Category Archives: قرب قیامت – Eschatology

دجال اور یاجوج ماجوج ایلین ہیں ؟؟

السلام علیکم

اس ویڈیو پر رائے درکار  ہے

و علیکم السلام

قرآن قریش کی عربی میں نازل ہوا ہے اور دور نبوی میں ایلین مخلوق کا کوئی تصور نہیں تھا لہذا قرانی الفاظ کا وہی مطلب لیا جائے گا جو دور نبوی میں رائج تھا

ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًا

سورہ کہف ٩٢

عربی میں سبب کے بہت سے مفہوم ہیں – سبب کہتے ہیں رسی کو جو چھت سے لٹک رہی ہو
في حديث عوف بن مالك: “أَنَّه رأَى في المنامِ كأنّ سَبَباً دُلِّىَ من السَّماء
صحابی نے خواب میں (سبب ) دیکھا کہ ایک رسی ہے جو آسمان سے زمین کی طرف آ رہی ہے اس کو رسول اللہ نے جب چھوڑا تو ابو بکر نے پکڑا
وأرى “سببا” وأصلا إلى السماء
دیکھا سببا رسی کو جس کی جڑ آسمان میں تھی
یہاں رسی کو سبب کہا ہے

سورہ حج میں ہے
مَن كَانَ يَظُنُّ أَن لَّن يَنصُرَهُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ فَلْيَمْدُدْ بِسَبَبٍ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ لْيَقْطَعْ فَلْيَنظُرْ هَلْ يُذْهِبَنَّ كَيْدُهُ مَا يَغِيظُ
جو کوئی (منافق) یہ گمان کرتا ہے کہ اللہ دینا و آخرت میں اس (رسول) کی مدد نہ کرے گا وہ آسمان پر رسی ڈال کر (اپنے گلے کو) کاٹ دے

یہاں سبب کا مطلب رسی ہے

سوره غافر المومن میں ہے
أَسْبَابَ السَّمَاوَاتِ فَأَطَّلِعَ إِلَىٰ إِلَٰهِ مُوسَىٰ وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ كَاذِبًا ۚ
فرعون نے کہا ہامان سے کہ کوئی بلند عمارت بناو کہ میں آسمانوں میں کوئی اشارہ پاؤں اور موسی کے رب کو جانوں

یہاں اسباب یا اشارہ پانے کے لئے اس نے ٹاور بنانے کا حکم کیا

سورت قصص ٣٨ میں ہے
فَاجْعَلْ لِي صَرْحاً
میرے لئے ٹاور بناو

آیات کو ملا کر سمجھا جا سکتا ہے کہ فرعون کوئی مینار یا ٹاور بنوانے کا حکم کر رہا تھا جس پر چڑھ کر موسی کے رب کا سبب پاوں
اس اشارہ لینے کو کو قرآن میں اسباب کہا گیا ہے

ذو القرنین کے قصے میں سورہ کہف میں ہے

إِنَّا مَكَّنَّا لَهُۥ فِى ٱلْأَرْضِ وَءَاتَيْنَـٰهُ مِن كُلِّ شَىْءٍۢ سَبَبًۭا
ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًا
تم نے اس کو زمین پر تمکنت دی تھی اور اس کو ہر چیز پر سبب (اشارہ ) دیا تھا
پھر اس نے ایک سبب (اشارہ) کو فالو کیا

میں سمجھتا ہوں کہ شاہ ذو القرنین کو اللہ نے قوت و علم دیا کہ چیز دیکھ کر وہ اس کی حکمت جان جاتے تھے
اب چونکہ ان کا پلان تھا کہ تمام زمین پر جہاں تک ہو سکے وہ توحید کو قائم کریں وہ اس مقام سے آئی چیز دیکھ کر اشارہ پاتے اور پھر سفر کرتے وہاں تک جاتے
اور سبب یا اشارہ کو فالو کرتے اگرچہ ان علاقوں میں پہلے کبھی نہ گئے تھے

شاہ ذو القرنین کو تین اشارات ملے ایک کی وجہ سے مشرق تک کا سفر کیا
ایک سے مغرب تک کا سفر کیا
اور ایک کی وجہ سے یاجوج ماجوج کے علاقے تک کا سفر کیا

و اللہ اعلم

سبب کو انگلش میں
lead
ملنا کہہ سکتے ہیں
مثلا ہم کہتے ہیں
He got the lead and solved the problem

یا اردو میں کہتے ہیں کو سرا مل گیا اور مسئلہ حل ہو گیا
رسی کا سرا ہوتا ہے

اس طرح عربی کا سبب یا اردو کا سرا ایک ہے


یاجوج ماجوج کے حوالے سے میرا علم کہتا ہے کہ وہ انسان نہیں ہیں ایلین بھی نہیں ہیںزمیں کے اندر ہی کوئی الگ مخلوق ہے جو سو رہی ہے ، نکلنے پر انسانوں کو قتل کرے گی اور حشر برپا ہو جائے گا

راقم کی  کتاب  یاجوج ماجوج پر دیکھیں

بیت المقدس کی ایک حدیث

قصہ مختصر
حدیث رسول ہے کہ میری امت کا ایک گروہ حق پر رہے گا اس کو زوال نہ ہو گا حتی کہ اللہ کا امر آئے
اس حدیث میں لاحقے لگائے گئے – بعض راویوں نے اضافہ کیا کہ اہل شام و اہل بیت المقدس غالب رہیں گے – آج کل کے فلسطین کے  سیاسی حالات میں اس موضوع اضافہ کا ذکر پھر شروع ہو چلا ہے – قابل غور ہے کہ شام و ارض مقدس  پر صلیبی نصرانی، یہودی ، نصیری ادیان  کو اللہ نے غالب کیا اور مسلمانوں کو آزمائش میں ڈالا ان کو ملغوب کیا – اس طرح ہم کو بتایا گیا کہ یہ حدیث صحیح تھی لیکن اس حدیث کا تعلق شروع کے صرف بارہ خلفاء سے تھا اور امر اللہ یعنی اللہ  کے حکم سے مراد  مسلمانوں کے زوال کا حکم تھا

مسند احمد  میں عبد اللہ بن احمد  کا اضافہ ہے ح ٢٢٣٢٠  میں ہے

 قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ: وَجَدْتُ فِي كِتَابِ أَبِي بِخَطِّ يَدِهِ: حَدَّثَنِي مَهْدِيُّ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا ضَمْرَةُ، عَنِ السَّيْبَانِيِّ (4) وَاسْمُهُ يَحْيَى بْنُ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللهِ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:    لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى الدِّينِ ظَاهِرِينَ لَعَدُوِّهِمْ قَاهِرِينَ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ إِلَّا مَا أَصَابَهُمْ مِنْ لَأْوَاءَ حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللهِ وَهُمْ كَذَلِكَ   . قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ وَأَيْنَ هُمْ؟ قَالَ:    بِبَيْتِ الْمَقْدِسِ وَأَكْنَافِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ

أَبِي أُمَامَةَ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ  رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  نے فرمایا  میری امت میں ایک گروہ رہے گا جو اپنے دشمنوں پر غالب رہے گا ، ان پر غالب رہے گا ، اس کو مخالف  نقصان نہ دے سکیں گے سوائے اس کے کہ جو ان کو غم ملے گا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ جائے اور وہ اسی صورت حال میں رہیں گے  – ہم نے کہا   یا رسول  اللہ یہ کہاں

ہیں ؟  فرمایا بیت المقدس میں اور اس کے مضافات میںسند میں   عمرو بن عبد الله السَّيْباني الحضرمي  مجہول ہے

مجمع الزوائد  میں ہیثمی  نے کہا

وَالطَّبَرَانِيُّ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ

اس کے رجال  ثقات ہیں

اس کی وجہ یہ ہے کہ عجلی اور ابن حبان نے مجہول کو بھی ثقہ قرار دیا ہے  – اس طرح اس روایت کو قبول کرنے والے  کی بات پر اڑے ہوئے ہیں کہ یہ روایت صحیح ہے  جبکہ یہ متن صحیح نہیں

 قال الذهبي في   الميزان  : ما علمت روى عنه سوى يحيى بن أبي عمرو.

وقال في   الديوان  : مجهول.

وقال في   المغني  : لا يعرف.

قال الذهبي في   ديوان الضعفاء   (رقم: 3188)   تابعيٌّ مجهولٌ

بعض کتاب میں اس قسم کا متن  ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی منسوب ہے –  أبو يعلى والطبراني في الأوسط  میں  أبي هريرة رضي الله عنه سے منسوب ہے

حَدَّثَنَا أَبُو طَالِبٍ عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ الْحِمْصِيُّ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبَّادٍ، عَنْ عَامِرٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا تَزَالُ عِصَابَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى أَبْوَابِ دِمَشْقَ، وَمَا حَوْلَهُ وَعَلَى أَبْوَابِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ وَمَا حَوْلَهُ، لَا يَضُرُّهُمْ خُذْلَانُ مَنْ خَذَلَهُمْ ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ إِلَى أَنْ تَقُومَ السَّاعَةُ»

طبرانی نے لکھا ہے

 لم يروه عن عامر الأحول إلا الوليد بن عباد، تفرد به إسماعيل بن عياش. وقال ابن عدي: وهذا الحديث بهذا اللفظ ليس يرويه غير ابن عياش عن الوليد بن عباد

سند میں الوليد بن عباد  مجہول ہے –  الهيثمي نے اس کو  رجاله ثقات   المجمع 10/ 60 – 61 بول دیا ہے جبکہ اسی کتاب میں دوسرے مقام پر  ایک دوسری حدیث پر کہا  وفيه الوليد بن عباد وهو مجهول   المجمع 7/ 288 یہ مجہول ہے  -اسی طرح يعقوب بن سفيان کی کتاب   المعرفة   (2/ 298) میں طرق  ہے

عن محمد بن عبد العزيز الرَّمْلي ثنا عباد بن عباد أبو عتبة عن أبي زرعة عن أبي وعلة -شيخ من عك– قال: قدم علينا كريب من مصر يريد معاوية، فزرناه، فقال: ما أدري عدد ما حدثني مُرّة البهزي في خلاء وفي جماعة أنه سمع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول:   لا تزال طائفة من أمتي على الحق ظاهرين على من ناوأهم، وهم كالإناء بين الأكلة حتى يأتي أمر الله عز وجل وهم كذلك

فقلنا: يا رسول الله، من هم؟ وأين هم؟ قال:   بأكناف بيت المقدس

طبرانی اور تاریخ دمشق از ابن عساکر میں ہے

أنا أبو بكر محمد بن عبد الله بن ريذة (4) أنا أبو القاسم سليمان بن أحمد الطبراني نا حصين بن وهب الأرسوفي نا زكريا بن نافع الأرسوفي نا عباد بن عباد الرملي عن أبي زرعة السيباني عن أبي زرعة الوعلاني عن كريب السحولي حدثني مرة البهزي أنه سمع رسول الله (صلى الله عليه وسلم) يقول لا تزال طائفة من أمتي على الحق ظاهرين على من ناوأهم وهم كالأناس (5) الآكلة حتى يأتي أمر الله وهم كذلك قلنا يا رسول الله وأين هم قال بأكناف بيت المقدس

اس طرق میں  یہ متن  أبو وعلة یا  أبي زرعة الوعلاني کی سند سے ہے – یہ بھی مجہول ہے

اس طرح یہ تمام طرق  ضعیف ہیں  البتہ فلسطین کے   عرب ان کو پیش کر کے دعوی کرتے ہیں کہ اس سے مراد کوئی علمی گروہ نہیں بلکہ محض  بیت المقدس میں رہنے والے  عرب ہیں جو کسی بھی فرقے کے ہو سکتے ہیں

یہ روایت ضعیف  و شامی  مجہولین کی روایت کردہ ہیں

===================
مزید تفصیل کے لئے کتاب بلا عنوان دیکھیں

147 Downloads

سامری کا مذھب ٣

قصہ مختصر
سامری نے نبی اسرائیلیوں سے دھات کے زیور لے کر ایک بچھڑے کی مورت بنائی جس میں سے آواز نکلتی تھی – قرن اول میں اس پر ابن عباس کے بعض شاگردوں نے سامری کے حوالے سے ایک عجیب قصہ بیان کیا کہ سامری کو اللہ تعالی نے بچایا جب ال فرعون بنی اسرائیل کو قتل کر رہے تھے اور جبریل نے سامری کی مدد کی – سامری بچین سے جبریل کو پہچانتا تھا لہذا جب اس نے جبریل کو سمندر پھٹنے پر دیکھا تو ان کے قدم کی مٹی لی اور اس کو بت گری میں شامل کیا – معجزھ ہوا اور بچھڑا بولنے لگا
راقم کہتا ہے یہ اسرائیلیات کی خبر ہے جو ابن جریج اور الكلبي نے ابن عباس سے منسوب کر دی ہے

قرآن سورہ طہ میں ہے
قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي

اس آیت کی قرات میں اختلاف بھی ہے – برواية خلف عن حَمْزَةُ و برواية َالْكِسَائِيُّ و برواية َالْأَعْمَشُ وَ برواية خَلَفٌ نے اس آیت کی قرات اس طرح کی
قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ تَبْصُرُوا بہ
سامری نے کہا میں نے وہ دیکھا جو تم نے نہیں دیکھا

اور رواية قالون، رواية ورش اور عاصم کی قرات میں ہے
قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ
سامری نے کہا میں نے وہ دیکھا جو انہوں نے نہیں دیکھا

قرطبی نے سورہ طہ کی اس آیت کی شرح میں لکھا
وَيُقَالُ: إِنَّ أُمَّ السَّامِرِيِّ جَعَلَتْهُ حِينَ وَضَعَتْهُ فِي غَارٍ خوفا
مِنْ أَنْ يَقْتُلَهُ فِرْعَوْنُ، فَجَاءَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَجَعَلَ كَفَّ السَّامِرِيِّ فِي فَمِ السَّامِرِيِّ، فَرَضَعَ الْعَسَلَ وَاللَّبَنَ فَاخْتَلَفَ إِلَيْهِ فَعَرَفَهُ مِنْ حِينِئِذٍ

کہا جاتا ہے کہ سامری کی ماں نے اس کو ایک غار میں چھوڑ دیا جب اس کو جنا کہ کہیں فرعون اس کو قتل نہ کر دے پس جبریل علیہ السلام آئے اور اس کو دودھ اور شہد سے پالا – پس سامری خروج مصر کے وقت جبریل کو پہچان گیا

اسی طرح ایک اور قصہ ذکر کیا
وَيُقَالُ: إِنَّ السَّامِرِيَّ سَمِعَ كَلَامَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ، حَيْثُ عَمِلَ تِمْثَالَيْنِ مِنْ شَمْعٍ أَحَدُهُمَا ثَوْرٌ وَالْآخَرُ فَرَسٌ فَأَلْقَاهُمَا فِي النِّيلِ طَلَبَ قَبْرَ يُوسُفَ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَكَانَ فِي تَابُوتٍ مِنْ حَجَرٍ فِي النِّيلِ فَأَتَى بِهِ الثَّوْرُ عَلَى قَرْنِهِ
سامری نے موسی کا کلام سنا جب وہ ایک بیل اور گھوڑے کا بت بنا رہا تھا
اس نے ان بتوں کو نیل میں ڈالا اور بیل کا بت یوسف کے پتھر کے تابوت کو سر پر اٹھائے نیل میں سے نکل آیا

السراج المنير في الإعانة على معرفة بعض معاني كلام ربنا الحكيم الخبير از شمس الدين، محمد بن أحمد الخطيب الشربيني الشافعي (المتوفى: 977هـ) میں ہے
فقال ابن عباس في رواية الكلبي: إنما عرفه لأنه رباه في صغره، وحفظه من القتل حين أمر فرعون بذبح أولاد بني إسرائيل، فكانت المرأة إذا ولدت طرحت ولدها حيث لا يشعر به آل فرعون، فتأخذ الملائكة الولدان ويربونهم حتى يترعرعوا ويختلطوا بالناس، فكان السامري ممن أخذه جبريل عليه السلام، وجعل كف نفسه في فيه، وارتضع منه العسل واللبن، فلم يزل يختلف إليه حتى عرفه، فلما رآه عرفه؛ قال ابن جريح: فعلى هذا قوله: بصرت بما لم يبصروا به يعني: رأيت ما لم يروه.
کلبی کی ابن عباس سے روایت ہے کہ سامری ، جبریل کو بچپن سے جانتا تھا کیونکہ جبریل نے اس کو پالا تھا اور اس کو فرعون کے قتل سے بچایا تھا جب اس نے حکم دیا کہ بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کر دیا جائے – عورتیں اپنے بچوں کو پھینک دیتی تھیں کہ کہیں ال فرعون دیکھ کر قتل نہ کر دیں ، ان بچوں کو فرشتے لے جاتے اور ان کو پالتے حتی کہ یہ بڑے ہوتے اور اور لوگوں میں مل جاتے – سامری ان بچوں میں سے تھا جن کو جبریل نے پالا اور اس کو دودھ و شہد پلایا پس سامری نے ان کو پہچاننا نہ چھوڑا اور جب (خروج مصر پر ) دیکھا تب پہچان گیا
ابن جریج نے کہا پس اس کا ذکر اس قول تعالی میں ہے کہ سامری نے کہا میں نے وہ دیکھا جو دوسروں نے نہ دیکھا

تفسیر طبری میں ہے
حدثنا القاسم، قال: ثنا الحسين، قال: ثني حجاج، عن ابن جُرَيج، قال: لما قتل فرعون الولدان قالت أمّ السامريّ: لو نحيته عني حتى لا أراه، ولا أدري قتله، فجعلته في غار، فأتى جبرائيل، فجعل كفّ نفسه في فيه، فجعل يُرضعه العسل واللبن، فلم يزل يختلف إليه حتى عرفه، فمن ثم معرفته إياه حين قال: (فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِنْ أَثَرِ الرَّسُولِ)

الْحُسَيْنُ بْنَ داود (لقب سنيد ) نے حجاج بن مُحَمَّدٍ الْأَعْوَرُ سے روایت کیا ہے اور انہوں نے ابن جریج سے روایت کیا –

الحسين بن داود کو سُنَيد بن داود بھی سندوں میں کہا جاتا ہے – ان پر نسائي کا قول ہے : ليس بثقة یہ ثقہ نہیں ہے
خطیب بغدادی کا قول ہے
قُلْتُ لا أعلم أي شيء غمصوا عَلَى سنيد، وقد رأيت الأكابر من أهل العلم رووا عنه، واحتجوا به، ولم أسمع عنهم فيه إِلا الخير، وقد كَانَ سنيد لَهُ معرفة بالحديث، وضبط لَهُ، فالله أعلم.
وذكره أَبُو حاتم الرَّازِيّ فِي جملة شيوخه الذين روى عنهم، وَقَالَ: بغدادي صدوق
ان کی حدیث قابل دلیل ہے اور ابو حاتم رازی کے شیوخ میں سے ہیں اور وہ کہتے ہیں یہ صدوق ہیں

ابن سعد نے طبقات میں حجاج بن مُحَمَّدٍ الْأَعْوَرُ پر ذکر کیا
وكان ثقة كثير الحديث عن ابن جريج
یہ ثقہ ہیں اور ابن جریج سے اکثر احادیث روایت کرتے ہیں

حجاج بن مُحَمَّدٍ الْأَعْوَرُ مختلط بھی ہوئے لیکن معلوم نہیں کہ سنید نے کس دور میں ان سے سنا

ابن جریج کی کسی صحابی سے ملاقات نہیں ہے لہذا اس روایت کی سند معضل یعنی ٹوٹی ہوئی ہے – البتہ جو معلوم ہوا وہ یہ کہ ابن جریج اس قصے کو لوگوں کو سناتے تھے اور کسی مقام پر ان سے اس قصے کا رد منقول نہیں ہے

دوسرا قصہ جو سعید بن جبیر نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منسوب کیا ہے اس کے مطابق سامری بنی اسرائیل میں سے نہیں تھا
وَكَانَ السَّامِرِيُّ مِنْ قَوْمٍ يَعْبُدُونَ الْبَقَرَ جِيرَانٍ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ، وَلَمْ يَكُنْ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ
سامری گائے کی عبادت کرتا تھا اور بنی اسرائیل کی طرف سے مجاورت کرتا تھا اور یہ بنی اسرائیل میں سے نہیں تھا
سند میں أصبغ بن زيد ہے جو بقول ابن سعد حدیث میں ضعیف ہے- ابن عدي: له أحاديث غير محفوظة- دارقطنی نے اس کو ثقہ کہا ہے اس طرح یہ مختلف فیہ راوی ہے

ان قصوں کو اس طرح ابن عباس سے منسوب کیا گیا ہے

ہند کی بربادی چین سے ہو گی؟

روزانہ جنگ کی پیشن گوئییاں کرنے والوں کی زبان سے دو، تین سال سے مسلسل ایک مکذوبہ روایت سننے میں آ رہی
ہے – اخباری کالم نگار ، دانشور ، ٹی وی اینکر وغیرہ سب بلا تحقیق سند و متن اس کو سنا رہے ہیں – اس روایت کو
مکمل سنانے کی توفیق کسی کو نہیں ہے بلکہ صرف بیان کر دیا جاتا ہے کہ حدیث نبوی ہے کہ ہند کی خرابی چین سے
ہے – راقم کہتا ہے دنیا میں جنگیں ہوتی رہتی ہیں لیکن ان کو قول نبوی بنا کر آخری جنگ کی طرح پیش کرنا دینی نقطہ
نظر سے دھوکہ دہی کے مترادف عمل ہے

اخبار پڑھ کر ان کو احادیث سے ملانے کے ماہروں میں سے ایک، ڈاکٹر اسرار احمد کے نزدیک سن ٨٠ و ٩٠ کی
دھائی میں چین والے یاجوج ماجوج تھے -اس قول کو بلا تحقیق اس دور میں سب نے بیان کرنا شروع کر دیا تھا –
راقم کہتا ہے یہ قول ان علماء کا ہے جن کا شمار راقم کے نزدیک جہلاء میں ہے

عقائد میں اٹکل پچو کرنے میں متقدمین میں امام قرطبی بھی گزرے ہیں جو ضعیف و مکذوبہ روایات کے مجموعے
تیار کرنے کے ماہر تھے – قرطبي اپنی غیر محتاط انداز میں مرتب شدہ کتاب التذکرہ میں ایک روایت کا ذکر
کرتے ہیں

ذكره أبو الفرج ابن الجوزي -رحمه اللّه- في كتاب: روضة المشتاق والطريق إلى الملك الخلاق …. حديث حذيفة بن اليمان –
رضي الله عنه- عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: ويبدأ الخراب في أطراف الأرض حتى تخرب مصر. ومصر آمنة من
الخراب حتى تخرب البصرة. وخراب البصرة من العراق، وخراب مصر من جفاف النيل، وخراب مكة من الحبشة، وخراب
المدينة من الجوع، وخراب اليمن من الجراد، وخراب الأيلة من الحصار، وخراب فارس من الصعاليك، وخراب الترك من الديلم،
وخراب الديلم من الأرمن، وخراب الأرمن من الخزر، وخراب الخزر من الترك، وخراب الترك من الصواعق، وخراب السند من
الهند، وخراب الهند من الصين، وخراب الصين من الرمل، وخراب الحبشة من الرجفة، وخراب الزوراء من السفياني، وخراب
الروحاء من الخسف، وخراب العراق من القحط

ابن جوزی نے اپنی کتاب روضة المشتاق والطريق إلى الملك الخلاق میں روایت ذکر کی کہ
حذيفة بن اليمان رضي الله عنه سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زمین کے کناروں سے
بربادی کی ابتداء ہو گی یہاں تک کہ مصر میں بھی بربادی ہو گی -مصر میں امن آئے گا جب بصرہ عراق میں بربادی
ہو گی اور بصرہ کی بربادی عراق سے ہو گی اور مصر کی بربادی نیل کے قحط سے ہو گی اور مکہ کی حبشہ سے ہو
گی اور مدینہ کی بھوک سے ہو گی اور یمن کی ٹڈی دل سے ہو گی اور الأيلة کی بربادی محاصرے سے ہو گی اور
فارس کی الصعاليك (لٹیروں) سے ہو گی اور ترک کی بربادی الدیلم (آذربیجان ) سے ہو گی اور الدیلم (آذربیجان ) کی
بربادی آرمینیا سے ہو گی اور آرمینیا کی بربادی الخزر سے ہو گی اور الخزر کی بربادی ترکوں سے ہو گی اور
ترکوں کی بربادی بجلی گرنے سے ہو گی اور سندھ کی بربادی ہند سے ہو گی اور ہند کی بربادی چین سے ہو گی اور
چین کی بربادی الرمل (ریت ) سے ہو گی اور حبشہ کی بربادی زلزلہ سے ہو گی اور الزوراء (عراق کا قدیم شہر ) کی
سفیانی سے ہو گی اور الروحاء کی بربادی دھنسنے سے ہو گی اور عراق کی بربادی قحط سے ہو گی

اس روایت کی مکمل سند نہ تو ابن جوزی نے پیش کی ہے نہ قرطبی نے پیش کی ہے

أبو عمرو الداني نے اپنی کتاب السنن الواردة في الفتن میں اس کی سند دی ہے

عبد المنعم بن إدريس، حدثنا أبي، عن وهب بن منبه

یہ سند مقطوع ہے یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں جاتی اور سند سخت مجروح ہے
سند میں إدريس بن سنان اليماني ہے جو سخت ضعيف ہے جیسا ابن حجر کی التقريب. میں بیان ہوا ہے
اور اس کا بیٹا عبد المنعم بھی سخت مجروح ہے امام الذهبي کا الميزان میں کہنا ہے

مشهور قصاص، ليس يعتمد عليه. تركه غير واحد، وأفصح أحمد بن حنبل فقال: كان يكذب على وهب بن منبه. وقال البخاري:
ذاهب الحديث … قال ابن حبان: يضع الحديث على أبيه وعلى غيره
مشہور قصہ گو ہے ناقابل اعتماد ہے اس کو بہت سے محدثین نے ترک کیا ہے اور احمدبن حنبل نے وضاحت کی کہ
کہا کہ یہ وھب بن منبہ پر جھوٹ بولتا ہے اور امام بخاری نے کہا حدیث سے نکلا ہوا ہے اور ابن حبان نے کہا
حدیث گھڑتا ہے

اس روایت میں مہمل کلمات ہے جو ثابت کرتے ہیں کہ یہ قول نبوی نہیں ہے- روایت گھڑنے والا علم جغرافیہ سے
ناواقف تھا مثلا روایت میں ہے کہ ترک کی بربادی الدیلم (آذربیجان ) سے ہو گی- مسلمانوں کی علم خغرافیہ سے متعلق
کتب میں موجود ہے کہ الدیلم (ازربیجان ) کے علاقے میں ترک آباد تھے اور یہ انہی کا علاقہ سمجھا جاتا تھا – آج
ترکمانستان ، ازربیجان وغیرہ تک اپنے آپ کو ترک نسل کا ہی بتاتے ہیں – اگے روایت میں ہے کہ ترکوں پر
الصواعق یعنی بجلی گرے گی وہ اس میں برباد ہوں گے ، جو کیوں ہے ؟ کوئی واضح قول نہیں ہے

الخزر ایک معدوم یہودی ریاست تھی جو
Caspian Sea
کے ساتھ آباد تھی – یہ ریاست معدوم ہوئی اور اس کے بسنے والے یورپ کی طرف کوچ کر گئے تھے

روایت میں ہے بصرہ کی بربادی عراق سے ہو گی جبکہ بصرہ دور نبوی میں سے آج تک عراق کا ہی علاقہ ہے

الزوراء (عراق کا قدیم شہر ) کو بھی عراق سے الگ کر کے بتایا گیا ہے جس طرح بصرہ کو بتایا گیا تھا

عرب خغرافیہ دان  السند  میں  کابل (موجودہ افغانستان ) تک کو شمار  کرتے تھے  – اس حوالہ پر راقم کی امام  مہدی سے متعلق  کتاب  کا ضمیمہ ملاحظہ کریں

یہ سب مہمل کلام ہے اس کو کسی صورت حدیث نبوی نہیں سمجھا جا سکتا – محدثین نے اس کی سند کو مجروح قرار
دیا ہے اور متن تاریخ و جغرافیہ سے ناواقفیت کا کھلا ثبوت ہے

لیکن موجودہ دور کے تنازعات میں بعض لوگ اس مکذوبہ روایت کو بار بار قول نبوی کہہ کر پیش کر رہے ہیں ان
بھائیوں سے درخواست ہے کم از کم سند اور متن کو مکمل سمجھ تو لیں کیا کہا جا رہا ہے
نہ کہ ہمارے رسول صادق و امین سے جھوٹ منسوب کرنے لگ جائیں

عرب علماء اس روایت کو رد کر رہے ہیں لیکن حیرت ہے کہ ان کے خوچہ چیں اہل حدیث چپ سادھے بیٹھے ہیں

لنک

لنک

لنک

شیعہ کتاب بحار الأنوار – العلامة المجلسي – ج ٤١ – الصفحة ٣٢٥ میں ہے

مناقب ابن شهرآشوب: وأخبر عليه السلام عن خراب البلدان، روى قتادة عن سعيد بن المسيب أنه سئل أمير المؤمنين عليه
السلام عن قوله تعالى: ” وإن من قرية إلا نحن مهلكوها قبل يوم القيامة أو معذبوها ” فقال عليه السلام في خبر طويل انتخبنا
منه: تخرب سمرقند وخاخ وخوارزم وإصفهان والكوفة من الترك، وهمدان والري والديلم والطبرية والمدينة وفارس بالقحط
والجوع، ومكة من الحبشة، والبصرة والبلخ بالغرق ، والسند من الهند والهند من تبت، وتبت من الصين، ويذشجان وصاغاني
وكرمان وبعض الشام بسنابك الخيل والقتل، واليمن من الجراد، و السلطان وسجستان وبعض الشام بالريح وشامان بالطاعون،
ومرو بالرمل وهرات بالحيات، ونيسابور من قبل انقطاع النيل، وآذربيجان بسنابك الخيل والصواعق، وبخارا بالغرق والجوع،
وحلم وبغداد يصير عاليها سافلها

سعيد بن المسيب نے علی علیہ السلام سے سوال کیا کہ اللہ تعالی کا قول ہے
وإن من قرية إلا نحن مهلكوها قبل يوم القيامة أو معذبوها
بستیوں میں ہیں جن کو ہم قیامت سے پہلے ہلاک کریں گے اور عذاب دیں گے
پس علی نے جواب دیا ایک طویل خبر میں جس کے آخر میں فرمایا
ترک برباد کریں گے سمرقند اور خاخ اور خوارزم اور إصفهان اور الكوفة کو
اور بھوک و قحط ہلاک کرے گا همدان اور الري اور الديلم اور الطبرية اور المدينة اور فارس کو
اور مکہ کو حبشہ برباد کرے گا
اور بصرہ و بلخ غرق آب ہوں گے
اور سندھ کو ہند برباد کرے گا
اور ہند کو تبت برباد کرے گا
اور تبت کو چین برباد کرے گا
اور بذشجان وصاغاني وكرمان وبعض الشام کو قتل و غارت برباد کرے گی
اور یمن کو ٹڈی دل برباد کرے گا
اور السلطان وسجستان وبعض الشام کو ہوا برباد کرے گی
اور شامان الطاعون سے ہلاک ہو گا
اور مرو ریت میں دب جائے گا
اور هرات بچھووں سے برباد ہو گا
اور نيسابور برباد گا انقطاع نيل سے پہلے اور
آذربيجان خچروں اور بجلی گرنے سے اور بخارا بھوک سے اور غرق اب ہونے سے اور حلم وبغداد کا اوپر والا نیچے
کر دیا جائے گا

یہ بھی اسی قبیل کی چربہ روایت ہے اور قتادہ مدلس کا عنعنہ موجود ہے – باوجود تلاش کے شیعہ کتب میں اس کی
مکمل سند نہیں ملی تاکہ اصل شیعہ رواة کا علم ہو سکے

جب یاجوج ماجوج کو کھولا جائے گا

[wpdm_package id=’8887′]

غامدی صاحب  نے تھیوری پیش کی ہے کہ  یافث بن نوح  کی نسل کے تمام  لوگ یاجوج ماجوج ہیں  جن میں انہوں نے

  جاپان و مغربی ممالک  کا ذکر کیا – اس سے قبل وہ رسالہ اشراق میں  کہہ چکے ہیں کہ دجال اور یاجوج ماجوج میں کوئی فرق نہیں ہے – یہاں تک کہ وہ مکذوبہ کتاب

Book of Revelations

پر بھی ایمان لے آئے اور اس سے دلیل لینے لگے

  راقم  کہتا ہے  غامدی صاحب  بھول گئے کہ وسطی ایشیا   کی قوموں میں  ہندوستان وترک  و جرمن و ایران  بھی ہیں جو یافث ہی کی نسل سے ہیں ، اسی وجہ سے   ابو الکلام آزاد نے اپنی کتب میں یافث / یاجوج ماجوج کی نسل  میں پنجابی  قوم کا بھی ذکر کیا ہے-

  علامہ اقبال  کہہ گئے ہیں

کھُل گئے، یاجوج اور ماجوج کے لشکر تمام
چشمِ مسلم دیکھ لے تفسیرِ حرفِ ’یَنْسِلُوْنْ‘

یعنی اقبال بھی اسی کے قائل  تھے کہ  یاجوج ماجوج نکل چکے ہیں  اگرچہ   انہوں نے غور نہیں کیا جیسا ابو الکلام آزاد  نے کیا کہ بر صغیر کے مسلمان  بھی ترک و ایرانی نسل سے ہیں  یافث بن نوح  کی ہی اولاد  ہیں  – اصل  میں یہ سب مغالطہ در مغالطہ اس لئے پیدا ہوا کہ مسلمانوں نے اسرائیلیات کو سر چڑھایا اور یہ مان  لیا کہ یاجوج ماجوج  یافث کی نسل سے ہیں  –

 جب یہود نے یہ جھوٹ گھڑا تھا کہ وہ  سام کی نسل ہیں تو اس  کے پیچھے ان کی اپنی سیاست کارفرما  تھی – وہ اپنے آپ کو ہام  اور یافث کی نسلوں سے الگ کر رہے تھے  اور اسی مشق میں انہوں نے نوح علیہ السلام  پر زنا کی تہمت لگائی تھی جس کے بعد نوح کی بددعا کی صورت میں سام کو باقی بھائیوں پر فوقیت ملی تھی   – یہود  اپنے آپ کو سام بن نوح کی نسل سے بتاتے  تھے  لیکن  جب مشرقی یورپ کی  خزار ریاست  نے یہودیت قبول کی تو تب سے ان میں یافث کی نسل در کر آئی  اور آجکل کے مغربی یہودی اصلی سامی نہیں رہے

 پھر راقم کو ایک ویڈیو دیکھنے کو ملی جس  میں  مولوی نے  سی پیک کو یاجوج ماجوج کی سرنگ قرار دیا – اب یہ ویڈیو یو ٹیوب سے ڈیلیٹ کر دی گئی ہیں   – راقم کہتا ہے یہ جاہل علماء ہیں  کیونکہ یہ شمالی اقلیم کے لوگوں کو یاجوج ماجوج کہہ رہے – جبکہ  اسلام  پھیلا ہے اور چینیوں نے بھی دور تابعین میں اسلام قبول کیا ہے – یاجوج ماجوج پر راقم کی تحقیق میں ان   حماقتوں کا رد ہے

====================================================

روایات

خروج یاجوج و ماجوج

تاریخ اور جرح و تعدیل کے میزان پر

اس    مختصر کتاب کا موضوع    یاجوج و ماجوج  ہیں –  الله تعالی نے خبر دی کہ جب  خروج یاجوج و ماجوج ہو گا تو وہ ہر بلندی سے نکل رہے ہوں گے اور منظر ایسا ہو گا جیسے سمندر کی  موجیں گتھم گتھا ہو رہی ہوں یعنی یاجوج ماجوج تعداد میں  بہت ہوں گے –    یاجوج ماجوج کے حوالے سے   علماء  کے مضطرب اقوال ہیں  بعض    سلفی   علماء کے نزدیک   منگول   یا ترک    یاجوج و ماجوج  ہیں –  بعض  اہل  چین کو یاجوج ماجوج قرار دیتے ہیں –  ابو کلام آزاد  اور غامدی   کے نزدیک  یافث بن نوح   کی  نسل  کے لوگ  یاجوج ماجوج  ہیں   جن میں   پاکستان  انڈیا  چین  مغربی ممالک  آسٹریلیا   سب  شامل  ہیں –     غامدی    صاحب کے نزدیک دجال اور یاجوج ماجوج ایک ہیں!

اہل کتاب کے مطابق    جوج نام کا ایک لیڈر ہے اور اس کی قوم ماجوج ہے – ان کے پاس یاجوج کا کوئی تصور نہیں ہے – لیکن مسلمان علماء  اس پر غور کیے بغیر  اہل کتاب سے دلائل دینے لگ جاتے ہیں –      یاجوج و ماجوج اہل کتاب کے نزدیک ایک غلط  نام ہے-      لہذا  اہل کتاب  کی کتابوں سے دلائل دینا بے کار ہے –  اہل کتاب میں     ماجوج پر اختلافات ہیں مثلا     موجودہ پروٹسٹنٹ  نصرانی  آج کل    ایسٹرن آرتھوڈوکس  نصرانییوں  میں  روسیوں کو ماجوج  قرار دیتے ہیں-    یہود میں  مورخ   جوسیفس  کے مطابق   سکوتی   یا    السكوثيون یا  الإصقوث  یا     اسکیتھیا   (من اليونانيةSkythia)

کو قرار دیا ہے جن کا علاقہ   آزربائیجان  و  ارمیننا   کا   تھا  –   اسی کی بنیاد  پر نصرانی  سینٹ    جیروم  نے ان کا علاقہ   بحر  کیسپین   کے  قریب بتایا ہے – آجکل یہ علاقہ   روس میں ہے لہذا  کہا جا رہا ہے کہ روسی     ماجوج ہیں – یہ قول  مبنی بر  جھل ہے –

مسلمانوں کا اس پر بھی اختلاف رہتا ہے کہ   کیا دیوار چین     اور   سد سکندری،  وہی دیوار   ہے  جو ذو القرنین نے بنائی  یا نہیں ؟  ذوالقرنین   کون تھے ؟ سکندر یا کورش یا سائرس ؟

راقم  کے نزدیک  اس وقت معلوم  دنیا   سے یاجوج ماجوج پوشیدہ  ہیں – راقم کے نزدیک یاجوج ماجوج انسان نہیں ہیں  انسان نما ہوں گے –  اس کتاب میں   یاجوج ماجوج  سے متعلق   روایات کا جائزہ   لیا گیا ہے – کتاب میں  اس پر بھی غور کیا گیا  ہے کہ  قیامت کی نشانیاں کس ترتیب میں ہو سکتی ہیں جن کا علم صرف اور صرف الله تعالی کو ہے

کتاب پڑھنے سے پہلے سوره کہف ضرور پڑھ لیں اس کو کتاب میں شامل نہیں کیا گیا ہے – مباحث کو سمجھنے کے لئے قرانی حقائق  و آیات کو جاننا ضروری امر ہے 

ملحمہ الکبری کی بڑھ

الملحمة الكبرى کی روایات

135 Downloads

یہودیوں  نے خبر دی ہے کہ یروشلم میں لومڑیاں نظر آ  رہی ہیں –  اس قسم کی خبر کہا جاتا ہے کہ کتاب گریہ بائبل میں موجود ہے جس میں گیڈروں کے گزرنے  کا ذکر ہے

https://biblehub.com/lamentations/5-18.htm

for Mount Zion, which lies desolate, with jackals prowling over it.

صیھون کے پہاڑ  پر بربادی ہو گی اور اس پر گیڈر چلیں گے 

اول تو کوہ  صیھون کہاں ہے اس پر یہود میں خود اختلاف ہے – خاص وہ مقام جہاں مسجد بیت المقدس ہے وہ کوہ صیھون نہیں ہے

بہرحال  میڈیا میں مسلسل یہودی اپنی جنگ کا ذکر کرتے رهتے ہیں

ملحمہ سے مراد
Armageddon
ہے – جس کی اسلام میں کوئی دلیل نہیں ہے- یہ یہود و نصاری کی بڑھ ہے جس میں ان کے مطابق اہل کتاب تمام دنیا پر غالب ہوں گے

اللہ تعالی نے قرآن سوره أل عمران میں بتایا ہے کہ یہود کی سرکشی کی وجہ سے اس نے یہود پر ذلت و مسکنت قیامت تک لکھ دی ہے

ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُوا إِلا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ الأنْبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ
ان پر ذلت کی مار ہے جہاں بھی جائیں مگر ساتھ اللہ کی (وقتی ) پناہ سے یا لوگوں کی (وقتی ) پناہ سے اور وہ اللہ کے غضب میں گھرے ہوۓ ہیں اور ان پر پستی لازم کی گئی، یہ اس لیے ہے کہ اللہ کی آیات کا کفر کرتے تھے اور انبیاء کو ناحق قتل کرتے تھے، یہ لیے کہ انہوں نے سرکشی کی اور حد کو پار کیا

اس آیت سے بتایا گیا کہ مدینہ کے یہودی ہوں یا کہیں اور کے ہوں – یہودی ، اللہ کے نزدیک معذب ہیں – ان کی کامیابی یا دولت زیادہ عرصے نہ رہے گی – دوسری طرف یہود نے اپنے انبیاء کے نام پر یہ آیات گھڑیں کہ عنقریب ان کا باقی دنیا سے معرکہ ہو گا اور وہ تمام عالم پر غالب ہو جائیں گے – اس بات کو گمراہ ہونے والے نصرانییوں نے بھی مان لیا اور نصرانییوں نے اس کو اپنے لئے بیان کیا ہے –

نام

Armageddon

پر اہل کتاب کے علماء کا کہنا ہے کہ یہ اصل مقام
Megiddo
ہے   جو اب اسرائیل میں ہے – اس کا ذکر صرف عہد نامہ جدید میں ہے – کتاب الرویا از مجہول الحال یحیی میں ہے

Revelation 16:16
And they assembled them at the place that in Hebrew is called Harmagedon.
اور وہ اس جگہ جمع ہوں گے جس کو عبرانی میں ہر مجدون کہتے ہیں

فَجَمَعَهُمْ إِلَى الْمَوْضِعِ الَّذِي يُدْعَى بِالْعِبْرَانِيَّةِ «هَرْمَجَدُّونَ كتاب الرويا

ھر کا مطلب عبرانی میں پہاڑ یا جبل ہے اور مجدون جگہ کا مقام ہے جو آجکل
bikat megiddon
کہلاتا ہے -اس  کا ذکر بائبل کتاب زکریا میں ہے اور اس کو یروشلم میں ایک مقام بتایا گیا ہے
Zechariah (12:11)
In that day there shall be a great mourning in Jerusalem, like the mourning at Hadad Rimmon in the plain of Megiddo.
اس روز یروشلم میں خوب رونا پیٹنا ہو گا جیسے حداد رمؤن میں مجدوں میں ہوا تھا

فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ يَعْظُمُ النَّوْحُ فِي أُورُشَلِيمَ كَنَوْحِ هَدَدْرِمُّونَ فِي بُقْعَةِ مَجِدُّونَ.
زكريا 12 : 11
اصل لفظ مَجِدُّونَ کا پہاڑ ہے جو اصل میں بیت المقدس ہی مراد ہے –

یعنی
Armageddon
سے مراد جنگ کے بعد یروشلم میں اس مقام پر نوحہ و گریہ زاری ہے

اب سوال یہ ہے کہ بائبل کے انبیاء کی کتب میں اس مقام کا ذکر کیوں ہے ؟ وہاں کون گریہ کرے گا ؟ راقم نے اس سوال پر دو سال تحقیق کی ہے اور جو معلوم ہوا وہ یہ ہے کہ یہ آیات یہود نے گھڑی ہیں – ان آیات کو گھڑنے کا اصل مدعا یہ تھا حشر دوم کے بعد یہود جب واپس اسرائیل پہنچے تو دیکھا کہ وہاں غیر یہودی آباد ہیں – شروع میں انے والے گروہوں نے مقامی آبادی میں شادیان کر لیں اور مسجد اقصی کو تعمیر بھی کیا – وہاں اس وقت  متعین ایک افسر عزیر
Ezra

بھی تھا  جو فارسیوں کا ملازم تھا –  نوٹ کیا گیا  کہ بنی اسرائیل میں بغاوت کے جذبات آ رہے ہیں وہ نسل داود سے واپس کسی کو بادشاہ مقرر کرنا چاہتے ہیں – اس دوران دو فارس مخالف انبیاء ظاہر ہوۓ ایک نام زکریا تھا اور دوسرے کا نام حججی تھا – اسی طرح چند اور لوگوں نے دعوی کیا کہ ان کو بنی اسرائیل کے سابقہ انبیاء کے نام سے کتب ملی ہیں جن میں کتاب یسعیاہ، یرمییاہ ، حزقی ایل ، عموس وغیرہ ہیں – یعنی  یہودی اپس میں لڑنے لگے اور انبیاء کے نام پر کتب ایجاد کیں – یہ بات  یہود کی  ان کتب انبیاء  کو پڑھنے اور تقابل کرنے پر ظاہر ہو جاتی ہے کیونکہ اگر ان کتب کا اپس میں تقابل کیا جائے تو باہم متضاد اور مخالف بیانات ملتے ہیں – انبیاء جھوٹ نہیں بولتے  یہ یہودی جھوٹے ہیں جنہوں نے ان کے نام سے کتب کو جاری کیا – یہود   میں فارس کے خلاف  بغاوت کے جذبات پیدا ہو چلے تھے – فارس کے خلاف بغاوت کی سازش کرنے لگے- اس بغاوت کو کچلنے کے لئے فارسیوں نے ایک افسر نحمیاہ کو بھیجا   اور اس نے سختی سے اس بغاوت کو کچل دیا اورمیں  نبوت  کے دعویداروں کا قتل بھی ہوا اور ہیکل کے پروہتوں  کا بھی

فرضی نبی زکریا نے  ہر مجدون میں جس رونے پیٹنے کا ذکر کیا ہے وہ اصل میں انہی اپس کے اختلاف پر یہود کا ایک دوسرے کو قتل کرنا ہے – واضح رہے یہ زکریا وہ نبی نہیں جن کا ذکر قرآن میں  ہے بلکہ ان کا دور اس فرضی نبی سے کئی سو سال بعد کا ہے

  اب عزیر ایک بیوروکریٹ تھا اور نحمیاہ ان کا نیا گورنر تھا – عزیر نے ایک نئی توریت یہود کو دی اور الہامی متن کو تبدیل کیا – توریت اصلا عبرانی میں تھی عزیر نے اس کو بدل کر آشوری میں کر دیا – یہود کے اپس کے اس جھگڑے میں لیکن ایک مسیح کا تصور باقی رہ گیا کہ کوئی نسل داود سے آئے گا جو بنی  اسرائیل کو غیر قوموں کے چنگل سے نکالے گا – اس بغاوت کے قریب ٥٠٠ سال بعد اللہ تعالی نے مسیح عیسیٰ ابن مریم علیھما السلام کو بھیجا- اس وقت تک بنی اسرائیل پر رومیوں کا قبضہ ہو چکا تھا لیکن یہود کے معاملات  پر وہ حاکم  تھے جو عزیر کی دی گئی توریت کو پڑھتے تھے – عزیر خود یہود کے مطابق اللہ کا نبی نہیں تھا وہ محض ایک سرکاری افسر تھا جو فارس کا مقرر کردہ تھا البتہ بعض یہودی فرقوں نے اس سوال کا جواب کہ اس نے توریت کو اشوری میں کیسے کر دیا اس طرح دیا کہ اس کو اللہ کا بیٹا کہنا شروع کر دیا – جس کو وہ بنو الوھم کہتے تھے یعنی اللہ کے بیٹے جن پر روح القدس کا نزول ہوا اور توریت موسی ، اصلی  عبرانی سے فارس میں بولی جانے والی اشوری میں بدل گئی

افسوس مسلمانوں نے عزیر کو نبی کہنا دینا شروع کر دیا ہے اور اس کے ساتھ علیہ السلام کا لاحقہ بھی لگایا جاتا ہے جبکہ ابی داود کی حدیث ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

مَا أَدْرِي أَعُزَيْرٌ نَبِيٌّ هُوَ أَمْ لَا
مجھے نہیں پتا کہ عزیر نبی ہے یا نہیں

جیسا عرض کیا کہ یہود نے انبیاء کے نام پر کتب گھڑیں تو وہ ان میں باقی رہ گئیں اور عیسیٰ علیہ السلام کے بعد انہی کتب کو گمراہ ہونے والے نصرانییوں نے لیا اور انہوں نے ذکر کردہ بغاوت اور نتیجے میں ہونے والی جنگ پر استخراج کیا کہ سابقہ انبیاء سے منسوب  کتب میں جس  جنگ کا ذکر ہے وہ نصرانییوں کی جھوٹے مسیح  سے جنگ کے بارے میں ہے –

دو مسیح کا تصور انہی انبیاء سے منسوب   کتب میں اختلاف  سے نکلا ہے

ایک داود کی نسل کا اور ایک یوسف کی نسل کا

یا 

ایک حاکم مسیح اور ایک منتظم مسجد  و روحانی مسیح

یا

ایک اصلی مسیح اور ایک دجال

یہ تصورات یہود میں عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے سے آ گئے تھے – ان کی بازگشت بحر مردار کے طومار

Dead Sea Scrolls

میں سنی جا سکتی ہے

حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے مسیح ابن مریم رسول اللہ کو بھیجا ہے یعنی وہ مسیح جو کسی نسب کا نہیں ہے نہ داود کی نسل سے ہے نہ یوسف کی نسل سے وہ نبی   ہے شاہ نہیں  اور مسیح عیسیٰ علیہ السلام  کا مشن  کسی عالمی  جنگ کی سربراہی کرنا نہیں ہے بلکہ توحید کا سبق دینا ہے اصل کامیانی آخرت کی ہے دنیا کی جنگوں  نہیں – نزول ثانی پر عیسیٰ علیہ السلام کا مشن جنگیں کرنا نہیں  بلکہ گمراہ مسلمان فرقوں کو توحید کی تبلیغ کرنا ہو گا – اسی لئے حدیث نبوی  میں دجال اور عیسیٰ دونوں کا کعبہ کا طواف کرنے کا ذکر ہے

عرب نصرانی اسی جنگ کو ملحمہ الکبری کہتے ہیں – اور یہود میں سے مسلمان ہونے والا کعب الاحبار اسی کو الْمَلْحَمَةَ الْعُظْمَى یا الْمَلْحَمَةَ الْكُبْرَى کہتا تھا (کتاب الفتن از نعیم بن حماد )- شامی مسلمانوں نے الْمَلْحَمَةَ الْكُبْرَى سے متعلق اقوال کو حدیث نبوی بنا کر پیش کر دیا ہے

عصر حاضر میں اس جنگ کا ذکر پھر سننے میں آ رہا ہے جبکہ یہ محض یہود کا پروپیگنڈا تھا اور اب اسی کو بعض لا علم لوگ حدیث رسول بنا کر پیش کر رہے ہیں-احادیث رسول سے معلوم ہے کہ دجال سے جنگ مسلمان نہیں کریں گے وہ پہاڑوں میں روپوش رہیں گے اور نزول عیسیٰ پر دجال فورا ہی عیسیٰ ابن مریم کے ہاتھوں قتل ہو جائے گا

مسند احمد اور سنن ترمذی کی روایت ہے
حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَابِتِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ يَخَامِرَ، عَنْ مُعَاذٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” عُمْرَانُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ خَرَابُ يَثْرِبَ، وَخَرَابُ يَثْرِبَ خُرُوجُ الْمَلْحَمَةِ، وَخُرُوجُ الْمَلْحَمَةِ فَتْحُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ، وَفَتْحُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ خُرُوجُ الدَّجَّالِ “. ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى فَخِذِ الَّذِي حَدَّثَهُ أَوْ مَنْكِبِهِ، ثُمَّ قَالَ: ” إِنَّ هَذَا لَحَقٌّ (1) كَمَا أَنَّكَ هَاهُنَا “. أَوْ كَمَا ” أَنَّكَ قَاعِدٌ ” يَعْنِي: مُعَاذًا
مُعَاذٍ رضی الله عنہ نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بیت المقدس کی آبادی، مدینہ کی بربادی ہے اور مدینہ کی بربادی ملحمہ (خون ریز جنگیں) کا نکلنا ہے اور ملحمہ کا نکلنا الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ کی فتح ہے اور الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ کی فتح دجال کا خروج ہے
اس کی سند ضعیف ہے سند میں عبد الرحمن بن ثوبان ہے جس کی وجہ سے مسند احمد کی تعلیق میں شعيب الأرنؤوط نے اس روایت کو رد کیا ہے- نسائی نے اس راوی کو ليس بالقوي قرار دیا ہے
کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق لابن أبي حاتم کہتے ہیں
سمعت أبي يقول عبد الرحمن بن ثابت بن ثوبان قد أدرك مكحولا ولم يسمع منه شيئا
میں نے اپنے باپ سے سنا عبد الرحمن بن ثابت بن ثوبان نے مکحول شامی کو پایا لیکن ان سے سنا نہیں
زیر بحث روایت بھی مکحول سے اس نے روایت کی ہے
ابو حاتم کہتے ہیں وتغير عقله في آخر یہ آخری عمر میں تغیر کا شکار تھے
ضعفاء العقيلي کے مطابق امام احمد نے کہا لم يكن بالقوي في الحديث حدیث میں قوی نہیں ہے
الكامل في ضعفاء الرجال کے مطابق يَحْيى نے کہا یہ ضعیف ہے
ابو داود میں روایت کی سند میں ہے جو شعَيب الأرنؤوط – محَمَّد كامِل قره بللي کے مطابق ضعیف ہے اور البانی نے صحيح الجامع: 4096 , المشكاة: 5424 میں اس کو صحیح کہا ہے – راقم کے نزدیک شعَيب الأرنؤوط – محَمَّد كامِل قره بللي کی تحقیق صحیح ہے

اس متن کا ایک دوسرا طرق ہے جو مصنف ابن ابی شیبہ میں ح 37209 ہے
حَدَّثَنَا – أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ مَكْحُولٍ، أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، قَالَ: ” عِمْرَانُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ خَرَابُ يَثْرِبَ وَخَرَابُ يَثْرِبَ خُرُوجُ الْمَلْحَمَةِ , وَخُرُوجُ الْمَلْحَمَةِ فَتْحُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ , وَفَتْحُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ خُرُوجُ الدَّجَّالِ , ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى مَنْكِبِ رَجُلِ وَقَالَ: وَاللَّهِ إِنَّ ذَلِكَ لَحَقٌّ
اس روایت کی علت کا امام بخاری اور ابن ابی حاتم نے اپنی کتاب تاریخ اور علل میں ذکر کی ہے کہ ابو اسامہ نے عبد الرحمان بن یزید بن تمیم کا نام غلط لیا ہے اور دادا کا نام ابن جابر کہا ہے
جبکہ یہ نام غلط ہے اصلا یہ عبد الرحمان بن یزید بن تمیم ہے جو منکر الحدیث ہے

مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنِي بَحِيرُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ ابْنِ أَبِي بِلَالٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ بُسْرٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” بَيْنَ الْمَلْحَمَةِ وَفَتْحِ الْمَدِينَةِ سِتُّ سِنِينَ، وَيَخْرُجُ مَسِيحٌ الدَّجَّالُ فِي السَّابِعَةِ
عَبْدِ اللهِ بْنِ بُسْر نے روایت کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خون زیر جنگوں اور مدینہ کی فتح میں چھ سال ہیں اور ساتویں سال دجال نکلے گا

شعيب الأرنؤوط – عادل مرشد کہتے ہیں
إسناده ضعيف لضعف بقية- وهو ابن الوليد- ولجهالة ابن أبي بلال – واسمه عبد الله

مسند احمد کی حدیث ہے
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَرْطَاةَ، قَالَ: سَمِعْتُ جُبَيْرَ بْنَ نُفَيْرٍ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” فُسْطَاطُ الْمُسْلِمِينَ يَوْمَ الْمَلْحَمَةِ الْغُوطَةُ، إِلَى جَانِبِ مَدِينَةٍ يُقَالُ لَهَا: دِمَشْقُ
أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمانوں کا کیمپ ملحمہ کے دن غوطہ میں ہو گا اس شہر کی جانب جس کو دمشق کہا جاتا ہے

مسند احمد میں اس کو بعض اصحاب رسول سے مرفوع نقل کیا گیا ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «سَيُفْتَحُ عَلَيْكُمُ الشَّامُ وَإِنَّ بِهَا مَكَانًا يُقَالُ لَهُ الْغُوطَةُ، يَعْنِي دِمَشْقَ، مِنْ خَيْرِ مَنَازِلِ الْمُسْلِمِينَ فِي الْمَلَاحِمِ
اس میں رجل من اصحاب النبی کہا ہے نام نہیں لیا – بہت سے محدثین کے نزدیک یہ سند قابل قبول نہیں ہے

ان اسناد میں روایت کو مرفوع روایت کیا گیا ہے لیکن تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ محدثین کے نزدیک یہ حدیث مرفوع نہیں قول تبع التابعی ہے

مختصر سنن أبي داود از المؤلف: الحافظ عبد العظيم بن عبد القوي المنذري (المتوفى: 656 هـ) میں ہے
وقال يحيى بن معين -وقد ذكروا عنده أحاديث من ملاحم الروم- فقال يحيى: ليس من حديث الشاميين شيء أصح من حديث صدقةَ بن خالد عن النبي -صلى اللَّه عليه وسلم-: “معقل المسلمين أيام الملاحم: دمشق”.
ابن معین نے کہا اور ملاحم روم کے بارے میں حدیث ذکر کیں پھر ابن معین نے کہا شامییوں کی احادیث میں اس سے زیادہ کوئی اصح حدیث نہیں جو صدقةَ بن خالد (تبع تابعی) نے نبی صلى اللَّه عليه وسلم سے روایت کی ہے کہ ملاحم کے دنوں میں مسلمانوں کا قلعہ دمشق ہو گا

یعنی ابن معین کے نزدیک یہ روایت صحیح نہیں جیسا کہ انہوں نے ابو درداء کی روایت کا ذکر نہیں کیا

تاريخ ابن معين (رواية الدوري) میں ہے

قَالَ يحيى وَكَانَ صَدَقَة بن خَالِد يكْتب عِنْد الْمُحدثين فِي أَلْوَاح وَأهل الشَّام لَا يَكْتُبُونَ عِنْد الْمُحدثين يسمعُونَ ثمَّ يجيئون إِلَى الْمُحدث فَيَأْخُذُونَ سماعهم مِنْهُ
ابن معین نے کہا کہ صدقه بن خالد محدثین سے لکھتے تھے الواح پر اور اہل شام محدثین سے نہیں لکھتے تھے وہ بس سنتے تھے پھر محدث کے پاس جاتے اور ان سے سماع کرتے

معلوم ہوا کہ صدقه بن خالد کے لکھنے کی وجہ سے ابن معین کے نزدیک ان کی سند صحیح تھی جبکہ باقی اہل شام کی روایات پر ان کو شک تھا

ابو داود میں ہے
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا بُرْدٌ أَبُو الْعَلَاءِ، عَنْ مَكْحُولٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: “مَوْضِعُ فُسْطَاطِ الْمُسْلِمِينَ فِي الْمَلَاحِمِ أَرْضٌ يُقَالُ لَهَا الْغُوطَةُ

اس میں مکحول کوئی صحابی نہیں لیکن لوگوں نے اس سند کو بھی صحیح کہہ دیا ہے

فضائل صحابہ از احمد کے مطابق یہ قول تابعی مکحول کا تھا
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قثنا أَبُو سَعِيدٍ قثنا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ قَالَ: نا مَكْحُولٌ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «فُسْطَاطُ الْمُؤْمِنِينَ فِي الْمَلْحَمَةِ، الْغُوطَةُ مَدِينَةٌ يُقَالُ لَهَا دِمَشْقُ هِيَ خَيْرُ مَدَائِنِ الشَّامِ» .

الولید بن مسلم المتوفی ١٥٩ ھ نے ان اس روایت میں اضافہ کیا – کتاب الفتن از نعیم بن حماد میں ہے
حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ ….وَيَظْهَرُ أَمْرُهُ وَهُوَ السُّفْيَانِيُّ، ثُمَّ تَجْتَمِعُ الْعَرَبُ عَلَيْهِ بِأَرْضِ الشَّامِ، فَيَكُونُ بَيْنَهُمْ قِتَالٌ حَتَّى يَتَحَوَّلَ الْقِتَالُ إِلَى الْمَدِينَةِ، فَتَكُونُ الْمَلْحَمَةُ بِبَقِيعِ الْغَرْقَدِ»
ولید بن مسلم نے کہا سفیانی کے خروج کے بعد عرب شام میں جمع ہوں گے پھر یہ جدل و قتال مدینہ منتقل ہو گا بقیع الغرقد پر

ولید اپنے دور کی ہی بات کر رہا ہے جب بنو امیہ میں سے سفیانی کا خروج ہوا اور امام المہدی محمد بن عبد اللہ نے مدینہ میں اپنی خلافت کا اعلان سن ١٢٥ ھ میں مدینہ میں کر چکا تھا
سفیانی سے مراد يزيد بن عبد الله بن يزيد بن معاوية بن أبي سفيان ہیں اور یہ خروج سفیانی سن ١٣٣ ھ میں ہوا-

سنن ابو داود میں ہے
حدَّثنا عبد الله بن محمَّد النُّفيليُّ، حدَّثنا عيسى بن يونس، عن أبي بكر بن أبي مريم، عن الوليد بن سُفيان الغسانيِّ، عن يزيد بن قُطَيب السَّكونىِّ، عن أبي بحرية
عن معاذ بنِ جبلِ، قال: قالَ رسولُ الله – صلَّى الله عليه وسلم -: الملحمَةُ الكبرى وفتحُ القُسطنطينية وخروجُ الدجال في سَبعَة أشهر

معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بڑی خونریز جنگوں اور فتح القُسطنطينية اور خروج دجال میں سات ماہ ہیں

شعیب کہتے ہیں سند ضعیف ہے
إسناده ضعيف لضعف أبي بكر بن أبي مريم والوليد بن سفيان، ولجهالة يزيد بن قُطيب. أبو بحرية: هو عبد الله بن قيس

ابو داود نے دوسرا طرق دیا ہے اور کہا
حد ثنا حيوة بن شُرَيح الحمصيُّ، حدَّثنا بقيَّة، عن بَحِيْرٍ، عن خالدٍ، عن ابن أبي بلالٍ
عن عبدِ الله بن بُسرٍ، أن رسولَ الله – صلَّى الله عليه وسلم – قال: “بين الملحمةِ وفتح المدينة ستُّ سنينَ، ويخرج المسيحُ الدَّجالُ في السابعة”
قال أبو داود: هذا أصحُّ من حديثِ عيسى
یہ طرق عيسى بن يونس سے اصح ہے

لیکن اس طرق کو بھی شعیب نے رد کیا ہے
إسناده ضعيف لضعف بقية -وهو ابن الوليد الحمصي- وجهالة ابن أبي بلال -واسمه عبد الله- خالد: هو ابن معدان الكلاعي، وبَحِير: هو ابن سعد السَّحُولي
اور ابن ماجہ کی تعلیق میں البانی نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے

الغرض ملحمہ ایک فرضی جنگ کا قصہ ہے اور یہود کا پروپیگنڈا تھا جو ان سے نصرانییوں کو ملا اور پھر اسرائیلیات پسند کرنے والے راویوں کی وجہ سے اس کا ذکر احادیث میں شامل ہو گیا

واضح رہے کہ دنیا میں جنگیں  ہوتی رہتی ہیں – جنگ عظیم اول و دوم کا ہم کو علم ہے لیکن ان جنگوں کو مذھب کے تحت کوئی اخروی معرکہ نہیں سمجھتا – اسی طرح مستقبل کی بھی کسی بھی جنگ کو آخری معرکہ قرار دینا غیر دانشمندی ہے
مسلمانوں کے دانشمند اسی قسم کے مغالطے دیتے رہے ہیں مثلا عباسی خلیفہ واثق پر یاجوج ماجوج کا اتنا اثر ہوا کہ خواب میں دیکھا کہ ان کا خروج ہو گیا ہے فورا ایک شخص کو بھیجا کہ جا کر خبر لائے اور اس شخص نے جا کر یاجوج ماجوج کو بھی دیکھ لیا -یا للعجب –  اسی طرح تاتاریوں کے حملے کو بھی خروج یاجوج موجوج سمجھ کر ان سے جنگ نہ کی گئی – ان کا اتنا رعب بیٹھا کہ تلوار تک نہ اٹھا سکے

عصر حاضر میں اصل میں یہود یہ چاہتے ہیں کہ ملحمہ ہو جس کا ذکر اصل میں ان کی کتب میں موجود ہے – یہ کوئی نئی بات نہیں ایسا یہودی کرتے آئے ہیں قرآن میں ہے
كُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ المائدة:64
جب بھی یہ جنگ کی اگ بھڑکاتے ہیں اللہ اس کو بجھا دیتا ہے

سوال ہے کہ یہود ایسا کیوں کرتے ہیں ؟ تو اس کا جواب راقم نے یہود کی کتب میں پڑھا ہے کہ اس کا مقصد ہے کہ اللہ کو نعوذ باللہ مجبور کیا جائے کہ وہ اصلی مسیح کو ظاہر کرے

اللہ سب مسلمانوں کو کفار کے شر سے اور فتنوں سے محفوظ رکھے

زمین یقینا الٹی گھومنے والی ہے

سائنس دانوں نے نوٹ کیا ہے کہ زمین کا شمالی قطب حرکت میں آ گیا ہے اور اس کی رفتار بڑھ رہی ہے اور قطب شمالی پر مقناطیسی کشش کم ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے – اگر ایسا ہوا تو یک دم قطب شمالی ، قطب جنوبی میں بدل جائے گا – راقم کہتا ہے اگر قبطین پلٹ جائیں تو مقناطیسی کشش میں تبدیلی سے زمین الٹی گھومے گی

اس وقت تمام عالم میں تمام مقناطیس بدل جائیں گے اور بجلی بنانے کے پلانٹ کام کرنا چھوڑ دیں گے اور آپ کے فون ، کمپیوٹر ، سیٹلائٹ بھی بند ہو جائیں گے – تمام مواصلاتی نظام ٹھپ ہو جائے گا

انسانوں میں کینسر بڑھ جائے گا کیونکہ مقناطیسی قوت کچھ عرصہ کے لئے کم ہو گی اور اس دوران سورج کی ریڈیشن یا تپش جلد کو متاثر کرے گی ، زمین پر بعض فصلیں سورج کی تپش سے بھسم ہو جائیں گی اور جھیلیں سوکھنے لگیں گی

سب سے زیادہ پریشان پرندے ہوں گے جو زمین کی مقناطیسی قوت سے رستوں کا تعیین کرتے ہیں

سن ٢٠٢١ میں اس مضمون میں بھی خبردار کیا گیا ہے

لنک

اس کا مطلب ہے کہ زمین اپنی مدت پوری کر رہی ہے اور اس خبر کا وقوع قریب ہے  جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی

صحیح بخاری میں ہے
حَدَّثَنا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَاحِدِ، حَدَّثَنَا عُمَارَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو زُرْعَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا، فَإِذَا رَآهَا النَّاسُ آمَنَ مَنْ عَلَيْهَا، فَذَاكَ حِينَ: {لاَ يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ} [الأنعام: 158] ” , (خ) 4635
رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا
قیامت قائم نہ ہو گی حتی کہ سورج مغرب سے طلوع ہو گا جب لوگ اس کو دیکھیں گے ایمان لائیں گے (سورہ الانعام کی آیت پڑھی) لیکن ان کو ایمان نفع نہ دے گا اگر اس سے قبل ایمان نہ لائے

مقناطیسی کشش میں تبدیلی سے زمین میں اندر موجود دابه الارض جاگ اٹھے گا اور زمین کو چیرتا ہوا باہر کوہ صفا پر نکلے گا

قرآن سوره نمل میں ہے

وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآَيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ
جب ہمارا قول ان پر واقع ہو گا ہم زمین سے جانور کو نکالیں گے جو لوگوں سے کلام کرے گا کہ وہ ہماری آیات پر یقین و ایمان  نہ لائے

صحیح مسلم میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا لَمْ أَنْسَهُ بَعْدُ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ أَوَّلَ الْآيَاتِ خُرُوجًا، طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا، وَخُرُوجُ الدَّابَّةِ عَلَى النَّاسِ ضُحًى، وَأَيُّهُمَا مَا كَانَتْ قَبْلَ صَاحِبَتِهَا، فَالْأُخْرَى عَلَى إِثْرِهَا قَرِيبًا»،
عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث سنی جس کو بھلا نہ سکا میں نے سنا فرمایا
سب سے پہلی نشانی ہے سورج کا مغرب سے طلوع ہونا اور دابه الارض کا چاشت کے وقت پر نکلنا جن میں ایک پہلے ہوئی تو دوسری فورا ظاہر ہو گی

المقصد العلي في زوائد أبي يعلى الموصلي از الهيثمي (المتوفى: 807هـ) کی رویات ہے
حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَامِرٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ فَذَكَرَ بِهَذِهِ التَّرْجَمَةِ أَحَادِيثَ يَقُولُ فِيهَا: وَبِهِفَمِنْهَا: عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ قَالَ: أَلا أُرِيكُمُ الْمَكَانَ الَّذِي قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ دَابَةَ الأَرْضِ تَخْرُجُ مِنْهُفَضَرَبَ بِعَصَاهُ الشِّقَّ الَّذِي فِي الصَّفَا
ابْنِ عُمَرَ نے کہا میں تم کو مکان دکھا دوں جس کے لئے رسول الله نے فرمایا یہاں سے دابه الارض نکلے گا پس انہوں نے کوہ صفا پر اپنے عصا سے ضرب لگائی

انسان کے مسلسل پٹرول و معدنیات زمین سے نکالنے کی بنا پر زمین اندر سے کھوکلی ہو رہی ہے اور سطح پر بھاری ہو رہی ہے لہذا اب یہ دھنسے گی  اور تین مقام پر عظیم خسف کی خبر حدیث سے  مل چکی ہے – ممکن ہے قطب شمالی کا حرکت میں آ جانا  بھی اسی بنا پر ہو رہا ہو کہ زمین کی اندرونی ساخت بدل رہی ہے
و اللہ اعلم

اللہ ایمان پر موت دے امین

========

https://www.nature.com/articles/d41586-019-00007-1

 

==============================================================================

Earth will spin clockwise

Scientists have noted that the Earth’s North Pole is moving and its movement is increasing, and the risk of magnetic attraction at the North Pole is increasing – if this happens, the North Pole will suddenly change to the South Pole – Author says if the poles flip, the Earth will rotate in the opposite direction due to changes in magnetic attraction.

At this time, all magnets in the world will change and power plants will stop working, and your phones, computers, satellites will also shut down – all communication systems will stop.

Cancer in humans will increase because the magnetic force will decrease for some time and during this time the sun’s radiation or heat will affect the skin, some crops on Earth will be burnt by the sun’s heat and lakes will start to dry up.

The most troubled will be birds that determine routes from the Earth’s magnetic force.

In 2021, this topic was also warned about in this article. [Link]

This means that the Earth is completing its term and the occurrence of this news is near, which the Messenger of Allah, peace be upon him, gave.

It is in Sahih Bukhari:

Narrated Abdullah bin Amr: I memorized a Hadith of the Prophet which I have never forgotten. I heard the Prophet saying, “The first sign (of the Hour) will be the appearance of the sun from the West, and the emergence of the Beast on the people in the forenoon. Whichever of them appears first will soon be followed by the other.”

The Messenger of Allah, peace be upon him, said: “The Hour will not be established until the sun rises from the West, and when people see it, they will all believe. But that will be the time when: ‘No good will it do to a soul to believe then, if it believed not before.’ (6:158)”

Due to changes in magnetic attraction, the Dabbat al-Ardh present inside the Earth will wake up and will come out tearing the Earth at Mount Safa.

It is in the Quran, Surah An-Naml:

“And when the Word is fulfilled against them (the unjust), we shall produce from the earth a beast to (face) them: He will speak to them, for that mankind did not believe with assurance in Our Signs.”

It is in Sahih Muslim:

Narrated Abdullah bin Amr: I memorized a Hadith of the Prophet which I have never forgotten. I heard the Prophet saying, “The first sign (of the Hour) will be the appearance of the sun from the West, and the emergence of the Beast on the people in the forenoon. Whichever of them appears first will soon be followed by the other.”

Ibn Umar said: “Shall I show you the place from which the Beast of the Earth will emerge?” Then he struck with his staff the crack which is in Safa.

Due to the continuous extraction of petroleum and minerals from the Earth by humans, the Earth is becoming hollow from the inside and heavy on the surface, so now it will sink, and the news of a great sinkhole in three places has already been received from Hadith – it is possible that the movement of the North Pole is also happening because the internal structure of the Earth is changing.

And Allah knows best.

May Allah grant death on faith. Amen.

 

غزوہ ہند والی روایات

اہل کتاب ميں يہود کے علماء کا موقف ہے کہ دانيال ايک صوفي تھا نبي و رسول نہيں تھا جبکہ نصراني اس کو رسول کا درجہ ديتے ہيں – نصرانييوں کي يہ روايت مسلمانوں نے قبول کر لي کہ دانيال کوئي نبي تھا – البتہ بائبل میں موجود کتاب دانيال ميں تاريخ کي غلطياں ہيں – جس شخص نے اس کتاب کو گھڑا اس نے بادشاہوں کے نام تک غلط لکھے ہيں ان کے ادوار بھي غلط بيان کيے ہيں لہذا اب اہل کتاب بھي يہ کہہ رہے ہيں کہ کتاب دانيال ايک گھڑي ہوئي کتاب ہے

دانیال کے نام سے بہت سی اور کتب بھی ہیں جن کو گھڑی ہوئی قرار دیا گیا ہے – ان میں سے ایک کتاب سے مسلمانوں کا سابقہ دور عمر رضی اللہ عنہ ميں ہوا جب فارس سے جنگ کے دوران ايک لاش ملي جس پر ايک کتاب رکھي ہوئي تھي – جنگ ميں  شامل بصري ابو العاليہ نے بتايا کہ اس کو لگا يہ کوئي نبي دانيال ہے – راقم کہتا ہے يہ مغالطہ بصريوں کو اپني لا علمي سے ہوا کيونکہ جب فارسيوں سے پوچھا گيا کہ يہ شخص کب مرا تو انہوں نے تين سو سال بتايا اور يہ معلوم ہے کہ رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم اور عيسي عليہ السلام کے بيچ يہود پر کوئي نبي مبعوث نہيں ہوا – ليکن تاريخ سے لا علم لوگوں نے اس لاش کو نبي کي ميت قرار ديا اور ملنے والي کتاب کو دانيال کی کتاب قرار ديا – راقم کہتا ہے نہ تو يہ لاش کسي نبي کي تھي نہ يہ  کتاب کوئي منزل من اللہ تھي – ابو عاليہ نے ليکن خبر دي

فأخذنا المصحف فحملنا إلى عمر بن الخطاب فدعا له كعباً فنسخه بالعربية فأنا أول رل من العرب قرأته مثلما أقرأ القرآن هذا فقلت لأبي العالية: ما كان فيه ؟ فقال سيرتكم وأموركن ولحون كلامكم وما هو كائن بعد
ہم نے وہ مصحف اٹھا کر اميرالمومنين عمر کے پاس پہنچا ديا عمر نے کعب الاحبار کو طلب کيا اور کعب نے اس کو عربي ميں لکھ ديا ابوالعاليہ نے کہا ميں پہلا شخص تھا جس نے وہ صحيفہ پڑھا- أبي خلدة بن دينار نے ابوالعاليہ سے پوچھا کہ اس  صحيفے ميں کيا لکھا تھا؟ کہا: تمہاري سب سيرت تمہارے تمام امور اور تمہارے کلام کے لہجے تک اور جو کچھ آئندہ پيش آنے والا ہے
دلائل النبوه از بيہقي

ابوالعاليہ اور اس کے قبيل کے غير محتاط لوگوں نے اس کتاب کے مندرجات کو پھيلانا شروع کر ديا

اب اپ تصوير کا دوسرا رخ ديکھيں- مصنف عبد الرزاق ميں ہے

عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ قَالَ: كَانَ يَقُولُ بِالْكُوفَةِ رَجُلٌ يَطْلُبُ كُتُبَ دَانْيَالَ، وَذَاكَ الضِّرْبَ، فَجَاءَ فِيهِ كِتَابٌ مِنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنْ يُرْفَعَ إِلَيْهِ، فَقَالَ الرَّجُلُ: مَا أَدْرِي فِيمَا رُفِعْتُ؟ فَلَمَّا قَدِمَ عَلَى عُمَرَ عَلَاهُ بِالدِّرَّةِ، ثُمَّ جَعَلَ يَقْرَأُ عَلَيْهِ {الر تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِ} [يوسف: 1]، حَتَّى بَلَغَ {الْغَافِلِينَ} [يوسف: 3] قَالَ: «فَعَرَفْتُ مَا يُرِيدُ»، فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، دَعْنِي، فَوَاللَّهِ مَا أَدَعُ عِنْدِي شَيْئًا مِنْ تِلْكَ الْكُتُبِ إِلَّا حَرَقْتُهُ قَالَ: ثُمَّ تَرَكَهُ
إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ نے کہا کوفہ ميں ايک رجل ہوتا تھا جو دانيال کي کتابيں مانگتا تھا … پس عمر رضي الله عنہ کا خط آيا کہ اس( کے پاس) سے اٹھ جاؤ – پس اس شخص نے کہا کيا معلوم کيا اٹھا؟ پس جب عمر کے پاس گيا اس کو عمر نے درے لگائے پھر { الر تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِ} [يوسف: 1]، حَتَّى بَلَغَ {الْغَافِلِينَ} [يوسف: 3] قرات کي اور کہا پس تو جان گيا ميں کيا چاہ رہا تھا- اس نے کہا امير المومنين مجھے جانے ديں الله کو قسم ميں اس کتاب کو جلا دوں گا کہا پس انہوں نے اس کو چھوڑ ا

عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي الرَّبَابِ الْقُشَيْرِيِّ قَالَ: ” كُنْتُ فِي الْخَيْلِ الَّذِينَ افْتَتَحُوا تُسْتَرَ، وَكُنْتُ عَلَى الْقَبْضِ فِي نَفَرٍ مَعَيْ، فَجَاءَنَا رَجُلٌ بِجَوْنَةٍ، فَقَالَ: تَبِيعُونِي مَا فِي هَذِهِ؟ فَقُلْنَا: نَعَمْ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ ذَهَبًا، أَوْ فِضَّةَ، أَوْ كِتَابَ اللَّهِ قَالَ: فَإِنَّهُ بَعْضُ مَا تَقُولُونَ، فِيهَا كِتَابٌ مِنْ كُتُبِ اللَّهِ قَالَ: فَفَتَحُوا الْجَوْنَةَ فَإِذَا فِيهَا كِتَابُ دَانِيَالَ فَوَهَبُوهُ لِلرَّجُلِ، وَبَاعُوا الْجَوْنَةَ بِدِرْهَمَيْنِ قَالَ: فَذَكَرُوا أَنَّ ذَلِكَ الرَّجُلَ أَسْلَمَ حِينَ قَرَأَ الْكِتَابَ ”

أَبِي الرَّبَابِ الْقُشَيْرِيِّ نے کہا ميں گھوڑے پر تھا جب تستر فتح ہوا اور ميں ايک نفر پر قابض تھا پس ايک آدمي آيا اور کہا ميرے ساتھ آؤ يہ تحرير کيا ہے ہم نے کہا ہاں خبر دار يہ تو سونا (کتاب پر لگا) ہے يا چاندي ہے يا کوئي کتاب الله ہے کہا پس انہوں نے کہا يہ کتاب الله ميں سے کوئي ايک ہے پس تحرير کو کھولا تو ديکھا دانيال کي کتاب ہے پس وہ شخص ڈر گيا اور اس تحرير کو دو درہم ميں فروخت کر ديا اور کہا وہ شخص مسلمان ہو گيا

دانيال سے منسوب وہ کتاب بازار ميں کوڑي کے دام بيچ دي گئي اور بعد ميں جو بھي اس قسم کا کوئي مصحف پڑھتا اس کو درے لگتے اور ان کو جلا دينے کا حکم تھا- دوسري طرف لوگ بيان کرتے رہے کہ عمر رضي الله عنہ نے اس کے ترجمہ کا کعب کو کہا اور ابو عاليہ نے اس کو پڑھا – ابو عاليہ کے نزديک اس ميں مسلمانوں کے اختلاف کا ذکر تھا ؟ يا للعجب – ابو عاليہ ايک نمبر کے چھوڑو انسان تھے – انہوں نے دعوي کيا کہ يہ اس کتاب دانيال کا ترجمہ عمر رضي الله عنہ کے حکم پر کعب الاحبار نے کيا جو انہوں نے سب سے پہلے پڑھا اور جانا کہ اس امت محمد ميں کيا کيا فتنے ہوں گے – راقم کہتا ہے يہ سازش ہے کہ اھل کتاب کے قرب قيامت کو اسلام کے قرب قيامت سے ملا ديا جائے – ابو عاليہ ياد رہے يہ واقعہ غرانيق کے بھي راوي ہيں يعني رسول الله صلي اللہ عليہ وسلم الصادق و الامين پر قراني آيات ميں شيطاني القا کي روايت بھي کرتے تھے- يہ ان کے علم کے مصادر ہيں

بہر حال عمر رضي اللہ عنہ کے سخت آڈر کي بنا پر کعب الاحبار اس کتاب کو لے کر شام بھاگ گئے اور وہاں انہوں نے اس کتاب کي روايات کو پھيلانا شروع کر ديا جن ميں سے بہت سي اب کتاب الفتن نعيم بن حماد ميں ہيں اور اس کا عنقريب ترجمہ اردو ميں انے والا ہے جو مزيد گمراہي کا سبب بنے گا

کعب احبار اور ابو ہريرہ رضي اللہ عنہ چونکہ سابقہ اہل کتاب ميں سے تھے ان کے اپس ميں اچھے مراسم تھے اور تبادلہ خيالات ہوتا رہتا تھا – بہت سي باتيں جو کعب سے ابو ہريرہ کو مليں ان کو جب لوگوں کو انہوں نے بتايا تو لوگ ان کو حديث رسول سمجھ بٹھے – اس کا ذکر امام مسلم نے اپني کتاب التميز ميں کيا ہے

حَدثنَا عبد الله بن عبد الرَّحْمَن الدَّارمِيّ ثَنَا مَرْوَان الدِّمَشْقِي عَن اللَّيْث بن سعد حَدثنِي بكير بن الاشج قَالَ قَالَ لنا بسر بن سعيد اتَّقوا الله وتحفظوا من الحَدِيث فوَاللَّه لقد رَأَيْتنَا نجالس أَبَا هُرَيْرَة فَيحدث عَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم عَن كَعْب وَحَدِيث كَعْب عَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم
بكير بن الاشج نے کہا ہم سے بسر بن سعيد نے کہا : الله سے ڈرو اور حديث ميں حفاظت کرو – الله کي قسم ! ہم ديکھتے ابو ہريرہ کي مجالس ميں کہ وہ رسول الله صلي الله عليہ وسلم سے روايت کرتے اور وہ (باتيں) کعب ( کي ہوتيں) اور ہم سے کعب الاحبار ( کے اقوال) کو روايت کرتے جو حديثيں رسول الله سے ہوتيں

اس بنا پر اکابر تابعين صحابي ابو ہريرہ کي تمام روايات نہيں ليتے تھے – احمد العلل ميں کہتے ہيں
وقال عبد الله: حدثني أبي. قال: حدثنا أبو أسامة، عن الأعمش. قال: كان إبراهيم صيرفيا في الحديث، أجيئه بالحديث. قال: فكتب مما أخذته عن أبي صالح، عن أبي هريرة. قال: كانوا يتركون أشياء من أحاديث أبي هريرة. «العلل» (946) .
احمد نے کہا ابو اسامہ نے کہا اعمش نے کہا کہ ابراھيم النخعي حديث کے بدلے حديث ليتے – وہ حديث لاتے – اعمش نے کہا پس انہوں نے لکھا جو ميں نے ابو صالح عن ابو ہريرہ سے روايت کيا – اعمش نے کہا : ابراھيم النخعي، ابوہريرہ کي
احاديث ميں چيزوں کو ترک کر ديتے

بہر حال کعب احبار اور پھر ابو ہريرہ رضي اللہ عنہ نے اسلام ميں اسرائيليات کو متعارف کرايا اور يہ خاص کر فتن کے باب ميں ہوا – اس حوالے سے ايک غزوہ ہند کا ذکر آجکل بہت زور و شور سے سننے ميں آ رہا ہے – ہند کا ذکر بائبل ميں صرف دو مقام پر ہے اور صرف کتاب استار ميں ہے کہ فارس کي مملکيت ہند ميں بھي تھي – ليکن کعب احبار تک نے ہند سے جنگ کا ذکر کيا ہے جو اسي کتاب کا اثر لگتا ہے جو فتح فارس ميں ملي تھي

کتاب الفتن از نعيم ميں ہے
حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، عَمَّنْ حَدَّثَهُ عَنْ كَعْبٍ، قَالَ: «يَبْعَثُ مَلِكٌ فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ جَيْشًا إِلَى الْهِنْدِ فَيَفْتَحُهَا، فَيَطَئُوا أَرْضَ الْهِنْدِ، وَيَأْخُذُوا كُنُوزَهَا، فَيُصَيِّرُهُ ذَلِكَ الْمَلِكُ حِلْيَةً لَبَيْتِ الْمَقْدِسِ، وَيُقْدِمُ عَلَيْهِ ذَلِكَ الْجَيْشُ بِمُلُوكِ الْهِنْدِ مُغَلَّلِينَ، وَيُفْتَحُ لَهُ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، وَيَكُونُ مَقَامُهُمْ فِي الْهِنْدِ إِلَى خُرُوجِ الدَّجَّالِ» کعب نے کہا کہ بيت المقدس کے بادشاہ کي جانب سے ہندوستان کي جانب لشکر روانہ کيا جائے گا پس ہند کو پامال کيا جائے گا اور اس کے خزانوں پر قبضہ کريں گے اور اس سے بيت المقدس کو سجائيں گے وہ لشکر ہند کے بادشاہوں کو بيڑيوں ميں جکڑ
کر لائے گا اور مشرق و مغرب فتح کرے گا اور دجال کا خروج ہو گا

اس کي سند ميں الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ اور کعب کے درميان مجھول راوي ہے جس کا نام تک نہيں ليا گيا-

يہي بات ابو ہريرہ سے بھي مروي ہے

کتاب الفتن از نعيم بن حماد کي روايت ہے

حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ صَفْوَانَ، عَنْ بَعْضِ الْمَشْيَخَةِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَضِيَ الله عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذَكَرَ الْهِنْدَ، فَقَالَ: «لَيَغْزُوَنَّ الْهِنْدَ لَكُمْ جَيْشٌ، يَفْتَحُ الله عَلَيْهِمْ حَتَّى يَأْتُوا بِمُلُوكِهِمْ مُغَلَّلِينَ بِالسَّلَاسِلِ، يَغْفِرُ الله ذُنُوبَهُمْ، فَيَنْصَرِفُونَ حِينَ
يَنْصَرِفُونَ فَيَجِدُونَ ابْنَ مَرْيَمَ بِالشَّامِ» قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: إِنْ أَنَا أَدْرَكْتُ تِلْكَ الْغَزْوَةَ بِعْتُ كُلَّ طَارِفٍ لِي وَتَالِدٍ وَغَزَوْتُهَا، فَإِذَا فَتْحَ الله عَلَيْنَا وَانْصَرَفْنَا فَأَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ الْمُحَرِّرُ، يَقْدَمُ الشَّامَ فَيَجِدُ فِيهَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ، فَلَأَحْرِصَنَّ أَنْ أَدْنُوَ مِنْهُ فَأُخْبِرُهُ أَنِّي قَدْ صَحِبْتُكَ يَا رَسُولَ الله، قَالَ:  فَتَبَسَّمَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضَحِكَ، ثُمَّ قَالَ: «هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ»

بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيد ، صَفْوَانَ سے وہ اپنے بعض مشائخ سے وہ ابو ہريرہ رضي الله عنہ سے روايت کرتے ہيں کہ
ضرور تمہارا ايک لشکر الھند سے جنگ کرے گا الله ان مجاہدين کو فتح عطا کرے گا حتي کہ وہ ان ہندووں کے بادشاہوں کو بيڑيوں ميں جکڑ کر لائيں گے اور الله ان کي مغفرت کرے گا پھر جب مسلمان واپس جائيں گے تو عيسي ابن مريم کو شام ميں پائيں گے- ابو بريرہ نے کہا اگر ميں نے اس جنگ کو پايا تو نيا، پرانا مال سب بيچ کر اس ميں شامل ہوں گا پس جب الله فتح دے گا اور ہم واپس ہوں گے تو ميں عيسي کو شام ميں پاؤں گا اس پر ميں با شوق ان کو بتاؤں گا کہ ميں اے رسول الله آپ کے ساتھ تھا- اس پر رسول الله صلي الله عليہ وسلم مسکرائے اور ہنسے اور کہا بہت مشکل مشکل

بقية بن الوليد بن صائد مدلس ہيں جو ضعيف اور مجھول راويوں سے روايت کرنے پر بدنام ہيں اس ميں بھي عن سے روايت کرتے ہيں اور کتاب المدلسن کے مطابق تدليس التسوية تک کرتے ہيں يعني استاد کے استاد تک کو ہڑپ کر جاتے ہيں صَفْوَانَ کا اتا پتا نہيں جس سے يہ سن کر بتا رہے ہيں اور وہ اپنے مشائخ کا نام تک نہيں ليتے

مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث   ہے

أخبرنا يحيى بن يحيى أنا إسماعيل بن عياش عن صفوان بن عمرو السكسكي عن شيخ عن أبي هريرة رضي الله عنه قال ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما الهند فقال ليغزون جيش لكم الهند فيفتح الله عليهم حتى يأتوا بملوك السند مغلغلين في السلاسل فيغفر الله لهم ذنوبهم فينصرفون حين ينصرفون فيجدون المسيح بن مريم بالشام قال أبو هريرة رضي الله عنه فإن أنا أدركت تلك الغزوة بعت كل طارد وتالد لي وغزوتها فإذا فتح الله علينا انصرفنا فأنا أبو هريرة المحرر يقدم الشام فيلقى المسيح بن مريم فلأحرصن أن أدنوا منه ( نمبر 462)

صفوان بن عمرو السكسكي نے ایک شیخ (مجہول) سے وہ  ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ہندوستان کا ذکر فرمایا اور بتایا کہ ایک لشکر ہندوستان میں جہاد کرے گا اور اللہ انہیں فتح عطا فرمائے گا یہاں تک کہ ، سندھ کے بادشاہوں کو وہ زنجیروں میں جکڑ کر لائیں گے۔ اللہ ان کے گناہ معاف فرما دے گا، پھر وہ پلٹیں گے تو شام میں حضرت عیسی علیہ السلام کو پائیں گے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اگر میں اس وقت ہوا تو اپنا سب کچھ بیچ کر اس میں شریک ہوں گا۔ اگر اللہ نے ہمیں فتح دی اور ہم واپس آئے تو میں آزاد ابوہریرہ ہو کر شام آؤں گا۔ میں سب سے زیادہ لالچی ہوں کہ وہاں حضرت عیسی بن مریم علیہ الصلوۃ والسلام سے ملوں۔

اس کی سند میں مجہول شیخ ہے

کتاب الفتن از نعيم ميں اس کو مجہول الحال لوگوں کي سند سے بھي اس کو رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم سے منسوب کيا گيا ہے
حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، ثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو، عَمَّنْ حَدَّثَهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «يَغْزُو قَوْمٌ مِنْ أُمَّتِي الْهِنْدَ، يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ حَتَّى يَأْتُوا بِمُلُوكِ الْهِنْدِ مَغْلُولِينَ فِي السَّلَاسِلِ، فَيَغْفِرُ اللَّهُ لَهُمْ ذُنُوبَهُمْ، فَيَنْصَرِفُونَ إِلَى الشَّامِ، فَيَجِدُونَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ بِالشَّامِ»

صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو نے کسي سے روايت کيا اس نے رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم سے روايت کيا ميري امت کي ايک قوم ہند سے جنگ کرے گي اللہ ان کو فتح ديا گا يہاں تک کہ وہ ہند کے بادشاہوں کو بيڑيوں ميں لائيں گے اللہ ان کے گناہ معاف کر دے گا پھر يہ شام کي طرف پلٹيں گے تو وہاں عيسي ابن مريم کو پائيں گے

مسند احمد کي روايت ہے
حدثنا هُشيم عن سَيَّار عن جَبْر بن عَبِيدَة عن أبي هريرة، قال: وعدَناِ رسول الله – صلى الله عليه وسلم – في غزوة الهند، فإن اسْتُشْهِدْتُ كنتُ من خير الشهداء، وإن رجعت فأنا أبو هريرة المُحَرَّرَةُ.
جَبْر بن عَبِيدَة ، أبي هريرة سے روايت کرتے ہيں رسول الله صلي الله عليہ وسلم نے غزوہ ہند کا وعدہ کيا پس اگر اس کو پاؤ تو ميں سب سے بہتر شہداء ميں سے ہوں گا

الذھبي کتاب ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين ميں کہتے ہيں جبر بن عبيدة، أو جبير: عن أبي هريرة، مجهول

ابن حجر کا قول ہے

“لا يعرف”. “اللسان” (8/ 246). نہیں جان سکا  

احمد شاکر نے اس روايت کو صحيح کہا ہے ليکن انہوں نے اس کي کوئي بھي مظبوط دليل نہيں دي بلکہ يہ راوي مجھول ہے اس کي نہ توثيق ہے نہ جرح اور ايسے راويوں کو مجھول ہي کہا جاتا ہے اس کي مثاليں اتني زيادہ ہيں کہ بے حساب – لہذا يہ روايت صحيح نہيں – الباني اور شعيب الأرناؤوط بھي اس کو ضعيف الإسناد کہتے ہيں اسي راوي کي سند سے سنن الکبري نسائي ، مستدرک حاکم، سنن الکبري البيہقي بَابُ مَا جَاءَ فِي قِتَالِ الْهِنْدِ ميں روايت ہوئي ہے

تہذیب التہذیب از ابن حجر میں ہے

جبر بن عبيدة  الشاعر روى عن أبي هريرة وعدنا رسول الله صلى الله عليه وسلم غزوة الهند الحديث روى عنه سيار أبو الحكم وقال بعضهم جبير بن عبيدة قلت هذا وقع في بعض النسخ من كتاب الجهاد من النسائي حكاه بن عساكر وذكره الجمهور بإسكان الباء قرأت بخط الذهبي لا يعرف من ذا والخبر منكر انتهى وذكره بن حبان في الثقات

ابن حجر نے کہا  میں نے الذھبی کی تحریر دیکھی کہ  میں اس کو نہیں جانتا اور یہ خبر (کتاب الجہاد والی ) منکر ہے 

مسند احمد کي روايت ہے
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ، أَخْبَرَنَا الْبَرَاءُ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي خَلِيلِي الصَّادِقُ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: «يَكُونُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْثٌ إِلَى السِّنْدِ وَالْهِنْدِ، فَإِنْ أَنَا أَدْرَكْتُهُ فَاسْتُشْهِدْتُ فَذَاكَ، وَإِنْ أَنَا فَذَكَرَ كَلِمَةً رَجَعْتُ وَأَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ الْمُحَرَّرُ قَدْ أَعْتَقَنِي مِنَ النَّارِ

ابو ھريرہ کہتے ہيں ميرے دوست رسول الله نے مجھے بتايا کہ اس امت ميں سند اور ہند کي طرف روانگي ہو گي اگر کوئي اس کو پائے تو ٹھيک اور اگر واپس پلٹ آئے تو ميں ابو بريرہ ايک محرر ہوں گا جس کو الله جہنم سے آزاد کر دے گا

شعيب الأرناؤوط اس کو إسناده ضعيف کہتے ہيں

کتاب الجہاد از ابن ابي عاصم ميں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو الْجَوْزَاءِ أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ – وَكَانَ مِنْ نُسَّاكِ أَهْلِ الْبَصْرَةِ – قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ قَالَ: حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ كِنَانَةَ بْنِ نُبَيْهٍ مَوْلَى صَفِيَّةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: «وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ غَزْوَةَ الْهِنْدِ، فَإِنْ أُدْرِكْهَا أُنْفِقْ فِيهَا نَفْسِي وَمَالِي، فَإِنْ قُتِلْتُ كُنْتُ كَأَفْضَلِ الشُّهَدَاءِ، وَإِنْ رَجَعْتُ فَأَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ الْمُحَرَّرُ»
كِنَانَةَ بْنِ نُبَيْهٍ مَوْلَى صَفِيَّةَ پر ابن حجر نے لکھا ہے “التهذيب “: ذكره الأزدي في “الضعفاء ” اور کہا : لا يقوم إسناده حديثه.

سنن نسائي ميں انہي سندوں کو الباني نے ضعيف الإسناد قرار ديا ہے

یہ تو تھیں غزوہ ہند سے متعلق کعب احبار اور ابو ہریرہ کی روایات – اب ہم چند سندوں کا ذکر کریں گے جو شامی راویوں الجراح بن مليح، أبو عبد الرحمن البهراني الشامي، من أهل حمص المتوفی ١٩٣ ھ اور بقية بن الوليد بن صائد الحمصى المتوفی ١٩٧ هـ نے ثوبان رضی اللہ عنہ سے منسوب کی ہیں -یعنی اس سند میں اہل حمص شام کا تفرد ہے

طبراني کتاب الکبير ميں حديث نقل کرتے ہيں
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي زُرْعَةَ الدِّمَشْقِيُّ، ثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، ثَنَا الْجَرَّاحُ بْنُ مَلِيحٍ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ
ح
وَحَدَّثَنَا خَيْرُ بْنُ عَرَفَةَ، ثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، ثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ عَبْدِ الله بْنِ سَالِمٍ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ، حَدَّثَنِي لُقْمَانُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَدِيٍّ الْبَهْرَانِيُّ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” عِصَابَتَانِ مِنْ أُمَّتِي أَحْرَزَهُمَا الله مِنَ النَّارِ: عِصَابَةٌ تَغْزُو الْهِنْدَ،
وَعِصَابَةٌ تَكُونُ مَعَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ثوبان رضي الله عنہ روايت کرتے ہيں کہ رسول الله صلي الله عليہ وسلم نے فرمايا ميري امت کے دو گروہ ہيں جن کو الله اگ سے بچائے گا ايک وہ جو ہند سے لڑے گا اور دوسرا وہ جو عيسي ابن مريم کے ساتھ ہو گا

ثوبان المتوفي 54 ھ نبي صلي الله عليہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے ، ان کو ثوبان النَّبَوِيُّ رضي الله عنہ کہا جاتا ہے- يہ شام ميں رملہ ميں مقيم رہے کتاب سير الاعلام النبلاء کے مطابق

وَقَالَ مُصْعَبٌ الزُّبَيْرِيُّ: سَكَنَ الرَّمْلَةَ، وَلَهُ بِهَا دَارٌ، وَلَمْ يُعْقِبْ، وَكَانَ مِنْ نَاحِيَةِ اليَمَنِ.

اور مُصْعَبٌ الزُّبَيْرِيُّ کہتے ہيں يہ الرَّمْلَةَ ميں رہے جہاں ان کا گھر تھا اور واپس نہيں گئے اور يہ يمني تھے – تاريخ الکبير از امام بخاري کے مطابق ثوبان رضي الله عنہ سے سننے کا دعوي کرنے والے عَبد الأَعلى بْنُ عَدِي، البَهرانِيّ، قَاضِي حِمص ہيں جو١٠٤ ھ ميں فوت ہوئے ہيں – ان کي توثيق متقدمين ميں سے صرف ابن حبان نے کي ہے ان سے سننے والے لقمان بن عامر الوصابى يا الأوصابى المتوفي 120 ھ ہيں ان کا درجہ صدوق کا جو ثقاہت کا ادني درجہ ہے- ہے اور أبو حاتم کہتے ہيں يكتب حديثه ان کي حديث لکھ لي جائے – عموما يہ الفاظ اس وقت بولے جاتے ہيں جب راوي کي توثيق اور ضيف ہونے پر کوئي رائے نہ ہو اور ان کے ساتھ ايسا ہي معاملہ ہے – ان سے سنے والے مُحَمَّد بْن الوليد الزُّبَيْدِيُّ المتوفي 149 ھ ہيں جو ثقہ ہيں- اور الجراح بن مليح  حمصی ہے جو ضعیف ہے 

الباني نے الصحيحہ ميں سنن نسائي کي سند کا ذکر کر کے اس سند کو صحيح قرار ديا ہے

عن بقية بن الوليد حدثنا عبد الله بن سالم وأبو بكر بن الوليد الزبيدي عن محمد بن الوليد الزبيدي عن لقمان بن عامر الوصابي عن عبد الأعلى بن عدي البهراني عن ثوبان مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن النبي صلى الله عليه وسلم.

الباني کا کہنا ہے کہ يہاں دو راوي ہيں جو مقرونا روايت کر رہے ہيں ايک ثقہ ہے اور ايک مجہول ہے
وهذا إسناد جيد رجاله ثقات غير أبي بكر الزبيدي فهو مجهول الحال لكنهمقرون هنا مع عبد الله بن سالم وهو الأشعري الحمصي، ثقة من رجال البخاري.

اس کے بعد الباني نے اس طرق کو صحيحہ 1934 ميں درج کر کے اس کو صحيح قرار ديا ہے – اسي طرح اس کو صحيح الجامع ح (4012) ميں صحيح قرار ديا ہے – الباني نے سنن نسائي ح 3175 کے تحت اس کو صحيح قرار ديا ہے – شعيب
الأرنؤوط نے مسند احمد کي تعليق ميں اس سند کو حسن قرار ديا ہے

راقم کہتا ہے يہ طرق اشکال سے خالي نہيں ہے
مسند الشاميين کي سند ہے
ثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَالِمٍ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ، حَدَّثَنِي لُقْمَانُ بْنُ عَامِرٍ
اور سنن نسائي کي سند ہے
بَقِيَّةُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ الزُّبَيْدِيُّ، عَنْ أَخِيهِ مُحَمَّدِ بْنِ الْوَلِيدِ، عَنْ لُقْمَانَ بْنِ عَامِرٍ،

سب سے پہلے تو بقية بن الوليد بن صائد الحمصى المتوفی ١٩٧ هـ کا حدثني يا حدثنا کہنا بھي شک سے خالي نہيں ہے

کتاب الكامل في ضعفاء الرجال از ابن عدي کے مطابق
أَبَا التَّقِيِّ هِشَامُ بْنُ عَبد الْمَلِكِ يقُول: مَن، قَال: إِنَّ بَقِيَّةَ، قَال: حَدَّثَنا فَقَدْ كَذَبَ مَا قَالَ بَقِيَّةُ قَطُّ إِلا، حَدَّثني فلان
أَبَا التَّقِيِّ هِشَامُ بْنُ عَبد الْمَلِكِ کہتے جو يہ کہے کہ بقيہ نے کہا حدثنا وہ جھوٹ ہے بقيہ نے کبھي بھي يہ نہيں بولا بلکہ کہتا حدثني فلاں

يعني بقيہ اپنے اپ کو محدث کا خاص شاگرد باور کراتا کہ اس نے مجمع ميں نہيں بلکہ خاص شيخ نے اس کو سنائي
بقيہ کو ثقہ بھي کہا گيا اور بے کار شخص بھي کہا گيا ہے

عقيلي کہتے ہيں يہ کوئي چيز نہيں
بيہقي کہتے ہيں وقد أجمعوا على أن بقية ليس بحجة وفيه نظر اس پر اجماع ہے کہ اس کي روايت حجت نہيں اور اس پر نظر ہے
ابن حزم نے بھی اس کو ضعيف کہا ہے

أبو بكر بن الوليد بن عامر الزبيدى الشامى، ابن حجر کے مطابق  مجہول الحال ہے – اصل ميں يہ روايت بقيہ نے اسي مجہول سے لي ہے اورابو بکر نے اس کو اپنے بھائي محمد بن الوليد الزبيدى سے روايت کيا ہے – الباني کا کہنا ہے کہ بقيہ کو يہ عبد اللہ بن سالم سے بھي ملي ہے – امام احمد کا قول ہے

وقال أحمد بن الحسن الترمذي: سمعت أحمد بن حنبل، رحمه الله، يقول: توهمت أن بقية لا يحدث المناكر إلا عن المجاهيل فإذا هو يحدث المناكير عن المشاهير، فعلمت من أين أتي. «المجروحون لابن حبان» 1/191.
احمد بن حسن نے کہا ميں نے احمد کو کہتے سنا مجھ کو وہم ہوا کہ بقيہ صرف مجھول راويوں سے مناکير روايت کرتا ہے پس جب يہ ثقات سے بھي منکر روايت کرے تو جان لو کہ کہاں سے يہ آئي ہے

يعني بقيہ نے ثقات سے بھي منکر روايت بيان کي ہيں اور اصلا یہ مجہول راوی سے لی گئی روایات ہیں

يہ روايت امام ابن ابي حاتم کے نزديک بھي قابل قبول نہيں ہو سکتي – کتاب الكامل في ضعفاء الرجال از ابن عدي کے مطابق
حَدَّثني عَبد المؤمن بن أحمد بن حوثرة، حَدَّثَنا أَبُو حاتم الرازي، قالَ: سَألتُ أبا مسهر عَن حديث لبقية فَقَالَ احذر أحاديث بَقِيَّة وكن منها عَلَى تقية فإنها غير نقية.
أَبُو حاتم الرازي نے کہا ميں نے أبا مسهر سے بقيہ کي روايات کے بارے ميں پوچھا کہا ان سے دور رہو ہو سکتا ہے اس ميں تقيہ ہو کيونکہ يہ صاف (دل) نہ تھا

کتاب الجہاد از ابن ابي عاصم ميں ہے

حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْجَرَّاحُ بْنُ مَلِيحٍ الْبَهْرَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ الزُّبَيْدِيُّ، عَنْ لُقْمَانَ بْنِ عَامِرٍ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى الْبَهْرَانِيِّ، عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عِصَابَتَانِ مِنْ أُمَّتِي أَحْرَزَهُمَا اللَّهُ مِنَ النَّارِ، عِصَابَةٌ تَغْزُو الْهِنْدَ، وَعِصَابَةٌ تَكُونُ مَعَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى عِيسَى»

اس سند ميں بقيہ نہيں ہے اور اسي طرح مسند الشاميين ميں ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي زُرْعَةَ الدِّمَشْقِيُّ، ثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، ثَنَا الْجَرَّاحُ بْنُ مَلِيحٍ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ حَدَّثَنِي لُقْمَانُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَدِيٍّ الْبَهْرَانِيُّ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” عِصَابَتَانِ مِنْ أُمَّتِي أَحْرَزَهُمَا اللَّهُ مِنَ النَّارِ: عِصَابَةٌ تَغْزُو الْهِنْدَ، وَعِصَابَةٌ تَكُونُ مَعَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ان دو سندوں میں الجراح بن مليح، أبو عبد الرحمن البهراني الشامي، من أهل حمص المتوفی ١٩٣ ھ ہے – اسی نام کا ایک راوی الجراح بن مليح بن عدى بن فرس المتوفی ١٩٦ ھ اور بھی ہے جو سخت ضعیف ہے

المتفق والمفترق للخطيب البغدادي میں ہے کہ اس نام کے دو لوگ ہیں
الجراح بن مليح بن عَدي بن فارس، أبو وكيع الرُّؤاسي. من أهل الكوفة
الجراح بن مليح، أبو عبد الرحمن البهراني الشامي، من أهل حمص

یہاں شامی حمص والا راوی ہے – جس کا ذکر بقول مغلطاي ، أبو العرب القيراني نے الضعفاء میں کیا ہے

بعض کے بقول أبو حاتم اس کو صالح الحديث کہتے ہیں جبکہ راقم کو یہ تعدیل نہیں ملی بلکہ کتاب جرح و تعدیل میں اس پر ابی حاتم کی تعدیل نہیں ہے – ابن ابی حاتم نے کہا امام ابن مَعِين نے کہا : لا أَعْرِفُهُ میں اس کو نہیں جانتا

ابو حاتم جب صالح الحدیث کہیں تو اس کا مطلب ثقہ کہنا نہیں ہوتا کیونکہ بعض اوقات وہ اس کو صدوق کہہ کر يكتب حديثه ولا يحتج به بھی کہہ دیتے ہیں کہ اس کی حدیث لکھ لو دلیل مت لینا

راقم کہتا ہے یہ کوئی مجہول راوی ہے

ثوبان رضی اللہ عنہ سے منسوب روایت میں ہے کہ وہ لشکر جو ہند میں لڑے گا جب وہ فتح کے بعد واپس شام آئے گا تو وہاں عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کا نزول ہو چکا ہو گا – اس روایت میں دجال کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے – جبکہ دجال کے حوالے سے احادیث میں یہ بھی آیا ہے کہ وہ عرب کے مشرق سے نکلے گا اور ہر شہر کو پامال کرے گا سوائے مدینہ کے – ثوبان رضی اللہ عنہ سے منسوب روایت میں جو لشکر ہند میں ہے اس کو دجال کی کوئی خبر نہیں ہے  – اس طرح ابہام موجود ہے کہ دجال اس  ہند پر لشکر کشی کے وقت کہاں ہے ؟ نہ شامی لشکر کو خبر ہے جو شام سے ہند جہاد کے لئے  پہنچا ہوا ہے  ثوبان رضی اللہ عنہ کی روایت اس طرح غیر واضح ہے اور شاذ بھی ہے

لب لباب ہے کہ غزوہ ہند والی روایات کعب احبار کے اقوال ہیں جو اس کو اغلبا گھڑی ہوئی کتاب دانیال سے ملے – اس کو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے شامی راویوں نے منسوب کیا ہے اور بعض نے اس کو ثوبان رضی اللہ عنہ سے منسوب کیا

سوال یہ ہے کہ یہود ہندوستان پر حملہ کا کیوں سوچ رہے  تھے اگر یہ سب دانیاال سے منسوب کتاب میں لکھا گیا ؟ راقم سمجھتا ہے کہ یہودی جو فارس میں آباد تھے وہ اپنے عقائد کو فارسی سوچ  پر ڈھال رہے تھے جس طرح انہوں نے توریت میں سے ابلیس کا تذکرہ ختم کر دیا تھا – فارس میں یہود کی ایک بڑی تعداد رہتی تھی –  فارسیوں اور ہنود میں بنتی نہیں تھی اور ان کے اپس میں جھگڑے ہوتے رہتے تھے لہذا ممکن ہے کہ کسی  جنگ کا پلان  بنایا  گیا اور دانیال سے منسوب کیا گیا لیکن اسی دوران  مسلمانوں نے فارس فتح کر لیا

قابل غور ہے کہ مجہول راویوں کو چھوڑ کر  روایات میں  اہل شام حمص کا تفرد ہے

الحكم بن نافع البهرانى ، أبو اليمان الحمصى المتوفی ٢٢٢ ھ ، صفوان بن عمرو السكسكي الحِمْصِيُّ المتوفی ١٥٥ ھ ، الجراح بن مليح، أبو عبد الرحمن البهراني الشامي المتوفی ١٩٣ ھ، بقية بن الوليد بن صائد الحمصى المتوفی ١٩٧ ھ ہجری، عبد الله بن سالم الحمصي،  عَبد الأَعلى بْنُ عَدِي، البَهرانِيّ، قَاضِي حِمص المتوفی ١٠٤ ھ  یہ سب شامی ہیں – اس جنگ کی  خبر صرف اہل حمص  کو معلوم ہے لیکن کسی اور  مقام پر ان روایتوں  کو روایت نہیں کیا گیا

امام بخاری و مسلم و ابن خزیمہ و ابن حبان کے نزدیک   غزوہ ہند کی خبروں میں سے کوئی بھی سند اس قدر مضبوط نہیں تھی کہ صحیح کے درجہ تک جاتیں لہذا ان میں سے کسی نے بھی اس کو اپنی صحیح میں درج نہیں کیا

دور نبوی میں ہند سے مراد وہ علاقہ تھا جو فارس اور خراسان کے بعد مشرق میں اتا ہے اصلا ہندو تہذیب کا علاقہ سندھ کا ہے جہاں سے ہندو مت کا آغاز ہوا اور سب سے قدیم تہذیبوں میں یہیں موئین جو ڈرو لاڑکانہ میں اس کے اثار موجود ہیں – اس وقت ہندو سرسوتی اور اندر کی پوجا کرتے تھے لیکن بعد میں انے والے آرین لوگوں نے ان دیوتاوں کی اہمیت کو کم کر دیا – سرسوتی دریا سوکھ گیا اور اندر کا دریا سکندر کے لشکر نے انڈس بنا دیا-اس سے معرب ہو کر عربی میں یہ الہند بن گیا-علی رضی اللہ عنہ کے عہد میں حارث بن مرہ نے آپ کی اجازت سے ہندوستان گئے لیکن کسی جھڑپ میں قیقان نام کے مقام پر جو دعوی کیا گیا ہے کہ آج سندھ میں ہے اس میں شہید ہو گئے۔ (فتوح البلدان ،ج:3/ص:531) – باقاعدہ ہند پر لشکر کشی خلیفہ ولید بن عبد الملک کے دور میں ہوئی جب سپہ سالار محمد بن قاسم رحمہ اللہ علیہ نے پہلا حملہ ہند پر کیا ان کے راجہ کو قتل کیا- اگر ثوبان رضی اللہ عنہ کی حدیث کو صحیح سمجھا جائے تو اس خبر کی ایک بات کی عملی شکل پوری ہوئی کہ محمد بن قاسم کا لشکر جنتی بن گیا دوسرا جنتی لشکر اب عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے ساتھ ہو گا
و اللہ اعلم

بعض لا علم لوگوں نے دعوی کیا کہ محمد بن قاسم نے تو سندھ پر حملہ کیا تھا نہ کہ ہند پر – اس حماقت کا رد ٨٠٠ سال پہلے ہی ہو چکا ہے – الكامل في التاريخ از ابن الأثير (المتوفى: 630هـ) میں ہے کہ محمد بن قاسم کو الہند پر لشکر کے ساتھ بھیجا گیا اور اہل ہند کافر تھے
وَفِي أَيَّامِهِ خَرَجَ الْمُسْلِمُونَ عَنْ بِلَادِ الْهِنْدِ وَرَفَضُوا مَرَاكِزَهُمْ، ثُمَّ وُلِّيَ الْحَكَمُ بْنُ عَوَّامٍ الْكَلْبِيُّ، وَقَدْ كَفَرَ أَهْلُ الْهِنْدِ إِلَّا أَهْلَ قَصَّةَ، فَبَنَى مَدِينَةً سَمَّاهَا الْمَحْفُوظَةَ، وَجَعَلَهَا مَأْوَى الْمُسْلِمِينَ، وَكَانَ مَعَهُ عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْقَاسِمِ، وَكَانَ يُفَوِّضُ إِلَيْهِ عَظِيمَ الْأُمُورِ، فَأَغْزَاهُ مِنَ
الْمَحْفُوظَةِ، فَلَمَّا قَدِمَ عَلَيْهِ وَقَدْ ظَفِرَ أَمَرَهُ فَبَنَى مَدِينَةً وَسَمَّاهَا الْمَنْصُورَةَ

محمد بن قاسم نے ہند پر حملہ کیا تھا اور سندھ اس کا علاقہ  تھا

امام الذھبی نے آٹھویں صدی ہجری میں محمود غزنوی (357ھ – ۔421ھ) کا ذکر کرتے ہوئے لکھا
وفرض على نفسہ كل عام غزو الھند، فافتح منھا بلاداً واسعۃ، وكسر الصنم المعروف بسومنات
اس نے اپنے اوپر غزوہ ہند کو فرض کیا اور ان کے بہت سے شہر فتح کیے اور ایک مشہور بت سوم ناتھ کو توڑا

ابن کثیر نے البداية والنهاية میں لکھا ہے

وَقَدْ غَزَا الْمُسْلِمُونَ الْهِنْدَ فِي أَيَّامِ مُعَاوِيَةَ سَنَةَ أَرْبَعٍ وَأَرْبَعِينَ … وَقَدْ غَزَا الْمَلِكُ الْكَبِيرُ الْجَلِيلُ مَحْمُودُ بْنُ سُبُكْتِكِينَ، صَاحِبُ غَزْنَةَ، فِي حدود أربعمائة، بلاد الهند فدخل فِيهَا وَقَتَلَ وَأَسَرَ وَسَبَى وَغَنِمَ وَدَخَلَ السُّومَنَاتَ وكسر الند الأعظم الّذي يعبدونه

مسلمانوں نے ہند پر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں سن ٤٤ ھ میں غزوہ کیا … اور سلطان محمود نے سن ٤٠٠ ہجری میں ہند کے شہروں میں سومنات پر حملہ کیا 

شذرات الذهب في أخبار من ذهب از  عبد الحي بن أحمد بن محمد ابن العماد العَكري الحنبلي، أبو الفلاح (المتوفى: 1089هـ میں ہے

وتوفي في غزوة الهند- في الرّجعة بالبحر- الرّبيع بن صبيح البصري صاحب الحسن

اور غزوہ ہند میں سمندر میں الرّبيع بن صبيح البصري صاحب الحسن کی وفات ہوئی 

اس کا ذکر الذہبی نے العبر في خبر من غبر میں بھی کیا ہے  یعنی الذھبی کے نزدیک یہ غزوہ ہند ہو چکا ہے

سوم ناتھ پر شوا لنگم تھا اور یہ ان بارہ مندوں میں ایک خاص تھا جہاں ہندؤں کے بقول کائنات کی ابتداء کے وقت اگ کا ستون بنا تھا – اس کے علاوہ بلوچستان بھی ہندو مندروں سے بھرا پڑا تھا – بلوچستان میں ہنگلاج ماتا کا مندر جس کو نانی مندر بھی کہا جاتا ہے یہ ایک قدیم مندر ہے اور یہ بقول ہندؤں کے ان کی دیوی کی آسمان سے گرنے والی لاش کا ٹکڑا ہے جب ستی نے خود کو بھسم کیا تھا – یعنی سندھ ہو یا بلوچستان اس کو تاریخی طور پر ہند سے الگ علاقہ قرار نہیں دیا جا سکتا جس کا ذکر احادیث میں ہے- -ہندو مت  کو بطور مذھب ہندو خود  عربوں کی آمد سے قبل نہیں کہتے تھے  وہ اپنے مذھب کو ویدانت کہتے تھے – عربوں نے ان کو ہندی کہا جس کی بنا پر یہ  نام برصغیر کی عوام میں مقبول ہو گیا یہاں تک کہ  محدثین جو بر صغیر میں گزرے ہیں وہ تک  اپنے آپ کو ہندی لکھتے  تھے-  یعنی ہندی ایک خغرافیائی نام تھا،  مذھب کا نام نہیں تھا -وقت کے ساتھ ویدانت یا سناتن دھرم (قدیم مذھب ) کے قائل ہندی لوگوں نے اس لفظ  کو مذہبی ٹائٹل کے  طور پر قبول کر لیا اور اب یہ اپنے آپ کو ہندو کہتے ہیں- لفظ ہندو  خود ہندوؤں کی کسی قدیم مذہبی کتاب میں موجود نہیں ہے – یہ محص علاقائی لفظ ہے اور سندھ و پنجاب  اس کا   علاقہ تھا

مسئلہ یہاں یہ ہے کہ قدیم  ہند کی حدود ہندو   احادیث و مسلمانوں کی تاریخ سے نہیں لین گے  – وہ اس کو اپنی کتب سے سمجھ رہے ہیں – ہم افغانستان کو  ہند نہیں   کہتے ہیں جبکہ ہندوؤں کے مطابق افغانستان تک  ہندو تہذیب کا علاقہ تھا اور قندھار اصل میں گندھار ہے  جس کا ذکر مہا بھارت میں بھی ہے – وقت کے ساتھ  وہاں کے لوگ بدھ مت میں بدلے – بدھ خود ہندوؤں کے نزدیک ہندو ہی ہے کوئی الگ مذھب نہیں ہے – یہاں تک کہ وہ اس کو وشنو کا اوتار کہتے ہیں

راقم کو سننے کو ملا کہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ اس جنگ کو غزوہ اس لئے کہتے ہیں کہ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود اس میں شریک ہوں گے جبکہ یہ عربی سے لا علم ہیں -عربی میں غزوہ اس کو کہا جاتا ہے جس میں تلوار سے قتال کیا جائے – مسلمان مورخین نے فارس کی جنگ جو دور عمر میں ہوئی اس کو بھی غزوہ لکھا ہے – لیکن یہ لوگ دعوی کر  رہے ہیں نبی علیہ السلام اپنے مثالی جسم کے ساتھ اس جہاد میں شامل ہوں گے- حدیث محشر میں ذکر ہے کہ بعض   امتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے ہٹا لئے جائیں گے اس کو جہنم کی طرف ہانکا جائے گا  – آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے اے رب یہ امتی ہیں  یا اصحابی ہیں  لیکن کہا جائے گا آپ کو معلوم نہیں انہوں  نے کیا گل کھلائے ہیں – اگر رسول اللہ خود امت کی جنگوں میں  پہنچ جاتے ہیں تو  پھر ان کا علم الغیب سے واقف ہونا ثابت ہوتا ہے – جو جھل کا قول ہے

تصوف کے دلدادہ  لوگوں نے  ایک اسلامی ناسٹرا ڈیمس کی شکل  صوفی نعمت اللہ شاہ ولی   سے منسوب  شاعرانہ کشف کو حقیقت سمجھنا شروع کر دیا  ہے – دیو بندی و تبلیغی  صوفی حلقوں  میں اس دیوان  کو بڑی داد و تحسین مل رہی ہے جبکہ یہ   دیوان ایران میں پہلی بار چھپا جس کی جدید طباعت کی گئی ہے  لنک  – سن ١٩٧٢  میں حافظ محمد سرور نظامی نے اس کی طرف مزید  اشعار منسوب کیے   دیکھئے لنک–  اہل حدیث نے  شمارہ محدث لاہور میں بھی ان  پر تحقیق پیش کی اور جو نتیجہ تھا وہ پیش کیا کہ یہ تمام اشعار جو بر صغیر سے متعلق ہیں  جعلی ہیں

لنک

افسوس ان وضعی اشعار کو جدید دانشور،  ٹی وی اور اخبار کے مراسلوں میں  بھی  پیش کر رہے ہیں اور ہر مشہور ٹی وی چینل کے  اینکروں  کے مینول کا حصہ بنے ہوئے ہیں

خبردار مستقبل کا لائحہ عمل ایک کمزور خبر کی بنیاد پر بنانا یا کسی صوفی کے کشف کی بنیاد  پر رکھنا  یا  اسٹریٹجی میں معجزات کا انتظار کرنا غیر دانشمندی ہے

=================================================

صحیح بخاری میں ہے
حَدَّثَنَا الحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَقْتَتِلَ فِئَتَانِ دَعْوَاهُمَا وَاحِدَةٌ»

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت قائم نہ ہو گی حتی کہ دو گروہ لڑیں گے جن کا ایک ہی دعوی ہو گا

دوسری صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے
فَيَكُونَ بَيْنَهُمَا مَقْتَلَةٌ عَظِيمَةٌ
ان میں عظیم قتال ہو گا

وَتَكُونُ بَيْنَهُمَا مَقْتَلَةٌ عَظِيمَةٌ
ان میں عظیم قتال ہو گا

بعض شارحین نے اس جنگ کو علی و معاویہ رضی اللہ عنہما کے مشاجرات سے ملایا ہے جبکہ وہ کوئی عظیم قتال نہیں تھے کچھ مسلمان شہید ہوئے تھے ایسا نہیں کہ عظیم قتال ہوا ہو- راقم اس رائے  سے موافقت نہیں رکھتا –  علی و معاویہ کا دعوی ایک نہیں تھا – معاویہ  کا مطالبہ قصاص عثمان کا تھا اور علی کی جانب سے اس کا مسلسل انکار تھا – ان دونوں کا دعوی ایک نہیں تھا

صحیح مسلم میں اس پر باب ہے باب هلاك هذه الأمة بعضهم ببعض امت میں بعض کی بعض کے سبب ہلاکت

دوسری صحیح بخاری کی حدیث میں اس روایت میں ہے کہ اس کے بعد تیس دجال نکلیں گے جو نبوت کا دعوی کریں گے
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَقْتَتِلَ فِئَتَانِ فَيَكُونَ بَيْنَهُمَا مَقْتَلَةٌ عَظِيمَةٌ، دَعْوَاهُمَا وَاحِدَةٌ، وَلاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُبْعَثَ دَجَّالُونَ كَذَّابُونَ، قَرِيبًا مِنْ ثَلاَثِينَ، كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ

قیامت قائم نہ ہو گی حتی کہ دو گروہوں میں عظیم قتال ہو گا ان کا دعوی ایک ہو گا اور قیامت قائم نہ ہو گی کہ دجال کذابوں کو تیس کے قریب نکالا جائے گا جن میں ہر ایک رسول اللہ ہونے کا دعوی کرے گا

اس جنگ میں دنیا دو گروہوں میں بٹ جائے گی اور گھمسان کی جنگ ہو گی اور دونوں طرف مسلمان بھی ہوں گے یعنی دنیا کے  دو گروہ ہیں محض مسلمانوں کے دو گروہ  نہیں ہیں – اس حدیث کو محض مسلمانوں کی آپس میں جنگ پر محدود کرنا حدیث کے متن  میں  اضافہ ہے

اس جنگ کے بعد دجالوں  کے خروج کی خبر ہے – ان میں سب سے بڑا دجال ، دجال اکبر  ایک ساتھ دو دعوی کرے گا کہ وہ مومن ہے ، وہ  نعوذ باللہ اوتار ہے  – راقم سمجھتا ہے دجال کوئی ہندومت متاثر لیکن مسلمان نام کا شخص ہو گا جس کی مدد یہود و ہنود کر رہے ہوں گے اس طرح ان تمام روایات میں تطبیق ہو جاتی ہے جو خروج دجال سے متعلق ہیں ، مشرق سے فتنہ کے نکلنے سے متعلق ہیں

و اللہ اعلم

==============

لبیک غزواتل الھند 

راقم  کی نظر  سے یہ اشتہار  گزرا – خیال آیا کہ کوئی نیا  فرشتہ غزواتل مسلمانوں  نے دریافت  کیا ہے – غور  کرنے  پر معلوم  ہوا کہ یہ  غزوہ الھند  لکھا گیا   ہے

اب جس قدر یہ اردو و  عربی  کے لحاظ سے غلط  ہے  اسی قدر  آپ ان روایات کو بھی  لے لیں نہ راوی مشہور  نہ کلام  معروف

ہم ال داود کے حکم پر حکم کرتے ہیں

ابن سبا نے اس امت میں عقیدہ رجعت کو پھیلایا (جس کو فرقوں نے عود روح کے نام پر قبول کیا ہوا ہے ) ساتھ ہی ابن سبا نے اس عقیدہ کا بھی پرچار کیا کہ قرآن  کہتا ہے تمام انبیاء پر ایمان لانا ہے تو پھر ہم کیوں بنی اسرائیلی انبیاء کو نہ مانیں اور ان کی کتب کو قرآن پر ترجیج دیں  مثلا داود علیہ السلام کی نسل میں جو  انبیاء آئے

سورہ الحدید میں ہے

وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولَٰئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ ۖ وَالشُّهَدَاءُ عِندَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ 

اور وہ جو الله پر ایمان لائے اور اس کے رسولوں پر وہ سچے ہیں 

ابن سبا کے نزدیک صرف زبان کا اقرار نہیں بلکہ  ایمان کامل نہ ہو گا جب تک ان  سابقہ انبیاء کے حکم پر عمل نہ کیا جائے – ابن سبا کے نزدیک قرآن کی بہت سی آیات دو مخالف الوحی کی موجودگی میں نہیں چلے گی مثلا قرآن میں ہے کہ حدود میں گواہ لاو – لیکن ابن سبا کے نزدیک یہ حکم داود علیہ السلام نے نہیں کیا ہے لہذا یہ گواہ طلب کرنا غیر ضروری ہوا – افسوس اس قسم کی سوچ کے چند اقوال اہل تشیع کی کتب میں در کر آئے ہیں

اہل تشیع کی کتاب كلمات الإمام الحسين (ع) الشيخ الشريفي ، مختصر بصائر الدرجات- الحسن بن سليمان الحليي میں ہے
حدثنا إبراهيم بن هاشم، عن محمد بن خالد البرقي، عن ابن سنان أو غيره، عن بشير، عن حمران، عن جعيد الهمداني ممن خرج مع الحسين عليه السلام بكربلا، قال: فقلت للحسين عليه السلام جعلت فداك بأي شئ تحكمون. قال [عليه السلام]: يا جعيد نحكم بحكم آل داود، فإذا عيينا عن شئ تلقانا به روح القدس

جعيد الهمداني جو امام حسین علیہ السلام کے خروج کربلا میں  ساتھ نکلے تھے روایت کرتے ہیں کہ میں نے امام حسین سے پوچھا کہ آپ کس بات کا حکم کرتے ہیں ؟ حسین نے فرمایا ہم ائمہ ال داود کے حکم پر حکم کرتے ہیں- جب ہم کسی چیز کو تلاش کرتے ہیں تو ہم پر روح القدس سے القا کیا جاتا ہے

معلوم ہوا کہ سبائیوں کے  نزدیک حسین رضی اللہ عنہ  قرآن کی سر بلندی کے لئے نہیں بلکہ شریعت داودی کی سر بلندی کے لئے خروج کر رہے تھے – جعيد الهمداني کا تذکرہ  اہل سنت کی کتب میں موجود نہیں جس سے معلوم ہوتا ہے یہ کوئی مجہول تھا

اہل تشیع کی کتاب الخرائج والجرائح از قطب الدين الراوندي میں امام ابو عبد اللہ کے کشف یا خواب کا ذکر ہے

وعن محمد بن عيسى بن عبيد ، عن صفوان
بن يحيى ، عن أبي علي الخراساني ، عن أبان بن تغلب ، عن أبي عبدالله عليه السلام
قال : كأني بطائر أبيض فوق الحجر ، فيخرج من تحته رجل يحكم بين الناس بحكم آل
داود وسليمان ، ولايبتغي بينة
أبان بن تغلب نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ میں دیکھ رہا ہوں میں ایک سفید پرندہ پر ہوں چٹان پر اور میرے قدم سے نکلا جو لوگوں پر حکم کرے گا ال داود و سلیمان کی طرح اور شہادت طلب نہیں کرے گا

شیعوں کی معجم أحاديث المهدي میں ہے

سيأتي من مسجدكم هذا يعني مكة ثلثمائة وثلث ( ثلاثة ) عشر رجلا ،
يعلم أهل مكة أنه لم يلدهم آبائهم ولا أجدادهم ، عليهم السيوف مكتوب
على كل سيف كلمة تفتح ألف كلمة ، تبعث الريح فتنادي بكل واد : هذا
المهدي هذا المهدي ، يقضي بقضاء آل داود ولا يسأل عليه بينة

مسجد الحرام پر ٣٣٠ مرد آئیں گے جن کو اہل مکہ جانتے ہوں گے کہ یہ ان کے باپوں و دادا کی اولاد نہیں ان پر تلواریں ہوں گی جن پر ایک کلمہ لکھا ہو گا – اس کلمہ سے ہزار کلمے اور کھلیں گے ایک ہوا آئی گی جس سے وادی گونجے گی کہ یہ المہدی ہے یہ المہدی ہے یہ ال داود کے مطابق فیصلہ کرے گا اور گواہی طلب نہیں کرے گا

محمد بن يحيى ، عن أحمد بن محمد ، عن محمد بن سنان ،
عن أبان قال : سمعت أبا عبدالله عليه السلام يقول : – كما في رواية بصائر الدرجات الاولى .
الارشاد : ص 365 – 366 – مرسلا ، عن عبدالله بن عجلان ، عنه عليه السلام ، إذا قام قائم
آل محمد صلي الله عليه وآله حكم بين الناس بحكم داود عليه السلام لا يحتاج إلى بينة ،
يلهمه الله تعالى فيحكم بعلمه ، ويخبر كل قوم بما استبطنوه ، ويعرف وليه من عدوه
بالتوسم ، قال الله سبحانه : إن في ذلك لآيات للمتوسمين وإنها لبسبيل مقيم ” .

جب ال محمد قائم ہوں گے وہ لوگوں کے درمیان داود کے حکم پر حکم کریں گے ان کو شہادت کی ضرورت نہ ہو گی

مدعا یہ ہے کہ امام المہدی شریعت محمدی کے تحت فیصلہ کرنے کے پابند نہ ہوں گے بلکہ چونکہ قرآن میں تمام انبیاء کو ماننے کا ذکر ہے تو وہ اس میں شریعت داود پر عمل کریں گے

ابن سبا کا یہ تصور اصل میں داودی نسل سے مسیح کا تصور ہے جس کے یہودی منتظر تھے اور ان کے نزدیک اصلی مسیح کا ظہور نہیں ہوا ہے –

صحیح عقیدہ یہ ہے کہ ہم صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و شریعت کی اتباع کریں گے -سابقہ انبیاء کی شریعتون کو ہم مانتے ہیں کہ من جانب الله تھیں لیکن وقتی و محدود علاقوں کے لئے تھیں – شریعت محمدی تمام عالم کے لئے ہے

ڈاکٹر عثمانی رحمہ اللہ علیہ نے شریعت محمدی تمام عالم کے لئے ہے کے موضوع پر  لکھا ہے سابقہ  انبیاء پر ایمان کا مطلب ان کی شریعتوں پر بلا دلیل سنت محمد (ص) عمل نہیں ہے

راقم  کہتا ہے عثمانی صاحب نے اس کا انکار نہیں کیا ہے کہ تمام انبیاء پر ایمان لایا جائے بلکہ مراد انکار اس  سنت انبیاء  کا ہے جس کی تائید سنت محمد میں نہ ہو – جہاں تک انبیاء سابقہ کی کتب کا تعلق ہے تو ان میں تین میں تحریف ہوئی یعنی  توریت زبور اور انجیل  میں ان  کتب میں زبور داود علیہ السلام کی کتاب ہے اور اس کو اہل کتاب نے اشعار کی کتاب بنا دیا ہے  جس میں جا بجا اصف بن برخیاہ نامی شخص کے اضافہ بھی ہیں – اصف ایک   شخص تھا جس کوحشر اول سے قبل  اشوریوں نے غلام بنایا  لیکن شیعہ کہتے ہیں وہ علی رضی اللہ عنہ تھے اس دور میں اصف کے جسم سے جانے  جاتے تھے

 

اصف بن بر خیا کا راز

 

 

سامری کا مذھب ٢

 قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ سامری دجال نے قوم موسی کو گمراہ کیا ایک بت ایجاد کیا جس میں آواز بھی  آتی تھی –  جب موسی علیہ  السلام نے اس پر سوال کیا تو سامری بولا   (سورہ طہ ٩٦) –

قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَٰلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي

میں نے وہ چیز دیکھی تھی جو دوسروں نے نہ دیکھی پھر میں نے رسول کے نقشِ قدم کی ایک مٹھی مٹی میں لے کر ڈال دی

وہ علماء جو استدراج کے قائل ہیں انہوں نے اس کو نقش قدم   جبریل/موسی    یا جبریل کے گھوڑے  کے   قدم    کی مٹی  کی برکت قرار دیا ہے  – دوسری طرف   وہ علماء  جو   سامری   کی بات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے انہوں نے اس کو محض ایک جھانسہ  قرار دیا ہے اور سامری کی دھوکہ بازی   والی تقریر   اور آواز کا بچھڑے  میں پیدا ہونا  صرف    کوئی   شعبدہ بازی

سامری کا مدعا تھا کہ اس کے عمل  کو کوئی  معجزہ سمجھا جائے کہ اس نے نقش قدم کی مٹی سے  بولنے والا پتلا  خلق کر دیا –  یہاں رسول سے مراد بعض نے جبریل علیہ السلام کو لیا ہے کہ فرشتہ کی برکت سے ایسا ممکن ہوا کہ بچھڑہ بولنے لگا اور بعض نے اس کو موسی علیہ السلام کے قدم کی برکت قرار دیا ہے – اور بعض نے جبریل کے گھوڑے  کا ذکر کیا ہے –

قتادہ بصری کا قول ہے کہ جبریل کے گھوڑے کی برکت سے بچھڑہ بولنے لگا تفسیر طبری میں ہے

حدثنا بشر، قال: ثنا يزيد، قال: ثنا سعيد، عن قتادة (فَكَذَلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُّ) قال: كان الله وقَّت لموسى ثلاثين ليلة ثم أتمها بعشر، فلما مضت الثلاثون قال عدوّ الله السامري: إنما أصابكم الذي أصابكم عقوبة بالحلي الذي كان معكم، فهلموا وكانت حليا تعيروها (1) من آل فرعون، فساروا وهي معهم، فقذفوها إليه، فصوّرها صورة بقرة، وكان قد صرّ في عمامته أو في ثوبه قبضة من أثر فرس جبرائيل، فقذفها مع الحليّ والصورة (فَأَخْرَجَ لَهُمْ عِجْلا جَسَدًا لَهُ خُوَارٌ) فجعل يخور خوار البقر، فقال (هَذَا إِلَهُكُمْ وَإِلَهُ مُوسَى) .

حدثنا الحسن، قال: أخبرنا عبد الرزاق، قال: أخبرنا معمر، عن قتادة، قال: لما استبطأ موسى قومه قال لهم السامريّ: إنما احتبس عليكم لأجل ما عندكم من الحليّ، وكانوا استعاروا حليا من آل فرعون فجمعوه فأعطوه السامريّ فصاغ منه عجلا ثم أخذ القبضة التي قبض من أثر الفرس، فرس الملك، فنبذها في جوفه، فإذا هو عجل جسد له خوار، قالوا: هذا إلهكم وإله موسى، ولكن موسى نسي ربه عندكم.

حدثني أحمد بن يوسف، قال: ثنا القاسم، قال: ثنا هشيم، عن عباد، عن قَتادة مثل ذلك بالصاد بمعنى: أخذت بأصابعي من تراب أثر فرس الرسول

یہ   قتادہ    مدلس کے اقوال  ہیں اور یہ    اس کو کس سے معلوم ہوا خبر نہیں ہے کہ جبریل   کے گھوڑے  کی برکت سے ایسا ہوا

ابن عباس   رضی اللہ عنہ  سے بھی منسوب ہے

حدثنا ابن حميد، قال: ثنا سلمة، قال: ثني محمد بن إسحاق، عن حكيم بن جبير، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال: لما قذفت بنو إسرائيل ما كان معهم من زينة آل فرعون في النار، وتكسرت، ورأى السامري أثر فرس جبرائيل عليه السلام، فأخذ ترابا من أثر حافره، ثم أقبل إلى النار فقذفه فيها، وقال: كن عجلا جسدا له خوار، فكان للبلاء والفتنة.

اس کی سند میں ابن اسحاق مدلس ہے

تفسیر طبری میں  یہ قول  مجاہد کا بھی ہے کہ جبریل کے گھوڑے  کے قدم سے ایسا ہوا

حدثني محمد بن عمرو، قال: ثنا أبو عاصم، قال: ثنا عيسى; وحدثني الحارث قال: ثنا الحسن، قال: ثنا ورقاء جميعا، عن ابن أبي نجيح، عن مجاهد، في قول الله: (فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا) قال: من تحت حافر فرس جبرائيل، نبذه السامريّ على حلية بني إسرائيل، فانسبك عجلا جسدا له خوار، حفيف الريح فيه فهو خواره، والعجل: ولد البقرة

اس کی سند میں      انقطاع ہے –  جامع التحصيل في أحكام المراسيل از العلائي (المتوفى: 761هـ) میں ہے

وقال إبراهيم بن الجنيد قلت ليحيى بن معين أن يحيى بن سعيد يعني القطان يزعم

 أن بن أبي نجيح لم يسمع التفسير من مجاهد وإنما أخذه من القاسم بن أبي برة

امام ابن معین نے کہا کہ یحیی القطان نے دعوی کیا کہ ابن أبي نجيح نے تفسیر مجاہد سے نہیں سنی

مستدرک حاکم میں ہے

حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حَمْشَاذَ الْعَدْلُ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ الْحَارِثِ، ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، أَنْبَأَ إِسْرَائِيلُ، ثنا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عَمْرٍو السَّلُولِيُّ، وَأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: ” لَمَّا تَعَجَّلَ مُوسَى إِلَى رَبِّهِ عَمَدَ السَّامِرِيُّ فَجَمَعَ مَا قَدَرَ عَلَيْهِ مِنَ الْحُلِيِّ، حُلِيِّ بَنِي إِسْرَائِيلَ فَضَرَبَهُ عِجْلًا، ثُمَّ أَلْقَى الْقَبْضَةَ فِي جَوْفِهِ، فَإِذَا هُوَ عِجْلٌ لَهُ خُوَارٌ فَقَالَ لَهُمُ السَّامِرِيُّ: هَذَا إِلَهُكُمْ وَإِلَهُ مُوسَى فَقَالَ لَهُمْ هَارُونُ: يَا قَوْمِ أَلَمْ يَعِدُكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَنًا. فَلَمَّا أَنْ رَجَعَ مُوسَى إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ وَقَدْ أَضَلَّهُمُ السَّامِرِيُّ أَخَذَ بِرَأْسِ أَخِيهِ فَقَالَ لَهُ هَارُونُ مَا قَالَ فَقَالَ مُوسَى لِلسَّامِرِيِّ مَا خَطْبُكَ؟ قَالَ السَّامِرِيُّ: قَبَضْتُ قَبْضَةً مِنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي. قَالَ: فَعَمَدَ مُوسَى إِلَى الْعِجْلِ فَوَضَعَ عَلَيْهِ الْمَبَارِدَ فَبَرَدَهُ بِهَا وَهُوَ عَلَى شِفِّ نَهَرٍ، فَمَا شَرِبَ أَحَدٌ مِنْ ذَلِكَ الْمَاءِ مِمَّنْ كَانَ يَعْبُدُ ذَلِكَ الْعِجْلَ إِلَّا اصْفَرَّ وَجْهُهُ مِثْلَ الذَّهَبِ، فَقَالُوا لِمُوسَى: مَا تَوْبَتُنَا؟ قَالَ يَقْتُلُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا. فَأَخَذُوا السَّكَاكِينَ فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَقْتُلُ أَبَاهُ وَأَخَاهُ وَلَا يُبَالِي مَنْ قَتَلَ حَتَّى قُتِلَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ أَلْفًا فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى مُوسَى مُرْهُمْ فَلْيَرْفَعُوا أَيْدِيَهُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لِمَنْ قُتِلَ وَتُبْتُ عَلَى مَنْ بَقِيَ «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخْرِجَاهُ»

[التعليق – من تلخيص الذهبي]

3434 – على شرط البخاري ومسلم

علی  نے کہا  سامری نے مورت بناتے وقت اس کے پیٹ میں مٹھی بھر پھینکا تو بیل بولنے لگا

سند میں  أَبُو إِسْحَاقَ مدلس   نے   عَنْ سے روایت کیا ہے  یہ روایت تدلیس کے احتمال کی وجہ سے صحیح نہیں ہے

اس طرح یہ تمام اقوال لائق التفات نہیں  ہیں –

مستدرک حاکم میں ہے کہ بچھڑے میں آواز ہارون علیہ السلام کی دعا سے پیدا ہوئی

حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ صَفْوَانَ الْجُمَحِيُّ، بِمَكَّةَ فِي دَارِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ثنا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، أَنْبَأَ سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: أَتَى هَارُونُ عَلَى السَّامِرِيِّ وَهُوَ يَصْنَعُ الْعِجْلَ، فَقَالَ لَهُ: مَا تَصْنَعُ؟ قَالَ: مَا يَنْفَعُ وَلَا يَضُرُّ فَقَالَ: اللَّهُمَّ أَعْطِهِ مَا سَأَلَكَ فِي نَفْسِهِ فَلَمَّا ذَهَبَ قَالَ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ أَنْ يَخُورَ فَخَارَ، وَكَانَ إِذَا سَجَدَ خَارَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ خَارَ، وَذَلِكَ بِدَعْوَةِ هَارُونَ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ وَلَمْ يُخْرِجَاهُ “

[التعليق – من تلخيص الذهبي]

3251 – على شرط مسلم

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہارون  ، سامری کے پاس پہنچے تو وہ   بچھڑہ   بنا رہا تھا – پوچھا یہ کیا ہے ؟ سامری بولا  یہ وہ  ہے جو نہ نفع دے گا نہ نقصان – ہارون   علیہ السلام نے دعا کی : اے اللہ  اس کو وہ دے جو اس نے خود مانگا  ہے پس جب جا نے لگے تو کہا : اے  اللہ    میں  سوال کرتا ہوں کہ    یہ   بیل کی آواز   نکالے  جب سجدہ کرے  جب سر اٹھائے  –   اور یہ سب  ہارون کی دعا سے ہوا

راقم  کہتا ہے اس کی سند  میں       سماك بن حرب  ضعیف ہے –  احمد کے نزدیک  مضطرب الحدیث  ہے

سنن الکبری  نسائی،  مسند ابو یعلی ،   میں ایک طویل روایت میں ہے جو ابن عباس سے مروی ہے

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا أَصْبَغُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، أني سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَبَّاسٍ عَنْ قَوْلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ لِمُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ: {وَفَتَنَّاكَ فُتُونًا} [طه: 40]، فَسَأَلْتُهُ عَنِ الْفُتُونِ مَا هُوَ؟ قَالَ: اسْتَأْنِفِ النَّهَارَ يَا ابْنَ جُبَيْرٍ، فَإِنَّ لَهَا حَدِيثًا طَوِيلًا، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ غَدَوْتُ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ لِأَنْتَجِزَ مِنْهُ مَا وَعَدَنِي مِنْ حَدِيثِ الْفُتُونِ، ……….. وَكَانَ السَّامِرِيُّ مِنْ قَوْمٍ يَعْبُدُونَ الْبَقَرَ جِيرَانٍ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ، وَلَمْ يَكُنْ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَاحْتَمَلَ مَعَ مُوسَى وَبَنِي إِسْرَائِيلَ حِينَ احْتَمَلُوا،فَقُضِيَ لَهُ أَنْ رَأَى أَثَرًا فَأَخَذَ مِنْهُ قَبْضَةً، فَمَرَّ بِهَارُونَ، فَقَالَ لَهُ هَارُونُ عَلَيْهِ السَّلَامُ: يَا سَامِرِيِّ، أَلَا تُلْقِي مَا فِي يَدِكَ؟ وَهُوَ قَابِضٌ عَلَيْهِ لَا يَرَاهُ أَحَدٌ طُوَالَ ذَلِكَ، فَقَالَ: هَذِهِ قَبْضَةٌ مِنْ أَثَرِ الرَّسُولِ الَّذِي جَاوَزَ بِكَمُ الْبَحْرَ، فَلَا أُلْقِيهَا بِشَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَدْعُوَ اللهَ إِذَا أَلْقِيْتُ أَنْ يَكُونَ مَا أُرِيدُ، فَأَلْقَاهَا وَدَعَا لَهُ هَارُونُ، فَقَالَ: أُرِيدُ أَنْ تَكُونَ عِجْلًا، فَاجْتَمَعَ مَا كَانَ فِي الْحُفْرَةِ مِنْ مَتَاعٍ أَوْ حِلْيَةٍ أَوْ نُحَاسٍ أَوْ حَدِيدٍ، فَصَارَ عِجْلًا أَجْوَفَ لَيْسَ فِيهِ رَوْحٌ لَهُ خُوَارٌ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَا وَاللهِ، مَا كَانَ لَهُ صَوْتٌ قَطُّ، إِنَّمَا كَانَتِ الرِّيحُ تَدْخُلُ مِنْ دُبُرِهِ وَتَخْرُجُ مِنْ فِيهِ، فَكَانَ ذَلِكَ الصَّوْتُ مِنْ ذَلِكَ

ابن عباس  رضی اللہ عنہ نے کہا : سامری ان میں سے تھا جو بنی اسرائیل کے لئے  گائے کے پجاری تھے مجاور تھا اور یہ خود بنی اسرائیل  کا نہ تھا پس یہ موسی اور بنی اسرائیل کے ساتھ   (خروج مصر   کے وقت )  ہو لیا – پس یہ لکھا تھا کہ وہ نقش قدم کو دیکھے اور سامری نے اس میں سے مٹی لی اور ہارون کا اس کے پاس گذر ہوا تو انہوں نے کہا : اے سامری یہ ہاتھ میں کیا ہے پھینکو ؟ وہ اس کو مٹھی میں پکڑے تھا جس کو کوئی دیکھ نہ سکتا تھا – سامری نے کہا    اس  مٹھی میں نقش رسول ہے جب سمندر پار کیا   تھا  تب  سے میں نے  اس کو نہیں پھینکا ہے  – اس کو میں اللہ سے دعا کر کے پھینکوں گا کہ وہ ہو جائے جو میں چاہ رہا ہوں –  پس  سامری  نے پھینکا اور ہارون نے  اس   کو  دعا دی – (سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ نے پوچھا) سامری نے کہا میں چاہتا ہوں تو  بچھڑہ  کی شکل لے  پس اس  نے جمع کیا جو گڑھے میں (مٹی ) تھی   زیور، دھواں، لوہا  اور بنایا اس سے بچھڑہ جس کے اندر روح نہیں تھی لیکن آواز تھی ؟ ابن عبّاس نے کہا نہیں اللہ کی قسم اس میں آواز بھی نہیں تھی بلکہ ہوا اس کی دبر سے اندر جاتی اور نکلتی تو آواز یہ تھی

سند میں  أصبغ بن زيد ہے جو بقول ابن سعد حدیث میں ضعیف ہے- ابن عدي: له أحاديث غير محفوظة-  دارقطنی نے اس کو ثقہ کہا ہے اس طرح یہ  مختلف فیہ راوی ہے –    اس   روایت میں کئی اقوال کو ملا دیا گیا ہے مثلا   یہ مانا گیا ہے کہ سامری نے واقعی  موسی   علیہ السلام کے  قدم کی مٹی لی – یہ بھی مانا گیا ہے کہ ہارون     علیہ السلام نے دعا دی اور یہ بھی مانا گیا ہے کہ  پتلے میں  آواز کا پیدا ہونا  صرف شعبدہ تھا- اس طرح اس میں تمام اقوال کو جمع کر دیا گیا ہے – البتہ اس راوی  أصبغ بن زيد   کا معلوم ہے کہ یہ کاتب  تھا اور یہ متن   کسی اور سند سے معلوم نہیں ہے لہذا یہ روایت بھی لائق التفات نہیں ہے

قال ابن كثير: وهو موقوف من كلام ابن عباس وليس فيه مرفوع إلا قليل منه، وكأنه تلقاه ابن عباس مما أبيح نقله من الإسرائيليات عن كعب الأحبار أو غيره، وسمعت شيخنا الحافظ أبا الحجاج المزي يقول ذلك أيضاً” التفسير3/ 153

 ابن کثیر نے کہا  یہ کلام ابن عباس پر موقوف ہے اور  اس کا کچھ حصہ مرفوع بھی ہے  مگر بہت تھوڑا –  اور ابن عباس نے  گویا  کہ روایت میں  کعب   الاحبار کی  الإسرائيليات  کو نقل کر دیا ہے اور دوسروں کی  اور ہمارے شیخ  المزی      بھی ایسا ہی کہتے ہیں
بحوالہ أنِيسُ السَّاري في تخريج وَتحقيق الأحاديث التي ذكرها الحَافظ ابن حَجر العسقلاني في فَتح البَاري  از  نبيل بن منصور  البصارة الكويتي

روایات میں ہارون علیہ السلام کا ذکر اسرائیلیات کا اثر ہے کیونکہ یہ بنی اسرائیل کا دعوی ہے کہ بچھڑے یا عجل  کا بت ہارون نے تراشا  – توریت خروج باب ٣٢ میں اس کا   ذکر ہے

 شیعوں کی تفسیر قمی  ،  تفسیر  طبرسی  وغیرہ میں بھی  اس کو قدم    رمکہ   جبریل   یعنی جبریل کے   گھوڑے   کے پیر کی مٹی کی  برکت قرار دیا گیا ہے  جو سامری  نے سمندر پھٹنے   پر     جو   رستہ بنا اس میں سے لی تھی    (من تحت حافر رمكه جبرئيل في البحر فنبذتها يعني أمسكتها فنبذتها في جوف العجل) –  اس قول کی سند   شیعہ  تفسیروں میں موجود  نہیں ہے

راقم کہتا ہے سامری کا یہ قول محض جھانسا دینا ہے – وہ موسی علیہ السلام کو ذہنی رشوت دے رہا ہے کہ گویا ابھی قوم کے سامنے موسی تم میری بات کو اس طرح قبول کر لو     کہ تمہاری برکت سے ایسا ہوا     اور ہم دونوں آپس میں مل جاتے ہیں-موسی علیہ السلام نے اس کو فورا بد دعا دے دی-   حبل اللہ  شمارہ     ٢١        (مدیر  اعظم   خان  ، نائب مدیر  انیس الدین ) میں اسی     کو  سامری   کی نفسیاتی   چا ل    قرار دیا گیا ہے نہ کہ جبریل  علیہ السلام یا موسی یا ہارون علیہما  السلام کا کوئی معجزہ    –

راقم  کہتا ہے   ایک جم غفیر نے  سامری  کے عمل کو موسی  علیہ السلام  یا    جبریل علیہ السلام کے گھوڑے    کے سم کی برکت قرار دیا ہے اور اس کو تابعین و اصحاب رسول کا قول کہہ  کر قبول کیا ہے – اسی گروہ  کے علماء   کا کہنا ہے کہ  کفار کو معجزہ   یا استدراج  من جانب اللہ ملتا ہے –  لیکن جیسا ہم نے دیکھا  یہ نتیجہ جن  روایات کی بنیاد پر   اخذ کیا گیا ہے وہ سندا صحیح نہیں ہیں  اور متن قران میں   بھی  کسی    دھوکہ باز  کے جملے ذکر   ہونے کا  مطلب یہ نہیں ہے وہ حقیقت  حال  ہیں  کیونکہ    جو  دھوکہ باز ہو وہ   دھوکہ دھی  کے لئے کچھ بھی بول سکتا ہے

حدیث مغیرہ (رض) کا مطلب

صحیح بخاری کی حدیث ہے

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي قَيْسٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ لِي الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ :‏‏‏‏ “مَا سَأَلَ أَحَدٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الدَّجَّالِ أَكْثَرَ مَا سَأَلْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّهُ قَالَ لِي:‏‏‏‏ مَا يَضُرُّكَ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ لِأَنَّهُمْ يَقُولُونَ إِنَّ مَعَهُ جَبَلَ خُبْزٍ وَنَهَرَ مَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ هُوَ أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ ذَلِكَ”.

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا مجھ سے اسماعیل نے بیان کیا، ان سے قیس نے بیان کیا، کہ مجھ سے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ دجال کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جتنا میں نے پوچھا اتنا کسی نے نہیں پوچھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھا کہ اس سے تمہیں کیا نقصان پہنچے گا۔ میں نے عرض کیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ روٹی کا پہاڑ اور پانی کی نہر ہو گی، فرمایا کہ وہ اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ ذلیل ہے۔

بعض  مترجمین    کی جانب سے    روایت مغیرہ رضی اللہ عنہ کو پیش کر کے اس کا ترجمہ کیا  جاتا ہے

هُوَ أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ ذَلِكَ

وہ الله پر اس سے بھی زیادہ آسان ہے

پھر ثابت کیا جاتا ہے کہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مغیرہ رضی اللہ عنہ  کو دجال سے مزید ڈرایا   کہ اللہ کے لئے آسان ہے کہ دجال کو    استدراج و آیت و معجزہ   دے – افسوس مطلب براری کے لئے  مترجمین  نے حدیث کا مفہوم ہی بدل دیا – نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو انکار کیا کہ دجال مومنوں کو کچھ نقصان دے گا ،  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے دجال کو کم تر و حقیر قرار دیا نہ کہ اس کے استدراج کو من جانب اللہ قرار دیا

اس حدیث کے تراجم میں لوگ تبدیلی کرتے رہتے ہیں –  بعض مترجمین نے صحیح  ترجمہ  بھی  کیا ہے مثلا

http://www.hadithurdu.com/09/9-5-59/

جلد پنجم قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والی نشانیاں اور دجال کا ذکر مشکوۃ شریف

مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والی نشانیاں اور دجال کا ذکر ۔

حدیث 59

اہل ایمان کو دجال سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں

عن المغيرة بن شعبة قال ما سأل أحد رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الدجال أكثر مما

سألته وإنه قال لي ما يضرك ؟ قلت إنهم يقولون إن معه جبل خبز ونهر ماء . قال هو أهون

على الله من ذلك . متفق عليه .

  اور حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ دجال کے بارے میں

جس قدر میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ہے اتنا کسی اور نے نہیں

پوچھا ! چنانچہ (ایک دن ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ ” دجال تمہیں

کوئی ضرر نہیں پہنچا سکے گا یعنی تمہارے اوپر چونکہ حق تعالیٰ کی عنایت وحمایت کا

سایہ ہوگا اس لئے دجال تمہیں گمراہ نہیں کر سکے گا ” میں نے عرض کیا کہ لوگ یہ

کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ روٹیوں کا پہاڑ ( یعنی پہاڑ کے بقدر غذائی ضروریات کا

ذخیرہ ) ہوگا اور پانی کی نہر اس وقت جب کہ لوگ قحط سالی کا شکار ہوں گے اگر کوئی

شخص بھوک و پیاس سے اضطرار کی حالت کو پہنچ جائے تو وہ کیا کرے ؟ آنحضرت

صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دجال اللہ تعالیٰ کی نزدیک اس سے زیادہ ذلیل ہے ۔ بخاری ومسلم  

تشریح  : اس سے زیادہ ذلیل ہے ” کا مطلب یہ ہے کہ دجال اپنی طاقت وقوت کے جو مظاہر پیش کرے گا وہ سب بے حقیقت ہونگے کہ ان چیزوں کی حیثیت شعبدہ بازی ، فریب کاری اور نظر بندی سے زیادہ اور کچھ نہیں ہوگی وہ اللہ کے نزدیک اس قدر ذلیل و بے حیثیت ہے کہ حقیقت کے اعتبار سے اس کو اتنی زیادہ طاقت وقدرت عطانہیں ہو سکتی اور وہ اس بات پر قادر ہی نہیں ہو سکتا کہ اپنے عقیدہ وعمل پر مضبوطی سے قائم رہنے والے اہل ایمان کو گمراہ کر سکے لہٰذا اہل ایمان دجال کی اس مافوق الفطرت طاقت کو دیکھ کر کہ جو صرف ظاہر میں طاقت نظر آئے گی اور حقیقت میں دھوکہ کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا ہرگز خوفزدہ نہیں ہوں گے بلکہ وہ تو اس کی شعبدہ بازیوں اور اس کے محیر العقول کارناموں کو دیکھ کر اس کے دجل وفریب اور جھوٹ پر اپنے یقین کو اور زیادہ پختہ  کریں گے ۔

http://www.hadithurdu.com/musnad-ahmad/11-8-60/?s=&st1=&st2=%20هو%20أهون%20على%20الله%20&st3=&st4=

مسند احمد ۔ جلد ہشتم ۔ حدیث 60

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ إِسْمَاعِيلَ عَنْ قَيْسٍ عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ مَا سَأَلَ أَحَدٌ

النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرَ مِمَّا سَأَلْتُ أَنَا عَنْهُ فَقَالَ إِنَّهُ لَا يَضُرُّكَ قَالَ قُلْتُ إِنَّهُمْ يَقُولُونَ مَعَهُ

نَهَرٌ وَكَذَا وَكَذَا قَالَ هُوَ أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ ذَاكَ

حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دجال کے متعلق جتنی کثرت کے ساتھ

میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال پوچھے ہیں کسی نے نہیں پوچھے نبی

کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا کہ وہ تمہیں کچھ نقصان نہ پہنچاسکے گا

میں نے عرض کیا کہ لوگ کہتے ہیں اس کے ساتھ ایک نہر بھی ہوگی اور فلاں فلاں چیز

بھی ہوگی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ اللہ کے نزدیک اس سے بہت حقیر

ہے۔

http://www.hadithurdu.com/musnad-ahmad/11-8-70/?s=&st1=&st2=%20هو%20أهون%20على%20الله%20&st3=&st4=

مسند احمد ۔ جلد ہشتم ۔ حدیث 70

حَدَّثَنَا يَزِيدُ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ مَا

سَأَلَ أَحَدٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الدَّجَّالِ أَكْثَرَ مِمَّا سَأَلْتُهُ عَنْهُ فَقَالَ لِي أَيْ بُنَيَّ وَمَا

يُنْصِبُكَ مِنْهُ إِنَّهُ لَنْ يَضُرَّكَ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُمْ يَزْعُمُونَ أَنَّ مَعَهُ جِبَالَ الْخُبْزِ وَأَنْهَارَ الْمَاءِ

فَقَالَ هُوَ أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ ذَاكَ

حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دجال کے متعلق جتنی کثرت کے ساتھ

میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال پوچھے ہیں کسی نے نہیں پوچھے نبی

کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا کہ وہ تمہیں کچھ نقصان نہ پہنچاسکے گا

میں نے عرض کیا کہ لوگ کہتے ہیں اس کے سا تھا ایک نہر بھی ہوگی اور فلاں فلاں

چیزبھی ہوگی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ اللہ کے نزدیک اس سے بہت

حقیر ہے۔

http://www.hadithurdu.com/musnad-ahmad/11-8-101/?s=&st1=&st2=%20هو%20أهون%20على%20الله%20&st3=&st4=

مسند احمد ۔ جلد ہشتم ۔ حدیث 101

حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنِي قَيْسٌ قَالَ قَالَ لِي الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ مَا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ

عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الدَّجَّالِ أَحَدٌ أَكْثَرَ مِمَّا سَأَلْتُهُ وَإِنَّهُ قَالَ لِي مَا يَضُرُّكَ مِنْهُ قَالَ قُلْتُ إِنَّهُمْ يَقُولُونَ إِنَّ

مَعَهُ جَبَلَ خُبْزٍ وَنَهْرَ مَاءٍ قَالَ هُوَ أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ ذَاكَ

حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دجال کے متعلق جتنی کثرت کے ساتھ

میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال پوچھے ہیں کسی نے نہیں پوچھے نبی

کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا کہ وہ تمہیں کچھ نقصان نہ پہنچا سکے گا

میں نے عرض کیا کہ لوگ کہتے ہیں اس کے سا تھا ایک نہر بھی ہوگی اور فلاں فلاں

چیز بھی ہوگی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ اللہ کے نزدیک اس سے بہت

حقیر ہے۔

اب غلط ترجمہ دیکھتے ہیں

سنن ابن ماجہ

4073

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ  بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ: مَا سَأَلَ أَحَدٌ النَّبِيَّ ﷺ، عَنِ  الدَّجَّالِ أَكْثَرَ مِمَّا سَأَلْتُهُ ( وَقَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ أَشَدَّ سُؤَالا مِنِّي ) فَقَالَ: ” لِي مَا تَسْأَلُ عَنْهُ؟ ” قُلْتُ: إِنَّهُمْ  يَقُولُونَ: إِنَّ مَعَهُ الطَّعَامَ وَالشَّرَابَ،قَالَ: ” هُوَ أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ ذَلِكَ “۔

تخريج: خ/الفتن ۲۷ (۷۱۲۲)، م/الفتن ۲۲ (۲۹۳۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۲۳)، وقد

أخرجہ: حم (۴/۲۴۶، ۲۴۸، ۲۵۲) (صحیح)

۴۰۷۳-

 مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے دجا ل کے بارے میں جتنے سوالا ت میں نے کئے ہیں، اتنے کسی اور نے نہیں کئے ،(ابن نمیر کی روا یت میں یہ الفا ظ ہیں ” أَشَدَّ سُؤَالا مِنِّي ” یعنی مجھ سے زیا دہ سوال اور کسی نے  نہیں کئے)، آخر آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ”تم اس کے با رے میں کیا پو چھتے ہو؟  میں نے عرض کیا : لوگ کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ کھانا اور پا نی ہو گا ،آپ ﷺ نے

فرمایا:” اللہ تعالیٰ پر وہ اس سے بھی زیادہ آسان ہے ۱ ؎ ۔

وضاحت ۱ ؎ : یا اللہ تعالی پر یہ با ت دجال سے زیادہ آسان ہے، یعنی جب اس نے دجال کو پیدا کر دیا تو اس کو کھانا پانی دینا کیا مشکل ہے، صحیحین کی روایت میں ہے کہ میں نے عرض کیا: لوگ کہتے ہیں کہ اس کے پاس روٹی کا پہاڑ ہوگا اور پانی کی نہریں  ہوں گی، تب آپ نے یہ فرمایا – اور ممکن ہے کہ حدیث کا ترجمہ یوں کیا جا ئے کہ اللہ تعالی پر یہ بات آسان ہے دجال سے زیادہ یعنی جب ا س نے دجال کو پیدا کردیا تو اس کو کھانا پانی دینا کیا مشکل ہے ، اور بعضوں نے کہا مطلب یہ ہے کہ دجال ذلیل ہے ، اللہ تعالی کے نزدیک اس سے کہ ان چیزوں کے ذریعے سے اس کی تصدیق کی جائے کیونکہ

اس کی پیشانی اور آنکھ پر اس کے جھوٹے ہونے کی نشانی ظاہر ہوگی ، واللہ اعلم۔

یہاں  مترجم نے ترجمہ غلط کیا ہے-   اپنے  موقف کہ دجال کو اختیار من جانب اللہ ملے گا   ، اس  کو متن میں ملا دیا ہے لیکن  شرح میں جو صحیح ترجمہ تھا اس کا بھی ذکر کر دیا ہے  – اب   سوال ہے کہ  أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ   کا درست ترجمہ کیا   آسان کرنا ہے  یا کسی کو ذلیل و حقیر قرار دینا ہے ؟

اس کا جواب حدیث لٹریچر میں ہی مل جاتا ہے  – سنن دارمی کی حدیث ہے

http://www.hadithurdu.com/10/10-2-578/?s=أَهْوَنُ+عَلَى+اللَّهِ

سنن دارمی ۔ جلد دوم ۔ دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان ۔ حدیث 578

دنیا کا اللہ کے نزدیک بے حثییت ہونا۔

أَخْبَرَنَا حَجَّاجٌ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ أَبِي الْمُهَزِّمِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ  وَسَلَّمَ مَرَّ بِسَخْلَةٍ جَرْبَاءَ قَدْ أَخْرَجَهَا أَهْلُهَا قَالَ تُرَوْنَ هَذِهِ هَيِّنَةً عَلَى أَهْلِهَا قَالُوا نَعَمْ قَالَ وَاللَّهِ لَلدُّنْيَا  أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ عَلَى أَهْلِهَا

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ایک خارش زدہ بکری کے پاس سے  گزرے جس کو اس کے مالک نے باہر پھینک دیا تھا نے دریافت کیا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ اس کے مالک کے نزدیک اس کی کوئی حثییت نہیں ہے لوگوں نے عرض کی جی ہاں – آپ نے فرمایا اللہ کی قسم یہ اپنے مالک کے نزدیک جتنی بے حثییت ہے دنیا اللہ کی نزدیک اس سے زیادہ کہیں بے حثییت ہے۔

http://www.hadithurdu.com/musnad-ahmad/11-4-1560/?s=أَهْوَنُ+عَلَى+اللَّهِ

مسند احمد ۔ جلد چہارم ۔ حدیث 1560

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَذْهَبَ عَنْكُمْ عُبِّيَّةَ  الْجَاهِلِيَّةِ وَفَخْرَهَا بِالْآبَاءِ مُؤْمِنٌ تَقِيٌّ وَفَاجِرٌ شَقِيٌّ وَالنَّاسُ بَنُو آدَمَ وَآدَمُ مِنْ تُرَابٍ لَيَنْتَهِيَنَّ أَقْوَامٌ  فَخْرَهُمْ بِرِجَالٍ أَوْ لَيَكُونُنَّ أَهْوَنَ عَلَى اللَّهِ مِنْ عِدَّتِهِمْ مِنْ الْجِعْلَانِ الَّتِي تَدْفَعُ بِأَنْفِهَا النَّتَنَ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے  فرمایا اللہ تبارک وتعالیٰ نے تم سے جاہلیت کا تعصب اور اپنے آباواجداد پر فخر کرنا دور  کردیا ہے۔ اب یا تو کوئی شخص متقی مسلمان ہوگا یا بدبخت گناہ گار ہوگا سب لوگ آدم  علیہ السلام کی اولاد ہیں اور آدم علیہ السلام کی پیدائش مٹی سے ہوئی تھی لوگ آپنے آباؤ  اجداد پر فخر کرنے سے باز آجائیں ورنہ اللہ کی نگاہوں میں وہ اس بکری سے بھی زیادہ  حقیرہوں گے جس کے جسم سے بدبو آنا شروع ہوگئی ہو اور وہ اسے اٹھانے کے لئے پیسے دینے پر تیار ہوں۔

http://www.hadithurdu.com/musnad-ahmad/11-4-3542/?s=أَهْوَنُ+عَلَى+اللَّهِ

مسند احمد ۔ جلد چہارم ۔ حدیث 3542

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ عَنِ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَيَدَعَنَّ رِجَالٌ فَخْرَهُمْ بِأَقْوَامٍ إِنَّمَا هُمْ فَحْمٌ مِنْ فَحْمِ جَهَنَّمَ أَوْ لَيَكُونُنَّ أَهْوَنَ عَلَى اللَّهِ مِنْ الْجِعْلَانِ الَّتِي تَدْفَعُ بِأَنْفِهَا النَّتِنَ وَقَالَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَذْهَبَ عَنْكُمْ عُبِّيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ وَفَخْرَهَا  بِالْآبَاءِ مُؤْمِنٌ تَقِيٌّ وَفَاجِرٌ شَقِيٌّ النَّاسُ بَنُو آدَمَ وَآدَمُ مِنْ تُرَابٍ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے  فرمایا لوگ اپنے آباؤ اجداد پر فخر کرنے سے باز آجائیں ورنہ اللہ کی نگاہوں میں وہ اس  بکری سے بھی زیادہ حقیر ہوں گے جس کے جسم سے بدبو آنا شروع ہوگئی ہو اللہ تبارک  وتعالیٰ نے تم سے جاہلیت کا تعصب اور اپنے آباؤ اجداد پر فخر کرنا دور کردیا ہے اب یا  تو کوئی شخص متقی مسلمان ہوگا یا بدبخت گناہگار ہوگا سب لوگ آدم علیہ السلام کی اولاد  ہیں اور آدم علیہ السلام کی پیدائش مٹی سے ہوئی تھی۔

روایت میں الفاظ   موجود ہیں   لَيَكُونُنَّ أَهْوَنَ عَلَى اللَّهِ مِنْ الْجِعْلَانِ  کہ  وہ بکری سے بھی زیادہ حقیر ہوں گے

معلوم ہوا کہ  صحیح ترجمہ   حدیث مغیرہ  رضی اللہ عنہ  کا یہی ہے کہ دجال حقیر  و کم تر ہے کہ اللہ تعالی  اس کو آیات  و معجزات  و استدراج    عطا کرے

حدیث  سنن نسائی میں ہے

لزوال الدّنيا أهون على الله من قتل رجل مسلم

دنیا کو ختم کرنا اللہ کے نزدیک قتل مسلم سے بھی حقیر ہے

یعنی مومن کا قتل بہت بڑی چیز ہے

اس روایت میں جو بیان ہوا ہے اس کو ضروری نہیں خرق عادت قرار دیا جائے مثلا پہاڑ تو عرب صفا و مروہ کو بھی کہتے ہیں اور آپ نے اگر ان کو دیکھا ہو تو وہ کوئی بہت بڑے نہیں ہیں-  پانی کی نہر سے مراد پانی کی فراہمی ہے –  اسی طرح روایت میں دجال کی جنت جہنم کا ذکر ہے اس کی تاویل بھی ممکن ہے  مثلا  لیکویڈ نٹروجن   دیکھنے میں   پانی کی مانند ہے لیکن جسم کو اس قدر ٹھنڈا کر دیا گی کہ سیکنڈ وں میں برف بن جائے – اس دوران  شدید جلن کا احساس ہو گا جیسے  بدن آگ  میں  جل رہا ہو-  دجال کی  ان شعبدہ بازیوں کی تاویل ممکن ہے –

تقابل

عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ مروی عن حُذَيْفَةَ  اور   َأَبُو مَسْعُود  و   رجل میں اصحاب النبی

 

صحیح ابن حبان  ٦٨٠٠

مسند احمد

مستخرج أبو عَوانة  ٩٣٨٠

صحیح مسلم  ٢٩٢٩

مسند احمد

23090

23683

23684

23685

صحیح ابن حبان ٦٧٩٩

قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ بَلَغَنِي أَنَّ مَعَ الدَّجَّالِ جِبَالُ الْخُبْزِ وَأَنْهَارُ الْمَاءُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “هُوَ أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ ذَلِكَ”. قَالَ الْمُغِيرَةُ: فَكُنْتُ مِنْ أَكْثَرِ النَّاسِ سُؤَالًا عَنْهُ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “لَيْسَ بِالَّذِي يَضُرُّكَ

 

مغیرہ رضی الله عنہ نے کہا یا رسول الله مجھ تک پہنچا کہ دجال کے ساتھ روٹی کا پہاڑ اور پانی کی نہریں ہوں گی ؟ رسول الله نے فرمایا : الله کے نزدیک یہ اس سے زیادہ ذلیل ہے

 

يَسِيرُ مَعَهُ جِبَالُ الْخُبْزِ وَأَنْهَارُ الْمَاءِ

دجال اپنے ساتھ روٹی کے پہاڑ اور پانی کی نہریں لے کر چلے گا

 

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ أَبِي هِنْدَ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، قَالَ: اجْتَمَعَ حُذَيْفَةَ وَأَبُو مَسْعُودٍ، فَقَالَ حُذَيْفَةَ: أَنَا أَعْلَمُ بِمَا مَعَ الدَّجَّالِ مِنْهُ، إِنَّ مَعَهُ نَهْرًا مِنْ نَارٍ، وَنَهْرًا مِنْ مَاءٍ، فَالَّذِي  يَرَوْنَ أَنَّهُ نَارٌ: مَاءٌ، وَالَّذِي يَرَوْنَ أَنَّهُ مَاءٌ: نَارٌ، فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ، فَأَرَادَ الْمَاءَ فَلْيَشْرَبْ مِنَ الَّذِي يَرَى أَنَّهُ نَارٌ، فَإِنَّهُ سَيَجِدُهُ مَاءً. قَالَ أَبُو مَسْعُودٍ: هَكَذَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يقول

رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ نے کہا ہم حُذَيْفَةَ وَأَبُو مَسْعُودٍ کے پاس جمع ہوئے – حُذَيْفَةَ بولے  مجھے معلوم ہے دجال کے پاس  کیا ہو گا – اس سے پاس اگ کی نہر ہو گی اور پانی کی – تو جو اگ نظر آئی گی وہ پانی ہو گا اور جو پانی نظر آئے گا وہ اگ ہو گی – پس تم میں کوئی اس کو پائے تو اس میں سے پی لے جو اگ لگے اس کو پانی ملے گا – ابو مسعود نے کہا ایسا ہی  میں نے رسول اللہ سے سنا

 

 مغیرہ  رضی اللہ عنہ  کا سوال  اس حدیث پر تھا جو حُذَيْفَةَ  اور   َأَبُو مَسْعُود   رضی اللہ  عنہما    نے بیان کی تھی- اور دونوں حُذَيْفَةَ   اور    َأَبُو مَسْعُود  رضی اللہ  عنہما   نے وضاحت کی کہ ان کے نزدیک بھی دجال کے پاس فراڈ ہو گا نہ کہ حقیقی آیات – مغیرہ نے اس پر سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے خبر دی کہ دجال کم تر و حقیر ہے

محدث ابن حبان کہتے ہیں

قَالَ أَبُو حَاتِمٍ : إِنْكَارِ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمُغِيرَةِ بِأَنَّ مَعَ الدَّجَّالِ أَنْهَارُ الْمَاءِ لَيْسَ يُضَادُّ خَبَرَ أبي مسعود والذي ذَكَرْنَاهُ، لِأَنَّهُ أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ أَنْ يَكُونَ مَعَهُ نَهْرُ الْمَاءِ يَجْرِي وَالَّذِي مَعَهُ يُرَى أَنَّهُ مَاءٌ وَلَا مَاءَ، مِنْ غَيْرِ أن يكون بينهما تضاد.

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار مغیرہ سے کہ دجال کے پاس پانی کی نہر ہو گی اس ابو مسعود کی خبر کا انکار نہیں ہے بلکہ دجال اللہ کے نزدیک ذلیل ہے کہ اس کے پاس پانی کی نہر ہو جو جاری ہو بلکہ اس پاس جو ہو گا وہ دیکھنے میں پانی لگے گا نہ کہ واقعی پانی  ہو گا

علي القاري  “شرح المشكاة”  کی تعلیق میں  حدیث کے الفاظ پر  کہتے ہیں: “هو أهون على الله من ذلك”: أي: هو أحقر من أن الله تعالى يحقق له ذلك، وإنما هو تخييل وتمويه للابتلاء

وہ اللہ کے نزدیک اس سے بھی ذلیل ہے یعنی وہ ذلیل ہے کہ اللہ تعالی اس کو یہ حق دے بلکہ یہ سب تخیل و   جھوٹ    ابتلاء کے لئے ہو گا

أنور الكشميري   “فيض الباري” 4/  ١٩    میں کہتے ہیں : واعلم أنه لا يكون مع الدجال إلا تخيلات ليس لها حقائق فلا يكون لها ثبات، وإنما يراه الناس في أعينهم فقط.

اور جان لو کہ دجال کے پاس محض   تخیلات ہوں گے نہ کہ حقیقی چیزیں پس ان کو ثبات نہ ہو گا ، بس وہ لوگوں کو   فقط  آنکھوں سے نظر آئیں گی

طحاوی  مشکل الاثار میں   اسی روایت پر کہتے ہیں

يُوهِمُهُ الدَّجَّالُ النَّاسَ بِسِحْرِهِ أَنَّهُ مَاءٌ وَخُبْزٌ، فَيَرَوْنَهُ كَذَلِكَ بِسِحْرِهِ الَّذِي يَكُونُ مَعَهُ مِمَّا يَقْدِرُ بِهِ عَلَيْهِمْ، حَتَّى يَرَوْنَ أَنَّ ذَلِكَ فِي  الْحَقِيقَةِ كَمَا يَرَوْنَهُ بِأَعْيُنِهِمْ فِي ظُنُوُنِهِمْ، وَلَيْسَ كَذَلِكَ

دجال لوگوں کو اپنے  جادو سے وہم میں ڈالے گا کہ اس پر روٹی و پانی ہے پس وہ لوگوں کو نظر آئے  گا بسبب سحر کہ دجال کے پاس روٹی و پانی ہے   یہاں تک کہ وہ   اس کو حقیقت  جانیں گے  کہ گویا   اپنے گمان کو آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں گے اور ایسا حقیقت میں نہیں ہو گا

قاضی  ابن العربي کے نزدیک

  إنما هو تخييل وشبه على الأبصار، فيثبت المؤمن ويزل الكافر

یہ سب تخیل و شبہ ہو گا

كشف المشكل من حديث الصحيحين میں ابن جوزی کا کہنا ہے

 أَنه تخييل لَا حَقِيقَة  یہ تخیل ہو گا نہ کہ حقیقت

سیوطی  شرح ابن ماجہ میں کہتے ہیں

هُوَ اهون على الله من ذَلِك أَي من ان يُعْطِيهِ هَذَا الخارق الْعَظِيم لَكِن يموه ويشعبد مثل هَذَا الشعبدات وَلَيْسَ الا تخيل مَحْض لَيْسَ من نفس الْأَمر فِيهِ شَيْء كَمَا هُوَ مشَاهد من أهل النير بخات والطلسمات فِي زَمَاننَا

وہ دجال اللہ کے نزدیک اس سے بھی ذلیل ہے یعنی    کہ دجال ذلیل ہے کہ اللہ اس کو اس طرح کی خارق  عادت چیزیں دے لیکن یہ سب فراڈ  اور شعبدہ بازی ہو گی جیسا  شعبدہ باز  کرتے ہیں اور یہ نہیں ہے سوائے  تخیل  محض  کے نہ کہ نفس امر کوئی چیز بدلے گی   جیسا  آجکل ہم دیکھتے ہیں  اپنے دور کے اہل  النير بخات والطلسمات      (جادو گروں )  میں

نزول المسیح و خروج الدجال پر کتاب ٢

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

کتاب کا موضوع   روایات   نزول مسیح و خروج  دجال ہے  جو صحیح احادیث سے ثابت ہے لیکن ان   روایات میں تمام صحیح نہیں – بعض اہل کتاب کے اقوال ، سیاسی بیانات اور   ذاتی آراء بھی ہیں جو حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم  سمجھی جانے لگی ہیں-   امت  میں نزول مسیح اور قتل دجال کے مقام کے حوالے سے اختلاف چلا آ رہا ہے اور یہ اختلاف مشہور محدثین میں بھی موجود ہے –  امام مسلم نے غلطی سے     اس  حدیث  کو صحیح سمجھا ہے جو نواس   رضی اللہ عنہ سے منسوب  کی گئی ،  جبکہ   راقم کے نزدیک  یہ کعب  الاحبار کے   خیالات  اور اسرائیلیات   کا مجموعہ   ہے –  نواس   رضی اللہ عنہ سے منسوب  کی گئی  اس حدیث کے مطابق  عیسیٰ علیہ السلام کا   نزول دمشق میں ہے  اور دجال کا قتل لد پر ہو گا – دوسری طرف   محدث ابن خزیمہ اس کے قائل تھے کہ دجال بیت المقدس میں  ایک زلزلہ میں ہلاک ہو گا- ابن خزیمہ نے ان احادیث کو  اپنی   صحیح میں نقل نہیں کیا جن میں   ہے کہ دجال لد پر قتل ہو  گا- سیوطی  اور ملا علی قاری بھی  اس کے قائل ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کا نزول   بیت المقدس میں ہو گا -بعض علماء کا قول یہ بھی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا نزول دمشق سے باہر مشرق کی سمت پر ہو گا مثلا  امام حاکم اس کے قائل ہیں کہ مسیح کا نزول   مشرقی دمشق   میں ہو گا ( نہ کہ وسط دمشق  میں الفاظ ہیں  فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ )- امام  ابن حبان اور امام بخاری  نے اپنی  اپنی صحیح  میں حدیث نواس رضی اللہ عنہ  کو درج نہیں کیا اور نزول مسیح کے مقام سے متعلق کوئی روایت نہیں دی،  نہ ان دونوں نے سفید  مینار کا  کوئی  ذکر کیا ہے – ابن حبان اگرچہ  ایک دوسری سند سے اس کے قائل ہیں کہ دجال کا قتل لد پر ہو گا – امام   ابی حاتم کے نزدیک اس حوالے سے بعض  روایات اصلا کعب الاحبار کے اقوال ہیں –    راقم کی تحقیق سے امام ابی حاتم کا قول ثابت ہوتا ہے-

بعض روایات صریحا خلاف قرآن ہیں لیکن افسوس ان بھی قبول کر لیا گیا ہے مثلا درخت  غرقد  کی خبر  کہ وہ اللہ اور اس کے رسولوں کا دشمن ہے   یا خبر  کہ  حربی  یہود  کے علاوہ    سب یہود  کو  بلا   امتیاز  قتل کیا جائے گا-  اسی طرح  بعض  خبریں  دجال کی  الوہی صفات   پر ہیں مثلا اس کا  مردے  کو زندہ کرنا، آسمان و زمین کا اس کی اطاعت کرنا- افسوس ان میں سے ایک آدھ خبر صحیح بخاری و مسلم میں بھی موجود ہے  جن کا تعاقب  علماء  و محدثین  کے اقوال ، زمینی حقائق، قرائن، اسرائیلیات   کی روشنی   میں  کیا گیا ہے – استدراج  دجال کے حوالے سے   امت میں اختلاف موجود ہے –  بعض کے نزدیک یہ محض دھوکہ ہے ، بعض کے نزدیک جادو ، بعض  کے نزدیک فن سائنس میں  انسانی ترقی     وغیرہ –

 ابن حزم،  الفصل في الملل والأهواء والنحل    میں لکھتے ہیں

إِن الْمُسلمين فِيهِ على أَقسَام فَأَما ضرار ابْن عمر وَسَائِر الْخَوَارِج فَإِنَّهُم ينفون أَن يكون الدَّجَّال جملَة فَكيف أَن يكون لَهُ آيَة وَأما سَائِر فرق الْمُسلمين فَلَا ينفون ذَلِك والعجائب الْمَذْكُورَة عَنهُ إِنَّمَا جَاءَت بِنَقْل الْآحَاد وَقَالَ بعض أَصْحَاب الْكَلَام أَن الدَّجَّال إِنَّمَا يَدعِي الربوبية ومدعي الربوبية فِي نفس قَوْله بَيَان كذبه قَالُوا فظهور الْآيَة عَلَيْهِ لَيْسَ مُوجبا لضلال من لَهُ عقل وَأما مدعي النُّبُوَّة فَلَا سَبِيل إِلَى ظُهُور الْآيَات عَلَيْهِ لِأَنَّهُ كَانَ يكون ضلالا لكل ذِي عقل قَالَ أَبُو مُحَمَّد رَضِي الله عَنهُ وَأما قَوْلنَا فِي هَذَا فَهُوَ أَن الْعَجَائِب الظَّاهِرَة من الدَّجَّال إِنَّمَا هِيَ حيل…. وَمن بَاب أَعمال الحلاج وَأَصْحَاب الْعَجَائِب

مسلمان دجال کے حوالے سے  منقسم  ہیں پس ضرار ابْن عمر  اور تمام خوارج یہ اس کا ہی انکار کرتے ہیں کہ دجال ہے پس دجال کی  نشانیاں (ان کے نزدیک ) پھر کیوں ہوں گی – اور جہاں تک باقی مسلمان فرقے ہیں تو وہ دجال کی نفی نہیں کرتے  اور بعض اصحاب اہل کلام کہتے ہیں کہ  دجال یہ رب ہونے کا مدعی ہو گا اور اپنے لئے ایسا قول کہنا ہی اس کے کذاب ہونے کو ظاہر کرتا ہے – وہ کہتے ہیں کہ  جس کے پاس بھی عقل ہے وہ جانتا ہے کہ  دجال سے نشانیوں کا ظہور ہو بھی جائے تو یہ اس کے گمراہ ہونے کی دلیل نہیں ہے  …. امام ابن حزم  نے کہا : ہمارا قول ہے اس پر کہ دجال کے عجائب جو ظہور ہوں گے یہ حیل و فریب ہوں گے  جیسا  …. حلاج کے اصحاب نے یا عجائب کے اصحاب نے کیا

ابن کثیر نے لکھا  ہے

وَقَدْ تَمَسَّكَ بِهَذَا الْحَدِيثِ طَائِفَةٌ مِنَ الْعُلَمَاءِ كَابْنِ حَزْمٍ وَالطَّحَاوِيِّ وَغَيْرِهِمَا فِي أَنَّ الدَّجَّالَ مُمَخْرِقٌ  مُمَوِّهٌ لَا حَقِيقَةَ لِمَا يُبْدِي لِلنَّاسِ مِنَ الْأُمُورِ الَّتِي تُشَاهَدُ فِي زَمَانِهِ

ان احادیث سے علماء کے ایک گروہ مثلا ابن حزم اور امام طحاوی نے تمسک کیا ہے کہ دجال ایک شعبدہ باز ہو گا  جو حقیقت پر منبی نہ گا جب وہ ان امور کو اپنے زمانے کے لوگوں کو دکھائے گا

– البيضاوي (ت 685هـ) کے مطابق دجال کا عمل شعبذة الدجال یعنی  شعبدہ بازی ہے

موجودہ دور میں    ایک بد ترین  گمراہی   یہ بھی پیدا ہو چکی ہے کہ استدراج دجال کو آیات انبیاء کا مماثل قرار دیا جا رہا ہے   اور ان کو بھی معجزات کی قبیل  میں سمجھا جانے لگا ہے – نعوذباللہ  من تلک الخرافات-

راقم  کہتا ہے کہ فرعون کے جادو گروں نے جادو کیا تھا  جس سے نظر و  تخیل   کو بدلا    گیا تھا اور یہ    عمل  سحر  تھا جو شیاطین کی مدد سے کیا گیا-     سحر کا اثر وقتی و    چند لمحوں  کا تھا    (سحر کے حوالے سے راقم کی کتاب ویب سائٹ پر موجود ہے ) البتہ    روایات  میں    دجال   کے عجائب  کل   وقتی  و ہنگامی نوعیت کے بیان  نہیں  ہوئے ہیں بلکہ اس میں  تخیل  و سحر سے بڑھ کر صفات الہیہ  کے ظہور    کا ذکر   آیا  ہے   مثلا دجال کے پاس قوت الاحیاء الموتی کا  ہونا ،   اس کا زمین کی گردش بدلنا   اور دنوں کو  طویل کرنا ، دجال  کا آسمان و زمین کو حکم کرنا   اور   زمین  و آسمان  کا    بلا چون و چرا  دجال   کی   اطاعت کرنا وغیرہ – لہذا  ان روایات کی مکمل چھان بین کرنا ضروری ہے  –

خروج دجال سے متعلق  روایات میں    اختلاف پایا جاتا ہے جن کی وجہ سے دجال ایک مسلمان سے یہودی بن جاتا ہے – نزول مسیح     میں التباس پیدا ہوتا ہے اور   آخر میں  شریعت   کے حکم کہ غیر حربی کفار و اہل کتاب کا اور خاص کر عورتوں بچوں اور بوڑھوں کا قتل نہ ہو گا ، اس کا انکار ہوتا ہے –  صدیوں سے سنتے آئے قصوں کو    تاریخ کی کسوٹی پر   پرکھنا  مشکل کام ہے – اس تحقیق سے ہر ایک کا متفق ہونا بھی ضروری نہیں ہوتا  – لیکن   راقم   تک جو علم آیا ہے  اور جو شواہد مل گئے ہیں ان کی بنیاد پر  اب یہ  مشکل امر ہے کہ وہ  اس   سب   کو      چھپا   دے  جو معلوم ہوا – لہذا  جو معلوم ہوا    ان  میں سے  کچھ ضروری  باتیں   و اسرار    اس کتاب میں    آپ کے سامنے  لائے جائیں گے-  اس کتاب کو سن  ٢٠١٧ میں ویب سائٹ پر رکھا گیا تھا  – اس پر قارئین  نے سوالات کیے  اور مزید مباحث  پیدا ہوئے   جن کی بنا پر اس کتاب کی نئی تہذیب کی گئی ہے اور اضافہ ہوا ہے

و ما علینا الا البلاغ المبین –  وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَىٰ تَنفَعُ الْمُؤْمِنِينَ

ابو شہر یار

٢٠١٩

https://www.islamic-belief.net/حَتَّى-إِذَا-فُتِّحَتْ-يَاجُوجُ-وَمَ/
یاجوج ماجوج   کا خروج قتل دجال کے فورا بعد ہے یا قیامت کی آخری نشانی ہے ؟
اس سوال  پر اس کتاب میں بحث ہے

مسجد دمشق کی حقیقت

صحیح بخاری کی حدیث ہے

حَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنِي مَعْمَرٌ وَيُونُسُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عَائِشَةَ وَابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ “لَمَّا نَزَلَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَفِقَ يَطْرَحُ خَمِيصَةً عَلَى وَجْهِهِ فَإِذَا اغْتَمَّ كَشَفَهَا عَنْ وَجْهِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ وَهُوَ كَذَلِكَ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ يُحَذِّرُ مَا صَنَعُوا”

.مجھ سے بشر بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے کہا مجھ کو معمر اور یونس نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے خبر دی کہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نزع کی حالت طاری ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چادر چہرہ     پر باربار ڈال لیتے پھر جب شدت بڑھتی تو اسے ہٹا دیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حالت میں فرمایا تھا، اللہ کی لعنت ہو یہود و نصاریٰ پر کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس امت کو ان کے کئے سے ڈرانا چاہتے تھے۔

موطا    امام مالک   ميں ہے
وَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِي وَثَنًا يُعْبَدُ. اشْتَدَّ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى قَوْمٍ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ

عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ نے کہا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے کہا اے الله ميري قبر کو بت مت بنا – الله کا غضب پڑھتا ہے اس قوم پر جو اپنے انبياء کي قبروں کو مسجد بنا دے

سن ٣٢٥ بعد مسیح  کی بات ہے،   قیصر روم کونستینٹین [1]کی والدہ فلاویہ اولیا  ہیلینا آگسٹا[2]  نے  عیسائی مبلغ  یسوبئوس [3]کو طلب کیا اور نصرانی دھرم کی حقانیت جاننے کے لئے شواہد طلب کیے- کونستینٹین نے اپنی والدہ کو نصرانی دھرم  سے متعلق آثار جمع کرنے پر مقرر کیا یا بالفاظ دیگر ان کو آرکیالوجی کی وزارت کا قلمدان دیا گیا اور اس سب کام میں اس قدر جلدی کی وجہ یہ تھی کہ مملکت کے حکمران طبقہ نے متھرا دھرم[4] چھوڑ کر نصرانی دھرم قبول کر لیا تھا اور اب اس کو عوام میں بھی استوار کرنا تھا لہذا راتوں رات روم میں بیچ شہر میں موجود جوپیٹر یا مشتری کے مندر کو ایک عیسائی عبادت گاہ میں تبدیل کیا گیا اس کے علاوہ یہی کام دیگر اہم شہروں یعنی دمشق اور یروشلم میں بھی کرنے تھے – لیکن ایک مشکل درپیش تھی کہ کن کن مندروں اور مقامات کو گرجا گھروں میں تبدیل کیا جائے؟   اسی کام کو کرنے کا کونستینٹین کی والدہ   ہیلینا نے بیڑا اٹھا لیا اور عیسائی مبلغ  یسوبئوس کو ایک مختصر مدت میں ساری مملکت میں اس قسم کے آثار جمع کرنے کا حکم دیا جن سے دین نصرانیت کی سچائی ظاہر ہو-

عیسائی مبلغ  یسوبئوس  نے نصرانیت کی تاریخ پر کتاب بھی  لکھی اور بتایا کہ ہیلینا کس قدر مذہبی تھیں[5] – یہ یسوبئوس   ہی تھے جنہوں نے کونستینٹین کے سامنے نصرانیوں کا عیسیٰ کی الوہیت پر اختلاف پیش کیا اور سن ٣٢٥ ب م   میں  بادشاہ نے فریقین کا مدعا سننے کے بعد تثلیث [6]کے عقیدے کو   پسند کیا اور اس کو نصرانی دھرم قرار دیا گیا-  واضح رہے کہ کونستینٹین ابھی ایک کافر بت پرست ہی تھا کہ اس کی سربراہی میں نصرانی دھرم کا یہ اہم فیصلہ کیا گیا  – کچھ عرصہ  بعد بادشاہ کونستینٹین  نے خود بھی اس مذھب کو قبول کر لیا-

 بحر الحال،  یسوبئوس  نے راتوں رات کافی کچھ برآمد کر ڈالا جن میں انبیاء کی قبریں، عیسیٰ کی پیدائش اور تدفین کا مقام ،اصلی صلیب، یحیی علیہ السلام کے سر کا مقام، وہ مقام جہاں ہابیل قتل ہوا، کوہ طور، بھڑکتا شجر جو موسی کا دکھایا گیا اور عیسیٰ کے ٹوکرے جن میں مچھلیوں والا معجزہ ہوا تھا  وغیرہ شامل تھے – یہودی جو فارس یا بابل میں تھے وہ بھی بعض انبیاء سے منسوب قبروں کو پوجتے تھے   مثلا دانیال کی قبر وغیرہ- ان مقامات کو فورا مقدس قرار دیا گیا اور یروشلم واپس دنیا کا ایک اہم  تفریحی اور مذہبی مقام بن گیا جہاں ایک میوزیم کی طرح تمام اہم چیزیں لوگوں کو دین مسیحیت کی حقانیت کی طرح بلاتی تھیں- یسوبئوس سے قبل ان مقامات کوکوئی  جانتا تک نہیں تھا اور نہ ہی کوئی تاریخی شواہد اس پر تھے اور نہ ہی یہودی اور عیسائیوں میں یہ مشہور  تھے- مسلمان آج اپنی تفسیروں ،میگزین  اور  فلموں میں انہی مقامات کو دکھاتے ہیں جو در حققت یسوبئوس  کی دریافت تھے- سن ١٧ ہجری میں مسلمان   عمر رضی الله عنہ کے دور میں  ان علاقوں میں داخل ہوئے اور ان عیسائی و یہودی  مذہبی مقامات کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا – یہاں تک کہ نبو امیہ کا دور آیا –  خلیفہ عبد الملک بن مروان کے دور میں ان میں سے بعض مقامات کو مسجد قرار دیا گیا مثلا جامع الاموی دمشق جس میں مشہور  تھا کہ اس میں یحیی علیہ السلام کا سر دفن ہے -اس سے قبل اس مقام پر الحداد کا مندر تھا پھر مشتری کا مندر بنا اور  جس کو یسوبئوس   کی دریافت پر یحیی علیہ السلام کے سر کا مدفن کہا گیا- اسی مقام پر نصرانیوں نے ایک گرجا بنا دیا اور اس میں ان کی عبادت ہونے لگی تھی  –  کہا جاتا ہے کہ جب مسلمان دمشق میں داخل ہوئے تو شہر کے وسط میں ہونے کی وجہ سے اس کے ایک حصے میں مسلمان اپنی عبادت کرتے رہے جو جنوب  شرقی حصے میں ایک چھوٹا سا مصلی تھا –  لیکن مکمل گرجا پر عیسائیوں کا ہی کنٹرول تھا وقت کے ساتھ کافی لوگ مسلمان ہوئے اور ولید بن عبد الملک کے دور میں اس پر مسلمانوں نے مکمل قبضہ کیا-

مسجد دمشق    جامع  بنی امیہ  میں یحیی علیہ السلام سے منسوب مقام

https://www.youtube.com/watch?v=kf6B1cKJFKg

ولید بن عبد الملک بن مروان   کی  تعمیرات

ولید نے کافی تعمیراتی کام کروایے ،   لیکن ان سب کو اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد کیا گیا – اگر ان کے سامنے یہ سب ہوتا تو وہ اس کو پسند نہ کرتے-وقت کے ساتھ مسلمانوں نے ان مقامات پر قبضہ کرنا شروع کیا جو بنیادی طور پر یسوبئوس  کی دریافت تھے اور وہی قبریں جن سے دور رہنے کا فرمان نبوی تھا ان کو اس  امت میں واپس آباد کیا گیا-

ابن بطوطہ المتوفی ٧٧٩ ھ کتاب تحفة النظار في غرائب الأمصار وعجائب الأسفار میں لکھتے ہیں

وفي وسط المسجد قبر زكرياء عليه السلام  ، وعليه تابوت معترض بين أسطوانتين مكسو بثوب حرير أسود معلّم فيه مكتوب بالأبيض:” يا زكرياء إنا نبشرك بغلام اسمه يحيى

اور مسجد کے وسط میں زکریا علیہ السلام کی قبر ہے اور تابوت ہے دو ستونوں کے درمیان جس پر کالا ریشمی کپڑا ہے  اس پر لکھا ہے سفید رنگ میں  یا زكرياء إنا نبشرك بغلام اسمه يحيى

کہیں اس کو یحیی علیہ السلام   کی قبر کہا جاتا ہے کہیں اس کو زکریا علیہ السلام   کی قبر کہا جاتا ہے بعض کتاب میں اس کو هود علیہ السلام کی قبر بھی کہا گیا ہے- کتاب  فضائل الشام ودمشق از ابن أبي الهول (المتوفى: 444هـ)  کے مطابق

 أخبرنا عبد الرحمن بن عمر حدثنا الحسن بن حبيب حدثنا أحمد بن المعلى حدثنا أبو التقي الحمصي حدثنا الوليد بن مسلم قال لما أمر الوليد بن عبد الملك ببناء مسجد دمشق كان سليمان بن عبد الملك هو القيم عليه مع الصناع فوجدوا في حائط المسجد القبلي لوح من حجر فيه كتاب نقش فأتوا به الوليد بن عبد الملك فبعث به إلى الروم فلم يستخرجوه ثم بعث به إلى العبرانيين فلم يستخرجوه ثم بعث به إلى من كان بدمشق من بقية الأشبان فلم يقدر أحد على أن يستخرجه فدلوه على وهب بن منبه فبعث إليه فلما قدم عليه أخبروه بموضع ذلك الحجر الذي وجدوه في ذلك الحائط ويقال إن ذلك الحائط من بناء هود  النبي عليه السلام وفيه قبره

ولید بن مسلم کہتے ہیں کہ جب ولید بن عبد الملک نے مسجد دمشق بنانے کا ارادہ کیا تو سلیمان بن عبد الملک اس پر مقرر کیا   جو کاریگروں کا کام دیکھتے تھے اور ان کو ایک  پتھر کی لوح ملی مسجد کے صحن سے جس پر نقش تھے اور اس کو ولید بن عبد الملک کو دکھایا گیا جس نے اس کو روم بھجوایا  ان سے بھی حل نہ ہوا پھر یہودیوں کو دکھایا ان سے بھی حل نہ ہوا  پھر دمشق کے بقیہ افراد کو دکھایا اور کوئی بھی اس کے حل پر قادر نہ ہوا پس اس کو وھب بن منبہ پر پیش کیا  انہوں نے کہا کہ یہ دیوار هود کے دور کی ہے اور یہاں صحن میں  ان کی قبر ہے

الغرض صحابہ رضوان الله علیھم اجمعین اس مقام کو گرجا کے طور پر ہی جانتے تھے اور ایسی مسجد جس میں جمعہ ہو  کے لئے یہ جگہ معروف نہ تھی-

مینار بنانا ایک عیسائی روایت تھی،  جس میں راہب اس کے اوپر بیٹھتے اور عبادت کرتے اور باقی لوگوں کو اوپر انے کی اجازت نہیں ہوتی تھی-  کتاب  أخبار وحكايات لأبي الحسن الغساني   از  محمد بن الفيض بن محمد بن الفياض أبو الحسن ويقال أبو الفيض الغساني (المتوفى: 315هـ) کی ایک مقطوع روایت ہے

 حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ هِشَامِ بن يحيى الغساني قَالَ حدثن أَبِي عَنْ جَدِّي يَحْيَى بْنِ يحي قَالَ لَمَّا هَمَّ الْوَلِيدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بِكَنِيسَةِ مَرْيُحَنَّا لِيَهْدِمَهَا وَيَزِيدَهَا فِي الْمَسْجِدِ دَخَلَ الْكَنِيسَةَ ثُمَّ صَعَدَ مَنَارَةَ ذَاتِ الْأَكَارِعِ الْمَعْرُوفَةَ بِالسَّاعَاتِ وَفِيهَا رَاهِبٌ نُوبِيٌّ صومعة لَهُ فأحدره من الصوعمعة فَأَكْثَرَ الرَّاهِبُ كَلَامَهُ فَلَمْ تَزَلْ يَدُ الْوَلِيدِ فِي قَفَاهُ حَتَّى أَحْدَرَهُ مِنَ الْمَنَارَةِ ثُمَّ هَمَّ بِهَدْمِ الْكَنِيسَةِ فَقَالَ لَهُ جَمَاعَةٌ مِنْ نَجَّارِي النَّصَارَى مَا نَجْسُرُ عَلَى أَنْ نَبْدَأَ فِي هَدْمِهَا يَا أَمِير الْمُؤمنِينَ نخشى أنَعْثُرَ أَوْ يُصِيبَنَا شَيْءٌ فَقَالَ الْوَلِيد تحذرون وتخافون يَا غلان هَاتِ الْمِعْوَلَ ثُمَّ أُتِيَ بِسُلَّمٍ فَنَصَبَهُ عَلَى مِحْرَابِ الْمَذْبَحِ وَصَعَدَ فَضَرَبَ بِيَدِهِ الْمَذْبَحَ حَتَّى أَثَّرَ فِي هـ أَثَرًا كَبِيرًا ثُمَّ صَعَدَ الْمُسْلِمُونَ فَهَدَمُوهُ وَأَعْطَاهُمُ الْوَلِيدُ مَكَانَ الْكَنِيسَةِ الَّتِي فِي الْمَسْجِدِ الْكَنِيسَةَ الَّتِي تُعْرَفُ بِحَمَّامِ الْقَاسِمِ بِحِذَاءِ دَارِ أَن الْبَنِينَ فِي الْفَرَادِيسِ فَهِيَ تُسَمَّى مَرْيُحَنَّا مَكْانَ هَذِهِ الَّتِي فِي الْمجد وَحَوَّلُوا شَاهِدَهَا فِيمَا يَقُولُونَ هُمْ إِلَيْهَا إِلَى تِلْكَ الْكَنِيسَةِ قَالَ يَحْيَى بْنُ يَحْيَى أَنَا رَأَيْتُ الْوَلِيدَ بْنَ عَبْدِ الْمَلِكِ فَعَلَ ذَلِكَ بِكَنِيسَةِ

 يَحْيَى بْنِ يحي کہتے ہیں کہ جب الْوَلِيدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ نے    کنِيسَةِ مَرْيُحَنَّا کو گرانے کا ارادہ کیا اور اس کی جگہ مسجد کو بنانے کا تو وہ کنِيسَةِ میں آئے اور مَنَارَةَ ذَاتِ الْأَكَارِعِ  پر چڑھے جو السَّاعَاتِ کے نام سے معروف ہے جن میں  راہب    نُوبِيٌّ   تھا … پس عیسائی بڑھییوں نے کہا اے امیر المومنین ہم خوف زدہ ہیں کہ ہم کو کوئی برائی نہ پہنچے پس ولید نے کہا تم سب ڈرتے ہو اوزار لاؤ پھر محراب الْمَذْبَحِ   پر گئے اور وہاں ضرب لگائی جس پر بہت اثر ہوا پھر مسلمان چڑھے اور انہوں نے ضرب لگائی اور اس کو گرایا اور ولید نے عیسائیوں کو کنِيسَةِ کی جگہ….. دوسرا مقام دیا

بنو امیہ کا مقصد قبر پرستی نہیں تھا – ان کا مقصد سیاسی تھا کہ عیسائیوں کو   ان کے معبد خانوں سے بے دخل کرنا تھا کیونکہ وہ شہروں کے بیچ میں تھے اور اہم مقامات پر تھے  – لیکن انہوں نے ان   عیسائیوں  کے اقوال پر ان کو انبیاء کی قبریں مان لیا اور ان کو    مسجد میں بدل دیا گیا – جو مقامات  یسوبئوس نے دریافت کیے تھے ان کو بغیر تحقیق کے قبول کر لیا گیا جبکہ نہ کوئی حدیث تھی نہ حکم رسول- اگلی صدیوں میں ان مقامات کو قبولیت عامہ مل گئی –    تاریخ بیت المقدس نامی کتاب میں جو ابن جوزی تصنیف ہے اس میں مصنف نے بتایا ہے  یہاں کس کس کی قبر ہے جو روایت  بلا سند کے مطابق جبریل علیہ السلام نے بتایا

هذا قبر أبراهيم، هذا قبر سارة، هذا قبر إسحاق، هذا قبر ربعة، هذا قبر يعقوب، هذا قبر زوجته

انہی قبروں کو یہود و نصاری نے آباد کر رکھا تھا جن پر کوئی دلیل نہیں تھی  -اب  انہی  قبروں کو  مسلمانوں    نے   آباد کر رکھا ہے  اور تصور قائم رکھا ہوا کہ یہاں عیسیٰ کا نزول ہو گا – ایسی جگہ عیسیٰ علیہ السلام کا نزول کیوں ہو گا جہاں  انبیاء کی قبریں   کو پوجا کی گئی ہو اور ابھی تک یہ مزارات وہاں موجود ہیں

جامع مسجد الاموی  کا مینار جو بقول ابن کثیر  سن ٧٤١ ھ میں   سفید  پتھر سے  بنا یا  گیا  

مسجد دمشق وہی مقام ہے   جو  انبیاء کی قبروں سے منسوب ہے  اور یہاں اصلا ایک چرچ تھا جس کو  بنو امیہ نے مسجد بنا دیا –    فضائل الشام ودمشق از ابن أبي الهول (المتوفى: 444هـ)  میں ہے

وأخبرنا تمام قال: حدثنا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ المعلى حدثنا القاسم بن عثمان قال: سمعت الوليد بن مسلم وسأله رجل يا أبا العباس أين بلغك رأس يحيى بن زكريا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بلغني أنه ثم وأشار بيده إلى العمود المسفط الرابع من الركن الشرقي.

ولید بن مسلم  نے  ایک شخص کے سوال پر کہ یحیی کا سر     (مسجد دمشق میں ) کہاں ہے کہا کہ مجھ تک پہنچا پھر ہاتھ سے چوتھے ستون کی طرف رکن شرقی کی طرف اشارہ کیا کہ وہاں ہے

یکایک یہ  دریافتیں شاید دمشق کی اہمیت بڑھانے کے لئے تھیں  کہ امت دمشق کو بھی مقدس سمجھے اور وہاں جا کر ان  مقامات کو دیکھے[7]،   جبکہ موطا ور  بخاری و مسلم میں انبیاء کی ان  نام نہاد قبروں کا وجود و خبر   تک نہیں

عیسیٰ دمشق میں نازل ہوں گے  

عیسیٰ علیہ السلام اپنے نزول پر  کہاں ظاہر ہوں گے اس پر نصرانیوں کا اختلاف ہے – ایسٹرن آرتھوڈوکس چرچ کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام دمشق میں ظاہر ہوں گے – پروٹسٹنٹ  فرقے کے بقول یروشلم میں اور کیتھولک  فرقے کے مطابق روم میں-

مسیح کی آمد ثانی کو نصرانی

Parousia, the Second Coming of Christ

کہتے ہیںشام، لبنان ، اردن فلسطین  میں   آج بھی ایسٹرن آرتھوڈوکس چرچ  کا زور ہے اور  وہاں کے تمام قدیم چرچ اسی فرقہ کے کنٹرول میں ہیں –

یسعیاہ   باب ١٧ میں ہے

An  oracle concerning  Damascus.

Behold, Damascus will cease to be a city

and will become a heap of ruins

اور دمشق پر پیشنگوئی ہے کہ خبردار دمشق شہر نہ رہے گا اور کھنڈر بن جائے گا

اس آیت کی بنا پر کہا جاتا ہے کہ عیسیٰ کی آمد سے پہلے دمشق جنگ  سے اجڑا ہو گا –

نصرانی کہتے ہیں کہ عیسیٰ   صلیب پر  فوت ہوئے   اور دوبارہ زندہ  ہوئے  اور  دمشق  کے رستے میں لوگوں پر ظاہر ہوئے –  ان کے جھوٹے رسول پاول نے خبر دی کہ دمشق  کے رستہ میں عیسیٰ نے حکم دیا کہ جاو تبلیغ کرو-  پاول کے بقول پہلی بار زندہ مسیح دمشق کے رستے میں ظاہر ہوا – عرب  نصرانیوں  جن کی اکثریت

Eastern Orthodox Church

کی ہے ان میں   یہ بات مشہور چلی آئی ہے  کہ عیسیٰ علیہ السلام نزول ثانی پر دمشق میں ظاہر ہوں گے  –  اس کی وجہ یہ ہے کہ صلیب کے بعد سینٹ پال کے بقول اس نے دمشق کے راستہ میں سب سے پہلے جی اٹھنے والے مسیح کو دیکھا تھا –  اس بنا پر  عرب نصرانی اس کے منتظر ہیں کہ آمد ثانی پر بھی  عیسیٰ   دمشق کے پاس ظاہر ہوں گے – ایسٹرن  آرتھوڈوکس نصرانی کہتے ہیں کہ دمشق  میں نزول ثانی  کے بعد عیسیٰ فاتحانہ انداز میں گھوڑے  کی سواری کر کے یروشلم میں داخل ہوں گے – مسجد الاقصی جائیں گے وہاں   یہود یا تو آپ کو مسیح تسلیم کر لیں گے یا قتل ہوں گے  – اس  کو بائبل کی کتب  یرمیاہ    و  زکریا    سے اخذ کیا گیا  ہے –  چند سال پہلے پوپ  بینی ڈکٹ

Pope  Benedict

نے جب دمشق کا دورہ کیا تو ویٹی کن کے ایک کارندے نے اخباری نمائندوں کو اس کی یہی وجہ بتائی کہ یہ نصرانی  روایات ہیں کہ عیسیٰ نزول ثانی پر دمشق میں ظاہر ہوں گے جس کو راقم نے خود ایک ڈوکومینٹری میں سنا-

مسلمانوں میں مشہور ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا نزول  صدر   دمشق   میں  جامع  مسجد   الاموی پر ہو گا جس کا مینار سفید  ہے  – البتہ دور بنو امیہ کی مشہور جامع الاموی کا مینار  سفید نہیں تھا – کتاب  النهاية في الفتن والملاحم    میں ابن کثیر کا کہنا ہے

وقد جدد بناء المنارة في زماننا في سنة إحدى وأربعين وسبعمائة من حجارة بيض ، وكان بناؤها من أموال النصارى الذين حرقوا المنارة التي كانت مكانها ،
اس مینار کی تجدید کی گئی ہمارے دور میں سن ٧٤١ ھ میں کہ اس کو سفید   پتھر کا کیا گیا  اور اس کو   اس مال سے بنایا گیا جو نصرانییوں  کا تھا جنہوں نے اصل مینار  کو  جلا دیا  جو پہلے یہاں تھا

کتاب     البداية والنهاية ج ١٣ / ص ١٧٥ پر ابن کثیر نے لکھا

وفي ليلة الأحد الخامس والعشرين من رجب وقع حريق بالمنارة الشرقية فأحرق جميع حشوها وكانت سلالمها سقالات من خشب وهلك للناس ودائع كثيرة كانت فيها وسلم الله الجامع وله الحمد وقدم السلطان بعد أيام إلى دمشق فأمر بإعادتها كما كانت قلت ثم احترقت وسقطت بالكلية بعد سنة أربعين وسبعمائة وأعيدت عمارتها أحسن مما كانت ولله الحمد وبقيت حينئذ المنارة البيضاء الشرقية بدمشق كما نطق به الحديث في نزول عيسى عليه السلام عليها

اور اتوار  رجب کی ٢٥ تاریخ  کو شرقی مینار میں اگ لگی اور یہ سب جل گیا   بس اس کے کچھ لکڑی کے  ڈنڈے رہ گئے   …  اور اللہ نے مسجد کو بچا لیا  اس کا شکر ہے اور سلطان چند روز بعد دمشق  تشریف لائے اور انہوں نے اس کی تعمیر نو کا حکم کیا جیسا یہ پہلے تھا – میں کہتا ہوں  یہ   جلا   اور تمام گر گیا تھا پھر  سن  ٧٤١ ھ   کے بعد  اور اسکی تعمیر نو کی گئی اچھی طرح    و للہ لحمد اور اب یہ باقی ہے   سفید مینار کے طور پر جیسا حدیث نزول عیسیٰ میں بولا گیا ہے

تفسیر   ابن کثیر میں ابن کثیر کا قول ہے

وفيها دلالة على صفة نزوله ومكانه ، من أنه بالشام ، بل بدمشق ، عند المنارة الشرقية ، وأن ذلك يكون عند إقامة الصلاة للصبح وقد بنيت في هذه الأعصار ، في سنة إحدى وأربعين وسبعمائة منارة للجامع الأموي بيضاء ، من حجارة منحوتة ، عوضا عن المنارة التي هدمت بسبب الحريق المنسوب إلى صنيع النصارى – عليهم لعائن الله المتتابعة إلى يوم القيامة – وكان أكثر عمارتها من أموالهم ، وقويت الظنون أنها هي التي ينزل عليها [ المسيح ] عيسى ابن مريم ، عليه السلام

ان روایات سے عیسیٰ کے نزول  کی صفت اور مکان کا معلوم ہوا کہ وہ شام میں ہے  بلکہ دمشق میں ہے  سفید مینار کے پاس اور یہ ہو سکتا ہے نماز فجر کے وقت اور  عصر حاضر میں سن ٧٤١ ھ   میں جامع الاموی  کا مینار سفید کیا گیا     اس پتھر کو  لیا گیا جو فن صناعی میں استعمال ہوتا ہے    – اس سے مینار کو بنایا گیا جو  منسوب ہے کہ نصرانییوں کی  حرکت سے جلا ان پر اللہ کی متعدد لعنت ہو قیامت تک  اور اکثر تعمیر ان کے  ہی اموال  سے کی گئی  اور ان گمانوں کو تقویت ملی کہ عیسیٰ ابن مریم  علیہ السلام کا اس پر نزول ہو گا  

ابن کثیر کے اقوال سے معلوم ہوا کہ اصل مینار لکڑی کا تھا جو جل گیا لیکن بعد میں  یہ سمجھتے ہوئے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا نزول اس مسجد پر ہو گا اس کو سفید پتھر کا کیا گیا

راقم کہتا ہے عیسیٰ علیہ السلام کا نزول اس مقام پر ممکن نہیں جہاں انبیاء کی قبروں پر مسجد ہو

——————————–

[1] Constantine I  full name   Flavius Valerius Aurelius  Constantius Herculius Augustus (272 – 337 AD) age 65

[2] Flavia Iulia Helena c. 250 – c. 330

[3] Eusebius of Caesarea ( Greek: Εὐσέβιος, Eusébios; ad 260/265 – 339/340)

[4] Mithra Religion

[5] History of Church by Eusebius

[6] Trinity

[7]

عبد الملک بن مروان اور ولید بن عبد الملک کی جانب سے یہ یہ سب  عبد اللہ ابن زبیر رضی الله عنہ کی مخالفت میں کیا گیا تاکہ لوگ مکہ و مدینہ  کے سفر کی بجائے  دمشق میں ہی رہیں  اور اس کو بھی ایک مقدس مقام سمجھیں –  اس پر بحث مولف کی کتاب روایات المہدی تاریخ اور جرح و تعدیل کے میزان میں کی گئی ہے

طائفہ منصورہ کیا ہے ؟

 ایک مغالطہ ہے جو  مشہور ہے – لوگ اپنے آپ کو طائفہ منصورہ بھی قرار دیتے ہیں جبکہ اس کی احادیث کے متن میں سخت اضطراب ہے – اس کے فہم پر اصحاب رسول اور محدثین کی آراء بھی متصادم ہیں – راقم اس حوالے سے صرف اصحاب رسول  کے فہم کو درجہ قبولیت دیتا ہے

صحیح مسلم

صحیح بخاری

صحیح مسلم کی ایک  اور  حدیث دیکھئے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَزَالُ أَهْلُ الْغَرْبِ ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ، حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ»

سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اہل مغرب حق پر غالب رہیں گے انکو زوال نہ ہو گا یہاں تک کہ قیامت قائم ہو

 ﺣﺪﺛﻨﻲ ﻫﺎﺭﻭﻥ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ، ﻭﺣﺠﺎﺝ ﺑﻦ اﻟﺸﺎﻋﺮ، ﻗﺎﻻ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺣﺠﺎﺝ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ، ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ اﺑﻦ ﺟﺮﻳﺞ: ﺃﺧﺒﺮﻧﻲ ﺃﺑﻮ اﻟﺰﺑﻴﺮ، ﺃﻧﻪ ﺳﻤﻊ ﺟﺎﺑﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ، ﻳﻘﻮﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﻘﻮﻝ: «ﻻ ﺗﺰاﻝ ﻃﺎﺋﻔﺔ ﻣﻦ ﺃﻣﺘﻲ ﻳﻘﺎﺗﻠﻮﻥ ﻋﻠﻰ اﻟﺤﻖ ﻇﺎﻫﺮﻳﻦ ﺇﻟﻰ ﻳﻮﻡ اﻟﻘﻴﺎﻣﺔ»

ابو زبیر نے کہا کہ جابر رضی الله عنہ سے سنا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو کہتے سنا ایک گروہ میری امت کا حق پر لڑے گا غالب رہے گا یہاں تک کہ قیامت آ جائے

بخاری کی روایت ہے

حَدَّثَنا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: قَالَ حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ، خَطِيبًا يَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهُ يُعْطِي، وَلَنْ تَزَالَ هَذِهِ الأُمَّةُ قَائِمَةً عَلَى أَمْرِ اللَّهِ، لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ، حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ» ,

حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ کہتے ہیں انہوں نے معاویہ رضی الله عنہ کو سنا انہوں نے ہم کو خطبہ دیا اور کہا میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا انہوں نے فرمایا الله جس کو خیر دینا چاہتا ہے اس کو دین میں سمجھ کا علم دیتا ہے  اور بے شک میں (علم) باٹنے والا ہوں اور الله (علم) عطا کرنے والا ہے اور یہ امت الله کے کام سے نہیں ہٹے گی  الله کے امر پر قائم رہے گی اس کو اس کی مخالفت کرنے والے نقصان نہ دے سکیں گے یہاں تک کہ الله کا امر آ جائے

روایت کی تاویلات

اسسے مراد محدثین ہیں

اس سے مراد مغرب والے ہیں

یعنی افریقہ والے

اس سے مراد شام والے ہیں

مدینہ و عرب کا شمال

احمد بن حنبل  (241-164ھ)   سے منسوب قول   معرفۃ علوم الحدیث     از   حاکم    ابن البيع (المتوفى: 405هـ) میں  ہے

حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَرْزُوقٍ الْبَصْرِيُّ بِمِصْرَ، ثنا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، ثنا شُعْبَةُ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا يَزَالُ نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي مَنْصُورِينَ لَا يَضُرُّهُمُ مَنْ خَذَلَهُمْ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ» سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ الْحَمِيدِ الْآدَمِيَّ بِمَكَّةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ مُوسَى بْنَ هَارُونَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ يَقُولُ: وَسُئِلَ عَنْ مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: «إِنْ لَمْ تَكُنْ هَذِهِ الطَّائِفَةُ الْمَنْصُورَةُ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ فَلَا أَدْرِي مَنْ هُمْ

اگر یہ طائفہ منصورہ اہل حدیث نہیں ہیں تو میں نہیں جانتا کہ وہ کون ہیں۔

 

امام بخاری خود صحیح میں باب میں لکھتے ہیں

باب قَوْلِ النبيِّ – صلى الله عليه وسلم -: “لاَ تَزَالُ طَائفَةٌ مِنْ أُمَّتي ظَاهِرينَ عَلَى الحَقِّ يُقَاتِلُونَ”، وَهُمْ أهْلُ العِلْمِ

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا قول کہ ایک میری امت میں گروہ زوال کا شکار نہ ہو گا غالب رہیں گے حق پر اور قتال کریں گے اور اس سے مراد اہل علم ہیں

 

کتاب تهذيب الأسماء واللغات از امام النووی میں ہے النووی کہتے ہیں

ففى الصحيحين أن النبى – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قال: “لا تزال طائفة من أمتى ظاهرين على الحق لا يضرهم خذلان من خذلهم” (2) . وجملة العلماء أو جمهورهم على أنهم حملة العلم

اس حدیث سے مراد اہل علم ہیں

 

محقق محمد فؤاد عبد الباقي کتاب المسند الصحيح المختصر بنقل العدل عن العدل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم میں صحیح مسلم کی تعلیق میں  لکھتے ہیں

قال علي بن المديني المراد بأهل الغرب العرب

امام علی المدینی نے کہ اہل مغرب سے مراد عرب کے مغرب والے ہیں

 

کتاب موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله  کے مطابق امام احمد سے سوال ہوا

وسئل عن: حديث النبي – صلى الله عليه وسلم -: «لا تزال طائفة من أمتي ظاهرين على الحق لا يضرهم من خالفهم حتى يأتي أمر الله. وهم على ذلك» .

قال: هم أهل المغرب، إنهم هم الذين يقاتلون الروم. كل من قاتل المشركين، فهو على الحق. «سؤالاته» (2041)

حدیث رسول کہ میری امت کا گروہ حق پر غالب رہے گا انکو مخالفین نقصان نہ دے سکیں گے یہاں تک کہ الله کا حکم آ جائے تو یہ کون ہیں ؟ امام احمد نے کہا یہ اہل مغرب ہیں جو روم سے قتال کر رہے ہیں جو بھی مشرکین سے قتال کرے وہ حق پر ہے

 

 

کتاب  مناقب الشام وأهله (ص 79) میں ابن تیمیہ لکھتے ہیں

لغة أهل مدينته في “أهل الغرب” أنهم أهل الشام

لغت اہل مدینہ میں اہل غرب سے مراد اہل شام ہیں

 

محدثین تو عرب میں یمن میں ایران میں عراق میں شام میں سب مقامات پر تھے

گویا ان محدثین کے نزدیک اس روایت کا تعلق کسی خاص ملک سے نہیں تھا

احمد اور علی المدینی کا قول ہے کہ یہ عرب کے مغرب میں روم سے قتال کرنے والے مسلمان ہیں یعنی مصر و لیبیا والے

معاویہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ یہ ان کے دور  کے اہل شام ہیں

نبی صلی الله علیہ وسلم نے قریش کی عربی میں گفتگو کی ہے جس میں مغرب سے مراد شمال نہیں ہے – ابن تیمیہ کی بے سروپا نکتہ سنجی کی کوئی حیثیت  نہیں

شام  جزیرہ العرب کے شمال میں ہے – عرب کے مغرب میں افریقہ ہے یعنی مصر سوڈان حبشہ نوبیا وغیرہ- اس  خغرافیائی حقیقت کو صرف نظر کر کے بعض لا علم علماء نے مغرب والی حدیث کو شام سے ملا دیا ہے – اس سے یہ معاملہ اور  الجھ جاتا ہے – الأجوبة المرضية فيما سئل السخاوي عنه من الأحاديث النبوية  میں سخاوی  لکھتے ہیں

أخرجه أبو يعلى والطبراني في الأوسط من حديث أبي صالح الخولاني عن أبي هريرة رضي الله عنه بلفظ: “لا تزال عصابة من أمتي يقاتلون على أبواب دمشق وعلى أبواب بيت المقدس وما حوله لا يضرهم خذلان من خذلهم”. الحديث – وعند مسلم من حديث أبي عثمان عن سعد بن أبي وقاص رضي الله عنه بلفظ: “لا يزال أهل الغرب ظاهرين على الحق حتى تقوم الساعة” وذكر يعقوب بن شيبة عن علي بن المديني: إن المراد بالغرب الدلو، أي العرب بفتحتين، لأنهم أصحابها، لا يستقي بها أحد غيرهم، وقال غيره: المراد بالغرب أهل القوة والاجتهاد في الاجتهاد، يقال: في لسان غَرْب بفتح ثم سكون، أي حدة. قال شيخنا رحمه الله: ويمكن الجمع بين الأخبار، بأن المراد قوم يكونون ببيت المقدس وهي شامية ويستقون بالدلو، ويكون لهم قوة في جهاد العدو، وحدة وجد. انتهى.

اور ابو یعلی  اور طبرانی نے اوسط میں حدیث ابو صالح خولانی کی  ان کی ابو ہریرہ  کی سند سے تخریج کی ہے  جس میں الفاظ ہیں   امت میں ایک گروہ    دمشق کے دروازوں  پر قتال کرتا رہے گا  اور بیت المقدس کے درازوں  پر  اور اس کے گرد  – ان کو  گرانے والے نقصان  نہ دے  پائیں گے –  اور   صحیح مسلم میں    حدیث ہے سعد بن ابی وقاص  رضی اللہ  عنہ کی  اہل  غرب کو  زوال نہ ہو گا حق پر غالب  رہیں گے یہاں تک کہ قیامت برپا ہو- اور یعقوب بن شیبہ نے امام المدینی    کے حوالے سے ذکر کیا کہ غرب سے مراد   الدلو   (پانی کی ترسیل کرنے والے) ہیں یعنی عرب … کہ وہ  اس کے اصحاب ہیں  ان   سے پانی لیا جاتا ہے   اور دوسروں نے کہا  غرب سے مراد قوت والے ہیں اجتہاد والے – … ہمارے  شیخ   (ابن حجر )  کہتے ہیں    اور ان دونوں روایات  کو اس طرح ملایا جا سکتا ہے کہ اس سے مرد قوم ہے  جو بیت المقدس کی ہے اور یہ شامی ہیں اور دلو سے پانی پلاتے ہیں  اور یہ قوت والے ہیں جہاد میں  اپنے دشمن پر

البانی   الصحيحة (2/ 690) میں لکھتے ہیں

 وأعلم أن المراد بأهل الغرب في هذا الحديث أهل الشام

اور جان لو کہ  اہل غرب سے مراد  اس حدیث میں اہل شام ہیں

راقم کہتا ہے کیسے جان لیں کہ شمال اور مغرب کیا ایک ہیں ؟  سلفی علماء مدینہ کے مشرق میں نجد کو شمال میں عراق سے ملا دیتے ہیں یعنی ان کے نزدیک حدیث نجد میں  مشرق اور شمال ایک ہیں اور یہاں طائفہ منصورہ میں مغرب اور شمال ایک کر رہے ہیں – ان کو علم خغرافیہ پڑھنے کی اشد ضرورت ہے – جس شخص نے سفر کیے ہیں کعبه کی سمت میں نماز پڑھی ہو وہ کیا اس طرح سمتوں میں غلطی کرے گا ؟  یقینا یہ اپنے اپنے مولویوں کی آراء کو بچانا ہے

متضاد آراء

ائمہ
شام میں ایک گروہ

وَهُمْ أَهْلُ الشَّامِ

معاویہ رضی الله عنہ

صحیح مسلم صحیح بخاری

  اہل علم

 

ظَاهِرينَ عَلَى الحَقِّ يُقَاتِلُونَ”،

وَهُمْ أهْلُ العِلْمِ

امام بخاری
روم سے قتال کرنے والے –

هم أهل المغرب، إنهم هم الذين يقاتلون الروم.

امام احمد
اہل مغرب / اہل حدیث / أهل الغرب العرب

امام علی المدینی

دوسری طرف نیشاپور میں   امام  أَبُو زُرْعَةَ   اور  امام ابو حاتم   دونوں اس روایت کو منکر کہتے تھے- علل  ابن ابی حاتم میں ہے

عَنْ معاوية، عن النبيِّ (ص) قَالَ: لاَ تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي … . قَالَ أَبِي: فأنكرتُ ذَلِكَ، وأنكَرَه أَبُو زُرْعَةَ

وأعلمُ أَنَّ الحديثَ مُنكَرٌ  – جان لو یہ حدیث منکر ہے

سوال ہے اہل علم یا محدثین غلبہ میں کب رہے؟    اہل حدیث  یعنی     محدثین بھی اس حدیث کا مصداق نہیں ہیں  –   محدثین  کی تو خوب تذلیل ہوئی – امام احمد کو کوڑے لگے-  امام بخاری کو شہر نکالا ملا کسمہ پرسی میں شہر سے باہر ہلاک ہوئے-  محدثین کی عوام میں کوئی قدر و منزلت نہیں    عوام  نے کبھی   بھی حکومت  کے خلاف  لب کشانی نہیں کی   اور  بنو عباس کی   معتزلی حکومت   محدثین  کی مخالف رہی- محدثین  نے الٹا   عباسی خلفاء  کو  امیر المومنین  کہہ کر ہی مخاطب کیا ہے[1]

اس روایت کے بعض متن میں ہے کہ وہ شام والے ہیں یا کہا قیامت تک ہوں گے-  معلوم  ہے کہ صلیبی نصرانییوں   نے دو سو سال قبضہ شام پر کیا-  انگریر نے قبضہ کیا اور اب اس کے ایک جز پر اسرائیل کا قبضہ ہے اور باقی پر نصیری فرقے کا قبضہ ہے لہذا یہ روایت قیامت تک کے حوالے سے ہے ہی نہیں-  راقم  کہتا  ہے ا س روایت  کے جس متن میں بھی قیامت کا ذکر ہو اس کی سند میں علت  ملی  ہے-

حقائق کو مد نظر رکھیں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس طائفہ منصورہ کا تعلق بارہ خلفاء سے تھا جو الله کا حکم تھا  کہ  ایمان پھیلے گا اس کے مخالف مشرک و اہل کتاب اس کو پھیلنے سے نہیں روک سکیں گے – اور ان بارہ خلفاء کے ساتھ لڑنے والے طائفہ منصورہ تھے-

شام پر   سن ١٣١  ھ  میں  بنو عباس نے حملہ کیا اس وقت بارہ خلفاء گزر چکے تھے اور   طائفہ منصورہ معدوم ہو چکا تھا-   اس روایت کی شرح  میں    اس کا مصداق  اہل علم یا محدثین کہنا نہایت سطحی بات ہے – ایک گروہ کا ذکر ہے جو حق پر رہے گا اس کے مخالف اس کو نہیں گرا سکیں گے اور ساتھ ہی   دوسری احادیث  میں ہے   بارہ  خلفاء گزریں گے جن کو کوئی نقصان نہ دے سکے گا-  طائفہ منصورہ  اصل میں ان خلفاء کا مددگار گروہ تھا –

یہ خلفاء بیشتر بنو امیہ کے ہوئے جن کے ہمدرد اہل شام تھے اسی بنا پر معاویہ رضی اللہ عنہ کی رائے بنی کہ یہ اہل شام ہیں جن کو مخالف (اہل کتاب و مشرک ) گرا نہ سکیں گے- صحیح سند سے بخاری کی روایت ہے

طائفہ منصورہ والی روایت کو آجکل   جیسا منہ ویسی بات کی طرح ہر کوئی اس کو اپنے اوپر فٹ کر دیتا ہے

جہادی کہتے ہیں یہ ہمارے لئے ہے

شامی کہتے ہیں ہمارے لئے ہے

فرقہ اہل حدیث کہتے ہیں ہمارے لئے ہے

صوفی کہتے ہیں ہمارے لئے ہے- یاد رہے کہ شام و یروشلم میں انبیاء کی قبروں پر امت معتکف ہے

اگر ہم فی الوقت ابو حاتم اور ابو زرعہ کی رائے اس حدیث پر چھوڑ کر امام بخاری کی صحیح کی حدیث کو لیں تو اس کی ایک تاویل ممکن ہے جس پر متن کو  صحیح سمجھا جا سکتا ہے – صحیح بخاری کی روایت ہے

 حَدَّثَنا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: قَالَ حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ، خَطِيبًا يَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهُ يُعْطِي، وَلَنْ تَزَالَ هَذِهِ الأُمَّةُ قَائِمَةً عَلَى أَمْرِ اللَّهِ، لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ، حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ» ,

حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ کہتے ہیں انہوں نے معاویہ رضی الله عنہ کو سنا انہوں نے ہم کو خطبہ دیا اور کہا میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا انہوں نے فرمایا الله جس کو خیر دینا چاہتا ہے اس کو دین میں سمجھ کا علم دیتا ہے  اور بے شک میں (علم) باٹنے والا ہوں اور الله (علم) عطا کرنے والا ہے اور یہ امت الله کے کام سے نہیں ہٹے گی  الله کے امر پر قائم رہے گی اس کو اس کی مخالفت کرنے والے نقصان نہ دے سکیں گے یہاں تک کہ الله کا امر آ جائے

راقم سمجھتا ہے کہ یہ روایت کنڈیشن ہے نہ کہ خبر – یعنی یہ امت غالب رہے گی اس کے مخالف اس کو نقصان نہ دے سکیں گے جب تک یہ امر الله پر قائم رہیں گے-  ایسا ١٢ خلفاء کا دور تھا شام میں – اس کے بعد مسلمانوں کی خلافت کی اینٹ بنو عباس نے بجا دی- اس کے بعد منگولوں نے اس کے بعد انگریزوں نے-   یاد رہے کہ محدثین کے نزدیک عباسی خلفاء صحیح عقیدہ پر نہ تھے-

روایت میں ہے اس امت اپنے مقام سے نہ ہٹے گی یہاں تک کہ الله کا امر آئے  اس میں امر کو قیامت لینے سے مفہوم بدل جاتا ہے-  لیکن اگر امر کو الله کا عذاب کا حکم لیا جائے تو کوئی اشکال نہیں رہتا   یعنی ترجمہ ہو گا

وَلَنْ تَزَالَ هَذِهِ الأُمَّةُ قَائِمَةً عَلَى أَمْرِ اللَّهِ، لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ، حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ» ,

یہ امت اپنے مقام سے نہ ہٹے گی الله کے حکم پر قائم (خلافت کھڑی) رہے گی – اس کے مخالف اس کو نقصان نہ دے سکیں گے یہاں تک کہ الله (کے عذاب) کا حکم آئے

عذاب  یعنی اغیار  کا امت کے وسائل پر کنٹرول  اور  ان پر جنگوں کا مسلط کرنا  –

 

الغرض معلوم ہو گیا کہ معاویہ رضی الله عنہ نے اس حدیث سے مراد اگر اہل شام لئے ہیں تو وہ وقتی بات تھی قیامت تک اس سے مراد نہیں تھی اور آج حقیقت حال بھی یہی ہے – البتہ فرقوں نے اپنے استحکام کے لئے معاویہ رضی الله عنہ کی بات کو رد کیا مثلا فرقہ اہل حدیث نے  ابن عبدالھادی المقدسی کی کتاب فضائل شام کا ترجمہ کیا تو اس میں اس حدیث کی تعلیق پر ص  ٥١ سے ٥٣  پر لکھا

اس طرح نہایت بے باکی سے معاویہ رضی الله عنہ کے قول  کو رد کیا کہ اس حدیث کا مفہوم عام ہے خاص نہیں ہے

راقم کہتا ہے بقول اھل حدیث  دین میں فہم صحابہ اگر فہم سلف سے ٹکرا جائے تو اصول یہ  ہے کہ فہم صحابہ کو حجت حاصل ہو گی لیکن یہاں وہ خود اس اصول کو توڑ رہے ہیں –  دور معاویہ میں حدیث بیان کرنے والے اس کو سمجھنے والے اصحاب تمام بلاد میں موجود تھے گویا اہل علم ہر مقام پر تھے لیکن پھر بھی معاویہ رضی الله عنہ نے اس حدیث کے مفہوم کو صرف شام پر خاص کیا ہے – لہذا اس کی صرف ایک ہی صحیح تاویل ہے کہ روایت  اصل میں ان بارہ خلفاء سے متعلق ہے جو  پے در پے قریش میں سے بنے اور ان کو ان کے مخالفین زد نہ  پہنچا سکے

صحیح مسلم

 بَابُ قَوْلِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ»

وحَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا كَثِيرُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ وَهُوَ ابْنُ بُرْقَانَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ الْأَصَمِّ، قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ، ذَكَرَ حَدِيثًا رَوَاهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَمْ أَسْمَعْهُ رَوَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مِنْبَرِهِ حَدِيثًا غَيْرَهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ يُرِدِ اللهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، وَلَا تَزَالُ عِصَابَةٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ عَلَى مَنْ نَاوَأَهُمْ، إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ»
معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ جس کو چاہتا ہے دین کی سمجھ دیتا ہے مسلمانوں میں سے ایک گروہ حق پر قتال کرتا رہے گا اپنے دشمن پر غلبہ رکھے گا یہاں تک کہ قیامت آ جائے

تبصرہ

سند میں جعفر بن برقان  ضعیف ہے

قال ابن خزيمة لا يحتج به اس سے دلیل مت لینا

ذكره العقيلي وأبو القاسم البلخي في جملة «الضعفاء». اس کا ذکر ضعیف راویوں میں کیا گیا ہے

قال الساجي: عنده مناكير اس کے پاس منکر روایات ہیں

 أبو داود: وكان يخطئ على الزهري، وكان أميا

ابو داود نے کہا یہ امی تھا یعنی ان پڑھ تھا

محدثین نے کہا ہے کہ اس کی احادیث جو زہری سے ہوں ان میں غلطی ہوتی ہے

راقم کہتا ہے جو روایت زہری سے نہ ہو اس میں بھی غلطی کرے گا کیونکہ غلطی کرنا کوئی سوئچ نہیں  کہ غیر زہری سے روایت کے وقت بند تھا اور زہری سے روایت کے وقت اون تھا

=============================================================

[1]

صحيح بخاري کی روایت ہے

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يُهْلِكُ النَّاسَ هَذَا الحَيُّ مِنْ قُرَيْشٍ» قَالُوا: فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: «لَوْ أَنَّ النَّاسَ اعْتَزَلُوهُمْ» قَالَ: مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، سَمِعْتُ أَبَا زُرْعَةَ

مجھ سے محمد بن عبدالرحيم نے بيان کيا ، کہاہم سے ابومعمر اسماعيل بن ابراہيم نے بيان کيا ، کہاہم سے ابواسامہ نے بيان کيا ، کہا ہم سے شعبہ نے بيان کيا ، ان سے ابوالتياح نے ، ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہريرہ رضي اللہ عنہ نے بيان کيا کہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا : اس قريش کا یہ محلہ لوگوں کو ہلاک وبرباد کردے گا ? صحابہ نے عرض کيا : اس وقت کے ليے آپ ہميں کيا حکم کرتے ہيں ؟ نبی صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا : کاش لوگ ان سے الگ رہتے ? محمود بن غيلان نے بيان کيا کہ ہم سے ابوداود طيالسي نے بيان کيا ، کہا ہم کو شعبہ نے خبردي ، انہيں ابوالتياح نے ، انہوں نے ابوزرعہ سے سنا

مسند احمد میں امام احمد اس کو منکر کہتے ہیں

حدثنا محمَّد بن جعفر، حدثنا شُعبة، عن أبي التَّيَّاح، قال: سمعت أبا زُرعة، يحدث عن أبي هريرة، عن النبي – صلى الله عليه وسلم -، قال: “يُهلكُ أمتي هذا الحيُّ من قريبٌ”، قالوا: في تأمُرُنا يا رسول الله؟، قال: “لو أن الناس اعتزلوهم”. [قال عبد الله بن أحمد]: وقال  أبي- في مرضه الذي  مات فيه: اضرب على هذا الحديث، فإنه خلافُ الأحاديث عن النبي – صلى الله عليه وسلم -، يعني قوله: “اسمعوا وأطيعوا واصبروا”.

ابو ہریرہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میری امت کو یہ محلہ جلد ہی ہلاک کرے گا ہم نے پوچھا آپ ہم کو کیا حکم کرتے ہیں اے رسول الله ! فرمایا کاش کہ لوگ ان سے الگ رہتے عبد الله بن احمد کہتے ہیں  میں نے اپنے باپ سے اس حالت مرض میں (اس روایت کے بارے میں) پوچھا جس میں ان کی وفات ہوئی احمد نے کہا اس حدیث کو مارو کیونکہ یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی احادیث کے خلاف ہے یعنی سمع و اطاعت کرو اور صبر کرو

 

سامری کا مذھب

قرآن مجید میں قوموں کا ذکر ہے کہ کس طرح انہوں نے شرک کو ترویج دی  – ان میں امت موسی میں ایک بنی اسرائیلی کا ذکر بھی ہے جس کو سامری کہا جاتا ہے  – اس کے بارے میں خبر دی گئی کہ جب موسی جبل طور پر کتاب الله توریت حاصل کرنے گئے اس وقت ہارون کو خلیفہ کر گئے اور سامری نے  فتنہ برپا  کیا اور دعوی کیا کہ اصل رب ایک بچھڑا ہے-اس  کی صنم گری کی گئی اور بنی اسرائیلی عورتوں نے اپنے زیور سامری کو دیے کہ ان کو پگھلا کر اس مورت کو ایجاد کرے – سامری کی صناعی و کاریگری کی بدولت اس مورت کے جسد میں سے بیل کی آواز بھی  انے لگی-یہ آواز سنتے ہی بنی اسرائیلی اس کو رب مان بیٹھے اور سجدوں میں گر گئے-اس سب کا ظاہر ہے کہ اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن   اس پر بات کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ اس کا  تعلق راقم  کے نزدیک دجال سے ہو سکتا ہے

قرآن میں ہے

وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوجِ 

أور برجوں والا آسمان

سورہ الفرقان  میں ہے

تَبَارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَجَعَلَ فِيهَا سِرَاجًا وَقَمَرًا مُنِيرًا

بابرکت ہے جس نے آسمان کو برجوں والا بنایا اور اس میں  چراغ رکھا اور چمکتا چاند

سورہ الحجر میں ہے

 وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَزَيَّنَّاهَا لِلنَّاظِرِينَ

اور بے شک ہم نے آسمان میں بروج بنا دیے اور ان کو دیکھنے والوں کے لئے مزین کر دیا

قرآن میں ہے کہ خود فرعون بھی کئی معبودوں کا قائل تھا   وہ مشرک تھا   سورہ المومن یا غافر میں ہے- رجل مومن نے جب تقریر کی تو کہا تم گمان کرتے تھے کہ  الله یوسف کے بعد کوئی رسول نہ بھیجے گا- اس کا مطلب ہوا کہ فرعون کوالله اور رسالت کا علم تھا لیکن وہ مصر میں جادو گروں کے ذریعہ سیاست کر رہا تھا

وَلَقَدْ جَاءَكُمْ يُوسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا زِلْتُمْ فِي شَكٍّ مِمَّا جَاءَكُمْ بِهِ حَتَّى إِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَنْ يَبْعَثَ اللَّهُ مِنْ بَعْدِهِ رَسُولًا كَذَلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُرْتَابٌ (34)

اور بے شک اس سے قبل یوسف نشانیاں لے کر آیا تم لوگ شک میں رہے جو وہ لایا یہاں تک کہ جب وہ ہلاک ہوا تم نے کہا اب الله یہاں کسی کو رسول بنا کر نہ بھیجے گا اس طرح الله گمراہ کرتا ہے جو حد سے گزر جائے 

معلوم ہوا ال فرعون کو الله کی الوہیت کا علم تھا اور ان کے نزدیک یوسف الله کے ایک نبی تھے

سورہ الاعراف میں ہے

وَقَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوْسٰى وَقَوْمَهٝ لِيُفْسِدُوْا فِى الْاَرْضِ وَيَذَرَكَ وَاٰلِـهَتَكَ ۚ قَالَ سَنُـقَتِّلُ اَبْنَـآءَهُـمْ وَنَسْتَحْيِىْ نِسَآءَهُـمْۚ وَاِنَّا فَوْقَهُـمْ قَاهِرُوْنَ (127 

اور فرعون کی قوم کے سرداروں نے کہا کیا تو موسٰی اور اس کی قوم کو چھوٹ دیتا ہے تاکہ وہ ملک میں فساد کریں اور (موسٰی) تجھے اور تیرے معبودوں کو چھوڑ دے، (فرعون نے) کہا ہم ان کے بیٹوں کو قتل کریں گے اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھیں گے، اور بے شک ہم ان پر غالب ہیں۔

یعنی ال فرعون  الله کے ساتھ ساتھ اس کائنات میں دوسرے معبودوں کا وجود بھی مانتے تھے اور اس کا ذکر سورہ الاعراف میں ہے کہ وہ الله تعالی کو بھی انسانی معملات میں مداخلت کرنے والا سمجھتے تھے

فَاَرْسَلْنَا عَلَيْـهِـمُ الطُّوْفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالـدَّمَ اٰيَاتٍ مُّفَصَّلَاتٍۖ فَاسْتَكْـبَـرُوْا وَكَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِيْنَ (133)
پھر ہم نے ان پر طوفان اور ٹدی اور جوئیں اور مینڈک اور خون یہ سب کھلے کھلے معجزے بھیجے، پھر بھی انہوں نے تکبر ہی کیا اور وہ لوگ گناہگار تھے۔
وَلَمَّا وَقَـعَ عَلَيْـهِـمُ الرِّجْزُ قَالُوْا يَا مُوْسَى ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَكَ ۖ لَئِنْ كَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُـؤْمِنَنَّ لَكَ وَلَنُـرْسِلَنَّ مَعَكَ بَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ (134)
اور جب ان پر کوئی عذاب آتا تو کہتے اے موسٰی! ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کر جس کا اس نے تجھ سے عہد کر رکھا ہے، اگر تو نے ہم سے یہ عذاب دور کر دیا تو بے شک ہم تجھ پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو تیرے ساتھ بھیج دیں گے۔
فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْـهُـمُ الرِّجْزَ اِلٰٓى اَجَلٍ هُـمْ بَالِغُوْهُ اِذَا هُـمْ يَنْكُـثُوْنَ (135)
پھر جب ہم نے ان سے ایک مدت تک عذاب اٹھا لیا کہ انہیں اس مدت تک پہنچنا تھا اس وقت وہ عہد توڑ ڈالتے۔

یعنی ان کے نزدیک موسی و یوسف کا رب بھی زمین کے  معاملات  دیکھ سکتا  تھا اور اسی طرح ان کے اپنے اور معبود بھی

راقم سمجھتا ہے کہ یہ دوسرے معبود ان کے نزدیک آسمان کے برج یا تارے   تھے  انہی برجوں کو مصریوں نے شکلیں دے کر پوجا ہے –  مصری مذھب کے مطابق کائنات  میں ١٢ برج ہیں جو اثر زیادہ رکھتے ہیں اور اس کے علاوہ جو برج ہیں وہ بھی زمیں پر اثر کرتے ہیں

یہ معلومات مصری  مندر داندرہ

Dandera zodiac

سے ملتی ہے  جس کی چھت پر  برج بنے تھے

Dendera Zodiac   in the temple complex Hathor in Dendera.

دندرہ کے مندر میں جو منظر ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ  کائنات کی  ابتداء کے وقت برج سرطان  سے زمین گزری

زمین کا محور ایک دائرے میں گھوم رہا ہے اس کی مدت ٢٥٩٢٠ سال ہے اور یہ مصریوں اور ہندوؤں کے علم میں ہے – ہندو اسی ٢٥٩٢٠ سال کو کئی یگوں میں ٹورتے ہیں اور اس میں بیشتر کے نزدیک ابھی کالی یگ چل رہا ہے- مزید یہ کہ ہندو کہتے ہیں کہ زمین اصل میں سورج کے گرد نہیں کسی اور ستارے کے گرد ایک بیضوی فلک میں  گھوم رہی ہے جس کو سپر سن

Super Sun

کہتے ہیں -ایک برج کی مدت ٢١٦٠ سال ہے جس کو اعیان

Aeon

کہا جاتا ہے -بہر حال زمین کے قطب کو مسلسل نظر میں رکھنے کی وجہ سے  مصری بھی  یہ جانتے تھے کہ قطب   بدل جاتا ہے  ایک دور میں قطب نسر الواقع

Vega

تھا پھر ثعبان

ہوا – ثعبان  تارہ جس برج میں  ہے اس کو مصری ایک عورت و دریائی گھوڑے کی شکل میں بناتے تھے – دندرہ کے مندر میں زوداک میں بیچ میں یہی ہے یعنی جس وقت یہ مندر بنا اس وقت ثعبان  کا تارہ قطب شمالی تھا جس کے گرد زمین گھوم رہی تھی

 آجکل زمین کا  قطب شمالی  کا تارا

Phoenice

  ہے – سفر میں اس کی اہمیت تھی  کیونکہ زمین میں سمت کا تعین اسی سے کیا جاتا تھا

بہر حال دندرہ مندر جو مصر  میں  ہے اس  میں برجوں کی آمد کا جو ذکر ہے اس کے مطابق  برج    زمیں پر اثر کرتا ہے اس کو دور یا

age

کہا جاتا ہے

سامری نے جو یہ سب ایجاد کیا تو اس کے پیچھے کیا فلسفہ چل رہا تھا اس کی رسائی میں معلوم ہوتا ہے کہ اصلا یہ مصریوں کا مذھب تھا اور اہل مصر کے نزدیک آسمان کے رب کئی تھے جو بروج تھے  اور سامری کا دور اصل میں

Age of Taurus

تھا یا برج ثور کا دور تھا جس میں  اس ثور یا بیل کی پوجا کرنے کو صحیح سمجھا جا رہا تھا

اس وقت ثعبان قطب شمالی تھا لیکن چونکہ بنی اسرائیل پر بادل رہا ان کو آسمان پر سمت کا تعین نہیں ہو سکا اور اسی طرح دشت میں ہی بھٹکتے رہے

موسی علیہ السلام نے اس صنم ثور  جس کو قرآن میں عجل (بیل) کہا گیا ہے اس کو توڑ کر پیس دیا

آجکل کا دور

Age of Aquarius

کہا جاتا ہے یعنی برج دلو کا دور جس کا برجوں کے پجاری بڑی شدت سے انتظار کر رہے تھے اور سن ١٩٦٩   میں ایک گانے میں اس کا ذکر بھی ہے

When the moon is in the Seventh House

And Jupiter aligns with Mars

یہ آسمانی وقوعہ  اسی سال جنوری ٢٠١٨ میں ان کے مطابق  ہوا ہے  اور اس طرح آج ہم سب برج دلو کے دور میں آ چکے  ہیں

انہی برجوں کو دجالی لوگ  پہلے بھی استعمال کرتے رہے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ  مسیح الدجال  بھی  اس  کواستعمال  کرے و الله اعلم

غلغلہ مہدی ، جہادی اور علماء ٢

کتاب  روایات ظہور مہدی

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

راقم  سن ٢٠٠٠ ع  سے  روایات مہدی و مسیح پر  تحقیق کر رہا ہے –  راقم اپنی تحقیقات کو حرف آخر نہیں کہتا بلکہ  یہ یقین رکھتا ہے کہ اس جہت میں مزید باب کھلیں گے اگر  مسئلہ مہدی پر   غیر جانبداری سے تحقیق ہو- افسوس   امام ابن خلدون    نے مسئلہ  پر کلام کیا تھا لیکن ان کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا – یہ مسلمانوں کا المیہ ہے کہ اپنے عبقری اذہان کی ناقدری کرتے ہیں –   اس کتاب کو ٢٠١٥ میں اس ویب سائٹ پر رکھا گیا تھا-  کتاب میں صرف  اہل سنت    کے  نظریہ مہدی  پر غور کیا گیا  ہے جس کو بعض لوگ عقیدہ سمجھ رہے ہیں –      نظریہ مہدی  کے پس پردہ کیا    مذہبی  و سیاسی   افکار ہیں ؟ ان پر غور کیا گیا ہے –     اس     کی جڑیں     وہ    احادیث  و آثار ہیں جو محدثین نے اپنی کتابوں میں سب سے آخر میں نقل کیں -کتاب  میں    تاریخی حقائق  کے میزان پر   روایات مہدی کا جانچا  گیا ہے –   اس سلسلے میں  رہنمائی  جرح و تعدیل کی کتب سے   ملتی ہے کہ متقدمین محدثین اس سلسلے میں کسی بھی مرفوع قول  نبوی کو صحیح نہیں قرار دیتے تھے مثلا  امام وکیع بن جراح  اور عبد الرحمان بن المہدی    وغیرہ

عصر حاضر میں    شیعہ سنی اختلاف کی بنیاد پر ایک گروہ   مدینہ میں مہدی تلاش کر رہا ہے اور اپنا مخالف   کوئی اصفہانی فارسی  دجال بتاتا  ہے – دوسری طرف شیعہ ہیں  جنہوں نے  امام مہدی کو   مافوق الفطرت  قرار دے دیا ہے جو ابھی تک اپنے غار میں ہیں

 مسلمانوں میں اس بنا پر مشرق وسطی کا پورا خطہ  خون کی ہولی میں نہا رہا ہے –   اپنی سیاست کی بساط  احادیث رسول  و اہل بیت کے نام پر بچھا  کر  نوجوانوں کو شطرنج   کے  مہروں کی طرف  جنگ و جدل میں   دھکیلا  جا رہا  ہے –    داعش اور اس قبیل کی فسادی تنظیموں نے عراق میں خلافت  بھی بنا لی ہے اور ابھی  نا معلوم کتنی معصوم مسلمان لڑکیوں کو  خلیفہ  کی مخالفت کے جرم میں لونڈی بنایا جا رہا ہو گا ؟       پتا نہیں کس کا سر کاٹا جا رہا ہو گا ؟ اور دلیل  روایت سے لی جا رہی  ہو گی –  اب یہ تو ظاہر فساد ہے اور پس پردہ  معصوم بنے یہ علماء ہیں جو چپ سادھے   لونڈی کو کھنگالنے   والی  روایات کو صحیح قرار دیتے ہیں کہ اس کو سر بازار  کھول کر دیکھا جا سکتا ہے – افسوس   شام کے عرب محقق  البانی اس طرح کی   روایات کو صحیح الاسنا د کہہ گئے ہیں –  شام کے فضائل پر کتابیں   جو لوگ بھول چلے تھے  البانی    نے   ان پر  تعلیق لکھی–  اور نهایة العالم      (عالم کا اختتام ) نام کی کتب نے  لوگوں کو اس طرف لگا دیا کہ  قرب قیامت ہے ، مہدی انے والا ہے –   ساتھ ہی  مدخلیت   (ربیع المدخلی سے منسوب تکفیری سوچ)   مدینہ سے نکلی  جو ایک وبا کی طرح  عربوں میں پھیلی  اور  مصر سے  یہ  تکفیری سوچ  عرب سے ہوتی  اسامہ بن لادن کے ساتھ افغانستان پہنچی اور ایک وبا کی طرح عالم   اسلام میں پھیلی

اب  ایک کے بعد ایک مہدی آ رہے ہیں اور آئیں  گے

 ایک عام مسلمان آخر کیا کرے – مسئلہ کے  حل کے لئے کہاں جائے؟     مسجدوں میں  محراب و منبر سے  نظریہ مہدی کی تبلیغ کی جاتی ہے   اور دعوی کیا جاتا ہے کہ اس سلسلے کی تمام احادیث صحیح ہیں –  ہر بدلتی صدی میں    قائلین   ظہور مہدی کے تضاد لا تعداد  ہیں  مثلا  ایک روایت جو  ثوبان رضی الله عنہ سے مروی ہے اس کے مطابق  عرب کے مشرق سے   ، خراسان سے جھنڈے آئیں گے اور   ان میں الله کا خلیفہ المہدی ہو گا – اس روایت کو متقدمیں محدثین رد کرتے تھے –  لیکن   بعد میں  لوگ آئے   جنہوں نے علم چھپایا اور   اس روایت کو صحیح کہا – اس کے بعد خراسان میں طالبان آ گئے – مخالف  حلقوں میں  اب ثوبان والی روایت ضعیف قرار پائی  اور واپس وہی محدثین  کی آراء پیش کرنے لگ گئے کہ یہ روایت صحیح نہیں –  ام سلمہ رضی الله عنہا سے مروی  ایک حدیث ہے کہ تین خلفاء کے بیٹوں میں فساد ہو گا  وغیرہ  (اس کی تفصیل کتاب میں ہے)  اس کو البانی نے ضعیف کہا تھا   لیکن   اس کو صحیح مان کر  کتابوں میں پیش کیا جاتا رہا یہاں تک کہ حوثی نکل آئے اب  واپس البانی  کا حوالہ دیا جا رہا ہے کہ یہ ضعیف تھی –   اس طرح    مہدی و مسیح کے نام پر سیاست جاری ہے جس میں علماء پس پردہ کام کر رہے ہیں

راقم کا دل خون کے آنسو روتا ہے کہ کاش یہ علماء  دیدہ بینا  کے ساتھ اس ظلم سے کنارہ کشی کرتے

اے کاش

ہمارے گراں قدر ناقدین نے ہماری توجہ چند کتب کی طرف کرائی ہے  – ایک عبد العليم البستوي کتاب  الاحاديث الواردة في المهدي في ميزان الجرح والتعديل ہے   جو مدینہ یونیورسٹی   میں ایک مقالہ کے طور پر لکھی گئی تھی  اور دوسری   کتاب مہدی علیہ السلام سے متعلق صحیح عقیدہ میں عبد الہادی  عبد الخالق مدنی   جو سعودی عرب میں  الاحسا  ء  سے  چھپی ہے –  اس کے علاوہ اردو میں اس مسئلہ مہدی پر جو کتب ہیں ان سے بھی استفادہ کیا گیا ہے –  لہذا   محقیقن کی آراء کو    کتاب هذا   میں  حواشی میں  اور بعض مقام پر متن میں  شامل کر دیا گیا ہے  تاکہ  قارئین کے  آگے     صرف ہماری رائے ہی نہ ہو  تو وہ پوری دیانت سے جو راقم  کہنا چاہتا ہے اس کو سمجھ سکیں

الله مومنوں کا حامی و ناصر ہو اور ان کو شر  اور فتنہ مہدی و دجال سے محفوظ رکھے

امین

ابو شہریار

٢٠١٧


الْخِلَافَةُ عَلَى مَنَهَاجِ النُّبُوَّةِ کا انتظار

 سن ٩٣ ہجری کا دور ہے مدینہ پر عمر بن عبد العزیز  گورنر ہیں – عمر کو امیر المومنین الولید کی طرف سے حکم ملتا ہے

امام بخاری تاریخ الکبیر میں بتاتے ہیں

قَالَ عَبد اللهِ بْن مُحَمد الجُعفي، حدَّثنا هِشام بْن يُوسُف، أَخبرنا مَعمَر، عَنْ أَخي الزُّهري، قَالَ: كتب الوليد إلى عُمر، وهو على المدينة، أن يضرب خُبَيب بْن عَبد اللهِ بْن الزُّبَير، فضربه أسواطا، فأقامه، فمات

اخی الزہری نے کہا الولید نے عمر بن عبد العزیز کو لکھا اور وہ اس کی طرف سے مدینہ کے عامل تھے کہ خبیب بن عبد الله بن زبیر کو کوڑے لگائے جائیں  پس ان کو درے مارے گئے جس میں ان کی وفات ہوئی

شیعہ مورخ أحمد بن أبي يعقوب بن جعفر بن وهب کتاب تاریخ الیعقوبی کے مطابق

وكتب إلى عمر بن عبد العزيز أن يهدم مسجد رسول الله، ويدخل فيه المنازل التي حوله، ويدخل فيه حجرات أزواج النبي، وهدم الحجرات، وأدخل ذلك في المسجد. ولما بدأ بهدم الحجرات قام خبيب بن عبد الله بن الزبير إلى عمر والحجرات تهدم، فقال: نشدتك الله يا عمر أن تذهب باية من كتاب الله، يقول: إن الذين ينادونك من وراء الحجرات، فأمر به، فضرب مائة سوط، ونضح بالماء البارد، فمات، وكان يوماً بارداً. فكان عمر لما ولي الخلافة، وصار إلى ما صار إليه من الزهد، يقول: من لي بخبيب

اور الولید نے عمر بن عبد العزیز کو حکم دیا کہ مسجد النبی کو منہدم کیا جائے اور اس میں اس کے گرد کی منزلوں کو شامل کیا جائے اور حجرات ازواج النبی کو بھی پس حجرات کو گرایا گیا اور مسجد میں شامل کیا گیا پس  خبیب ، عمر بن عبد العزیز کے خلاف کھڑے ہوئے اور حجرات گرائے جا رہے تھے  انہوں نے کہا میں شہادت دیتا ہوں اے عمر کہ تو کتاب الله کی آیات سے ہٹ گیا – جس میں ہے إن الذين ينادونك من وراء الحجرات – پس عمر نے حکم دیا اس کو سو کوڑے مارو اور ٹھنڈا پانی ڈالو پس اس میں خبیب مر گئے پس جب عمر خلیفہ ہوا اور اس پر زہد کا اثر ہوا کہا میرے لیے خبیب کے حوالے سے کیا ہے

  حجرات ازواج النبی صلی الله علیہ وسلم   کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جاتا تو اچھا تھا لیکن مسجد النبي کو وسیع کرنا بھی ضروری تھا

اہل سنت کی کتب میں خبیب کو کوڑنے مارنے کی وجہ الگ ہے – ابن سعد طبقات میں لکھتے ہیں

وكان عالما فبلغ الوليد بن عبد الملك عنه أحاديث كرهها. فكتب إلى عامله على المدينة. أن يضربه مائة سوط. فضربه مائة سوط. وصب عليه قربة من ماء بارد بيتت بالليل. فمكث أياما ثم مات.

خبیب ایک عالم تھے پس الولید کو  ان کی احادیث پہنچیں جن سے  الولید   کو کراہت ہوئی  پس اپنے گورنر کو مدینہ میں حکم دیا کہ اس کو سو کوڑے لگاؤ پس سو کوڑے لگائے گئے اور ٹھنڈا پانی ڈالا گیا اور رات میں پس کچھ دن بعد  یہ مر گئے

الذھبی تاریخ الاسلام میں لکھتے ہیں

قَالَ ابْنُ جَرِيرٍ الطَّبَرِيُّ: ضَرَبَهُ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ إِذْ كَانَ أَمِيرَ الْمَدِينَةِ بِأَمْرِ الْخَلِيفَةِ الْوَلِيدِ خَمْسِينَ سَوْطًا، وَصَبَّ عَلَى رَأْسِهِ قِرْبَةً فِي يومٍ بَارِدٍ، وَأَوْقَفَهُ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ يَوْمًا، فَمَاتَ رَحِمَهُ اللَّهُ.

ابن جریر الطبری نے کہا عمر بن عبد العزیز نے خبیب کو خلیفہ الولید کے حکم پر پچاس کوڑے مارے جب وہ مدینہ کے امیر تھے اور ان کے سر پر ٹھنڈا پانی ڈالا اور مسجد کے دروازے پر (عبرت نگاہی کے لئے) ڈال دیا

ابن سعد کے مطابق خبیب کو روایت بیان کرنے پر لگے جو  الولید کے نزدیک صحیح نہیں تھیں اور عمر بن عبد العزیز نے بھی اس میں موافقت کی اور کوئی انکار نہ کیا

الذھبی تاریخ الاسلام میں لکھتے ہیں

قال الزبير بن بكار: أدركت أصحابنا يذكرون أَنَّهُ كَانَ يَعْلَمُ عِلْمًا كَثِيرًا لا يَعْرِفُونَ وَجْهَهُ وَلا مَذْهَبَهُ فِيهِ، يُشْبِهُ مَا يَدَّعِي النَّاسُ مِنْ عِلْمِ النُّجُومِ

الزبیر بن بکار نے کہا میں بہت سے اصحاب سے ملا وہ ذکر کرتے ہیں کہ یہ بہت عالم تھے جس کا منبع وہ اصحاب نہیں جانتے نہ ان کا اس پر مذھب تھا ،  وہ اس  علم نجوم سے ملتا جلتا تھا جس کی طرف لوگ بلاتے ہیں

جمهرة نسب قريش وأخبارها از الزبير بن بكار بن عبد الله القرشي الأسدي المكي (المتوفى: 256هـ) میں ہے

حدثنا الزبير قال، وحدثني عمي مصعب بن عبد الله قال: كان خبيب قد لقي كعب الأحبار، ولقي العلماء، وقرأ الكتب، وكان من النساك، وأدركت أصحابنا وغيرهم يذكرون أنه كان يعلم علماً كثيراً لا يعرفون وجهه ولا مذهبه فيه، يشبه ما يدعي الناس من علم النجوم.

الزبير نے کہا کہ میرے چچا مصعب بن عبد الله بن زبیر نے روایت کیا کہ خبیب ، کعب الاحبار سے ملا اور علماء سے ملاقات کی اور کتابیں پڑھیں  اور وہ نساک (راہب صفت) تھے اور وہ ہمارے اصحاب اور دوسروں سے ملے ذکر کیا جاتا ہے کہ ان کو بہت علم تھا جس کے رخ (اصل) کا پتا نہیں تھا نہ ان کا مذھب تھا – یہ اس کے مشابہ تھا جس کی طرف لوگ بلاتے ہیں علم نجوم میں سے

الزبير بن بكار بن عبد الله القرشي ،  خبیب کے رشتہ دار ہیں- صحاح ستہ میں سنن نسائی میں خبیب کی ایک روایت ہے

الزبیر بن بکار کے مطابق وَلَمَّا مَاتَ نَدِمَ عُمَرُ وَسُقِطَ فِي يَدِهِ وَاسْتَعْفَى مِنَ الْمَدِينَةِ جب خبیب کی وفات ہوئی عمر نادم ہوئے اور

گورنر مدینہ کے عہدے سے اسْتَعْفَى دے دیا

یعنی ان سزا کا مقصد سبق سکھانا تھا نہ کہ خبیب کا قتل

صحاح ستہ کے مولفین نے خبیب سے کوئی روایت نہیں لی صرف سنن نسائی میں ایک روایت پر ابن حجر کا کہنا ہے کہ وہ خبیب کی ہے لھذا تہذیب التہذیب میں ہے روى له النسائي حديثا واحدا في صبغ الثياب بالزعفران ولم يسمه في روايته ان سے النسائي نے ایک روایت لی کپڑوں کو زعفران سے رنگنے والی جس روایت میں ان کا نام نہ لیا

محدثین  خبیب کو ثقہ کہنے کے باوجود ان کی کوئی روایت کیوں نہیں لکھتے یہ ایک معمہ ہے اغلبا ان کی روایات کا متن عجیب و غریب ہو گا جس کی بنا پر خلیفہ مسلمین نے ان کو کوڑے مارے اور عمر بن عبد العزیز نے بھی ساتھ دیا

امام احمد العلل میں کہتے ہیں عمر بن عبد العزیز  کو الولید نے معزول کیا

وقال عبد الله: حدثني أبي. قال: حدثنا سفيان، قال: قال الماجشون، لما عزله الوليد -يعني عمر بن عبد العزيز

یعنی اسْتَعْفَى نہیں دیا بلکہ خود الولید نے ان کو معزول کیا

البتہ الولید نے ان کو امیر حج مقرر کیا

تاریخ دمشق کے مطابق

قال خليفة: سنة سبع وثمانين أقام الحجّ عمر بن عبد العزيز.

وقال: سنة تسع وثمانين أقام الحجّ عمر بن عبد العزيز.
وقال: سنة تسعين أقام الحجّ عمر بن عبد العزيز.
وقال: سنة اثنيتين وتسعين أقام الحجّ عمر بن عبد العزيز

سن ٨٧ سے سن ٩٢ میں چار مواقع پر سن ٨٧ ، ٨٩ ، ٩٠ ، ٩٢ ہجری میں امیر حج رہے

بنو امیہ کے ” ظلم” کے پیچھے  کیا  وجوہات کارفرما تھیں ان کی  تحقیق غیر جانب انداز میں کرنے کی ضرورت ہے جو ابھی تک امت میں نہیں کی گئی ہے

مسند امام احمد میں مالك بن دينار کہتے ہیں

 إنما الزاهد عمر بن عبد العزيز، الذي أتته الدنيا فتركها. «المسند» 5/249 (22495) 

بے شک عمر بن عبد العزیز ایک زاہد تھے جن کو دنیا پہنچی لیکن انہوں نے اسکو ترک کیا

سیر الاعلام النبلاء از امام الذھبی کے مطابق

وَقَالَ أَبُو مُسْهِرٍ: وَلِيَ عُمَرُ المَدِيْنَةَ فِي إِمْرَةِ الوَلِيْدِ مِنْ سَنَةِ سِتٍّ وَثَمَانِيْنَ إِلَى سَنَةِ ثَلاَثٍ وَتِسْعِيْنَ.

ابو مسهر نے کہا عمر مدینہ کے والی الولید کے حکم پر ہوئے سن ٨٦ ہجری  سے لے کر سن ٩٣ ہجری تک

امام الذھبی کہتے ہیں سن ٧٢ ہجری تک عمر بن عبد العزیز کے مدینہ میں کوئی آثار نہیں ملتے کیونکہ وہاں جابر بن عبد الله رضی الله عنہ تھے اگر یہ ٧٢ سے پہلے وہاں ہوتے تو ان سے روایت کرتے

لَيْسَ لَهُ آثَارٌ سَنَةَ ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِيْنَ بِالمَدِيْنَةِ، وَلاَ سَمَاعٌ مِنْ جَابِرِ بنِ عَبْدِ اللهِ، وَلَوْ كَانَ بِهَا وَهُوَ حَدَثٌ، لأَخَذَ عَنْ جَابِرٍ.

جابر بن عبد الله رضی الله عنہ سب سے آخر میں فوت  ہوئے جن سے عمر بن عبد العزیز کا سماع نہیں ہے لیکن یار دوستوں نے ایک روایت بیان کی جو سیر از امام الذھبی میں ہی ہے

العَطَّافُ بنُ خَالِدٍ: حَدَّثَنَا زَيْدُ بنُ أَسْلَمَ، قَالَ لَنَا أَنَسٌ: مَا صَلَّيْتُ وَرَاءَ إِمَامٍ بَعْدَ رَسُوْلِ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- أَشْبَهَ صَلاَةً بِرَسُوْلِ اللهِ مِنْ إِمَامِكُم هَذَا -يَعْنِي: عُمَرَ بنَ عَبْدِ العَزِيْزِ-.
زید بن اسلم نے کہا انس  رضی الله عنہ نے ہم سے کہا میں نے کسی کے پیچھے نماز نہ پڑھی جس کی نماز رسول الله صلی الله علیہ وسلم جیسی ہو سوائے اس امام کے یعنی عمر بن عبد العزیز 

محدثین اس قول کے راوی زید بن اسلم کے لئے کہتے ہیں

قال علي بن الحسين بن الجنيد زيد بن أسلم عن جابر مرسل

زید بن اسلم کی روایت جابر سے مرسل ہے

لہذا جب جابر سے ہی سماع نہیں تو زید کا سماع انس بن مالک سے کیسے ہو سکتا ہے ؟ معلوم ہوا انس بن مالک رضی الله عنہ  نے عمر بن عبد العزیز کے پیچھے کوئی نماز نہیں پڑھی

اس تمہید کے بعد اب ہم بات کرتے ہیں  الْخِلَافَةُ عَلَى مَنَهَاجِ النُّبُوَّة والی روایت پر – کہا جاتا ہے کہ صحیح خلافت صرف تیس سال ہو گی اس کے بعد دور آئے گا جس میں  ملک عضوض  بھنبھوڑنے والی بادشاہت ہو گی –  ہمارے روایت پسند علماء (مثلا امام احمد، امام ابن تیمیہ، ابن حجر اور ایک جم غفیر)  اس کا آغاز معاویہ رضی الله عنہ کے دور سے کرتے ہیں اس طرح ان تمام اصحاب رسول  بشمول حسن رضی الله عنہ کو مورد الزام دیتے ہیں جو امت پر ایک بادشاہ  (یعنی معاویہ) کو مسلط کر گئے – ان علماء کے مطابق اس معاویہ رضی عنہ سے لے کر پورا دور بنو امیہ دور ظلم تھا

اس سلسلے میں امام احمد مسند میں ایک روایت پیش کرتے ہیں

عن النعمان بن بشير عن حذيفة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم تكون النبوة فيكم ما شاء الله أن تكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون خلافة على منهاج النبوة ما شاء الله أن تكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون ملكا عاضا فتكون ما شاء الله أن تكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون ملكا جبرية فيكون ما شاء الله أن يكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون خلافة على منهاج نبوة ثم سكت قال حبيب فلما قام عمر بن عبد العزيز كتبت إليه بهذا الحديث أذكره إياه وقلت أرجو أن تكون أمير المؤمنين بعد الملك العاض والجبرية فسر به وأعجبه يعني عمر بن عبد العزيز . رواه أحمد والبيهقي في دلائل النبوة .
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 1309 مکررات 0 متفق علیہ 0
 نعمان بن بشیر حضرت حذیفہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تمہارے درمیان، نبوت موجود رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر اللہ نبی کو اپنے پاس بلا لینے کے ذریعہ نبوت کو اٹھا لے گا اس کے بعد نبوت کے طریقہ پر خلافت قائم ہوگی اور وہ اس وقت تک قائم رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ (یعنی تیس سال تک) پھر اللہ تعالیٰ خلافت کو بھی اٹھا لے گا اس کے بعد کاٹ کھانے والی بادشاہت کی حکومت قائم ہوگی وہ بادشاہت اس وقت تک قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس بادشاہت کو بھی اس دنیا سے اٹھا لے گا اس کے بعد قہر وتکبر اور زور زبردستی والی بادشاہت کی حکومت قائم ہوگی اور وہ اس وقت تک باقی رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس بادشاہت کو بھی اٹھا لے گا، اس کے بعد پھر نبوت کے طریقہ پر خلافت قائم ہوگی اتنا فرما کر آپ خاموش ہو گئے۔ حضرت حبیب بن سالم نے  بیان کیا کہ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز مقرر ہوئے اور حکومت قائم کی تو میں نے  یہ حدیث لکھ کر ان کے پاس بھیجی اور اپنے اس احساس کا اظہار کیا کہ مجھ کو امید ہے کہ آپ وہی امیرالمومنین یعنی خلیفہ ہیں جس کا ذکر اس حدیث میں کاٹ کھانے والی بادشاہت اور قہر وتکبر اور زور زبردستی والی بادشاہت کے بعد آیا ہے۔     عمر بن عبدالعزیز اس تشریح سے (حیرانی سے) خوش  ہوئے

خلافة على منهاج نبوة  کی اصطلاح زبان زد عام ہے لیکن امام بخاری اس روایت کے سخت مخالف ہیں اس روایت کا دارومدار ایک راوی حَبِيبُ بْنُ سَالِمٍ  پر ہے

مسند احمد میں سند ہے

– حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنِي دَاوُدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنِي حَبِيبُ بْنُ سَالِمٍ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ

حَبِيبُ بْنُ سَالِمٍ کے لئے امام بخاری فیه نظر کہتے ہیں اور ان سے صحیح میں کوئی روایت نہیں لی

امام مسلم نے صرف ایک روایت لی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم جمعہ کے دن نماز میں سوره الغاشیہ پڑھتے تھے

کتاب من قال فيه البخاري فيه نظراز أبو ذر عبد القادر بن مصطفى بن عبد الرزاق المحمدي کے مطابق

حبيب بن سالم الأنصاري مولى النعمان بن بشير: قال البخاري: “فيه نظر”. وقال ابن عدي: ليس في متون أحاديثه حديث منكر بل اضطرب في أسانيد ما يروى عنه، ووثقه أبو حاتم وأبو داود، وأورده ابن حبّان في الثقات، وقال عنه ابن حجر: لا بأس به. قلت: له عند مسلم حديثٌ واحدٌ متابعةً، وروى له أحمد والدارمي والأربعة ما مجموعه أربعة أحاديث دون المكرر.

بخاری اس راوی (حبيب بن سالم الأنصاري مولى النعمان بن بشير) کو فیہ نظر کہتے ہیں ابن عدی کہتے ہیں حدیثوں میں توازن نہیں اس کی حدیث منکر ہے بلکہ اسناد میں اضطراب بھی کرتا ہے .ابو حاتم اور ابو داود ثقہ کہتے ہیں اور ابن حبان ثقات میں لائے ہیں اور اس کو ابن حجر کہتے ہیں کوئی برائی نہیں. میں  ( أبو ذر عبد القادر) کہتا ہوں مسلم نے متابعت میں صرف ایک حدیث نقل کی ہے اور اس سے احمد ،دارمی اور چاروں سنن والوں نےبلا تکرار حدیث لی ہے 

السیوطی کتاب تدريب الراوي  میں وضاحت کرتے ہیں

تنبيهات الأول البخاري يطلق فيه نظر وسكتوا عنه فيمن تركوا حديثه 

پہلی تنبیہ بخاری اگرکسی راوی پر  فیه نظر کا اطلاق کریں اور سكتوا عنه کہیں تو مراد حدیث ترک کرنا ہے

کتاب التنكيل از الشيخ المعلمي کے مطابق

وكلمة فيه نظر معدودة من أشد الجرح في اصطلاح البخاري

اور کلمہ فیہ نظر بخاری کی شدید جرح کی چند اصطلاح میں سے ہے 

اللكنوي کتاب الرفع والتكميل في الجرح والتعديل میں اس پر کہتے ہیں

 فيه نظر: يدل على أنه متهم عنده ولا كذلك عند غيره

فیہ نظر دلالت کرتا ہے کہ راوی بخاری کے نزدیک متہم ہے اور دوسروں کے نزدیک ایسا نہیں 

افسوس بخاری کی شدید جرح کو نظر انداز کردیا گیا

اس روایت کو صحیح ماننے والے عوام کے سامنے تقرر میں اس روایت کو  پورا نہیں سناتے کہ راوی خود  الْخِلَافَةُ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ  کے دور کو بتاتا ہے کہ وہ گذر چکا ہے جو سن ٩٩ ہجری میں عمر بن عبد العزیز کا دور تھا

دوسری طرف آج   الْخِلَافَةُ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ  والی روایت قادیانیوں ، جہادی تنظیموں اور معتدل لیکن  معجزات کی منتظر مذہبی تنظیموں کی نہایت پسندیدہ ہے –  لیکن اگر  غیر جانب داری کے ساتھ اوپر دی گئی صورت حال   کو دیکھیں تو عقل سلیم رکھنے والوں  جان سکتے ہیں کہ روایت صحیح نہیں ہے

یسعیاہ، ابن سبا، الرجعة اورعود روح

قرن اول میں امت میں ایک عقیدہ پھیلایا گیا جس کو عقیدہ  الرجعة  یا رجعت کہا جاتا ہے – اس عقیدے کے اہل سنت انکاری ہیں  اور شیعہ اقراری ہیں-  عقیدہ الرجعة کیا ہے کتب شیعہ سے سمجھتے ہیں

سوره البقرہ کی آیت  ألم تر إلى الذين خرجوا من ديارهم وهم ألوف حذر الموت فقال لهم الله موتوا ثم أحياهم إن الله لذو فضل على الناس ولكن أكثر الناس لا يشكرون(243) پر بحث کرتے ہوئے شیعہ عالم  أبي جعفر محمد بن الحسن الطوسي المتوفی ٤٦٠ ھ  تفسیر التبيان في تفسير القرآن میں لکھتے ہیں

وفي الاية دليل على من أنكر عذاب القبر والرجعة معا، لان الاحياء في القبر، وفي الرجعة مثل إحياء هؤلاء الذين أحياهم للعبرة.

اور اس آیت میں دلیل ہے اس پر جو عذاب قبر کا اور رجعت کا انکار کرے کیونکہ قبر میں زندہ ہونا اور رجعت میں ان کی مثل ہے جن (کا ذکر آیت میں ہے جن کو) کو عبرت کے لئے زندہ کیا گیا

آیت فرحين بما آتاهم الله من فضله ويستبشرون بالذين لم يلحقوا بهم من خلفهم ألا خوف عليهم ولاهم يحزنون(170) کی تفسیر  میں  أبي على الفضل بن الحسن الطبرسي المتوفی ٥٤٨ ھ  لکھتے ہیں

وفي الآية دليل على أن الرجعة إلى دار الدنيا جائزة لاقوام مخصوصين

اور اس آیت میں دلیل ہے کہ دار دنیا میں مخصوص اقوام کی رجعت جائز ہے

آیت ثمَّ بَعَثْنَكُم مِّن بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكمْ تَشكُرُونَ(56) کی تفسیر میں شیعہ عالم تفسیر میں  تفسير مجمع البيان لکھتے ہیں

  و استدل قوم من أصحابنا بهذه الآية على جواز الرجعة و قول من قال إن الرجعة لا تجوز إلا في زمن النبي (صلى الله عليه وآله وسلّم) ليكون معجزا له و دلالة على نبوته باطل لأن عندنا بل عند أكثر الأمة يجوز إظهار المعجزات على أيدي الأئمة و الأولياء و الأدلة على ذلك مذكورة في كتب الأصول

اور ہمارے اصحاب کی ایک قوم نے اس آیت سے استدلال کیا ہے رجعت کے جواز پر  اور کہا کہ جس نے کہا رجعت جائز نہیں ہے سوائے  دور نبوی صلی الله علیہ و الہ وسلم کے کہ وہ معجزہ ہوتا ان کی نبوت کی دلیل پر تو یہ باطل قول ہے کیونکہ ہمارے اکثر ائمہ  اور اولیاء  کے ہاتھ پر  معجزات کا ظہور جائز  ہے جس پر دلائل مذکورہ کتب اصول میں موجود ہیں

ائمہ شیعہ کے مطابق الرجعة کا ایک خاص وقت ہے جس  کا انکار لوگوں نے کیا کیونکہ وہ اس کی تاویل تک نہیں پہنچ سکے

قرآن کی آیت ربنا أمتنا اثنتين وأحييتنا اثنتين وہ کہیں گے اے رب ہم کو دو بار زندہ کیا گیا اور دو بار موت دی گئی پر بھی اہل سنت اور اہل تشیع کا اختلاف ہے – اہل سنت اس کو عموم کہتے ہیں جبکہ اہل تشیع اس کو خاص – اہل سنت کے مطابق تمام لوگوں کو دو زندگیاں اور دو موتیں ملیں ہیں اور اہل تشیع کے مطابق صرف ان دشمنان اہل بیت کو ملی ہیں جن کے گناہوں کا عذاب ان کو دنیا میں نہیں ملا اور مر گئے لہذا ان کو زندہ کیا جائے گا اسی طرح اہل بیت کو بھی قیامت سے قبل زندہ کیا جائے گا

تفسیر نور ثقلین  از عبد على بن جمعة العروسى الحويزى  المتوفی ١١١٢ ھ کے مطابق

وقال على بن ابراهيم رحمه الله في قوله عزوجل : ربنا أمتنا اثنتين و أحييتنا اثنتين إلى قوله من سبيل قال الصادق عليه السلام : ذلك في الرجعة

علی بن ابراہیم نے کہا الله کا قول ربنا أمتنا اثنتين و أحييتنا اثنتين تو اس پر امام جعفر نے کہا یہ رجعت سے متعلق ہے

اہل تشیع میں یہ عقیدہ اصلا ابن سبا سے آیا- یہود بھی رجعت کا عقیدہ رکھتے ہیں اور ان کے مطابق مسیح آ کر مردوں کو زندہ کرے گا

http://www.come-and-hear.com/sanhedrin/sanhedrin_90.html

اس کی دلیل بائبل کی کتاب  یسعیاہ    باب ٢٦ آیت  ١٩ ہے

Your dead shall live; their bodies shall rise.

                     You who dwell in the dust, awake and sing for joy

           For your dew is a dew of light,

                     and the earth will give birth to the dead.

تمھارے مردے جی اٹھیں گے ان کے اجسام زندہ ہوں گے

تم وہ جو خاک میں ہو اٹھو اور گیت گاؤ

کیونکہ تمہاری اوس، روشنی کی شبنم ہے

اور زمیں مردہ کو جنم دے گی

حزقی ایل کی کتاب میں رجعت کا ذکر ہے کہ یہود کو کس طرح جی بخشا جائے گا

Behold I will open your graves and raise you from your graves, My people; and I will bring you into the Land of Israel. You shall know that I am G‑d when I open your graves and when I revive you from your graves, My people. I shall put My spirit into you and you will live, and I will place you upon your land, and you will know that I, G‑d, have spoken and done, says G‑d.” (Ezekiel 37:12-14)

خبردار میں تمہاری قبریں کھول دوں گا اور تم کو جی بخشوں گا میرے لوگ! اور میں تم کو ارض مقدس لاؤں گا

تم جان لو گے کہ میں ہی الله ہوں میں  قبروں کو کھولوں گا

آور تم کو ان میں سے اٹھاؤں گا میرے لوگ ! میں اپنی روح تم میں ڈالوں گا

اور تم زندہ ہو گے اور میں تم کو تمہاری زمین پر رکھوں گا اور تم جان لو گے کہ میں رب نے جو کہا پورا کیا

 

ان آیات کی بنیاد پر یہود کہتے ہیں کہ مسیح مردوں کو بھی زندہ کرے گا اور یہی عقیدہ اہل تشیع کا بھی ہے جس کی قلمیں قرانی آیات میں لگائی گئیں تاکہ اس عقیدہ کو ایک اسلامی عقیدہ  ثابت کیا جا سکے

لہذا قرن اول میں یہ عقیدہ شیعوں میں پھیل چکا تھا اور اہل سنت اس  کا انکار کرتے تھے کہ رجعت ہو گی البتہ  کچھ شیعہ عناصر نے اس کو بیان کیا جو کوفہ کے عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ کے شاگرد تھے- اب اپ کبری صغری کو ملائیں – ابن سبا عثمان رضی الله عنہ کے دور میں یمن سے حجاز آیا اپنا عقیدہ پھیلانے لگا اور وہاں سے مصر اور عراق میں آیا- اسی دوران ابن مسعود کی وفات ہوئی عثمان کی شہادت ہوئی اور علی خلیفہ ہوئے – تاریخ دمشق کے مطابق وہاں کوفیوں میں ابن سبا بھی تھا جس نے ایک دن مجمع میں علی سے کہا

انت انت

تو، تو ہے

یعنی تو اے علی رب العالمین ہے – اس کی وضاحت کے لئے ویب سائٹ پر کتاب مجمع البحرین دیکھیں

کتاب رجال ابن داود از ابن داوود الحلي کے مطابق

 عبدالله بن سبا ي (جخ) رجع إلى الكفر وأظهر الغلو (كش) كان يدعي النبوة وأن عليا عليه السلام هو الله، فاستتابه عليه السلام (ثلاثة أيام) فلم يرجع فأحرقه في النار في جملة سبعين رجلا ادعوا فيه ذلك

عبد الله بن سبا ان ستر میں تھا جن کو جلا دیا گیا

الکشی کہتے ہیں امام جعفر نے کہا

أن عبدالله بن سبأ كان يدعي النبوة ويزعم أن أمير المؤمنين ( عليه السلام ) هو الله

ابن سبا نبوت کا مدعی تھا اور دعوی کرتا تھا کہ علی وہ الله ہیں

کتاب   خلاصة الاقوال از  الحسن بن يوسف بن علي بن المطهر الحلي کے مطابق

عبدالله بن سبا بالسين المهملة والباء المنقطة تحتها نقطة واحده غال ملعون حرقه أميرالمؤمنين عليه السلام بالنار كان يزعم أن عليا عليه السلام إله وأنه نبي لعنه الله.

عبد الله بن سبا کو علی نے جلوا دیا کیونکہ اس نے ان کو الہ کہا

بعض مستشرقین نے یہودی سازش کی چھپانے کے لئے یہ شوشہ چھوڑا کہ اس ابن سبا کی حکایت میں سَيْفُ بْنُ عُمَرَ التَّمِيمِيُّ  ضعیف ہے اس کے بعد شیعہ حضرات بہت خوش ہوئے اور اپنے ائمہ پر جھوٹ گھڑنے کا اتہام لگا دیا جو ابن سبا کا ذکر کرتے آئے ہیں – اہل سنت میں سَيْفُ بْنُ عُمَرَ التَّمِيمِيُّ  سے بعض روایات ابن سبا سے متعلق لی گئی ہیں لیکن کیا کتب شیعہ میں ابن سبا کی تمام خبریں سَيْفُ بْنُ عُمَرَ التَّمِيمِيُّ  کی سند سے ہیں ؟ نہیں ان کے مختلف راوی ہیں جو ثقہ سمھجے جاتے ہیں اور متقدمیں شیعہ ابن سبا کو ایک حقیقی شخص سمجھتے آئے ہیں- اس کے علاوہ اہل سنت کی کتب میں ٢٠ سے ٣٠ راوی ایسے ہیں جو کھلم کھلا اپنے اپ کو سبائی کہتے ہیں یا محدثین إن کو السبئية یا السبائية مين شمأر کرتے ہیں یا وہ رجعت کا عقیدہ رکھتے ہیں – جن  میں سے بعض سَيْفُ بْنُ عُمَرَ التَّمِيمِيُّ  سے پہلے کے ہیں

 السبئية سے متعلق  روایات کو محمد بن حنفیہ کے  بیٹے علی بن محمد بن علی نے جمع کیا تھا یعنی علی رضی الله عنہ کے پوتے نے اس کی خبر امام فسوی المعروفة والتاريخ میں دیتے ہیں

 وكان عَبد الله جمع أحاديث السبئية

اور عبد الله نے  السبئية کی روایات جمع کیں

مورخین کے نزدیک السبئية  سے مراد وہ قبائل بھی ہیں جو یمن میں آباد تھے اور وہیں سے ابن سبا کا تعلق تھاجو یمن سے کوفہ پہنچا اور مورخین کے مطابق اس کی ماں کالی تھی – یہ ایک لطیف نکتہ ہے کہ یہ اصلی یہودی بھی نہیں تھا کیونکہ یہود کے مطابق  کالے لوگ اصلی یہود نہیں اگرچہ اتھوپیا میں کالے یہودی ہیں لیکن باقی یہودی ان کو اصل نہیں مانتے دوسرا یہود میں نسل باپ سے نہیں ماں سے چلتی ہے

قرن اول میں  کوفہ میں ابن سبا رجعت کا عقیدہ بھی پھیلا رہا ہے اور وہاں   شیعہ  زاذان ہیں جو عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ کی وفات کے بعد اب   اصحاب علی  میں سے ہیں،  وہ روایت کرتے ہیں کہ مردہ میں عود روح ہوتا ہے – اس بات کو زاذان  سے پہلے،  نہ بعد میں ، کوئی روایت نہیں کرتا – عود روح کی یہ واحد روایت ہے جس میں صریحا جسد میں روح کے لوٹنے کا ذکر ہے

اس روایت کو زاذان سے ایک  اور متعصب شیعہ المنھال بن عمرو روایت کرتا ہے  یا عدی بن ثابت روایت کرتا ہے  یہ بھی شیعہ ہیں

اس طرح ابن سبا کے  عقیدہ رجعت کا  اسلامی عقیدہ کے طور پر ظہور ہوتا  ہے اور اب اہل سنت میں بھی مردہ قبر میں زندہ ہو جاتا ہے- عود روح کی روایت کے مطابق  روح آسمان پر نہیں جا سکتی لھذا وہ قبر میں ہی رہتی ہے گویا اب صرف انتظار ہے کہ    الساعہ  (وہ گھڑی) کب ہو گئی – اہل سنت جب اس روایت کو دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں اس میں الساعہ  سے مراد روز محشر ہے جبکہ  الساعہ  سے مراد رجعت ہے اسی لئے امام المہدی کو القائم کہا جاتا ہے جو صحیح غلط کا فیصلہ کریں گے اور انتقام لیں گے

شیعہ کتب کے مطابق  ابوحمزہ ثمالي کہتے ہیں: میں نے امام باقر علیہ السلام سے پوچھا: اے  فرزند رسول    کیا آپ سارے ائمہ قائم بالحق نہیں ہیں؟  فرمایا: کیوں نہیں؟  میں نے عرض کیا: تو پھر صرف امام مہدی  کیوں القائم قرار دیئے گئے ہیں اور صرف امام مہدی   کو ہی کیوں القائم کہا جاتا ہے؟  فرمایا: جب میرے جد امجد امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے تو کائنات کے فرشتوں کے رونے کی صدائیں بلند ہوئیں اور سارے فرشتے بارگاہ الہی میں شدت سے روئے اور عرض کیا: پروردگارا  کیا آپ بہترین بندے اور اشرف مخلوقات کے فرزند اور مخلوقات میں پسندیدہ ترین ہستی کے قاتلوں کو ان کے اپنے حال پر چھوڑ دے گا؟  اللہ تعالی نے انہیں وحی فرمائی کہ: میرے فرشتوں  پرسکون ہوجاؤ۔ میں اپنی عزت و جلال کی قسم کھاتا ہوں کہ ان سے انتقام لونگا خواہ یہ انتقال طویل زمانے گذرنے کے بعد ہی کیوں نہ ہو؛ اس کے بعد اللہ تعالی نے فرشتوں کو امام حسین علیہ السلام کی اولاد سے آنے والے ائمہ کا دیدار کرایا تو فرشتے مسرور ہوئے اور سب نے اچانک دیکھا کہ ائمہ میں سے ایک امام کھڑے ہوئے ہیں اور نماز ادا کررہے ہیں۔ اللہ تعالی نے فرشتوں سے خطاب کرکے فرمایا: میں اس القائم کے ذریعے ان سے انتقام لوں گا

اس طرح عقیدہ عود روح ابن سبا  کے دور میں ہی کوفہ میں شیعان علی میں پھیل چکا تھا – یہ ایک خفیہ تحریک تھی علی رضی الله عنہ  کو بھی اس  تحریک کا احساس دیر سے ہوا جب ابن سبا نے کھلم کھلا ان کو مجمع میں  رب العالمین کہا- علی نے اس  کے اصحاب کو مدائن کی طرف ملک بدر کر دیا  اور بعض اور کو جلا ڈالا – جس کی خبر،  علی کے گورنر ، ابن عباس رضی الله عنہ کو بصرہ میں ہوئی لیکن دیر ہو چکی تھی ابن عباس نے کہا اس  عمل سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے منع کیا تھا

الغرض عقیدہ رجعت اور عقیدہ عود روح ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں- اس بات کو خوب اچھی طرح سمجھ لیں

ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ کعبہ کو خراب کرے گا

ایک حدیث میں ہے کہ ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ   کعبہ کو خراب کرے گا اس کا کیا مطلب ہے ؟

جواب

یہ روایت عبد الله بن عمرو اور ابو ہریرہ رضی الله عنہما کی سند سے المُعْجَمُ الكَبِير للطبراني ، مسند البزار، سنن أبي داود  آئی ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ مِهْرَانَ الرَّازِيُّ قَالَ: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” يُخَرِّبُ الْكَعْبَةَ ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ مِنَ الْحَبَشَةِ، فَيَسْلُبُهَا حُلِيَّهَا وَيُجَرِّدُهَا مِنْ كِسْوَتِهَا، كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ أُصَيْلِعَ أُفَيْدِعَ، يَضْرِبُ عَلَيْهَا بِمِسْحَاتِهِ وَمِعْوَلِهِ “

عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کعبہ کو (دو پتلی پنڈلیوں یا) دو چادروں والا حبشہ میں سے خراب کرے گا اس کی نمائش کو لے گا اور اس کے غلاف کو گویا کہ میں اس کو دیکھ رہا ہوں

اس راویت کا ترجمہ کیا جاتا ہے دو پتلی پنڈلیوں والا حبشی

النهاية في غريب الحديث والأثر از ابن الأثير (المتوفى: 606هـ) کے مطابق

السُّوَيْقَة تصْغيرُ السَّاقِ، وَهِيَ مُؤَنثة، فَلِذَلِكَ ظَهَرت التاءُ فِي تصْغيرها. وَإِنَّمَا صَغَّر السَّاقَ لِأَنَّ الغالبَ عَلَى سُوقِ الحبَشة الدِّقَّةُ والحُموشَة.

السُّوَيْقَة (کا لفظ) السَّاقِ کی تصغیر ہے اور یہ مونث ہے اس لئے اس کے ساتھ التاءُ ہے تاکہ تصغیر ہو اور یہ پنڈلی کا چھوٹا ہونا ہے کہ اکثر حبشیوں کی پنڈلیاں کم ہوتی ہیں

ابن حبان صحیح میں لکھتے ہیں السويقتين: الكسائين  یعنی دو چادروں والا

مُجَاهِدٍ کا  عبد الله بن عمرو  سماع سے ثابت نہیں ہے – کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از   العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق

واختلف في روايته عن عبد الله بن عمرو فقيل لم يسمع منه قلت أخرج له البخاري عنه حديثين

اور مجاہد کا عبد الله بن عمرو سے روایت کرنے میں اختلاف ہے کہا جاتا ہے انہوں نے ان سے نہیں سنا میں کہتا ہوں اس سے بخاری نے دو حدیثیں لی ہیں

سنن أبي داود میں یہ روایت ایک دوسری سند سے بھی ہے

حدَّثنا القاسِمُ بن أحمد البغداديُّ، حدَّثنا أبو عامرِ، عن   زُهير ابن محمدٍ، عن موسى بنِ جُبير، عن أبي أمامة بن سهل بن حُنيفٍ عن عبد الله بن عمرو، عن النبي – صلَّى الله عليه وسلم – قال: “اتركوا الحبشةَ ما تركوكم، فإنه لا يستخرِجُ كَنزَ الكعبةِ إلاَّ ذو السُّوَيْقَتَينِ من الحبشة”

عبد الله بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا حبشیوں کو چھوڑ دو جو انہوں نے چھوڑ

دیا ہے  کیونکہ   کعبه کا خزانہ کوئی نہیں نکالے گا سوائے دو پتلی پنڈلیوں ( یا دو چادروں)  والے کے

 مصنف عبد الرزاق کی روایت ہے جس میں کعبہ کے خزانے کا ذکر ہے لیکن اسکی سند میں صَالِحٍ، مَوْلَى التَّوْأَمَةِ ابو ہریرہ کا قول نقل کرتا ہے کہ اس کو گمان ہے یہ حدیث ہے

عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ صَالِحٍ، مَوْلَى التَّوْأَمَةِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ رَفَعَهُ أَظُنُّهُ قَالَ: «اتْرُكُوا الْحَبَشَةَ مَا تَرَكُوا، فَإِنَّهُ لَا يَسْتَخْرِجُ كَنْزَ الْكَعْبَةِ إِلَّا ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ مِنَ الْحَبَشَةِ»

روایت متنا صحیح نہیں ہے- کعبه کا خزانہ نکل چکا ہے لٹ چکا ہے اور یہ واقعہ فتنہ الافطس کہلاتا ہے

کعبہ کے اندر ایک گڑھا تھا  جس میں  تحفے میں ملنے والا سونا ڈالا جاتا تھا اور یہ روایت زمانہ جاہلیت سے چلی آ رہی تھی

تاریخ ابن خلدون ج١ ص  ١٩٨ کے مطابق

وقد وجد رسول الله صلى الله عليه وسلم حين افتتح مكة في الجب الذي كان فيها، سبعين ألف أوقية من الذهب، مما كان الملوك يهدون للبيت قيمتها ألف ألف دينار مكررة مرتين بمائتي قنطار وزناً

جس روز فتح مکہ ہوئی تو رسول الله کو کعبہ میں اس کے  الجب   (گڑھے) سے جو اس میں ہے   ستر ہزار  أوقية  سونا ملا جو بادشاہوں نے   بیت الله کے لئے تحفتا دیا تھا جس کی قیمت  ہزار ہزار دینار مکرر دو دفعہ،      سو قنطار وزن کے حساب سے  تھی

صحیح مسلم کی حدیث ہے

حَدَّثَنِى أَبُو الطَّاهِرِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ عَنْ مَخْرَمَةَ ح وَحَدَّثَنِى هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الأَيْلِىُّ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِى مَخْرَمَةُ بْنُ بُكَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ نَافِعًا مَوْلَى ابْنِ عُمَرَ يَقُولُ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِى بَكْرِ بْنِ أَبِى قُحَافَةَ يُحَدِّثُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- أَنَّهَا قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ « لَوْلاَ أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثُو عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ – أَوْ قَالَ بِكُفْرٍ – لأَنْفَقْتُ كَنْزَ الْكَعْبَةِ فِى سَبِيلِ اللَّهِ وَلَجَعَلْتُ بَابَهَا بِالأَرْضِ وَلأَدْخَلْتُ فِيهَا مِنَ الْحِجْرِ

عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ انہوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا   کہ  اگر تمہاری قوم عہد جاہلیت کے قریب نہ ہوتی  یا کہا کفر کے   تو میں  کعبہ کا خزانہ  الله کی راہ میں   صدقه کر دیتا    اور اس کا دروازہ زمین کے پاس کرتا کہ اس میں جانے کے لئے کوئی پتھر    (بطور سیڑھی کے) استعمال نہیں کرتا

نبی صلی الله علیہ وسلم نے کعبہ کے  خزانہ کو صدقه نہیں کیا اور یہ اسی میں سن ١٩٩ ھ تک  رہا- ابن خلدون  تاریخ میں لکھتے ہیں

وأقام ذلك المال إلى أن كانت فتنة الأفطس، وهو الحسن بن الحسين بن علي بن علي زين العابدين سنة تسع وتسعين ومائة، حين غلب على مكة عمد إلى الكعبة فأخذ ما في خزائنها وقال: ما تصنع الكعبة بهذا المال موضوعاً فيها لا ينتفع به، نحن أحق به نستعين به على، حربنا، وأخرجه وتصرف فيه وبطلت الذخيرة من الكعبة من يومئذ

اور یہ مال  ،  فتنة الأفطس  تک کعبہ ہی میں رہا   اور وہ فتنہ ہے  حسن بن حسین بن علی بن علی بن  زین العابدین کا سن ١٩٩ ھ میں ،جب وہ مکہ  پر وہ غالب ہوا اور  کعبہ کا خزانہ  نکالا اور کہا کعبہ اس مال کا کیا   کرے گا  جس کا کوئی فائدہ بھی نہیں، ہم اس کے زیادہ مستحق ہیں  اس سے  اپنی لڑائی میں مدد چاہیں گے ، اس نے خزانہ نکالا اور اس زور کعبہ کا خزانہ  ضائع ہو گیا –

ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ مِنَ الْحَبَشَةِ  کی روایت الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ کی سند سے  اور ثور بن زيد الديلي عن سالم أبو الغيث مولى عبد الله بن مطيع العدوي   عَن أَبِي هُرَيرة  کی سند سے بہت کی کتب میں آئی ہے

لیکن اس کے متن میں صرف یہ ہے

يخرِّبُ الكعبةَ ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ   منَ الحبَشةِ

کعبه کو حبشہ کا ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ خراب کرے گا

یہ کب ہو گا ؟ کسی صحیح سند روایت میں وقت کا تعین نہیں ہے – مصنف عبد الرزاق ، مسند البزار  کی روایت  میں الفاظ ہیں فِي آخِرِ الزَّمَانِ یعنی آخری زمانہ میں یہ ہو گا لیکن  معمر مدلس ہیں اور ان  کا سماع الزہری سے ہر سند کے لئے  ثابت  نہیں  اگرچہ صحیح بخاری میں ان کی اس سند سے روایات ہیں لیکن یقینا معمر نے ان پر تحدث کا اشارہ دیا ہو گا – اس مخصوص روایت کو وہ ان کے الفاظ کے ساتھ عن سے ہی نقل کرتے ہیں لہذا یہ ثابت نہیں

مسند البزار کی ایک دوسری روایت میں ہے يظهر في آخر الزمان  جس میں اسکو أحمد بن أبان القُرَشيّ  نے بیان کیا ہے اور الفاظ زیادت ہیں – الفرائد على مجمع الزوائد ترجمة الرواة الذين لم يعرفهم الحافظ الهيثمي میں  الهيثمي  جیسے متساہل لوگ تک کہتے ہیں میں ان کو نہیں جانتا لہذا یہ مجھول راوی ہیں

کتاب أخبار مكة وما جاء فيها من الأثار  از الأزرقي (المتوفى: 250هـ)  کے مطابق ابن زبیر نے کعبه کو منہدم  کرنے کا ارادہ کیا اس پر لوگوں میں اختلاف ہوا بعض کا کہنا تھا کہ یہ کرنے پر عذاب نازل ہو گا

وَأَبَى أَكْثَرُ النَّاسِ هَدْمَهَا، وَكَانَ أَشَدَّهُمْ عَلَيْهِ إِبَاءً عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ

اور لوگوں کی اکثریت نے کعبہ کو منہدم کرنے سے انکار کیا جن میں سب سے زیادہ شدت عبد الله ابن عباس رضی الله عنہ نے ظاہر کی

لیکن ابن زبیر نے پھر بھی ارادہ  کیا اور  جب لوگ نہ ملے تو

وَأَرْقَى ابْنُ الزُّبَيْرِ فَوْقَهَا عَبِيدًا مِنَ الْحَبَشِ يَهْدِمُونَهَا؛ رَجَاءَ أَنْ يَكُونَ فِيهِمْ صِفَةُ الْحَبَشِيِّ الَّذِي قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يُخَرِّبُ الْكَعْبَةَ ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ مِنَ الْحَبَشَةِ»

اور اس کعبہ پر چڑھایا حبشہ کے غلاموں کو جو اس کو منہدم کر رہے تھے کہ ان میں وہی صفت تھی جس کا ذکر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کیا کہ اس کعبہ کو حبشہ کا ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ خراب کرے گا

مجاہد جو اس روایت کو عبد اللہ بن عمرو سے منسوب کرتے تھے وہ کہتے ہیں جب کعبه منہدم کرنے کا اردہ  کیا جا رہا تھا تو

فَلَمَّا هَدَمَ ابْنُ الزُّبَيْرِ الْكَعْبَةَ جِئْتُ أَنْظُرُ، هَلْ أَرَى الصِّفَةَ الَّتِي قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو؟ فَلَمْ أَرَهَا، فَهَدَمُوهَا

ابن زبیر نے اس کو دیکھا لیکن ان  کو وہ صفت نظر نہ آئی جو عبد الله نے بیان کی تھی پس منہدم کیا گیا

یعنی مجاہد نے امیر المومنین  ابن زبیر رضی الله عنہ کی طرف داری کی اور اپنے استاد ابن عباس رضی الله عنہ  کی مخالفت کی

ابن عباس رضی الله عنہ کے ابن زبیر رضی الله عنہ سے اختلافات اسقدر بڑھے کہ انہوں نے طائف جا کر سکونت اختیار کی

اہل تشیع اور دجال

عموما اہل تشیع  دجال کی روایات بیان نہیں کرتے لہذا یہاں ان کی کتب کی کچھ روایات نقل کی جاتی ہیں تاکہ دیکھیں کہ اس کے بارے میں ان کی کیا آراء ہیں

الكافي – از  الكليني – ج 8 – ص 296 – 297 کی روایت ہے

حمید بن زياد ، عن الحسن بن محمد الكندي ، عن غير واحد من أصحابه عن أبان بن عثمان ، عن أبي جعفر الأحول : والفضيل بن يسار ، عن زكريا النقاض ( 4 ) . عن أبي جعفر ( عليه السلام ) قال : سمعته يقول : الناس صاروا بعد رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) بمنزلة من اتبع هارون ( عليه السلام ) ومن اتبع العجل وإن أبا بكر دعا فأبى علي ( عليه السلام ) ( 5 ) إلا القرآن ‹ صفحة 297 › وإن عمر دعا فأبى علي ( عليه السلام ) إلا القرآن وإن عثمان دعا فأبى علي ( عليه السلام ) إلا القرآن وإنه ليس من أحد يدعو إلى أن يخرج الدجال إلا سيجد من يبايعه ومن رفع راية ضلال [ – ة ] فصاحبها طاغوت .

زكريا النقاض  ، ابی جعفر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابی جعفر علیہ السلام کو سنا کہہ رہے تھے لوگ رسول الله صلى الله عليه وآله  کے بعد ہو گئے اس کے ساتھ جس کی منزلت ان کی سی تھی جنہوں نے ہارون کی اتباع کی اور (دوسرا گروہ) ان کی جنہوں نے گوسالہ پرستی کی اور ابو بکر نے پکارا تو علی نے انکار کیا سوائے قرآن کے لئے (ابو بکر کی اتباع کی)  اور عمر نے پکارا تو علی نے انکار کیا  سوائے قرآن کے لئے (عمر کی اتباع کی)  اور عثمان نے پکارا تو علی نے انکار کیا سوائے قرآن کے لئے (عثمان کی اتباع کی)  اور ایسا کوئی نہ ہو گا کہ وہ دجال کے لئے پکارے  تو وہ خود ان میں  سے ہو جائے گا  جوگمراہی کا جھنڈا اٹھائے ہوں اور طاغوت کے  ساتھی ہوں

الأمالي – از الصدوق – ص 345 – 347 کی روایت ہے

حدثنا محمد بن إبراهيم بن إسحاق ( رحمه الله ) ، قال : حدثنا عبد العزيز ابن يحيى الجلودي ، قال : [ حدثنا محمد بن عطية ، قال : حدثنا عبد الله بن عمرو بن سعيد البصري ، قال : حدثنا ] ( 3 ) هشام بن جعفر ، عن حماد ، عن عبد الله بن سليمان ( 4 ) ، وكان قارئا للكتب ، قال : قرأت في الإنجيل : يا عيسى ، جد في أمري ولا ‹ صفحة 346 › تهزل ، واسمع وأطع ، يا بن الطاهرة الطهر البكر البتول ، أتيت ( 1 ) من غير فحل ، أنا خلقتك آية للعالمين ، فإياي فاعبد ، وعلي فتوكل ، خذ الكتاب بقوة ، فسر لأهل سوريا السريانية ، وبلغ من بين يديك أني أنا الله الدائم الذي لا أزول ، صدقوا النبي ( صلى الله عليه وآله ) الأمي صاحب الجمل والمدرعة ( 2 ) والتاج – وهي العمامة – والنعلين والهراوة – وهي القضيب – الأنجل العينين ( 3 ) ، الصلت الجبين ( 4 ) ، الواضح ( 5 ) الخدين ، الأقنى الانف ، المفجل ( 6 ) الثنايا ، كأن عنقه إبريق فضة ، كأن الذهب يجري في تراقيه ، له شعرات من صدره إلى سرته ، ليس على بطنه ولا على صدره شعر ، أسمر اللون ، دقيق المسربة ( 7 ) ، شثن ( 8 ) الكف والقدم ، إذا التفت التفت جميعا ، وإذا مشى كأنما يتقلع ( 9 ) من الصخرة وينحدر من صبب ( 10 ) ، وإذا جاء مع القوم بذهم ( 11 ) ، عرقه في وجهه كاللؤلؤ ، وريح المسك ينفح منه ، لم ير قبله مثله ولا بعده ، طيب الريح ، نكاح النساء ذو النسل القليل ، إنما نسله من مباركة لها بيت في الجنة ، لا صخب فيه ولا نصب ، يكفلها في آخر الزمان كما كفل زكريا أمك ، لها فرخان مستشهدان ، كلامه القرآن ، ودينه الاسلام ، وأنا السلام ، طوبى لمن أدرك زمانه ، وشهد أيامه ، وسمع كلامه . ‹ صفحة 347 › قال عيسى ( عليه السلام ) : يا رب ، وما طوبى ؟ قال : شجرة في الجنة ، أنا غرستها ، تظل الجنان ، أصلها من رضوان ، ماؤها من تسنيم ، برده برد الكافور ، وطعمه طعم الزنجبيل ، من يشرب من تلك العين شربة لا يظلما بعدها أبدا . فقال عيسى ( عليه السلام ) : اللهم اسقني منها . قال : حرام – يا عيسى – على البشر أن يشربوا منها حتى يشرب ذلك النبي ، وحرام على الأمم أن يشربوا منها حتى تشرب أمة ذلك النبي ، أرفعك إلي ثم أهبطك في آخر الزمان لترى من أمة ذلك النبي العجائب ، ولتعينهم على العين الدجال ، أهبطك في وقت الصلاة لتصلي معهم إنهم أمة مرحومة

عبد الله بن سليمان جو کتب سماوی کو پڑھنے والے تھے کہتے ہیں میں نے انجیل میں پڑھا … عیسیٰ نے الله سے کہا اے رب یہ طوبی کیا ہے ؟ کہا جنت کا درخت ہے  اس کا پانی تسنیم ہے اس کی ٹھنڈک کافور جیسی ہے اور کھانا زنجبیل جیسا ہے اور جو اس چشمہ سے پی لے اس کو پیاس نہ لگے گی کبھی بھی عیسیٰ نے کہا اے الله مجھے پلا دے فرمایا حرام ہے اے عیسیٰ کہ کوئی اس میں سے بشر پئے جب تک اس کو النبی (محمد) نہ پئے اور اس کی امت پر حرام ہے حتی کہ انکا النبی نہ پئے- میں تجھ کو اٹھا لوں گا پھر واپس آخری زمانے میں تیرا هبوط ہو گا کہ تم اس النبی العجائب کی امت دیکھو گے اور اس امت کی لعین دجال کے مقابلے میں مدد کرو گے اور تمہارا هبوط نماز کے وقت ہو گا کہ تم اس رحمت والی امت کے ساتھ نماز پڑھو

انجیل میں  طوبی کا کہیں نہیں لکھا عبد بن سلیمان کو یہ انجیل کہاں سے ملی پتا نہیں

الخصال – از الصدوق – ص 431 – 432 کی روایت ہے

عن أبي الطفيل ( 2 ) ، عن حذيفة بن أسيد قال : اطلع علينا رسول الله صلى الله عليه وآله من غرفة له ونحن نتذاكر الساعة ، قال رسول الله صلى الله عليه وآله : لا تقوم الساعة حتى تكون عشر آيات : الدجال ، والدخان ، وطلوع الشمس من مغربها ، ودابة الأرض ، و يأجوع ومأجوج ، وثلاث خسوف : خسف بالمشرق وخسف بالمغرب وخسف بجزيرة ‹ صفحة 432 › العرب ، ونار تخرج من قعر عدن تسوق الناس إلى المحشر ، تنزل معهم إذا نزلوا وتقيل معهم إذا قالوا . عشر خصال جمعها الله عز وجل لنبيه وأهل بيته صلوات الله عليهم

حذيفة بن أسيد کہتے ہیں ان کو رسول الله صلى الله عليه وآله نے خبر دی اپنے  غرفة میں  اور ہم وہاں قیامت کا ذکر کر رہے تھے  رسول الله صلى الله عليه وآله  نے فرمایا قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ دس نشانیاں ہوں دجال دھواں سورج کا مغرب سے طلوع ہونا  دابه الارض یاجوج اور ماجوج  تین خسوف مغرب مشرق اور عرب میں اور اگ جو عدن کی تہہ سے نکلے گی اور لوگوں کو محشر کی طرف جمع کرے گی

ثواب الأعمال – از الصدوق – ص 54  کی روایت ہے

 ومن صام من رجب أربعة أيام عوفي من البلايا كلها من الجنون والجذام والبرص وفتنة الدجال واجبر من عذاب القبر

 جس نے رجب کے چار دن کے  روزے رکھے  وہ اس کو بچائیں گے جنون سے جذام سے برص سے اور دجال کے فتنہ سے اور عذاب قبر سے بھی

الأمالي – از الصدوق – ص 681

 حدثنا محمد بن علي ماجيلويه ( رحمه الله ) ، قال : حدثني عمي محمد ابن أبي القاسم ، قال : حدثني محمد بن علي الكوفي ، عن المفضل بن صالح الأسدي ، عن محمد بن مروان ، عن أبي عبد الله الصادق ، عن أبيه ، عن آبائه ( عليهم السلام ) ، قال : قال رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) : من أبغضنا أهل البيت بعثه الله يوم القيامة يهوديا . قيل : يا رسول الله ، وإن شهد الشهادتين ؟ قال : نعم ، فإنما احتجز بهاتين الكلمتين عن سفك دمه ، أو يؤدي الجزية عن يد وهو صاغر . ثم قال : من أبغضنا أهل البيت بعثه الله يهوديا . قيل : فكيف ، يا رسول الله ؟ قال : إن أدرك الدجال آمن به

أبي عبد الله الصادق اپنے باپ اور ان کے اجداد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) نے فرمایا جس نے ہم اہل بیت سے بغض کیا اللہ اس کو قیامت کے دن یہودی بنا کر اٹھائے گا کہا گیا اے رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) اور اگر وہ دو شہادتیں دے دے  فرمایا ہاں ….   رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) نے پھر فرمایا جس نے ہم اہل بیت سے بغض کیا اللہ اس کو قیامت کے دن یہودی بنا کر اٹھائے گا کہا گیا کیسے اے رسول الله ؟ فرمایا جب وہ دجال کو پائے گا تو اس پر ایمان لائے گا

یہ روایت دلیل ہوئی کہ دجال یہودی ہو گا اس کو ذہن میں رکھیں ابھی نیچے اس پر بحث آ رہی ہے

وسائل الشيعة (آل البيت) – الحر العاملي – ج 14 – ص 348

 وبإسناده عن الحسين بن سعيد ، عن صفوان وابن فضال ، عن ابن بكير ، عن أبي عبد الله عليه السلام قال : ذكر الدجال فقال : لا يبقى ( 1 ) منهل إلا وطأه إلا مكة والمدينة ، فإن على كل ثقب من أثقابها ( 2 ) ملكا يحفظها من الطاعون والدجال

أبي عبد الله عليه السلام نے فرمایا اور انہوں نے دجال کا ذکر کیا پس فرمایا اس سے کوئی (شہر) نہ بچے گا کہ جو  اس کا مطیع نہ ہو سوائے مکہ مدینہ کے کہ  اس کے ہر گھڑے اور خندق میں فرشتہ ہو گا اور وہاں دجال اور طاعون نہ آ سکے گا

وسائل الشيعة (آل البيت) – الحر العاملي – ج 16 – ص 179

وفي ( صفات الشيعة ) عن محمد بن موسى بن المتوكل ، ( عن محمد بن يحيى ، عن أحمد بن محمد ، ) ( 1 ) عن الحسن بن علي الخزاز قال : سمعت الرضا ( عليه السلام ) يقول : إن ممن ينتحل مودتنا أهل البيت من هو أشد فتنة على شيعتنا من الدجال ، فقلت : بماذا ؟ قال : بموالاة أعدائنا ، ومعاداة أوليائنا إنه إذا كان كذلك اختلط الحق بالباطل ، واشتبه الامر فلم يعرف مؤمن من منافق

الحسن بن علي الخزاز کہتے ہیں انہوں نے امام الرضا علیہ السلام کو سنا انہوں نے کہا جس کے اندر ہماری محبت ہو وہ اس دجال کے فتنہ میں اس پر بہت سخت ہو گا میں نے پوچھا ایسا کیوں؟ فرمایا ہمارے دشمنوں سے دوستی کی وجہ سے اور ہمارے دوستوں سے عداوت رکھنے کی وجہ سے سو جب ایسا ہو تو حق و باطل مل جائے گا اور امر مشتبہ ہو جائے گا لہذا مومن اور منافق پہچان نہ سکیں گے

یہ روایات اہل تشیع  کی کتب کی ہیں – ان میں اہم بات ہے کہ امام مہدی کا ذکر ہی نہیں حالانکہ امام مہدی اور  عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر شیعہ اور سنی ایک ساتھ بیان کرتے ہیں- اہل تشیع نے اس کا حل نکالا کہ صرف امام مہدی کا ذکر کرو- دجال کی روایات وہ مجلس میں بیان نہیں کرتے اور اس میں ایک عام شیعہ کا تصور ہے کہ قرب قیامت میں صرف امام مہدی آئیں گے اور سنی ختم ہو جائیں گے صرف شیعہ رہ جائیں گے لیکن یہاں روایات میں ہے کہ اہل بیت کے دشمن دجال کی تمیز کھو دیں گے اور ایسا کیسے ممکن ہے کہ امام مہدی کے بعد انے والے دجال کے وقت تک اہل بیت کے دشمن ہوں- یہ تضاد ہے جو امام مہدی اور خروج دجال کے حوالے سے ان کی کتب میں پایا جاتا ہے

عصر حاضر کے شیعہ محققین اور شارحین نے ایک نئی شخصیت سفیانی کو دجال سے ملا دیا ہے – سفیانی ایک شخص بتایا جاتا ہے جو ابو سفیان رضی الله عنہ کی نسل سے ہے اس کا نام عثمان بن عنبسہ  لیا جاتا ہے اور اس  کے لئے کہا جا رہا ہے کہ وہ روم سے آئے گا اس کا چہرہ سرخ اور انکھیں نیلی ہوں گی اور گلے میں صلیب ہو گی (صدوق، کمال الدین و تمام النعمة، ص651۔  نعمانی، الغیبة، ترجمه: جواد غفاری، ص435۔  طوسی، الغیبة، بصیرتی، قم، ص278۔   مجلسی، بحارالانوار، ج52، ص205) –

سفیانی کے لئے شیعہ کتب میں  کچھ روایات میں ہے

وخروج السفياني براية خضراء وصليب من ذهب» (مختصر بصائر الدرجات للحسن بن سليمان الحلي: ص199

سفیانی کا خروج سبز جھنڈے اور سونے کی صلیب کے ساتھ ہے

وعن بشير بن غالب قال: يقبل السفياني من بلاد الروم منتصرا في عنقه صليب وهو صاحب القوم) (كتاب الغيبة للشيخ الطوسي: ص463

سفیانی بلاد روم سے مدد لے گا گلے میں صلیب ہو گی اور اس قوم میں سے ہو گا

السفياني… لم يعبد الله قط ولم ير مكة ولا المدينة قط» (بحار الأنوار للعلامة المجلسي: ج52، ص254

سفیانی الله کی عبادت نہ کبھی کرے گا نہ مکہ دیکھے گا نہ مدینہ

یعنی سفیانی ایک نصرانی ہو گا  اللہ کی عبادت نہ کرتا ہو گا اور روم کی مدد لے گا اور انہی میں سے ہو  گا

یہ روایات الکافی کی نہیں ہیں – الکافی میں دجال سے متعلق  اس قسم کی کوئی روایت نہیں

اس کے برعکس اہل سنت کے مطابق دجال ایک گھنگھریالے بال والا ہو گا اس کی شکل عربوں میں حجازیوں جیسی ہو گی اور ایک انکھ پھولنے والے انگور جیسی ابلی پڑ رہی ہو گی- گویا دجال اہل سنت بد صورت ہو گا اور دجال اہل تشیع کے ہاں نیلی آنکھوں والا رومیوں جیسا ( اغلبا حسین) ہو گا

اب ابو سفیان رضی الله عنہ کی نسل کے لوگ کب روم منتقل ہوئے الله کو پتا ہے اور وہاں سے ایک خالص عربی نام  عثمان بن عنبسہ  کے ساتھ اس کا خروج بھی عجیب بات ہے – دوم سفیانی کے گلے میں صلیب بھی ہے یعنی اگر سفیانی دجال ہے تو اہل تشیع کا دجال اب عیسائیوں میں سے ہے اور اہل سنت اس کو یہودی بتاتے ہیں یہ بھی اختلاف اہم ہے

سفیانی کی حقیقت – کتب شیعہ میں

تاریخ کے مطابق  السفیانی   سے مراد  يزيد بن عبد الله بن يزيد بن معاوية بن أبي سفيان  جو   معاویہ رضی الله عنہ کے پڑ پوتے ہیں  انہوں نے دمشق  میں بنو امیہ کے آخری دور میں  خروج کیا-

الكافي – از الكليني – ج ٨ – ص ٢٦٤ – ٢٦٥

 عدة من أصحابنا ، عن أحمد بن محمد ، عن عثمان بن عيسى ، عن بكر بن محمد ، عن سدير قال : قال أبو عبد الله ( عليه السلام ) : يا سدير ألزم بيتك وكن حلسا من  أحلاسه  واسكن ما سكن الليل والنهار فإذا بلغك أن السفياني قد خرج فارحل إلينا ولو على رجلك

أبي عبد الله ( عليه السلام )  نے کہا اے سدير اپنے گھر میں رہو .. پس جب السفیانی کی خبر آئے تو ہمارے طرف سفر کرو چاہے چل کر آنا پڑے

تبصرہ السفیانی سے مراد ایک اموی ہیں جو ابو سفیان رضی الله تعالی عنہ کے پڑ پڑ پوتے ہیں. تاریخ الیعقوبی از الیعقوبی المتوفی ٢٨٤ ھ کے مطابق

وخرج أبو محمد السفياني، وهو يزيد بن عبد الله بن يزيد بن معاوية بن أبي سفيان، بما لديه……… ، وكان ذلك سنة ١٣٣ ھ

اور ابو محمد السفیانی کا خروج ہوا اور وہ ہیں اور یہ سن ١٣٣ ھ میں ہوا-   امام جعفر المتوفی ١٤٨ ھ کے دور میں السفیانی کا خروج ہو چکا تھا

السفیانی کا خروج ہو گیا

الكافي – از الكليني – ج ٨ – ص ٢٠٩

 علي بن إبراهيم ، عن أبيه ، عن ابن محبوب عن إسحاق بن عمار ، عن أبي عبد الله ( عليه السلام ) قال : لا ترون ما تحبون حتى يختلف بنو فلان  فيما بينهم فإذا اختلفوا طمع الناس وتفرقت الكلمة وخرج السفياني

أبي عبد الله ( عليه السلام )  نے کہا کیا تم دیکھتے نہیں جو تم کو پسند ہے کہ بنو فلاں میں جو ان کے پاس ہے اس پر اختلاف ہوا ، پس جب اختلاف ہوا لوگوں کا لالچ بڑھا اور وہ بکھر گئے اور السفیانی کا خروج ہوا

تبصرہ    بنو فلاں سے مراد بنو امیہ ہیں جن میں آپس میں خلافت پر  پھوٹ پڑھ گئی تھی. امام جعفر کے مطابق السفیانی کا خروج ہو گیا ہے یہ دور ١٢٦ سے ١٣٣ ھ کا  ہے

السفیانی  کو قتل کر دیا جائے گا

الكافي – از الكليني – ج ٨ – ص ٣٣١

حميد بن زياد ، عن أبي العباس عبيد الله بن أحمد الدهقان ، عن علي ابن الحسن الطاطري ، عن محمد بن زياد بياع السابري ، عن أبان ، عن صباح بن سيابة عن المعلى بن خنيس قال : ذهبت بكتاب عبد السلام بن نعيم وسدير وكتب غير واحد إلى أبي عبد الله ( عليه السلام ) حين ظهرت المسودة قبل أن يظهر ولد العباس بأنا قد قدرنا أن يؤول هذا الامر إليك فما ترى ؟ قال : فضرب بالكتب الأرض ثم قال : أف أف ما أنا لهؤلاء بإمام أما يعلمون أنه إنما يقتل السفياني

جب (بنو عبّاس سے پہلے) المسودہ  ظاہر ہوئے  (ابو عبدللہ سے بذریعہ خط ان کی رائے پوچھی گئی تو) انہوں نے خط زمین پر پھینک دیا پھر أبي عبد الله ( عليه السلام )  نے کہا اف اف کیا میں ان لوگوں کے نزدیک امام نہیں،   کیا ان کو پتا نہیں کہ  یہی تو السفیانی کو قتل کریں گے

تبصرہ      حاشیہ میں المسودہ سے مراد أصحاب أبي مسلم المروزي لکھا ہے جو درست ہے ابو مسلم خراسانی کالے کپڑے اور کالے پگڑیاں باندھ کر نکلے تھے .امام جعفر کا گمان درست ثابت ہوا السفیانی کو قتل کیا گیا

المھدی کا اعلان

بحارالانوارج۲۵ص۹۱۱ص٨٤   میں روایت ہے  ،    ابوبصیر ابوعبداللہ الصادق علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہیں

 راوی: میں نے عرض کیا میں آپ علیہ السلام پر قربان جاﺅں،قائم علیہ السلام کا خروج کب ہوگا؟

 امام جعفر صادق:اے ابامحمد!ہم اہل بیت علیہ السلام اس وقت کو متعین نہیں کرتے،آپ نے فرمایا کہ وقت مقرر کر دینے والے جھوٹے ہیں، لیکن اے ابومحمد قائم کے خروج سے پہلے پانچ کام ہوں گے

 ماہ رمضان میں آسمان سے نداءآئے گی  سفیانی کاخروج ہوگا  ، خراسانی کا خروج ہوگا،   نفس ذکیہ کاقتل ہوگا  بیداءمیں زمین دھنس جائے گی۔

راوی: میں نے پوچھا کس طرح نداءآئے گی؟

 امام علیہ السلام:حضرت قائم علیہ السلام کا نام اور آپ کے باپ کے نام کےساتھ لیا جائے گا اور اسی طرح اعلان ہوگا   فلاں کا فلاں بیٹا قائم آل محمد علیہم السلام ہیں، ان کی بات کو سنو اور ان کی اطاعت کرو، اللہ کی کوئی بھی ایسی مخلوق نہیں بچے گی کہ جس میں روح ہے مگر یہ کہ وہ اس آواز کو سنے گی سویا ہوا اس آواز سے جاگ جائے گا اور اپنے گھر کے صحن میں دوڑ کر آ جائے گا اور پردہ والی عورت اپنے پردے سے باہر نکل آئے گی، قائم علیہ السلامیہ آواز سن کر خروج فرمائیں گے یہ آوازجبرئیل علیہ السلام کی ہوگی

تبصرہ ابو مسلم خراسانی کا خروج ہو گیا اور محمّد بن عبدللہ المھدی نفس الزکیہ کا بھی خروج ہو چکا. ان روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ رویوں کا گمان تھا کہ   حسین  کی نسل سے  المہدی ظاہر ہونے والا ہے-  لیکن دو نشانیاں  رمضان  میں آسمان سے نداء  اور  بیدا میں زمین کا دھنسنا نہیں ہوا-

 یہ تمام نشانیاں    ایک ساتھ ظاہر ہونی تھیں  لیکن نہیں ہوئیں

سفیانی کو اہل تشیع کا اب دجال کہنا سراسر غلط ہے اور اوپر والی روایت کو جو دجال سے متعلق تھیں ان میں زبر دستی اپنی رائے کو شامل کرنے کے مترادف ہے

عثمان بن عنبسة بن أبي سفيان بن حرب بن أمية

عثمان بن عنبسة بن أبي سفيان بن حرب بن أمية نام کے ابو سفیان رضی الله عنہ کے ایک پوتے تھے جو اپنے زمانے میں ایک معتدل شخصیت تھے اور قبول عامہ ایسی تھی کہ لوگ ثآلث مقرر کرتے تھے

ابن حزم نے کتاب  جمهرة أنساب العرب  میں لکھا ہے

أراد أهل الأردن القيام به باسم الخلافة، إذ قام مروان: أمه زينب بنت الزبير بن العوام

اہل اردن نے ارادہ کیا تھا  کہ مروان کے قیام (خلافت) پر ان کے نام پر خلافت قائم کرنے کا – ان کی والدہ کا نام زينب بنت الزبير بن العوام ہے

کتاب نسب قريش از أبو عبد الله الزبيري (المتوفى: 236هـ) کے مطابق کے والد عنبسة بن عمرو بن عثمان بن عفان ہیں

اغلبا شیعان کو خطرہ تھا کہ کہیں اہل اردن (جن میں ممکن ہے عیسائی ہوں ) کہیں اس شخص کے لئے خلافت  قائم نہ کر دیں – یہ ابو سفیان رضی الله عنہ کی اولاد میں سے بھی ہیں لہذا اس بنیاد پر عثمان بن عنبسة بن أبي سفيان بن حرب بن أمية کے خلاف روایات بنا دی گئیں – عثمان بن عنبسة بن أبي سفيان بن حرب بن أمية تو انتقال کر گئے لیکن روایات شیعوں کے پاس رہ گئیں

عبد الله بن زبیر رضی الله عنہ کی خلافت مکہ سے بصرہ تک تھی اور عبد الملک کی شام میں دونوں میں رابطہ کے فرائض عثمان بن عنبسة  انجام دیتے تھے کیونکہ عثمان بن عنبسة دونوں کے رشتہ دار تھے عبد الله بن زبیر رضی الله عنہ عثمان بن عنبسة کے ماموں تھے

یعنی  اہل تشیع جس السفیانی کا انتظار کر رہے ہیں وہ گزر چکا  ہے چاہے يزيد بن عبد الله بن يزيد بن معاوية بن أبي سفيان ہوں یا عثمان بن عنبسة بن أبي سفيان بن حرب بن أمية ہوں

الله ہم سب کو ہدایت دے

غور طلب

الله تعالی نے کتاب الله میں واضح کر دیا ہے کہ اس کے نزدیک کوئی قوم منتخب کردہ نہیں – امت الوسطی ہے جس پر ذمہ داری ہے کہ وہ الوسطی کا کردار ادا کریں کہ نہ یہود کی طرح رحمت الہی کو مقید کریں نہ نصاری کی طرح اس کو لام و عام  بلکہ افراط و تعصب  سے بچیں اور دین میں غلو نہ کریں

صحیح روایات میں ہے کہ  رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

اے اللہ! ہمارے شام میں برکت عطا فرما۔ اے اللہ ! ہمارے یمن میں برکت عطا فرما۔ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ! ہمارے نجد میں بھی۔ آپ نے فرمایا ہمارے شام میں برکت عطا فرما اور ہمارے یمن میں بھی۔ لوگوں نے پھر کہا ہمارے نجد میں بھی۔ راوی کا کہنا ہے کہ میرا خیال ہے کہ تیسری بار رسول اللہ نے فرمایا کہ وہاں پر زلزلے آئیں گے اور فتنے ہوں گے اور وہاں شیطان کا سینگ ظاہر ہوگا۔

ایسی روایات سے بعض لوگ یہ ثابت کرتے ہیں کہ مسلمان اگر رہ گئے ہیں تو وہ صرف شام اور یمن میں ہیں حالانکہ اس میں برکت کا ذکر ہے اور ایمان کا ذکر نہیں ہے – ایمان کا تعلق تو دل سے ہے اور اس کا کسی علاقے سے تعلق نہیں ہے – شام کی فضیلت کا ذکر صحیح احادیث میں ہے جن کو قرب قیامت کے حوالے سے پیش کیا جاتا ہے کہ اس میں عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہو گا لیکن اس کے علاوہ بعض دوسرے ، تیسرے اور چوتھے درجے کی کتب میں ایسی ضعیف روایات بھی ہیں جن میں ملک شام کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا ہے  اور بہت سے شام پسند اور اس میں سکونت اختیار کرنے والے علماء نے فضائل الشام پر کتب میں ان ضعیف روایات کو درجہ قبولیت دے دیا ہے – ایسی  کتب سے نوجوانوں کا ایک طبقہ متاثر ہوا جو علم حدیث اور علل حدیث کی پیچدگیوں سے نا واقف تھا اور پھر جو ہوا اور ہو رہا ہے وہ سب کےسامنے ہے

واضح رہے کہ دور نبوی میں شام سے مراد وہ علاقہ تھا جو آج ملک شام اردن اسرائیل پر مشتمل ہے

شام کی یہ اہمیت کہ اس پر کوئی غالب نہ ہو گا اور یہاں پر وقت فرشتے سایہ رکھتے ہیں اور یہاں ابدال رہتے ہیں قابل غور ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے جبکہ اس کو صلیبیوں نے قبضے میں کیا  –  پہلی صلیبی جنگ   ١٠٩٦ ع  میں شروع ہوئی اور نویں ١٢٧٢ ع میں ہوئی  یعنی ڈیڑھ سو سال سے اوپر شام کا با برکت علاقہ مسلمانوں کے پاس نہ تھا یہاں تک کہ شام میں ارض مقدس میں قبلہ اول بھی آج نہیں ہے

اس تاریخی تناظر میں اب یہاں   علماء کی صحیح قرار دی گئی روایات پر   نظر ڈالتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کیا یہ واقعی حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم ہو سکتی ہیں

مدینہ سے ایمان کا شام منتقل ہونا

حدثنا أحمدُ بن محمَّد بن يحيى بن حَمْزَة الدمشقي، ثنا يحيى بن صالح الوُحَاظِي، ثنا سعيدُ بن عبد العزيز، عن يونُس بن مَيْسَرة بن حَلْبَس، عن عبد الله بن عَمرو بن العاص، قال: قال رسولُ الله صلى الله عليه وسلم: «رَأَيْتُ عَمُودَ الكِتَابِ انْتُزِعَ مِنْ تَحْتِ وِسَادَتِي، فَأَتْبَعْتُهُ بَصَرِي، فَإِذَا هُو نُورٌ سَاطِعٌ إِلَى الشَّامِ

عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ  نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: “میں نے دیکھا کہ میرے تکیے کے نیچے سے کتاب (الله) کو مجھ سے واپس لیا جا رہا ہے۔ میری نظروں نے اس کا تعاقب کیا، ادھرشام  سے بہت نور پھوٹ رہا تھا۔

اس حدیث کو ابو نعیم نے الحلیۃ میں، ابن عساکر نے، الطبرانی نے الکبیر میں مسند الشاميين میں اور الاوسط میں روایت کیا ہے  الحاکم نے صحیح قرار دیا ہے

اس کی سند میں سعيدُ بن عبد العزيز ہیں جو مدلس تھے اور آخری عمر میں مختلط بھی ہوئے

افسوس روایت کے راوی يونس بن ميسرة بن حلبس  خود ایک فتنہ میں ہلاک ہوئے کتاب   الطبقات الكبرى   از  ابن سعدکے مطابق

لما دخل المسودة في أول سلطان بني هاشم دمشق دخلوا مسجدها فقتلوا من وجدوا فيه فقتل يومئذ يونس بن ميسرة بن حلبس

جب کالیے  (بنو ہاشم جنہوں نے کالے کپڑے پہن کر بنو امیہ کے خلاف خروج کیا) جو بنو ہاشم کے لیڈر تھے دمشق میں مسجد میں داخل ہوئے تو انہوں نے اس میں تمام (مسلمانوں) کو قتل کر دیا  پس اس روز  يونس بن ميسرة بن حلبس قتل ہوئے

معجم طبرانی کی اسی متن کی  روایت أَبِي أُمَامَةَ سے بھی  ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ الْبَاقِي الْمِصِّيصِيُّ، ثنا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ الْحِمْصِيُّ، ثنا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ عُفَيْرِ بْنِ مَعْدَانَ، أَنَّهُ سَمِعَ سُلَيْمَ بْنَ عَامِرٍ، يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمْ قَالَ: «رَأَيْتُ عَمُودَ الْكِتَابِ انْتُزِعَ مِنْ تَحْتِ وِسَادَتِي، فَأَتْبَعْتُهُ بَصَرِي، فَإِذَا هُوَ نُورٌ سَاطِعٌ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ قَدْ هَوَى بِهِ، فَعُمِدَ بِهِ إِلَى الشَّامِ، وَإِنِّي أَوَّلْتُ أَنَّ الْفِتَنَ إِذَا وَقَعَتْ أَنَّ الْإِيمَانَ بِالشَّامِ

 اسکی سند میں الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ جو مدلس ہیں اور عن سے روایت کرتے ہیں سند میں عفير بن معدان الحضرمى  ہے جو ضعیف ہے منکر الحدیث  ہے

ایک روایت مسند احمد میں ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قثنا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَاقِدٍ قَالَ: حَدَّثَنِي بُسْرُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ، إِذْ رَأَيْتُ عَمُودَ الْكِتَابِ احْتُمِلَ مِنْ تَحْتِ رَأْسِي، فَظَنَنْتُ أَنَّهُ مَذْهُوبٌ بِهِ، فَأَتْبَعْتُهُ بَصَرِي فَعُمِدَ بِهِ إِلَى الشَّامِ، أَلَا وَإِنَّ الْإِيمَانَ حِينَ تَقَعُ الْفِتَنُ بِالشَّامِ

أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں سویا ہوا تھا کہ کتاب میرے سر کے نیچے سے سیدھی اوپر گئی پھر میں نے گمان کیا کہ یہ جا رہی ہے پس میری نگاہ نے اس کا تعاقب کیا تو دیکھا یہ شام کی طرف جا رہی ہے خبر دار ایمان شام میں ہے جب فتنہ ہو

الغرض یہ روایت شاذ و منکر ہے- یہ روایت ایمان  کا مدینہ سے شام منتقل ہونا بتا رہی ہے  جبکہ صحیحین کے مطابق تو ایمان مدینہ میں سمٹے گا اور دجال کی آمد پر مدینہ تین بار لرز جانے گا اور مدینہ منافقین سے خالی ہو گا

 شام  پر فرشتوں کے پر

امام احمد اور امام ترمذی اپنی کتب میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی الله

علیہ وسلم نے فرمایا:

حَدَّثَنَا حَسَنٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ، عَنِ ابْنِ شِمَاسَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا حِينَ قَالَ: “طُوبَى لِلشَّامِ، طُوبَى لِلشَّامِ ” قُلْتُ: مَا بَالُ الشَّامِ؟ قَالَ: “الْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَجْنِحَتِهَا عَلَى الشَّامِ

“شام کتنی مبارک جگہ ہے!”، صحابہ رضوان اللہ اجمعین نے پوچھا: “اے اللہ کے رسول، ایسا کیوں ہے؟”، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے جواب دیا: “میں اللہ کے فرشتوں کو دیکھتا ہوں کہ انھوں نے شام کے اوپر اپنے پَر پھیلائے ہوئے ہیں۔”

اسکی سند میں ابْنُ لَهِيعَةَ   ہے  جو ضعیف ہے دوسری میں يحيى بن أيوب الغافقي  ہے وہ بھی ضعیف ہے

شام  میں ہر وقت جہاد

حَدَّثَنَا أَبُو طَالِبٍ عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ الْحِمْصِيُّ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبَّادٍ، عَنْ عَامِرٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا تَزَالُ عِصَابَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى أَبْوَابِ دِمَشْقَ، وَمَا حَوْلَهُ وَعَلَى أَبْوَابِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ وَمَا حَوْلَهُ، لَا يَضُرُّهُمْ خُذْلَانُ مَنْ خَذَلَهُمْ ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ إِلَى أَنْ تَقُومَ السَّاعَةُ

 مسند ابی یعلی ج۱۳ ص۱۸۱ رقم:۶۲۸۶۔ المعجم الکبیر للطبرانی ج ۱۹ص۹۸۔ مجمع الزوائد ج۱۰ص۶۰واسنادہ صحیح

  ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث مروی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

میری امت کا ایک گروہ لڑتا رہے گا دمشق کے دروازوں اور اس کے اطراف اور بیت المقدس کے دروازوں اور اس کے اطراف، ان کی مخالفت کرنے والا ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکے گا اور وہ حق پر قائم رہیں گے یہاں تک کہ قیامت آجائے۔

لوگوں نے اس روایت کو صحیح قرار دے دیا ہے جبکہ  میزان الآعتدل میں الذھبی سند کے راوی کے لئے کہتے ہیں الوليد بن عباد، شيخ.  حدث عنه إسماعيل بن عياش مجهول  ہے

مسند احمد، مسند ابو داود الطیالسی، مسند البزار  کی روایت ہے

ابو عبداللہ شامی  کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ  امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو دوران خطبہ یہ کہتے ہوئے سناکہ مجھے انصاری صحابی  زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بتایا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت میں ایک گروہ ہمیشہ حق پر غالب رہے گا اور مجھے امید ہے کہ اے ا ہل شام! یہ تم ہی ہو۔ (مسند احمد)

  اس کی سند میں ابو عبد الله الشامی کون ہے محققین پر واضح نہیں ہو سکا الشيخ مصطفى العدوي ، المنتخب من مسند عبد بن حميد پر اس روایت کی تعلیق پر لکھتے

أبو عبد الله لم نستطع تمييزه  ابو عبد الله ہم اس کی تمیز نہ کر سکے

مسند البزار میں امام البزار کہتے ہیں وَأبُو عَبد اللَّهِ الشَّامِيُّ فَلَمْ أَسْمَعْ أَحَدًا سَمَّاهُ، ولاَ نَعْلَمُ رَوَى عَنْهُ إلاَّ شُعْبَة

اور ابو عبد الله الشامی پس ایسا نام کسی کو نہ دیا گیا اور ہم  نہیں جانتے کہ شعبہ کے علاوہ اس سے کسی نے روایت کیا ہو

 شعیب  الآرنوط مسند احمد کی تعلیق میں  کہتے ہیں وهذا إسناد ضعيف لجهالة أبي عبد الله الشامي اور یہ روایت ابی عبد الله الشامی کی مجہولیت کی وجہ سے ضعیف ہے

لہذا روایت ضعیف ہے

اہل شام ……آخری دور میں فتنوں کی زمین

تاریخ الکبیر از امام بخاری کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الله بن يوسف أنا يحيى ابن حَمْزَةَ حَدَّثَنِي نَصْرُ بْنُ عَلْقَمَةَ أَنَّ عُمَيْرَ بْنَ الأَسْوَدِ وَكَثِيرَ بْنَ مُرَّةَ الْحَضْرَمِيَّ قَالا: إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ وَابْنَ السِّمْطِ قَالا: لا يَزَالُ الْمُسْلِمونَ فِي الأَرْضِ حَتَّي تَقُومَ السَّاعَةُ وَذَلِكَ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لا تَزَالُ

عِصَابَةٌ قَوَّامَةً، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هُمْ أَهْلُ الشَّامِ

ابو ہریرہ اور ابن السمط رضی الله عنہما نے کہا کہ مسلمان زمین پر نہیں جائیں گے یہاں تک کہ قیامت قائم ہی اور یہ اس وجہ سے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے ایک گروہ کو زوال نہ ہو گا جو قائم رہے گا اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا وہ اہل شام ہیں

کتاب  المعرفة والتاريخ  از  يعقوب بن سفيان بن جوان الفارسي الفسوي، أبو يوسف (المتوفى: 277هـ)  کے مطابق

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بن يوسف قال: حدثنا يحي بْنُ حَمْزَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو عَلْقَمَةَ نَصْرُ بْنُ عَلْقَمَةَ الْحَضْرَمِيُّ مِنْ أَهْلِ حِمْصَ أَنَّ عمير بن الْأَسْوَدِ وَكَثِيرَ بْنَ مُرَّةَ الْحَضْرَمِيَّ قَالا: إِنَّ أبا هُرَيْرَةَ وَابْنَ السِّمْطِ  كَانَا يَقُولَان

لا تزالُ من أمَّتي عِصابةٌ قوَّامةٌ على أمْرِ الله عزّ وجلّ، لا يضرُّها من خالفَها؛ تقاتلُ أعداءها، كلما ذهبَ حربٌ نشِبَ حربُ قومٍ آًخرين، يزيغُ اللهُ قلوب قوم ليرزقَهم منه، حتى تأتيهم الساعةُ، كأنّها قطعُ الليلِ المظلمِ، فيفزعونَ لذلك؛ حتّى يلبسُوا له أبدانَ الدُّروع، وقال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: همْ أهلُ الشّامِ، ونكَتَ رسولُ اللهِ – صلى الله عليه وسلم – بإصبعِه؛ يومئُ بها إلى الشّامِ حتّى أوجَعها

  ابو ھریرۃ  اور ابن السمط رضی اللہ عنہما  سے اسی سند سے طویل  حدیث مروی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

میری امت کا ایک گروہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم سے قتال کرتا رہے گا، ان کو ان کے مخالف نقصان نہ دےسکیں گے  اور وہ اپنے دشمنوں سے لڑتے رہیں گے جب بھی جنگ جائے گی ایک اور لڑنے والی جنگ ان سے الجھ جائے گی  اللہ ایک قوم کے دل ٹیڑھے کر دے گا کہ ان کو رزق دے  (کر آزمائش میں ڈالے گا) یہاں تک کہ قیامت  آئے جیسے کہ کالی رات –  پس وہ گھبراہٹ کا شکار ہوں گے اس پر یہاں تک کہ ان کے بدن  ڈھال بن جائیں گے  اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے کہا: ’ وہ اہل شام ہونگے‘ پھر نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنی   انگلی سے شام کی طرف اشارہ کیا، یہاں تک کہ انھیں افسوس ہوا ۔

البانی سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ میں لکھتے ہیں

قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات

میں کہتا ہوں اس کی اسناد صحیح ہیں اس کے رجال ثقہ ہیں

  لوگوں نے اس روایت سے اہل شام کی تعریف لی ہے حالانکہ اس میں ان کی برائی کی جا رہی ہے – شام میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ دور نبوی سے آج تک جنگ جدل کا بازار گرم رہا ہو جیسا کہ اس روایت میں ہے یہ ایک عظیم تاریخی غلطی ہے  ایسی روایت منکر  ہے بلکہ بنو امیہ کا ٩٠ سال کے دور میں یہ عموما پر امن رہا ہے

روئے زمین کے بہترین جنگجو

سنن ابو داود، مسند احمد ، مستدرک الحاکم کی روایت ہے

حدَّثنا حيوةُ بن شُريح الحضرمي، حدَّثنا بقيةُ، حدثني بَحيرٌ، عن خالدٍ – يعني ابنَ مَعدانَ – عن أبي قُتَيلةَ عن ابن حَوالةَ، قال: قال رسول الله -صلَّى الله عليه وسلم-: “سيصير الأمرُ إلى أن تكونوا جنُوداً مُجنَّدةً، جندٌ بالشام، وجندٌ باليمن، وجندٌ بالعراق” قال ابن حَوالة: خِرْ لي يا رسول الله إن أدركتُ ذلك، فقال: “عليك بالشامِ فإنها خِيَرةُ اللهِ من أرضِه، يجْتبي إليها خِيَرتَه من عبادِه، فأما إن أبيتُم فعليكم بيَمَنِكم، واسقُوا من غُدُرِكم، فإن الله تَوكّل لي بالشامِ وأهلِه

عبداللہ بن حَوالةَ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: “تم لوگ عنقریب کچھ فوجی دستے ترتیب دو گے؛ شام کی فوج، عراق کی فوج، اور یمن کی فوج۔”  تو عبداللہ ؓ نے کہا: “اے اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم میرے لئے ایک دستہ چن لیں!”  تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: “شام جاؤ، اور جو بھی ایسا نہیں کر سکے وہ یمن جائے، جیسے کہ اللّٰہ سبحانہ و تعالیٰ نے میرے لئے شام اور اس کے لوگوں کو پسند کیا ہے۔”

اسکی سند میں أبي قُتَيلةَ  ہے  جو مجھول ہے بعض محدثین نے اس سے صحابی  مَرثَد بْن وداعَة  رضی الله عنہ مراد لئے ہیں – لیکن کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل  از  العلائي (المتوفى: 761هـ)  کے مطابق قال أبو حاتم وغيره لا صحبة له  ابو حاتم اور دوسرے محدثین کہتے ہیں صحابی نہیں ہے – أبي قُتَيلةَ کے حالات  پر جرح و تعدیل کی کتب خاموش ہیں لہذا یہ مجھول ہے اور روایت ضعیف ہے

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ، مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، وَهَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ، حَدَّثَنَا مَكْحُولٌ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ حَوَالَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” سَيَكُونُ جُنْدٌ بِالشَّامِ، وَجُنْدٌ بِالْيَمَنِ “، فَقَالَ رَجُلٌ: فَخِرْ لِي يَا رَسُولَ اللهِ إِذَا كَانَ ذَلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” عَلَيْكَ بِالشَّامِ، عَلَيْكَ بِالشَّامِ   – ثَلَاثًا، عَلَيْكَ بِالشَّامِ   – فَمَنْ أَبَى فَلْيَلْحَقْ بِيَمَنِهِ، وَلْيَسْقِ مِنْ غُدُرِهِ، فَإِنَّ اللهَ قَدْ تَكَفَّلَ لِي بِالشَّامِ وَأَهْلِهِ “، قَالَ أَبُو النَّضْرِ مَرَّتَيْنِ: فَلْيَلْحَقْ بِيَمَنِهِ

عَبْدِ اللهِ بْنِ حَوَالَةَ  رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے لئے شام   میں  لشکر ہوں گے اور یمن میں لشکر ہوں گے ہے پس ایک آدمی نے کہا پس مجھے چن لیں کہ میں بھی وہاں ہوں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا  تمہارے لئے وہاں شام میں شام میں تین بار کہا

اس کی سند میں ہے  محمد بن راشد   المكحولي ہے جس کے لئے کہا جاتا ہے  کہ اس نے مکحول سے بہت ارسال کیا ہے ، وهو لم يسمع هذا الحديث من ابن حوالة اور یہ حدیث ابن حوالہ سے نہیں سنی.

لہذا یہ ضعیف روایت ہے

صحیح ابن حبان اور طبرانی الکبیر  میں اس کی سند میں سَعِيدَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ ہے جو مختلط اور مدلس تھے  دوم عبد الله بن العباس بن الوليد بن مزيد العذري البيروتي ہیں جن کے لئے  أبو الطيب نايف بن صلاح بن علي المنصوري  کتاب إرشاد القاصي والداني إلى تراجم شيوخ الطبراني میں  کہتے ہیں یہ مجھول ہے

شام و یمن کا محاذ

كتاب حلية الأولياء وطبقات الأصفياء    أز أبو نعيم  الأصبهاني (المتوفى: 430هـ)   كي روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ حَمْدَانَ، ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ، ثَنَا أَبُو عُمَيْرٍ النَّحَّاسُ، ثَنَا ضَمْرَةُ، عَنِ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللهِ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” إِنَّ اللهَ اسْتَقْبَلَ بِيَ الشَّامَ وَوَلَّى ظَهْرِي الْيَمَنَ، ثُمَّ قَالَ لِي: يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي قَدْ جَعَلْتُ لَكَ مَا تُجَاهَكَ غَنِيمَةً وَرِزْقًا، وَمَا خَلْفَ ظَهْرِكَ مَدَدًا وَلَا يَزَالُ اللهُ يَزِيدُ – أَوْ قَالَ -: يُعِزُّ الْإِسْلَامَ وَأَهْلَهُ وَيُنْقِصُ الشِّرْكَ وَأَهْلَهُ حَتَّى يَسِيرَ الرَّاكِبُ بَيْنَ كَذَا – يَعْنِي الْبَحْرَيْنِ – لَا يَخْشَى إِلَّا جَوْرًا، وَلَيَبْلُغَنَّ  هَذَا الْأَمْرَ مَبْلَغَ اللَّيْلِ ” غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ الشَّيْبَانِيِّ، تَفَرَّدَ بِهِ عَنْهُ ضَمْرَةُ بْنُ رَبِيعَةَ

ابو امامۃ الباھلی رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے کہا: اللہ نے میرا رخ شام کی طرف کیا ہے اور میری پیٹھ یمن کی طرف اور مجھے کہا ہے: اے محمد صلی الله علیہ وسلم! میں نے تمہارے سامنے غنیمتوں اور رزق کو رکھا ہے اور تمھارے پیچھے مدد رکھی ہے۔ … یہ حدیث غریب ہے …..اس میں ضَمْرَةُ بْنُ رَبِيعَةَ کا تفرد ہے

 راوی  ضَمْرَةُ بْنُ رَبِيعَةَ  کو صالح الحدیث کہا جاتا ہے الذھبی ، میزان الآعتدل میں کہتے ہیں مشهور ما فيه مغمز مشھور ہے ان میں غلطیاں  ہیں

بہترین زمین اور بہترین بندے

البانی نے صحیحہ میں ایک روایت لکھی ہے

وعن العرباض بن سارية رضي الله عنه عن النبيِّ – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -:  أنَّه قامَ يوماً في الناسِ فقال:  يا أيُّها الناسُ! توشِكونَ أنْ تكونوا أجْناداً مجنَّدَةً، جُنْدٌ بالشامِ، وجُنْدٌ بالعراقِ، وجندٌ باليَمنِ”.  فقال ابنُ حَوالةَ: يا رسول الله! إنْ أدْرَكني ذلك الزمانُ فاخْتَرْ لي قال: “إنِّي أختارُ لكَ الشامَ، فإنَّه خِيرَة المسْلمِينَ، وصَفْوَةُ الله مِنْ بلادِه، يَجْتَبي إليْها صَفْوَتَهُ مِنْ خَلْقِه. فَمَنْ أبى فَلْيَلْحَقْ بيَمَنِه،  ولَيَسْقِ مِنْ غُدُرِهِ، فإنَّ الله قد تكفَّل لي بالشامِ وأهْلِه”.رواه الطبراني، ورواته ثقات.

 عرباض بن سارية رضي الله عنه روایت کرتے ہیں کہ ایک روز رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور کہا اے لوگوں تم شک کرتے ہو کہ تم پر لشکر آئیں گے اور لشکر ہوں گے عراق میں اور یمن میں پس ابو حوالہ نے کہا اے رسول الله کیا میں یہ زمانہ پاؤں گا پس آپ نے فرمایا میں تیرے لئے شام منتخب کرتا ہوں کیونکہ اس میں مسلمانوں کے لئے خیر ہے اور الله کا پسندیدہ ہے ملکوں میں .. طبرانی کہتے ہیں اس کے راوی ثقہ ہیں

جبکہ اس کی سند میں فضالة بن شريك ہے جس کے لئے أبو حاتم کہتے ہیں لا أعرفه   ،میں اس کو نہیں جانتا

ضَعيفُ التَّرْغِيب وَالتَّرْهِيب  از البانی کی  عبد الله بن حوالہ رضی الله عنہ کی روایت ہے

يا رسول الله! خِر لي بلداً أكون فيه، فلو أعلم أنك تبقى لم أخْتَرْ عن قُرِبكَ شيئاً. فقال: “عليك بالشام”  فلما رأى كراهيتي للشام، قال:  “أتدري ما يقول الله في الشام؟ إن الله عز وجل يقول: يا شامُ! أنتِ صفوتي من بلادي، أدخل فيك خيرتي من عبادي،. . .”.

عبداللہ بن حوالۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے کہا: “اے اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم! آپ مجھے بتائیں کہ میں کس علاقے میں رہوں، اگر مجھے پتا ہو کہ آپ صلی الله علیہ وسلم ہمارے ساتھ لمبے عرصے تک رہیں گے، تو میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی رفاقت کے علاوہ کہیں اور رہنے کو ہرگز ترجیح نہیں دوں۔” رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: “شام کی طرف جاؤ، شام کی طرف جاؤ ، شام کی طرف جاؤ۔” پس جب آپ صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا کہ مجھے شام پسند نہیں ہے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے کہا: “کیا تم جانتے ہو کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ (اس کے بارے میں) کیا فرماتا ہے؟” پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے کہا: “شام میری زمینوں میں سے وہ منتخب کردہ زمین ہے جہاں میں اپنے بہترین عابدوں کو داخل کرتا ہوں۔

البانی کتاب  ضَعيفُ التَّرْغِيب وَالتَّرْهِيب میں کہتے ہیں یہ ضعیف ہے اور لکھتے ہیں رواه الطبراني من طريقين، إحداهما جيدة طبرانی نے اس کو دو سندوں سے روایت کیا ہے جس میں  ایک جید ہے

لیکن ان جید سندوں پر اوپر بلاگ میں بحث کی جا چکی ہے کہ وہ بھی ضیف سے خالی نہیں

ابو داود کی روایت ہے

حدثنا أحمد بن صالح حدثنا أسد بن موسى حدثنا معاوية بن صالح حدثني ضمرة أن ابن زغب الإيادي حدثه قال نزل علي عبد الله بن حوالة الأزدي فقال لي بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم لنغنم على أقدامنا فرجعنا فلم نغنم شيئا وعرف الجهد في وجوهنا فقام فينا فقال اللهم لا تكلهم إلي فأضعف عنهم ولا تكلهم إلى أنفسهم فيعجزوا عنها ولا تكلهم إلى الناس فيستأثروا عليهم ثم وضع يده على رأسي أو قال على هامتي ثم قال يا ابن حوالة إذا رأيت الخلافة قد نزلت أرض المقدسة فقد دنت الزلازل والبلابل والأمور العظام والساعة يومئذ أقرب من الناس من يدي هذه من رأسك قال أبو داود عبد الله بن حوالة حمصي.

ابن زغب الإيادي نے بیان کیا کہ ہم عبد اللہ بن حوالہ کے پاس پہنچے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ نے فرمایا … اے ابن حوالہ جب تو دیکھے کہ خلافت ارض مقدس (یعنی شام میں) نازل ہوئی ہے پس وہاں زلزلوں ، بلاوں اور بڑے کاموں اور قیامت کا  لوگوں پر آنا  اس دن اتنا قریب ہو گا جتنا تیرا ہاتھ تیرے سر کے قریب ہے

البانی اس روایت کو صحیح کہتے ہیں – ابن حوالہ کے دور میں قیامت نہیں آئی جبکہ رسول الله سے منسوب اس حدیث میں ہے کہ شام میں جب خلافت آئے گی تو قیامت قریب ہو گی

روایت منکر ہے

المعجم الكبير از طبرانی کی روایت ہے

حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ حَمَّادٍ الرَّمْلِيُّ، ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدِّمَشْقِيُّ، ثنا بِشْرُ بْنُ عَوْنٍ، ثنا بَكَّارُ بْنُ تَمِيمٍ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ لِحُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ: وَهُمَا يَسْتَشِيرَانِهِ فِي الْمَنْزِلِ فَأَوْمَى إِلَى الشَّامِ ثُمَّ سَأَلَاهُ، فَأَوْمَى إِلَى الشَّامِ، ثُمَّ سَأَلَاهُ فَأَوْمَى إِلَى الشَّامِ قَالَ: «عَلَيْكُمْ بِالشَّامِ، فَإِنَّهَا صَفْوَةُ بِلَادِ اللهِ يَسْكُنُهَا خِيرَتُهُ مِنْ خَلْقِهِ، فَمَنْ أَبَى فَلْيَلْحَقْ بِيَمَنِهِ، وَلْيَسْقِ مِنْ غُدُرِهِ، فَإِنَّ اللهَ تَكَفَّلَ لِي بِالشَّامِ وَأَهْلِهِ»

وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو ُحذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ اور َمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ کو کہتے سنا  اور وہ ان دونوں کو بشارت دے رہے تھے …. تمھارے لئے شام ہے ،  وہ اللہ کی زمینوں میں سے بہترین زمین ہے، اور وہ اُدھر اپنے بہترین مخلوق کو لے آتا ہے …

 البانی نے صحیح الجامع میں صحیح قرار دیا ہے

ميزان الاعتدال في نقد الرجال از الذھبی کے مطابق راوی بَكَّارُ بْنُ تَمِيمٍ مجھول ہے

ہجرت کے لئے بہترین جگہ

صَحِيحُ التَّرْغِيب وَالتَّرْهِيب از البانی کی روایت ہے

وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما قال: سمعت رسول الله – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يقول: “ستكونُ هجرةٌ بعدَ هجرةٍ، فخيارُ أهلِ الأرضِ ألزَمُهم مُهاجَر! إبراهيمَ، ويبقى في الأرض أشرارُ أهلِها تلفظُهم أَرَضُوهم، وتَقْذَرُهم نَفْسُ اللهِ، وتحشرهم النارُ مع القردة والخنازير”.

  عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی الله علیہ وسلم فرما رہے تھے:  ایک وقت آئے گا جب ہجرت پر ہجرت ہونگی، اور بہترین لوگ وہ ہونگے جو ابراہیم علیہ السلام کے (شام کی طرف) ہجرت کریں گے اور زمین پر بدترین لوگ وہ ہونگے، جن کو ان کی اپنی زمینیں نکال باہر کریں گیں اور اللہ ان سے بری ہوگا (یعنی اللہ کو انکا ہجرت کرنا پسند نہیں ہوگا اس لئے ان کو یہ توفیق ہی نہیں ملے گی- ابن کثیر)، اور آگ ان کو بندروں اور خنزیروں کے ساتھ جمع کرے گی

البانی اس کو صحیح الغیرہ کہتے ہیں اور الصحیحہ میں ٣٢٠٣ میں اس کو مکمل صحیح کر دیتے ہیں  وہاں بیہقی کی ایک روایت کو دلیل بنا کر لکھتے ہیں

قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات رجال البخاري، فهو صحيح؛ لولا الواسطة  بين الأوزاعي ونافع؛ فإنه لم يسم، مع أن رواية الأوزاعي عن نافع ثابتة في “صحيح البخاري “. وعلى كل حال؛ فهو شاهد صالح، وبه يرتقي الحديث إلى مرتبة الصحة إن شاء الله تعالى.

میں کہتا ہوں اس کی اسناد میں ثقہ رجال ہیں بخاری والے پس یہ صحیح ہے  چاہے اس میں نافع اور الأوزاعي کے بیچ کا واسطہ  (غیر واضح) ہو کہ اس کا نام نہیں لیا گیا پس الأوزاعي کی نافع سے روایت ثابت ہے جیسا صحیح بخاری میں ہے اور ہر حال میں یہ  کی روایت کی شاہد صآلح  ہے جو حدیث کو ترقی دے کر صحت کے مرتبے پر لے جاتی ہے ان شاء الله

بیہقی کی کتاب الأسماء والصفات للبيهقي کی روایت ہے

وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ الْفَضْلِ، أنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ، ثنا يَعْقُوبُ بْنُ  سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ يَزِيدَ وَهِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ الدِّمَشْقِيَّانِ، قَالَا: ثنا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، ثنا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ نَافِعٍ، وَقَالَ أَبُو النَّضْرِ، عَمَّنْ حَدَّثَهُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «سَيُهَاجِرُ أَهْلُ الْأَرْضِ هِجْرَةً بَعْدَ هِجْرَةٍ إِلَى مُهَاجِرِ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ، حَتَّى لَا يَبْقَى إِلَّا شِرَارُ أَهْلِهَا، تَلْفِظُهُمُ الْأَرَضُونَ وَتَقْذَرُهُمْ رُوحُ الرَّحْمَنِ، وَتَحْشُرُهُمُ النَّارُ مَعَ الْقِرَدَةِ وَالْخَنَازِيرُ، تَبِيتُ مَعَهُمْ حَيْثُ بَاتُوا، وَتَقِيلُ مَعَهُمْ حَيْثُ قَالُوا، وَلَهَا مَا يَسْقُطُ مِنْهُمْ» . وَظَاهَرُ هَذَا أَنَّهُ قَصَدَ بِهِ بَيَانَ نَتَنِ رِيحِهِمْ، وَأَنَّ الْأَرْوَاحَ الَّتِي خَلَقَهَا اللَّهُ تَعَالَى تَقْذَرُهُمْ. وَإِضَافَةُ الرُّوحِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى بِمَعْنَى الْمُلْكِ وَالْخَلْقِ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ “

نافع ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا زمین کے لوگ ہجرت پر ہجرت کریں گے جیسا ابراہیم علیہ السلام نے کیا یہاں تک کہ اس پر کوئی  نہ رہے گا سوائے شریروں کے  .اور… جن کا حشر بندروں اور سورروں کے ساتھ ہو گا

علل ابن ابی حاتم کے مطابق نافع اور الأوزاعي کے درمیان راوی ہیں مثلا  عبدِالواحد بْنِ قَيْسٍ  اور محمَّد بْنِ محمَّد  –  صحیح مسلم میں الأوزاعي  اور نافع کے بیچ الزُّهْرِيِّ ہیں البتہ امام بخاری نے الأوزاعي کی نافع سے دو روایات لی ہیں جن میں ایک شاہد ہے اس بنیاد پر مطلقآ نہیں کہا جا سکتا ہے یہ روایت صحیح ہے

روایت کے متن میں  الفاظ وَتَقْذَرُهُمْ رُوحُ الرَّحْمَنِ   انتہائی واہیات و عجیب ہیں جس کی البانی نے تاویل کی ہے لیکن بات واضح نہیں ہوتی

اہل شام زمین میں چابک ہیں

مسند احمد میں خُرَيْمَ بْنَ فَاتِكٍ الْأَسَدِيَّ  رضی الله عنہ کا قول ہے

حَدَّثَنَا هَيْثَمُ بْنُ خَارِجَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَيُّوبَ بْنِ مَيْسَرَةَ بْنِ حَلْبَسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، سَمِعَ خُرَيْمَ بْنَ فَاتِكٍ الْأَسَدِيَّ، يَقُولُ: «أَهْلُ الشَّامِ سَوْطُ اللَّهِ فِي الْأَرْضِ، يَنْتَقِمُ بِهِمْ مِمَّنْ يَشَاءُ، كَيْفَ يَشَاءُ، وَحَرَامٌ عَلَى مُنَافِقِيهِمْ أَنْ يَظْهَرُوا عَلَى مُؤْمِنِيهِمْ، وَلَنْ يَمُوتُوا إِلَّا هَمًّا أَوْ غَيْظًا أَوْ حُزْنًا

 خریم بن فاتک  رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ: اہل شام زمین میں  چابک (کوڑا)  ہیں اللہ ان کے ذریعے جس سے چاہتا ہے انتقام لے لیتا ہے اور ان کے منافقین کے لیے ان کے مومنین پر غالب آنا حرام کردیا گیا ہے وہ جب بھی  مریں گے توغم غصے کی اور پریشانی کی حالت ہی میں مریں گے۔

اس کی سند میں أيوب بن ميسرة بن حلبس  ہے جنہوں نے خُرَيْمَ بْنَ فَاتِكٍ الْأَسَدِيَّ کا قول بیان کیا ہے  ابن حجر لسان المیزان میں کہتے ہیں رأيت له ما ينكر میں دیکھتا ہوں یہ منکر بیان کرتے ہیں – ابن حجر کہتے ہیں

رواية عن خريم بن فاتك، وَغيره ولم يذكر فيه ابن أبي حاتم جرحًا.

ان کی روایت خريم بن فاتك  اور دیگر سے ہے اور ابن ابی حاتم نے ان پر جرح نہ کی

معلوم ہوا یہ مجھول ہے کیونکہ أيوب بن ميسرة بن حلبس کی توثیق بھی کسی نے نہیں کی

المروزي نے ان کا ذکر امام احمد سے کیا اور انہوں نے اشارہ دیا کہ : كأنه (يعني أبا عبد الله) لم یعرف هؤلاء  گویا امام احمد ان کو نہیں جانتے

 

اہل شام کا فساد

ابو داود میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ قُرَّةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا فَسَدَ أَهْلُ الشَّامِ فَلَا خَيْرَ فِيكُمْ، لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي مَنْصُورِينَ لَا يَضُرُّهُمُ مَنْ خَذَلَهُمْ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ

ترمذی میں اس کی سند ہے

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا فَسَدَ أَهْلُ الشَّامِ فَلاَ خَيْرَ فِيكُمْ، لاَ تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي مَنْصُورِينَ لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب اہل شام میں فساد پھیل جائے تو تم میں کوئی خیر نہ رہے گی اور میری (امت میں سے) ایک گروہ  کی مدد کی جاتی رہے گی اور انہیں  کسی کی مخالفت کا کوئی نقصان نہ ہو گا یہاں تک کہ قیامت آجائے۔

اس کی تمام اسناد میں قرہ بن آیاس ہیں-  کتاب جامع التحصیل از العلائی کے مطابق

 قرة بن إياس والد معاوية بن قرة أنكر شعبة أن يكون له صحبة والجمهور أثبتوا له الصحبة والرواية

 قرة بن إياس …..   شعبہ نے انکار کیا ہے کہ یہ صحابی تھے اور جمہور کہتے ہیں کہ ثابت ہے کہ صحابی ہیں

امام شعبہ کی اس رائے کی وجہ احمد العلل میں بتاتے ہیں

قال عبد الله بن أحمد: حدثني أبي. قال: حدَّثنا سليمان ابو داود، عن شعبة، عن معاوية -يعني ابن قرة – قال: كان أبي يحدثنا عن النبي – صلى الله عليه وسلم -، فلا أدري سمع منه، أو حدث عنه

عبد الله بن احمد اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ سلیمان نے شعبہ ہے انہوں نے معاویہ سے روایت کیا کہ

میرے باپ قرہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے تھے پس میں نہیں جانتا کہ انہوں نے سنا تھا یا صرف ان

کی بات بیان کرتے تھے

جب معاویہ بن قرہ کو خود ہی شک ہو کہ باپ نے واقعی رسول الله سے سنا بھی تھا یا نہیں تو آج ہم اس کو کیسے قبول کر لیں؟

لہذا روایت ضعیف  ہے

قارئیں آپ کے سامنے ان روایات کی اسنادی حیثیت ہے  آپ خود فیصلہ کریں کیا یہ روایات اس قابل ہیں کہ ان کو صحیح کہا جائے

دجالوں میں سے

منکرین حدیث اور قادیانیوں میں کیا اقدار مشترک ہیں؟

جواب

سر سید احمد خان جو ١٨١٧ میں پیدا ہوئے  اور ١٨٩٨ میں وفات ہوئی  ایک منکر حدیث تھے اور نیچری کے نام سے مشھور تھے انہوں نے تفسیر القران لکھی اور اس میں فرشتوں و جنات کے وجود، معجزات  کا انکار کر دیا – کعبه کو بطور قبلہ تسلیم نہ کر سکے اور ہر عبادت کو خام خیالی قرار دے ڈالا –  سن ١٨٣٦ ع میں مرزا غلام احمد پیدا ہوا اور سن ١٨٩١ ع میں اس نے مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا پھر ١٩٠١ ع میں نبوت کا دعوی کیا بحوالہ سیرت المہدی از بشیر الدین محمود- یعنی ٥٥ سال تک اس کا عقیدہ نزول مسیح کا رہا اور پھر ایک دن خود ہی مسیح بن بیٹھا

یہ دونوں افراد ہم عصر تھے ایک نے انکار حدیث اور تاویل قرآن میں شہرت پائی اور دوسرے نے جھوٹی نبوت سے- لیکن دونوں ایک بات میں ہم خیال تھے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ہو گئی ہے – اصلی عیسیٰ کی وفات  کا انکار ان دونوں نے کیا

مرزا غلام احمد کے نزدیک عیسیٰ علیہ السلام کی موت ہو چکی ہے ان کی قبر کشمیر میں ہے بحوالہ براہین احمدیہ ص ٢٢٨ لیکن غلام احمد نزول مسیح سے مراد اپنے آپ کو لیتا تھا اور اس کے نزدیک وہ ان احادیث کا مصداق تھا جن میں ہے کہ مسیح علیہ السلام دمشق میں نازل هوں گے – اس کے نزدیک اس میں دمشق سے مراد استعارہ و تشبیہ تھی اور اس کے بقول رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو اس میں اجمالی علم دیا گیا تھا اور اس طرح اس کذآب نے خود کو کہا کہ اس کو مکمل علم ہوا ہے بحوالہ ازالہ اوہام ص ٣٤٦ ج دوم

احادیث میں ہے کہ مسیح علیہ السلام کا نزول دمشق میں ہو گا – اس کے  القا پر مرزا لکھتا ہے :” پس واضح ہوا کہ دمشق کے لفظ کی تاویل میں میرے پر من جانب الله یہ ظاہر کیا گیا ہے جس میں ایسے لوگ رہتے ہیں جو یزیدی الطبع اور یزید پلید کی عادات و خیالات کے پیرو ہیں جن کے دلوں میں اللہ اور اس کے رسول کی کچھ محبت اور احکام الہی کی کچھ عظمت نہیں جنہوں نے اپنی خواہشوں کو اپنا معمول بنا رکھا ہے اور اپنے نفس امارہ کے حکموں کے ایسے مطیع ہیں کہ مقدسوں اور پاکوں کا خون بھی ان کی نظر میں سہل اور آسان ہے اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور خدا تعالی کا موجود ہونا ان کی نگاہ میں ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جو انھیں سمجھ نہیں اتا اور کیونکہ طبیب کو بیماروں کی طرف آنا چاہیے اس لئے ضروری تھا کہ مسیح ایسے ہی لوگوں میں نازل ہو” بحوالہ حاشیہ ازالہ اوہام ص ٣٣ سے ٣٤

حدیث میں ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام دو زرد چادریں اورٹھے ہوئے نازل ہوں گے- اس کی اس کذاب نے تاویل کی کہ اس سے مراد ہے کہ دو بیماریاں مسیح کو ہوں گے- مرزا نے کہا” میرے سر میں کمی خواب ہے… تشنج دل کی بیماری دورہ کے ساتھ ہے اور…. نیچے رات دن کثرت پیشآب رہتا ہے” بحوالہ سیرت المہدی ج ٢ ص  ١٤٥پر

مرزا کذاب نے خود کو ہندووں کا کرشن  قرار دیا  – اس کے ایک معتقد نے لکھا :غلام احمد صاحب نے خدا سے الہام پا کر دعوی کیا :” میں مسلمانوں کے واسطے مہدی ہوں ، عسائیوں  کے لئے مسیح ہوں اور ہندووں کے لئے کرشن ہوں اور دوسری قوموں کے لئے موعود ہوں “بحوالہ تبلیغ ہدایت از مرزا بشیر احمد ص ١٦ اور ١٧ پر

مرزا کا عقیدہ تھا کہ الله ہر طرف موجود ہے لہذا نزول مسیح پر اس نے لکھآ:”  اب ظاہر ہے الله تعالی ہر جگہ موجود ہے صرف آسمان کے اندر محدود نہیں پس اس کی طرف اٹھائے جانے کے معنی آسمان کی طرف اٹھائے جانے کے کس طرح ہو سکتے ہیں” بحوالہ تبلیغ ہدایت ص ٣٧ پر

قرآن کی آیت یا عیسیٰ انی متوفیک و رفعک الی کا قادیانی مرزا بشیر احمد نے ترجمہ کیا کہ

اے عیسیٰ میں ہی تجھے وفات دوں گا اور تجھے اپنی طرف اٹھاؤں گا – بحوالہ تبلیغ ہدایت

یہ ترجمہ آج تک منکرین حدیث میں مقبول ہے

مرزا کو ایک الہام انگریزی میں ہوا جس میں گرامر کی غلطیاں تھیں اس پر اس نے قرآن میں بھی گرامر کی غلطی گنوا دی

مرزا کا عقیدہ تھا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا امتی نبی بن سکتا ہے اور یہ خاتم النبین یعنی نبوت کی مہر کا مطلب ہے

مرزا ممکن ہے ایک نفسیانی مریض ہو اور اس دور میں چونکہ علاج معالجہ کی سہولیات نہ تھیں تو یہ اپنے القا کو وحی  سمجھتا ہو جیسا کہ اس نے خود اپنے دعوی نبوت کا اعلان کیا  پھر انکار کیا اور پھر اقرار کیا مرزا نے حقیقت الوھی میں لکھا

اللہ نے مجھ پر وحی بھیجی اور میرا نام رسل رکھا یعنی پہلے ایک رسول ہوتا تھا اورپھر مجھ میں سارے رسول جمع کر دیے گئے ہیں۔میں آدم بھی ہوں۔ شیش بھی ہوں۔ یعقوب بھی ہوں اور ابراہیم بھی ہوں۔اسمائیل بھی میں اور محمد احمد بھی میں ہوں

الله اس کے پیرو کاروں کو ہدایت دے

 

مرزا کو بطور نبی کافی لوگوں نے تسلیم کیا اور ساتھ ہی جنہوں نے نہیں کیا لیکن اس کو پڑھا ان میں انکار حدیث کا رجحان پیدا ہوا- سر سید کا مشن سیاسی تھا اور مرزا کا خالص دینی- اس طرح ایک اضطراب کی کیفیت اس دور میں پیدا ہوئی دوسری طرف اس رجحان کو اور تقویت ملتی گئی اور انکار حدیث میں تاویل قرآن بھی شامل ہو گیا اس کے لئے مرزا پرویز نے نام کمایا

غلغلہ مہدی، جہادی اورعلماء

مرجان مصطفى سالم الجوهري المتوفی ١٤٣٦ ھ   / ٢٠١٥ جس كا قلمي نام أبو عمرو عبد الحکیم حسان تھا اس نے کتاب بنام التبيان في أهم مسائل الكفر والإيمان  لکھی  جس میں   اس شخص نے ولاہ اور تولی کے قرانی الفاظ سے اپنے گمراہ نظریات کا استخراج کیا – اس شخص نے اہرام مصر اور آثار قدیمہ کو منہدم کرنے کا فتوی دیا یہ مصر  میں قید   میں ٢٠١٥ میں  ہلاک ہوا – یہ كلية أصول الدين جامعہ ازہر کا طالب علم تھا اور بعد میں افغانستان میں  ملا عمر کا استاد تھا – یہ یمن سے افغانستان منتقل ہوا اور سلفی جہادی سوچ رکھتا تھا-  اس شخص نے جماعة الجهاد الإسلامي کی بنیاد رکھی اور حکمرانوں کی تکفیر کو جائز قرار دیتے ہوئے مزاحمت کے دوران معصوم مسلمانوں کے قتل کو بھی مباح قرار دیا – سن ٢٠٠٣ میں  اس کی سوچ کا علمبردار اسامہ بن لادن تھا  جس کو سفید گھوڑے پر سوار دکھایا جاتا یا گویا وہ افغانوں کا مہدی تھا جو قدیم خراسان سے ظاہر ہونے کو تھا – ان کے پشتبان طالبان اس کے سحر میں گرفتار تھے جو  اپنے آپ کو انہی جھوٹی موضوع روایات کا محور سمجھ رہے تھے جو ظہور مہدی کے حوالے سے ہیں جن کو  سلفی و دیوبندی حضرات نے تعویذ کی طرح گلے میں ڈال رکھا ہے سلفی جہادی ابن تیمیہ کی متشدد سوچ سے ابھرنے والی تنظیمیں ہیں جن کی پشت پر بہت سے عرب علماء ہیں اور ان کے ہتھیار کے طور پر برصغیر و افغانستان  کے مسلمان ردعمل ظاہر کرتے ہیں – دوسری طرف برصغیر کے دیوبندی حلقوں میں بھی امام مہدی کا چرچا تھا یہاں سرفراز خان صفدر اپنی کتاب توضیح المرام فی نزول مسیح علیہ السلام میں  لکھ رہے تھے کہ طالبان نما مخلوق مسیح علیہ السلام کے ساتھ خواب میں دیکھی- مفتی شامزی  نے بھی امام مہدی پر کتاب لکھ ڈالی اور اس میں کیا موضوع روایت ہوتی کیا مدلس راوی ہوتا ہے ان کو اس سے کوئی سرورکار نہ تھا – بس ایک تلاطم روایات تھا جس میں صحیح اور غلط اور جھوٹ و سچ کی تمیز مٹ چکی تھی- الغرض مدرسوں میں ایک کلائمیکس کا وقت تھا علماء کا سرور دیکھنے والا تھا اور نوک قلم سے جھلک رہا تھا

لیکن افسوس ایک عفریت اپنے عقب سے نکلنے کو تھا- شوق جہاد میں نظر و فکر  کے تجزیے رخصت پر جا چکے تھے  اور مہدی آخر الزمان کی رن میں آمد کے نوبت کے شور میں  سلفی و دیوبندی عوام واپس سنن اربع کی کتب کو کھنگال کر روایات مہدی جمع  کررہی تھیں

کہتے ہیں جب کسی چیز کا وقت نہ ہو اور اس کا انتظار کیا جائے تو اس کا ردعمل ختم نہیں ہوتا ہمارے لئے اہل کتاب کی تاریخ تھی کہ کس طرح ہر دور میں مسیح کا انتظار کرتے رہے اور اصلی تک کو قتل کرنے کے در پے ہوئے کہ علماء کی رائے  اصلی مسیح کی رائے سے موافقت نہ رکھتی تھی – علمائے یہود نے اس کا حل نکالا کہ الله کو مجبور کر دو کہ مسیح کو بھیجے لہذا جنگ کی اگ بھڑکاو – جنگ ہو گی مسیح آئے گا (جس کے لئے الله قرآن میں کہتا ہے کہ وہ اس کو بجھا دیتا ہے) – یہی انداز ان جہادی گروہوں کا ہوا کہ  جہاد کرو مہدی آئے گا گویا ایک شعر پر ایمان لائے کہ خدا خود بندے سے پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے – جبکہ یہ شعر ہی غلط ہے یہ شاعرانہ بات ہے وحی الہی نہیں-

علماء کی آراء کو اہل کتاب کی طرح ایمان کا حصہ بنا کر الله سے زبردستی مہدی کے ظہور کا مطالبہ جاری ہے جو ہنوز دلی دور است کی طرح دور ہی ہے اور کیوں نہ ہو جبکہ اس سے متعلق تمام روایات ضعیف ہیں

سن ٧٠ کی دہائی میں مطووں کی فوج میں سے ایک،  محمد بن عبد الله القحطانی کو خیال آیا کہ میں مہدی ہوں ایک جماعت کثیر کو لیا حرم پر قابض ہوا اور معصوم لوگوں کا قتل کر کے  جہنم واصل ہوا – اس کے ساتھ جن علماء کا اٹھنا بیٹھنا تھا ان کو بچا لیا گیا  کچھ واپس برصغیر بھی پہنچے- اس وقت اس دبی چنگاری کو بجھا دیا جاتا تو اچھا ہوتا لیکن سلفی علماء اپنے من پسند لوگوں کو بچا لے گئے- ایک عالم  عبد الله بن زيد آل محمود  المتوفی ١٤١٧ ھ  نے   سچ بولتے ہوئے  المہدی کی روایات کو  کتاب لا مهدي يُنتظر بعد الرسول محمد ﷺ خير البشر  میں رد کیا    اور صاف  کہا کہ یہ ایک  اجنبی فکر ہے جو اسلام میں رد کر آئی ہے- لیکن متشدد سلفی سوچ واپس متحرک ہوئی اور  عبد العزيز بن عبد الله بن باز کے شاگرد حمود بن عبد الله بن حمود بن عبد الرحمن التويجري (المتوفى: ١٤١٣ ھ)  نے اپنی کتاب   الاحتجَاج بالأثر على من أنكر المهدي المنتظر   میں  عبد الله بن زيد بن محمود کا پر زور  رد کیا جنہوں نے المہدی کی روایات کو خرافات کہا تھا- ایک صحیح بات کو واپس فتوؤں سے دبا دیا گیا اور اگر آپ کتاب دیکھیں تو ٤١١ صفحات پر مشتمل اس کتاب میں کوئی علمی بات نہیں ایک منقطع روایت کو دس سے اوپر دفعہ لکھا گیا ہے کہ اس کی سند جید ہے – افسوس درس حدیث دینے والے  چوٹی کے علماء  میں اتنی قابلیت نہیں کہ ایک دفعہ ہی سند چیک کر لیں بھلا کیا روایت ہے سنئے مسند الحارث بن أبي أسامة  کی روایت ہے

حدثنا إسماعيل بن عبد الكريم، حدثنا إبراهيم بن عقيل، عن أبيه، عن وهب بن منبه، عن جابر -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: «ينزل عيسى ابن مريم، فيقول أميرهم المهدي: تعال صلِّ بنا، فيقول: لا، إن بعضهم أمير بعض، تكرمة الله لهذه الأمة

جابر رضي الله عنه  سے  مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا  بے شک عیسیٰ ابن مریم  نازل ہونگے اور ان سے امیر المہدی کہیں گے   آ جائیں نماز پڑھائیں پس وہ کہیں گے نہیں تم میں سے بعض بعض پر امیر ہیں اللہ نے اس امت کی تکریم کی ہے

یہ روایت  منقطع ہے- کتاب  جامع التحصيل في أحكام المراسيل   کے مطابق

وهب بن منبه قال بن معين لم يلق جابر بن عبد الله

وهب بن منبه  کے لئے ابن معين  کہتے ہیں ان کی ملاقات جابر بن عبد الله سے نہیں ہوئی

اس کتاب میں ابن معین کہتے ہیں وھب  کی روایت ابن جابر سے ایک کتاب سے تھی ، یہ بھی کہا ان کے پاس ایک صحیفہ تھا

 هو صحيفة ليست بشيء

وہ صحیفہ کوئی چیز نہیں

حمود بن عبد الله اس  کتاب میں بس یہی راگ لاپتے رہے  کہ ابن قیم  اس کا ذکر کتاب  المنار المنيف   میں کرتے ہیں کہتے ہیں وهذا إسناد جيد اس کی سند جید ہے – مسلک پرستی یہ نہیں تو اور کیا ہے

انہی حلقوں میں ایک رجحان مدخلیت بھی ہے- یعنی اس سلسلے میں اس قدر لٹریچر آ موجود ہوا ہے کہ الہی توبہ جن میں ایک سے بڑھ کر ایک ایڈونچرازم کا درس ہے – تکفیر ہے –  مغربی ملکوں میں پڑھنا حرام ہے، ان کی سیر حرام ہے، ان میں جانا حرام ہے – ضابطہ اخلاق اور تہذیب کا  عملا جنازہ ہی اٹھا دیا گیا ہے اور ہر جانب سے نئے  افکار کو پیش کیا جا رہا ہے کسی کو شام میں اب سفیانی نظر آ رہا ہے (یہ بھی ضعیف روایت ہے ) –  ایک اور بات جو ان گروہوں میں مشترک ہے وہ ہے کفار و اہل کتاب سے دوستی کی بحث

اب ہم پوچھتے ہیں

ابن الدغنہ کون تھا ؟ کیا کبھی صحیح  بخاری کو دیکھا ہے جس میں ہے کہ ابو بکر رضی الله عنہ کا یہ مشرک دوست تھا ان کی مدد کرتا تھا

کیا  آپ کے علم میں ہے صحیح بخاری میں ہے أُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ جو کٹر دشمن رسول تھا اس کی جنگ بدر میں حفاظت صحابی رسول  عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ رضی الله عنہ نے  کی – یہاں تک کہ اس کی جان کی حفاظت کے لئے اپنے آپ کو اس پر گرا دیا لیکن مسلمانوں نے جنگ کے بعد اس پر ان کو کچھ نہ کہا نہ قرآن میں ان کے خلاف کچھ نازل ہوا

جب مسلمان کا دوسروں سے معاہدہ ہو تو اس کو پورا کرنا بھی ایمان کا حصہ ہے

نبی صلی الله علیہ وسلم نے وفات سے قبل اپنا کچھ جنگی سازو سامان ایک یہودی کے پاس گروی رکھ دیا تھا اور اس کے بدلے جو لیا

عثمان رضی الله عنہ کی بیوی نائلہ بنت الفرافصة جن کی انگلیوں کا قصاص کا مطالبہ لے کر ام المومنین بصرہ تک گئیں وہ  اہل کتاب میں سے تھیں

اہل کتاب سے شادی ہو سکتی ہے دوستی نہیں! مطلب آپ بات سمجھ نہ پائے

بقول حافظ

چوبشنوی سخن اهل دل مگو که خطاست

سخن شناس نئی ، دلبرا، خطا اینجاست

  بعض آیات  کا محل و سیاق ہے ان میں تفرق کرنا اور سمجھنا ضروری ہے – بعض احکام  کا تعلق عرب سے تھا اس کا تعلق تمام دنیا سے نہیں – مثلا مشرکین کے بت عرب میں توڑ دے گئے لیکن ان کو عرب سے باہر نہیں توڑا گیا – گرجا میں عیسیٰ و مریم علیہما السلام کے بتوں کو چھوڑ دیا گیا

ایک اور کتاب دوستی و دشمنی کا اسلامی معیار یا الولاہ و البراء از صالح  بن الفوزان میں بھی اسی خارجی طرز کا انداز ہے موصوف غیر مسلموں کو کسی صورت برداشت نہیں کرتے حتی کہ ایک ضعیف حدیث کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ اہل کتاب کو کاتب کی نوکری تک نہ دی جائے (صفحہ ١٨ اور ١٩)- جبکہ تاریخ گواہ ہے کہ بنو امیہ کے خلفاء نے اہل کتاب کو اپنی بیرو کریسی میں شامل کیا انہوں نے مسند احمد کا حوالہ دیا لیکن   یہ روایت بیہقی شعب ایمان کی   ہے

أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْعَلَوِيُّ بِالْكُوفَةِ , أنا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ دُحَيْمٌ , نا أَحْمَدُ بْنُ حَازِمٍ , نا عَمْرُو بْنُ حَمَّادٍ , عَنْ أَسْبَاطٍ , عَنْ سِمَاكٍ , عَنْ عِيَاضٍ الْأَشْعَرِيِّ , عَنْ أَبِي مُوسَى , فِي كَاتِبٍ لَهُ نَصْرَانِيٍّ عَجِبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ مِنْ كِتَابِهِ , فَقَالَ: إِنَّهُ نَصْرَانِيٌّ قَالَ أَبُو مُوسَى: فَانْتَهَرَنِي وَضَرَبَ فَخِذِي وَقَالَ: ”   أَخْرِجْهُ ” وَقَرَأَ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ} [الممتحنة: 1] , وَقَالَ: {لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ} [المائدة: 51] , قَالَ أَبُو مُوسَى: وَاللهِ مَا تَوَلَّيْتُهُ إِنَّمَا كَانَ يَكْتُبُ , قَالَ: ” أَمَا وَجَدْتَ فِي أَهْلِ الْإِسْلَامِ مَنْ يَكْتُبُ لَكَ لَا تُدْنِهِمْ إِذْ أَقْصَاهُمُ اللهُ , وَلَا تَأْمَنْهُمْ إِذَا خَانَهُمُ اللهُ , وَلَا تُعِزَّهُمْ بَعْدَ إِذْ أَذَلَّهُمُ اللهُ

 اسباط بن نصر  روایت کرتا ہے سماک سے  وہ عِيَاضٍ الْأَشْعَرِيِّ سے وہ ابو موسی سے کہ عمر رضی الله عنہ نے ان کے نصرانی کاتب پر تعجب کیا اور دلیل میں سوره ممتحنہ اور المائدہ کی آیات سنائی

اسکی سند میں سماک بن حرب کا تفرد ہے کتاب المختلطين از  العلائي  کے مطابق وقال النسائي: إذا انفرد بأصل لم يكن حجة

نسائی کہتے ہیں جس میں یہ منفرد ہو وہ حجت نہیں ہے  دوم اسباط بن نصر  خود ایک ضعیف راوی ہے

صالح بن فوزان نے لکھا کہ مسلمانوں کے امور پر کفار کو نافذ کرنا حرام ہے (صفحہ ١٩)  ضعیف روایت سے استخراج کردہ یہ نتیجہ ہی غلط ہے کیا یہودی جس سے لیں دیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کیا کہ اس کو زرہ دی اور جو لیا صحیح تھا وہ بھی حرام ہوا – ایک کاتب کی کتابت سے خوف زدہ علماء کا افراط میں اس قسم کے فتوے دینے سے یہ دین پھیلنے سے تو رہا بلکہ موصوف نے مزدور، کاریگر اور ڈرائیور تک غیر مسلم نہ رکھنے کا فتوی دیا ہے (صفحہ ١٩ ) یہ تو معاشی مقاطعہ ہے جو کفار کا شیوا تھا – صالح الفوزان صفحہ ٣١ تک جا کر پٹھری بدلتے ہیں کہ کفار سے تجارت جائز ہے – پتا نہیں یہ کتاب ایک نشست میں لکھی گئی ہے یا نہیں

اہل کتاب کی تاریخ یا عیسوی کلینڈرسے بھی موصوف نے منع کیا ہے جبکہ اس کا تعلق کسی بھی دین سے نہیں- عمر رضی الله عنہ کے پاس اک  تحریر آئی جس سے معلوم نہ ہو سکا کب کی ہے آپ نے تاریخ کا دن پہلی ہجری مقرر کی – اور یہ اسلامی کلینڈر وجود میں آیا لیکن اگر کوئی اہل کتاب کی تاریخ لکھ دے تو یہ حرام کس دلیل سے ہوا ؟ دوسری طرف اسلام میں حج سیزن میں تاریخوں کو بدلنا اور ان علماء کی جانب سے اس پر دم کا فتوی دینا سراسر حلال ہے جس میں غلط تاریخ پر حج کیا جاتا ہے اور بعد میں خاموشی سے دم ادا کر دیا جاتا ہے (مثلا ٢٠٠٧ یا ٢٠٠٨) جس سے عالم بے خبر ہے

اسلامی نام رکھنے پر بھی موصوف نے زور دیا ہے (صفحہ ٢٢) لیکن کیا مشرکین مکہ یا کفار کے نام تبدیل کیے گئے اکا دکا کے ہی خالص مشرکانہ نام تبدیل کیے گئے ہر کسی کا تبدیل تو نہ ہوا یہ بھی افراط ہے

ان علماء کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ آج مسلمانوں کا جان بچا کر کہیں اور جانا حرام ہے دوسری طرف ہجرت حبشہ  کو جائز کہتے ہیں جس میں خود ایک نصرانی حاکم  سے مسلمانوں کی حفاظت کی درخوست کی گئی

اصل میں اس قبیل کے علماء کا غلطی یہ ہے کہ آیات کو جو مشرکین مکہ کے لئے تھیں ان کو آج کل کے اہل کتاب پر لگا دیتے ہیں اور جو احکام اہل کتاب کے لئے تھے  ان کو مسلمانوں پر لاگو کرتے ہیں اور جو ان کی نہ سنے اس کو منافق قرار دے دیتے ہیں اور مسند رسالت پر براجمان ہونے کی کوشش میں ہیں اگرچہ زبان سے اس کے انکاری ہیں لیکن وہ عمل جو خالص وحی الہی سے ہی ممکن ہیں ان کی تلقین کرتے پھرتے ہیں مثلا کسی صحیح العقیدہ مسلمان سے اختلاف ہوا تو اس پر مرتد کا فتوی جڑنا ، ان کی بیویوں کو علیحدگی کا حکم دینا ، ان کے حمل گروانا ، پھر معاشی بائیکاٹ اور کوئی  انکی پارٹی کا جوان مرد عامی ذہین اٹھ کر ایسے صحیح العقیدہ  مخالفین کو قتل کر دے تو اس گناہ کا بوجھ کون اٹھائے گا

اس خوف و دہشت میں رہنے والے علماء جس تفسیاتی اضطراب کا شکار ہوتے ہیں اسی میں اپنے معتقدین کو بھی مبتلا کر دیتے ہیں جبکہ دین تو نصیحت کا نام ہے کچھ اور نہیں

مشرکین مکہ کا دھرم ختم ہوا تو وہ ایک فطری عمل تھا-  اس پر نوشتہ دیوار آ چکا تھا لوگ جوق در جوق اسلام میں آ رہے تھے پرانے مندروں کے بچے کچھے لوگوں کو منتشر کرنے کے لئے ان کے بت توڑے اور مندر ڈھا دیے گئے لیکن یہ صرف عرب میں ہوا- مسلمانوں نے مصر فتح کیا لیکن فرعونوں کی مورتیاں آج تک باقی رہیں – کسی من چلے کو خیال نہ آیا کہ ان تو توڑا جائے- یہ آج ان سلفی علماء کو ہی خیال کیوں آیا؟ بدھآ کے بتوں تو نہیں توڑا گیا اور عباسی خلافت تک آتش کدہ نوبہار البوزی میں اگ جلتی رہی – ہونا تو یہ چاہیے تھا اس کو اسی وقت بجھا دیا جاتا

مدینہ کی سیاست ایک وقتی نوعیت کی چیز تھی- جس میں منافق اور یہود کا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے خلاف گٹھ جوڑ تھا جس میں ان کا مقصد تھا کہ رسول الله کو کسی طرح مشرکین مکہ کے ہاتھوں قتل کرا دیا جائے اور ہم واپس مدینہ کے حاکم بنیں اور مسلمانوں کو یہاں سے بھگا دیں لیکن اللہ کو کچھ اور منظور تھا اس کا منصوبہ الگ تھا اس تناظر میں آیات نازل ہوئیں کہ جس نے رسول الله کی مخالفت کی وہ منافق ہے اور کافر سے درپردہ دوستی سے منع کیا گیا وہ دور گزر گیا

امت مسلمہ اتنی وسیع ہے کہ حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم کے مطابق اس کو کوئی ختم نہ کر سکے گا لہذا علماء کو چاہیے اس نفسیاتی خوف سے باہر نکلیں  اور تہذیب کے دائرے میں  بین المذآھب ڈائلاگ کرنا سیکھیں

Awaited Al-Mahdi

Awiated Al-Mahdi

بسم الله الرحمن الرحيم

Mahdi, a  mysterious personality who like the Jewish Messiah expected to appear before the end of times, is a concept we hear from scholars of both Shiite and Sunni Schools. According to this concept at the time when world is about to complete its age an apocalyptic figure would appear and would lead the Muslims.  Whenever there are political upheavals in the Muslim societies, this concept comes in limelight.

Shiite say that the person Al-Mahdi is already born and they call him the Occult Imam or Imam Al-Ghayyab. Also remembered with the titles of  Qayim Al-Qiyyamah i.e. One who would establish the day of Judgement, and they are waiting eagerly for its appearance in physical world. Closely connected Shiite belief is the concept called Rija ( The returning), which means that when the war between the forces of evil and good ensued the Mahdi would raise an army of stalwart Shiite supporters from underworld which were died in reign of oppression, which starts with the caliphate of Abu-Bakr. Hence their souls would be returned and they would be resurrected.

 Sunni belief is here different, they also belief in the concept of Al-Mahdi, but claim that this person would be from the family of Prophet Peace be upon him and he would appear before the descending of Jesus peace be upon him. According to them he would be a great leader or caliph of Muslims.

Ibn-Tammiyah said in  Minhaj al-Sunnatal Nabbawiyah  fi Naqdh al-Kalam al-Shia wal-Qadariyah  juz 8 pg 254

أن الأحاديث التي يحتج بها على خروج المهدي أحاديث صحيحة

The narrations which give proof of the appearance of Al-Mahdi are all authentic hadiths.

In this treatise the narrations reported in support of this concept are analysed in the balance of history and the science of Jirah wal Tadeel.

Concept of Mahdi from Sahih narrations

Prophet peace be upon him has informed that before the blowing of Conch  by Israfeel peace be upon him there would be ten sings of Day of Judgement. 1. Smoke 2. Dajjal (Deceiver) 3. Dabatul Ardh (Animal of Earth) 4. Rising of the Sun from West 5. Descend of Jesus peace be upon him 6. Yajooj wa Majooj 7. Depression of Earth in East 8. Depression of Earth in West 9. Depression of Earth in Arabia 10. Fire. (Sahih Muslim , Kitab al-Fitan and sings of day of judgement)

Among these signs there are two personalities. One is Jesus and another one is Dajjal.  However some scholars in SunniSchool of thought have made themselves an eleventh sign and that they call the appearance of Al-Mahdi.

 According to Arabic dictionary Al-Mahdi means any one who is rightly-guided man.

Prophet prayed for Abi Salmah (Sahih Muslim, Abi Dawood)

 اللهم اغفر لأبي سلمة وارفع درجته في المهديين

O Allah, forgive Abu Salama, raise his degree among those who are rightly guided,

 Prophet prayed for Jareer bin Abdullah may Allah be pleased with him  (Bukhari, juz 3, pg 1100)

اللهم ثبته واجعله هاديا مهديا

O Allah! Make him firm and make him a guiding and a rightly-guided man

 In Masnad Ahmed, juz 20, pg 93 there is a narration that Prophet peace be upon him said

يُوشِكُ مَنَ عَاشَ مِنْكُمْ أَنْ يَلْقَى عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ إِمَاماً مَهْدِيًّا

I doubt that anyone of you be living at time when Jesus son of Mary comes as a rightly-guided leader

It is reported in Abi Dawood, juz 13, pg 327 that Prophet peace be upon him said

فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِى وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ

On my way and one the way of rightly guided caliphs

This shows that any one could be Al-Mahdi, if he or she follows the Quran and way of Prophet peace be upon him.

Before indulging into the Jirah wal Tadeel of  narrations of Al-Mahdi, it is necessary to understand the historical perspective of these narration. Islam actually appeared as a religion in the world at the time when the then two great super powers Persia and Byzantine were furiously fighting and enslaving. Arabia being a barren land was not an attractive place for any adventurism and thus saved from the political conflicts. However in reign of Caliph Umer the whole Persia is subjugated into Islamic rule and thus the Zoroastrians received a sweeping blow from Arab Muslims. The people from these great civilisations accepted the Islamic faith, some were enslaved and brought into Medinah. Muslims in Medinah become affluent and at one point during reign of Umer may Allah be pleased with him Medinah was witnessing the burgeoning slave population.  One Persian slave Abu-Lulu Feroz attacked Umer may Allah pleased with him  and injured him. He was pursued by  Muslims, but  to save himself from Muslims he committed suicide. This was the first suicidal attack in Muslim history, done by a Munfique (hypocrite).

 

Bukhari (Volume 5, Book 57, Number 50) has reported the conversation between Umer and Ibn Abbas peace be upon them at that  very moment:

 

‘Umar said, “O Ibn ‘Abbas! Find out who attacked me.” Ibn ‘Abbas kept on looking here and there for a short time and came to say. “The slave of Al Mughira.” On that ‘Umar said, “The craftsman?” Ibn ‘Abbas said, “Yes.” ‘Umar said, “May Allah curse him. I did not treat him unjustly. All the Praises are for Allah Who has not caused me to die at the hand of a man who claims himself to be a Muslim. No doubt, you and your father (Abbas) used to love to have more non-Arab infidels in Medina.” Al-Abbas had the greatest number of slaves. Ibn ‘Abbas said to ‘Umar. “If you wish, we will do.” He meant, “If you wish we will kill them.” ‘Umar said, “You are mistaken (for you can’t kill them) after they have spoken your language, prayed towards your Qibla, and performed Hajj like yours.”

Umer died and door of fitnah opened.  Uthman may Allah be pleased him  become the caliph. But during his regin  Abdullah bin Saba, a Yemenite Jew appeared on political sphere. Ibn-Saba belonged to Ghulat sect of Shiite, who believed in the doctrine of divinity of  Ali  ( Naodhu billah).  There is a sect specially named after him called Sabiyyah.  He travelled in Muslim empire and preached his ideas.  Not only that there were underground propagandists working against Uthman may Allah pleased with him.  Some of their issues  were related to distribution of Zakat  in Muslims.  It is reported in Bukhari (Volume 4, Book 53, Number 343)

 

Narrated Ibn Al-Hanafiya:

If Ali had spoken anything bad about ‘Uthman then he would have mentioned the day when some persons came to him and complained about the Zakat officials of ‘Uthman. ‘Ali then said to me, “Go to ‘Uthman and say to him, ‘This document contains the regulations of spending the Sadaqa of Allah’s Apostle so order your Zakat officials to act accordingly.” I took the document to ‘Uthman. ‘Uthman said, “Take it away, for we are not in need of it.” I returned to ‘Ali with it and informed him of that. He said, “Put it whence you took it.”

Narrated Muhammad bin Suqa: I heard Mundhir At-Tuzi reporting Ibn Hanafiya who said, “My father sent me saying, ‘Take this letter to ‘Uthman for it contains the orders of the Prophet concerning the Sadaqa.’ “

Uthman (d. 35 AH) may Allah pleased with him was personally very humble and does not want to confront his opponents harshly.  The growing propagandist machinery disturbed some devout companions of Prophet, peace be upon him and they asked Uthman to appoint his successor, in case of any eventual uncertainty.  It is reported in Bukhari (Volume 5, Book 57, Number 64)

 

Narrated Marwan bin Al-Hakam:

While I was with ‘Uthman, a man came to him and said, “Appoint your successor.” ‘Uthman said, “Has such successor been named?” He replied, “Yes, Az-Zubair.” ‘Uthman said, thrice, “By Allah! Indeed you know that he is the best of you.”

But Uthman did not appoint any one as his successor. Unfortunately during the month of Hajj, when most of the Muslims were not present in capital, he was brutally murdered by a sudden mob attack[1].  This clandestine mob attack and killing of caliph in bright daylight made the Muslims furious. Unfortunately the emotions took most of the Muslims. Ali peace be upon him,  took the position of Caliph during this upheaval.  For the first time after Prophet’s death the Muslims were that much divided. Clearly two groups appeared, one belonged to Ali may Allah be pleased with him  and other was led by Aisha, mother of believers.  Aisha may Allah pleased with her took the severed fingers of Uthman’s wife and went to Basra for gathering the masses. Companions of Prophets Az-Zubai and Talha may Allah pleased with them joined the group which was demanding the Qassas for Uthman i.e. legal treatment for the murderers of Uthman.   It is reported in Bukhari ( Volume 9, Book 88, Number 220)

 

Narrated Abu Maryam Abdullah bin Ziyad Al-Aasadi:

When Talha, AzZubair and ‘Aisha moved to Basra, ‘Ali sent ‘Ammar bin Yasir and Hasan bin ‘Ali who came to us at Kufa and ascended the pulpit. Al-Hasan bin ‘Ali was at the top of the pulpit and ‘Ammar was below Al-Hasan. We all gathered before him. I heard ‘Ammar saying, “‘Aisha has moved to Al-Busra. By Allah! She is the wife of your Prophet in this world and in the Hereafter. But Allah has put you to test whether you obey Him (Allah) or her (‘Aisha).”

War broke out and Muslims fought in great war of Jamal and also some skirmishes occurred. Many died but that was probably unavoidable. It is reported in Bukhari (Volume 4, Book 53, Number 3589)

 

Narrated ‘Abdullah bin Az-Zubair:

When Az-Zubair got up during the battle of Al-Jamal, he called me and I stood up beside him, and he said to me, “O my son! Today one will be killed either as an oppressor or as an oppressed one. I see that I will be killed as an oppressed one

Aisha mother of believer lost the battle and accepted the conditions that she would go back to Medinah.  Ali then confronted Muawiyah and ask him to take the oath of allegiance, which Muawiyah denied. Another war erupted called battle of Siffin.  Finally Ali made a truce with Muawiyah, governor of Syria. The signing of the truce infuriated the group of Ali  (Shiite Ali) and it divided over this issue. One faction which fled Ali is called Khawarij. Finally in 41 AH Ali was killed by a Kharji Abur-Rehman ibn Muljim. Ali appointed Hasan as his successor.

 

Hasan ibn Ali  (d. 50 AH)  may Allah pleased with him  become the fifth caliph after Ali. But in the same year  (41 AH) he renounced the position of Caliph in favour of  Muawiyah (d. 60 AH) may Allah pleased with him and thus tried to annihilate all political differences.

 

It is reported in Bukhari (Volume 3, Book 49 (Peacemaking), Number 867) that

Al-Hasan (Al-Basri) said: I heard Abu Bakr saying, “I saw Allah’s Apostle on the pulpit and Al-Hasan bin ‘Ali was by his side. The Prophet was looking once at the people and once at Al-Hasan bin ‘Ali saying, ‘This son of mine is a Saiyid (i.e. a noble) and may Allah make peace between two big groups of Muslims through him.”

Muawiyah may Allah pleased with him knew that the political differences might surface again as in year 50 AH  the noble Hasan ibn Ali died. He therefore announced his will in the whole Islamic world that he would like to appoint his son Yazid as a successor caliph.  It is reported in Bukhari, juz 4, pg 1827:

 

Marwan was (acting as a governor of ) Hijaz  (from Muawiyah)  did a speech to pay allegiance to  Yazid Ibn Muawiyah  (as a future successor caliph ) after his father. (On this) ‘ Abd al-Rahman Ibn Abi Bakr said something, which Marwan didn’t liked  and said remove  him. To save himself Abdur Rehman entered the house of Aisha…(and Aisah replied to Marwan on his wrong interpretation of a verse )

Aisah, may Allah pleased with her, died in year 57 AH and in some reports died in year 58 AH,  thus the event might had occurred two to three years before the demise of Caliph Muawiyah, may Allah pleased with him. Therefore there  was ample  time  available for the opponents of Yazid bin Muawiyah   to respond. However no one dared to confront Muawiyah  on this issue during his life time. After the demise of Muawiyah  may Allah pleased with him, as planned, Yazid  bin Muawiyah  took the position of caliph.

 

All hopes of peace in Muslim world soon died when Hussain ibn Ali, may Allah pleased with him and Abdullah ibn Zubair, may Allah pleased with him challenged the position of Yazid bin Muawiyah . Why Ibn-Zubair and Hussain ibn Ali have not done this during the lifetime of Muawiyah shall remains as a  mystery.  Due to weak support, both Hussain and Zubair were killed in the confrontation.

major-events

The killing of Hussain fuelled the Ghhulat movement further. Now appeared Mukhtar Al-Saqafi (d. 67 AH) on the surface, who got hold on the chair on which Ali used to sat. He lead processions in which he showed the chair and it become the object of veneration among his followers. He claimed that he would take the revenge of murder of Hussain and would kill as many people as were killed on the murder of John the Baptist[2]. His followers are called Kessaniyah and Mukhtariah.  He claimed that Muhammad bin Ali also known as Muhammad bin Hanafiyah (d. 81 AH) (step brother of Hasan and Hussain) is the future leader (Imam).  Muhammad bin Hanafiyah fervently denied any association with him  and remained a devout Muslim.  The sect of Kessaniyah even remained after the death of Muhammad bin Hanafiyah. They claimed that Muhammad had not died and living in the mountains of Ridwa.  Mukhtar followed  the concept of Rijah[3] introduced by Abdullah ibn Saba and introduced the concept of Bidah which means that Allah can change his previous commitments and promises.[4]

 

Another pseudo-religious political person was Mughaira bin Saeed (d. 119 AH) also appeared in Iraq. Ibn-Hazam wrote in Al-Mallal wan Nahal:

 

 .. He used to live in Kufa. He was burned alive on the orders of Khalid bin Abdullah. He used to say that his Lord is a young man  (Naozo billah) and his body parts are as many as letters of  Al-Abjad i.e. Arabic Alphabets[5]. The famous liar and weak narrator Jabir bin Yazif Al-Jofi was the apostle of Mughaira after his death. Mughaira instructed his followers that now leader of Shiite is  Muhammad bin Abdullah bin Hasan bin Hasan bin Ali bin Abi Talib  i.e. grandson of Hasan may Allah  pleased with him.  Mughaira claimed that angels Gabriel and Michael have given oath of allegiance to Muhammad bin Abdullah between Maqam-Ibrahim and Rukun (part of Kabbah)[6].  He introduced the principal of Taweel of Quran. He claimed that in Quran, Adel (Justice) means Ali, Ashan means Fatimah, Zawil-Qurbah means Hasan and Hussain and Fahsha wal Munkae means Abu Bakr and Umer.[7]

 

Another deviated person was Abu Mansoor Al-Ajali (d. 119 AH). He coined the name Kisaf (cloud) for himself and claimed that in Quran he was already foretold when Allah talked about clouds. Instead of saying By Allah for oaths, he used to say by Kalimah[8]. Ibn-Hazam wrote in al-Mallal wan Nahal that:

 

 Abu Mansoor claimed that Allah has created first Jesus son of Mary and after him Ali bin Abi Talib. He claimed that Prophethood has not ended… also his follower do not kill by inflicting cuts rather they suffocate their opponent and by this they mean that they wait till the appearance of leader (Imam).  And when Imam would appear they would kill the opponents with stones and the Khabshiyah[9] with woods or sticks. One group of them claimed that Muhammad bin Abdullah bin Hasan bin Hasan is our Imam. They also claimed like Khattabiyah that Gabriel has mistakenly sent the revelation on Muhammad peace be upon him instead of Ali.

 

Apart from these deviated groups, Zaid bin Ali Zain-ul-Abdeen (grandson of Hussain may Allah pleased with him) was a political figure. He was not against Abu Bakr and Umer and that is why some Shiite specially the followers of Jafar Al-Baqar distanced themselves from him. Zaid called them Rawafidh i.e. one who deserted[10].   Zaid wanted the position of caliph and  he confronted the  Umayyad establishment and got killed in 122 AH.

 

Abbasid struggled against Umayyad dynasty too. They have the sizable support in Khurasan[11]. Banu Abbas spread their message through Daat i.e. Messengers. From 100 AH till 124 AH, the mission remained clandestine[12].  A strong supporter for the Abbasid movement comes from Abu Muslim al-Khurasani., who was acting as a leader of Shiite of Khurasan.

 

Thus there were many different groups showing their support for different peoples in the family of Bani Hashim. The summary of personalities active in political arena are:

 

From family of Hussain (grandson of Prophet)

1. Zaid bin Ali (Zain ul Abdeen)

2. Jafar bin Muhammad Al-Baqar bin Zain ul Abdeen

 

From Family of Hasan (grandson of Prophet)

3. Muhammad bin Abdullah bin Hasan bin Hasan bin Ali,  Al-Mahdi

 

From Family of Abbas (uncle of Prophet)

4. Ibrahim bin Muhammad bin Ali bin Abdullah ibn Abbas  died in  year 130 AH and appointed Abul Abbas AsSaffah as a successor.

 

The killing of Zaid gave an impetus to all sorts of confronting groups against the caliphs of Banu Umaiyyah. In the reign of Hihsham bin Abdul-Malik, Shiite groups of all linkages (mainly Banu Hashim) gathered in Medinah and vowed on for one unanimous future  leader. They showed their allegiance for Muhammad bin Abdullah bin Hasan bin Hasan bin Ali.  The second Abbasid caliph Abu Jafar Al-Mansoor   was also present in this meeting showing his allegiance.  Abu Jafar promised that in case of success, Muhammad bin Abdullah would be the caliph. Thus with this strategic move Banu Hasan and Banu Abbas moved against Umayyad dynasty.  This event occurred in 125 AH.

 

This whole event is reported in Maqatil Talbeen and also quoted by Abu Zahra Al-Misra in his book Imam Jafar Al-Sadique. At the eve of this auspicious occasion Abdulah bin Hasan  delivered a speed and at the end of it  called his son Muhammad bin Abdullah bin Hasan bin Hasan bin Ali, Al-Mahdi[13].

 

فهلم نبايع محمداً، فقد علمتم أنه المهدي

So pay allegiance to Muhammad, you know that he is Al- Mahdi

Slide1 

He become the first person in Muslim history bearing this title.  Muhammad bin Abdullah  also got the title of Nafs-Al-Zakiyyah (The pure spirit).  It is written in Maqatil Al-Talbeen juz 1 pg 63

 

حتى لم يشك أحد أنه المهدي، وشاع ذلك له في العامة؛ وبايعه رجال من بني هاشم جميعاً، من آل أبي طالب، وآل العباس، وساير بني هاشم؛ ثم ظهر من جعفر بن محمد قول في أنه لا يملك، وأن الملك يكون في بني العباس،

Until nobody  doubted  that he is Al-Mahdi,  and this (news) spread in the Masses; and all Banu Hashim  pledged allegiance to him, including the family of  Abi Talib, and family of  Abbās, ; then appeared this statement from  Ja’far ibn Muhammad that he (Muhammad bin Abdullah)  would not rule and  the caliph would be from Babu  Abbas..

 

From 125 AH till 133 AH, Umayyad dynasty becomes much weaker due to internal rifts, conflicts, killings and imprisonments of each other.  Masses in Muslim world wanted the change and they did not rose against the Banu Abbas forces.  To save themselves, some families of Umayyad dynasty left Damascus. The armies against Umayyad dynasty wore black clothes and raised black flags.  Banu Abbas supporting army came from Khursan.  And attacked Damascus and destroyed the city and almost killed every individual of Umayyad dynasty remaining.  As-Saffah, the leader of Banu Abbas declared himself caliph instead of Muhammad bin Abdullah and a new confrontation started which would be discussed while we go through Al-Mahdi narrations one by one.

 

Coming of Mahdi is certain

It is reported in Abi Dawood (juz 12, pg 404), Musnad Ahmed, Mustadrak al-Hakim

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِى شَيْبَةَ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ حَدَّثَنَا فِطْرٌ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ أَبِى بَزَّةَ عَنْ أَبِى الطُّفَيْلِ عَنْ عَلِىٍّ – رضى الله تعالى عنه – عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « لَوْ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدَّهْرِ إِلاَّ يَوْمٌ لَبَعَثَ اللَّهُ رَجُلاً مِنْ أَهْلِ بَيْتِى يَمْلأُهَا عَدْلاً كَمَا مُلِئَتْ جَوْرًا ».

Narrated Ali  that Messenger of Allah peace be upon him said  If there is a day left when the World is about to end Allah will send a person from my Ahlul Bayt that would fill it with justice as it is filled with injustice.

 

This narration contains فِطْر بن خليفة Fitar bin Khalifa (d 135 AH) from Kufa.  It is quoted in Meezan Al-Atedal, juz 3, pg 363

قال الدارقطني: لا يحتج به.

Darqutini said : Do not take his narrations.

وقال الجوزجانى: زائغ غير ثقة

Jozjani said : Deviated non-authentic

 

It is quoted in Lisan Al-Meezan juz 7 pg 337

وقال احمد خشبي

Ahmed said: He is from Khashbiyah

 

The meaning of Khashbiyah explained earlier. That they were the deviated Shiites who do not kill with sword rather use sticks and suffocation.

Name of Mahdi

 

1. It is reported in Musnad Ahmed, juz 1, pg 448, Tirmidhi, juz 8, pg 453

حدثنا عبد الله حدثني أبي حدثنا عمر بن عبيد الطنافسي عن عاصم بن أبي النجود عن زر بن حبيش عن عبد الله قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لا تنقضي الأيام ولا يذهب الدهر حتى يملك العرب رجل من أهل بيتي يواطئ اسمه اسمي

Abdullah bin Masood narrated that Prophet said:  The days would not end and the Age would not end  (i.e. World would not end) until a person from my Ahlul-Bayt rule Arabia bearing my name.

2. Also quoted in Abi Dawood that

مِنْ أَهْلِ بَيْتِى يُوَاطِئُ اسْمُهُ اسْمِى وَاسْمُ أَبِيهِ اسْمَ أَبِى

Abdullah bin Masood narrated also :… from my Ahlul Bayt his name would be my name and his father name would be my father name.

This means the name of Al-Mahdi  is Muhammad bin Abdullah!

 

Tirmidhi has called this Hasan narration[14]. Further it is claimed that Abi Dawood has not commented on this narration indicating he endorsed this narration[15].

 

The narration is reported by عاصم بن بهدلة وهو بن أبي النجود الأسدي Asim bin Bahdallah (bin Abn-Najood)  (d. 128 AD). Asim is considered an authentic narrator in hadith until his last years due to disease of bad memory.  In 125 AH there was the show of allegiance towards Muhammad bin Abdullah and Asim being in his state of confusion made the headline news the hadith of Prophet peace be upon him!

 

Probably that is why quotd in Tahzeeb al-Kamal juz 13, pg 478

 

 Everyone with the name Asim has bad memory. كل من كان اسمه عاصم سيء الحفظ Ibn Ulliah said

Ibn Kharash said حديثه نكرة his hadith have Nakarah (against Sahih)

Dar-Qutani said: في حفظه شيء  there is something in his memory

 

Tahzeeb-al-Tahzeeb juz 5, pg 35

Ibn- Saad said كان ثقة إلا أنه كان كثير الخطأ he is trustworthy but indeed he commit a lot of mistakes

 

It is thus quite clear that Al-Mahdi name is Muhammad bin Abdullah but in which lineage he is? Could be from Banu Hasan, Banu Hussein, Banu Abbas or could from lineage of Hussein’s step brother Muhammad bin Hanfiyah?

 

 

 

3. It is reported in Abi Dawood, juz 12 pg 397

قَالَ أَبُو دَاوُدَ حُدِّثْتُ عَنْ هَارُونَ بْنِ الْمُغِيرَةِ قَالَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِى قَيْسٍ عَنْ شُعَيْبِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِى إِسْحَاقَ قَالَ قَالَ عَلِىٌّ – رضى الله عنه – وَنَظَرَ إِلَى ابْنِهِ الْحَسَنِ فَقَالَ إِنَّ ابْنِى هَذَا سَيِّدٌ كَمَا سَمَّاهُ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- وَسَيَخْرُجُ مِنْ صُلْبِهِ رَجُلٌ يُسَمَّى بِاسْمِ نَبِيِّكُمْ يُشْبِهُهُ فِى الْخُلُقِ وَلاَ يُشْبِهُهُ فِى الْخَلْقِ ثُمَّ ذَكَرَ قِصَّةَ يَمْلأُ الأَرْضَ عَدْلاً.

Abi Ishaque (Al-Sabbiyee) said Ali (bin Abi Talib) looked at his son Hasan and said My this son is chief as titled by Prophet peace be upon him- and from his lineage come out a person with the name of Prophet, similar to him (Prophet) in manners and dissimilar in appearance and then discussed the report of filling of earth with justice.

Mizzi said in Tahzeeb ul-Kamal juz 22 pg 103 that Abi Ishaque Al-Sabbiyee  (d. 126 AH) narrated from

وعلي بن أبي طالب د وقيل لم يسمع منه وقد رآه

And from Ali bin Abi Talib (in Sunnan Abi Dawood) and it is said that he heard nothing from him but saw him

Thus there is a missing narrator between Ali and Abi-Ishaque Al-Sabbiyee.

 

Mundari said  for this narration (Aoon ul-Mabood, juz 11, pg 257)

قال المنذري هذا منقطع أبو إسحاق السبيعي رأى عليا عليه السلام رؤية

Mundari said: This is broken (narration) Abi Ishaque Al-Sabbiyee saw Ali

 

Lineage of Mahdi

1. It is reported in Ibn-Majah, juz 12, pg 256 a similar kind of narration.

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّىُّ حَدَّثَنَا أَبُو الْمَلِيحِ الْحَسَنُ بْنُ عُمَرَ عَنْ زِيَادِ بْنِ بَيَانٍ عَنْ عَلِىِّ بْنِ نُفَيْلٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ –صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ « الْمَهْدِىُّ مِنْ عِتْرَتِى مِنْ وَلَدِ فَاطِمَةَ ». قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ وَسَمِعْتُ أَبَا الْمَلِيحِ يُثْنِى عَلَى عَلِىِّ بْنِ نُفَيْلٍ وَيَذْكُرُ مِنْهُ صَلاَحًا.

Narrated Ume-Salamah, Prophet said: Al-Madi would be from my lineage in the progeny of Fatimah

It is thus further confirmed that Al-Mahdi is Muhammad bin Abdullah bin Hasan bin Hasan .i.e the great grandson of Fatimah may Allah be pleased with her.

 

The narration contains زِيَادِ بْنِ بَيَانٍ (Zayyad bin Bayan), which is a weak narrator. He has heard this narration from Ali bin Nufail.

Ibn-Habban said in Majroheen (juz 1, pg 307)

زياد بن بيان  سمع على بن نفيل في إسناده نظر.

Zayyad bin Bayan heard from Ali bin Nufail its sanad must be looked into

Bukhari said in Tahreek al-Kabeer, juz 3 pg 346

سمع على بن نفيل جد النفيلى سمع سعيد بن المصيب عن ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم عن النبي صلى الله عليه وسلم: المهدى حق وهو من ولد فاطمة، قال أبو عبد الله: في اسناده نظر

(Zayyad bin Bayan) heard from Ali bin Nufail … heard Ume-Salamah wife of Messenger of Allah peace be upon him: Al-Mahdi is certain from the family of Fatimah: Abu Abdullah (Bukhari) said its sand must be looked into.

 

The term اسناده نظر  actually used when Muhaddis would like to criticise the narrator. Dahabi has quoted this narration Mughni fi Doafa (book on weak narrators) and said the narrations from him are not Sahih . Muhammad bin Abdullah bin Hasan bin Hasan was from linage of Ali and Fatimah. The narration thus in a way ruled out Abbasid and Muhammad bin Hanfiyah‘s claim of caliphate.  The narration thus most likely manufactured by supporters of Muhammad bin Abdullah.

 

2. It is reported in Ibn-Majah, juz 12, pg 256

حَدَّثَنَا هَدِيَّةُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ عَلِىِّ بْنِ زِيَادٍ الْيَمَامِىِّ عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِى طَلْحَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ « نَحْنُ وَلَدَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ سَادَةُ أَهْلِ الْجَنَّةِ أَنَا وَحَمْزَةُ وَعَلِىٌّ وَجَعْفَرٌ وَالْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ وَالْمَهْدِىُّ »

Narrated Aans bin Malik that he heard Messenger of Allah peace be upon him said We are sons of Abdul-Muttalib, the chiefs of people of Heavens Hamza and I and Ali and Jafar and Hasan and Hussain and Al-Mahdi

The narrations thus tried to clarify that Al-Mahdi would not be in the lineage of Abbas, so Abbas in completely ruled out from the list of holy people which would be the chiefs of Paradise.

There is a narrator  عَلِىِّ بْنِ زِيَادٍ الْيَمَامِىِّ  (d. AH ) is an unknown narrator.  Al-Mizzi said in Tahzeeb al-Kamal, juz 20, pg 433  ولم يذكروا علي بن زياد no one has discussed Ali bin Zyad.  Dahabi said in Meezan Al-Ateedal juz 3 pg 127 لا يدرى من هو I don’t know who is he!

But Ibn-Hajar said in Taqreeb Al-Tahzeeb, juz, pg

علي بن زياد اليمامي عن عكرمة بن عمار عن إسحاق بن عبدالله بن أبي طلحة عن أنس حديث نحن ولد عبدالمطلب سادة أهل الجنة الحديث روى حديثه ابن ماجة عن هدبة بن عبد الوهاب عن سعد بن عبدالحميد بن جعفر عنه والصواب أنه عبدالله بن زياد فقد ذكره البخاري

Ibn-Hajar first quoted this narration then said the correct is that he is Abdullah bin Zyad as discussed by Bukhari.  He further said stated his opinion:

قلت: هو أبو العلاء عبدالله بن زياد فلعله كان في الاصل ثنا أبو العلاء بن زياد فتغيرت فصارت علي بن زياد وعبد الله بن زياد هذا ذكره البخاري فقال منكر الحديث ليس بشئ ولم يذكر ابن أبي حاتم فيه جرحا وذكره ابن حبان في الطبقة الرابعة من الثقات وروى أيضا عن علي بن زيد بن جدعان وهشام بن عروة وغيرهما وروى عنه أيضا صالح بن عبد الكبير الحبحابي وغيره وذكره العقيلي في الضعفاء.

I say: He is Abu Alla Abdullah bin Zyad and it is possible that in originality it is narrated from Abu Alla bin Zyad but changed and become Ali bin Zyad. And Abdullah bin Zyad is discussed by Bukhari and Bukhari called him Munkar-Al-Hadith, nothing (whereas) Ibn Abi Hatim has not quoted any Jirah on him and Ibn-Habban has placed him in fourth category of siqah narrators and he has also narrated from Ali bin Zaid bin Jadyan and Hashsham bin Urwa and others and narrated from him also Salah bin Abdul Kabeer Al-Hijabi and others and Uqaili has discussed him in Duafa (book on weak narrators).

 

Therefore this narration is quoted by a weak narrator or an unknown narrator and should not be considered Sahih

 

Reconciliation  of Mahdi

It is reported in Ibn-Majah , juz 12 ,pg 255; Musnad Ahmed, juz 1, pg 84;

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِى شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِىُّ حَدَّثَنَا يَاسِينُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَلِىٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « الْمَهْدِىُّ مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ يُصْلِحُهُ اللَّهُ فِى لَيْلَةٍ

Muhammad bin Hanafiyah narrated from his father Ali that Messenger of Allah peace be upon him said: Al-Mahdi is from my Ahlul-Bayt, Allah would rectify (his deeds) in one night.

The narrator ياسين بن شيبان العجلى  is weak narrator. Ibn-Habban said in Al-Majroheen, juz 3 pg 143

ياسين العجلى: شيخ من أهل الكوفة يروى عن إبراهيم بن محمد بن الحنفية، روى عنه أهل الكوفة، منكر الحديث

Yaseen Al-Ajali: An old man of Kufa, narrated from Ibrahim bin Muhammad bin Hanafiyah narrated from him the people of Kufa, is Munkar-al-Hadith

 

It is quoted in Al-Kamil Ibn-Addi , juz 7 pg 185

قال بن يمان سمعت سفيان يسأل ياسين عن هذا الحديث وياسين العجلي هذا يعرف بهذا الحديث المهدي

Ibn-Yaman said I heard Sufyan (Al-Thori) questioned Yaseen about this hadith and Yaseen Al-Ajali is known for this hadith of Al-Mahdi

Bukhari has quoted this narration in Tahreek- Al-Kabeer and said فيه نظر i.e. be careful!

 

Ibn-Jawzi has included this narration in the list of manufactured narrations in his book Al-Illal Al-Muntanahiyyah fil Hadith al-Wahiya العلل المتناهية في الأحاديث الواهية . Qaisarani has also included it into his work on Madoaat i.e. Book on concocted narrations.

 

This narration tried to exclude Muhammad bin Hanfiyah from claim of Al-Mahdi as claimed by Mukhtariyah or Kesaniyah. So it is reported that Muhammad bin Hanfiyah heard from Ali otherwise he could have inform that Ali told him that he would be future Al-Mahdi.  Yaseen has attributed this narration to Muhammad bin Hanafiyah and thus subterfuge the followers of Muhammad bin Hanafiyah.

Appearance of Mahdi

 

It is reported in Sunan Abi Dawood  and Al-Hakim juz 20 pg 80 that

حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ تَمَّامِ بْنِ بَزِيعٍ حَدَّثَنَا عِمْرَانُ الْقَطَّانُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِى نَضْرَةَ عَنْ أَبِى سَعِيدٍ الْخُدْرِىِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « الْمَهْدِىُّ مِنِّى أَجْلَى الْجَبْهَةِ أَقْنَى الأَنْفِ يَمْلأُ الأَرْضَ قِسْطًا وَعَدْلاً كَمَا مُلِئَتْ جَوْرًا وَظُلْمًا يَمْلِكُ سَبْعَ سِنِينَ ».

Narrated Abi Saeed al-Khudri that Messenger of Allah peace be upon him said: Al-Mahdi is from me with wide forehead and straight nose and would fill the Earth with Justice and Balance as it had been filled with oppression and injustice.  In Mustadrak Al-Hakim’s narration it is further reported that he would live seven years afterwards.

This narration is reported by عمران القطان  Imran al-Qattan (d. between 160-170 AH), who was one of the stalwart supporers of Muhammad bin Abdulah Al-Mahdi.

 

In Tahrikh Yahyah bin Moin juz 2, pg 113 it is quoted

سمعت يحيى يقول عمران القطان كان يرى رأي الخوارج ولم يكن داعية

Dowri said I heard Yahyah bin Moin: Imran Al-Qattan hold the views of Khwarij, although he does not preach them.

In Tahrikh Yahyah bin Moin juz 2, pg 125 it is quoted

 

سمعت يحيى يقول عمران القطان ليس بشئ قلت هو أحب إليك أو أبو هلال قال أبو هلال

Dowri said I heard Yahyah bin Moin said: Imran Al-Qattan is nothing, I asked who would you prefer, Abu Hilal or Imran? He replied Abu Hilal

 

Tahzeeb al-Tahzeeb, juz 9 pg 173:  Nisai said  ليس بالقوي Not a strong narrator.

Tahzeeb al-Kamal, juz pg , Abi Dawood said :

ضعيف أفتى في أيام إبراهيم ابن عبدالله بن حسن بفتوى شديدة فيها سفيك دماء.

Weak, decreed during (the rising) days of Ibrahim bin Abdullah bin Hasan  very strongly which has  blood flowing (i.e. killing).

 

Dahabi has quoted the statement in Seer Alla al-Nublah, juz 7  pg  280

يزيد بن زريع: كان عمران القطان حروريا

Yazeed bin Zurrray said  that Imran belonged to sect of Harwariyah[16]

 

Imran Qattan was actually a strong supporter of Muhammad bin Abdullah Al-Mahdi. Muhammad bin Abdullah was deceived by the Banu Abbas who took the caliphate and did not made  Muhammad Al-Mahdi the caliph. Muhammad revolted against Banu Abbas in 145 AH. He was killed in battle. Later his brother Ibrahim bin Muhammad bin Abdullah also killed. In those days Ibrahim asked Imran Al-Qattan to give Fatwah on killing of Muslims, which he gave. In one of the narrations in Musnad Abi Yalah it is quoted that (juz 6 pg 499 )

 قال يزيد : وكان عمران حروريا ، وكان يرى السيف على أهل القبلة ، وكان إبراهيم لما خرج إلى البصرة فطلب الخلافة ولاه خراج الفرات ، قال وكان إبراهيم استفتاه في شيء فأفتاه عمران فيه بفتيا ، فأفتى إبراهيم رجالا يقول عمران : قتلوا كلهم

Yazeed (bin Zurray) said and Imran belonged to Harwariyah and he stretched the sword against Ahlul-Qiblah and when the Ibrahim went to Basra to seek Caliphate he took control of outlying areas of Euphrates. (Yazeed) said and Ibrahim asked (Imran) for a decree on some thing and he gave Fatwah and Ibrahim passed this to his people that Kill them all.

 

Ibn-Hajar said in Tahzeeb al-Tahzeeb, juz 8 pg 116

قال يزيد كان إبراهيم يعنى بن عبد الله بن حسن لما خرج يطلب الخلافة استفتاة عن شيء فأفتاه بفتيا قتل بها رجال مع إبراهيم انتهى وكان إبراهيم ومحمد خرجا على المنصور في طلب الخلافة لأن المنصور كان في زمن بني أمية بايع محمدا بالخلافة فلما زالت دولة بني أمية وولي المنصور الخلافة تطلب محمدا ففر فالح في طلبه فظهر بالمدينة وبايعه قوم وأرسل أخا إبراهيم إلى البصرة فملكها وبايعه قوم فقدر إنهما قتلا وقتل معهما جماعة كثيرة وليس هؤلاء من الحرورية في شيء

Yazeed (bin Zuray) said Ibrahim means bin Abdullah bin Hasan when came out for the desire of caliphate, he acquired the decree from him (Imran) on something, so he (Imran) decreed on the basis of that Ibrahim and his people  killed  and Ibrahim and (his brother Muhammad) did the Khurooj against the Al-Mansor for the desire of caliphate because Mansor had give his allegiance to Muhammad  during the reign of Banu Ummiyah and when the Umayyad rule is declined and Mansor become the ruler he pursued Muhammad and Muhammad ran off then later he (Muhammad bin Abdullah) appeared in Medinah and people gave their allegiance to him and he (Muhammad) sent off his brother Ibrahim to Basra where he took control and people gave him allegiance there and they killed and with them  (i.e. with Ibrahim ) many  people got killed and this has nothing to do with Hurwariyah.

 

It is quoted in Al- Mukhtasar fi Akhbar il Bashr – Khilafat Masoor on  pg 149

ثم دخلت سنة خمس وأربعين ومائة فيها ظهر محمد بن عبد الله بن الحسن ابن الحسين بن علي بن أبي طالب، واستولى على المدينة، وتبعه أهلها، فأرسل المنصور ابن أخيه عيسى بن موسى إِليه، فوصل إِلى المدينة، وخندق محمد ابن عبد الله على نفسه، موضع خندق رسول الله صلى الله عليه وسلم للأحزاب، وجرى بينهما قتال، آخره أن محمد بن عبد الله المذكور، فتل هو وجماعة من أهل بيته وأصحابه، وانهزم من سلم من أصحابه، وكان محمد المذكور، سميناً أسمر شجاعاً، كثير الصوم والصلاة، وكان يلقب المهدي، والنفس الزكية، ولما قتل محمد، أقام عيسى بن موسى بالمدينة أياماً، ثم سار عنها في أواخر رمضان يريد مكة معتمراً.

 

Then came the year One hundred and forty five (i.e. 145 AH)  when  the Mohammad bin Abdullah bin Hassan bin Hasan bin Ali bin Abi Talib rose (against Banu Abbas), and took control of Medinah,  (this act) supported by his family,   Al- Mansour sent his nephew Isa bin Moussa (too crush the rebels). He arrived at Medinah and Mohammed Ibn Abdullah made trench around city exactly where  Messenger of Allah peace be upon him trenched, and both the parties  fought until  Muhammad Ibn Abdullah killed along with the  group of his family and his companions, … and Muhammad was was nicknamed Al- Mahdi… (Afterwards) Isa bin Musa  ruled  Medinah  then went  in late Ramadan to Mecca to perform Umrah.

 

It is quoted in Sawalat Al-Ajari juz 1 pg 94

وكان سفيان يتكلم في عبد الحميد بن جعفر لخروجه مع محمد بن عبد الله بن حسن وسفيان يقول وان مر بك المهدي وأنت في البيت فلا تخرج اليه حتى يجتمع الناس وذك

Abi Dawood said: Sufiyan (Al-Thori) talked about Abdul-Hameed bin Jaffar and his khrooj with Muhammad bin Abdullah bin Hasan and Sufiyan said If the Mahdi passed by you and you are in house then do not go out until people gathered.

 

Sufiyan Al-Thori was thus instructing Abdul-Hameed bin Jafar to be careful in this situation.

 

It is clear that a staunch supported of Muhammad bin Abdullah and his brother Ibrahim has reported this narration. There is no doubt left but to believe that he has concocted this narration to gain political support for Muhammad bin Abdullah al-Mahdi

Supporters of Mahdi come from East

 

It is reported in Ibn- Majah juz 12 pg 256

حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى الْمِصْرِىُّ وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِىُّ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ عَبْدُ الْغَفَّارِ بْنُ دَاوُدَ الْحَرَّانِىُّ حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ عَنْ أَبِى زُرْعَةَ عَمْرِو بْنِ جَابِرٍ الْحَضْرَمِىِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ جَزْءٍ الزُّبَيْدِىِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « يَخْرُجُ نَاسٌ مِنَ الْمَشْرِقِ فَيُوَطِّئُونَ لِلْمَهْدِىِّ ». يَعْنِى سُلْطَانَهُ.

Abdullah bin Harith bin Juz Al-Zubaidi narrated that Messenger of Allah peace be upon him said People from East will come out and pave the way for  Al-Mahdi

The narrators  عَمْرِو بْنِ جَابِرٍ الْحَضْرَمِىِّ    and ابْنُ لَهِيعَةَ  both are weak narrators. Ahmed said in Al-Illal, juz 3 pg  146

بلغني أن عمرو بن جابر الحضرمي الذي حدث عنه بن لهيعة وسعيد بن أبي أيوب كان يكذب

It reached me that Amr bin Jabir Al-Hadrami, one from whom Ibn-Lahyah and Saeed bin Abi Ayoob narrated, was telling lies

This narration is also reported by Ibn Lahyah from Amr bin Jabir! It is reported in Tahzeeb Al-Kamal, juz 21 pg 559

سعيد بن أبي مريم قلت لابن لهيعة من عمرو بن جابر هذا قال شيخ منا أحمق كان يقول إن عليا في السحاب

Saeed bin Abi Maryam told: I asked Ibn Lahyah who is this , Amr bin Jabir? He replied An old stupid fellow who says that Ali (bin Abi Talib) is in clouds!

(For concept regarding Ali’s dwelling in clouds see the booklet Confluence of Streams)

It is reported in Mustadrak al-Hakim juz 19 pg  324; Ibn – Maja, juz 12, pg 253 also reported in Musnad Ahmed juz 5, pg 277

أخبرنا أبو عبد الله الصفار ، ثنا محمد بن إبراهيم بن أرومة ، ثنا الحسين بن حفص ، ثنا سفيان ، عن خالد الحذاء ، عن أبي قلابة ، عن أبي أسماء ، عن ثوبان رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : « يقتتل عند كنزكم ثلاثة كلهم ابن خليفة ، ثم لا يصير إلى واحد منهم ، ثم تطلع الرايات السود من قبل المشرق فيقاتلونكم قتالا لم يقاتله قوم – ثم ذكر شيئا فقال – إذا رأيتموه فبايعوه ولو حبوا (1) على الثلج ، فإنه خليفة الله المهدي »

Narrated Thobban that Messenger of Allah peace be upon him said: There would  fight near your treasure, all three would be the sons of caliphs but no body would get hold of this treasure (until) appear the flags of  black  cloth from East, they would flight you like no one did before – and then he said something with narrator did not remember – so when you notice them then give your allegiance even if you are dragged on ice, as there would be caliph of Allah Al-Mahdi among them.

 

The narrator Khalid Al-Hadha (خالد الحذاء) (d. 141 AH) from Basra is a weak narrator.

Ahmed said in Al-Illal , juz 2, pg 325

حدثني أبي قال قيل لابن علية في هذا الحديث فقال كان خالد يرويه فلم يلتفت إليه ضعف بن علية أمره يعني حديث خالد عن أبي قلابة عن أبي أسماء عن ثوبان عن النبي صلى الله عليه وسلم في الرايات

My father (Ahmed bin Hanbal) narrated that he asked Ibn-Ulliyah about this hadith He said Khalid narrated that and do not consider it, Ibn-Ulliyah declared it weak the hadith which Khalid narrated from Abi Qallabah from Abi Asma from Thoban from Messenger of Allah about the flags

 

Dahabi has also quoted this narration in Meezan Al-Atedal and said

قلت: أراه منكرا

I say: I take it as munkar narration

 

It is also reported with another chain in Musnad Ahmed, juz 5 , pg 277

حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا وكيع عن شريك عن على بن زيد عن أبي قلابة عن ثوبان قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إذا رأيتم الرايات السود قد جاءت من قبل خراسان فائتوها فان فيها خليفة الله المهدي

The narrator Ali bin Zaid bin Jadan علي بن زيد بن جدعان  (d. 129 AH) is a weak narrator. Yahyah bin Moin, Abu Hatim, Abu Zaraa and Al-Ajili said ليس بذاك القوي i.e. He is not that trustworthy.  Jozjani said واهي الحديث report useless narrations (see Tahzeeb ul-Kamal, juz 20, pg 434)

 

It is informed in this narration that there would be a fight between three person all sons of caliphs. After the demise of caliph Yazid bin Waleed bin Abdul-Malik (d 126 AH), Ibrahim bin Waleed become caliph for three months. He imprisoned and killed the sons of Yazid bin Waleed. In year 129 AH Abbasid revolted and appeared from Khurasan with black flags.

 

This narration actually informs that supporter of Al-Mahdi would come from East with black flags. It thus gave hint to listener the Abbasid uprising  in Khurasan. Ibn-Abari writes in  Tahrikh Mukhtasar Al-Dowal (  تاريخ مختصر الدول  ) juz 1 pg 64

وفي سنة تسع وعشرين ومائة بعث ابراهيم الامام إلى أبي مسلم بلواء يدعى الظل وراية تدعى السحاب فعقدهما على رمحين وأظهر الدعوة العباسية بخراسان وتأول الظل والسحاب أن السحاب يطبق الأرض وكما أن الأرض لا تخلو من الظل كذلك لا تخلو من خليفة عباسي آخر الدهر

In the year hundred and twenty-nine (129 AH)  sent Ibrahim Al-Imam (Abbasid revolutionary) a flag named Zil and flag called Sahab (cloud) to Abu Muslim, both were raised on  Spears  and appeared the Abbasid uprising in Khorasan and it is interpreted that as Earth is not free from shadow and cloud  so  Abbasid Caliph  would last forever.

 

In Marifa wal-Tarikh juz 1, pg 15 Abdullah bin Mubarrak said that

قال ابن المبارك: ذاكرني عبد الله بن إدريس السن فقال: ابن كم أنت ؟ فقلت: إن العجم لا يكادون يحفظون ذلك ولكن أذكر أني ألبست الساد وأنا صغير عندما خرج أبو مسلم. قال: فقال لي: وقد ابتليت بلبس السواد ! قلت: إني كنت أصغر من ذلك، كان أبو مسلم أخذ الناس كلهم بلبس السواد الصغار والكبار.

Ibn Al-Mubaarak: Abdullah bin Idris  asked me about age, and said: O boy how old are you ?  I said: the Non-Arabs barely keep this (record) but I remember I wore black clothes when I am small when Abu Muslim revolted. He said:  (Oh) you were involved in  this wearing of black! I said I was small, it was Abu Muslim (who forced ) people all wearing black, young and old.

 

Treasure of Kabbah?

It is reported in Musnad Ahmed, juz 18 , pg 382

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ حَدَّثَنِى أَبِى حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِى ذِئْبٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ سَمْعَانَ أَنَّه سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يُخْبِرُ أَبَا قَتَادَة أَنَّ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « يُبَايَعُ لِرَجُلٍ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالمَقَامِ وَلَنْ يَسْتَحِلَّ هَذَا الْبَيْتَ إِلاَّ أَهْلُهُ فَإِذَا اسْتَحَلُّوهُ فَلاَ تَسْأَلْ عَنْ هَلَكَةِ الْعَرَبِ ثُمَّ تَأْتِى الْحَبَشَةُ فَيُخَرِّبُونَهُ خَرَاباً لاَ يَعْمُرُ بَعْدَهُ أَبَداً وَهُمُ الَّذِينَ يَسْتَخْرِجُونَ كَنْزَهُ

 

Abu Qattadah informed that Messenger of Allah peace be upon him said: Pay allegiance to the man between the Rukun and the Maqam and it is not permissible for this House (Kabbah) except for the (keepers’s) family[17] if they allow him,  then don’t question the  destruction of  Arabs and then comes  (people from) Abyssinia,  who would vandalize it and it would not be established afterwards and they extract its  (Kabbah) treasure.

 

The narrator is سَعِيدِ بْنِ سَمْعَانَ , who is a weak narrator. Dahabi said in Meezan Al-Atedal, juz 2, pg 143

فيه جهالة. ضعفه الازدي، وقواه غيره. وقال النسائي: ثقة.

He is unknown, Al-Azdhi has weakened him and other supported him and Nisai said Authentic

 

About the treasure inside Kabbah, it is reported in Muqadmah Ibn- Khuldoon juz 1 pg 198 that

وقد وجد رسول الله صلى الله عليه وسلم حين افتتح مكة في الجب الذي كان فيها، سبعين ألف أوقية من الذهب، مما كان الملوك يهدون للبيت قيمتها ألف ألف دينار مكررة مرتين بمائتي قنطار وزناً.

 

The day Messenger of Allah peace be upon him conquered Makkah he found in the pit there (in Kabbah)  Seventy thousand ounces of gold, which were donated by Kings  for the House (Kabbah) worth thousand,  thousand dinars duplicated twice , 200 Qintar by weight.

 

 

It is reported in Sahih Muslim, juz 4 pg 97

حَدَّثَنِى أَبُو الطَّاهِرِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ عَنْ مَخْرَمَةَ ح وَحَدَّثَنِى هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الأَيْلِىُّ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِى مَخْرَمَةُ بْنُ بُكَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ نَافِعًا مَوْلَى ابْنِ عُمَرَ يَقُولُ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِى بَكْرِ بْنِ أَبِى قُحَافَةَ يُحَدِّثُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- أَنَّهَا قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ « لَوْلاَ أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثُو عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ – أَوْ قَالَ بِكُفْرٍ – لأَنْفَقْتُ كَنْزَ الْكَعْبَةِ فِى سَبِيلِ اللَّهِ وَلَجَعَلْتُ بَابَهَا بِالأَرْضِ وَلأَدْخَلْتُ فِيهَا مِنَ الْحِجْرِ »

Aisha narrated that she heard  Messenger of Allah peace be upon him said have your nation been not close to Jahiliah or Kufr age I would have distributed the treasure of Kabbah in the Way of Allah and would have made the door of Kabbah close to earth and would not enter it by Stone.

 

Prophet peace be upon him has not distributed this treasure of Kabbah and it remained there till 199 AH.

 

Ibn-Khuldoon reported that in Muqadmah ( juz 1 pg 198 )

وأقام ذلك المال إلى أن كانت فتنة الأفطس، وهو الحسن بن الحسين بن علي بن علي زين العابدين سنة تسع وتسعين ومائة، حين غلب على مكة عمد إلى الكعبة فأخذ ما في خزائنها وقال: ما تصنع الكعبة بهذا المال موضوعاً فيها لا ينتفع به، نحن أحق به نستعين به على، حربنا، وأخرجه وتصرف فيه وبطلت الذخيرة من الكعبة من يومئذ

And it (treasure) remained there till the Fitnah of Aftas- i.e. in 199 AH when Hussain bin Hussain bin Ali bin Ali Zain ul Abdeen intentionally took over Makkah  and took out the treasure  from Kabbah and said: What  Kabbah has to do  with this money? It’s a stuff  that does not benefit, We are more deserving of it, We fight (in way of Allah)! He took it out and used it and destroyed the treasure of Kabbah on that day.

 

Therefore the treasure of Kabbah was there in the time of narrator but not after 199 AH, which also indicate that these narrations were fabricated by avarice and greed narrators who unabashedly reported such narrations. Is this narration worthy to be called the statement of Prophet Peace be upon him?

 

Supporters of Mahdi- not from East

 

It is reported in Musnad Ibn-Maja, juz 2 pg  1366

حدثنا عثمان بن أبي شيبة . حدثنا معاوية بن هشام . حدثنا علي بن صالح عن يزيد ابن أبي زياد عن إبراهيم عن علقمة عن عبد الله قال بينما نحن عند رسول الله صلى الله عليه و سلم إذ أقبل فتية من بني هاشم . فلما رآهم النبي صلى الله عليه و سلم اغرورقت عيناه وتغير لونه . قال فقلت ما نزال نرى في وجهك شيئا نكرهه . فقال  : ( إنا أهل بيت اختار الله لنا الآخرة على الدنيا . وإن أهل بيتي سيلقون بعدي بلاء وتشريدا وتطريدا . حتى يأتى قوم من قبل المشرق معهم رايأت سود . فيسألون الخير فلا يعطونه . فيقاتلون فينصرون . فيعطون ما سألوا . فلا يقبلونه . حتى يدفعوها إلى رجل من أهل بيتي فيملؤها قسطا . كما ملؤوها جورا . فمن أدرك ذلك منكم فليأتهم ولو حبوا على الثلج )

 

Narrated Abdullah ibn Masood that we were with Messenger of Allah peace be upon him that a group of Bani Hashim came. Prophet started crying by looking at them  and his countenance changed. We asked O Messenger of Allah We see the signs of undesirable thing on your face. He said  We Alhlul Bayt have opted for Hereafter instead of this World and after my death my Ahlul Bayt would receive scourge and rejection until come people from East with black flags. You would ask them (favours), but they would not give them.  They would fight them and they (people of East) would be helped (by Allah). They give what they asked for. But people would not accept them (as rulers). Until they call (masses) towards a man from the people of my house,  who would fill Earth with justice as they fill her up with oppression.  So whoever can reach them must reach them even if dragged on ice.

 

The main narrator of this report is Yazeed bin Abi Zyad يزيد ابن أبي زياد (d 137 AH) from Kufa. For him, It is quoted in Tabaqat Al-Huffaz, juz 1 pg 10 : قال أحمد: لم يكن بالحافظ.

Ahmed said not a hafiz.  Ibn- Habban said in Majroheen juz 3 pg 101 that

Yahyah bin moin said    ليس بالقوى. And  Ahmed said Daeef

Dahabi said in Meezan juz 4, pg 423 that

وقال وكيع: يزيد ابن أبى زياد عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبدالله – يعنى حديث الرايات – ليس بشئ.

Wakee said: Yazeed bin Abii Zyad from Ibrahim from Alqamah from Abdullah – means hadith of flags- is nothing

وقال أحمد: حديثه ليس بذلك، وحديثه عن إبراهيم – يعنى في الرايات – ليس بشئ.

And Ahmed said his hadith is not like that and his hadith from Ibrahim – means about flags- is nothing

قلت: هذا ليس بصحيح، وما أحسن ما روى أبو قدامة: سمعت أبا أسامة يقول في حديث يزيد عن إبراهيم في الرايات: لو حلف عندي خمسين يمينا قسامة ما صدقته، أهذا مذهب إبراهيم ! أذها مذهب علقمة ! أهذا مذهب عبدالله.

Dahabi said: this narration is not authentic and what a nice is reported from Abu Qudammah he heard from Abu Usamah said about the hadith of Yazeed from Ibrahim about the flags:  Even if fifty people take an oath in front of me and say that he said this- I won’t accept that- is this the faith of Ibrahim? Is this the faith of Alqamah? Is this the faith of Abdullah (ibn Masood)?

 

War between East and Syrians

In year 132 AH Abbasid took the caliphate. The following year one Ummayad survivor with the name of Al-Sufyani appeared.  It is reported in Tahrikh Yaqobi by Ahmad al-Ya’qubi (d. 284 AH) , juz ,pg that

وخرج أبو محمد السفياني، وهو يزيد بن عبد الله بن يزيد بن معاوية بن أبي سفيان، بما لديه……… ، وكان ذلك سنة 133.

And appeared Abu Muhammad Al-Sufiyani, and he is Yazid bin Abdullah bin Yazid bin Muawiyah bin Abu Sufyan .. and this occurred in year 133 AH

It is reported in Mustadrak al-Hakim juz 4 pg 565

حدثنا أبو محمد أحمد بن عبد الله المزني ثنا زكريا بن يحيى الساجي ثنا محمد بن إسماعيل بن أبي سمينة ثنا الوليد بن مسلم ثنا الأوزاعي عن يحيى بن أبي كثير عن أبي سلمة عن أبي هريرة رضي الله عنه قال :

 قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : يخرج رجل يقال له السفياني في عمق دمشق و عامة من يتبعه من كلب فيقتل حتى يبقر بطون النساء و يقتل الصبيان فتجمع لهم قيس فيقتلها حتى لا يمنع ذنب تلعة و يخرج رجل من أهل بيتي في الحرة فيبلغ السفياني فيبعث إليه جندا من جنده فيهزمهم فيسير إليه السفياني بمن معه حتى إذا صار ببيداء من الأرض خسف بهم فلا ينجو منهم إلا المخبر عنهم

 

Abu Hurrairah narrated that Messenger of Allah peace be upon him said

A man called Sufiyani will come from centre of Damascus and most of  people that would follow him  would be from (Banu) Kalb, he would kill even women and disembowels them and would  kill  boys and then (to confront him ) gathered (Banu) Qais,  They would fight him  and he would kill them. Then comes out a man from the people of my home  from Hirrah and Sufiyani would send the army to  defeat him but he (Al-Mahdi) would defeat them. Then he (Sufiyani)  would come with people until he would reach Baidah and he would be swallowed by earth and no body from them would be saved except one who would inform about this (event).

The narrators have used the spun on the name of Abu-Sufiyan who was the father of Muawiyah and thus represent the Umayyad dynasty in Damascus. Banu Kalb, an Arabian clan, has received much importance in the era of Yazid bin Abdul Malik. In his era the governor of Iraq Mansoor bin Jamhoor was also from Banu Kalb.  Also in narration it is showed that Al-Mahdi would be a weak person. This is contradictory to narrations which state that his supporters would come from Khurasan.

 

Abundance of wealth

 

1. It is reported in Mustadrak al-Hakim juz 20 pg 83 and Ibn Majah that:

أخبرني أبو العباس محمد بن أحمد المحبوبي بمرو ، ثنا سعيد بن مسعود ، ثنا النضر بن شميل ، ثنا سليمان بن عبيد ، ثنا أبو الصديق الناجي ، عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، قال : « يخرج في آخر أمتي المهدي يسقيه الله الغيث (1) ، وتخرج الأرض نباتها ، ويعطي المال صحاحا ، وتكثر الماشية وتعظم الأمة ، يعيش سبعا أو ثمانيا » يعني حججا

Abi Saeed al-Khudari said that Messenger of Allah peace be upon him said

Al-Mahdi will Come out in the end of my Ummah , Allah would pour rain over  the Earth and it would grow its plants and money will be given to deserving, and livestock and the pride of the nation  would increase, he would  live seven or eight years

It is reported by Abu-Siddique Al-Naji أبو الصديق الناجي بكر بن عمرو  (d. 180 AH). He is also called بكر بن قيس . In general he is considered as a siqah narrator but Ibn Saad said in Tabaqat

قال: ويتكلمون في أحاديثه ويستنكرونها

Said: they talked about his narrations and reject them

This narration from Abu Siddique Al-Najai is heard by very weak narrators like Zayd al-Ammi, Maqatil bin Hayyan, Auf bin Abi Jamilah etc.

 

It is reported in Ibn-Maja, juz 12, pg 253

 

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِىٍّ الْجَهْضَمِىُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْوَانَ الْعُقَيْلِىُّ حَدَّثَنَا عُمَارَةُ بْنُ أَبِى حَفْصَةَ عَنْ زَيْدٍ الْعَمِّىِّ عَنْ أَبِى صِدِّيقٍ النَّاجِىِّ عَنْ أَبِى سَعِيدٍ الْخُدْرِىِّ أَنَّ النَّبِىَّ –صلى الله عليه وسلم- قَالَ « يَكُونُ فِى أُمَّتِى الْمَهْدِىُّ إِنْ قُصِرَ فَسَبْعٌ وَإِلاَّ فَتِسْعٌ فَتَنْعَمُ فِيهِ أُمَّتِى نَعْمَةً لَمْ يَنْعَمُوا مِثْلَهَا قَطُّ تُؤْتَى أُكُلَهَا وَلاَ تَدَّخِرُ مِنْهُمْ شَيْئًا وَالْمَالُ يَوْمَئِذٍ كُدُوسٌ فَيَقُومُ الرَّجُلُ فَيَقُولُ يَا مَهْدِىُّ أَعْطِنِى فَيَقُولُ خُذْ ».

Narrated Abu-Saeed Al-Khudri that Messenger of Allah peace be upon him said  There would be Al-Mahdi  in my Ummah if shortened then seven otherwisr nine (year? ) my Ummah would enjoy as it would not haved enjoyed before. …..

The narration is reported by Zayd Al-Ammi from Abu Siddique Al-Naji, the chain is

عَنْ زَيْدٍ الْعَمِّىِّ عَنْ أَبِى صِدِّيقٍ النَّاجِىِّ

Ahmed said in Al-Illal , juz 3, pg 465

قال فأما حديث زيد العمي عن أبي الصديق ليس بشئ

Said as far as hadith Zaid Al-Ammi from Abi Al-Siddique is concerned, its nothing

 

2. In Musnad Ahmed it is quoted with another chain as well juz 24, pg 166

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ حَدَّثَنِى أَبِى حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ عَنِ الْمُعَلَّى بْنِ زِيَادٍ حَدَّثَنَا الْعَلاَءُ بْنُ بَشِيرٍ عَنْ أَبِى الصِّدِّيقِ النَّاجِىِّ عَنْ أَبِى سَعِيدٍ الْخُدْرِىِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم-

In this chain the narrator الْعَلاَءُ بْنُ بَشِيرٍ  is unknown. Ali Al-Madini called him Majhool (Tahzeeb ul-Kamal, juz 22 pg 276 )

مجهول لم يرو عنه غير المعلى بن زياد

Unknown, no one report from him except Al-Mualli bin Zyad

This narration is also narrated by Al-Mualli bin Zyad

 

3. It is reported in Abi Dawood Kitab Al-Mahdi and Musnad abi Yalah that

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ حَدَّثَنِى أَبِى عَنْ قَتَادَةَ عَنْ صَالِحٍ أَبِى الْخَلِيلِ عَنْ صَاحِبٍ لَهُ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « يَكُونُ اخْتِلاَفٌ عِنْدَ مَوْتِ خَلِيفَةٍ فَيَخْرُجُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ هَارِبًا إِلَى مَكَّةَ فَيَأْتِيهِ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ فَيُخْرِجُونَهُ وَهُوَ كَارِهٌ فَيُبَايِعُونَهُ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْمَقَامِ وَيُبْعَثُ إِلَيْهِ بَعْثٌ مِنَ الشَّامِ فَيُخْسَفُ بِهِمْ بِالْبَيْدَاءِ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فَإِذَا رَأَى النَّاسُ ذَلِكَ أَتَاهُ أَبْدَالُ الشَّامِ وَعَصَائِبُ أَهْلِ الْعِرَاقِ فَيُبَايِعُونَهُ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْمَقَامِ ثُمَّ يَنْشَأُ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ أَخْوَالُهُ كَلْبٌ فَيَبْعَثُ إِلَيْهِمْ بَعْثًا فَيَظْهَرُونَ عَلَيْهِمْ وَذَلِكَ بَعْثُ كَلْبٍ وَالْخَيْبَةُ لِمَنْ لَمْ يَشْهَدْ غَنِيمَةَ كَلْبٍ فَيَقْسِمُ الْمَالَ وَيَعْمَلُ فِى النَّاسِ بِسُنَّةِ نَبِيِّهِمْ -صلى الله عليه وسلم- وَيُلْقِى الإِسْلاَمُ بِجِرَانِهِ إِلَى الأَرْضِ فَيَلْبَثُ سَبْعَ سِنِينَ ثُمَّ يُتَوَفَّى وَيُصَلِّى عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ ». قَالَ أَبُو دَاوُدَ قَالَ بَعْضُهُمْ عَنْ هِشَامٍ « تِسْعَ سِنِينَ ». وَقَالَ بَعْضُهُمْ « سَبْعَ سِنِينَ ».

Narrated Ume Salmah that Messenger of Allah peace be upon him said that on the dispute of death of a caliph will come out  a person from Medinah and flee to Makkah. The people of Makkah will find him out and forced him  ( to declare himself Al-Mahdi) and they give oath of allegiance (to him) between Rukun (of Kabah) and Maqam  (Al-Ibrahim) and (to confront Al-Mahdi ) an army would be sent against him from Syria until they would be swallowed by Earth at Baidah between Makkah and Medinah. When people witness that the Abdal[18] of Syrian and leaders of Iraq would give their allegiance (to Al-Mahdi)  between rukun and Maqam- Then rise a man from Quraish whose maternal relative would be from Banu Kalb and he would send an army against  him (Al-Mahdi) but would be defeated. Woo to a person who would not come and get the booty  of Banu Kalb! He (Al-Mahdi) would distribute the booty as per the Sunnah of Prophet- the mill of Islam would be restarted and he would remain among them for seven years and then die and Muslims would say his funeral prayer. Abu Dawood said in some narrations from Hasham, nine years and other said seven years.

 

 

The sanad of the narration is suffering with Idhtrab i.e. non-uniformity some times the narrator said Salah Abi Khalil from عَنْ صَاحِبٍ لَهُ his person (unknown). Sometimes he said  Salah Abi Khalil from Mujahid and sometimes said Salah Abi Khalil from Harith. But which Harith and Mujahis are these?

Mahdi and Eclipse

It is reported in Sunan Darqutni, juz 2 pg  65

حدثنا أبو سعيد الأصطخري ثنا محمد بن عبد الله بن نوفل ثنا عبيد بن يعيش ثنا يونس بن بكير عن عمرو بن شمر عن جابر عن محمد بن علي قال : إن لمهدينا آيتين لم تكونا منذ خلق السماوات والأرض تنكسف القمر لأول ليلة من رمضان وتنكسف الشمس في النصف منه ولم تكونا منذ خلق الله السماوات والأرض

Also reported in Kitab Al-Fitan by Naeem bin Hammad juz 1, pg 133

 

الوليد قال بلغني عن كعب أنه قال يطلع نجم من المشرق قبل خروج المهدي

Waleed said it is reached us that Kaab said the star will rise from East before the appearance of Al-Mahdi

 

قال وحدثت عن شريك أنه قال بلغني أنه قبل خروج المهدي تنكسف الشمس في شهر رمضان مرتين

Solar  eclipse would occur twice in Ramadan before the appearance of al-Mahdi

In Takhrikh Yaqoubi it is informed that Ibrahim bin Abdullah bin Hasan bin Hasan took Basra in Ramadan

وخرج إبراهيم بن عبد الله بن حسن بن حسن بن علي بن أبي طالب بالبصرة وقد بايع أهلها وكان خروجه في أول شهر رمضان

And revolted Ibrahim bin Abdullah bin Hasan bin Hasan bin Ali bin Abi Talib in Basra and his family gave him allegiance oath and he appeared in the beginning of month of Ramadan.

Establishment of Doulah

 

Abbasid called their rule Doulah i.e. New Order. Ibn-Jawizi (d. 597 AH)   has reported,  in Al-Muntazim, juz 2, pg 436,  the speech delivered by first Abbasid Caliph Abu Abbas Al-Saffah at the time of oath taking as a caliph in year 132 AH.

 

وكان موعوكاً فاشتد عليه الوعك، فجلس على المنبر وتكلم فقال: إنا والله ما خرجنا لنكثر لجيناً ولا عقياناً، ولا نحفر نهراً، وإنما أخرجتنا الأنفة من ابتزازهم لحقنا، ولقد كانت أموركم ترمضنا، لكم ذمة الله عز وجل، وذمة رسوله صلى الله عليه وسلم وذمة العباس أن نحكم فيكم بما أنزل الله، ونعمل بكتاب الله، ونسير فيكم بسيرة رسول الله صلى الله عليه وسلم، واعلموا أن هذا الأمر فينا ليس بخارج منا حتى نسلمه إلى عيسى ابن مريم.

He was suffering from the disease whose effects are worsened so he  sat on a podium and spoke : Indeed by Allah, …… judge according to what Allah has revealed, and we would  follow the book of God, and we go through the life of the Prophet, and know that Caliphate   would  remain with us  and would not go out of us until  we hand it over to Jesus, son of Mary.[19]

 

Further Al-Yaqoubi wrote about the offer AsSaffah, which he gave to Muhammad bin Abdullah to surrender and give his allegiance.

ووجدت كتب لابن هبيرة إلى محمد بن عبد الله بن حسن يعلمه أن يبايع له، وأن قبله أموالاً وعدة وسلاحاً، وأن معه عشرين ألف مقاتل، فأنفذت الكتب إلى أبي العباس، فقال أبو العباس: نقض عهده، وأحدث ما أحل به دمه، فكتب إلى أبي جعفر: أن اضرب عنقه، فإنه غدر

 

And I found letter  written by Ibn Hebira to Mohammed bin Abdullah bin Hassan to pursade him to pay allegiance to AsSaffah,  and if he accept it to offer him  promise and money and  weapon, and with him he gave twenty thousand combatants, which Muhammad rejected so he sent a letter  to  Abu Abbas , and Abu Abbas said : he has not kept the promise …. and he wrote to Abu Ja’far: give his neck, he betrayed

 

But Muhammad went underground and survived. In year 136 AH, AsSaffah died and  Abu Jafar Al-Mansor become the caliph. Abu Jaffar expanded the Masjid al-Haram and in year 140 AH he visited Makkah to see the expansion project while he was there he heard that  (from Tahrikh Yaqoubi)

 

وقد كان بلغه أن محمد بن عبد الله بن حسن بن حسن تحرك فلما قدم المدينة طلبه فلم يظفر به فأخذ عبد الله بن حسن بن حسن وجماعة من أهل بيته فأوثقهم في الحديد وحملهم على الإبل بغير وطاء وقال لعبد الله: دلني على ابنك وإلا والله قتلتك فقال عبد الله: والله لامتحنت بأشد مما امتحن الله به خليله إبراهيم

And reached him the news of movement of Muhammad bin Abdullah bin Hasan bin Hasan (against him) so when Abu Jaffar reached Medinah to capture Muhammad he did not got him so he took Abdullah bin Hasan bin Hasan and a group of Muhammad’s family and put them in iron chains and loaded them on camels with out saddle and said to Abdullah: Inform me about your son and by Allah I would kill you! Abdullah replied I have been tested much severely even more then the way Ibrahim peace be upon him was tested

 

Abdullah bin Hasan died in this torture. Muhammad remained underground until 145 AH. (from Tahrikh Al-Yaqubi)

 

وظهر محمد بن عبد الله بن حسن بن حسن بالمدينة مستهل رجب سنة 145 فاجتمع معه خلق عظيم وأتته كتب أهل البلدان ووفودهم فأخذ رياح ابن عثمان المري عامل أبي جعفر فأوثقه بالحديد وحبسه وتوجه إبراهيم ابن عبد الله بن حسن بن حسن إلى البصرة وقد اجتمع جماعة

 

 

And appeared Mohammed bin Abdullah bin Hassan bin Hassan  in Medinah  in beginning of Rajab, in the year 145, gathered around him a lot of people and he  who wrote  to the people of countries and their delegations, he took Riyah Ibn Uthman Al-Mari, the governor of   Abu Jaafar  and put him in iron chains and  imprisoned him and  Ibrahim bin Abdullah bin Hassan bin Hassan  focused on  Basra and gathered many people

Mahdi or Messiah

It is reported in Tirmidhi that

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ يُونُسَ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ الزُّهْرِىِّ عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « تَخْرُجُ مِنْ خُرَاسَانَ رَايَاتٌ سُودٌ لاَ يَرُدُّهَا شَىْءٌ حَتَّى تُنْصَبَ بِإِيلِيَاءَ ». هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ

Narrated Abi Hurrairah that Prophet peace be upon him said  Come out form Khorasan black flages and they would not be rejected  until they reach Aelia (Capitolina)[20]

 

This narration contains Rishdeen bin Saad (d. 188 AH) . He is also considered as one weak narrator and careless person.

 

Al-Mahdi would act like a Jewish Messiah as well.  It is reported in Musanif Abdur Razzaq, juz 11 pg  372

أخبرنا عبد الرزاق عن معمر عن مطر قال كعب إنما سمي المهدي لأنه لا يهدي لأمر قد خفي قال ويستخرج التوراة والإنجيل من أرض يقال لها أنطاكية

Kaab said: He would be called Al-Mahdi because he would guide us towards the hidden and extract the Torah and Gospel from land called Antioch.

 

It is reported in Kitab Al Fitan pg 220 by Naeem bin Hammad that

 

حدثنا أبو يوسف المقدسي عن صفوان بن عمرو عن عبد الله بن بشر الخثعمي عن كعب قال المهدي يبعث بقتال الروم يعطي فقه عشرة يستخرج تابوت السكينة من غار بأنطاكية فيه التوارة التي أنزل الله تعالى على موسى عليه السلام والإنجيل الذي أنزله الله عز وجل على عيسى عليه السلام يحكم بين أهل التوراة بتوراتهم وبين أهل الإنجيل بإنجيلهم.

Kaab said: Al-Mahdi would send army to fight Rome and give ten knowledgeable people who would extract Ark of the  Covenant from a cave in Antioch, which has the Torah sent down by Allah on Moses and Gospel sent down   by Allah on Jesus , he would give rulings for people of Torah from Torah  and between people of Gospel by their Gospel.

 

The Ark of the Covenant –Taboot Al-Sekinah – is lost since 586 BC when  the Babylonians destroyed Jerusalem and  Masjid al-Aqsa (Solomon’s Temple). The zeal for finding the Ark indicate that there were Jewish themes circulating among the supporters of Al-Mahdi.

Robert G. Hoyland has quoted from “Geniza Fragment” an interesting Jewish text of the Ummayad era (Seeing Islam as other saw it, 1997, pg 317-318), which has described the signs of Messiah. One of the signs is:

sixth sign: Solar Eclipse over all people except Israel

Thus the Jewish apocalyptic literature was used by the narrators to proclaim the appearance of Al-Mahdi.

Neil Asher Silberman writes in his book Heavenly Powers Unraveling the  Secret History of the Kabbalah  (pg 28) that:

” Works like Otot ha-Mashiach, Sings of Messiah, Agadat ha-Maschiach, Legend of Messiah, describe God’s coming intervention in history through a great war led by warriors in Persian costume. A late saying ascribed to Rabbi Simeon bar Yohai warned that if you see the  horse of the Persian tied to a post in the land of Israel, expect the footsteps of the Messiah. Yet these specific predictions, translated into prescriptions for political action, proved to be extremely dangerous”

Reader might  remember that Al-Mahdi will appear from Khurasan (in Persia) and thus the juxtaposition of these two predictions from Jewish and Islamic literature proved the point that the mainstream Khurasani movement got its impulse from Jewish apocalyptic literature.

Abdullah bin Saba preached the concept of Rijah that souls of righteous would be returned on arrival of Al-Mahdi.  In Judaism this is  believed that all souls are gathered in a great cage or treasure-house in heaven, a columbarium, called “Guf”. Rabbi Assi taught that the Messiah, the son of David, will not come until all the souls be taken out of the Guf, and have gone through human bodies (Yeb. 62a, 63b; Niddah 13b; and elsewhere) [21].

In this short treatise the attempt is made to bring on the table the facts and findings related to the narrations of Al-Mahdi. The similitude between the events which occurred in Muslim history from 125 AH till 145 AH and the Al-Mahdi narrations is explored. It is showed that the narrators of these reports were highly biased in support of their political views and exhibited no shame in manufacturing narrations. The narrators of Al-Mahdi narration are all weak. The reports of Al-Mahdi are actually the propagandist strategy to  spread the news of an event which is planned to be executed in future.  These narrations gave impulse to all  so-called prophesized Mahdis in Muslim history which later appeared like Al-Mahdi Muhammad bin Hasan al-Askari, Al-Mahdi Sudani, Al-Mahdi Joanpuri, Al-Mahdi Mirza Ghullam Ahmed Qadiyani etc.

 


[1] There are many weak and concocted narrations reported in Musnad  Ahmed, Mustadrak Al-Hakim, Musanif Abdur Razzaque etc., which claim that Ali sent his sons Hussain and Hasan to defend Uthman, or Ali intervened to supply water to besieged caliph or that Uthman made an speech from the roof of his house etc.

[2] Madahib Al-Islamiyah by Abu Zahrah Al-Misri. The Johannites are a sect of Gnostics who acknowledge John the Baptist as the prophesized Messiah and probably Mukhtar belong to underground Gonostic sect active in Iraq.

[3] Rijah means returning – from realm of death back to this world. The concept is that the Shiite who had died in reign of oppression would take their revenge , as Allah is Adil i.e. Just.

[4] Imam Abu Jafar Al-Sadique by Abu Zahra Al-Misri

[5] Abjad letters from then on wards become mystical and now widely used in fortune telling, magic and mysticism. The approach is quite similar to Jewish mysticism especially see the book Shir Qomah, an ancient text  in which explains  how Hebrew alphabets are representing the body of God Almighty.

[6] Maqallat Al-Islamiyeen by Abul Hasan Al-Ashari

[7] According to Zareer bin Abdullah, Doafa Dar-Qutani

[8] Logos or Kalimah is an ancient concept with sources in Greek religion that the world is made via Logos. The Gospel of John identifies the Logos, through which all things are made, as divine and further identifies Jesus as the incarnate Logos.

[9] Khabshiyah was a  Shiite sect claimed that they would not raise sword against opponents rather they prefer to kill with sticks of wood.  Khashab in Arabic means wooden.

[10] Tahrikh Ibn-Atheer, Tahreekh Ibn-Khuldoon

[11] Khurasan in those days was comprised of part of modern day Iran, Afghanistan, Turkamanistan and Pakistan. The important cities were Hirat, Bulkh, Nisahpur.

[12] Tahreek Ibn-Khuldoon, juz 2, pg 301

[13] Maqatil Al-Talbeen by Abul-Faraj Al-Ishbahani,  juz 1 pg 69

[14] The scholars who believe in Al-Mahdi narrations  defend these narrations and argue that Tirmidhi has called this narration Hasan.  Tirmidhi has introduced the term Hasan in hadith which does not mean that it is Sahih narration. Dahabi said in Meezan Al-Ateedal juz 3 pg 407 لا يعتمد العلماء على تصحيح الترمذي

Scholars do not rely on the authentication of Tirmidhi

Dahabi also said (Meezan, juz 4 pg 416 ) فلا يغتر بتحسين الترمذي، فعند المحاققة  غالبها ضعاف

Not deceived by saying of Hasan by  Al Tirmidhi, by us in reality most are weak

 

[15] The scholars who believe in Al-Mahdi narrations  also say that Abi Dawood has said nothing against these narrations and thus to him they are authentic. To prove their claim they present the letter of Abi Dawood to People of Makkah a letter attributed to Abi Dawood, where he said that in Sunnan he would indicate the weakness of narrations.

وما كان في كتابي من حديث فيه وهن شديد فقد بينته ومنه مالا يصح سنده

And there is no hadith in my book at which I have not indicated the big weaknesses and there are which have non-correct chains

Dahabi has addressed this issue in his work Seer Allam Al-Nublah juz 13 pg 214 where he said

فمثل هذا يمشيه أبو داود، ويسكت عنه غالبا،

And similar to such narration Abu Dawood has moved on and kept quiet often

Abi Dawood kept quiet and even narrated from Matrook (Discarded) narrators, unknown narrators and forgets (see the noting of Abul-Fattah Ibn-Gaddah Taleeqat on Risalah Ila Ahlul Makkah, pg 40)

 

[16] Harwarriyah was the place from which first apperaed Khwarij i.e. the opponents of Ali.  Imran is infact not Kharji. He is Shiite but due to his decree on Killings as done by Khawarij people called him Kharji

[17] Means Banu Hashim, as they were the door-keepers of Kabbah since Pre-Islamic period.

[18] Abdal means the freed  slaves or Mawala

[19] There is narration which says

وقال الحارث بن أبي أسامة في ((مسنده)), حدثنا إسماعيل بن عبد الكريم, حدثنا إبراهيم بن عقيل, عن أبيه, عن وهب بن منبه, عن جابر- رضي الله عنه – قال: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم – : (( ينزل عيسى بن مريم فيقول أميرهم المهدي: تعال, صل بنا, فيقول: لا , إن بعضهم أمير بعض, تكرمة الله لهذه الأمة )

 i.e. Jesus would descend and pray behind a leaders of Muslims al-Mahdi. This narration is actually reported in Musnad  Harith bin Abi Usama. The chain is broken as the narrator Wahab bin Munabah (d. 119 AH) has not heard any thing from Jabir bin Abdullah.

[20] Jerusalem

[21] see http://www.jewishencyclopedia.com/articles/8092-immortality-of-the-soul

 

 

Eschatology

Naml-82

And when the word is fulfilled concerning them, We shall bring forth a beast of the earth to speak unto them because mankind had not faith in Our revelations. (Al-Naml 82)

Eschatology is related to events at the end of the World.  Following themes are discussed so far: