زبیر صاحب کی تلبیسات

حافظ زبیر صاحب نے یو ٹیوب پر یہ بیان دیا ہے

 زبیر صاحب نے ذکر کیا کہ ڈاکٹر عثمانی متشدد تھے اور اہل حدیث غیر متشدد تھے  اور دو مسائل  پر توجہ دی  اول  برزخی زندگی پر کتاب اور دوم قرآن پر اجرت لینا   کو گمراہ کہنا – ساتھ ہی انہوں نے  واضح نہیں کیا کہ  امام احمد ، امام بخاری متشدد تھے یا غیر متشدد جو مسئلہ خلق قرآن میں اہل بیت میں سے  بنو عباس کی  تکفیر کرتے رہے

زبیر صاحب کے نزدیک عذاب قبر کا مسئلہ،   توحید کی وجہ سے الجھ  گیا تھا  اور پنج پیر والوں نے شرک کی تعریف کی کہ قبر میں مردہ زندہ ہے  لہذا اگر مردہ کو مردہ مان لیا جائے تو قبر پرستی کا انکار کرنا ہو گا

زبیر صاحب نے کہا کہ حدیث میں ہے کہ  شہداء کی روحیں سبز پرندوں میں ڈال دی جاتی ہیں – یہ جملہ نوٹ کریں کیونکہ بعد میں جن علماء کی کتب کا ذکر کیا گیا وہ اس کے انکاری ہیں

زبیر صاحب نے ذکر کیا کہ سلف میں صرف ابن حزم رہے ہیں جو صرف روح پر عذاب کے قائل ہیں – راقم کہتا ہے یہ غلط ہے امام اشعری نے   صرف روح پر عذاب کا ذکر کیا ہے پھر اسی بیان  میں آگے زبیر نے ذکر کیا روح پر عذاب کے قائل علماء آج بھی ہیں

زبیر صاحب نے لوجک یا تعقل کی بنیاد پر ذکر کیا کہ جسم کو عذاب ضروری ہے – زبیر صاحب نے یو ٹیوب میں جواب میں ذکر کیا
مادہ یعنی میٹر اپنی صورت یعنی فارم تبدیل کر لیتا ہے، ختم نہیں ہوتا ہے۔ یہ سائنس کا بنیادی ترین اصول ہے

مادہ کی بقا ہے یہ فزکس کا اصول ہے لیکن جب ہم دین کی بات کرتے ہیں تو اس مٹی سے کرتے ہیں جس سے آدم علیہ السلام کو خلق کیا گیا اور اسی طرح نسل آدم بھی مٹی بن رہی ہے
اسی طرح اس زمین میں شجر و بناتات بھی مٹی بن جاتے ہیں
گویا زمین کی اصل مٹی ہی ہے اسی کی طرف جانا ہے –
عذاب قبر میں اگر مٹی کو عذاب ہو رہا ہے تو یا عالم ارضی کو عذاب ہوا اور یہ فہم سراسر غلط ہے ورنہ زمین سب سے پہلے اس پر اللہ سے فریاد کرتی کہ گناہ انسان نے کیا میری مٹی نے تو نہیں کیا اس کو عذاب کیوں ہے -راقم کہتا ہے جسم مٹی ہو جانا قرآن میں موجود ہے اور   مٹی کو عذاب نہیں ہوتا  ورنہ یہ زمین کومسلسل  عذاب الہی  دینے کے مترادف ہے

عرب  میں  سلفی وہابی تنظیموں میں تکفیر کرنا  معروف ہے – زبیر صاحب نے مسئلہ اتباع  طاغوت کی  کھلی اڑاتے  ہوئے  سماع الموتی کے قائل   علماء کو حق پر قرار دے دیا ہے

امام  احمد جو فرشتوں کو پکارنے کے قائل تھے ان کو زبیر صاحب  نے توحید پر قائم  بتایا ہے  جبکہ  انڈیا  میں اسی بنا پر اہل حدیث ٹولوں میں  پھوٹ پڑی ہوئی ہے

ایک اہل حدیث عالم مقبول احمد  سلفی ، اہل حدیث  انڈیا  میں پھوٹ پڑنے پر لکھتے ہیں لنک 

آخر میں ایک بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں کہ کیرالہ اور کرناٹک وغیرہ میں مذکورہ بالا حدیث کو لیکر سلفیوں کے درمیان بھی یہ مسئلہ نزاع کا باعث بناہواہے جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا ۔ جب حدیث ہی سرے سے قابل استناد نہیں تو بات ہی ختم اور اگر اسلاف میں سے کسی نے اس حدیث پر عمل بھی کیا ہوتو انہوں نے نہ تو جن سے مدد طلب کی اور نہ ہی ولیوں اور قبر والوں کو پکارا بلکہ انہوں نے ویسے ہی پکارا جیسے پکارنے کا حدیث میں حکم ملا ہے اور وہ ہے فرشتوں کو پکارنا جیساکہ میں نے وہ حدیث بھی پیش کردی جس میں فرشتوں کی جماعت کا ذکر ہے

زبیر صاحب   کے بیان سے معلوم ہوا کہ  اہل حدیث فرقوں  میں اب فرشتوں کو پکارنا عین توحید سمجھا جانے لگا  ہے

راقم کہتا ہے یہ زوال امام احمد کو عقائد میں  لاحق  ہوا تھا  کہ تعویذ  کرنے لگے اور فرشتوں کو پکارنے لگے تھے اس کو توحید پر مبنی نہیں کہا جا سکتا

امام ابن تیمیہ جو سماع الموتی کے قائل تھے ان کا ذکر زبیر صاحب نے کیا کہ امام ابن تیمیہ کہتے تھے کہ  بعض  لوگ ایک نقطہ نظر بنا  لیتے ہیں پھر تاویل کرتے ہیں  دوسری طرف اہل حدیث کہتے ہیں سماع الموتی  گمراہی ہے گویا اہل حدیث کے نزدیک خود ابن تیمیہ کا عقیدہ صحیح  نہیں  ہے

قلیب بدر  کے خاص واقعہ کو زبیر نے   فروعی کہہ دیا جبکہ  معجزہ  پر ایمان لانا ضروری ہے یہ فروعی مسئلہ نہیں ہے عقیدہ کا ہے- اصحاب رسول کا اس کے خاص ہونے پر کوئی اختلاف نہ تھا- نہ کہیں لکھا ہے کہ ابن عمر سماع الموتی کے قائل تھے – صحیح بخاری میں ذکر ہے ابن عمر رضی اللہ عنہ ایک حدیث غلط سمجھے تھے جب ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس حدیث پر کلام ہوا تو انہوں نے  وضاحت کی کہ مردہ نہیں سنتا اور قلیب بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مردہ مشرکوں سے کلام  محض جذبات تھا  کیونکہ بدر میں   مشرکوں کو قتل کے بعد  علم ہو چکا تھا کہ حق کیا ہے  – راقم کہتا ہے ابراہیم علیہ السلام کا بتوں سے کلام قرآن میں موجود ہے کہ کھاتے کیوں   نہیں ؟ اس سے یہ نہیں سمجھا جائے کہ ابراہیم علیہ السلام  سماع الاصنام   یا   بتوں کے سننے کے قائل تھے

زبیر کے بقول جو قبرستان میں دعا کی جاتی ہے وہ مردے سنتے ہیں – راقم کہتا ہے یہ غلط موقف ہے – ہر مومن نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلامتی کی دعا کرتا ہے اوراس کا مقصد سنانا نہیں تھا

 زبیر صاحب اس طرح سماع الموتی کا عقیدہ بھی رکھ رہے ہیں – دوسری طرف اس وجہ سے وہ  اہل حدیث فرقہ  سے الگ عقیدے پر آ گئے ہیں جو سماع الموتی کے رد میں کتب لکھ رہے ہیں، قلیب بدر کو خاص ما نتے ہیں ، اس کو عام  کہہ کر اصحاب رسول کی صحیح و غلط عقائد میں تقسیم نہیں کرتے  ہیں

زبیر صاحب  کے بقول روح کا جسم سے نکلنا موت ہے -دوسری طرف اہل حدیث فرقوں میں اس  کا انکار ہے مثلا اہل حدیث  علماء میں ابو جابر دامانوی اور رفیق طاہر اس کے انکاری ہیں

 زبیر صاحب کا یہ جملہ قابل غور ہے کیونکہ چند منٹ بعد وہ خود اس کا رد کرتے ہیں  – راقم کہتا ہے  نیند میں روح، جسم سے نہیں نکلتی اور مردے میں روح واپس نہیں آتی  -قرآن میں موت کے حوالے سے  امسک روح کا لفظ ہے یعنی روح کو روک لیا جاتا ہے ظاہر  ہے جو چیز الگ ہے گئی ہو اسی کو روکا جاتا  ہے لہذا موت پر جسم میں روح پھر قیامت تک  نہیں آ سکتی – یہ قرآن سے واضح ہے

اہل سنت میں قبر کے لفظ پر موقف یہ بھی ہے کہ قبر وہ ہے جہاں روح  ہے جس پر تفصیلی بحث اس ویب سائٹ پر  موجود ہے

 زبیر صاحب کے بقول نیند  بھی موت ہے ، جبکہ نیند ، موت ، بے ہوشی سب الگ ہیں – اس پر راقم کی مکمل کتاب  ہے

برے خواب کو زبیر صاحب نے جسم  پر  عذاب قرار دے دیا – راقم کہتا ہے خواب تو مومن بھی دیکھتا ہے اور یہ عذاب جسم  قرار نہیں دیا گیا –  زبیر صاحب نے موت کے بعد عذاب کو بھی ڈروانے خواب پر قیاس کر لیا گیا  جو سراسر غلط سلط ہے

زبیر صاحب کے بقول انبیاء  کا  قبر  میں نماز پڑھنا  بھی ثابت ہے ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ  انبیاء کو زندہ بھی نہ کہا جائے- راقم کہتا ہے یہ  ریکوسٹ  قابل رد ہے – موسی علیہ السلام کا قبر میں نماز پڑھنا  سلف میں قابل بحث رہا ہے اور ابن حبان نے اس کو خاص صرف اس معراج کی  رات کا واقعہ کہا ہے – ابن حزم نے اس کو جنت میں ہی نماز  کہا ہے

سجین و علیین  ،زبیر صاحب کے بقول یہ مقام ہیں  جس کی ان کے پاس کوئی دلیل نہیں – راقم کہتا ہے سننے والے سن سکتے ہیں کہ زبیر صاحب نے  یہ واضح نہیں کیا کہ روح  کو سجین و علیین میں موجود ماننا کس قرآن کی آیت سے معلوم  ہے  – بقول زبیر صاحب ارواح اوپر جاتی ہیں  اور نیند میں بھی روح جسم سے نکل جاتی ہے -راقم کہتا ہے    زبیر صاحب  خود کنفیوز ہیں کیونکہ بقول زبیر  صاحب  روح کا جسم سے نکلنا ہی   موت ہے تو نیند بھی موت بن گئی  جبکہ قرآن میں نیند کو موت سے الگ کیا گیا ہے

زبیر صاحب نے سلف کے ان تمام علماء کو گمراہ قرار دے دیا جو برزخی جسم کا ذکر کرتے ہیں مثلا  ابن عقیل، ابن جوزی  وغیرہم

زبیر صاحب کے نزدیک انبیاء   درہم ،دینار نہیں  لیتے لیکن علماء جو اپنے آپ کو انبیاء کا وارث کہتے ہیں ان کا درہم لینا جائز ہے پھر زبیر صاحب نے چند مخصوص واقعات سے اجرت کے دلائل لئے ہیں جن کی وضاحت اس ویب سائٹ پر موجود ہے – قرآن میں ہے کہ ظالم کو قرآن سے شفاء نہیں ملے گی لیکن حدیث میں جب مشرک و کافر سردار کو سورہ فاتحہ سے دم کیا گیا تو شفاء ہوئی – ظاہر ہے یہ مخصوص ہے

  زبیر صاحب  نے عذاب قبر کی بحث میں  چند کتب کا ذکر کیا – راقم  کہتا ہے یہاں بھی   لوگوں کو مغالطہ دے  دیا گیا ہے – کیا اہل حدیث  کے نزدیک یہ  نیچے دیے گئے تمام متضاد عقائد صحیح ہیں

١- عود روح  بالکل نہیں ہو گا    (قاری خلیل رحمان     ، کتاب پہلا زینہ)

٢- روح جسم سے جڑے گی   اور تعلق ہو گا جس میں روح جسم سے نکلے گی اور جب چاہے  واپس بھی آئے گی  ( فتاوی ابن تیمیہ،  کتاب الروح از  ابن قیم، عبد الرحمان کیلانی  ، فتح الباری از  ابن حجر،  وہابی  علماء، زبیر علی زئی   بعض مواقع  پر )  یعنی بار بار عود روح ممکن ہے  

٣- روح   ، جنت  یا جہنم میں ہی  رہے گی  لیکن  قبر میں جسد سے تعلق ہو گا     (  نورپوری    کا  مضمون ،   مقالات از زبیر علی زئی    )

٤-  کچھ کہتے ہیں  مردہ جسد کو عذاب ہو گا بلا روح اور عود روح صرف ایک دفعہ ہو گا   (مثلا   کتاب الدین الخالص از    ابو جابر  دامانوی اور  کتاب المسند فی عذاب القبر از ارشد کمال

راقم کہتا ہے زبیر صاحب کی بات درست  ہے ان اہل حدیث علماء کی یہ تمام کتب ہر اس شخص کو پڑھنی چاہیے جو صحیح عقیدہ کا متلاشی ہو اور جاننا چاہتا ہو کہ فرقہ اہل حدیث کے اپنے تضادات کتنے ہیں

چھ ماہ قبل زبیر صاحب نے اپنے فیس بک پیج پر بھی تبصرہ جاری کیا تھا –  قارئین اس کو بھی دیکھ سکتے  ہیں   

کتب عثمانی پر ایک تبصرہ / Islamic-Belief.net (islamic-belief.net)    

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *