علم الحدیث

ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ کے جوابات

[مسند احمد کس کی کتاب ہے ]

: جواب   بات یہ ہے کہ مسند احمد نے نہ صرف عقیدے کو خراب کیا بلکہ شیعت کو بھی پھیلایا ہے.شیعوں سےعقائد ہی نہیں لائے بلکہ پوری تاریخ وہاں سے لیکر مسند کے ذریعہ سے پھیلائی ہے.صحابہ کرام پر شیعوں کے عائد کردہ الزمات دہرائیں ہیں.ان تمام وجوہات کی بنا پر جب انکی گرفت کی گئی اور واضح کیا گیا کہ دیکھو! اس کتاب میں شعیوں کی منکرروایتوں کے ذریعہ زہر بھر دیا گیا ہے.اور اس کتاب میں بربادی کا سامان ہے تو اب یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ انکی(احمد بن حنبل) کتاب نہیں ہے.حالانکہ ان سے پہلے جتنے بھی مفسرین شارح حدیث اور مسالک کے لوگ گزرے ہیں سب نے اپنی تحریروں، تفسیروں اور شروحات میں بخاری کی حدیثیں موجود ہونے کے باوجود سب سے پہلے احمد بن حنبل اور انکی مسند کا حوالہ پیش کیا ہے.تاریخ اور رجال کی کتابوں میں ہر جگہ احمد بن حنبل کی مسند کا ذکر ہے.اور یہ سلسلہ ساڑھے گیارہ سو برس سے چلا آرہا ہے.مگر اب جبکہ انکی گرفت ہوئی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ انکی کتاب نہیں ہے.بتاؤ وہ کون ہے جسکی یہ کتاب ہے کل یہ کہو گے کہ امام احمد بن حنبل کوئی گزرے ہی نہیں ہیں

 [/EXPAND]

Questions answered by Abu Shahiryar

[کیا مسند احمد، امام احمد بن حنبل کی کتاب نہیں ہے ؟]

محمود احمد غازی وہ اپنی کتاب، محاضرات حدیث، صفحہ ۳۸۴؛ پر لکھتے ہیں

جب امام احمد کا انتقال ہو گیا تو ان کے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن احمد نے ( جو ان کے شاگرد اور خود بھی بہت بڑے محدث تھے) اس کتاب کی تہذیب و تکمیل کی۔ انہوں نے اس کتاب میں تقریبا دس ہزار احادیث کا مزید اضافہ کیا۔ یہ دس ہزار نئی احادیث پانچ اقسام میں تقسیم ہیں۔ ایک قسم وہ ہے جس کی روایت عبداللہ بن احمد بن حنبل براہ راست اپنے والد سے کرتے ہین۔ یہ تو اسی درجہ کی مستند ہیں جس درجہ کی امام احمد کی اصل مرویات ہیں۔ بقیہ جو چار درجے ہیں ان کے بارے میں محدثین میں مختلف انداز کے تبصرے اور خیالات کا اظہار ہوتا رہا۔ کچھ احادیث وہ ہیں جو عبداللہ بن احمد نے اپنے والد کے علاوہ دوسرے اسادذہ سے حاصل کیں، وہ بھی انہوں نے اس میں شامل کر دیں۔ پھر عبداللہ کے ایک رفیق کار تھے جن کا لقب قطیعی تھا (پورا نام مجھے اس وقت یاد نہیں آ رہا) انہوں نے کچھ احادیث کا اضافہ کیا۔ قطیعی کی احادیث کا درجہ نسبتا کم ہے اور گرا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج جو مسند ہمارے پاس موجود ہے جس میں کم و بیش چالیس ہزار احادیث ہیں، ان میں تیس ہزار براہ راست امام احمد کی مرتب کی ہوئی ہیں اور دس ہزار عبداللہ کا اضافہ کی ہوئی ہیں جن کی پانچ قسمیں ہیں

جواب

مسند احمد امام احمد کی ہی تالیف ہے البتہ اس میں ان کے بیٹے عبد الله نے اضافے کیے ہیں اور بعض روایات پر اپنے باپ کی آراء بھی لکھی ہیں

: شعيب الأرنؤوط کہتے ہیں
ثم روى المسندَ عن عبدِ الله بن أحمد أبو بكرٍ القَطِيعيُّ، وزاد فيه زيادات في مسند الأنصار
پھر مسند احمد کو عبد الله بن احمد سے روایت کیا أبو بكرٍ القَطِيعيُّ، نے اور اس میں مسند الانصار میں انہوں نے اضافہ کیا

الذھبی کے مطابق
فأما الراوي عن عبد الله: فهو أبو بكرٍ أحمدُ بن جعفر بن حمدان بن مالك القَطِيعيُّ، ولد سنة (274 هـ) ، سمع ” المسند ” مع عمِّ أمه عبد الله بن الجصَّاص، وكان لأبيه جعفر اتصالٌ بالدولة، وكان عبدُ الله يقرأ ” المسنَدَ ” لابن ذلك السلطان، فحضر القطيعيُّ أيضاً، وسَمِعه منه
أبو بكرٍ أحمدُ بن جعفر بن حمدان بن مالك القَطِيعيُّ نے مسند احمد کو عبد الله سے سنا

مسند احمد کی موضوع روایات کا ملبہ ابن تیمیہ نے الْقطيعِي پر گرایا کتاب القول المسدد في الذب عن المسند للإمام أحمد میں ابن حجر کہتے ہیں
وَنقل عَن الشَّيْخ تَقِيّ الدَّين ابْن تَيْمِية أَن الَّذِي وَقع فِيهِ من هَذَا هُوَ من زيادات الْقطيعِي لَا من رِوَايَة الإِمَام أَحْمد وَلَا من رِوَايَة ابْنه عبد الله عَنهُ
موضوع روایات الْقطيعِي نے شامل کیں

منهاج السّنة میں ابن تیمیہ نے کہا: … ثمَّ زَاد ابْنه عبد الله على مُسْند أَحْمد زيادات، وَزَاد أَبُو بكر القَطِيعي زيادات، وَفِي زيادات القَطِيعي أَحَادِيث كَثِيرَة مَوْضُوعَة

القَطِيعي کی زوائد کی تعداد بہت نہیں ہے چند روایات ہیں اور معلوم ہے کہ کون سی روایات ہیں

البتہ تحقیق سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ مسند احمد میں موضوع روایات صرف القَطِيعي نے ہی روایت نہیں کیں جیسا ابن تیمیہ نے دعوی کیا ہے بلکہ عبد الله اور خود امام احمد نے بھی لکھی ہیں
شُعَيب الأرنَؤوط – عادل مُرْشِد کی تحقیق کے مطابق مسند میں موضوع روایات ہیں جن پر وہ کہتے ہیں شبه موضوع، موضوع ہونے کا شبہ ہے
جن پر کہتے ہیں إسناده ضعيف جداً ان کی تعداد ١٣٩ ہے

اس قدر ضعیف روایات امام احمد کی سند سے ہیں جس میں وہ اپنے مشایخ سے روایت کرتے ہیں

[/EXPAND]

[موطا میں بعض اہل مدینہ سے امام مالک نے روایت نہیں لی لیکن  صحیحین میں روایت لی گئی ہے ؟]

جواب

کتاب  الجامع في العلل ومعرفة الرجال لأحمد بن حنبل کے مطابق

حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ سُفْيَانَ الْفَارِسِيُّ، بِفَسَا، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ أَبُو الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَعْنُ بْنُ عِيسَى، قَالَ: كَانَ مَالِكٌ يَقُولُ: لَا يُؤْخَذُ الْعِلْمُ مِنْ أَرْبَعَةٍ، وَيُؤْخَذُ مِمَّنْ سِوى ذَلِكَ لَا يُؤْخَذُ مِنْ سَفِيهٍ مُعْلِنٍ بِالسَّفَهِ , وَإِنْ كَانَ أَرْوَى النَّاسِ، وَلَا يُؤْخَذُ مِنْ كَذَّابٍ يَكْذِبُ فِي أَحَادِيثِ النَّاسِ، إِذَا جُرِّبَ ذَلِكَ عَلَيْهِ , وَإِنْ كَانَ لَا يُتَّهَمُ أَنْ يَكْذِبَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا مِنْ صَاحِبِ هَوَى يَدْعُو النَّاسَ إِلَى هَوَاهُ، وَلَا مِنْ شَيْخٍ لَهُ فَضْلٌ وَعِبَادَةٌ إِذَا كَانَ لَا يَعْرِفُ مَا يُحَدِّثُ بِهِ.
قَالَ إِبْرَاهِيمُ: فَذَكَرْتُ هَذَا الْحَدِيثَ لِمُطَّرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْيَسَارِيِّ، فَقَالَ: لَا أَدْرِي مَا هَذَا , وَلَكِنْ أَشْهَدُ لَسَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ , يَقُولُ: لَقَدْ أَدْرَكْتُ بِهَذَا الْبَلَدِ , يَعْنِي الْمَدِينَةَ , مَشْيَخَةً لَهُمْ فَضْلٌ , وَصَلَاحٌ , وَعِبَادَةٌ، يُحَدِّثُونَ، مَا سَمِعْتُ مِنْ وَاحِدٍ مِنْهُمْ حَدِيثًا قَطُّ، فَقِيلَ لَهُ: وَلِمَ يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ؟ قَالَ: لَمْ يَكُونُوا يَعْرِفُونَ مَا يُحَدِّثُونَ

إِبْرَاهِيمُ أَبُو الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ کہتے ہیں کہ نے بیان کیا کہ امام مالک نے کہا کرتے ان چار سے علم مت لو جو اسراف کرے چاہے لوگ اس سے روایت کریں اور نہ جھوٹے سے روایت لو … اور خواہش کے پیچھے جانے والے سے روایت مت لو اور بڈھے سے روایت نہ لو جو حدیث کو نہیں جانتا ہو لیکن عبادت والا ہو – ابو منذر نے کہا میں نے مطرف سے اس کا ذکر کیا انہوں نے کہا میں اس کو نہیں جانتا لیکن میں نے امام مالک سے سنا میں نے اپنے اس شہر یعنی مدینہ میں بہت سارے اہل فضل،نیکوکاراورعبادت گزار بزرگوں کو پایا جو حدیث بیان کرتے ہیں لیکن میں نے ان میں سے کسی سے بھی کبھی کوئی حدیث نہیں لی (نہیں لکھی)،مطرف نے سوال کیا :اے ابو عبداللہ ایسا کیوں? تو امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا :اس لے کہ وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کیا بیان کر رہے ہیں.

[/EXPAND] [صیغہ تمریض سے کیا مراد ہے ؟]

جواب

یہ تحقیق  أحمد بن محمد بن خليل العماني کی ہے جو ملتقی اہل الحدیث سے لی گئی ہے

http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php?t=336390

یہاں اس کے چیدہ نکات اور اختصار پیش خدمت ہے

صيغة التمريض سے مراد  (رُوِيَ ) ، ( يُروى ) ، ( ذُكِر ) ، (بلغنا) ، ( ورد) ،( جاء) ، (نقل)  وغیرہ  کے الفاظ ہیں

صيغة تمريض  متقدمين کے نزدیک استنباط احکام میں استمعال ہوتا ہے اور اس سے مراد صحیح حدیث بھی ہو سکتی ہے

مثلا امام الشافعی کتاب الام میں کہتے ہیں

وكل سهو في الصلاة نقصا كان، أو زيادة سهوًا واحدًا كان أم اثنين أم ثلاثة فسجدتا السهو تجزئ من ذلك كله قبل السلام وفيهما تشهد وسلام وقد روي عن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – : (( أنه قام من اثنتين فسجد قبل السلام )) وهذا نقصان

اور ہر سہو نماز میں نقص پر ہے … اور بلاشبہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا گیا ہے کہ وہ دو رکعت پڑھ کر کھڑے ہوئے پس سلام سے پہلے سجدہ کیا اور یہ نماز میں نقص تھا

یہاں امام الشافعی نے قد روی کے الفاظ سے صيغة تمريض استمعال کیا ہے

اسی طرح کتاب الام میں امام الشافعی کہتے ہیں

قال: وإذا كان غرمه على المرتهن فهو من المرتهن لا من الراهن وهذا القول خلاف ما رُوي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم

اس قول کے خلاف نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا جاتا ہے

یہاں بھی روی روایت کیا جاتا ہے

کتاب الام میں کہتے ہیں

وقد رُوِيَ عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال : (( لأقضين بينكما بكتاب الله عز وجل )) ثم قضى بالنفي والجلد على البكر والنفي

اور نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا جاتا ہے کہ اپ نے فرمایا میں تمھارے درمیان کتاب الله سے فیصلہ کروں گا

یہ روایت صحیح بخاری و مسلم میں امام الشافعی کے نزدیک بھی ثابت ہیں  لیکن انہوں نے صيغة تمريض استمعال کیا ہے

کتاب الام میں ہے

وظاهر القرآن يدل على أن كل ماء طاهر ، ماء بحر وغيره ، وقد روي فيه عن النبي صلى الله عليه وسلم حديث يوافق ظاهر القرآن في إسناده من لا أعرفه

کتاب الام  ” ( 6 / 157 ) :” فلما رُوي أن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – كان يعلمهم التشهد في الصلاة ، ورُوي أن رسول الله  – صلى الله عليه وسلم – علمهم كيف يصلون عليه في الصلاة لم يجز والله تعالى أعلم أن نقول: التشهد واجب والصلاة على النبي – صلى الله عليه وسلم – غير واجبة …” اهـ .

پس جب روایت کیا گیا ہے …

اور یہ روایت صحیح بخاری کی ہے

کتاب الام میں ہے

وقد بلغنا أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لمعاذ حين بعثه إلى اليمن مصدقًا : (( إياكم وكرائم أموالهم )) وفي كل هذا دلالة على أن لا يؤخذ خيار المال في الصدقة

اور ہم تک پہنچا ہے

یہ روایت صحیح بخاری و مسلم کی ہے

امام ترمذی کہتے ہیں

وقد رُوِيَ عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه : « قرأ في الظهر قدر تنزيل السجدة

یہاں بھی تمریض ہے جبکہ یہ روایت صحیح مسلم  ٤٥٢ رقم کی ہے

حزرنا قيامه في الركعتين الأوليين من الظهر قدر قراءة الم تنزيل السجدة

اسی طرح امام ترمذی صيغة تمريض میں  ذکر کرتے ہیں

حديث أم الفضل في القراءة بالمرسلات في صلاة المغرب ( 308 ) : ” ورُوي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه : (( قرأ في المغرب بالطور )) ” اهـ .

جبکہ یہ حدیث صحیح ہے صحیح بخاری و مسلم کی ہے

مسند امام احمد میں امام احمد ایک روایت کو صيغة تمريض میں بیان کرتے ہیں پھر کہتے ہیں صحیح ہے

فقام رجل من أهل اليمن يقال له أبو شاه فقال يا رسول الله اكتبوا لي، فقال اكتبوا له .. ” الحديث . قال أبو عبد الرحمن ليس يُروى في كتابة الحديث شيء أصح من هذا الحديث؛ لأن النبي صلى الله عليه وسلم أمرهم، قال : ( اكتبوا لأبي شاه ) ما سمع النبي صلى الله عليه وسلم خطبته

پس اہل یمن کا ایک شخص کھڑا ہوا جس کو ابو شاہ کہا جاتا تھا اس نے کہا اے رسول الله یہ میرے لئے لکھ دیں اپ نے حکم کیا اس کے لئے لکھ دو .. حدیث ابو عبد الرحمن نے کہا لیس یروی …. (یروی صيغة تمريض ہے)   اس سے زیادہ صحیح حدیث کتاب میں نہیں

المسند احمد میں ہے  ( 30 / 416 ) برقم ( 18470 ) : ” عن البراء بن عازب : ” أن نبي الله صلى الله عليه وسلم كان يقنت في صلاة الصبح والمغرب ” ، قال أبو عبد الرحمن : ليس يُروى عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قنت في المغرب إلا في هذا الحديث

ابو عبد الرحمان نے یروی بول کر صيغة تمريض میں کہا مغرب کی نماز میں قنوت پر صرف یہی روایت ہے

اور یہ قنوت کی روایت صحیح مسلم کی ہے – یعنی صحیح روایت کو صيغة تمريض میں بیان کیا گیا ہے

کتاب اصول السنہ میں امام احمد کہتے ہیں

والإيمان بالرؤية يوم القيامة كما رُوي عن النبي صلى الله عليه وسلم من الأحاديث الصحاح

اور روز محشر رویت الباری پر ایمان لاو (صيغة تمريض كما روي) جیسا نبی صلی الله علیہ وسلم سے صحیح احادیث میں آیا ہے

مسند احمد میں ایک روایت کو امام احمد رد کرتے ہیں جو نبی صلی الله علیہ وسلم کی بیٹی زینب رضی الله عنہا کے نکاح کے حوالے سے ہے اس پر کہتے ہیں

والحديث الصحيح الذي رُوي أن النبي صلى الله عليه وسلم أقرهما على النكاح الأول

اور صحیح حدیث میں ہے  (صيغة تمريض   روي) روایت کیا جاتا ہے نبی سے کہ انہوں نے نکاح اول باقی رکھا

یعنی صحیح روایت کو بھی محدثین صيغة تمريض میں بیان کرتے تھے اور جب ضعیف کو بیان کرتے تو اس کی نشاندھی کر دیتے

بخاری کی معلق روایات پر ابن حجر فتح الباری میں  کہتے ہیں

والحق أن هذه الصيغة لا تختص بالضعيف، بل قد تستعمل في الصحيح أيضًا ، بخلاف صيغة الجزم فإنها لا تستعمل إلا في الصحيح

اور حق یہ ہے کہ یہ صيغة ضعیف کے لئے خاص نہیں ہے بلکہ صحیح کے لئے بھی استمعال ہوتا ہے بخلاف صيغة جزم کے جو صرف صحیح کے لئے استمعال ہوتا ہے

امام بخاری صحیح میں کہتے ہیں

باب الجمع بين السورتين في الركعة .. ويُذكر عن عبد الله بن السائب : ( قرأ النبي صلى الله عليه وسلم المؤمنون في الصبح، حتى إذا جاء ذكر موسى، وهارون – أو ذكر عيسى – أخذته سعلة فركع

باب ایک رکعت میں سورتیں جمع کرنا اور (صيغة تمريض يذكر) ذکر کیا جاتا ہے

اس روایت کی سند امام مسلم اور ابن خزیمہ کے نزدیک صحیح ہے اور انہوں نے اس کو صحیح میں بیان کیا ہے

امام بخاری نے اس طرح ایک دوسرے مقام پر صيغة تمريض مين کہا ويُذكر عن أبي موسى

باب ذكر العشاء والعتمة .. ويُذكر عن أبي موسى، قال: «كنا نتناوب النبي صلى الله عليه وسلم عند صلاة العشاء فأعتم بها

لیکن یہ روایت صحیح ہی میں  ٨٩ ، ٢٤٦٨ رقم سے  بیان بھی ہے

فتح الباری میں اس پر ابن حجر نے کہا

قوله ويذكر عن أبي موسى سيأتي موصولًا عند المصنف مطولا بعد باب واحد وكأنه لم يجزم به لأنه اختصر لفظه نبه على ذلك شيخنا الحافظ أبو الفضل .

اور ان کا قول ويذكر عن أبي موسى تو یہ موصول ہے مصنف کے نزدیک … اور یہاں جزم سے نہیں کہا کیونکہ انہوں نے اس کو مختصر کر دیا ہے

اسی طرح باب میں امام بخاری نے کہا

باب الرقى بفاتحة الكتاب ويُذكر عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم

یہاں بھی صيغة تمريض يذكر ہے

یہ روایت صحیح بخاری میں موجود ہے لیکن باب میں اختصار کی بنا پر صیغہ تمرض ہے

ان امثال سے ظاہر ہے کہ متقدمین صيغة تمريض صحیح روایات پر بھی استمعال کرتے تھے

متقدمین جب صيغة تمريض استمعال کرتے ہیں تو بعض اوقات ان کی مراد ضعیف روایت بھی ہوتی ہے لیکن وہ فورا اس کے بعد اس کے ضعف کی طرف اشارہ کرتے ہیں مثلا

ابو داود نے سنن  ١٤٨٥ میں کہا

روي هذا الحديث من غير وجه عن محمد بن كعب كلها واهية، وهذا الطريق أمثلها وهو ضعيف أيضًا ”

اس طرح روایت کیا جاتا ہے محمد بن کعب سے جو تمام واہیات طرق ہیں اور یہ طرق ایسا ہی ہے اور یہ بھی ضعیف ہے

اور امام البخاري نے صحیح میں ( 1 / 169 )  کہا

ويُذكر عن أبي هريرة، رفعه « لا يتطوع الإمام في مكانه ولم يصح

اور ابو ہریرہ سے ذکر کیا جاتا ہے … جو صحیح نہیں

صحیح میں امام بخاری نے کہا

ويُذكر عن ابن عباس: « أن جلساءه شركاء » ولم يصح

ایسا ابن عباس سے ذکر کیا جاتا ہے .. جو صحیح نہیں

یہاں محدثین نے صيغة تمريض استمعال کیا ہے لیکن ساتھ ہی اس کے ضعف کا حوالہ دیا ہے  اور اوپر کتاب الام کے حوالہ جات ہیں جن میں امام الشافعی نے

صحیح روایت کو بھی صيغة تمريض  میں بیان کیا ہے

النكت الوفية بما في شرح الألفية از البقاعی کے مطابق

قولهُ: (استعمالها في الضعيفِ أكثرُ) (5) وكذا تعبيرُ ابنِ الصلاحِ بقولهِ: ((لأنَّ مثلَ هذهِ العباراتِ تستعملُ في الحديثِ الضعيفِ أيضاً)) (6) يدفعُ الاعتراضَ بأنَّ البخاريَّ قد يخرجُ ما صحَّ بصيغةِ التمريضِ، كقولهِ في بابِ الرُّقَى بفاتحةِ الكتابِ: ((ويذكرُ عنِ ابنِ عباسٍ، عن النبي – صلى الله عليه وسلم -)) (7) في الرقى بفاتحةِ الكتابِ معَ أنَّهُ أسندَ

قول اس صیغہ کا استمعال اکثر ضعیف کے لئے ہوتا ہے اور یہ ابن الصلاح کی تعبیر ہے قول سے کہ اس قسم کی عبارات کا استمعال حدیث میں ضعیف پر بھی ہوتا ہے یہ اس اعتراض کو دفع کرتا ہے کہ بےشک امام بخاری نے صحیح روایت کی تخریج کی ہے صیغہ تمریض سے جیسا کہ باب فاتحہ سے دم کرنے میں ہے بذکر عن ابن عباس اور یہ ان کی کتاب میں سندا بھی ہے

کتاب النكت على مقدمة ابن الصلاح از الزركشي الشافعي (المتوفى: 794هـ) کے مطابق

كَذَلِكَ نَازع فِيهِ الشَّيْخ عَلَاء الدّين مغلطاي – رَحمَه الله تَعَالَى -[قَالَ] فَإنَّا نجد البُخَارِيّ فِي مواضيع يَأْتِي بِصِيغَة الْجَزْم وَهِي ضَعِيفَة من خَارج وَيَأْتِي بِصِيغَة التمريض وَهِي صَحِيحَة مخرجة فِي كِتَابه

اسی طرح نزاع کیا  ہے مغلطاي  نے الله رحم کرے کہا ہم صحیح بخاری میں پاتے ہیں بعض مقام پر کہ صیغہ جزم ہے اور روایت صحیح سے باہر کی کتب میں ضعیف ہے اور صیغہ تمریض بخاری نے استمعال کیا ہے اور روایت صحیح ہے جو ان کی کتاب میں موجود نہیں ہے

متاخرین کے نزدیک تدریب الراوی از السيوطي کے مطابق صيغة تمريض  ضعیف روایت کے صیغہ ادا کے حوالے سے استمعال ہوتا ہے
وإذا أردت رواية الضعيف بغير إسناد، فلا تقل: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم – كذا، وما أشبهه من صيغ الجزم) بأن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – قاله، (بل قل: روي) عنه (كذا، أو بلغنا) عنه (كذا، أو ورد) عنه (، أو جاء) عنه كذا (، أو نقل) عنه كذا

جب کوئی ضعیف روایت بغیر اسناد نقل کرنا ہو تو بالجزم یوں نہیں کہنا چاہیئے کہ رسول اللہ ﷺ ( یا فلاں نے ) یوں کہا ، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ  روایت کیا گیا یا  ہمیں یہ بات پہنچی  یا  یوں وارد ہے  یا  ایسے نقل کیا جاتا ہے جیسے صیغے استعمال کرنا لازم ہیں (تدریب جلد اول ص۳۵۰ )

نووی مجموع میں کہتے ہیں

قال العلماء المحققون من أهل الحديث وغيرهم : إذا كان الحديث ضعيفاً لا يقال فيه قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أو فعل أو أمر أو نهى أو حكم ، وما أشبه ذلك من صيغ الجزم ، وكذا لا يقال فيه رَوى أبو هريرة أو قال أو ذكر أو أخبر أو حدث أو نقل أو أفتى وما أشبهه ، وكذا لا يقال ذلك في التابعين ومن بعدهم فيما كان ضعيفاً فلا يقال في شيء من ذلك بصيغة الجزم .

وإنما يقال في هذا كله رُوِيَ عنه أو نُقل عنه أو حُكي عنه أو جاء عنه أو بلغنا عنه أو يقال أو يذكر أو يحكى أو يروى أو يرفع أو يعزى ، وما أشبه ذلك من صيغ التمريض وليست من صيغ الجزم . قالوا فصيغ الجزم موضوعة للصحيح أو الحسن ، وصيغ التمريض لما سواهما .

وذلك أن صيغة الجزم تقتضي صحته عن المضاف إليه ، فلا ينبغي أن يطلق إلا فيما صح وإلا فيكون الإنسان في معنى الكاذب عليه . وهذا الأدب أخل به المصنف ، وجماهير الفقهاء من أصحابنا وغيرهم ، بل جماهير أصحاب العلوم مطلقاً ما عدا حذاق المحدثين؛ وذلك تساهل قبيح، فإنهم يقولون كثيراً في الصحيح : رُوِيَ عنه ، وفي الضعيف : قال وروى فلان ، وهذا حيد عن الصواب ” اهـ .

اہل حدیث کے علماء محققین اور دیگر کہتے ہیں کہ جب حدیث ضعیف ہو تو اس میں نہیں کہا جاۓ گا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے کہا یا کیا یا امر  دیا یا منع کیا یا حکم کیا  اور اسی طرح کے جزم کے صیغے- اور اسی طرح نہیں  کہا جائے گا کہ ابو ہریرہ نے روایت کیا یا کہا یا ذکر کیا یا خبر دی یا روایت کیا یا نقل کیا یا فتوی دیا اور اسی طرح ، اور نہیں کہا جائے گا کہ تابعین اور ان کے بعد والوں نے ایسا کہا اس میں جو ضعیف روایت ہو پس اس میں کسی چیز پر جزم کا صیغہ نہیں کہا جائے گا اور یہ صیغہ ان تمام پر کہا جائے گا جو ان سے روایت کیا گیا یا نقل کیا گیا یا حکایات کیا گیا یا ان سے آیا یا ہم تک پہنچا ان سے یا کہا جاتا ہے یا ذکر کیا جاتا ہے یا حکایت کیا جاتا ہے یا روایت کیا جاتا ہے یا رفع کیا جاتا ہے اور اسی طرح اور جو صیغہ تمریض سے ہوں نہ کہ صیغہ جزم سے- کہتے ہیں صحیح اور حسن پر صیغہ جزم لگے اور ان سے سوا جو ہوں ان پر صیغہ تمریض  اور یہ اس لیے کہ صیغہ جزم تقاضی کرتا ہے مضاف الیہ کی صحت ہو پس ہونا چاہیے کہ اس کا اطلاق سوائے اس کے جو صحیح ہو

ابن المنذر کے حوالے سے النووی نے کتاب تهذيب الأسماء واللغات میں دعوی کیا کہ

وله عادات جميلة فى كتابه الإشراف، أنه إن كان فى المسألة حديث صحيح، قال: ثبت عن النبى – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – كذا، أو صح عنه كذا، وإن كان فيها حديث ضعيف قال: روينا، أو يروى عن النبى – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ –

أبو بكر محمد بن إبراهيم بن المنذر النيسابوري (المتوفى: 319هـ) کی اچھی عادتوں میں سے ہے کہ اگر کسی مسئلہ میں حدیث صحیح ہو تو کہتے ہیں یہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے اس طرح یا صحیح ہے ان سے اس طرح اور اگر حدیث ضعیف ہو تو کہتے ہیں ہم سے روایت کیا گیا ہے یا نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا گیا ہے

جبکہ النووی کی بات صحیح نہیں ہے کتاب الإشراف على مذاهب العلماء میں ابن المنذر ایک مقام پر کہتے ہیں

روينا عن النبى – صلى الله عليه وسلم – أنه نهى عن الاختصار في الصلاة.  وكره ذلك ابن عباس، وعائشة، ومجاهد، والنخعى، وأبو مجلز، ومالك، والأوزاعى، وإسحاق، وأصحاب الرأي.

نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا جاتا ہے کہ انہوں نے نماز میں اختصار سے منع کیا اور اس سے کراہت کی  ابن عباس، وعائشة، ومجاهد، والنخعى، وأبو مجلز، ومالك، والأوزاعى، وإسحاق، وأصحاب الرأي نے

اس طرح کتاب میں کہا

روينا عن النبي- صلى الله عليه وسلم – أنه أمر بقتل الأسودين في الصلاة الحية والعقرب

نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا جاتا ہے کہ اپ نے نماز میں بچھو اور سانپ قتل کرنے کا حکم کیا

عصر کی نماز کے  لئے ابن المنذر نے کہا

وقد روينا عن النبي- صلى الله عليه وسلم – أخباراً تدل على صحة هذا القول

اور نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا گیا ہے خبریں جو اس قول کی صحت پر دلالت کرتی ہیں

واختلفوا فيما يقرأ به في صلاة الجمعة، فكان الشافعي، وأبو ثور، يقولان بحديث: (ح 331) أبي هريرة رضي الله عنه أنه كان يقرأ سورة الجمعة، وإذا جاءك المنافقون، ويروى ذلك عن النبي – صلى الله عليه وسلم –

نبی صلی الله علیہ وسلم جمعہ کی نماز میں سوره المنافقون پڑھتے تھے ایسا ان سے روایت کیا جاتا ہے

یہ حدیث صحیح ہے

ابن المنذر نے اپنی کتاب میں کہا

روي عن ابن عباس أن رسول الله- صلى الله عليه وسلم – جمع بين الظهر والعصر وبين المغرب والعشاء في غير خوف ولا مطر، قيل لابن عباس: لم فعل ذلك، قال أراد أن لا يحرج أمته.

ابن عباس سے روایت کیا گیا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مدینہ میں ظہر عصر کو جمع کیا اور مغرب و عشاء کو جمع کیا بغیر خوف اور سفر اور بارش کے

لیکن یہ بھی کہا
ثبت عن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – أنه جمع بالمدينة بين الظهر والعصر وبين
المغرب والعشاء في غير خوف ولا سفر
اور نبی صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ یہ بغیر خوف اور سفر ہوا

یعنی ثابت اس وقت بولا جب تحقیق سے ایک بات صحیح ثابت ہو گئی

جبکہ صحیح مسلم میں ہے
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَبُو كُرَيْبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، ح وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، وَأَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، وَاللَّفْظُ لِأَبِي كُرَيْبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، كِلَاهُمَا عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «جَمَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِالْمَدِينَةِ، فِي غَيْرِ خَوْفٍ، وَلَا مَطَرٍ
یہ کام بغیر خوف اور بارش کیا گیا

معلوم ہوا کہ ابن المنذر کے نزدیک صحیح مسلم کی یہ حدیث ثابت ہی نہیں ہے کیونکہ اس میں بارش کا لفظ ہے

امام بیہقی نے بھی صیغہ تمریض میں روایت کو صحیح کہا ہے مثلا کتاب مختصر خلافيات البيهقي
از أحمد بن فَرح کے مطابق امام بیہقی سے علی رضی الله عنہ نے فاتحہ خلف الامام پر کہا چپ رہو اس پر بیہقی نے کہا
وَقد روينَا عَن عَليّ رَضِي الله عَنهُ ضد هَذَا، وَأما الْمَوْقُوف الَّذِي رُوِيَ عَن عَليّ رَضِي الله عَنهُ فَإِنَّمَا رُوِيَ بأسانيد واهية لَا يَصح شَيْء من ذَلِك فقد صَحَّ عَن عَليّ رَضِي الله عَنهُ ” أَنه كَانَ يَأْمر بِالْقِرَاءَةِ خلف الإِمَام
اور علی سے اس کے بر خلاف روایت کیا گیا ہے …. انہوں نے امام کے پیچھے قرات کا حکم دیا

یعنی النووی کی بات مطلقا صحیح نہیں

یعنی متاخرین کے نزدیک صیغہ تمریض صرف ضعیف پر استمعال ہونا چاہیے

جبکہ جیسا تحقیق سے ثابت ہوا  تین قرون میں اس کی مثال موجود ہے کہ صحیح روایت کو بھی صیغہ تمریض میں بیان کیا جاتا تھا

[/EXPAND]

[البانی صاحب کا حسن روایت کو  صحیح کہنا؟]

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.
کئی دفعہ علامہ البانی رحمہ اللہ ضعیف حدیث کے متن کو متعدد طرق کی بنا پر صحیح کہتے ھیں. انکا منہج کیا ھے؟ کیا انکی ایسی احادیث قابل اعتماد ھیں جن میں انھوں نے ایسا منہج اختیار کیا ھے؟

جواب

ناصر الدین البانی کا منہج ہے کہ ضعیف ضعیف کو تقویت دیتی ہے یہاں تک کہ صحیح ہو جاتی ہے ان کی کتب میں حسن کو بھی صحیح لکھ دیا گیا ہے

مثلا ترمذی کی جامع کی بہت سی روایات جو صرف حسن درجے کی تھیں ان کو صحیح کا درجہ البانی صاحب نے دے دیا ہے اور ١١٠٠ سال کا یہ ایک اہم واقعہ ہے کہ جو حدیث متقدمین کی نگاہ میں صحت کے درجے پر نہ تھی وہ اب صحیح ہو چلی ہے

البانی متضاد باتیں بھی کرتے تھے لہذا ان پر کتاب تناقضآت البانی از حسن بن على سقاف شافعى کے نام سے تین جلدوں میں کتاب موجود ہے

[/EXPAND]

[محدثین جب ضعیف روایات پر ابواب قائم کرتے ہیں تو کیا وہ صحیح ہوتی ہیں اور ابواب کا کیا کوئی مقصد تھا ؟]

جواب

صحاح ستہ کی کتب میں چار مولفین نے ضعیف حسن اور صحیح کی اقسام کی روایات اپنی کتب میں جمع کیں یعنی امام ابی داود ، امام الترمذی، امام ابن ماجہ اور امام النسائی- ان ضعیف روایات پر انہوں نے ابواب بھی قائم کیے- کہا جا سکتا ہے کہ ان محدثین کے نزدیک یہ تمام روایات صحیح تھیں تبھی تو ابواب قائم کیے- لیکن ایسا وہی کہہ سکتا ہے جب نے ان کی کتب کے منہج کو نہ سمجھا ہو- مولفین صحاح ستہ کا مقصد اپنے فہم کے مطابق کتب کو ترتیب دینا اور ان میں موجود فقہی استنباط کو پیش کرنا تھا لہذا ایک روایت کو چاہے وہ ضعیف ہی کیوں نہ ہو اس سے بھی کچھ نتائج نکل سکتے ہیں اور وہ ان مسائل میں کار آمد ہو سکتی ہیں جن میں کوئی صحیح حدیث موجود نہ ہو

محدثین نے  جو حدیث کی کتب تالیف کیں  ان میں  اپنی رائے کو بہت کم نقل کیا ہے اور بعد والوں نے راویوں پر محدثین کی رائے دیکھ کر فیصلہ کیا ہے کہ آیا یہ مخصوص روایت صحیح بھی سمجھی جائے یا نہیں مثلا عصر حاضر میں البانی صاحب نے سنن اربع کو سنن الثمانیہ کر دیا ہے یعنی

ضعیف سنن ابی داود، صحیح سنن ابی داود

 ضعیف سنن الترمذی، صحیح سنن الترمذی

ضعیف سنن  ابن ماجہ، صحیح سنن ابن ماجہ

ضعیف سنن النسائی، صحیح سنن النسائی

امام مسلم نے اپنی صحیح میں کوئی باب قائم نہیں کیے – کتاب منهاج المحدثين في القرن الأول الهجري وحتى عصرنا

الحاضر  از على عبد الباسط مزيد کے مطابق

ولكن مسلمًا لم يذكر تراجم لأبوابه، ويعلل ذلك الإمام النووي بأنه ربما أراد ألا يزيد حجم الكتاب

لیکن مسلم نے ابواب قائم نہیں کیے اور اس کی وجہ امام النووی کی رائے میں یہ ہے کہ کتاب کا حجم نہ بڑھ جائے

امام مسلم نے  شاید اس ڈر سے باب قائم نہیں کیے  کہ کہیں بعد میں آنے والے ان کے قائم کردہ ابواب  سے احادیث کا مفھوم مقید نہ کر دیں

امام بخاری نے بھی اپنی کتاب ادب المفرد میں روایات پر باب قائم کیے اور اس کتاب میں ضعیف روایات بھی لکھیں

امام بخاری نے صحیح میں ابواب قائم کے اور اس باب کے شروع میں  تعلیقا ضعیف روایات  بھی پیش کیں تاکہ اس سلسلے میں پائی جانے والی آراء کا ذکر ہو سکے

امام بخاری ادب المفرد میں باب قائم کرتے ہیں

بَابُ إِذَا لَمْ تَسْتَحْيِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ

باب کہ جب تجھے شرم نہیں تو جو جی میں آئے کر

بعض عامی ذہن قسم کے لوگ کہہ سکتے ہیں کہ یہ باب قائم کرنا اس کی دلیل ہے کہ امام بخاری اس بات کی تائید کر رہے ہیں لیکن یہ حدیث کے الفاظ ہیں جو منع کا انداز ہے

ابواب بخاری پر نور الدين محمد عتر الحلبي   کتاب الإمام البخاري وفقه التراجم في جامعه الصحيح میں لکھتے ہیں کہ امام بخاری مختلف ابواب قائم کیے ہیں مثلا

الترجمة بصيغة خبرية عامة

باب خبر کے انداز میں

الترجمة بصيغة خبرية خاصة بمسألة الباب

باب خبر کے انداز میں خاص مسئلہ پر

الترجمة بصيغة الاستفهام , جسے بَابُ هَلْ عَلَى مَنْ لَمْ يَشْهَدْ الجُمُعَةَ  استفہامی باب

امام بخاری باب كَلاَمِ الْمَيِّتِ عَلَى الْجَنَازَةِ  کا باب قائم کرتے ہیں کہ مردہ جنازہ  کلام کرتا ہے اس میں کافی بحث ہے کہ اس حدیث کا اصل مفھوم کیا ہے

ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں

وَاسْتُدِلَّ بِهِ عَلَى أَنَّ كَلَامَ الْمَيِّتِ يَسْمَعُهُ كُلُّ حَيَوَانٍ نَاطِقٍ وَغَيْرِ نَاطِقٍ

اور اس سے استدلال کیا جاتا ہے کہ میت کلام کرتی ہے جس کو ہر حیوان بولنے والا اور نہ بولنے والا سنتا ہے

ابن بطال کہتے ہیں

قَالَ بن بَطَّالٍ هُوَ عَامٌّ أُرِيدَ بِهِ الْخُصُوصُ وَإِنَّ الْمَعْنَى يَسْمَعهُ مَنْ لَهُ عَقْلٌ كَالْمَلَائِكَةِ وَالْجِنِّ وَالْإِنْسِ

یہ عام ہے … معنی ہے کہ ہر ذی عقل سنتا ہے یعنی فرشتے جن اور انسان

ابن الملقن کتاب  التوضيح لشرح الجامع الصحيح  ج ١٠ ص ٤١ میں کہتے ہیں

لأن كلام الميت حين يحمل إلى قبره فيه حكم الدنيا، وليس فيه شيء من الجزاء والعقوبة لأن الجزاء لا يكون إلا في الآخرة، وإنما كلامه اعتبار لمن سمعه وموعظة فأسمعها الله الجن؛ لأنه جعل فيهم قوة يثبتون بها عند سماعه، ولا يصعقون، بخلاف الإنسان الذي كان يصعق لو سمعه.

میت کا کلام جبکہ اس کو قبر کی طرف لے جا رہے ہوتے ہیں وہ دنیا کے حکم میں ہے اور اس میں جزا و عقوبت نہیں ہے کیونکہ جزا تو آخرت میں ہے اور یہ کلام اعتبار  کے لئے ہے جو سنے اور نصیحت کے لئے پس الله اس کو جن کو سنواتا ہے کیونکہ اس میں قوت ہے کہ اس کو سن سکیں اور بے ہوش نہ ہوں بخلاف انسان کے جو سنے تو ہوش کھو دے

کلام المیت اہل حدیث علماء کے مطابق آخرت کا حصہ ہے جبکہ ابن مقلن کے مطابق دنیا کا

أسامة علي محمد سليمان درس بخاری میں کہتے ہیں

معناه: أن الميت يتكلم، ولكن يتكلم بلسان الحال أم بلسان المقال؟ هذا اختلاف بين العلماء، هل يتكلم بكلام حقيقي دون أن يسمع؟ فهناك من يتكلم ولا نسمعه، كحديث: (ما من يوم ينشق فجره إلا وينادي ملكان: اللهم أعط منفقاً خلفاً، اللهم أعط ممسكاً تلفاً)، فهل تسمع هذا النداء؟! وحينما ينادي في القبر لا تسمعه، فهناك كلام لا نفقهه، ولذلك هل كلام الميت بلسان الحال أم بلسان المقال وبالفعل؟ خلاف بين العلماء.

منهم من قال: يتكلم لكن الحي لا يسمعه.

مطلب یہ ہے کہ میت کلام کرتی ہے لیکن حال کی زبان سے یا کہنے والے کی زبان سے اس میں اختلاف ہے علماء کا کہ کیا حقیقی کلام ہے سماع کے بغیر کہ کلام کرتی ہے کوئی نہیں سنتا جیسا حدیث میں ہے کوئی دن ایسا نہیں جس میں فجر پھوٹے اور فرشتے بولیں کہ اے الله … پس یہ ندا کون سنتا ہے ؟ اور قبر سے جب پکارتا ہے تو کون سنتا ہے پس یہ کلام سمجھ نہیں اتا اور اسی لئے (بحث ہوتی ہے کہ) میت کیا زبان حال سے یا زبان مقال یا با لفعل بولتی ہے ؟ علماء کا اختلاف ہے-  ان میں سے کچھ کہتے ہیں بولتی ہے لیکن زندہ نہیں سنتا

ڈاکٹر عثمانی کی رائے میں امام بخاری نے اس پر کلام المیت کا باب قائم کیا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ وہ مردہ کو زندہ نہیں جانتے مردہ میت ہی کہتے ہیں

الله تعالی نے قرآن میں فرمایا

  وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتَىٰ “الخ ،سورہ انعام     

اور اگر ہم ان پر فرشتے بھی اتار دیتے اور مردے بھی ان سے گفتگو کرنے لگتے

اسی طرح کا مضمون سورہ رعد میں بھی بیان ہوا ہے

  أَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتَىٰ     ۔سورہ رعد     

یا اس سے مردے بول اٹھتے 

ان دونوں آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ مردے بول نہیں سکتے ورنہ  اس بات کو ایک عظیم نشانی کے طور پر پیش نہ کیا جاتا

محدثین کے قائم کردہ ابواب صرف روایت میں آنے والے الفاظ ہوتے ہیں جس میں وہ اپنی رائے پر اصرار نہیں کرتے مبادہ کہ حدیث کا مطلب کچھ اور ہو- دوم ضعیف روایت پر بھی باب قائم کرنے کا مقصد ان کو صحیح کہنا نہیں ہوتا بلکہ صرف نفس مضمون بیان کیا جاتا ہے لہذا ابواب سے استنباط نہیں کیا جا سکتا

 [/EXPAND]

[اگر دو محققین حدیث پر اختلاف کریں تو کیا کیا جائے]

جواب

مسائل دو طرح کے ہوتے ہیں عقائد میں یا فقہ و عمل میں

عمل میں دو محدثین میں اجتہاد کا اختلاف ہو اور ایک غلط اور ایک صحیح ہو تو حدیث کے مطابق اس میں دونوں کو ثواب ہو گا اور اس طرح کے فقہی معاملات میں صحابہ رضوان الله علیھم اجمین میں بھی اختلاف تھا اور اس کو ختم نہیں کیا گیا کیونکہ دونوں کے پاس سند رسول تھی لیکن فہم میں فرق ہوتا ہے

عقائد میں اختلاف دین کا تفرقہ ہے اور اس پر حدیث میں ہے کہ فرقے جہنم میں جائیں گے
لہذا عقائد میں احتیاط ضروری ہے عام آدمی کے لئے قرآن کافی ہے وہ اس سے اپنے عقائد کا فیصلہ کرے اور دیکھے کہ علماء کے کہیں خلاف قرآن عقیدہ تو نہیں دے دیا

[/EXPAND]

[ائمہ جرح و تعدیل جب کسی راوی کو شیعہ کہتے ہیں اس سے کیا ان کی مراد علی کا خاص ساتھی ہوتی ہے ؟]

جواب یہ مفروضہ  زمانہ حال کے کچھ غیر مقلدین کا ہے

دامانوی صاحب کتاب عذاب القبر میں ابن حجر کے حوالے سے لکھتے ہیں

 محدثین کی اصطلاح میں  شیعہ اسے کہتے ہیں جو علی رضی اللہ عنہ سے محبت رکھتا ہو اور (دیگر) صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے انہیں افضل سمجھتا ہواور جو انہیں ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بھی افضل مانتا ہو تو وہ ’’ غالی شیعہ‘‘ ہے اور اس پر رافضی کا اطلاق ہو گا اور اگر ایسا نہ ہو تو اس پر شیعہ کا اطلاق ہو گا‘‘(ھدی الساری مقدمۃ فتح الباری ص۴۵۹

ھدی الساری مقدمۃ فتح الباری از ابن حجر

تہذیب التہذیب از ابن حجر ترجمہ ابان بن تغلب

والتشيع محبَّة على وتقديمه علی الصحابة فَمن قدمه على أبي بكر وَعمر فَهُوَ غال فِي تشيعه وَيُطلق عَلَيْهِ رَافِضِي وَإِلَّا فشيعي فَإِن انضاف إِلَى ذَلِك السب أَو التَّصْرِيح بالبغض فغال فِي الرَّفْض وَإِن اعْتقد الرّجْعَة إِلَى الدُّنْيَا فأشد فِي الغلو

اور تشیع (شیعیت) کا مطلب ہے جو علی سے محبت کرتا ھواور ان کواور (دیگر) صحابہ کرام سے افضل سمجھتا ہواور جو انہیں ابو بکر اور عمر سے بھی افضل مانتا ہو تو وہ  غالی شیعہ ہے اور اس پر رافضی کا اطلاق ہو گا اور اگر ایسا نہ ہو تو اس پر شیعہ کا اطلاق ہو گا پس جب اس پر اسکا اضافہ کیا جائے یا بعض پر اس کی تصریح کی جائے تو رفض میں غالی ھو گا اور اگر رجعت کا عقیدہ رکھے تو یہ غلو میں تشدد ہے

فالتشيع في عرف المتقدمين هو اعتقاد تفضيل علي على عثمان, وأن عليا كان مصيبا في حروبه وأن مخالفه مخطئ مع تقديم الشيخين وتفضيلهما, وربما اعتقد بعضهم أن عليا أفضل الخلق بعد رسول الله -صلى الله عليه آله وسلم-, وإذا كان معتقد ذلك ورعا دينا صادقا مجتهدا فلا ترد روايته بهذا, لا سيما إن كان غير داعية, وأما التشيع في عرف المتأخرين فهو الرفض المحض فلا تقبل رواية الرافضي الغالي ولا كرامة

پس تشیع (شیعیت) کا مطلب متقدمین کے نزدیک علی کی عثمان پر فضیلت کا اعتقاد رکھنا ہے،  اور یہ کہ بے شک علی اپنی جنگوں میں حق پر تھے اور انکے مخالف غلطی پر، ساتھ ہی شیخین (ابو بکر اور عمر) کی فضیلت کا اعتقاد رکھنا، اور ان میں سے بعض کا کبھی یہ اعتقاد رکھنا کہ علی، نبی صلی الله علیہ وسلم کے بعد افضل مخلوق ہیں اور اگر یہ عقیدہ ھو اور وہ شیعہ راوی مجتہد، دین میں صادق ھو تو اس وجہ سے اس کی روایت رد نہیں کی جائے گی، خاص طور سے اگر داعی نہ ھو، اور تشیع متاخرین کے نزدیک محض رفض ہے پس اس رافضی ، غالی کی نہ روایت لی جائے اور نہ کوئی عزت کی جائے

نتیجہ:جو علی سے محبت کرے وہ شیعہ ہے اورغالی  شیعہ یا رافضی وہ ہے جو ابو بکر اور عمر پر علی کی فضلیت کا اعتقاد رکھے

نتیجہ:  شیعہ وہ ہے جو عثمان پر علی کی فضلیت کا اعتقاد رکھے

دامانوی صاحب، ابن حجر کی بات سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ التابعين میں غالی شیعہ نہ تھے. حالانکہ خود متقدمین شیعہ کے لئے ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں غالی کا اطلاق کیا ہے

 الذہبی کے نزدیک  التابعين میں بھی غالی شیعہ تھے.  الذہبی سیر الاعلام النبلاء میں کہتے ہیں

ان البدعة على ضربين: فبدعة صغرى كغلو التشيع، أو كالتشيع بلا غلو ولا تحرف، فهذا كثير في التابعين وتابعيهم مع الدين والورع والصدق. فلو رد حديث هؤلاء لذهب جملة من الآثار النبوية، وهذه مفسدة بينة.  ثم بدعة كبرى، كالرفض الكامل والغلو فيه، والحط على أبي بكر وعمر رضي الله عنهما، والدعاء إلى ذلك، فهذا النوع لا يحتج بهم ولا كرامة.

بدعت دو طرح کی ہیں: بدعت صغری جیسے تشیع میں غلو یا تشیع بغیر غلو اور انحراف، پس ایسے بہت سے التابعين اور تبہ التابعين ہیں اپنے صدق اور پرہیزگاری اور دینداری کے ساتھ پس ان کی روایت رد کی جائے تو بہت سا سرمایہ حدیث ضائع ہونے کا اندیشہ ہے، اوربدعت کبریٰ ہے جسے رفض کامل اور اس میں غلو، اور ابوبکر اور عمر کو (علی سے) کم کرنا اور اس کی طرف دعوت دینا پس ایسے راویوں کی روایت سے دلیل نہ لی جائےاور نہ عزت کی جائے

نتیجہ:غالی  شیعہ یا رافضی وہ ہے جو ابو بکر اور عمر پر علی کی فضلیت کا اعتقاد رکھے

تاریخ ابن خلدون ج ٢ ص ٢٩٩ کے مطابق رفض کا لفظ زید بن علی (المتوفی ١٢٢ ھ) نے سب سے پہلے شیعوں کے لئے استعمال کیا.  شیعوں نے زید بن علی سے پوچھا کہ آپ کی ابو بکر اور عمر کے بارے میں کیا رائے ہے. انہوں نے کہا کہ ہم ان سے زیادہ امارت کے حقدار تھے لیکن انہوں  نے یہ حق ہم سے چھین لیا لیکن یہ کام کفر تک نہیں پہنچتا. اس پر شیعوں نے ان کو برا بھلا کہا اور جانے لگے. زید نے کہا

 رفضونی  تم نے مجھے چھوڑ دیا

اسی وقت سے شیعہ رافضیہ کے نام سے موصوف ہوۓ

 زید بن علی سے پہلے شیعہ چاہے سبائی ھو یا غالی یا غیر غالی سب کو شیعہ ہی بولا جاتا رہا اور یہ انداز جرح و تعدیل کے ائمہ کا ہے اس کی متعدد مثالیں ہیں مثلا

عبد الله بن شريك العامري الكوفي کے لئے ابن حجر تہذیب التہذیب میں لکھتے ہیں

وقال ابن حبان في الضعفاء كان غاليا في التشيع: ابن حبان کہتے ہیں ضیف راویوں میں ہیں اور تشیع میں غالی تھے

وقال أبو الفتح الأزدي من أصحاب المختار: اور أبو الفتح الأزدي انکو اصحاب مختار (الثقفی) کہتے ہیں

مختار الثقفی ایک غالی شیعہ تھا اور اس کے اصحاب کو متقدمین شیعہ غالی میں شمار کیا جاتا ہے.  لہذا دامانوی صاحب کا  یہ کہنا کہ متقدمین میں غیر غالی شیعہ کوصرف شیعہ بولا جاتا تھا سراسر غلط ہے

 عمرو بن ثابت کے لئے جو سنن ابی داود کے راوی ہیں ابی داود، سنن میں کہتے ہیں

قال أبو داود: كان عمرُو بن ثابث رافضياً، وذكره عن يحيى بن معين، ولكنه كان صدوقاً في الحديث

أبو داود کہتے ہیں : عمرو بن ثابت رافضی ہے اور يحيى بن معين نے اسکا ذکر کیا ہے لیکن حدیث میں صدوق ہے

سؤالات أبي عبيد الآجري أبا داود السجستاني في الجرح والتعديل میں الاجری ، ابی داود سے پوچھتے ہیں

سألت أبا دَاوُد عَن عَمرو بْن ثَابت فَقَالَ: “كَانَ رَجُلَ سَوءٍ: عمروبن ثابت برا آدمی تھا

مخول  بن راشد جو سنن ابی داود کے راوی ہیں ، کے لئےالاجری کہتے ہیں کہ ابی داود نے کہا

مخول، سمعت أبا داود يقول: كان حربيا یہ حربیہ فرقے کا تھا

علامہ ابو الحسن الشعری کے مطابق یہ شیعوں کا غالی فرقہ تھا

 إسماعيل بن موسى، الفزاري، ابن بنت السديکے لئےالاجری کہتے ہیں کہ ابی داود نے کہا

عن أبي داود: صدوق في الحديث، وكان يتشيع، سُمع يقول: قتل الزبير خمسين ألف مسلم

ابی داود نے کہا: حدیث میں صدوق ہیں اور شیعہ تھے سنا کہتے تھے (صحابی رسول) زبیر نے پچاس ہزار مسلموں کو قتل کیا

سنن ابی داود کے راوی ہیں

معلوم ہوا کہ غالی شیعہ راوی کو بھی صرف شیعہ بولا گیا ہے اور اس کی بدعت کا اندازہ اس کی بیان کردہ روایت دیکھ کر کیا جائے گا

 زاذن کو ابن حجر نے ہی شیعہ کہا ہے اس کے علاوہ امام دولابی نے بھی شیعہ کہا ہے لہذا اسکی

شیعیت کا ذکر ہر دور میں رہا ہے

ارشد کمال المسند فی عذاب القبر ص ١٥٧ پر لکھتے ہیں

arshad-157محمد بن عمر الواقدی کا حوالہ ابن حجر نے ٢٠٠ سے اوپر دفعہ تہذیب التہذیب میں دیا ہے اس کی وجہ ہے کہ الواقدی حدیث کی روایت میں قابل اعتبار نہیں لیکن تاریخ میں ان کے اقوال کو ئمہ جرح و تعدیل نے لیا  ہے

ابن تیمیہ کتاب رأس الحسين میں الواقدی کا دفاع کرتے ہوئے لکھتے ہیں

ومعلوم أن الواقدي نفسه خير عند الناس من مثل هشام بن الكلبي وأبيه محمد بن السائب وأمثالها، وقد علم كلام الناس في الواقدي، فإن ما يذكره هو وأمثاله يعتضد به، ويستأنس به. وأما الاعتماد عليه بمجرده في العلم: فهذا لا يصلح.

اور معلوم ہے کہ واقدی فی نفسہ  ہشام بن الکلبی اور اس کے باپ محمّد بن السا ئب اور اس کے جیسوں سے تو اچّھا ہے. اور لوگوں کے الواقدی کے بارے میں کلام کا پتا ہے پس  وہ اور اس کے جیسے کوئی بات بیان کریں  تو اس سے وہ بات قوی ہو گی اور ٹھہرے گی  اور جہاں تک  واقدی  پر مجرد اعتماد کا تعلّق ہے تو وہ صحیح نہیں

ابن تیمیہ نے واقدی کا دفاع اپنی دیگر کتب میں بھی  کیا ہے

واقدی کی زاذان کے بارے میں رائے کے علاوہ ابن حجر کی اپنی تحقیق بھی یہی ہے کہ وہ شیعہ ہے کیونکہ ابن حجر نے یہ بات واقدی کے حوالے سے نہیں لکھی.

الواقدی جو خود متشدد شیعہ ہے  جب وہ خود شیعہ ہے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ زاذان خود کتنا بڑا شیعہ ھو گا

 مزید یہ کہ کیا واقدی جرح کر رہا ہے؟ نہیں بلکہ وہ تو تعریف کر رہا ہے کیونکہ اس کے نزدیک شیعہ ہونا خوبی نے نہ کہ عیب

داعی شیعہ راوی؟

 دامانوی صاحب یہ بھی لکھتے ہیں

کسی راوی کا شیعہ‘ مرجیہ وغیرہ ہونا کوئی جرح نہیں جب تک کہ وہ اس کی طرف دعوت نہ دیتا ہو۔

ہم اس سے اتفاق کرتے ہیں

بخاری کا منہج یہی ہے کہ  راوی کی ایسی روایت جو  بدعت کے حق میں نہ ھو وہ لی جائے گی  ،القسطلاني ، إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري میں لکھتے ہیں

عدي بن ثابت الأنصاري الكوفي التابعي، المشهور. وثقه أحمد، والنسائي، والعجلي، والدارقطني إلا أنه كان يغلو في التشيع، لكن احتج به الجماعة، ولم يخرج له في الصحيح شيئًا مما يقوي بدعته

عدي بن ثابت الأنصاري الكوفي التابعي مشھور ہیں … بے شک یہ تشیع میں غلو کرتے ہیں لیکن ان سے ایک جماعت نے احتجاج کیا ہے اور بخاری نے صحیح میں ان سے کوئی روایت نہ لی جس سے انکی بدعت کو تقویت پہنچے

زبیر علی زئی کتاب توضیح الاحکام میں مثال دیتے ہیں کہ صحیحین میں بھی بدعتی راوی موجود ہیں

tozeh-95

 اب سوچنے کا مقام ہے کہ عود روح والی روایت جس کے لئے دامانوی صاحب انتے بے چین ھو جاتے ہیں آخر بخاری مسلم میں کیوں نہیں؟  وجہ صرف یہ ہے کہ زاذان سے بخاری نے کوئی روایت نہیں لی اور مسلم نے زاذان کی ابن عمر سے روایت کردہ تین روایتں لکھی ہیں وہ بھی عقیدے کے بارے میں نہیں اور جہاں تک  زاذان کی براء بن عازب رضی الله تعالی عنہ سے بیان کردہ  روایت کا تعلّق ہے تو وہ تو لکھی ہی نہیں. عدی بن ثابت بھی عود روح والی روایت کا راوی ہے. بخاری نے اور روایات لکھیں لیکن اس کی عود روح والی روایت نہیں لی

معلوم ہوا کہ راوی کی تحقیق کی جائے گی اوراس کی روایت صرف شیعہ ہونے پر رد نہیں ہوتی. لیکن اگروہ شیعہ ہے تو اس کی روایت کا متن دیکھا جائے گا کہ کہیں دعوت بدعت تو نہیں دے رہا

اسی اصول پر ہمارے نزدیک زازن ایک بدعتی شیعہ راوی ہے اور اس کی صحیح مسلم والی روایت یا منہال بن عمرو کی بخاری میں ایک روایت پر ہمیں اعتراض نہیں ہے ہم کو عود روح والی روایت پر اعتراض ہے کہ خود بخاری و مسلم نے اس کو نہیں لکھا   لہذا یہ عود روح والی روایت صحیح و حسن نہیں

اہل حدیث علماء کے  نزدیک راوی کی بدعت کی بحث بے کار ہے اگر وہ بدعتی بھی ہو تو بھی روایت صحیح ہے

زبیر علی زئی کتاب توضیح الاحکام میں لکھتے ہیں

tozeh-574

اسمعیل سلفی کتاب مقالات حدیث میں لکھتے ہیں

hadis-waza

جی ہاں روایات کی وضع سازی کا اسی دور میں آغاز ہوا جب صحابہ کے مناقشات پر سب سے پہلے روایات گھڑی گئیں مختار الثقفی اور سبائی فتنوں نے شیعیاں علی بن کر اہل بیت کے فضائل گھڑے اور ان کو ایک ما  فوق الفطرت مخلوق بنا دیا گیا ، پھر وہ امام اور معصوم کہلائے ، اسی دور میں زاذان اور منہال بن عمرو نے عود روح کی روایت بیان کی .اسمعیل سلفی کی بات سے ظاہر ہے یہ ابھی  صحابہ کا دور ہے کہ روایات سازی شروع ہو چکی  ہے

قارئیں اب فیصلہ آپ کے ہاتھوں میں  ہے. شوق گل بوسی میں کانٹوں پر لب رکھئے یا اللہ اور اس کی کتاب جو تقاضہ کرتی ہے اس کو مانیے

[/EXPAND]

[کیا زاذان اور المنھال بن عمرو پر جرح غلط کی گئی ہے؟]

جواب

ابن حجر اپنی کتاب تقریب التہذیب میں اس راوی کے لئے لکھتے ہیں فیه شیعیۃ   اس میں شیعیت ہے

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل،  جلد 02 ص  396محدث فتویٰ ویب سائٹ پر موجود ہے اس میں ابن حجر کے ان الفاظ کا مفہوم اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ

رہا زاذان کو شیعہ قرار دینا تو وہ درست نہیں۔ حافظ ابن حجر نے تقریب میں صرف اتنا فرمایا ہے کہ اس میں کچھ شیعیت ہے۔ جیسا کہ آپ نے خود ترجمہ فرمایا: ’’ فیہ شیعیۃ ‘‘( اس میں شیعیت ہے۔) تو اب کے شیعیت کو شیعہ بنانے والوں کو کچھ نہ کچھ تو ضرور حاصل ہوگا، کیونکہ یہ بھی تو ایک کارنامہ ہی ہے نا۔

شیعیت سے شیعہ ہی بنتا ہے اس کی متعدد امثال ہیں مثلا

کتاب التَّكْميل في الجَرْح والتَّعْدِيل ومَعْرِفة الثِّقَات والضُّعفاء والمجَاهِيل کے مطابق

يونس بن خَبَّاب الأسيدي، جو عود روح والی روایت کا راوی ہے اس کے لئے امام دارقطنی کہتے ہیں

رجل سوء فيه شيعية مفرطة

برا آدمی ہے اس میں بڑھی ہوئی شیعیت ہے

البزاز ایک راوی أسيد بن زيد بن نجيح الجمال الهاشمي کے لئے کہتے ہیں

 قد احتمل حديثه مع شيعية شديدة فيه

بے شک اس کی حدیثیں شدید شیعیت کے ساتھ ہوتی ہیں

لسان المیزان کے مطابق راوی إبراهيم بن محمد بن عرفة النحوي کے لئے مسلمہ کہتے ہیں

وقال مسلمة وكانت فيه شيعية  اور اس میں شیعیت تھی

کتاب إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال کے مطابق  البزاز راوی  جعفر بن زياد الأحمر أبو عبد الله الكوفي کے لئے کہتے ہیں کہ

وقال البزار في كتاب «السنن» تأليفه: فيه شيعية متجاوزة

اور البزاز  اپنی تالیف  السنن میں کہتے ہیں کہ اس میں متجاوز شیعیت تھی

کتاب کے مطابق راوی يونس بن أرقم الكندي البصري کے لئے البزاز کہتے ہیں

أَنَّ فيه شيعية شديدة

بے شک اس میں شدید شیعیت ہے

معلوم ہوا کہ ابن حجر کے الفاظ  زاذان کے شیعہ ہونے پر ہی اشارہ کرتے ہیں

مفتی صاحب یہ بھی فرماتے ہیں

شیعہ ہونا بھی باعث ضعف نہیں، جبکہ اس میں اور کوئی سبب ضعف موجود نہ ہو، کیونکہ اہل بدعت غیر مکفرہ میں صحیح بات یہی ہے ، وہ اگر داعیہ نہ ہوں ، تو ان کی روایت بوجہ ان کی بدعت کے ضعیف نہیں بنے گی۔ مقدمہ فتح الباری ، شرح نخبہ، مقدمہ ابن صلاح ، تدریب الراوی ، ارشاد الفحول وغیرہ۔

رفیق طاہر صاحب زاذان کا دفاع کرتے ہوئے  لکھتے ہیں

احمد بن حجر جنہوں نے زازان پر شیعہ ہونے کی تہمت لگائی ہےاور یہ بھی نہیں کہا کہ وہ شیعہ ہے بلکہ یہ کہا ہے : ’فیہ تشیع قلیل‘ اس کے اندر تھوڑا سا تشیع ہے ، تھوڑی سی شیعیت ہے

http://www.urduvb.com/forum/showthread.php?t=18614

ابن حجر نے کس کتاب میں لکھا ہے کہ زاذان میں فیه تشیع قلیل یہ مل نہیں سکا؟ اصل میں ایسا کسی نے کہا بھی نہیں ہے

بخاری نے زاذان سے صحیح بخاری میں کوئی روایت نہیں لی

 منہال بن عمرو کی حیثیت

یحییٰ بن سعید القطان اس راوی کے خلاف تھے

مفتی صاحب اس کا دفاع کرتے ہیں کہ

حاکم نے کہا کہ یحییٰ القطان اس کو ضعیف گردانتے تھے۔‘‘ اس میں بھی آپ لوگوں نے تلبیس ہی سے کام لیا ہے، کیونکہ تہذیب التہذیب میں الفاظ اس طرح ہیں: (( قال الحاکم: المنہال بن عمرو غمزہ یحیی القطان )) جس کا ترجمہ آپ نے فرمایا:’’ یحییٰ القطان اس کو ضعیف گردانتے تھے۔‘‘ جبکہ اس عبارت کا ترجمہ آپ والا نہیں بنتا۔ ….. غمز تضعیف میں نص نہیں۔ تضعیف کے علاوہ کسی اور چیز کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے

الذہبی کتاب المقتنى في سرد الكنى  میں لکھتے ہیں

أبو طالوت، عن أبي المليح، غمزه البخاري

أبو طالوت، أبي المليح سے  البخاري اس کو غمز کیا

ایک راوی  الْهَيثم بن عبد الرحمن کے لئے خطیب تاريخ بغداد میں لکھتے ہیں

وجاءوا إلى عَبْد الرَّحْمَن بْن مهدي بأحاديث حَدَّث بِهَا، فأنكرها عَبْد الرَّحْمَن، وتكلم فِيهِ بشيء غمزه بِهِ فسقط وذهب حديثه

اورعبدالرحمن بن مہدی کے پاس گیا اور روایات بیان کیں ، عبدرحمان نے انکار کیا اور اس سے کی بات پر کلام کیا اور اس کو غمز کیا

الذہبی کتاب ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين میں کئی راویوں

کے لئے لکھتے ہیں

سليمان بن الفضل: عن عبد الله بن المبارك، غمزه ابن عدي.

حريث بن أبي حريث: عن ابن عمر، غمزه الأوزاعي

ابن حجر میں راوی إبراهيم” بن مهاجر بن جابر البجلي أبو إسحاق الكوفي کے لئے لکھتے ہیں

بلى حدث بأحاديث لا يتابع عليها وقد غمزه شعبة أيضا

الذهبی تاریخ الاسلام میں راوی حَبِيبُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ يَزِيدُ الْجَرْمِيُّ الْبَصْرِيُّ الأَنْمَاطِيُّ کے لئے بتاتے ہیں کہ

قَدْ غَمَزَهُ أَحْمَدُ، وَقَدَحَ فِيهِ يَحْيَى الْقَطَّانُ. وَنَهَى يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ عَنْ كِتَابَةِ حَدِيثِهِ.

لسان المیزان میں ایک راوی کے لئے لکھتے ہیں

أحمد بن حاتم السعدي. روى عنه محمود بن حكيم المستملي حديثا منكرا غمزه الإدريسي

إسحاق بن أبي يزيد. عن الثوري. لا يدرى من هو. والحديث باطل وقد غمزه أبو سعيد النقاش.

 سهل بن قرين وهو بصري غمزه ابن حبان، وَابن عَدِي وكذبه الأزدي.

 ان مثالوں سے واضح ہے کہ غمزه کے الفاظ  کسی کی حیثیت کم کرنے کے لئے ہی استمعال ہوتے ہیں

 مفتی صاحب لکھتے ہیں

اور منہال بن عمرو بھی ثقہ اور رجال شیخین میں شامل ہیں

 امام مسلم نے منہال بن عمرو سے صحیح مسلم میں کوئی روایت نقل نہیں کی تو رجال شیخین  میں سے کیسے ھو گیا؟

حاکم مستدرک میں لکھتے ہیں

هذا حديث صحيح على شرط الشيخين فقد احتجا جميعا بالمنهال بن عمرو و زاذان أبي عمر الكندي

یہ حدیث شیخین کی شرط پر صحیح ہے، بے شک انہوں نے منہال بن عمرو اور زاذان ابو عمر الکندی سے احتجاج کیا ہے

لیکن حاکم کی یہ بات درست نہیں. امام مسلم نے منہال بن عمرو سے کوئی روایت نہیں لی

اس غلطی کو ذھبی نے بھی تلخیص مستدرک میں دہرایا اور کہا

تعليق الذهبي قي التلخيص : على شرطهما فقد احتجا بالمنهال

ان دونوں کی شرط پر بے شک انہوں نے منہال سے احتجاج کیا ہے

یہ بات ذھبی نے اس وقت لکھی تھی جب انہوں نے اپنی کتاب سیر الاعلام النبلاء اور تاریخ الاسلام نہیں لکھیں تھیں

ذھبی تاریخ الاسلام ج ١ میں کہتے ہیں

وفي بعض ذلك موضوعات قد أعلمت بها لما اختصرت هذا ” المستدرك ” ونبهت على ذلك

اور ان کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے جب میں نے مستدرک کا اختصار کیا ہے

سیر الاعلام النبلاء ج ١٧ میں حاکم کے بارے میں لکھتے ہیں

وبكل حال فهو كتاب مفيد قد اختصرته

اور یہ مفید کتاب ہے میں نے اس کو مختصر کیا ہے

معلوم ہوا کہ مستدرک پر تلخیص سیر اور تاریخ جیسے ضخیم کام سے پہلے ہوئی. ذھبی نے اپنے اس تحقیقی کام میں اپنی ہی تصحیح کا رد کر دیا

الذهبی کتاب تاریخ الاسلام میں منہال کے لئے لکھتے ہیں

قلت : تفرد بحديث منكر ونكير عن زاذان عن البراء

میں کہتا ہوں: منکر نکیر والی حدیث جو زاذان عن البراء  سے ہے اس میں اس کا تفرد ہے

ذھبی کتاب سیر لاعلم النبلاء میں منہال کے لئے لکھتے ہیں

حَدِيْثُهُ فِي شَأْنِ القَبْرِ بِطُوْلِهِ فِيْهِ نَكَارَةٌ وَغَرَابَةٌ

المنھال بن عمرو کی قبر کے بارے میں طویل روایت میں نکارت اور غرابت ہے

لہذا  قائلین عود روح کا  ذھبی کی تلخیص مستدرک میں اس روایت کی تصحیح پیش کرنا اصولا سراسر دجل ہے

حیرت کی بات ہے کہ اسی  محدث فورم ویب سائٹ پر امام حاکم پر حدیث لولاک لما خلقت الافلاک کے حوالے سے جرح بھی کی گئی ہے

نیز امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کا تساہل بھی محدثین کے نزدیک ایک مسلمہ امر ہے۔علامہ بدر الدین عینی حنفی رحمۃ اللہ علیہ اور امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حقیقت کی نشاندہی ان الفاظ میں کی ہے:
لاریب أن في المستدرک أحادیث کثیرة لیست علی شرط الصحة بل فیہ أحادیث موضوعة شان المستدرک بـإخراجہا فیہ 17
”بلاشبہ المستدرک میں بکثرت ایسی احادیث موجود ہیں جوصحیح حدیث کی شرط کے مطابق نہیں بلکہ اس میں موضوع احادیث بھی ہیں جن کا تذکرہ مستدرک پر ایک دھبہ ہے۔”
ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے عبد الرحمن بن زید کے بارے خود امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول نقل کیا ہے جس سے امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کا اس سلسلہ میں تساہل اور تناقض واضح ہوتا ہے، فرماتے ہیں :
” یہ شخص اپنے باپ سے موضوع احادیث بیان کیا کرتا تھا۔ ” 18
شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول کو متناقض قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ خود امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت میں موجود راوی عبدالرحمن کی ایک دوسری روایت کو غیر صحیح کہا ہے اور فرمایا ہے کہ شیخین نے عبدالرحمن بن زید کو ناقابل حجت قرار دیا ہے۔ نیزخود امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے عبدالرحمن بن زید کو اپنی کتاب الضعفاء میں ذکر کیا ہے۔
امام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کے اس تساہل اور تناقض کی وجہ یہ ذکر کی ہے کہ
” مستدرک کی تصنیف کے وقت ان کے حافظے میں فرق آگیا تھا، اس کی دلیل یہ ہے کہ اُنہوں نے رواة کی ایک کثیر تعداد کو اپنی کتاب الضعفاء میں ذکر کیا ہے اور ان سے استدلال کو ممنوع قرار دیا ہے ، لیکن اپنی کتاب مستدرک میں خود اُنہیں سے روایات نقل کی ہیں اور اُنہیں صحیح قرار دیا ہے۔ ”

مفتی صاحب لکھتے ہیں

آپ نے دیکھ لیا کہ براء بن عازب  رضی اللہ عنہ کی رد روح والی حدیث کو کتنے بڑے بڑے محدثین عظام نے صحیح و حسن قرار دیا ہے، اس کے بعد اس کی سند میں وارد راوی منہال بن عمرو اور زاذان کی توثیق و تثبیت کی چنداں ضرورت تو نہ تھی،

مفتی صاحب یہ بھی لکھتے ہیں

زاذان اور منہال بن عمرو پر مغالطہ و تلبیس کے ذریعہ بنائی ہوئی جرح کو بڑی وقعت دے رہے ہیں

ذھبی کے علاوہ ابن حبان اور ابن حزم بھی اس  روایت کو رد  کرتے ہیں

قارئیں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جرح و تعدیل پر کتابیں لکھنے والے امام الذهبی بھی اس روایت کورد کرتےہیں حالانکہ راویوں کی ثقاہت کا ان کو بھی پتہ ہے

کیا الذهبی نے مغالطہ اور تلبیس سے کام لیا ہے جو راویوں کے ثقاہت کے الفاظ کو درخوراعتناء نہ سمجھا اور عود روح کی روایت کو رد کر دیا ذرا سوچئے

[/EXPAND]

سوال  میری نظر سے صحیح بخاری کی ایک حدیث گزری جو کچھ یوں‌ ہے

حکم بن نافع شعیب زہری حمید بن عبدالرحمن بن عوف عبداللہ بن عتبہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن خطاب سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لوگوں کا مواخذہ وحی کے ذریعہ ہوتا تھا اور اب وحی موقوف ہوگئی اس لیے اب ہم تمہارے صرف تمہارے ظاہری اعمال پر مواخذہ کریں گے جو شخص اچھا عمل ظاہر کرے گا تو ہم اسے امن دیں گے اور مقرب بنائیں گے ہمیں اس کے باطن سے کوئی غرض نہیں اس کے باطن کا محاسبہ اللہ تعالیٰ کرے گا اور جس نے برے اعمال ظاہر کیے ہم اسے امن نہیں دیں گے اور نہ اس کی تصدیق کیں گے اگرچہ وہ کہتا ہو کہ اس کا باطن اچھا ہے۔ صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 2466 حدیث موقوف مکررات 1

یہ حدیث میں نے اس پوائینٹ پر سنائی کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ سبحان و تعالٰی وحی کے ذریعے کسی بھی شخص کے بارے میں خبر کر سکتے تھے کہ وہ غلط کہہ رہا ہے یا صحیح مگر مجھے اسکا جواب یہ دیا گیا کہ یہ موقوف حدیث ہے یعنی اسکی سند ایک صحابی (رض) پر جا رکتی ہے اس لئے اسے دلیل نہیں‌ بنایا جاسکتا ۔

تو کیا یہ بات درست ہے کہ اس کی سند ٹھیک نہیں؟

میں نے یہ بھی پڑھا ہے کہ اگر موقوف حدیث، صحت کے اعتبار سے صحیح کے درجے پر تب بھی اس سے حکم اخذ نہیں کیا جاسکتا۔ مگر کیا ایسی احادیث سے معلومات تو لی جاسکتی ہیں نا؟ جیسےاوپر والی حدیث سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں‌ کا مواخذہ وحی کے ذریعے کیا جاتا تھا؟

جزاک اللہِ خیر

جواب موقوف حدیث کا مطلب ہے کہ یہ صحابی کا قول فعل یا عمل ہے چونکہ اس میں یہ گمان آ سکتا ہے کہ ہو سکتا ہے یہ صحابی کی اپنی رائے ہواس وجہ سے اس کا درجہ مرفوع سے کم ہے

اگر سند متصل ہو اور راوی ہم عصر اور ثقہ ہوں اور کوئی اور علت نہ ہو تو اس کی سند صحیح ہے

اپ نے جو حدیث حدیث  پیش کی ہے وہ بخاری کی ہے اور سندآ  صحیح ہے

عموما کسی نہ کسی معاملہ میں  کوئی نہ کوئی  مرفوع حدیث بھی ہوتی ہے اور موقوف کی اہمیت ختم ہو جاتی  ہے .

جی معلومات لی جا سکتی ہے

[کیا فضائل میں ضعیف پر عمل ہو سکتا ہے؟ ]

نہیں یہ غلطی لوگ کرتے رہے ہیں

بعض لوگوں نے قیاس کے مقابلے میں ضعیف کو فوقیت دی تھی لیکن بعد میں ان ضعیف روایات نے عقائد میں ایک اضطراب برپا کیا ہے  لہذا ان کو چھوڑنا چاہیے

[/EXPAND]

[امام بخاری نے الصحیح میں اللات کے بارے میں ان رآویوں سے روایت لکھی ہے جو خود ان کے نزدیک ضعیف ہیں ؟]

جواب

لات عزی اور منات قرآن کے مطابق دیویاں تھیں

قرآن کہتا ہے

أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الأُخْرَى أَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الأُنْثَى تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيزَى إِنْ هِيَ إِلا أَسْمَاءٌ سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بهَا من سُلْطَان

کیا تم نے اللَّاتَ، َالْعُزَّى اور ایک اور  تیسری  مَنَاةَ کو دیکھا؟ کیا تمہارے لئے تو ہوں لڑکے اور اس کے لئے لڑکیاں؟ یہ تو بڑی غیر منصفانہ تقسیم ہوئی! یہ تو صرف چند نام ہیں، جو تم نے اور تمہارے اباؤ اجداد نے رکھ دیے ہیں، الله کی طرف سے ان پر  کوئی سند نہیں اتری

اللات  طائف میں، العُزَّى مکہ میں اور مَنَاة مدینہ میں عربوں کی خاص دیویاں تھیں

تاریخ کی کتب کے مطابق عرب طواف میں پکارتے

 وَاللاتِ وَالْعُزَّى وَمَنَاةَ الثَّالِثَةِ الأُخْرَى … فَإِنَّهُنَّ الْغَرَانِيقُ الْعُلَى وَإِنَّ شفاعتهن لَتُرْتَجَى

اور اللاتِ اور الْعُزَّى اور ایک اور تیسری مَنَاةَ

یہ تو بلند  پرند نما حسین (دیویاں) ہیں اور بے شک ان کی شفاعت گونجتی ( قبول کی جاتی) ہے

 صحیح بخاری کی حدیث ہے

حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَشْهَبِ، حَدَّثَنَا أَبُو الجَوْزَاءِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فِي قَوْلِهِ: {اللَّاتَ وَالعُزَّى} [النجم: 19] «كَانَ اللَّاتُ رَجُلًا يَلُتُّ سَوِيقَ الحَاجِّ

أَبُو الجَوْزَاءِ کہتا ہے کہ ابن عباس رضی الله عنہ نے کہا {اللَّاتَ وَالعُزَّى} [النجم: 19] الله کے قول پر کہا کہ اللَّاتُ ایک شخص تھا جو حاجیوں کو ستو پلاتا تھا

اس کی سند میں أَبُو الجَوْزَاءِ ہے جس  کا نام  أَوْس بن عبد الله  یا أَوْس بن خَالِد لیا جاتا ہے

الکامل از ابن عدی کے مطابق

سَمِعْتُ مُحَمد بْنَ أَحْمَدَ بْنِ حَمَّادٍ يَقُولُ: قَالَ البُخارِيّ أوس بْن عَبد الله الربعي أبو الجوزاء البصري فِي إسناده نظر

محمد بن احمد بن حماد کہتے ہیں بخاری نے کہا أوس بْن عَبد الله الربعي أبو الجوزاء البصري کی اسناد پر نظر ہے

بخاری تاریخ الکبیر میں کہتے ہیں

وَقَالَ لَنَا مُسَدد: عَنْ جَعفَر بْنِ سُليمان، عَنْ عَمرو بْنِ مَالِكٍ النُّكرِي، عَنْ أَبي الْجَوْزَاءِ، قَالَ: أَقَمْتُ مَعَ ابْنِ عَبّاس، وَعَائِشَةَ، اثْنَتَيْ عَشَرَةَ سَنَةً، لَيْسَ مِنَ الْقُرْآنِ آيَةٌ إلاَّ سألتُهم عَنْها. قَالَ مُحَمد: فِي إِسْنَادِهِ نَظَرٌ.

مسدد  نے جعفر سے انہوں نے َعمرو بْنِ مَالِكٍ النُّكرِي سے انھوں نے  أَبي الْجَوْزَاءِ سے روایت کیا کہ میں ابن عباس اور عائشہ رضی الله عنہما کے ساتھ ١٢ سال رہا قرآن کی کوئی ایسی آیت نہیں جس پر ان سے سوال نہ کیا ہو – امام بخاری نے کہا اس کی اسناد پر نظر ہے

لگتا ہے بخاری سے تسامح ہوا اور أَبُو الجَوْزَاءِ کی   روایت صحیح بخاری میں نقل ہوئی کیونکہ صحیح میں أَبُو الجَوْزَاءِ کی یہ واحد روایت ہے

ابن حجر تہذیب التہذیب میں کہتے ہیں
” وقول البخاري في إسناده نظر ويختلفون فيه إنما قاله عقب حديث رواه له في التاريخ من رواية عمرو بن مالك البكري, والبكري “ضعيف عنده” وقال ابن عدي: “حدث عنه عمرو بن مالك قدر عشرة أحاديث غير محفوظة وأبو الجوزاء روى عن الصحابة وأرجو أنه لا بأس به ولا يصح روايته عنهم أنه سمع منهم وقول البخاري في إسناده نظر يريد أنه لم يسمع من مثل بن مسعود وعائشة وغيرهما إلا أنه ضعيف عنده وأحاديثه مستقيمة”.
اور بخاری کا قول اس کی اسناد میں نظر ہے اور اس پر اختلاف کیا ہے بے شک انہوں نے تاریخ الکبیر میں اس کی روایت جو عمرو بن البکری سے ہے اس کے بعد کہا یہ کہا ہے اور البکری ہی ضعیف ہے اور ابن عدی نے کہا ہے کہ ان سے البکری نے دس روایات بیان کی ہیں جو محفوظ نہیں اور ابو الجوزاء صحابہ سے روایت کرتے ہیں اور امید ہے کہ ان میں کوئی برائی نہیں اور ان کی روایت ان سے صحیح نہیں اور بخاری کا کہنا ان کی اسناد پر نظر ہے تو اس سے مراد ہے کہ انہوں نے ابن مسعود اور عائشہ اور دیگر سے نہیں سنا

لیکن بخاری نے تاریخ الکبیر میں ابن عباس سے اور عائشہ رضی الله عنہما سے سنے پر اسنادہ نظر کہا ہے لہذا معاملہ واضح نہیں رہا کیونکہ لات والی روایت ابن عباس سے ابو الجوزاء نے بیان کی ہے

ابن عدی نے الکامل میں ابو الجوزاء کو ضعیف راویوں میں شمار کیا اور لکھا
ويقول البُخارِيّ فِي إسناده نظر أَنَّهُ لم يسمع من مثل بن مسعود وعائشة وغيرهما إلا أَنَّهُ ضعيف عنده
اور بخاری نے کہا ان کی اسناد پر نظر ہے انہوں نے ابن مسعود اور عائشہ سے نہیں سنا خبردار یہ ان کے نزدیک ضعیف ہے

ابو الجوزاء ہی وہ راوی ہے جو عائشہ رضی الله عنہا سے روایت کرتا ہے کہ قحط پر انہوں نے لوگوں کو حکم دیا کہ حجرہ کی چھت ہٹا دی جائے حتی کہ قبر نبی اور آسمان میں کوئی چیز نہ ہو اور اس عمل پر خوب بارش ہوئی

تفسیر کی کتابوں یہ ستو پلانے والے کا قول مجاہد سے بھی منسوب کیا گیا ہے جو ابن عباس کے شاگرد تھے ممکن ہے لات ایک شخص ہو جس کی روح صخرہ یا چٹان میں سما جانے کا تصور ہو اور چونکہ صخرہ یا چٹان مونث ہے تو یہ وقت کے ساتھ  ایک دیوی بن گئی ہو

[/EXPAND]

[ کیا صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین حدیث رسول کی تصدیق کے معاملے میں کم از کم دو گواہیاں طلب کرتے تھے ]

جیسا کہ اس حدیث میں بیان ہوا ہے

صحیح حدیث میں ہے کہ حضرت ابو موسیٰ (رض) ، حضرت عمر فاروق (رض) کے پاس گئے ۔ تین دفعہ اجازت مانگی ، جب کوئی نہ بولا تو آپ واپس لوٹ گئے ۔ تھوڑی دیر میں حضرت عمر نے لوگوں سے کہا ! دیکھو عبداللہ بن قیس (رض) آنا چاہتے ہیں ، انہیں بلا لو لوگ گئے ، دیکھا تو وہ چلے گئے ہیں ۔ واپس آکر حضرت عمر (رض) کو خبر دی ۔ دوبارہ جب حضرت ابو موسیٰ (رض) اور حضرت عمر (رض) کی ملاقات ہوئی تو حضرت عمر (رض) نے پوچھا آپ واپس کیوں چلے گئے تھے ؟ جواب دیا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کا حکم ہے کہ تین دفعہ اجازت چاہنے کے بعد بھی اگر اجازت نہ ملے تو واپس لوٹ جاؤ ۔ میں نے تین بار اجازت چاہی جب جواب نہ آیا تو میں اس حدیث پر عمل کر کے واپس لوٹ گیا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا اس پر کسی گواہ کو پیش کرو ورنہ میں تمہیں سزا دوں گا ۔ آپ وہاں سے اٹھ کر انصار کے ایک مجمع میں پہنچے اور سارا واقعہ ان سے بیان کیا اور فرمایا کہ تم میں سے کسی نے اگر حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کا یہ حکم سنا ہو تو میرے ساتھ چل کر عمر (رض) سے کہہ دے ۔ انصار نے کہا یہ مسئلہ تو عام ہے بیشک حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ہے ہم سب نے سنا ہے ہم اپنے سب سے نو عمر لڑکے کو تیرے ساتھ کر دیتے ہیں ، یہی گواہی دے آئیں گے۔ چنانچہ حضرت ابو سعید خدری (رض) گئے اور حضرت عمر (رض) سے جاکر کہا کہ میں نے بھی حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) سے یہی سنا ہے ۔ حضرت عمر (رض) اس وقت افسوس کرنے لگے کہ بازاروں کے لین دین نے مجھے اس مسئلہ سے غافل رکھا

جواب

حدیث کو تواتر اور خبر واحد میں تقسیم کیا گیا ہے تواتر کی روایات ایک ہجوم پیش کرتا ہے جس کا کذب پر جمع ہونا نہ ممکن لگتا ہے اس میں راوی ضعیف بھی ہوتے ہیں ثقہ بھی اور ایسی روایات صرف چند روایات ہی ہیں –   دوسری نوع خبر واحد کی ہے جس کو ایک صحابی بیان کرے ایسی روایات پر اختلاف رہا ہے کہ ان سے کیا کیا  ثابت  ہوتا ہے اہل رائے کے نزدیک  یعنی احناف کے نزدیک اس سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا جبکہ متقدمین اہل حدیث اس کو قابل اعتماد سمجھتے رہے ہیں

آپ نے جو حدیث پیش کی ہے وہ خود ایک  خبر واحد ہے اور اس میں صرف یہ ہے کہ عمر رضی الله عنہ کو شک ہوا کہ ابو موسی رضی الله عنہ صحیح بات پیش نہیں کر رہے یہ عمر رضی الله عنہ کا مخصوص عمل ہے جو انہوں نے دیگر اصحاب کے ساتھ نہیں کیا اور بہت سے موقعہ پر صرف ایک صحابی  یا تابعی کی بات کو قبول کر لیا  لیکن یہ تمام  قبول رد عمل میں تھا عقیدے میں  اس کی مثال نہیں ملتی

امام شافعی نے بھی اس پر بحث کی لیکن وہ بھی فقہی مسائل کی بحث میں ہے نہ کہ عقائد میں متاخرین اہل حدیث نے اخبار احاد سے عقائد کا اثبات کیا ہے

اب اس تمہید کے بعد یہ بات کہ صحابہ، قول رسول پر دو گواہیاں طلب کرتے تھے درست نہیں – عمر اور ابو موسی کی اس خبر واحد کے علاوہ کوئی اور دلیل نہیں ہے- اگر ایسا ہوتا تو یہ بات تواتر سے نقل ہوئی چاہیے تھی

[/EXPAND]

[کیا عمر رضی الله عنہ نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ کو حدیث رسول سنانے پر مدینہ بدر کی دھمکی دی]

جواب یہ روایت تاریخ دمشق اور تاریخ ابو زرعہ  میں ہے

 سعيد بن عبد العزيز عن إسماعيل بن عبيد الله عن السائب بن يزيد قال سمعت عمر بن الخطاب يقول لأبي هريرة لتتركن الحديث عن رسول الله (صلى الله عليه وسلم) أو لألحقنك بأرض دوس وانقطع من كتاب أبي بكر كلمة معناها دوس وقال لكعب لتتركن الحديث أو لألحقنك بأرض القردة

سعید بن عبد العزیز کہتے ہیں اسمعیل نے السائب بن يزيد رضی الله عنہ سے کہ انہوں نے عمررضی الله عنہ کو ابو بریرہ رضی الله عنہ سے کہتے سنا کہ رسول الله سے حدیث روایت کرنا چھوڑو ورنہ تم کو ارض دوس اور کعب الاحبار کو کہا کہ تم کو بندروں کی زمین میں بدر کروں گا

اس قول کی سند میں سعيد بن عبد العزيز ہیں جو اختلاط کا شکار ہو گئے تھے البتہ شعيب الأرناؤوط نے اس کو سير أعلام النبلاء پر تعلیق  میں صحیح قرار دیا ہے

الذھبی نے خود تبصرہ کیا

قُلْتُ: هَكَذَا هُوَ كَانَ عُمَرُ -رَضِيَ اللهُ عَنْهُ- يَقُوْلُ: أَقِلُّوا الحَدِيْثَ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-. وَزَجَرَ غَيْرَ وَاحِدٍ مِنَ الصَّحَابَةِ عَنْ بَثِّ الحَدِيْثِ، وَهَذَا مَذْهَبٌ لِعُمَرَ وَلِغَيْرِهِ

مصنف عبد الرزاق میں ایک اثر ہے کہ ابو ہریرہ رضی الله عنہ نے کہا

  أخبرنا عبد الرزاق، عن معمر، عن الزهري قال: قال أبو هريرة لما ولي عمر، قال: أقلوا الرواية عن رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا فيما يعمل به، قال: ثم يقول أبو هريرة: أفإن كنت محدثكم بهذه الأحاديث وعمر حي؟ أما والله إذا لالفيت المخفقة ستباشر ظهري.

اگر میں جو کچھ بھی اب روایت کرتا ہوں اگر عمر زندہ ہوتے اور میں روایت کرتا تو وہ میری پیٹھ پر مارتے

ابن کثیر البدایہ و النہایہ میں روایت پیش کرتے  ہیں

يَحْيَى بنُ أَيُّوْبَ: عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ:
أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ كَانَ يَقُوْلُ: إِنِّي لأُحَدِّثُ أَحَادِيْثَ، لَوْ تَكَلَّمْتُ بِهَا فِي زَمَنِ عُمَرَ، لَشَجَّ رَأْسِي

ابو ہریرہ کہتے  کہ میں جو حدیثیں روایت کرتا ہوں اگر عمر کے زمانے میں کرتا تو وہ سر مونڈھ دیتے

لیکن یہ روایت بھی منقطع ہے

ابن عجلان لم يسمع من أبي هريرة

ابن عجلان کا سماع ابو ہریرہ سے نہیں

کتاب معرف الصحابه از ابو نعیم میں ہے

 سَمَّاهُ مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ قَالَ: اسْمُ أَبِي هُرَيْرَةَ بَرِيرٌ. وَلَمْ يُتَابَعْ عَلَيْهِ. إِنَّمَا هُوَ وَهْمٌ

مروان بن محمد الطاطری نے سعید بن عبد العزیز سے سنا کہ ابو ہریرہ کا نام بریر تھا اس قول کی کوئی متابعت نہیں کرتا اور یہ وہم ہے

[/EXPAND]

[کیا رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے خواب میں سنی گئی بات حدیث ہے ؟]

جواب

مسند علي بن الجَعْد بن عبيد الجَوْهَري البغدادي (المتوفى: 230هـ)   میں ہے

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: نا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَنَا وَحَمْزَةُ الزَّيَّاتُ، مِنْ أَبَانَ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ خَمْسَ مِائَةِ حَدِيثٍ، أَوْ ذَكَرَ أَكْثَرَ، فَأَخْبَرَنِي حَمْزَةُ قَالَ: «رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَنَامِ، فَعَرَضْتُهَا عَلَيْهِ، فَمَا عَرَفَ مِنْهَا إِلَّا الْيَسِيرَ خَمْسَةَ أَوْ سِتَّةَ أَحَادِيثَ، فَتَرَكْتُ الْحَدِيثَ عَنْهُ»

ھم کو عبد الله بن محمد بن عبد العزيز البغوي نے خبر دی کہ سوید نے بیان کیا کہ علی نے بیان کیا انہوں نے اور حمزہ نے ابان سے سنیں ہزار احادیث یا کہا اس سے زیادہ پس حمزہ نے خبر دی کہ میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا ان پر وہ ہزار روایات پیش کیں تو رسول الله صرف پانچ یا چھ کو پہچان پائے پس اس پر میں نے ابان بن ابی عیاش کی احادیث ترک کیں

امام مسلم نے صحیح کے مقدمہ میں اس قول کو نقل کیا ہے

ابان بن ابی عیاش کو محدثین  منکر الحدیث ، متروک ، کذاب کہتے ہیں اور امام ابو داود سنن میں روایت لیتے ہیں

ابان سے متعلق قول کا دارومدار سوید بن سعيد الحَدَثاني پر ہے جو امام بخاری کے نزدیک   منكر الحديث ہے اور يحيى بن معين کہتے حلال الدم اس کا خون حلال ہے

یعنی یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا خواب اور اس میں جرح کا  قول خود ضعیف ہے جو امام مسلم نے پیش کیا ہے

سوید بن سعيد اختلاط کا شکآر ہوئے اور اغلبا یہ روایت بھی اسی وقت کی ہے

لہذا خواب میں سن کر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بات بیان کرنا حدیث نہیں اور یہ قول بھی جرح کے لئے نا قابل قبول ہے

لیکن ظاہر ہے محدثین کا ایک گروہ  جرح و تعدیل میں خواب سے دلیل لے رہا تھا  جبکہ اس کی ضرورت نہ تھی

[/EXPAND]

[ امام بخاری نے جارجی عمران القطان تک کی روایت صحیح میں لکھی ہے جو علی رضی الله عنہ کے قاتل کی تعریف کرتا تھا]

صحیح بخاری کے راوی عمران بن حطان کا بن ملجم کی شان میں قیصدہ

عمران بن حطان خارجی صحیح بخاری کا راوی ہے جس نے ابن ملجم ملعون کی شان میں قصیدہ لکھا۔
قصیدہ کا ترجمہ
ایک متقی شخص کی کیسی اچھی ضرب تھی جس کو لگانے سے اس کی نیت صرف یہ تھی کہ اللہ صاحب عرش کی رضا حاصل کرے۔ میں جب اس کو یاد کرتا ہوں تو یہ گمان کرتا ہوں کہ اس کا عمل اللہ کی تمام مخلوق سے زیادہ بھاری ہے۔ کیسی بزرگ قوم تھی جن کی قبریں زمین کے پیٹ میں بنی ہوئی ہیں جن لوگوں نے اپنے دین کی بغاوت اور سرکشی سے مخلوط نہ ہونے دیا۔
لطائف علمیہ ترجمہ کتاب الاذکیا تالیف امام ابن جوزی ترجمہ مولانا اشتیاق احمد صفحہ 308-309 طبع اسلامی کتب خانہ

جواب

کتاب النجوم الزاهرة في ملوك مصر والقاهرة از آبن تغري میں تاریخ الاسلام الذھبی میں اسی طرح ابن الجوزی کی الاذکیا میں اس کا ذکر ہے

وفيها توفي عمران بن حطان «3» السدوسي الخارجي، كان شاعر الخوارج؛ وروى عن أبي موسى وعائشة رضي الله عنهما، وكان عمران فصيحاً  قبيح الشكل، وكانت زوجته جميلة، فدخل عليها يوماً وهي بزينتها فأعجبته وعلمت منه ذلك، فقالت: أبشر فإني وإياك في الجنة؛ قال: ومن أين علمت؟ قالت: لأنك أعطيت مثلي فشكرت، وأنا ابتليت بمثلك فصبرت، والصابر والشاكر في الجنة. ومن شعره فى عبد الرحمن ابن ملجم وقومه:
يا ضربةً من تقي ما أراد بها … إلا ليبلغ من ذي العرش رضوانا
إنّى لأذكره يوما فأحسبه … أو فى البرية عند الله ميزانا
أكرم بقومٍ بطون الطير أقبرهم … لم يخلطوا دينهم بغياً وعدوانا

یہ بات صحیح ہے کہ عمران خارجی ہے اور اس سے صحیح بخاری میں روایت لکھی گئی ہے
بخاری نے يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حِطَّانَ سے روایت لی ہے اور اس کی دو روایات ہیں

پہلی حدیث
إِنَّمَا يَلْبَسُ الحَرِيرَ فِي الدُّنْيَا مَنْ لاَ خَلاَقَ لَهُ فِي الآخِرَةِ
جس نے دنیا میں ریشم پہنا اس کو یہ آخرت میں اسکا  حصہ نہ ملے گا

دوسری حدیث
لَمْ يَكُنْ يَتْرُكُ فِي بَيْتِهِ شَيْئًا فِيهِ تَصَالِيبُ إِلَّا نَقَضَهُ
رسول الله گھر میں کوئی ایسی چیز جس پر صلیب ہو اس میں نقص کیے بغیر نہیں چھوڑتے

ان دو روایات  کی تصحیح میں اہل تشیع ، اہل سنت اور خوارج سب یک زبان ہیں تو اس میں کیا قباحت ہے
بخاری نے عمران کی کوئی ایسی روایت نہیں لکھی جس سے علی کی یا اہل بیت کی تنقیص ہوتی ہو

واضح رہے کہ ایسی روایات جن میں شیعہ کو یا خوارج کو جہنم کے کتے کہا گیا ہو وہ سب بعد کی پیدا وار معلول روایات ہیں

[/EXPAND]

[صحیح البخاری  میں بندروں کے رجم کا واقعہ نقل ہوا ہے ؟]

جواب

صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں  ایک مقام پر ایک راوی عمرو بن میمون کہتا ہے کہ اس نے دیکھا کہ بندروں نے ایک زانی بندر کو رجم کیا – عمرو  بن میمون دور نبوی میں معآذ رضی الله عنہ کے ہاتھ پر ایمان لایا لیکن نبی صلی الله علیہ وسلم  سے ملاقات نہ ہوئی اور یمن سے کوفہ منتقل ہوا

صحیح بخاری کا اثر ہے

حَدَّثَنا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، قَالَ: «رَأَيْتُ فِي الجَاهِلِيَّةِ قِرْدَةً اجْتَمَعَ عَلَيْهَا قِرَدَةٌ، قَدْ زَنَتْ، فَرَجَمُوهَا، فَرَجَمْتُهَا مَعَهُمْ» , (خ) 3849

ہم سے نعیم بن حماد نے روایت کیا اس سے ہشیم نے اس نے عمرو بن میمون سے کہ عمرو نے کہا میں نے جاہلیت میں بندروں کو دیکھا جو جمع ہوئے اور بندر کو دیکھا جس نے زنا کیا تھا پس اس کو رجم کیا اور میں نے بھی انکے ساتھ رجم کیا

کتاب  الاستيعاب في معرفة الأصحاب از ابن عبد البر میں  عمرو بْن مَيْمُون الأودي کے ترجمہ میں اس پر تبصرہ ہے

وَهُوَ الَّذِي رأى الرجم فِي الجاهلية من القردة إن صح ذَلِكَ، لأن رواته مجهولون. وَقَدْ ذَكَرَ الْبُخَارِيُّ عَنْ نُعَيْمٍ، عَنْ هُشَيْمٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونَ الأَوْدِيِّ مُخْتَصَرًا، قَالَ: رَأَيْتُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ قِرْدَةً زَنَتْ فَرَجَمُوهَا- يَعْنِي الْقِرَدَةَ- فَرَجَمْتُهَا مَعَهُمْ. ورواه عباد بْن العوام، عَنْ حُصَيْن، كما رواه هشيم مختصرا، وأما القصة بطولها فإنها تدور على عبد الملك بن مسلم، عن عيسى ابن حطان، وليسا ممن يحتج بهما، وَهَذَا عِنْدَ جماعة أهل العلم منكر إضافة الزنا إِلَى غير مكلف، وإقامة الحدود فِي البهائم، ولو صح لكانوا من الجن، لأن العبادات فِي الجن والإنس دون غيرهما، وقد كَانَ الرجم في التوراة.

اور یہی وہی راوی ہے جس نے ایام جاہلیت میں بندروں کے رجم کا واقعہ دیکھا اگر یہ صحیح ہے لیکن اس میں مجھول راوی ہیں اور بے شک امام بخاری نے عَنْ نُعَيْمٍ، عَنْ هُشَيْمٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونَ الأَوْدِيِّ کی سند سے اس کو مختصرا نقل کیا ہے کہا میں عمرو نے جاہلیت میں ایک بندر دیکھا جس نے زنا کیا تھا پس رجم کیا گیا اور میں نے ان کے ساتھ رجم کیا اور اسکو روایت کیا ہے عباد بْن العوام، عَنْ حُصَيْن سے جیسا هشيم نے کیا مختصر اور جہاں تک قصہ کا تعلق ہے تو اس کو تفصیلا عبد الملك بن مسلم، عن عيسى ابن حطان سے روایت کیا ہے جو نا قابل دلیل ہیں اور ایک اہل علم کی جماعت کے نزدیک (یہ تمام واقعہ) منکر ہے غیر مکلف پر زنا کی اضافت کے لئے اور چوپایوں پر اقامت حدود کے لئے اور اگر صحیح بھی ہوتا تو ممکن ہے یہ جنات ہوں کیونکہ عبادت  جن و انس پر ہے دوسروں پر نہیں ہے اور بے شک رجم کا ذکر توریت میں ہے

البانی کتاب مُخْتَصَر صَحِيحُ الإِمَامِ البُخَارِي مكتَبة المَعارف للنَّشْر والتوزيع، الرياض  میں صحیح بخاری کے اس اثر پر لکھتے ہیں

قلت: هذا أثر منكر؛ إذ كيف يمكن لإنسان أن يعلم أن القردة تتزوج، وأن من خلقهم المحافظة على العرض، فمن خان قتلوه؟ ثم هب أن ذلك أمر واقع بينها، فمن أين علم عمرو بن ميمون أن رجم القردة إنما كان لأنها زنت؟! وأنا أظنُّ أن الآفة من شيخ المصنف نعيم بن حماد؛ فإنه ضعيف متهم، أو من عنعنة هشيم؛ فإنه كان مدلسًا، لكن ذكر ابن عبد البر في” الاستيعاب” (3/ 1205) أنه رواه عباد بن العوام أيضاً عن حصين كما رواه هشيم مختصراً. قلتُ: وعباد هذا ثقة من رجال الشيخين، وتابعه عيسى بن حطان عن عمرو بن ميمون به مطولاً. أخرجه الإسماعيلي. وعيسى هذا وثقه العجلي، وابن حبان، وروايته مفصلة تبعد النكارة الظاهرة من رواية نعيم المختصرة، وقد مال الحافظ إلى تقويتها؛ خلافاً لابن عبد البر. والله أعلم

میں البانی کہتا ہوں : یہ اثر منکر ہے ایک انسان کیسے پتا کر سکتا ہے کہ بندر شادی شدہ تھا …… اور کیسے عمرو بن میمون کو پتا چلا کہ بندر زانی تھا اور میں سمجھتا ہوں اس میں آفت  مصنف کے شیخ  نعيم بن حماد کی وجہ سے  ہے جو ضعیف متهم  (قابل الزام) ہے  یا پھر  ہشیم کا عنعنہ ہے کیونکہ وہ مدلس ہے جس کا ذکر ابن عبد البر نے الاستيعاب میں کیا ہے اس کو عباد بن العوام نے حصين بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ سے روایت کیا ہے جیسا ہشیم نے کیا مختصرا کیا ہے میں البانی کہتا ہوں عباد ثقہ ہے صحیحین کے رجال میں سے ہے اور اس کی متابعت کی ہے عيسى بن حطان عن عمرو بن ميمون  نے اس کی تخریج الاسماعیلی نے کی ہے اور یہ عیسیٰ ثقہ ہے عجلی اور ابن حبان کے مطابق اور جو روایت مفصل ہے وہ اس سے الگ ہے جو نعیم کی مختصر روایت ہے اور اسی طرف حافظ عسقلانی کا میلان ہوا ہے ابن عبد البر کی بات کے خلاف و اللہ اعلم

البانی کے مطابق ابن حجر سے غلطی ہوئی ہے جنہوں نے ابن عبد البر کی مخالفت کی جو اس اثر کو منکر کہتے تھے اور البانی نے نزدیک  روایت میں  یا تو تدلیس ہوئی ہے یا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ  (ضعیف) کی  وجہ ہے لہذا البانی اس اثر کو رد کرتے ہیں

ابن جوزی کتاب كشف المشكل من حديث الصحيحين میں کہتے ہیں

وَهَذَا فِي بعض النّسخ بالبخاري لَا فِي كلهَا، وَلَيْسَ فِي رِوَايَة النعيمي عَن الْفربرِي

یہ رجم کا واقعہ بخاری کے کچھ نسخوں میں ہے سب میں نہیں ہے اور نہ ہی النعيمي کی الْفربرِي سے روایت والے نسخے میں یہ ہے 

الْفربرِي کا نسخہ تمام نسخوں میں سب سے بہتر سمجھا جاتا ہے

اسی طرح  بخاری کے شارح الکرمانی (بحوالہ  منحة الباري) کہتے ہیں

أن هذه الحكاية لم توجد في بعض نسخ البخاري

یہ حکایت بخاری کے بعض نسخوں میں نہیں ملی

ابن قتیبہ کتاب : تأويل مختلف الحديث میں کہتے ہیں

قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: وَقَدْ يُمْكِنُ أَنْ يَكُونَ رَأَى الْقُرُودَ تَرْجُمَ قِرْدَةً، فَظَنَّ أَنَّهَا تَرْجُمُهَا لِأَنَّهَا زَنَتْ، وَهَذَا لَا يَعْلَمُهُ أَحَدٌ إِلَّا ظَنًّا لِأَنَّ الْقُرُودَ لَا تُنْبِئُ عَنْ أَنْفُسِهَا وَالَّذِي يَرَاهَا تَتَسَافَدُ، لَا يَعْلَمُ أَزَنَتْ، أَمْ لَمْ تَزْنِ؟ هَذَا ظَنٌّ.

ابن قتیبہ کہتے ہیں : ممکن ہے عمرو نے بندروں کو ایک بندر کو رجم کرتے دیکھا ہو پس اس نے گمان کیا کہ یہ اس کو رجم کر رہے ہیں کیونکہ یہ زانی ہے اور یہ کوئی نہیں جان سکتا سوائے اس کے وہ ظن کرے یہ کوئی اپنے آپ نہیں جان سکتا اور جو اس نے دیکھا اس میں الجھ گیا نہیں جان سکا کہ بندر نے  زنا کیا تھا یا نہیں سو یہ  (عمرو کا) گمان ہے

الغرض یہ  آوٹ پٹانگ اثر ہے اور بخاری کے کاتبوں کی غلطی ہے کہ مولف امام بخاری  کوئی بات انہوں نے صحیح کا حصہ سمجھ کر لکھ دی اسکی دلیل ہے کہ صحیح بخاری کے  باقی نسخوں میں یہ موجود نہیں

رجم کا حکم توریت کا ہے – یمن میں یہود کا اثر تھا اور عمرو بن میمون نے جو یمنی تھا اس کے بقول اس نے یہ ہوتے ہوئے دیکھا یعنی توریت کا حکم بندروں میں بھی رواج پذیر تھا ممکن ہے عمرو کا مقصد ہو کہ بندروں کو  یہود کے ان  مسخ ہو جانے والے گروہوں میں بتائے لیکن قرآن کے مطابق جو قومیں بھی مسخ ہوئیں ان کی نسل نہ چلی

وَحَرَامٌ عَلَى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا أَنَّهُمْ لا يَرْجِعُونَ

أور حرام ہے بستی پر جس کو ہم ہلاک کر دیں کہ وہ واپس پلٹ سکیں

سوره الانبیاء

یعنی تمام مسخ شدہ قوموں کی نسل معدوم ہو گئی

روایت پرست علماء نے ان تمام علماء کو منکرین حدیث قرار دے دیا ہے جنہوں نے اس روایت پر اعتراض کیا ہے مثلا البانی جو اس کو منکر کہتے ہیں ان  پر بھی زبیر علی زئی نے منکر حدیث کا فتوی  لگا دیا ہے

banarkaRajam

زبیر علی کے مطابق بندر جن تھے جو توریت کا حکم نافذ کر رہے تھے!  جنوں کا جانور کی شکل میں ٹھوس جسم  اختیار کرنا خود محتاج دلیل ہے

[/EXPAND]

[صحیح بخاری و مسلم کی روایات میں ابراہیم علیہ السلام کے لئے کذب کا کہا گیا ہے ؟ روایت کے الفاظ غیر مناسب ہیں ؟]

جواب

توریہ کہتے ہیں زبان دانی میں الفاظ کے کھیل کو کہ آپ بات بدل دیں ایسے کہ سننے والا مفھوم کچھ اور سمجھے
) التورية (أو الإِيهام أو التخييل) هى أن يذكر المتكلم لفظًا مفردًا له معنيان، قريب ظاهر غير مراد، وبعيد خفىّ هو المراد.
توریہ یا الإِيهام یا التخييل یہ یہ ہے کہ متکلم ایک لفظ کا ذکر کرے جو ذو معنی ہوں جو ظاہری ہو وہ مراد نہ ہو بلکہ جو بعید ہوں وہ مراد ہو

غریب الحدیث میں قاسم بن سلام (المتوفى: 224هـ) کہتے ہیں
قَالَ أَبُو عُبَيْدٍ: وَلَا أرَاهُ مأخوذًا إِلَّا من وَرَاء الْإِنْسَان لِأَنَّهُ إِذا قَالَ: وريته – فَكَأَنَّهُ إِنَّمَا جعله وَرَاءه حَيْثُ لَا يظْهر
میں نہیں دیکھتا کہ یہ ماخوذ ہو وَرَاء الْإِنْسَان سے (انسان کے پیچھے سے) ابو عبید نے کہا وريته بلاشبہ کہا گیا ہے پس اس کو کر دیا پیچھے کیونکہ یہ ظاہر نہیں ہوا

اس کو قرآن نے ابراہیم کے لئے بیان کیا دو مقام پر کہ انہوں نے قوم کو دھوکہ دیا اور کہا
{بل فعله كبيرهم هذا}
بلکہ یہ اس بڑے (صنم) نے کیا ہے
{فنظر نظرة في النجوم فقال إني سقيم}
پس اس نے ستاروں پر نظر ڈالی اور کہا میں بیمار ہوں

تیسرا ان کا توریہ حدیث میں مذکور ہے کہ انہوں نے بیوی کو بہن کہا کہ مشرک بادشاہ دھوکہ کھا جائے
روایت میں اسکو کذب کہا گیا ہے تَوْرِيَة نہیں کہا گیا
لَمْ يَكْذِبْ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ إِلَّا ثَلَاثًا
اس کو وجہ یہ ہے کہ دور نبوی میں یہ لفظ عربی میں مستعمل نہیں تھا
یہ الفاظ کے مفھوم میں معمولی فرق ہے ایک مثبت لیا جاتا ہے ایک منفی لیکن جب تَوْرِيَة کا لفظ نہیں تھا اس وقت سیاق و سباق سے کذب کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جاتا تھا

اس لئے یہ وہ مثبت کذب ہے یا توریہ ہے جو دروغ گوئی کے مفھوم پر نہیں ہے کیونکہ ابراہیم کو قوم پر چوٹ لگانی تھی اور ہجرت کے دوران کسی غیر ضروری مسئلہ میں نہیں الجھنا تھا کیونکہ ان کو حکم تھا کہ ارض مقدس کی طرف کوچ کریں

 کہا جا سکتا ہے کہ جو الله کا رسول ہو جو اللہ سے ہی ڈرتا ہو وہ چھپ کر کیوں بت توڑے گا اور کیوں ستاروں کو دیکھے گا ؟ جامد سوچ والے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انبیاء اپنے معاشروں سے کٹے ہوئے لوگ تھے ان کا عام لوگوں سے کوئی تعلق نہیں تھا نہ وہ بازار جاتے نہ معاش کا سوچتے تھے – اس کے برعکس ابراہیم یہ بہانہ کرتے ہیں وہ بیمار ہونے کا بہانہ کرتے ہیں وہ ستاروں کو دیکھتے ہیں اور ستارہ پرستوں کو دھوکہ دیتے ہیں وہ بت توڑ کر معصوم بننے کی حرکت کرتے ہیں – ہم سب اس پر ایمان لاتے ہیں یہ دعوت کا انداز ہے جو معاشرہ کی کیفیت دیکھ کر بالاخر کرنا پڑا

قرآن نے ابراہیم کے عمل پر کوئی تبصرہ نہیں کیا صرف واقعہ بیان کیا ہے – ابراہیم کی قوم کے نزدیک  وہ جھوٹ بولتے تھے کہ انہوں نے بت نہیں توڑے یا وہ بیمار تھے اسی لئے ان کو نذر آتش کیا  – ابراہیم علیہ السلام الله پر بھروسہ کرنے والے تھے انہوں نے اپنی بیوی ہاجرہ علیہ السلام کو بے آباد مقام پر چھوڑ دیا- کیا خبر کوئی ڈاکو اتا اور قتل کرتا – (أور ایسا ہوا بھی کہ ابراہیم کے جاتے ہی قبیلہ جرھم کا قافلہ وہاں سے گزرا ) ابراہیم کو اسکا خیال نہیں آیا – انہوں نے سارہ علیہ آلسلام کو بھی ایک مشرک بادشاہ کے حوالے کیا لیکن الله کے بھروسے پر نہ کہ بادشاہ کے خوف ہے ڈر کر – تدبیر اور تقیہ کی اپنی ایک مصلحت ہوتی ہے – حدیث پر تنقید سے پہلے قرآن میں کیا بتاتا جا رہا ہے اس کو مخالف مشرک کی نظر سے سمجھنا ضروری ہے تاکہ دعوت کے اندز میں فرق کو سمجھا جا سکے

اعتراض اول
بعض لوگوں نے حدیث پر اعتراض کیا ہے کہ ابراہیم تو بوڑھے تھے سارہ بھی بوڑھی ہوں گی – پتا نہیں یہ ان کو کیسے معلوم ہوا

جواب
یہ واقعہ ہجرت کے وقت پیش آیا جب ابراہیم بابل سے ارض مقدس کی طرف جا رہے تھے ابراہیم اس وقت جوان تھے جیسا کہ قرآن میں ہے کفار نے کہا ہم نے ایک جوان (فتی) کو جس کو ابراہیم کہا جاتا ہے معبودوں پر جرح کرتے سنا ہے
لہذا اس وقت سارہ اور ابرہیم عالم شباب میں تھے نہ کہ بوڑھے

اعتراض دوم
نام میں ھاجر کہا گیا ہے جو کافر کے ساتھ تک بندی ہے
یہ فن استعارہ اور کنایہ کا ایک شاہکار استعمال ہے اور وہ بھی اس انداز سے کہ تلک امکم یعنی یہ کہنا کہ یہ ہے تمہاری ماں
جواب
ھاجر ہی اصل نام ہے جو عربی کا لفظ نہیں ہے ابراہیم کی زبان کا یا اس علاقے کی زبان کا لفظ ہے جس طرح سارہ اور ابراہیم اس کا عربی سے کوئی تعلق ہی نہیں
اسلام کے بعد ھاجرة کہا گیا کیونکہ عربی میں جو ابراہیم سے بھی پرانی زبان ہے اس میں ھاجر ہجرت کرنے والے کے لئے کہا جاتا ہے لہذا اس نام کو معرب کیا گیا تائے تانث لگا کر

اعتراض سوم
روایت کے الفاظ غلیظ ہیں ابو ہریرہ نے کہا
قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ فَتِلْكَ أُمُّكُمْ يَا بَنِي مَاءِ السَّمَاءِ
یہ ہے تمہاری ماں، اے اوپر سے گرنے والے پانی کی اولاد ۔
اے آسمانی پانی کی اولاد ! یہ بہت گہرے مفہوم کی گالی اور تبرا ہے۔
جواب
اے آسمان کے پانی کی نسل
اس کا صحیح ترجمہ ہے
ابن حبان صحیح میں کہتے ہیں
قَالَ أَبُو حَاتِمٍ: كُلُّ مَنْ كَانَ مِنْ وَلَدِ هَاجَرَ يُقَالُ لَهُ: وَلَدُ مَاءِ السَّمَاءِ، لِأَنَّ إِسْمَاعِيلَ مِنْ هَاجَرَ، وَقَدْ رُبِّيَ بِمَاءِ زَمْزَمَ وَهُوَ مَاءُ السَّمَاءِ الَّذِي أَكْرَمَ اللَّهُ بِهِ إِسْمَاعِيلَ حَيْثُ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ هَاجَرُ، فَأَوْلَادُهَا أولاد ماء من السماء.

ہر وہ شخص جو هَاجَرَ کی نسل سے ہے اس کو آسمان کے پانی کی اولاد کہا گیا ہے کیونکہ اسماعیل وہ ہیں جنہوں نے ہجرت کی اور ان کی پرورش زمزم کے پانی پر ہوئی جو آسمان کا پانی ہے جس سے الله نے انکی تکریم کی اسماعیل کی اور انکی ماں کی پس انکی اولاد آسمانی پانی کی نسل ہے

لہذا یہ کوئی غلیظ زبان نہیں بلکہ تکریم ہے سوچ سوچ کا فرق ہے

[/EXPAND]

[ کیا روایت میری امت کے کچھ لوگ ہمیشہ غالب رہیں گے ، یہاں تک کہ قیامت یا موت آئے گی اس وقت بھی وہ غالب ہی ہوں گے ۔ صحیح ہے ؟ ]

اس کا یہ ترجمہ غلط ہے روایت ہے

سَمِعْتُ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ لاَ يَزَالُ نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ ظَاهِرُونَ ‏”‏‏
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
میری امت کے لوگ غالب رہیں گے یہاں تک کہ الله کا حکم آ جائے اور یہ غالب ہوں گے

اس کو إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ کی سند سے روایت کیا گیا ہے
روایت صحیح نہیں معلول ہے قیس کوفہ میں آخری عمر میں اختلاط کا شکار تھے اس میں انہوں نے عجیب و غریب روایات بیان کین مثلا یہ اس حالت میں حواب کے کتوں والی روایت بھی بیان کرتے تھے

سنن ابو داود میں ہے

حدَّثنا موسى بن إسماعيلَ، حدَّثنا حماد، عن قتادةَ، عن مُطَرِّفٍ عن عمران بن حصين، قال: قال رسول الله -صلَّى الله عليه وسلم-: “لا تزال طائفةٌ من أُمتي يقاتِلون على الحق ظاهرين على من ناوأَهم حتى يُقاتِل آخرُهُم المسيحَ الدجّالَ

یہاں سند میں قتادہ مدلس عن سے روایت کر رہے ہیں قتال کرنے والے مراد لئے گئے ہیں یہ نکتہ ذہن میں رکھیں اس پر بحث ہو گی

ابن ماجہ کی سند ہے

 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي مَنْصُورِينَ، لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ»

اس کی سند میں شعبہ ہیں جو اس کے انکاری تھے کہ قرہ کوئی صحابی تھے دیکھئے العلل امام احمد

    ابن ماجہ کی دوسری سند ہے

حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَلْقَمَةَ نَصْرُ بْنُ عَلْقَمَةَ، عَنْ عُمَيْرِ بْنِ الْأَسْوَدِ، وَكَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ: «لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي قَوَّامَةً عَلَى أَمْرِ اللَّهِ، لَا يَضُرُّهَا مَنْ خَالَفَهَا

البانی اس کو حسن کہتے ہیں اس میں ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا میری امت میں ایک گروہ کو زوال نہ ہو گا جو الله کے امر کو قائم رہیں گے انکو کوئی مخالف نقصان نہ دے سکے گا

حدیث کی کتب میں یہ روایت  أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ کی سند سے بھی ہے لیکن ان کا سماع مشکوک ہے اور وہی روایت لی جاتی ہے جو لیث کی سند سے ہوں اس مخصوص روایت کو لیث بیان نہیں کرتے

مسند احمد  اور صحیح مسلم کی روایت ہے

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، أَنَّ عُمَيْرَ بْنَ هَانِئٍ، حَدَّثَهُ، قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ، عَلَى هَذَا الْمِنْبَرِ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي قَائِمَةً بِأَمْرِ اللَّهِ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ أَوْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَهُمْ [ص:129] ظَاهِرُونَ عَلَى النَّاسِ» فَقَامَ مَالِكُ بْنُ يَخَامِرٍ السَّكْسَكِيُّ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ سَمِعْتُ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، يَقُولُ: «وَهُمْ أَهْلُ الشَّامِ» فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: وَرَفَعَ صَوْتَهُ هَذَا مَالِكٌ، يَزْعُمُ أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاذًا، يَقُولُ: «وَهُمْ أَهْلُ الشَّامِ»

عُمَيْرَ بْنَ هَانِئٍ کہتا ہے اس نے معاویہ رضی الله عنہ کو منبر پر سنا کہ انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا میری امت کا گروہ زوال کا شکار نہ ہو گا  الله کے امر پر قائم رہے گا ان کو دھوکہ دینے والا نقصان نہ دے سکے گا اور یا مخالفت نہ کر سکیا گا یہاں تک کہ الله کا امر آ جائے اور وہ لوگوں پر غالب رہیں گے پس مالک   بْنُ يَخَامِرٍ السَّكْسَكِيُّ کھڑے ہوئے انھوں نے کہا میں نے معآذ بن جبل کو سنا وہ کہتے یہ اہل شام ہیں اور معاویہ نے کہا اور آواز بلند کی یہ مالک ہیں اور ان کا دعوی ہے کہ انہوں نے معآذ سے وہ اہل شام ہیں

محدث  أحمد بن أبي الحَواري عبد الله بن مَيمون  اس کے راوی عُمَيْرَ بْنَ هَانِئٍ کے لیے کہتے : إني لأبغضه میں اس سے نفرت کرتا ہوں اسی طرح محدث سعيد بن عبد العزيز اس کی روایت نہیں لیتے تھے

روایت کے مطابق  معاویہ رضی الله عنہ کومعآذ بن جبل کی بات جو  مالک  بْنُ يَخَامِرٍ السَّكْسَكِيُّ  تابعي  نے بیان کی پسند آئی جو خود ایک عجیب بات ہے کہ ایک صحابی کو تائید میں تابعي کی بات پیش کرنی پڑ رہی ہے ورنہ  شاید کوئی مانتا نہیں؟

روایت میں طائفہ منصورہ سے مراد اہل شام ہیں! معلوم نہیں امام احمد نے اس کو مسند میں کیا سوچ کر لکھا کیونکہ ان سے منسوب ایک قول ہے کہ یہ طائفہ اہل حدیث  ہیں (جو فن حدیث و علل کی بحث کرتے ہیں )جبکہ امام احمد  کی یہ تاویل غلط ہے روایت کی شرح  جو  معآذ رضی الله عنہ سے منسوب ہے اس کے مطابق یہ صرف اہل شام ہیں

صحیح بخاری میں بھی یہی  روایت ہے

حَدَّثَنَا الحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا الوَلِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنِي  ابْنُ جَابِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَيْرُ بْنُ هَانِئٍ، أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاوِيَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «لاَ يَزَالُ مِنْ أُمَّتِي أُمَّةٌ قَائِمَةٌ بِأَمْرِ اللَّهِ، لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ، وَلاَ مَنْ خَالَفَهُمْ، حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ عَلَى ذَلِكَ» قَالَ عُمَيْرٌ: فَقَالَ مَالِكُ بْنُ يُخَامِرَ: قَالَ مُعَاذٌ: وَهُمْ بِالشَّأْمِ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: هَذَا مَالِكٌ يَزْعُمُ أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاذًا يَقُولُ: وَهُمْ بِالشَّأْمِ

اس میں بھی اس طائفہ سے مراد اہل شام لئے گیے ہیں نہ کہ اہل علم- خود بخاری میں ایک باب ہے جس میں امام بخاری نے اس سے مراد اہل علم لئے ہیں کیا علم صرف شام میں  ہے ؟

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: ” لَا يَزَالُ لِهَذَا الْأَمْرِ – أَوْ عَلَى هَذَا الْأَمْرِ – عِصَابَةٌ عَلَى الْحَقِّ، وَلَا يَضُرُّهُمْ خِلَافُ مَنْ خَالَفَهُمْ، حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللهِ

سند میں  مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ مدلس ہیں عن سے روایت کر رہے ہیں

کتاب ميزان الاعتدال في نقد الرجال   از الذھبی کے مطابق

وقال عبد الرحمن بن القاسم: قيل لمالك: إن ناسا من أهل العلم يحدثون.
قال: من هم؟ فقيل له: ابن عجلان.
فقال: لم يكن ابن عجلان يعرف هذه الأشياء، ولم يكن عالما

امام مالک ابن عجلان کے بارے میں کہتے اس کو احادیث کا نہیں پتا اور عالم نہیں ہے

مستدرک الحاکم کی روایت ہے

 حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ صَالِحِ بْنِ هَانِئٍ، ثَنَا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى، ثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، ثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ الرَّبِيعِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخْرِجَاهُ ” وَقَدْ رَوَاهُ ثَوْبَانُ، وَعِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

سند میں قتادہ مدلس اور  سُلَيْمَانَ بْنِ الرَّبِيعِ ضعیف  ہے امام بخاری کہتے ہیں لا يُعرَف سماع قتادة من ابن بُرَيدة، ولا ابن بُرَيدة من سليمان بن الرَّبيع قتادہ کا سماع ابن بریدہ سے نہیں اور نہ ابن بریدہ کا سلیمان سے ہے

حیرت ہے امام حاکم اور الذھبی دونوں اس کو صحیح کہتے ہیں

صحیح مسلم کی حدیث ہے

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، وَأَبُو الرَّبِيعِ الْعَتَكِيُّ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ وَهُوَ ابْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ، لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ، حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللهِ وَهُمْ كَذَلِكَ»، وَلَيْسَ فِي حَدِيثِ قُتَيْبَةَ: وَهُمْ كَذَلِكَ

سند میں  أبو قلابة عبد اللبن زيد الجرمي ہیں جن کا  ذكر الذهبي  نے ميزان میں کیا ہے کہ

انه كان يدلس عمن لحقهم وعمن لم يلحقهم وكان له صحف يحدث منها ويدلس.

جس سے ملے ہوں اس سے اور جس نے نہ ملے ہوں ان سب سے تدلیس کرتے ہیں

کتابوں میں یہ روایت عن قتادة، عن أبي الأسود الدِّيلي قال: خَطَب عمرُ بن الخطاب  کی سند سے بھی ہے

کتاب الجامع التحصیل از  العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق

 ظالم بن عمرو أبو الأسود الدؤلي ويقال عمرو بن ظالم وقيل غير ذلك وهو بكنيته أشهر قال الواقدي أسلم على عهد النبي صلى الله عليه وسلم قلت لم يره فروايته عنه مرسلة وكذلك عن أبي بكر الصديق رضي الله عنه وفي حديثه عن عمر رضي الله عنه تردد

أبو الأسود الدؤلي کی عمر رضی الله عنہ سے روایات پر تردد ہے

وقت نے ثابت کر دیا ہے یہ روایت صحیح نہیں ہے امت پر ایک وقت تھا تمام عالم میں ملغوبیت تھی
اور کفار کا ہر اسلامی ملک پر قبضہ تھا لہذا یہ کسی سیاسی غلبہ سے مراد نہیں ہے کیونکہ ایسا رہا نہیں

اس حدیث کی شروحات میں اقوال ہیں

امام بخاری خود صحیح میں باب میں لکھتے ہیں
باب قَوْلِ النبيِّ – صلى الله عليه وسلم -: “لاَ تَزَالُ طَائفَةٌ مِنْ أُمَّتي ظَاهِرينَ عَلَى الحَقِّ يُقَاتِلُونَ”، وَهُمْ أهْلُ العِلْمِ
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا قول کہ ایک میری امت میں گروہ زوال کا شکار نہ ہو گا غالب رہیں گے حق پر اور قتال کریں گے اور اس سے مراد اہل علم ہیں
اس کے تحت یہ حدیث لکھتے ہیں جو آپ نے پیش کی ہے

امام بخاری نے اس کو علمی جہاد قرار دے دیا خود امام بخاری کسی جہاد کا حصہ نہ بنے بلکہ قلمی و علمی جہاد کرتے تھے

کتاب تهذيب الأسماء واللغات از امام النووی میں ہے النووی کہتے ہیں
ففى الصحيحين أن النبى – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قال: “لا تزال طائفة من أمتى ظاهرين على الحق لا يضرهم خذلان من خذلهم” (2) . وجملة العلماء أو جمهورهم على أنهم حملة العلم
اس حدیث سے مراد اہل علم ہیں

اب صحیح مسلم کی ایک حدیث دیکھئے
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَزَالُ أَهْلُ الْغَرْبِ ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ، حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ»
سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اہل مغرب حق پر غالب رہیں گے انکو زوال نہ ہو گا یہاں تک کہ قیامت قائم ہو

آج اہل مغرب کون ہیں جو غالب ہیں
اس کی سند میں داود بن ابی ہند ہیں جو مختلف فیہ ہیں احمد ثقہ کہتے ہیں اور كان كثير الاضطراب والخلاف بھی کہتے ہیں

کتاب موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله
کے مطابق امام احمد سے سوال ہوا
وسئل عن: حديث النبي – صلى الله عليه وسلم -: «لا تزال طائفة من أمتي ظاهرين على الحق لا يضرهم من خالفهم حتى يأتي أمر الله. وهم على ذلك» .
• قال: هم أهل المغرب، إنهم هم الذين يقاتلون الروم. كل من قاتل المشركين، فهو على الحق. «سؤالاته» (2041)

حدیث رسول کہ میری امت کا گروہ حق پر غالب رہے گا انکو مخالفین نقصان نہ دے سکیں گے یہاں تک کہ الله کا حکم آ جائے تو یہ کون ہیں ؟ امام احمد نے کہا یہ اہل مغرب ہیں جو روم سے قتال کر رہے ہیں جو بھی مشرکین سے قتال کرے وہ حق پر ہے

لیکن امام احمد نے خود اس طائفہ منصورہ کا حصہ بننا پسند نہ کیا بلکہ بغداد میں ہی بیٹھے رہے ان کو چاہیے تھا کہ روم جاتے اور قتال کرتے

محقق محمد فؤاد عبد الباقي کتاب المسند الصحيح المختصر بنقل العدل عن العدل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم میں صحیح مسلم کی تعلیق پی لکھتے ہیں
قال علي بن المديني المراد بأهل الغرب العرب
امام علی المدینی نے کہ اہل مغرب سے مراد عرب کے مغرب والے ہیں

یعنی یہ تیسرا قول ہے جو اس بحث کو کم کرنے کی بجائے بڑھا رہا ہے
آپ دیکھ سکتے ہیں امام احمد کہتے تھے یہ اہل مغرب ہیں اور امام بخاری کہتے یہ اہل علم ہیں اور امام علی کہتے یہ عرب کے مغرب کے لوگ ہیں

ترمذی نے کہا

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ الرَّحَبِيِّ، عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّمَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي الأَئِمَّةَ المُضِلِّينَ»، قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى الحَقِّ ظَاهِرِينَ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ يَخْذُلُهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ»: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ [ص:505] يَقُولُ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ المَدِينِيِّ يَقُولُ: _ وَذَكَرَ هَذَا الْحَدِيثَ _ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ عَلَى الحَقِّ» فَقَالَ عَلِيٌّ: هُمْ أَهْلُ الحَدِيثِ

امام بخاری نے کہا میں نے  امام علی کو کہتے سنا کہ یہ لوگ اہل حدیث ( محدثین) ہیں

محدثین یا اہل حدیث سے مراد وہ لوگ تھے جو حدیث کی روایت کرتے تھے اور اس کی علت کی بحث کرتے تھے – یہ اب معدوم ہیں لہذا اس روایت کا تعلق ان سے بھی نہیں

متضاد آراء ائمہ
 

شام میں ایک گروہ  وَهُمْ أَهْلُ الشَّامِ

معاویہ رضی الله عنہ –

صحیح مسلم صحیح بخاری

قتال کرنے والے / اہل علم  =

ظَاهِرينَ عَلَى الحَقِّ يُقَاتِلُونَ”، وَهُمْ أهْلُ العِلْمِ

امام بخاری
روم سے قتال کرنے والے – هم أهل المغرب، إنهم هم الذين يقاتلون الروم. امام احمد
اہل مغرب / اہل حدیث / أهل الغرب العرب امام علی المدینی

  شام میں سکونت کرنے والے راویوں نے اس کو شام کے لئے خاص کرنے کی کوشش کی ہے  اور بعض نے اس کو سیاسی غلبہ سے یا قتال سے  مخصوص کیا ہے

   احادیث  میں ہے

ایمان اجنبی ہو جائے گا
امت ٧٢ فرقوں میں بٹ جائے گی
اس دین کی اصل زمین پر یعنی عرب میں ذوالخلصہ کی پوجا ہو گی
دجال عرب پر غلبہ پا جائے گا سوائے مدینہ کے یہاں تک کہ کعبه کا طواف کرے گا

صحیح سند سے بخاری کی روایت ہے

 حَدَّثَنا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: قَالَ حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ، خَطِيبًا يَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهُ يُعْطِي، وَلَنْ تَزَالَ هَذِهِ الأُمَّةُ قَائِمَةً عَلَى أَمْرِ اللَّهِ، لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ، حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ» ,

حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ کہتے ہیں انہوں نے معاویہ رضی الله عنہ کو سنا انہوں نے ہم کو خطبہ دیا اور کہا میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا انہوں نے فرمایا الله جس کو خیر دینا چاہتا ہے اس کو دین میں سمجھ کا علم دیتا ہے  اور بے شک میں (علم) باٹنے والا ہوں اور الله (علم) عطا کرنے والا ہے اور یہ امت الله کے کام سے نہیں ہٹے گی  الله کے امر پر قائم رہے گی اس کو اس کی مخالفت کرنے والے نقصان نہ دے سکیں گے یہاں تک کہ الله کا امر آ جائے

یہ روایت صحیح ہے اور اس امت میں علم پر شام والوں کی اجارہ داری نہیں ہے نہ ہی اس میں مطلقا قتال کرنے والوں کا ذکر ہے نہ اہل مغرب کا ذکر ہے  بلکہ الله  کسی بھی علاقے کے  شخص پر الله رحم کر سکتا ہے- یہاں روایت میں امت سے مراد بھی صحیح العقیدہ لوگ ہیں نہ کہ قبر پرست اولیاء پرست اور اکابر پرست

معاویہ رضی الله عنہ ایک اور حدیث بھی بیان کرتے تھے کہ اس امت میں بارہ خلفاء آئیں گے اور ان کو کوئی نقصان نہ دے سکے گا

طائفہ منصورہ والی روایت کو میں بارہ خلفاء سے جوڑتا ہوں میرے نزدیک یہ وقت گزر چکا

[/EXPAND]

[کیا صحیح بخاری مکمل کرنے کے بعد امام بخاری نے اس کو امام احمد پر پیش کیا اور انہوں نے تحسین کی؟]

جواب

یہ سب جھوٹی  کہانیاں ہیں جو لوگوں نے اپنے اماموں  کے غلو میں گھڑی ہیں

اس کی مثال ہے  صحيح بخاري کی روایت ہے

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يُهْلِكُ النَّاسَ هَذَا الحَيُّ مِنْ قُرَيْشٍ» قَالُوا: فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: «لَوْ أَنَّ النَّاسَ اعْتَزَلُوهُمْ» قَالَ: مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، سَمِعْتُ أَبَا زُرْعَةَ

مجھ سے محمد بن عبدالرحيم نے بيان کيا ، کہاہم سے ابومعمر اسماعيل بن ابراہيم نے بيان کيا ، کہاہم سے ابواسامہ نے بيان کيا ، کہا ہم سے شعبہ نے بيان کيا ، ان سے ابوالتياح نے ، ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہريرہ رضي اللہ عنہ نے بيان کيا کہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا : اس قريش کا یہ محلہ لوگوں کو ہلاک وبرباد کردے گا ? صحابہ نے عرض کيا : اس وقت کے ليے آپ ہميں کيا حکم کرتے ہيں ؟ نبی صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا : کاش لوگ ان سے الگ رہتے ? محمود بن غيلان نے بيان کيا کہ ہم سے ابوداود طيالسي نے بيان کيا ، کہا ہم کو شعبہ نے خبردي ، انہيں ابوالتياح نے ، انہوں نے ابوزرعہ سے سنا

مسند احمد میں امام احمد اس کو منکر کہتے ہیں

حدثنا محمَّد بن جعفر، حدثنا شُعبة، عن أبي التَّيَّاح، قال: سمعت أبا زُرعة، يحدث عن أبي هريرة، عن النبي – صلى الله عليه وسلم -، قال: “يُهلكُ أمتي هذا الحيُّ من قريبٌ”، قالوا: في تأمُرُنا يا رسول الله؟، قال: “لو أن الناس اعتزلوهم”. [قال عبد الله بن أحمد]: وقال  أبي- في مرضه الذي  مات فيه: اضرب على هذا الحديث، فإنه خلافُ الأحاديث عن النبي – صلى الله عليه وسلم -، يعني قوله: “اسمعوا وأطيعوا واصبروا”.

ابو ہریرہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میری امت کو یہ محلہ جلد ہی ہلاک کرے گا ہم نے پوچھا آپ ہم کو کیا حکم کرتے ہیں اے رسول الله ! فرمایا کاش کہ لوگ ان سے الگ رہتے عبد الله بن احمد کہتے ہیں  میں نے اپنے باپ سے اس حالت مرض میں (اس روایت کے بارے میں) پوچھا جس میں ان کی وفات ہوئی احمد نے کہا اس حدیث کو مارو کیونکہ یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی احادیث کے خلاف ہے یعنی سمع و اطاعت کرو اور صبر کرو

امام احمد کا  اضرب على هذا الحديث کہنا روایت کی شدید تضعیف ہے اور یہ الفاظ جرح کے لئے امام احمد اور امام أبو زرعة  نے کئی راویوں کے لئے بھی استمعال کیے ہیں دیکھینے کتاب الجرح و التعدیل از ابن ابی حاتم

حدثنا عبد الرحمن قال سئل أبو زرعة عن الحسين بن عبد الله بن ضميرة فقال: ليس بشئ ضعيف الحديث، اضرب على حديثه
ابو زرعة نے ایک ضعیف راوی پر کہا اضرب على حديثه

امام احمد نے کہا أني أضرب على حديث سعيد بن سلام
أبو جعفر المدائني کی احادیث پر امام احمد نے کہا اضرب على حديثه، أحاديثه موضوعة
اس کی حدیث موضوعات ہے

عبد العزيز بن عبد الرحمن المدينى پر امام احمد نے کہا اضرب على احاديثه هي كذب أو قال موضوعة
اس کی حدیث کو مارو یہ کذب ہے

يوسف بن خالد پر امام ابو زرعہ نے کہا
ذاهب الحديث، ضعيف الحديث، اضرب على حديثه

الغرض اضرب على هذا الحديث کہنا روایت کی شدید تضعیف ہے

ظاہر ہے ایک صحیح حدیث کو پھینکنے کا حکم امام احمد کیوں کریں گے

دوسری دلیل ہے کہ امام بخاری نے ایک روایت صحیح میں نقل کی ہے کہ عمار کو باغی قتل کریں گے

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الوَهَّابِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ لَهُ وَلِعَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ائْتِيَا أَبَا سَعِيدٍ فَاسْمَعَا مِنْ حَدِيثِهِ، فَأَتَيْنَاهُ وَهُوَ وَأَخُوهُ فِي حَائِطٍ لَهُمَا يَسْقِيَانِهِ، فَلَمَّا رَآنَا جَاءَ، فَاحْتَبَى وَجَلَسَ، فَقَالَ: كُنَّا نَنْقُلُ لَبِنَ المَسْجِدِ لَبِنَةً لَبِنَةً، وَكَانَ عَمَّارٌ يَنْقُلُ لَبِنَتَيْنِ لَبِنَتَيْنِ، فَمَرَّ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَسَحَ عَنْ رَأْسِهِ الغُبَارَ، وَقَالَ: «وَيْحَ عَمَّارٍ تَقْتُلُهُ الفِئَةُ البَاغِيَةُ، عَمَّارٌ يَدْعُوهُمْ إِلَى اللَّهِ، وَيَدْعُونَهُ إِلَى النَّارِ»

امام احمد بھی اسی طرق کو مسند میں نقل کرتے ہیں

حَدَّثَنَا مَحْبُوبُ بْنُ الْحَسَنِ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ لَهُ وَلِابْنِهِ عَلِيٍّ: انْطَلِقَا إِلَى أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ فَاسْمَعَا مِنْ حَدِيثِهِ قَالَ: فَانْطَلَقْنَا فَإِذَا هُوَ فِي حَائِطٍ [ص:368] لَهُ، فَلَمَّا رَآنَا أَخَذَ رِدَاءَهُ فَجَاءَنَا فَقَعَدَ، فَأَنْشَأَ يُحَدِّثُنَا، حَتَّى أَتَى عَلَى ذِكْرِ بِنَاءِ الْمَسْجِدِ، قَالَ: كُنَّا نَحْمِلُ لَبِنَةً لَبِنَةً وَعَمَّارُ بْنُ يَاسرٍ يَحْمِلُ لَبِنَتَيْنِ لَبِنَتَيْنِ، قَالَ: فَرَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ يَنْفُضُ التُّرَابَ عَنْهُ، وَيَقُولُ: «يَا عَمَّارُ أَلَا تَحْمِلُ لَبِنَةً كَمَا يَحْمِلُ أَصْحَابُكَ؟» ، قَالَ: إِنِّي أُرِيدُ الْأَجْرَ مِنَ اللَّهِ، قَالَ: فَجَعَلَ يَنْفُضُ التُّرَابَ عَنْهُ، وَيَقُولُ: «وَيْحَ عَمَّارٍ تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ، يَدْعُوهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ، وَيَدْعُونَهُ إِلَى النَّارِ» قَالَ: فَجَعَلَ عَمَّارٌ يَقُولُ أَعُوذُ بِالرَّحْمَنِ مِنَ الْفِتَنِ

لیکن ابو بکر الخلال کتاب السنہ میں لکھتے ہیں کہ امام احمد اس روایت پر کہتے تھے

سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ، يَقُولُ: رُوِيَ فِي: «تَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ» ثَمَانِيَةٌ وَعِشْرُونَ حَدِيثًا، لَيْسَ فِيهَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ

میں نے محمّد بن عبد الله بن ابراہیم سے سنا کہا میں نے اپنے باپ سے سنا کہتے تھے میں نے امام احمد بن حنبل سے سنا

عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا کو ٢٨ طرقوں سے روایت کیا ایک بھی صحیح نہیں

الخلال کہتے ہیں امام احمد کہتے اس پر بات تک نہ کرو

 أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَازِمٍ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَبَّاسِ الطَّيَالِسِيُّ، أَنَّ إِسْحَاقَ بْنَ مَنْصُورٍ حَدَّثَهُمْ، أَنَّهُ قَالَ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: قَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَمَّارٍ: «تَقْتُلُكَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ» . قَالَ: «لَا أَتَكَلَّمُ فِيهِ»

الخلال کے مطابق بغداد کے دیگر محدثین کہتے

أَخْبَرَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ الْفَضْلِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَيَّةَ مُحَمَّدَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ يَقُولُ: سَمِعْتُ فِي حَلْقَةٍ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ وَيَحْيَى بْنَ مَعِينٍ وَأَبَا خَيْثَمَةَ وَالْمُعَيْطِيَّ ذَكَرُوا: «يَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ» فَقَالُوا: مَا فِيهِ حَدِيثٌ صَحِيحٌ

اس سلسلے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے

امام احمد یہ بھی کہتے

قَالَ ابْنُ الْفَرَّاءِ: وَذَكَرَ يَعْقُوبُ بْنُ شَيْبَةَ فِي الْجُزْءِ الْأَوَّلِ مِنْ مُسْنَدِ عَمَّارٍ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ سُئِلَ عَنْ حَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَمَّارٍ: «تَقْتُلُكَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ» . فَقَالَ أَحْمَدُ: كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَتَلَتْهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ. وَقَالَ: فِي هَذَا غَيْرُ حَدِيثٍ [ص:464] صَحِيحٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَرِهَ أَنْ يَتَكَلَّمَ فِي هَذَا بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا “، فَهَذَا الْكِتَابُ يَرْوِيهِ أَبُو الْقَاسِمِ عَبْدُ الْعَزِيزِ الْأَزَجِيُّ عَنِ ابْنِ حَمَّةَ الْخَلَّالِ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ يَعْقُوبَ بْنِ شَيْبَةَ، عَنْ جَدِّهِ يَعْقُوبَ

اس سلسلے میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے مروی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے اور احمد اس پر کلام کرنے پر کراہت کرتے

کہا جاتا ہے کہ امام احمد اس روایت کو صحیح سمجھتے تھے اس لئے مسند میں نقل کیا جبکہ مسند میں یہی روایت لکھ کر  امام احمد اس کو منقطع قرار دیتے ہیںاور کہتے ہیں اس میں گڑبڑ جسن کی والدہ نے کی ہے

علم رجال کے ماہر ابن الجوزی کتاب العلل المتناهية في الأحاديث الواهية میں لکھتے ہیں

وأما قوله عليه السلام لعمار تقتلك الفيئة الباغية وقد أَخْرَجَهُ الْبُخَارِيّ من حديث أَبِي قَتَادَة وأم سلمة إلا أن أَبَا بَكْر الخلال ذكر أن أَحْمَد بْن حنبل ويحيى بْن معين وأبا خيثمة والمعيطي ذكروا هَذَا الحديث تقتل عمارًا الفيئة الباغية فقال فِيهِ ما فِيهِ حديث صحيح وأن أَحْمَد قال قد روى فِي عمار تقتله الفيئة الباغية ثمانية وعشرون حديثًا ليس فيها حديث صحيح”.

اور جہاں تک اس قول کا تعلق ہے کہ عمار کو با غی گروہ قتل کرے گا اس کی تخریج بخاری نے ابی قتادہ اور ام سلمہ  کی حدیث سے کی ہے. بے شک ابو بکر الخلال نے ذکر کیا ہے کہ  أَحْمَد بْن حنبل ويحيى بْن معين وأبا خيثمة والمعيطي نے اس باغی گروہ والی روایت کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے ایک بھی روایت صحیح نہیں. اور احمد نے ٢٨ روایات سے عمار تقتله الفيئة الباغية  کو روایت کیا جن میں ایک بھی صحیح نہیں ہے

بالفرض مان لیتے ہیں کہ امام احمد کے  سامنے صحیح بخاری رکھی گئی تو  ظاہر ہے انہوں نے اس میں سے قابل اعتراض مواد نکلالنے کا کہا ہو گا امام  بخاری نے انکار کیا ہو گا اس پر اختلاف رائے ہوا اور سند تائید نہ مل سکی

راقم کے نزدیک اس قسم کے  تمام اقوال فرضی ہیں سب سے بڑھ کر بات یہ ہے خود امام احمد سے کوئی روایت براہ راست نہیں لی گئی بلکہ  علی المدینی اور امام احمد کا مکالمہ وغیرہ دکھا کر  انکی تنقیص کی گئی ہے

باب الصلوٰۃ فی السطوح والمنبرا (صحیح بخاری جلد او صفحہ۔ ۵۵۔۵۴
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ، قَالَ: سَأَلُوا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ: مِنْ أَيِّ شَيْءٍ المِنْبَرُ؟ فَقَالَ: مَا بَقِيَ بِالنَّاسِ أَعْلَمُ مِنِّي، هُوَ مِنْ أَثْلِ الغَابَةِ عَمِلَهُ فُلاَنٌ مَوْلَى فُلاَنَةَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، «وَقَامَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ عُمِلَ وَوُضِعَ، فَاسْتَقْبَلَ القِبْلَةَ، كَبَّرَ وَقَامَ النَّاسُ خَلْفَهُ، فَقَرَأَ وَرَكَعَ وَرَكَعَ النَّاسُ، خَلْفَهُ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ ثُمَّ رَجَعَ القَهْقَرَى، فَسَجَدَ عَلَى الأَرْضِ، ثُمَّ عَادَ إِلَى المِنْبَرِ، ثُمَّ رَكَعَ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، ثُمَّ رَجَعَ القَهْقَرَى حَتَّى سَجَدَ بِالأَرْضِ»، فَهَذَا شَأْنُهُ، قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: قَالَ عَلِيُّ بْنُ المَدِينِيِّ: ” سَأَلَنِي أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ رَحِمَهُ اللَّهُ عَنْ هَذَا الحَدِيثِ، قَالَ: فَإِنَّمَا أَرَدْتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ أَعْلَى مِنَ النَّاسِ فَلاَ بَأْسَ أَنْ يَكُونَ الإِمَامُ أَعْلَى مِنَ النَّاسِ بِهَذَا الحَدِيثِ، قَالَ: فَقُلْتُ: إِنَّ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ كَانَ يُسْأَلُ عَنْ هَذَا كَثِيرًا فَلَمْ تَسْمَعْهُ مِنْهُ قَالَ: لاَ “

 علی بن عبداللہ (المدینی) سفیان ے اور وہ ابو حازم سے روایت کرتے ہیں کہ سہیل بن سعد سے پوچھا گیا کہ منبر (نبوی) کس چیز کا تھا انہوں نے فرمایا اس بات کا جاننے والا لوگوں میں مجھ سے زیادہ (اب) کوئی باقی نہیں۔ وہ مقام (غابہ) کے جھاؤ کا تھا۔ فلاں عورت کے فلاں غلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بنایا تھا۔ جب وہ بنا کر رکھا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر کھڑے ہوئے اور قبلہ رو ہو کر تکبیر (تحریمہ) کہی اور لوگ آپﷺ کے پیچھے کھڑے ہوئے پھر آپﷺ نے قرأت کی اوررکوع فرمایا اور لوگوں نے آپﷺ کے پیچھے رکوع کیا پھر آپ ﷺ نے اپنا سر اٹھایا اس کے بعد پیچھے ہٹے یہاں تک کہ زمین پر سجدہ کیا۔ امام بخاری کہتے ہیں (حالانکہ یہ کہنے کی ضرورت نہ تھی) علی بن عبداللہ (المدینی) نے کہا کہ احمد بن حنبل نے مجھ سے یہ حدیث پوچھی تو میں نے کہا کہ میرا مقصود یہ ہے کہ نبی ﷺ لوگوں سے اوپر تھے تو یہ حدیث اس کی دلیل ہے کہ کچھ مضائقہ نہیں اگر امام لوگوں سے اوپر ہو۔ علی بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ (میرے اور تمہارے استاد) سفیان بن عیبنہ سے تو اکثریہ حدیث پوچھی جاتی تھی کہ کیا تم نے ان سے اس حدیث کو نہیں سنا احمد بن حنبل نے کہا نہیں۔

امام بخاری نے یہ بات لاکر ثابت کیا ہے کہ احمد بن حنبل ایسے شاگرد تھے کہ ان کے استادایک حدیث بار بار ذکر کرتے ہیں لیکن پھر بھی اسے نہ سُن پاتے تھے۔ امام احمد نے جب یہ متن اپنے حوالے سے پڑھا ہو گآ تو کیا انہوں نے اس کو پسند کیا ہو گا ؟ ظاہر ہے  امام احمد پر صحیح بخاری پیش کیا جانا محض افسانہ ہے

بعض غالیوں نے الفاظ پیش کیے ہیں کہ امام علی المدینی نے امام احمدکو رحمہ الله کہا

جبکہ غور طلب ہے کہ علی الدینی کی وفات امام احمد سے پہلے ہوئی اور ایک زندہ شخص پر رحمہ الله کا لاحقہ کوئی نہیں لگاتا

دوسری جگہ امام بخاری باب شھرا عید لاینقصان میں  امام احمد بن حنبل  کا خاص ذکر کیا  حالانکہ یہاں بھی ان کا ذکر کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی مگر محض انکی  کی  علمیت  کو دکھایا گیا

29-ramzan-india

طبع نول کشور لکهنو

ترجمہ:   عید کے دونوں مہینے ناقص نہیں ہوتے۔

عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ اپنے والد ابوبکرہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دو مہینے ایسے ہیں کہ کم نہیں ہوتے یعنی عید کے دونوں مہینے رمضان اور ذی الحجہ۔

امام بخاری فرماتے ہیں کہ احمد بن حنبل نے کہا کہ اس کے معنیٰ یہ ہیں یعنی اگر رمضان کم دنوں کا (یعنی ۲۹ کا ہو تو ذی الحجہ پورا (تیس دنوں کا) ہوگا اور اگر ذی الحجہ کم دنوں کا (یعنی ۲۹ دنوں کا) تو رمضان پورا (یعنی ۳۰ دنوں کا) ہوگا۔

یہاں امام بخاری نے یہ ثابت کیا ہے کہ دیکھو امام احمد بن حنبل اس حدیث کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ رمضان اگر ۲۹ کا ہوگا تو ذی الحجہ ضرور تیس ہوگا۔ دونوں مہینے ۲۹ کے نہیں ہوتے حالانکہ بے حساب سال ایسے گزرے ہیں کہ جن میں دونوں مہینے ۲۹ کے ہوئے ہیں اسی لیے امام بخاری آگے (اپنے استاد) اسحاق بن راہویہ کی بات لے آئے کہ ابوالحسن بیان کرتے ہیں کہ اسحاق بن راہویہ کا کہنا ہے کہ اگر یہ مہینے چاہے ۲۹ کے ہوں یا تیس کے ان کی فضلیت میں کمی نہیں آتی۔

یہ متن اب جو  صحیح بخاری چھپ رہی ہے اس  سے نکال دیا گیا لیکن یہ انڈیا طبع نور کشور لکهنو سے چھپنے والی صحیح  بخاری میں ہے اور  جامع ترمذی میں ابھی تک ہے

قَالَ أَحْمَدُ: ” مَعْنَى هَذَا الحَدِيثِ: شَهْرَا عِيدٍ لَا يَنْقُصَانِ، يَقُولُ: لَا يَنْقُصَانِ مَعًا فِي سَنَةٍ وَاحِدَةٍ شَهْرُ رَمَضَانَ، وَذُو الحِجَّةِ، إِنْ نَقَصَ أَحَدُهُمَا تَمَّ الآخَرُ “، وقَالَ إِسْحَاقُ: ” مَعْنَاهُ لَا يَنْقُصَانِ يَقُولُ: وَإِنْ كَانَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ فَهُوَ تَمَامٌ غَيْرُ نُقْصَانٍ “،” وَعَلَى مَذْهَبِ إِسْحَاقَ يَكُونُ يَنْقُصُ الشَّهْرَانِ مَعًا فِي سَنَةٍ وَاحِدَةٍ 

اسی طرح فتح الباری میں ابن حجر نے لکھا ہے

29-ramzan-ahmed

ثُمَّ وَجَدْتُ فِي نُسْخَةِ الصَّغَانِيِّ مَا نَصُّهُ عَقِبَ الْحَدِيثِ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ قَالَ إِسْحَاقُ تِسْعَةٌ وَعِشْرُونَ يَوْمًا تَامٌّ وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ إِنْ نَقَصَ رَمَضَانُ تَمَّ ذُو الْحِجَّةِ وَإِنَّ نَقَصَ ذُو الْحِجَّةِ تَمَّ رَمَضَانُ وَقَالَ إِسْحَاقُ مَعْنَاهُ وَإِنْ كَانَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ فَهُوَ تَمَامٌ غَيْرَ نُقْصَانٍ قَالَ وَعَلَى مَذْهَبِ إِسْحَاقَ يَجُوزُ أَنْ يَنْقُصَا مَعًا فِي سَنَةٍ وَاحِدَةٍ

پھر میں نے الصَّغَانِيِّ کے نسخے میں اس حدیث کے بعد یہ پایا کہ امام بخاری نے کہا کہ اسحاق نے کہا ٢٩ ہوں تو(بھی) پورا  (ماہ) ہے اور احمد بن حنبل نے کہا اگر رمضان کم ہو تو ذو الحجہ مکمل ہو گا اور اگر ذو الحجہ کم ہو تو رمضان مکمل ہوگا

یعنی الصَّغَانِيِّ  کے مطابق امام بخاری نے یہ بھی صحیح میں لکھا تھا لیکن جب لوگوں نے اس کو پڑھا تو اس کو امام احمد کی وجہ سے حذف کر دیا

ابن حجر سے بھی پہلے کتاب الكوثر الجاري إلى رياض أحاديث البخاري  میںأحمد بن إسماعيل بن عثمان بن محمد الكوراني الشافعي ثم الحنفي المتوفى 893 هـ اسی متن کا صحیح بخاری کے حوالے سے ذکر کرتے ہیں

 وقال أحمد: إن نقص رمضان تم ذو الحجة، وإن نقص ذو الحجة تم رمضان (وقال أبو الحسن: الظاهر أنه محمد بن مقاتل شيخ البخاري) (كان إسحاق بن راهويه يقول: لا ينقصان في الفضيلة).

القسطلانی ٩٢٣ ھ کتاب  إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري میں اس کا ذکر کرتے ہیں کہ امام بخاری نے امام احمد کا ے قول نقل کیا

(قال أبو عبد الله) البخاري (إسحاق): هو ابن راهويه أو ابن سويد بن هبيرة العدوي (وإن كان) كل واحد من شهري العيد (ناقصًا) في العدد والحساب (فهو تام). في الأجر والثواب. (وقال محمد) هو ابن سيرين أو المؤلّف نفسه (لا يجتمعان كلاهما ناقص) كلاهما مبتدأ وناقص خبره والجملة حال من ضمير الاثنين. قال أحمد بن حنبل: إن نقص رمضان تم ذو الحجة وإن نقص ذو الحجة تم رمضان

اس بھی ظاہر ہوتا ہے کہ صحیح بخاری امام احمد پر پیش کی گئی محض افسانہ ہے

ابن کثیر کتاب البداية والنهاية میں ایک بے سند قول پیش کرتے ہیں

وَقَدْ أَثْنَى عَلَيْهِ عُلَمَاءُ زَمَانِهِ مِنْ شُيُوخِهِ وَأَقْرَانِهِ. فَقَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ: مَا أَخْرَجَتْ خُرَاسَانُ مِثْلَهُ.

امام احمد نے امام بخاری کے لئے کہا خراسان سے ان کی مثل کوئی نہیں نکلا

یہ ابن کثیر کی غلطی ہے الذھبی تذکرہ الحفاظ میں اس قول کو  يحيى بن يحيى الإمام الحافظ شيخ خراسان کے لئے بتاتے ہیں

 وقال عبد الله بن أحمد: سمعت أبي يثني على يحيى بن يحيى ويقول: ما أخرجت خراسان مثله

عبد الله بن احمد نے کہا میں نے اپنے باپ کو سنا وہ یحیی بن یحیی کی تعریف کرتے تھے اور کہتے کہ خراسان سے ان کی مثل کوئی نہ نکلا

یعنی خراسان سے  يحيى بن يحيى الإمام الحافظ شيخ خراسان کی مثل کوئی نہیں نکلا تو پھر یہ امام بخاری کے لئے کیسے کہہ سکتے ہیں

امام احمد کے اقوال اور جرح و تعدیل میں ان کی رائے  کا اپنا مقام ہے لیکن یہ کہنا کہ امام بخاری یا امام احمد میں اختلاف رائے نہ تھا تاریخ کو مسخ کرنا ہے

[/EXPAND]

[ کیا چوہے مسخ شدہ یہودی ہیں ؟  ]

جواب

صحیح بخاری کی روایت ہے

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ (وهيب بن خالد)، عَنْ خَالِدٍ (ابن مهران الحذاء)، عَنْ مُحَمَّدٍ (بْنِ سِيرِينَ)، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «فُقِدَتْ أُمَّةٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ لاَ يُدْرَى مَا فَعَلَتْ، وَإِنِّي لاَ أُرَاهَا إِلَّا الفَارَ، إِذَا وُضِعَ لَهَا أَلْبَانُ الإِبِلِ لَمْ تَشْرَبْ، وَإِذَا وُضِعَ لَهَا أَلْبَانُ الشَّاءِ شَرِبَتْ» فَحَدَّثْتُ كَعْبًا فَقَالَ: أَنْتَ سَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُهُ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ لِي مِرَارًا، فَقُلْتُ: أَفَأَقْرَأُ التَّوْرَاةَ؟

ابن سیرین ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل کی ایک امت غائب ہو گئی نہیں معلوم ان کے ساتھ کیا ہوا؟ اور بے شک میں دیکھتا ہوں کسی کو نہیں سوائے چوہے کے کہ جب اس کو اونٹ کا دودھ رکھا جائے تو نہیں پیتا اور جب بکری کا رکھا جائے تو پیتا ہے – ابو ہریرہ کہتے ہیں میں نے اس کو کعب الاحبار سے بیان کیا تو انہوں نے کہا کیا تم نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا ؟ میں نے کہا ہاں – پھر کعب نے دوبارہ پوچھا میں نے کہا کیا تو نے توریت پڑھی؟

اس روایت میں متنا بہت مسائل و اشکال ہیں

اول مدینہ میں معتوب علیہ  اور مسخ شدہ قوم چوہوں کی شکل میں  بھی تھی جو توریت کے حکم پر عمل کرتی تھی

دوم توریت میں مسخ شدہ اقوام کا کوئی ذکر نہیں

سوم اونٹ کا گوشت حرام ٹہرانا بنی اسرائیل کا خود ساختہ عمل تھا-  یہود مدینہ کا رسول الله صلی الله  علیہ وسلم پر اعتراض تھا کہ یہ نبی تو حرام جانور کا گوشت یعنی اونٹ کا گوشت بھی کھاتا ہے

قرآن میں اس پر جواب دیا گیا  ہے

كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِبَنِي إِسْرَائِيلَ إِلَّا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِيلُ عَلَى نَفْسِهِ مِنْ قَبْلِ أَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرَاةُ قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ

سارے کھانے بنی اسرائیل کے لئے حلال تھے سوائے وہ جو یعقوب نے اپنے اوپر حرام کیے ، توریت کے نازل ہونے سے پہلے پس توریت لاو اس کو پڑھو اگر تم سچے ہو

اس کی تفسیر میں جو روایات ہیں ان کے مطابق یعقوب علیہ السلام بیمار ہوئے تو انہوں نے منت مانی کہ جب وہ ٹھیک ہو جائیں گے تو اپنی مرغوب چیز اونٹ کا گوشت نہیں  کھائیں گے – یعقوب علیہ السلام کے بعد  اس  پر بنی اسرائیل نے بھی عمل کیا

اب سوال یہ اتا ہے کیا توریت میں اس رسم و منت کو باقی رکھا گیا تو قرآن اشارہ کر رہا ہے کہ نہیں ایسا کوئی حکم توریت میں نہ تھا- یہ یہود کا ادخال ہے – توریت کے مطابق وہ جانور جن کا کھر بیچ میں سے ٹوٹا ہو وہ حلال ہیں اس بنیاد پر اونٹ بھی حلال ہے

Camel-hoof

اونٹ کا کھر

یہودی علماء  کے مطابق اونٹ کا کھر نہیں ہوتا بلکہ اس کا پیر ناخن ہے یہ غیر سائنسی بات ہے – توریت میں تضاد بھی ہے کتاب الاستثنا میں ہے اونٹ کا کھر نہیں جبکہ کتاب لاوی میں ہے اونٹ کا کھر پیچ سے ٹوٹآ نہیں گویا کھر تو ہے پر جڑآ ہے – اس تضاد سے ظاہر ہے کہ یہودی حلقوں میں توریت تبدیل کرتے وقت اونٹ کا کھر  ہی سمجھا جاتا تھا نہ کہ ناخن

روایت میں اس کے بر خلاف یہ بیان ہوا ہے کہ ابو ہریرہ رضی الله عنہ  ان نکات سے واقف نہ تھے اور کعب الاحبار سے اس پر الجھتے تھے

چہارم صحیح روایات کے مطابق جو قومیں مسخ ہوئیں ان کی نسل نہ چلی –  مشکل الاثار میں طحاوی کہتے ہیں

قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: فَكَانَ فِيمَا رُوِّينَا فِي الْبَابِ الَّذِي قَبْلَ هَذَا الْبَابِ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ قَوْلِهِ: ” إنَّ اللهَ لَمْ يُهْلِكْ قَوْمًا فَيَجْعَلَ لَهُمْ نَسْلًا وَلَا عَقِبًا ” مَا قَدْ دَلَّ أَنَّ مَا قَالَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْفَأْرِ وَفِي الْفَأْرَةِ [ص:327] عَلَى مَا فِي الْحَدِيثَيْنِ اللَّذَيْنِ رُوِّينَاهُمَا فِي هَذَا الْبَابِ، كَانَ مِنْهُ قَبْلَ أَنْ يُعْلِمَهُ اللهُ مَا أَعْلَمَهُ، مِنْ أَنَّهُ لَا يَجْعَلُ لِمَنْ أَهْلَكَ نَسْلًا وَلَا عَقِبًا. فَذَهَبَ بِذَلِكَ مَا كَانَ يَخْشَاهُ، وَحَدَّثَ بِمَا فِي هَذَا الْبَابِ عَنْهُ مَنْ لَمْ يَعْلَمْ مَا كَانَ مِنْهُ بَعْدَ ذَلِكَ مِمَّا قَدْ ذَكَرْنَاهُ فِي الْبَابِ الَّذِي قَبْلَ هَذَا الْبَابِ، وَثَبَتَ بِذَلِكَ لَمَّا كَانَ الْفَأْرُ مِنْ ذَوِي التَّنَاسُلِ , وَمِنْ ذَوِي الْأَعْقَابِ أَنَّهَا مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي قَدْ تَقَدَّمَ خَلْقُ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ إيَّاهُ مَسْخَهُ مِنْ مَسْخِهِ مِمَّنْ لَعَنَهُ مِنْ عِبَادِهِ إلَى مَا مَسَخَهُ إلَيْهِ , وَبِاللهِ عَزَّ وَجَلَّ التَّوْفِيقُ.

امام طحاوی کہتے ہیں … رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا گیا ہے بے شک الله نے جس قوم کو ہلاک کیا اس کی نسل اور کوئی باقی نہ چھوڑا … دوسری روایت میں ہے رسول الله نے خدشہ ظاہر کیا کہ چوہے ہیں … اور چوہے نسل والے ہوتے ہیں

طحاوی اس پر باب باندھتے ہیں

بَابُ بَيَانِ مُشْكِلِ مَا رُوِيَ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خَشْيَتِهِ أَنْ تَكُونَ الْفَأْرَةُ مِنَ الْمَمْسُوخِ وَهَلْ كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ مَأ رَفَعَ تِلْكَ الْخَشْيَةَ وَبَانَ بِهِ لَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهَا لَيْسَتْ مِنَ الْمَسُوخِ

باب إس مشکل کا بیان کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا گیا ہے کہ خوف ہے کہ چوہے مسخ شدہ ہیں اور پھر اس کے بعد اس خوف کو دور کیا گیا یہ بتا کر کہ یہ مسخ شدہ نہیں ہیں

یعنی اگر چوہے مسخ شدہ ہوتے تو انکی نسل ہی نہیں چلتی

اس روایت کی تمام اسناد میں خَالِدٍ (ابن مهران الحذاء) بصری اور ہشام بن حسان بصری کا تفرد ہے

کتاب الكواكب النيرات في معرفة من الرواة الثقات از ابن الكيال (المتوفى: 929هـ) کے مطابق خَالِدٍ (ابن مهران الحذاء) بصری کو ثقہ کہا گیا ہے لیکن ابو حاتم کہتے ہیں اس کی حدیث لکھ لو دلیل نہ لو

 وقال الحافظ في التقريب: ثقة يرسل وقد أشار حماد بن زيد إلى أن حفظه تغير لما قدم من الشام

  ابن حجر کہتے ہیں یہ ارسال کرتے ہیں اور ان  میں شام جا کر تغیر آیا

العلل الواردة في الأحاديث النبوية. کے مطابق أبو الحسن علي بن عمر بن أحمد بن مهدي بن مسعود بن النعمان بن دينار البغدادي الدارقطني (المتوفى: 385هـ) نے اس روایت کی اسناد کا ذکر کیا ہے

وَسُئِلَ عَنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ: فُقِدَتْ أُمَّةٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا يُدْرَى مَا فَعَلَتْ، لَا أُرَاهَا إِلَّا الْفَأْرَ، أَلَا تَرَوْنَ أَنَّهَا إِذَا وَجَدَتْ أَلْبَانَ الْإِبِلِ لَمْ تَشْرَبْهَا فَإِذَا وَجَدَتْ أَلْبَانَ الْغَنَمِ شَرِبَتْهَا.

فَقَالَ: اخْتُلِفَ فِي رَفْعِهِ، فَرَفَعَهُ خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، وَهِشَامُ بْنُ حَسَّانٍ، وَأَشْعَثُ عن ابن سيرين، عن أبي هريرة.

واختلف عَنْ أَيُّوبَ، فَرُوِيَ عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى بْنِ حَمَّادٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ أَيُّوبَ وَحَبِيبٍ وَهِشَامٍ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مَرْفُوعًا.

وَرَوَاهُ الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ وَهِشَامٍ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ موقوفا.

دارقطنی کے بقول اس  روایت کو موقوف اور مرفوع دونوں طرح بیان کیا گیا ہے

مسند ابو یعلی کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ حَبِيبٍ، وَهِشَامٍ، وَأَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَحْسَبُهُ قَالَ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْفَأْرَةُ يَهُودِيَّةٌ، وَإِنَّهَا لَا تَشْرَبُ أَلْبَانَ الْإِبِلِ»

اس روایت میں ہے بصریوں کا تفرد ہے   حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ ،  ایوب سختیانی ، ہشام بن حسان تینوں بصرہ کے ہیں اور ان کے    مطابق ابن سیرین نے کہا  أَحْسَبُهُ  میں گمان کرتا ہوں رسول الله صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا

یعنی راویوں کے بقول ابن سیرین  خود اس پر جزم نہیں رکھتے تھے کہ یہ قول نبوی یا قول صحابی  ہے  اور بعض نے اس کو موقوف بیان کیا یعنی ابو ہریرہ کے قول کے طور پر

میزان از الذھبی  میں ہے شعبہ کہتے ہیں بصرہ  کے  خالد الْحَذَّاءُ اور ہشام بْنُ حَسَّانٍ کی روایات سے بچو

قال شعبة:  واكتم على عند البصريين في هشام، وخالد

شعبہ نے کہا مجھ پر چھپا لو دو بصریوں (کی روایات) کو ہشام اور خالد کو 

راقم کے نزدیک امام شعبہ کی رائے صحیح ہے کہ اس روایت سے بچو

[/EXPAND]

[شیعہ کہتے ہیں امام بخاری نے آیات تراشیں]

امام بخاری کی یہ حدیث کہاں ہے – اس کا نمبر کیا ہے پلیز یہ پوری حدیث لکھ دیں

قرآن کی آیت 97سورۃ نساء سے لکھتے ہیں :
اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰھُمُ الْمَآٰءِکَۃ’‘ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِھِمْ قَالُوا فِیْمَ کُنْتُمْ قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ الی قولہٖ وَجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا ۔

جس کا ذکر ایک شیعہ یہاں بھی کر رہا ہے

لنک

http://studyhadithbyquran.blogspot.com/2012/08/blog-post.html#.WWYJPISGN0w

کیا إنما الأعمال بالنيات گھڑی ہوئی ہے ؟

جواب

یہ حدیث نہیں باب میں ایک آیت لکھی ہے
إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنتُمْ ۖ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ ۚ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا ۚ فَأُولَٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا
یہ آیت ہے
جبکہ امام بخاری نے یا کاتب نے یہ دوسری طرح شرحا لکھا ہے
اس میں شیعہ محقق کا کہنا ہے کہ یہ آیت امام بخاری نے تراشی ہے

إن الذين توفاهم الملائكة ظالمي أنفسهم قالوا فيم كنتم قالوا كنا مستضعفين في الأرض‏ ‏ إلى قوله ‏ واجعل لنا من لدنك نصيرا

اصلا یہ نسخہ سلطانیہ ہے اور اسی مقام پر حاشیہ میں موجود ہے کہ یہ الاصیلی کے نسخہ میں ایسا ہے اور حاشیہ میں یہ بھی ہے کہ ابی ذر الھروی کے نسخہ میں آیات اس طرح لکھی ہیں یعنی
وَقَالَ: {إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ المَلاَئِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنْتُمْ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الأَرْضِ} [النساء: 97]- إِلَى قَوْلِهِ – {عَفُوًّا غَفُورًا} [النساء: 43] وَقَالَ: {وَالمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ القَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيرًا} [النساء: 75] اس میں بیچ میں سوره النساء کی آیات ٤٣ ہے جس کا بحث سے کوئی تعلق نہیں ہے جو وضو پر ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ حَتَّىٰ تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّىٰ تَغْتَسِلُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا

یعنی الھروی کے نسخہ میں کسی کاتب کی غلطی سے ٩٧ اور ٧٥ کے بیچ میں یہ ٤٣ آیت آگئی ہے کیونکہ ٩٧ والی آیت ٧٥ سے شرح ہو رہی ہے
إِلَى قَوْلِهِ سے مراد یہ نہیں کہ آگے تک آیت ہے بلکہ مطلب اس کی شرح ہے

فتح الباری ابن حجر میں اس پر بحث بھی ہے
وَقَالَ إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنْتُمْ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ إِلَى قَوْلِهِ عَفُوًّا غَفُورًا وَقَالَ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيرًا هَكَذَا فِي رِوَايَةِ أَبِي ذَرٍّ وَهُوَ صَوَابٌ وَإِنَّمَا أَوْرَدْتُهُ بِلَفْظِهِ لِلْتَنْبِيهِ عَلَى مَا وَقَعَ مِنَ الِاخْتِلَافِ عِنْدَ الشُّرَّاحِ وَوَقَعَ فِي رِوَايَةِ كَرِيمَة والأصيلي والقابسي أَن الَّذين تَوَفَّاهُم فَسَاقَ إِلَى قَوْلِهِ فِي الْأَرْضِ وَقَالَ بَعْدَهَا إِلَى قَوْلِهِ وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيرًا وَفِيهِ تَغْيِيرٌ وَوَقَعَ فِي رِوَايَةِ النَّسَفِيِّ إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنْتُم الْآيَات قَالَ ومالكم لَا تقاتلون فِي سَبِيل الله إِلَى قَوْلِهِ نَصِيرًا وَهُوَ صَوَابٌ وَإِنْ كَانَتِ الْآيَاتُ الْأُولَى مُتَرَاخِيَةً فِي السُّورَةِ عَنِ الْآيَةِ الْأَخِيرَةِ فَلَيْسَ فِيهِ شَيْءٌ مِنَ التَّغْيِيرِ

0——

عمل کا دارومدار نیت پر ہے – یہ اہل تشیع کا بھی قول ہے لہذا نا معلوم اس پر جرح کیوں کی گئی ہے
وما له في الاخرة من نصيب إذا الأعمال بالنيات
تفسیر الصافی

قد ظهر من الآية: أن قبول العمل يحتاج إلى نية الإخلاص و قصد وجه الله، و قد روى الفريقان عن النبي (صلى الله عليه وآله وسلم): أنه قال: إنما الأعمال بالنيات.
تفسير الميزان
المؤلف : العلامة الطباطبائي

وقد أشار النّبي(صلى الله عليه وآله) إلى ذلك إذ قال: «لا عمل إلاّ بالنيّة وإنّما الأعمال بالنيات
الامثل في تفسير كتابِ اللهِ المُنزَل
نَاصِر مَكارم الشِيرازي

إنما الاعمال بالنيات
بحار الأنوار از مجلسی کے مطابق حدیث نبوی ہے

 

[/EXPAND]

[احادیث میں ذکر ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اونٹ کا پیشاب پینے کا حکم دیا؟]

صحیح حدیث میں مذکور ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے قبیلہ عرینہ اور عکل کے کچھ لوگوں کو اونٹ کا پیشاب پینے کا حکم دیا تھا ۔
عن أنس أن ناسًا اجتَوَوا في المدينةِ، فأمَرهمُ النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم أن يَلحَقوا براعِيْه، يعني الإبلَ، فيَشرَبوا من ألبانِها وأبوالِها، فلَحِقوا براعِيْه، فشَرِبوا من ألبانِها وأبوالِها، حتى صلَحَتْ أبدانُهم.(صحیح بخاری: 5686 )
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ مدینے کی آب وہوا موافق نہ آنے پر وہ لوگ بیمار ہوگئے ۔(ان کو استسقاء یعنی پیٹ میں یا پھیپھڑوں میں پانی بھرنے والی بیماری ہوگئی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے اونٹنی کے دودھ اور پیشاب کو ملاکر پینے کی دوا تجویز فرمائی ۔یہاں تک کہ اسے پی کروہ لوگ تندرست ہوگئے ۔

جواب

    یہ روایت چار بصریوں حمید الطویل ، أَبِي قِلَابَةَ  ، قتادہ،  مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ اور ایک مدنی يحيى بن سعيد بن قيس نے انس رضی الله عنہ سے روایت کی ہے

تمام مدلسین ہیں- اس کے ایک راوی حمید الطویل نے پیشاب پینے کا ذکر نہیں کیا بلکہ وہ کہتے ہیں نبی صلی الله  علیہ وسلم نے صرف دودھ پینے کا حکم دیا تھا اور وہ خاص قتادہ پر جرح کرتے ہیں کہ قتادہ  نے پیشاب پینے کا اضافہ کر دیا جبکہ اس روز جب انس نے یہ روایت سنائی تو یہ وہاں تھے بھی نہیں

المسنَد الصَّحيح المُخَرّج عَلى صَحِيح مُسلم از أبو عَوانة الإسفرَايينيّ (المتوفى 316 هـ) کے مطابق

حدثنا محمد بن عبد الملك الواسطي الدَّقِيقي، قال: حدثنا يزيد بن هارون ، قال: أخبرنا حُميد الطويل، عن أنس بن مالك قال: قدم
ص:204] رهط من عرينة إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- فاجتووا المدينة فقال لهم النبي -صلى الله عليه وسلم-: “لو خرجتم إلى إبل الصدقة فشربتم من ألبانها”.-قال حميد: فحدث قتادة في هذا الحديث: “وأبوالها”، ولم أسمعه يومئذ من أنس– قال: ففعلوا. فلما صحوا ارتدوا عن الإسلام وقتلوا راعي النبي -صلى الله عليه وسلم- واستاقوا الإبل وخانوا / (2) وحاربوا الله ورسوله. فبعث رسول الله -صلى الله عليه وسلم- في آثارهم فأُخذوا. فقطع أيديهم وأرجلهم وسمر أعينهم (3).

یزید بن ہارون نے کہا ہم کو حمید الطویل نے خبر دی کہ انس بن مالک رضی الله عنہ نے کہا عرینہ کا ایک وفد نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا اور مدینہ پہنچا پس نبی صلی الله علیہ وسلم نے ان سے کہا اگر تم اونٹوں پر نکلو تو ان کا دودھ پیو حمید نے کہا قتادہ نے بھی یہ حدیث بیان کی اور اس نے کہا ان کا پیشاب اور اس نے تو یہ حدیث انس سے اس دن سنی بھی نہیں تھی حمید نے کہا ان لوگوں نے غفلت دکھائی اور صحیح ہونے کے بعد ارتاد کیا اسلام سے اور چرواہے کو قتل کیا اور اونٹوں کو لوٹا اور خیانت کی اور الله اور اس کے رسول سے جنگ کی پس رسول الله صلی اللهعلیہ وسلم نے ان کے آثار پر لوگ بھیجے یہ پکڑے گئے ان کے ہاتھ پیر کاٹ دیے گئے اور آنکھوں کو پھوڑا گیا

مسند احمد میں بھی حمید کا یہ قول ہے کہ پیشاب کا اضافہ قتادہ نے کیا
حَدَّثَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَدِمَ رَهْطٌ مِنْ عُرَيْنَةَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاجْتَوَوْا الْمَدِينَةَ، فَذَكَرَ مَعْنَاهُ، وَذَكَرَ أَيْضًا فِي حَدِيثِهِ قَالَ حُمَيْدٌ: فَحَدَّثَ قَتَادَةُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ: «وَأَبْوَالِهَا»

مصنف ابن ابی شیبه کے مطابق وَذُكِرَ أَنَّ أَبَا حَنِيفَةَ كَرِهَ شُرْبَ أَبْوَالِ الْإِبِلِ اور ذکر کیا گیا ہے کہ امام ابو حنیفہ اس سے کراہت کرتے کہ اونٹ کا پیشاب پیا جائے

یہ روایت ابن ماجہ میں بھی ہے جس میں أَبِي قِلَابَةَ اس کو انس سے   روایت کرتے ہیں اور پیشاب کا ذکر ہے

تاریخ بغداد کے مطابق
وقال الدارقطني: هو صدوق، كثير الخطإ في الأسانيد والمتون، وكان يحدث من حفظه، فكثرت الأوهام منه.

دارقطنی کہتے ہیں یہ متن اور اسناد میں کثرت سے غلطیاں کرتے ہیں اور اپنے حافظہ سے روایت کرتے اس وجہ سے انکی روایات میں وہم بہت ہے

پیشاب کا ذکر يحيى بن سعيد بن قيس الأَنْصَارِيُّ (مدلس) نے بھی انس رضی الله عنہ کی روایت میں کیا ہےمحدثین کے مطابق ذكر علي بن المديني أنه كان يدلس  امام علی المدینی کہتے ہیں یہ تدلیس کرتے ہیں

پیشاب کے علاوہ اس میں یہ کیا  حد لگائی گئی ہے بعض  اہل علم اس کو حد غیر واضح ہونے کی بنا پر رد کرتے ہیں اور روایت کو منکر کہتے ہیں

یہ ارتاد کی حد تھی ؟

سنن نسائی کی يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ المدنی کی  روایت میں (جس کو البانی صحیح کہتے ہیں میں) ہے

قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عَبْدُ الْمَلِكِ لِأَنَسٍ وَهُوَ يُحَدِّثُهُ هَذَا الْحَدِيثَ: بِكُفْرٍ أَمْ بِذَنْبٍ؟ قَالَ: بِكُفْرٍ. قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ: “لَا نَعْلَمُ أَحَدًا قَالَ عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَنَسٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ غَيْرَ طَلْحَةَ،

امیر المومنین عبد الملک نے  انس سے پوچھا وہ اس حدیث کو بیان کر رہے تھے  کہ ان کا کفر تھا یا گناہ تھا ؟ انس نے کہا کفر تھا – امام نسائی نے کہا ہم نہیں جانتے کہ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ کی انس سے روایت  کے سوا کسی اور نے  یہ بیان کیا ہو

یعنی سزا ارتاد کے زمرے میں دی گئی

یہ حربی کفاز کی حد تھی ؟

ابو داود میں روایت  (جس کو البانی صحیح کہتے ہیں میں) اور صحیح بخاری میں  ہے

قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: “فَهَؤُلَاءِ قَوْمٌ سَرَقُوا، وَقَتَلُوا، وَكَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ، وَحَارَبُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ

ابو قلابہ نے کہا ان لوگوں نے چوری کی قتل کیا کفر کیا ایمان کے بعد اور الله اور اس کے رسول سے جنگ کی

ابو قلابہ یہ بھی کہتے ہیں

“فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي طَلَبِهِمْ قَافَةً، فَأُتِيَ بِهِمْ”، قَالَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي ذَلِكَ: {إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا} [المائدة] الْآيَةَ

پس رسول الله نے ان کے پیچھے لوگ بھیجے اور ان کے لئے آیا الله تعالی نے نازل کی المائدہ کی آیات کہ جو جو الله اور اس کے رسول سے جنگ کریں اور اس میں فساد کریں

یعنی یہ حکم ان آیات کے نزول کے بعد بطور حد  لگایا گیا

قتادہ بھی مسند احمد میں کہتے ہیں

قَالَ قَتَادَةُ: «فَبَلَغَنَا أَنَّ هَذِهِ الْآيَةَ نَزَلَتْ فِيهِمْ»: {إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ} [المائدة: 33]

یہ حدود نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے؟

صحیح  بخاری کے مطابق

قَالَ قَتَادَةُ: فَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ: «أَنَّ ذَلِكَ كَانَ قَبْلَ أَنْ تَنْزِلَ الحُدُودُ

قتادہ نے کہا ابن سیرین نے بیان کیا کہ یہ حدود نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے

یعنی یہ حربی کفار پر  حد  یا قصاص کی حد یا ارتاد کی حد نہیں تھی

یہ ہو ہی نہیں سکتا؟

مصنف عبد الرزاق کی روایت ہے کہ جب یہ حدیث حسن البصری کو پتا چلی تو

وَذَكَرَ أَنَّ أَنَسًا، ذَكَرَ ذَلِكَ لِلْحَجَّاجِ فَقَالَ الْحَسَنُ: عَمِدَ أَنَسٌ إِلَى شَيْطَانٍ فَحَدَّثَهَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَطَعَ وَسَمَلَ، يَعِيبُ ذَلِكَ عَلَى أَنَسٍ

اور ذکر کیا کہ انس رضی الله عنہ نے اس کو حجاج بن یوسف سے ذکر کیا اس پر حسن نے کہا انس کو اس شیطان نے مجبور کیا کہ رسول الله صلی الله  علیہ وسلم پر  کاٹنے اور پھوڑنے کی روایت کریں اور انہوں نے اس میں انس کو عیب دیا

 مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ  کی انس سے نقل کردہ روایت کے مطابق کئی چرواہے تھے جو قتل ہوئے جن میں سے ایک بچا جس نے آ کر رسول الله کو اس کی خبر دی

 فَقَتَلُوا أَحَدَ الرَّاعِيَيْنِ، وَذَهَبُوا بِالْإِبِلِ، وَجَاءَ الْآخَرُ قَدْ جُرِحَ , فَقَالَ: قَدْ قَتَلُوا صَاحِبِي وَذَهَبُوا بِالْإِبِلِ 

طحاوي مشکل الآثار بَيَانُ مُشْكِلِ مَا رُوِيَ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي كَيْفِيَّةِ عُقُوبَاتِ أَهْلِ اللِّقَاحِ  ميں اس روايت پر کہتے ہيں

 وَهَذَا الْحَدِيثُ عَنْدَنَا مُنْكَرٌ؛ لِأَنَّ فِيمَا قَدْ تَقَدَّمَتْ رِوَايَتُنَا لَهُ فِي هَذَا الْبَابِ أَنَّ أَحَدَ رَاعِيَيْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي كَانَ فِي تِلْكَ الْإِبِلِ لَمَّا جَاءَهُ قَالَ: قَدْ قَتَلُوا صَاحِبِي , وَفِي ذَلِكَ مَا يَنْفِي أَنْ يَكُونَ كَانَ مَسْمُولَ الْعَيْنِ , وَلَا اخْتِلَافَ بَيْنَ أَهْلِ الْعِلْمِ فِيمَا يُقَامُ عَلَى مَنْ كَانَ مِنْهُ مِثْلُ الَّذِي كَانَ مِنْ أُولَئِكَ الْقَوْمِ أَنَّهُ حَدُّ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ لِلْمُحَارَبَةِ الَّتِي كَانَتْ لَا حَقٌّ لِلَّذِينَ حُورِبُوا بِهَا , وَأَنَّ الَّذِينَ حُورِبُوا بِهَا لَوْ عَفَا أَوْلِيَاؤُهُمْ عَمَّا كَانَ أَتَى إِلَى أَصْحَابِهِمْ أَنَّ عَفْوَهُمْ بَاطِلٌ. وَفِي ذَلِكَ مَا يَدُلُّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ فَعَلَ فِي أُولَئِكَ الْقَوْمِ مَا قَدْ فَعَلَ قِصَاصًا بِمَا فَعَلُوا , وَأَنَّهُ إِنَّمَا كَانَ فَعَلَهُ بِهِمْ لِمَا أَوْجَبَتْهُ عَلَيْهِمُ الْمُحَارَبَةُ لَا لِمَا سِوَاهُ , وَلَا اخْتِلَافَ بَيْنَ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلِمْنَاهُ فِي الْمُحَارِبِينَ: لَوْ قَطَعُوا الْآذَانَ , وَالْأَيْدِيَ وَالْأَرْجُلَ , حَتَّى لَمْ يُبْقُوا لِمَنْ حَارَبَ أُذُنًا , وَلَا يَدًا , وَلَا رِجْلًا , أَنَّهُ لَا يُفْعَلُ بِهِمْ مِثْلُ ذَلِكَ , وَأَنَّهُ يُقْتَصَرُ بِهِمْ عَلَى مَا فِي الْآيَةِ الَّتِي أَنْزَلَهَا اللهُ فِي الْمُحَارَبَةِ الَّتِي قَدْ تَقَدَّمَتْ تِلَاوَتُنَا لَهَا فِي هَذَا الْبَابِ , وَفِيمَا ذَكَرْنَا مِنْ ذَلِكَ مَا قَدْ دَلَّ عَلَى فَسَادِ هَذَا الْحَدِيثِ الَّذِي رَوَيْنَا وَبِاللهِ التَّوْفِيقُ

يہ حديث ہمارے نزديک منکر ہے کيونکہ اس باب میں ہم نے جو روايت بیان کي ہے اس ميں ہے کہ ايک نبي صلي الله عليہ وسلم کا چرواہا تھا جو اونٹوں پر مامور تھا جب وہ آپ کے پاس آیا اور کہا کہ انہوں نے میرے ساتھی کو قتل کر دیا ہے  اس میں اس بات کی نفی ہے کہ وہ آنکھیں پھوٹا ہوا تھا    اور اس پر اہل علم کا اختلاف نہيں ہے ان پر جو قیام (حدود) کیا گیا وہ انہی جیسوں پر کیا جائے گا کیونکہ بے شک اللہ تعالی کی حد ان جنگجوں کے لئے ہے جن کو کوئی حق نہیں کہ جنگ کریں – اور وہ جو ان میں جنگ کریں اور ان کے دوست ان کو معاف بھی کر دیں تو ایسی معافی بھی باطل ہے – اور اس پر دلیل ہے کہ  نبی صلی الله علیہ وسلم اس قسم   کے لوگوں پر کوئی ایسا کام نہیں کیا جو قصاص سے الگ ہو – اور بے شک ان پر یہ (قصاص لینے کا) فعل کیا گیا جب یہ ان پر واجب ہو گیا کہ یہ جنگجو تھے نہ کہ اس کے سوا کچھ اور – اور اس پر اہل علم کا اتفاق ہے کہ ہمیں جنگجوؤں کے بارے میں پتا ہے کہ  اگر کان کاٹیں يا ہاتھ يا پير يہاں تک کہ حربي کا کوئي عضو نہ رہے نہ کان نہ ہاتھ نہ پير  تو  وہ (اہل علم) ايسا نہيں کرتے اور وہ اس (قسم کی سزا کو) محدود کرتے ہیں اس آیت سے جو الله نے جنگجوؤں کے سلسلے (الله اور اس کے رسول ل کے خلاف الْمُحَارَبَةِ کے تناظر) میں نازل کی ہے  جس کی تلاوت اس باب کے شروع میں گزری ہے اور ہم نے جو یہ سب ذکر کیا  وہ اس حدیث کے فساد پر دلالت کرتا ہے جو ہم نے روایت کی  وَبِاللهِ التَّوْفِيقُ

طحاوی کہتے ہیں کہ حربی کافر میں اور ایک ڈاکو میں فرق ہے کیونکہ وہ جنہوں نےصحابی کو قتل کیا ان پر قصاص کی سزا لگے گی نہ کہ حربی کفار والی سزا – اور یہ ہی عمل رسول الله صلی الله  علیہ وسلم سے ہم تک آیا ہے جس کی بنا پر یہ روایت منکر ہے

[/EXPAND]

[صحیح بخاری کے کون کون سے نسخے ہیں اور کون سا پرنٹ ہوتا ہے؟]

جواب

اصل نسخہ جو امام بخاری کا تھا وہ ان کے شاگردوں نے ان سے نقل کیا اس میں ان کے شاگرد الفربری کا نسخہ سب سے بہتر سمجھا جاتا ہے اس کے علاوہ ان کے شاگردوں إبراهيم بن مَعْقِل بن الحجاج النسفي المتوفی ٢٩٥ ھ اور نسوی المتوفی ٢٩٠ ھ اور بزدوی ٣٢٩ھ کا نسخہ بھی تھا
پھر ان کی سندیں چلتیں ہیں جو صغانی ، ابو ذر، أبو الهيثم محمد بن مكي بن محمد کشمیھنی المتوفی ٣٨٩ ھ ،أبو محمد عبد الله بن احمد بن حمُّويه حموی المتوفی ٣٨١ ھ ، مستملی المتوفی ٣٧٦ ھ سے ہیں

أَبُو مُحَمَّد الْحَمَوِيّ ،أَبُو إِسْحَاق الْمُسْتَمْلِي ، أَبُو الْهَيْثَم الْكشميهني تینوں إمام الفربری کے شاگرد ہیں
اور ابوذر ان تینوں کے شاگرد ہیں

کچھ نسخنے علاقوں کے اور لوگوں کے نام سے مشھور ہوے ان میں دو نسخے ہیں ایک البغدادية کہلاتا ہے اور دوسرا الیونینیہ کہلاتا ہے

انڈیا میں نور کشور سے چھپنے والا نسخہ البغدادیہ سے الگ ہے

وہ نسخہ ہے جو فتح الباری از ابن حجر میں ہے اس میں متن ابوذر عبد بن أحمد بن محمد بن عبد الله الهروي کی سند پر ہے اور یہ دیگر نسخوں سے تضاد بھی رکھتا ہے مثلا اس میں بسا اوقات ابن حجر کہتے ہیں کہ یہ بات اس میں نہیں لیکن الصغاني یا کشمیھنی کے نسخے میں ہے

أبي الوقت کی سند سے الصغاني کی سند سے الفربری تک جو نسخہ جاتا ہے اس کو البغدادية کہا جاتا ہے یہ اصلا رضي الدين الصغاني المتوفی ٦٥٠ ھ کا نسخہ ہے

الیونینیہ جو أبي الحسين اليونيني المتوفي ٧٠١ هجري کا نسخہ ہے اس کو عثمانی خلیفہ عبد المجید نے حکومتی سطح چھپوایا تھا اور یہ اصلا ایک اچھا جامع نسخہ ہے جس میں اس دور میں موجود پچھلے نسخون سے تصحیح کی گئی ہیں اور اب اس کو السلطانیہ کہا جاتا ہے
السلطانیہ میں الاصیلی، ابن عساکر ، ابی الوقت ،کشمھینی، حموی ، مستملی، کریمہ ، محمد بن محمد بن يوسف جرجانی المتوفی ٣٧٤ھ کے نسخہ جات سے تقابل کیا گیا ہے

القسطلاني نے اليونينيِّ کے نسخہ پر اعتماد کیا ہے

أنور الكشميري نے فیض الباری میں الصَّغانّي کا نسخہ لیا ہے

الكوثر الجاري إلى رياض أحاديث البخاري میں أحمد بن إسماعيل الكوراني الحنفي المتوفى 893 هـ نے فربری کا متن ابوذر کی سند سے لیا ہے

الصَّغانّي ، إبراهيم بن معقل النسفي اور حماد بن شاكر تین حنفی ہیں جو صحیح بخاری کی کتاب کے کاتب راوی ہیں – غیر مقلدین کو اپنے جھوٹے پروپگنڈے پر شرم انی چاہیے کہ احناف صحیح بخاری کے دشمن تھے اور اثر رسول کے خلاف تھے

عيني نے عمدہ القاری میں أبي الْوَقْت کی سند سے متن لیا ہے جو الفربری تک جاتی ہے

التعديل والتجريح میں الباجی نے ابوذر کی سند سے متن لیا ہے

یعنی جو چھپ رہا ہے اس کی کوئی ایک سند نہیں ہے آپ کو دیکھنا پڑتا ہے کیا سند ہے

[/EXPAND]

[صحیح بخاری  کو کیا اصح الکتاب بعد کتاب الله کہا جا سکتا ہے ؟]

جواب

راقم کو اس سے اختلاف ہے یہ کتاب شروع میں بہت سے محدثین کی نکتہ چینی کی نذر ہوئی مثلا بخاری کے ہم عصر محدثین نے بعض روایات کو ضعیف قرار دیا جبکہ امام بخاری نے ان کو صحیح سمجھتے ہوئے صحیح میں نقل کیا

امام کرابیسی المتوفی ٢٤٨ھ اور صحیح کی روایت کی تضعیف

صحیح بخاری کی بعض روایات ہم عصر محدثین کی نگاہ میں صحیح نہیں ہیں مثلا عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا والی روایت پر ابن تیمیہ کتاب منہاج السنہ میں لکھتے ہیں

مختصر منهاج السنة از ابن تیمیہ
فيقال: الذي في الصحيح: ((تقتل عمّار الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ)) وَطَائِفَةٌ مِنَ الْعُلَمَاءِ ضَعَّفُوا هَذَا الْحَدِيثَ، مِنْهُمُ الْحُسَيْنُ الْكَرَابِيسِيُّ وَغَيْرُهُ، وَنُقِلَ ذَلِكَ عَنْ أَحْمَدَ أَيْضًا.
صحیح میں ہے عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا – اور اہل علم کا ایک گروہ اس کی تضعیف کرتا ہے جس میں حسین کرابیسی ہیں اور دیگر ہیں ہے ایسا ہی امام احمد کے حوالے سے نقل کیا جاتا ہے

امام کرابیسی ، امام بخاری کے ہم عصر ہیں

امام ابی حاتم المتوفی ٢٧٧ ھ اور صحیح کی روایت کی تضعیف

العلل أز ابن أبي حاتم میں ہے کہ ابن ابی حاتم نے اپنے باپ سے سوال کیا

وسألتُ   أَبِي عَنْ حديثٍ رَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ   ، عَنْ حُمَيد   ، عَنْ أَنَسٍ، عن النبيِّ (ص) قَالَ: غَدْوَةٌ   فِي سَبيلِ اللهِ   أَوْ  رَوْحَةٌ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيها، وَلَوْ أنَّ امرَأةً مِنْ نِساءِ   أهلِ الجَنَّةِ اطَّلَعَتْ إلَى   الأَرضِ، لأَضَاءَتْ مَا بَيْنَهُمَا … الحديثَ؟ قَالَ أَبِي: حدَّثنا الأَنْصَارِيُّ   ، عَنْ حُمَيد، عَنْ أَنَسٍ، مَوْقُوفٌ قَالَ أَبِي: حديثُ حُمَيد فِيهِ مِثْلُ ذا كثيرٌ؛ واحدٌ عَنْهُ يُسنِدُ، وآخَرُ يُوقِفُ

میں نے باپ سے سوال کیا حدیث جس کو روایت کیا ہے مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ   ، عَنْ حُمَيد   ، عَنْ أَنَسٍ نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے کہ الله کی راہ میں سفر دنیا اور جو اس میں سے سے بہتر ہے اور   اگر جنت کی کوئی عورت زمین کی طرف جھانک بھی لے تو زمین و آسمان اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ منور ہو جائیں   …. حدیث؟ میرے باپ نے کہا    … یہ انس پر موقوف ہے اور کہا حمید کی اس طرح کی (غلطیوں کی) اور مثالیں (بھی) ہیں  اس (روایت) کا ایک  (حصہ)مسند ہے اور دوسرا موقوف ہے

 اسی طرح دوسرے مقام پر العلل میں ابن ابی حاتم کہتے ہیں

وسألتُ أَبِي عَنْ حديثٍ رَوَاهُ حُجَين اليَمَاميُّ ، عن عبد العزيز المَاجِشُونِ   ، عَنْ حُمَيدٍ الطَّوِيل   ، عَنْ أنس ابن مَالِكٍ؛ قَالَ: قَالَ رسولُ اللَّهِ (ص) : والَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ ، لَوِ اطَّلَعَتِ امْرَأَةٌ مِنْ نِسَاءِ الجَنَّةِ عَلَى أَهْلِ الأَرْضِ، لَأَضَاءَتْ مَا بَيْنَهُمَا، ولَمَلَأَتْ مَا بَيْنَهُمَا رِيحًا، ولَنَصِيفُهَا   عَلَى رَأْسِهَا خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا؟ قَالَ أَبِي: هَذَا خطأٌ؛ الصَّحيحُ: عَنْ أنسٍ، مَوْقُوفٌ

اور میں نے اپنے باپ سے سوال کیا حدیث حُجَين اليَمَاميُّ ، عن عبد العزيز المَاجِشُونِ   ، عَنْ حُمَيدٍ الطَّوِيل   ، عَنْ أنس ابن مَالِكٍ کی سند سے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اگر جنت کی کوئی عورت زمین کی طرف جھانک بھی لے تو زمین و آسمان اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ منور ہو ج اور خوشبو سے معطر ہو جائیں۔ اس کے سر کا دوپٹہ بھی دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے بڑھ کر ہے۔ میرے باپ نے کہا یہ غلطی ہے یہ انس پر موقوف ہے

امام بخاری  صحيح ميں روایت کرتے ہیں

 حدیث نمبر: 2796وَسَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ”لَرَوْحَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ غَدْوَةٌ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَقَابُ قَوْسِ أَحَدِكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ مَوْضِعُ قِيدٍ يَعْنِي سَوْطَهُ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْ أَنَّ امْرَأَةً مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ اطَّلَعَتْ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ لَأَضَاءَتْ مَا بَيْنَهُمَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَمَلَأَتْهُ رِيحًا وَلَنَصِيفُهَا عَلَى رَأْسِهَا خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا”

ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے معاویہ بن عمرو نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابواسحاق نے بیان کیا ‘ ان سے حمید نے بیان کیا  اور میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیان کرتے تھے کہ اللہ کے راستے میں ایک صبح یا ایک شام بھی گزار دینا دنیا اور جو کچھ اس میں ہے، سب سے بہتر ہے اور اگر جنت کی کوئی عورت زمین کی طرف جھانک بھی لے تو زمین و آسمان اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ منور ہو جائیں اور خوشبو سے معطر ہو جائیں۔ اس کے سر کا دوپٹہ بھی دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے بڑھ کر ہے

یعنی ابی حاتم کے نزدیک اس  روایت میں  ایک مسند اور ایک موقوف روایت مل گئی ہے ایک نبی صلی الله علیہ وسلم کا قول ہے دوسرا انس کا

ابن ابی حاتم کتاب الجرح و التعدیل میں لکھتے ہیں کہ میرے باپ اور امام ابو زرعہ نے امام بخاری کی روایات ترک کر دیں ان کے خلق القرآن کے مسئلہ میں عقیدے کی بنا پر

سمع منه أبي وأبو زرعة ثم تركا حديثه عندما كتب اليهما محمد ابن يحيى النيسابوري انه اظهر عندهم ان لفظه بالقرآن مخلوق.

إن سے میرے باپ اور ابو زرعہ المتوفی ٢٧٤ ھ نے سنا پھر ترک کیا جب امام الذھلی نے لکھا کہ یہ ان پر امام بخاری کا لفظه بالقرآن مخلوق (کا عقیدہ) ظاہر ہوا

کتاب   المعلم بشيوخ البخاري ومسلم  از  أبو بكر محمد بن إسماعيل بن خلفون (المتوفى 636 هـ) کے مطابق

وقال أبو الفضل صالح بن أحمد بن محمد الحافظ: لما وافى محمد بن إسماعيل البخاري صاحب الجامع المعروف بالصحيح إلى الري قصد أبا زرعة عبيد الله ابن عبد الكريم بن فروخ وأبا حاتم محمد بن إدريس وكانا إمامي المسلمين في وقتهما وزمانهما والمرجوع إليهما في الحديث وعلم ما اختلف فيه الرواة، فاحتجبا عنه فعاود ولم يأذنا له بالدخول عليهما، فعاود أبا زرعة فأبى وشدد في ذلك وقال: لا أحب أن أراه ولا يراني، فبلغ بعض العلماء أن أبا زرعة منع محمد بن إسماعيل أن يدخل عليه، وتحدث الناس بذلك فقصد أبا زرعة وسأله عن ذلك وذكر الحديث.

أبو الفضل صالح بن أحمد بن محمد الحافظ کہتے ہیں کہ جب امام بخاری صاحب جامع المعروف الصحیح نے الری کا قصد کیا کہ امام ابوزرعہ اور ابی حاتم سے ملیں جو مسلمانوں کے اپنے زمانے کے امام تھے اور حدیث میں ان کی طرف رجوع کیا جاتا تھا اور ان کو راویوں کے اختلاف کا علم تھا تو یہ دونوں ، امام بخاری سے چھپ گئے اور امام بخاری کا اپنے پاس داخلہ بند کر دیا  اور ابو زرعہ….. نے کہا مجھے پسند نہیں کہ اس کو دیکھوں یا یہ (بخاری) مجھے- پس یہ بات علماء تک پہنچی کہ امام ابو زرعہ امام بخاری کو منع کرتے ہیں کہ وہ داخل ہوں

إسی کتاب کے مطابق

وروى البخاري أيضًا عن محمد غير منسوب عنه في كتاب المحصر، في باب: إذا أحصر المعتمر.
واختلف في محمد هذا فقيل: هو محمد بن يحيى الذهلي النيسابوري قاله: أبو عبد الله الحاكم. …  وقيل: هو محمد بن إدريس أبو حاتم الرازي، قاله: أبو نصر الكلاباذي

اور امام بخاری ایک محمد غیر منسوب سے بھی روایت کرتے ہیں … اس میں اختلاف ہے کہ یہ کون ہے کہا جاتا ہے الذھلی ہیں یہ امام حاکم کہتے ہیں اور کہا جاتا ہے ابی حاتم ہیں یہ کلابازی کا قول ہے

یعنی شیخ کا  نام  امام بخاری نے چھپایا ہے

امام الفسوی المتوفی ٢٧٧ ھ  اور صحیح کی روایت کی تضعیف

صحيح بخاري كي بعض روایات  امام بخاری کے ہم عصر محدثین کی نگاہ میں صحیح نہیں تھیں کی ایک اور  مثال ہے کہ کتاب  المعرفة والتاريخ از يعقوب بن سفيان بن جوان الفارسي الفسوي، أبو يوسف (المتوفى: 277هـ)  ایک راوی   زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ پر کہتے ہیں

قَالَ أَبُو يُوسُفَ: وَمِنْ خَلَلِ رِوَايَةِ زَيْدٍ ما حدثنا به عمر بن حفص ابن غِيَاثٍ حَدَّثَنَا أَبِي ثنا الْأَعْمَشُ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ حَدَّثَنَا- وَاللَّهِ- أَبُو ذَرٍّ بِالرَّبْذَةِ قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْشِي فِي حَرَّةِ الْمَدِينَةِ عِشَاءً فَلَمَّا اسْتَقْبَلَنَا أُحُدٌ فَقَالَ: يَا أَبَا ذَرٍّ مَا أحب أن أحدا ذلك لي ذهبا يَأْتِي عَلَيْهِ لَيْلَةٌ وَعِنْدِي مِنْهُ دِينَارٌ إِلَّا دِينَارًا أَرْصُدُهُ لِدَيْنٍ إِلَّا أَنْ أَقُولَ بِهِ فِي عِبَادِ اللَّهِ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا- وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ-، ثُمَّ قَالَ: يَا أَبَا ذَرٍّ. قُلْتُ: لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ: إِنَّ الْأَكْثَرِينَ هُمُ الْأَقَلُّونَ إِلَّا مَنْ قَالَ بِالْمَالِ هَكَذَا وَهَكَذَا، ثُمَّ قَالَ: مَكَانَكَ لَا تَبْرَحْ حَتَّى أَرْجِعَ إِلَيْكَ. وَانْطَلَقَ حَتَّى غَابَ عَنِّي فَسَمِعْتُ صَوْتًا فَتَخَوَّفْتُ أَنْ يَكُونَ قَدْ عَرَضَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَذْهَبَ، ثُمَّ تَذَكَّرْتُ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «لَا تَبْرَحْ» فَمَكَثْتُ، فَأَقْبَلَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ سَمِعْتُ صَوْتًا فَخَشِيتُ أَنْ يَكُونَ عَرَضَ لَكَ، فَأَرَدْتُ أَنْ آتِيَكَ، ذَكَرْتُ قَوْلَكَ «لَا تَبْرَحْ» فَقُمْتُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ذَلِكَ جِبْرِيلُ أَتَانِي فَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِي لَا يُشْرِكْ باللَّه شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ؟ قَالَ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ. قَالَ الْأَعْمَشُ: قُلْتُ لِزَيْدِ بْنِ وَهْبٍ: بَلَغَنِي أَنَّهُ أَبُو الدَّرْدَاءِ. قَالَ: أَشْهَدُ لَحَدَّثَنِيهِ أَبُو ذَرٍّ بِالرَّبْذَةِ.

الفسوي کہتے ہیں کہ زید بن وھب کی خلل زدہ روایات میں سے ہے جو ہم سے عمر بن حفص ابن غِيَاثٍ اپنے باپ سے  انہوں نے الْأَعْمَشُ سے انہوں نے  زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ سے روایت کیا ہے

صحيح بخاري کي روايت اسي سند سے ہے

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا وَاللَّهِ أَبُو ذَرٍّ، بِالرَّبَذَةِ قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرَّةِ المَدِينَةِ عِشَاءً، اسْتَقْبَلَنَا أُحُدٌ، فَقَالَ: «يَا أَبَا ذَرٍّ، مَا أُحِبُّ أَنَّ أُحُدًا لِي ذَهَبًا، يَأْتِي عَلَيَّ لَيْلَةٌ أَوْ ثَلاَثٌ، عِنْدِي مِنْهُ دِينَارٌ إِلَّا أَرْصُدُهُ لِدَيْنٍ، إِلَّا أَنْ أَقُولَ بِهِ فِي عِبَادِ اللَّهِ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا» وَأَرَانَا بِيَدِهِ، ثُمَّ قَالَ: «يَا أَبَا ذَرٍّ» قُلْتُ: لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «الأَكْثَرُونَ هُمُ الأَقَلُّونَ، إِلَّا مَنْ قَالَ هَكَذَا وَهَكَذَا» ثُمَّ قَالَ لِي: «مَكَانَكَ لاَ تَبْرَحْ يَا أَبَا ذَرٍّ حَتَّى أَرْجِعَ» فَانْطَلَقَ حَتَّى غَابَ عَنِّي، فَسَمِعْتُ صَوْتًا، فَخَشِيتُ أَنْ يَكُونَ عُرِضَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَذْهَبَ، ثُمَّ ذَكَرْتُ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَبْرَحْ» فَمَكُثْتُ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، سَمِعْتُ صَوْتًا، خَشِيتُ أَنْ يَكُونَ عُرِضَ لَكَ، ثُمَّ ذَكَرْتُ قَوْلَكَ فَقُمْتُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ذَاكَ جِبْرِيلُ، أَتَانِي فَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِي لاَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الجَنَّةَ» قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ، قَالَ [ص:61]: «وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ» قُلْتُ لِزَيْدٍ: إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّهُ أَبُو الدَّرْدَاءِ، فَقَالَ: أَشْهَدُ لَحَدَّثَنِيهِ أَبُو ذَرٍّ بِالرَّبَذَةِ. قَالَ الأَعْمَشُ، وَحَدَّثَنِي أَبُو صَالِحٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، نَحْوَهُ، وَقَالَ أَبُو شِهَابٍ، عَنِ الأَعْمَشِ: «يَمْكُثُ عِنْدِي فَوْقَ ثَلاَثٍ»

ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا ہم سے زید بن وہب نے بیان کیا (کہا کہ) واللہ ہم سے ابوذر رضی اللہ عنہ نے مقام ربذہ میں بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رات کے وقت مدینہ منورہ کی کالی پتھروں والی زمین پر چل رہا تھا کہ احد پہاڑ دکھائی دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابوذر! مجھے پسند نہیں کہ اگر احد پہاڑ کے برابر بھی میرے پاس سونا ہو اور مجھ پر ایک رات بھی اس طرح گزر جائے یا تین رات کہ اس میں سے ایک دینار بھی میرے پاس باقی بچے۔ سوائے اس کے جو میں قرض کی ادائیگی کے لیے محفوظ رکھ لوں میں اس سارے سونے کو اللہ کی مخلوق میں اس اس طرح تقسیم کر دوں گا۔ ابوذر رضی اللہ عنہ نے اس کی کیفیت ہمیں اپنے ہاتھ سے لپ بھر کر دکھائی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابوذر! میں نے عرض کیا «لبيك وسعديك‏.‏» یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زیادہ جمع کرنے والے ہی (ثواب کی حیثیت سے) کم حاصل کرنے والے ہوں گے۔ سوائے اس کے جو اللہ کے بندوں پر مال اس اس طرح یعنی کثرت کے ساتھ خرچ کرے۔ پھر فرمایا یہیں ٹھہرے رہو ابوذر! یہاں سے اس وقت تک نہ ہٹنا جب تک میں واپس نہ آ جاؤں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے اور نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ اس کے بعد میں نے آواز سنی اور مجھے خطرہ ہوا کہ کہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی پریشانی نہ پیش آ گئی ہو۔ اس لیے میں نے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کے لیے) جانا چاہا لیکن فوراً ہی نبی آئے اور کہا یہ جبریل تھے آئے اور خبر دی کہ میری امت میں جو شرک نہ کرتا ہو جنت میں جائے گا میں نے کہا یا رسول اللہ چاہے زنا کرے اور چوری؟ فرمایا : چاہے زنا کرے اور چوری

امام الفسوي کے نزدیک یہ روایت خلل زدہ ہے اور اس میں غلطی زید بن وھب کی ہے –اسی سند  اور متن سے امام بخاری نے اس کو لکھا ہے

بخاری میں الضعفاء سے بھی روایت لی گئی ہے اس پر علماء نے اصول اور شواہد اور متابعت وغیرہ کی آصطلاحات استمعال کی ہیں – امام بخاری سے ان کے ہم عصر تمام اہل علم کا اتفاق نہیں تھا اس کی مثال یہ ہے کہ الصحیح میں منکر الحدیث راویوں سے روایت لی گئی ہے جن پر یہ حکم دوسرے محدث لگاتے ہیں مثلا

مُحَمَّد بن عبد الرَّحْمَن أَبُو الْمُنْذر الطفَاوِي الْبَصْرِيّ پر منکر الحدیث کا حکم أَبُو زرْعَة الرَّازِيّ لگاتے ہیں
مُحَمَّد بن كثير أَبُو عبد الله الْعَبْدي الْبَصْرِيّ پر منکر الحدیث کا حکم عَليّ بن الْحُسَيْن بن الْجُنَيْد لگاتے ہیں
حسان أَبُو عَليّ الْبَصْرِيّ پر أَبُو حَاتِم الرَّازِيّ نے منکر الحدیث کا حکم لگایا ہے
أسيد بن زيد أَبُو يحيى بر نسائی متروک الحدیث کا فتوی دیتے ہیں

یہ چاروں صحیح بخاری کے راوی ہیں اور منکر الحدیث ایک انتہائی سخت جرح ہے – جن پر دیگر محدثین کی جانب سے ضعیف کو فتوی لگا ہے وہ تو تعداد میں بہت ہیں

 صحیح بخاری کی بعض روایات  امام بخاری کے ہم عصر محدثین کی نظر میں صحیح نہیں لہذا یہ دعوی کہ صحیح بخاری پر امام بخاری کے دور میں ہی اجماع ہو گیا تھا دعوی بلا دلیل ہے  – کہا جاتا ہے کہ ابن حجر نے کہا ہے کہ امام بخاری نے اس کتاب کو محدثین پر پیش کیا آور انہوں نے پسند کیا

لما صنف البخاری کتاب الصحیح عرضہ علی ابن المدینی و أحمد بن حنبل و یحی بن معین و غیرھم فاستحسنوہ و شھدوا لہ بالصحة الا أربعة أحادیث۔(ھدی الساری مقدمہ فتح الباری
جب امام بخاری نے کتاب الصحیح کی تصنیف کی تو اس کو علی المدینی پر امام احمد پر امام ابن معین پر اور دیگر پر پیش کیا اور انہوں نے تحسین کی اور گواہی دی کہ کتاب کی صحت صحیح ہے الا چار روایات کے

یہ قول امام أَبُو جَعْفَر الْعقيلِيّ کے حوالے سے ابن حجر نے لکھا ہے لیکن اس کی سند نہیں دی ظاہر ہے اس قسم کے بے سند اقوال سے یہ قول ثابت نہیں ہو سکتا – امام علی کی وفات امام الذھلی سے پہلے ہوئی- امام بخاری نے الذھلی کا نام صحیح میں چھپایا ہے لہذا یہ امام علی پر تو پیش ہی نہیں ہوئی -امام الزھلی سے امام بخاری کا اختلاف سن ٢٥٠ ہجری میں ہوا اس سے قبل ان دونوں کے اچھے تعلقات تھے ظاہر ہے سن ٢٥٠ ھ کے بعد ہی امام بخاری نے امام الذھلی کے نام کو صحیح میں چھپانا شروع کیا ہے

اسی طرح  کہا جاتا ہے کہ امام نسائی فرماتے ہیں :
اجتمعت الامۃ علی صحۃ ھذین الکتابین
بخاری و مسلم کی صحت پر امت کا اجماع ہے۔
حوالہ : نصرۃ الباری

نسائی ٣٠٣ میں شہید ہوئے امام ابو زرعہ بھی اسی دور کے ہیں جس سے ظاہر ہے امت کا اجماع نہ تھا

امام أبو إسحق الإسفراييني المتوفی ٤١٨ ھ پہلے شخص ہیں جنہوں نے صحیح بخاری  کے  صحیح ہونے پر أهل الصنعة  کا  اجماع کا دعوی کیا-

أهل الصنعة مجمعون على أن الأخبار التي اشتمل عليها ” الصحيحان ” مقطوع بصحة أصولها ومتونها ، ولا يحصل الخلاف فيها بحال ، وإن حصل فذاك اختلاف في طرقها ورواتها . قال: فمن خالف حكمه خبرا منها وليس له تأويل سائغ للخبر نقضنا حكمه؛ لأن هذه الأخبار تلقتها الأمة بالقبول

یعنی پانچویں صدی ہجری میں  یہ اجماع اہل فن کا تھا کہ اس صنف میں سب سے بہتر کتاب صحیح بخاری ہےاس کو اصح الکتاب بعد کتاب الله نہیں کہا گیا تھا-  امداد زمانہ کے ساتھ اہل سنت میں غلو کی اصطلاح  (اصح الکتاب بعد کتاب الله) مشھور ہوئی

پانچویں صدی کے ابو عبد الله الحَمِيدي   (المتوفى: 488هـ) نے کتاب الجمع بين الصحيحين البخاري ومسلم میں لکھا

وَلم نجد من الْأَئِمَّة الماضين – رَضِي الله عَنْهُم أَجْمَعِينَ – من أفْصح لنا فِي جَمِيع مَا جمعه بِالصِّحَّةِ إِلَّا هذَيْن الْإِمَامَيْنِ، وَإِن كَانَ من سواهُمَا من الْأَئِمَّة قد أفْصح بالتصحيح فِي بعض، فقد علل فِي بعض، فَوَجَبَ البدار إِلَى الِاشْتِغَال بالمجموع الْمَشْهُور على صِحَة جَمِيعه

ہم نے پچھلے ائمہ رَضِي الله عَنْهُم أَجْمَعِينَ میں سے، امام بخاری و امام مسلم  کے علاوہ کسی ایک کو بھی ایسا نہیں پایا کہ جس نے یہ وضاحت کی ہو کہ ان کی تمام جمع کردہ روایات صحیح ہیں سوائے ان دو اماموں کے اور ان کے دو کے سوا دیگر نے بعض نے وضاحت کی ہے کہ ان میں روایات صحیح ہیں اور بعض نے ان میں علت کا ذکر کیا ہے پس جلد بازی سے  یہ  واجب (ممکن) ہوا  کہ (ان) مشھور مجموعات (صحیح بخاری و مسلم) کی صحت پر(علماء) جمع ہوں ان میں مشغول  ہوں  

حمیدی کے قریب دو سو سال بعد  أبوعمرو تقي الدين المعروف بابن الصلاح (المتوفى: 643 ھ) اپنی کتاب معرفة أنواع علوم الحديث میں لکھا
وكتاباهما أصح الكتب بعد كتاب الله العزيز
ان دو کی کتابیں (صحیح بخاری و صحیح مسلم ) كتاب الله العزيز کے بعد سب سے زیادہ صحیح ہیں

لہذا صحیح البخاری ایک کتاب ہے اس کی اپنی اہمیت ہے اور یہ امام بخاری کا اجتہاد ہے کہ یہ روایات صحیح کی تعریف پر اترتی ہیں کہ راوی حافظ و ضابط ہیں اور سند “اغلبا” متصل ہے اور ان پر جرح “اتنی” نہیں کہ ان کی ہر بات رد کی جائے لہذا اس میں مدلسین کی روایات بھی ہیں اور ایسے رآویوں کی روایات بھی ہیں جن پر جرح ہے

 راقم کے نزدیک امام بخاری  کی الجامع الصحيح کو  أصح الكتب المصنفة في الحديث النبوي کہنا چاہیے کہ حدیث نبوی کی صنف میں اس سے اصح کتاب نہیں ہے – اس کا تقابل کتاب الله سے کرنا غلو ہے

[/EXPAND]

[امام الذھلی اور امام بخاری کا مناقشہ کب اور کس بات پر ہوا؟ ]

جواب

امام الذھلی اور امام بخاری کا مناقشہ ہوا تھا جس پر واتقوا الله میں لکھا گیا تھا

الزھلی

[/EXPAND]

[امام البخاری نے صحیح میں چار فقہاء میں سے کس کس سے روایت لی ہے ؟]

جواب

چار فقہاء یعنی امام مالک، امام الشافعی ، امام ابو حنیفہ اور امام احمد بن حنبل میں سے  امام بخاری نے سب سے زیادہ امام مالک  کی سند سے روایت نقل کی ہیں – امام الشافعی ، امام ابو حنیفہ سے کوئی روایت نہیں لی – اور امام احمد سے صرف ایک روایت سندا نقل کی ہے

امام بخاری جب ان  فقہاء سے اختلاف کرتے ہیں تو قال بعض الناس کے الفاظ استمعال کرتے ہیں

کتاب سیر الاعلام النبلاء میں الذھبی لکھتے ہیں

فَتَرْكُ البُخَارِيِّ الاحْتِجَاجَ بِالشَّافِعِيِّ، إِنَّمَا هُوَ لاَ لِمَعْنَى يُوْجِبُ ضَعْفَهُ، لَكِن غَنِيَ عَنْهُ بِمَا هُوَ أَعْلَى مِنْهُ، إِذْ أَقدَمُ شُيُوْخِ الشَّافِعِيِّ: مَالِكٌ، وَالدَّرَاوَرْدِيُّ، وَدَاوُدُ العَطَّارُ، وَابْنُ عُيَيْنَةَ، وَالبُخَارِيُّ لَمْ يُدْرِكِ الشَّافِعِيَّ

پس بخاری نے ترک کیا امام شافعی سے دلیل لینا اس لئے نہیں کہ وہ ضعیف ہیں لیکن ان سے بے پرواہ ہوئے کیونکہ حدیث کے  لئے  ان کو امام شافعی سے  اعلی (راوی) ملے  جب وہ شیوخ شافعی کو آگے رکھتے ہیں جیسے امام مالک اور الدَّرَاوَرْدِيُّ   اور دَاوُدُ العَطَّارُ، امام ابْنُ عُيَيْنَةَ اور امام  بخاری نے امام شافعی کو نہ پایا

امام بخاری نے امام شافعی کے شاگرد ربیع سے بھی کوئی روایت نہیں لی

[/EXPAND]

[صحیح مسلم کی تخلیق کائنات سے متعلق روایت پر سوال ہے]

حَدَّثَنِي سُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ أُمَيَّةَ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ رَافِعٍ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: أَخَذَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِي فَقَالَ: «خَلَقَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ التُّرْبَةَ يَوْمَ السَّبْتِ، وَخَلَقَ فِيهَا الْجِبَالَ يَوْمَ الْأَحَدِ، وَخَلَقَ الشَّجَرَ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ، وَخَلَقَ الْمَكْرُوهَ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ، وَخَلَقَ النُّورَ يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ، وَبَثَّ فِيهَا الدَّوَابَّ يَوْمَ الْخَمِيسِ، وَخَلَقَ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ بَعْدَ الْعَصْرِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ، فِي آخِرِ الْخَلْقِ، فِي آخِرِ سَاعَةٍ مِنْ سَاعَاتِ الْجُمُعَةِ، فِيمَا بَيْنَ الْعَصْرِ إِلَى اللَّيْلِ»، قَالَ إِبْرَاهِيمُ: حَدَّثَنَا الْبِسْطَامِيُّ وَهُوَ الْحُسَيْنُ بْنُ عِيسَى، وَسَهْلُ بْنُ عَمَّارٍ، وَإِبْرَاهِيمُ ابْنُ بِنْتِ حَفْصٍ وَغَيْرُهُمْ، عَنْ حَجَّاجٍ بِهَذَا الْحَدِيثِ

عَبْدِ اللهِ بْنِ رَافِعٍ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ  صحابی ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا الله تعالی نے

مٹی کو ہفتہ کے دن خلق کیا

اور اس میں پہاڑوں کو اتوار کو

اور درختوں کو پیر کو

اور مکروہات کو منگل کو

اور نور کو بدھ کو

اور اس میں جانور پھیلائے جمعرات کو

اور آدم کو عصر و رات کے درمیان کے بعد بروز جمعہ  آخری ساعت میں خلق کیا

جواب

اس کی تمام اسناد میں ایوب بن خالد اور عَبْدِ اللهِ بْنِ رَافِعٍ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ  کا تفرد ہے

ابن تیمیہ فتاوی ج 17 س  236 پر کہتے ہیں

 وأم الحديث الذي رواه مسلم في قوله (( خلق الله التربة يوم السبت )) فهو حديث معلول، قدح فيه أئمة الحديث كالبخاري وغيره، قال البخاري: الصحيح أنه موقوف على كعب. وقد ذكر تعليله البيهقي أيضا، وبينوا أنه غلط ليس مما رواه أبو هريرة عن النبي – صلى الله عليه وسلم – وهو مما أنكر الحذاق على مسلم إخراجه إياه  كَمَا أَنْكَرُوا عَلَيْهِ إخْرَاجَ أَشْيَاءَ يَسِيرَةٍ

اور جہاں تک حدیث کا تعلق ہے جو امام مسلم نے روایت کی ہے کہ خلق الله التربة يوم السبت تو وہ حدیث معلول ہے اس پر ائمہ کی جرح ہے جسے امام بخاری کی اور دیگر کی اور بخاری نے  کہا صحیح یہ ہے کہ یہ کعب کا قول ہے موقوف ہے اور اس کا ذکر تعلیقا بیہقی نے کیا ہے اور وضاحت کی ہے کہ یہ غلط ہے جو ابو ہریرہ نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا ہے اور اس  کو روایت کرنے سے امام مسلم کی صلاحیت و قابلیت کا انکار ہویا ہے جیسا کہ ان کا انکار کیا گیا ہے کچھ چیزوں کی تخریج پر

ابن کثیر تفسیر ج ١ ص ٩٩ میں کہتے ہیں

هذا الحديث من غرائب صحيح مسلم، وقد تكلم عليه ابن المديني والبخاري وغير واحد من الحفاظ، وجعلوه من كلام كعب الأحبار، وأن أبا هريرة إنما سمعه من كلام كعب الأحبار

اوریہ حدیث صحیح مسلم کے غرائب میں سے ہے اور اس پر کلام کیا ہے امام علی المدینی نے بخاری نے اور ایک سے زیادہ حفاظ نے اور اس کو کعب الاحبار کا کلام بنا دیا ہے اور ابو ہریرہ نے اسکو کعب سے سنا ہے

بخاری کے مطابق اسکی سند میں أيوب بن خالد بن أبي أيوب الأنصاري ہے  اور یہ کعب الاحبار کا قول ہے-  امام بخاری کا  یہ دعوی کہ یہ  کعب الاحبار کا قول ہے  بلا دلیل ہے پہلے اس کو کوئی سند پیش کی جاتی اور پھر یہ دعوی کیا جائے تو قابل قبول ہے- کعب الاحبار توریت کے عالم تھے اور اس میں تخلیق کے مراحل روایت سے الگ ہیں

 إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از  مغلطاي کے مطابق اس کی سند میں ہے

أيوب بن خالد بن صفوان – يعني الذي روى له من عند مسلم:  خلق الله التربة يوم السبت

مغلطاي  کہتے ہیں راوی کے حوالے سے  وإن كنا نحاجج البخاري في ذلك اور ہم امام بخاری سے اس پر اختلاف کرتے ہیں

تہذیب الکمال میں المزي کی  اور تاريخ الإسلام میں الذھبی کی  بھی یہی رائے ہے کہ اس کی سند میں  أَيُّوب بن خَالِد بن صفوان بن أوس بن جَابِر بن قرط  میں ہے

ابن حجر تہذیب التہذیب میں کہتے ہیں  الأزدي نے اس پر کہا ہے

أيوب بن خالد ليس حديثه بذاك، تكلم فيه أهل العلم بالحديث، وكان يحيى بن سعيد ونظراؤه لا يكتبون حديثه

أيوب بن خالد حدیث میں کوئی ایسا مناسب نہیں ہے اس پر اہل علم حدیث کا کلام ہے اور یحیی بن سعید اور ان کے جیسے اس کی حدیث نہیں لکھتے

البیہقی کتاب الاسماء و الصفات میں کہتے ہیں

وَزَعَمَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ بِالْحَدِيثِ أَنَّهُ غَيْرُ مَحْفُوظٍ لِمُخَالَفَتِهِ مَا عَلَيْهِ أَهْلُ التَّفْسِيرِ وَأَهْلُ التَّوَارِيخِ

اور بعض اہل علم حدیث کا دعوی ہے کہ یہ حدیث غیر محفوظ ہے مخالفت کرنے پر جو اہل تفسیر اور اہل تواریخ کے پاس ہے

الذھبی العلو میں اس کی ایک دوسری سند دیتے ہیں

قال النسائي في تفسير السجدة: حدثنا إبراهيم بن يعقوب: حدثني محمد بن الصبَّاح: حدثنا أبو عبيدة الحداد: حدثنا أخضر بن عجلان عن ابن جريح عن عطاء عن أبي هريرة: أن النبي – صلى الله عليه وآله وسلم – أخذ بيدي فقال: «يا أبا هريرة إن الله خلق السموات والأرضين وما بينهما في ستة أيام، ثم استوى على العرش يوم السابع، وخلق التربة يوم السبت، والجبال يوم الأحد، والشجر يوم الإثنين، والشر يوم الثلاثاء، والنور يوم الأربعاء والدواب يوم الخميس، وآدم يوم الجمعة في آخر ساعة من النهار بعد العصر، خلقه من أديم الأرض بأحمرها وأسودها وطيبها وخبيثها، من أجل ذلك جعل الله من آدم الطيب والخبيث

یہاں اسکی سند میں ابن جریج ہیں جو مدلس ہیں اور عن سے روایت کر رہے ہیں اور  أخضر بن عجلان ہے جس کو ابن معین اور نسائی ثقہ کہتے ہیں اور الأزدي ضعیف کہتے ہیں

البانی اس روایت کو صحیح کہتے ہیں ( موسوعة العلامة الإمام مجدد العصر محمد ناصر الدين الألباني) اور اس کا بھر پور دفاع کرتے ہیں اور کہتے ہیں

 أن الأيام السبعة في الحديث هي غير الأيام الستة في القرآن

اس روایت میں جو سات دن ہیں وہ قرآن کے چھ دنوں سے الگ ہیں

البانی اپنے پروگرام “الهدى والنور” (259/ 54: 23: 00) میں اس حدیث کا جواب دیتے ہیں

لأن هذا الحديث فقط يتحدث عما خلق الله عز وجل وأوجد من مخلوقات وتصرفات جديدة في الأرض فقط

اس حدیث میں صرف یہ بیان ہوا کہ الله تعالی نے کس کو خلق کیا اور مخلوقات کو ایجاد کیا اور نیے تصرفات فقط اس زمین پر کیے

اب ہم اس روایت کا تقابل قرآن سے کرتے ہیں

ایام قرآن

 

روایت
پہلا دو دن میں زمین اور اس کے پہاڑ  سوره فصلت ٩ سے ١٠

(یعنی مٹی اور پہاڑ)

مٹی کو ہفتہ کے دن خلق کیا
دوسرا اور اس میں پہاڑوں کو اتوار کو
تیسرا

اگلے چار دن میں زمین کا سب سامان معیشت  سوره فصلت ١٠

دو دن میں سات آسمان بنائے  سوره فصلت  ١١

(یعنی افلاک اور زمینی نباتات جو سورج پر منحصر ہیں یہ سب ملا کر چار دن میں بنے)

اور درختوں کو پیر کو
چوتھا اور مکروہات کو منگل کو
پانچواں اور نور کو بدھ کو
چھٹا

 

اور اس میں جانور پھیلائے جمعرات کو
ساتواں اور آدم کو عصر و رات کے درمیان کے بعد بروز جمعہ  آخری ساعت میں خلق کیا

اس تقابل سے ظاہر ہوتا ہے کہ البانی کی رائے صحیح ہے روایت خلاف قرآن نہیں ہے

قرآن کے مطابق پہلے دو دنوں میں زمین اور پہاڑ بنے یہی روایت میں ہے کہ مٹی اور پہاڑ بنے

اگلے چار دن میں سات آسمان اور زمین سب سامان معیشت بنائی گئیں ایسا ہی روایت میں ہے

اس طرح ٦ دنوں میں زمین و آسمان خلق ہوئے قرآن میں تخلیق آدم کو ان ٦ دنوں میں شمار نہیں کیا گیا

[/EXPAND]

[صحیح مسلم  پر کیا اعتراضات ہوئے ہیں؟]

جواب

امام مسلم نے صحیح میں  ایک مقام پر کہا ہے

قَالَ لَيْسَ کُلُّ شَيْئٍ عِنْدِي صَحِيحٍ وَضَعْتُهُ هَا هُنَا إِنَّمَا وَضَعْتُ هَا هُنَا مَا أَجْمَعُوا عَلَيْهِ

میں نے اس کتاب میں ہر اس حدیث کو نقل کیا جو میرے نزدیک صحیح ہو بلکہ اس میں نے ان احادیث کو بھی نقل کیا ہے جس کی صحت پر سب کا اجماع ہو۔

یعنی بعض احادیث امام مسلم کی اپنی شرط پر نہیں بلکہ دوسروں کے صحیح سمجھنے کی بنا پر لکھی ہیں

البلقيني  کہتے ہیں ( محاسن الاصطلاح (ص:91)میں) اس میں ائمہ سے مراد  يحيى بن معين، وأحمد بن حنبل، وعثمان بن أبي شيبة، وسعيد بن منصور ہیں

الميانجي  کہتے ہیں (ما لا يسع المحدث جهله (ص:27)) اس سے مراد ہیں  مالك، والثوري، وشعبة، وأحمد بن حنبل، وغيرهم ہیں

کتاب صيانة صحيح مسلم  میں  ابن الصلاح (المتوفى: 643هـ) کہتے ہیں امام مسلم نے جو یہ کہہ دیا ہے

قد اشْتَمَل كِتَابه على أَحَادِيث اخْتلفُوا فِي إسنادها أَو متنها عَن هَذَا الشَّرْط لصحتها عِنْده وَفِي ذَلِك ذُهُول مِنْهُ رحمنا الله

بلا شبہ انہوں نے اپنی کتاب میں احادیث شامل کر دیں جن کی اسناد یا متن میں اختلاف تھا اپنی صحت کی شرط کے مطابق  اور یہ الله رحم کرے انکی بد احتیاطی ہے

کہ امام مسلم نے اپنی کتاب میں احادیث شامل کیں جن کی اسناد میں اختلاف تھا یا متن میں ان کی اپنی شرط کے مطابق جو صحت تک جاتیں تو یہ امام مسلم کا ذھول (بد احتیاطی) ہے الله رحم کرے

ابن الصلاح  اسی کتاب میں اس کو ایک بہت مشکل بات کہتے ہیں

وَهَذَا مُشكل جدا فَإِنَّهُ قد وضع فِيهِ أَحَادِيث قد اخْتلفُوا فِي صِحَّتهَا لكَونهَا من حَدِيث من ذَكرْنَاهُ وَمن لم تذكره مِمَّن اخْتلفُوا فِي صِحَة حَدِيثه وَلم يجمعوا عَلَيْهِ

یہ بہت مشکل ہے کہ امام مسلم نے احادیث اس میں لیں جن کی صحت پر اختلاف تھا … اور ان پر اجماع نہ تھا

یعنی  امام مسلم خود اس کتاب کو صحیح کہتے ہیں لیکن اپنی شرط پر نہیں دوسرووں کی شرط پر جن کا نام بھی انہوں نے  نہیں لیااور یہ دعوی کہ جن احادیث کی صحت و قبولیت پر ائمہ محدثین کا اجماع تھا ان کو انہوں نے نقل کیا پھر اختلاف شدہ کو بھی ملا دیا تو یہ امام مسلم کی بد احتیاطی ہے

امام ابی حاتم امام مسلم کو ثقہ کی بجائے صدوق کہا کرتے

 أبا حاتم قال: مسلم بن الحجاج صدوق

الجرح والتعديل از ابن ابی حاتم

ابن ابی حاتم کہتے ہیں

 وإذا قيل له إنه صدوق أو محله الصدق أو لا بأس به: فهو ممن يكتب حديثه وينظر فيه

اگر کسی کو صدوق یا محلہ صدق کہا جائے  یا اس میں برائی نہیں تو یہ وہ ہے جس کی حدیث لکھ لی  جائے اور دیکھی جائے

واضح ہو کہ صدوق ثقاہت کا سب سے ادنی درجہ ہے

امام مسلم صحیح کے مقدمہ میں اپنا منہج لکھتے ہیں

فَأَمَّا الْقِسْمُ الْأَوَّلُ، فَإِنَّا نَتَوَخَّى أَنْ نُقَدِّمَ الْأَخْبَارَ الَّتِي هِيَ أَسْلَمُ مِنَ الْعُيُوبِ مِنْ غَيْرِهَا، وَأَنْقَى مِنْ أَنْ يَكُونَ نَاقِلُوهَا أَهْلَ اسْتِقَامَةٍ فِي الْحَدِيثِ، وَإِتْقَانٍ لِمَا نَقَلُوا، لَمْ يُوجَدْ فِي رِوَايَتِهِمْ اخْتِلَافٌ شَدِيدٌ، وَلَا تَخْلِيطٌ فَاحِشٌ، كَمَا قَدْ عُثِرَ فِيهِ عَلَى كَثِيرٍ مِنَ الْمُحَدِّثِينَ، وَبَانَ ذَلِكَ فِي حَدِيثِهِمْ  فَإِذَا نَحْنُ تَقَصَّيْنَا أَخْبَارَ هَذَا الصِّنْفِ مِنَ النَّاسِ، أَتْبَعْنَاهَا أَخْبَارًا يَقَعُ فِي أَسَانِيدِهَا بَعْضُ مَنْ لَيْسَ بِالْمَوْصُوفِ بِالْحِفْظِ وَالْإِتْقَانِ، كَالصِّنْفِ الْمُقَدَّمِ قَبْلَهُمْ، عَلَى أَنَّهُمْ وَإِنْ كَانُوا فِيمَا وَصَفْنَا دُونَهُمْ، فَإِنَّ اسْمَ السَّتْرِ، وَالصِّدْقِ، وَتَعَاطِي الْعِلْمِ يَشْمَلُهُمْ

قسم اول میں ہم ان احادیث مبارکہ کو بیان کریں گے جن کی اسانید دوسری احادیث کی اسانید اور عیوب ونقائص سے محفوظ ہوں گی اور ان کے راوی زیادہ معتبر اور قوی وثقہ ہوں گے حدیث میں کیونکہ نہ تو ان کی روایت میں سخت اختلاف ہے اور نہ فاحش اختلاط جیسا کہ کثیر محدیثن کی کیفیت معلوم ہوگئی ہے اور یہ بات ان احادیث کی روایت سے پائے ثبوت تک پہنچ چکی ہے پھر ہم اس قسم کے لوگوں کی مرویات کا ذکر کرنے کے بعد ایسی احادیث لائیں گے جن کی اسانید میں وہ لوگ ہوں جو اس درجہ اتقان اور حفظ سے موصوف نہ ہوں جو اوپر ذکر ہوا لیکن تقوی پرہیزگاری اور صداقت وامانت میں ان کا مرتبہ ان سے کم نہ ہوگا کیونکہ ان کا عیب ڈھکا ہوا ہے اور ان کی روایت بھی محدیثن کے ہاں مقبول ہے

امام مسلم صاف لکھ رہے ہیں کہ ان کے صحیح کا معیار یہ ہے کہ اس راوی سے بھی لکھیں گے جو حافظہ میں بہت اچھے نہیں ہیں

امام ابو زرعہ بڑے پائے کے محدث ہیں امام بخاری و مسلم کے استاد ہیں یہاں ان کا تبصرہ صحیح مسلم پر پیش خدمت ہے

قال البرذعي في سؤالاته ( أبو زرعة الرازي وجهوده في السنة النبوية ترجمہ ٦٧٤ ج ٢ ص 674): ((شهدتُ أبا زرعة ذكر كتاب الصحيح الذي ألفه مسلم بن الحجاج، ثم الفضل الصائغ على مثاله، فقال لي أبو زرعة: “هؤلاء قومٌ أرادوا التقدم قبل أوانه، فعملوا شيئاً يتشوفون به. ألفوا كتاباً لم يُسبقوا إليه، ليقيموا لأنفسهم رياسةً قبل وقتها”. وأتاه ذات يومٍ – وأنا شاهدٌ – رجلٌ بكتاب الصحيح مِن رواية مسلم، فجعل ينظر فيه. فإذا حديثٌ عن إسباط بن نصر، فقال لي أبو زرعة: “ما أبعد هذا من الصحيح! يُدخل في كتابه أسباط بن نصر!” ثم رأى في الكتاب قطن بن نسير، فقال لي: “وهذا أطمُّ مِن الأول! قطن بن نسير وصل أحاديث عن ثابت جعلها عن أنس”. ثم نظر فقال: “يروي عن أحمد بن عيسى المصري في كتابه الصحيح”. قال لي أبو زرعة: “ما رأيت أهل مصرٍ يَشُكُّون في أنَّ أحمد بن عيسى” وأشار أبو زرعة بيده إلى لسانه كأنه يقول: الكذب. ثم قال لي: “يُحدِّث عن أمثال هؤلاء، ويترك عن محمد بن عجلان ونظرائه! ويُطرِّق لأهل البدع علينا، فيجدون السبيل بأن يقولوا لحديثٍ إذا احتُجَّ عليهم به: ليس هذا في كتاب الصحيح”. ورأيته يذمُّ وَضْعَ هذا الكتاب ويؤنِّبه. فلما رجعتُ إلى نيسابور في المرة الثانية، ذكرت لمسلم بن الحجاج إنكار أبي زرعة عليه روايته في هذا الكتاب عن أسباط بن نصر وقطن بن نسير وأحمد بن عيسى. فقال لي مسلم: “إنما قلتُ: صحيح، وإنما أدخلتُ مِن حديث أسبط وقطن وأحمد ما قد رواه الثقات عن شيوخهم. إلا أنه ربما وقع إليَّ عنهم بارتفاعٍ، ويكون عندي مِن رواية مَن هو أوثق منهم بنزولٍ، فأقتصر على أولئك. وأصل الحديث معروفٌ مِن رواية الثقات)). اهـ

البرذعي کہتے ہیں میں نے ابو زرعہ کو دیکھا اور ان سے الصحیح کا ذکر کیا جس کی تالیف مسلم بن حجاج نے کی … پس ابو زرعہ نے کہا یہ محدثین کی ایک قوم ہے جو وقت سے پہلے پہلے کام کرنا چاھتے ہیں … لہذا انہوں نے کتابیں تالیف کیں جس کو ان سے پہلے کسی نے نہیں کیا تاکہ اپنے تئیں دوسروں پر سردار بنیں وقت سے پہلے اور وہ  دن ا ہی گیا جسے میں دیکھ رہا  تھا کہ ایک آدمی  کتاب صحیح مسلم  لایا – ابو زرعہ نے مسلم  کی کتاب پر نظر ڈالی تو اس میں اسباط سے روایت کرتا ہے پس ابو زرعہ نے کہا یہ کتاب تو صحیح سے بہت دور ہے اپنی کتاب میں اسباط بن نصر سے روایت کر ڈالی ! پھر انہوں نے دیکھا کتاب میں قطن بن نسیر بھی ہے پس انہوں نے کہا یہ تو اس سے بھی خراب ہے قطن نے ثابت سے اور پھر انس سے روایت ملا دی ہیں پھر ابو زرعہ نے دیکھا احمد بن عیسیٰ المصری پس انہوں نے کہا میں نے نہیں دیکھا کہ اہل مصر اس کے بارے میں شکایت کرتے ہوں سوائے اس کے ، پھر انہوں نے زبان کی طرف اشارہ کیا، کہ یہ جھوٹا ہے پھر کہا اس قسم کے لوگوں سے روایت لے لی ہے اور محمد بن عجلان اور ان کے جیسوں کو چھوڑ دیا ہے اور اہل بدعت کو ہمارے لئے ایک رستہ بنا کر دے دیا ہے پس وہ اس پر ہم سے سبیل پائیں گے اس روایت سے دلیل لی گئی ہے کیا یہ صحیح میں نہیں ؟ اور ان کو دیکھا وہ اس کتاب کو بنانے پر مذمت کرتے پس جب دوسری دفعہ نیشا پور لوٹے پھر امام مسلم کا ذکر ہوا تو ابو زرعہ نے ان کا انکار کیا اور ان کی اسباط بن نصر سے اور قطن سے اور احمد بن عیسیٰ سے روایت کا پس امام مسلم نے مجھ سے کہا میں ان روایات کو صحیح کہا کیونکہ ان راویوں سے شیوخ نے روایت کیا ہے بلاشہ کبھی کبھی میرا (ایمان) ان سے اٹھ جاتا ہے اور میرے پاس ان سے زیادہ ثقہ کی روایت ہوتی ہے تو میں اس کو چھوٹا کر دیتا ہوں اور اصل حدیث تو معروف ہوتی ہے ثقات کی روایت سے

یعنی امام ابو زرعہ کے مطابق امام مسلم نے جلدی جلدی صحیح پر کتب لکھ دیں قبل اس کے ان کا علم ان پر پختہ ہوتا لوگوں نے امام ابو زرعہ کی رائے کو تعصب یا تنگ  نظری کہا ہے لیکن یہ ان کا منہج ہے اس کی اپنی اہمیت ہے اور ان کا نکتہ نظر نہ صرف ایک استاد کا ہے بلکہ دیکھا جائے تو صحیح بھی ہے

اس کے برعکس ایک قول پیش کیا جاتا ہے جو الذھبی نے سیر الاعلام النبلاء ج ١٠ ص پر پیش کیا ہے

وَقَالَ مَكِّيّ بن عبدَان: سَمِعْتُ مسلماً يَقُوْلُ: عرضت كِتَابِي هَذَا (المُسْنَد) عَلَى أَبِي زُرْعَةَ، فُكُلُّ مَا أَشَار عليّ فِي هَذَا الكِتَاب أَن لَهُ عِلَّة وَسبباً تركته، وَكُلّ مَا قَالَ: إِنَّهُ صَحِيْح لَيْسَ لَهُ علَّة، فَهُوَ الَّذِي أَخرجت. وَلَوْ أَنَّ أَهْل الحَدِيْث يَكْتُبُوْنَ الحَدِيْث مَائَتَي سنَة، فمدَارهُم عَلَى هَذَا 

میں نے اپنی کتاب (معروف نقاد محدث) ابو زرعہ رحمة اللہ علیہ پر پیش کی تو اُنہوں نے میری اس کتاب میں جس حدیث کی طرف بھی اشارہ کیا کہ اس میں کوئی ضعف کا سبب یا علت ہے تو میں نے اس حدیث کو چھوڑ دیا اور جس کے بارے میں بھی اُنہوں نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے اور اس میں کوئی علت (خفی کمزوری) نہیں ہے تو اسکو میں نے اپنی اس کتاب میں بیان کیا ہے

یہ قول کذب ہے کیونکہ ہم نے ثابت کر دیا ہے امام ابو زرعہ  کو امام مسلم نے صحیح نہیں دکھائی بلکہ البرزعی نے اس کا ایک نسخہ دکھآیا اور انہوں نے دیکھ کر جن راویوں کی نشان دھی کی ان کی روایات آج تک صحیح مسلم میں موجود ہیں مثلا  اسباط بن نصر واحمد بن عیسیٰ المصری کی روایت

تاریخ بغداد کے مطابق  سعید بْن عَمْرو البرذعي کہتے ہیں کہ

وقدم مسلم بعد ذلك الري، فبلغني أنه خرج إِلَى أَبِي عَبد اللَّهِ مُحَمَّد بْن مسلم بْن وارة، فجفاه، وعاتبه على هذا الكتاب، وَقَال لَهُ نحوا مما قاله لي أَبُو زُرْعَة: إن هذا يطرق لأهل البدع علينا، فاعتذر إليه مسلم وَقَال: إنما أخرجت هذا الكتاب وقلت هو صحاح، ولم أقل أن ما لم أخرجه من الحديث فِي هذا الكتاب ضعيف، ولكن إنما أخرجت هذا من الحديث الصحيح، ليكون مجموعا عندي وعند من يكتبه عني، فلا يرتاب فِي صحتها، ولم أقل: إن ما سواه ضعيف، أو نحو ذلك مما اعتذر به مسلم إِلَى مُحَمَّد بْن مسلم فقبل عذره وحدثه.

اور امام مسلم اس کے بعد الري آئے پس مجھے پتا چلا کہ یہ  أَبِي عَبد اللَّهِ مُحَمَّد بْن مسلم بْن وارة سے تخریج کرتے ہیں پس میں خفا ہوا اور اس کتاب الصحیح کی بنا پر ان پر برسا اور وہی کہا جو امام ابو زرعہ نے کہا تھا کہ اس نے اہل بدعت کو ہم پر  رستہ بنا کر دے دیا ہے  پس مسلم نےجواز پیش کیا اور کہا میں نے تو یہ کتاب لکھی  اورمیں کہتا ہوں یہ صحاح ہیں اور میں یہ نہیں کہتا کہ جس حدیث کو میں نے اپنی اس کتاب میں بیان نہیں کیا، وہ ضعیف ہے۔ میں نے تو اس کتاب میں صحیح احادیث کی تخریج کی ہے تاکہ خود میرے لئے مجموعہ ہو یا ان کے لئے جنہوں نے مجھ سے لکھا پس ان کی صحت میں شک نہ ہو اور میں یہ نہیں کہتا کہ ان کے سوا جو روایتین ہیں وہ ضعیف ہیں یا اسی طرح تو یہ امام مسلم کا جواز ہے محمد بن مسلم کے حوالے سے پس اس کو قبول کیا اور روایت کیا

اول اس قول کو لوگوں نے عموم بنا دیا ہے سب سے پہلے یہ قول خاص مجروحین سے امام مسلم کی روایت کرنے پر ائمہ کی جرح کے حوالے سے ان کی وضاحت پر مبنی ہے

دوم امام مسلم پر امام ابو زرعہ کا جو اعتراض ہے اس پر امام مسلم نے کوئی بات نہیں کی بلکہ بات کو اس طرف پلٹ دیا گیا کہ صحیح مسلم کے علاوہ بھی صحیح احادیث ہیں جبکہ ان سے اس پر پوچھا نہیں گیا تھا

سوم البرزعی کے امام مسلم سے کلام نیشاپور میں کیا یا الري میں کیا کیونکہ سوالات جو زیادہ معتبر کتاب ہے اس میں البرزعی نے امام مسلم سے وضاحت نیشاپور میں ہی لی تھی

امام مسلم مقدمہ میں  نام لئے بغیر ہم عصر محدثین پر جرح کرتے ہیں
: امام مسلم فرماتے ہیں کہ ہمارے بعض ہمعصر محدثین نے سند حدیث کی صحت اور سقم کے بارے میں ایک ایسی غلط شرط عائد کی ہے جس کا اگر ہم ذکر نہ کرتے اور اس کا ابطال نہ کرتے تو یہی زیادہ مناسب اور عمدہ تجویز ہوتی …..اور اس شخص نے جس کے قول سے ہم نے بات مذکور شروع کی ہے اور جس کے فکر وخیال کو ہم نے باطل قرار دیا ہے یوں گمان اور خیال کیا ہے کہ جس حدیث کی سند میں فلاں عن فلاں ہو اور ہم کو یہ بھی معلوم ہو کہ وہ دونوں معاصر ہیں اس لئے کہ ان دونوں کی ملاقات ممکن ہے اور حدیث کا سماع بھی البتہ ہمارے پاس کوئی دلیل یا روایت ایسی موجود نہ ہو جس سے قطعی طور پر یہ بات ثابت ہو سکے کہ ان دونوں کی ایک دوسرے سے ملاقات ہو اور ایک نے دوسرے سے بالمشافہ اور بلاواسطہ حدیث سنی تو ایسی اسناد سے جو حدیث روایت کی جائے وہ حدیث ان لوگوں کے ہاں اس وقت تک قابل اعتبار اور حجت نہ ہوگی

امکان لقاء  پر حدیث کو صحیح کہنا امام بخاری کی شرط نہیں ہے لہذا صحیح بخاری کا معیار صحیح مسلم سے بہتر ہے اور یہ اقتباس ثابت کرتا ہے کہ امام مسلم اور امام بخاری کا اس پر مسئلہ پر اختلاف تھا

امام ابو زرعہ اور ابن ابی حاتم کے مطابق صحیح مسلم کی  یہ روایات معلول ہیں

1- حديث المسح على الخفين والخمار (275
2- حديث كان يذكر الله على كل أحيانه (373
3- حديث ويلٌ للأعقاب مِن النار (240
4- حديث مَن نفَّس عن مؤمنٍ كربةً مِن كرب الدنيا (2699

اس کے علاوہ اوپر تین راویوں کے نام ہیں جن کو ابو زرعہ ضعیف کہتے ہیں اور ایک کو کذاب کہتے ہیں اور امام مسلم روایت کرتے ہیں

————

نوٹ
اس اقتباس میں ایک چیز ہے کہ امام مسلم نے روایت کا متن کم کیا کیونکہ وہ روایات مطول مشھور تھیں
اس کی مثال صحيح مسلم بَابُ عَرْضِ مَقْعَدِ الْمَيِّتِ مِنَ الْجَنَّةِ أَوِ النَّارِ عَلَيْهِ، وَإِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ وَالتَّعَوُّذِ مِنْهُ مين ہے قرع النعال والی روایت جس کو مختصرا بیان کیا
إِنَّ الْمَيِّتَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ، إِنَّهُ لَيَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِهِمْ إِذَا انْصَرَفُوا

[/EXPAND]

[صحاح الستہ کی اصطلاح کب شروع ہوئی ؟]

جواب

صحاح ستہ ایک غلط اصطلاح ہے لیکن یہ چل نکلی

صحاح ستہ کے بجائے انکو الكتب الستة کہا جاتا تھا – میں ایک دور میں بحث ہوئی کون سی کتابیں ہیں
جامع الترمذی
سنن النسائی
سنن ابو داود
کو تو لوگوں نے قبول کر لیا لیکن اب چوتھی کتاب پر اختلاف ہوا
متقدمین مو طا کی طرف گئے اور متاخرین ابن ماجہ کی طرف

زرین بن معاویہ المتوفی ٥٣٥ ھ کے مطابق اس میں ابن ماجہ کی بجآئے موطا ہے
ابن اثیر کے مطابق چھٹی کتاب موطا ہے
ابن صلاح النكت مين لکھتے ہیں کہ کافی عرصہ مغرب میں یعنی اندلس اور شمالی افریقہ میں موطا چھٹی کتاب رہی حتی کہ وہ ابن ماجہ پر متفق ہوئے
وعند المغاربة موطأ مالك عوضا عن سنن ابن ماجه قبل أن يقفوا عليه

النکت کے مطابق العلائی دمشقی کے مطابق چھٹی کتاب سنن دارمی ہونی چاہیے

ابن حجر کے مطابق متاخرین میں أبو الفضل ابن طاهر المتوفی ٥٠٧ھ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے ابن ماجہ کو شامل کیا
وحكى ابن عساكر أن أول من أضاف كتاب ابن ماجه إلى الأصول أبو الفضل ابن طاهر وهو كما قال

[/EXPAND]

[حسن روایت پر کیا حکم ہے ؟ کیا اس سے استدلال ہو سکتا ہے ؟]

حسن روایت ضعیف کی صنف سے ہے اس کو امام ترمذی کی اختراع کہنا چاہیے

ان سے قبل یہ کسی اور نے لفظ نہیں بولا محدثین روایت کو صحیح یا ضعیف کہتے تھے

امام علی المدینی نے کتاب العلل میں حسن الاسناد کا لفظ بولا ہے

قَالَ عَلِيٌّ فِي حَدِيثِ عُمَرَ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنِّي مُمْسِكٌ بِحُجَزِكُمْ عَن النَّار قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنُ الْإِسْنَادِ
وَحَفْصُ بْنُ حُمَيْدٍ مَجْهُولٌ لَا أَعْلَمُ أَحَدًا رَوَى عَنْهُ إِلَّا يَعْقُوبُ

اس بنا  پر کہا جاتا ہے کہ یہ امام علی کی ایجاد ہے اور ان کے امام بخاری نے یہ اصطلاح لی اور پھر امام ترمذی نے اس کو استمعال کثرت سے کیا

بحر الحال علماء نے حسن میں دو قسمیں بیان کی ہیں امام ترمذی کے کام کو دیکھتے ہوئے
حسن لذاتہ یعنی وہ روایت جس کی سند میں ضعیف ہو لیکن اس کا متن کسی اور صحیح السند روایت سے معلوم ہو

دوسری قسم حسن لغیرہ ہے یعنی ایک متن کو بہت سے ضعیف روایت کریں تو وہ ضعیف روایت بلند ہو کر حسن لغیرہ کے مرتبہ پر ا جائے گی

حسن روایت چونکہ ضعیف کی مد سے ہے اس پر عقیدہ نہیں بیانا جا سکتا لیکن اس بات کو متاخرین نے بدل دیا ہے

ابتداء میں محدثین کہتے تھے کہ حلال و حرام اور اصول و عقائد میں صحیح سے کام لیا جائے گا لیکن اگر ڈرانا ہو یا فضائل ہوں تو ضعیف کو لیا جا سکتا ہے
امام احمد نے کہا کہ رائے کے مقابلے میں ایک ضعیف روایت کو ترجیح حاصل ہے اس بنیاد پر محدثین نے ملغوبہ کتب لکھیں جن میں صحیح و ضعیف دونوں تھیں ان کے ابواب قائم کیے کہ کسی مسئلہ میں کوئی صحیح روایت نہ ملے تو ضعیف کو رائے پر ترجیح دیں گے

اس طرح فقہ میں ضعیف کا دخول ہو گیا اور صرف فضائل تک بات محدود نہیں رہی آہستہ آہستہ ضعیف روایت حسن بن کر فقہ میں اور پھر عقیدہ میں بھی اب پیش ہو رہی ہیں
اس پر متاخرین نے مزید اصطلاحات ایجاد کیں مثلا حدیث کو جید کہنا بھی حسن نما بات ہے
ابن کثیر اور ابن حجر جید کا لفظ بہت بولتے ہیں ان سے قبل اس کا اتنا استمعال نہیں ملتا

—-
راقم کی رائے میں ضعیف ضعیف ہے حسن کوئی چیز نہیں ہے یا تو روایت ضعیف ہے یا صحیح
حسن پر عقیدہ نہیں بنایا جا سکتا ہاں فقہ میں دلیل لی جا سکتی ہے اگر صحیح روایت نہ ہو وہ بھی اس طرح کہ کوئی صحیح عقیدہ خراب نہ ہو جائے
مثلا درود پڑھنا نیکی ہے لیکن کیا یہ نبی صلی الله علیہ وسلم پر پیش ہوتا ہے؟
محدثین کی ایک جماعت اس روایت کو صحیح کہتی ہے کیونکہ نیکی پر ابھارنا اچھا ہے
لیکن یہ روایت عقیدہ میں غلط ہے عمل الله پر پیش ہوتا ہے
درود الله سے دعا ہے جو انبیاء پر پیش نہیں ہوتا

[/EXPAND]

[کیا امام بخاری نے کتاب الصحیح کو مشھور محدثین پر پیش کیا ؟ مثلا ابن حجر کہتے ہیں]

لما صنف البخاری کتاب الصحیح عرضہ علی ابن المدینی و أحمد بن حنبل و یحی بن معین و غیرھم فاستحسنوہ و شھدوا لہ بالصحة الا أربعة أحادیث۔(ھدی الساری مقدمہ فتح الباری)
جب امام بخاری نے کتاب الصحیح کی تصنیف کی تو اس کو علی المدینی پر امام احمد پر امام ابن معین پر اور دیگر پر پیش کیا اور انہوں نے تحسین کی اور گواہی دی کہ کتاب کی صحت صحیح ہے الا چار روایات کے

جواب

یہ بات ایک عجیب قول ہے کیونکہ یہ ابن حجر نے امام عقیلی کے حوالے سے نقل کیا ہے پر سند نہیں دی

اس میں امام احمد کا نام ہے جن سے صحیح میں صرف ایک روایت واسطہ ڈالنے کے بعد لکھی  گئی ہے جو غزوات کی تعداد پر ہے

اس میں امام ابن معین کا نام ہے جن سے صحیح میں صرف تین یا چار روایات لی گئی ہیں ایک سوره توبہ کے حوالے سے ایک اہل بیت کے حوالے سے اور ایک تاریخ اسلام کے ابتدائی مکی دور پر ہے لہذا ابن خلفون کتاب  المعلم بشيوخ البخاري ومسلم  کہتے ہیں ان سے مقرونا روایت لی ہے

روى عنه البخاري وعن صدقة بن الفضل مقرونًا به عن محمد بن جعفر غندر في مناقب الحسن والحسين.
وروى البخاري أيضًا عن عبد الله بن محمد المسندي عنه عن حجاج بن محمد الأعور في تفسير سورة براءة.
وروى عن عبد الله غير منسوب عنه، عن إسماعيل بن مجالد في ذكر أيام الجاهلية في باب: إسلام أبي بكر الصديق ـ رضي الله عنه

امام یحیی ابن معین کے نزدیک  أحمد بن عيسى بن حسان المصرى کذاب ہے – الذہبی کہتے ہیں ابن معین الله کی قسم کھا کر اس کو کذاب کہتے

 إلا أن أبا داود روى عن يحيى بن معين أنه حلف بالله أنه كذاب

یہ شخص امام بخاری کے شیوخ میں سے ہے اور اس کی روایت یھاں صحیح میں ہے

٩٤٩ ،  ١٥٢٨ ،  ١٦٤١ ،  ١٧٩٦ ،  ٤٨٢٨

اگر امام یحیی ابن معین اس پر متفق ہوئے کہ ایک کذاب کی روایت کو صحیح کہا جائے؟ ایسا ممکن نہیں جس سے ظاہر ہے کہ ابن معین پر صحیح کو پیش کر کے امام بخاری کو پھنسنا نہیں تھا

امام علي بن عبد الله المدینی سے امام بخاری نے صحیح میں ١٥٤ روایات لکھی ہیں

لہذا امام بخاری کو اگر صحیح کو پیش کرنا ہوتا تو وہ صرف امام علی پر پیش کرتے باقی  دیکھتے کہ ان سے ایک دو روایات لی ہیں تو وہ شاگرد رشید کے حوالے سے کیا سوچتے

امام بخاری نے صحیح میں امام ابی حاتم یا امام الزھلی کا نام ٢٥٠ ہجری کے بعد چھپایا ہے یعنی ہمارے پاس جو صحیح ہے اس میں نام کی تدلیس ہے ظاہر ہے اس کو اگر ٢٥٠ ہجری سے پہلے انتقال کرنے والوں پر پیش کیا گیا تو یہی کہا جائے گا کہ صحیح میں اس کے بعد بھی تبدیلی اتی رہی

امام احمد کی وفات سن  ہجری ٢٤١ کی ہے

امام علی کی سن ٢٣٤ ہجری میں ہے

امام ابن معین کی سن ٢٣٣   ہجری میں ہے

جبکہ امام الذہلی سے امام بخاری کا مناقشہ ابھی ہوا ہی نہیں وہ جب ہو گا تو صحیح میں ان کا نام چھپایا جائے گا

اب یہ ممکن نہیں کہ  پہلے نام لکھا جائے اور بعد میں چھپایا جائے کیونکہ اس کو چھپانے کا پھر کوئی فائدہ نہیں

اس سے ظاہر ہے صحیح ان ائمہ کی وفات کے بعد تک مکمل نہ تھی اس پر کام جاری تھا

اس کی ایک دلیل صحیح کی روایت ہے

613 قَالَ يَحْيَى : وَحَدَّثَنِي بَعْضُ إِخْوَانِنَا أَنَّهُ قَالَ : لَمَّا قَالَ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ قَالَ : لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، وَقَالَ : هَكَذَا سَمِعْنَا نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ.

اس میں امام بخاری سند دیتے ہیں کہ یحیی نے کہا   بَعْضُ إِخْوَانِنَا  (ہمارے بعض بھائیوں نے) کہا – اس سند کو صحیح کہنا مشکل ہے کیونکہ یہ امام بخاری کی شرط پر نہیں بلکہ اس کی سند  میں إِخْوَانِنَا کو مجھول کہا جائے گا ( اگرچہ ہمیں پتا ہے کہ دوسری کتابوں میں اس روایت کی سند میں نام موجود ہے) – جامع الصحیح میں اس قسم کی روایت کا رہ جانا اشارہ کر رہا ہے کہ اس کو یاد دھانی کے لئے اشارتا لکھا گیا تھا – لیکن عمر نے وفا نہ کی اور امام بخاری اس کی وہ سند نہ دے سکے جو وہ چاھتے تھے یا وہ سند جو ان کی صحیح کی شرط ہے

دیگر کتب میں اس سند میں نام ہیں مثلا

أمالي ابن سمعون الواعظ میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْهَيْثَمِ، مِنْ أَصْلِهِ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ مُوسَى بْنِ أَبِي حَرْبٍ الصَّفَّارُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ” كَانَ إِذَا سَمِعَ الْمُؤَذِّنَ، قَالَ كَمَا يَقُولُ، قَالَ: فَإِذَا قَالَ: حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، قَالَ: لا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ

مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، قَالَ أَبِي: وَأَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ، قَالَ أَبُو عَامِرٍ، فِي حَدِيثِهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي عِيسَى بْنُ طَلْحَةَ، قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى مُعَاوِيَةَ، فَنَادَى الْمُنَادِي بِالصَّلَاةِ، فَقَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: «اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ» ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، قَالَ مُعَاوِيَةُ: «وَأَنَا أَشْهَدُ» – قَالَ أَبُو عَامِرٍ: أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ – قَالَ: أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ مُعَاوِيَةُ: «وَأَنَا أَشْهَدُ» – قَالَ أَبُو عَامِرٍ: أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ يَحْيَى: فَحَدَّثَنَا رَجُلٌ أَنَّهُ لَمَّا – قَالَ: حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، قَالَ: «لَا حَوْلَ [ص:37] وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ» ، قَالَ مُعَاوِيَةُ: «هَكَذَا سَمِعْتُ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ»

یہ يَحْيَى بنُ أَبِي كَثِيْرٍ أَبُو نَصْرٍ الطَّائِيُّ مَوْلاَهُم ہیں

[/EXPAND]

[کیا محدث البانی کے نزدیک صحیح مسلم کی بعض روایات ضعیف ہیں ؟]

جواب

البانی نے صحیح مسلم کی روایات کو بھی ضعیف کہا ہے

http://halsat.blogspot.com/2013/04/blog-post_7539.html
لا يشربن أحد منكم قائما ، فمن نسي فليستقئ )) رواه

مسلم 116 (2026) .

قال الألباني في الضعيفة ( 2 / 326 ) : ( منكر بهذا اللفظ ،

أخرجه مسلم في صحيحه من طريق عمر بن حمزة ) .
5- (( إن من شر الناس عند الله منزلة يوم القيامة الرجل يفضي

إلى امرأته وتفضي إليه ثم ينشر سرها))
رواه مسلم 123 (1437) ،
قال الألباني في ضعيف الجامع ( 2/192 ) : ( ضعيف ، رواه مسلم )
وكذا ضعفه في إرواء الغليل ( 7/74 – 75 ) ،

وفي غاية المرام ( ص150 ) ،

وكذلك في مختصر صحيح مسلم تعليق ( 150 ) ،

و في آداب الزفاف ( 142 ) .

6- حديث (( إني لأفعل ذلك أنا وهذه ثم نغتسل ))

يعني الجماع دون إنزال رواه مسلم 89 (350) .
قال في الضعيفة ( 2/406 – 407 ) : ( ضعيف مرفوعا ) .

إلى أن قال :( وهذا سند ضعيف له علتان : الأولى عنعنة أبي

الزبير ؛ فقد كان مدلسا … إلخ ،

الثانية ضعف عياض بن عبدالرحمن الفهري المدني …) إلخ .

7- (( لا تذبحوا إلا مسنة إلا أن تتعسر عليكم فتذبحوا جذعة من

الضأن ))رواه مسلم رقم 13 (1963) .
قال الألباني : ( رواه أحمد ومسلم و… و… ضعيف )

انظر ضعيف الجامع ( 6/64 ) .
وكذلك ضعفه في إرواء الغليل برقم ( 1131 ) ،

وكذلك في الأحاديث الضعيفة ( 1/91 ) . وقال هناك بعد كلام : (

ثم بدا لي أني كنت واهما في ذلك تبعا للحافظ ، وأن هذا الحديث

الذي صححه هووأخرجه مسلم كان الأحرى به أن يحشر في زمرة

الأحاديث الضعيفة … إلخ ) .

8- (( إذا قام أحدكم من الليل فليفتتح صلاته بركعتين خفيفتين )

رواه مسلم198 (768) .

قال الألباني في ضعيف الجامع ( 1/213 ) :( رواه أحمد ومسلم ،

ضعيف ) .

9- (( لا تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا تماثيل ))رواه مسلم 87

(2106) .
قال الألباني في غاية المرام ( ص104 ) :( صحيح دون قول عائشة

( لا) فإنه شاذ أو منكر ).
10- حديث : ( أنتم الغر المحجلون يوم القيامة ، من إسباغ الوضوء ،

فمن استطاع منكم فليطل غرته وتحجيله )
رواه مسلم
قال الالباني في ( ضعيف الجامع وزيادته )
( 14 / 2 برقم 1425 ) : رواه مسلم عن أبي هريرة ( ضعيف بهذا

التمام ) .12- حديث :

( من قرأ العشر الاواخر من سورة الكهف عصم من فتنة الدجال ) .
قال الالباني في ( ضعيف الجامع وزيادته ) ( 5 / 233 برقم 5772 ) :

رواه أحمد ومسلم والنسائي عن أبي الدرداء( ضعيف )

حديث ” إن النبي صلى الله عليه وسلم صلى في كسوف

ثماني ركعات في أربع سجدات …”
اخرجه مسلم
قال الألباني في إرواء الغليل (3/129) ما نصه : ضعيف وإن أخرجه

مسلم ومن ذكره معه وغيرهم .

[/EXPAND]

[کیا محدث البانی کے نزدیک صحیح بخاری کی بعض روایات ضعیف ہیں ؟  ]

جواب

البانی کے نزدیک صحیح  البخاری کی ١٥ روایات ضعیف ہیں

پہلی حدیث ٦٤٧٨  ہے

حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ، سَمِعَ أَبَا النَّضْرِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ يَعْني ابْنَ دِينَارٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ العَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالكَلِمَةِ مِنْ رِضْوَانِ اللَّهِ، لاَ يُلْقِي لَهَا بَالًا، يَرْفَعُهُ اللَّهُ بِهَا دَرَجَاتٍ، وَإِنَّ العَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالكَلِمَةِ مِنْ سَخَطِ اللَّهِ، لاَ يُلْقِي لَهَا بَالًا، يَهْوِي بِهَا فِي جَهَنَّمَ»

مجھ سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا، انہوں نے ابوالنضر سے سنا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ یعنی ابن دینار نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے ابوصالح نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بندہ اللہ کی رضا مندی کے لیے ایک بات زبان سے نکالتا ہے اسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا مگر اسی کی وجہ سے اللہ اس کے درجے بلند کر دیتا ہے اور ایک دوسرا بندہ ایک ایسا کلمہ زبان سے نکالتا ہے جو اللہ کی ناراضگی کا باعث ہوتا ہے اسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا لیکن اس کی وجہ سے وہ جہنم میں چلا جاتا ہے۔

البانی نے صحیح بخاری کی دو روایات کو الضعیفہ میں بیان کیا ہے  ایک کو ح ١٢٩٩ میں بیان کرتے ہیں

    إن العبد ليتكلم بالكلمة لا يلقي لها بالا يرفعه الله بها درجات

   ( 3/463 )

ضعيف اخرجه البخاري ( 6478 فتح )

قلت : و هذا إسناد ضعيف ، و له علتان

الأولى : سوء حفظ عبد الرحمن هذا مع كونه قد احتج به البخاري

یہ اسناد ضعیف ہیں اور اس میں علتیں ہیں اس میں عبدالرحمان کا خراب حافظہ ہے باوجود یہ کہ امام بخاری نے اس سے دلیل لی ہے

اسی طرح دوسری ح ٤٨٣٥ میں لکھتے ہیں

 إن هاتين الصلاتين حولنا عن وقتهما في هذا المكان (يعني : المزدلفة) : المغرب والعشاء ، فلا يقدم الناس جمعاً حتى يعتموا ، وصلاة الفجر هذه الساعة ) .

ضعيف  أخرجه البخاري


صحیح بخاری کی یہ حدیث ح ١٦٨٣ ہے

حدثنا عبد الله بن رجاء: حدثنا إسرائيل عن أبي إسحاق عن عبد الرحمن بن يزيد قال: خرجت مع عبد الله رضي الله عنه إلى مكة، ثم قدمنا جمعاً، فصلى الصلاتين، كل صلاة وحدها بأذان وإقامة، والعشاء بينهما، ثم صلى الفجر حين طلع الفجر، قائل يقول: طلع الفجر، وقائل يقول: لم يطلع الفجر، ثم قال … (فذكره) . ثم وقف حتى أسفر، ثم قال: لو أن أمير المؤمنين أفاض الآن أصاب السنة، فما أدري أقوله كان أسرع، أم دفع عثمان رضي الله عنه؟! فلم يزل يلبي حتى رمى جمرة العقبة يوم النحر.

ہم سے عبداللہ بن رجاء نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابواسحٰق نے، ان سے عبدالرحمٰن بن یزید نے کہ ہم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ کی طرف نکلے (حج شروع کیا) پھر جب ہم مزدلفہ آئے تو آپ نے دو نمازیں (اس طرح ایک ساتھ) پڑھیں کہ ہر نماز ایک الگ اذان اور ایک الگ اقامت کے ساتھ تھی اور رات کا کھانا دونوں کے درمیان میں کھایا، پھر طلوع صبح کے ساتھ ہی آپ نے نماز فجر پڑھی، کوئی کہتا تھا کہ ابھی صبح صادق نہیں ہوئی اور کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ ہو گئی۔ اس کے بعد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا یہ دونوں نمازیں اس مقام سے ہٹا دی

البانی الضعیفہ میں کہتے ہیں
قلت: وهذا الحديث – مع كونه في “الصحيح” -؛ ففي ثبوته عندي شك كبير،

البانی کہتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ یہ حدیث صحیح میں ہے میرے پاس ثبوت ہے اور مجھے اس حدیث پر شک ہے

البانی اس پر بحث کرتے ہیں اور ان کے مطابق صحیح البخاری کی یہ روایات الضعیفہ کا حصہ ہیں

اس طرح کل ١٥ روایات جو صحیح بخاری کی ہیں البانی ان کو سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة
میں ضعیف قرار دیتے ہیں گویا کہ ان صحیح بخاری کی ١٥ روایات کے (أثرها السيئ في الأمة) امت پر برے اثرات ہوئے

.الضعيفة حديث رقم ) …. ( 1030من استطاع منكم أن يطيل غرته
.الضعيفة حديث رقم )…( 1052لما نـزل عليـه الـوحي يريـد أن يلقـي بنفـسه
.الضعيفة حديث رقم)..(1299إن العبد ليتكلم بالكلمة
. الضعيفة حديث رقم)…(3364إذا أعتق الرجل أمته
. الضعيفة حديث رقم)..(4226كان له فرس الظرب
. الضعيفة حديث رقم) (4835إن هاتين الصلاتين
. الضعيفة حديث رقم) (4839قضى في ابن الملاعنة
. الضعيفة حديث رقم)(4992نعم وأبيك لتنبأن
الضعيفة حديث رقم) (5036لا يسبغ عبد الوضوء
– الضعيفة حديث رقم)(6763ثلاثة أنا خصمهم
– الضعيفة حديث رقم)(6945بينما أنا قائم خرج رجل همل النعم
– الضعيفة حديث رقم)(6947إذا وسد الأمر فانتظر الساعة
– الضعيفة حديث رقم)(6949إن كان عندك ماء بات في شنة
– الضعيفة حديث رقم)(6950أن رجلا من أهل الجنة استأذن ربه
– الضعيفة حديث رقم) ( 6959لا عقوبة فـوق عـشر ضـربات

بعض کے بقول صحیح بخاری  اصح الکتاب بعد کتاب الله ہے اور اس پر اجماع امت ہے

یہ کیسا اجماع ہے جس کا انکار بھی ہے ؟

البانی الضعیفہ ج ٣ ص ٤٦٥  پر کہتے ہیں  کہ کوئی معترض کہے

إن الألباني قد طعن في ” صحيح البخاري ” وضعف حديثه، فقد تبين لكل ذي بصيرة
أنني لم أحكم عقلي أورأيي كما يفعل أهل الأهواء قديما وحديثا، وإنما تمسكت
بما قاله العلماء في هذا الراوي وما تقتضيه قواعدهم في هذا العلم الشريف
ومصطلحه من رد حديث الضعيف، وبخاصة إذا خالف الثقة. والله ولي التوفيق.

بے شک البانی نے صحیح البخاری پر طعن کیا ہے اور اسکی احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے تو پس ہر دیدہ بینا پر واضح ہے کہ میں نے عقل اور رائے سے یہ حکم نہیں لگآیا جیسا کہ قدیم و جدید اہل الهواء کا عمل ہے میں نے تو اس پر تمسک کیا ہے جو علماء نے اس راوی پر کہا ہے اور جو اس علم حدیث اور اس کے مصطلح کے قواعد  کا رد حدیث ضعیف کے حوالے سے تقاضہ ہے ، خاص کر جب ثقہ کی مخالف ہوں والله الولی التوفیق

ایک غیر مقلد عالم محمد زبیر مضمون کیا صحیحین کی صحت پر اجماع ہے  جو محدث شمارہ ٣١٩ میں ٢٠٠٨ میں چھپا  اس میں لکھتے ہیں

لنک

۔اب عصر حاضر میں کسی بھی عالم کے لیے یہ گنجائش باقی نہیں رہی کہ وہ صحیحین کی کسی ایسی روایت پر کلام کرے جس پر سلف نے کلام نہ کیا ہو،کیونکہ حافظ دارقطنی رحمة اللہ علیہ وغیرہ کے کام سے یہ متعین ہو گیا کہ صحیحین میں صرف یہ مقامات ایسے ہیں جن میں کلام کی گنجائش موجود ہے۔ اب اگر کوئی شخص امام دارقطنی رحمة اللہ علیہ یاائمہ سلف میں سے کسی اور محدث کی بیان کردہ تحقیقات کی روشنی میں صحیح بخاری یا صحیح مسلم کی کسی حدیث پر نقد کرتا ہے تو اس کی یہ تنقید صحیحین پر کوئی مستقل بالذات تنقید شمار نہ ہو گی اور ایسی تنقید کاائمہ سلف ہی میں سے بہت سے ائمہ نے کافی و شافی جواب دے دیا ہے ۔اور اگر کوئی شخص صحیحین کی کسی ایسی روایت پر تنقید کرتا ہے جس پر ائمہ سلف میں سے کسی نے بھی کلام نہ کیا ہو تو ایسا شخص اجماعِ محدثین کی مخالفت کر رہا ہے، کیونکہ جن روایات پر محدثین نے تنقید نہ کی تو اس سے یہ طے ہو گیا کہ تمام محدثین کے نزدیک یہ روایات صحیح ہیں لہٰذا ان روایات پر کلام کرنا جمیع محدثین کے دعوی صحت کو چیلنج کرنا ہے اور ایسا دعویٰ مردود ہے چہ جائیکہ اس کی تحقیق کی جائے۔

الله رحم کرے ایک غیر مقلد البانی کہتے ہیں احادیث ضعیف بھی ہیں دوسری طرح یہ عالم ہیں جو کہتے ہیں ایسا دعوی مردود ہے

[/EXPAND]

[صحیح مسلم میں ابی الزبیر المکی کی وہ روایات جن میں عنعنہ ہو اور وہ اللیث بن سعد کی سند سے نہ ہوں کا کیا حکم ہے؟ ]

جواب

امام مسلم نے  ٨٠ کے قریب روایات ابی الزبیر المکی کی سند سے دیں ہیں جو اللیث کی سند سے نہیں ہیں

امام الذھبی کتاب المیزان میں محمد بن مسلم [عو، م، خ] بن تدرس، أبو الزبير المكي کے ترجمہ میں  کہتے ہیں

وفي صحيح مسلم عدة أحاديث مما لم يوضح فيها أبو الزبير السماع عن جابر، وهى من غير طريق الليث عنه، ففى القلب منها شئ

اور صحیح مسلم میں چند احادیث ہیں جن میں ابو الزبیر کے جابر رضی الله عنہ سے سماع کی وضاحت نہیں ہے اور یہ وہ ہیں جو اللیث کے طرق سے نہیں ہیں پس ان پر دل میں چیز (کھٹکتی) ہے

البانی ألضيفة ج ١ ص ١٦٢ کہتے ہیں

أن كل حديث يرويه أبو الزبير عن جابر أو غيره بصيغة عن ونحوها وليس من رواية الليث بن سعد عنه، فينبغي التوقف عن الاحتجاج به، حتى يتبين سماعه، أو ما يشهد له، ويعتضد به.
هذه حقيقة يجب أن يعرفها كل محب للحق

ہر وہ حدیث جس کو ابو الزبیر ، جابر سے روایت کرے یا اس کو صغیہ عن سے بدلے یا اسی طرح اور وہ اللیث بن سعد کا طرق نہ ہو پس اس پر توقف ہونا چاہیے یہاں تک کہ سماع واضح ہو … اور یہ حقیقت ہے جس کا اعتراف ہر حق سے محبت کرنے والے کو کرنا چاہیے

صحیح مسلم میں اصول و متابعات میں ایسی ٨٠  روایات ہیں جن میں عنعنہ بھی ہے اور وہ امام اللیث کے طرق سے نہیں ہیں اور ان میں ہر ایک کا شاہد بھی نہیں ہے

[/EXPAND]

[صحیح بخاری کی حدیث پر سوال ہے کہ لوگ حشر پر جانوروں پر سوار ہوں گے]

»یحشر الناس علی ثلاث طرائق راغبين راهبين واثنان علي بعير وثلاثة على بعير واربعة على بعير وعشرة على بعير ويحشر بقيتهم النار ثقيل معهم حيث اصبحوا وتمسى معهم حيث امسوا«بخاری
پلیز اس روایت کا وضاحت کردے
جزاکم الله خیرا

جواب

ہم سے معلیٰ بن اسد نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن طاؤس نے، ان سے ان کے والد طاؤس نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں کا حشر تین فرقوں میں ہو گا (ایک فرقہ والے) لوگ رغبت کرنے نیز ڈرنے والے ہوں گے۔ (دوسرا فرقہ ایسے لوگوں کا ہو گا کہ) ایک اونٹ پر دو آدمی سوار ہوں گے کسی اونٹ پر تین ہوں گے، کسی اونٹ پر چار ہوں گے اور کسی پر دس ہوں گے۔ اور باقی لوگوں کو آگ جمع کرے گی (اہل شرک کا یہ تیسرا فرقہ ہو گا) جب وہ قیلولہ کریں گے تو آگ بھی ان کے ساتھ ٹھہری ہو گی جب وہ رات گزاریں گے تو آگ بھی ان کے ساتھ وہاں ٹھہری ہو گی جب وہ صبح کریں گے تو آگ بھی صبح کے وقت وہاں موجود ہو گی اور جب وہ شام کریں گے تو آگ بھی شام کے وقت ان کے ساتھ موجود ہو گی۔

یہ روایت صحیح مسلم میں بھی ہے

البغوي في “شرح السنة” 15/125: میں کہتے ہیں
هذا الحشر قبل قيام الساعة
یہ وہ حشر ہے جو قیامت سے قبل ہے

ایک دوسری روایت میں ہے
نَارٌ تَخْرُجُ مِنْ قَعْرِ عَدَنَ تُرَحِّلُ النَّاسَ
عدن کے بیچ سے اگ نکلے گی جو محشر کی طرف ہانکے گی

لہذا عمومی رائے ہے کہ یہ روایت میدان حشر سے متعلق نہیں بلکہ اس سے قبل زمین پر جو واقعات ہوں گے ان کی وجہ سے لوگ ایک جگہ جمع ہونے لگیں گے

——-

سندا اس میں وهيب بن خالد بن عجلان بصری کا تفرد ہے جو اختلاط کا شکار ہوئے
ابن حجر کہتے ہیں
ثقة ثبت لكنه تغير قليلا بأخرة
ثقہ ثبت ہیں لیکن آخر میں متغیر ہو چکے تھے

ابن العجمي اور ابن الكيال نے ان کا نام کو اپنی مختلط راویوں پر کتب میں بیان کیا ہے

ان کے اس اختلاط میں کس کس کا سماع ہوا محدثین نے بیان نہیں کیا

[/EXPAND]

[کیا امت میں تکفیر محدثین سے شروع ہوئی   ]

جواب

وہ بنیادی چیزیں جن کا انکار کیا جائے تو اسلام سے خارج ہو جانا ہے ان میں
توحید کا اقرار ہے کہ الله ایک ہے اس کی بیوی بیٹی اور بیٹا نہیں ہے
نبی صلی الله علیہ وسلم آخری رسول ہیں
قرآن جو ہاتھوں میں ہے آخری کتاب ہے

اسلام کے ارکان دین کا ظاہر ہیں ان کا انکار بھی کفر سمجھا گیا ہے

لہذا اہل سنت کی کتب میں شیعہ پر کفر کا فتوی نہیں لگایا گیا کیونکہ باوجود غلو کے انہوں نے بنیاد کا انکار نہیں کیا ہے اور رافضی کی روایت محدثین نے صحیح بخاری و مسلم میں لکھی ہے یعنی عدالت ساقط نہیں ہوتی  جھمی کو کافر کہا گیا کیونکہ انہوں نے صفات الہی کا انکار کیا اور ان کی حدیث بھی چھوڑ دی گئی

تکفیر یعنی کسی کو کافر کہنا ہے میں اہل اسلام کا اختلاف ہے کہ اہل قبلہ کو کیا کافر کہا جا سکتا ہے یا نہیں
کافر قرار دینے کی امثال : ابو بکر رضی الله عنہ نے زکواة نہ دینے والے قبائل کی تکفیر کی حالآنکہ وہ اہل قبلہ تھے
محدثین نے خلق قرآن کے قائل خلفاء کی تکفیر کی مثلا امام احمد نہ جگہ جگہ خلق قرآن کے قائلین کو کافر کہا ہے لیکن خروج نہیں کیا

ختم نبوت کے انکار پر کفر کا فتوی : ختم نبوت کا انکار بھی ابو بکر رضی الله عنہ کے نزدیک کفر ہے اور اسی پر صحابہ کا عمل تھا
کافر قرار نہ دینے کی مثال:  خوارج کو امت میں سے کسی نے کافر نہیں کہا خوارج علی اور عثمان رضی الله عنہم کو گناہ کبیرہ کا مرتکب کہتے ہیں لیکن ان کی تکفیر نہیں کی گئی یہاں تک کہ محدثین نے اور ابن عباس رضی الله عنہ نے ان کو شاگرد بنایا اور صحیح بخاری میں خارجی سے روایت لی گئی ہے  ظاہر ہے کفر سے عدالت ساقط ہوتی ہے جبکہ آج خارجی کا لفظ بہت غلط طریقہ سے مخالف کو کافر قرار دینے کے لئے استمعال ہوتا ہے

تکفیر کا حکم :  تکفیر محدثین کے کنفیوژن سے شروع ہوئی – سب سے پہلے انہوں نے اولو الامر کا مفھوم بدلا

امام بخاری نے جماعت کے مفھوم کو اہل اقتدار کی اطاعت سے نکال کر اہل علم کی طرف کیا لہذا امام بخاری صحیح میں باب قائم کرتے ہیں
باب قوله تعالى: {وكذلك جعلناكم أمة وسطا} [البقرة: 143] وما أمر النبي صلى الله عليه وسلم بلزوم الجماعة، وهم أهل العلم
اور الله کا قول {وكذلك جعلناكم أمة وسطا} [البقرة: 143] اور نبی صلی الله علیہ وسلم کا حکم کہ جماعت کو
پکڑو اور وہ اہل علم ہیں
یعنی اہل اقتدار یا اولوالامر کی اطاعت سے نکال کر اس کو علماء کی اطاعت قرار دیا
اس کی دوسری مثال صحیح میں ہی ہے جہاں امام بخاری باب قائم کرتے ہیں
باب إذا اجتهد العامل أو الحاكم، فأخطأ خلاف الرسول من غير علم، فحكمه مردود لقول النبي صلى الله عليه وسلم: «من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد
باب کہ جب گورنر یا حاکم اجتہاد کرے اور اس میں خطا کرے خلاف رسول بغیر علم کہے تو وہ قول مردود ہے نبی صلی الله علیہ وسلم کے قول کی بنا پر کہ جس نے ایسا عمل کیا جس کا ہم نے حکم نہیں دیا تو وہ رد ہے
امام بخاری صحیح میں باب قول الله تعالى: {وأمرهم شورى بينهم میں لکھتے ہیں
ورأى أبو بكر قتال من منع الزكاة، فقال عمر: كيف تقاتل الناس وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله، فإذا قالوا: لا إله إلا الله عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا بحقها وحسابهم على الله ” فقال أبو بكر: والله لأقاتلن من فرق بين ما جمع رسول الله صلى الله عليه وسلم «ثم تابعه بعد عمر فلم يلتفت أبو بكر إلى مشورة إذ كان عنده حكم رسول الله صلى الله عليه وسلم في الذين فرقوا بين الصلاة والزكاة وأرادوا تبديل الدين وأحكامه» وقال النبي صلى الله عليه وسلم: «من بدل دينه فاقتلوه
اور ابو بکر نے زکات کے انکاریوں سے قتال کیا اور عمر نے کہا آپ کیسے قتال کر سکتے ہیں لوگوں سے اور بے شک رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہا ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے قتال کروں جب تک وہ لا
الہ الا اللہ نہ کہہ دیں اور جب کہہ دیں تو ان کا خوں اور مال مجھ سے بچ گئے سوائے حق کے اور ان کا حساب الله کے ذمے ہے پس ابو بکر نے کہا کہ الله کی قسم میں قتال کروں گا جو اس چیز میں فرق کرے جس پر رسول للہ نے جمع کیا پھر عمر ان کے تابع ہوئے اور ابو بکر نے ان سے مشورہ نہیں کیا کیونکہ ان کے پاس رسول الله کا حکم تھا ان کے لئے جو فرق کریں نماز اور زکات میں اور دین کو تبدیل کریں اور اس کے احکام کو اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جو دین بدلے اس کو قتل کرو
امام بخاری کے نزدیک ان قبائل نے دین کو تبدیل کیا اور اس وجہ سے مرتد قرار پائے
امام بخاری نے یہ موقف اس لئے اختیار کیا کیونکہ ان کے نزدیک عباسی خلفاء کا عقیدہ خلق قرآن غلط تھا انہوں نے اس پر کتاب خلق الافعال العباد بھی لکھی اور کہا جو خلق قرآن کا موقف رکھے وہ جھمی ہے اس کے پیچھے نماز نہیں ہو گی

یعنی کافر قرار دینا حکومت کا کام تھا جیسا ابو بکر رضی الله عنہ نے کیا – محدثین نے اس کوبدل کر اپنے لئے کر لیا جب دیکھا کہ عباسی خلفاء کا عقیدہ صحیح نہیں  اس کے بعد تکفیر کا باب کھل گیا ہر عالم دوسرے مخالف کو کافر کہنے لگا
یہاں تک کہ خوارج و شیعہ کو بھی کافر کہا گیا جبکہ یہ جملہ محدثین خود رافضی کی روایت صحیح میں لکھتے تھے
یہ تکفیر بازی کا امت میں ارتقاء ہے اس سے نکلنے کی سبیل نہیں ہے

[/EXPAND]

[صحیح بخاری میں کیا رافضیوں سے روایت لی گئی ہے ؟  جبکہ آج بعض علماء کہتے ہیں رافضی کافر ہیں]

جواب

صحیح بخاری میں کٹر رافضی سے روایت لی گئی ہے آج اس کو بدلا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ شیعہ اور تھے آج کے اور ہیں جبکہ یہ سب ان لوگوں کی خرافات ہیں رافضی کو کافر نہیں سمجھا جاتا تھا  اس کو بد مذھب کہا جاتا تھا  ان لوگوں سے سوال ہے کہ کیا  کافر کی روایت حدیث میں لی جاتی تھی  ؟

عباد بن یعقوب امام بخاری کے استاد ہیں کٹر رافضی ہیں

صَالِحٍ جَزَرَةَ، قَالَ: كَانَ عَبَّادٌ يَشْتِمُ عُثْمَان -رَضِيَ اللهُ عَنْهُ
صَالِحٍ جَزَرَةَ، کہتے ہیں یہ عثمان رضی الله عنہ کو گالیاں دیتے تھے

اب سنیے ان کا حال  سير أعلام النبلاء میں الذھبی لکھتے ہیں

القَاسِمُ المُطَرِّز، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَبَّادٍ بِالْكُوْفَةِ، وَكَانَ يَمْتَحِنُ الطَّلَبَةَ، فَقَالَ: مَنْ حَفَرَ البَحْرَ؟ قُلْتُ: اللهُ. قَالَ: هُوَ كَذَاكَ، وَلَكِنْ مَنْ حَفَرَهُ؟ قُلْتُ: يَذْكُرُ الشَّيْخُ، قَالَ: حَفرَهُ عَلِيٌّ، فَمَنْ أَجْرَاهُ؟ قُلْتُ: اللهُ. قَالَ: هُوَ كَذَلِكَ، وَلَكِن مَنْ أَجْرَاهُ؟ قُلْتُ: يُفِيْدُنِي الشَّيْخُ. قَالَ: أَجْرَاهُ الحُسَيْنُ، وَكَانَ ضَرِيْراً، فَرَأَيْتُ سَيْفاً وَحَجَفَةً (1) . فَقُلْتُ: لِمَنْ هَذَا؟ قَالَ: أَعْدَدْتُهُ لأُقَاتِلَ بِهِ مَعَ المَهْدِيِّ. فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنْ سَمَاعِ مَا أَرَدْتُ، دَخَلْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَنْ حَفَرَ البَحْرَ؟
قُلْتُ: حَفَرَهُ مُعَاوِيَةُ -رَضِيَ اللهُ عَنْهُ- وَأَجْرَاهُ عَمْرُو بنُ العَاصِ.

القَاسِمُ المُطَرِّز نے کہا میں عباد کے پاس کوفہ گیا اور یہ طلبہ کا امتحان لیتے تھے پس پوچھا کس نے سمندر کو گہرا کیا ؟ میں نے کہا الله نے – بولے یہ تو ہے لیکن کس نے گہرا کیا؟ میں نے کہا شیخ بتائیں بولے اس کو علی نے کھودا  – کس نے سمندر کو جاری کیا ؟ میں نے کہا الله نے – بولے یہ تو ہے لیکن کس نے جاری کیا ؟ میں نے کہا شیخ ہی فائدہ دیں بولے اس کو حسین نے جاری کیا اور عباد نابینا تھے میں نے ان کے پاس تلوار دیکھی تو پوچھا یہ کس لئے؟ بولے کہ امام مہدی کے ساتھ مل کر قتال کرنے کے لئے پس جب ان سے احادیث کا سماع کر لیا جن کے لئے ان کے پاس گیا تھا ان کے پاس گیا تو انہوں نے پھر پوچھا کس نے سمندر گہرا کیا ؟
میں نے کہا اس کو معاویہ نے کھودا اور عمرو بن العاص نے جاری کیا

امام الذہبی اس قصہ کے بعد کہتے ہیں إِسْنَادُهَا صَحِيْحٌ. اس کی اسناد صحیح ہیں  – امام بخاری نے بھی کیا یہ ٹیسٹ پاس کیا یا نہیں معلوم نہیں کیونکہ صحیح میں ان سے حدیث  لی گئی ہے

ابن خلفون المعلم میں لکھتے ہیں ابن حبان نے کہا
قال أبو حاتم البستي: عباد بن يعقوب أبو سعيد كوفي، كان رافضيًا داعية يروي المناكير.
عباد بن یعقوب ابو سعید الکوفی رافضی تھے داعی تھے اور مناکیر روایت کرتے تھے

ابو فتح کہتے ہیں
داعية إلى الرفض، وقد حمل عنه الناس على سوء مذهبه.
یہ رافضی داعی تھے اور لوگ ان کو بد مذھب لیتے تھے

الذهبي کہتے ہیں

وعنه البخاري حديثا في الصحيح مقرونا بآخر 
بخاری نے اس سے اپنی صحیح میں ایک حدیث قرؤنا روایت کی ہے
ميزان الاعتدال : 379/2  

مقرونا روایت کرنے سے مراد ہے کہ اس  کا ایک دوسرا طرق تھا لہذا اس راوی کی ضرروت نہیں رہی تھی لیکن پھر بھی امام بخاری نے اس کا ذکر کر دیا تاکہ دنیا جان لے کہ ان کے نزدیک بدعتی کی روایت جائز ہے الا کہ اس کی بدعت کے حق میں ہو

عدی بن ثابت کٹر رافضی ہیں ان سے صحیح بخاری میں ٢٨ روایات لی گئی ہیں
روى السلمي عن الدارقطني أنه رافضي
دارقطنی کہتے ہیں یہ رافضی تھے
ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق

وَقَالَ أَبُو حَاتِمٍ: صَدُوْقٌ، كَانَ إِمَامَ مَسْجِدِ الشِّيْعَةِ، وَقَاصَّهُم.
ابو حاتم کہتے ہیں صدوق ہیں شیعہ کی مسجد کے امام تھے ان کے قصہ گو تھے
سير أعلام النبلاء

اس میں علم حدیث کا اصول تھا کہ بدعتی کی روایت لی جائے گی الا یہ کہ وہ اس کی بدعت کے حق میں ہو اس کو کافر نہیں سمجھا جاتا تھا

ساتھ ہی معلوم ہوا کہ بعض کا یہ دعوی کہ صحیحین میں بدعت کبریٰ، یعنی بدعت مکفرہ کے مرتکب راوی کی کوئی روایت موجود نہیں باطل ہے – صحیح بات ہے کہ  بدعتی سے روایت لی گئی ہے البتہ صحیح  میں اس کی بدعت کی تقویت نہیں ہے

کتاب  خلق أفعال العباد میں امام بخاری کا  قول ناقل لکھتے ہیں

قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: «مَا أُبَالِي صَلَّيْتُ خَلْفَ الْجَهْمِيِّ الرَّافِضِيِّ أَمْ صَلَّيْتُ خَلْفَ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى، وَلَا يُسَلَّمُ عَلَيْهِمْ، وَلَا يُعَادُونَ، وَلَا يُنَاكَحُونَ، وَلَا يَشْهَدُونَ، وَلَا تُؤْكَلُ ذَبَائِحُهُمْ

ابو عبد الله نے کہا میں بے پرواہ ہوا اگر میں جھمی یا رافضی کے پیچھے نماز پڑھوں کہ میں یہودی و نصرانی کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہوں اور نہ میں ان کو سلام کروں نہ ان کی طرف جاؤں نہ ان سے نکاح کروں نہ ان کی شہادت لوں نہ ان کے ذبح پر توکل کروں

اس قول میں  ہے کہ امام بخاری ایک رافضی کی شہادت قبول نہیں کریں گے لیکن جامع الصحیح جو ان کی آخری کتاب ہے اس میں انہوں نے روافض کی شہادت حدیث رسول کے لئے لی ہے ان کو ثقہ سمجھا ہے جس سے ظاہر ہے انہوں نے اس قول سے رجوع کیا

[/EXPAND]

[محدثین ناصبی راویوں سے بھی روایت کرتے ہیں ؟ مثلا امام بخاری وغیرہ]

حریز بن عثمان علی رضی الله سے سخت بغض رکھتا تھا یہاں تک کہ سب و شتم بھی کرتا تھا۔ بشار عواد کتاب سیر الاعلام النبلاء میں ج 5، ص 579 کے حاشیے میں علامہ الذھبی کے قول پر لکھتے ہیں

وَقَال الذهبي في “الميزان”: كان متقنا ثبتا، لكنه مبتدع”، وَقَال في “الكاشف”: ثقة..وهو ناصبي”، وَقَال في “المغني”: ثبت لكنه ناصبي”، وَقَال في “الديوان”: ثقة لكنه ناصبي مبغض”
قال أفقر العباد أبو محمد بشار بن عواد محقق هذا الكتاب: لا نقبل هذا الكلام من شيخ النقاد أبي عَبد الله الذهبي، إذ كيف يكون الناصبي ثقة، وكيف يكون”المبغض”ثقة؟ فهل النصب وبغض أمير المؤمنين علي بن أَبي طالب بدعة صغرى أم كبرى؟ والذهبي نفسه يقول في “الميزان: 1 / 6″في وصف البدعة الكبرى: الرفض الكامل والغلو فيه، والحط على أبي بكر وعُمَر رضي الله عنهما، والدعاء إلى ذلك، فهذا النوع لا يحتج بهم ولا كرامة”أو ليس الحط على علي و”النصب”من هذا القبيل؟ وقد ثبت من نقل الثقات أن هذا الرجل كان يبغض عليا، وقد قيل: إنه رجع عن ذلك فإن صح رجوعه فما الذي يدرينا إنه ما حدث في حال بغضه وقبل توبته؟ وعندي أن حريز بن عثمان لا يحتج به ومثله مثل الذي يحط على الشيخين، والله أعلم.

الذہبی نے میزان الاعتدال میں کہا: یہ ثقہ و ثبت ہے، مگر بدعتی ہے۔ اور اپنی کتاب الکاشف میں کہا کہ یہ ثقہ ہے، اور ناصبی ہے۔ اور المغنی میں کہا کہ ثقہ ہے مگر ناصبی ہے۔ اور الدیوان یں کہا کہ ثقہ ہے مگر ناصبی اور بغض رکھتا ہے علی سے

اس پر أبو محمد بشار بن عواد نے تعلیق میں لکھا: میں فقیر بندہ ابو محمد بشار بن عواد، اس کتاب کا محقق، یہ کہتا ہوں: ناقدین کے شیخ الذہبی کا یہ کلام قابل قبول نہیں۔ کیسے ایک ناصبی ثقہ ہو سکتا ہے اور کیسے ایک بغض رکھنے والا ثقہ ہو سکتا ہے؟ کیا ناصبیت اور أمير المؤمنين علی سے بغض رکھنا بدعۃ صغری ہے یا کبری ؟ خود الذھبی نے الميزان: 1 / 6 میں لکھا ہے کہ بدعت کبری کیا ہے: وہ یہ ہے کہ کامل رفض اور اور اس میں غلو کرنا، اور ابو بکر اور عمر رضی الله عنہما کی توہین کرنا، اور اس کی طرف بلانا۔ اس قسم کے لوگوں سے آپ استدلال قائم نہیں کر سکتے اور ان کے لیے کوئی عزت نہیں- کیا علی کی توہین کرنا، اور اس میں ناصبی بن جانا اس قسم سے نہیں؟ یہ بات تو ثقہ لوگوں سے ثابت ہے کہ یہ شخص علی سے بغض رکھتا تھا۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ اس نے اس سے رجوع کر لیا تھا، اور بالفرض ہم یہ مان لیں، تو ان روایات کا کیا جو اس نے بغض کی حالت میں توبہ سے پہلے روایت کی تھیں؟ میری نظر میں اس شخص سے استدلال قائم نہیں کیا جا سکتا، اور یہ اسی شخص کی طرح ہے جو کہ ابو بکر اور عمر کی توہین کرے

ابن حجر اپنی کتاب تقریب التہذیب ،ج 1، ص 464 پر یوں درج کرتے ہیں

5681- لمازة بكسر اللام وتخفيف الميم وبالزاي ابن زباد بفتح الزاي وتثقيل الموحدة وآخره راء الأزدي الجهضمي أبو لبيد البصري صدوق ناصبي من الثالثة د ت ق

یعنی لمازة صدوق تھے اور ناصبی تھے

بشار عواد مشہور محقیقین میں سے ہیں۔ کئی کتابوں پر تحقیق بھی کی۔ ان میں سے ایک کا نام ہے، تهذيب الكمال في أسماء الرجال۔ اس کتاب کے ج 24، ص 252 پر اسی راوی کے بارے میں اپنے حاشیہ میں تحریر کرتے ہیں

“قلت: كيف يكون من ينصب العداء ويشتم علي بن أَبي طالب رضي الله عنه متدينا ومتمسكا بإمور الديانة وكيف يكون بغض علي بن أَبي طالب وسبه ديانة، هذا كلام لا يليق بالحافظ ابن حجر، إن كل من سب أحدا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم
فهو مبتدع ضال لا يحتج به ولا كرامة

میں یہ کہتا ہوں: کہ ایک شخص جو حضرت علی کی عداوت میں گھڑا ہوا ہو، اور ان کا سب و شتم کرے، وہ کیسے دینی امور کے ساتھ تمسک رکھ رہا ہے؟ کیسے ہو سکتا ہے کہ حضرت علی سے بغض رکھنا اور ان کی سب و شتم کرتا دین ہو؟ یہ کلام حافظ ابن حجر کے ساتھ جچتا نہیں۔ جو کسی ایک بھی صحابی کی توہین کرے، وہ بدعتی اور گمراہ ہے۔ اس سے دلیل نہیں لی جا سکتی اور نہ ہی اس کی کوئی عزت ہے

آگے اسی صفحے پر ہے
وَقَال ابن حجر في “التقريب”: صدوق ناصبي. قال بشار: لا يكون الناصبي صدوقا، بل هو ضعيف إن شاء الله.
ابن حجر نے اسے تقریب میں صدوق اور ناصبی کہا۔ بشار کہتے ہیں کہ ناصبی صدوق/سچے نہیں، بلکہ ضعیف ہیں

جواب

محدثین میں بدعتی کی روایت کو قبول و رد پر سن ٢٠٠ ہجری تک یہ بات معروف و مقبول ہوئی کہ اگر بدعتی اپنی بدعت کے حق میں روایت کرے تو رد کیا جائے گا
حَرِيزُ بْنُ عُثْمَانَ سے امام بخاری نے روایت نقل کی ہے
حَدَّثَنَا عِصَامُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا حَرِيزُ بْنُ عُثْمَانَ، أَنَّهُ سَأَلَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ بُسْرٍ صَاحِبَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَرَأَيْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ شَيْخًا؟ قَالَ: «كَانَ فِي عَنْفَقَتِهِ شَعَرَاتٌ بِيضٌ»
اس روایت میں نبی صلی الله علیہ وسلم کے بالوں کا ذکر ہے کہ چند سفید تھے

صحیح مسلم میں کوئی روایت نہیں ملی

الکامل از ابن عدی اور التاريخ الكبير از امام البخاری کے مطابق
قال أبو اليمان كان حريز يتناول رجلا يعني عليا ثم ترك
ابو الیمان نے کہا کہ یہ ایک شخص یعنی علی پر بھڑاس نکالتے پھر اس کو ترک کیا

لہذا حَرِيزُ بْنُ عُثْمَانَ کی ایسی روایت جس میں ناصبیت ہو رد ہو گی لیکن جس میں نہ ہو اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا صحیح بخاری میں خارجی سے بھی روایت لی گئی ہے اور شیعہ و رافضی سے بھی لیکن وہ ان کے بدعتی مذھب کے حق میں نہیں ہیں

معلوم ہوا کہ محدثین کے نزدیک اصول بن گیا تھا کہ بدعت کے حق میں روایت نہ لی جائے محض کسی بدعتی مذھب کا حصہ ہونے کی وجہ سے راوی کی مرویات رد نہیں ہوتیں

بشار عواد آج کے مورخ ہیں ان کی یہ رائے کہ ناصبی (یا رافضی اور خارجی بدعتی) کی روایت مطلقا رد کی جائے صحیح نہیں ہے

جو اصول جو ہم نے بیان کیا ہے وہ قدیم ہے اور اس طرح کے بہت سے اقوال امام احمد اور امام جوزجانی سے ثابت ہیں
اہل سنت اور محدثین میں ابو بکر اور عمر رضی الله عنہما کی فضیلت سب سے زیادہ ہے اس کے بعد باقی اصحاب رسول سب برابر ہیں
خود علی رضی الله عنہ ان دونوں کی فضیلت کے قائل تھے

اس بنا پر رفض کو عیب سمجھا جاتا ہے جو نصب سے بڑھ کر ہے اس بات کو بشار عواد سمجھ نہیں پائے اور تمام اصحاب رسول میں مراتب ختم کر کے سب کے ساتھ ایک سا رویہ اختیار کرنے کا کہہ رہے ہیں یہ بات اچھی ہے لیکن اصول حدیث کے قوانین آجکل نہیں بنائے جا سکتے یہ قدماء سے ملے ہیں- اس میں سب سے زیادہ شیعہ راویوں کا مسئلہ ہے جن کی تعداد بہت ہے ناصبی تو چند ہیں
بشار صاحب سے یہاں غلطی بھی ہوئی ہے ثقاہت کا تعلق حافظہ اور ضبط سے ہے بدعت سے نہیں ہے – ایک ثقہ راوی بھی بدعتی ہو سکتا ہے لہذا اگر وہ بدعت کی بات کرے تو رد ہو گی
اس سلسلے میں ایسی کوئی روایت پیش کی جائے جس میں علی کی تنقیص ہو راوی ناصبی ثقہ ہو اور کسی محدث نے اس روایت کو صحیح کہا ہو ورنہ بشار کی بات ہوا میں تیر چلانے اور باسی کڑی میں ابال کے مترادف ہے

امام احمد نے لمازہ کے لئے کہا صالح الحدیث ہے
وقال حرب بن إسماعيل الكرماني: سمعت أحمد بن حنبل يقول: كان أبو لبيد، صالح الحديث، وأثنى عليه ثناءً حسنًا. «الجرح والتعديل» 7/ (1033) .

ابن سعد نے کہا
قَالَ ابن سعد: سَمِعَ مِنْ عَلِيٍّ وَلَهُ أَحَادِيثُ صَالِحَةٌ، وَكَانَ ثِقَةٌ.
اس نے علی سے سنا ہے اور ان سے صالح راویات کرتا ہے اور یہ ثقہ ہے

یعنی باوجود علی پر سب و شتم کے اس نے علی رضی الله عنہ پر جو روایات منسوب کی ہیں وہ صالح ہیں ان میں ناصبیت نہیں ہے

تہذیب الکمال میں ہے کہ لمازہ کو علی سے بغض اس لئے تھا کہ علی اور ان کے لشکر نے اس کے رفقاء و اہل بیت کا قتل کیا
قَال موسى بْن إِسْمَاعِيل عن مطر بْن حمران: كنا عند أَبِي لبيد فقيل له: أتحب عليا؟ فَقَالَ: أحب عليا وقد قتل من قومي في غداة واحدة ستة آلاف
مطر بْن حمران نے کہا ہم لمازہ کے پاس تھے اس سے کہا تو علی سے محبت کرتا ہے ؟ اس نے کہا علی سے محبت اور اس نے میری قوم کے ٦٠٠٠ قتل کیے

قال الدَّارَقُطْنِيّ: كان منحرفًا عن علي عليه السلام، يقول كيف أحبه وقد قتل من أهلي في غزاة واحدة كذا وكذا؟. «المؤتلف والمختلف»
دارقطنی نے کہا لمازہ ، علی سے منحرف تھا کہتا تھا میں اس سے کیسے محبت کروں جس نے ایک غزوہ میں میرے اہل کا قتل ایسے ایسے کیا

بشتر ناصبییوں میں یہ بات مشترک ہے کہ ان کو علی رضی الله عنہ سے بغض ان کے بے مہار قتل پر تھا جس میں ان کے اہل عیال کا علی کے لشکر نے قتل کیا

ناصبی رآویوں کی خوبی یہ رہی ہے کہ باوجود علی سے بغض کے ان کی روایات میں اس کی جھلک نہیں ملتی اور ایسا ابھی تک نہیں دیکھا گیا کہ علی کی تنقیص کی روایت کو صحیح کہا گیا ہو

رافضی راویوں کی یہ برائی رہی کہ یہ اپنے اپ پر کنٹرول نہیں رکھ پاتے تھے اور اپنی بھڑاس روایت کی صورت نکالتے تھے

الذھبی میزان میں محمد بن زياد الالهانى الحمصي کے ترجمہ میں کہتے ہیں جن پر نصب کا الزام ہے
بلى غالب الشاميين فيهم توقف عن أمير المؤمنين علي رضي الله عنه من يوم صفين، ويرون أنهم وسلفهم أولى الطائفتين بالحق، كما أن الكوفيين – إلا من شاء ربك – فيهم انحراف عن عثمان وموالاة لعلى، وسلفهم شيعته وأنصاره، ونحن – معشر أهل السنة – أولو محبة وموالاة للخلفاء الاربعة، ثم خلق من شيعة العراق يحبون عثمان وعليا، لكن يفضلون عليا على عثمان، ولا يحبون من حارب عليا من الاستغفار لهم.فهذا تشيع خفيف.

بلا شبہ شامیوں پر غلبہ اس کا رہا کہ علی کے حوالے سے يوم صفين میں توقف کیا جائے اور وہ ان کو اور پچھلے سلف کو حق پر دیکھتے ہیں اور کوفی جو ہیں- اگر الله نے چاہا- تو ان میں عثمان سے انحراف ہے اور علی سے دوستی … اور ہم اہل سنت ہیں جو چار خلفاء سے محبت کرتے ہیں – پھر ایک خلق ہے عراق میں جو عثمان و علی دونوں سے محبت کرتی ہے لیکن علی کو عثمان پر فضلیت دیتی ہے اور ان سے محبت نہیں کرتی جنہوں نے علی سے جنگ کی کہ ان کی مغفرت طلب کرے اور یہ شیعیت خفیف ہے

یعنی نصب والے اتنا علی کو برا نہیں کہتے جتنا شیعہ اصحاب رسول کو کہتے ہیں ان میں شیعہ خفیف بھی تھے رافضی بھی تھے غالی بھی تھے اس تمام مجموعہ پر شیعہ بولا جاتا رہا ہے

[/EXPAND]

[انکار حدیث سے متعلق ایک روایت ہے]

المقدام بن معدي كرب سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا خبردار ہو سکتا ہے کہ ایک شخص ٹیک لگائے بیٹھا ہو اور میری حدیث سنے تو کہے الله کی کتاب ہمارے تمھارے درمیان ہے اس میں ہم حلال کو حلال مانیں گے اور جو اس میں حرام ہو گا اس کو حرام مانیں گے اور جو چیز رسول الله نے حرام کی وہ ایسی ہی ہے جسے الله نے حرام کی

کیا یہ صحیح روایت ہے

جواب

اس روایت کو، حاکم ،  ابن ماجہ اور ترمذی نے اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے – ان سب کی اسناد میں ان راویوں کا تفرد ہے

 معاوية بن صالح عن الحسن بن جابر اللخمي عن المقدام بن معدي كرب

اس کی سند میں راوی  الْحَسَن بْن جَابِر أَبُو عَبْد الرَّحْمَن الكندي الشامي  ہے جو مجھول ہے ابن حبان نے حسب روایت ثقات میں ذکر کیا ہے لیکن ان پر نہ جرح ہے نہ متقدمین کی تعدیل ہے ایسے راوی کو مجھول کہا جاتآ ہے

تہذیب الکمال کے محقق دکتور  بشار عواد معروف اس راوی پر  تعلیق میں لکھتے ہیں

 وَقَال الذهبي في “المجرد”: حمصي مستور

الذہبی نے المجرد  في أسماء رجال سنن ابن ماجه میں کہا ہے یہ حمص کا مستور ہے

یعنی مجھول راوی ہے

اس کی سند میں مُعَاوِيَةَ بنِ صَالِحٍ  بھی ہیں سیر الآعلام النبلاء از الذھبی ج ٧ ص ١٦٠ کے مطابق امام علی المدینی کہتے ہیں

قَالَ عَلِيُّ بنُ المَدِيْنِيِّ: سَأَلْتُ يَحْيَى بنَ سَعِيْدٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ بنِ صَالِحٍ، فَقَالَ: مَا كُنَّا نَأخُذُ عَنْهُ ذَلِكَ الزَّمَانَ وَلاَ حَرفاً.

میں نے يَحْيَى بنَ سَعِيْدٍ  سے مُعَاوِيَةَ بنِ صَالِحٍ پر سوال کیا انہوں نے کہا ہم اس سے روایت نہیں لیتے اس دور میں ایک حرف بھی نہیں

میزان الآعتدال از الذھبی کے مطابق

قال الليث بن عبدة، قال يحيى بن معين: كان ابن مهدي إذا حدث بحديث معاوية بن صالح زجره يحيى بن سعيد.

الليث بن عبدة کہتے ہیں يحيى بن معين کہتے ہیں جیسے ہی ابن مہدی،   معاوية بن صالح کی حدیث روایت کرتے ، يحيى بن سعيد ان کو ڈانٹتے

تاریخ الاسلام از الذھبی میں ہے قَالَ ابْن أَبِي حاتم: قَالَ أَبُو زرعة: ثقة محدّث.
وقال لِي أَبِي: حسن الحديث غير حُجّة

ابن ابی حاتم نے کہا أَبُو زرعة نے اس کو ثقہ محدث کہا لیکن میرے باپ نے کہا حسن الحدیث ہے حجت نہیں ہے

یعنی دلیل نہیں لی جا سکتی

ان علتوں کی بنا پر روایت اس طرق سے  ضعیف ہے اور متقدمین محدثین ان راویوں کی روایت  نا قابل استدلال سمجھتے تھے

عصر حاضر میں البانی، بن باز اور اہل حدیث علماء نے اس  طرق  کو بہت پسند کیا ہے

اس  روایت  کا ایک دوسرا طرق ہے جس کی سند مناسب ہے اور مسند احمد میں بیان ہوئی ہے

حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حَرِيزٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَوْفٍ الْجُرَشِيِّ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ الْكِنْدِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” أَلَا إِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ، أَلَا إِنِّي أُوتِيتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ، أَلَا يُوشِكُ رَجُلٌ يَنْثَنِي شَبْعَانًا  عَلَى أَرِيكَتِهِ يَقُولُ: عَلَيْكُمْ بِالْقُرْآنِ، فَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَلَالٍ فَأَحِلُّوهُ، وَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوهُ، أَلَا لَا يَحِلُّ لَكُمْ لَحْمُ الْحِمَارِ الْأَهْلِيِّ، وَلَا كُلُّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ، أَلَا وَلَا لُقَطَةٌ مِنْ مَالِ مُعَاهَدٍ إِلَّا أَنْ يَسْتَغْنِيَ عَنْهَا صَاحِبُهَا، وَمَنْ نَزَلَ بِقَوْمٍ، فَعَلَيْهِمْ أَنْ يَقْرُوهُمْ  ، فَإِنْ لَمْ يَقْرُوهُمْ، فَلَهُمْ أَنْ يُعْقِبُوهُمْ بِمِثْلِ قِرَاهُمْ

الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ الْكِنْدِيِّ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

خبردار مجھ کو کتاب اور اس کے مثل دیا گیا ہے خبردار مجھ کو کتاب اور اس کے مثل دیا گیا ہے

ممکن ہے کہ کوئی مال و دولت کے نشہ سے سرشار اپنے تخت پر بیٹھ کر یہ کہے کہ تمہارے پاس قرآن ہے  اس میں تم جو چیز حلال پاؤ اسے حلال سمجھو اور جو حرام پاؤ اسے حرام قرار دو۔ سُن لو! پالتو گدھے تمہارے لئے حلال نہیں (اسی طرح) درندوں میں سے کچلی والے بھی (حلال نہیں) اور معاہد (ذمی) کی گری پڑی چیز بھی حلال نہیں الا یہ کہ اس کا یہ مالک اس سے بے نیاز ہوجائے اور جو شخص کسی قوم کے ہاں مہمان ٹھہرے تو اس کی ضیافت و اکرام ان پر فرض ہے اگر وہ اس کی مہمان نوازی نہ کریں تو وہ اپنی مہمان نوازی کے بقدر ان سے لے سکتا ہے۔

اس پر دکتور شعيب الأرنؤوط اس روایت کے تحت  کہتے ہیں

قلت: كأنه أراد به العرض لقصد رد الحديث بمجرد أنه ذُكر فيه ما ليس في الكتاب، وإلا فالعرض لقصد الفهم والجمع والتثبت لازم

میں کہتا ہوں  کہ گویا اس ( حدیث) کو (قرآن پر)  پیش کرنے کا مقصد مجرد حدیث کو رد کرنا ہے کہ اس میں اس چیز کا ذکر ہے جو کتاب الله میں نہیں (تو یہ صحیح نہیں) لیکن اگر پیش کرنا  فہم اور جمع اور اثبات کے لئے ہو تو یہ لازم ہے

 -حدیث رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا قول و فعل ہے- اس میں احکام نبوی، وحی کی نوع کے ہیں کیونکہ قرآن  کی تعبیر و تشریح  کرنا الله کا کام ہے- رسول شریعت نہیں بناتے وہ الله کی جانب سے انے والے احکام کی تشریح کرتے ہیں جو الله کی طرف سے  رسول الله کو سمجھائی گئی

لہذا جب ایک بات رسول الله کی ہو تو اس کا انکار بھی کفر ہے

گمراہ فرقوں کی جانب سے اعتراض کیا جاتا ہے کہ عود روح حدیث میں آیا ہے لہذا اس کی روایت کو قرآن پر پیش نہیں کرنا چاہیئے اور قبول کرنا چاہیے لیکن یہ بات درست نہیں قرآن میں واضح طور پر امسک روح کا ذکر ہے کہ روح کو روک لیا جاتا ہے لہذا اس کو واپس جسد میں ڈالنے والی روایت صحیح نہیں

ابن حبان کے مطابق عود روح والی روایت کی سند میں ہی گھپلا ہے ذھبی اس کو نکارت و غرابت سے بھر پور قرار دیتے ہیں

مثل معہ والی روایت میں قابل اثر لوگوں کا حلال و حرام میں دخل بتایا گیا ہے جو قابل اعتراض ہے

أبو بسطام شعبة بن الحجاج بن الورد المتوفي ١٦٠ هجري کے نزدیک المنھال بن عمرو متروک تھا لہذا یہ عود روح کا عقیدہ اس دور میں  محدثین رد کر چکے تھے 

محدث خراسان محمد بن محمد بن أحمد بن إسحاق النيسابوري الكرابيسي ، الحاكم الكبير المتوفی ٣٧٨ھ   ، مؤلف كتاب  الكنى کہتے تھے کہ زاذآن کی روایت اہل علم کے نزدیک مظبوط نہیں ہے

کیا یہ اہل علم ، حدیث رسول کے مخالف تھے  جو انہوں نے عود روح کی روایت کے راویوں کو ہی رد کر دیا؟

[/EXPAND]

[کیا سند دے کر محدثین بری الزمہ ہوئے؟]

کیا یہ کہنا صحیح ہے کہ اگر کسی محدث نے حدیثوں کی سند بیان کردی تو وہ بری الذمہ ہوجاتا ہے بعد میں اگر کوئی دوسرا محدث آئے اور اس سند میں کسی ضعف کی کوئی نشاندھی کرے تو یہ ” الدین نصیحۃ” کے بالکل مطابق ہے جیسے علامہ احمد شاکر رحمۃ اللہ جو البانی رحمۃ اللہ سے بہت پہلے کے جید محدث تھے انہوں نے “تفسیر ابن کثیر” اور “مسند امام احمد” پر تخریج کی مگر مکمل نہ کرسکے اور وفات پا گئے اس میں انہوں نے تفسیر ابن کثیر اور مسند احمد سے لاتعداد ضعیف احادیث کی نشاندہی کی تھی۔

اب اس کا یہ مطلب نہیں کہ بعد میں آنے والا محدث ایک پرانے محدث پر برتری قائم کررہا ہے
بلکہ علمی و اصولی حقیقت یہ ہے کہ :
ایک محدث نے حدیثوں کی سندیں جمع کرکے بہت بڑا کام کیا ہےتو دوسرے نے اس پر حکم لگا کر بھی ایک بہت بڑا کام کیا ہے اور دونوں بری الذمہ ہیں۔

جواب

امام احمد کے شاگردوں نے ان سے سوالات کیے ان کے بیٹے نے کیے جس سے علل کی کتاب بنی ہے لہذا راقم سمجھتا ہے وہ اپنے نزدیک ایک ضخیم مسند لکھ رہے تھے ان کو اس سے کوئی سروکار نہیں تھا کہ یہ کتنی حجم کی ہو گی وہ بس اصحاب رسول کی لسٹ پر روایات جمع کرتے جا رہے تھے

راویوں سے متعلق ان کی آراء مسند میں چند روایات پر ہیں تمام پر نہیں اس لئے علل احمد کو دیکھنا پڑتا ہے کیا یہ روایت ان کے نزدیک صحیح ہے یا نہیں اس میں ہر دفعہ راوی پر مکمل تبصرہ نہیں ملتا جس کو جرح و تعدیل قراردیا جا سکے لہذا بہت سی روایات پر معلوم نہیں ان کی اصل رائے کیا تھی

لہذا یہ کہنا کہ یہ ائمہ اس میں بری الزمہ ہوئے صحیح نہیں یہ ان کو بچانے کا قول ہے

ایک روایت اگر ضعیف ہے تو پہلے صحیح کیسے ہوئی؟ مثلا امام ابو داود نے ایک خط اہل مکہ کو لکھا اس میں اس قدر مبہم باتیں کیں اس میں ابو داود کہتے ہیں کہ میں جس روایت پر سنن میں ضعیف راوی لیا ہے وہاں میں نے وضاحت کر دی ہے اور جس پر میں خاموش رہو وہ میرے نزدیک اصح ہے
وَمَا كَانَ فِي كتابي من حَدِيث فِيهِ وَهن شَدِيد فقد بَينته وَمِنْه مَالا يَصح سَنَده
أور ميري كتاب میں جو حدیث ہے جس میں کمزوری شدید ہو اس کی میں نے وضاحت کر دی ہے اور اس میں ہیں جن کی سند صحیح نہیں
اور کہا
مَا لم أذكر فِيهِ شَيْئا فَهُوَ صَالح
اور جس پر میں نے کوئی ذکر نہیں کیا وہ صالح (اچھی) ہیں

ابن عبد البر المتوفی ٤٦٣ ھ  نے  لکھا

كُلُّ ما سكت عليه أبو داود، فهو صحيح عنده، لا سيما إن كان لا يذكر في الباب غيره

ہر وہ روایت جس پر ابو داود خاموش رہیں وہ ان کے نزدیک صحیح ہے 

بحوالہ  ابن حجر العسقلاني في النكت على مقدمة ابن الصلاح

تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي کے مطابق ایک محدث ابن رشید کہتے

بِأَنَّ مَا سَكَتَ عَلَيْهِ قَدْ يَكُونُ عِنْدَهُ صَحِيحًا وَإِنْ لَمْ يَكُنْ كَذَلِكَ عِنْدَ غَيْرِهِ

ہر وہ حدیث جس پر ابو داود چپ رہیں وہ ان کے نزدیک صحیح ہے اور دوسروں کے نزدیک نہیں

 

متاخرین نے ابو داود کے الفاظ کا مطلب صالح  سے الاعتبارحجة لیا ہے مثلا  محمد زاهد الكوثريُّ وغیرہ

بحوالہ عبد الفتاح أبو غدة في تحقيقه على “رسالة أبي داود” ضمن الرسائل الثلاث

یہ روایات صالح للاستشهاد ہیں یہ قول امام النووی المتوفی ٦٧٦ ھ  اور ابن حجر المتوفي ٨٥٢ ھ  کا بھی ہے

لہذا ایک اہل حدیث مولوی  صاحب کا کہنا ہے کہ متقدمین کے نزدیک صالح سے مراد صحیح نہیں ہوتا بلکہ ان کی مراد ہے صالح للاستشہاد والاعتبار، یعنی صالح روایت ضعیف ہو سکتی ہے۔ اور امام ابو داود کے الفاظ بھی اسی پر دلالت کرے ہیں کہ اگر روایت میں شدید ضعف ہو گا تو وہ بیان کریں گے اور اگر کم ضعف ہو گا تو سکوت اختیار کریں گے اور صالح سے مراد ان کی یہی روایت ہے۔

راقم کہتا ہے یہ بات ثابت نہیں جیسا کہ سلف میں  ابن عبد البر نے کہا کہ ابو داود  نے یہ لفظ صحیح کے لئے بولا ہے نہ کہ اعتبار کے لئے لیکن جب متاخرین نے دیکھا کہ ابو داود کی سنن میں ایسا نہیں ہے تو انہوں نے خود نیا مفھوم نکالا جو سلف سے منقول نہیں تھا

آج البانی نے سنن کو دو میں کر دیا ہے سنن ابو داود صحیح اور سنن ابو داود ضعیف جس میں سنن ابوداود ضعیف میں ٩٣٢ روایات ہیں

امام ابو داود کا خط مسلمہ ہے کہ انہی کا ہے اس کو علم حدیث پڑھنے والا ہر عالم جانتا ہے

إمام ابو داود نے ان ٩٠٠ سے اوپر روایات میں صرف چار پر ہی منکر کا حکم لگایا ہے اور ایک کو ضعیف کہا ہے
گویا ١٢٠٠ سال تک امت کو ابو داود کا یہ خط گمراہ کرتا رہا کہ یہ روایات ان کے نزدیک صالح ہیں اور پھر جناب البانی نے جنم لیا اور ٩٠٠ روایات کو سنن ابو داود کی ضعیف کہہ دیا -کہاں ٤ روایات اور کہاں ٩٣٢ روایات

ابو داود کے الفاظ کے مطابق اگر روایت میں شدید ضعف ہو گا تو وہ بیان کریں گے اور اگر کم ضعف ہو گا تو سکوت کریں گے- لیکن ایسا نہیں ہے انہوں نے شدید ضعیف کو بھی چھوڑ دیا ہے -کسی روایت کو منکر کہنا محدث کی شدید جرح ہے- یعنی شدید ضعیف روایت کو بھی چھوڑ دیا گیا ہے شعَيب الأرنؤوط – محَمَّد كامِل قره بللي نے سنن ابو داود پر تحقیق میں ٢١ روایات کو منکر قرار دیا ہے

الذھبی نے سیر الاعلام النبلاء میں اس پر کہا

اگر ابو داود پھر بھی خاموش رہتے  ہیں تو اس کی وجہ اس  روایت کے ضعف کی شہرت و نکارت ہوتی ہے

یہ تماشہ نہیں تو اور کیا ہے -ہمارے محدثین ضعیف روایات کا انبار جمع کر گئے جس پر انہوں نے اصح یا صالح کا حکم لگآیا تھا آج البانی نے ضعیف کہہ دیا

راقم کہتا ہے البانی نے صحیح کیا ہے یہ ضعیف ہی تھیں لہذا ابو داود کا خط ایک طرح لوگوں کو گمراہ کر گیا

[/EXPAND]

[محدثین روایات میں علمی خیانت کرتے تھے ]

سنن ابو داود کی روایت ہے

سنن أبي داؤد: كِتَابُ السُّنَّةِ (بَابٌ فِي الْخُلَفَاءِ) سنن ابو داؤد: کتاب: سنتوں کا بیان

(باب: خلفاء کا بیان)

4648 . حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ عَنِ ابْنِ إِدْرِيسَ، أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ وَسُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ الْمَازِنِيِّ ذَكَرَ سُفْيَانُ رَجُلًا فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ الْمَازِنِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ فُلَانٌ إِلَى الْكُوفَةِ، أَقَامَ فُلَانٌ خَطِيبًا، فَأَخَذَ بِيَدِي سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ، فَقَالَ: أَلَا تَرَى إِلَى هَذَا الظَّالِمِ، فَأَشْهَدُ عَلَى التِّسْعَةِ إِنَّهُمْ فِي الْجَنَّةِ، وَلَوْ شَهِدْتُ عَلَى الْعَاشِرِ لَمْ إِيثَمْ!-. قَالَ ابْنُ إِدْرِيسَ, وَالْعَرَبُ: تَقُولُ: آثَمُ-، قُلْتُ: وَمَنِ التِّسْعَةُ؟ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وَهُوَ عَلَى حِرَاءٍ: >اثْبُتْ حِرَاءُ! إِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيقٌ أَوْ شَهِيدٌ<، قُلْتُ: وَمَنِ التِّسْعَةُ؟ قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، َأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَطَلْحَةُ، وَالزُّبَيْرُ، وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ. قُلْتُ: وَمَنِ الْعَاشِرُ؟ فَتَلَكَّأَ هُنَيَّةً، ثُمَّ قَالَ: أَنَا. قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ الْأَشْجَعِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ عَنِ ابْنِ حَيَّانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ بِإِسْنَادِهِ نَحْوَهُ.

حکم : صحیح

جناب عبداللہ بن ظالم مازنی سے روایت ہے ، انہوں نے کہا کہ میں نے سیدنا سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ سے سنا ، انہوں نے کہا : جب فلاں کوفے میں آیا اور اس نے فلاں کو خطبے میں کھڑا کیا ( عبداللہ نے کہا ) تو سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے میرے ہاتھ دبائے اور کہا : کیا تم اس ظالم ( خطیب ) کو نہیں دیکھتے ہو ، ( غالباً وہ خطیب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کچھ کہہ رہا تھا ۔ ) میں نو افراد کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ جنتی ہیں ، اگر دسویں کے بارے میں کہوں تو گناہ گار نہیں ہوں گا ۔ ابن ادریس نے کہا عرب لوگ «آثم» کا لفظ بولتے ہیں ( جبکہ سیدنا سعید نے «لم إيثم» ) ۔ عبداللہ کہتے ہیں ، میں نے پوچھا : وہ نو افراد کون سے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حراء پر کھڑے ہوئے تھے : ” اے حراء ٹھر جا ! تجھ پر سوائے نبی کے یا صدیق کے یا شہید کے اور کوئی نہیں ہے ۔ “ میں نے کہا اور وہ نو کون کون ہیں ؟ کہا : رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر ، عمر ، عثمان ، علی ، طلحہ ، زبیر ، سعد بن ابی وقاص ، ( مالک ) اور عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہم ۔ میں نے پوچھا اور دسواں کون ہے ؟ تو وہ لمحے بھر کے لیے ٹھٹھکے پھر کہا میں ۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو اشجعی نے سفیان سے ، انہوں نے منصور سے ، انہوں نے ہلال بن یساف سے ، انہوں نے ابن حیان سے ، انہوں نے عبداللہ بن ظالم سے اسی کی سند سے مذکورہ بالا کی مانند روایت کیا ہے ۔

دو جگہ فلاں کا لفظ استعمال ہوا – کیا دونوں جگہ مرد مغیرہ رضی الله عنہ ہیں یا دوسرا فلاں کسی اور کے لئے استعمال ہوا

اور دوسری بات کہ کیا امام ابو داوود رحم الله اتنے سادے تھے کہ ایک بندہ اتنی ضروری حدیث بیان کر رہا ہے اور اس کی سند میں فلاں فلاں کا لفظ استعمال کر رہا ہے تو وہ اپنی کتاب میں فلاں فلاں لکھ رہے ہیں

فلاں فلاں سے کون مراد ہے – یہاں امام ابو داوود رحم الله نے نام کیوں نہیں لیا

جواب

سنن الکبری میں یہ روایت 8148 اس طرح ہے

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ حَصِينٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ قَالَ: خَطَبَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ فَسَبَّ عَلِيًّا فَقَالَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ: أَشْهَدُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: «اثْبُتْ حِرَاءُ، فَإِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ، أَوْ صِدِّيقٌ، أَوْ شَهِيدٌ» وَعَلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَطَلْحَةُ، وَالزُّبَيْرُ وَسَعْدُ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ، وَسَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ هِلَالُ بْنُ يَسَافٍ لَمْ يَسْمَعْهُ مِنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ.

اس میں شعبہ نے نام لیا ہے

اور دوسری سند ہے
– أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ قَالَ: أَخْبَرَنَا حَصِينٌ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ، وَعَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ، وَذَكَرَ سُفْيَانُ رَجُلًا فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ مُعَاوِيَةُ الْكُوفَةَ أَقَامَ مُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ خُطَبَاءَ يَتَنَاوَلُونَ عَلِيًّا فَأَخَذَ بِيَدِي سَعِيدَ بْنَ زَيْدٍ فَقَالَ: «أَلَا تَرَى هَذَا الظَّالِمَ الَّذِي يَأْمُرُ بِلَعْنِ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَأَشْهَدُ عَلَى التِّسْعَةِ أَنَّهُمْ فِي الْجَنَّةِ وَلَوْ شَهِدْتُ عَلَى الْعَاشِرِ قُلْتُ مَنِ التِّسْعَةُ» قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَهُوَ عَلَى حِرَاءٍ: «اثْبُتْ إِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ، أَوْ صِدِّيقٌ، أَوْ شَهِيدٌ» قَالَ: وَمَنِ التِّسْعَةُ؟ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَطَلْحَةُ، وَالزُّبَيْرُ، وَسَعْدٌ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ» قُلْتُ: مَنِ الْعَاشِرُ قَالَ: «أَنَا»

ابو داود کی روایت ہے

حدَّثنا محمدُ بنُ العلاء، عن ابن إدريس، أخبرنا حُصينٌ، عن هلال بن يِسافٍ، عن عبدِ الله بن ظالم. وسفيانُ، عن منصورٍ، عن هلالِ بنِ يِسافِ، عن عبدِ الله بن ظالم المازنيِّ -ذكر سفيانُ رجلاً فيما بينه وبين عبد الله ابن ظالم المازنيِّ-
سمعتُ سعيدَ بنَ زيدِ بنِ عمرِو بنِ نُفَيلٍ قال: لَمَّا قَدِمَ فلانٌ إلى الكوفة أقام فلانٌ خطيباً، فأخذ بيدي سعيدُ بنُ زيدٍ، فقال: ألا ترى
إلى هذا الظالم، فأشهَدُ على التسعةِ إنَّهم في الجنَّة، ولو شَهِدْتُ على العاشر لم إيثَمْ (1) قال ابن إدريس: والعرب تقول: آثم – قلت: ومَنِ التِّسعةُ؟ قال: قال رسولُ الله-صلى الله عليه وسلم- وهو على حراء: “اثبُتْ حراء، إئه ليس عليك إلا نبي أو صِدِّيق أو شهيدْ” قلت: ومَنِ التسعة؟ قال: رسولُ الله-صلى الله عليه وسلم-، وأبو بكرٍ، وعُمرُ، وعثمانُ، وعلي، وطلحةُ، والزبيرُ، وسعدُ بن أبي وقاصٍ، وعبد الرحمن بن عوفٍ، قلت: ومَن العاشرُ، قال: فتلكَّأ هُنيَّةً، ثم قال: أنا (2).
قال أبو داود: رواه الأشجعيُّ، عن سفيان، عن منصور، عن هلال ابن يساف، عن ابن حيَّان، عن عبدِ الله بن ظالم، بإسناده نحو معناه.

لہذا یہ نام نہ لینا ابو داود کا عمل لگتا ہے

نام کو فلاں سے بدلنے میں قباحت نہیں ہے کیونکہ نام شروع میں موجود ہے اور واضح ہے کہ مغیرہ رضی الله عنہ پر کلام ہو رہا ہے جو بھی اس حدیث کو پڑھے گا سمجھ جائے گا

واضح رہے کہ یہ روایت ضعیف ہے

[/EXPAND]

[محدثین کا نام کو فلاں سے بدلنے کی دوسری مثال  پر سوال ہے ؟]

سنن ابو داود کی روایت ہے

سنن أبي داؤد: کِتَابُ تَفْرِيعِ أَبْوَابِ الْجُمُعَةِ (بَابُ الْخُطْبَةِ يَوْمَ الْعِيدِ) سنن ابو داؤد: کتاب: جمعۃ المبارک کے احکام ومسائل

(باب: عید کے روز خطبہ)

. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ رَجَاءٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ حديث، وَعَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: أَخْرَجَ مَرْوَانُ الْمِنْبَرَ فِي يَوْمِ عِيدٍ، فَبَدَأَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ، فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا مَرْوَانُ! خَالَفْتَ السُّنَّةَ! أَخْرَجْتَ الْمِنْبَرَ فِي يَوْمِ عِيدٍ, وَلَمْ يَكُنْ يُخْرَجُ فِيهِ، وَبَدَأْتَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ! فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ، فَقَالَ: أَمَّا هَذَا فَقَدْ قَضَى مَا عَلَيْهِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُول:ُ >مَنْ رَأَى مُنْكَرًا فَاسْتَطَاعَ أَنْ يُغَيِّرَهُ بِيَدِهِ, فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ, فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ, وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِأَشَاهِدٌ فُلَانٌ؟أَشَاهِدٌ فُلَانٌ؟إِنَّ هَاتَيْنِ الصَّلَاتَيْنِ أَثْقَلُ الصَّلَوَاتِ عَلَى الْمُنَافِقِينَ، وَلَوْ تَعْلَمُونَ مَا فِيهِمَا لَأَتَيْتُمُوهُمَا وَلَوْ حَبْوًا عَلَى الرُّكَبِ، وَإِنَّ الصَّفَّ الْأَوَّلَ عَلَى مِثْلِ صَفِّ الْمَلَائِكَةِ، وَلَوْ عَلِمْتُمْ مَا فَضِيلَتُهُ لَابْتَدَرْتُمُوهُ، وَإِنَّ صَلَاةَ الرَّجُلِ مَعَ الرَّجُلِ أَزْكَى مِنْ صَلَاتِهِ وَحْدَهُ، وَصَلَاتُهُ مَعَ الرَّجُلَيْنِ أَزْكَى مِنْ صَلَاتِهِ مَعَ الرَّجُلِ، وَمَا كَثُرَ فَهُوَ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى<.

جواب

کتاب ایمان ابن مندہ 180 کی سند ہے جو ابو داود جیسی ہے

أَنْبَأَ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ الشَّيْبَانِيُّ، ثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُلَيْمَانَ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ نَحْوَهُ، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ: وَحَدَّثَنِي أَبِي، ثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ طَرِيفٍ، قَالَا: ثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ [ص:342] رَجَاءٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، وَعَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: أَخْرَجَ مَرْوَانُ الْمِنْبَرَ فِي يَوْمِ عِيدٍ، وَبَدَأَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ، فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا مَرْوَانُ خَالَفْتَ السُّنَّةَ أَخْرَجْتَ الْمِنْبَرَ فِي يَوْمِ عِيدٍ، وَلَمْ يَكُنْ يَخْرُجُ، وَبَدَأْتَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ، وَلَمْ يَكُنْ يُبْدَأُ بِهَا، فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ: مَنْ هَذَا؟، فَقَالُوا: هَذَا فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ، فَقَالَ: أَمَّا هَذَا فَقَدْ قَضَى مَا عَلَيْهِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَاسْتَطَاعَ أَنْ يُغَيِّرَهُ بِيَدِهِ فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ»

اس میں فلاں بن فلاں کی جگہ مروان کا نام لکھا ہے

مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ رَجَاءٍ [ص:127]، عَنْ أَبِيهِ، وَعَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، كِلَاهُمَا عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: أَخْرَجَ مَرْوَانُ الْمِنْبَرَ فِي يَوْمِ عِيدٍ، وَلَمْ يَكُنْ يُخْرَجُ بِهِ، وَبَدَأَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ، وَلَمْ يَكُنْ يُبْدَأُ بِهَا، قَالَ: فَقَامَ رَجُلٍ فَقَالَ: يَا مَرْوَانُ خَالَفْتَ السُّنَّةَ، أَخْرَجْتَ الْمِنْبَرَ فِي يَوْمِ عِيدٍ، وَلَمْ يَكُ يُخْرَجُ بِهِ فِي يَوْمِ عِيدٍ، وَبَدَأْتَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ، وَلَمْ يَكُنْ يُبْدَأُ بِهَا قَالَ: فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ قَالَ: فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ: أَمَّا هَذَا فَقَدْ قَضَى مَا عَلَيْهِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَإِنْ اسْتَطَاعَ أَنْ يُغَيِّرَهُ بِيَدِهِ فَلْيَفْعَلْ» وَقَالَ مَرَّةً: «فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ بِيَدِهِ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ بِلِسَانِهِ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ»

اور
11492 – حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ رَجَاءٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: أَوَّلُ مَنْ أَخْرَجَ الْمِنْبَرَ يَوْمَ الْعِيدِ مَرْوَانُ، وَأَوَّلُ مَنْ بَدَأَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ، فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا مَرْوَانُ خَالَفْتَ السُّنَّةَ، أَخْرَجْتَ الْمِنْبَرَ وَلَمْ يَكُ يُخْرَجُ، وَبَدَأْتَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ، قَالَ: أَمَّا هَذَا، فَقَدْ قَضَى مَا عَلَيْهِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ رَأَى مُنْكَرًا، فَإِنْ اسْتَطَاعَ أَنْ يُغَيِّرَهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ»

یہاں امام احمد نے نام کو فلاں بن فلاں میں لکھا ہے

سنن الکبری بیہقی میں ہے
وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ بِشْرَانَ بِبَغْدَادَ , أنبأ إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَفَّانَ، ثنا ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ رَجَاءٍ، عَنْ أَبِيهِ، ح وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، وَأَبُو سَعِيدِ بْنُ أَبِي عَمْرٍو قَالَا: ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ , ثنا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ، ثنا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ رَجَاءٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَعَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: أَخْرَجَ مَرْوَانُ الْمِنْبَرَ فِي يَوْمِ عِيدٍ وَبَدَأَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ , فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: [ص:417] يَا مَرْوَانُ خَالَفْتَ السُّنَّةَ , أَخْرَجَتَ الْمِنْبَرَ فِي يَوْمِ عِيدٍ وَلَمْ يَكُنْ يُخْرَجُ بِهِ، وَبَدَأْتَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ وَلَمْ يَكُنْ يُبْدَأُ بِهَا، قَالَ: فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ مَنْ هَذَا قَالُوا: فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ , فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ: أَمَّا هَذَا فَقَدْ قَضَى مَا عَلَيْهِ , سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” مَنْ رَأَى مُنْكَرًا فَاسْتَطَاعَ أَنْ يُغَيِّرَهُ بِيَدِهِ فَلْيُغَيِّرْهُ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ بِيَدِهِ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ بِلِسَانِهِ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ

راقم کی رائے میں یہ کام اعمش کا لگتا ہے کیونکہ ان تین مختلف کتابوں میں میں یہی ایک راوی ہیں جن کے شاگرد الگ ہیں لہذا اگر کوئی تبدیلی آئی تو ممکن ہے ان کی وجہ سے ہو یہ نہیں ہو سکتا کہ امام احمد ، ابو داود اور بیہقی جان بوجھ کر ایک ہی مقام پر ایک ہی روایت میں نام چھپا دیں

اعمش خود کوفہ کے شیعہ ہیں لہذا یہ نام کیوں چھپائیں گے ؟ راقم کی رائے میں نام کو چھپایا نہیں گیا ہے فلاں کہہ کر بس اختصار کیا گیا ہے کیونکہ نام شروع سے آ رہا ہے اس میں ابہام نہیں ہے کہ یہ مروان پر کلام ہے

اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ نام چھپایا گیا ہے تو اس کو مغالطہ ہوا ہے جیسا کہ اوپر اسناد دیکھنے سے واضح ہو جاتا ہے

[/EXPAND]

[امام بخاری نے روایت نام کو فلاں سے بدلا؟]

صحيح البخاري: كِتَابُ المُحَارِبِينَ مِنْ أَهْلِ الكُفْرِ وَالرِّدَّةِ (بَابُ رَجْمِ الحُبْلَى مِنَ الزِّنَا إِذَا أَحْصَنَتْ) صحیح بخاری: کتاب: ان کفار و مرتدوں کے احکام میں جو مسلمان سے لڑتے ہیں

(باب : اگر کوئی عورت زنا سے حاملہ پائی جائے اور وہ شادی شدہ ہو تو اسے رجم کریں گے)

6830 . حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ صَالِحٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كُنْتُ أُقْرِئُ رِجَالًا مِنْ الْمُهَاجِرِينَ مِنْهُمْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فَبَيْنَمَا أَنَا فِي مَنْزِلِهِ بِمِنًى وَهُوَ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي آخِرِ حَجَّةٍ حَجَّهَا إِذْ رَجَعَ إِلَيَّ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَقَالَ لَوْ رَأَيْتَ رَجُلًا أَتَى أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ

پوچھنا یہ ہے کہ اس حدیث میں جو یہ لکھا ہوا ہے

فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ هَلْ لَكَ فِي فُلَانٍ يَقُولُ لَوْ قَدْ مَاتَ عُمَرُ لَقَدْ بَايَعْتُ فُلَانًا فَوَاللَّهِ مَا كَانَتْ بَيْعَةُ أَبِي بَكْرٍ إِلَّا فَلْتَةً

اے امیرالمؤمنین! کیا آپ فلاں صاحب سے یہ پوچھ تاچھ کریں گے جو یہ کہتے ہیں کہ اگر عمر کا انتقال ہوگیا تو میں فلاں سے بیعت کروں گا کیوں کہ واللہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بغیر سوچے سمجھے بیعت تو اچانک ہوگئی اور پھر وہ مکمل ہوگئی تھی

جواب

اس میں فلاں سے مراد زبیر رضی الله عنہ ہیں بحوالہ فتح الباري (ج ١ / ص ٣٣٨) پر اور إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري از قسطلانی میں ہے

قد مَاتَ عمر لقد بَايَعت فلَانا فِي مُسْند الْبَزَّار والجعديات بِإِسْنَاد ضَعِيف أَن المُرَاد بِالَّذِي يُبَايع لَهُ طَلْحَة بن عبيد الله وَلم يسم الْقَائِل وَلَا النَّاقِل ثمَّ وجدته فِي الْأَنْسَاب للبلاذري بِإِسْنَاد قوي مِنْ رِوَايَةِ هِشَامِ بْنِ يُوسُفَ عَنْ مَعْمَرٍ عَنِ الزُّهْرِيّ بِالْإِسْنَادِ الْمَذْكُور فِي الأَصْل وَلَفظه قَالَ عمر بَلغنِي أَن الزبير قَالَ لَو قد مَاتَ عمر بَايعنَا عليا الحَدِيث فَهَذَا أصح

ابن حجر کے مطابق انساب البلازری میں ان صحابی کا نام موجود ہے

البتہ کتاب مصابيح الجامع از ابن الدماميني (المتوفى: 827 هـ) کے مطابق

وفلانٌ المشارُ إليه بالبَيْعة هو طلحةُ بنُ عُبيد الله، وقع ذلك في “فوائد البغوي” عن عليِّ بنِ الجعد، قاله (1) ابن بشكوال (2)، وهو في “مسند البزار” فيما رواه أسلم (3) مولى عمر عن عمر

یہ طلحةُ بنُ عُبيد الله رضی الله عنہ ہیں

اصل میں امام بخاری کی روایت کی کچھ شرط ہے جن میں نام ہے وہ بہت اچھی سند نہیں ہیں جن میں فلاں ہے وہ سند صحیح تھی لہذا اس کو لکھا گیا

راقم اس سے اتفاق نہیں کرتا کہ امام بخاری نے نام کو فلاں سے بدل دیا

[/EXPAND]