَهُ بَعْضُ النَّاسِ، فَقِيلَ لَهُ: وما أظهر؟ قال: الايمان بالرجعة.

جب جابر کا عقیدہ ظاہر نہیں تھا لوگ اس کی روایت لیتے تھے

تاریخ طبری جلد ١١ میں لکھا ہے
قال العباس: وحدثنا يحيى بن يعلى المحاربى عن زائده قال: كان جابر الجعفى كذابا يؤمن بالرجعة

تاریخ المنتظم في تاريخ الأمم والملوك از ابن جوزی میں إسماعيل بن محمد بن يزيد بن ربيعة، أبو هاشم الحمْيَرِي
پر لکھا ہے
وكان الحميري يشرب الخمر، ويقول بالرجعة

عبداللہ بن محمد بن حنفیہ ( علی رضی اللہ عنہ کا پوتا ) امام زہری کے مطابق یہ السبییہ میں سے تھا

اصبغ بن نباتہ المتوفی ١١٠ ہجری – یہ علی کی پولیس میں تھا اور یہ رجعت پر ایمان رکھتا تھا
قَالَ الْعُقَيْلِيُّ : كَانَ يَقُولُ بِالرَّجْعَةِ.
امام عقیلی کہتے ہیں یہ رجعت کا کہتا تھا

تاریخ اسلام از الذھبی میں ہے
عُثْمَانُ بْنُ عمير أبو اليقظان البجلي الكوفي الأعمى١٥٠ ھ رجعت پر ایمان رکھتا تھا
قَالَ أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ: كَانَ يُؤْمِنُ بِالرَّجْعَةِ.

قرن اول کا مشہور شاعر کثیر بھی اسی عقیدے پر تھا – تاریخ اسلام از الذھبی میں ہے
كثيّر عزّة الشاعرة المشهور هو كثير بن عبد الرحمن بن الأسود الخزاعي
تاریخ طبری میں سن ١٥٠ ہجری میں مرنے والوں پر لکھا ہے
وكثير شيعى يؤمن بالرجعة.
كثير عزه الشاعر رجعت پر ایمان رکھتا تھا
قَالَ الزُّبَيْرُ بْنُ بَكَّارٍ: قَالَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ: إِنِّي لأَعْرِفُ صَلاحَ بَنِي هَاشِمٍ وَفَسَادَهُمْ بِحُبِّ كُثَيِّرٍ، فَمَنْ أَحَبَّهُ مِنْهُمْ فَهُوَ فَاسِدٌ، وَمَنْ أَبْغَضَهُ فَهُوَ صَالِحٌ، لِأَنَّهُ كَانَ خَشَبِيًّا يُؤْمِنُ بِالرَّجْعَةِ

مزید لوگ یہ ہیں جو رجعت کا عقیدہ رکھتے ہیں اور یہ لسٹ تو صرف اہل سنت کے مصادر کو دیکھ کر مرتب کی گئی ہے
راشد الہجری یہ علی کے ساتھ تھا رجعت پر ایمان رکھتا تھا
یونس بن خبیب رجعت پر ایمان رکھتا تھا
داود بن یزید رجعت پر ایمان رکھتا تھا
المغیرہ بن سعید رجعت پر ایمان رکھتا تھا
بیان بن سمعان رجعت پر ایمان رکھتا تھا
حارث بن حصیرہ المتوفی ١٥٠ ھ رجعت پر ایمان رکھتا تھا
محمد بن سائب الکلبی رجعت پر ایمان رکھتا تھا
اسمعیل بن خلیفہ رجعت پر ایمان رکھتا تھا
عمرو بن جابر الحضرمی رجعت پر ایمان رکھتا تھا
ثابت بن ابی صفیہ المتوفی ١٥٠ ھ رجعت پر ایمان رکھتا تھا
فرات بن الاحنف رجعت پر ایمان رکھتا تھا
تلید بن سلیمان رجعت پر ایمان رکھتا تھا
نصر بن الصباح رجعت پر ایمان رکھتا تھا
محمد بن القاسم بن زكريا أبو عبد الله المحاربي الكوفي السوداني رجعت پر ایمان رکھتا تھا
مسلم بن نضیر یا یزید رجعت پر ایمان رکھتا تھا
عبد اللہ بن الحسین المتوفی ١٤٠ ہجری رجعت پر ایمان رکھتا تھا
داود بن یزید رجعت پر ایمان رکھتا تھا

شیعہ امامیہ کا رفض کا عقیدہ قرن چہارم یا پنجم کا نہیں ہے بلکہ یہ تو قرن اول بلکہ قبل اسلام سے معروف ہے

بعض افسانہ نگاروں کا یہ دعوی کہ تشیع کا لفظ سیاسی معاملات میں علی رضی اللہ عنہ کا طرفدار ہونے سے متعلق کہا جاتا تھا  نہ  کہ ان عقائد کی بابت جو کہ چوتھی صدی ہجری میں جاکر رافضیت و امامیت کے نام پر مروّج ہوئے۔
راقم کہتا ہے رفض کا لفظ امام زید بن علی نے امام جعفر کے اصحاب  کو بولا تھا جب انہوں  نے سیاسی خروج میں امام زید بن علی کا ساتھ نہ دیا تو انہوں نے کہا
رفضونی
تم نے مجھے چھوڑ دیا

اس سے رفض کا لفظ نکلا اور یہی بات تاریخ  میں بیان کی گئی ہے

اس سے قبل راوی اگر رجعت کا عقیدہ بھی رکھتا ہو تو اس کو شیعہ ہی کہا جاتا تھا – لہذا یہ دعوی کہ قرن اول میں صرف شیعہ تھے رافضی و سبائی نہ تھے جاہلانا بات ہے

سبائی رویوں کو شیعہ کہہ کر ان کو بچانے والے بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ

اول زاذان پر شیعہ ہونے کی جرح تھی رافضی کی نہیں -شیعہ تو سیاسی معاملات میں علی کا طرف دار ہونا تھا
دوم الکافی تو زاذان کے کئی سال بعد مرتب ہوئی تو اس کا عقیدہ زاذان کیسے لے سکتا ہے
سوم رافضیت چوتھی صدی میں جا کر مروج ہوئی

ان دعوی جات کے خلاف اہل سنت پہلے سے ہی جواب دے چکے ہیں – اول اہل سنت کہتے ہیں کہ لشکر علی میں ابن سبا موجود تھا اور اپنے شیعی نظریات و افکار پھیلا رہا تھا اور اس دور میں شیعیت علی کا ساتھ دینا ضرور تھی لیکن متاخرین مثلا ابن حجر کے دور تک شیعہ کا لفظ رافضی کے متبادل کے طور پر بھی استعمال ہو رہا تھا اور آج بھی ایسا ہی ہے
زاذان کو شیعہ متاخرین میں ابن حجر نے کہا ہے
خود امام بخاری کے دور تک میں شیعہ = رافضی خبیث ایک ہی معنوں میں استعمال ہوتے تھے

سبائی اس کے قائل تھے کہ علی کی شہادت نہ ہوئی بلکہ آسمان میں بادل پر زمین میں ہی موجود ہیں – دلیل یہ ہے کہ اس دور میں علی کی قبر تک نہیں تھی – اہل سنت کے بقول علی کی قبر چھپا دی گئی تھی لیکن سبائی کہتے یہی دلیل ہے کہ ان کی موت نہیں ہو بادل میں ہیں

ابن عباس زندہ تھے کہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے
وحدثني أبو أيوب سليمان بن عبيد الله الغيلاني، حدثنا أبو عامر يعني العقدي، حدثنا رباح، عن قيس بن سعد، عن مجاهد، قال: جاء بشير العدوي إلى ابن عباس، فجعل يحدث، ويقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجعل ابن عباس لا يأذن لحديثه، ولا ينظر إليه، فقال: يا ابن عباس، مالي لا أراك تسمع لحديثي، أحدثك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا تسمع، فقال ابن عباس: ” إنا كنا مرة إذا سمعنا رجلا يقول: قال
رسول الله صلى الله عليه وسلم، ابتدرته أبصارنا، وأصغينا إليه بآذاننا، فلما ركب الناس الصعب، والذلول، لم نأخذ من الناس إلا ما نعرف

بشیر العدوی، ابن عباس کے پاس آیا اور روایت کرنے لگا اور بولا رسول الله نے کہا ،رسول الله نے کہا ،پس ابن عباس نے اس کی حدیث کی اجازت نہیں دی اور نہ اس کی طرف دیکھا. اس پر وہ ابن عبّاس سے مخاطب ہوا کیا وجہ ہے کہ اپ میری حدیث نہیں سنتے جبکہ میں رسول الله کی حدیث سنا رہاہوں؟ پس ابن عباس نے کہا ایک وقت تھا جب ہم سنتے کسی نے کہا قال رسول الله ہم نگاہ رکھتے اور اپنے کان اس (حدیث) پر لگاتے . لیکن جب سے لوگوں نے الصعب اور الذلول کی سواری کی تو ہم روایات نہیں لیتے مگر صرف اس سے جس کو جانتے ہوں

الصعب اور الذلول اہل تشیع بتاتے ہیں کہ بادل ہیں جن پر علی سواری کرتے اور زمین کے معاملات کا جائزہ لیتے تھے

یہ دعوی کہ رافضیت دور اصحاب رسول میں نہیں تھی چوتھی صدی میں جا کر مروج ہوئی صحیح مسلم کی اس روایت سے رد ہوتی ہے – اس میں خالصتا سبائی ایجنڈا پیش کیا گیا ہے جو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ذکر کیا

الکافی میں عود روح کا عقیدہ امام جعفر کی زبانی درج ہے اور امام جعفر شیعہ امام ہیں لہذا شیعوں میں امام جعفر سند سے نہیں بولتے ان کی تو نظر لوح محفوظ پر بیان کی جاتی ہے – – عود روح کا عقیدہ – عقیدہ رجعت کا ہی پرتو ہے
قبر میں روح واپس لائی جاتی ہے اس سے نکالی نہیں جاتی صرف اب انتظار ہے علی کی آواز بادل میں سے کب آئے جس کو سن کر خروج کیا جائے
لہذا قرآن کی آیت کہ اے رب تو نے دو زندگیاں دی اور دو موتیں دیں اس کا مطلب اہل تشیع کے ہاں رجعت کا اثبات ہے
عقیدہ رجعت کا ذکر متعدد قرن اول و دوم کے راویوں کے لئے محدثین نے کیا ہے مثلا جابر الجعفی وغیرہ

لہذا یہ اشکال بھی دور ہوا کہ رافضی عقائد قرن اول میں موجود نہیں تھے اور اب زاذان کی بات کرتے ہیں
زاذان اہل تشیع کے مصادر میں علی کے ان خاص لوگوں میں تھے جن پر اسم اعظم پڑھا گیا ہے اور یہ فارسی النسل تھا – زاذان کی موت کے بعد اس کینسل سے جو قبیلہ بنا اس سے بہت سے شیوخ قم نکلے – یعنی شیعوں میں زاذان اور ان کی نسل خاص کٹر شیعہ ہی رہے

محدثین ، قرن اول و دوم کے  بہت سے راویوں کو شیعہ کہتے ہیں لیکن مراد کٹر رافضی ہونا ہوتا ہے  اس پر لا تعداد امثال جرح و تعدیل لٹریچر میں موجود ہیں

ہم ال داود کے حکم پر حکم کرتے ہیں

ابن سبا نے اس امت میں عقیدہ رجعت کو پھیلایا (جس کو فرقوں نے عود روح کے نام پر قبول کیا ہوا ہے ) ساتھ ہی ابن سبا نے اس عقیدہ کا بھی پرچار کیا کہ قرآن  کہتا ہے تمام انبیاء پر ایمان لانا ہے تو پھر ہم کیوں بنی اسرائیلی انبیاء کو نہ مانیں اور ان کی کتب کو قرآن پر ترجیج دیں  مثلا داود علیہ السلام کی نسل میں جو  انبیاء آئے

سورہ الحدید میں ہے

وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولَٰئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ ۖ وَالشُّهَدَاءُ عِندَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ 

اور وہ جو الله پر ایمان لائے اور اس کے رسولوں پر وہ سچے ہیں 

ابن سبا کے نزدیک صرف زبان کا اقرار نہیں بلکہ  ایمان کامل نہ ہو گا جب تک ان  سابقہ انبیاء کے حکم پر عمل نہ کیا جائے – ابن سبا کے نزدیک قرآن کی بہت سی آیات دو مخالف الوحی کی موجودگی میں نہیں چلے گی مثلا قرآن میں ہے کہ حدود میں گواہ لاو – لیکن ابن سبا کے نزدیک یہ حکم داود علیہ السلام نے نہیں کیا ہے لہذا یہ گواہ طلب کرنا غیر ضروری ہوا – افسوس اس قسم کی سوچ کے چند اقوال اہل تشیع کی کتب میں در کر آئے ہیں

اہل تشیع کی کتاب كلمات الإمام الحسين (ع) الشيخ الشريفي ، مختصر بصائر الدرجات- الحسن بن سليمان الحليي میں ہے
حدثنا إبراهيم بن هاشم، عن محمد بن خالد البرقي، عن ابن سنان أو غيره، عن بشير، عن حمران، عن جعيد الهمداني ممن خرج مع الحسين عليه السلام بكربلا، قال: فقلت للحسين عليه السلام جعلت فداك بأي شئ تحكمون. قال [عليه السلام]: يا جعيد نحكم بحكم آل داود، فإذا عيينا عن شئ تلقانا به روح القدس

جعيد الهمداني جو امام حسین علیہ السلام کے خروج کربلا میں  ساتھ نکلے تھے روایت کرتے ہیں کہ میں نے امام حسین سے پوچھا کہ آپ کس بات کا حکم کرتے ہیں ؟ حسین نے فرمایا ہم ائمہ ال داود کے حکم پر حکم کرتے ہیں- جب ہم کسی چیز کو تلاش کرتے ہیں تو ہم پر روح القدس سے القا کیا جاتا ہے

معلوم ہوا کہ سبائیوں کے  نزدیک حسین رضی اللہ عنہ  قرآن کی سر بلندی کے لئے نہیں بلکہ شریعت داودی کی سر بلندی کے لئے خروج کر رہے تھے – جعيد الهمداني کا تذکرہ  اہل سنت کی کتب میں موجود نہیں جس سے معلوم ہوتا ہے یہ کوئی مجہول تھا

اہل تشیع کی کتاب الخرائج والجرائح از قطب الدين الراوندي میں امام ابو عبد اللہ کے کشف یا خواب کا ذکر ہے

وعن محمد بن عيسى بن عبيد ، عن صفوان
بن يحيى ، عن أبي علي الخراساني ، عن أبان بن تغلب ، عن أبي عبدالله عليه السلام
قال : كأني بطائر أبيض فوق الحجر ، فيخرج من تحته رجل يحكم بين الناس بحكم آل
داود وسليمان ، ولايبتغي بينة
أبان بن تغلب نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ میں دیکھ رہا ہوں میں ایک سفید پرندہ پر ہوں چٹان پر اور میرے قدم سے نکلا جو لوگوں پر حکم کرے گا ال داود و سلیمان کی طرح اور شہادت طلب نہیں کرے گا

شیعوں کی معجم أحاديث المهدي میں ہے

سيأتي من مسجدكم هذا يعني مكة ثلثمائة وثلث ( ثلاثة ) عشر رجلا ،
يعلم أهل مكة أنه لم يلدهم آبائهم ولا أجدادهم ، عليهم السيوف مكتوب
على كل سيف كلمة تفتح ألف كلمة ، تبعث الريح فتنادي بكل واد : هذا
المهدي هذا المهدي ، يقضي بقضاء آل داود ولا يسأل عليه بينة

مسجد الحرام پر ٣٣٠ مرد آئیں گے جن کو اہل مکہ جانتے ہوں گے کہ یہ ان کے باپوں و دادا کی اولاد نہیں ان پر تلواریں ہوں گی جن پر ایک کلمہ لکھا ہو گا – اس کلمہ سے ہزار کلمے اور کھلیں گے ایک ہوا آئی گی جس سے وادی گونجے گی کہ یہ المہدی ہے یہ المہدی ہے یہ ال داود کے مطابق فیصلہ کرے گا اور گواہی طلب نہیں کرے گا

محمد بن يحيى ، عن أحمد بن محمد ، عن محمد بن سنان ،
عن أبان قال : سمعت أبا عبدالله عليه السلام يقول : – كما في رواية بصائر الدرجات الاولى .
الارشاد : ص 365 – 366 – مرسلا ، عن عبدالله بن عجلان ، عنه عليه السلام ، إذا قام قائم
آل محمد صلي الله عليه وآله حكم بين الناس بحكم داود عليه السلام لا يحتاج إلى بينة ،
يلهمه الله تعالى فيحكم بعلمه ، ويخبر كل قوم بما استبطنوه ، ويعرف وليه من عدوه
بالتوسم ، قال الله سبحانه : إن في ذلك لآيات للمتوسمين وإنها لبسبيل مقيم ” .

جب ال محمد قائم ہوں گے وہ لوگوں کے درمیان داود کے حکم پر حکم کریں گے ان کو شہادت کی ضرورت نہ ہو گی

مدعا یہ ہے کہ امام المہدی شریعت محمدی کے تحت فیصلہ کرنے کے پابند نہ ہوں گے بلکہ چونکہ قرآن میں تمام انبیاء کو ماننے کا ذکر ہے تو وہ اس میں شریعت داود پر عمل کریں گے

ابن سبا کا یہ تصور اصل میں داودی نسل سے مسیح کا تصور ہے جس کے یہودی منتظر تھے اور ان کے نزدیک اصلی مسیح کا ظہور نہیں ہوا ہے –

صحیح عقیدہ یہ ہے کہ ہم صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و شریعت کی اتباع کریں گے -سابقہ انبیاء کی شریعتون کو ہم مانتے ہیں کہ من جانب الله تھیں لیکن وقتی و محدود علاقوں کے لئے تھیں – شریعت محمدی تمام عالم کے لئے ہے

ڈاکٹر عثمانی رحمہ اللہ علیہ نے شریعت محمدی تمام عالم کے لئے ہے کے موضوع پر  لکھا ہے سابقہ  انبیاء پر ایمان کا مطلب ان کی شریعتوں پر بلا دلیل سنت محمد (ص) عمل نہیں ہے

راقم  کہتا ہے عثمانی صاحب نے اس کا انکار نہیں کیا ہے کہ تمام انبیاء پر ایمان لایا جائے بلکہ مراد انکار اس  سنت انبیاء  کا ہے جس کی تائید سنت محمد میں نہ ہو – جہاں تک انبیاء سابقہ کی کتب کا تعلق ہے تو ان میں تین میں تحریف ہوئی یعنی  توریت زبور اور انجیل  میں ان  کتب میں زبور داود علیہ السلام کی کتاب ہے اور اس کو اہل کتاب نے اشعار کی کتاب بنا دیا ہے  جس میں جا بجا اصف بن برخیاہ نامی شخص کے اضافہ بھی ہیں – اصف ایک   شخص تھا جس کوحشر اول سے قبل  اشوریوں نے غلام بنایا  لیکن شیعہ کہتے ہیں وہ علی رضی اللہ عنہ تھے اس دور میں اصف کے جسم سے جانے  جاتے تھے

 

اصف بن بر خیا کا راز

 

 

سرگزشت تصوف و سرية

سرگزشت تصوف و سرية

تصوف و سرية  داؤن لوڈ  کریں

تصوف ایک   وقت   تھا    جب اسکے    لٹریچر       میں   صرف زہد ہوتا   تھا – دنیا سے غیر ضروری بے زاری کا ذکر ہوتا     اور بس الله تک پہنچنے کا ذکر ہوتا –    پھر  اس میں  ارتقاء   ہوا    کہ  جو الله تک پہنچ گئے یعنی مدفون یا مقبور ان سے   لوگوں  کا  غیر معمولی لگاؤ ہوا – اس کے پیچھے بد نیتی نہیں تھی بس زہد تھا جس کی بنا پر ایسا کیا گیا –      قبروں پر جانا شریعت  میں ممنوع  عمل نہیں   بلکہ دنیا کی  بے ثباتی  یاد رکھنے کے لئے وہاں جانے کا حکم ہے-  زہاد نے     وقت     گزرنے   کے ساتھ ساتھ عباسی  دور خلافت   کے شروع میں     یہ تصور قائم کیا کہ مدفون  اولیاء   اللہ ان قبروں میں  ہی  زندہ ہیں ،  شہداء زندہ ہیں ، انبیاء زندہ ہیں  اور وہ  رزق  بھی  پا رہے ہیں-  اس کو ثابت  کرنے کے لئے قرانی آیات سے  استنباط کیا گیا    اور  احادیث  و روایتوں کو بھی بیان کیا گیا –   تصوف   اس صنف میں جو کتب    تالیف ہو رہی تھیں وہ نہایت غلط سلط روایات کا مجموعہ تھیں- لوگوں نے ان    روایات کو قبول کر لیا اور پھر صحیح    احادیث کے مفہوم  کو بھی اسی سانچے میں ڈھال   کر تشریح  کی گئی –   اس عمل میں زہد  تصوف میں بدل گیا –   متصوفین   چونکہ  علم  حدیث کے عالم نہیں تھے  افسوس وہ انہی ضعیف روایات کی عینک سے  قرآن و  صحیح   احادیث  کی تشریح کرنے لگے      جس سے وہ مفہوم نکلتا  جو قرانی عقائد کے خلاف ہوتا   –    لیکن چونکہ  سن   ٥٠٠ ہجری   تک   امت کی اکثریت  میں   پاپولر   مذھب   قبروں سے متصف ہونا ہی ہو گیا تھا تو اس کو جمہور کی سند پر  اللہ کی مرضی مان لیا گیا –

اعتقادی  مسائل   میں  متصوفین    نے  بہت سے مراحل    و  مدارج طے  کیے     ہیں –  ان میں انڈر  گراونڈ  تحریکوں  کی طرح    جہم بن  صفوان  کے  خیالات،  وحدت الوجود    کی شکل  میں ظاہر ہوئے –  ساتھ  ہی  فلسفہ   یونان بھی شامل  ہو ا –     نصرانی و یونانی    ہومواوسس   یا  ہمہ  اوست   بھی  آ یا  – مصری    غناسطیت   بھی اس میں نظر اتی ہے  –    ہمالیہ   یا سینٹرل  ایشیا   کے   راہب   بھی عرب   ، عراق و شام  پہنچ رہے تھے-  یمنی  ابن سبا   اور   شیعی       زہاد   بھی  اس مجمع    میں     حصہ  رسدی   کا کام کر رہے تھے –   دوسری طرف  روایت پسند محدثین   زہد پر کتب لکھ رہے تھے جس میں ہر قسم کا رطب و یابس  نقل ہو رہا تھا –    ان  تمام  افکار    کا تصوف پر اثر ہوا اور آج      تصوف میں بیک وقت  وحدت الوجود ، ہمہ  اوست ،   فنا و  بقا، حلول ،  چلہ کشی ،   سب موحود   ہے   اور   قبول کر لی  گئی ہے  –

اسلامی تصوف کی      تمام  شکلوں    و   جہتوں   پر بات  کرنا  ایک ہی نشست و کتاب   میں  ممکن نہیں  ہے   –     راقم   کی   کتاب مجمع  البحرین (مجمع البحرین)    ویب سائٹ   پر  پہلے سے  موجود ہے –     کتاب هذا   میں     ویب  سائٹ  اسلامک بلیف   پر      تصوف و سریت  سے متعلق  پیش کردہ   چند     مضامین کو   یکجا کیا گیا  ہے   اور      قارئین کی دلچسپی   کے لئے   کچھ چنیدہ  مباحث   کو  اکٹھا     کیا گیا ہے –

ابو شہر یار

 

روایت عود روح کی نکارت

قرآن کی آیت

 ربنا أمتنا اثنتين وأحييتنا اثنتين

وہ کہیں گے اے رب ہم کو دو بار زندہ کیا گیا اور دو بار موت دی گئی

 پر بھی اہل سنت اور اہل تشیع کا اختلاف ہے – اہل سنت اس کو عموم کہتے ہیں جبکہ اہل تشیع اس کو خاص – اہل سنت کے مطابق تمام انسانوں  کو دو زندگیاں اور دو موتیں ملیں ہیں – اہل تشیع کے مطابق یہ آیت خاص ہے  اس میں ان  دشمنان اہل بیت  کا ذکر ہے  جن کے گناہوں کا عذاب ان کو دنیا میں نہیں ملا اور مر گئے لہذا ان کو زندہ  کیا جائے گا اسی طرح اہل بیت کو بھی قیامت سے قبل زندہ کیا جائے گا

تفسیر نور ثقلین  از عبد على بن جمعة العروسى الحويزى  المتوفی ١١١٢ ھ کے مطابق

وقال على بن ابراهيم رحمه الله في قوله عزوجل : ربنا أمتنا اثنتين و أحييتنا اثنتين إلى قوله من سبيل قال الصادق عليه السلام : ذلك في الرجعة

علی بن ابراہیم نے کہا الله کا قول ربنا أمتنا اثنتين و أحييتنا اثنتين تو اس پر امام جعفر نے کہا یہ رجعت سے متعلق ہے

اہل تشیع میں یہ عقیدہ اصلا ابن سبا سے آیا- یہود بھی رجعت کا عقیدہ رکھتے ہیں اور ان کے مطابق مسیح آ کر مردوں کے لشکر کے لشکر زندہ کرے گا-  قرن اول میں  کوفہ میں ابن سبا رجعت کا عقیدہ بھی پھیلا رہا ہے اور وہاں   شیعہ  زاذان  بھی تھا جو فارسی النسل تھا (اغلبا  فارس کا یہودی) اور اصحاب علی  میں سے تھا   وہ روایت کرتا ہے کہ مردہ میں عود روح ہوتا ہے – اس بات کو زاذان  سے پہلے،  نہ بعد میں ، کوئی روایت نہیں کرتا – عود روح کی یہ واحد روایت ہے جس میں صریحا جسد میں روح کے لوٹنے کا ذکر ہے

عقیدہ رجعت کا اصل مقصد اصل میں عدل کا قیام ہے کیونکہ دشمنان اہل بیت جو ظلم کرتے رہے وہ بغیر سزا پائے مر گئے ضروری ہے کہ وہ اس دنیا سے فرار نہ ہوں اور ان کی روحوں کو ان کے جسموں میں قیدکر دیا جائے لہذا زاذان نے روایت میں متن ڈالا کہ جب   خبیث روح آسمان کی طرف جاتی ہے اس کو زمین کی طرف پھنبک دیا جاتا ہے

مسند احمد کی روایت کے متن میں ہے

قَالَ: ” وَإِنَّ الْعَبْدَ الْكَافِرَ إِذَا كَانَ فِي انْقِطَاعٍ مِنَ الدُّنْيَا وَإِقْبَالٍ مِنَ الْآخِرَةِ، نَزَلَ إِلَيْهِ مِنَ السَّمَاءِ مَلَائِكَةٌ سُودُ الْوُجُوهِ، مَعَهُمُ الْمُسُوحُ، فَيَجْلِسُونَ مِنْهُ مَدَّ الْبَصَرِ، ثُمَّ يَجِيءُ مَلَكُ الْمَوْتِ، حَتَّى يَجْلِسَ عِنْدَ رَأْسِهِ، فَيَقُولُ: أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِيثَةُ، اخْرُجِي إِلَى سَخَطٍ مِنَ اللهِ وَغَضَبٍ “. قَالَ: ” فَتُفَرَّقُ فِي جَسَدِهِ، فَيَنْتَزِعُهَا كَمَا يُنْتَزَعُ السَّفُّودُ مِنَ الصُّوفِ الْمَبْلُولِ، فَيَأْخُذُهَا، فَإِذَا أَخَذَهَا لَمْ يَدَعُوهَا فِي يَدِهِ طَرْفَةَ عَيْنٍ حَتَّى يَجْعَلُوهَا فِي تِلْكَ الْمُسُوحِ، وَيَخْرُجُ مِنْهَا كَأَنْتَنِ رِيحِ جِيفَةٍ وُجِدَتْ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ، فَيَصْعَدُونَ بِهَا، فَلَا يَمُرُّونَ بِهَا عَلَى مَلَأٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ، إِلَّا قَالُوا: مَا هَذَا الرُّوحُ الْخَبِيثُ؟ فَيَقُولُونَ: فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ بِأَقْبَحِ أَسْمَائِهِ الَّتِي كَانَ يُسَمَّى بِهَا فِي الدُّنْيَا، حَتَّى يُنْتَهَى بِهِ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَيُسْتَفْتَحُ لَهُ، فَلَا يُفْتَحُ لَهُ “، ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: {لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ} [الأعراف: 40] فَيَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: ” اكْتُبُوا كِتَابَهُ فِي سِجِّينٍ فِي الْأَرْضِ السُّفْلَى، فَتُطْرَحُ رُوحُهُ طَرْحًا “. ثُمَّ قَرَأَ: {وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللهِ، فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ} [الحج: 31] ” فَتُعَادُ رُوحُهُ فِي جَسَدِهِ،

 اور جب کوئی کافر شخص دنیا سے رخصتی اور سفر آخرت پر جانے کے قریب ہوتا ہے تو اس کے پاس آسمان سے سیاہ چہروں والے فرشتے اتر کر آتے ہیں جن کے پاس ٹاٹ ہوتے ہیں وہ تاحد نگاہ بیٹھ جاتے ہیں پھر ملک الموت آ کر اس کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ اے نفس خبیثہ ! اللہ کی ناراضگی اور غصے کی طرف چل یہ سن کر اس کی روح جسم میں دوڑنے لگتی ہے اور ملک الموت اسے جسم سے اس طرح کھینچتے ہیں جیسے گیلی اون سے سیخ کھینچی جاتی ہے اور اسے پکڑ لیتے ہیں فرشتے ایک پلک جھپکنے کی مقدار بھی اسے ان کے ہاتھ میں نہیں چھوڑتے اور اس ٹاٹ میں لپیٹ لیتے ہیں اور اس سے مردار کی بدبوجیسا ایک ناخوشگوار اور بدبودار جھونکا آتا ہے۔ پھر وہ اسے لے کر اوپر چڑھتے ہیں فرشتوں کے جس گروہ کے پاس سے ان کا گذر ہوتا ہے وہی گروہ کہتا ہے کہ یہ کیسی خبیث روح ہے؟ وہ اس کا دنیا میں لیا جانے والا بدترین نام بتاتے ہیں یہاں تک کہ اسے لے کر آسمان دنیا میں پہنچ جاتے ہیں ۔ در کھلواتے ہیں لیکن دروازہ نہیں کھولاجاتا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی ” ان کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے اور نہ ہی وہ جنت میں داخل ہوں گے تاوقتیکہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہوجائے ” اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس کانامہ اعمال ” سجین ” میں سے نچلی زمین میں لکھ دو چنانچہ اس کی روح کو پھینک دیا جاتا ہے پھر یہ آیت تلاوت فرمائی جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے وہ ایسے ہے جیسے آسمان سے گرپڑا پھر اسے پرندے اچک لیں یا ہوا اسے دوردراز کی جگہ میں لے جاڈالے ۔   پھر اس کی روح جسم میں لوٹادی جاتی ہے

یہ بات اس طرح بیان کی گئی ہے کہ گویا یہ غلطی بار بار ملک الموت  ہر خبیث روح کے ساتھ کرتے ہیں کہ  اس کو آسمان کی طرف لاتے ہیں تو پہلے آسمان کے فرشتے روح خبیثہ کو   زمین کی طرف پھینک دیتے ہیں- کیا  ملک الموت یہ غلطی روز کرتے ہیں؟  روایت میں ملک الموت کا اس غلطی سے رجوع درج نہیں ہے لہذا اگر زاذان کی روایت کا  متن   قبول کریں تو معلوم ہوا کہ ملک الموت غلطی بھی کرتا ہے-  غور کریں یہ روایت آخری نبی و رسول سے منسوب ہے جبکہ خبیث روحیں تو اولاد آدم میں سب سے پہلی قابیل کی ہوئی –تب سے لے کر آج تک ملک الموت یہ غلطی کرتا ہے کہ خبیث روح کو آسمان کی طرف لے کر جاتا ہے اور وہاں سے واپس اس کو زمین کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے-

روایت کے مطابق اب خبیث روح جسد میں ہی رہے گی – لہذا فرقوں میں اس روح کے نکلنے یا نہ نکلنے پر اختلاف ہے

  ابن عبد البر کا قول ہے کہ روح  قبرستانوں میں رہتی ہے

اہل حدیث رفیق طاہر مدرس جامعہ دار الحدیث محمدیہ ملتان​  کا موقف ہے کہ  قیامت تک  روح قبر میں ہی رہتی ہے بحوالہ مناظرہ موضوع (اعادہ روح, عذاب قبر)  ملتان  کیونکہ زاذان کی روایت میں اس کو جسم سے نکالنے کا ذکر نہیں ہے

دوسری طرف اہل حدیث میں ابو جابر دامانوی اور ارشد کمال اس عقیدے کے پرچارک ہیں کہ روح کو جسم سے نکال لیا جاتا ہے جس کی دلیل دونوں نے کبھی بھی نہیں دی –   ان کے بقول یہ روح زاذان کی روایت کے بر خلاف جہنم میں پہنچا دی جاتی ہے- اس طرح یہ دونوں اس روایت کے مکمل متن کو بیان  نہیں کرتے نہ اس پر غور کرتے ہیں

زبیر علی زئی  اس سوال سے بھاگتا تھا اور اس کا جواب نہیں دیتا تھا

 

اب ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ خبیث  روح اگر جسم سے نکال لی گئی اور اس کو جہنم   میں   داخل کر دیا گیا تو کہاں یہ سب ہوا ؟ کیونکہ زاذان کی روایت  میں وہ کہتا ہے کہ روح کو پہلے آسمان سے اوپر ہی نہیں جانے دیا جائے گا – اب ایک ہی بات رہ جاتی ہے کہ زاذان کے نزدیک جہنم بھی زمین میں ہے – یہ بات یمنی یہود کے قول کے عین مطابق ہے کہ یمن میں موجود برہوت کا سوراخ اصل میں جہنم تک جانے کا رستہ ہے

اس طرح بعض  لوگوں نے بغیر غور کرے یہ عقیدہ اپنا لیا ہے کہ جہنم اسی زمین کے اندر ہے

سمندر ہی جہنم ہے؟

رفیق طاہر ایک سوال کے  جواب میں کہتے ہیں

عثمانیوں کے اس اعتراض کی بنیاد جہنم کا آسمان پر ہونا ہے۔ جبکہ یہ بنیاد ہی باطل ہے! انہیں کہیں کہ پہلے جہنم کا آسمان پر ہونا ثابت کریں, پھر آگے بات کریں! جنت آسمانوں میں ہے اس لیے جنت میں داخلہ کے لیے آسمانوں کے دروازوں کا کھلنا اور جنت کے دروازوں کا کھولنا ضروری ہے ۔ جبکہ جہنم زمین میں ہے۔

اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ · دروازہ آسمان دنیا کا نہیں کھولا جاتا اور یہی آیت سے مراد ہے۔ · اور یہ بھی ثابت ہوا کہ کافر کا اندراج سجین میں کیا جاتا ہے کہ اسے نچلی زمین میں رکھا جائے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جہنم آسمانوں پر نہیں بلکہ نچلی زمین میں ہے۔ · اور اللہ تعالى کے فرمان “انکے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے” سے بھی جہنم کا آسمانوں پر نہ ہونا ثابت ہوتا ہے۔

سیدنا عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : إِنَّ الْجَنَّةَ فِي السَّمَاءِ ، وَإِنَّ النَّارَ فِي الْأَرْضِ بلا شبہ جنت آسمان میں ہے اور جہنم زمین میں ہے ۔

 مستدرک حاکم : 8698 اوریہ روایت حکما مرفوع ہے۔

مصدر

 http://www.rafiqtahir.com/ur/play-swal-731.html

راقم کہتا ہے یہ فتوی ان احادیث سے متصادم ہے جن میں جہنم کی وسعت کا ذکر ہے

صحیح مسلم  ٢٨٤٤ میں ہے

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ اچانک دھماکے کی آواز آئ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ تمہیں معلوم ہے یہ کیسی آواز ہے ؟
صحابہ نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہے بہتر جانتے ہیں تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !
یہ ایک پتھر تھا جو آج سے ستر سال پہلے جہنم مین پھینکا گیا تھا اور آگ میں گرتا چلا جا رہا تھا اور اب وہ جہنم کی تہ تک پہنچا ہے –

زمین اتنی گہری نہیں کہ اس میں ستر سال تک  چیز گرتی رہے

– جہاں تک عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے قول کا تعلق ہے تو وہ کسی بھی سند سے صحیح نہیں ملا – اس کی تفصیل راقم کی کتاب اثبات عذاب قبر میں دیکھی جا سکتی ہے اور بلاگ

https://www.islamic-belief.net/وَمَا-أَدْرَاكَ-مَا-عِلِّيُّونَ/

میں ان روایات  کا ذکر ہے

وہابی عالم ابن عثيمين سے سوال ہوا کہ : أين توجد الجنة والنار؟  جنت و جہنم  کہاں ہیں ؟

جواب دیا

مكان النار في الأرض ، ولكن قال بعضُ أهل العِلْم : إنَّها البحار ، وقال آخرون: بل هي في باطن الأرض ، والذي يظهر: أنَّها في الأرض ، ولكن لا ندري أين هي مِن الأرض على وَجْهِ التعيين.

جہنم کا مکان  زمین میں ہے  لیکن بعض علماء کہتے ہیں سمندروں میں کہیں ہے اور دوسرے کہتے ہیں یہ زمین میں چھپی ہے لیکن ہم تعيين  کے ساتھ نہیں جانتے کہ زمین میں کہاں

https://islamqa.info/ar/answers/215011/اين-توجد-الجنة-واين-توجد-النار

اس کا رد قرآن میں موجود ہے –  قرآن میں سوره الذاریات میں ہے

وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا توعَدُونَ

اور آسمان ہی میں ہے تمہارا رزق اور وہ جس کا وعدہ کیا گیا ہے

الله تعالی نے انسانوں سے جنت و جہنم کا وعدہ کیا ہے کہ اہل ایمان کو جنت اور کفار کو جہنم میں ڈالے گا

 اس قول کو علی رضی اللہ عنہ سے   منسوب کیا گیا  ہے کہ جہنم زمین میں ہے  – تفسیر طبری میں ہے

حدثني يعقوب، قال: ثنا ابن علية، عن داود، عن سعيد بن المسيب، قال: قال عليّ رضي الله عنه لرجل من اليهود: أين جهنم؟ فقال: البحر، فقال: ما أراه إلا صادقا، (وَالْبَحْرِ الْمَسْجُورِ) (وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ) مخففة.

سعید بن مسیب نے کہا علی نے ایک یہودی سے پوچھا جہنم کہاں ہے ؟ بولا سمندر میں – علی نے کہا میں اس کو سچا سمجھتا ہوں اور آیات پڑھیں   وَالْبَحْرِ الْمَسْجُورِ   اور بھڑکتا سمندر اور (وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ) اور جب سمندر بھڑکا دیے جائیں گے

راقم کہتا ہے  علی سے منسوب یہ قول شاذ ہے کیونکہ خود علی رضی اللہ عنہ نے سمندری غذا کو کھایا ہے

تفسیروں میں ایک قول عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے بھی منسوب کیا گیا ہے کہ

لا يتوضأ بماءِ البحر لأنه طبقُ جهنَّمَ

سمندر کے پانی سے وضو مت کرو کینوکہ یہ جہنم کا طبق ہے

سنن ترمذی میں حدیث کے تحت ترمذی نے لکھا ہے

وَقَدْ كَرِهَ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الوُضُوءَ بِمَاءِ البَحْرِ، مِنْهُمْ: ابْنُ عُمَرَ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو: هُوَ نَارٌ “

اور بعض اصحاب رسول نے سمندری پانی سے وضو پر کراہت کی ہے جن میں ابن عمر اور عبد اللہ بن عمرو ہیں اور ابن عمرو کا کہنا ہے وہ اگ ہے

سنن ابو داود میں ہے

حدَّثنا سعيدُ بن منصور، حدَّثنا إسماعيلُ بن زكريا، عن مُطرِّفٍ، عن بشرٍ أبي عبد الله، عن بَشيرِ بن مُسلم عن عبد الله بن عَمرو قال: قال رسول الله -صلَّى الله عليه وسلم-: “لا يركبُ البحرَ إلا حاجٌّ أو معتمرٌ أو غازٍ في سبيل الله، فإن تحتَ البحرِ ناراً، وتحت النارِ بحراً

عبد الله بن عَمرو نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سمندر کا سفر نہ کرے سوائے اس کے جو حاجی ہو یا عمرہ کرنے والا یا جہاد کرنے والا کیونکہ  سمندر کے نیچے اگ ہے اور اگ کے نیچے سمندر

شعَيب الأرنؤوط کہتے ہیں اس میں سند میں مجہول راوی ہے اور متن شدید منکر ہے

دوسری طرف قرآن میں ہے کہ سمندر کی غذا حلال ہے اور حدیث میں سمندر کے پانی کو پاک قرار دیا گیا ہے اور حدیث ابو ہریرہ میں سمندر کے پانی کو پاک قرار دیا گیا ہے اور اس سے وضو کی اجازت دی گئی ہے

مستدرک حاکم میں ہے

أَخْبَرَنِي أَبُو الْحُسَيْنِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ تَمِيمٍ الْقَنْطَرِيُّ، ثَنَا أَبُو قِلَابَةَ، ثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ، أَخْبَرَنِي صَفْوَانُ بْنُ يَعْلَى، أَنَّ يَعْلَى، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الْبَحْرَ هُوَ جَهَنَّمَ» فَقَالُوا لِيَعْلَى: قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا} [الكهف: 29] فَقَالَ: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا أَدْخُلُهَا أَبَدًا حَتَّى أَلْقَى اللَّهَ وَلَا تُصِيبُنِي مِنْهَا قَطْرَةٌ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ  

رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا سمندر  ہی جہنم   ہے

حاکم نے اس کو صحیح الاسناد قرار دیا ہے  اور الذھبی بھی موافقت کر بیٹھے ہیں جبکہ سند  میں مجہول راوی ہے اور اس کا ذکر بیہقی نے کتاب  البعث والنشور للبيهقي میں کیا ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَةَ، أَنْبَأَ أَبُو عَمْرِو بْنُ نُجَيْدٍ، أَنْبَأَ أَبُو مُسْلِمٍ، ثنا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي رَجُلٌ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى، عَنْ يَعْلَى، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْبَحْرُ هُوَ جَهَنَّمُ»

عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ نے کہا ایک شخص نے بیان کیا اس نے ْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى سے روایت کیا

معلوم ہوا کہ اس حدیث کی سند میں مجہول راوی ہے

الغرض سمندر ہی جہنم ہے یا جہنم سمندر میں ہے اقوال و احادیث ثابت نہیں ہیں

معلوم ہوا کہ فرقہ پرستوں کا کائنات کا  جغرافیہ ہی درست نہیں- ان کے نزدیک جہنم زمین کے اندر ہے

اللہ ان فرقوں کی  گمراہیوں سے بچائے جو سمندر  ہی کی طرح گہری ہیں

اَوْ كَظُلُمَاتٍ فِىْ بَحْرٍ لُّجِّيٍّ يَّغْشَاهُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ سَحَابٌ ۚ ظُلُمَاتٌ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ ۖ اِذَآ اَخْرَجَ يَدَهٝ لَمْ يَكَدْ يَرَاهَا ۗ وَمَنْ لَّمْ يَجْعَلِ اللّـٰهُ لَـهٝ نُـوْرًا فَمَا لَـهٝ مِنْ نُّوْرٍ (40)

یا جیسے گہرے سمندر  میں اندھیرے ہوں اس پر ایک لہر چڑھ آتی ہے اس پر ایک اور لہر ہے اس کے اوپر بادل ہے، اوپر تلے بہت سے اندھیرے ہیں، جب اپنا ہاتھ نکالے تو اسے کچھ بھی دیکھ نہ سکے، اور جسے اللہ ہی نے نور نہ دیا ہو اس کے لیے کہیں نور نہیں ہے۔

غالی اہل سنت اور عمر رض

عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے راقم ذکر کر چکا ہے کہ امام مالک کے ہم عصر روایوں نے ان کے حوالے سے غلو کیا – عمر کو ایک کشفی کے طور پر پیش کیا کبھی دلیل کے طور پر کہا ان کے بارے میں محدث کا لفظ قرآن میں تھا جو سقط یا منسوخ ہو گیا

بعض نے ان کے حوالے سے بیان کیا کہ وہ الوحی کے انے سے پہلے ہی اللہ تعالی کے  احکام جان جاتے تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں جان پاتے تھے مثلا ازواج کو پردہ کرانا یا مقام ابراہیم کو مصلی کرنا یا جنگ بدر کے قیدیوں کا فیصلہ وغیرہ

مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ہے

مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ , نا عُبَيْدُ الله بْنُ عُمَرَ , حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ , عَنْ أَبِيهِ أَسْلَمَ أَنَّهُ حِينَ بُويِعَ لِأَبِي بَكْرٍ بَعْدَ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَلِيٌّ وَالزُّبَيْرُ يَدْخُلَانِ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيُشَاوِرُونَهَا وَيَرْتَجِعُونَ فِي أَمْرِهِمْ , فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِكَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَرَجَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى فَاطِمَةَ فَقَالَ: «يَا بِنْتَ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَالله مَا مِنْ أَحَدٍ أَحَبَّ إِلَيْنَا مِنْ أَبِيكِ , وَمَا مِنْ أَحَدٍ أَحَبَّ إِلَيْنَا بَعْدَ أَبِيكِ مِنْكِ , وَايْمُ الله مَا ذَاكَ بِمَانِعِي إِنِ اجْتَمَعَ هَؤُلَاءِ النَّفَرُ عِنْدَكِ ; أَنْ أَمَرْتُهُمْ أَنْ يُحَرَّقَ عَلَيْهِمِ الْبَيْتُ» , قَالَ: فَلَمَّا خَرَجَ عُمَرُ جَاءُوهَا فَقَالَتْ: تَعْلَمُونَ أَنَّ عُمَرَ قَدْ جَاءَنِي وَقَدْ حَلَفَ بِاللَّهِ لَئِنْ عُدْتُمْ لَيُحَرِّقَنَّ عَلَيْكُمُ الْبَيْتَ وَايْمُ الله لَيَمْضِيَنَّ لِمَا حَلَفَ عَلَيْهِ , فَانْصَرِفُوا رَاشِدِينَ , فَرَوْا رَأْيَكُمْ وَلَا تَرْجِعُوا إِلَيَّ , فَانْصَرَفُوا عَنْهَا فَلَمْ يَرْجِعُوا إِلَيْهَا حَتَّى بَايَعُوا لِأَبِي بَكْرٍ

زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ جب ابو بکر کی بیعت ہوئی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد تو علی اور زبیر، فاطمہ کے پاس آئے اور ان سے مشورہ کرنے لگے اور … پس جب اس کی خبر عمر کو ہوئی تو وہ فاطمہ کے پاس آئے اور کہا اے رسول اللہ کی بیٹی الله کی قسم ہم کو آپ کے باپ سے زیادہ کوئی محبوب نہ تھا اور ان کے بعد آپ سے زیادہ لیکن الله کے لئے یہ مجھے مانع نہ ہو گا کہ میں ایک جتھا اپ کے لئے لے آوں کہ وہ اس گھر کو جلا دے، پس جب عمر چلے گئے تو فاطمہ نے علی سے کہا کیا اپ کو پتا ہے عمر آئے تھے اور الله کی قسم لے کر گئے ہیں کہ اگر دیر کی تو وہ گھر جلا ڈالیں گے اور الله کی قسم وہ یہ کر دیں گے جس کی قسم لی ہے پس سید ھے سیدھے جاؤ …. اور واپس نہ آنا حتی کہ ابو بکر کی بیعت کر لو

یہ روایت متن میں غیر واضح اور تنقیص علی رضی الله عنہ پر مبنی ہے – علی رضی الله عنہ ناراض تھے کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ ان کو اس سے مطلع کیا جاتا اور روایات سے معلوم ہے کہ ابو بکر اور عمر رضی الله عنہما سعد بن عبادہ کو روکنے گئے تھے جو انصار میں سے خلیفہ کا ارادہ رکھتے تھے- عبادہ کو یہ حدیث نہیں پہنچی تھی کہ خلفاء قریش میں سے ہوں گے اس کی وضاحت کے لئے ابو بکر و عمر نے عجلت کی اگر انصار میں سے کوئی خلیفہ ہو جاتا تو مسلمان دو حصوں میں بٹ جاتے ایک طرف انصار ہوتے اور دوسری طرف مہاجرین

یہ روایت فضائل صحابہ از احمد میں بھی ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قثنا أَبُو مَسْعُودٍ قَالَ: نا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو قثنا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: لَمَّا بُويِعَ لِأَبِي بَكْرٍ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ عَلِيٌّ وَالزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ يَدْخُلَانِ عَلَى فَاطِمَةَ فَيُشَاوِرَانِهَا، فَبَلَغَ عُمَرَ فَدَخَلَ عَلَى فَاطِمَةَ فَقَالَ: يَا بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ، مَا أَحَدٌ مِنَ الْخَلْقِ أَحَبَّ إِلَيْنَا مِنْ أَبِيكِ، وَمَا أَحَدٌ مِنَ الْخَلْقِ بَعْدَ أَبِيكِ أَحَبَّ إِلَيْنَا مِنْكِ، وَكَلَّمَهَا، فَدَخَلَ عَلِيٌّ وَالزُّبَيْرُ عَلَى فَاطِمَةَ فَقَالَتِ: انْصَرِفَا رَاشِدَيْنِ، فَمَا رَجَعَا إِلَيْهَا حَتَّى بَايَعَا.
مستدرک الحاکم میں ہے
حَدَّثَنَا مُكْرَمُ بْنُ أَحْمَدَ الْقَاضِي، ثنا أَحْمَدُ بْنُ يُوسُفُ الْهَمْدَانِيُّ، ثنا عَبْدُ الْمُؤْمِنِ بْنُ عَلِيٍّ الزَّعْفَرَانِيُّ، ثنا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «يَا فَاطِمَةُ، وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْكِ، وَاللَّهِ مَا كَانَ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ بَعْدَ أَبِيكِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْكِ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ ”
[التعليق – من تلخيص الذهبي] 4736 – غريب عجيب

اس کو عجیب و غریب الذھبی نے کہا ہے  لیکن رد نہیں کیا

سند میں زيد بن أسلم العَدَوِي العمري المدني المتوفی ١٣٦ ھ ہے جس کا ذکر ابن عدی نے الکامل میں کیا ہے لیکن ثقہ کہا ہے

دوسرے عبيد الله بن عمربن ميسرة القواريري المتوفی ٢٤٠ ھ ہیں جو حماد بن زید بصری کے ہم عصر ہیں یہ ثقہ ہیں

امکان ہے کہ یہ محمد بْن بِشْر بْن الفَرَافِصَة بْن المختار ، أبو عَبْد اللَّه الكُوفيُّ المتوفی ٢٣٠ ھ نے مرسل بیان کیا ہے کیونکہ دیگر اسناد میں واقعہ بیان نہیں ہوا جو محمد بن بشر العبدي نے بیان کیا ہے
محمد بن بشر العبدي ارسال بھی کرتا ہے – ممکن ہے یھاں ارسال ہو اور اصل نام نہیں لیا گیا جس نے اس واقعہ کو بیان کیا

لگتا ہے زيد بن أسلم اور عبيد الله بن عمربن ميسرة القواريري کے درمیان انقطاع ہے
البتہ الکامل از ابن عدی میں ہے
حماد بن زيد قال قدمت المدينة وأهل المدينة يتكلمون في زيد بْن أسلم فقلت لعبد اللَّه ما تقول في مولاكم هذا قَال: مَا نعلم به بأسا إلا أنه يفسر القرآن برأيه.
حماد بن زید نے کہا میں مدینہ پہنچا اور اہل مدینہ زید بن اسلم پر کلام کرتے پس میں نے عبد الله سے پوچھا کہ یہ اس پر کیا کہتے ہیں انہوں نے کہا یہ قرآن کی تفسیر رائے سے کرتا ہے

بعض کتابوں میں ہے کہ حماد سے اس کو عبيد الله بن عمربن ميسرة نے بیان کیا گویا عبيد الله بن عمربن ميسرة اتنے بڑے تھے کہ وہ زید پر تبصرہ کر سکتے تھے جبکہ ان دونوں کی وفات میں سو سال سے اوپر کا فرق ہے – اس قول سے یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ زید اور عبید الله کا سماع بھی ہوا ہے – کتب حدیث میں یہ واحد روایت ہے جو عبید الله نے زید کی سند سے بیان کی ہے

راقم  کو  مسند احمد میں سند ملی

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ، حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ الْحَكَمِ بْنِ أَوْسٍ الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنِي أَبُو عُبَادَةَ الزُّرَقِيُّ الْأَنْصَارِيُّ، مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ

یھاں حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ اور زید کے درمیان دو راوی ہیں

مسند ابویعلی میں سند ہے
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَطَاءٌ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ فَتَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ مِنْ غَرْفَةٍ وَاحِدَةٍ»

یہاں عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ اور زید کے درمیان ایک راوی ہے

اسی کتاب میں بعض دفعہ ان کے درمیان دو راوی اتے ہیں
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ

لہذا صحیح بات ہے کہ ُعبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ کا سماع زید بن اسلم سے نہیں ہے

اگر ایسا ہے تو پھر سند میں حدثنا کیوں ہے ؟ یہ اغلبا محمد بن بشر کی غلطی ہے یا عبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ کا  جھوٹ ہے

یعنی قرن دوم میں اس روایت کو گھڑا گیا تاکہ ثابت کیا جا سکے کہ عمر رضی الله عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کو دھمکی دی تو انہوں نے بیعت کی – یہ روایات ثابت کرتی ہے کہ ثقات میں غالی اہل سنت موجود ہیں جو روافض کی طرح عمر کو چڑھا رہے تھے

سعد بن عبادہ رضی الله عنہ نے ابو بکر رضی الله عنہ کی بیعت نہیں کی کیونکہ ان کو لگا کہ اسلام میں اب انصار کا رول ختم ہو گیا ہے اب تو صرف قریشی خلفاء ہوں گے – علی رضی الله عنہ کسی سے ڈرنے والے نہ تھے ان کا اپنا مزاج تھا اور صحیح بخاری کے مطابق ٦ ماہ بعد انہوں نے ابو بکر کی بیعت کی – یہاں تک کہ ان راویوں نے یہ بھی  کہا ہے کہ عمر نے علی رضی اللہ عنہ کا گھر جلا دینے کی دھمکی دی – اہل بیت اور زبیر رضی اللہ عنہم  رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے لوگ تھے یہ تدفین اور رشتہ داروں کے ساتھ تھے ان سب کو بعد میں معلوم ہوا کہ یہ سب ہو گیا ہے – الفرض اگر جانے سے پہلے شیخین مسجد النبی میں اعلان کرا دیتے کہ اس باغ میں یہ ہو رہا ہے ہم وہاں جا رہے ہیں تو یہ اشتعال پر مبنی ہوتی کیونکہ قریش اور مہاجرین بدک جاتے اور ان کے انصار سے تعلقات کشیدہ ہو جاتے

بحث کے اصل مدعا پر اتے ہیں کہ یہ کہانی مشہور کی گئی کہ عمر رضی اللہ عنہ نے علی و فاطمہ رضی اللہ عنہم کو دھمکی دی کہ وہ گھر جلا ڈالیں گے تب کہیں جا کر علی نے بیعت کی – اس کو گھڑنے والے  عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ  ہوئے کیونکہ سند میں ان کا دور وہ دور ہے جس میں عمر کے حوالے سے غلو شروع  ہوچکا تھا – خود  عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ  کا سماع بھی زید سے نہیں ہے – اور مصنف ابن ابی شیبہ میں  عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ  جو حدثنا کہا ہے وہ بھی قابل رد ہے – محدثین کا کہنا ہے کہ راوی کا سماع نہ ہو حدثنا کہہ دے تو وہ کذب ہے

 عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ  کو آج تک اہل سنت ثقہ کہتے  آئے ہیں اور ان روایات کو چھپاتے رہے ہیں  لیکن راقم کے نزدیک  عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ  فیہ نظر کے درجے پر ہے اس کی اور روایات بھی ہیں جن میں متن عجیب و غریب ہے

 

کائنات کا منظر

عمر رضی الله تعالی عنہ کی شہادت کے بعد ایک شخص بنام عبدللہ بن سبا اسلام میں ظاہر ہوا اس نے دین میں شیعہ عقیدے کی بنیاد ڈالی اور نئی تشریحات کو فروغ دیا

الشھرستانی  اپنی کتاب الملل و النحل ص ٥٠ پر لکھتے ہیں

 السبائية أصحاب عبد الله بن سبأ؛ الذي قال لعلي كرم الله وجهه: أنت أنت يعني: أنت الإله؛ فنفاه إلى المدائن. زعموا: أنه كان يهودياً فأسلم؛ وكان في اليهودية يقول في يوشع بن نون وصي موسى عليهما السلام مثل ما قال في علي رضي الله عنه. وهو أول من أظهر القول بالنص بإمامة علي رضي الله عنه. ومنه انشعبت أصناف الغلاة. زعم ان علياً حي لم يمت؛ ففيه الجزء الإلهي؛ ولا يجوز أن يستولي عليه، وهو الذي يجيء في السحاب، والرعد صوته، والبرق تبسمه: وأنه سينزل إلى الأرض بعد ذلك؛ فيملأ الرض عدلاً كما ملئت جوراً. وإنما أظهر ابن سبا هذه المقالة بعد انتقال علي رضي الله عنه، واجتمعت عليع جماعة، وهو أول فرقة قالت بالتوقف، والغيبة، والرجعة؛ وقالت بتناسخ الجزء الإلهي في الأئمة بعد علي رضي الله عنه.

السبائية : عبداللہ بن سبا کے ماننے والے ۔ جس نے علی كرم الله وجهه سے کہا کہ:  تو، تو ہے یعنی تو خدا ہے پس علی نے اس کو  مدائن کی طرف ملک بدر کر دیا ۔ ان لوگوں کا دعوی ہے کہ وہ (ابن سبا) یہودی تھا پھر اسلام قبول کر لیا ۔ انہوں نے کہا کہ موسیٰ کا جانشین یوشع بن نون تھا اور اسی طرح علی ( اللہ ان سے راضی ہو) ۔ اور وہ (ابن سبا)  ہی ہے جس نے سب سے پہلے علی  کی امامت کے لئے بات پھیلآئی ۔ اور اس سے غالیوں کے بہت سے فرقے وابستہ ہیں ۔ ان کا خیال تھا کہ علی زندہ ہے اور انتقال نہیں کر گئے ۔ اور علی میں الوہی حصے تھے اور الله نے ان کو لوگوں پر ظاہر کرنے کے لئے اجازت نہیں دی ۔ اور وہ (علی) بادلوں کے ساتھ موجود ہیں اور آسمانی بجلی ان کی آواز ہے اور کوند انکی مسکراہٹ ہے اور وہ اس کے بعد زمین پر اتریں گے اور اس کو عدل سے بھر دیں گے جس طرح یہ  زمین ظلم سے بھری ہے۔ اور علی کی وفات کے بعد ابن سبا نے اس کو پھیلایا۔ اور اس کے ساتھ (ابن سبا) کے ایک گروپ جمع ہوا اور یہ پہلا فرقہ جس نے توقف (حکومت کے خلاف خروج میں تاخر)، غیبت (امام کا کسی غار میں چھپنا) اور رجعت (شیعوں کا امام کے ظہور کے وقت زندہ ہونا) پر یقین رکھا ہے ۔ اور وہ علی کے بعد انپے اماموں میں الوہی اجزاء کا تناسخ کا عقید ہ رکھتے ہیں

ابن اثیر الکامل فی التاریخ ج ٢ ص ٨ پر لکھتے ہیں

أن عبد الله بن سبأ كان يهودياً من أهل صنعاء أمه سوداء، وأسلم أيام عثمان، ثم تنقل في الحجاز ثم بالبصرة ثم بالكوفة ثم بالشام يريد إضلال الناس فلم يقدر منهم على ذلك، فأخرجه أهل الشام، فأتى مصر فأقام فيهم وقال لهم: العجب ممن يصدق أن عيسى يرجع، ويكذب أن محمداً يرجع، فوضع لهم الرجعة، فقبلت منه، ثم قال لهم بعد ذلك: إنه كان لكل نبي وصي، وعلي وصي محمد، فمن أظلم ممن لم يجز وصية رسول الله، صلى الله عليه وسلم، ووثب على وصيه، وإن عثمان أخذها بغير حق، فانهضوا في هذا الأمر وابدأوا بالطعن على أمرائكم

 عبداللہ بن سبا صنعاء، یمن کا یہودی تھا اس کی ماں کالی تھی اور اس نے عثمان کے دور میں اسلام قبول کیا. اس کے بعد یہ حجاز منتقل ہوا  پھربصرة پھر کوفہ پھر شام، یہ لوگوں کو گمراہ کرنا چاہتا تھا لیکن اس میں کامیاب نہ ھو سکا.  اس کو اہل شام نے ملک بدر کیا اور یہ مصر پہنچا اور وہاں رہا اور ان سے کہا: عجیب بات ہے کہ تم لوگ کہتے ہو کہ عیسیٰ واپس ائے گا اور انکار کرتے ھو کہ نبی محمّد صلی الله علیہ وسلم واپس نہ آیئں گے. اس نے ان کے لئے رجعت کا عقیدہ بنایا اور انہوں نے اس کو قبول کیا. پھر اس نے کہا : ہر نبی کےلئے ایک وصی تھا اور علی محمّد کے وصی ہیں لہذا سب سے ظالم وہ ہیں جنہوں نے آپ کی وصیت پر عمل نہ کیا. اس نے یہ بھی کہا کہ عثمان نے بلا حق، خلافت پر قبضہ کیا ہوا ہے  لہذا اٹھو اور اپنے حکمرانوں پر طعن کرو

 ابن سبا کو اسلام میں موت و حیات کے عقیدے کا پتا تھا  جس کے مطابق زندگی دو دفعہ ہے اور موت بھی دو دفعہ. اس کی بنیاد  قرآن کی آیات ہیں

سورہ غافر میں ہے

قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَىٰ خُرُوجٍ مِّن سَبِيلٍ

وہ (کافر) کہیں  گےاے رب تو نے دو زندگیاں دیں اور دو موتیں دیں ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں پس یہاں (جہنم ) سے نکلنے کا کوئی رستہ ہے

ابن سبا نے اس عقیدے پر حملہ کیا اور ان آیات کو رجعت کی طرف موڑ دیا کہ مستقبل میں جب خلفاء کے خلاف خروج ہو گا تو ہم مر بھی گئے تو دوبارہ زندہ ہوں گے اور ہمارے دشمن دوبارہ زندہ ہو کر ہمارے ہاتھوں ذلیل ہونگے. اس آیت کا شیعہ تفاسیر میں یہی مفھوم لکھا ہے اور اہل سنت جو مفھوم بیان کرتے ہیں وہ شیعہ کے نزدیک اہل سنت کی  عربی کی   غلط سمجھ بوجھ ہے

رجعت کے عقیدہ کو اہل سنت میں استوار کرنے کے لئے دو زندگیوں اور دو موتوں والی آیات کو ذھن سے نکالنا ضروری تھا. اس کے لئے عود روح کی روایت بنائی گئیں کہ ایک دفعہ مردے میں موت کا مفھوم ختم ہو جائے تو پھر میدان صاف ہے. آہستہ آہستہ اہل سنت مردے کے سننے اور مستقبل میں کسی مبارزت طلبی پر قبر سے باہر نکلنے کا عقیدہ اختیار کر ہی لیں گے

 لہذا عود روح  کی روایات شیعہ راویوں  زاذان، المنھال بن عمرو، عدی بن ثابت، عمرو بن ثابت نے اصحاب رسول کی طرف منسوب کیں اور بالاخر یہ راوی کم از کم اس بات میں کامیاب ہوئے کہ دو موتوں اور دو  زندگیوں کا اصول ذہن سے محو ہو گیا

ابن سبا کے فلسفے کی بنیاد اس کے اپنے ذاتی خیالات نہیں تھے بلکہ یہ تمام انبیاء سابقہ سے منسوب اہل کتاب کی کتب میں موجود ہیں- البتہ اہل سنت کے شیعیی راویوں نے اس فلسفے کو روایات میں پررو کر ہم تک مکمل صحت کے ساتھ پہنچا دیا ہے – دوسری طرف الله تعالی کا فیصلہ ہے کہ

يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ ۚ وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ

الله مومنو کو قول ثابت پر دنیا میں اور آخرت میں مضبوط کرے گا اور ظالموں کو گمراہ کرے گا – وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے

لہذا الله کا حکم ہوا کہ لوگ گمراہ ہوں اور ابن سبا کے عقیدے کے  پر چارک بن جائیں – زاذان اور المنھال بن عمرو اسی طبقے کے دو راوی ہیں جنہوں نے رجعت کے عقیدے کو استوار کرنے کے لئے مردے میں عذاب قبر کے بہانے سے روح کے پلٹ انے کا ذکر کیا ہے – یعنی ان کے مطابق مومن کی روح اور کافر کی روح دونوں قبر میں آ جاتی ہیں

ابن سبا یمن کا ایک صوفی یہودی تھا وہاں اس کو برھوت کی خبر تھی جو  یہود کے نزدیک جہنم تک جانے کا رستہ ہے اور اس کی تہہ میں سمندر میں ابلیس بیٹھا ہے – برھوت کی خبر سنی سمجھے جانے والے  راویوں نے بھی دی جو لا علم علماء نے قبول کی- اس قسم کے اقوال کعب احبار بھی پھیلا رہا تھا – تفسیر طبری میں ہے

حدثنا ابن حميد، قال: ثنا يعقوب القُمِّي، عن حفص بن حميد، عن شمر، قال: جاء ابن عباس إلى كعب الأحبار، فقال له ابن عباس: حدِّثني عن قول الله: (إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ … ) الآية، قال كعب: إن روح الفاجر يصعد بها إلى السماء، فتأبى السماء أن تقبلها، ويُهبط بها إلى الأرض فتأبى الأرض أن تقبلها، فتهبط فتدخل تحت 
سبع أرضين، حتى ينتهي بها إلى سجين، وهو حدّ إبليس، فيخرج لها من سجين من تحت حدّ إبليس، رَقّ فيرقم ويختم ويوضع تحت حدّ إبليس بمعرفتها
شمر نے کہا ابن عباس کعب الاحبار کے پاس پہنچے اس سے کہا الله کے قول پر بیان کرو- کعب نے کہا فاجر کی روح آسمان کی طرف جاتی ہے تو آسمان اس کو قبول کرنے میں کراہت کرتا ہے اس کو زمین کی طرف بھیجا جاتا ہے تو زمین کراہت کرتی ہے تو اس کو ساتویں زمین میں داخل کر دیا جاتا ہے یہاں تک کہ سجین میں جا پہنچتی ہے جو ابلیس کی حد ہے .. وہاں ایک ورقه نکلتا ہے جس میں رقم کیا جاتا ہے اور مہر لگائی جاتی ہے اور رکھا جاتا ہے ابلیس کے قید کے نیچے جاننے کے لئے

اسی سند سے تفسیر طبری میں ہے
حدثنا ابن حميد، قال: ثنا يعقوب القُمِّي، عن حفص، عن شمر بن عطية، قال: جاء ابن عباس إلى كعب الأحبار فسأله، فقال: حدثْنِي عن قول الله: (إِنَّ كِتَابَ الأبْرَارِ لَفِي عِلِّيِّينَ … ) الآية، فقال كعب: إن الروح المؤمنة إذا قُبِضت، صُعد بها، فَفُتحت لها أبواب السماء، وتلقَّتها الملائكة بالبُشرَى، ثم عَرَجُوا معها حتى ينتهوا إلى العرش، 
فيخرج لها من عند العرش فيُرقَم رَقّ، ثم يختم بمعرفتها النجاة بحساب يوم القيامة، وتشهد الملائكة المقرّبون.
ابن عباس نے کعب الاحبار سے عِلِّيِّينَ سے متعلق پوچھا تو کعب نے کہا مومنوں کی روحیں جب قبض ہوتی ہیں بلند ہوتی ہیں یہاں تک کہ آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور فرشتے بشارت دیتے ہیں پھر بلند ہوتی ہیں یھاں تک کہ عرش تک پہنچ جاتے ہیں پس عرش کے پاس ایک ورقه ہے جس میں رقم کرتے ہیں پھر مہر لگتی ہے معرفت کے لئے کہ قیامت میں حساب سے نجات ہو گی اور مقرب فرشتے گواہ بنتے ہیں

دونوں کی سند ایک ہے ضعیف ہے
میزان کے مطابق حفص بن حميد، أبو عبيد القمى کو ابن المديني: مجهول کہتے ہیں
دوسرے راوی يعقوب بن عبد الله القمي کو الدارقطني ليس بالقوي قوی نہیں کہتے ہیں

تفسیر طبری میں ہے

حدثنا ابن وكيع، قال: ثنا ابن نمير، قال: ثنا الأعمش، قال: ثنا المنهال بن عمرو، عن زاذان أبي عمرو، عن البراء، قال: (سِجِّينٍ) الأرض السفلى.
منہال بن عمرو نے زاذان سے روایت کیا کہ البراء، رضی الله عنہ نے کہا سجین نچلی زمین ہے

 ابن کثیر تفسیر میں لکھتے ہیں

 والصحيح أن سجِّيناً مأخوذ من السجن، وهو الضيق ….. والمحل الأضيق إلى المركز في وسط الأرض السابعة

اور صحیح بات ہے کہ سجین ماخوذ ہے سجن قید خانہ سے اور یہ تنگ ہے … اور اس کا مقام ساتویں زمین کا وسط کا مرکز ہے

یعنی سجین ارض کا پیندا ہے

معلوم ہوا کہ سجین تک جانے کا راستہ برھوت سے ہے

چلیں آج برھوت کی سیر کریں

ہوائی جہاز سے برھوت کی تصویر

 برھوت کی خبر یمنی  لوگوں نے دی اور   یہ سجین کا رستہ ہے-

برھوت (سرخ نشان) اور  جابیہ (سبز نشان) میں فاصلہ

کتاب شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة  از اللالكائي (المتوفى: 418هـ) کی روایت ہے

أنا جَعْفَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَعْقُوبَ، قَالَ: أنا مُحَمَّدُ بْنُ   هَارُونَ الرُّويَانِيُّ، قَالَ: نا الرَّبِيعُ، قَالَ: نا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى، أَنَّهُ قَالَ: ” تَخْرُجُ رُوحُ الْمُؤْمِنِ وَهِيَ أَطْيَبُ مِنَ الْمِسْكِ، فَتَعْرُجُ بِهِ الْمَلَائِكَةُ الَّذِينَ يَتَوَفَّوْنَهُ فَتَلْقَاهُ مَلَائِكَةٌ دُونَ السَّمَاءِ فَيَقُولُونَ: مَا هَذَا الَّذِي جِئْتُمْ بِهِ؟ فَتَقُولُ الْمَلَائِكَةُ: تَوِّجُوهُ، هَذَا فُلَانٌ ابْنُ فُلَانٍ كَانَ يَعْمَلُ كَيْتَ وَكَيْتَ لِأَحْسَنِ عَمَلٍ لَهُ , قَالَ: فَيَقُولُونَ: حَيَّاكُمُ اللَّهُ، وَحَيَّا مَا جِئْتُمْ بِهِ، فَتَقُولُ الْمَلَائِكَةُ الَّذِي يَصْعَدُ فِيهِ قَوْلُهُ وَعَمَلُهُ، فَيُصْعَدُ بِهِ إِلَى رَبِّهِ حَتَّى يَأْتِيَ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَهُ بُرْهَانٌ مِثْلُ الشَّمْسِ، وَرُوحُ الْكَافِرِ أَنْتَنُ يَعْنِي: مِنَ الْجِيفَةِ وَهُوَ بِوَادِي حَضْرَ مَوْتَ، ثُمَّ أَسْفَلَ الثَّرَى مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ “

ابو موسی رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ مومن کی روح جب نکلتی ہے تو اس میں سےمشک کی سی خوشبو اتی ہے پس فرشتے اس کو لے کر بلند ہوتے ہیں اور آسمان کے فرشتوں سے ملتے ہیں تو وہ کہتے ہیں یہ تم کیا لے کر آئے ہو ؟ پس فرشتے کہتے ہیں ادھر دیکھو یہ فلاں بن فلاں ہے اس نے ایسا ایسا عمل کیا ہے اچھا – پس فرشتے کہتے ہیں الله تم پر سلامتی کرے اور جو تم لائے ہو اس پر پس فرشتے اس کو لے کر بلند ہوتے ہیں یہاں تک کہ رب تعالی کے پاس جاتے ہیں اور ان کے لئے سورج کی طرح یہ ثبوت ہوتا  ہے   اور کافر کی روح سڑتی ہے یعنی سڑی ہوئی جو حضر الموت کی وادی میں ہے الثری کی تہہ ہیں سات زمین نیچے

اس میں حضر الموت میں وادی کا ذکر ہے جس میں برھوت کا کنواں  ہے لیکن یھاں روایت برھوت کا لفظ نہیں ہے

قارئیں یہ سب پڑھ کر اپ کو اب تک سمجھ آ چکا ہو گا کہ برھوت کو سجین قرار دیا گیا جو یمن میں ایک کنواں ہے جو زمین کی تہہ تک جانے کا رستہ ہے – اب سنن نسائی کی ایک روایت دیکھتے ہیں جس کا ذکر ارشد کمال نے کتاب المسند فی عذاب القبر میں کیا ہے اور اسی روایت کو ابن حبان کہتے کہ برھوت کی خبر ہے

 أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ

صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:

یہاں روایت میں خاص باب الارض کا ذکر ہے کہ کفار کی روحیں زمین کے دروازے پر لائی جاتی ہیں اور وہاں سے ان کو  کفار کی روحوں تک لے جایا جاتا ہے

یہ روایت محدث ابن حبان کے مطابق  برھوت کی ہی خبر ہے

اس کو ابن حبان نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے اور تبصرہ میں وضاحت کی کہ یہ روایت اصل میں برھوت کی خبر ہے  اس کے علاوہ اسی  راوی نے زمین کے دروازے کو بعض اوقات سجین بھی بولا ہے

تہذیب الکمال از المزی میں قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ کے ترجمہ میں اس روایت کے متن میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ بْنُ الْبُخَارِيِّ، قال: أَنْبَأَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الصَّيْدَلانِيُّ، قال: أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِيٍّ الحداد، قال: أَخْبَرَنَا أبو نعيم الْحَافِظُ، قال: حَدَّثَنَا سُلَيْمان بْنُ أَحْمَدَ: قال: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ الأَبَّارُ، قال: حَدَّثَنَا سُلَيْمان بْنُ النُّعْمَانِ الشَّيْبَانِيُّ، قال: حَدَّثَنَا الْقَاسِم بْن الفضل الحداني، عن قَتَادَةَ، عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ، عَن أَبِي هُرَيْرة أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قال: إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا حُضِرَ أَتَتْهُ الْمَلائِكَةُ بِحَرِيرَةٍ فِيهَا مَسْكٌ ومِنْ صَنَابِرَ الرَّيْحَانِ وتَسَلُّ رُوحَهُ كما تَسَلُّ الشَّعْرَةَ مِنَ الْعَجِينِ، ويُقال: يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ اخْرُجِي رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً مَرْضِيًّا عَنْكِ، وطُوِيَتْ عَلَيْهِ الْحَرِيرَةُ، ثُمَّ يُبْعَثُ بِهَا إِلَى عِلِّيِّينَ، وإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا حُضِرَ أَتَتْهُ الْمَلائِكَةُ بِمِسْبَحٍ فِيهِ جَمْرٌ فَتَنْزِعُ رُوحَهُ انْتِزَاعًا شَدِيدًا، ويُقال: يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِيثَةُ اخْرُجِي سَاخِطَةً مَسْخُوطًا عَلَيْكِ إِلَى هَوَانٍ وعَذَابٍ، فَإِذَا خَرَجَتْ رُوحُهُ وضِعَت عَلَى تِلْكَ الْجَمْرةِ، فَإِنَّ لَهَا نَشِيشًا فَيُطْوَى عَلَيْهَا الْمِسْبَحُ ويُذْهَبُ بِهَا إِلَى سِجِّينَ

فرشتے روح کو لے کر سجین جاتے ہیں

سلفی علماء میں ابن رجب اپنی کتاب  أهوال القبور  میں حنابلہ کے لئے لکھتے ہیں

ورجحت طائفة من العلماء أن أرواح الكفار في بئر برهوت منهم القاضي أبو يعلى من أصحابنا في كتابه المعتمد وهو مخالف لنص أحمد: أن أرواح الكفار في النار.
ولعل لبئر برهوت اتصالا في جهنم في قعرها كما روي في البحر أن تحته جهنم والله أعلم ويشهد لذلك ما سبق من قول أبي موسى الأشعري: روح الكافر بوادي حضرموت في أسفل الثرى من سبع أرضين.

اور علماء کا ایک گروہ اس طرف گیا ہے کہ کفار کی روحیں برھوت میں کنواں میں ہیں جن میں قاضی ابو یعلی ہیں ہمارے اصحاب میں سے اپنی کتاب المعتمد  میں اور یہ مخالف ہے نص احمد پر کہ کفار کی روحیں اگ میں ہیں اور ہو سکتا ہے کہ برھوت جہنم سے تہہ میں ملا ہو جیسا کہ روایت ہے کہ سمندر کے لئے کہ اس کے نیچے جہنم ہے و الله اعلم اور اس پر گواہی ہے ابو موسی رضی الله عنہ کے قول کی کہ کافر کی روح حضر الموت کی ایک وادی میں ہے تحت الثری کے پیندے میں ساتویں زمین میں

دامانوی صاحب دین الخالص قسط اول میں لکھتے ہیں

سلف صالحین نے علیین اور سجین کو اعمال ناموں کے دفتر کے علاوہ روحوں کامسکن کہا ہےتوانکی یہ بات بالکل بے بنیاد نہیں

شمس الدين محمد بن عمر بن أحمد السفيري الشافعي (المتوفى: 956هـ) کتاب المجالس الوعظية في شرح أحاديث خير البرية صلى الله عليه وسلم من صحيح الإمام البخاري میں لکھتے ہیں کہ

قال شيخ الإسلام ابن حجر وغيره: إن أرواح المؤمنين في عليين، وهو مكان في السماء السابعة تحت العرش وأرواح الكفار في سجين وهو مكان تحت الأرض السابعة، وهو محل إبليس وجنوده.

شیخ الاسلام ابن حجر اور دیگر کہتے ہیں: بے شک مومنین کی ارواح عليين میں ہیں، اور وہ ساتوے آسمان پر عرش کے نیچے ہے اور کفار کی ارواح سجين میں ہیں اور وہ جگہ ساتویں زمین کے نیچے ہے جو ابلیس اور اسکے لشکروں کا مقام ہے

فتاوی علمائے حدیث ج ٥ میں  ہے کہ سجین جہنم کا پتھر ہے

سجیں

ابن تیمیہ : مجموع الفتاوى ج ٤ ص ٢٢١ میں لکھتے ہیں

 وَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ {أَرْوَاحُ الشُّهَدَاءِ فِي حَوَاصِلِ طَيْرٍ خُضْرٍ تَرْتَعُ فِي الْجَنَّةِ وَتَأْوِي فِي فِنَاءِ الْعَرْشِ. وَأَرْوَاحُ الْكُفَّارِ فِي برهوت

نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا شہداء کی ارواح سبز پرندوں کے پیٹ میں ہیں جنت میں بلند ہوتی ہیں اور عرش تک جاتی ہیں اور کفار کی روحیں برھوت میں ہیں

فتوی میں کہتے ہیں

وَإِنَّمَا فِي أَسْفَلِ سَافِلِينَ مَنْ يَكُونُ فِي سِجِّينٍ لَا فِي عِلِّيِّينَ كَمَا قَالَ تَعَالَى {إنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ}

اور اسفل سافلین میں وہ ہے جو سجین میں ہے نہ کہ علیین میں جیسا الله کا قول ہے کہ منافقین اگ کے اسفل میں ہیں

یعنی ابن تیمیہ نے سجین کو مقام قرار دیا

کبری و صغری ملا لیں سجین ابن تیمیہ کے نزدیک برھوت ہوا

عبد الوہاب النجدی اپنی کتاب احکام تمنی الموت میں روایات  پیش کرتے ہیں

وأخرج سعيد في سننه وابن جرير عن المغيرة بن عبد الرحمن قال: “لقي سلمان الفارسي عبد الله بن سلام، فقال: إن أنت مت قبلي فأخبرني بما تلقى، وإن أنا مت قبلك أخبرتك، قال: وكيف وقد مت؟ قال: إن أرواح الخلق إذا خرجت من الجسد كانت بين السماء والأرض حتى ترجع إلى الجسد. فقضي أن سلمان مات، فرآه عبد الله بن سلام في منامه، فقال: أخبرني أي شيء وجدته أفضل؟ قال: رأيت التوكل شيئا عجيبا”.
ولابن أبي الدنيا عن علي قال: “أرواح المؤمنين في بئر زمزم”.
ولابن منده وغيره عن عبد الله بن عمرو: “أرواح الكفار تجمع ببرهوت، سبخة بحضرموت، وأرواح المؤمنين تجمع بالجابية”. وللحاكم في المستدرك عنه: “أما أرواح المؤمنين فتجمع بأريحاء، وأما أروح أهل الشرك فتجمع بصنعاء”

اور سنن سعید بن منصور میں ہے اور ابن جریر طبری میں مغیرہ بن عبد الرحمان سے روایت ہے کہ سلمان فارسی کی ملاقات عبد الله بن سلام سے ہوئی پس کہا اگر اپ مجھ سے پہلے مر جائیں تو خبر دیجئے گا کہ کس سے ملاقات ہوئی عبد اللہ بن سلام نے کہا کیسے میں خبر دوں گا جبکہ میں مر چکا ہوں گا؟ سلمان نے کہا  مخلوق کی روحیں جب  جسد سے نکلتی ہیں تو وہ جب آسمان و زمین کے بیچ پہنچتی ہیں ان کو جسد میں لوٹا دیا جاتا ہے پس لکھا تھا کہ سلمان مریں گے پس عبد الله بن سلام نے ان کو نیند میں دیکھا پوچھا مجھ کو خبر دو کس چیز  کو افضل پایا ؟ سلمان نے کہا میں نے توکل کو ایک عجیب چیز پایا

اور ابن ابی دنیا نے علی سے روایت کیا ہے کہ مومنوں کی روحیں زمزم کے کنواں میں ہیں اور ابن مندہ اور دوسروں نے عبد الله بن عمرو سے روایت کیا ہے کفار کی روحیں  برھوت میں جمع ہوتی ہیں جو حضر الموت میں دلدل ہے اور مومنوں کی روحیں جابیہ میں جمع ہوتی ہیں اور مستدرک حاکم میں ہے جہاں تک مومنوں کی روحیں ہیں وہ اریحا میں جمع ہوتی ہیں اور مشرکوں کی صنعاء  میں

یہ کس قدر بے سر و پا روایات ہیں شاید ہی کوئی سلیم طبع شخص ان کو بلا جرح نقل کرے

برھوت یمن میں ہے

جابیہ شام میں ہے

اریحا  (جیریکو )  فلسطین میں

صنعاء یمن میں

یعنی عبد الوھاب النجدی کے مطابق روحیں دنیا میں اتی ہیں کفار کی یمن میں برھوت میں اور مومنوں کی جابیہ شام میں

ان معلومات سے پتا چلا کہ   برھوت ایک  سرنگ ہے جو زمین کی تہہ میں جا رہی ہے بعض  علماء کہتے ہیں وہاں شیطان بیٹھا ہے اور اسی کو سجین کہتے ہیں – علییین ان کے نزدیک آسمان پر ہے ساتوین آسمان پر جہاں اس سے اوپر الله تعالی ہیں- کائنات کا یہ منظر کچھ اس طرح ہے

یہ پہلے آسمان سے سات آسمان تک کا منظر ہے اور نیچے

 

یہ زمین سے اس کی تہہ تک کا منظر ہے

ان کو ایک دوسرے پر رکھیں تو ملتا ہے

 

یہ کائنات کا مکمل منظر ہوا جو علمائے سلف  کی تفاسیر روایات اور فتاوی سے اخذ کیا گیا ہے

راقم کہتا ہے چیزیں اپنی اصل کی طرف پلٹ اتی ہیں

آخر گِل اپني، صرفِ درِ ميکدہ ہوئي
پہنچی وہیں پہ  خاک، جہاں کا خميرتھا ‘

ابن سبا   کوئی  ایک شخصیت نہیں، ایک فکر ہے، ایک فلسفہ ہے، ایک سوچ ہے جو راویوں کے  اذہان میں  سرایت کیے ہوئے ہے – روایات پڑھتے ہوئے  اس کو جاننا ضروری ہے تاکہ اسی قول پر رہ سکیں جو قول ثابت ہے یعنی کلمہ حق یعنی قرآن عظیم

خواب میں نبی اکرم کا دیدار

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں

بخاری کی حدیث میں یہ بات خاص دور نبوت کے لئے بتائی گئی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی زندگی میں ایسا تھا

بخاری میں دو حدیثیں ہیں

من راٰنی فی المنام فقد راٰنی، فان الشیطان لا یتمثل فی صورتی

          جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے بے شک مجھے ہی دیکھا، کیونکہ شیطان میری شکل  نہیں بنا سکتا صحیح بخاری و صحیح مسلم

دوسری حدیث ہے

من رآني في المنام فسيراني في اليقظة، ولا يتمثل الشيطان بي» قال أبو عبد الله: قال ابن سيرين: «إذا رآه في صورته

جس نے مجھے حالت نیند میں دیکھا وہ جاگنے  کی حالت میں بھی دیکھے گا اور شیطان میری صورت نہیں بنا سکتا امام بخاری کہتے ہیں ابن سیریں کہتے ہیں اگر آپ کی صورت پر دیکھے

 ان دونوں حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بات نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور مبارکہ کی ہے جب بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جو مسلمان ہوئے لیکن نبی صلی الله علیہ وسلم سے  فورا ملاقات نہ کر سکے پھر ان مسلمانوں نے  دور دراز کا سفر کیا اور نبی کو دیکھا. ایسے افراد کے لئے بتایا جا رہا ہے کہ ان میں جو نبی صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھے گا وہ عنقریب بیداری میں بھی دیکھے گا اور یہ بات نبی صلی الله علیہ وسلم کی زندگی تک ہی محدود تھی کیونکہ اب جو ان کو خواب میں دیکھے گا وہ بیداری میں نہیں دیکھ سکتا

حمود بن عبد الله بن حمود بن عبد الرحمن التويجري کتاب الرؤيا میں لکھتے ہیں

المازري کہتے ہیں

احتمل أن يكون أراد أهل عصره ممن يهاجر إليه فإنه إذا رآه في المنام جعل ذلك علامة على أنه سيراه بعد ذلك في اليقظة

اغلبا اس سے مراد ان (نبی صلی الله علیہ وسلم) کے ہم عصر ہیں جنہوں نے ہجرت کی اور ان کو خواب میں دیکھا اور یہ (خواب کا مشاہدہ) ان کے لئے علامت ہوئی اور پھر آپ صلی الله علیہ وسلم کو بیداری میں بھی دیکھا

امام بخاری  نے بھی باب میں امام محمد آبن سیرین کا یہ قول لکھا ہے کہ

  یہ اس صورت میں ہے جب رسول صلى اللہ عليہ وسلم کو آپ ہی کی صورت میں دیکھا جائے

 یعنی شیطان تو کسی بھی صورت میں آ کر بہکا سکتا ہے ہم کو کیا پتا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کیسے تھے؟ صرف شمائل پڑھ لینے سے وہی صورت نہیں بن سکتی . اگر  آج کسی  نے دیکھا بھی تو آج اس کی تصدیق کس صحابی سے کرائیں گے؟

 لیکن جن دلوں میں بیماری ہے وہ اس حدیث سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ  نبی صلی الله علیہ وسلم کو آج بھی خواب میں دیکھنا ممکن ہے اور خواب پیش کرتے ہیں

انس رضی الله عنہ کا خواب

طبقات ابن سعد میں ایک روایت ہے

قَالَ: أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ الذَّارِعُ قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: مَا مِنْ لَيْلَةٍ إِلا وَأَنَا أَرَى فِيهَا حَبِيبِي. ثُمَّ يَبْكِي.

ابن سعد نے کہا ہم کو مسلم بن ابراہیم نے خبر دی انہوں نے کہا ان پر  الْمُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ الذَّارِعُ نے حدیث بیان کی  کہا میں نے انس بن مالک کو کہتے سنا کہ کوئی ایسی رات نہیں کہ جس میں میں اپنے حبیب کو نہ دیکھ لوں پھر رو دیے

تجريد الأسماء والكنى المذكورة في كتاب المتفق والمفترق للخطيب البغدادي از أَبِي يَعْلَى البغدادي، الحنبلي (المتوفى: 580هـ) کے مطابق اس نام کے دو راوی ہیں دونوں بصری ہیں

المثنى بن سعيد، اثنان    بصريان

أحدهما:1 – أبو غفار الطائي. حدث عن: أبي عثمان النهدي، وأبي قلابة الجرمي، وأبي تميمة الهجيمي، وأبي الشعثاء، مولى ابن معمر.روى عنه: حماد بن زيد، وعيسى بن يونس، وأبو خالد الأحمر، ويحيى بن سعيد القطان، وسهل بن يوسف.قال الخطيب: أنا محمد بن عبد الواحد الأكبر: أنا محمد بن العباس: ثنا ابن مرابا: ثنا عباس بن محمد، قال: سمعت يحيى بن معين يقول: أبو غِفَار الطَّائي بصري اسمه المثنى بن سعيد، يحدث عنه يحيى، وقال يحيى: المثنى بن سعيد ثقة.

والآخر:  أبو سعيد الضَّبِّي القَسَّام.رأى أنس بن مالك، وأبا مجلز، وسمع قتادة، وأبا سفيان طلحة بن نافع.

انس رضی الله عنہ سے اس قول کو منسوب کرنے والا  أبو سعيد المثنى بن سعيد  الضَّبِّي القَسَّام ہے جس نے ان کو صرف  دیکھا ہے

تاریخ الاسلام میں الذھبی نے اس راوی پر لکھا ہے رأى أنسا کہ اس نے انس کو دیکھا تھا

ابن حبان نے اس کے لئے ثقات میں کہا ہے  يخطىء غلطیاں کرتا ہے

المعجم الصغير لرواة الإمام ابن جرير الطبري از  أكرم بن محمد زيادة الفالوجي الأثري کی تحقیق کے مطابق بھی اس نے انس رضی الله عنہ کو دیکھا ہے سنا نہیں ہے

أبو سعيد، المثنى بن سعيد، الضُبَعِيّ – بضم المعجمة، وفتح الموحدة – البصري، القسام، الذارع، القصير، كان نازلا في بني ضبيعة، ولم يكن منهم ويقال: إنه أخو ريحان بن سعيد، وروح بن سعيد، والمغيرة بن سعيد، رأى أنس بن مالك

توضيح المشتبه في ضبط أسماء الرواة وأنسابهم وألقابهم وكناهم کے مؤلف: محمد بن عبد الله (أبي بكر) ابن ناصر الدين (المتوفى: 842هـ) کا کہنا ہے کہ رأى أنس بن مَالك اس نے انس بن مالک کو دیکھا

طبقات ابن سعد میں ہی یہ راوی قتادہ کے واسطے سے انس رضی الله عنہ سے روایت کرتا ہے

أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ. أَخْبَرَنَا الْمُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ. حَدَّثَنَا قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يَزُورُ أُمَّ سُلَيْمٍ أَحْيَانًا فَتُدْرِكُهُ الصَّلاةُ فَيُصَلِّي عَلَى بِسَاطٍ لَنَا وَهُوَ حَصِيرٌ يَنْضَحُهُ بِالْمَاءِ.

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ قَالَ: أَخْبَرَنَا الْمُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – لَمْ يَخْضِبْ قَطُّ. إِنَّمَا كَانَ الْبَيَاضُ فِي مُقَدَّمِ لِحْيَتِهِ فِي الْعَنْفَقَةِ قَلِيلا وَفِي الرَّأْسِ نَبْذٌ يَسِيرٌ لا يَكَادُ يُرَى.

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَتَّابٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ، أَخْبَرَنَا الْمُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ: ” أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَخْضِبْ قَطُّ، إِنَّمَا كَانَ الْبَيَاضُ فِي مُقَدَّمِ لِحْيَتِهِ، وَفِي الْعَنْفَقَةِ قَلِيلًا، وَفِي الرَّأْسِ نَبْذٌ يَسِيرٌ، لَا يَكَادُ يُرَى “، وَقَالَ الْمُثَنَّى: ” وَالصُّدْغَيْنِ

سنن ابو داود کی روایت ہے

حدَّثنا مسلمُ بن إبراهيم، حدَّثنا المثنى بن سعيد، حدَّثنا قتادةُ عن أنس بن مالك: أن النبيَّ – صلى الله عليه وسلم – كان يزورُ أم سُلَيمٍ، فتُدركُه الصلاةُ أحياناً، فيُصلي على بِساطٍ لنا، وهو حَصيرٌ تَنضَحُه بالماء

سنن الکبری نسائی کی روایت ہے

أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ الْقَاسِمِ الْمَكِّيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا غَزَا قَالَ: «اللهُمَّ أَنْتَ عَضُدِي، وَنَصِيرِي، وَبِكَ أُقَاتِلُ»

معلوم ہوا کہ اس راوی کا سماع انس رضی الله عنہ سے نہیں ہے جو بھی اس نے لیا وہ قتادہ کی سند سے ہے اور اس کا طبقات کی سند میں سمعت (میں نے سنا) کہنا غلطی ہے

افسوس کفایت الله سنابلی اس روایت کو صحیح کہہ رہے ہیں

بلال رضی الله تعالی عنہ کا خواب

ابن عساکر تاریخ الدمشق میں إبراهيم بن محمد بن سليمان بن بلال کے ترجمے میں لکھتے ہیں

إبراهيم بن محمد بن سليمان بن بلال ابن أبي الدرداء الأنصاري صاحب رسول الله (صلى الله عليه وسلم) أبو إسحاق روى عن أبيه روى عنه محمد بن الفيض أنبأنا أبو محمد بن الأكفاني نا عبد العزيز بن أحمد انا تمام بن محمد نا محمد بن سليمان نا محمد بن الفيض نا أبو إسحاق إبراهيم بن محمد بن سليمان بن بلال بن أبي الدرداء حدثني أبي محمد بن سليمان عن أبيه سليمان بن بلال عن أم الدرداء عن أبي الدرداء قال

  لما دخل عمر بن الخطاب الجابية سأل بلال أن يقدم  الشام ففعل ذلك قال وأخي أبو رويحة الذي أخى بينه وبيني رسول الله (صلى الله عليه وسلم) فنزل  داريا في خولان فأقبل هو وأخوه إلى قوم من خولان فقال لهم قد جئناكم خاطبين  وقد كنا كافرين فهدانا الله ومملوكين فأعتقنا الله وفقيرين فأغنانا الله فأن تزوجونا فالحمد لله وأن تردونا فلا حول ولا قوة إلا بالله فزوجوهما ثم إن بلالا رأى في منامه النبي (صلى الله عليه وسلم) وهو يقول له (ما هذه الجفوة يا بلال أما ان لك أن تزورني يا بلال فانتبه حزينا وجلا خائفا فركب راحلته وقصد المدينة فأتى قبر النبي (صلى الله عليه وسلم) فجعل يبكي عنده ويمرغ وجهه عليه وأقبل الحسن والحسين فجعل يضمهما ويقبلهما فقالا له يا بلال نشتهي نسمع اذانك الذي كنت تؤذنه لرسول الله (صلى الله عليه وسلم) في السحر ففعل فعلا سطح المسجد فوقف موقفه الذي كان يقف فيه فلما أن قال (الله أكبر الله أكبر ارتجت المدينة فلما أن قال (أشهد أن لا إله إلا الله) زاد تعاجيجها  فلما أن قال (أشهد أن محمدا رسول الله) خرج العواتق من خدورهن فقالوا أبعث رسول الله (صلى الله عليه وسلم) فما رئي يوم أكثر باكيا ولا باكية بعد رسول الله (صلى الله عليه وسلم) من ذلك اليوم قال أبو الحسن محمد بن الفيض توفي إبراهيم بن محمد بن سليمان سنة اثنتين وثلاثين ومائتين

 أبي الدرداء فرماتے ہیں کہ

جب عمر الجابیہ میں داخل ہوئے تو انہوں نے بلال سے کہا کہ شام آ جائیں پس بلال شام منتقل ہو گئے … پھر بلال نے خواب میں نبی کودیکھا کہ فرمایا اے بلال یہ کیا بے رخی ہے؟ کیا ہماری ملاقات کا وقت نہیں آیا .. پس بلال قبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر گئے اور روئے اور چہرے کو قبر پر رکھا … اس کے بعد حسن و حسین کی فرمائش پر آپ نے اذان بھی دی

 بلال بن رباح الحبشي رضی الله تعالی عنہ کی وفات سن ٢٠ ہجری میں ہوئی  اور ایک قول تاریخ الاسلام از ذھبی میں ہے

قَالَ يحيى بْن بكير: تُوُفيّ بلال بدمشق في الطاعون سنة ثماني عشرة.

بلال کی دمشق میں طاعون  سے سن ١٨ ہجری میں وفات ہوئی

 الذھبی اپنی کتاب سیر الاعلام  ج ١ ص ٣٥٨ میں اس روایت کو بیان کرنے کے بعد کہتےہیں

إِسْنَادُهُ لَيِّنٌ، وَهُوَ مُنْكَرٌ.

اس کی اسناد کمزور ہیں اور یہ منکر ہے

 ابن حجر لسان المیزان میں اور الذھبی میزان  میں اس راوی پر لکھتے ہیں

فيه جهالة

اس کا حال مجھول ہے

 ذھبی کتاب تاریخ الاسلام میں اس راوی پر لکھتے ہیں

مجهول، لم يروِ عنه غير محمد بْن الفيض الغسَّانيّ

مجھول ہے سوائے محمد بْن الفيض الغسَّانيّ کے کوئی اس سے روایت نہیں کرتا

 ام سلمہ رضی الله تعالی عنہا کا خواب

 ترمذی روایت کرتے ہیں

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ قَالَ: حَدَّثَنَا رَزِينٌ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي سَلْمَى، قَالَتْ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ، وَهِيَ تَبْكِي، فَقُلْتُ: مَا يُبْكِيكِ؟ قَالَتْ: رَأَيْتُ رَسُولَ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَعْنِي فِي المَنَامِ، وَعَلَى رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ التُّرَابُ، فَقُلْتُ: مَا لَكَ يَا رَسُولَ الله، قَالَ: “شَهِدْتُ قَتْلَ الحُسَيْنِ آنِفًا” هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ

 سلمی سے روایت ہے کہ میں نے ام المومنین ام سلمہ  رضی الله تعالی عنہا سے رونے کا سبب پوچھا اور کہا : کس شے نے آپ کو گریہ وزاری میں مبتلا کر دیا ہے؟  آپ نے کہا : میں نے خواب میں نبی صلی الله علیہ وسلم کی زیارت کی ہے . کا سر اور ریش مبارک گرد آلود تھی.میں نے عرض کی ، یارسول ،آپ کی کیسی حالت بنی ہوئی ہے ؟ رسول الله نے فرمایا: میں نے ابھی ابھی حسین کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا ہے

 ترمذی اور مستدرک الحاکم میں یہ روایت نقل ہوئی ہے

 اس کی سند میں سَلْمَى الْبَكْرِيَّةِ ہیں

 تحفة الأحوذي بشرح جامع الترمذي میں مبارکپوری لکھتے ہیں

هَذَا الْحَدِيثُ ضَعِيفٌ لِجَهَالَةِ سَلْمَى

سَلْمَى کے مجھول ہونے کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے

 کتاب مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح کے مطابق

 وَمَاتَتْ أُمُّ سَلَمَةَ سَنَةَ تِسْعٍ وَخَمْسِينَ

اور ام سلمہ کی وفات ٥٩ ھ میں ہوئی

 تاریخ کے مطابق حسین کی شہادت سن ٦١ ہجری میں ہوئی

 لہذا یہ ایک جھوٹی روایت ہے

ابن عباس کا خواب کی تعبیر کرنا 

ابن حجر فتح الباری  ص ۳۸۴ میں بتاتے ہیں کہ حاکم روایت کرتے ہیں کہ

فَأَخْرَجَ الْحَاكِمُ مِنْ طَرِيقِ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَنَامِ قَالَ صِفْهُ لِي قَالَ ذَكَرْتُ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ فَشَبَّهْتُهُ بِهِ قَالَ قَدْ رَأَيْتُهُ وَسَنَدُهُ جَيِّدٌ

امام حاکم نے روایت کیا ہے … ایک شخص نے عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں نے حسن بن علی رضی   االله  عنہ کی شکل کے ایک شخص کو دیکھا ہے اس پر انہوں نے کہا تم نے نبی کو دیکھا ہے

ابن حجر نے کہا اس کی سند جید ہے

حالانکہ حیرت ہے  عبد الله بن عباس اور ابن زبیر میں اپس میں اختلاف ہوا اور  ابن عباس طائف جا کر قیام پذیر ہوئے لیکن اس اختلاف کو ختم کرنے نبی صلی الله علیہ وسلم نہ ابن عباس  رضی الله عنہ کے خواب میں آئے نہ ابن زبیر رضی الله عنہ کے

مستدرک الحاکم کی اس روایت  کو اگرچہ الذھبی نے صحیح کہا ہے لیکن اسکی  سند میں عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ  ہے جو مظبوط راوی نہیں ہے تهذيب التهذيب ج 6/ 434- 435 کے مطابق اس پر  يحيى القطان نے کلام کیا ہے

وقال صالح بن احمد عن علي بن المديني: سمعت يحي بن سعيد يقول: ما رأيت عبد الواحد بن زياد يطلب حديثاً قط بالبصرة ولا بالكوفة، وكنا نجلس على بابه يوم الجمعة بعد الصلاة أذاكره حديث الأعمش فلا نعرف منه حرفاً

صالح بن احمد عن علي بن المديني کہتے ہیں میں نے یحیی کو سنا انہوں نے کہا میں نے کبھی بھی عبد الواحد کو بصرہ یا کوفہ میں حدیث طلب کرتے نہ دیکھا اور ہم  جمعہ کے بعد دروازے پر بیٹھے تھے کہ اس نے الاعمش کی حدیث ذکر کی جس کا ایک حرف بھی ہمیں پتہ نہ تھا

مسلمان بادشاہوں کے سیاسی خواب

 نور الدین زنگی کا خواب

  علي بن عبد الله بن أحمد الحسني الشافعي، نور الدين أبو الحسن السمهودي المتوفى٩١١ھ  کتاب  وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى  میں سن ٥٥٧ ھ پر لکھتے ہیں

 الملك العادل نور الدين الشهيد نے ایک ہی رات میں تین دفعہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا اور آپ ہر دفعہ فرما رہے ہیں

 أن السلطان محمودا المذكور رأى النبي صلّى الله عليه وسلّم ثلاث مرات في ليلة واحدة وهو يقول في كل واحدة: يا محمود أنقذني من هذين الشخصين الأشقرين تجاهه

اے  قابل تعریف! مجھ کو ان دو شخصوں سے بچا

 یہ دو اشخاص عیسائی تھے جو نبی صلی الله علیہ وسلم کا جسد مطہر حاصل کرنا چاہتے تھے

مثل مشھور ہے الناس علی دین ملوکھم کہ لوگ اپنے بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں اسی طرح یہ قصہ اتنا بیان کیا جاتا ہے کہ گویا اس کی سچائی قرآن و حدیث جیسی ہو

 مقررین حضرات یہ قصہ سنا کر بتاتے ہیں کہ یہودی سازش کر رہے تھے لیکن ریکارڈ کے مطابق یہ نصرانی سازش تھی

 وقد دعتهم أنفسهم- يعني النصارى- في سلطنة الملك العادل نور الدين الشهيد إلى أمر عظيم

اور نصرانیوں نے ایک امر عظیم کا ارادہ کیا بادشاہ عادل نور الدین الشہید کے دور ہیں

 اس کے بعد یہ خواب کا واقعہ بیان کرتے ہیں اور بعد میں پکڑے جانے والے عیسائی تھے

أهل الأندلس نازلان في الناحية التي قبلة حجرة النبي صلّى الله عليه وسلّم من خارج المسجد عند دار آل عمر بن الخطاب

اہل اندلس سے دو افراد دار ال عمر بن خطاب ،حجرے کی جانب مسجد سے باہر ٹھہرے ہوۓ ہیں

  اس قصے میں عجیب و غریب عقائد ہیں.  اول نبی صلی الله علیہ وسلم کو علم غیب تھا کہ دو نصرانی سازش کر رہے ہیں  دوئم انہوں نے الله کو نہیں پکارا بلکہ نور الدین کے خواب میں تین دفعہ ایک ہی رات میں ظاہر ہوئے . سوم نبی صلی الله علیہ وسلم نے نورالدین زنگی کو صلیبی جنگوں میں عیسائی تدبریوں کے بارے میں نہیں بتایا جن سے ساری امت مسلمہ نبرد آزما تھی بلکہ صرف اپنے جسد مطہر کی بات کی

  الله کا عذاب نازل ہو اس جھوٹ کو گھڑنے والوں پر. ظالموں الله سے ڈرو اس کی پکڑ سخت ہے .الله کے نبی تو سب سے بہادر تھے

 دراصل یہ سارا قصہ نور الدین زنگی  کی بزرگی کے لئے بیان کیا جاتا ہے جو صلیبی جنگوں میں مصروف تھے اور ان کے عیسائیوں سے  معرکے چل رہے تھے

شاہ عراق فیصل بن حسین المعروف فیصل اول کا خواب

فیصل بن حسین ١٩٢١ ع سے ١٩٣٣ ع تک عراق کے بادشاہ تھے اور شریف المکّہ کے تیسرے بیٹے. شریف المکہ عثمانی خلافت میں ان کی جانب سے حجاز کے امیر تھے. فیصل اول نے خلافت عثمانیہ ختم کرنے میں انگریزوں کا بھر پور ساتھ دیا.   بر صغیر کے مشھور شاعر علامہ اقبال نے ان پر تنقید کی کہ

کیا خوب امیر فیصل کو سنوسی نے پیغام دیا

تو نام و نسب کا حجازی ہے پر دل کا حجازی بن نہ سکا

لیکن روحانیت میں شاہ فیصل کا کچھ اور ہی مقام تھا انگریز بھی خوش اور الله والے بھی خوش

جو لوگ نبی صلی الله علیہ وسلم کا خواب میں انے کا عقیدہ رکھتے ہیں وہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ سن ١٩٣٢ عیسوی میں عراق میں جابر بن عبدللہ اور حذیفہ بن یمان رضوان الله علیھم شاہ عراق کے خواب میں آئے اور انہوں نی اس سے کہا کہ ان کو بچائے کیونکہ نہر دجلہ کا پانی ان کی قبروں تک رس رہا ہے

قبر ١قبر ٢

حیرت کی بات ہے کہ شیعہ حضرات بھی اس خواب کو لہک لہک کر بیان کرتے ہیں لیکن اس سے تو فیصل اول کی الله کی نگاہ میں قدر و منزلت کا اندازہ ہوتا ہے اور فیصل شیعہ عقیدے پر نہیں تھے

ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم خواب میں اتے ہیں اب کہا جا رہا ہے کہ صحابی بھی اتے ہیں گویا جو نبی کی خصوصیت تھی وہ اب غیر انبیاء کی بھی ہو گئی

ہمارے قبر پرست بادشاہوں کو  خوابوں میں انبیاء اور صحابہ نظر آ رہے ہیں اور وہ بھی صرف اپنے جسمکو  بچانے کے لئے

لیکن اب خواب نہیں آیا

حال ہی میں شام میں حکومت مخالف باغیوں نے ایک   قبر کشائی کی  جو صحابی رسول حجر بن عدی  المتوفی 51 ہجری کی طرف منسوب ہے لیکن حیرت ہے اس دفعہ ان  صحابی کو خیال نہیں آیا کہ دوسرے صحابہ تو اپنی قبروں کو بچانے کے لئے خوابوں میں آ جاتے ہیں مجھے بھی یہی کرنا چاہئے یہ صحابی نہ سنیوں کے خواب میں آئے نہ شیعوں کے خواب میں. جب قبر پر پہلا کلہاڑا پڑا اسی وقت خواب میں آ جاتے

قبر ٣

حجر بن عدی رضی اللہ تعالی علیہ سے منسوب قبر ، قبر کی بے حرمتی کے بعد

دوسری طرف یہی قبر پرست  ایک سانس میں کہتے ہیں کہ صحابہ کے جسد محفوظ تھے اور دوسری سانس میں روایت بیان کرتے ہیں الله نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ انبیاء کے جسموں کو کھائے تو بھلا بتاؤ کیا  مانیں اگر غیر نبی کا جسد بھی محفوظ ہے تو یہ انبیاء کی خصوصیت کیسے رہی

 الغرض  نبی صلی  الله علیہ وسلم نے دنیا کی رفاقت چھوڑ کر جنت کو منتخب کیا اور آج امت سے ان کا کوئی  رابطہ نہیں اور نہ ان کو امت کے حال کا پتا ہے ،ورنہ جنگ جمل نہ ہوتی نہ جنگ صفین، نہ حسین شہید ہوتے، بلکہ ہر لمحہ آپ امت کی اصلاح کرتے

انبیاء صحابہ اور اولیاء کا خواب میں انے کا عقیدہ سراسر غلط اور خود ساختہ ہے اور عقل سلیم سے بعید تر قبروں سے فیض حاصل کرنے کا عقیدہ رکھنے والے یہ کہتے ہیں کہ ہم ان قبروں کی عبادت نہیں کرتے بلکہ ان سے دعائیں کروانے جاتے ہیں الله ان کی سنتا ہے لیکن اگر الله ان کی سنتا ہے تو جب ان کی قبر پر پانی اتا ہے یا کوئی دوسرے دین کا شریر شخص شرارت کرنا چاہتا ہے تو اس وقت  بادشاہ لوگ کے خواب میں ان کو آنا پڑتا ہے سوچوں یہ کیا عقیدہ ہے  تمہاری عقل پر افسوس ! الله شرک سے نکلنے کی توفیق دے

نبی صلی الله علیہ وسلم اور امام ترمذی سے ناراضگی

ابو بکر الخلال کتاب السنہ میں بیان کرتے ہیں کہ امام ترمذی اس عقیدے کے خلاف تھے کہ روز محشر نبی صلی الله علیہ وسلم کو نعوذباللہ عرش پر الله تعالی اپنے ساتھ بٹھائے گا. ابو بکر الخلال ، نبی صلی الله علیہ وسلم کا خواب میں آنا نقل کرتے ہیں

وَسَمِعْتُ أَبَا بَكْرِ بْنَ صَدَقَةَ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي أَبُو الْقَاسِمِ بْنُ الْجَبَلِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ صَاحِبِ النَّرْسِيِّ قَالَ: ثُمَّ لَقِيتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ إِسْمَاعِيلَ فَحَدَّثَنِي، قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّوْمِ، فَقَالَ لِي: هَذَا التِّرْمِذِيُّ، أَنَا جَالِسٌ لَهُ، يُنْكِرُ فَضِيلَتِي “

عبدللہ بن اسمعیل کہتے ہیں کہ میرے خواب میں نبی صلی الله علیہ وسلم آئے اور کہا  یہ ترمذی!  میں اس کے لئے  بیٹھا ہوں اور یہ میری فضلیت کا انکاری ہے

ابو بکر الخلال نے واضح نہیں کیا کہ اس خواب میں  نبی صلی الله علیہ وسلم کا کہنا کہ میں بیٹھا ہوں، تو اصل میں وہ کہاں بیٹھے  ہیں . مبہم انداز میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بیٹھا دیا گیا ہے تاکہ امام ترمذی پر جرح ہو سکے

ایک دوسرا خواب بھی پیش کرتے ہیں

أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ الْعَطَّارُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ السَّرَّاجِ، قَالَ: ” رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو بَكْرٍ عَنْ يَمِينِهِ، وَعُمَرُ عَنْ يَسَارِهِ، رَحْمَةُ الله عَلَيْهِمَا وَرِضْوَانُهُ، فَتَقَدَّمْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِ عُمَرَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ الله، إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَقُولَ شَيْئًا فَأَقْبَلَ عَلَيَّ، فَقَالَ: قُلْ، فَقُلْتُ: إِنَّ التِّرْمِذِيَّ يَقُولُ: إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ لَا يُقْعِدُكَ مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ، فَكَيْفَ تَقُولُ يَا رَسُولَ الله، فَأَقْبَلَ عَلَيَّ شِبْهَ الْمُغْضَبِ وَهُوَ يُشِيرُ بِيَدِهِ الْيُمْنَى عَاقِدًا بِهَا أَرْبَعِينَ، وَهُوَ يَقُولُ: «بَلَى وَالله، بَلَى وَالله، بَلَى وَالله، يُقْعِدُنِي مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ، بَلَى وَالله يُقْعِدُنِي مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ، بَلَى وَالله يُقْعِدُنِي مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ، ثُمَّ انْتَبَهْتُ

مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ السَّرَّاجِ نے کہا میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور ابو بکر و عمر رحمہ الله تعالی ان کےساتھ تھے ابو بکر دائیں طرف اور عمر بائیں طرف بیٹھے تھے پس میں عمر کی دائیں طرف آیا اور عرض کیا : یا رسول الله میں چاہتا ہوں اپ پر ایک چیز پیش کرتا – رسول الله نے فرمایا بولو- میں نے کہا یہ ترمذی کہتا حیا کہ اپ الله عزوجل اپ کے ساتھ عرش پر نہیں بیٹھے گا تو اپ کیا کہتے ہیں اس پر یا رسول الله ! پس میں نے دیکھا کہ رسول الله ناراض ہوئے اور انہوں نے سیدھے ہاتھ سے اشارہ کیا … اور کہہ رہے تھے بالکل الله کی قسم ، بالکل الله کی قسم میں الله کے ساتھ عرش پر بیٹھوں گا میں الله کے ساتھ عرش پر بیٹھوں گا ، الله کی قسم میں الله کے ساتھ عرش پر بیٹھوں گا پھر خبردار کیا 

استغفر الله ! اس طرح کے عقائد کو محدثین کا ایک گروہ حق مانتا آیا ہے

الله کا شکر ہے کہ  بدعتی عقائد پر کوئی نہ کوئی محدث اڑ جاتا ہے اور آج ہم فیصلہ کر سکتے ہیں کہ حق کیا ہے ,مثلا یہ عقیدہ  کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عرش پر بٹھایا جائے گا اور انبیاء کے اجسام سلامت رہنےکا بدعتی عقیدہ جس کو امام بخاری اور ابی حاتم  رد کرتے ہیں

حدیث میں اتا ہے کہ

میری اُمت میں مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو میری وفات کے بعد آئیں گے اور ان کی خواہش ہوگی کہ وہ مجھے دیکھنے کے لئے اپنے اہل و مال سب کچھ صَرف کردیں 

اس سے ظاہر ہے کہ نبی کو خواب میں دیکھنا ممکن نہیں بلکہ اگر کوئی نبی کو دیکھنا چاہتا ہے تو کیا صرف  سوتا رہے  کہ ہو سکتا ہے نبی صلی الله علیہ وسلم خواب میں آ جائیں حدیث میں ہے کہ وہ اہل و مال تک صرف کرنا چاہیں گے کیونکہ وہ دیکھ نہیں پائیں گے

کہا جاتا ہے کہ  علمائے اُمت کا اس پر اجماع ہے کہ اگر خواب میں نبی صلى اللہ عليہ وسلم کسی کو کوئی ایسی بات بتائیں یا کوئی ایسا حکم دیں جو شریعت کے خلاف ہے تو اس پر عمل جائز نہ ہوگا  لیکن یہ احتیاط کیوں اگر حلیہ شمائل کے مطابق ہو اور اپ کا عقیدہ ہے کہ شیطان،  نبی صلی الله علیہ وسلم کی شکل بھی نہیں بنا سکتا تو اس خوابی حکم یا حدیث کو رد کرنے کی کیا دلیل ہے. دوم یہ اجماع کب منعقد ہوا کون کون شریک تھا کبھی نہیں بتایا جاتا

کہا جاتا ہے نبی صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھنا ان کی خصوصیت ہے اس کا مطلب ہوا کہ جو لوگ یہ دعوی کریں کہ کوئی ولی یا صحابی خواب میں آیا وہ کذاب ہیں کیونکہ اگر یہ بھی خواب میں آ جاتے ہوں تو نبی کی خصوصیت کیسے رہی؟

خواب کے ذریعہ احادیث کی تصحیح

 صحیح بخاری میں ابن مسعود سے مروی ہے جس کے مطابق ١٢٠ دن بعد یعنی ٤ ماہ بعد روح اتی ہے
حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ المَصْدُوقُ، قَالَ: ” إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ مَلَكًا فَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، وَيُقَالُ لَهُ: اكْتُبْ عَمَلَهُ، وَرِزْقَهُ، وَأَجَلَهُ، وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ، ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ، فَإِنَّ الرَّجُلَ مِنْكُمْ لَيَعْمَلُ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الجَنَّةِ إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ كِتَابُهُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، وَيَعْمَلُ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الكِتَابُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الجَنَّةِ ”

تم میں سے ہر ایک کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں مکمل کی جاتی ہے۔ چالیس دن تک نطفہ رہتاہے پھراتنے ہی وقت تک منجمد خون کا لوتھڑارہتا ہے پھر اتنے ہی روز تک گوشت کا لوتھڑا رہتاہے اس کے بعد اللہ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتوں کا حکم دیا جاتا ہے کہ اس کا عمل ‘اس کا رزق اوراس کی عمر لکھ دے اوریہ بھی لکھ دے کہ بدبخت ہے یا نیک بخت ،اس کے بعد اس میں روح پھونک دی جاتی ہے ….”(صحیح بخاری باب بدء الخلق ۔صحیح مسلم باب القدر)

اس روایت کو اگرچہ امام بخاری و مسلم نے صحیح کہا ہے لیکن اس کی سند میں زید بن وھب کا تفرد ہے اور امام الفسوی کے مطابق اس کی روایات میں خلل ہے

طحاوی نے مشکل الاثار میں اس روایت پر بحث کی ہے اور پھر کہا
وَقَدْ وَجَدْنَا هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ رِوَايَةِ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ , عَنِ الْأَعْمَشِ , بِمَا يَدُلُّ أَنَّ هَذَا الْكَلَامَ مِنْ كَلَامِ ابْنِ مَسْعُودٍ , لَا مِنْ كَلَامِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
اور ہم کو ملا ہے جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ , عَنِ الْأَعْمَشِ , سے کہ یہ کلام ابن مسعود ہے نہ کہ کلام نبوی

راقم کہتا ہے اس کی جو سند صحیح کہی گئی ہے اس میں زید کا تفرد ہے جو مضبوط نہیں ہے

اس حدیث پر لوگوں کو شک ہوا لہذا کتاب جامع العلوم والحكم في شرح خمسين حديثا من جوامع الكلم از ابن رجب میں ہے
وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ الْأَسْفَاطِيِّ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا يَرَى النَّائِمُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ الَّذِي حَدَّثَ عَنْكَ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ. فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” وَالَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ حَدَّثْتُهُ بِهِ أَنَا ” يَقُولُهُ ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ غَفَرَ اللَّهُ لِلْأَعْمَشِ كَمَا حَدَّثَ بِهِ، وَغَفَرَ اللَّهُ
مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ الْأَسْفَاطِيِّ نے روایت کیا کہ میں نے خواب میں نبی کو دیکھا کہا اے رسول الله حدیث ابن مسعود جو انہوں نے اپ سے روایت کی ہے کہا سچوں کے سچے نے کہا ؟ فرمایا وہ جس کے سوا کوئی الہ نہیں میں نے ہی اس کو ان سے روایت کیا تھا تین بار کہا پھر کہا الله نے اعمش کی مغفرت کی کہ اس نے اس کو روایت کیا

یعنی لوگوں نے اس حدیث کو خواب میں رسول الله سے ثابت کرایا تاکہ صحیح بخاری و مسلم کی حدیث کو صحیح سمجھا جائے

مسند علي بن الجَعْد بن عبيد الجَوْهَري البغدادي (المتوفى: 230هـ)   میں ہے

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: نا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَنَا وَحَمْزَةُ الزَّيَّاتُ، مِنْ أَبَانَ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ خَمْسَ مِائَةِ حَدِيثٍ، أَوْ ذَكَرَ أَكْثَرَ، فَأَخْبَرَنِي حَمْزَةُ قَالَ: «رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَنَامِ، فَعَرَضْتُهَا عَلَيْهِ، فَمَا عَرَفَ مِنْهَا إِلَّا الْيَسِيرَ خَمْسَةَ أَوْ سِتَّةَ أَحَادِيثَ، فَتَرَكْتُ الْحَدِيثَ عَنْهُ»

ھم کو عبد الله بن محمد بن عبد العزيز البغوي نے خبر دی کہ سوید نے بیان کیا کہ علی نے بیان کیا انہوں نے اور حمزہ نے ابان سے سنیں ہزار احادیث یا کہا اس سے زیادہ پس حمزہ نے خبر دی کہ میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا ان پر وہ ہزار روایات پیش کیں تو رسول الله صرف پانچ یا چھ کو پہچان پائے پس اس پر میں نے ابان بن ابی عیاش کی احادیث ترک کیں

امام مسلم نے صحیح کے مقدمہ میں اس قول کو نقل کیا ہے

ابان بن ابی عیاش کو محدثین  منکر الحدیث ، متروک ، کذاب کہتے ہیں اور امام ابو داود سنن میں روایت لیتے ہیں

ابان سے متعلق قول کا دارومدار سوید بن سعيد الحَدَثاني پر ہے جو امام بخاری کے نزدیک   منكر الحديث ہے اور يحيى بن معين کہتے حلال الدم اس کا خون حلال ہے

یعنی یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا خواب اور اس میں جرح کا  قول خود ضعیف ہے جو امام مسلم نے پیش کیا ہے

سوید بن سعيد اختلاط کا شکآر ہوئے اور اغلبا یہ روایت بھی اسی وقت کی ہے

لہذا خواب میں سن کر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بات بیان کرنا حدیث نہیں اور یہ قول بھی جرح کے لئے نا قابل قبول ہے -لیکن ظاہر ہے محدثین کا ایک گروہ  جرح و تعدیل میں خواب سے دلیل لے رہا تھا  جبکہ اس کی ضرورت نہ تھی

سنن ابو داود کی روایت ٥٠٧٧ ہے

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، وَوُهَيْبٌ، نَحْوَهُ عَنْ سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ أَبِي عَائِشٍ، وَقَالَ حَمَّادٌ: عَنْ أَبِي عَيَّاشٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” مَنْ قَالَ إِذَا أَصْبَحَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ، لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، كَانَ لَهُ عِدْلَ رَقَبَةٍ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ، وَكُتِبَ لَهُ عَشْرُ حَسَنَاتٍ، وَحُطَّ عَنْهُ عَشْرُ سَيِّئَاتٍ، وَرُفِعَ لَهُ عَشْرُ دَرَجَاتٍ، وَكَانَ فِي حِرْزٍ مِنَ الشَّيْطَانِ حَتَّى يُمْسِيَ، وَإِنْ قَالَهَا إِذَا أَمْسَى كَانَ لَهُ مِثْلُ ذَلِكَ حَتَّى يُصْبِحَ ” قَالَ فِي حَدِيثِ حَمَّادٍ: فَرَأَى رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا يَرَى النَّائِمُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا عَيَّاشٍ يُحَدِّثُ عَنْكَ بِكَذَا وَكَذَا، قَالَ: “صَدَقَ أَبُو عَيَّاشٍ”

حَمَّادٌ نے أَبِي عَيَّاشٍ سے انہوں نے رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سے روایت کیا کہ جس نے صبح کے وقت کہا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ، لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ تو اس کے لئے ایسا ہو گا کہ اس نے إِسْمَاعِيلَ کی اولاد میں سے  ایک گردن کو آزاد کیا اس کے لئے دس نیکیاں لکھی جائیں گی اور دس گناہ مٹ جائیں گے اس کے دس درجات بلند ہوں گے یہ الفاظ  شام تک شیطان سے حفاظت کریں گے .. حماد بن سلمة نے کہا پھر ایک شخص نے رسول الله کو خواب میں دیکھا کہا یا رسول الله ابی عیاش نے ایسا ایسا روایت کیا ہے – اپ نے فرمایا سچ کہا أَبُو عَيَّاشٍ نے 

اس روایت کو البانی نے صحیح کہہ دیا ہے جبکہ   المنذري (المتوفى: 656 هـ) نے  مختصر سنن أبي داود میں خبر دی تھی کہ

ذكره أبو أحمد الكرابيسي في كتاب الكنى، وقال: له صحبة من النبي -صلى اللَّه عليه وسلم-، وليس حديثه من وجه صحيح، وذكر له هذا الحديث.

أبو عياش الزُّرقي الأنصاري جس کا نام زيد بن الصامت ہے اس کا ذکر الکنی میں  أبو أحمد الكرابيسي نے کیا ہے اور کہا ہے کہ اس نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا صحابی  ہونے کا شرف پایا ہے لیکن یہ حدیث اس طرق سے صحیح نہیں ہے اور خاص اس روایت کا ذکر کیا

قال أبو زرعة الدمشقي، عن أحمد بن حنبل: أبو عياش الزرقي، زيد بن النعمان. «تاريخه» (1245)

وقال أبو محمد ابن حزم في «المحلى»: زيد أبو عياش لا يدري من هو

بعض علماء کا کہنا ہے کہ یہ شخص صحابی نہیں بلکہ کوئی مجہول ہے

حماد بن سلمہ نے  خبر دی کہ ایک شخص نے دیکھا یہ شخص کون تھا معلوم  نہیں – خیال رہے حماد خود مختلط بھی ہو گئے تھے

بیداری میں بھی دیکھنا ممکن ہے 

فیض الباری میں انور شاہ کشمیری لکھتے ہیں

ويمكن عندي رؤيته صلى الله عليه وسلّم يقظةً (1) لمن رزقه الله سبحانه كما نقل عن السيوطي رحمه الله تعالى – وكان زاهدًا متشددًا في الكلام على بعض معاصريه ممن له شأن – أنه رآه صلى الله عليه وسلّم اثنين وعشرين مرة وسأله عن أحاديث ثم صححها بعد تصحيحه صلى الله عليه وسلّم

میرے نزدیک بیداری میں بھی رسول الله کو دیکھنا ممکن ہے جس کو الله عطا کرے جیسا سیوطی سے نقل کیا گیا ہے جو ایک سخت زاہد تھے … انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو ٢٨ مرتبہ دیکھا اور ان سے احادیث کی تصحیح  کے بعد ان کو صحیح قرار دیا

انور شاہ نے مزید لکھا

والشعراني رحمه الله تعالى أيضًا كتب أنه رآه صلى الله عليه وسلّم وقرأ عليه البخاري في ثمانية رفقة معه

الشعراني نے رسول اللہ کو دیکھا اور ان کے سامنے صحیح بخاری اپنے ٨ رفقاء کے ساتھ پڑھی

جلال الدین سیوطی  الحاوی للفتاوی ج ٢ ص ٣١٣ میں بہت سے علماء و صوفیا کے اقوال نقل کیے ہیں  کہ اللہ تعالیٰ نے   نبی   صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد آپ کی روح اقدس کو ملکوت ارض و سما میں تصرف وسیع عطا کر دیا ہے، دن ہو یا رات، عالم خواب ہو یا عالم بیداری، جس وقت اور جب بھی  چاہیں کسی بھی غلام کو اپنے دیدار اور زیارت سے نواز سکتے ہیں، جسے چاہیں چادر مبارک عطا کر جائیں اور جسے چاہیں موئے مبارک دیں۔

الألوسي (المتوفى: 1270هـ)  سورہ الاحزاب کی تفسیر میں روح المعاني میں لکھتے ہیں

وأيد  بحديث أبي يعلى «والذي نفسي بيده لينزلن عيسى ابن مريم ثم لئن قام على قبري وقال يا محمد لأجيبنه» . وجوز أن يكون ذلك بالاجتماع معه عليه الصلاة والسّلام روحانية ولا بدع في ذلك فقد وقعت رؤيته صلّى الله عليه وسلم بعد وفاته لغير واحد من الكاملين من هذه الأمة والأخذ منه يقظة

اور اس کی تائید ہوتی ہے حدیث ابی یعلی سے جس میں ہے کہ وہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ضرور عیسیٰ نازل ہوں گے پھر جب میری قبر پر آئیں گے اور کہیں گے یا محمد میں جواب دوں گا اور جائز ہے کہ یہ اجتماع انبیاء کا روحانی ہو اور یہ بعید بھی نہیں کیونکہ اس امت کے ایک سے زائد کاملین نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کو بعد وفات بیداری میں دیکھا ہے

راقم اس سے متفق نہیں ہے ابی یعلی کی روایت کو منکر سمجھتا ہے

اسی تفسیر میں سورہ یس کے تحت الوسی لکھتے ہیں

والأنفس الناطقة الإنسانية إذا كانت قدسية قد تنسلخ عن الأبدان وتذهب متمثلة ظاهرة بصور أبدانها أو بصور أخرى كما يتمثل جبريل عليه السلام ويظهر بصورة دحية أو بصورة بعض الأعراب كما جاء في صحيح الأخبار حيث يشاء الله عز وجل مع بقاء نوع تعلق لها بالأبدان الأصلية يتأتى معه صدور الأفعال منها كما يحكى عن بعض الأولياء قدست أسرارهم أنهم يرون في وقت واحد في عدة مواضع وما ذاك إلا لقوة تجرد أنفسهم وغاية تقدسها فتمثل وتظهر في موضع وبدنها الأصلي في موضع آخر

نفس ناطقہ انسانی جب پاک ہو جاتا ہے تو اپنے بدن سے جدا ہو کر مماثل ظاہری ابدان سے یا کسی اور صورت میں ظاہر ہوتے ہیں جیسے کہ جبریل کی  شکل میں یا دحیہ کلبی کی صورت یا بدو کی صورت جیسا کہ صحیح احادیث میں آیا ہے جیسا الله چاہے اس بدن کی بقاء کے ساتھ جو اصلی بدن سے بھی جڑا ہو ایک ہی وقت میں لیکن کئی مقام پر ہو اس طرح حکایت کیا گیا ہے اولیاء سے جن کے پاک راز ہیں کہ ان کو ایک ہی وقت میں الگ الگ جگہوں پر دیکھا گیا

اس طرح الوسی نے یہ ثابت کیا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ایک ہی وقت میں کئی مقام پر ظاہر ہو سکتے ہیں

آج یہ عقیدہ بریلویوں کا ہے – راقم اس فلسفے کو رد کرتا ہے

فرقوں میں متضاد خواب 

وہابی عالم صالح المغامسي کا کہنا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھنا ممکن ہے یہ مبشرات میں سے ہے یہاں تک کہ امہات المومنین کو بھی دیکھا جا سکتا ہے

زبیر علی زئی اپنے مضمون محمد اسحاق صاحب جہال والا : اپنے خطبات کی روشنی میں میں لکھتے ہیں

علامہ رشید رضامصری اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ مفتی محمد عبدہ (رحمہ اللہ) نے خواب میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھا اور انہوں نے آپ سے پوچھا : یا رسول اللہ ! اگر احد کے دن اللہ تعالیٰ جنگ کے نتیجہ کے بارے میں آپ کو اختیار دیتا تو آپ فتح پسند فرماتے یا شکست پسند فرماتے ؟ تو آپ نے جواب دیا کہ شکست کو پسند کرتا حالانکہ ساری دنیا فتح کو پسند کرتی ہے ۔(تفسیر نمونہ بحوالہ تفسیر المنار ۹۲/۳)” (خطباتِ اسحاق ج ۲ ص ۱۹۳، ۱۹۴)
تبصرہ : اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ محمد عبدہ (مصری، منکرِ حدیث بدعتی) نے خوا ب میں ضرور بالضرور رسول اللہ ﷺ کو ہی دیکھا تھا ۔ کیا وہ آپﷺ کی صورت مبارک پہنچانتا تھا ؟ کیا اس نے خواب بیان کرنے میں جھوٹ نہیں بولا؟

 اہل حدیث علماء نبی کا خواب میں انا مانتے ہیں ایک منکر حدیث دیکھے تو ان کو قبول نہیں – نبی صلی الله علیہ وسلم کی صورت کس اہل حدیث نے دیکھی ہے یہ زبیر علی نہیں بتایا

غیر مقلدین کا ایک اشتہار نظر سے  گزرا

khwab-ahl-hadith

نبی صلی الله علیہ وسلم منکرین حدیث کے خواب میں آ رہے ہیں اہل حدیث کے خواب میں ا رہے ہیں صوفیاء کے خواب میں آ رہے ہیں عقل سلیم رکھنے والے سوچیں کیا یہ مولویوں کا جال نہیں کہ اپنا معتقد بنانے کہ لئے ایسے انچھر استعمال کرتے ہیں

مولویوں کا تماشہ یہ ہے کہ جو بھی کہتا ہے کہ اس نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا اس سے حلیہ مبارک پوچھتے ہیں – اور اگر شمائل میں جو ذکر ہے اس سے الگ حلیہ ہو تو   اس خواب کو رد کر دیتے ہیں –

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا عَوْفُ بْنُ أَبِي جَمِيلَةَ، عَنْ يَزِيدَ الْفَارِسِيِّ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّوْمِ زَمَنَ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: وَكَانَ يَزِيدُ يَكْتُبُ الْمَصَاحِفَ، قَالَ: فَقُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: إِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّوْمِ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَإِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ: ” إِنَّ الشَّيْطَانَ لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَتَشَبَّهَ بِي، فَمَنْ رَآنِي فِي النَّوْمِ، فَقَدْ رَآنِي ” فَهَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تَنْعَتَ لَنَا هَذَا الرَّجُلَ الَّذِي رَأَيْتَ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، ” رَأَيْتُ رَجُلًا بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ، جِسْمُهُ وَلَحْمُهُ، أَسْمَرُ إِلَى الْبَيَاضِ، حَسَنُ الْمَضْحَكِ، أَكْحَلُ الْعَيْنَيْنِ، جَمِيلُ دَوَائِرِ الْوَجْهِ، قَدْ مَلَأَتْ لِحْيَتُهُ، مِنْ هَذِهِ إِلَى هَذِهِ، حَتَّى كَادَتْ تَمْلَأُ نَحْرَهُ ” – قَالَ: عَوْفٌ لَا أَدْرِي مَا كَانَ مَعَ هَذَا مِنَ النَّعْتِ – قَالَ: فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لَوْ رَأَيْتَهُ فِي الْيَقَظَةِ مَا اسْتَطَعْتَ أَنْ تَنْعَتَهُ فَوْقَ هَذَا

عَوْفُ بْنُ أَبِي جَمِيلَةَ، نے یزید سے روایت کیا کہ میں نے ابن عباس کے دور میں نیند میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا …(حلیہ جو خواب میں  دیکھا  بیان کیا گیا )  ابن عباس نے کہا اگر تم بیداری میں دیکھ لیتے تو اس سے الگ نہ ہوتا

شعيب الأرنؤوط – کہتے ہیں
إسناده ضعيف، يزيد الفارسي في عداد المجهولين

قال البخاري في ” التاريخ الكبير ” 8 / 367 وفي ” الضعفاء ” ص 122: قال لي علي – يعني ابن المديني -:
قال عبد الرحمن – يعني ابن مهدي -: يزيد الفارسي هو ابن هرمز، قال: فذكرته ليحيى فلم يعرفه
امام بخاری نے اس کا ذکر تاریخ الکبیر میں کیا ہے اور الضعفاء میں کیا ہے کہا مجھ سے امام علی نے کہا کہ عبد الرحمان المہدی نے کہا یزید الفارسی یہ ابن ہرمز ہے اس کا ذکر امام یحیی القطان سے کیا تو انہوں نے اس کو نہ پہچانا

ابن ابی حاتم کے بقول یحیی القطان نے اس کا بھی رد کیا کہ یہ الفارسی تھا
وأنكر يحيى بن سعيد القطان أن يكونا واحداً،

شعيب الأرنؤوط نے اس کا شمار مجہولین میں کیا ہے

نبی صلی الله علیہ وسلم اپنی حیات مبارکہ میں صحابہ کو خواب میں نظر آئے  ہوں گے اور پھر صحابہ نے ان کو بیداری میں بھی دیکھا ہو گا لیکن آج ہم میں سے کون اس شرط کو پورا کر سکتا ہے ؟ نبی صلی الله علیہ وسلم کا خواب میں آنا ان کی زندگی تک ہی تھا وہ بھی ان لوگوں کے لئے جو اسلام قبول کر رہے تھے اور انہوں نے نبی کو دیکھا نہیں تھا. نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی صحیح حدیث میں ان کا خواب میں آنا بیان نہیں ہوا . ہم تو صحابہ کا پاسنگ  بھی نہیں!

اخباری خبروں کے مطابق جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو وہاں کے حاکم ملا عمر کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا دیدار خواب میں ہوا اور حکم دیا گیا کہ کابل چھوڑ دیا جائے الله جلد فتح مبین عنایت کرنے والا ہے – لہذا اپنی عوام کو چھوڑ ملا عمر ایک موٹر سائیکل پر فرار ہو گئے اور پیچھے  جہاد کے آرزو مند جوانوں کو خاب و خاسر کر گئے

امت کا یہ حال ہوا کہ فقہی اختلاف یا حدیث رسول ہو یا جنگ و جدل ہو یا یہود و نصرانی سازش ہو سب کی خبر رسول الله کو ہے اور وہ خواب میں آ کر رہنمائی کر رہے ہیں

راقم کہتا ہے یہ علم الغیب میں نقب کی خبر ہے جو الله کا حق ہے – اس پر ڈاکہ اس امت نے ڈالا ہے تو اس کی سزا کے طور پر ذلت و مسکنت چھا گئی ہے

حدیث میں ہے ایک شخص خواب بیان کر رہا تھا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس کو ڈانٹا اور کہا
لَا تُخْبِرْ بِتَلَعُّبِ الشَّيْطَانِ بِكَ فِي الْمَنَامِ
اس کی خبر مت دو کہ شیطان نے تیرے ساتھ نیند میں کیا کھیلا

ظاہر ہے یہ کوئی صحابی تھے جن کو منع کیا گیا کہ جو بھی خواب میں دیکھو اس کو حقیقت سمجھ کر مت بیان کرو

الله ہم سب کو ہدایت دے

==========

مزید معلومات کے لئے پڑھیں

 کتاب الرویا کا بھید

خواب میں رویت باری تعالی

محدثین  اور خوابوں کی دنیا

اہل بیت کی انگوٹھیاں

انگوٹھی پر آیات یا اسماء الحسنی کندہ کروانا

صحیح احادیث کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ایک انگوٹھی تھی جس پر محمد رسول الله کندہ تھا -اس کو اپ صلی الله علیہ وسلم  بطور مہر استعمال کرتے تھے- لیکن بعد میں یہ انگوٹھی   عثمان رضی الله عنہ سے مدینہ میں  اریس نامی ایک کنواں میں گر گئی اور ملی نہیں

کتب اہل سنت

طبقات الکبری از ابن سعد  کی روایت ہے

قَالَ: أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ الْكِلابِيُّ قَالَ: أَخْبَرَنَا مُعْتَمِرٌ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الشَّيْبَانِيِّ قَالَ: قَرَأْتُ نَقْشَ خَاتَمِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ فِي صُلْحِ أَهْلِ الشَّامِ: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ.

ابی اسحٰق الشیبانی نے کہا میں نے علی کی انگوٹھی پر نقش اہل شام سے صلح کے وقت دیکھا اس پر لکھا تھا محمد رسول الله

سند میں أَبُو إِسْحَاقَ الشَّيْبَانِيُّ  الكوفي ہے جس کو سُلَيْمَانُ بْنُ فَيْرُوزَ یا  سُلَيْمَانُ ابْنُ خَاقَانَ یا سلَيْمَان بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ بھی کہا جاتا ہے  – اس نے علی کو نہیں پایا اور  اس طرح کی انگوٹھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تھی جو معدوم ہوئی- کتاب  إمتاع الأسماع بما للنبي من الأحوال والأموال والحفدة والمتاع از  المقريزي (المتوفى: 845هـ) کے محقق   محمد عبد الحميد النميسي کہتے ہیں

 قال أحمد بن يحى بن جابر: نسبت إلى أريس رجل من المدينة من اليهود، عليها مال لعثمان بن عفان رضى اللَّه عنه، وفيها سقط خاتم النبي صلّى اللَّه عليه وسلّم من يد عثمان، في السنة السادسة من خلافته، واجتهد في استخراجه بكل ما وجد إليه سبيلا، فلم يوجد إلى هذه الغاية، فاستدلوا بعد به على حادث في الإسلام عظيم

احمد بن یحیی بن جابر نے کہا : اس کنواں کی نسبت اریس کی طرف ہے جو مدینہ کا ایک یہودی تھا اور اس پر عثمان کا مال لگا اور کنواں میں رسول الله صلّى اللَّه عليه وسلّم  کی مہر عثمان کے ہاتھ سے گری ان کی خلافت کے چھٹے سال اور انہوں نے اس کو نکلالنے کا اجتہاد کیا لیکن کوئی سبیل نہ پائی اس میں کامیاب نہ ہوئے اور اس پر استدلال کیا گیا کہ یہ  اسلام کا ایک عظیم حادثہ ہے

یعنی محمد رسول الله کے الفاظ سے کندہ کرائی انگوٹھی کھو گئی تھی- رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بعد کسی کے لئے یہ جائز  نہیں تھا کہ وہ اس طرح کی انگوٹھی اپنے لئے  بناتا

سنن ترمذی میں ہے

حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الخَلَّالُ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، “أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَنَعَ خَاتَمًا مِنْ وَرِقٍ، فَنَقَشَ فِيهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ”، ثُمَّ قَالَ: “لَا تَنْقُشُوا عَلَيْهِ”: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَمَعْنَى قَوْلِهِ: “لَا تَنْقُشُوا عَلَيْهِ”، نَهَى أَنْ يَنْقُشَ أَحَدٌ عَلَى خَاتَمِهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ

رسول الله نے حکم دیا اس نقش (محمد رسول الله) کو  کوئی اور کندہ نہ کروائے

طبقات الکبری از ابن سعد  کی روایت ہے

قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبَانُ بْنُ قَطَنٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ أَبِيهِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى: أَنَّ

عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ تَخَتَّمَ فِي يَسَارِهِ

عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى  نے کہا علی سیدھے ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے

اس کی سند میں محمد بن عبد الرحمن بن أبي ليلى ہے جس کو امام احمد نے  مضطرب الحديث قرار دیا ہے

قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أُوَيْسٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلالٍ عَنْ جعفر بن محمد عَنْ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيهِ: أَنَّ عَلِيًّا تَخَتَّمَ فِي الْيَسَارِ.

جعفر بن محمد نے علی سے انہوں نے باپ سے روایت کیا کہ علی سیدھے ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے

معجم ابن الأعرابي از أبو سعيد بن الأعرابي أحمد بن محمد بن زياد بن بشر بن درهم البصري الصوفي (340هـ) کی روایت ہے

نا مُحَمَّدٌ الْغَلَابِيُّ، نا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى بْنِ زَيْدٍ قَالَ: حَدَّثَنِي عَمِّي الْحُسَيْنُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَ نَقْشُ خَاتَمِ عَلِيٍّ «الْمُلْكُ لِلَّهِ، عَلِيٌّ عَبْدُهُ»

جعفر بن محمد نے علی سے انہوں نے باپ سے روایت کیا کہ علی   انگوٹھی پہنتے تھے جس پر نقش تھا الله  کے لئے بادشاہت ہے علی اس کا بندہ ہے

سند میں امام جعفر ہیں جو   روایت حدیث میں مضطرب ہیں

طبقات الکبری از ابن سعد  کی روایت ہے

[قَالَ: أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى الأَشْيَبُ وَعَمْرُو بْنُ خَالِدٍ الْمِصْرِيُّ قَالا: أَخْبَرَنَا زُهَيْرٌ عَنْ جَابِرٍ الْجُعْفِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ: كَانَ نَقْشُ خَاتَمِ عَلِيٍّ: اللَّهُ الْمَلِكُ] . [قَالَ: أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى قَالَ: أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ جَابِرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ: كَانَ نَقْشُ خَاتَمِ عَلِيٍّ: اللَّهُ الْمَلِكُ] .

جابر جعفی نے  ابن حنفیہ سے روایت کیا کہ علی کی انگوٹھی پر لکھا تھا الله الملک

اس کی سند میں جابر جعفی سخت ضعیف ہے

کتب اہل تشیع

مستدرك سفينة البحار از   علي النمازي میں ہے

عن الصّادق، عن أبيه(عليهما السلام): إنّ خاتم رسول الله(صلى الله عليه وآله) كان من فضّة ونقشه «محمّد رسول الله». قال: وكان نقش خاتم عليّ(عليه السلام): الله الملك. وكان نقش خاتم والدي رضي الله عنه: العزّة لله

امام جعفر صادق  نے باپ سے روایت کیا کہ رسول الله صلى الله عليه وآله کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس پر نقش تھا محمد رسول الله اور علی کی انگوٹھی پر نقش تھا الله الملک اور  امام جعفر کے باپ کی انگوٹھی پر نقش تھا عزت الله کی ہے

مستدرك سفينة البحار از   علي النمازي میں ہے

الكافي: عن أبي عبدالله(عليه السلام) قال: في خاتم الحسن والحسين الحمدلله(3).

وعن الرّضا(عليه السلام): كان نقش خاتم الحسن: العزّةلله، وخاتم الحسين: إنّ الله بالغ أمره(4).

الکافی از کلینی میں ہے ابو عبد الله سے روایت ہے کہ امام حسن و حسین کی انگوٹھی پر کندہ تھا الحمد للہ اور امام رضا سے روایت ہے حسن کی انگوٹھی پر لکھا تھا العزّةلله، اور حسین کی انگوٹھی پر لکھا تھا إنّ الله بالغ أمره

قرآن کی آیت إنّ الله بالغ أمره سورہ طلاق میں ہے

مستدرك سفينة البحار از   علي النمازي میں ہے

أمالي الصدوق: عن الباقر(عليه السلام): كان للحسين بن عليّ(عليه السلام) خاتمان نقش أحدهما: لا إله إلاّ الله عدّة للقاء الله، ونقش الآخر: إنّ الله بالغ أمره. وكان نقش خاتم عليّ بن الحسين(عليه السلام): خزي وشقي قاتل الحسين بن عليّ(عليه السلام)(5). في أنّ الحسين(عليه السلام) أوصى إلى ابنه عليّ بن الحسين(عليه السلام) وجعل خاتمه في إصبعه وفوّض أمره إليه، ثمّ صار الخاتم إلى محمّد بن عليّ، ثمّ إلى جعفر بن محمّد وكان يلبسه كلّ جمعة ويصلّي فيه، فرآه محمّد بن مسلم في إصبعه وكان نقشه: لا إله إلاّ الله عدّة للقاء الله(6).

أمالي  از  الصدوق میں امام   الباقر(عليه السلام) سے روایت ہے کہ حسین بن علی علیہ السلام کی انگوٹھیاں تھیں- ان میں سے  ایک پر لکھا تھا لا إله إلاّ الله عدّة للقاء الله اور دوسری پر لکھا تھا  إنّ الله بالغ أمره اور علی بن حسین علیہ السلام کی انگوٹھی پر کندہ تھا  ذلیل و رسوا ہوں حسین بن علی کے قاتل کیونکہ حسین نے اپنے بیٹے علی بن حسین کو امر سونپ دیا تھا پھر یہ انگوٹھی گئی محمد بن علی کے پاس وہ اس کو ہر جمعہ پہنتے اور اسی میں نماز پڑھتے  اس کو محمد بن مسلم نے ان کی انگلی میں  دیکھا کہ اس پر کندہ تھا   لا إله إلاّ الله عدّة للقاء الله

بحار الأنوار از   محمد باقر المجلسيى  کی کتاب میں ہے

عن سعد: عن ابن عيسى، عن ابن فضال، عن ابن بكير، عن محمد بن مسلم، عن أبي جعفر عليه  السلام قال: إن لرسول الله صلى الله عليه واله عشرة أسماء: خمسة منها في القرآن،  وخمسة ليست في القرآن، فأما التي في القرآن: فمحمد، وأحمد، وعبد الله، ويس، ون، وأما التي ليست في القرآن: فالفاتح، والخاتم، والكاف، والمقفي، والحاشر

محمد بن مسلم نے أبي جعفر عليه  السلام سے روایت کیا کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پانچ نام قرآن میں ہیں اور پانچ اس میں نہیں ہیں – جو پانچ قرآن میں ہیں وہ ہیں محمد ، احمد ، عبد الله ، یس، ن اور جو نہیں ہیں وہ ہیں فاتح ،  خاتم، کاف اور مقفی اور حاشر

یہ نام بھی تعویذات میں لکھے جاتے ہیں

انگوٹھیوں پر  اسماء الحسنی اور آیات قرانی کندہ کروانا دونوں  اہل سنت  اور اہل تشیع نے اہل بیت النبی سے منسوب کیا ہے – اس کا مقصد کیا تھا مہر تھی یا تعویذ یہ واضح نہیں ہوا

انگوٹھیوں میں پتھر پہنا

کتب اہل سنت

صحیح مسلم  اور مسند ابو یعلی  میں ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ وَهْبٍ الْمِصْرِيُّ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ: «كَانَ خَاتَمُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ وَرِقٍ، وَكَانَ فَصُّهُ حَبَشِيًّا»

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ أَيُّوبَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ الْمِصْرِيُّ أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ قَالَ کَانَ خَاتَمُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ وَرِقٍ وَکَانَ فَصُّهُ حَبَشِيًّا

ترجمہ :  یحیی بن ایوب، عبداللہ بن وہب، مصری یونس بن یزید ابن شہاب، حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس کا نگینہ حبش کا تھا۔

حديث:990

و حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَبَّادُ بْنُ مُوسَی قَالَا حَدَّثَنَا طَلْحَةُ بْنُ يَحْيَی وَهُوَ الْأَنْصَارِيُّ ثُمَّ الزُّرَقِيُّ عَنْ يُونُسَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَبِسَ خَاتَمَ فِضَّةٍ فِي يَمِينِهِ فِيهِ فَصٌّ حَبَشِيٌّ کَانَ يَجْعَلُ فَصَّهُ مِمَّا يَلِي کَفَّهُ

عثمان بن ابی شیبہ، عباد بن موسی، طلحہ بن یحیی، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چاندی کی انگوٹھی اپنے دائیں ہاتھ میں پہنی تھی جس میں حبشہ کا نگینہ تھا انگوٹھی پہنتے وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کا نگینہ اپنی ہتھیلی کی رخ کی طرف کرلیتے تھے۔

محمد فؤاد عبد الباقي شرح میں لکھتے ہوں

  (حبشيا) قال العلماء يعني حجرا حبشيا أي فصا من جزع أو عقيق فإن معدنهما بالحبشة واليمن وقيل لونه حبشي أي أسود

علماء کہتے  ہیں حبشی پتھر تھا یعنی نگ سنگ مرمر کا یا عقیق کا تھا اور کہا جاتا ہے کالا تھا جیسے حبشی ہوتے ہیں

بیہقی شعب الایمان میں اس روایت پر کہتے ہیں

وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ دَلَالَةٌ عَلَى أَنَّهُ كَانَ خَاتَمَانِ أَحَدُهُمَا فَصُّهُ حَبَشِيًّا،

یہ روایت دلالت کرتی ہے کہ رسول الله کے پاس انگوٹھیاں تھیں جن میں ایک میں حبشہ کا نگ لگا تھا

صحیح مسلم کی اس روایت میں يونس بن يزيد  الايلى، صاحب الزهري  کا تفرد ہے- یہ مختلف فیہ ہے ابن سعد نے کہا   ليس بحجة  حجت نہیں ہے اور امام وكيع نے کہا  سيئ الحفظ  اس کا حافظہ خراب ہے اور امام احمد نے اس کی بعض احادیث کو منکر قرار دیا

  وقال الاثرم: ضعف أحمد أمر يونس.

الاثرم نے کہا احمد نے يونس بن يزيد  الايلى، صاحب الزهري کے کام کو ضعیف کہا

علمائے اہل سنت میں سے بعض مثلا اہل حدیث اور وہابیوں کے نزدیک یہ پتھر بطور زینت رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے  پہنا

یہ قول قابل غور ہے کہ ائمہ شیعہ عقیق نماز کے وقت پہنتے  کیونکہ قرآن میں ہے

يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ

اے بنی آدم  ہر سجدے پر اپنی زینت  لو

کتب اہل تشیع

کتاب بشارة المصطفى ( صلى الله عليه وآله ) لشيعة المرتضى ( عليه السلام ) کے مطابق

حدثنا عبد الرزاق ، عن معمر ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة : قالت :« دخلت على رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) وفي يده خاتم فضة عقيق فقلت : يارسول الله ما هذا الفص ؟ فقال لي : من جبل أقر لله بالربوبية ولعلي بالولاية ولولده بالامامة ولشيعته بالجنة

عائشہ سے روایت ہے کہ میں رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) کے پاس داخل ہوئی دیکھا ان کے ہاتھ میں عقیق کی چاندی کی انگوٹھی ہے پوچھا یہ نگ کس لئے؟ فرمایا : یہ پہاڑ ہے جو الله کی ربوبیت کا اقراری ہے اور علی کی ولایت کا اور ان کی اولاد کی امامت جا اور ان کے شیعوں کے لئے جنت کا

یہ روایت عبد الرزاق سے صحیح سند سے ہے لیکن کتب اہل سنت میں نہیں ملی

مسند امام الرضا میں ہے

عنه عن علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن على بن معبد، عن الحسين بن خالد عن الرضا عليه السلام، قال: كان أبو عبد الله عليه السلام يقول: من اتخذ خاتما فصه عقيق لم يفتقر ولم يقض له إلا بالتى هي أحسن

الحسين بن خالد نے امام الرضا سے روایت کیا کہ أبو عبد الله عليه السلام نے کہا جس نے عقیق کو انگوٹھی چاندی کے ساتھ لی وہ فقیر نہ ہو گا  اس کا کوئی کام پورا نہ ہو گا لیکن احسن انداز سے

اہل تشیع کی بعض روایات میں ہے عقيق أصفر پہنو یا عقيق احمر پہنو

الکافی از کلینی میں ہے

عنه، عن بعض أصحابه، عن صالح بن عقبة، عن فضيل بن عثمان، عن ربيعة الرأي قال: رأيت في يدعلي بن الحسين عليه السلام فص عقيق فقلت: ماهذا الفص؟ فقال: عقيق رومي، وقال رسول الله صلى الله عليه وآله: من تختم بالعقيق قضيت حوائجه.

(12631 5) عنه، عن بعض أصحابه رفعه قال: قال أبوعبدالله عليه السلام: العقيق أمان في السفر.

ربيعة الرأي نے کہا میں نے علی بن حسین کے ہاتھ میں عقیق کا نگ دیکھا پوچھا یہ کیسا نگ ہے ؟ کہا یہ رومی عقیق ہے اور رسول الله صلى الله عليه وآله نے فرمایا  جس نے عقیق کی انگوٹھی پہنی اس کی حاجات پوری ہوئیں- اور … ابو عبد اللہ سے روایت ہے عقیق سے سفر میں امان ملتی  ہے

فیروزہ پہنے پر روایات

وسائل الشيعة   باب استحباب لبس الداعي خاتم فيروزج وخاتم عقيق

أحمد بن فهد في ( عدة الداعي ) عن أبي عبدالله ( عليه السلام ) قال : قال رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) : قال الله عز وجل : إني لأستحيي من عبدي يرفع يده وفيها خاتم فيروزج فأردها خائبة

بحار الأنوار از   محمد باقر المجلسيى  کی کتاب میں ہے

الصادق عليه السلام قال: قال رسول الله صلى الله عليه واله: قال الله سبحانه:

إني لاستحيي من عبد يرفع يده وفيها خاتم فيروزج فأردها خائبة.

حدیث قدسی ہے کہ میں اس سے حیا کرتا ہوں کہ بندہ ہاتھ دعا کے لئے بلند کرے اور اس میں فیروزہ ہو اور میں اس کو قبول نہ کروں

ابن سبا کا فلسفہ

یہود کے مطابق عقیق اور فیروزہ ان دو پتھروں کا تعلق  یہود کے ١٢ میں سے دو قبیلوں سے تھا جن کے نام دان اور نفتالی ہیں – یہ یہود کے کھو جانے والے قبائل ہیں –

ہیکل سلیمانی کے امام کے گلے کے ہار میں ١٢ نگ ہونے چاہیے ہیں جو ١٢ قبائل سے منسوب ہیں  – توریت کتاب خروج میں ہے

Exodus 28:18 the second row shall be turquoise, lapis lazuli and emerald;
Exodus 28:19 the third row shall be jacinth, agate and amethyst;

دوسری رو میں فیروزہ  … ہو گا

تیسری میں … عقیق ہو گا

یہود کی کتاب ترجم میں ہے

Targum, Jewish Magic and Superstition, by Joshua Trachtenberg, 1939

Shebo [agate] is the stone of Naphtali
Turquoise is the stone of Dan

شیبو یا عقیق یہ نفتالی کا پتھر ہے

فیروزہ یہ دان کا نگ ہے

یہودی محقق ٹیوڈر پارفٹ لکھتے ہیں

The Road to Redemption: The Jews of the Yemen, 1900 – 1950 by Tudor Parfitt, 1996, Brill  Publisher, Netherland

In the nineteenth century even the Jewish world knew relatively little of  the Jews of South Arabia. In 1831 Rabbi Yisrael of Shklov sent an emissary to Yemen … emissaries who had visited Yemen some years before and who had claimed to have met members of the tribe of Dan in the deserts of  Yemen..

انیسویں صدی میں دنیائے یہود کو جزیرہ العرب کے جنوب میں یہود کے بارے میں  بہت کم معلومات تھیں – سن ١٨٣١ میں ربی اسرائیل جو شخلو کے تھے انہوں نے ایک سفارتی وفد یمن بھیجا جہاں ان کی ملاقات یہودی قبیلہ دان کے لوگوں سے ہوئی جو یمن کے صحراء میں ٹہرے

 

The conviction that the lost tribes were to be found in the more remote areas of the Yemen was one which was shared by the Yemenite Jews themselves. Over the centuries they had elaborated numerous legends about the tribes, and particularly about the supposed valour of the Tribe of Dan

یہ یقین کہ کھوئے ہوئے قبیلے یمن کے دور افتادہ علاقوں میں ملیں گے یہ یقین یمنی یہودیوں کو بھی ہے – صدیوں سے ان کے قبائل کے  بارے میں بہت سی حکایتیں جمع ہیں جن میں قبیلہ دان کی بہادری کے تزکرے ہیں

 راقم کہتا ہے ابن سبا بہت ممکن ہے دان یا نفتالی قبیلہ کا تھا جو یمن میں آباد تھے اور لشکر علی میں شامل ہو کر کوفہ پہنچے اور شیعوں میں مل گئے لیکن قبائلی عصبیت باقی رہی اور اپنے قبیلوں سے منسوب نگوں کو اہل بیت کی انگوٹھیوں میں لگوا دیا یعنی ان سے منسوب کیا

دان نفتالی ابن سبا اور آصف بن برخیاہ پر مزید دیکھیں

اصف بن بر خیا کا راز

غلو ٢

اول  وہ حدیث صحیح ہے کہ الله تعالی ہاتھ پیر آنکھ بن جاتے ہیں؟

دوم وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى کا مطلب ہے نبی کا ہاتھ الله کا ہاتھ تھا؟

سوم بیعت رضوان میں ید الله فوق ہے کا مطلب ہے الله کا ہاتھ تھا؟

جواب

یہ سب جاہلوں کا کلام ہے

نبی صلی الله علیہ وسلم نے جنگ میں مٹی کفار پر پھینکی اس پر تبصرہ ہوا
وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى
اور تم نے نہیں پھینکا جو پھینکا لیکن الله نے پھینکا

يد الله فوق أيديهم
ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ تھا

يه ادبی انداز ہے کہ الله کی مدد شامل حال ہے
اس کو ظاہر پر لینا اور کہنا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ہاتھ الله کا ہاتھ تھا غلو کی بدترین مثال ہے
یہ عبد اور الہ کے درمیان اتحاد کی بات ہے جو پس پردہ ان صوفیوں کے عقیدہ ہیں یعنی
حلول
وحدت الوجود اور الشہود

اس کی تفصیل اپ کو ڈاکٹر عثمانی کی کتاب ایمان خالص حصہ اول میں ملے گی
تصوف کے حوالے سے کتاب ایمان الخالص پہلی قسط
https://www.islamic-belief.net/literature/urdu-booklets/

نبی صلی الله علیہ وسلم کو ان آیات سے بتایا گیا کہ اس جنگ میں جو بھی ہوا وہ سب الله کی مرضی سے ہوا اور جو بیعت لی وہ بھی اسی کی مرضی سے ہوئی
بظاہر تو مسلمان اور مشرک لڑ رہے تھے لیکن پوری جنگ الله کے کنٹرول میں تھی وہی اس کو الٹ پلٹ کر رہا تھا مسلمان اسی کے حکم پر شہید ہو رہے تھے اور کفار مر رہے تھے

نبی نے دعا کی
لاإله إلا الله وحده لا شريك له , له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير، لا إله إلا الله وحده، أنجز وعده، ونصر عبده، وهزم الأحزاب وحده،
نہیں کوئی الہ سوائے الله کے اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں – اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کے لئے حمد ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے
نہیں کوئی الہ سوائے الله اکیلے کے اس نے وعدہ پورا کیا اپنے بندے کی مدد کی اور اکیلے تمام لشکروں کو شکست دی
===========

مجھ سے محمد بن عثمان نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن مخلد نے، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے، ان سے شریک بن عبداللہ بن ابی نمر نے، ان سے عطاء نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے اور کوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے (یعنی فرائض مجھ کو بہت پسند ہیں جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ) اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اگر وہ کسی دشمن یا شیطان سے میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں اور میں جو کام کرنا چاہتا ہوں اس میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا کہ مجھے اپنے مومن بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے۔ وہ تو موت کو بوجہ تکلیف جسمانی کے پسند نہیں کرتا اور مجھ کو بھی اسے تکلیف دینا برا لگتا ہے۔
الذھبی خالد بن مخلد کے ترجمہ میں میزان میں کہتے ہیں

هذا حديث غريب جداً لولا هيبة الجامع الصحيح لعدوه في منكرات خالد بن مخلد وذلك لغرابة لفظه، ولأنه مما ينفرد به شريك، وليس بالحافظ، ولم يرو هذا المتن إلا بهذا الإسناد

یہ حدیث بہت غریب ہے اور اگر جامع الصحیح کی ہیبت نہ ہوتی تو اس روایت کو خالد بن مخلد کی منکرات میں شمار کیا جاتا اور اس روایت میں الفاظ کی غرابت ہے اور یہ کہ اس میں شریک کا تفرد ہے اور وہ حافظ نہیں ہے اور اس متن کو اس سند سے کوئی اور روایت نہیں کرتا

⇑ روایت پر عَادَى لِي وَلِيًّا سوال ہے کہ کیا یہ کسی محدث کے نزدیک ضعیف ہے ؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/عقائد/الأسماء-و-الصفات/

راقم اس روایت کو منکر ہی سمجھتا ہے

[ابو بکر سماع الموتی کا عقیدہ رکھتے تھے  کیونکہ انہوں نے کہا تدفین سے پہلے قبر نبوی سے اجازت لینا]

جواب

موطا امام مالک ۔ جلد اول ۔ کتاب الجنائز ۔ حدیث 468
مردے کو کفن پہنانے کا بیان
راوی:
يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ أَنَّهُ قَالَ بَلَغَنِي أَنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ قَالَ لِعَائِشَةَ وَهُوَ مَرِيضٌ فِي كَمْ كُفِّنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ بِيضٍ سُحُولِيَّةٍ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ خُذُوا هَذَا الثَّوْبَ لِثَوْبٍ عَلَيْهِ قَدْ أَصَابَهُ مِشْقٌ أَوْ زَعْفَرَانٌ فَاغْسِلُوهُ ثُمَّ كَفِّنُونِي فِيهِ مَعَ ثَوْبَيْنِ آخَرَيْنِ فَقَالَتْ عَائِشَةُ وَمَا هَذَا فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ الْحَيُّ أَحْوَجُ إِلَى الْجَدِيدِ مِنْ الْمَيِّتِ وَإِنَّمَا هَذَا لِلْمُهْلَةِ
یحیی بن سعید نے کہا مجھے پہنچا کہ ابوبکر صدیق نے عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا اپنی بیماری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کتنے کپڑوں میں کفن دیئے گئے تھے – عائشہ نے کہا سفید تین کپڑوں میں سحول کے، تب ابوبکر نے کہا کہ یہ کپڑا جو میں پہنے ہوں اس میں گیرو یا زعفران لگا ہوا ہے اس کو دھو کر اور دو کپڑے لے کر مجھے کفن دے دینا – عائشہ بولیں یہ کیا بات ہے ابوبکر بولے کہ مردے سے زیادہ زندے کو کپڑے کی حاجت ہے کفن تو پیپ اور خون کے لئے ہے ۔

صحیح بخاری میں ہے وفات سے پہلے ابو بکر رضی الله عنہ نے
فَنَظَرَ إِلَى ثَوْبٍ عَلَيْهِ، كَانَ يُمَرَّضُ فِيهِ بِهِ رَدْعٌ مِنْ زَعْفَرَانٍ، فَقَالَ: اغْسِلُوا ثَوْبِي هَذَا وَزِيدُوا عَلَيْهِ ثَوْبَيْنِ، فَكَفِّنُونِي فِيهَا، قُلْتُ: إِنَّ هَذَا خَلَقٌ، قَالَ: إِنَّ الحَيَّ أَحَقُّ بِالْجَدِيدِ مِنَ المَيِّتِ، إِنَّمَا هُوَ لِلْمُهْلَةِ فَلَمْ يُتَوَفَّ حَتَّى أَمْسَى مِنْ لَيْلَةِ الثُّلاَثَاءِ، وَدُفِنَ قَبْلَ أَنْ يُصْبِحَ
کپڑوں کو دیکھا جس میں وہ مریض تھے اس پر زعفران کے نشان تھے کہا ان کپڑوں کو دھونا اور ان میں دو کا اضافہ کرنا پھر کفن دینا عائشہ رضی الله عنہا نے کہا میں نے پوچھا یہ اپ نے کیا؟ ابو بکر نے کہا زندہ حق دار ہے میت سے زیادہ نئے کا یہ تو پیپ اور خون کے لئے ہے

نوٹ : ابو بکر کے مطابق اولیاء الله پیپ اور خون میں تبدیل ہو جاتے ہیں
=================
اب یہ روایت ہے جس میں ہے کہ علی نے نیا کفن دیا – ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں اس کا ذکر کیا ہے
ابن عساكر رحمه الله (المتوفى571)نے کہا:
أنبأنا أبو علي محمد بن محمد بن عبد العزيز بن المهدي وأخبرنا عنه أبو طاهر إبراهيم بن الحسن بن طاهر الحموي عنه أنا أبو الحسن أحمد بن محمد بن أحمد العتيقي سنة سبع وثلاثين وأربع مائة نا عمر بن محمد الزيات نا عبد الله بن الصقر نا الحسن بن موسى نا محمد بن عبد الله الطحان حدثني أبو طاهر المقدسي عن عبد الجليل المزني عن حبة العرني عن علي بن أبي طالب قال لما حضرت أبا بكر الوفاة أقعدني عند رأسه وقال لي يا علي إذا أنا مت فغسلني بالكف الذي غسلت به رسول الله صلى الله عليه وسلم وحنطوني واذهبوا بي إلى البيت الذي فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم فاستأذنوا فإن رأيتم الباب قد يفتح فادخلوا بي وإلا فردوني إلى مقابر المسلمين حتى يحكم الله بين عباده قال فغسل وكفن وكنت أول من يأذن إلى الباب فقلت يا رسول الله هذا أبو بكر مستأذن فرأيت الباب قد تفتح وسمعت قائلا يقول ادخلوا الحبيب إلى حبيبه فإن الحبيب إلى الحبيب مشتاق
حبة العرني نے علی سے روایت کیا کہ جب ابو بکر کا انتقال ہوا میں ان کے سرہانے تھا انہوں نے کہا اے علی جب میں مر جاؤں تم اس برتن سے غسل دینا جس سے نبی صلی الله علیہ وسلم کو دیا تھا اور خوشبو لگانا اور اس گھر جانا جس میں رسول الله ہیں ان سے اجازت لینا اگر دیکھو دروازہ کھل گیا تم مجھ کو اس میں داخل کرنا ورنہ مسلمانوں کے قبرستان میں لانا یہاں تک کہ الله اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرے (یعنی قیامت) پس علی نے کہا : میں نے غسل دیا اور کفن دیا اور میں پہلا تھا جس نے دروازہ پر اجازت لی پس میں نے کہا اے رسول الله یہ ابو بکر ہے اجازت مانگتا ہے میں نے دیکھا دروازہ کھلا اور سنا ایک کہنے والے کو کہ حبیب کو جبیب کے پاس داخل کرو کیونکہ جبیب حبیب کا مشتاق ہے

اس روایت کو نقل کرنے کے بعد خود ابن عساکر نے اس پر جرح کرتے ہوئے کہا:
هذا منكر وراويه أبو الطاهر موسى بن محمد بن عطاء المقدسي وعبد الجليل مجهول والمحفوظ أن الذي غسل أبا بكر امرأته أسماء بنت عميس [تاريخ دمشق لابن عساكر: 30/ 437]۔
یہ منکر ہے اس میں أبو الطاهر موسى بن محمد بن عطاء المقدسي [الوفاة: 221 – 230 ه] اور عبد الجليل مجہول ہیں
اور محفوظ ہے کہ ابو بکر کو ان کی بیوی اسماء بنت عمیس نے غسل دیا
بعض محدثین نے موسى بن محمد بن عطاء بن طاهر البَلْقاويّ المقدسيّ کو کذاب بھی کہا ہے
ورماه بالكذب أبو زرعة وأبو حاتم.
وقال الدَّارَقُطْنيّ: متروك.
قال العُقَيْلي: يُحَدِّث عن الثقات بالبواطيل والموضوعات.
وقال ابن حبان: كان يضع الحديث على الثقات، لا تحل الرواية عنه.
وقال ابن عدي: منكر الحديث، يسرق الحديث.

===========

اس منکر روایت کا ذکر سب سے پہلے أبو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) نے کتاب الشريعة میں کیا ہے لیکن
سند نہیں دی
قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ رَحِمَهُ اللَّهُ: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ لَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ , قَالَ لَهُمْ: إِذَا مِتُّ وَفَرَغْتُمْ مِنْ جَهَازِي فَاحْمِلُونِي حَتَّى تَقِفُوا بِبَابِ الْبَيْتِ الَّذِي فِيهِ قَبْرُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقِفُوا بِالْبَابِ وَقُولُوا: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , هَذَا أَبُو بَكْرٍ يَسْتَأْذِنُ فَإِنْ أُذِنَ لَكُمْ وَفُتِحَ الْبَابُ , وَكَانَ الْبَابُ مُغْلَقًا , فَأَدْخِلُونِي فَادْفِنُونِي , وَإِنْ لَمْ يُؤْذَنْ لَكُمْ فَأَخْرِجُونِي إِلَى الْبَقِيعِ وَادْفِنُونِي. فَفَعَلُوا فَلَمَّا وَقَفُوا بِالْبَابِ وَقَالُوا هَذَا: سَقَطَ الْقُفْلُ وَانْفَتَحَ الْبَابُ , وَسُمِعَ هَاتِفٌ مِنْ دَاخِلِ الْبَيْتِ: أَدْخِلُوا الْحَبِيبَ إِلَى الْحَبِيبِ فَإِنَّ الْحَبِيبَ إِلَى الْحَبِيبِ مُشْتَاقٌ

تفسیر مفاتیح الغیب المعروف تفسیر کبیر ج٢١ ص433 میں سوره کہف کی آیت فَضَرَبْنَا عَلَى آذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَدًا میں فخر الدين الرازي خطيب الري (المتوفى: 606هـ) نے کرامت اولیاء کی مثال کے طور پر اس کا ذکر کیا

أَمَّا الْآثَارُ» فَلْنَبْدَأْ بِمَا نُقِلَ أَنَّهُ ظَهَرَ عَنِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ مِنَ الْكَرَامَاتِ ثُمَّ بِمَا ظَهَرَ عَنْ سَائِرِ الصَّحَابَةِ، أَمَّا أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَمِنْ كَرَامَاتِهِ أَنَّهُ لَمَّا حُمِلَتْ جِنَازَتُهُ إِلَى بَابِ قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنُودِيَ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا أَبُو بَكْرٍ بِالْبَابِ فَإِذَا الْبَابُ قَدِ انْفَتَحَ وَإِذَا بِهَاتِفٍ يَهْتِفُ مِنَ الْقَبْرِ أَدْخِلُوا الْحَبِيبَ إِلَى الْحَبِيبِ

تفسیر نیشاپوری یا غرائب القرآن ورغائب الفرقان از نظام الدين الحسن بن محمد بن حسين القمي النيسابوري (المتوفى: 850هـ) میں اس کا ذکر ہے
وأما الآثار فمن كرامات أبي بكر الصديق أنه لما حملت جنازته إلى باب قبر النبي صلى الله عليه وسلم ونودي السلام عليك يا رسول الله هذا أبو بكر بالباب فإذا الباب قد فتح فإذا هاتف يهتف من القبر أدخلوا الحبيب إلى الحبيب

السراج المنير في الإعانة على معرفة بعض معاني كلام ربنا الحكيم الخبير از شمس الدين، محمد بن أحمد الخطيب الشربيني الشافعي (المتوفى: 977هـ) نے اس کا ذکر کیا

اس طرح اہل کشف نے اس کو دلیل کے طور پر پیش کیا اور بریلوی فرقہ کو پسند آیا
=====
روایت کا شیعی نکتہ

راقم سمجھتا ہے اس میں شیعیت کا پرچار ہے
اول ابو بکر نے اپنی اولاد کی بجائے علی کو احکام دیے
دوم یہ علی کی خلافت کی طرف اشارہ ہوا
سوم ابو بکر کی تدفین حجرہ نبی میں علی کے طفیل ہوئی

الخلافة المغتصبة از إدريس الحسيني کہتے ہیں
فكيف يكون حبيبا للنبي (ص) من أغضب واغتصب مال فاطمة بضعته التي قال عنها: يغضبني ما أغضبها، إن هذه المفارقات لم تكن سوى من اختراع المؤرخ المأجور، وأنصار الخلافة المغتصبة.
کیسے یہ نبی کا حبیب ہوا جس نے قبضہ کیا اور مال فاطمہ غصب کیا .. پس یہ اختراع مورخ کی ہے اور ان مددگاروں کی جنہوں نے غصب خلافت میں مدد کی

مأساة الزهراء عليها السلام از السيد جعفر مرتضى العاملي کے مطابق
وقد رووا عن علي ( ع ) : أنه لما مات أبو بكر ، قال علي :
” قلت : يا رسول الله ، هذا أبو بكر يستأذن ، فرأيت الباب قد فتح ،
وسمعت قائلا يقول : أدخلوا الحبيب إلى حبيبه الخ . . ” .
رواه ابن عساكر ، وقال : ” منكر ، وأبو طاهر كذاب ، وعبد
الجليل مجهول الخ . . ( 1 ) ” .

وقد قلنا : إن الخبر وإن كان غير صحيح ، ولكنه يشير إلى أن ما يتحدث عنه قد كان مما يستعمله الناس آنئذ .
اور ہم شیعہ کہتے ہیں اگر یہ خبر صحیح نہ بھی ہو تو لیکن پھر بھی یہ اشارہ کرتی ہے کہ ان (علی) کے لئے جو بیان کیا گیا کہ لوگ (ابو بکر) ان کو (احکام کے سلسلے میں ) استعمال کرتے تھے

اہل تشیع کا کہنا کہ وہ مقام جہاں نبی صلی الله علیہ وسلم دفن ہیں وہ حجرہ فاطمہ ہے
روى الصدوق في أماليه رواية مطوّلة ، عن ابن عباس ، جاء فيها :
« . . فخرج رسول الله « صلى الله عليه وآله » ، وصلّى بالناس ، وخفف الصلاة ، ثم قال : ادعوا لي علي بن أبي طالب ، وأسامة بن زيد ، فجاءا ، فوضع « صلى الله عليه وآله » يده على عاتق علي ، والأخرى على أسامة ، ثم قال : انطلقا بي إلى فاطمة .
فجاءا به ، حتى وضع رأسه في حجرها ، فإذا الحسن والحسين . . » ثم ذكر قضية وفاته هنا
امالی میں صدوق کا کہنا ہے کہ نبی آخری ایام میں بیت فاطمہ گئے اور وہیں انتقال ہوا

شیعہ کہتے ہیں حجرہ عائشہ رضی الله عنہا منبر کے مشرق میں نہیں اس کے پیچھے تھا یعنی مسجد النبی کے جنوب میں لیکن ہم تک جو روایات پہنچی ہیں اس میں ہے کہ حجرہ عائشہ منبر کے مشرق کی سمت میں تھا
تفصیل یہاں ہے
⇑ نبی صلی الله علیہ وسلم نے جو اشیا وفات پر چھوڑیں ان کی کیا تفصیل ہے؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/متفرق/

شیعہ کہتے ہیں آخری وقت نبی صلی الله علیہ وسلم علی کی گود میں تھے ان کے گھر میں اور وہیں دفن ہوئے
شیعوں کے موقف پر یہ اعتراض اٹھتا ہے کہ پھر ابو بکر کیسے بیت فاطمہ میں دفن ہوئے اغلبا اس کا جواب دینے کے لئے یہ روایت گھڑی گئی
لیکن سوال پھر اٹھتا ہے کہ عمر کی تدفین حجرہ فاطمہ میں کیسے ہوئی ؟ کیوں ہوئی؟

[/EXPAND]

[ایک عالم کہتے ہیں نبی صلی الله علیہ وسلم کے والدین کو زندہ کیا گیا انہوں نے کلمہ پڑھا؟]

جواب

صحیح مسلم میں ہے
(203) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَيْنَ أَبِي؟ قَالَ: «فِي النَّارِ»، فَلَمَّا قَفَّى دَعَاهُ، فَقَالَ: «إِنَّ أَبِي وَأَبَاكَ فِي النَّارِ» (صحیح مسلم)
نبی نے فرمایا میرا باپ جہنم میں ہے

——

عن عائشة رضي الله عنها قالت: «حج بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم حجة الوداع فمر بي على عقبة الحجون وهو باك حزين، مغتم فبكيت لبكائه صلى الله عليه وسلم ثم إنه طفر أي وثب فنزل فقال: يا حميراء استمسكي فاستندت إلى جنب البعير.
فمكث عني طويلا ثم عاد إلي وهو فرح مبتسم فقلت له: بأبي أنت وأمي يا رسول الله.
نزلت من عندي وأنت باك حزين مغتم فبكيت لبكائك يا رسول الله، ثم إنك عدت إلي وأنت فرح مبتسم فعن ماذا يا رسول الله؟ فقال: مررت بقبر أمي آمنة فسألت الله ربي أن يحييها فأحياها فآمنت بي ـ أو قال ـ فآمنت وردها الله عز وجل» لفظ الخطيب.
ﻋﺎﺋﺸﮧ ‏ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮩﺎ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ نبي صلی الله علیہ وسلم ﺟﺐ حجة الوداع ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮯ ﮐﺮ ﭼﻠﮯ۔ ﺍﻭﺭ الحجون ﮐﯽ ﮔﮭﺎﭨﯽ ﭘﺮ ﮔﺰﺭﮮ ﺗﻮ ﺭﻧﺞ ﻭ ﻏﻢ ﻣﯿﮟ ﮈﻭﺑﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺭﻭﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﺍﻭﺭ ان ﮐﻮ ﺭﻭﺗﺎ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺭﻭﻧﮯ ﻟﮕﯽ ﭘﮭﺮ رسول الله ﺍﭘﻨﯽ اونٹنی ﺳﮯ ﺍﺗﺮﮮ ﺍﻭﺭکچھ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﻭﺍﭘﺲ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺋﮯ ﺗﻮ ﺧﻮﺵ ﺧﻮﺵ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺋﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﯾﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ! ﺁﭖ ﭘﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ ﻗﺮﺑﺎﻥ ﮨﻮﮞ، ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ؟ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺭﻧﺞ ﻭ ﻏﻢ ﻣﯿﮟ ﮈﻭﺑﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻭﻧﭩﻨﯽ ﺳﮯ ﺍﺗﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﭘﺲ ﻟﻮﭨﮯ ﺗﻮ ﺷﺎﺩ ﻭ ﻓﺮﺣﺎﮞ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻓﺮﻣﺎ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﻮ نبی ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﺁﻣﻨﮧ ﮐﯽ ﻗﺒﺮ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺳﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺯﻧﺪﮦ ﻓﺮﻣﺎ ﺩﮮ ﺗﻮ الله ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺯﻧﺪﮦ ﻓﺮﻣﺎ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﺋﯿﮟ۔

شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية میں سند ہے
حدثنا محمد بن الحسين بن زياد مولى الأنصار، حدثنا أحمد بن يحيى الحضرمي بمكة، حدثنا أبو غزية محمد بن يحيى الزهري، حدثنا عبد الوهاب بن موسى الزهري عن عبد الرحمن بن أبي الزناد، عن هشام بن عروة عن أبيه، عن عائشة: أن النبي صلى الله عليه وسلم نزل إلى الحجون كئيبًا حزينًا، فأقام به ما شاء الله عز وجل، ثم رجع مسرورًا، فقلت: يا رسول الله! نزلت إلى الحجون كئيبًا حزينًا فأقمت به ما شاء الله ثم رجعت مسرورًا، قال: “سألت الله ربي فأحيا لي أمي فآمنت بي، ثم ردها”. هذا لفظ ابن شاهين، كما في كتب السيوطي وغيرها.

سند میں محمد بن يحيى [بن محمد بن عبد العزيز بن عمر بن عبد الرحمن بن عوف أبو عبد الله ولقبه] أبو غزية المدني [الزهري] ہے جو متروک ہے – لسان الميزان از ابن حجر میں ہے
قال الدارقطني: متروك.
وقال الأزدي: ضعيف.
محمد بن يحيى الزهري، أبو غزية الصغير، المَدَنِيّ، كان بمصر.
• قال الدَّارَقُطْنِيّ: مدني عن عبد الوهاب بن موسى، يضع. «الضعفاء والمتروكون» (482) .
دارقطنی کے مطابق یہ حدیثین گھڑتا ہے

نبی صلی الله علیہ وسلم کو منع کر دیا گیا کہ وہ اپنی والدہ کے لئے دعا نہیں کر سکتے یہ نسائی کی روایت ہے

http://www.islamicurdubooks.com/Sunan-Nisai/Sunan-Nisaee.php?vfhadith_id=2041
ہم تک کوئی تاریخی روایت نہیں پہنچی کہ نبی کے والدین مسلم ہوں
اس تمام فلسفہ کی کوئی دلیل نہیں صرف جذباتی تقریر ہے

٣٠٠ ہجری تک اہل تشیع بھی یہی کہتے تھے کہ ابو طالب کافر تھے
——-

مجمع البیان میں طبرسی المتوفی ٤٦٨ ھ کہتے ہیں
أن أهل البيت (عليهم السلام) قد أجمعوا على أن أبا طالب مات مسلما
اہل بیت کا اجماع ہے کہ ابو طالب مسلمان مرے

———

ابي الحسن علي بن ابراهيم القمي المتوفی ٣٢٩ ھ کی تفسیر میں ہے کہ یہ آیت ابو طالب کے لئے ہے
واما قوله: (انك لا تهدي من أحببت) قال نزلت في ابي طالب عليه السلام فان رسول الله صلى الله عليه وآله كان يقول يا عم قل لا إله إلا الله بالجهر نفعك بها يوم القيامة فيقول: يا بن اخي أنا أعلم بنفسى، (وأقول بنفسى ط) فلما مات شهد العباس بن عبدالمطلب عند رسول الله صلى الله عليه وآله انه تكلم بها عند الموت بأعلى صوته، فقال رسول الله صلى الله عليه وآله: اما انا فلم اسمعها منه وأرجو ان تنفعه يوم القيامة، وقال صلى الله عليه وآله: لو قمت المقام المحمود لشفعت في ابي وامي وعمي وأخ كان لي مواخيا في الجاهلية

اغلبا سن ٣٢٠ ہجری تک اہل تشیع یہ ہی مانتے تھے کہ ابو طالب کافر مرے

———
ظاہر ہے ایک گھر میں بعض کافر ہوں اور بعض مومن تو یہ خاص بات ہو جاتی
رسول اللہ کے والدین کا ذکر ضرور ہوتا کہ وہ مومن تھے

⇑ نبی صلی الله علیہ وسلم کے مشرک رشتہ داروں کے حوالے سے سوال ہے
https://www.islamic-belief.net/q-a/تاریخ-٢/

[/EXPAND]

[رسول الله نے مردے کو زندہ کیا ؟]

رسول اللہ کے معجزات کے حوالے سے ایک روایت پیش کی جاتی ہے جس میں مردہ گوہ کو زندہ کیا جاتا ہے کیا یہ واقعہ صحیح ہے

جواب

http://shamela.ws/browse.php/book-28925
اس کو محدثین نے صحیح نہیں سمجھا ہے

بیہقی نے اس کا ذکر دلائل نبوہ میں بَابُ مَا جَاءَ فِي شَهَادَةِ الضَّبِّ لِنَبِيِّنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالرِّسَالَةِ، وَمَا ظَهْرَ فِي ذَلِكَ مِنْ دَلَالَاتِ النُّبُوَّةِ میں کیا ہے
سند میں مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْوَلِيدِ السُّلَمِيُّ منكر الحديث ہے
ذھبی نے میزان میں اس کو رد کیا ہے باطل کہا ہے
روى أبو بكر البيهقى حديث الضب من طريقه بإسناد نظيف، ثم قال البيهقى: الحمل فيه على السلمي هذا.
قلت: صدق والله البيهقى، فإنه خبر باطل.

[/EXPAND]

[عیسی ابن مریم علیہ السلام جب قبر نبوی پر آئیں گے تو اندر قبر سے سلام کا جواب آئے گا ]

جواب

مسند ابی یعلی کی روایت ہے
حدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، عَنْ أَبِي صَخْر ، أَنَّ سَعِيدًا الْمَقْبُرِيَّ أَخْبَرَهُ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ، يَقُولُ : وَالَّذِي نَفْسُ أَبِي الْقَاسِمِ بِيَدِهِ ، لَيَنْزِلَنَّ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ إِمَامًا مُقْسِطًا وَحَكَمًا عَدْلا ، فَلَيَكْسِرَنَّ الصَّلِيبَ ، وَلَيَقْتُلَنَّ الْخِنْزِيرَ ، وَلَيُصْلِحَنَّ ذَاتَ الْبَيْنِ ، وَلَيُذْهِبَنَّ الشَّحْنَاءَ ، وَلَيُعْرَضَنَّ عَلَيْهِ الْمَالُ فَلا يَقْبَلُهُ ، ثُمَّ لَئِنْ قَامَ عَلَى قَبْرِي ، فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ لأُجِيبَنَّهُ
أَبَا هُرَيْرَةَ ، کہتے ہیں کہ انہوں نے رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم کو سنا کہ وہ جس کے ہاتھ میں ابو قاسم کی جان ہے بے شک عیسی ابن مریم نازل ہونگے …. پس جب میری قبر پر آئیں گے اور کہیں گے اے محمّد تو میں جواب دوں گا
اس کی سند میں ابی صخر ہے
أَبِى صَخْرٍ حُمَيْدِ بْنِ زِيَادٍ ابن عدی ابن شاہین ابن معین کے نزدیک ضعیف ہیں

یہ وہی راوی ہے جو سلام پر روح لوٹائے جانے والی روایت بیان کرتا ہے

[/EXPAND]

[زَیْدِ بْنِ حَارِثَةَ، رضی الله عنہ طواف میں بت چھوتے ؟ ]

حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ عَفَّانَ الْعَامِرِیُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِی سَلَمَةَ، وَیَحْیَى بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَاطِبٍ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَیْدٍ، عَنْ زَیْدِ بْنِ حَارِثَةَ، قَالَ: کَانَ صَنَمٌ مِنْ نُحَاسٍ، یُقَالُ لَهُ: إِسَافٌ، أَوْ نَائِلَةُ، یَتَمَسَّحُ بِهِ الْمُشْرِکُونَ إِذَا طَافُوا، فطَافَ رَسُولُ اللَّهِ وَطُفْتُ مَعَه، فَلَمَّا مَرَرْتُ مَسَحْتُ بِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ : ” لا تَمَسَّهُ “، قَالَ زَیْدٌ فَطُفْتُ، فَقُلْتُ فِی نَفْسِی: لأَمَسَّنَّهُ حَتَّى أَنْظُرَ مَا یَکُونُ، فَمَسَحْتُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ : ” أَلَمْ تُنْهَ؟ ”

دلائل النبوه بیهقی

مستدرک حاکم با تعلیقات ذهبی

جواب

زَیْدِ بْنِ حَارِثَةَ نے کہا ایک بت تانبہ کا تھا جس کو اساف کہا جاتا تھا یا نائلہ اس کو مشرک چھوتے جب طواف کرتے- پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے طواف کیا اور میں بھی (بچپن میں ) ساتھ تھا پس جب اس کے پاس گزرا تو میں نے اس کو مسح کیا – رسول الله نے کہا اس کو مسح مت کر- زید نے کہا میں نے دل میں سوچا میں اس کو مسح کرتا ہوں دیکھتا ہوں کیا ہوتا ہے پس میں نے اس کو مسح کیا- رسول الله نے کہا میں نے کیا منع نہیں کیا تھا؟

سند میں أبا سلمة بن عبد الرحمن بن عوف ہے جس سے محمَّد بن عمرو بن علقمة بن وقاص نے روایت کو لیا ہے
محمَّد بن عمرو بن علقمة بن وقاص پر محدثین کی جرح ہے اس سے شواہد میں روایت لی گئی ہے
الذہبی نے کتاب ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين میں کہا
حسن الحديث، متهم من صحح حديثه
قابل الزام ہے وہ جو اس کی حدیث کو صحیح کرے

لہذا جب تلخیص میں کہا على شرط مسلم تو اس کو صحیح قرار دینا نہیں تھا صرف کہا یہ مسلم کی شرط پر ہے
و الله اعلم

[/EXPAND]

[بتوں پر ذبح کردہ کھانا کھانا؟]

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الذَّبَائِحِ وَالصَّيْدِ (بَابُ مَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَالأَصْنَامِ) صحیح بخاری: کتاب: ذبیح اور شکار کے بیان میں

(باب: وہ جانور جن کو تھانوں اور بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہوان کا کھانا حرام ہے)

5499 .

حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ المُخْتَارِ، أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمٌ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ، يُحَدِّثُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّهُ لَقِيَ زَيْدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ بِأَسْفَلِ بَلْدَحٍ، وَذَاكَ قَبْلَ أَنْ يُنْزَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الوَحْيُ، فَقَدَّمَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُفْرَةً فِيهَا لَحْمٌ، فَأَبَى أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا، ثُمَّ قَالَ: «إِنِّي لاَ آكُلُ مِمَّا تَذْبَحُونَ عَلَى أَنْصَابِكُمْ، وَلاَ آكُلُ إِلَّا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ»

حکم : صحیح 5499

ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالعزیز یعنی ابن المختار نے بیان کیا ، انہیں موسیٰ بن عقبہ نے خبردی ، کہا کہ مجھے سالم نے خبر دی ، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زید بن عمرو بن نوفل سے مقام بلد کے نشیبی حصہ میں ملاقات ہوئی ۔ یہ آپ پر وحی نازل ہونے سے پہلے کا زمانہ ہے ۔ آپ نے وہ دستر خوان جس میں گوشت تھا جسے ان لوگوں نے آپ کی ضیافت کے لیے پیش کیا تھا مگر ان پر ذبح کے وقت بتوں کا نام لیا گیا تھا ، آپ نے اسے زید بن عمرو کے سامنے واپس فرمادیا اور آپ نے فرمایا کہ تم جو جانور اپنے بتوں کے نام پر ذبح کرتے ہو میں انہیں نہیں کھاتا ، میں صرف اسی جانور کا گوشت کھاتا ہوں جس پر ( ذبح کرتے وقت ) اللہ کا نام لیا گیا ہو ۔

————-

دوسری جگہ اس حدیث کا یہ ترجمہ کیا گیا

لنک

http://www.hadithurdu.com/01/1-3-477/?s=%D8%A8%D9%84%D8%AF%D8%AD

صحیح بخاری ۔ جلد سوم ۔ ذبیحوں اور شکار کا بیان ۔ حدیث 477

اس چیز کا بیان جواصنام اور بتوں پر ذبح کی جائے

راوی: معلی بن اسد , عبدالعزیزبن مختار , موسیٰ بن عقبہ , سالم , عبد اللہ

حَدَّثَنَا مُعَلَّی بْنُ أَسَدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ الْمُخْتَارِ أَخْبَرَنَا مُوسَی بْنُ عُقْبَةَ قَالَ أَخْبَرَنِي سَالِمٌ أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ لَقِيَ زَيْدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ بِأَسْفَلِ بَلْدَحٍ وَذَاکَ قَبْلَ أَنْ يُنْزَلَ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَحْيُ فَقَدَّمَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُفْرَةً فِيهَا لَحْمٌ فَأَبَی أَنْ يَأْکُلَ مِنْهَا ثُمَّ قَالَ إِنِّي لَا آکُلُ مِمَّا تَذْبَحُونَ عَلَی أَنْصَابِکُمْ وَلَا آکُلُ إِلَّا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ

معلی بن اسد، عبدالعزیزبن مختار، موسیٰ بن عقبہ، سالم، عبداللہ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے زید بن عمرو بن نفیل سے مقام اسفل بلدح میں ملاقات کی اور یہ واقعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونے سے پہلے کا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے دسترخوان پیش کیا، جس پر گوشت تھا، انہوں نے اس کے کھانے سے انکار کیا، پھر فرمایا میں اس سے نہیں کھاتا ہوں، جس کو تم نے اپنے بتوں پر ذبح کرتے ہو اور میں صرف اسی کو کھاتا ہوں، جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو، یعنی بسم اللہ پڑھی گئی ہو۔

یہ حدیث بھی صحیح معلوم نہیں ہوتی کیوں کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کیسے وہ دستر خوان پیش کر سکتے ہیں جس پر بتوں کے نام پر ذبح کویا گیا گوشت ہو اور ویسے بھی اس سے زَيْدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ کی فضیلت حضور صلی الله علیہ وسلم سے زیادہ ثابت ہو رہی ہے

اور دوسری طرف مسند احمد میں بھی یہ حدیث ہے – پلیز یہ بھی بتا دیں کہ یہ حدیث مسند احمد میں کہاں ہے

احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں نوفل بن ھشام بن سعد بن زید سے نقل کیا ھے

ایک مرتبہ رسول خدا صلی الله علیہ وسلم ابو سفیان رضی الله کے ساتھ ایسے حیوان کے گوشت کو تناول فرمارھے تھے جو بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا تھا، جب زید کو کھانے کے لئے بلایا گیا تو زید نے انکار کر دیا، اور اس کے بعدرسول اسلام(ص) بھی زید کی پیروی کرتے هوئے اٹھ کھڑے هوئے، اور اس کے بعد سے رسول اکرم(ص) نے اعلان ِ بعثت تک اس گوشت کو نھیں کھایا جو اصنام و ازلام کے نام پر ذبح کیا جاتا

مسند احمد بن حنبل،ص۱۸۹

ابن عبد البر نے اپنی کتاب استیعاب میں مسند احمد بن حنبل سے اور ابو الفرج اصفھانی نے اپنی کتاب ”الاغانی “میں صحیح بخاری سے نقل کیا ھے

اسد الغابہ کے نقل کے مطابق ج،۴ ص۷۸۔و استعاب جو اصابہ کے حاشیہ میں چھپی ھے جلد ۲،ص۴

یہ ایک شیعہ نے اعترض کیا ہے

جواب

صحیح بخاری میں ہے

فَقَدَّمَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُفْرَةً فِيهَا لَحْمٌ، فَأَبَى أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَ
رسول الله نے دستر خوان پیش کیا جس میں گوشت تھا تو زید نے کھانے سے انکار کیا

شعیب کہتے ہیں
والصواب ما في رواية وهيب بن خالد وغيره عن موسى بن عقبة من أن رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هو الذي قدم إلى زيد بن عمرو بن نفيل سفرة فيها لحم، فأبى الأخير أن يأكل منها
اور ٹھیک وہ روایت ہے جو وھیب کی اور دوسروں کی موسی سے ہے جس میں ہے کہ رسول الله نے زید بن عمرو پر پیش کیا دستر خوان جس میں گوشت تھا اور انہوں نے انکار کیا کھانے سے

قال الخطابي في “أعلام الحديث” 3/1657: امتناع زيد بن عمرو من كل ما في السفرة إنما كان من أجل خوفه أن يكون اللحم الذي فيها مما ذُبح على الأنصاب فتنزه من أكْلِه، وقد كان رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لا يأكل من ذبائحِهم التي كانوا يذبحونها لأصنامهم
خطابی نے کہا زید کا انکار کرنا تھا ہر اس دستر خوان سے جس میں گوشت ہو اس خوف سے کہیں یہ بت پر ذبح کردہ نہ ہو پس اس سے دور رہتے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم بھی ان ذبح کردہ کو نہیں کھاتے تھے

———–

یعنی یہ ایسا ہے کہ اپ کے دفتر میں ایک ہندو اپ کو مٹھائی دے تو اپ فورا نہیں کھا لیں گے کیونکہ امکان ہو گا کہ کہیں یہ پرساد نہ ہو
اسی طرح زید ہر گوشت والی چیز سے دور رہتے جب نبی نے ان کو کھانا دیا تو انہوں نے صاف انکار دیا
اس روایت میں یہ کہیں نہیں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم بت پر ذبح کردہ گوشت لے کر گئے تھے نبی صلی الله علیہ وسلم نے خبر دی کہ زید بھی ایسا ہی کرتے تھے

اب اس کی مخالف روایت مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا يَزِيدُ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ، عَنْ نُفَيْلِ بْنِ هِشَامِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ هُوَ وَزَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ، فَمَرَّ بِهِمَا زَيْدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ، فَدَعَوَاهُ إِلَى سُفْرَةٍ لَهُمَا، فَقَالَ: يَا ابْنَ أَخِي، إِنِّي لَا آكُلُ مِمَّا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ، قَالَ: فَمَا رُئِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَعْدَ ذَلِكَ أَكَلَ شَيْئًا مِمَّا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ. (حم) 1648
مورخ الْمَسْعُودِيُّ نے نُفَيْلِ بْنِ هِشَامِ سے انہوں نے باپ سے انہوں نے دادا سے روایت کیا ہے کہ رسول الله مکہ میں تھے اور زید بن حارثہ بھی پس یہ زید بن عمرو کے پاس گئے ان کو دستر خوان پر بلایا تو زید بن عمرو نے کہا اے بھائی میں وہ نہیں کھاتا جو بت پر ذبح کیا گیا ہو- پس کہا : میں نے نبی کو نہیں دیکھا کہ اس کے بعد بتوں پر ذبح کیا ہوا کچھ کھایا ہو

یہ روایت عبد الرحمن بن عبد الله المسعودی نے روایت کی ہے لیکن یہ ان کے دور اختلاط کی ہے صحیح نہیں ہے

پس معلوم ہوا کہ نہ نبی صلی الله علیہ وسلم نہ زید بن عمرو دونوں بتوں پر ذبح کردہ جانور نہیں کھاتے تھے
جو شیعوں نے کہا ہے وہ ان کی اپنی ذہن سازی ہے متن میں
Extrapolation
ہے

دور اختلاط کی ہے صحیح نہیں ہے

شیعوں نے صحیح بخاری کی روایت مسند احمد سے ملا دی اور دونوں کا صحیح سمجھتے ہوئے اس پر تبصرہ کر کے یہ ثابت کیا کہ نعوذ باللہ نبی صلی الله علیہ وسلم بھی بتوں پر ذبح کردہ جانور کا گوشت کھاتے تھے ایسا اہل سنت کہتے ہیں جبکہ یہ مسند احمد والی روایت اگر اپ کے سامنے نہ ہو تو صحیح بخاری کی حدیث سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا
مخالف کو زچ کرنے کا شیعوں کا یہ انداز ہے جو قابل افسوس ہے
کیا ان کے پاس اہل سنت کی جرح تعدیل کی کتب نہیں جن میں المسعودی کے اختلاط کا ذکر ہے ؟ لہذا مسند احمد کی سند صحیح نہیں ہے
لیکن یہ اپنے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں

[/EXPAND]

[نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلیے حضور کا لفظ بولنا جائز نہیں ہے]

جواب

عربی کا ایک لفظ حضر ہے یعنی حاضر ہوا یا پہنچا اس کا ایک مطلب شاہد بھی ہے
http://www.almaany.com/en/dict/ar-en/حضر/
attend ; go to ; see watch ; view ; witness

نبی صلی الله علیہ وسلم کو قرآن کہتا ہے کہ ہم نے تم کو شاہد بنا کر بھیجا یعنی حق کا گواہ بنا کر بھیجا
اس سے باطل فرقوں نے جو تصوف سے متاثر تھے یہ مفہوم لیا کہ اپ صلی الله علیہ وسلم ان تمام اہم موقعوں کو دیکھ چکے ہیں جن کا ذکر حق کے حوالے سے ہے مثلا انبیاء سابقہ کے احوال بھی اس میں شامل ہیں – اس سے نتیجہ نکلا کہ اپ صلی الله علیہ وسلم حضرت ہوئے یعنی وہاں پہنچے یا گئے یا اپنے مقام سے دیکھ رہے تھے جیسے آج ہم کرکٹ کا میچ گھر میں ہی دیکھ لیتے ہیں

حضور بھی عربی کا لفظ ہے یعنی حاضر ہونے کی کیفیت
لسان العرب ابن منظور میں ہے
وكلمته بحضرة فلان وبمحضر منه أي بمشهد منه
اور کلمہ حضرت فلاں اور محضر منه کا مطلب ہے اس کو دیکھنے والا

اپ کو شاید علم ہو کہ تصوف کی کتب میں کہا جاتا ہے کہ معراج پر نبی صلی الله علیہ وسلم اور موسی علیہ السلام کا جب نماز سے متعلق مکالمہ ہوا تو امام غزالی وہاں کشفی طور موجود تھے (جسمانی نہیں روحانی طور سے) یہاں تک کہ ایک موقعہ پر رسول الله نے غزالی کو روکا کہا ادب یا غزالی
آج کل جو سائنس فکشن میں دکھاتے ہیں کہ بندہ
Energize
ہو جاتا ہے اور انرجی کی صورت منتقل بھی ہوتا ہے یہ تصوف و اہل عرفان پہلے سے کہہ چکے ہیں اگرچہ مذھب مختار میں اس کی دلیل نہیں ہے
———
بریلوی فرقہ والے حضور کی شرح کرتے ہیں

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حاضر و ناظر ہونے کا مفہوم
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حاضر و ناظر ہونا جب قرآن و سنت سے ثابت ہو گیا تو اب اس کی نوعیت بھی سمجھ لیں۔ یہ حاضر و ناظر ہونا جسمانی نہیں۔ علمی، نظری اور روحانی ہے کہ ساری کائنات پر آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر ہے۔ سب کچھ اس طرح دیکھ رہا ہے جیسے ہتھیلی پر رائی کا دانہ اور یہ سب کچھ عطائے خداوندی سے ہے اور ساری کائنات پر گواہی کی یہی شان ہو سکتی ہے۔
http://www.thefatwa.com/urdu/questionID/1474/حضور-ص-کے-حاضر-و-ناظر-ہونے-سے-کیا-مراد-ہے/
انتھی
——-
راقم کہتا ہے فقہ کی کتب میں دلیل لی جاتی ہے کہ یہ کام “بحضرة النبي” ہوا یعنی نبی صلی الله علیہ وسلم کے سامنے ہوا لہذا اس مسئلہ میں یہ فلاں رائے صحیح ہے لیکن وفات کے بعد یہ ممکن نہیں کہ ہم نبی صلی الله علیہ وسلم کے لئے یہ کہہ سکیں -خیال رہے کہ یہ لفظ بطور ٹائٹل نبی صلی الله علیہ وسلم کے لئے استعمال فقہ کی عربی کتب میں نہیں ہوا

حضرت کا لفظ بطور ٹائٹل نبی صلی الله علیہ وسلم کے لئے ترکوں نے استعمال کیا یعنی خلافت عثمانیہ میں اور وہاں سے مغلوں کو ملا اور اردو میں بھی آ گیا لیکن یہ اصلا اہل تصوف کی اصطلاح ہے – ترکوں کی خلافت کی وجہ سے یہ عربی میں بھی رواج پا گیا اور عربی لغت میں حضرت کا لفظ بطور ٹائٹل استعمال ہونے لگا

یہ الفاظ ترک اپنے زعماء کے لئے بھی بطور ٹائٹل استعمال کرتے تھے لہذا یہ عربی میں بھی آ گیا (جیسے بیگم کا لفظ اردو میں استعمال ہو رہا ہے جو ترک معاشرہ کی اہم عورتوں کے لئے بولتے تھے) – القاموس الوحید ، تاج العروس ، المنجد ، مصباح اللغات یہ جدید عربی لغات ہیں ان کے مطابق لفظ حضرت کا اطلاق ایسے بڑے آدمی پر ہوتا ہے جس کے پاس لوگ جمع ہوتے ہیں لیکن یہ ٹائٹل قرون ثلاثہ یا سلف کی عربی میں استعمال نہیں ہوتا تھا

حضرة محمد (یا حضرت محمد) کا لفظ حدیث کی عربی شروحات میں بھی نہیں ہے کیونکہ اس کا استعمال ترکوں نے کیا اور اہل نقل و حدیث میں اس کو استعمال نہیں کیا جاتا تھا

کہنے کا مقصد ہے کہ حضرت عربی کا لفظ تھا لیکن اس کو شہود کے صوفی مفہوم پر لیتے ہوئے ترکوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کے لئے بولا اور اپنے رؤسا کو بھی بطور خطاب بھی دیا وہاں سے برصغیر آیا اور اردو اور عربی لغات میں اس مفہوم پر آ گیا

کتاب نهاية الإيجاز في سيرة ساكن الحجاز المؤلف: رفاعة رافع بن بدوي بن علي الطهطاوي (المتوفى: 1290هـ) کے مطابق
ويحكى بمناسبة ذلك أن السلطان محمود الأوّل «3» الغازى ذهب إلى قطب الأقطاب أبى الحسن الخرقاني «4» ليزوره، فقال: حدّثنا حديثا عن أبى يزيد (5) لنسمعه منك، فقال الشيخ: كان أبو يزيد رجلا من أبصره نجا، ومن نظر إليه اهتدي، فقال السلطان محمود: أهو أعظم من حضرة محمد صلّى الله عليه وسلّم؟
اور مناسب ہے کہ اس حکایت کا ذکر ہو کہ سلطان محمود الاول (المتوفی 1168 ھ) الغازی قطب الاقطاب ابو حسن خرقانی کی زیارت کو گئے اور کہا ہم سے روایت کیا ابو یزید نے کہا شیخ نے کہا ابو یزید وہ شخص ہے کہ جو اس کو دیکھے نجات پائے اور جو نظر ڈالے ہدایت پائے- اس پر سلطان محمود نے کہا کیا وہ حضرت محمد سے بھی بڑا ہے؟

یعنی بارہویں صدی میں “حضرة محمد” کے الفاظ ترک عثمانی خلافت والے بول رہے تھے ان سے قبل عربی میں اس کا استعمال نہیں ملتا

لیکن بر صغیر میں یہ رواج پا گیا تمام فرقے بولتے ہیں -اب یہ انبیاء اور اصحاب رسول سب پر بولا جاتا ہے – ہم نہیں بولیں گے کیونکہ ہم کو اس کے پیچھے اصل صوفی فکر کا علم ہو گیا ہے

[/EXPAND]

[نبی صلی علیہ وسلم ن  اور الله کو ایک ہی ضمیر میں بیان کیا جا سکتا ہے ؟ ]

جواب

صحيح مسلم، كتاب الجمعة، باب تخيف الصلاة والخطبة : 870۔ نسائي، كتاب النكاح، باب ما يكره من الخطبة : 3281۔ ابوداؤد، كتاب الصلاة، باب الرجل يخطب على قوس : 1099۔ كتاب الادب : 4981۔ مسند احمد : 4/ 256۔ بيهقي : 1/ 86، 3/ 216۔ مستدرك حاكم : 1/ 289]

حَدَّثَنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ نُمَيْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، أَنَّ رَجُلًا خَطَبَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَنْ يُطِعِ اللهَ وَرَسُولَهُ، فَقَدْ رَشَدَ، وَمَنْ يَعْصِهِمَا، فَقَدْ غَوَى، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” بِئْسَ الْخَطِيبُ أَنْتَ، قُلْ: وَمَنْ يَعْصِ اللهَ وَرَسُولَهُ “. قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ: فَقَدْ غَوِي

اس میں ہے کہ ایک ضمیر میں جمع کرنے سے منع کیا
——–
اس کی مخالف حدیث ابو داود میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ سکھایا اس میں مذکور ہے :
حدَّثنا محمدُ بنُ بشارٍ، حدَّثنا أبو عاصم، حدَّثنا عِمران، عن قتادةَ، عن عبدِ ربه، عن أبي عياض
عن ابنِ مسعود: أن رسولَ الله – صلَّى الله عليه وسلم – كان إذا تشهدَ، ذكر نحوه، قال بعد قوله: “ورسوله”: “أرسله بالحق بشيراً ونذيراً بين يدي الساعة، من يطع الله ورسوله فقد رَشَدَ، ومن يعصهما فإنه لا يَضُرُّ إلا نفسَه، ولا يَضُرُّ الله شيئاً

اس کی سند میں أبي عياض مجھول ہے – البانی نے اس کو ضعیف کہا ہے

[/EXPAND]

[اولیاء الله کو أُمُور مغيبة کی خبر ہوتی ہے؟]

بدر الدین عینی اپنی کتاب عمدة القاري شرح صحيح البخاري جلد ٢٤ صفحہ ١٣٥ پر لکھتے ہیں کہ

وَقد أخبر كثير من الْأَوْلِيَاء عَن أُمُور مغيبة فَكَانَت كَمَا أخبروا

لنک

http://shamela.ws/browse.php/book-5756#page-7253

 

جواب

فتح الباری باب المبشرات حدیث ٦٩٨٦ کی شرح میں ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «رُؤْيَا المُؤْمِنِ جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ»

نیند میں سچا خواب اتا ہے اس پر کہا گیا
وَقَدْ أَخْبَرَ كَثِيرٌ مِنَ الْأَوْلِيَاءِ عَنْ أُمُورٍ مُغَيَّبَةٍ فَكَانَتْ كَمَا أَخْبَرُوا
خواب میں بہت سے اولیاء کو امور غیبی کی خبر ہوئی اور ایسا ہی ہوا جیسا کہ خبر دی گئی

نیند میں سچا خواب مشرک کو بھی آ سکتا ہے مثلا سورہ یوسف میں بادشاہ کے خواب کا ذکر ہے جو سچا تھا اسی طرح حدیث میں ہرقل کے خواب کا ذکر ہے کہ اس کی سلطنت کو مختون لوگ تباہ کر دیں گے
وغیرہ لہذا اس میں اولیاء کا کوئی خصوص کسی نص سے معلوم نہیں

[/EXPAND]

[رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے خواب میں علی کو ان کی شہادت کی خبر دی]

جواب


حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ عَمَّارٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَنَامِي، فَشَكَوْتُ إِلَيْهِ مَا لَقِيتُ مِنْ أُمَّتِهِ مِنَ الْأَوْدِ وَاللَّدَدِ فَبَكَيْتُ، فَقَالَ لِي: «لَا تَبْكِ يَا عَلِيُّ»، وَالْتَفَتَ فَالْتَفَتُّ، فَإِذَا رَجُلَانِ يَتَصَعَدَانِ وَإِذَا جَلَامِيدُ تُرْضَخُ بِهَا رُءُوسُهُمَا حَتَّى تُفْضَخَ ثُمَّ يَرْجِعُ، أَوْ قَالَ: يَعُودُ، قَالَ: فَغَدَوْتُ إِلَى عَلِيٍّ كَمَا كُنْتُ أَغْدُو عَلَيْهِ كُلَّ يَوْمٍ، حَتَّى إِذَا كُنْتُ فِي الْخَرَّازِينَ لَقِيتُ النَّاسَ، فَقَالُوا: قُتِلَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ

ابُو صَالِحٍ الحَنَفِيُّ الكُوْفی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ قَيْسٍ. نے علی رضی الله عنہ سے روایت کیا کہ علی نے کہا نبی صلی الله علیہ وسلم کو نیند میں دیکھا ان سے امت کی اولادوں سے جو ملا اس کی شکایات کی پس میں رو دیا اور مجھ سے رسول الله نے کہا مت رو علی اور .. دو مرد آئیں گے اپنے سر جھکا کر پلٹ جائیں گے یا کہا لوٹ جائیں گے- کہا پس صبح ہوئی جیسے ہوتی تھی اور میں الخرازين تک آیا تو لوگوں سے ملا کہا امیر المومینین کا قتل ہوا

سند ضعیف ہے شريك ابن عبد الله النخعي ہے اس پر جرح ہے یہ مختلط ہو گیا تھا
دوسرا عمار بن معاوية الدهنى ہے یہ شیعہ ہے
اور نبی صلی الله علیہ وسلم سے علم غیب بعد الوفات منسوب کر رہا ہے کہ رسول الله نے علی کو موت کی خبر دی
متن منکر ہے
——-
دوسری روایت میں ہے
فَشَكَوْتُ إِلَيْهِ مَا لَقِيتُ مِنْ أُمَّتِهِ مِنَ التَّكْذِيبِ وَالأَذَى
شکایات کی جو امت سے تکذیب و تکلیف ملی
——-

ایک اور میں ہے
وَعَنِ الْحَسَنِ- أَوِ الْحُسَيْنِ- أَنَّ عَلِيًّا- رَضِيَ الله عنه- قَالَ: لَقِيَنِي حَبِيبِي- يَعْنِي فِي الْمَنَامِ- نَبِيَّ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَالَ: فَشَكَوْتُ إِلَيْهِ مَا لَقِيتُ مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ بَعْدَهُ فوعدني الراحة منهم إلا قَرِيبٍ فَمَا لَبِثَ إِلَّا ثَلَاثًا ”
شکایات کی جو اہل عراق سے رسول الله کے بعد ملا پس وعدہ کیا کہ راحت قریب ہے تین دن سے بھی قریب
اس کی سند میں مجہول ہے

———

“الخرازين نام کا عراق میں کوئی شہر نہیں ہے کتب البدان میں اس کا ذکر نہیں ملا
یہ قول کتاب المطَالبُ العَاليَةُ بِزَوَائِدِ المسَانيد الثّمَانِيَةِ کے محقق سعد بن ناصر بن عبد العزيز الشَّثري کا ہے
ولم أجد لأي منها ذكرًا في كتب البلدان.

[/EXPAND]

جواب

جواب

جواب

جواب

امام احمد اور حب علی

پیش لفظ

امام  احمد بن  حنبل کو  امام بخاری  کا استاد کہا  جاتا ہے ، لیکن اگر ان کی کتب احاديث کا مطالعہ  کیا  جائے تو دونوں میں حیرت انگیز  تفاوت پایا جاتا ہے – زیرنظر   مضمون سن ٨٠ کی دہائی میں شمارہ حبل الله میں شائع ہوا تھا،  جو مسند احمد بن حنبل اور صحیح بخاری کے سلسلے میں ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی رحمہ الله علیہ کے  تحقیقی مقالہ کے طور پر چھپا تھا- اس کا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ تاریخ کے حوالے سے امام بخاری  اور امام احمد کے منہج میں فرق ہے جو ان کی کتب کا تقابل کرنے سے واضح ہوتا ہے – مزید یہ کہ امام بخاری نے اپنی صحیح میں امام احمد سے براہ راست  کوئی بھی روایت بیان نہیں کی جبکہ دونوں ہم عصر تھے اور امام احمد کے لئے مشھور کیا گیا ہے کہ وہ امام بخاری کے استاد تھے  –   علم دوستوں کے لئے اس مضمون کو کتابی شکل دی گئی ہے

عصر حاضر کے  عرب محققین دکتور    شعیب الأرنؤوط ،   دکتور     احمد شاکر اور  ناصر الدین البانی نے    اس مضمون میں پیش کردہ  مسند احمد کی بعض روایات کو صحیح کہا ہے اور بعض کو ضعیف-   لہذا ان   محقیقن  کے اختلاف و اجماع کا بھی   حاشیہ    میں ذکر کر دیا گیا  ہے تاکہ دیکھا جا سکے کہ  عرب  محققین کی ان آراء کو قبول کرنے سے خود صحیح بخاری کی روایات ہی مشکوک ہو جاتی ہیں – واضح رہے کہ ہمارے نزدیک  اس مضمون  میں پیش کردہ  مسند احمد کی تمام روایات ضعیف ہیں اور اس  پر  ویب سائٹ پر  پہلے سے  کافی مواد  موجود ہے جو محققین کے لئے قابل غور ہے-


دیگر مباحث

اہل سنت میں رافضیت کے بیچ

مستشرقین واقدی اور مسند احمد

امام احمد اور عمار (رضی) کا قتل

امام احمد اور حدیث کساء

————-

حرف آخر

امام احمد کا علی رضی الله عنہ  کے مخالفین کے حوالے سے بغض کا انداز تھا وہ  معاویہ رضی الله عنہ کو خلفیہ نہیں مانتے تھے  اور ان کو بادشاہ قرار دیتے تھے – امام احمد کے نزدیک معاویہ رضی الله عنہ کی خلافت شروع ہونے سے پہلے ہی حقیقی خلافت ختم ہو چکی تھی – امام احمد کے نزدیک اگرچہ اس پر کوئی صحیح حدیث نہیں کہ  معاویہ یا لشکر شام  نے  عمار رضی الله عنہ  کا قتل کیا-  امام احمد حدیث کساء کو بھی   منکر قرار دیتے تھے – امام احمد اس سے بھی منع کرتے کہ کوئی امیر یزید سے روایت بھی کرے

امام احمد کے نزدیک وہ شخص لائق کرم نہیں جو معاویہ رضی الله عنہ کو گالی دے

وقال ابن هانيء: وسئل (يعني أبا عبد الله أحمد بن حنبل) عن الذي يشتم معاوية أيصلى خلفه؟ قال: لا يصلى خلفه ولا كرامة. «سؤالاته» (296) .

ابن هانيء: نے کہا میں نے احمد سے پوچھا کیا اس کے پیچھے نماز پڑھ لوں جو معاویہ کو گالی دے ؟ کہا اس کے پیچھے نماز مت پڑھو نہ عزت کرو

   البتہ احمد نے  حب علی میں  مسند میں  شیعیت  کی راویات کو اکھٹا کر دیا جو بغداد میں اس دور میں سر چڑھ چکی تھی –

یسعیاہ، ابن سبا، الرجعة اورعود روح

قرن اول میں امت میں ایک عقیدہ پھیلایا گیا جس کو عقیدہ  الرجعة  یا رجعت کہا جاتا ہے – اس عقیدے کے اہل سنت انکاری ہیں  اور شیعہ اقراری ہیں-  عقیدہ الرجعة کیا ہے کتب شیعہ سے سمجھتے ہیں

سوره البقرہ کی آیت  ألم تر إلى الذين خرجوا من ديارهم وهم ألوف حذر الموت فقال لهم الله موتوا ثم أحياهم إن الله لذو فضل على الناس ولكن أكثر الناس لا يشكرون(243) پر بحث کرتے ہوئے شیعہ عالم  أبي جعفر محمد بن الحسن الطوسي المتوفی ٤٦٠ ھ  تفسیر التبيان في تفسير القرآن میں لکھتے ہیں

وفي الاية دليل على من أنكر عذاب القبر والرجعة معا، لان الاحياء في القبر، وفي الرجعة مثل إحياء هؤلاء الذين أحياهم للعبرة.

اور اس آیت میں دلیل ہے اس پر جو عذاب قبر کا اور رجعت کا انکار کرے کیونکہ قبر میں زندہ ہونا اور رجعت میں ان کی مثل ہے جن (کا ذکر آیت میں ہے جن کو) کو عبرت کے لئے زندہ کیا گیا

آیت فرحين بما آتاهم الله من فضله ويستبشرون بالذين لم يلحقوا بهم من خلفهم ألا خوف عليهم ولاهم يحزنون(170) کی تفسیر  میں  أبي على الفضل بن الحسن الطبرسي المتوفی ٥٤٨ ھ  لکھتے ہیں

وفي الآية دليل على أن الرجعة إلى دار الدنيا جائزة لاقوام مخصوصين

اور اس آیت میں دلیل ہے کہ دار دنیا میں مخصوص اقوام کی رجعت جائز ہے

آیت ثمَّ بَعَثْنَكُم مِّن بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكمْ تَشكُرُونَ(56) کی تفسیر میں شیعہ عالم تفسیر میں  تفسير مجمع البيان لکھتے ہیں

  و استدل قوم من أصحابنا بهذه الآية على جواز الرجعة و قول من قال إن الرجعة لا تجوز إلا في زمن النبي (صلى الله عليه وآله وسلّم) ليكون معجزا له و دلالة على نبوته باطل لأن عندنا بل عند أكثر الأمة يجوز إظهار المعجزات على أيدي الأئمة و الأولياء و الأدلة على ذلك مذكورة في كتب الأصول

اور ہمارے اصحاب کی ایک قوم نے اس آیت سے استدلال کیا ہے رجعت کے جواز پر  اور کہا کہ جس نے کہا رجعت جائز نہیں ہے سوائے  دور نبوی صلی الله علیہ و الہ وسلم کے کہ وہ معجزہ ہوتا ان کی نبوت کی دلیل پر تو یہ باطل قول ہے کیونکہ ہمارے اکثر ائمہ  اور اولیاء  کے ہاتھ پر  معجزات کا ظہور جائز  ہے جس پر دلائل مذکورہ کتب اصول میں موجود ہیں

ائمہ شیعہ کے مطابق الرجعة کا ایک خاص وقت ہے جس  کا انکار لوگوں نے کیا کیونکہ وہ اس کی تاویل تک نہیں پہنچ سکے

قرآن کی آیت ربنا أمتنا اثنتين وأحييتنا اثنتين وہ کہیں گے اے رب ہم کو دو بار زندہ کیا گیا اور دو بار موت دی گئی پر بھی اہل سنت اور اہل تشیع کا اختلاف ہے – اہل سنت اس کو عموم کہتے ہیں جبکہ اہل تشیع اس کو خاص – اہل سنت کے مطابق تمام لوگوں کو دو زندگیاں اور دو موتیں ملیں ہیں اور اہل تشیع کے مطابق صرف ان دشمنان اہل بیت کو ملی ہیں جن کے گناہوں کا عذاب ان کو دنیا میں نہیں ملا اور مر گئے لہذا ان کو زندہ کیا جائے گا اسی طرح اہل بیت کو بھی قیامت سے قبل زندہ کیا جائے گا

تفسیر نور ثقلین  از عبد على بن جمعة العروسى الحويزى  المتوفی ١١١٢ ھ کے مطابق

وقال على بن ابراهيم رحمه الله في قوله عزوجل : ربنا أمتنا اثنتين و أحييتنا اثنتين إلى قوله من سبيل قال الصادق عليه السلام : ذلك في الرجعة

علی بن ابراہیم نے کہا الله کا قول ربنا أمتنا اثنتين و أحييتنا اثنتين تو اس پر امام جعفر نے کہا یہ رجعت سے متعلق ہے

اہل تشیع میں یہ عقیدہ اصلا ابن سبا سے آیا- یہود بھی رجعت کا عقیدہ رکھتے ہیں اور ان کے مطابق مسیح آ کر مردوں کو زندہ کرے گا

http://www.come-and-hear.com/sanhedrin/sanhedrin_90.html

اس کی دلیل بائبل کی کتاب  یسعیاہ    باب ٢٦ آیت  ١٩ ہے

Your dead shall live; their bodies shall rise.

                     You who dwell in the dust, awake and sing for joy

           For your dew is a dew of light,

                     and the earth will give birth to the dead.

تمھارے مردے جی اٹھیں گے ان کے اجسام زندہ ہوں گے

تم وہ جو خاک میں ہو اٹھو اور گیت گاؤ

کیونکہ تمہاری اوس، روشنی کی شبنم ہے

اور زمیں مردہ کو جنم دے گی

حزقی ایل کی کتاب میں رجعت کا ذکر ہے کہ یہود کو کس طرح جی بخشا جائے گا

Behold I will open your graves and raise you from your graves, My people; and I will bring you into the Land of Israel. You shall know that I am G‑d when I open your graves and when I revive you from your graves, My people. I shall put My spirit into you and you will live, and I will place you upon your land, and you will know that I, G‑d, have spoken and done, says G‑d.” (Ezekiel 37:12-14)

خبردار میں تمہاری قبریں کھول دوں گا اور تم کو جی بخشوں گا میرے لوگ! اور میں تم کو ارض مقدس لاؤں گا

تم جان لو گے کہ میں ہی الله ہوں میں  قبروں کو کھولوں گا

آور تم کو ان میں سے اٹھاؤں گا میرے لوگ ! میں اپنی روح تم میں ڈالوں گا

اور تم زندہ ہو گے اور میں تم کو تمہاری زمین پر رکھوں گا اور تم جان لو گے کہ میں رب نے جو کہا پورا کیا

 

ان آیات کی بنیاد پر یہود کہتے ہیں کہ مسیح مردوں کو بھی زندہ کرے گا اور یہی عقیدہ اہل تشیع کا بھی ہے جس کی قلمیں قرانی آیات میں لگائی گئیں تاکہ اس عقیدہ کو ایک اسلامی عقیدہ  ثابت کیا جا سکے

لہذا قرن اول میں یہ عقیدہ شیعوں میں پھیل چکا تھا اور اہل سنت اس  کا انکار کرتے تھے کہ رجعت ہو گی البتہ  کچھ شیعہ عناصر نے اس کو بیان کیا جو کوفہ کے عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ کے شاگرد تھے- اب اپ کبری صغری کو ملائیں – ابن سبا عثمان رضی الله عنہ کے دور میں یمن سے حجاز آیا اپنا عقیدہ پھیلانے لگا اور وہاں سے مصر اور عراق میں آیا- اسی دوران ابن مسعود کی وفات ہوئی عثمان کی شہادت ہوئی اور علی خلیفہ ہوئے – تاریخ دمشق کے مطابق وہاں کوفیوں میں ابن سبا بھی تھا جس نے ایک دن مجمع میں علی سے کہا

انت انت

تو، تو ہے

یعنی تو اے علی رب العالمین ہے – اس کی وضاحت کے لئے ویب سائٹ پر کتاب مجمع البحرین دیکھیں

کتاب رجال ابن داود از ابن داوود الحلي کے مطابق

 عبدالله بن سبا ي (جخ) رجع إلى الكفر وأظهر الغلو (كش) كان يدعي النبوة وأن عليا عليه السلام هو الله، فاستتابه عليه السلام (ثلاثة أيام) فلم يرجع فأحرقه في النار في جملة سبعين رجلا ادعوا فيه ذلك

عبد الله بن سبا ان ستر میں تھا جن کو جلا دیا گیا

الکشی کہتے ہیں امام جعفر نے کہا

أن عبدالله بن سبأ كان يدعي النبوة ويزعم أن أمير المؤمنين ( عليه السلام ) هو الله

ابن سبا نبوت کا مدعی تھا اور دعوی کرتا تھا کہ علی وہ الله ہیں

کتاب   خلاصة الاقوال از  الحسن بن يوسف بن علي بن المطهر الحلي کے مطابق

عبدالله بن سبا بالسين المهملة والباء المنقطة تحتها نقطة واحده غال ملعون حرقه أميرالمؤمنين عليه السلام بالنار كان يزعم أن عليا عليه السلام إله وأنه نبي لعنه الله.

عبد الله بن سبا کو علی نے جلوا دیا کیونکہ اس نے ان کو الہ کہا

بعض مستشرقین نے یہودی سازش کی چھپانے کے لئے یہ شوشہ چھوڑا کہ اس ابن سبا کی حکایت میں سَيْفُ بْنُ عُمَرَ التَّمِيمِيُّ  ضعیف ہے اس کے بعد شیعہ حضرات بہت خوش ہوئے اور اپنے ائمہ پر جھوٹ گھڑنے کا اتہام لگا دیا جو ابن سبا کا ذکر کرتے آئے ہیں – اہل سنت میں سَيْفُ بْنُ عُمَرَ التَّمِيمِيُّ  سے بعض روایات ابن سبا سے متعلق لی گئی ہیں لیکن کیا کتب شیعہ میں ابن سبا کی تمام خبریں سَيْفُ بْنُ عُمَرَ التَّمِيمِيُّ  کی سند سے ہیں ؟ نہیں ان کے مختلف راوی ہیں جو ثقہ سمھجے جاتے ہیں اور متقدمیں شیعہ ابن سبا کو ایک حقیقی شخص سمجھتے آئے ہیں- اس کے علاوہ اہل سنت کی کتب میں ٢٠ سے ٣٠ راوی ایسے ہیں جو کھلم کھلا اپنے اپ کو سبائی کہتے ہیں یا محدثین إن کو السبئية یا السبائية مين شمأر کرتے ہیں یا وہ رجعت کا عقیدہ رکھتے ہیں – جن  میں سے بعض سَيْفُ بْنُ عُمَرَ التَّمِيمِيُّ  سے پہلے کے ہیں

 السبئية سے متعلق  روایات کو محمد بن حنفیہ کے  بیٹے علی بن محمد بن علی نے جمع کیا تھا یعنی علی رضی الله عنہ کے پوتے نے اس کی خبر امام فسوی المعروفة والتاريخ میں دیتے ہیں

 وكان عَبد الله جمع أحاديث السبئية

اور عبد الله نے  السبئية کی روایات جمع کیں

مورخین کے نزدیک السبئية  سے مراد وہ قبائل بھی ہیں جو یمن میں آباد تھے اور وہیں سے ابن سبا کا تعلق تھاجو یمن سے کوفہ پہنچا اور مورخین کے مطابق اس کی ماں کالی تھی – یہ ایک لطیف نکتہ ہے کہ یہ اصلی یہودی بھی نہیں تھا کیونکہ یہود کے مطابق  کالے لوگ اصلی یہود نہیں اگرچہ اتھوپیا میں کالے یہودی ہیں لیکن باقی یہودی ان کو اصل نہیں مانتے دوسرا یہود میں نسل باپ سے نہیں ماں سے چلتی ہے

قرن اول میں  کوفہ میں ابن سبا رجعت کا عقیدہ بھی پھیلا رہا ہے اور وہاں   شیعہ  زاذان ہیں جو عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ کی وفات کے بعد اب   اصحاب علی  میں سے ہیں،  وہ روایت کرتے ہیں کہ مردہ میں عود روح ہوتا ہے – اس بات کو زاذان  سے پہلے،  نہ بعد میں ، کوئی روایت نہیں کرتا – عود روح کی یہ واحد روایت ہے جس میں صریحا جسد میں روح کے لوٹنے کا ذکر ہے

اس روایت کو زاذان سے ایک  اور متعصب شیعہ المنھال بن عمرو روایت کرتا ہے  یا عدی بن ثابت روایت کرتا ہے  یہ بھی شیعہ ہیں

اس طرح ابن سبا کے  عقیدہ رجعت کا  اسلامی عقیدہ کے طور پر ظہور ہوتا  ہے اور اب اہل سنت میں بھی مردہ قبر میں زندہ ہو جاتا ہے- عود روح کی روایت کے مطابق  روح آسمان پر نہیں جا سکتی لھذا وہ قبر میں ہی رہتی ہے گویا اب صرف انتظار ہے کہ    الساعہ  (وہ گھڑی) کب ہو گئی – اہل سنت جب اس روایت کو دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں اس میں الساعہ  سے مراد روز محشر ہے جبکہ  الساعہ  سے مراد رجعت ہے اسی لئے امام المہدی کو القائم کہا جاتا ہے جو صحیح غلط کا فیصلہ کریں گے اور انتقام لیں گے

شیعہ کتب کے مطابق  ابوحمزہ ثمالي کہتے ہیں: میں نے امام باقر علیہ السلام سے پوچھا: اے  فرزند رسول    کیا آپ سارے ائمہ قائم بالحق نہیں ہیں؟  فرمایا: کیوں نہیں؟  میں نے عرض کیا: تو پھر صرف امام مہدی  کیوں القائم قرار دیئے گئے ہیں اور صرف امام مہدی   کو ہی کیوں القائم کہا جاتا ہے؟  فرمایا: جب میرے جد امجد امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے تو کائنات کے فرشتوں کے رونے کی صدائیں بلند ہوئیں اور سارے فرشتے بارگاہ الہی میں شدت سے روئے اور عرض کیا: پروردگارا  کیا آپ بہترین بندے اور اشرف مخلوقات کے فرزند اور مخلوقات میں پسندیدہ ترین ہستی کے قاتلوں کو ان کے اپنے حال پر چھوڑ دے گا؟  اللہ تعالی نے انہیں وحی فرمائی کہ: میرے فرشتوں  پرسکون ہوجاؤ۔ میں اپنی عزت و جلال کی قسم کھاتا ہوں کہ ان سے انتقام لونگا خواہ یہ انتقال طویل زمانے گذرنے کے بعد ہی کیوں نہ ہو؛ اس کے بعد اللہ تعالی نے فرشتوں کو امام حسین علیہ السلام کی اولاد سے آنے والے ائمہ کا دیدار کرایا تو فرشتے مسرور ہوئے اور سب نے اچانک دیکھا کہ ائمہ میں سے ایک امام کھڑے ہوئے ہیں اور نماز ادا کررہے ہیں۔ اللہ تعالی نے فرشتوں سے خطاب کرکے فرمایا: میں اس القائم کے ذریعے ان سے انتقام لوں گا

اس طرح عقیدہ عود روح ابن سبا  کے دور میں ہی کوفہ میں شیعان علی میں پھیل چکا تھا – یہ ایک خفیہ تحریک تھی علی رضی الله عنہ  کو بھی اس  تحریک کا احساس دیر سے ہوا جب ابن سبا نے کھلم کھلا ان کو مجمع میں  رب العالمین کہا- علی نے اس  کے اصحاب کو مدائن کی طرف ملک بدر کر دیا  اور بعض اور کو جلا ڈالا – جس کی خبر،  علی کے گورنر ، ابن عباس رضی الله عنہ کو بصرہ میں ہوئی لیکن دیر ہو چکی تھی ابن عباس نے کہا اس  عمل سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے منع کیا تھا

الغرض عقیدہ رجعت اور عقیدہ عود روح ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں- اس بات کو خوب اچھی طرح سمجھ لیں

علی علی علی علی

یمن کا ایک شخص عبد الله ابن سبا ، عثمان رضی الله عنہ کے دور میں ایمان لایا – یہ اس سے قبل ایک یہودی تھا اور قرآن و حدیث پر اس کا اپنا ہی  نقطۂ نظر تھا – یہود میں موسی و ہارون (علیھما السلام)  کے بعد  انبیاء کی اہمیت واجبی   ہے –  کوئی بھی نبی موسی (علیہ السلام) سے بڑھ کر نہیں ہے اور موسی  (علیہ السلام) نے الله سے براہ راست کلام کیا اللہ کو ایک جسم کی صورت دیکھا –  باقی انبیاء میں داود  (علیہ السلام) قابل اہم سمجھے جاتے ہیں لیکن ان کی اہمیت ایک موسیقار سے زیادہ یہود کے نزدیک نہیں ہے –  جنہوں نے آلات موسیقی کو ایجاد کیا اور ان  کے سازووں سے ہیکل سلیمانی گونجتا رہتا تھا – ان کے بعد اہمیت الیاس  (علیہ السلام) کی ہے جو شمال کی یہودی ریاست اسرئیل میں آئے اور ان کو زجر و توبیخ کی – آج جو یہودیت ہم کو ملی ہے وہ شمال مخالف یہودا کی ریاست کی ہے- اس ریاست میں یہودا اور بن یامین نام کے دو قبائل تھے جو یہود کے بقول ١٢ میں بچ گئے جبکہ باقی ١٠ منتشر ہو گئے جن کی اکثریت شمالی ریاست میں تھی-  راقم کی تحقیق کے مطابق ابن سبا  کے اجداد کا تعلق بھی شمالی یہود سے تھا –  الیاس  (علیہ السلام) کی اسی لئے اہمیت ہے کہ شمال سے تھے اور وہ ایک آسمانی بگولے میں اوپر چلے گئے

اب ابن سبا کا فلسفہ دیکھتے ہیں

علی الیاس ہیں اورآنے والا دابة الارض ہیں

سبائیوں  کو قرآن سے آیت ملی

 و رفعناه مکانا علیا

اور ہم نے اس کو ایک بلند مقام پر اٹھایا

اس  آیت میں علیا کا لفظ  ہے  یعنی الیاس کو اب بلند کر کے علی کر دیا گیا ہے

اپ سوچ رہے ہوں گے یہ کیا عجیب بات ہے- تو حیران نہ ہوں یہ کتب شیعہ میں موجود ہے

مختصر بصائر الدرجات  از الحسن بن سليمان الحليي  المتوفی ٨٠٦ ھ روایت پیش کرتے ہیں

حدثنا الحسين بن أحمد قال حدثنا الحسين بن عيسى حدثنا يونس ابن عبد الرحمن عن سماعة بن مهران عن الفضل بن الزبير عن الاصبغ ابن نباتة قال: قال لي معاوية يا معشر الشيعة تزعمون ان عليا دابة الارض فقلت نحن نقول اليهود تقوله فارسل إلى رأس الجالوت فقال ويحك تجدون دابة الارض عندكم فقال نعم فقال ما هي فقال رجل فقال اتدري ما اسمه قال نعم اسمه اليا قال فالتفت الي فقال ويحك يا اصبغ ما اقرب اليا من عليا.

الاصبغ ابن نباتة کہتے ہیں کہ معاویہ نے کہا اے گروہ شیعہ تم گمان کرتے ہو علی دابة الارض ہے پس میں الاصبغ ابن نباتة نے معاویہ کو جواب دیا ہم وہی کہتے ہیں جو یہود کہتے ہیں  پس معاویہ نے یہود کے سردار جالوت کو بلوایا اور کہا تیری بربادی ہو کیا تم اپنے پاس دابة الارض کا ذکر پاتے ہو؟ جالوت نے کہا ہاں – معاویہ نے پوچھا کیا ہے اس میں ؟ جالوت نے کہا ایک شخص ہے – معاویہ نے پوچھا اس کا نام کیا ہے ؟ جالوت نے کہا اس کا نام الیا (الیاس) ہے – اس پر معاویہ میری طرف پلٹ کر بولا بردبادی اے الاصبغ یہ الیا ، علیا کے کتنا قریب ہے

الاصبغ ابن نباتة کا تعلق یمن سے تھا یہ علی کا محافظ تھا – یعنی الیاس اب علی ہیں

اسی کتاب میں دوسری روایت ہے

 حدثنا الحسين بن احمد قال حدثنا محمد بن عيسى حدثنا يونس عن بعض اصحابه عن ابى بصير قال: قال أبو جعفر (ع) اي شئ يقول الناس في هذه الآية (وإذا وقع القول عليهم اخرجنا لهم دابة من الارض تكلمهم) فقال هو أمير المؤمنين

ابى بصير  يحيى بن القاسم الاسدى ، امام جعفر سے روایت کرتے ہیں کہ لوگ اس آیت  (وإذا وقع القول عليهم اخرجنا لهم دابة من الارض تكلمهم) پر کیا چیز بول رہے ہیں پس امام نے کہا یہ تو امیر المومنین ہیں

ابى بصير  يحيى بن القاسم الاسدى کے لئے  الطوسي کہتے ہیں  إنه واقفي یہ واقفی تھے اور الکشی کہتے ہیں مختلط تھے
 بحوالہ سماء المقال في علم الرجال – ابو الهدى الكلباسي
كليات في علم الرجال از جعفر السبحاني  کے مطابق  الواقفة سے مراد وہ لوگ ہیں
وهم الذين ساقوا الامامة إلى جعفر بن محمد، ثم زعموا أن الامام بعد جعفر كان ابنه موسى بن جعفر عليهما السلام، وزعموا أن موسى بن جعفر حي لم يمت، وأنه المهدي المنتظر، وقالوا إنه دخل دار الرشيد ولم يخرج منها وقد علمنا إمامته وشككنا في موته فلا نحكم في موته إلا بتعيين
جو کہتے ہیں امامت امام جعفر پر ختم ہوئی پھر انہوں نے دعوی کیا کہ ان کے بیٹے موسی  امام ہیں اور دعوی کیا کہ موسی مرے نہیں زندہ ہیں اور وہی امام المہدی ہیں اور کہا کہ وہ دار الرشید میں داخل ہوئے اور اس سے نہ نکلے اور ہم ان کو امام جانتے ہیں اور ان کی موت پر شک کرتے ہیں پس ہم ان کی موت کا حکم تعین کے ساتھ نہیں لگا سکتے

علی رضی الله عنہ ہی الیاس تھے- جو اب بادلوں میں ہیں – علی کی قبر قرن اول میں کسی کو پتا نہیں تھی – سبائیوں کے نزدیک یہ نشانی تھی کہ وہ مرے نہیں ہیں – البتہ قرن اول اور بعد کے شیعہ یہ عقیدہ آج تک رکھتے ہیں کہ علی مدت حیات میں بادل الصعب کی سواری کرتے تھے اور علی اب دابتہ الارض ہیں جس کا ذکر قرآن میں ہے- اسی بنا پر روایات میں ہے کہ اس جانور کی داڑھی بھی ہو گی – یعنی یہ انسان ہے- عام اہل سنت کو مغالطہ ہے کہ یہ کوئی جانور ہے

مسند امام الرضا کے مطابق امام الرضا اور یہود کے سردار جالوت میں مکالمہ ہوا

 قال لرأس الجالوت: فاسمع الان السفر الفلاني من زبور داود عليه السلام. قال: هات بارك الله فيك وعليك وعلى من ولدك فتلى الرضا عليه السلام السفر الاول من الزبور، حتى انتهى إلى ذكر محمد وعلي وفاطمة والحسن والحسين فقال سألتك يا رأس الجالوت بحق الله أهذا في زبور داود عليه السلام ولك من الامان والذمة والعهد ما قد أعطيته الجاثليق فقال راس الجالوت نعم هذا بعينه في الزبور باسمائهم. فقال الرضا عليه السلام: فبحق العشر الآيات التي أنزلها الله تعالى على موسى بن عمران في التورية هل تجد صفة محمد وعلي وفاطمة والحسن والحسين في التوراية منسوبين إلى العدل والفضل، قال نعم ومن جحد هذا فهو كافر بربه وأنبيائه. فقال له الرضا عليه السلام: فخذ على في سفر كذا من التورية فاقبل الرضا عليه السلام يتلو التورية وأقبل رأس الجالوت يتعجب من تلاوته وبيانه وفصاحته ولسانه، حتى إذا بلغ ذكر محمد قال رأس الجالوت: نعم، هذا أحماد وبنت أحماد وإيليا وشبر و شبير تفسيره بالعربية محمد وعلي وفاطمة والحسن والحسين. فتلى الرضا عليه السلام إلى آخره

یہود کے سردار جالوت نے کہا میں نے زبور میں( اہل بیت کے بارے میں ) پڑھا ہے امام رضا نے شروع سے آخر تک زبور کو پڑھا یہاں تک کہ محمد اور علی اور فاطمہ اور حسن اور حسین کا ذکر آیا پس کہا اے سردار جالوت الله کا واسطہ کیا یہ داود کی زبور ہے ؟  جالوت نے کہا جی ہاں … امام رضا نے کہا الله نے دس آیات موسی پر توریت میں نازل کی تھیں جس میں  محمد ، علی ، فاطمہ ، حسن ، حسین کی صفت ہیں جو عدل و فضل سے منسوب ہیں جالوت بولا جی ہیں ان پر  حجت نہیں کرتا مگر وہ جو کافر ہو

علی ہارون ہیں

یہود کے مطابق اگرچہ موسی کو کتاب الله ملی لیکن موسی لوگوں پر امام نہیں تھے – امام ہارون تھے لہذا دشت میں خیمہ ربانی

Tabernacle

میں صرف بنی ہارون کو داخل ہونے کا حکم تھا

 “Then bring near to you Aaron your brother, and his sons with him, from among the people of Israel, to serve me as priests—Aaron and Aaron’s sons, Nadab and Abihu, Eleazar and Ithamar.”

Exodus. 28:1

تم بنی اسرائیل کے ہاں  سے صرف ہارون اور اس کے بیٹے  میرے قریب آئیں کیونکہ یہ امام بنیں گے – ہارون اور اس کے بیٹے ندب اور ابیہو، علییضر اور اثمار

اسی بنا پر جب یہ حدیث پیش کی جاتی ہے جو حدیث منزلت کے نام سے مشھور ہے جس کے مطابق نبی صلی الله علیہ وسلم نے علی سے کہا کہ تم کو وہی  منزلت حاصل ہے جو موسی کو ہارون سے تھی تو اس کا مفھوم سبائیوں اور اہل تشیع کے نزدیک وہ  نہیں جو اہل سنت کے ہاں مروج ہے بلکہ  جس طرح  ہارون کو امام اللہ تعالی نے مقرر کیا اسی طرح علی کا امام مقرر ہونا بھی من جانب الله ہونا چاہیے

ali-facets

علی صحابی سے ہارون بنے پھر خلیفہ پھر امام پھر الیاس اور پھر دابتہ الارض

جس طرح موسی کے بعد ان کے بھائی ہارون  اور ان کے بیٹے امام ہوئے اسی طرح محمد کے بعد ان کے چچا زاد  بھائی اور ان کے بیٹے امام ہوں گے یعنی ابن سبا توریت کو ہو بہو منطبق کر رہا تھا

حسن و حسین کو  بنی ہارون کے نام دینا

حسن اور حسین رضی الله عنہما کے دو نام شبر اور شبیر بھی بتائے جاتے ہیں – ان ناموں کا عربی میں کوئی مفھوم نہیں ہے نہ یہ عربی   میں قرن اول سے پہلے بولے جاتے تھے – آج لوگ اپنے بچوں کا نام شبیر اور شبر بھی رکھ رہے ہیں – یہ نام کہاں سے آئے ہیں ؟  ان پر غور کرتے ہیں

ان ناموں کی اصل سمجھنے کے لئے اپ کو سبائی فلسفہ سمجھنا ہو گا تاکہ اپ ان ناموں کی روح تک پہنچ سکیں

امام حاکم مستدرک میں روایت کرتے ہیں

أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْمَحْبُوبِيُّ بِمَرْوَ، ثنا سَعِيدُ بْنُ مَسْعُودٍ، ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، أَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا وَلَدَتْ فَاطِمَةُ الْحَسَنَ جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «أَرُونِي ابْنِي مَا سَمَّيْتُمُوهُ؟» قَالَ: قُلْتُ: سَمَّيْتُهُ حَرْبًا، قَالَ: «بَلْ هُوَ حَسَنٌ» فَلَمَّا وَلَدَتِ الْحُسَيْنَ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «أَرُونِي ابْنِي مَا سَمَّيْتُمُوهُ؟» قَالَ: قُلْتُ: سَمَّيْتُهُ حَرْبًا، فَقَالَ: «بَلْ هُوَ حُسَيْنٌ» ثُمَّ لَمَّا وَلَدَتِ الثَّالِثَ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «أَرُونِي ابْنِي مَا سَمَّيْتُمُوهُ؟» قُلْتُ: سَمَّيْتُهُ حَرْبًا، قَالَ: «بَلْ هُوَ مُحْسِنٌ» ثُمَّ قَالَ: «إِنَّمَا سَمَّيْتُهُمْ بِاسْمِ وَلَدِ هَارُونَ شَبَرٌ وَشُبَيْرٌ وَمُشْبِرٌ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ “

هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ، علی رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب فاطمه نے حسن کو جنا تو نبی صلی الله علیہ وسلم  آئے – نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا مجھے میرا بیٹا دکھاؤ اس کو کیا نام دیا ؟ علی نے کہا میں نے اس کو حرب (جنگ) نام دیا ہے – اپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بلکہ یہ تو حسن ہے  – پھر جب فاطمہ نے حسین کو جنا تو نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا مجھے میرا بیٹا دکھاؤ اس کو کیا نام دیا ؟ علی نے کہا میں نے اس کو حرب (جنگ) نام دیا ہے – اپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا  بلکہ یہ تو حسین ہے  – پھر تیسری دفعہ فاطمہ نے بیٹا جنا تو  نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا مجھے میرا بیٹا دکھاؤ اس کو کیا نام دیا ؟ علی نے کہا میں نے اس کو حرب (جنگ) نام دیا ہے – اپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بلکہ یہ محسن ہے – پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے ان کو ہارون کے بیٹوں کے نام دیے ہیں شبر ، شبیر اور مبشر

امام حاکم اور الذھبی اس روایت کو صحیح کہتے ہیں
 سند میں هانئ بن هانئ الهمداني الكوفي  ہے  یعنی یمن کے قبیلہ ہمدان کے تھے پھر کوفہ منتقل ہوئے امام بخاری تاریخ الکبیر میں لکھتے ہیں علی سے سنا ہے
الذھبی میزان میں لکھتے ہیں
هانئ بن هانئ [د، ت، ق] .عن علي رضي الله عنه.
قال ابن المديني: مجهول.  وقال النسائي: ليس به بأس.
ابن المدینی کہتے ہیں یہ مجھول ہے اور نسائی کہتے ہیں اس میں برائی نہیں ہے
الذھبی نے نسائی کی رائے کو ترجیح دی ہے
ابن سعد طبقات میں کہتے ہیں وَكَانَ يَتَشَيَّعُ , وَكَانَ مُنْكَرَ الْحَدِيثِ یہ شیعہ تھے منکر الحدیث ہیں
ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين میں الذھبی نے اس کا شمار مجہولین میں کیا ہے یعنی الذھبی مختلف کتابوں میں رائے بدلتے رہے
محدث ابن حبان جو امام الرضا کی قبر سے فیض حاصل کرتے ہیں وہ اس روایت کو صحیح ابن حبان میں نقل کرتے ہیں

أمالي الصدوق: 116 / 3. (3 – 4) البحار: 43 / 239 / 4 وص 263 / 8. (5 – 6) كنز العمال: 37682، 37693. کی روایت ہے

 الإمام زين العابدين (عليه السلام): لما ولدت فاطمة الحسن (عليهما السلام) قالت لعلي (عليه السلام): سمه فقال: ما كنت لأسبق باسمه رسول الله، فجاء رسول الله (صلى الله عليه وآله)… ثم قال لعلي (عليه السلام): هل سميته ؟ فقال: ما كنت لأسبقك باسمه، فقال (صلى الله عليه وآله): وما كنت لأسبق باسمه ربي عزوجل. فأوحى الله تبارك وتعالى إلى جبرئيل أنه قد ولد لمحمد ابن فاهبط فأقرئه السلام وهنئه وقل له: إن عليا منك بمنزلة هارون من موسى فسمه باسم ابن هارون. فهبط جبرئيل (عليه السلام) فهنأه من الله عزوجل ثم قال: إن الله تبارك وتعالى يأمرك أن تسميه باسم ابن هارون. قال: وما كان اسمه ؟ قال: شبر، قال: لسان عربي، قال: سمه الحسن، فسماه الحسن. فلما ولد الحسين (عليه السلام)… هبط جبرئيل (عليه السلام) فهنأه من الله تبارك وتعالى ثم قال: إن عليا منك بمنزلة هارون من موسى فسمه باسم ابن هارون، قال: وما اسمه ؟ قال: شبير، قال: لساني عربي، قال: سمه الحسين، فسماه الحسين

 الإمام زين العابدين (عليه السلام) کہتے ہیں کہ جب فاطمہ نے حسن کو جنا تو علی نے کہا اس کا نام رکھو انہوں نے کہا میں  رسول الله سے پہلے نام نہ رکھو گی پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم آئے اور علی سے پوچھا نام رکھا ؟ علی نے کہا نام رکھنے میں اپ پر سبقت نہیں کر سکتا پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمآیا میں نام رکھنے میں اپنے رب پر سبقت نہیں کر سکتا پس الله تعالی نے الوحی کی اور جبریل کو زمین کی طرف بھیجا کہ محمد کے ہاں بیٹا ہوا ہے پس ہبوط کرو ان کو سلام کہو اور تہنیت اور ان سے کہو کہ علی کی منزلت ایسی ہے جیسی ہارون کو موسی سے تھی پس اس کا نام ہارون کے بیٹے کے نام پر رکھو پس جبریل آئے …. اور کہا اس کا نام شبر رکھو نبی صلی الله علیہ وسلم نے کہا عربی زبان میں کیا ہے؟ کہا: اس کا نام الحسن ہے پس حسن رکھو پھر جب حسین پیدا ہوئے تو جبریل آئے (یہی حکم دہرایا گیا اور من جانب اللہ نام رکھا گیا) شبیر- رسول الله نے پوچھا عربی میں کیا ہے ؟ حکم ہوا حسین پس حسین رکھا گیا

تفسیر قرطبی سوره الاعراف کی آیت ١٥٥ میں کی تفسیر میں قرطبی المتوفي ٦٧١ ھ  روایت پیش کرتے ہیں

أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عَبْدٍ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: انْطَلَقَ مُوسَى وَهَارُونُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِمَا وَانْطَلَقَ شَبَّرُ وَشَبِّيرُ- هُمَا ابْنَا هَارُونَ- فَانْتَهَوْا إِلَى جَبَلٍ فِيهِ سَرِيرٌ، فَقَامَ عَلَيْهِ هَارُونُ فَقُبِضَ رُوحُهُ. فَرَجَعَ مُوسَى إِلَى قَوْمِهِ، فَقَالُوا: أَنْتَ قَتَلْتَهُ، حَسَدْتَنَا  عَلَى لِينِهِ وَعَلَى خُلُقِهِ، أَوْ كَلِمَةٍ نَحْوَهَا، الشَّكُّ مِنْ سُفْيَانَ، فَقَالَ: كَيْفَ أَقْتُلُهُ وَمَعِيَ ابْنَاهُ! قَالَ: فَاخْتَارُوا مَنْ شِئْتُمْ، فَاخْتَارُوا مِنْ كُلِّ سِبْطٍ عَشَرَةً. قَالَ: فَذَلِكَ قَوْلُهُ:” وَاخْتارَ مُوسى قَوْمَهُ سَبْعِينَ رَجُلًا لِمِيقاتِنا” فَانْتَهَوْا إِلَيْهِ، فَقَالُوا: مَنْ قتلك يا هارون؟ قال: ما قتلني حَدٌ وَلَكِنَّ اللَّهَ تَوَفَّانِي. قَالُوا: يَا مُوسَى، مَا تُعْصَى

عُمَارَةَ بْنِ عَبْدٍ، علی رضی الله عنہ سے روایت کرتا ہے کہ موسی اور ہارون چلے اور ان کے ساتھ شبر و شبیر چلے پس ایک پہاڑ پر پہنچے جس پر تخت تھا اس پر ہارون کھڑے ہوئے کہ ان کی جان قبض ہوئی پس موسی قوم کے پاس واپس لوٹے – قوم نے کہا تو نے اس کو قتل کر دیا ! تو حسد کرتا تھا  … موسی نے کہا میں نے اس کو کیسے قتل کیا جبکہ اس کے بیٹے شبیر اور شبر میرے ساتھ تھے پس تم جس کو چاہو چنو اور ہر سبط میں سے دس چنو کہا اسی پر قول ہے  وَاخْتارَ مُوسى قَوْمَهُ سَبْعِينَ رَجُلًا لِمِيقاتِنا پس وہ سب ہارون کی لاش  تک آئے اور ان سے پوچھا : کس نے تم کو قتل کیا ہارون؟ ہارون نے کہا مجھے کسی نے قتل نہیں کیا بلکہ الله نے وفات دی

یعنی قرطبی نے تفسیر میں اس قول کو قبول کیا کہ شبر و شبیر ہارون علیہ السلام کے بیٹوں کے نام تھے

روایت میں   عُمارة بْن عَبد، الكُوفيُّ ہے العلل میں احمد کہتے ہیں
قال عبد الله بن أحمد: سألته (يعني أَباه) : عن عمارة بن عبد السلولي، قال: روى عنه أبو إسحاق. «العلل» (4464) .
یہ کوفہ کے ہیں – لا يروي عنه غير أبي إسحاق. «الجرح والتعديل  صرف أبي إسحاق روایت کرتا ہے
امام بخاری کہتے ہیں اس نے علی سے سنا ہے جبکہ امام ابی حاتم کہتے ہیں مجهول لا يحتج به، قاله أبو حاتم. یہ مجھول ہے دلیل مت لو

اس قصہ کا ذکر اسی آیت کی تفسیر میں  شیعہ تفسیر  مجمع البيان از  أبي على الفضل بن الحسن الطبرسي المتوفی ٥٤٨ ھ  میں بھی ہے

 و رووا عن علي بن أبي طالب (عليه السلام) أنه قال إنما أخذتهم الرجفة من أجل دعواهم على موسى قتل أخيه هارون و ذلك أن موسى و هارون و شبر و شبير ابني هارون انطلقوا إلى سفح جبل فنام هارون على سرير فتوفاه الله فلما مات دفنه موسى (عليه السلام) فلما رجع إلى بني إسرائيل قالوا له أين هارون قال توفاه الله فقالوا لا بل أنت قتلته حسدتنا على خلقه و لينه قال فاختاروا من شئتم فاختاروا منهم سبعين رجلا و ذهب بهم فلما انتهوا إلى القبر قال موسى يا هارون أ قتلت أم مت فقال هارون ما قتلني أحد و لكن توفاني الله

شیعہ عالم الموفق بن احمد بن محمد المكي الخوارزمي المتوفى سنة 568 کتاب المناقب میں ہے کہ ایک دن نبی صلی الله علیہ وسلم نے فاطمہ رضی الله عنہا سے فرمایا کہ

 الحسن والحسين ابناه سيدا شباب أهل الجنة من الاولين والآخرين وسماهما الله تعالى في التورأة على لسان موسى عليه السلام ” شبر ” و “شبير ” لكرامتها على الله عزوجل

علی کے بیٹے حسن و حسین اہل جنت کے پچھلوں اور بعد والوں کے جوانوں کے سردار ہیں  اور الله نے ان کو توریت میں نام دیا ہے شبر و شبیر- یہ الله کا علی پر کرم ہے

ابن شہر آشوب کتاب مناقب علی میں اسی قسم کی ایک روایت پیش کرتے ہیں – توریت میں شبر و شبیر کا کوئی ذکر نہیں ہے

صحیح ابن حبان کی تعلیق میں شعيب الأرنؤوط کہتے ہیں

قلت: وقد جاء في التسمية سبب آخر، فقد روى أحمد 1/159، وأبو يعلى “498”، والطبراني “2780”، والبزار “1996” من طريقين عن عبد الله بن محمد بن عقيل، عن محمد بن علي وهو ابن الحنفية، عن أبيه علي بن أبي طالب أنه سمى ابنه الأكبر حمزة، وسمى حسينا بعمه جعفر، قال: فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم عليا، فلما أتى قال: “غيرت اسم ابني هذي”، قلت: الله ورسوله أعلم، فسمى حسنا وحسينا. قال الهيثمي في “المجمع” 8/52 بعد أن نسبه غليهم جميعا: وفيه عبد الله بن محمد بن عقيل، حديثه حسن، وباقي رجاله رجال الصحيح.

میں کہتا ہوں اور ایک روایت میں ایک دوسری وجہ بیان ہوئی ہے پس کو احمد اور ابو یعلی نے طبرانی نے اور البزار نے دو طرق سے عبد الله بن محمد سے انہوں نے ابن حنفیہ سے انہوں نے اپنے باپ علی سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بڑے بیٹے کا نام حمزہ رکھا تھا اور حسین کا جعفر پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے علی کو طلب کیا  اور کہا ان کے نام بدل کر حسن و حسین کر دو

شبر و شبیر کا بھیانک انجام

اہل سنت کی تفسير روح البيان أز  أبو الفداء (المتوفى: 1127هـ)  کے مطابق

وكان القربان والسرج فى ابني هارون شبر وشبير فامرا ان لا يسرجا بنار الدنيا فاستعجلا يوما فاسرجا بنار الدنيا فوقعت النار فاكلت ابني هارون

اور قربانی اور دیا جلانا بنی ہارون میں شبر اور شبیر کے لئے تھا پس حکم تھا کہ کوئی دنیا کی اگ سے اس کو نہ جلائے لیکن ایک روز ان دونوں نے علجت کی اور اس کو دنیا کی اگ سے جلایا جس پر اگ ان دونوں کو کھا گئی

شیعہ عالم  الحسين بن حمدان الخصيبي  المتوفی ٣٥٨ ھ کتاب الهداية الكبرى میں بتاتے ہیں ایسا کیوں ہوا

وان شبر وشبير ابني هارون (عليه السلام) قربا قربانا ثم سقياه الخمر وشراباها ووقفا يقربان، فنزلت النار عليهما وأحرقتهما لأن الخمر في بطونهما فقتلا بذلك.

اور شبر اور شبیر بنی ہارون میں سے انہوں نے قربانی دی پھر شراب پی لی اور قربانی کو وقف کیا پس اگ آسمان سے نازل ہوئی اور اگ نے ان دونوں کو جلا ڈالا کیونکہ شراب ان کے پیٹوں میں تھی اس بنا پر یہ قتل ہوئے

اور توریت کے مطابق

Book of Leviticus, chapter 10:
Aarons sons Nadab and Abihu took their censers, put fire in  them and added incense; and they offered unauthorized fire before the Lord,  contrary to his command. So fire came out from the presence of the Lord  and consumed them, and they died before the Lord. Moses then said to  Aaron, This is what the Lord spoke of when he said: Among those who approach me I will be proved holy; in the sight of all the  people I will be honoured. Aaron remained silent.

ہارون کے بیٹے ندب اور ابیھو نے اپنے اپنے دیے لئے اس میں اگ جلائی اور اس ممنوعہ اگ کو رب پر پیش کیا اس کے حکم کے بر خلاف – لہذا اگ رب کے پاس سے نکلی اور ان کو کھا گئی اور وہ دونوں رب کے سامنے مر گئے – موسی نے ہارون سے کہا یہ وہ بات ہے جس کا ذکر الله نے کیا تھا کہ تمہارے درمیان جو میرے پاس آئے میری پاکی بیان کرے – لوگوں کی نگاہ میں میں محترم ہوں – ہارون  اس پر چپ رہے

واضح رہے کہ توریت کی کتاب لاوی کے مطابق ہارون کے بیٹوں کی یہ المناک وفات ہارون کی زندگی ہی میں ہوئی اور ان کا نام ندب اور ابہو ہے نہ کہ شبر و شبیر

یہود کے ایک مشہور حبر راشی

Rashi

کے بقول ندب اور ابیہو کا یہ بھیانک انجام شراب پینے کی بنا پر ہوا

AND THERE WENT OUT FIRE — Rabbi Eleizer said: the sons of Aaron died only because they gave decisions on religious matters in the presence of their teacher, Moses (Sifra; Eruvin 63a). Rabbi Ishmael said: they died because they entered the Sanctuary intoxicated by wine. You may know that this is so, because after their death he admonished those who survived that they should not enter when intoxicated by wine (vv. 8—9). A parable! It may be compared to a king who had a bosom friend, etc., as is to be found in Leviticus Rabbah (ch. 12; cf. Biur).

http://www.sefaria.org/Rashi_on_Leviticus.10.3?lang=en

 اس طرح شیعہ کتب اور بعض قدیم یہودی احبار کا اجماع ہے کہ   شبر اور شبیر کا اگ سے خاتمہ ہوا

 دور نبوی میں توریت ایک طومار کی صورت میں صرف علماء اہل کتاب کے پاس تھی -عام مسلمان تک اس کی رسائی  نہیں تھی -دوم اس کی زبان  بھی غیر عرب تھی اس لئے عرب مسلمان تو صرف یہ جانتے تھے کہ یہ ہارون علیہ السلام کے بیٹوں کے نام ہیں لیکن ان کے بھیانک انجام سے بے خبر تھے –   شبر و شبیر  کے نام حسن و حسین کو دینا جو عذاب الہی سے قتل ہوئے کی اور کیا وجہ ہوئی؟ شبر و شبیر ابن سبا کے ایجاد کردہ نام ہیں جس کو سبانیوں نے حسن و حسین سے منسوب کر دیا

اس سے یہ واضح ہے کہ سبائییوں کا ایجنڈا تھا کہ کسی نہ کسی موقعہ پر حسن و حسین کو شبر و شبیر   بنا ہی  دیا جائے گا یعنی قتل کیا جائے گا

کہتے ہیں  کوئی دیکھنے نہ دیکھے کم از کم  شبیر تو دیکھے گا


 

قرن اول میں ہی علی کے حوالے سے کئی آراء گردش میں آ چکی تھیں  ان کی تفصیل اس ویب سائٹ پر کتاب

Ali in Biblical Clouds

میں موجود ہے

غلو | وسیلہ | عرض اعمال

[کیا  کہنا صحیح الله ، اس کا رسول جو چاہیں یا الله چاہے پھر اس کا رسول چاہے ؟]

جواب

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيّ صلیٰ الله علیه وآله وسلم مَا شَائَ االله وَشِئْتَ فَقَالَ لَه النَّبِيُّ صلیٰ الله علیه وآله وسلم أَجَعَلْتَنِي وَالله عَدْلًا بَلْ مَا شَائَ الله وَحْدَحه
احمد بن حنبل، المسند، 1: 214، رقم: 1839، موسسۃ قرطبۃ، مصر
ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا جو اﷲ چاہے اور آپ چاہیں ۔ نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کیا تو مجھے اور اﷲ کو برابر کر رہا ہے ؟ یوں کہو جو اکیلے اﷲ نے چاہا۔
یہ صحيح لغيره روایت ہے یعنی مسند احمد کی سند ضعیف ہے لیکن متن دیگر صحیح سند سے معلوم ہے

حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَجْلَحُ الْكِنْدِيُّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِذَا حَلَفَ أَحَدُكُمْ فَلَا يَقُلْ: مَا شَاءَ اللَّهُ وَشِئْتَ، وَلَكِنْ لِيَقُلْ: مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ شِئْتَ
ابن ماجه، السنن، 1: 684، رقم: 2117، دار الفکر بیروت
عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما کا بیان ہے کہ نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی قسم کھائے تو یوں نہ کہے کہ جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں بلکہ یوں کہے جو اللہ چاہے پھر آپ چاہیں۔
سند ضعیف ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَعْبَدُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ قُتَيْلَةَ بِنْتِ صَيْفِيٍّ الْجُهَنِيَّةِ قَالَتْ: أَتَى حَبْرٌ مِنَ الْأَحْبَارِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، نِعْمَ الْقَوْمُ أَنْتُمْ، لَوْلَا أَنَّكُمْ تُشْرِكُونَ، قَالَ: «سُبْحَانَ اللَّهِ، وَمَا ذَاكَ؟»، قَالَ: تَقُولُونَ إِذَا حَلَفْتُمْ وَالْكَعْبَةِ، قَالَتْ: فَأَمْهَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا ثُمَّ قَالَ: ” إِنَّهُ قَدْ قَالَ: فَمَنْ حَلَفَ فَلْيَحْلِفْ بِرَبِّ الْكَعْبَةِ “، ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، نِعْمَ الْقَوْمُ أَنْتُمْ، لَوْلَا أَنَّكُمْ تَجْعَلُونَ لِلَّهِ نِدًّا، قَالَ: «سُبْحَانَ اللَّهِ، وَمَا ذَاكَ؟»، قَالَ: تَقُولُونَ مَا شَاءَ اللَّهُ وَشِئْتَ، قَالَ: فَأَمْهَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا ثُمَّ قَالَ: «إِنَّهُ قَدْ قَالَ، فَمَنْ قَالَ مَا شَاءَ اللَّهُ فَلْيَفْصِلْ بَيْنَهُمَا ثُمَّ شِئْتَ» (حم) 27093
قُتَیْلَہ بنت صیفی جُہینْہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ یہودیوں کا ایک بڑا عالم بارگاہ نبوت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا اے محمد صلی اﷲ علیک وسلم تم بہت اچھے لوگ ہو اگر شرک نہ کرو۔آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سبحان اﷲ وہ کیا ہے؟ اس نے کہا تم لوگ قسم اٹھاتے وقت بولتے ہو ’کعبہ کی قسم‘ کھاتی ہیں: نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ وقت خاموش رہنے کے بعد فرمایا کہ اس یہودی نے یہ کہا ہے۔ لہذا جو (مسلمان) قسم اٹھائے ’رب کعبہ‘ کی اٹھائے پھر یہودی عالم بولا اے محمد صلی اﷲ علیک وسلم تم بہت اچھے لوگ ہواگر اﷲ کے ساتھ شریک نہ ٹھہراؤ۔آپ نے فرمایا: سبحان اﷲ وہ کیا؟ کہنے لگا تم (مسلمان) کہتے ہو جو اﷲ چاہے
اور آپ چاہیں ۔اس پرنبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کچھ دیر خاموش رہے پھر فرمایا کہ اس یہودی نے یہ کہا ہے ۔اب جو کہے ماشاء اﷲ دونوں میں فاصلہ رکھ کر کہے پھر آپ چاہیں۔

یہ روایت منقطع ہے جامع التحصيل في أحكام المراسيل میں ہے
عبد الله بن يسار آخر قال عثمان بن سعيد سألت يحيى بن معين عن عبد الله بن يسار الذي يروي منصور عنه عن حذيفة لا تقولوا ما شاء الله ألقي حذيفة قال لا أعلمه قلت وروي أيضا عن علي رضي الله عنه فيكون أيضا مرسلا
عثمان نے امام ابن معین سے عبد الله بن يسار پر سوال کیا جو حذيفة سے روایت کرتا ہے لا تقولوا ما شاء الله – اس نے اس روایت کو حذيفة پر ڈالا ابن معین نے کہا نہیں جانتا اور اسنے اس کو علی سے بھی روایت کیا ہے تو یہ بھی مرسل ہے

ابن ماجہ میں ہے
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ، أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ رَأَى فِي النَّوْمِ أَنَّهُ لَقِيَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ، فَقَالَ: نِعْمَ الْقَوْمُ أَنْتُمْ لَوْلَا أَنَّكُمْ تُشْرِكُونَ، تَقُولُونَ: مَا شَاءَ اللَّهُ وَشَاءَ مُحَمَّدٌ، وَذَكَرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ” أَمَا وَاللَّهِ، إِنْ كُنْتُ لَأَعْرِفُهَا لَكُمْ، قُولُوا: مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ شَاءَ مُحَمَّدٌ “، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنِ الطُّفَيْلِ بْنِ سَخْبَرَةَ، أَخِي عَائِشَةَ لِأُمِّهَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِهِ
__________

لہذا خواب والی روایت صحیح ہے جو ابن ماجہ میں ہے
اور اس کی تائید صحیح مسلم کی روایت سے بھی ہوتی ہے

صحيح مسلم، كتاب الجمعة، باب تخيف الصلاة والخطبة : 870۔ نسائي، كتاب النكاح، باب ما يكره من الخطبة : 3281۔ ابوداؤد، كتاب الصلاة، باب الرجل يخطب على قوس : 1099۔ كتاب الادب : 4981۔ مسند احمد : 4/ 256۔ بيهقي : 1/ 86، 3/ 216۔ مستدرك حاكم : 1/ 289]

حَدَّثَنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ نُمَيْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، أَنَّ رَجُلًا خَطَبَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَنْ يُطِعِ اللهَ وَرَسُولَهُ، فَقَدْ رَشَدَ، وَمَنْ يَعْصِهِمَا، فَقَدْ غَوَى، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” بِئْسَ الْخَطِيبُ أَنْتَ، قُلْ: وَمَنْ يَعْصِ اللهَ وَرَسُولَهُ “. قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ: فَقَدْ غَوِي

اس میں ہے کہ ایک ضمیر میں جمع کرنے سے منع کیا
——–
اس کی مخالف حدیث ابو داود میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ سکھایا اس میں مذکور ہے :
حدَّثنا محمدُ بنُ بشارٍ، حدَّثنا أبو عاصم، حدَّثنا عِمران، عن قتادةَ، عن عبدِ ربه، عن أبي عياض
عن ابنِ مسعود: أن رسولَ الله – صلَّى الله عليه وسلم – كان إذا تشهدَ، ذكر نحوه، قال بعد قوله: “ورسوله”: “أرسله بالحق بشيراً ونذيراً بين يدي الساعة، من يطع الله ورسوله فقد رَشَدَ، ومن يعصهما فإنه لا يَضُرُّ إلا نفسَه، ولا يَضُرُّ الله شيئاً

اس کی سند میں أبي عياض مجھول ہے – البانی نے اس کو ضعیف کہا ہے

[/EXPAND]

[کیا یہ کہنا صحیح ہے کہ انبیاء و فرشتے نبی صلی الله علیہ وسلم کے غلام ہیں ؟]

جواب

جواب
سوره ال عمران میں ہے
وإذ أخذ الله ميثاق النبيين لما آتيتكم من كتاب وحكمة ثم جاءكم رسول مصدق لما معكم لتؤمنن به ولتنصرنه قال أأقررتم وأخذتم على ذلكم إصري قالوا أقررنا قال فاشهدوا وأنا معكم من الشاهدين ( 81 ) فمن تولى بعد ذلك فأولئك هم الفاسقون
انبیاء کو ایک دوسرے کا مدد گار کہا گیا ہے غلام تو یہ صرف الله کے ہیں
نبی صلی الله علیہ وسلم کی جب جنت میں انبیاء سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ایک دوسرے کو سلام کیا اور عبد صالح کہا مالک یا آقا نہیں کہا

 فرشتے بھی الله کے غلام ہیں – رسول الله صلی الله علیہ وسلم بہت سے موقعوں پر فرشتوں کو پہچان نہ سکے یہاں تک کہ ان کو خبر دی گئی کہ یہ فرشتے ہیں
مثلا
خواب میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو دو شخص آ کر  لے گئے ان کو بہشت میں ان کا مقام دکھایا گیا
آخر میں بتایا گیا کہ یہ جبریل اور یہ میکایل ہیں

غلام کے لئے جائز نہیں کہ آقا کو اپنے اپ کو ظاہر نہ کرے

ظاہر ہے یہ سب بحکم الہی ہوا جس کے سب غلام ہیں

[/EXPAND]

[یا رسول الله اور یا علی کہنا کیا شرک ہے ؟ اس کے کیا دلائل ہیں کہ یہ پکار کی جا سکتی ہے ؟]

جواب

مختصرا انبیاء و اولیاء کی وفات ہو چکی ہے وہ دار فانی سے جا چکے ہیں ان کو ان کی زندگی میں قریب سے بطور خطاب و کلام پکارا گیا انہوں نے جواب دیا – دور سے کوئی پکارے تو یہ نہیں سن سکتے تھے مثلا کوئی مکہ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو پکارتا ہے تو اس کی خبر مدینہ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو نہیں تھی – بالکل ایک بشر کی طرح وہ ان اخبار سے بے خبر تھے الا یہ کہ الله خود خبر دے
——–

جو لوگ رسول الله کو پکارتے ہیں ان کے نزدیک وہ سن سکتے ہیں اور مدد کرتے ہیں یہ مقام صرف الله کا ہے وہی سنتا و جانتا ہے – اور کسی حدیث و آیات میں نہیں کہ رسول الله کو ایسا کوئی اختیار دیا گیا تھا
بعض کہتے ہیں مثلا شیعہ کہ یہ ان کے علماء کے نزدیک وسیلہ ہے
بعض کہتے ہیں کہ درود پہنچتا ہے اور جو درود نبی نے سکھایا اس میں خطاب کا صغیہ ہے
بعض بے سند روایات اور صوفیوں کے قصے بھی ہیں

بریلوی دلیل
نبی اکرم صلی اللہ اپنے چچا سیدنا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی عزوہ احد میں شہادت پر اس قدر روئے کہ انہیں ساری زندگی اتنی شدت سے روتے نہیں دیکھا گیا۔ پھر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے فرمانے لگے :
يا حمزة يا عم رسول الله اسد الله واسد رسوله يا حمزة يا فاعل الخيرات! يا حمزة ياکاشف الکربات يا ذاب عن وجه رسول الله.
(المواهب اللدينه، 1 : 212)
نبی علیہ الصلوۃ والسلام اپنے وفات شدہ چچا سے فرما رہے ہیں یا کاشف الکربات (اے تکالیف کو دور کرنے والے)۔

راقم کہتا ہے اس کی سند کہیں نہیں ملی لہذا دلیل نہیں لی جا سکتی

شیعہ کی دلیل
http://www.erfan.ir/urdu/67540.html
شیخ عباس قمی المعروف “محدث قمی” رحمة اللہ علیہ نے اپنی مشہور زمانہ اور زندہ جاوید کتاب دعاء “مفاتیح الجنان” (جنت کی کنجیاں) میں تحریر فرمایا ہے کہ حضرت امام زمانہ ولی العصر بقیةاللہ الاعظم سلام اللہ علیہ و علی آبائہ الطیبین الطاہرین، نے ایک شخص کو اس دعا کی تعلیم دی جو اسیر تھا اور وہ اسیری سے رہا ہو گیا۔ یہ دعاء کفعمی کی کتاب بلدالامین سے نقل ہوئی ہے۔ شیعہ کے نزدیک یہ یا محمد (ص) اور یا علی (ع) کہنا بعنوان وسیلہ الی اللہ، جائز ہے۔
دعائے فَرَج:
الهی عظم البلاء و برح الخفاء وانکشف الغطاء و انقطع الرجاء وضاقت الارض و منعت السماء و انت المستعان و الیک المشتکی و علیک المعول فی الشدة و الرخا اللهم صل علی محمد و آل محمد اولی الامر الذین فرحت علینا طاعتهم و عرفتنا بذلک منزلتهم ففرج عنا بحقهم فرجا عاجلا فریبا کلمح البصر او هو اقرب یا محمد یا علی یا علی یا محمد اکفیانی فانکما کافیان و انصرانی فانکما ناصران یا مولانا یا صاحب الزمان الغوث الغوث ادرکنی ادرکنی الساعه الساعه الساعه العجل العجل العجل یا ارحم الراحمین بحق محمد و اله الطاهرین۔

راقم کہتا ہے اس کتاب میں لکھا ہے
قال الكفعمي في البلد الامين: هذا دعاء صاحِب الامر (عليه السلام) وقد علّمه سجيناً فأطلق سراحه
یہ صاحِب الامر کی دعا ہے جو انہوں نے جیل میں سکھائی
گیارہویں امام الحَسنِ العَسكرىِّ سے اس کو منسوب کیا گیا ہے
لیکن اس قول کی کوئی سند نہیں ہے جیل میں ظاہر ہے کسی سے ملاقات کیا ہوئی ہو گی؟

اسی طرح شیعوں میں ایک نظم ہے جس کو ناد علی کہا جاتا ہے اس سے دلیل لی جاتی ہے کہ اس میں پکار کا حکم ہے

راقم کہتا ہے
سیرت ابن ہشام میں ہے کہ یوم احد میں رسول الله نے فرمایا
قَالَ ابْنُ هِشَامٍ: وَحَدَّثَنِي بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ، أَنَّ ابْنَ أَبِي نَجِيحٍ قَالَ: نَادَى مُنَادٍ يَوْمَ أُحُدٍ:
لَا سَيْفَ إلَّا ذُو الْفَقَارِ، وَلَا فَتَى إلَّا عَلِيٌّ
کوئی تلوار نہیں سوائے ذو الفقار کے کوئی جوان نہیں سوائے علی کے
بحار الأنوار / جزء 20 / صفحة[ 73 ] از مجلسی میں ہے اس قول پر فرشتوں کو حیرت ہوئی کہ کس نے یہ کہا
بتایا گیا یہ جبریل کا قول ہے
فقد تعجبت الملائكة، أما علمت أن جبرئيل قال في ذلك اليوم وهو يعرج إلى السماء: لا
سيف إلا ذو الفقار، ولا فتى إلا علي.

وعن عكرمة، عن علي عليه السلام قال قال لي
النبي صلى الله عليه وآله يوم احد: أما تسمع مديحك في السماء ؟ إن ملكا اسمه رضوان
ينادي: لا سيف إلا ذو الفقار، ولا فتى إلا علي. قال: ويقال: إن النبي صلى الله عليه
وآله نودي في هذا اليوم: ناد عليا مظهر العجائب * تجده عونا لك في النوائب كل غم
وهم سينجلي * بولايتك يا علي يا علي يا علي
اور عکرمہ نے علی سے روایت کیا کہ نبی صلی الله علیہ و الہ نے احد کے دن کہا کیا تم نے آسمان میں اپنی تعریف سنی ؟ وہاں ایک فرشتہ رضوان ہے اس نے پکارا کوئی تلوار نہیں سوائے ذو الفقار کے کوئی جوان نہیں سوائے علی کے اور فرمایا اس نے کہا
ناد عليا مظهر العجائب *
تجده عونا لك في النوائب
كل غموهم سينجلي *
بولايتك يا علي يا علي يا علي
علی کو پکارو جو عجائبات کا مظہر ہے
تم اس کو مدد گار پاؤ گے اپنی مشکل میں
تمام غم اس سے حل ہوں گے
تمھاری ولایت سے اے علی علی علی

عکرمہ خارجی سوچ کا حامل تھا جو تقیہ کرتا تھا لیکن عکرمہ سے لے کر مجلسی تک سند نہیں ہے

الانتباہ فی سلاسل الاولیاء میں درج ہے کہ شاہ ولی اللہ خرقہ ابو طاہر کردی کے ہاتھ سے پہنا جس نے اُس عمل کی اجازت دی جو جواہر خمسہ میں ہیں

اسی جواہر خمسہ میں دعائے سیفی کی ترکیب میں لکھا ہے

ناد علی ہفت بار یا سہ بار یا یک بار بخواند وآں ایں است

ناد علیاً مظہر العجائب
تجدہ عونالک فی نوائب
کل ھم وغم سینجلی
بولایتک یا علی یاعلی یاعلی

https://www.islamimehfil.com/topic/23459-نادِ-علی-کرّم-اللّٰہ-وجھہ-کے-بارے-درست-معلومات-بمع-حوالہ-چاہئے/

بریلوی فرقہ کہتا ہے اس کو پڑھنا جائز ہے
http://www.thefatwa.com/urdu/questionID/2918/نادِ-علی-کیا-ہے/

https://www.dawateislami.net/bookslibrary/1454/page/837
————-
یعنی بریلوی اور شیعہ دونوں نے بے سند اقوال سے اتنا بڑا شرک کرنے کی دلیل لے لی ہے جبکہ اسناد معلوم نہیں کون کس نے سنا کوئی خبر نہیں

نماز میں تشہد میں اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَ بَرَکَاتُه پڑھا جاتا ہے اس کا مقصد بھی سنانا نہیں نہ یہ پکار ہے یہ تو دعا ہے
لیکن اس مفہوم کو صوفیوں نے بدلا غزالی نے لکھا
واحضر فی قلبک النبي صلي الله عليه وآله وسلم وشخصه الکريم، وقُلْ : سَلَامٌ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَ بَرَکَاتُه. وليصدق أملک في أنه يبلغه و يرد عليک ما هو أوفٰي منه.

’’(اے نمازی! پہلے) تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کریم شخصیت اور ذاتِ مقدسہ کو اپنے دل میں حاضر کر پھر کہہ : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَ بَرَکَاتُه. تیری امید اور آرزو اس معاملہ میں مبنی پر صدق و اخلاص ہونی چاہیے کہ تیرا سلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں پہنچتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے کامل تر جواب سے تجھے نوازتے ہیں۔‘‘

غزالی، إحياء علوم الدين، 1 : 151

راقم کہتا ہے گویا درود نبی پر پیش ہوتا ہے اور روایات میں ہے دور والا پہنچا دیا جاتا ہے اس کو دلیل بناتے ہوئے یا نبی کی پکار کا جواز لیا گیا ہے جو اصل میں یا نبی سلام علیک تھا لیکن مختصر ہو کر یا نبی ہو گیا
یہ روایات ضعیف ہیں

ابن قیم نے کتاب الكلم الطيب میں ذکر کیا

في الرجل إذا خدرت
عن الهيثم بن حنش قال: كنا عند عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، فخدرت رجله فقال له رجل: اذكر أحب الناس إليك، فقال: يا محمد، فكأنما نشط من عقال

الهيثم بن حنش نے کہا کہ ابن عمر کے پاس ایک شخص کی ٹانگ سن ہو گئی انہوں نے کہا اس شخص کو یاد کرو جو لوگوں میں سب سے محبوب ہو اس نے کہا اے محمد

ابن قیم نے کتاب الکلم الطیب میں اس روایت کا ان اذکار میں ذکر کیا ہے جو ایک مسلم کو کرنے چاہیے ہیں

اسی طرح کتاب  الوابل الصيب من الكلم الطيب میں اس روایت کا ذکر کیا

یہ تو علماء نے جواز کے فتوے دیے اس طرح نبی کو پکارا اور وسیلہ بنا لیا گیا جبکہ روایات ضعیف ہیں بے سند ہیں
قرآن کے خلاف ہیں

ایک اور دلیل
بخاری و مسلم کی روایت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ کَانَ فِیْ حَاجَةِ اَخِيْهِ کَانَ اللّٰهُ فِی حَاجته وَمَن فَرَّجَ عَنْ مُسْلمٍ کُرْبَةً فَرَّجَ اللّٰهُ عَنْهُ بِهَا کُرْبَةَ مِنْ کُرْب يوم الْقيامة.
’’جو شخص اپنے کسی بھائی کی حاجت روائی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی حاجت پوری فرماتا ہے۔ اور جس نے کسی مسلمان کی ایک تکلیف دور کی (مشکل حل کر دی) اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے قیامت کی تکلیفوں میں سے اس کی ایک تکلیف دور فرما دے گا‘‘۔

کہا جاتا ہے یہ کیسسے ممکن ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم امتی کی مدد نہ کریں
قبر سے باہر انے کا نظریہ یہیں سے لیا گیا ہے کہ بزرگان دین و انبیاء قبروں سے باہر آ کر مدد کرتے ہیں
یہ دلیل قیاس پر ہے

جبکہ انبیاء تو زمین پر گر جاتے ہیں جیسے سلیمان علیہ السلام کا جسد گرا جنوں نے دیکھا وہ قبر سے باہر کھڑے نہیں رہ سکتے

قرآن میں صرف الله کو پکارنے کا حکم ہے اور اس کے ساتھ کسی کو پاور فل ماننا
لا حول و لا قوه الا باللہ
کا انکار ہے

[/EXPAND]

[حنبلی علماء کا غیر الله سے توسل لینا کیا ثابت ہے ؟]

جواب

تاریخ بغداد باب ما ذكر في مقابر بغداد المخصوصة بالعلماء والزهاد از خطیب بغدادی میں ہے ابو علی الخلال جن کا ذکر خطیب نے صاحب أَحْمَد بْن حنبل کے نام سے کیا ہے ان کے بارے میں بتایا کہ

أَخْبَرَنَا الْقَاضِي أَبُو مُحَمَّد الْحَسَن بْن الحسين بْن مُحَمَّد بْن رامين الإستراباذي، قَالَ: أَخبرنا أَحْمَد بْن جعفر بْن حمدان القطيعي، قَالَ: سمعت الْحَسَن بْن إِبْرَاهِيمَ أبا عَلِيّ الخلال، يقول: ما همني أمر فقصدت قبر مُوسَى بْن جعفر، فتوسلت به إلا سهل الله تعالى لي ما أحب.

القطيعي، نے کہا میں نے ابو علی الخلال کو کہتے سنا جب کسی امر میں الجھ جاتا ہوں تو قبر موسی بن جعفر پر جاتا ہوں ان کا توسل لیتا ہوں

اس کی سند صحیح ہے

ذهبی کتا ب سیر اعلام النبلاء ،ج ٩ ص ٣٤٤ ، میں لکھتے ہیں
وعن ابراهیم الحربی ، قال ۰ قبر معروف ( الکرخی ) التریاق المجرب
اور ابراهیم حربی کہتے هیں کہ معروف (کرخی) کی قبر مجرب تریاق هے

الذھبی، سیر الاعلام النبلاء ج ٩ ص ٣٤٣ پر اس با ت کی تا ئید کرتے ہیں

يُرِيْدُ إِجَابَةَ دُعَاءِ المُضْطَرِ عِنْدَهُ؛ لأَنَّ البِقَاعَ المُبَارَكَةِ يُسْتَجَابُ عِنْدَهَا الدُّعَاءُ، كَمَا أَنَّ الدُّعَاءَ فِي السَّحَرِ مَرْجُوٌّ، وَدُبُرَ المَكْتُوْبَاتِ، وَفِي المَسَاجِدِ، بَلْ دُعَاءُ المُضْطَرِ مُجَابٌ فِي أَيِّ مَكَانٍ اتَّفَقَ، اللَّهُمَّ إِنِّيْ مُضْطَرٌ إِلَى العَفْوِ، فَاعْفُ عَنِّي

ابراہیم حربی کی مراد یہ هے کہ معروف کرخی کی قبر کے پاس مضطر آدمی کی دعا قبول هوتی هے ،کیونکہ مبارک مقامات کے پاس دعا قبول هوتی هے ،جیسا کہ سحری کے وقت ،اور فرض نمازوں کے بعد ،اور مساجد میں ،بلکہ مضطر آدمی کی دعا هر جگہ قبول هو تی هے

امام احمد کہتے ہیں بحر الدم (1010) بحوالہ موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله، دار الکتب

وقال أحمد: معروف من الأبدال، وهو مجاب الدعوة

احمد کہتے ہیں معروف ابدال میں سے ہیں اور ان کی دعا قبول ہوتی ہے

امام احمد صوفیوں کے مدح تھے اور ان کے شاگرد ابراہیم الحربی صوفی معروف الکرخی کی قبر کو تریاق المجرب کہتے تھے

[/EXPAND]

[وسیلہ لینے سے کیا مراد ہے ؟]

الله تعالی تو جس کو چاہتا ہے سنوا دیتا ہے

الله تعالی نبی پر درود بھیجتا ہے

جواب

وسیلہ کی بعض شکلیں جائز ہیں اور بعض شرک ہیں

صورت حال : اپ ایک مشکل میں ہیں کافی دن سے الله کو براہ راست پکار رہی ہیں لیکن مشکل حل نہیں ہوئی اب اپ وسیلہ کرنے کا سوچتی ہیں

قسم اول : اپ ایک زندہ بزرگ سے درخواست کرتی ہیں کہ اپ کے لئے دعا کرے یہ جائز ہے
قرآن میں ہے

قَالُوا يَا أَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ قَالَ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
بنی یعقوب نے کہا اے ابا جان ہمارے گناہوں کی معافی کے لئے دعا کریں ہم خطا کار تھے – میں تمھارے لئے دعا کروں گا اپنے رب سے وہ بہت غفور و رحیم ہے

قسم دوم : اپ کی مشکل ابھی بھی حل نہیں ہوئی اب اپ ایک مردہ بزرگ کی قبر پر جا کر ان سے دعا کی درخواست کرتی ہیں
یہاں سے عقیدہ کا اضطراب شروع ہوتا ہے کیونکہ اپ ایک مردہ کو پکار رہی ہیں جبکہ اپ خود کہتی ہیں کہ الله جس کو چاہتا ہے سنواتا ہے تو اپ کو کیسے معلوم ہوا کہ الله اس مردہ کو سنوانا چاہ رہا ہے
پھر اگر اپ اس مردہ کو مردہ نہیں سمجھتیں تو اپ ایک زندہ مقبور سے کلام کر رہی ہیں تو اس آیت سے دلیل نہیں لے سکتیں کیونکہ آیت مردوں کے بارے میں ہے نہ کہ زندوں سے متعلق ہے
پھر آیت کا سیاق و سباق تو کفار سے متعلق ہے جبکہ اپ تو کسی فوت شدہ مسلم کی قبر پر گئی ہوں گی

قسم ثالث: اپ کی مشکل اب بھی حل نہیں ہوئی- اب اپ نہ تو کسی قبر تک جاتی ہیں نہ کسی زندہ بزرگ سے درخواست کرتی ہیں بلکہ الله پر زور زبردستی والے انداز میں نبی کا صدقے میں اہل بیت کے صدقے میں کے الفاظ استمعال کرتی ہیں تو یہ صریح شرک ہے کیونکہ الله صمد ہے اس پر کسی کا حق نہیں جس کو جتایا جا سکے یا اس کے فصلے کو بدلا جا سکے
خود نبی صلی الله علیہ وسلم کا بیٹا ان کے ہاتھوں میں دم توڑ گیا
——-

الله صلی کرتا ہے یعنی سلامتی نازل کرتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ الله سے نبی کی جاہ و حشمت کا واسطہ دے کر مانگا جا سکتا ہے

[/EXPAND]

[ابن کثیر تفسیر میں کہتے ہیں مردہ رشتہ داروں پر زندہ رشتہ داروں کے اعمال پیش ہوتے ہیں کیا یہ بات صحیح حدیث میں ہے ؟]

جواب

سوره التوبہ کی آیت ١٠٥ ہے

وقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى الله عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ وَسَتُرَدُّونَ إِلى عالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِما كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ

یہ آیت غزوہ تبوک کے تناظر میں نازل ہوئی تھی .ایسے لوگ جو متساہل یا منافق تھے ان کو کہا جا رہا ہے کہ الله، اس کا رسول اور عام مومنین تمہارے اعمال کا مشاہدہ کریں گے کہ تم لوگ واقعی سنجیدہ ہو یا بہانے بناتے ہو اور جان لو کہ واپس الله عالم الغیب کی طرف ہی پلٹنا ہے

ان اعمال میں مسجد آنا، زکواة دینا وغیرہ شامل ہے جو مشاھدے میں آ سکیں. مقصد یہ ہے اب منافقین کی حرکات و سکنات پر نگاہ رکھی جائے گی پہلے جیسی چھوٹ ختم ہو گئی

شیعوں نے اس آیت کے مفھوم میں وسعت پیدا کی اور روایت بیان کر دی

عبداللہ بن ابان ایک روایت میں کہتے ہیں:“ میں نے حضرت امام رضا ﴿ع﴾ کی خدمت میں عرض کی کہ: میرے اور میرے خاندان کے لئے ایک دعا فرمائیے۔ حضرت ﴿ع﴾ نے فرمایا:“ کیا میں دعا نہیں کرتا ھوں؟ خدا کی قسم آپ کے اعمال ہر روز وشب میرے سامنے پیش کئے جاتے ہیں، لہذا ہر ناسب امر کے بارے میں دعا کرتا ہوں”۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ امام ﴿ع﴾ کا یہ کلام میرے لئے عجیب تھا کہ ہمارے اعمال ہر روز و شب امام ﴿ع﴾ کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں۔ جب امام ﴿ع﴾ میرے تعجب کے بارے میں آگاہ ھوئے تو مجھ سے مخاطب ھوکر فر مایا:“ کیا آپ خداوند متعال کی کتاب نہیں پڑھتے ہیں، جہاں پر خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے:“ وقل اعملوا فسیراللہ عملکم و رسولہ والمؤمنون” اور اس کے بعد فرمایا:“ خدا کی قسم اس آیت میں مومنون سے مراد علی بن ابی طالب ﴿ع﴾ ہیں الکافی ج1، ص ‏219، ح‏  ٤

ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں  کہتے ہیں

قَدْ وَرَدَ: أَنَّ أَعْمَالَ الْأَحْيَاءِ تُعرَض عَلَى الْأَمْوَاتِ مِنَ الْأَقْرِبَاءِ وَالْعَشَائِرِ فِي الْبَرْزَخِ

بے شک یہ آیا ہے کہ زندوں کے اعمال مردہ رشتہ داروں پر البرزخ میں پیش ہوتے ہیں

خالصتا شیعوں کا عقیدہ لے کر اہل سنت میں پھیلایا گیا کیونکہ آیت  کا یہ مفھوم  شیعہ کی معتمد علیہ کتاب الکافی سے لیا گیا ہے

ابن کثیر شاید وہ پہلے مفسر ہیں جنہوں نے سوره توبہ کی آیت سے یہ اسخراج کیا ہے کہ رشتہ داروں پر اعمال پیش ہوتے ہیں ان سے پہلے یہ تفسیر کرنے کی، سوائے شیعہ حضرات کے ، کسی کی ہمت نہ ہوئی

 ابن کثیر تفسیر ج ٣ ص ٤٤٠ میں یہ بھی  لکھتے ہیں

اس باب میں صحابہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہم) سے بہت سے آثار و روایات مروی ہیں- حضرت عبداللہ ابن رواحۃ کے انصاری رشتہ داروں میں سے ایک فرمایا کرتے تھے :اللّٰہم انی اعوذ بک من عمل اخزیٰ بہ عند عبداللّٰہ بن رواحۃ،اے اللہ میں ایسے عمل سے تیری پناہ مانگتا ہوں جس سے عبداللہ بن رواحہ کی نگاہ میں میری رسوائی ہو

ابن تیمیہ فتوی میں لکھتے ہیں

ولما کانت اعمال الاحیاء تعرض علی الموتٰی کان ابوالدرداء یقول اللّٰہم انی اعوذ بک ان اعمل عملاً اخزیٰ بہٖ عند عبداللّٰہ ابن رواحۃ-(مجموعہ فتاویٰ ابن تیمیہ، ج ٢٤ ، ص ٣١٨)

چونکہ زندوں کے اعمال مردوں پر پیش کیے جاتے ہیں اس لیے ابو درداء  فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں ایسے عمل سے جس سے عبداللہ ابن رواحۃ کی نظر میں میری رسوائی ہو

 ابن حجر عسقلانی  فتح الباری (ج ۸، ص١٤٩ ) میں لکھتے ہیں

قَالَ الْخَطَّابِيُّ زَعَمَ بَعْضُ مَنْ لَا يُعَدُّ فِي أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْمُرَادَ بِقَوْلِهِ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ لَا كَرْبَ عَلَى أَبِيكِ بَعْدَ الْيَوْمِ أَنَّ كَرْبَهُ كَانَ شَفَقَةً عَلَى أُمَّتِهِ لِمَا عَلِمَ مِنْ وُقُوعِ الْفِتَنِ وَالِاخْتِلَافِ وَهَذَا لَيْسَ بِشَيْءٍ لِأَنَّهُ كَانَ يَلْزَمُ أَنْ تَنْقَطِعَ شَفَقَتُهُ عَلَى أُمَّتِهِ بِمَوْتِهِ وَالْوَاقِعُ أَنَّهَا بَاقِيَةٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لِأَنَّهُ مَبْعُوثٌ إِلَى مَنْ جَاءَ بَعْدَهُ وَأَعْمَالُهُمْ تُعْرَضُ عَلَيْهِ

خطابی نے کہا  کہ نبی علیہ السلام نے فاطمہ سے وفات سے کچھ پہلے کھا تھا کہ لا کرب علی ابیک بعد الیوم (یعنی اے فاطمہ تمہارے والد کو آج کے دن کے بعد اب کوئی تکلیف نہیں ہوگی) بعض وہ لوگ جن کا شمار اہل علم میں نہیں ہوتا وہ یہ گمان کرتے ہیں کہنبی صلی الله علیہ وسلم  کو علم دیا گیا تھا کہ ان کے بعد ان کی امت میں فتنے اور اختلافات پیدا ہوں گے، امت پر شفقت و محبت کی وجہ سے آپ کو اس کی فکر رہتی تھی، یہ فکر آپ کی تکلیف کا باعث تھی اب چونکہ آپ دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں لہٰذا آپ کی یہ فکر بھی دور ہو رہی ہے، اس حدیث میں تکلیف سے یہی مراد ہے، حالانکہ یہ بالکل بے سروپا  بات ہے، اس لیے کہ اس سے لازم آتا ہے کہ امت پر نبی کی شفقت و محبت آپ کی وفات کے ساتھ ہی منقطع اور ختم ہو جائے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ کی امت پر آپ کی شفقت و محبت قیامت تک باقی ہے، کیونکہ آپ ان لوگوں کے لیے بھی مبعوث کیے گئے ہیں جو آپ کے بعد آئیں گے اور ان کے اعمال آپ پر پیش کیے جائیں گے

ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ نے جب اس باطل عقیدے پر چوٹ کی تو وَانْصُرُوا (مدد کرو) کی  پکار اس طرح بلند ہوئی

خواجہ محمد قاسم کتاب کراچی کا عثمانی مذھب میں لکھتے ہیں

qasim-ibnkaseer

قارئین آپ بھی ہماری طرح متحر ہونگے کہ روایت کی سندی حثیت کی تحقیق کی بجائے یہ کیا کیفیت ہے کہ ضعیف روایت کو مانا جائے گا  ورنہ صحابہ پر فتوی لگنا چاہیے. قاسم صاحب کی اس عبارت سے علم حدیث، جرح و تعدیل کی تمام کتب آتش بغض میں بھسم ہو گئیں

یہ روایت المنامات  از ابن أبي الدنيا سے لی گئی ہے. ابن أبي الدنيا کی کتب ، احادیث کے ذخیرہ کی کمزور ترین روایات کا مجموعہ ہے. اس کی سند ہے

حدثنا أبو بكر ، ثني محمد بن الحسين ، ثنا علي بن الحسن بن شقيق ، ثنا عبد الله بن المبارك ، عن صفوان بن عمرو ، عن عبد الرحمن بن جبير بن نفير ، أن أبا الدرداء ، كان يقول : « إن أعمالكم تعرض على موتاكم فيسرون ويساءون » وكان أبو الدرداء ، يقول عند ذلك : « اللهم إني أعوذ بك أن أعمل عملا يخزى به عبد الله بن رواحة

الذهبی کتاب العبر في خبر من غبر میں لکھتے ہیں

 عبد الرحمن بن جبيْر بن نفَير الحضرمِي الحمصي. وهو مُكْثرٌ عن أبيه وغيره. ولا أعلمه روى عن الصحابة. وقد رأى جماعة من الصحابة

عبد الرحمن بن جبيْر بن نفَير الحضرمِي الحمصي ہیں اپنے باپ سے بہت سی روایات کی ہیں اور میں نہیں جانتا ان کی صحابہ سے کوئی روایت اور انہوں نے صحابہ کو دیکھا ہے

ابن ماكولا کتاب الإكمال میں لکھتے ہیں

جبير بن نفير من قدماء التابعين، روى عن أبيه وغيره. وابنه عبد الرحمن بن جبير بن نفير.

جبير بن نفير قدیم تابعين میں سے ہیں اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں اور ان کے بیٹے عبد الرحمن بن جبير بن نفير ہیں

معلوم ہوا کہ یہ روایت متصل نہیں. عبد الرحمن بن جبير بن نفير کا صحابہ سے سماع ثابت نہیں اور ان کے باپ خود تابعی ہیں

دوسری روایت

حاکم نے مستدرک میں (ج ۴/ص : ۳۴۲ ) روایت بیان کرتے ہیں

أَخْبَرَنَا أَبُو النَّضْرِ الْفَقِيهُ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْقَارِئُ، قَالَا: ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، ثَنَا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ الْوُحَاظِيُّ، ثَنَا أَبُو إِسْمَاعِيلَ السَّكُونِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ أُدَىٍّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ، رَضِيَ الله عَنْهُمَا يَقُولُ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ: سَمِعْتُ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «أَلَا إِنَّهُ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا مِثْلُ الذُّبَابِ تَمُورُ فِي جَوِّهَا، فَاللَّهَ  فِي إِخْوَانِكُمْ مِنْ أَهْلِ الْقُبُورِ فَإِنَّ أَعْمَالَكُمْ تُعْرَضُ عَلَيْهِمْ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ “

نعمان بن بشیر رضی الله تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا …. لوگوں اپنے مردہ بھائیوں کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو کیونکہ تمہارے اعمال ان پر پیش کیے جاتے ہیں

الذهبی کہتے ہیں فيه مجهولان  اس میں مجھول راوی ہیں

تیسری روایت 

طبرانی معجم کبیرج ٤ ص  ۱۲۹اور معجم اوسط ج ١، ص  ٥٤ روایت کرتے ہیں

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عُثْمَانَ بْنِ صَالِحٍ، ثنا عَمْرُو بْنُ الرَّبِيعِ بْنِ طَارِقٍ، ثنا مَسْلَمَةُ بْنُ عُلَيٍّ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَلَامَةَ، عَنْ أَبِي رُهْمٍ السَّمَاعِيَّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” إِنَّ نَفْسَ الْمُؤْمِنِ إِذَا قُبِضَتْ تَلَقَّاهَا مِنْ أَهْلِ الرَّحْمَةِ مِنْ عَبَادِ اللهِ كَمَا تَلْقَوْنَ الْبَشِيرَ فِي الدُّنْيَا، فَيَقُولُونَ: انْظُرُوا صَاحِبَكُمْ يَسْتَرِيحُ، فَإِنَّهُ قَدْ كَانَ فِي كَرْبٍ شَدِيدٍ، ثُمَّ يَسْأَلُونَهُ مَاذَا فَعَلَ فُلَانٌ؟، وَمَا فَعَلَتْ فُلَانَةُ؟ هَلْ تَزَوَّجَتْ؟ فَإِذَا سَأَلُوهُ عَنِ الرَّجُلِ قَدْ مَاتَ قَبْلَهُ، فَيَقُولُ: أَيْهَاتَ قَدْ مَاتَ ذَاكَ قَبْلِي، فَيَقُولُونَ: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، ذُهِبَتْ بِهِ إِلَى أُمِّهِ الْهَاوِيَةِ فَبِئْسَتِ الْأُمُّ وَبِئْسَتِ الْمُرَبِّيَةُ ” قَالَ: ” وَإِنَّ أَعْمَالَكُمْ تُعْرَضُ عَلَى أَقَارِبِكُمْ وَعَشَائِرِكُمْ مِنْ أَهْلِ الْآخِرَةِ، فَإِنْ كَانَ خَيْرًا فَرِحُوا وَاسْتَبْشَرُوا، وَقَالُوا: اللهُمَّ هَذَا فَضْلُكَ وَرَحْمَتُكَ فَأَتْمِمْ نِعْمَتَكَ عَلَيْهِ، وَأَمِتْهُ عَلَيْهَا وَيُعْرَضُ عَلَيْهِمْ عَمَلُ الْمُسِيءِ، فَيَقُولُونَ: اللهُمَّ أَلْهِمْهُ عَمَلًا صَالِحًا تَرْضَى بِهِ عَنْهُ وتُقَرِّبُهُ إِلَيْكَ “.

روایت کے الفاظ ہیں

وان اعمالکم تعرض علی اقاربکم وعشائرکم فان کان خیراً فرحوا واستبشروا وقالوا اللّٰھم ھٰذا فضلک ورحمتک فأتمم نعمتک علیہ ویعرض علیہم عمل المسئی فیقولون اللّٰہم الہمہ عملا صالحاً ترضٰی بہٖ عنہ و تقربہ الیک

ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

 تمہارے اعمال تمہارے  عزیز و اقارب پر پیش کیےجاتے ہیں، اگر وہ اعمال اچھے ہوتے ہیں تو وہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے اللہ یہ تیرا فضل و رحمت ہے تو اس پر اپنی نعمتوں کا اتمام فرما دے اور جب ان پر برے عمل پیش کیے جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ اے اللہ اس کو عمل صالح کی توفیق عطا فرما جس سے تو اس سے راضی ہو جائے اور تیری قربت حاصل ہو

 الہیثمی مجمع الزوائد میں اس روایت پر کہتے ہیں کہ اس کی سند میں مسلمہ بن علی ہے اور وہ ضعیف ہے

رشتہ داروں پر اعمال پیش ہونے کی کوئی ایک روایت بھی سندا صحیح نہیں لیکن اس کو عقیدے کا حصہ بنایا گیا

زبیر علی زئی کتاب توضیح الاحکام میں لکھتے ہیں

zubair-amal-paish

اہل حدیث حضرات ابھی تک حدیث کی صحت پر متفق نہیں

ابن قیم سنن ابی داود پر اپنے حاشیہ تهذيب سنن أبي داود وإيضاح علله ومشكلاته  میں کہتے ہیں

وَلَا رَيْب أَنَّ الْمَيِّت يَسْمَع بُكَاء الْحَيّ وَيَسْمَع قَرْع نِعَالهمْ وَتُعْرَض عَلَيْهِ أعمال أقاربه الأحياء

اور کوئی شک نہیں کہ میت زندوں کا رونا اور ان کے قدموں کی چاپ سنتی ہے اور اس پر زندہ رشتہ داروں کے  اعمال پیش ہوتے ہیں

الله اس شرک سے نکلنے کی توفیق دے

[/EXPAND]

[کیا درود نبی صلی الله علیہ وسلم تک پہنچایا جاتا ہے؟ ]

جواب

مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ہے

حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة ، حدثنا زيد بن الحباب ، حدثنا جعفر بن إبراهيم ، من ولد ذي الجناحين ، قال : حدثنا علي بن عمر ، عن أبيه ، عن علي بن حسين ، أنه رأى رجلا يجيء إلى فرجة كانت عند قبر النبي صلى الله عليه وسلم ، فيدخل فيها فيدعو ، فنهاه ، فقال : ألا أحدثكم حديثا سمعته من أبي ، عن جدي ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، قال : « لا تتخذوا قبري عيدا ، ولا بيوتكم قبورا ، فإن تسليمكم يبلغني أينما كنتم »

علی زین العابدین رحمہ اللہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر کے پاس ایک سوراخ کے پاس آکر اس میں داخل ہوتا ہے اور دعا کرتا ہے ، چنانچہ اسے اپنے پاس بلایا اور فرمایا: کیا میں تمہیں وہ حدیث نہ سناوں جو میں نے اپنے باپ سے سنی ہے اور میرے باپ نے میرے دادا سے سنی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: میری قبر کو عید [میلہ گاہ] نہ بناو اور جہاں کہیں بھی رہو مجھ پر سلام پڑھو تمھارا سلام مجھ تک پہنچ جائے گا۔

یہ روایت صحیح نہیں ہے اس میں ہے کہ قبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں خلل پیدا ہوا کہ حتی کہ ایک اتنا بڑا گڑھا ہو گیا کہ شخص اس میں داخل ہو جاتا اور اس نقص کی طرف کسی کی توجہ نہ ہوئی ایسا کسی بھی حدیث یا تاریخی روایت میں نہیں لہذا ضعیف ہے

ہیثمی نے اس پر لکھا ہے

رواه أبو يعلى وفيه جعفر بن إبراهيم الجعفري ذكره ابن أبي حاتم ولم يذكر فيه جرحاً وبقية رجاله ثقات

اس کو ابو یعلی نے روایت کیا ہے اور اس میں جعفر بن ابراہیم ہے جس کا ذکر ابن اب حاتم نے کیا ہے اور اس پر جرح نہیں کی باقی راوی ثقہ ہیں

یعنی یہ جعفر مجھول ہے

[/EXPAND]

[سوره النسا کی آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول الله کا وسیلہ پکڑا جا سکتا ہے اور یہ الله کی عطا ہے اس وجہ سے نبی کو شفیع المذنبن کہا جاتا ہے دوا کھانا بھی تو وسیلہ ہے اسی طرح رسول الله کا  لعاب دھن ]

جواب

یہ سورہ النساء کی آیت ٦٤ ہے

وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا

ابن کثیر نے تفسیر میں ایک باطل روایت لکھی ہے
وَقَدْ ذَكَرَ جَمَاعَةٌ مِنْهُمْ الشَّيْخُ أَبُو نَصْرِ بْنُ الصَّبَّاغِ فِي كِتَابِهِ الشَّامِلِ الْحِكَايَةَ الْمَشْهُورَةَ عَنْ الْعُتْبِيِّ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، سَمِعْتُ اللَّهَ يَقُولُ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جاؤُكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّاباً رَحِيماً

ابن کثیر المتوفی ٧٧٤ ھ نے اس جھوٹی روایت کو اپنی تفسیر میں لکھ کر اپنی بد عقیدتی کا اظہار کیا ان سے قبل شمس الدين أبي عبد الله محمد بن أحمد بن عبد الهادي المقدسي الحنبلي المتوفی ٧٤٤ ھ اس کو کتاب الصارم المنكي في الرد على السبكي میں رد کر چکے تھے

اس روایت کو امام النووی نے بھی صحیح مان کر لکھا ہے

آیت کا تعلق منافقین کی جنگ میں شرکت نہ کرنے سے ہے کہ ان کی حیلہ سازی کے باوجود اگر وہ الله سے معافی مانگیں تو الله معاف کر دے گا لیکن سوره التوبہ میں یہ بات ختم ہوئی جب منافق کا جنازہ پڑھنے سے روک دیا گیا اور کہا کہ اب معافی ختم
ان آیات کا سیاق و سباق ہے

الله نے حکم دیا ہے کہ اس سے براہ راست طلب کیا جائے کسی کے وسیلہ کا حکم نہیں دیا نہ یہ قرآن میں کسی کے لئے ہے بلکہ یعقوب علیہ السلام کے بیٹے باپ سے کہتے ہیں کہ ہمارے لئے دعائیں کریں وہ چاھتے تو ابراہیم اور اسحاق و اسمعیل کا وسیلہ پکڑ سکتے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا

الله ہر ایک سے بے پرواہ ہے اس کی شان یہ ہے کہ انسان صرف اس سے مانگے یہی انبیاء کا عمل تھا

دوا کھانا اور لعاب دھن کے معجزہ کا اس بحث سے کوئی تعلق نہیں

الله نے بیماری کی شفا نازل کی ہے جو اس نے کیمکل میں رکھی ہے اور انسان ان کیمکل کو کھا لے تو اس کو شفا ہوتی ہے اس پر سب سے زیادہ تحقیق پرانے زمانے میں ہندووں نے کی جو آریو وید کے نام سے مشھور ہے ان سے یہ علم یونان کو منتقل ہوا – یہ سب مشرک اقوام تھیں جنہوں نے تجربات سے کیمکل دریافت کیے اور دیکھا کس چیز میں شفا ہے کس میں نہیں

اس سب کو لکھنے کا مقصد ہے کہ اردو میں محاورہ ہے
اگن کے بچے کھجور میں بتانا
یعنی کہیں کی بات کہیں منڈنا – دوا اور شفا کا وسیلہ کے عقیدے سے کوئی ربط نہیں ہے اور خارج عن بحث بات ہے

لعآب دھن تو رسول الله کا معجزہ تھا اور معجزہ الله کا خاص حکم ہوتا ہے اس کا وسیلہ سے کوئی تعلق نہیں ہے

دنیا کے بہت سے کام ہمیں کرنا ہوں تو وہ کام کسی کے ذریعہ ہوتا ہے
بہت سے کام ہم خود کر لیتے ہیں مثلا کھانا کھانا ناک سنکنا وغیرہ کیا اس میں کوئی وسیلہ ہے ؟ کوئی نہیں ہے

بعض لوگ کوئی دوا نہیں لیتے صرف الله سے دعآ کرتے ہیں اور شفا پاتے ہیں مثلا یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں اتنا عرصۂ رہے کوئی وسیلہ نہ لیا تو نکل آئے لیکن جب الله کا حکم ہوا دعائیں تو وہ کافی عرصہ کرتے رہے یعنی ایک زندہ نبی تک کی دعآ پوری نہیں ہوئی اس کو بھی ٹائم لگا تو ایک عام آدمی جو نبی کا وسیلہ لگا رہا ہے اس کو کوئی فائدہ نہیں

امام ابو حنیفہ کا فتوی ہے کہ بحق فلاں کہنے پر اگ کا عذاب ہو گا

فقه حنفي كي كتاب هدايه از المرغيناني، أبو الحسن برهان الدين (المتوفى: 593هـ) مين ہے
ويكره أن يقول الرجل في دعائه بحق فلان أو بحق أنبياؤك ورسلك”؛ لأنه لا حق للمخلوق على الخالق.
اور کراہت کی جاتی ہے کہ آدمی دعا میں بحق فلاں کہے یا بحق انبیاء اور رسول کیونکہ مخلوق کا خالق پر کوئی حق نہیں

[/EXPAND]

[کیا امام حاکم کا عقیدہ وسیلہ میں صحیح تھا؟ کیا مستدرک میں روایات پر ان کی تصحیح قابل قبول ہے ؟]

جواب  أَبَا إِسْمَاعِيْل عَبْدَ اللهِ بنَ مُحَمَّدٍ الهَرَوِيَّ  محدث    ابو عبدللہ محمّد بن عبدللہ   حاکم النیشابوری      صاحب المستدرک کے لئے کہتے ہیں     رَافضيٌّ خَبِيْث   ( سیر الاعلام النبلاء ج ١٢، ص ٥٧٦، دار الحديث- القاهرة    ).    الذھبی  کہتے ہیں   قُلْتُ: كَلاَّ لَيْسَ هُوَ رافضيًّا، بل يتشيِّع.  یہ رافضی تو نہیں لیکن شیعیت رکھتے تھے

عقائد میں حاکم صاحب مستدرک  صحیح منہج پر نہیں تھے وہ انبیاء پر وسیلے کی تہمت لگاتے تھے جیسا کہ انہوں نے مستدرک میں آدم علیہ السلام  کی دعا نبی علیہ السلام کے وسیلے سے قبول ہوئی روایت کیا ہے اور اس کو صحیح کہا ہے

حالانکہ ان کی سند میں متکلم فیہ راوی ہے اس پر اپنی کتاب المدخل میں خود  اس پر جرح کی  ہے  بعض محدثین ابن حجر کی رائے میں مستدرک لکھتے وقت  ان کی  دماغی حالت صحیح نہیں تھی اور اسی آخری وقت میں انہوں نے مستدرک لکھی ہے

لہذا مستدرک میں حاکم کی تصحیح  قبول نہیں کی جاتی

[/EXPAND]

[ابن کثیر کے نزدیک قبر نبی پر جا کر مدد مانگی جا سکتی ہے ؟]

جواب ابن کثیر اپنی کتاب : البداية والنهاية ج ٧ ص ٩١ اور ٩٢  میں روایت نقل کرتے ہیں

وَقَالَ الْحَافِظُ أَبُو بَكْرٍ الْبَيْهَقِيُّ: أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَةَ وَأَبُو بكر الفارسي قالا: حدثنا أبو عمر بْنُ مَطَرٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَلِيٍّ الذُّهْلِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ مَالِكٍ قال: أصاب الناس قحط في زمن عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ اسْتَسْقِ اللَّهَ لِأُمَّتِكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَكُوا فَأَتَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في المنام فقال: ايت عمر فأقره منى السلام وأخبرهم أنهم مسقون، وقل له عليك بالكيس الْكَيْسَ. فَأَتَى الرَّجُلُ فَأَخْبَرَ عُمَرَ فَقَالَ: يَا رب ما آلوا إِلَّا مَا عَجَزْتُ عَنْهُ. وَهَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ.

ابن-کثیر

إس كي سند ضعیف ہے اعمش مدلس عن سے روایت کر رہا ہے جبکہ امام مالک سے عمر رضی الله عنہ تک سند نہیں ہے ابو صالح غیر واضح ہے افسوس ابن کثیر اتنی علتوں کے باوجود اس کو صحیح کہتے ہیں جبکہ قبر پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا سننا ثابت نہیں

لہذا ابن کثیر کی بد عقیدگی کی نشانی ہے

[/EXPAND]

[محدث ابن حبان قبروں سے فیض لینے کے قائل تھے ؟]

 ابن حبان المتوفی  ٣٥٤ ھ   اپنی صحیح میں روایت کرتے  ہیں

 أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ سُرَيْجٍ النَّقَّالُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْيَمَانِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِذَا مَرَرْتُمْ بِقُبُورِنَا وَقُبُورِكُمْ مِنْ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ، فَأَخْبِرُوهُمْ أَنَّهُمْ فِي النَّارِ

ابو هُرَيْرَةَ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا  جب تم ہماری (اہل اسلام) اور اہل الْجَاهِلِيَّةِ کی قبروں پر سے گزرتے ہو تو پس ان کو خبر دو کہ وہ اگ والے ہیں

البانی کتاب التعليقات الحسان على صحيح ابن حبان وتمييز سقيمه من صحيحه، وشاذه من محفوظه میں  کہتے ہیں صحيح اور اسی طرح – «الصحيحة» (18)، «أحكام الجنائز» (252) میں اس کو صحیح قرار دیتے ہیں

ibn-habban-title

ibn-habbanj2pg220

جبکہ شعيب الأرنؤوط کتاب الإحسان في تقريب صحيح ابن حبان   پر اپنی تعلیق میں کہتے ہیں

إسناده ضعيف جداً، الحارث بن سريج قال ابن معين. ليس شيء، وقال النسائي. ليس بثقة، وقال ابن عدي: ضعيف يسرق الحديث، وشيخه يحيي بن اليمان كثير الخط.

اس کی سند بہت ضعیف ہے اس میں الحارث بن سريج ہے جس کو ابن معین کوئی چیز نہیں کہتے ہیں نسائی کہتے ہیں ثقہ نہیں ہے اور ابن عدی کہتے ہیں ضعیف حدیث چوری کرتا تھا اور اس کا شیخ يحيي بن اليمان  بہت غلطیاں کرتا تھا

ابن حبان اس حدیث پر صحیح ابن حبان میں حاشیہ لکھتے ہیں

قَالَ أَبُو حَاتِمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَمَرَ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْخَبَرِ الْمُسْلِمَ إِذَا مَرَّ بِقَبْرِ غَيْرِ الْمُسْلِمِ، أَنْ يَحْمَدَ اللَّهَ جَلَّ وَعَلَا عَلَى هِدَايَتِهِ إِيَّاهُ الْإِسْلَامَ، بِلَفْظِ الْأَمْرِ بِالْإِخْبَارِ إِيَّاهُ أَنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، إِذْ مُحَالٌ أَنْ يُخَاطَبَ مَنْ قَدْ بَلِيَ بِمَا لَا يَقْبَلُ عَنِ الْمُخَاطِبِ بِمَا يُخَاطِبُهُ بِهِ

  نبی صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا اس حدیث میں کہ جب کوئی مسلمان کسی غیر مسلم کی قبر پر سے گزرے تو الله کی تعریف کرے اس ہدایت پر جو اس نے اسلام سے دی اور حکم کے الفاظ جو اس حدیث میں ہیں کہ وہ اگ میں سے ہیں سے یہ محال ہے کہ ان  کو مخاطب کیا جائے جو بے شک (اتنے) گل سڑ گئے ہوں کہ  خطاب کرنے والے (کی اس بات ) کو قبول نہ کر سکتے ہوں جس پر ان کو مخاطب کیا گیا ہے

ابن حبان کے حساب سے ایسا خطاب نبی صلی الله علیہ وسلم نے سکھایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مردے سمجھنے اور سننے کے قابل  ہیں اس ضعیف روایت کو اپنی صحیح  میں بھی لکھتے ہیں اس سے بھی عجیب بات ہے کہ مردوں کے نہ سننے کے قائل البانی اس روایت کو صحیح کہتے ہیں جبکہ سندا یہ روایت کمزور ہے

ابن حبان مردوں کے سننے کے قائل  تھے اور نیک و صالحین کی قبور پر جا کر دعا کرتے اور وہ ان کے مطابق قبول بھی ہوتیں

وما حلت بي شدة في وقت مقامي بطوس, فزرت قبر علي بن موسى الرضا صلوات الله على جده وعليه ودعوت الله إزالتها عني إلا أستجيب لي, وزالت عني تلك الشدة, وهذا شيء جربته مرارا, فوجدته كذلك
طوس میں قیام کے وقت جب بھی مجھے کوئی پریشانی لاحق ہوئی ،میں نے (امام) علی بن موسی الرضا صلوات الله على جده وعليه کی قبرکی زیارت کی، اور اللہ سے اس پریشانی کے ازالہ کے لئے دعاء کی ۔تو میری دعاقبول کی گئی،اورمجھ سے وہ پریشانی دورہوگئی۔اوریہ ایسی چیز ہے جس کامیں نے بارہا تجربہ کیا تو اسی طرح پایا

[الثقات لابن حبان، ط دار الفكر: 8/ 456]

 قبروں سے فیض حاصل کرنے اور مردوں کے سننے کے ابن حبان قائل تھے

کہا جاتا ہے کہ ابن حبان  صالحین کی قبروں کی زیارت کے وقت کودعاء کی قبولیت کاوقت سمجھتے ہوں گے لیکن ایسا کسی حدیث میں نہیں لہذا یہ بدعت ہوئی اور پھر ان کا مردوں کے سننے کا عقیدہ اس بات کو اور الجھا دیتا ہے

ذهبی   کتا ب  سیر اعلام النبلاء ،ج ٩ ص ٣٤٤ ، میں لکھتے ہیں
وعن ابراهیم الحربی ، قال ۰ قبر معروف ( الکرخی ) التریاق المجرب 
 اور ابراهیم حربی کہتے هیں کہ  معروف (کرخی) کی قبر مجرب تریاق هے

الذھبی، سیر الاعلام النبلاء ج ٩ ص ٣٤٣ پر اس با ت کی تا ئید کرتے ہیں

يُرِيْدُ إِجَابَةَ دُعَاءِ المُضْطَرِ عِنْدَهُ؛ لأَنَّ البِقَاعَ المُبَارَكَةِ يُسْتَجَابُ عِنْدَهَا الدُّعَاءُ، كَمَا أَنَّ الدُّعَاءَ فِي السَّحَرِ مَرْجُوٌّ، وَدُبُرَ المَكْتُوْبَاتِ، وَفِي المَسَاجِدِ، بَلْ دُعَاءُ المُضْطَرِ مُجَابٌ فِي أَيِّ مَكَانٍ اتَّفَقَ، اللَّهُمَّ إِنِّيْ مُضْطَرٌ إِلَى العَفْوِ، فَاعْفُ عَنِّي

  ابراہیم حربی کی مراد یہ هے کہ معروف کرخی کی قبر کے پاس مضطر آدمی کی دعا قبول هوتی هے ،کیونکہ مبارک مقامات کے پاس دعا قبول هوتی هے ،جیسا کہ سحری کے وقت ،اور فرض نمازوں کے بعد ،اور مساجد میں ،بلکہ مضطر آدمی کی دعا هر جگہ قبول هو تی هے

اس پر شعيب الأرناؤوط  تعلیق میں لکھتے ہیں

هذا الكلام لا يسلم لقائله، إذ كيف يكون قبر أحد من الاموات الصالحين ترياقا ودواءا للاحياء، وليس ثمة نص من كتاب الله يدل على خصوصية الدعاء عند قبر ما من القبور، ولم يأمر به النبي صلى الله عليه وسلم، ولا سنه لامته، ولا فعله أحد من الصحابة والتابعين لهم بإحسان، ولا استحسنه أحد من أئمة المسلمين الذين يقتدى بقولهم، بل ثبت النهي عن قصد قبور الأنبياء والصالحين لاجل الصلاة والدعاء عندها

ایسا کلام قائل کے لئے مناسب نہیں کیونکہ کسی نیک شخص کی قبر کیسے تریاق یا دوا زندوں کے لئے ہو سکتی ہے ؟اور اس پر ایک رتی بھی کتاب الله میں دلیل نہیں کہ کوئی خصوصیت نکلتی ہو قبروں کے پاس دعا کی اور ایسا نبی صلی الله علیہ وسلم نے حکم نہیں کیا اور امت کو کہا اور نہ صحابہ نے نہ التابعين  نے ایسا کیا نہ ائمہ مسلمین نے اس کو مستحسن کہا جن کے قول کی اقتدہ کی جاتی ہے، بلکہ  دعا یا نماز کے لئے  انبیاء والصالحين  کی قبروں (کے سفر ) کے قصد  کی ممانعت ثابت ہے

امام احمد کہتے ہیں بحر الدم (1010) بحوالہ موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله،  دار الکتب

وقال أحمد: معروف من الأبدال، وهو مجاب الدعوة

احمد کہتے ہیں معروف ابدال میں سے ہیں اور ان کی دعا قبول ہوتی ہے

امام احمد صوفیوں کے مدح  تھے اور ان  کے شاگرد ابراہیم الحربی صوفی معروف الکرخی کی قبر کو تریاق المجرب کہتے تھے

امت  میں احبار اور رہبان  کی تمیز کا دور اب  ختم ہو رہا ہے (تیسری صدی ہجری کا اختتام) اور  اپس میں اشتراک کا دور شروع ہو گیا ہے اب حدود  واضح نہیں رہیں گی اور محدثین صوفیوں کے مدح نظر آنا شروع ہوں گے اور صوفی منش  اور زہاد لوگ محدث بنیں  گے بات زہد سے نقل کر عقیدے کی خرابی کا سبب بنے گی

ہمارے نزدیک  مردوں کے سننے کا عقیدہ اور قبروں سے فیض حاصل کرنا گمراہی ہے

اللہ ہم سب کو ہدایت دے

[/EXPAND]

[امام النووی نے اپنی کتاب میں ایک اعرابی کے قبر نبی پر دعا کرنے اور نبی کو وسیلہ بنانے والی روایت کی تحسین کی ہے کیا یہ کرنا صحیح عقیدہ ہے؟]

جواب

ڈاکٹر عثمانی کتاب مزار یا میلے میں لکھتے ہیں کہ توسل سے متعلق روایات بے اصل ہیں

mazar1

فقہ حنفی میں توسل  حرام ہے – ڈاکٹر عثمانی حوالہ دیتے ہیں

mazar2

افسوس محدثین میں سے کچھ  توسل یا وسیلہ  کے قائل تھے

امام النووی ساتویں صدی کے محدث ہیں- انہوں نے صحیح مسلم کی شرح لکھی ہے، اس کے علاوہ ریاض الصالحین کے نام سے ان کی ایک کتاب مشھور ہے جس میں صحیح و ضعیف روایات کو ملا جلا کر مختلف عنوانات کے تحت لکھا گیا ہے- اسی طرح ان کا فقہ شافعی پر بھی کام ہے- اپنی فقہ سے متعلق کتاب میں نووی نے زیارت قبر نبوی کے آداب لکھے ہیں، جن کو پڑھ کر آج بھی زیارت حج و عمرہ اور مدینہ کی کتب ترتیب دی جاتی ہیں-

امام النووی  قبر کے پاس سماع کے قائل  تھے کتاب کتاب المجموع شرح المهذب میں لکھتے ہیں

قَالَ قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (مَا مِنْ أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ إلَّا رَدَّ الله عَلَيَّ رُوحِي حَتَّى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلَامُ) رَوَاهُ أَبُو دَاوُد بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا 

ایسا کوئی نہیں کہ مجھے سلام کہے اور الله میری روح نہ لوٹا دے یہاں تک کہ میں سلام پلٹ کر کہوں

اس کو ابو داود نے صحیح اسناد سے روایت کیا ہے

ہمارے نزدیک یہ روایت صحیح نہیں لیکن امام النووی اسی کی بنیاد پر قبر کے پاس درود و سلام کے قائل تھے

امام نووی المتوفى: 676هـ  کتاب المجموع شرح المهذب   میں لکھتے ہیں

ثُمَّ يَأْتِي الْقَبْرَ الْكَرِيمَ فَيَسْتَدْبِرُ الْقِبْلَةَ وَيَسْتَقْبِلُ جِدَارَ الْقَبْرِ وَيُبْعِدُ مِنْ رَأْسِ الْقَبْرِ نَحْوَ أَرْبَعِ أَذْرُعٍ وَيَجْعَلُ الْقِنْدِيلَ الَّذِي فِي الْقِبْلَةِ عِنْدَ الْقَبْرِ عَلَى رَأْسِهِ وَيَقِفُ نَاظِرًا إلَى أَسْفَلِ مَا يَسْتَقْبِلُهُ مِنْ جِدَارِ الْقَبْرِ غَاضَّ الطَّرْفِ فِي مَقَامِ الْهَيْبَةِ وَالْإِجْلَالِ فَارِغَ الْقَلْبِ مِنْ عَلَائِقِ الدُّنْيَا مُسْتَحْضِرًا فِي قَلْبِهِ جَلَالَةَ مَوْقِفِهِ وَمَنْزِلَةَ مَنْ هُوَ بِحَضْرَتِهِ ثُمَّ يُسَلِّمُ وَلَا يَرْفَعُ صَوْتَهُ بَلْ يَقْصِدُ فَيَقُولُ السَّلَامُ عَلَيْك يَا رَسُولَ اللَّهِ السَّلَامُ عَلَيْك يَا نَبِيَّ الله السَّلَامُ عَلَيْك يَا خِيرَةَ اللَّهِ السَّلَامُ عَلَيْك يا حبيب الله السلام عيك يَا سَيِّدَ الْمُرْسَلِينَ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ السَّلَامُ عَلَيْك يَا خَيْرَ  الْخَلَائِقِ أَجْمَعِينَ السَّلَامُ عَلَيْك وَعَلَى آلِكَ وَأَهْلِ بَيْتِك وَأَزْوَاجِك وَأَصْحَابِك أَجْمَعِينَ السَّلَامُ عليك وعلى سائر النبيين وجميع عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ جَزَاك الله يَا رَسُولَ الله عَنَّا أَفْضَلَ مَا جَزَى نَبِيًّا وَرَسُولًا عَنْ أُمَّتِهِ وَصَلَّى عَلَيْك كُلَّمَا ذَكَرَك ذَاكِرٌ وَغَفَلَ عَنْ ذِكْرِك غَافِلٌ أَفْضَلَ وَأَكْمَلَ مَا صَلَّى عَلَى أَحَدٍ مِنْ  الْخَلْقِ أَجْمَعِينَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إلَهَ إلَّا الله وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّك عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَخِيرَتُهُ مِنْ خَلْقِهِ وَأَشْهَدُ أَنَّك بَلَّغْت الرِّسَالَةَ وَأَدَّيْت الْأَمَانَةَ وَنَصَحْت الْأُمَّةَ وَجَاهَدْت فِي الله حَقَّ جِهَادِهِ اللَّهُمَّ آتِهِ الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ وَآتِهِ نِهَايَةَ مَا يَنْبَغِي أَنْ يَسْأَلَهُ السَّائِلُونَ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَرَسُولِكَ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إبْرَاهِيمَ وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إبْرَاهِيمَ فِي الْعَالَمِينَ إنَّك حَمِيدٌ مَجِيدٌ

وَمَنْ طَالَ عَلَيْهِ هَذَا كُلُّهُ اقْتَصَرَ عَلَى بَعْضِهِ وَأَقَلُّهُ السَّلَامُ عَلَيْك يَا رسول الله صلى الله عليك وَسَلَّمَ

پھر قبر کریم کے پاس آئے، قبلہ پیٹھ کی جانب رکھے اور سامنے قبر کی دیوار کو اور قبر کی اٹھان سے چار ہاتھ دور رہے اور قندیل جو قبلہ کی طرف ہے وہ سر پر ہو اور نظر نیچے رکھے قبر کے پاس اور نظر مقام ہیبت و جلال سے نیچے ہو اور دل دنیا و مافیھا سے دور اپنے قلب میں اس مقام کی جلالت کو حاضر رکھتے ہوئے اور….، پھر سلام کرے  اور آواز بلند نہ ہو بلکہ دھیمی ہو، پس کہے

السَّلَامُ عَلَيْك يَا رَسُولَ الله

السَّلَامُ عَلَيْك يَا نَبِيَّ الله

 السَّلَامُ عَلَيْك يَا خِيرَةَ الله

السَّلَامُ عَلَيْك يا حبيب الله

السلام عيك يَا سَيِّدَ الْمُرْسَلِينَ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ

السَّلَامُ عَلَيْك يَا خَيْرَ  الْخَلَائِقِ أَجْمَعِينَ

 السَّلَامُ عَلَيْك وَعَلَى آلِكَ وَأَهْلِ بَيْتِك وَأَزْوَاجِك وَأَصْحَابِك أَجْمَعِينَ

 السَّلَامُ عليك وعلى سائر النبيين وجميع عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ

جَزَاك الله يَا رَسُولَ الله عَنَّا أَفْضَلَ مَا جَزَى نَبِيًّا وَرَسُولًا عَنْ أُمَّتِهِ

 وَصَلَّى عَلَيْك كُلَّمَا ذَكَرَك ذَاكِرٌ وَغَفَلَ عَنْ ذِكْرِك غَافِلٌ

 أَفْضَلَ وَأَكْمَلَ مَا صَلَّى عَلَى أَحَدٍ مِنْ  الْخَلْقِ أَجْمَعِينَ

 أَشْهَدُ أَنْ لَا إلَهَ إلَّا الله وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّك عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ

 وَخِيرَتُهُ مِنْ خَلْقِهِ وَأَشْهَدُ أَنَّك بَلَّغْت الرِّسَالَةَ وَأَدَّيْت الْأَمَانَةَ

 وَنَصَحْت الْأُمَّةَ وَجَاهَدْت فِي الله حَقَّ جِهَادِهِ

اللَّهُمَّ آتِهِ الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ وَآتِهِ نِهَايَةَ مَا يَنْبَغِي أَنْ يَسْأَلَهُ السَّائِلُونَ

 اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَرَسُولِكَ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إبْرَاهِيمَ وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إبْرَاهِيمَ فِي الْعَالَمِينَ إنَّك حَمِيدٌ مَجِيدٌ

وَمَنْ طَالَ عَلَيْهِ هَذَا كُلُّهُ اقْتَصَرَ عَلَى بَعْضِهِ وَأَقَلُّهُ السَّلَامُ عَلَيْك يَا رسول الله صلى الله عليك وَسَلَّمَ

اس کے بعد امام النووی کہتے ہیں کہ ابو بکر اور عمر پر بھی سلام پڑھے

فَيَقُولُ السَّلَامُ عَلَيْك يَا أَبَا بَكْرٍ صَفِيَّ رَسُولِ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَثَانِيَهُ فِي الْغَارِ

 جَزَاك الله عَنْ أُمَّةِ رَسُولِ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرًا

ثُمَّ يَتَأَخَّرُ إلَى صَوْبِ يَمِينِهِ قَدْرَ ذِرَاعٍ لِلسَّلَامِ عَلَى عُمَرَ رَضِيَ الله عَنْهُ وَيَقُولُ

 السَّلَامُ عَلَيْك يَا عُمَرُ الَّذِي أَعَزَّ الله بِهِ الْإِسْلَامَ جَزَاك الله عَنْ أُمَّةِ نَبِيِّهِ صَلَّىالله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرًا

اس کے بعد امام النووی کہتے ہیں

ثُمَّ يَرْجِعُ إلَى مَوْقِفِهِ الْأَوَّلِ قُبَالَةَ وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَتَوَسَّلُ بِهِ فِي حَقِّ نَفْسِهِ وَيَسْتَشْفِعُ بِهِ إلَى رَبِّهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى وَمِنْ أَحْسَنِ مَا يَقُولُ مَا حَكَاهُ الْمَاوَرْدِيُّ وَالْقَاضِي أَبُو الطَّيِّبِ وَسَائِرُ أَصْحَابِنَا عَنْ الْعُتْبِيِّ مُسْتَحْسِنِينَ لَهُ قَالَ (كُنْت جَالِسًا عِنْدَ قَبْرِ رَسُولِ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْك يَا رَسُولَ الله سَمِعْت الله يَقُولُ (وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا الله وَاسْتَغْفَرَ لهم الرسول لوجدوا الله توابا رحيما) وَقَدْ جِئْتُك مُسْتَغْفِرًا مِنْ ذَنْبِي

مُسْتَشْفِعًا بِك إلَى رَبِّي ثُمَّ أَنْشَأَ يَقُولُ

* يَا خَيْرَ مَنْ دُفِنْت بِالْقَاعِ أَعْظَمُهُ

* فَطَابَ مِنْ طِيبِهِنَّ الْقَاعُ وَالْأَكَمُ نَفْسِي الْفِدَاءُ لِقَبْرٍ أَنْتَ سَاكِنُهُ

* فِيهِ الْعَفَافُ وَفِيهِ الْجُودُ وَالْكَرَمُ ثُمَّ انْصَرَفَ فَحَمَلَتْنِي عَيْنَايَ

فَرَأَيْت النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّوْمِ فَقَالَ يَا عُتْبِيُّ الْحَقْ الْأَعْرَابِيَّ فَبَشِّرْهُ بِأَنَّ الله تَعَالَى قَدْ غَفَرَ لَهُ

پھر سلام کے بعد واپس جائے اول موقف پر کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے سامنے ہو اور ان سے توسل کرے اپنے لئے اور ان کی شفاعت کے ذریعہ اپنے رب  الله سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى سے طلب کرے- اور اور کیا خوب الْمَاوَرْدِيُّ اور وَالْقَاضِي أَبُو الطَّيِّبِ اور ہمارے تمام اصحاب  .. نے حکایت نقل کی ہے کہ میں قبر رسول کے پاس بیٹھا تھا پس ایک اعرابی آیا اور کہا السَّلَامُ عَلَيْك يَا رَسُولَ الله، الله کا کہا سنا  وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا الله وَاسْتَغْفَرَ لهم الرسول لوجدوا الله توابا رحيما،  پس میں آیا ہوں مغفرت مانگتے ہوئے اپنے گناہوں سے اپنے رب کے حضور پس اس نے اشعار کہے

اے بہترین انسان کہ جس کا پیکر اس سرزمین میں دفن ہے اور جس کے عطر و خوشبو سے اس سرزمین کی بلندی اور پستی معطر ہوگئی ہے، میری جان ایسی زمین پر قربان کہ جسے آپ نے انتخاب کیا اور اس میں عفت و جود وکرم پوشیدہ ہوگیا ہے۔

  پس نبی صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا انہوں نے فرمآیا  الله نے تجھے بخش دیا

افسوس اس روایت ابن کثیر نے تفسیر ابن کثیر میں سوره النساء میں نقل کر دیا ہے جو گمراہی پھیلا رہا ہے

وَقَدْ ذَكَرَ جَمَاعَةٌ مِنْهُمْ الشَّيْخُ أَبُو نَصْرِ بْنُ الصَّبَّاغِ فِي كِتَابِهِ الشَّامِلِ الْحِكَايَةَ الْمَشْهُورَةَ عَنْ الْعُتْبِيِّ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ الله، سَمِعْتُ الله يَقُولُ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جاؤُكَ فَاسْتَغْفَرُوا الله وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا الله تَوَّاباً رَحِيماً وَقَدْ جِئْتُكَ مُسْتَغْفِرًا لِذَنْبِي مُسْتَشْفِعًا بك إلى ربي. ثم أنشأ يقول: [البسيط] يَا خَيْرَ مَنْ دُفِنَتْ بِالْقَاعِ أَعْظُمُهُ … فَطَابَ مِنْ طِيبِهِنَّ الْقَاعُ وَالْأَكَمُ
نَفْسِي الْفِدَاءُ لِقَبْرٍ أَنْتَ سَاكِنُهُ … فِيهِ الْعَفَافُ وَفِيهِ الْجُودُ وَالْكَرَمُ
ثُمَّ انْصَرَفَ الْأَعْرَابِيُّ، فَغَلَبَتْنِي عَيْنِي فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّوْمِ، فَقَالَ يَا عُتْبِيُّ، الْحَقِ الْأَعْرَابِيَّ فَبَشِّرْهُ أَنَّ الله قَدْ غَفَرَ لَهُ» .

بعض بزرگان مانند شیخ ابو نصر صباغ نے اس مشہور داستان کو عتبی سے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے کہ وہ کہتا ہے : میں قبر پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک اعرابی داخل ہوا اور کہا: ”السلام علیک یا رسول اللہ

النووی کہتے ہیں

لَا يَجُوزُ أَنْ يُطَافَ بِقَبْرِهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيُكْرَهُ إلْصَاقُ الظُّهْرِ وَالْبَطْنِ بِجِدَارِ الْقَبْرِ قَالَهُ أَبُو عُبَيْدِ الله الْحَلِيمِيُّ وَغَيْرُهُ قَالُوا وَيُكْرَهُ مَسْحُهُ بِالْيَدِ وَتَقْبِيلُهُ

یہ جائز نہیں کہ قبر صلی الله علیہ وسلم کا طواف کیا جائے اور کراہت کی ہے کہ پیٹھ یا  پیٹ کو قبر کی دیوار سے لگائے اور أَبُو عُبَيْدِ الله الْحَلِيمِيُّ اور دوسرے کہتے ہیں کہ کراہت کرتے ہیں کہ قبر کو ہاتھ سے مس کیا جائے یا اس کو چوما جائے

ایک دوسرے محدث امام احمد کا نقطہ نظر الگ تھا

عبد الله بن احمد کتاب العلل ومعرفة الرجال میں اپنے باپ امام احمد کی رائے پیش کرتے ہیں

سَأَلته عَن الرجل يمس مِنْبَر النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ويتبرك بمسه ويقبله وَيفْعل بالقبر مثل ذَلِك أَو نَحْو هَذَا يُرِيد بذلك التَّقَرُّب إِلَى الله جلّ وَعز فَقَالَ لَا بَأْس بذلك

میں نے باپ سے سوال کیا اس شخص کے بارے میں جو رسول الله کا منبر چھوئے اور اس سے تبرک حاصل کرے اور اس کو چومے اور ایسا ہی قبر سے کرے اور اس سے الله کا تقرب حاصل کرے پس انہوں نے کہا اس میں کوئی برائی نہیں

افسوس

قبر پر درود و سلام پڑھنا ان کو چومنا اور پھر ان سے توسل لینا اور نبی کا خواب میں آنا

یہ سب  سلف کے اہل حدیث کہہ رہے ہیں

 یہ سب غلط ہوا جو بھی ہوا

لہذا توحید  کی کھلی دعوت دی جائے اور بتایا جائے کہ جو ہوا سو ہوا اس سب سے توبہ کرو

[/EXPAND]

[کیا امام احمد نبی کا وسیلہ دعاووں میں لیتے تھے ؟]

جواب

كتاب الفروع ومعه تصحيح الفروع لعلاء الدين علي بن سليمان المرداوي  کے مطابق

قَالَ أَحْمَدُ فِي مَنْسَكِهِ الَّذِي كَتَبَهُ لِلْمَرُّوذِيِّ: إنَّهُ يَتَوَسَّلُ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي دُعَائِهِ

احمد نے مَنْسَكِهِ میں کہا جو انہوں نے المروزی کے لئے لکھی کہ وہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے وسیلہ سے دعائیں کرتے ہیں

 کتاب  الإنصاف في معرفة الراجح من الخلاف از  علاء الدين أبو الحسن علي بن سليمان المرداوي الدمشقي الصالحي الحنبلي کے مطابق

قَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ: الْمَرُّوذِيُّ يَتَوَسَّلُ بِالنَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فِي دُعَائِهِ وَجَزَمَ بِهِ فِي الْمُسْتَوْعِبِ

امام احمد نے کہا المروزی کو کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو وسیلہ لیں دعاووں میں

اسی طرح کتاب  كشاف القناع عن متن الإقناع از  منصور بن يونس بن صلاح الدين ابن حسن بن إدريس البهوتى الحنبلى کے مطابق بھی وسیلہ جائز ہے

واضح رہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے صحابہ دعا کرنے کی درخواست کرتے تھے لیکن وفات النبی کے بعد دعا میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا وسلیہ غلط عمل ہے

لہذا حنابلہ کے ہاں یہ تلقھا بالقبول کا درجہ رکھتا تھا

اس تحریر “مَنْسَكِهِ ” کو چھپا دیا گیا ہے اور اب اس کا ذکر نہیں کیا جاتا

امام احمد کے وسیلہ کے قول کا ذکر عبد الوہاب النجدی نے اپنے فتوی تک میں کیا ہے

wasilah-ahmed-najdi

دسواں مسئلہ – علماء اسلام کا قول ہے کہ دعائے استسقاء میں نیکوکاروں کا وسیلہ اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں اور امام احمد فرماتے ہیں: صرف نبی صلی الله علیہ وسلم کا وسیلہ لینا چاہئے ، اسی کے ساتھ ان علماء نے صراحت کے ساتھ یہ بھی کہا کہ کسی بھی مخلوق سے مدد طلب کرنا درست نہیں ، لہٰذا (مدد طلب کرنے اور وسیلہ لینے کے درمیان) فرق بلکل واضح ہے اور ہم جو مسئلہ بیان کر رہے ہیں ، اس پر کوئی اعتراض نہیں ، بعض صالحین توسل کو جائز قرار دیتے ہیں ، تو یہ ایک فقہی مسئلہ ہے ، اگرچہ ہمارے نزدیک صحیح قول جمہور کا ہے کہ توسل مکروہ ہے ، مگر وسیلہ لینے والوں کو ہم غلط بھی نہیں کہتے ، کیونکہ اجتہادی مسائل میں انکار و اعتراض کی گنجائش نہیں ہے – (مؤلفات محمد بن عبد الوہاب / فتاویٰ و مسائل ، جلد ٤ ، صفحہ ٦٨)

البانی کتاب التوسل أنواعه وأحكامه میں اعتراف کرتے ہیں کہ امام احمد نے نبی صلی الله علیہ وسلم کا وسیلہ لینے  کو جائز کیا ہے

فأجاز الإمام أحمد التوسل بالرسول صلى الله عليه وسلم وحده فقط، وأجاز غيره كالإمام الشوكاني التوسل به وبغيره من الأنبياء والصالحين

پس امام احمد نے صرف نبی صلی الله علیہ وسلم کا وسیلہ لینے  کو جائز قرار دیا ہے اور دیگر نے جیسے امام شوکانی نے انبیاء و صالحین سے اور نبی صلی الله علیہ وسلم سے وسیلہ لینے کو جائز کیا ہے

مجموع فتاوى میں ابن تيمية، الجزء الأول، ص 347   پر کہتے ہیں

وَرَأَيْت فِي فَتَاوِي الْفَقِيهِ أَبِي مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ السَّلَامِ قَالَ: لَا يَجُوزُ أَنْ يُتَوَسَّلَ إلَى اللَّهِ بِأَحَدِ مِنْ خَلْقِهِ إلَّا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إنْ صَحَّ حَدِيثُ الْأَعْمَى: فَلَمْ يُعْرَفْ صِحَّتُهُ – ثُمَّ رَأَيْت عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ وَأَبِي يُوسُفَ وَغَيْرِهِمَا مِنْ الْعُلَمَاءِ أَنَّهُمْ قَالُوا: لَا يَجُوزُ الْإِقْسَامُ عَلَى اللَّهِ بِأَحَدٍ مِنْ الْأَنْبِيَاءِ وَرَأَيْت فِي كَلَامِ الْإِمَامِ أَحْمَدَ أَنَّهُ فِي النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

میں نے فَتَاوِي الْفَقِيهِ أَبِي مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ السَّلَامِ میں دیکھا کہ کہا کسی کے لئے جائز نہیں کہ مخلوق میں سے کسی کا وسیلہ لے سوائے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے اگر اندھے والی حدیث صحیح ہے – اس کی صحت کا علم بھی نہیں ہے – پھر میں نے دیکھا کہ ابو حنیفہ نے اور ابو یوسف نے اور دیگر علماء نے کہ وہ کہتے ہیں کسی کے لئے جائز نہیں کہ ان (وسیلہ کی اقسام کو انبیاء میں سے کسی کی بھی الله کے لئے جائز کرتے ہوں اور میں نے امام احمد کا کلام دیکھا کہ وہ جائز کرتے ہیں

یہ دلائل ثابت کرتے ہیں کہ امام احمد توسل کے قائل تھے جبکہ یہ بدعت اور شرک ہے

[/EXPAND]

[کیا رسول الله صلی الله علیہ وسلم دوسرے انبیاء کے وسیلہ دعا کرتے تھے ؟]

جواب ایک روایت ہے جو المعجم الكبير  طبرانی اور حلية الأولياء وطبقات الأصفياء اور  مجمع الزوائد ومنبع الفوائد

میں نقل ہوئی ہے اس کے مطابق علی رضی الله عنہ کی والدہ فاطمہ بنت اسد کی وفات پر صلی الله علیہ وسلم نے دعا کی

اللهُ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ، اغْفِرْ لِأُمِّي فَاطِمَةَ بِنْتِ أَسَدٍ، ولَقِّنْهَا حُجَّتَها، وَوَسِّعْ عَلَيْهَا مُدْخَلَهَا، بِحَقِّ نَبِيِّكَ وَالْأَنْبِيَاءِ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِي فَإِنَّكَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ

اے الله جو زندہ کرتا ہے مردہ کرتا ہے جو زندہ ہے اور جس کو موت نہیں ہے مغفرت کر میری ماں فاطمہ بنت اسد کی اور ان کی قبر وسیع کر اس حق پر جو انبیاء کا ہے اور پچھلے انبیاء کا ہے کہ آپ رحم کرنے والے ہیں

یہ روایت ایک ہی راوی رَوْحُ بْنُ صَلَاحٍ  سے آئی ہے جو ضعیف ہے

 الدَّارَقُطْنِيّ کہتے ہیں : كان ضعيفًا في الحديث، سكن مصر.  حدیث میں ضعیف ہے مصر کا باسی تھا «المؤتلف والمختلف

ابن عدي کہتے ہیں: ضعيف

ابن ماكولا کہتے ہیں : ضعفوه سكن مصر ضعیف ہے مصر کا باسی تھا

امام حاکم نے ثقہ کہا ہے لیکن جمہور کے مقابلے پر ان کی تعدیل کلعدم ہے

مخلوق کا الله پر کوئی حق نہیں بلکہ الله الصمد الله سب سے بے نیاز ہے چاہے فرشتے ہوں یا انبیاء ہوں

[/EXPAND]

[کیا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا سایہ تھا ؟]

جواب

اس دنیا کی جو بھی شی نظر اتی ہے اس کے پیچھے روشنی کا انعکاس کارفرما ہے روشی ٹھوس جسم پر پڑتی ہے اور پلٹ کر دیکھنے والے کی نگاہ تک جاتی ہے جب ایسا ہو تو اس جسم کا سایہ بننا لازمی ہے لہذا اس سے کوئی بھی ٹھوس جسم نہیں بچا البتہ مادہ کی دوسری حالت گیس کا سایہ نظر نہیں اتا  جیسے ہوا کا سایہ  نظر نہیں اتا کیونکہ اس میں ایٹم دور ہیں اور روشنی گزر جاتی ہے

 صحیح ابن خزیمہ کی صحیح سند سے روایت ہے

 نا بَحْرُ بْنُ نَصْرِ بْنِ سَابَقٍ الْخَوْلَانِيُّ، نا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ عِيسَى بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: صَلَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الصُّبْحِ قَالَ: فَبَيْنَمَا هُوَ فِي الصَّلَاةِ مَدَّ يَدَهُ، ثُمَّ أَخَّرَهَا، فَلَمَّا فَرَغَ مِنَ الصَّلَاةِ، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، صَنَعْتَ فِي صَلَاتِكَ هَذِهِ مَا لَمْ تَصْنَعْ فِي صَلَاةٍ قَبْلَهَا قَالَ: «إِنِّي رَأَيْتُ الْجَنَّةَ قَدْ عُرِضَتْ عَلَيَّ، وَرَأَيْتُ فِيهَا. . . . قُطُوفُهَا دَانِيَةٌ، حَبُّهَا كَالدُّبَّاءِ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَتَنَاوَلَ مِنْهَا، فَأُوحِيَ إِلَيْهَا أَنِ اسْتَأْخِرِي، فَاسْتَأْخَرَتْ، ثُمَّ عُرِضَتْ عَلَيَّ النَّارُ، بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ حَتَّى رَأَيْتُ ظِلِّيَ وَظِلَّكُمْ، فَأَوْمَأْتُ إِلَيْكُمْ أَنِ اسْتَأْخَرُوا، فَأُوحِيَ إِلَيَّ أَنْ أَقِرَّهُمْ، فَإِنَّكَ أَسْلَمْتَ وَأَسْلَمُوا، وَهَاجَرْتَ وَهَاجَرُوا، وَجَاهَدْتَ وَجَاهَدُوا، فَلَمْ أَرَ لِي عَلَيْكُمْ فَضْلًا إِلَّا بِالنُّبُوَّةِ» 

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کے ساتھ ہم نے صبح کی نماز پڑھی پھر نماز کے دوران انہوں نے باتھ کو آگے کیا پھر پیچھے پس ہم نماز سے فارغ ہوئے تو پوچھا کہ آپ نے نماز میں کیا کیا  جو اس سے پہلے نہیں کیا – فرمایا میں نے جنت دیکھی اور اس میں لٹکتے پھل دیکھے … پس ارادہ کیا کہ اس کو لوں تو وحی کی گئی کہ چھوڑ کروں لہٰذا چھوڑ دیا  پھر جہنم پیش کی گئی یہاں تک (روشنی میں)  میں نے اپنآ سایہ اور تمھارے سائے تک دیکھے

الذھبی نے اسکو صحیح کہا ہے روایت دلیل ہے کہ رسول الله کا سایہ تھا

صحیح مسلم کی روایت ہے کہ نور سے فرشتوں کو تخلیق کیا گیا صحیح بخاری میں فرشتوں کے سایہ کا ذکر ہے

عن جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: لَمَّا قُتِلَ أَبِي جَعَلْتُ أَبْكِي، وَأَكْشِفُ الثَّوْبَ عَنْ وَجْهِهِ، فَجَعَلَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَوْنِي وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَنْهَ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لاَ تَبْكِيهِ – أَوْ: مَا تَبْكِيهِ – مَا زَالَتِ المَلاَئِكَةُ تُظِلُّهُ بِأَجْنِحَتِهَا حَتَّى رُفِعَ “[صحيح البخاري 5/ 102 رقم 4080 ]۔

جابر بن عبد الله رضی الله عنہ کہتے ہیں میرے والد کا قتل شہادت ہوئی میں رونے لگا اور ان کے چہرے پر سے کپڑا ہٹاتا  پس اصحاب رسول نے منع کیا لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے منع نہ کیا اور کہا مت رو فرشتوں نے ان پراپنے پروں  سایہ کرنا نہ چھوڑا یہاں تک کہ بلند ہوئے

یعنی انکی روح کی پرواز تک فرشتے ان پر پروں سے سایہ کیے رہے

بعض علماء نے غلو کا عقیدہ اختیار کیا مثلا   زرقاني (المتوفى1122 ) نے کہا
روى ابن المبارك وابن الجوزي، عن ابن عباس: لم يكن للنبي -صلى الله عليه وسلم- ظل، ولم يقم مع الشمس قط إلا غلب ضوؤه ضوء الشمس، ولم يقم مع سراج قط إلا غلب ضوء السراج[شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية 5/ 525]۔

ابن مبارک اور ابن جوزی نے روایت کیا ہے ابن عباس سے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا سایہ نہیں تھا اور نبی مبارک سورج کے ساتھ کبھی کھڑے نہ ہوئے الا یہ کہ نبی کی روشنی سورج سے بڑھ کر ہوتی یا چراغ کے ساتھ کھڑے نہ ہوئے کہ نبی کی روشی چراغ سے بڑھ کر ہوتی

الزرقاني (المتوفى1122) نے نقل کیا
وقال ابن سبع: كان -صلى الله عليه وسلم- نورًا، فكان إذا مشى في الشمس أو القمر لا يظهر له ظل”؛ لأن النور لا ظلَّ له[شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية 5/ 525]۔

أبو ربيع سليمان ابن سبع نے کہا نبی صلی الله علیہ وسلم نور تھے پس جب چلتے سورج یا چاند کی روشنی میں تو ان کا سایہ ظاہر نہیں ہوتا تھا کیونکہ نور کا سایہ نہیں ہوتا

کتاب المواهب اللدنية بالمنح المحمدية  از أحمد بن محمد بن أبى بكر بن عبد الملك القسطلاني القتيبي المصري، أبو العباس، شهاب الدين (المتوفى: 923هـ) کے مطابق

 ولم يكن له- صلى الله عليه وسلم- ظل فى شمس ولا قمر رواه الترمذى الحكيم عن ذكوان

نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ مبارک نہ سورج کی دھوپ میں نظر آتا تھا نہ چاند میں اس کو حکیم الترمذی نے ذکوان سے روایت کیا ہے 

حکیم الترمذی ایک صوفی تھا اس کی کتاب نوادر میں یہ قول نہیں ملا البتہ سیوطی نے الخصائص الکبری میں اس کی سند دی ہے

عبد الرحمن بن قيس الزعفراني عن عبد الملك بن عبد الله بن الوليد عن ذكوان ان رسول الله  لم يكن يرى له ظل في شمس ولا قمر ولا أثر قضاء حاجة

اس  کی سند میں   عبدالرحمن بن قیس زعفرانی ہے جو احادیث گھڑتا تھا

المواھب میں ایک اور قول بھی ہے

رواه البيهقى، ولم يقع له ظل على الأرض، ولا رؤى له ظل فى شمس ولا قمر. ويشهد له أنه- صلى الله عليه وسلم- لما سأل الله تعالى أن يجعل فى جميع أعضائه وجهاته نورا، ختم بقوله: «واجعلنى نورا»

البیہقی نے روایت کیا ہے کہ ان کا سایہ زمین پر نہیں اتا نہ ان کا سایہ سورج میں دیکھا گیا نہ چاند میں اور اس کی شہادت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب الله سے دعا کرتے تو وہ مانگتے کہ ان کے تمام  جسم میں نور ہو جائے اور کہتے اور مجھ میں نور کر دے

یہ دعا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے تمام امت کو سکھائی اور اس کو رات کی نماز میں پڑھا جاتا  ہے  آج تک یہ دعا کسی بھی مومن کی قبول نہیں ہوئی؟  ظاہر ہے یہ بلا دلیل ہے اور نور قلبی ایمان ہے

افسوس عقل سلیم سے عاری علماء اس قول کو بیان کر گئے ورنہ کیا رات میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سفر نہ کیا  کسی صحابی نے اس قسم کا محیر العقول معجزہ نقل نہ کیا

مخلوق میں سایہ ہونا خوبی ہے الله اس کو اپنی  الوہیت کی نشانی کہتا ہے اور سورج اس پر دلیل ہے

سوره الرعد میں ہے

لِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَظِلَالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ ١٥
اور (سات) آسمانوں اور زمین میں جو  ہیں مرضی اور بغیر مرضی سے اللہ تعالیٰ کے آگے سجدہ کرتی ہیں اور ان کے سائے بھی صبح و شام سجدہ کرتے ہیں۔

سوره النحل میں ہے

أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَى مَا خَلَقَ اللَّهُ مِنْ شَيْءٍ يَتَفَيَّأُ ظِلَالُهُ عَنِ الْيَمِينِ وَالشَّمَائِلِ سُجَّدًا لِلَّهِ وَهُمْ دَاخِرُونَ٤٨
کیا انہوں نے جو  اللہ نے خلق کیا ان  میں کسی کو نہیں دیکھا کہ ان کے سائے دائیں اور بائیں گرتے ہیں الله کے لئے سجدے میں اور وہ کم ترکیے گئے ہیں

الله سایہ ہونے کو مخلوق کی شان کہتا ہے لیکن ان غلو پسندوں نے دعوی کیا ہے کہ یہ رسول الله میں نہیں تھا جو ان کا کھلا کذب و افتراء ہے جس کو کوئی دلیل نہیں اور مخلوق کو خالق سے ملانے کی کوشش ہے

کہا جاتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا سایہ اس لئے نہیں بننے دیا گیا کہ کہیں کسی بے ادب کا پیر سایہ مبارک پر نہ پڑھ جائے

اس قول کو  نسفی نے  تفسیر مدارک ج ٢ ص ٤٩٢ میں سوره النور کی تفسیر میں نقل کیا ہے

 وقال عثمان إن الله ما أوقع ظلم على الأرض لئلا يضع إنسان قدمه على ذلك الظل فلما لم يمكن أحداً من وضع القدم على ظلك

 عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا کہ الله عزوجل نے آپ کا سایہ زمین پر پڑنے نہیں دیا تاکہ اس پر کسی انسان کا قدم نہ پڑ جائے۔

لیکن خود رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر مشرکین مکہ نے اوجڑی ڈالی ان  کے دانت پر سر پر ضرب لگائی جسد مبارک  ان کی دی گئی تکلیف کو بشری شان سے برداشت کرتا رہا

نسفی کا  عثمان رضی الله عنہ سے منسوب قول بلا سند ہے

ایک اور دلیل بھی پیش کی جاتی ہے

عن الحسن بن علی رضی ﷲ تعالیٰ عنھما قال سألت خالی ھند بن ابی ھالۃ(ربیب النبی ﷺ) وکان وصافاً عن حلیۃ النبی ﷺ وانا اشتھی ان یصف لی منھا شیئاً اتعلق بہٖ فقال کان رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہٖ وسلم فخما مفخماً یتلا لؤ وجھہٗ تلا لؤ القمر لیلۃ البدر۔
(شمائل ترمذی، ص۲)
ترجمہ۔ سیدنا امام حسن بن علی کہتے ہیں  کہ میں نے اپنے ماموں (نبی ﷺ کے ربیب) ہند بنی ابی ہالہ سے جو نبی صلی الله علیہ وسلم کے بہترین وصاف تھے، نبی  حلیہ مبارکہ دریافت کیا، میرا دل چاہتا تھا کہ وہ حلیہ مقدسہ سے کچھ بیان کریں اور میں اس سے پوری طرح متعارف ہو جائوں، توانہوں نے فرمایا  عظیم اور معظم تھے، آپ کا چہرۂ انور ایسا چمکتا اور روشنی دیتا تھا جیسے چودہویں رات میں چاند چمکتا ہے

دلائل النبوہ ابو نعیم میں اس کی سند ہے

 حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ قَالَ: ثنا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ قَالَ: ثنا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ النَّهْدِيُّ وَثنا أَبُو بَكْرٍ الطَّلْحِيُّ قَالَ: ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُزَنِيُّ قَالَ: ثنا أَبُو غَسَّانَ مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ: ثنا جَمِيعُ بْنُ عُمَيْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعِجْلِيُّ قَالَ: حَدَّثَنِي رَجُلٌ بِمَكَّةَ عَنِ ابْنِ أَبِي هَالَةَ التَّمِيمِيِّ [ص:628] عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: سَأَلْتُ خَالِي هِنْدَ بْنَ أَبِي هَالَةَ التَّمِيمِيَّ وَكَانَ وَصَّافًا عَنْ حِلْيَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَأَنِّي أَشْتَهِي أَنْ يَصِفَ لِي مِنْهَا شَيْئًا أَتَعَلَّقُ بِهِ فَقَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخْمًا مُفَخَّمًا يَتَلَأْلَأُ وَجْهُهُ تَلَأْلُؤَ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ

اس میں ایک مجھول شخص حسن بن علی سے روایت کر رہا ہے لہذا ضعیف روایت ہے

[/EXPAND]

[قبروں سے فیض پر دیوبندیوں کی پیش کردہ روایات پر سوال ہے]

در محتار میں مطلب فِي زِيَارَة الْقُبُور کے باب میں ہے
رَوَى ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ: «أَنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – كَانَ يَأْتِي قُبُورَ الشُّهَدَاءِ بِأُحُدٍ عَلَى رَأْسِ كُلِّ حَوْلٍ
تاریخ ابن شبہ میں اس کی سند ہے
قال أَبُو غَسَّانَ : حَدَّثَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عِمْرَانَ ، عَنْ مُوسَى بْنِ يَعْقُوبَ الزَّمْعِيِّ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ ، ” أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْتِي قُبُورَ الشُّهَدَاءِ بِأُحُدٍ عَلَى رَأْسِ كُلِّ حَوْلٍ ، فيقول : سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ سورة الرعد آية 24 ، قال : وَجَاءَهَا أَبُو بَكْرٍ ، ثُمَّ عُمَرُ ، ثُمَّ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ ، فَلَمَّا قَدِمَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ ، حَاجًّا ، جَاءَهُمْ قال : وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا وَاجَهَ الشِّعْبَ ، قال : ” سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ ”
روایت مصنف ابن ابی شیبہ میں نہیں ملی
اس کی سند میں عباد بن ابی صالح ہے
الذھبی میزان میں کہتے ہیں
قال علي بن المديني: ليس بشئ. کوئی چیز نہیں
وقال ابن حبان: لا يجوز الاحتجاج به إذا انفرد اس کی منفرد روایت سے احتجاج نہ کیا جائے
صحیح مسلم کے مطابق صرف سال وفات میں اپ آخری ایام میں احد کے شہداء کی قبور پر گئے

————-

حضرت مالک دار رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ کے زمانے میں لوگ قحط میں مبتلا ہوگئے۔ ایک صحابی نبی کریمﷺ کی قبر اطہر پر آئے اور عرض کیا۔ یارسولﷺ آپ اپنی امت کے لئے بارش مانگئے کیونکہ وہ ہلاک ہوگئی۔(مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الفضائل، حدیث نمبر 32002، مکتبہ الرشد، ریاض، سعودی عرب)

حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ مَالِكِ الدَّارِ، قَالَ: وَكَانَ خَازِنَ عُمَرَ عَلَى الطَّعَامِ، قَالَ: أَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِي زَمَنِ عُمَرَ، فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اسْتَسْقِ لِأُمَّتِكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَكُوا، فَأَتَى الرَّجُلَ فِي الْمَنَامِ فَقِيلَ لَهُ: ” ائْتِ عُمَرَ فَأَقْرِئْهُ السَّلَامَ، وَأَخْبِرْهُ أَنَّكُمْ مُسْتَقِيمُونَ وَقُلْ لَهُ: عَلَيْكَ الْكَيْسُ، عَلَيْكَ الْكَيْسُ “، فَأَتَى عُمَرَ فَأَخْبَرَهُ فَبَكَى عُمَرُ ثُمَّ قَالَ: يَا رَبِّ لَا آلُو إِلَّا مَا عَجَزْتُ عَنْهُ
الْأَعْمَشِ مدلس عن سے روایت کر رہا ہے ضعیف ہے
ابن حجر حسب روایت اپنی ناقص تحقیق فتح الباری میں پیش کرتے ہیں کہتے ہیں

وروى بن أَبِي شَيْبَةَ بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ مِنْ رِوَايَةِ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ عَنْ مَالِكٍ الدَّارِيِّ وَكَانَ خَازِنُ عُمَرَ قَالَ أَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِي زَمَنِ عُمَرَ فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى قَبْرِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ اسْتَسْقِ لِأُمَّتِكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَكُوا فَأَتَى الرَّجُلَ فِي الْمَنَامِ فَقِيلَ
لَهُ ائْتِ عُمَرَ الْحَدِيثَ وَقَدْ رَوَى سَيْفٌ فِي الْفُتُوحِ أَنَّ الَّذِي رَأَى الْمَنَامَ الْمَذْكُورَ هُوَ بِلَالُ بْنُ الْحَارِثِ الْمُزَنِيُّ أَحَدُ الصَّحَابَةِ وَظَهَرَ بِهَذَا كُلِّهِ مُنَاسَبَةُ التَّرْجَمَةِ لِأَصْلِ هَذِهِ الْقِصَّةِ أَيْضًا وَاللَّهُ الْمُوَفِّقُ
یہ روایت صحیح ہے

مسند الفاروق میں ابن کثیر اس کو پیش کر کے کہتے ہیں
هذا إسناد جيد قوي
اس کی سند اچھی بہت قوی ہے
مالك الدَّار ایک مجہول شخص ہے افسوس ابن حجر اور ابن کثیر نے وسیلہ کی بد عقیدتی پھیلا دی ہے

البيهقي نے اس کو دلائل النبوة 7 / 47 میں باب ما جاؤ في رؤية النبي صلى الله عليه وسلم في المنام ذکر کیا ہے رسول اللہ کو خواب میں دیکھا جا سکتا ہے

کتاب المجالسة وجواهر العلم از أبو بكر أحمد بن مروان الدينوري المالكي (المتوفى : 333هـ) کے مطابق
قَالَ أَبُو بَكْرٍ الْمَالِكِيُّ: مَالِكُ الدَّارِ هَذَا هُوَ مَالِكُ بْنُ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ، وَسُمِّيَ مَالِكُ الدَّارِ، لِأَنَّ عُمَرَ وَلَّاهُ دَارَ الصَّدَقَةِ
امام بخاری کہتے ہیں
مَالِكُ بنُ أَوْسٍ، قَالَ بَعْضُهُم: لَهُ صُحْبَةٌ، وَلاَ يَصِحُّ
یہ صحابی نہیں ہے

طبقات ابن سعد کے مطابق مالک الدار اصل میں مالك بن عياض الدار مولى عمر ہیں
ابن أبي حاتم نے الجرح میں اور امام بخاری نے تاریخ الکبیر اس پر سکوت کیا ہے جو مجھول راویوں کے ساتھ کا معاملہ ہے
المنذري (المتوفى: 656هـ) کتاب الترغيب والترهيب من الحديث الشريف میں مالک الدار اور عمر رضی الله عنہ کی ایک دوسری روایت پر لکھتے ہیں
وَمَالك الدَّار لَا أعرفهُ
اور مالک الدار کو نہیں جانتا

الهيثمي في ((مجمع الزوائد)) (3/ 127): مالك الدار لم أعرفه
ہیثمی بھی یہی کہتے ہیں

نخب الأفكار في تنقيح مباني الأخبار في شرح معاني الآثار از الحنفى بدر الدين العينى (المتوفى: 855هـ) کے مطابق
ابن المديني مالک الدار کو مجهول کہتے ہیں

یعنی احناف متقدمین میں یہ مالک الدار مجھول ہے
————
حضرت دائود بن صالح سے مروی ہے کہ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز مروان آیا اور اس نے دیکھا کہ ایک آدمی حضور نبی کریمﷺ کی مزارِ انور پر اپنا منہ رکھے ہوئے تو اس (مروان) نے کہا: کیا تو جانتا ہے کہ توکیا کررہا ہے؟ جب مروان اس کی طرف بڑھا تودیکھا وہ صحابی رسولﷺ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ تھے۔ اور انہوں نے جواب دیا۔ ہاں میں جانتا ہوں۔ میں رسول اﷲﷺ کے پاس آیا ہوں ’’لم ات الحجر‘‘ میں کسی پتھر کے پاس نہیں آیا۔ (مسند امام احمد بن حنبل،حدیث نمبر 23646، مطبوعہ دارالفکر ، بیروت )

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، قَالَ: أَقْبَلَ مَرْوَانُ يَوْمًا فَوَجَدَ رَجُلًا وَاضِعًا وَجْهَهُ عَلَى الْقَبْرِ، فَقَالَ: أَتَدْرِي مَا تَصْنَعُ؟ فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ فَإِذَا هُوَ أَبُو أَيُّوبَ، فَقَالَ: نَعَمْ، جِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ آتِ الْحَجَرَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَا تَبْكُوا عَلَى الدِّينِ إِذَا وَلِيَهُ أَهْلُهُ، وَلَكِنْ ابْكُوا عَلَيْهِ إِذَا وَلِيَهُ غَيْرُ أَهْلِهِ»

اسکی سند میں داود بن صالح ہے کتاب إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي بن قليج الحنفي (المتوفى: 762هـ) کے مطابق
ذكره العقيلي وابن الجاورد في «جملة الضعفاء».
وخرج الحاكم حديثه في «المستدرك».
وقال ابن حبان: يروي الموضوعات عن الثقات حتى كأنه متعمد لها.
یہ ضعیف راویوں میں سے ہے

مغلطاي حنفی ہیں یہاں بھی متقدمین احناف اس روایت کو ضعیف سمجھتے ہیں
———-

تاریخ بغداد کی امام شافعی کی روایت ہے
أَخْبَرَنَا الْقَاضِي أَبُو عَبْد اللَّهِ الْحُسَيْنُ بْن عَلِيّ بْن مُحَمَّد الصيمري قال أنبأنا عمر بن إبراهيم قال نبأنا عَلِيّ بْن ميمون قَالَ: سمعت الشافعي يقول: إني لأتبرك بأبي حنيفة وأجيء إِلَى قبره في كل يوم- يَعْنِي زائرا- فإذا عرضت لي حاجة صليت ركعتين وجئت إِلَى قبره وسألت الله تعالى الحاجة عنده، فما تبعد عني حتى تقضى
کہ میں امام ابو حنیفہ کی قبر پر جاتا تھا

سند میں عُمَر بْن إسحاق بْن إِبْرَاهِيمَ مجھول ہے
علی بن میمون الرقی ایک صاحب ہیں لیکن امام الشافعی کے اصحاب میں سے نہیں ہیں
————
محدث ابن خزیمہ کا امام موسی کی قبر کی زیارت کا حوالہ نہیں ملا اغلبا یہ غلطی ہے یہ بات امام ابن حبان کی ہے وہ قبر امام پر جاتے تھے
⇓ محدث ابن حبان قبروں سے فیض لینے کے قائل تھے ؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/عقائد/عرض-اعمال/

محدثین میں قبروں سے فیض حاصل کرنے کی بدعت تیسری اورچوتھی صدی میں شروع ہوئی

قبروں کے پاس جا کر دعائیں کرنے سے ان کی قبولیت پر شریعت میں کوئی رتی دلیل نہیں بلکہ اس پر دلائل تار عنکبوت ہیں

[/EXPAND]

[تفسیر طبری کے مطابق خضر علم الغیب رکھتے تھے]

ابن عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ خضر ایک ایسے شخص تھے جس کو علم غیب پتا تھا

 وكان رجلا يعلم علم الغيب

جواب

سند ہے

حدثنا ابن حميد، قال: ثنا سلمة، قال: ثنا ابن إسحاق، عن الحسن بن عمارة، عن الحكم بن عتيبة، عن سعيد بن جبير، قال: جلست فأسْنَدَ ابن عباس

اس روایت کی سند میں الحسن بن عمارة  بن المضرب البجلي مولاهم، أبو محمد الكوفي الفقيه، قاضي بغداد المتوفی ١٥٣ ھ ہے

شعبہ کہتے ہیں کذاب ہے اور محدثین کی ایک جماعت کے نزدیک متروک ہے

میزان الاعتدال في نقد الرجال از الذہبی  کے مطابق

 روى الحسن بن عمارة أحاديث عن الحكم، فسألنا [الحكم]  عنها، فقال: ما سمعت منها شيئا.

حسن بن عمارہ نے الحکم سے روایت  کیا پھر ہم نے ان روایات کے بارے میں الحکم سے پوچھا تو انہوں نے کہا اس نے مجھ سے کچھ نہ سنا

اور کہا وقال أحمد بن سعيد الدارمي: حدثنا النضر بن شميل، حدثنا شعبة، قال: أفادني الحسن بن عمارة عن الحكم سبعين حديثاً، فلم يكن لها أصل

حسن بن عمارہ نے الحکم بن عتيبة سے ستر احادیث روایت کیں جن کا کوئی اصل نہیں ہے

حیرت ہے کہ ابن کثیر نے بھی اس روایت کو تفسیر میں بلا جرح نقل کیا ہے اور السيوطي نے الدر المنثور  میں اس روایت کو بیان کیا ہے

[/EXPAND]

[امہات المومنین پیش ہوتی ہیں یہ عقیدہ کیسے بنا]

جواب

یہ عقیدہ اس طرح بنا کہ ابن فورک المتوفی ٤٠٦ ھ جو امام بیہقی کے استاد تھے ایک متکلم تھے ان کی بحث ہوئی کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نبی ہیں یا نبی تھے اس کلامی بحث کا انجام اس پر ہوا کہ یہ عقیدہ بنایا گیا کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ رسول الله کی وفات ہوئی تو یہ گویا ان کی نبوت کا انکار ہو جائے گا کہ رسول الله نبی نہیں رہے گویا موت ان متکمین کے نزدیک تمام خوبیوں کی ختم کرنے والی ہے لہذا انہوں نے یہ عقیدہ اختیار کیا کہ رسول الله قبر میں مسلسل زندہ ہی ہیں وہ زندہ ہیں اس لئے رسول بھی رہیں گے لہذا ان کی نبوت قیامت تک ہے

دوسرا عقیدہ یہ بنا کہ قرآن میں ہے کہ ازواج النبی رسول الله کی بیویاں ہیں جن کے بعد وہ اور نکاح نہیں کر سکتے لہذا یہ ازواج بھی حیات سے متصف ہیں اور مسلسل زندہ ہیں
اب چونکہ دونوں زندہ ہیں اور نبی اور ان کی ازواج کا نکاح بھی ہے تو وہ قبر میں ملاقات بھی کرتے ہیں

یہ اس بحث کا ایک کلامی نتیجہ تھا جس کو لوگوں نے قبول کر لیا اور اہل طریقت اور شریعت کا حیات النبی فی القبر پر عقیدہ بن گیا

برصغیر میں اس عقیدہ کو احمد رضا خان صاحب نے پیش کیا
انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی حیات حقیقی،حسی،دنیاوی ہے ۔ان پر تصدیق وعدہ الٰہیہ کے لئے محض ایک آن کو موت طاری ہوتی ہے، پھر فورا اُن کو ویسے ہی حیات عطا فرما دی جاتی ہے۔ اس حیات پر وہی احکام دنیویہ ہیں۔ان کا ترکہ نہیں بانٹا جائے گا ،ان کی ازواج کو نکاح حرام نیز ازواج مطہرات پر عدت نہیں ہے وہ اپنی قبور میں کھاتے پیتے اور نماز پڑھتے ہیں،بلکہ سیدی محمد عبدالباقی زرقانی یہ فرماتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کی قبور مطہرہ میں ازواج مطہرات پیش کی جاتی ہیں ، وہ اُن سے شب باشی کرتے ہیں ” (ملفوظات حصہ سوم صفہ 362)۔(
———–

راقم کہتا ہے بعض زاویے شروع سے ہی غلط ہوتے ہیں ان کی بنیاد پر سوچ کے پیمانے بھی غلط ہوتے ہیں اور اگر بنیاد ٹیڑھی ہو تو عمارت بھی سیدھی نہیں رہتی نبوت کو موت سے ختم نہیں کیا جا سکتا یہ سمجھنا کہ ایک نبی کا منصب نبوت موت پر ختم ہوا غلط ہے اصلا انبیاء کی جو ڈیوٹی تھی وہ قومی تھی سوائے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے کہ ان کی نبوت و رسالت آخری اور تمام انسانیت کے لئے تھی مثلا جب عالم بالا میں برزخ میں رسول الله کی ملاقات فوت شدہ انبیاء سے معراج پر ہوتی ہے تو اپ صلی الله علیہ وسلم ان کو نبی ہی کہتے ہیں یہ کلامی بحث جنت میں معراج پر نہیں چھڑی کہ یہ انبیاء جو فوت ہوئے اب یہ نبی کیسے ہیں
لہذا متکلمین کا نبوت کو موت سے منسلک کرنا ہی سرے سے غلط تھا

[/EXPAND]

[رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو شارع مجاز کہا جا سکتا ہے ؟ کہا جاتا ہے ]

آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے شارعِ مُجاز بناکر پاک چیزوں کو حلال اور ناپاک چیزوں کو حرام قرار دینے کا اختیاربھی عطا فرمایا ہے ،چنانچہ آپ ﷺ کا فرمان ہے: ”سنو!مجھے کتاب عطافرمائی گئی ہے اور اُس کی مثل (یعنی میری سنت)بھی اُس کے ساتھ ہے،سنو!قریب ہے کہ ایک شخص پیٹ بھرا ہوا اپنی مَسند پر ٹیک لگائے ہوگا (اور)کہے گا:اس کتاب (قرآن)کو لازم پکڑو،پس جو کچھ تم اس میں حلال پائو ،اُسے حلال جانو اور جو کچھ تم اِس میں حرام پائو، اُسے حرام جانو،سنو!میںتمہارے لیے پالتو گدھے اور کُچلیوں سے شکار کرنے والے درندوں کو حرام قرار دیتا ہوں ،(ابودائود:4604)‘‘۔اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے بتایا کہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں ،جن کی حرمت کا ذکر قرآنِ مجید میں نہیں ہے ، مگر میں انہیں حرام قرار دیتا ہوں اور یہ اختیار قرآن کی رُو سے اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرمایا ہے –

جواب

یہ روایت صحیح ہے

پالتو گدھوں کا گوشت جنگ خیبر پر ممنوع قرار دیا گیا اور روایات کے مطابق اس روز کھانے میں صرف ان کی ممانعت کا حکم ہوا لہذا ظاہر ہے کہ یہ قول نبوی جو اپ نے پیش کیا اس کے بعد کا ہے
فتح خیبر سن ٦ یا ٧ ہجری میں ہوئی اس سے قبل سن ٢ ہجری کی سوره بقرہ میں حکم آ چکا تھا کہ طیب چیزیں کھاؤ مسلمانوں کا خیبر میں گدھوں کو پکانا ظاہر کرتا ہے کہ چونکہ جنگی حالت تھی ان کو اشتباہ تھا کہ یہ حرام نہیں جبکہ یہ حرام تھے لہذا ان کو ذبح کر کے پکا بھی لیا یہاں تک کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو خبر ہوئی اور اپ نے اس سے منع کیا یہاں تک کہ برتن بھی تڑوا دیے گئے

جانوروں کی حرمت توریت میں بھی ہے جس کے مطابق گدھے حرام ہیں اور وہ جانور جو کچلیوں سے شکار کرتے ہیں حرام ہیں لہذا یہ حرمت حدیث سے نہیں ہے یہ تو قرآن سے بھی پہلے رسول الله سے بھی پہلے توریت سے چلی آ رہی ہے تمام انبیاء کا دین اسلام ہے جس میں ان چیزوں کی حرمت پہلے سے ہے

توریت میں حکم ہے
you shall not eat this out of those that regurgitate the cud and out of those that have a (undivided) hoof
تم پر حرام ہے کہ کھاؤ ان جانوروں کو جو جگالی کرتے ہیں اور ان میں سے جن کا کھر جڑا ہے

گدھے کا کھر بیچ سے ٹوٹا نہیں ہے لہذا توریت کے مطابق حرام ہے

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس کا واپس اعادہ کیا ہے ظاہر ہے اس دور میں توریت عبرانی میں تھی اور احبار اس کو چھپا کر رکھتے تھے لہذا مسلمان اس توریت کے کھانے کے احکام سے لا علم تھے لیکن رسول الله کو من جانب الله علم تھا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کو براہ راست وہی علم دیا گیا جو توریت میں پہلے بیان ہو چکا تھا

لہذا یہ کہنا کہ رسول الله کو شارع مجاز کیا گیا الفاظ صحیح نہیں ہیں شریعت ساز تو الله ہی ہے اسی کا حکم چلتا ہے اور جو رسول الله حکم کرتے ہیں وہ بھی الوحی کے تحت ہوتے ہیں

ان جانوروں کی حرمت کا حکم کتاب الله قرآن اور توریت دونوں میں ہے یعنی یہ طیب نہیں لیکن چونکہ یہ قرآن کا استخراجی حکم بنتا ہے لہذا رسول الله نے فرمایا کہ لوگ سمجھیں گے کہ یہ کتاب الله سے نہیں لیا گیا لیکن جیسا ہم نے وضاحت کی یہ احکام کتاب الله یعنی توریت سے لیا گیا اور اپ صلی الله علیہ وسلم نے اسی حکم کا اعادہ کیا

[/EXPAND]

[کچھ لوگ یہ عیقدہ رکھتے ہیں کہ حضور صلی الله وسلم کو چیزوں کو حرام اور حلال کرنے کا اختیار تھا ]

جواب

راقم کے نزدیک اس کی دلیل نہیں ہے رسول الله الوحی کے تابع عمل و حکم کرتے ہیں جو من جانب الله ہے لہذا بہت سے احکام حدیث میں ہیں ان کی بنیاد پر رسول الله کو شارع نہیں کہا جاتا کیونکہ شریعت الله کی ہے
—————-
سوره الاعراف میں ہے
الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ۚ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (157
جو اس رسول النبی الامی کی اتباع کرتے ہیں جس کا ذکر یہ توریت و انجیل میں پاتے ہیں جو ان کو معروف کا حکم کرتا ہے اور منکر سے روکتا ہے اور طیبات کو حلال کرتا ہے اور خبیت کو حرام کرتا ہے اور بوجھ اور زنجیروں کو اتارنے والا ہے پس جو اس پر رسول پر ایمان لائے اور اس کی مدد کی اور نصرت کی اور اس نور کی اتباع کی جو اس کے ساتھ ہے تو یہ مفلح ہیں
——————–
اس پر کہا جاتا ہے رسول الله کو یہ حثیت حاصل تھی کہ طیب کو حلال کریں کہا جاتا ہے کہ اگر چیز طیب ہو تو اس کو حلال کیوں گیا گیا وہ تو سب کو پتا تھی اسی طرح خبیث بھی سب کو پتا ہو گی تو اس کو رسول الله کے کہنے پر حرام کیا گیا ؟ یہ انداز بریلوی فرقہ کا ہے
https://www.facebook.com/video.php?v=641054195967611&permPage=1
اس کا جواب ہے کہ یہ آیات اہل کتاب کے بارے میں ہے جو کہتے تھے کہ اونٹ حرام ہے جو یہ نبی کھاتا ہے اور توریت میں اونٹ ایک حرام جانور ہے یہ وہ زنجیر تھی جو اہل کتاب نے اپنے اوپر ڈالی ہوئی تھی اونٹ کا گوشت طیب تھا اس کو حلال الله نے کیا لیکن چونکہ رسول الله کی نبوت و رسالت میں یہود و نصاری کو شک ہے اس کو ایک نشانی کے طور پر پیش کیا گیا کہ یہ نبی جو طیب ہے اسی کو حلال کر رہا ہے کیونکہ اونٹ کا گوشت تو یعقوب نے بھی کھایا ہے اسی طرح حرام جن چیزوں کو کیا ان میں سور ہے جس کو نصرانی کھا رہے تھے جو تھا ہی اصلا خبیث

[/EXPAND]

[نبی صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش پر نور نکلا جس سے عراق و شام روشن ہو گئے؟]

تحقیق درکار ہے

خالد بن معدان رحمہ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمیں آپ اپنے بارے میں بتلائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میں اپنے والد ابراہیم کی دعا اور عیسی کی دی ہوئی خوشخبری ہوں، میری والدہ جب امید سے ہوئیں تو [انہیں ایسا محسوس ہوا کہ] گویا ان کے جسم سے روشنی نکلی ہے جس کی وجہ سے سرزمین شام میں بصری کے محل روشن ہو گئے )
خالد بن معدان رحمہ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمیں آپ اپنے بارے میں بتلائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میں اپنے والد ابراہیم کی دعا اور عیسی کی دی ہوئی خوشخبری ہوں، میری والدہ جب امید سے ہوئیں تو [انہیں ایسا محسوس ہوا کہ] گویا ان کے جسم سے روشنی نکلی ہے جس کی وجہ سے سرزمین شام میں بصری کے محل روشن ہو گئے )

اس روایت کو ابن اسحاق نے اپنی سند سے بیان کیا ہے: (سیرت ابن ہشام: 1/66) اور انہی کی سند سے امام طبری نے اسے اپنی تفسیر طبری : (1/566) میں اور امام حاکم نے اپنی کتاب مستدرک : (2/600) میں روایت کیا ہے، اور ساتھ امام حاکم یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح سند والی ہے، لیکن بخاری اور مسلم نے اسے روایت نہیں کیا، ان کے اس تبصرے پر امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔

مزید کیلیے دیکھیں: سلسلہ صحیحہ: (1545)(سیرت ابن ہشام: 1/66) اور انہی کی سند سے امام طبری نے اسے اپنی تفسیر طبری : (1/566) میں اور امام حاکم نے اپنی کتاب مستدرک : (2/600) میں روایت کیا ہے، اور ساتھ امام حاکم یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح سند والی ہے، لیکن بخاری اور مسلم نے اسے روایت نہیں کیا، ان کے اس تبصرے پر امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔

مزید کیلیے دیکھیں: سلسلہ صحیحہ:

(1545)

جواب

ابن اسحاق امام مالک کے ہم عصر ہیں اور واقدی امام احمد کے دونوں میں 60 سال کا فرق ہے اس دور میں غلو مسلمانوں میں شروع ہو چکا تھا ان کو کسی طرح یہ ثابت کرنا تھا کہ ان کے نبی سب سے افضل ہیں
اس میں راقم کو کوئی شک نہیں ہے لیکن ان مسلمانوں نے جو طریقه اختیار کیا وہ صحیح نہیں تھا مثلا اہل کتاب نے جو جھوٹی باتیں مشھور کر رکھی تھیں ان کی ان مسلموں نے ایسی تاویل کی کہ یہ باتیں اسلام کے حق میں ہو جائیں یہ روایات پرو پیگنڈا کا ایک نہایت منفی انداز تھا مثلا اہل کتاب میں مشھور تھا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے دوران سفر کسی نسطوری نصرانی سے علم لیا جس کے بعد نبوت کا دعوی کیا یہ کتب آج چھپ چکی ہیں ابن اسحاق نے اس کا جواب دینا ضروری سمجھا اور وہ بھی اس طرح کہ نسطوری راہب بحیرہ سے نبی صلی الله علیہ وسلم کی بچپن میں ملاقات کا واقعہ بیان کیا جو کذب تھا
نصرانی راہب کو نسطوری اس لیے بیان کیا جاتا ہے کیونکہ وہ کتھلویک یا آرتھوڈوکس چرچ کا نہیں تھا ان دونوں کا مخالف تھا

اسی طرح انجیل یوحنا کے مطابق عیسیٰ ایک نور تھا جو مجسم ہوا باب اول آیات ایک تا ١٤ میں یہ عقیدہ بیان ہوا ہے مسلمان اس ڈور میں پیچھے کیوں رہتے انہوں نے بھی بیان کیا کہ رسول الله جب پیدا ہوئے تو نور نکلا جس سے شام اور بصرہ عراق روشن ہو گئے کیونکہ بصرہ اور شام میں اس وقت قیصر نصرانی کی حکومت تھی گویا ہمارا نبی دنیا میں آیا تو اس کا نور عیسیٰ سے بڑھ کر تھا

اس طرح کی بہت سی اور روایات ہیں جو صرف نصرانیوں سے مقابلے پر بنانی گئی ہیں

شام کے محلات روشن ہوئے پر روایات مسند احمد میں ہیں جن  کو  بہت ذوق و شوق سے تمام فرقوں کے لوگ بیان کرتے ہیں یہاں تک کہ عصر حاضر کے علماء میں البانی ( صحيح لغيره – “الصحيحة” (1546 و 1925)) اور شعيب الأرنؤوط – عادل مرشد بھی مسند احمد پر تعلیق میں اس کو صحیح لغیرہ کہتے ہیں

مسند احمد کی سند ہے

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ السُّلَمِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” إِنِّي عِنْدَ اللهِ فِي أُمِّ الْكِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّينَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِينَتِهِ، وَسَأُنَبِّئُكُمْ  بِتَأْوِيلِ ذَلِكَ، دَعْوَةِ أَبِي إِبْرَاهِيمَ وَبِشَارَةِ عِيسَى قَوْمَهُ، وَرُؤْيَا أُمِّي الَّتِي رَأَتْ أَنَّهُ خَرَجَ مِنْهَا نُورٌ أَضَاءَتْ لَهُ قُصُورُ الشَّامِ، وَكَذَلِكَ تَرَى أُمَّهَاتُ النَّبِيِّينَ صَلَوَاتُ اللهِ عَلَيْهِمْ

سند میں  سعيد بن سويد شام حمص کا ہے  میزان الاعتدال از الذھبی کے مطابق

امام  البخاري: لا يتابع في حديثه.

امام بخاری کہتے ہیں اس کی حدیث کی متا بعت نہیں کی جاتی

البزار المتوفی ٢٩٢ ھ بھی اس کو مسند میں بیان کرتے ہیں کہتے ہیں

وَهَذَا الْحَدِيثُ لا نَعْلَمُهُ يُرْوَى عَن رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم بِإِسْنَادٍ مُتَّصِلٍ عَنْهُ بِأَحْسَنَ مِنْ هَذَا الإِسْنَادِ وَسَعِيدُ بْنُ سُوَيْدٍ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ

یہ حدیث ہم نہیں جانتے  کہ اس کو اس سے اچھی متصل اسناد سے رسول اللہ سے کسی نے روایت کیا ہو سوائے اس سند کے اور سعید بن سوید شام کا ایک آدمی ہے جس میں برائی نہیں ہے

یعنی امام بخاری اور البزار کا اس راوی پر اختلاف تھا ایک اس میں کوئی برائی نہیں جانتا تھا اور دوسرا اس کی روایات کو منفرد کہتا تھا

صحیح ابن حبان میں ابن حبان نے اسی سند سے  اس روایت کو علامت نبوت میں شمار کیا ہے اور اسی سند کو تلخیص مستدرک میں امام الذھبی نے صحیح کہا ہے

راقم کہتا ہے روایت  چاہے  سعید بن سوید کی سند سے ہو یا کسی اور کی سند سے اس میں شامیوں کا تفرد ہے اور ان شامیوں کو اپنے پروسٹیوں اہل کتاب پر ثابت کرنا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کا نور عیسیٰ علیہ السلام سے بڑھ کر ہےاور یہ شامیوں کا غلو ہے

[/EXPAND]

[کیا حجرہ عائشہ رضی الله عنہا کو مزار کہا جا سکتا  ؟ یہ صحیح بخاری میں ہے ]

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ ،‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ التَّمَّارِ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ حَدَّثَهُ، ‏‏‏‏‏‏”أَنَّهُ رَأَى قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسَنَّمًا”. حَدَّثَنَا فَرْوَةُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَلِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ “لَمَّا سَقَطَ عَلَيْهِمُ الْحَائِطُ فِي زَمَانِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ أَخَذُوا فِي بِنَائِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَبَدَتْ لَهُمْ قَدَمٌ فَفَزِعُوا،‏‏‏‏ وَظَنُّوا أَنَّهَا قَدَمُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَمَا وَجَدُوا أَحَدًا يَعْلَمُ ذَلِكَ،‏‏‏‏ حَتَّى قَالَ لَهُمْ عُرْوَةُ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهِ مَا هِيَ قَدَمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏مَا هِيَ إِلَّا قَدَمُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ”.

ہم سے محمد نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ نے خبر دی ‘ کہا کہ ہمیں ابوبکر بن عیاش نے خبر دی اور ان سے سفیان تمار نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک دیکھی ہے جو کوہان نما ہے۔ ہم سے فروہ بن ابی المغراء نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے علی بن مسہر نے بیان کیا ‘ ان سے ہشام بن عروہ نے ‘ ان سے ان کے والد نے کہ ولید بن عبدالملک بن مروان کے عہد حکومت میں (جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارک کی) دیوار گری اور لوگ اسے (زیادہ اونچی) اٹھانے لگے تو وہاں ایک قدم ظاہر ہوا۔ لوگ یہ سمجھ کر گھبرا گئے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم مبارک ہے۔ کوئی شخص ایسا نہیں تھا جو قدم کو پہچان سکتا۔ آخر عروہ بن زبیر نے بتایا کہ نہیں اللہ گواہ ہے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم نہیں ہے بلکہ یہ تو عمر رضی اللہ عنہ کا قدم ہے۔

جواب

ابنِ منظور افریقی المتوفی ٧١١ ھ کتاب  لسان العرب میں  لکھتے ہیں

وَالمَزَارُ موضع الزيارة.

مزار سے مراد زیارت کرنے کا مقام ہے۔

ابن منظور إفريقي، لسان العرب، 4 : 333

کتاب  المصباح المنير في غريب الشرح الكبير  المؤلف: أحمد بن محمد بن علي الفيومي ثم الحموي، أبو العباس (المتوفى: نحو 770هـ) کے مطابق

 وَالْمَزَارُ يَكُونُ مَصْدَرًا وَمَوْضِعُ الزِّيَارَةِ وَالزِّيَارَةُ فِي الْعُرْفِ قَصْدُ الْمَزُورِ إكْرَامًا لَهُ وَاسْتِئْنَاسًا بِهِ.

مزار مصدر ہے اور زیارت کا مقام ہے اور اس سے مراد زیارت کرنے والے کا قصد اکرام ہے

اسی سے زَائِر کا لفظ  ہے جس کا معنی ہے : زیارت کے لئے جانے والا شخص یا ملاقاتی۔

حجرہ عائشہ رضی الله عنہا کو دور اصحاب رسول میں مزار نہیں کہا گیا جبکہ یہ عربی کا لفظ ہے

مزار کا لفظ آٹھویں صدی سے پہلے عربی میں نہیں ملتا قرون ثلاثہ میں تو کہیں بھی یہ لفظ موجود نہیں

امیر المومنین الولید نے لہذا مزار کی تعمیر نہیں کی تھی بلکہ حجرہ عائشہ کی تعمیر نو کی تھی تاکہ اس کو مظبوط کیا جا سکے

قبر نبی مرجع الخلائق نہیں تھی  عائشہ رضی الله عنہا کے بعد ان کے بھانجے عبد الله بن زبیر رضی الله عنہ اور ان کے بعد خبیب بن عبد الله بن زبیر اس کے متولی تھے  خبیب کے قتل کے بعد الولید کے حکم پر عمر بن عبد العزیز نے اس حجرہ کی تعمیر کی تاکہ اس کو مخالفین کا گھڑ بننے سے بچایا جا سکے اور ال زبیر کو اس سے نکالا گیا

لہذا اس حجرہ میں نہ اس سے قبل نہ اس کے بعد کوئی داخل نہیں ہو سکتا تھا جس کو زیارت کہا جائے یہ تاریخ سے ثابت ہے

موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني میں ہے

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ «كَانَ إِذَا أَرَادَ سَفَرًا، أَوْ قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ جَاءَ قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى عَلَيْهِ، وَدَعَا ثُمَّ انْصَرَفَ» .
قَالَ مُحَمَّدٌ: هَكَذَا يَنْبَغِي أَنْ يَفْعَلَهُ إِذَا قَدِمَ الْمَدِينَةَ يَأْتِي قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

عبد الله بن دینار المتوفی ١٢٧ ھ نے کہا کہ ابن عمر جب سفر کا ارادہ کرتے اور سفر سے اتے تو قبر نبی صلی الله علیہ وسلم تک جاتے اور وہاں درود پڑھتے اور دعا کرتے پھر جاتے

امام محمد نے کہا : اس طرح  یہ ہونا چاہیے کہ  جب وہ مدینہ جاتے ہوں کہ قبر نبی صلی الله علیہ وسلم پر اتے ہوں

امام محمد نے ایسا کہا کیونکہ ابن عمر رضی الله عنہ مدینہ سے مکہ منتقل ہو گئے تھے

موطا کی اور اسناد  عن: معن والقعنبي، وابن بكير، وأبي مصعب. وقال ابن وهب میں ہے ثم يدعو لأبي بكر وعمر

پھر ابن عمر رضی الله عنہ ، ابو بکر اور عمر کے لئے دعا کرتے

یہ عمل تمام اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم کا نہیں تھا صرف ابن عمر رضی الله عنہ کا تھا

کیا یہ زیارت ملاقات ہے ؟  نہیں یہ تو دعا ہے جس کی ضرورت ابن عمر کے مطابق شیخین کو ہے

لہذا زیارت جو بریلوی فرقہ کے ذہن میں ہے وہ اس  روایت نہیں ہے جس میں اہل قبور سے فیض لیا جاتا ہے ان سے بپتائیں بیان کی جاتی ہیں الٹا یہاں تو ان کے لئے دعا کی جا رہی ہے جو شریعت میں معلوم ہے

[/EXPAND]

[ذوالقرنین کون تھے ؟ اصحاب کہف کی قبر پر مسجد بنی ؟]

جواب

سوال : ذو القرنین کون تھے ؟ نبی یا پیغمبر؟
جواب : قرآن میں ان کا بطور حاکم ذکر ہے جو الله کی جانب سے ہدایت پا رہے تھے ان کا دور ابراہیم علیہ السلام سے بھی پہلے کا ہے یہاں تک کہ تاریخ لکھنے سے بھی قبل کا ہے
انہوں نے دیوار بنائی اور الله نے ان کو خبر دی کہ یہ قیامت تک رہے گی لیکن حتمی طور پر ہم کو خبر نہیں کہ واقعی نبی تھے یا نہیں
مستدرک الحاکم کی روایت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
وَمَا أَدْرِي ذُو الْقَرْنَيْنِ نَبِيًّا كَانَ أَمْ لَا
میں نہیں جانتا کہ ذوالقرنین نبی تھے یا نہیں

——–
سوال: سوره کہف میں ہے کہ میری زندگی رہی تو اصحاب کہف کے غار پر مسجد بناو گا اس سے حوالہ لیا جاتا ہے کہ دربار بنانا یا قبر سے تبرک لینا جائز ہے
قرآن میں ذکر ہے تو کیوں نہیں بنا سکتے

جواب : قرآن میں سوره کہف میں ہے جب لوگوں نے اصحاب کہف کو دریافت کر لیا اور ان کے غار پر پہنچ کر یہ دیکھ لیا تو
فَقَالُوا ابْنُوا عَلَيْهِمْ بُنْيَانًا رَبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَى أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِمْ مَسْجِدًا (21)
انہوں نے کہا یہاں دیوار بنا کر (غار کا دھانہ پاٹ دو) ان کا رب ان کے بارے میں جانتا ہے- ان پر جو غلبہ رکھتے تھے انہوں نے کہا ہم اس مقام کو مسجد کے طور پر اختیار کریں گے

یہ قرآن میں ان کا اختلاف بیان ہوا کہ لوگ حکمران کا مذھب اختیار کر لیتے ہیں ورنہ رائے عامہ تھی کہ غار کو بند کر دیا جائے لیکن انہوں نے اس مقام کو مسجد بنا دیا یعنی چرچ – یہ روایت قدیم نصرانییوں میں چلی آئی ہے کہ چرچ اسی مقام پر بنایا جاتا ہے جہاں کوئی بزرگ دفن ہو – ہم کو معلوم ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اس چیز سے منع کیا
مزید تفصیل کے لئے کتاب دیکھیں

https://www.islamic-belief.net/wp-content/uploads/2013/11/مجمع-البحرین.pdf
صفحہ ٢٢ یا ٢٤ پر

مسجد مطلب جہاں سجدہ ہو لہذا حدیث میں چرچ کو بھی مسجد کہا گیا ہے-
نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
الله کی لعنت ہو یہود و نصاری پر جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا دیا

آج کل بھی روم میں سنت پیٹر برگ میں پوپ پیٹر کی قبر کو سجدہ کرتا ہے
https://www.youtube.com/watch?v=eAJi3q01TUM

پوپ کے آگے اصل میں پطرس کی قبر ہے

اصحاب کہف کا واقعہ ان لوگوں کے ساتھ ہوا جو دوبارہ زندہ ہونے پر شک کر رہے تھے- یہ مسلمان نہیں تھے –
پہلا بادشاہ یونانی و رومی مذھب کا تھا
Roman emperor Decius, around 250 AD
اور دوسرا نصرانی
Theodosius II
کہا جاتا ہے
اس وقت نصرانی تھے لیکن ان میں تثلیث کا عقیدہ بھی تھا اور الوہیت عیسیٰ کا بھی تھا اس میں ان کا اختلاف تھا کہ عیسیٰ کب الوہی ہوا
یہ بادشاہ نصرانی نسطور راھب سے متاثر تھا جو مریم کو والدہ اله کہتا تھا

نصرانی اصحاب کہف کو
the Seven Sleepers of Ephesus
کے نام سے جانتے ہیں

[/EXPAND]

[نور محمدی کو سب سے پہلے خلق کیا گیا؟]
جواب

متن ہے
“أول ما خلق الله نور نبيك يا جابر
اے جابر الله نے سب سے پہلے تمھارے نبی کا نور خلق کیا

سند دی جاتی
عبدالرزق عن معمر عن ابن المنکدر عن جابر

  یہ روایت مصنف عبد الرزق کی کہی جاتی ہے – ایک گروہ کا کہنا ہے کہ یہ اس کتاب میں میں نہیں تھی پھر کسی صوفی دور میں اس کو اس کے کسی نسخہ میں شامل کیا گیا

راقم کے نزدیک یہ امکان بعید ہے

دیگر روایات میں یہ بھی ہے
إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّهُ الْقَلَمَ
سب سے پہلے قلم بنا

ایک اور میں ہے
إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى الْعَقْلُ
سب سے پہلے عقل بنی

ایک میں ہے
أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْقَلَمُ وَالْحُوتُ ,
سب سے پہلے ایک قلم و مچھلی بنی

راقم اس قسم کی بے سروپا بحث نہیں کرنا چاہتا لیکن بریلوی ذہن کی سطح پر آ کر کچھ کلام کرتا ہے

نبی صلی الله علیہ وسلم کو نور کا ثابت کرنے کے لئے اس کو پیش کیا جاتا ہے لیکن صحیح مسلم میں ہے نور بدھ کو خلق ہوا اور فرشتے نور سے بنے
پھر نوری فرشتوں نے خاکی آدم کو سجدہ کیا اس طرح خاک کی اہمیت نور اور اگ (ابلیس کا عنصر) دونوں سے بلند ہو گئی

ابلیس کو صرف عناصر اربعہ کی خبر تھی ہوا – اگ پانی اور زمین اسی میں اس کا ذہن چلا اور بہک کیا – نور عنصر نہیں اگ کا مظہر ہے – اگ جلتی ہے تو نور نکلتا ہے لہذا اگ کو نور سے پہلے خلق کیا گیا ہو گا اور اگ سے ابلیس بنا

نبی کو نور کا کہنے کے بعد یہ لوگ الله تعالی کو نور کہتے ہیں جبکہ الله اپنی مخلوق کی طرح نہیں ہے –
نور الله کی مخلوق ہے کیونکہ یہ جعل یا خلق ہوا

——
یہ روایت اصلا اہل تشیع کی ہے
في البحار، عن رياض الجنان لفضل الله بن محمود الفارسي: عن جابر بن عبد الله قال: قلت لرسول الله (صلى الله عليه وآله): أول شئ خلق الله تعالى ما هو ؟ فقال: نور نبيك يا جابر، خلقه ثم خلق منه كل خير
جس میں سند کو بدل کر اس کو مصنف عبد الرزاق میں لکھا گیا ہے

———
أحمد بن محمد بن أبى بكر بن عبد الملك القسطلاني القتيبي المصري، أبو العباس، شهاب الدين (المتوفى: 923هـ) نے اس روایت کا ذکر کتاب المواهب اللدنية بالمنح المحمدية
میں کیا ہے
وروى عبد الرزاق بسنده عن جابر بن عبد الله الأنصارى قال: قلت يا رسول الله، بأبى أنت وأمى، أخبرنى عن أول شىء خلقه الله تعالى قبل الأشياء. قال: يا جابر، إن الله تعالى قد خلق قبل الأشياء نور نبيك من نوره،
اس سے پہلے اغلبا کسی نے اس روایت کو بیان نہیں کیا جس سے محسوس ہوتا ہے کہ دسویں صدی میں اس روایت کااندراج مصنف عبد الرزاق میں کیا گیا

مستدرک حاکم میں ہے
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حَمْشَاذَ الْعَدْلُ، إِمْلَاءً، ثنا هَارُونُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْهَاشِمِيُّ، ثنا جَنْدَلُ بْنُ وَالِقٍ، ثنا عَمْرُو بْنُ أَوْسٍ الْأَنْصَارِيُّ، ثنا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «أَوْحَى اللَّهُ إِلَى عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ يَا عِيسَى آمِنْ بِمُحَمَّدٍ وَأْمُرْ مَنْ أَدْرَكَهُ مِنْ أُمَّتِكَ أَنْ يُؤْمِنُوا بِهِ فَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُ آدَمَ وَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُ الْجَنَّةَ وَلَا النَّارَ وَلَقَدْ خَلَقْتُ الْعَرْشَ عَلَى الْمَاءِ فَاضْطَرَبَ فَكَتَبْتُ عَلَيْهِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولٌ اللَّهِ فَسَكَنَ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ ”

ابن عباس نے کہا الله نے عیسیٰ پر الوحی کی و لو لا محمد ما خلقت آدم ، ولولا محمد ما خلقت الجنة والنار
اور اگر محمد نہ ہوتے تو جنت و جہنم خلق نہ ہوتے
سند میں جندل بن والق بن هجرس التغلبي أبو علي الكوفي ہے امام مسلم اس کو «الكنى» میں متروك الحديث کہتے ہیں

ابن عباس کو عیسیٰ علیہ السلام پر ہونے والی الوحی کا علم کیسے ہوا؟

میزان میں الذہبی کہتے ہیں
عمرو بن أوس.
يجهل حاله.
أتى بخبر منكر.
أخرجه الحاكم في مستدركه، وأظنه موضوعا من طريق جندل بن والق.
حدثنا عمرو بن أوس، حدثنا سعيد عن أبي عروبة، عن قتادة، عن سعيد بن المسيب، عن ابن عباس، قال: أوحى الله إلى عيسى آمن بمحمد، فلولاه ما خلقت آدم ولا الجنة ولا النار … الحديث.

سند کا دوسرا راوی عمرو بن اوس مجھول ہے منکر خبر لایا ہے کہ اگر محمد نہ ہوتے تو آدم و جنت و جہنم نہ ہوتے

[/EXPAND]

اصف بن بر خیا کا راز

قرآن میں بعض واقعات کا ذکر ہے جن کی صحیح تعبیر کا علم نہیں دیا گیا مثلا سلیمان علیہ السلام کے دربار میں جب سلیمان نے سوال کیا کہ کون ہے جو ملکہ سبا کا عرش یہاں یروشلم  میں  لے آئے تو

قال عفريت من الجن أنا آتيك به قبل أن تقوم من مقامك وإني عليه لقوي أمين 

قال الذي عنده علم من الكتاب أنا آتيك به قبل أن يرتد إليك طرفك فلما رآه مستقرا عنده قال هذا من فضل ربي ليبلوني أأشكر أم أكفر ومن شكر فإنما يشكر لنفسه ومن كفر فإن ربي غني كري

 عفریت میں سے ایک نے کہا میں لاتا ہوں اس سے پہلے کہ یہ اجلاس برخاست ہو اس پر ایک شخص جس کو کتاب کا علم تھا اس نے کہا میں اس کو پلک جھپکتے میں ہی لاتا ہوں اور یکایک عرش  اہل دربار کے سامنے تھا – سلیمان نے  اس پر الله کا شکر ادا کیا

مقصد یہ تھا کہ جنات کی قوت کو  انسانی علم سے کم تر کیا گیا کہ اگرچہ جنات میں قوت ہے لیکن انسانوں کی طرح  علم مکمل نہیں ہے انسان علم میں ان سے بڑھ کر ہیں- ان کے مقابلے پر سرکش جنات کا  علم  اصل میں سحر و کہانت ہے جس میں انسانوں میں سے بعض ان کی مدد حاصل کرتے ہیں اور یہ شیطانی علوم ہیں

سوره النمل كي اس آیت کی  مختلف فرقوں نے تاویلات کی ہیں

اہل سنت ہوں یا اہل تشیع ، دونوں اپنی تفسیروں میں ایک شخصیت آصف بن برخیا کا ذکر کرتے ہیں

اہل تشیع کی آراء

سلیمان کے دربار کے اس شخص کے بارے میں جس کو کتاب کا علم دیا دیا تھا ، الکافی باب ١٦ کی روایت ہے کہ

محمد بن يحيى وغيره ، عن أحمد بن محمد ، عن علي بن الحكم ، عن محمد بن  الفضيل قال : أخبرني شريس الوابشي ، عن جابر ، عن أبي جعفر عليه السلام قال : إن اسم الله  الأعظم على ثلاثة وسبعين حرفا وإنما كان عند آصف منها حرف واحد فتكلم به فخسف  بالأرض ما بينه وبين سرير بلقيس حتى تناول السرير بيده ثم عادت الأرض كما  كانت أسرع من طرفة عين ونحن عندنا من الاسم الأعظم اثنان وسبعون حرفا ، وحرف  واحد عند الله تعالى استأثر به في علم الغيب عنده ، ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي  العظيم

شريس الوابشي نے جابر سے انہوں نے ابی جعفر علیہ السلام سے روایت کیا کہ

الله کے اسم اعظم کے تہتر ٧٣ حروف ہیں. ان میں سے اصف نے صرف ایک حرف کو ادا کیا تھا کہ اسکے اور ملکہ بلقیس کے عرش کے  درمیان زمین کو دھنسا دیا گیا کہ اس نے تخت تک ہاتھ بڑھا لیا اور زمین واپس اپنی جگہ لوٹ آئی. یہ سب پلک جھپکتے میں ہوا.  ہمارے پاس اسم اعظم کے بہتتر ٧٢ حروف ہیں . الله نے  بس علم  غیب میں  ہم سے ایک حرف  پوشیدہ رکھا ہے

کتاب بصائر الدرجات کی روایت ہے

وعن ابن بكير، عن أبي عبد الله [عليه السلام]، قال: كنت عنده، فذكروا سليمان وما أعطي من العلم، وما أوتي من الملك.

 فقال لي: وما أعطي سليمان بن داود؟ إنما كان عنده حرف واحد من الاسم الأعظم، وصاحبكم الذي قال الله تعالى: قل: كفى بالله شهيداً بيني وبينكم ومن عنده علم الكتاب. وكان ـ والله ـ عند علي [عليه السلام]، علم الكتاب.

 فقلت: صدقت والله جعلت فداك

ابن بکیر ابی عبد الله امام جعفر سے روایت کرتے ہیں  کہ میں ان کے پاس تھا پس سلیمان اور ان کو جو علم عطا ہوا اس کا ذکر ہوا اور جو فرشتہ لے کر آیا  پس  انہوں (امام جعفر) نے مجھ سے کہا اور سلیمان بن داود کو کیا ملا ؟ اس کے پاس تو الاسم الأعظم کا صرف ایک ہی حرف تھا اور ان کے صاحب جن کے لئے الله تعالی کہتا ہے : قل كفى بالله شهيداً بيني وبينكم ومن عنده علم الكتاب الرعد: 43  اور وہ تو الله کی قسم ! علی علیہ السلام کے پاس ہے علم الکتاب

تفسير القمي ج1 ص368 کے مطابق

عن أبي عبد الله [عليه السلام]، قال: الذي عنده علم الكتاب هو أمير المؤمنين

ابی عبد الله سے روایت ہے کہ  قال الذي عنده علم الكتاب  یہ امیر المومنین (علی) ہیں

کہتے ہیں سلیمان علیہ السلام کے دربار میں اس  شخص کا نام اصف بن برخیا تھا  یعنی علی کرم الله وجھہ  اس دور میں اصف بن برخیا   کی شکل میں تھے

اٹھارہ ذی الحجہ یعنی عید الغدیر کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے کتاب  السرائر – ابن إدريس الحلي – ج 1 – ص 418 میں لکھتے ہیں

وفيه أشهد سليمان بن داود سائر رعيته على استخلاف آصف بن برخيا وصيه ، وهو يوم عظيم ، كثير البركات

اور اس روز سلیمان بن داود اور تمام عوام کو اصف بن برخیا  کی خلافت کی وصیت کی اور وہ دن بہت عظیم اور بڑی برکت والا ہے

کتاب الإمامة والتبصرة از ابن بابويه القمي  میں نے اصف کی خلافت کا ذکر کیا ہے

کتاب  الأمالي – الشيخ الصدوق – ص 487 – 488 میں  اور كمال الدين وتمام النعمة از الشيخ الصدوق  ص ٢١٢ میں ہے

وأوصى داود ( عليه السلام ) إلى سليمان ( عليه السلام ) ، وأوصى سليمان ( عليه السلام ) إلى آصف بن برخيا ، وأوصى آصف بن برخيا إلى  زكريا ( عليه السلام 

 اور داود نے سلیمان علیہ السلام کی وصیت کی اور سلیمان نے اصف بن برخیا کی وصیت کی اور اصف بن برخیا نے زکریا علیہ السلام کی وصیت کی

کتاب تحف العقول – ابن شعبة الحراني – ص 476 – 478 کے مطابق  يحيى بن أكثم  نے علی بن محمد الباقر سے سوال کیا

قلت : كتب يسألني عن قول الله : ” قال الذي عنده علم من الكتاب أنا آتيك به قبل أن يرتد إليك طرفك  ” نبي الله كان محتاجا إلى علم آصف  ؟

میں يحيى بن أكثم نے پوچھا :   (میرے نصیب میں ) لکھا ہے کہ میں سوال کروں گا اللہ کے قول قال الذي عنده علم من الكتاب أنا آتيك به قبل أن يرتد إليك طرفك  پر  کہ   الله کا نبی کیا اصف کا محتاج تھا ؟

امام الباقر نے جواب دیا

سألت : عن قول الله جل وعز : ” قال الذي عنده علم من الكتاب ” فهو آصف بن برخيا ولم يعجز سليمان عليه السلام عن معرفة ما عرف آصف لكنه صلوات الله عليه أحب أن يعرف أمته من الجن والإنس أنه الحجة من بعده ، وذلك من علم سليمان عليه السلام أودعه عند آصف بأمر الله ، ففهمه ذلك لئلا يختلف عليه في إمامته ودلالته كما فهم سليمان عليه السلام في حياة داود عليه السلام لتعرف نبوته وإمامته من بعده لتأكد الحجة على الخلق

تم نے سوال کیا کہ قول الله جل وعز : ” قال الذي عنده علم من الكتاب پر تو وہ اصف بن برخیا ہیں اور سلیمان عاجز نہیں تھے اس معرفت میں جو اصف کو حاصل تھی لیکن آپ صلوات الله عليه نے اس کو پسند کیا کہ اپنی جن و انس کی امت پر اس کو حجت بنا دیں اس کے بعد اور یہ سلیمان کا علم تھا جو اصف کو ان سے عطا ہوا تھا-  اس کا فہم دینا  تھا کہ بعد میں امامت و دلالت پر کہیں (بنو اسرائیل) اختلاف نہ کریں جیسا ان سلیمان  کے لئے  داود کی  زندگی میں  (لوگوں کا ) فہم تھا کہ انکی نبوت و امامت کو مانتے تھے تاکہ خلق پر حجت کی تاکید ہو جائے

یعنی آصف اصل میں سلیمان علیہ السلام کے خلیفہ ہونے کو تھے تو ان کو ایک علم دیا گیا تاکہ عوام میں ان کی دھاک بٹھا دی جائے اور بعد میں کوئی اس پر اختلاف نہ کر سکے

کتاب مستدرك الوسائل – الميرزا النوري الطبرسی – ج 13 – ص 105 میں ہے کہ

 العياشي في تفسيره : عن أبي بصير ، عن أبي جعفر ( عليه السلام ) قال : ” لما هلك سليمان ، وضع إبليس السحر ، ثم كتبه في كتاب وطواه وكتب على ظهره : هذا ما وضع آصف بن برخيا للملك سليمان بن داود ( عليهما السلام ) من ذخائر كنوز العلم ، من أراد كذا وكذا فليقل كذا وكذا ، ثم دفنه تحت السرير ، ثم استثاره لهم ، فقال الكافرون : ما كان يغلبنا سليمان الا بهذا ، وقال المؤمنون : هو عبد الله ونبيه ، فقال الله في كتابه : ( واتبعوا ما تتلوا الشياطين على ملك سليمان )   اي : السحر

العياشي اپنی تفسیر میں کہتے ہیں عن أبي بصير ، عن أبي جعفر ( عليه السلام ) سے کہ امام ابی جعفر نے کہا جب سلیمان ہلاک ہوئے تو ابلیس نے سحر لیا اور ایک کتاب لکھی  ..(اور لوگوں کو ورغلایا). یہ وہ کتاب تھی جو اصف کو سلیمان سے حاصل ہوئی جو علم کا خزانہ ہے جو اس میں یہ اور یہ کہے اس کو یہ یہ ملے گا پھر اس سحر کی کتاب کو تخت کے نیچے دفن کر دیا پھر اس کو (دھوکہ دینے کے لئے واپس) نکالا اور کافروں نے  کہا ہم پر سلیمان غالب نہیں آ سکتا تھا  سوائے اس (جادو) کے (زور سے) اور ایمان والوں نے کہا وہ تو الله کے نبی تھے پس الله نے اپنی کتاب میں کہا اور لگے وہ (یہود)  اس علم کے پیچھے جو شیاطین ملک سلیمان کے بارے میں پڑھتے تھے یعنی جادو

یعنی شیعوں کے نزدیک اصف بن برخیا  اصل میں سلیمان علیہ السلام کے امام بنے اور وہ ایک خاص علم رکھتے تھے بعض کے نزدیک علی رضی الله عنہ ہی تھے اور اس دور  میں وہ اصف بن بر خیا کہلاتے تھے یہاں تک کہ اصف نے مریم علیہ السلام کے کفیل زکریا علیہ السلام کے وصی ہونے کی وصیت کی  گویا اصف کئی ہزار سال تک زندہ ہی تھے پتا نہیں  شیعوں کے نزدیک اب وفات ہو گئی یا نہیں

اہل سنت  کی آراء

تفسیر السمرقندي یا تفسير بحر العلوم أز أبو الليث نصر بن محمد بن أحمد بن إبراهيم السمرقندي (المتوفى: 373هـ) میں ہے

ويقال: إن آصف بن برخيا لما أراد أن يأتي بعرش بلقيس إلى سليمان- عليه السلام- دعا بقوله يا حي يا قيوم- ويقال: إن بني إسرائيل، سألوا موسى- عليه السلام- عن اسم الله الأعظم فقال لهم: قولوا اهيا- يعني يا حي- شراهيا- يعني يا قيوم-

اور کہا جاتا ہے جب اصف بن برخیا نے بلقیس کا عرش سلیمان کے پاس لانے کا ارادہ کیا تو انہوں نے کہا يا حي يا قيوم- اور کہا جاتا ہے نبی اسرئیل نے موسی سے اسم الأعظم کا سوال کیا تو ان سے موسی نے کہا کہو اهيا- يعني يا حي- شراهيا- يعني يا قيوم-

تفسیر القرطبی میں ہے

وَقَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ” إِنَّ اسْمَ اللَّهِ الْأَعْظَمَ الَّذِي دَعَا بِهِ آصَفُ بْنُ بَرْخِيَا يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ” قِيلَ: وَهُوَ بِلِسَانِهِمْ، أَهَيَا شَرَاهِيَا

اور عائشہ رضی الله عنہا  کہتی ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا وہ اسم اللَّهِ الْأَعْظَمَ جس سے اصف نے دعا کی وہ يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ ہے  ان کی زبان میں تھا َاهَيَا شَرَاهِيَا

اهَيَا شَرَاهِيَا کا ذکر شوکانی کی فتح القدیر اور تفسیر الرازی میں بھی ہے

اس سے قطع النظر کہ وہ الفاظ کیا تھے جو بولے گئے جو بات قابل غور ہے وہ اصف بن برخیا کا ذکر ہے جو اہل سنت کی کتب میں بھی ہے

صوفیاء نے اس آیت سے ولی کا تصور نکالا کہ ولی نبی سے بڑھ کر ہے اور محی الدین ابن العربی کی کتب میں اس قول کو بیان کیا گیا اور صوفیاء میں اس کو تلقہا بالقبول کا درجہ حاصل ہوا

پردہ اٹھتا ہے

اصف بن برخیا کا کردار اصلا یمنی یہودیوں کا پھیلایا ہوا ہے جو اغلبا عبد الله ابن سبا سے ہم کو ملا ہے اگرچہ اس بات کی کوئی صریح دلیل نہیں ہے لیکن شواہد بتاتے ہیں کہ اصل میں چکر کچھ اور ہی ہے

 اصف بن برخیا کا ذکر بائبل کی کتاب تواریخ  میں ہے

Asaph the son of Berechiah, son of Shimea

اس نام کا ایک شخص اصل میں غلام بنا جب اشوریوں نے مملکت اسرایل پر حملہ کیا- سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد نبی اسرائیل میں پھوٹ پڑی اور ان کی مملکت دو میں تقسیم ہو گئی ایک شمال میں تھی جس کو اسرئیل کہا جاتا تھا اور دوسری جنوب میں تھی جس میں یروشلم تھا اور اس کو یہودا کہا جاتا تھا- سلیمان علیہ السلام کی وفات کے کئی سو سال بعد ختم ہونے والی ان دو  ریاستوں میں بادشاہت رہی اور  کہیں بھی اتنی طویل مدت تک زندہ رہنے والے شخص کا ذکر ملتا

سلیمان علیہ السلام (وفات ١٠٢٢ ق م) کے بعد ان کے بیٹے رهوبم خلیفہ ہوئے اور اس کے بعد مملکت دو حصوں میں ٹوٹ گئی جس میں شمالی سلطنت کو ٧١٩  قبل مسیح میں اشوریوں نے تباہ کیا – یعنی مفسرین کے مطابق ٣٠٣ سال بعد جب اشوریوں نے غلام بنایا تو ان میں سلیمان کے درباری اصف بن برخیا بھی تھے جو ایک عجیب بات ہے

شمال میں اسرائیل  میں دان اور نفتالی کے یہودی  قبائل رہتے تھے جو اشوریوں کے حملے کےبعد یمن منتقل ہوئے اور بعض وسطی ایشیا میں آرمینیا وغیرہ میں  – دان اور نفتالی قبائل کا رشتہ اصف بن برخیا سے تھا کیونکہ وہ  مملکت اسرئیل کا تھا اور وہیں سے غلام بنا اور چونکہ یہ ایک اہم شخصیت ہو گا اسی وجہ سے اس کے غلام بننے کا خاص طور پر بائبل کی کتاب میں ذکر ہے-

ابن سبا بھی یمن کا ایک یہودی تھا جو شاید انہی قبائل سے ہو گا جن کا تعلق دان و نفتالی قبائل سے تھا- پر لطف بات ہے کہ ان میں سے ایک قبیلے  کا نشان ترازو  تھا اور عدل کو اہمیت دیتا تھا جو ان کے مطابق توحید کے بعد سب سے اہم رکن تھا – شمال میں امراء پر جھگڑا رہتا تھا اور ان پر قاضی حکومت کرتے تھے ایک مرکزی حکومت نہیں تھی یہاں تک کہ آج تک  ان کے شہر کو

Tel Dan

یا

Tel Qadi

کہا جاتا ہے

یعنی اس قبیلہ میں امراء کے خلاف زہر اگلنا اور عدل کو توحید کے بعد سب سے اہم سمجھنا پہلے سے موجود ہے اور ابن سبا نے انہی فطری اجزا کو جمع کیا اور اس پر مصر میں  اپنا سیاسی منشور مرتب کیا

اهَيَا شَرَاهِيَا بھی اصلا عبرانی الفاظ ہیں جو یمنی یہودیوں نے اصف سے منسوب کیے اور یہ توریت سے لئے گئے جس میں موسی علیہ السلام  اور الله تعالی کا مکالمہ درج ہے – توریت کا یہ حصہ یقینا موسی علیہ السلام کی وفات کے بعد کا ہے کیونکہ اصلی توریت  میں احکام درج تھے  لہذا اهَيَا شَرَاهِيَا کو اصلا الحی القیوم کہنا راقم کے نزدیک ثابت نہیں ہے

اصف بن بر خیا اصل میں یہود کی جادو کی کتب کا راوی ہے اور اس سے منسوب ایک کتاب کتاب الاجنس ہے جس میں انبیاء پر جادو کی تہمت ہے اس قسم کے لوگ جن پر اشوری قہر الہی بن کر ٹوٹے ان کو مفسرین نے سلیمان علیہ السلام کا درباری بنا کر ایک طرح سے  جادو کی کتاب  کے اس راوی کی ثقاہت قبول کر لی

 بائبل ہی میں یہ بھی ہے کہ اصف نام کا ایک شخص داود علیہ السلام کے دور میں  ہیکل میں موسیقی کا ماہر تھا  – کتاب سلاطین  میں پہلے ہیکل میں موسیقی کا کوئی ذکر نہیں جبکہ کتاب تواریخ میں اس کا ذکر ہے لہذا  اس پر اعتراض اٹھتا ہے کہ موسیقی کا عبادت میں دخل بعد میں کیا گیا ہے جو اغلبا عزیر اور نحمیاہ نے کیا ہو گا اور انہوں نے جگہ جگہ اصف کا حوالہ موسیقی کے حوالے سے شامل کیا

داود علیہ السلام اسلامی روایات کے مطابق موسیقی اور سازوں کی مدد سے عبادت نہیں کرتے تھے یہ یقینا اہل کتاب کا اپنے  دین میں اضافہ ہے اور اس میں انہوں نے اصف نام کا ایک شخص گھڑا جو موسیقار تھا اور  مسجد سلیمان ہر وقت موسیقی سے گونجتی رہنے کا انہوں نے دعوی کیا  اور اس کو سند دینے کے لئے اصف کو  پروہتوں کے قبیلہ لاوی سے بتایا پھر اس کی مدت  عمر کو اتنا طویل کہا کہ وہ داود و سلیمان سے ہوتا ہوا اشوریوں کا قیدی تک بنا

یہ سب داستان بائبل کی مختلف کتب میں ہے جس کو ملا کر آپ کے سامنے پیش کیا گیا ہے

اسلامی کتب میں الفہرست ابن ندیم میں بھی اس کا ذکر ہے یہاں بات کو بدل دیا ہے

وكان يكتب لسليمان بن داود آصف بن برخيا

اور اصف بن برخیا سلیمان کے لئے لکھتے تھے

یعنی اصف بن بر خیا ایک کاتب تھے نہ کہ موسیقار

اصف کو یہود ایک طبیب بھی کہتے ہیں اور اس سے منسوب ایک کتاب سفرریفوط  ہے جس میں بیماریوں کا ذکر ہے

زبور کی مندرجہ ذیل ابیات کو اصف کی ابیات کہا جاتا ہے

Asaph Psalm 50, 73, 74,75,76,77,78,79,80,81,82,83

گویا خود یہود کے اس پر اتنے اقوال ہیں کہ اس کی شخصیت خود ان پر واضح نہیں