معلوم ہے کہ حدیث بخاری جس میں قبر میں سوال کا ذکر ہے اس میں مندرجہ ذیل سوال ہیں
من نبیک ہے کہ تمہار ا نبی کون ہے
کون رب ہے ؟ اس میں کونی وضاحت نہیں کہ اللہ کو عالم الغیب مانا تھا یا نہیں
تیرا دین کیا ہے ؟
غور طلب ہے اسی روایت میں فتنہ قبر کا ذکر ہے یعنی یہ سوال محض تین نہیں ہیں یہ سوال فتنہ یا آزمائش میں بدل جائیں گے اور اس فتنہ قبر کا مقابلہ فتنہ دجال سے کیا گیا ہے
احادیث میں ذکر موجود ہے کہ نماز کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا میں فتنہ قبر اور فتنہ دجال دونوں سے پناہ مانگنے کا ذکر کیا ہے
سائل نے دیو بند کے علماء سے سوال کیا کہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی القبر کے حوالے سے مرنے کے بعد مسلمان سے سوال ہو گا ؟
مفتی تقی عثمانی کے بقول قبر میں حیات النبی پر سوال نہیں ہو گا
مفتی تقی عثمانی کے التباس ذہنی کا جواب ایک دوسرے دیوبندی عالم الیاس گھمن صاحب دیتے ہیں
ap ne book mn. likha k adam k takleeq hone se phle arwah takleeq hoi .. or ehdelast mn to. jab adam a s mnroh phoki gai or sajdahogya to phir unki pusht se olad ko nikla gya or un se ehd lia gya … kia yeh bt mutazad nae
نہیں – یہ الگ الگ واقعات ہیں – اللہ تعالی نے فرمایا کہ جب میں آدم کو متناسب کر دوں اور اس میں اپنی روح پھونکوں اس وقت سجدہ کرنا
اس سے معلوم ہوا کہ جسد آدم مکمل بھی نہ ہوا تھا کہ اس کی روح خلق ہو چکی تھی
اس کے بعد جب اولاد آدم کو نکالا تو دو عہد ہوئے
ایک عہد الست
دوسرا عہد میثاق جو رسولوں و انبیاء سے لیا گیا
ik hadith mn hai kisi shkhs ne. usman r a se bola k k tauba or infal sorr mila k likh di to bole muje lga k toba infal ka zameema hai es lie ausy kia
hadith kesi hai ab daud mn hai
اس پر بحث کتاب موازنہ مسند احمد و صحیح بخاری از ڈاکٹر عثمانی میں ہے
imam. bukhari ne jo bakeer bin masmaar pe. jirrah ki hai uska hawala kia hai
kia ibrahim bin muhamad s.aw muhabally k waqt hayyat the
hazrat usman k Aap s aw ki ik beti se bachy nae the yani. bibi umm e khulsoom se
or bibi ruqiya se ik beta tha jo 2 hijri mn chl basa. to hadith mubaila tanqees usman pe nae ho sakti
امام بخاری نے یہ تاریخ الکبیر میں لکھا ہے
بُكَير بْن مسمار.
أخو مهاجر.
مَولَى سعد بْن أَبي وقاص، القُرَشِيّ، المَدِينِيّ.
قَالَ لِي أَحْمَدُ بْنُ حَجَّاجٍ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ حَمْزَةَ: حدَّثنا حَاتِمٌ، عَنْ بُكَير، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ سعدٍ؛ سَمِعتُ النَّبيَّ صَلى اللَّهُ عَلَيه وسَلم يَومَ خَيبَرَ: لأُعطِيَنَّ الرّايَةَ رَجُلاً، يُحِبُّ اللهَ ورَسُولَهُ، ويُحِبُّهُ اللَّهُ ورَسُولُهُ، فَتَطاوَلنا، فَقال: ادعُوا عَلِيًّا.
وسَمِعَ الزُّهرِي، رَوى عَنْهُ أَبو بَكْرٍ الحَنفيّ.
فِيهِ بَعْضُ النَّظر، أَبو بَكْرٍ.
————
ابراہیم بن محمد کی وفات سن ١٠ ہجری کی ہے اور مباہلہ کی آیت کا نزول بھی اسی سال ہوا ہے لیکن مورخین کو معلوم نہیں کہ سب مہینے میں نزول ہوا
ابن حزم کہتے ہیں
وتزوّج رقية عثمان بن عفان؛ فولدت له عبد الله، مات صغيراً ابن ستة أعوام.
وتزوج أم كلثوم أيضاً عثمان بن عفان، بعد موت أختها رقية؛ فماتت عنده أيضا ولم تلد.
رقیہ رض سے عثمان رض کی کوئی اولاد نہ ہوئی
مباہلہ کی آیت میں عورتوں کو لانے کا بھی حکم ہے
حضرت حمزہ کی لعش کا مثلہ ہندہ نے کیا۔ ایل حدیث عالم نے کہا۔ کہ یہ خبر جھوٹی ہے
کیا یہ حدیث میں ہے یا تاریخ میں
کیا معاویہ رضی اللہ عنہ کو کاتب اس لیے لگایا گیا کہ صحابہ کا رویہ ابو سفیان کے ساتھ صحیح نہیں تھا اور انہوں نے سفارش کی تھی
زکریا کاندھلوی صاحب کی کتابوں میں اس قسم کی روایات پر تحقیق ہے
جہاں تک مجھے علم ہے یہ سب صحیح سند سے معلوم نہیں ہے
معاویہ رضی اللہ عنہ کو کاتب رکھا گیا کیونکہ وہ لکھنا جانتے تھے – علی رضی اللہ عنہ سے کسی روایت میں نہیں ملا کہ الوحی کے بعد قرآن لکھوایا گیا ہو
لہذا اس قسم کی روایات کا کوئی فائدہ نہیں ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ ـ رضى الله عنها ـ أَخْبَرَتْهُ أَنَّ فَاطِمَةَ ـ عَلَيْهَا السَّلاَمُ ـ ابْنَةَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم سَأَلَتْ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنْ يَقْسِمَ لَهَا مِيرَاثَهَا، مَا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ. فَقَالَ لَهَا أَبُو بَكْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ “ لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ”. فَغَضِبَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَهَجَرَتْ أَبَا بَكْرٍ، فَلَمْ تَزَلْ مُهَاجِرَتَهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ وَعَاشَتْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم سِتَّةَ أَشْهُرٍ. قَالَتْ وَكَانَتْ فَاطِمَةُ تَسْأَلُ أَبَا بَكْرٍ نَصِيبَهَا مِمَّا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنْ خَيْبَرَ وَفَدَكٍ وَصَدَقَتِهِ بِالْمَدِينَةِ، فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ عَلَيْهَا ذَلِكَ، وَقَالَ لَسْتُ تَارِكًا شَيْئًا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَعْمَلُ بِهِ إِلاَّ عَمِلْتُ بِهِ، فَإِنِّي أَخْشَى إِنْ تَرَكْتُ شَيْئًا مِنْ أَمْرِهِ أَنْ أَزِيغَ. فَأَمَّا صَدَقَتُهُ بِالْمَدِينَةِ فَدَفَعَهَا عُمَرُ إِلَى عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ، فَأَمَّا خَيْبَرُ وَفَدَكٌ فَأَمْسَكَهَا عُمَرُ وَقَالَ هُمَا صَدَقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَتَا لِحُقُوقِهِ الَّتِي تَعْرُوهُ وَنَوَائِبِهِ، وَأَمْرُهُمَا إِلَى مَنْ وَلِيَ الأَمْرَ. قَالَ فَهُمَا عَلَى ذَلِكَ إِلَى الْيَوْمِ.
قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ اعْتَرَاكَ افْتَعَلْتَ مِنْ عَرَوْتُهُ فَأَصَبْتُهُ وَمِنْهُ يَعْرُوهُ وَاعْتَرَانِي
is hadith ki sanad kesi hai
es mn فغضب۔ k ilfaz ko us hadith se jora jata hai jis mn hai k fatima mere jiger ka tukra jis ne usko. takleef di us ne mujy takleef di is mn bhi. yehi. lafz hai
to yeh hai k fatima r a gazabnaak hoi so abu bakr متعوب hoye
اس روایت میں دو مطالبات ہیں
اول میت کے مال کی تقسیم کی جائے
دوم مال فی – فاطمہ کو دے دیا جائے
دونوں مطالبات پورے نہیں کیے جا سکتے
اول میت اگر نبی کی ہو تو مال تقسیم نہیں ہو گا
دوم مال فی پر صرف فاطمہ کو نہیں اور اہل بیت اور غیر اہل بیت کا حق بھی ہے
سندا یہ سند تمام محدثین کے نزدیک صحیح نہیں ہے مثلا امام یحیی القطان اس کے راوی کو ضعیف قرار دیتے ہیں
حَدَّثَنَا مُحَمد بن أحمد، حَدَّثني عَبد اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ، قَالَ: سَمِعْتُ أبي يذكره قال: ذكر عند يَحْيى بن سَعِيد عقيل وإبراهيم بن سعد، فجعل كأنه يضعفهما
——–
طبقات ابن سعد میں اسی طرح کا قصہ دوسری سند سے ہے
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ. أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ:
سَمِعْتُ عُمَرَ يَقُولُ: لَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – بُويِعَ لأَبِي بَكْرٍ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ. فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ جَاءَتْ فَاطِمَةُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ مَعَهَا عَلِيٌّ فقالت: ميراثي من رسول الله أبي. ص! فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَمِنَ الرِّثَّةِ أَوْ مِنَ الْعُقَدِ؟ قَالَتْ: فَدَكُ وَخَيْبَرُ وَصَدَقَاتُهِ بِالْمَدِينَةِ أَرِثُهَا كَمَا يَرِثُكَ بَنَاتُكَ إِذَا مِتَّ! فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَبُوكِ وَاللَّهِ خَيْرٌ مِنِّي وَأَنْتِ وَاللَّهِ خَيْرٌ مِنْ بَنَاتِي. وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ: لا نُورَثُ. مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ. يَعْنِي هَذِهِ الأموال القائمة. فتعلمين أن أباك أعطاكها. فو الله لَئِنْ قُلْتِ نَعَمْ لأَقْبَلَنَّ قَوْلَكِ وَلأُصَدِّقَنَّكِ! قَالَتْ: جَاءَتْنِي أُمُّ أَيْمَنَ فَأَخْبَرَتْنِي أَنَّهُ أَعْطَانِي فَدَكَ. قَالَ: فَسَمِعْتِهِ يَقُولُ هِيَ لَكِ؟ فَإِذَا قُلْتِ قَدْ سَمِعْتُهُ فَهِيَ لَكِ فَأَنَا أُصَدِّقُكِ وَأَقْبَلُ قَوْلَكِ! قَالَتْ: قَدْ أَخْبَرْتُكَ مَا عِنْدِي
لیکن قصہ کی کوئی نہ کوئی اصل ہے کیونکہ مطالبہ پھر دور عمر میں پیش ہوتا ہے
روایات کو صحیح تصور کریں تو فاطمہ غصہ میں آ گئیں کیونکہ وہ سمجھ رہی تھیں کہ جس طرح ایک عام شخص کی میرات بٹتی ہے اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میرات بھی تقسیم ہو گی
ساتھ ہی انہوں نے مال فی بھی مانگا
لیکن ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ ان کو رسول اللہ سے حدیث ملی ہے کہ ایسا نہیں ہو گا
مال فی یہودی خیبر کی زمین تھیں جو اللہ نے رسول اللہ کو دیں – اس طرح مال فی کسی ایک بیٹی کا نہیں ہے
سورہ حشر میں اس کی تقسیم موجود ہے کہ کہاں کیسے مال بنٹے گا
مَّآ اَفَـآءَ اللّـٰهُ عَلٰى رَسُوْلِـهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى فَلِلّـٰـهِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِـذِى الْقُرْبٰى وَالْيَتَامٰى وَالْمَسَاكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۙكَىْ لَا يَكُـوْنَ دُوْلَـةً بَيْنَ الْاَغْنِيَآءِ مِنْكُمْ ۚ وَمَآ اٰتَاكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۚ وَاتَّقُوا اللّـٰهَ ۖ اِنَّ اللّـٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ (7) ↖
جو مال اللہ نے اپنے رسول کو دیہات والوں سے مفت دلایا سو وہ اللہ اور رسول اور قرابت والوں اور یتمیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے، تاکہ وہ تمہارے دولت مندوں میں نہ پھرتا رہے، اور جو کچھ تمہیں رسول دے اسے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے باز رہو، اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔
اس آیت کے تحت مال فی کی صرف اور صرف خاندان نبوی میں تقسیم ممکن نہیں ہے
کیونکہ اس میں اور غیر اہل بیت کا بھی حصہ ہے جو یتیم ہوں مسافر ہوں وغیرہ
علی نے بعد میں دور عمر میں اس مطالبہ کو دوبارہ دہرایا کہ انداز بدلا کہ مجھ کو مال فی کی تقسیم دے دی جائے جو میں خود بانٹ دوں گا
اس طرح عمر نے ان کو اس شرط پر مال قی کی کفالت دے دی
اس طرح محسوس ہوتا ہے کہ علی و فاطمہ کا مدعا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو منظور نہ تھا لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے مطالبہ کے ایک حصے کو یعنی مال فی کو شرط پر ان کو دے دیا
علی کو ان باغات کا مینجر بنا دیا گیا
meri ummat k ulma bani isreal k paigmbron ki trah hain
esi koi hadith hai kesi hai
علماء امتي كانبياء بني اسرائيل
لا أصل له
التخريج الصغير والتحبير الكبير (مطبوع ضمن مجموع رسائل ابن عبد الهادي)
المؤلف: يوسف بن حسن بن أحمد بن حسن ابن عبد الهادي الصالحي، جمال الدين، ابن المِبْرَد الحنبلي (المتوفى: 909 هـ)
قال البدر الزركشي: لا يعرف له أصل
الأجوبة المرضية فيما سئل السخاوي عنه من الأحاديث النبوية
المؤلف: شمس محمد بن عبد الرحمن السخاوي (المتوفى: 902 هـ)
محققین کے مطابق اس کی کوئی اصل نہیں
kia Aap s aw ne 70 hafiz ko shaheed krne walon pr bddua ki thi
مشرک قبائل نے دھوکہ دے کر قراء کو طلب کیا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٧٠ افراد بھیجے
جن کو مشرکوں نے قتل کر دیا
اس طرح یہ واقعہ ہوا تھا
razahat ka kia masla hai.
kitni br bacha piye toh razaht sabit hoti …
رضاعت کی مدت پیدائش سے دو سال کے درمیان ہے اور اہل سنت کے نزدیک چند بار پلانے سے ہی رضاعت ہو جاتی ہے
کسی حدیث میں نمبر نہیں ہے کہ کتنی بار پلا سکتے ہیں لہذا اس میں اہل سنت فقہاء نے دو سے پانچ بار تک کا کہا ہے
اپ نے مختار ثقفی اور البو مخنف کے بارے میں پہلے محدتین کی آراء بتائی تھی مجھء حوالہ کے ساتھ چاہیے کہ کس شیعہ اور سنی۔ محدث نے ان کو جھوٹا الور مدعی نبوت بولا
کتاب خروج حسین دیکھیں
kia aesi koi hadith hai. k Nabi s aw ne apne garane k lie rizaq ki killat ki dua ki thi
agr hai to ushadith ka darjh kia hai
محھے ابھی یاد نہیں
mirza jhelmi sahib ne ik hadith pesh ki bukhari ki jis mn movia r.a khutba mn keh rahy hum ibn e umr se zyda khilaft k haqdar hai… yeh khutba kb ka hai … baz es se nikal rahy k movia a.a khilaft chahty thy es lie usman r.a ko b shaheed krwaya. or es lie Ali k khilaf unhein Baaghi b khty hai.
es hadith ki wazaht krdein
یہ خطبہ معاویہ کا ہے جب انہوں نے حج کیا جو ام المومنین کی حیات میں ہوا
بعض کہتے ہیں کہ ام المومنین کی وفات سن ٥٣ کی ہے بعض کہتے ہیں ٥٧ کی ہے
لہذا یہ یزید کی تعیناتی والا خطبہ ، ام المومنین کی وفات سے سات یا آٹھ سال سے تین سال پہلے کا واقعہ ہے
muslim ki 6228 hadith mn bibion ko ahl e bait se. kharij kia gya hai. hadith kesi hai….. agr sahi hai to eska mafho bta dein
اس روایت میں راوی کا اضافہ ہے
راقم کہتا ہے کہ يہ روايت موضوع ہے – گھڑنے والے جاہل حسان بن إبراهيم بن عبد الله الكرمانى قاضى كرمان کو يہ معلوم نہيں ہے کہ امہات المومنين کو طلاق دينا نبي پر ممنو ع قرار دے ديا گيا تھا اور صدقات امھات المومنين پر بھي حرام تھا
کیا ازواج النبی اہل بیت بھی نہیں ؟
بعض غالي راوي يہ بھي بيان کر رہے تھے کہ ازواج النبي بھي اہل بيت ميں سے نہيں ہيں
سنن الدارمي ميں ہے
حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ حَيَّانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا خَطِيبًا فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَنِي رَسُولُ رَبِّي فَأُجِيبَهُ، وَإِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللَّهِ فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ، [ص2091] فَتَمَسَّكُوا بِكِتَابِ اللَّهِ، وَخُذُوا بِهِ ، فَحَثَّ عَلَيْهِ وَرَغَّبَ فِيهِ، ثُمَّ قَالَ «وَأَهْلَ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي ثَلَاثَ مَرَّاتٍ
رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ايک دن خطبہ ميں پہلے اللہ تعالي کي تعريف کي حمد کي پھر فرمايا اے لوگوں ميں ايک بشر ہوں ہو سکتا ہے اللہ کا فرشتہ آئے اور ميں اپنے رب کو جواب دوں ميں تم ميں دو بوجھ چھوڑ رہا ہوں پہلا بوجھ اللہ کي کتاب ہے جس ميں ہدايت ہے نور ہے اس کو کتاب سے پکڑو اور تھام لو اس کي طرف رغبت کرو پھر فرمايا دوسرا بوجھ ميرے اہل بيت ہيں تين بار فرمايا
اس کی سند مسلم کی شرط پر ہے اور اہل بیت کو خمس دینے کا حکم قرآن میں ہے اور قرابت داری کو قائم رکھنا بھی دین کا حکم ہے
صحیح مسلم میں ہے
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَشُجَاعُ بْنُ مَخْلَدٍ، جَمِيعًا عَنِ ابْنِ عُلَيَّةَ، قَالَ زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنِي أَبُو حَيَّانَ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ حَيَّانَ، قَالَ انْطَلَقْتُ أَنَا وَحُصَيْنُ بْنُ سَبْرَةَ، وَعُمَرُ بْنُ مُسْلِمٍ، إِلَى زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، فَلَمَّا جَلَسْنَا إِلَيْهِ قَالَ لَهُ حُصَيْنٌ لَقَدْ لَقِيتَ يَا زَيْدُ خَيْرًا كَثِيرًا، رَأَيْتَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَمِعْتَ حَدِيثَهُ، وَغَزَوْتَ مَعَهُ، وَصَلَّيْتَ خَلْفَهُ لَقَدْ لَقِيتَ، يَا زَيْدُ خَيْرًا كَثِيرًا، حَدِّثْنَا يَا زَيْدُ مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ يَا ابْنَ أَخِي وَاللهِ لَقَدْ كَبِرَتْ سِنِّي، وَقَدُمَ عَهْدِي، وَنَسِيتُ بَعْضَ الَّذِي كُنْتُ أَعِي مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا حَدَّثْتُكُمْ فَاقْبَلُوا، وَمَا لَا، فَلَا تُكَلِّفُونِيهِ، ثُمَّ قَالَ قَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فِينَا خَطِيبًا، بِمَاءٍ يُدْعَى خُمًّا بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَوَعَظَ وَذَكَّرَ، ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ، أَلَا أَيُّهَا النَّاسُ فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِكُ
أَنْ يَأْتِيَ رَسُولُ رَبِّي فَأُجِيبَ، وَأَنَا تَارِكٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللهِ فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ فَخُذُوا بِكِتَابِ اللهِ، وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ فَحَثَّ عَلَى كِتَابِ اللهِ وَرَغَّبَ فِيهِ، ثُمَّ قَالَ «وَأَهْلُ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي» فَقَالَ لَهُ حُصَيْنٌ وَمَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ؟ يَا زَيْدُ أَلَيْسَ نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ؟ قَالَ نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، وَلَكِنْ أَهْلُ بَيْتِهِ مَنْ حُرِمَ الصَّدَقَةَ بَعْدَهُ، قَالَ وَمَنْ هُمْ؟ قَالَ هُمْ آلُ عَلِيٍّ وَآلُ عَقِيلٍ، وَآلُ جَعْفَرٍ، وَآلُ عَبَّاسٍ قَالَ كُلُّ هَؤُلَاءِ حُرِمَ الصَّدَقَةَ؟ قَالَ نَعَمْ
يزيد بن حيان التيمي کہتے ہیں میں اور حصين بن سبرة اور عمر بن مسلم ، زيد بن أرقم رضی الله عنہ کے پاس گئے
فقال له حصين ( بن سبرة) ومن أهل بيته يا زيد (بن أرقم) أليس نساؤه من أهل بيته قال ان نساءه من أهل بيته ولكن أهل بيته من حرم الصدقة بعده قال ومن هم قال هم آل على وآل عقيل وآل جعفر وآل عباس قال أكل هؤلاء حرم الصدقة قال نعم
حصين ( بن سبرة) نے زيد (بن أرقم) سے پوچھا کہ اے زید کیا نبی کی ازواج ان اہل بیت میں سے نہیں ہیں ؟ انہوں نے کہا بے شک وہ اہل بیت میں سے ہیں لیکن اہل بیت وہ (بھی) ہیں جن پر صدقه حرام ہے ان کے بعد پوچھا وہ کون ؟ کہا وہ ال علی ال عقیل ال جعفر ال عباس ہیں کہا ان سب پر صدقه حرام ہے ؟ کہا ہاں
اس ميں امہات المومنين کو اہل بيت ہي کہا گيا ہے
ليکن پھر صحيح مسلم ميں روايت 4314 ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارِ بْنِ الرَّيَّانِ، حَدَّثَنَا حَسَّانُ يَعْنِي ابْنَ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ سَعِيدٍ وَهُوَ ابْنُ مَسْرُوقٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ حَيَّانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ دَخَلْنَا عَلَيْهِ فَقُلْنَا لَهُ لَقَدْ رَأَيْتَ خَيْرًا، لَقَدْ صَاحَبْتَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَلَّيْتَ خَلْفَهُ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ أَبِي حَيَّانَ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ أَلَا وَإِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ أَحَدُهُمَا كِتَابُ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، هُوَ حَبْلُ اللهِ، مَنِ اتَّبَعَهُ كَانَ عَلَى الْهُدَى، وَمَنْ تَرَكَهُ كَانَ عَلَى ضَلَالَةٍ وَفِيهِ فَقُلْنَا مَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ؟ نِسَاؤُهُ؟ قَالَ لَا، وَايْمُ اللهِ إِنَّ الْمَرْأَةَ تَكُونُ مَعَ الرَّجُلِ الْعَصْرَ مِنَ الدَّهْرِ، ثُمَّ يُطَلِّقُهَا فَتَرْجِعُ إِلَى أَبِيهَا وَقَوْمِهَا أَهْلُ بَيْتِهِ أَصْلُهُ، وَعَصَبَتُهُ الَّذِينَ حُرِمُوا الصَّدَقَةَ بَعْدَهُ
ہم نے زید سے پوچھا کيا نبي کي عورتيں ان کي اہل بيت نہيں ؟ زيد نے کہا نہيں اللہ کي قسم کيوں ہوں گي ؟ عورت تو مرد کے ساتھ ايک زمانے رہتي ہے پھر وہ طلاق دے کر دوسري شادي کر ليتا ہے اور عورت اپنے باپ کے گھر لوٹ آتي ہے
راقم کہتا ہے کہ يہ روايت موضوع ہے – گھڑنے والے جاہل حسان بن إبراهيم بن عبد الله الكرمانى قاضى كرمان کو يہ معلوم نہيں ہے کہ امہات المومنين کو طلاق دينا نبي پر ممنو ع قرار دے ديا گيا تھا اور صدقات امھات المومنين پر بھي حرام تھا
حسان بن إبراهيم بن عبد الله الكرمانى ، اہل تشيع مجہول ہے
آوزاج نبي کي تعداد محدود کرنے والي آيات ميں اے نبي سے خطاب کيا جا رہا ہے
يَآ اَيُّـهَا النَّبِىُّ اِنَّـآ اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ اللَّاتِـى اتَيْتَ اُجُوْرَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِيْنُكَ مِمَّآ اَفَـآءَ اللّـهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِىْ هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَاَةً مُّؤْمِنَةً اِنْ وَّّهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ اِنْ اَرَادَ النَّبِىُّ اَنْ يَّسْتَنْكِحَهَا خَالِصَةً لَّكَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْـهِـمْ فِـى اَزْوَاجِهِـمْ وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُـهُـمْ لِكَيْلَا يَكُـوْنَ عَلَيْكَ حَرَجٌ وَكَانَ اللّـهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا (50)
اے نبي ہم نے آپ کے ليے آپ کي بيوياں حلال کر ديں جن کے آپ مہر ادا کر چکے ہيں اور وہ عورتيں جو آپ کي مملوکہ ہيں جو اللہ نے آپ کو غنيمت ميں دلوا دي ہيں اور آپ کے چچا کي بيٹياں اور آپ کي پھوپھيوں کي بيٹياں اور آپ کے ماموں کي بيٹياں اور آپ کے خالاؤں کي بيٹياں جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کي، اور اس مسلمان عورت کو بھي جو بلا عوض اپنے کو پيغمبر کو دے دے بشرطيکہ پيغمبر اس کو نکاح ميں لانا چاہے، يہ خالص آپ کے ليے ہے نہ کہ اور مسلمانوں کے ليے، ہميں معلوم ہے جو کچھ ہم نے مسلمانوں پر ان کي بيويوں اور لونڈيوں کے بارے ميں مقرر کيا ہے تاکہ آپ پر کوئي دقت نہ رہے، اور اللہ معاف کرنے والا مہربان ہے
تُرْجِىْ مَنْ تَشَآءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِى اِلَيْكَ مَنْ تَشَآءُ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ ذلِكَ اَدْنى اَنْ تَقَرَّ اَعْيُنُهُنَّ وَلَا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِمَآ اتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ وَاللّـهُ يَعْلَمُ مَا فِىْ قُلُوْبِكُمْ وَكَانَ اللّـهُ عَلِيْمًا حَلِيْمًا (51)
آپ ان ميں سے جسے چاہيں چھوڑ ديں اور جسے چاہيں اپنے پاس جگہ ديں، اور ان ميں سے جسے آپ (پھر بلانا) چاہيں جنہيں آپ نے عليحدہ کر ديا تھا تو آپ پر کوئي گناہ نہيں، يہ اس سے زيادہ قريب ہے کہ ان کي آنکھيں ٹھنڈي ہوں اور غمزدہ نہ ہوں اور ان سب کو جو آپ ديں اس پر راضي ہوں، اور جو کچھ تمہارے دلوں ميں ہے اللہ جانتا ہے، اور اللہ جاننے والا بردبار ہے
لَّا يَحِلُّ لَكَ النِّسَآءُ مِنْ بَعْدُ وَلَآ اَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّلَوْ اَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ اِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِيْنُكَ وَكَانَ اللّـهُ عَلى كُلِّ شَىْءٍ رَّقِيْبًا (52)
اس کے بعد آپ کے ليے عورتيں حلال نہيں اور نہ يہ کہ آپ ان سے اور عورتيں تبديل کريں اگرچہ آپ کو ان کا حسن پسند آئے مگر جو آپ کي مملوکہ ہوں، اور اللہ ہر ايک چيز پر نگران ہے
يه سورہ احزاب ميں ہے
سورہ احزاب کي قيد وفات النبي صلي اللہ عليہ وسلم تک رہي کہ وہ مزيد ازواج نہيں لے سکتے
سورہ تحريم ميں تنبيہ کے لئے اللہ تعالي نے امہات المومنين کو خبردار کيا کہ يہ قيد اٹھائي جا سکتي ہے
اس ميں ہے کہ تعداد ازواج والي قيد ختم کي جا سکتي ہے يہ نہيں ہے کہ کر دي گئي ہے
تمام کلام عسي يعني اگر ہے سے تبنيہ کے انداز ميں شروع ہو رہا ہے
عَسى رَبُّه اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ يُّبْدِلَـه اَزْوَاجًا خَيْـرًا مِّنْكُنَّ
اگر نبي تميں طلاق دے دے تو بہت جلد اس کا رب اس کے بدلے ميں تم سے اچھي بيوياں دے دے گا
يعني تعداد ازواج والا حکم اللہ ختم کر سکتا ہےليکن ہم کو معلوم ہے ايسا نہيں کيا گيا
جنگ جمل سے پہلے حسن رضي اللہ عنہ نے بصرہ ميں خطبہ ديا اور اس ميں اسي وجہ سے فرمايا کہ
إِنَّهَا زَوْجَةُ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ
اے لوگوں عائشہ بصرہ کي طرف آ رہي ہيں جان لو وہ دنيا و آخرت ميں نبي صلي اللہ عليہ وسلم کي بيوي ہيں ليکن اللہ نے تم کو آزمائش ميں ڈال ديا ہے