لَا تَـرْفَعُـوا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ

سورہ الحجرات کي آيات ہيں

بِسْمِ اللّـهِ الرَّحْـمنِ الرَّحِيْـمِ
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ امَنُـوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَىِ اللّـهِ وَرَسُوْلِـه وَاتَّقُوا اللّـهَ اِنَّ اللّـهَ سَـمِيْعٌ عَلِـيْمٌ (1)
اے ايمان والو اللہ اور اس کے رسول کے سامنے پہل نہ کرو اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ امَنُـوْا لَا تَـرْفَعُـوا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوْا لَـه بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْـتُـمْ لَا تَشْعُرُوْنَ (2)
اے ايمان والو اپني آوازيں نبي کي آواز سے بلند نہ کيا کرو اور نہ بلند آواز سے رسول سے بات کيا کرو جيسا کہ تم ايک دوسرے سے کيا کرتے ہو
کہيں تمہارے اعمال برباد نہ ہوجائيں اور تمہيں خبر بھي نہ ہو
اِنَّ الَّـذِيْنَ يَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَـهُـمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّـهِ اُولئِكَ الَّـذِيْنَ امْتَحَنَ اللّـهُ قُلُوْبَـهُـمْ لِلتَّقْوى لَـهُـمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ عَظِـيْمٌ (3)
بے شک جو لوگ اپني آوازيں رسول اللہ کے حضور دھيمي کر ليتے ہيں يہي لوگ ہيں کہ اللہ نے ان کے دلوں کو پرہيزگاري کے ليے جانچ ليا ہے ان
کے ليے بخشش اور بڑا اجر ہے
اِنَّ الَّـذِيْنَ يُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرَاتِ اَكْثَرُهُـمْ لَا يَعْقِلُوْنَ (4)
بے شک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہيں اکثر ان ميں سے عقل نہيں رکھتے
وَلَوْ اَنَّـهُـمْ صَبَـرُوْا حَتّـى تَخْرُجَ اِلَيْـهِـمْ لَكَانَ خَيْـرًا لَّـهُـمْ وَاللّـهُ غَفُوْرٌ رَّحِـيْـمٌ (5)
اور اگر وہ صبر کرتے يہاں تک کہ آپ ان کے پاس سے نکل کر آتے تو ان کے ليے بہتر ہوتا اور اللہ بخشنے والا نہايت رحم والا ہے

ان آيات ميں بتايا جا رہا ہے کہ لوگ حجرات النبي کے باہر جمع ہو جاتے اور شور کرتے کہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم باہر تشريف لائيں-اس عمل پر تنبيہ کي گئي کہ اگر آئندہ ايسا کيا تو عمل فنا ہو جائيں گے اور معلوم تک نہ ہو گا – صحيح بخاري ميں اس کے برعکس بيان کيا گيا ہے
کہ حجرات النبي کے باہر نہيں بلکہ عين نبي صلي اللہ عليہ وسلم کے سامنے شيخين کا جھگڑا ہوا اور اور وہ اپني اپني چلانے کي کوشش کر رہے تھے – حديث بيان کي جاتي ہے

حَدَّثَني إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُمْ: «أَنَّهُ قَدِمَ رَكْبٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَمِّرِ القَعْقَاعَ بْنَ مَعْبَدِ بْنِ زُرَارَةَ قَالَ عُمَرُ: بَلْ أَمِّرِ الأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: مَا أَرَدْتَ إِلَّا خِلاَفِي قَالَ عُمَرُ: مَا أَرَدْتُ خِلاَفَكَ فَتَمَارَيَا حَتَّى ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا فَنَزَلَ فِي ذَلِكَ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تُقَدِّمُوا} [الحجرات: 1] حَتَّى انْقَضَتْ , (خ) 4367
ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ نے بيان کيا کہ ابن زبير رضي اللہ عنہ نے ان کو خبر دي کہ نبو تميم کا وفد نبي صلي اللہ عليہ وسلم کي خدمت ميں پہنچا – ابو بکر رضي اللہ عنہ نے کہا القَعْقَاعَ بْنَ مَعْبَدِ بْنِ زُرَارَةَ کو ان کا امير کريں ، عمر رضي اللہ عنہ نے کہا بلکہ الأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ کو ان کا امير کريں ،- ابو بکر نے کہا عمر تم تو ميرے خلاف ہي بات کرنا ، عمر نے کہا ميں نے تمہاري مخالفت کا ارادہ نہيں کيا پس اس ميں کلام ہوا اور آواز بلند ہو گئي پس يہ آيت نازل ہوئي
اے مومنوں رسول اللہ کے سامنے پيش قدمي مت کرو

واقعہ بيان کيا جاتا ہے کہ وفد ميں ميں دو صحابي الأقرع بْن حابس التميمي المُجاشِعِي اور القَعْقَاعَ بْنَ مَعْبَدِ بْنِ زُرَارَةَ تھے
ابن ابي مليکہ نے کہا کہ اس وفد کي آمد کے موقعہ پر امير کے انتخاب پر ابو بکر اور عمر کي بحث ہوئي اور بات شور تک پہنچي تو حکم نازل ہوا کہ رسول کي موجودگي ميں پيش قدمي مت کرو – راوي ابن ابي مليکہ سے يہ قصہ نافع بن عمر الجمحي اور ابن جريج نے نقل کيا ہے نافع بن عمر پر ابن سعد کا قول ہے کہ ثقہ ہے مگر اس ميں کوئي چيز ہے قال ابن سعد ثقة فيه شيء – دوسرا راوي ابن جريج مدلس ہے اور اس قصہ کي تمام اسناد ميں اس کا عنعنہ ہے – يعني يہ روايت صحيح کے درجہ کي نہيں سمجھي جا سکتي

ترمذي نے اس کے تحت لکھا ہے کہ
قَدْ رَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ مُرْسَلاً وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ.
بعض نے اس قصہ کو بيان کيا ہے کہ ابن ابي مليکہ اس قصہ کو مرسل بيان کرتا تھا اور اس روايت کي سند کو ابن زبير تک نہيں لاتا تھا

راقم کہتا ہے بہت ممکن ہے ابن ابي مليکہ کو ابن زبير سے يہ قصہ نہيں ملا بلکہ کسي اور سے ملا اور بعد ميں راويوں نے اس کي سند کو بلند کيا اور اس کو ابن زبير کا بيان کردہ قصہ بنا ديا

دوسري طرف صحيح مسلم کي حديث ہے کہ جب يہ آيت نازل ہوئي (رسول اللہ کي موجودگي ميں آواز بلند مت کرو ) تو انصاري موذن ثابت بن قيس
کا ذکر ہوا کہ ان کو لگا ہے کہ آيت ان کے بارے ميں ہے – اس حديث ميں سعد بن معاذ رضي اللہ عنہ کا بھي ذکر ہے جن کي وفات جنگ خندق پر ہوئي جو سن 3 يا 4 ہجري کا واقعہ ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّهُ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ} [الحجرات: 2] إِلَى آخِرِ الْآيَةِ جَلَسَ ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ فِي بَيْتِهِ وَقَالَ: أَنَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ وَاحْتَبَسَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ فَقَالَ: «يَا أَبَا عَمْرٍو مَا شَأْنُ ثَابِتٍ؟ اشْتَكَى؟» قَالَ سَعْدٌ: إِنَّهُ لَجَارِي وَمَا عَلِمْتُ لَهُ بِشَكْوَى قَالَ: فَأَتَاهُ سَعْدٌ فَذَكَرَ لَهُ قَوْلَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ثَابِتٌ: أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَلَقَدْ عَلِمْتُمْ أَنِّي مِنْ أَرْفَعِكُمْ صَوْتًا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَنَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَذَكَرَ ذَلِكَ سَعْدٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بَلْ هُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ»
انس بن مالک نے کہا جب آيت نازل ہوئي اے ايمان والوں اپني آواز کو رسول کي آواز سے بلند مت کرو آخر تک تو ثابت بن قيس رضي اللہ عنہ (جو موذن تھے ) گھر جا کر بيٹھ گئے اور کہنے لگے ميں جہنمي ہوں … رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے يہ نوٹ کيا کہ قيس موجود نہيں سعد سے پوچھا کہ ابو عمرو ثابت کا کيا حال ہے ؟ سعد بن معاذ نے کہا وہ ميرے پڑوسي ہيں اور مجھ کو کسي شکوہ کا علم نہيں پس سعد قيس کے ہاں پہنچے اور قول رسول کا ذکر کيا – ثابت نے کہا آيت نازل ہوئي ہے کہ اپني آواز کو رسول کي آواز سے بلند مت کرو ميں تو جہنمي ہو گيا پس اس کا ذکر نبي سے کيا گيا آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا وہ جنتي ہے

اس روايت کي بنا پر صحيح بخاري کي روايت کو صحيح نہيں سمجھا جا سکتا کيونکہ اس کے تحت آيات کا نزول غزوہ خندق سے بھي پہلے ہوا اور تاريخا وفد بنو تميم کي آمد اس غزوہ کے بعد ہي ممکن ہے کيونکہ بنو تميم عرب ميں مدينہ کے مشرق ميں تھے جہاں آجکل رياض ہے اور وہاں سے مدينہ تک رستے ميں مشرکين کے قبائل تھے لہذا وہاں سے کثیر تعداد میں لوگوں کا مسجد النبی تک آنا ممکن نہیں تھا  – متن قرآن ميں موجود ہے کہ لوگ جن کو تنبيہ کي گئي وہ حجرات النبي کے باہر سے پکارا کرتے تھے وہ نبي کے سامنے شور و غل نہيں کر رہے تھے

مشکل الاثار از طحاوي کي روايت ہے جس کے مطابق سورہ حجرات کي پہلي آيت کا تعلق عبادات سے ہے

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ شُعَيْبٍ الْكَيْسَانِيُّ حَدَّثَنِي أَبِي فِي إمْلَاءِ أَبِي يُوسُفَ عَلَيْهِمْ , عَنْ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ التَّيْمِيِّ عَنْ حِبَالِ بْنِ رُفَيْدَةَ عَنْ مَسْرُوقِ بْنِ الْأَجْدَعِ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ عَرَفَةَ وَالنَّاسُ يَسْأَلُونَ يَرَوْنَ أَنَّهُ يَوْمُ النَّحْرِ فَقَالَتْ لِجَارِيَةٍ لَهَا: ” أَخْرِجِي لِمَسْرُوقٍ سَوِيقًا وَحَلِّيهِ فَلَوْلَا أَنِّي صَائِمَةٌ لَذُقْتُهُ ” فَقَالَ لَهَا: أَصُمْتِ هَذَا الْيَوْمَ وَهُوَ يُشَكُّ فِيهِ؟ فَقَالَتْ: ” نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِي مِثْلِ هَذَا الْيَوْمِ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللهِ وَرَسُولِهِ} [الحجرات: 1] كَانَ قَوْمٌ يَتَقَدَّمُونَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّوْمِ وَفِيمَا أَشَبَهَهُ , فَنُهُوا عَنْ ذَلِكَ

عائشہ رضي اللہ عنہا کے شاگرد مسروق نے روايت کيا کہ ام المومنين نے بيان کيا کہ ايک قوم تھي جو روزے اور اسي قسم کي عبادات ميں نبي صلي اللہ عليہ وسلم پر پيش قدمي کرتي اس آيت {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللهِ وَرَسُولِهِ} [الحجرات: 1] کے ذريعہ سے ان کو اس (بدعتي ) عمل سے منع کيا گيا

طبراني ميں ہے
فَقَالَتْ: إِنَّ نَاسًا كَانُوا يَتَقَدَّمُونَ الشَّهْرَ، فَيَصُومُونَ قَبْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
عائشہ رضي اللہ عنہا نے فرمايا لوگ (رمضان کا ) مہينہ انے سے پہلے روزے رکھتے کہ رسول اللہ سے بھي پہلے روزے رکھ ليتے

شيعہ تفسير طوسي ميں ہے
وقال الحسن: ذبح قوم قبل صلاة العيد يوم النحر، فأمروا باعادة ذبيحة اخرى
حسن بصري نے کہا لوگ رسول اللہ سے پہلے عيد ميں ذبح کرتے پس ان کو حکم ديا گيا کہ دوبارہ ذبح کرو ، نبي صلي اللہ عليہ وسلم کے بعد

شيعہ تفسير طبرسي ميں ہے
نزل قوله « يا أيها الذين آمنوا لا ترفعوا أصواتكم » إلى قوله « غفور رحيم » في وفد تميم و هم عطارد بن حاجب بن زرارة في أشراف من بني تميم منهم الأقرع بن حابس و الزبرقان بن بدر و عمرو بن الأهتم و قيس بن عاصم في وفد عظيم فلما دخلوا المسجد نادوا رسول الله (صلى الله عليهوآلهوسلّم) من وراء الحجرات أن اخرج إلينا يا محمد

آيت آواز بلند مت کرو ، يہ نازل ہوئي وفد بنو تميم کي آمد پر اور اس ميں عطارد بن حاجب بن زرارة تھا جو بنو تميم کے معزز لوگ تھے جن ميں الأقرع بن حابس اور الزبرقان بن بدر اور عمرو بن الأهتم اور قيس بن عاصم بھي تھے – يہ ايک عظيم وفد تھا پس جب يہ مسجد النبي ميں داخل ہوئے انہوں نے پکارنا شروع کر ديا حجرات النبي کے پيچھے سے اے محمد باہر نکلو

راقم کہتا ہے يہ تفسير اس حد تک  متن قرآن سے مطابقت رکھتي ہے کہ حجرات سے باہر لوگ پکار رہے تھے اور آيت کے شان نزول کا ابو بکر يا عمر سے کوئي تعلق نہيں ہے

الکافي از کليني ميں تدفين حسن رضي اللہ عنہ کا ذکر ہے حسين رضي اللہ عنہا نے ام المومنين رضي اللہ عنہا کي شان اقدس ميں طنزيہ جملے بولے اور اس آيت کا ذکر کيا ليکن يہ نہيں کہا کہ يہ آيات ابو بکر کے لئے نازل ہوئي

علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن بكر بن صالح [قال الكليني] وعدة من أصحابنا، عن ابن زياد، عن محمد بن سليمان الديلمي، عن هارون بن الجهم، عن محمد ابن مسلم قال سمعت ابا جفعر عليه السلام يقول …. وبهذا الاسناد، عن سهل، عن محمد بن سليمان، عن هارون بن الجهم، عن محمد بن مسلم قال: سمعت أبا جعفر عليه السلام يقول …. فقال لها الحسين بن علي صلوات الله عليهما … قال الله عزوجل ” يا أيها الذين آمنوا لا ترفعوا أصواتكم فوق صوت النبي ” ولعمري لقد ضربت أنت لابيك وفاروقه عند اذن رسول الله صلى الله عليه وآله المعاول، وقال الله عزوجل ” إن الذين يغضون أصواتهم عند رسول الله اولئك الذين امتحن الله قلوبهم للتقوى(1) ” ولعمري لقد أدخل أبوك وفاروقه على رسول الله صلى الله عليه وآله بقربهما منه الاذى،

راقم کہتا ہے کہ اسکي سند ضعيف بھي ہے – شيعہ علماء رجال کے مطابق اس کي سند ضعيف ہے -شيعہ کتاب رجال طوسي کے مطابق اس سند ميں محمد بن سليمان الديلمي بصري ضعيف ہے مشايخ الثقات- غلام رضا عرفانيان ميں بھي اس راوي کو ضعيف قرار ديا گيا ہے

غور طلب ہے کہ شيعوں نے جو سن 300 ہجري تک کے ہيں ان ميں کسي نے سورہ حجرات کي ابتدائي آيات کے شان نزول ميں يہ ذکر نہيں کيا جو صحيح بخاري کي روايت ميں بيان ہوا کہ شيخين رضي اللہ عنہما کا جھگڑا نبي صلي اللہ عليہ وسلم کے سامنے ہوااور آيات نازل ہوئيں

راقم اس تحقيق کے تحت صحيح بخاري کي اس منکر روايت کو رد کرتا ہے

3 thoughts on “لَا تَـرْفَعُـوا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ

  1. jawad

    آپ نے ایک جگہ لکھا تھا کہ مذکورہ آیت- لَا تَـرْفَعُـوا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ- آج دورحاضر میں روضۂ نبوی کے باہر لکھی ہوئی ہے – وجہ غالباً یہ ہے کہ وہابی بھی نبی کریم صل الله علیہ وآ له وسلم کو ان کی قبر میں زندہ مانتے ہیں

    یعنی وہابی بھی اپے عقائد میں گمراہی پر ہیں

    میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں

    Reply
  2. عثمان

    الجامع الاخلاق الراوی میں خطیب بغدادی اس آیت

    (يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ امَنُـوْا لَا تَـرْفَعُـوا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوْا لَـه بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْـتُـمْ لَا تَشْعُرُوْنَ )

    کے متعلق لکھتے ہیں کہ نبیؐ کی موت کے بعد آواز بلند کرنا زندگی میں آواز بلند کرنے جیسا ہے۔
    بخاری کی روایت بھی پیش کی جاتی ہے کہ اب کوئی بلند آواز کریگا تو اسکے اعمال ضائع ہوجائیں گے۔ کیا وفات کے بعد آواز بلند کر نے والوں کے اعمال ضائع ہونے کا خطرہ ہے اور اس کے پیچھے حیات النبی کا عقیدہ ہے؟

    حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْجُعَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ خُصَيْفَةَ ، عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ ، قَالَ : كُنْتُ قَائِمًا فِي الْمَسْجِدِ فَحَصَبَنِي رَجُلٌ فَنَظَرْتُ ، فَإِذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، فَقَالَ : اذْهَبْ فَأْتِنِي بِهَذَيْنِ ، فَجِئْتُهُ بِهِمَا ، قَالَ : مَنْ أَنْتُمَا أَوْ مِنْ أَيْنَ أَنْتُمَا ؟ قَالَا : مِنْ أَهْلِ الطَّائِفِ ، قَالَ : لَوْ كُنْتُمَا مِنْ أَهْلِ الْبَلَدِ لَأَوْجَعْتُكُمَا تَرْفَعَانِ أَصْوَاتَكُمَا فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .

    میں مسجد نبوی میں کھڑا ہوا تھا، کسی نے میری طرف کنکری پھینکی۔ میں نے جو نظر اٹھائی تو دیکھا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سامنے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ سامنے جو دو شخص ہیں انہیں میرے پاس بلا کر لاؤ۔ میں بلا لایا۔ آپ نے پوچھا کہ تمہارا تعلق کس قبیلہ سے ہے یا یہ فرمایا کہ تم کہاں رہتے ہو؟ انہوں نے بتایا کہ ہم طائف کے رہنے والے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم مدینہ کے ہوتے تو میں تمہیں سزا دئیے بغیر نہ چھوڑتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں آواز اونچی کرتے ہو؟

    Sahih Bukhari#470

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      حجرات میں امہات المومنین آرام کرتیں تھیں لہذا اس کا تعلق ان سے ہے

      Reply

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *