مباہلہ کرنے کي بدعت

اہل سنت ميں المقريزي (المتوفى: 845هـ) کي کتاب إمتاع الأسماع بما للنبي من الأحوال والأموال والحفدة والمتاع کے مطابق رمضان سن 9 ہجري سے پہلے
اہل نجران کا نصراني وفد مدينہ آيا – السيرة النبوية لابن هشام يا سيرت ابن اسحق کے مطابق يہ وفد سن 9 ہجري ميں آيا – وفد نجران نصراني علماء پرمشتمل تھا جو رسول عربي محمد صلي اللہ عليہ وسلم سے ملنے آيا تھا اور الوہيت باري تعالي پر کلام کرنا چاہتا تھا اور جزيہ نہيں دينا چاہتا تھا جس کا حکم سورہ المائدہ ميں درج ہے

اس وقت تک سورہ ال عمران کي جنگ احد سے متعلق آيات نازل ہو چکي تھيں ليکن آيات مباہلہ ابھي تک اس ميں درج نہيں کي گئي تھي – نصراني وفد رسول اللہ پر جب ايمان نہ لايا تو ان کو آخري حد دي گئي کہ اگر وہ سمجھتے ہيں کہ وہ حق پر ہيں تو پھر بد دعا کريں اہل ايمان و رسول اللہ کے لئے اور رسول اللہ اور اہل ايمان بد دعا کريں گے نصرانيوں کے لئے – اس ميں دونوں جانب سے لوگ اپنے گھر والوں کے ساتھ آئيں گے ، ميدان ميں جمع ہوں گے اوربد دعا کي جائے گي

سورہ ال عمران کي آيات 59 تا 61 ہيں

اِنَّ مَثَلَ عِيسى عِنْدَ اللّـهِ كَمَثَلِ ادَمَ خَلَقَه مِنْ تُرَابٍ ثُـمَّ قَالَ لَـه كُنْ فَيَكُـوْنُ (59)
بے شک عيسي کي مثال اللہ کے نزديک آدم کي سي ہے، اسے مٹي سے بنايا پھر اسے کہا کہ ہو جا پھر ہو گيا

اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُنْ مِّنَ الْمُمْتَـرِيْنَ (60)
حق وہي ہے جو تيرا رب کہے پھر تو شک کرنے والوں ميں سے نہ ہو

فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ
اپنے بيٹوں کو لاو اور اپني عورتوں کو لاو

پھر جو کوئي تجھ سے اس واقعہ ميں جھگڑے بعد اس کے کہ تيرے پاس صحيح علم آچکا ہے تو کہہ دے کہ آؤ ہم اپنے بيٹے اور تمہارے بيٹے اور اپني عورتيں اورتمہاري عورتيں اور اپني جانيں اور تمہاري جانيں بلائيں، پھر سب التجا کريں اور اللہ کي لعنت ڈاليں ان پر جو جھوٹے ہوں

روايات ميں ہے کہ 60 مرد نجران سے آئے تھے ان ميں عورتيں نہ تھيں لہذا مباہلہ اسي صورت ہوتا کہ يہ واپس جا کر اپنے اہل و عيال کو لاتے لہذا جب يہ بات يہاں تک پہنچي تو نصراني ڈر گئے اور انہوں نے جزيہ دينا قبول کيا – صحيح بخاري 4380 ميں ہے

حَدَّثَنِي عَبَّاسُ بْنُ الْحُسَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِسْرَائِيلَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ صِلَةَ بْنِ زُفَرَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حُذَيْفَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ جَاءَ الْعَاقِبُ، ‏‏‏‏‏‏وَالسَّيِّدُ صَاحِبَا نَجْرَانَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدَانِ أَنْ يُلَاعِنَاهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ:‏‏‏‏ لَا تَفْعَلْ، ‏‏‏‏‏‏فَوَاللَّهِ لَئِنْ كَانَ نَبِيًّا فَلَاعَنَّا لَا نُفْلِحُ نَحْنُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا عَقِبُنَا مِنْ بَعْدِنَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ إِنَّا نُعْطِيكَ مَا سَأَلْتَنَا، ‏‏‏‏‏‏وَابْعَثْ مَعَنَا رَجُلًا أَمِينًا وَلَا تَبْعَثْ مَعَنَا إِلَّا أَمِينًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ “لَأَبْعَثَنَّ مَعَكُمْ رَجُلًا أَمِينًا حَقَّ أَمِينٍ”، ‏‏‏‏‏‏فَاسْتَشْرَفَ لَهُ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ “قُمْ يَا أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ”، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا قَامَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ “هَذَا أَمِينُ هَذِهِ الْأُمَّةِ”.

مجھ سے عباس بن حسين نے بيان کيا، کہا ہم سے يحيي بن آدم نے بيان کيا، ان سے اسرائيل نے، ان سے ابواسحاق نے، ان سے صلہ بن زفر نے اور ان سےحذيفہ رضي اللہ عنہ نے بيان کيا کہ نجران کے دو سردار عاقب اور سيد، رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم سے مباہلہ کرنے کے ليے آئے تھے ليکن ايک نے اپنے دوسرے ساتھي سے کہا کہ ايسا نہ کرو کيونکہ اللہ کي قسم! اگر يہ نبي ہوئے اور پھر بھي ہم نے ان سے مباہلہ کيا تو ہم پنپ نہيں سکتے اور نہ ہمارے بعد ہماري نسليں رہ سکيں گي- پھر ان دونوں نے نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم سے کہا کہ جو کچھ آپ مانگيں ہم جزيہ دينے کے ليے تيار ہيں- آپ ہمارے ساتھ کوئي
امين بھيج ديجئيے، جو بھي آدمي ہمارے ساتھ بھيجيں وہ امين ہونا ضروري ہے- نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا کہ ميں تمہارے ساتھ ايک ايسا آدمي بھيجوں گا جو امانت دار ہو گا بلکہ پورا پورا امانت دار ہو گا- صحابہ رضي اللہ عنہم نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم کے منتظر تھے، آپ نے فرمايا کہ ابوعبيدہ بن الجراح! اٹھو جب وہ کھڑے ہوئے تو نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا کہ يہ اس امت کے امين ہيں

دور نبوي کے بعد قرون ثلاثہ تک کسي موقعہ پر بھي اس کے بعد اہل کتاب يا مشرکوں سے مباہلہ نہ کيا گيا – اس طرح اس پر اجماع امت ہو گيا کہ يہ مباہلہ کرنا صرف نبي صلي اللہ عليہ وسلم کے لئے خاص تھا

ابن حجر کتاب فتح الباری میں لکھتے ہیں

وَفِيهَا مَشْرُوعِيَّةُ مُبَاهَلَةِ الْمُخَالِفِ إِذَا أصر بعد ظُهُور الْحجَّة وَقد دَعَا بن عَبَّاسٍ إِلَى ذَلِكَ ثُمَّ الْأَوْزَاعِيُّ وَوَقَعَ ذَلِكَ لِجَمَاعَةٍ مِنَ الْعُلَمَاءِ
اس میں مباھلہ کی مشروعیت ہے کہ جب مخالف حجت کے ظاہر ہو جانے کے بعد بھی اصرار کرے اور ابن عباس نے اس کو طرف بلایا ہے پھر الْأَوْزَاعِيُّ نے اورعلماء کی ایک جماعت نے

سنن الکبری از بیہقی، سنن دارقطنی میں ہے
وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيُّ، وَأَبُو بَكْرٍ قَالَا: أنا عَلِيٌّ، نا يُوسُفُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ بُهْلُولٍ، نا جَدِّي، نا أَبِي، نا أَبُو جُزَيٍّ نَصْرُ بْنُ طَرِيفٍ عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: ” مَنْ شَاءَ بَاهَلْتُهُ أَنَّهُ لَيْسَ لِلْأَمَةِ ظِهَارٌ وَاللهُ أَعْلَمُ
ابن عباس نے کہا جو چاہے اس پر مباہلہ کرے کہ لونڈی کے حوالے سے ظِهَار نہیں ہے

اس کی سند میں أَبُو جُزَيٍّ نَصْرُ بْنُ طَرِيف متروک ہے

تفاسیر میں عکرمہ کا قول ہے کہ آیت
وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِيمًا
پر جو چاہے مباہلہ کرے کہ یہ ازواج النبی کے بارے میں ہے

راقم کہتا ہے کہ اس قول کی سند نہیں ہے خود عکرمہ مجروح ہے

الْأَوْزَاعِيُّ سے منسوب قول معلوم نہیں کہ کون سا ہے

دیو بندی انور کاشمیری فیض الباری میں کہتے ہیں
واعلم أن المُبَاهَلَةَ تَجُوزُ في المضايق الآن أيضًا
جان لو کہ مباہلہ اب بھی دل تنگ کرنے والی باتوں میں جائز ہے

راقم کہتا ہے مباہلہ کرنا صرف رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کے لئے خاص تھا اور انہوں نے بھي مباہلہ نہيں کيا کيونکہ نصراني ڈر کر بھاگ گئے تھے – يہ شان صرف رسول اللہ کي ہے کہ ان کا مخالف تباہ و برباد کر ديا جائے گا – امت محمد کے فرقوں کا اپس ميں ايک دوسرے سے مباہلہ کرنا احقانہ عمل ہے کيونکہ 73 فرقوں والي حديث ميں موجود ہے کہ امت کے کے گمراہ فرقے اور فرقہ الناجيہ ايک ساتھ رہيں گے نہ کہ گمراہ فرقے مباہلہ پر معدوم ہو جائيں گے

آٹھویں صدی سے قبل کوئی حوالہ نہیں ملا جس میں ہو کہ فرقے ایک دوسرے کو مباہلہ کے چیلنج دے رہے ہوں

2 thoughts on “مباہلہ کرنے کي بدعت

  1. muhammad suhaib

    برائے مہربانی! کیا آپکا رابطہ نمبر مل سکتا ہے؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      سلام صہیب صاحب
      میں صرف اس ویب سائٹ پر تحریری بات کرتا ہوں
      شکریہ

      Reply

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *