بریدہ اسلمی کی وصیت

صحیح بخاری   کی روایت ہے

حدیث نمبر: 218  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَازِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُجَاهِدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ طَاوُسٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ  عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَبْرَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ “إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏أَمَّا أَحَدُهُمَا  فَكَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنَ الْبَوْلِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا الْآخَرُ فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَخَذَ جَرِيدَةً رَطْبَةً فَشَقَّهَا نِصْفَيْنِ فَغَرَزَ فِي كُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏لِمَ فَعَلْتَ هَذَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لَعَلَّهُ يُخَفِّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا”، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، ‏‏‏‏‏‏وَحَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ مُجَاهِدًا مِثْلَهُ يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ.

ہم سے محمد بن المثنی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے محمد بن حازم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اعمش نے مجاہد کے واسطے سے روایت کیا، وہ طاؤس سے، وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں پر گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دونوں قبر والوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور کسی بڑے گناہ پر نہیں۔ ایک تو ان میں سے پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خوری کیا کرتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہری ٹہنی لے کر بیچ سے اس کے دو ٹکڑے کئے اور ہر ایک قبر پر ایک ٹکڑا گاڑ دیا۔ لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایسا) کیوں کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شاید جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہوں ان پر عذاب میں کچھ تخفیف رہے

صحیح بخاری میں ایک معلق روایت بھی اتی ہے –  امام بخاری نے صحیح میں باب میں روایت نقل کی ہے کہ بريدة بن الحصيب الصحابي رضي الله عنه  نے وصیت کی أَنْ يُجْعَلَ فِي قَبْرِهِ جَرِيدَانِ  کہ بریدہ رضی الله عنہ نے وصیت کی کہ ان کی قبر پر ٹہنیاں لگائی جائیں

وَأَوْصَى بُرَيْدَةُ الأَسْلَمِيُّ: «أَنْ يُجْعَلَ فِي قَبْرِهِ جَرِيدَانِ

امام بخاری جب ابواب میں اس طرح کی روایات نقل کرتے ہیں تو اس کا مقصد اس مسئلہ پر کچھ اقوال  نقل کرنا ہوتا ہے جن کی وہ  سند  نہیں دیتے انہوں نے اس قول کو نقل کرنے کے بعد ابن عمر کا قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے ایک قبر پر خیمہ دیکھا تو کہا کہ صاحب قبر کا عمل اس پر سایہ کرے گا -شارحین کی رائے ہے کہ امام بخاری نے بریدہ رضی الله عنہ کے قول کو ابن عمر رضی الله عنہ  کے قول کے ساتھ پیش کیا کیونکہ ان کے نزدیک  ٹہنی لگانا نبی کے لئے خاص تھا

تغليق التعليق على صحيح البخاري از  أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) میں اس کی سند ہے

أما أثر بُرَيْدَة فَقَالَ ابْنُ سَعْدٍ أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَفْصٍ ثَنَا حَمَّادُ ابْن سَلَمَةَ عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ عَنْ مُوَرِّقٍ الْعِجْلِيِّ قَالَ أَوْصَى بُرَيْدَةُ أَنْ يُوضَعَ عَلَى قَبْرِهِ جَرِيدَتَانِ وَمَاتَ بِأَدْنَى خُرَاسَانَ

وَقد وَقع لي من طَرِيق أُخْرَى لأبي بَرزَة الْأَسْلَمِيّ أَيْضا وفيهَا حَدِيث مَرْفُوع من حَدِيثه قَرَأت عَلَى أَحْمد بن عمر اللؤْلُؤِي عَن الْحَافِظ ز 116 ب أبي الْحجَّاج الْمزي أَن يُوسُف بن يَعْقُوب [بن المجاور] أخبرهُ أَنا أَبُو الْيمن الْكِنْدِيّ أَنا أَبُو مَنْصُور الْقَزاز أَنا أَبُو بَكْرٍ الْخَطِيبُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَخْلَدٍ ثَنَا أَبُو سَعِيدٍ النَّسَوِيُّ سَمِعت أَحْمَدَ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ بِسْطَامٍ يَقُولُ سَمِعت أَحْمد ابْن سَيَّارٍ يَقُولُ ثَنَا الشَّاهُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَني أَبُو صَالِحٍ سُلَيْمَانُ بْنُ صَالِحٍ [اللَّيْثِيُّ] ثَنَا النَّضْرُ بْنُ الْمُنْذِرِ بْنِ ثَعْلَبَة [الْعَبْدِيُّ] عَن حَمَّاد بن سَلمَة عَن قَتَادَةَ أَنَّ أَبَا بَرْزَةَ الأَسْلَمِيَّ كَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى قَبْرٍ وَصَاحِبُهُ يُعَذَّبُ فَأَخَذَ جَرِيدَةً فَغَرَسَهَا فِي الْقَبْرِ وَقَالَ عَسَى أَنْ يُرَفِّهَ عَنْهُ مَا دَامَتْ رَطْبَةً))وَكَانَ أَبُو بَرزَة يُوصي إِذا مت فضعوا فِي (قَبْرِي) معي جريدتين قَالَ فَمَاتَ فِي مفازة بَين كرمان وقومس فَقَالُوا كَانَ يوصينا أَن نضع فِي قَبره جريدتين وَهَذَا مَوضِع لَا نصيب فِيهِ فَبَيْنَمَا هم كَذَلِك إِذْ طلع عَلَيْهِم ركب من قبل سجستان فَأَصَابُوا مَعَهم سَعَفًا فَأخذُوا مِنْهُم جريدتين فوضعوهما مَعَه فِي قَبره

اور جہاں تک بریدہ کے اثر کا تعلق ہے تو ابن سعد نے (طبقات میں) کہا أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَفْصٍ ثَنَا حَمَّادُ ابْن سَلَمَةَ ، انہوں نے عَاصِمٍ الأَحْوَلِ سے انہوں نے مُوَرِّقٍ الْعِجْلِيِّ سے روایت کیا کہا بریدہ نے وصیت کی کہ ان کی قبر پر دو ٹہنیاں لگا دی جائیں اور وہ ادنی خراسان میں مرے

اور مجھے (ابن حجر) ایک اور طرق ملا ابی برزہ اسلمی سے جو حدیث مرفوع ہے .. قتادہ نے کہا أَبَا بَرْزَةَ الأَسْلَمِيَّ نے روایت کیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ایک قبر پر سے گزرے جس کے صاحب کو عذاب ہو رہا تھا پس ایک ٹہنی لی اس کو قبر پر گاڑھا اور فرمایا ہو سکتا ہے یہ عذاب اٹھ جائے جب تک یہ تر رہے

مورق المتوفی ١٠٥ ھ کا سماع بریدہ رضی الله عنہ المتوفی ٦٢ ھ  سے ثابت  نہیں ہو سکا

مورق کی وفات ابن سعد کے مطابق  توفّي فِي ولَايَة عمر بن هُبَيْرَة عمر بن ہبیرہ کے دور میں ہوئی

تاریخ الدمشق کے مطابق عمر بن ہبیرہ كان أمير العراقين من قبل يزيد بن عبد الملك- خلیفہ یزید بن عبد الملک کے دور( ١٠١ سے َ٠٥ ہجری ) میں عراق کے امیر تھے- بریدہ رضی الله عنہ کی وفات سن ٦٢ ھ میں خراسان میں ہوئی

ذخیرہ احادیث میں مورق کی یہ بریدہ رضی الله عنہ سے واحد روایت ہے- مورق، صحابی رسول ابی ذر رضی الله عنہ سے بھی مرسل روایت کرتے ہیں – مورق کے  بریدہ سے سماع کا متقدمین محدثین میں سے کسی   نے ذکر بھی نہیں کیا

کتاب  كوثَر المَعَاني الدَّرَارِي في كَشْفِ خَبَايا صَحِيحْ البُخَاري   از   الشنقيطي (المتوفى: 1354هـ) کے مطابق

قال الطُرْطُوشيّ: لأن ذلك خاص ببركة يده

الطُرْطُوشيّ کہتے ہیں : یہ تو نبی کے ہاتھ کی خاص برکت تھی

یعنی کسی غیر نبی کے ہاتھ سے ٹہنی لگنے سے وہ عذاب میں تخفیف کا باعث نہیں ہو سکتیں

الشنقيطي کہتے ہیں

قلت: وعلى كل حال، فعل بُريدة فيه استئناس لما تفعله الناس اليوم من وضع الجريد ونحوه على القبر، فإن الصحابي أدرى بمقاصد الحديث من غيره، خلافًا لما مرَّ عن الخَطّابي

میں کہتا ہوں:  ہر صورت میں بریدہ کے فعل سے متاثر ہو کر ہی لوگ آج ٹہنی قبر پر لگاتے ہیں، کیونکہ صحابی  حدیث کے مقصد کو جانتے ہیں اور یہ اس کے خلاف ہے جس طرف الخطابی گئے ہیں

فتح الباری میں ابن حجر کہتے ہیں

قَالَ بن رَشِيدٍ وَيَظْهَرُ مِنْ تَصَرُّفِ الْبُخَارِيِّ أَنَّ ذَلِكَ خَاص بهما  

ابن رشید نے کہا اور بخاری کے تصرف سے ظاہر ہے کہ (یہ ٹہنی لگانا ) ان کے نزدیک یہ خاص ان (دو معذبین) کے لئے تھا

عبد الرحمن مبارک پوری  جناب بریدۃ الاسلمی رضی الله عنہ کے  اس اجتہاد کو قبول کرتے ہیں
’’ میں کہتا ہوں جیسا کہ حضرت بریدہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کی اور قبر میں کھجور کی شاخ کو رکھنا جائز سمجھا اسی طرح اب بھی اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء و اتباع کرے اور قبر میں کھجور کی شاخ گاڑے تو اس میں کچھ حرج نہیں معلوم ہوتا۔ واللہ تعالیٰ اعلم اوربہت سے لوگ جو بیر کی شاخ یا انار کی شاخ قبر میں گاڑتے ہیں ‘ سو اس کا کچھ ثبوت نہیں ہے ‘(کتاب الجنائز ص۷۳)

 ابن الحسن محمدی اپنے مضمون قبروں پر پھول اور چادریں چڑھانا کیسا ہے؟  میں لکھتے ہیں

قبروں پر پھول اور چادریں چڑھانا کیسا ہے؟

الحلل الإبريزية من التعليقات البازية على صحيح البخاري  میں وہابی عالم   عبد العزيز بن عبد الله بن باز کہتے ہیں

وهو الذي جعل بريدة يوصي بذلك، والعلماء على خلاف ذلك، والنبي – صلى الله عليه وسلم – لم فعله في غيرهما، وهذا خاص بهما، ولم يفعله بأصحابه، ولا ببناته، وبريدة ظن أنه مشروع.

اور ایسا بریدہ نے وصیت کی اور علماء اس کے خلاف ہیں اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے ایسا کسی اور کے لئے نہیں کیا اور یہ ان دو کے لئے خاص تھا اور نہ ان کے اصحاب نے کیا اور نہ  ان کی بیٹیوں نے اور بریدہ نے گمان کیا کہ یہ مشروع ہے

الغرض بریدہ اسلمی رضی الله عنہ کی وصیت ان کا اجتہاد تھا لیکن یہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا حکم  نہیں کیونکہ جو نبی صلی الله علیہ وسلم نے کیا وہ ان کے لئے خاص تھا – یہ بیشترعلماء کی رائے ہے راقم کے نزدیک روایت ضعیف ہے مورق کا سماع بریدہ رضی الله عنہ سے ثابت نہیں

اس وصیت کا مختصرا تذکرہ ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ نے کتاب عذاب البرزخ میں کیا

اسی طرح بعض انتہائی ہوشیار بریدۃ الاسلمیؓ کی وصیت پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی قبر میں کھجور کی دو ٹہنیاں رکھنے کی وصیت کی تھی۔ بخاری باب ’’ الجرید علی القبر‘‘ لا کر بتلاتے ہیں کہ یہ ان کی بات وصیت کے وقت کی ہے ورنہ عبد اللہ بن عمرؓ نے جب عبد الرحمن بن ابی بکر ؓ کی قبر پر خیمہ دیکھا تو حکم دیا ’’یا غلام انزعہ فانما یظلہ عملہ‘‘ اے لڑکے خیمہ ہٹا دے ‘ان کے اوپر تو صرف ان کا عمل سایہ کرے گا ’ خیمہ یا شاخ نہیں‘۔(بخاری عربی ص۱۸۱ جلد ۱۔ عذاب قبر ص۱۸)

کتاب عذاب قبر الناشر​مدرسۃ اُمّ المؤمنین حفصہ بنت عمرفاروق کراچی​ میں ابو جابر دامانوی اپنی علمی استعداد کے مطابق ڈاکٹر عثمانی کے لکھے پر کہتے ہیں

آپ نے ملاحظہ فرمایاکہ جناب بریدۃ الاسلمیؓ نے جو وصیت کی تھی موصوف کے نزدیک ان کی یہ بات وصیت کے وقت کی تھی گویا موصوف کے نزدیک جو شخص بھی مرض الموت میں مبتلا ہوا وہ ضرور اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے گا۔اور ضرور بحرانی کیفیت میں مبتلا ہو۔ غور فرمائیے کہ یہ نقطہ نگاہ کس قدر غلط اور خطرناک ہے جو بات بھی موصوف کے نظریات کے خلاف ہوتی ہے وہ اسے جھٹلا دیتے ہیں۔

افسوس دوسروں کا چبایا کھا کھا کرقرطاس کالا کرنے کی سعی میں  موصوف نے دھیان ہی نہیں دیا کہ وہابی اور علم مسلک غیر مقلدین کیا کہتے ہیں

 کتاب بدعات کا انسائیکلوپیڈیا میں البانی کا قول بیان ہوا ہے

البانی کہتے ہیں کہ بریدہ رضی الله عنہ کی رائے کی کوئی دلیل نہیں ہے – البانی کے نزدیک ایسا کرنا بدعت ہے

ان علماء کے نزدیک  حدیث نبوی  کا منشا یہ نہیں ہے کہ  جو  بریدہ سے منسوب روایت میں بیان کیا گیا ہے

5 thoughts on “بریدہ اسلمی کی وصیت

  1. وجاہت

    صحیح بخاری کی اس معلق روایت کو پورا اور ابن عمر رضی الله عنہ کے قول کو یہاں پیش کر دیا جایے

    صحیح بخاری میں ایک معلق روایت بھی اتی ہے – امام بخاری نے صحیح میں باب میں روایت نقل کی ہے کہ بريدة بن الحصيب الصحابي رضي الله عنه نے وصیت کی أَنْ يُجْعَلَ فِي قَبْرِهِ جَرِيدَانِ کہ بریدہ رضی الله عنہ نے وصیت کی کہ ان کی قبر پر ٹہنیاں لگائی جائیں

    وَأَوْصَى بُرَيْدَةُ الأَسْلَمِيُّ: «أَنْ يُجْعَلَ فِي قَبْرِهِ جَرِيدَانِ

    امام بخاری جب ابواب میں اس طرح کی روایات نقل کرتے ہیں تو اس کا مقصد اس مسئلہ پر کچھ اقوال نقل کرنا ہوتا ہے جن کی وہ سند نہیں دیتے انہوں نے اس قول کو نقل کرنے کے بعد ابن عمر کا قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے ایک قبر پر خیمہ دیکھا تو کہا کہ صاحب قبر کا عمل اس پر سایہ کرے گا -شارحین کی رائے ہے کہ امام بخاری نے بریدہ رضی الله عنہ کے قول کو ابن عمر رضی الله عنہ کے قول کے ساتھ پیش کیا کیونکہ ان کے نزدیک ٹہنی لگانا نبی کے لئے خاص تھا

    ===============

    صحیح بخاری کی اس معلق روایت کو پورا اور ابن عمر رضی الله عنہ کے قول کو یہاں پیش کر دیا جایے

    ریفرنس کے ساتھ

    شکریہ

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      یہ معلق روایت پوری ہی لکھی ہے
      معلق پر نمبر نہیں ہوتا نہ اس باب ٹائٹل امام بخاری نے بنانا ہے
      بَابُ الجَرِيدِ عَلَى القَبْرِ

      Reply
      1. وجاہت

        بھائی پوچھا یہ ہے کہ اس ریوت میں جو آپ نے پیش کی ہے اس میں یہ الفاظ کہاں ہیں

        وَأَوْصَى بُرَيْدَةُ الأَسْلَمِيُّ: «أَنْ يُجْعَلَ فِي قَبْرِهِ جَرِيدَانِ

        لنک

        http://mohaddis.com/View/Sahi-Bukhari/218

        ایک بھائی نے پوچھا ہے کہ یہ الفاظ صحیح بخاری کی کس حدیث میں ہیں – مجھے یہ الفاظ نہیں ملے

        کوی سکین یا نمبر وغیرہ

        Reply
        1. Islamic-Belief Post author

          یہ الفاظ صحیح بخاری کی حدیث کے نہیں
          باب میں معلق روایت ہے جو امام بخاری باب کے شروع میں لکھ دیتے ہیں اس میں سرسری انداز میں وہ متضاد و موافق اقوال جمع کرتے ہیں
          پہلے بھی کہا تھا معلق پر نمبر نہیں ہوتا

          البتہ یہ باب بَابُ الجَرِيدِ عَلَى القَبْرِ میں ہے یعنی قبر پر ٹہنیاں لگانے کا بیان

          صحیح کی روایت ١٣٦١ سے پہلے جو الفاظ ہیں انکو دیکھیں

          Reply
  2. jawad

    السلام و علیکم و رحمت الله

    جزاک الله

    اچھی تحقیق ہے

    اگر بات جواز کی ہو جس سے عذاب قبر میں تخفیف ممکن ہو- تو دور حاضر کے بریلوی اور اکثر بدعتی احناف بھی صحیح بخاری کی ہی مندرجہ ذیل روایت کہ

    قَالَ عُرْوَةُ وثُوَيْبَةُ مَوْلَاةٌ لِأَبِي لَهَبٍ كَانَ أَبُو لَهَبٍ أَعْتَقَهَا فَأَرْضَعَتْ النَّبِيَّ ﷺ فَلَمَّا مَاتَ أَبُو لَهَبٍ أُرِيَهُ بَعْضُ أَهْلِهِ بِشَرِّ حِيبَةٍ قَالَ لَهُ مَاذَا لَقِيتَ قَالَ أَبُو لَهَبٍ لَمْ أَلْقَ بَعْدَكُمْ غَيْرَ أَنِّي سُقِيتُ فِي هَذِهِ بِعَتَاقَتِي ثُوَيْبَةَ- ترجمہ: عروہ نے کہا کہ ثویبہ ابو لہب کی لونڈی تھی اور ابو لہب نے اسے آزاد کردیا تھا ۔ تو اس نے نبی ﷺ کو دودھ پلایا ۔ جب ابو لہب مر گیا تو اسکے خاندان میں سے کسی نے خواب میں اسے بری حالت میں دیکھا تو اس نے کہا تو نے کیا پایا ؟ ابو لہب نے کہا تمہارے بعد میں نے سکون نہیں پایا سوائے اس بات کے کہ ثویبہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے ذرا سا پانی اس میں سے پلا دیا جاتا ہوں ۔ [صحيح البخاري كتاب النكاح

    اس سے استدلال کرتے ہوے کہتے ہیں کہ اس روایت سے معلوم ہوا کہ جب کوئی کافر بھی نبی کریم ﷺ وسلم کی ولادت کی خوشی میں لونڈی آزاد کرے تو اسکے عذاب میں تخفیف ہوجاتی ہے تو ایک مؤمن اور مسلمان کی تو کیا ہی بات ہے ۔

    یعنی آپ کی مذکورہ بیان کردہ امام بخاری کی حضرت بریدہ رضی الله عنہ متعلق روایت جس میں انہوں نے قبر پر ٹہنیاں لگانے کی وصیت کی- اگر اس روایت کے جواز کو کوئی (اہل حدیث یا موحد دیوبندی) صحیح خیال کرتا ہے – تو پھر بریلویوں اور بدعتی احناف پر بھی انگلی اٹھانے اور ان پر تنقید کرنے کا جواز بھی ان کے پاس نہیں رہتا- کہ وہ بھی تو صحیح بخاری ہی کی بیان کردہ مذکورہ روایت کو سامنے رکھ کر ہی عید میلاد النبی ﷺ اور مومن کے عذاب میں تخفیف کی بات کرتے ہیں؟؟

    الله سب کو ہدایت دے (آمین)-

    Reply

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *