You may also send us your questions and suggestions via Contact form
Post for Questions
قارئین سے درخواست ہے کہ سوال لکھتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ سوال دینی مسئلہ پر ہونا چاہیے- وقت قیمتی شی ہے لہذا بے مقصد سوال سے پرہیز کریں – سوالات کے سیکشن کو غور سے دیکھ لیں ہو سکتا ہے وہاں اس کا جواب پہلے سے موجود ہو –
یاد رہے کہ دین میں غیر ضروری سوالات ممنوع ہیں اور انسانی علم محدود ہے
اپ ان شرائط پر سوال کر سکتے ہیں
اول سوال اپ کا اپنا ہونا چاہیے کسی ویب سائٹ یا کسی اور فورم کا نہیں ہونا چاہیے کہ اس کا مواد اپ وہاں سے یہاں کاپی کریں
دوم : جو جواب ملے اس کو اپ کسی اور ویب سائٹ پر پوسٹ کر کے اس پر سوال نہیں کریں گے نہ ہی اس ویب سائٹ کے کسی بلاگ کو پوسٹ کر کے کسی دوسری سائٹ سے جواب طلب کریں گے – یعنی اپ سوال کو اپنے الفاظ میں منتقل کریں اس کو کاپی پیسٹ نہ کریں اگر اپ کو کسی اور سے یہی بات پوچھنی ہے تو اپنے الفاظ میں پوچھیں
سوم کسی عالم کو ہماری رائے سے “علمی” اختلاف ہو تو اس کو بھی اپنے الفاظ میں منتقل کر کے اپ اس پر ہمارا جواب پوچھ سکتے ہیں
چہارم نہ ہی اپ ہماری ویب سائٹ کے لنک پوسٹ کریں کہ وہاں دوسری سائٹ پر لکھا ہو “اپ یہ کہہ رہے ہیں اور وہ یہ کہہ رہے ہیں ” یہ انداز مناظرہ کی طرف لے جاتا ہے جو راقم کے نزدیک دین کو کھیل تماشہ بنانے کے مترادف ہے
تنبیہ: شرائط کی خلاف ورزی کی صورت میں جوابات پر پابندی لگا دی جائے گی
السلام و علیکم ابو شہریار بھائی ڈاکٹر صاحب نے سورہ الحجرات کے حوالے سے اپنے کتابچے میں لکھا ہے کہ دوسرے لفظوں میں یہ حضرات امنو باللہ ورَسُسولہ کے بجائے آمنو باللہ ورُسُولہ کی تلقین کرتے ہیں لیکن ہم اس کو صحیح نہیں سمجھتے ۔۔
اس تحریر کو بنیاد بنا کر ڈاکٹر صاحب پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ قرآن کی آیت کے انکاری تھے جس کے مطابق تمام انبیاء پر ایمان لانا فرض ہے ۔۔
برائے مہربانی اس کی وضاحت فرما دیں
و علیکم السلام
زبان و ادب میں
context
میں دیکھا جاتا ہے کہ کیا کہا جا رہا ہے
ہم تمام انبیاء پر ایمان لاتے ہیں لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل انبیاء سے منسوب سنتوں میں کیاصحیح ہے معلوم نہیں ہے – ان انبیاء سے منسوب سنتیں ان کے امتوں کی سند سے ہیں
عثمانی صاحب نے کہا کہ اب قیامت تک سنت محمد پر عمل ہو گا – گزشتہ انبیاء سے منسوب سنت میں بھی اسی سنت پر عمل ہو گا جو رسول اللہ نے ادا کی
اس طرح بتایا گیا کہ دین کی اصل قرآن و صحیح حدیث ہی ہے
عثمانی صاحب کے مخاطب اصلا وہ لوگ ہیں جو بائبل و توریت سے بھی دین اخذ کرنا چاہتے ہیں مثلا امین احسن اصلاحی صاحب کا یہی منہج ہے
ان کے نزدیک وہ عمل انبیاء جس کا علم صرف بائبل سے ہو اس کو بھی دین میں حجت سمجھا جائے گا
لہذا ہم نے دیکھا کہ غامدی جو امین احسن کے شاگرد ہیں وہ اپنی کتب میں سنت رسول سے مراد ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل کے انبیاء کی سنت بھی لیتے ہیں
ہم اس مھنج کے خلاف ہیں اور جس اقتباس کا آپ نے ذکر کیا اس میں اس منہج کا رد ہے
اس کو بھی دیکھ لیں
https://www.islamic-belief.net/%db%81%d9%85-%d8%a7%d9%84-%d8%af%d8%a7%d9%88%d8%af-%da%a9%db%92-%d8%ad%da%a9%d9%85-%d9%be%d8%b1-%d8%ad%da%a9%d9%85-%da%a9%d8%b1%d8%aa%db%92-%db%81%db%8c%da%ba/
http://alsharia.org/2006/sep/ghamidi-sahib-tasawur-sunnat-hafiz-m-zubair
یاد رہے کہ جماعت اسلامی چھوڑنے کے بعد عثمانی صاحب کو اپروج کیا جارہا تھا کہ وہ امین احسن اصلاحی کے ساتھ ہو لیں لیکن عثمانی صاحب نے شریعت کے مصادر کے حوالے سے امین کی لچک کو رد کیا اور واضح کیا کہ وہ اس منہج پر نہیں جا سکتے
اسی اقتباس کو بعد میں سلفی جاہل ملا دامانوی نے بغیر سمجھے فتنہ پھیلانے کے لئے اپنی خود کردہ غلط تشریح کے ساتھ پھیلایا
یہاں تک کہ آج اہل حدیث خود اس کا رد کر رہے ہیں کہ سابقہ انبیاء کی سنتوں کے حوالے سے امین احسن اور غامدی کا موقف غلط ہے
جزاک اللہ ۔۔ابو شہریار بھائی ڈاکٹر صاحب نے اپنی تحریر میں مودودی صاحب کا ذکر کیا کیا مومودی صاحب کی اس حوالے سے کوئی تحریر مل سکتی ہے نیز کیا امین احسن اصلاحی اور غامدی صاحب کی اس حوالے سے کوئی تحریر مل سکتی ہے
اس قسم کے حوالے کھل کر نہیں لکھے جاتے تھے ان کو مبہم انداز میں بولا جاتا تھا البتہ جب انسان ان لوگوں کے سوالات کے جوابات کو پڑھے تو جو نتائج نکلتے ہیں وہ کچھ اسی قسم کے ہیں – غامدی کے حوالے تو اب مشہور ہیں
یہاں بہت سے لوگوں نے ان کو کوٹ کیا ہے
http://alsharia.org/2006/sep/ghamidi-sahib-tasawur-sunnat-hafiz-m-zubair
اس طرح کے حوالے سردست میرے پاس موجود نہیں ہیں
امین احسن پر یہ ملا ہے
https://magazine.mohaddis.com/home/articledetail/1469
سنت کی بنیاد احادیث پر نہیں ہے جن میں صدق و کذب دونوں کا احتمال ہوتا ہے جیسا کہ اوپر معلوم ہوا بلکہ اُمت کے عملی تواتر پر ہے
——
لہذا تواتر اہل کتاب سے بھی ان لوگوں کے ہاں دلیل لی جاتی ہے
میرا خیال ہے کہ یہ زیر بحث اقتباس لکھتے تھے عثمانی صاحب کے ذہن میں مودودی نہیں امین احسن اصلاحی ہیں
bukhari mn wajah mujood k Nabi s.aw ki qabr hujre mn kyun bnae gi. phir yeh hadith jhn jaan nikle wahein dafn kia jae kia sahih hai
or agr nae
to hazrat umr o abubakr ki wahn qabr q bnae gai. kia esko. hazrat aisha r.a ki ijtahadi khata kha jae ga
hadith jhn jaan nikle wahein dafn kia jae kia sahih hai – sahih nahi ha.
عائشہ رضی اللہ عنہا کا اس تدفین سے کوئی تعلق نہیں
یہ تو ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہ کی خواہش تھی کہ ان کی تدفین بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہو
اور اس کی ام المومنین نے اجازت دے دی
apki kitab. shab e barat mn hai k jab banu umayya ka takht ulta hai or abbas r.a khalifa hoty hain. to majoos paarsi or yahod nauroz manaty hai . us roz 14 shabn hota hai or muslim es din ki ehmiat mn. ibadt krty
to kia ehmiat es waqie ki thi k banu. umayya ka takht ult k khilafat banu abbas ko milli jesa k unki chaht thi. es lie ibadat ki gae
or bad mn yeh shab e barat ki riwayts mashoor hoi vanu abbas k dour mn
نو روز کی بدعت مسلمان قبول نہیں کرتے لیکن جشن منانے کے رات کو جگا دیا گیا
مسلمان عبادت میں رہے اور مجوس اپنے نو روز میں
تفسیر عکرمہ پہ آپ کو کچھ معلومات ہیں
کیا یہ مسند تفسیر ہے
عکرمہ یہ ابن عباس کا شاگرد تھا لیکن علم حدیث میں مختلف فیہ ہے بعض کے نزدیک سخت مجروح ہے
اس کے ہم عصر محدثین نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی تھی تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے اقوال کی کیا حیثیت ہو گی
ibn e maaja ki koi riwayt hai k. Hazrat aysha ne farmya k 4 raatein ba barkt ha. aarfa dono eidon ki or 15 shabn ki
kesi hai
میرے علم میں نہیں
السلام علیکم
نبیﷺ کے زمانے میں سونے اور چاندی کے سکے ہوتے تھے۔ اس حساب سے زکوٰۃ ہوتی تھی۔ آج کے دور میں جدید -1- کرنسی ہے۔ آج کے دور میں کس طرح زکوٰۃ ادا کی جاسکتی ہے؟
کیونکہ 52 تولہ چاندی 1 لاکھ بھی نہیں بنتی اور ساڈھے سات تولہ سونا 8 لاکھ کے قریب بنتا ہے۔
صاحب نصاب کو کیسے کلکولیٹ کیا جائے؟ -2 –
احادیث میں غلہ کی مقدار الگ ہے، بکریوں اور اونٹ پر زکوٰۃ الگ ہے۔ یعنی ہر چیز کی الگ -3-
calculation
ہے۔ پھر پاکستان کے بینک صاحب نصاب 44000 یا 45000 روپے والے کو کس طرح شمار کرتے ہیں؟
-4- اگر کسی کے پاس 40 تولہ چاندی ہے، 4 تولہ سونا ہے اور 6 لاکھ نقد رقم ہے،
تو وہ زکوٰۃ کس طرح کلکولیٹ کریگا؟ کیونکہ نہ چاندی اپنے نصاب پر پہیچتی ہے اور نہ سونا
جزاک اللہ
یہ سوالات غور طلب ہیں اور کسی عالم سے معلوم کریں
میرا علم اس مسئلہ پر محدود ہے
زکوات کا نصاب سونے و چاندی سے مقرر کر لی گئی ہے کیونکہ یہ سب سے قیمتی عام استعمال کی دھاتیں ہیں
دور نبوی میں زکوات جنس و قسم سے حساب سے الگ الگ تھی
دور نبوی میں سونے کو سونے سے بدلہ جا سکتا تھا اس کی قیمت درہم میں یا چاندی میں لینا سود سمجھا جاتا تھا
لہذا یہ مسائل دقیق ہیں
اسی طرح صدقہ فطر ہے جس میں دینار و درہم نہیں دیا جاتا تھا بلکہ گندم کا صاع دیا جاتا تھا ہر چند کہ درہم موجود تھا
aesi koi hadith hai k ik shkhs ne qible ki samt thoka to ap s.aw. ne pocha kon hai yeh. to kha gya imamat krata hai to kehny lagy es ko imamat se hatta do
mishkt se hai
es ka status kia hai
صحیح بخاری میں ہے
“عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رَأَى نُخَامَةً فِي الْقِبْلَةِ فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَيْهِ حَتَّى رُئِيَ فِي وَجْهِهِ، فَقَامَ فَحَكَّهُ بِيَدِهِ، فَقَالَ: إِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا قَامَ فِي صَلاَتِهِ، فَإِنَّهُ يُنَاجِي رَبَّهُ، أَوْ إِنَّ رَبَّهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ – فَلاَ يَبْزُقَنَّ أَحَدُكُمْ قِبَلَ قِبْلَتِهِ وَلَكِنْ عَنْ يَسَارِهِ، أَوْ تَحْتَ قَدَمَيْهِ، ثُمَّ أَخَذَ طَرَفَ رِدَائِهِ فَبَصَقَ فِيهِ ثُمَّ رَدَّ بَعْضَهُ عَلَى بَعْضٍ فَقَالَ: أَوْ يَفْعَلْ هَكَذَا”. (1/112)
ترجمہ: انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کی جانب میں کچھ تھوک دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناگوار ہوا، یہاں تک کہ غصہ کا اثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے میں ظاہر ہوا، چناں چہ آپ کھڑے ہو گئے اور اس کو اپنے ہاتھ سے صاف کردیا، پھر فرمایا کہ تم میں سے کوئی جب اپنی نماز میں کھڑا ہوتا ہے، تو وہ اپنے پرودگار سے مناجات کرتا ہے، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ اس کا پرودگار اس کے اور قبلہ کے درمیان میں ہے؛ لہذا اسے قبلہ کے سامنے نہ تھوکنا چاہیے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر کا کنارہ لیا اور اس میں تھوک کر اسے مل ڈالا اور فرمایا کہ یا اس طرح کرے۔
اس کا تعلق اس سے ہے کہ کسی نے نماز میں سجدہ کے مقام پر تھوک دیا اور اس کو اسی طرح چھوڑ کر چلا گیا – اس کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو ہٹایا
السلام علیکم
کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ یہ ابن حبان972 میں بھی موجود ہے۔ ابو یعلی میں بھی موجود ہے۔ مسند احمد میں بھی موجود ہے۔
۔ (۵۵۷۶)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((مَا أَصَابَ أَحَدًا قَطُّ ہَمٌّ وَلَا حَزَنٌ، فَقَالَ: اَللّٰھُمَّ إِنِّی عَبْدُکَ وَابْنُ عَبْدِکَ وَابْنُ أَمَتِکَ، نَاصِیَتِی بِیَدِکَ، مَاضٍ فِیَّ حُکْمُکَ، عَدْلٌ فِیَّ قَضَاؤُکَ، أَسْأَلُکَ بِکُلِّ اسْمٍ ہُوَ لَکَ سَمَّیْتَ بِہِ نَفْسَکَ، أَوْ عَلَّمْتَہُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِکَ، أَوْ أَنْزَلْتَہُ فِی کِتَابِکَ، أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِہِ فِی عِلْمِ الْغَیْبِ عِنْدَکَ، أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِیعَ قَلْبِی، وَنُورَ صَدْرِی، وَجِلَائَ حُزْنِی، وَذَہَابَ ہَمِّی، إِلَّا أَذْہَبَ اللّٰہُ ہَمَّہُ وَحُزْنَہُ، وَأَبْدَلَہُ مَکَانَہُ فَرَجًا۔)) قَالَ: فَقِیلَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! أَلَا نَتَعَلَّمُہَا، فَقَالَ:(( بَلٰی یَنْبَغِی لِمَنْ سَمِعَہَا، أَنْ یَتَعَلَّمَہَا۔)) (مسند أحمد: ۳۷۱۲)
حَدَّثَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا فُضَيْلُ بْنُ مَرْزُوقٍ، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ الْجُهَنِيُّ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَا أَصَابَ أَحَدًا قَطُّ هَمٌّ وَلَا حَزَنٌ، فَقَالَ: اللهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ، ابْنُ (2) عَبْدِكَ، ابْنُ أَمَتِكَ، نَاصِيَتِي بِيَدِكَ، مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ، عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ، أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ، أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ، أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ
اے الله میں تجھ سے تیرے ہر نام کے واسطے سے سوال کرتا ہوں جو تو اپنے نفس کے رکھے یا اپنی کتاب میں نازل کیے یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھائے یا وہ جو تیرے علم غیب میں جمع ہیں
جواب
دارقطنی العلل میں اس کو ضعیف کہتے ہیں اس کی سند میں أَبُو سَلَمَةَ الْجُهَنِيُّ جو مجھول ہے
سند کا دوسرا راوی فضيل بن مرزوق بھی مجھول ہے مسند احمد کی تعلیق میں شعیب اس کو ضعیف روایت کہتے ہیں اور فضيل بن مرزوق پر لکھتے ہیں
فقال المنذري في “الترغيب والترهيب” 4/581: قال بعض مشايخنا: لا ندري من هو، وقال الذهبي في “الميزان” 4/533، والحسيني في “الإكمال” ص 517: لا يدرى من هو، وتابعهما الحافظ في “تعجيل المنفعة”
حسين سليم أسد الدّاراني – عبده علي الكوشك کتاب موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان میں اس کی تعلیق میں أبو سلمة الجهني پر کہتے ہیں
والحق أنه مجهول الحال، وابن حبان يذكر أمثاله في الثقات، ويحتج به في الصحيح إذا كان ما رواه ليسَ بمنكر”. وانظر أيضاً “تعجيل المنفعة” ص. (490 – 491).
حق یہ ہے کہ یہ مجھول الحال ہے اور ابن حبان نے ان جیسوں کو الثقات میں ذکر کر دیا ہے اور صحیح میں اس سے دلیل لی ہے
اس روایت کی بعض اسناد میں عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاقَ بھی ہے جو ضعیف ہے
لہذا روایت ضعیف اور مجھول لوگوں کی روایت کردہ ہے
جب الله کو پکارا جاتا ہے تو اس کو رحمت مانگتے وقت یا القہار نہیں کہا جاتا جبکہ یہ بھی الله کا نام ہے – مسند احمد کی روایت کے مطابق الله کو پکارتے وقت اس کے تمام ناموں کو پکارا گیا ہے جو سنت کا عمل نہیں
صحیح حدیث کے مطابق الله تعالی کے ٩٩ نام ہیں لیکن اس مسند احمد کی ضعیف روایت کے مطابق بے شمار ہیں
روایت منکر ہے – متن صحیح احادیث کے خلاف ہے – راوی مجہول ہیں یا ضعیف ہیں
السلام علیکم
آپ نے فجر کی اذان کے میں جو الفاظ آئے ہیں اس حوالے سے لکھا کہ
ابی داود کی تیسری سند ہے
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي مَحْذُورَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ جَدِّي عَبْدَ الْمَلِكِ بْنَ أَبِي مَحْذُورَةَ، يَذْكُرُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا مَحْذُورَةَ، يَقُولُ: ” أَلْقَى عَلَيَّ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَذَانَ
اس میں عَبد الْمَلِكِ بْنِ أَبي مَحذُورَة، ہے جن کا ذکر تو محدثین نے کیا ہے لیکن توثیق کہیں نہ ملی سوائے ابن حبان کی کتب کے جو مجھول راویوں کی توثیق کے لئے مشھور ہیں لہذا ان کا درجہ مجھول کا ہے
—– ان کا ذکر تاریخ الکبیر امام بخاری میں بھی ہے اور تقريب التهذيب – ابن حجر العسقلاني نے بھی کیا ہے۔ —-
عبد الملك بن أبي محذورة القرشي عن أبيه وعن بن محيرز روى عنه ابنه محمد والنعمان بن راشد وإسماعيل بن عبد الملك وإبراهيم بن عبد العزيز المكي
——–
عبد الملك بن أبي محذورة الجمحي مقبول من الثالثة عخ د ت س
——-
تهذيب التهذيب – ابن حجر —– عبد الملك بن أبي محذورة الجمحي روى عن أبيه وعن عبد الله بن محيريز عنه وعنه أولاده عبد العزيز ومحمد وإسماعيل وحفيداه إبراهيم بن إسماعيل وإبراهيم بن عبد العزيز والنعمان بن راشد ونافع بن عمر وأبو البهلول الهذيل بن بلال ذكره بن حبان في الثقات >> عخ د ت س البخاري في خلق أفعال العباد وأبي داود والترمذي والنسائي
— یہ تابعی ہیں۔ مجھول تو نہ ہوئے۔ —
جزاک اللہ
تابعی ہونے کا مطلب ہے صحابی کو دیکھا ہے – مجہول کا مطلب ہے احوال معلوم نہیں
یہ دو الگ چیزیں ہیں
علم حدیث میں صحابی بھی اگر غیر معروف ہو تو اس کی حدیث کو قبول کرنے پر اختلاف ہے
ذيل لسان الميزان «رواة ضعفاء أو تكلم فيهم، لم يذكروا في كتب الضعفاء والمتكلم فيهم»
المؤلف: حاتم بن عارف بن ناصر الشريف العوني
الناشر: دار عالم الفوائد للنشر والتوزيع، مكة المكرمة – المملكة العربية السعودية
إسماعيل بن عبد الملك بن أبي محذورة:
روى عن: أبيه عبد الملك بن أبي محذورة.
ذكره المزّي في سياق الرواة عن أبيه، في تهذيب الكمال (18/ 397).
قال علي بن المديني -في سؤالات محمَّد بن عثمان بن أبي شيبة (رقم 142) -: “بنو محذورة الذين يُحدّثون عن جدِّهم كلهم ضعيف ليس بشيء
امام علی المدینی کے بقول وہ تمام بنی محذورة جو دادا کے نام سے روایت کرتے ہیں وہ ضعیف ہیں
لہذا اس اسمعیل بن عبد الملک کو ضعیف قرار دیا گیا اور محققین نے اس قول کو اس کے ترجمے میں ذکر کیوں کیا ہے
غور کریں یہ ضعیف راوی ایک مجہول کا نام لے کر روایت کرتے تھے
namaz meraj mn farz hoi
ummat. e mosa mn 5namazein thi kia
aap s aw phle jo namz prhte wo galibn tajaud thi .. q k waqia e meraj mn bhi hai k mn kaaba mn letha tha…
ik admi ne sawal uthaya k. whn to bot thy bothon k huye huye woh namaz prhte to ab agr koi mezar oe sajda krta to unki niyat pe q shak hai…. butt to fath makkah pe toray gy …. button ki mujoodgi mn sab namaz prhte jo us waqt eman lae thy
سوال اردو میں لکھ کر بھیجیں – پڑھا نہیں جا رہا
اعتراض یہ کیا گیا کہ اپ علیہ سلام معراج سے قبل جو نماز پڑھتے تھے وہ کعبہ
میں بتوں کے ہوٹے ہوئے پڑھی بت فتح مکہ پہ ٹوٹے جب وہ ایسے ہی نماز پڑھ سکتے۔ تو اگر کوئی مزار پہ سجدہ کرے تو ہم انکی نیت پ شک کیون کرتے
ہییں؟ جب ان کا ایمان ایمان رہاتو اب کیوں کافر کہا جاتا
ہے
امت موسی پہ پانچ نماز تھی کیا
کیونکہ شیعی نہ کہا کہ معراج پہ پانچ ہی نمازملی پچاس۔ نہیں
ہم کعبہ کو قبلہ ماں کر سجدہ اللہ کے حکم کی وجہ سے کر رہے ہیں
مزارات پر سجدوں کی کیا دلیل ہے ؟
السلام علیکم
کیا کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتے ہیں؟
اور اگر کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتے ہیں تو اس کا کیا طریقہ ہے؟
معذوری یا کسی مجبوری پر کیا جا سکتا ہے
اللہ کو کسی کام کا پہلے سے علم نہیں ہوتا جب تک
کہ وہ ہو نہ جائے
shia ka yeh aqeda asool e kafi mn hai
kia yeh bt aisy hi hai… agr aisi hi bt hai toh kufr ka fatwa kia kaiz hai un pe
حوالہ درکار ہے
usool e kafi
yeh kitab kia imam jafer sadiq se theak mansob hai
اصول کافی کا اہل تشیع میں وہی درجہ ہے جو صحیح البخاری کا ہے – اس کی سند ثابت نہیں ہے
اور یہ الکلینی کی تالیف ہے جو امام بخاری کے بعد پیدا ہوئے ہیں
السلام علیکم
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’وہ شخص جس کے جسم کو میں تندرست بناتا ہوں اور جسے میں کافی رزق دیتا ہوں لیکن پانچ سال گزر جاتے ہیں اور وہ میرے پاس نہیں آتا [عمرہ یا حج کے لیے میرے گھر جانا] درحقیقت محروم ہے۔
(صحیح ابن حبان؛ الاحسان، حدیث: 3703)
آپ کیا کہتے ہیں؟
خْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ مَوْلَى ثَقِيفٍ قَالَ: حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ خَلِيفَةَ عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ:
(قَالَ اللَّهُ: إِنَّ عَبْدًا صحَّحتُ لَهُ جِسْمَهُ ووسَّعت عَلَيْهِ فِي الْمَعِيشَةِ يَمْضِي عَلَيْهِ خمسة أعوام لا يَفِدُ إليَّ لَمَحْرُومٌ)
= (3703) [68: 3]
علل ابو حاتم میں ہے
إِنَّمَا هُوَ الْعَلاءُ بْنُ المسيَّب، عَنْ يُونُسَ بْنِ خَبَّاب، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، مُرْسَلٌ مرفوع
اس کی سند میں یونس بن خباب ہے جو ضعیف ہے
مزید کہا
قلتُ لأَبِي: لَمْ يَسْمَعْ يونسُ مِنْ أَبِي سَعِيدٍ؟
قَالَ: لا.
یونس کا سماع ابو سعید سے نہیں ہے
لہٰذا یہ منقطع ہے
—
علل دارقطنی میں اس پر ہے اس پر کوئی صحیح روایات نہیں ہے
وَسُئِلَ عَنْ حَدْيثِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ اللَّهُ: إِنَّ عَبْدًا أَصْحَحْتُ لَهُ جِسْمَهُ وَأَوْسَعْتُ عَلَيْهِ فِي الْمَعِيشَةِ، فَأَتَى عَلَيْهِ خَمْسَةُ أَعْوَامٍ لَا يَفِدُ إِلَيَّ؛ لَمَحْرُومٌ.
فَقَالَ: يَرْوِيهِ الْعَلَاءُ بْنُ الْمُسَيَّبِ، وَاخْتُلِفَ عَنْهُ؛
فَرَوَاهُ خَلَفُ بْنُ خَلِيفَةَ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ.
وَكَذَلِكَ رُوِيَ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِيهِ.
وَغَيْرُهُ يَرْوِيهِ عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ الْمُسَيَّبِ مِنْ قَوْلِهِ.
وَرَوَاهُ ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ خَبَّابٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ.
وَقَالَ الْأَخْنَسِيُّ: عَنِ ابْنِ فُضَيْلٍ، عَنِ الْعَلَاءِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ خَبَّابٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَلَا يَصِحُّ مِنْهَا شَيْءٌ.
.kia abu bakr. umer r.a ne aap s.aw pr janaza nae prha…. or wo hadith kesi hai
jis mn hai k hazrt ayesha ne kaha beljo k chlne se khbr hoi k tadfeen ho ch uki hai…..
kia hzrt abu bakr r.a ne fatima r.a ka janaza nae prha tha. ya sirf unko khbr nae ki gae ya wesy hi rat k andhre mn qabr mn utara gya . jesy k bukhari o muslim hi hadith mn hai ….
میری تحقیق کے مطابق انبیاء کی نماز جنازہ کا کوئی تصور نہیں ہے
نماز جنازہ کا مقصد مغفرت کرنا ہے چونکہ انبیاء مغفور ہیں ان کی نماز جنازہ کا کوئی تصور اسلام میں نہیں ہے
jis mn hai k hazrt ayesha ne kaha beljo k chlne se khbr hoi k tadfeen ho ch uki hai…..
اس روایت کی سند ضعیف ہے
ابو بکر رضی اللہ عنہ کو تدفین کے بعد علی رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی ہے تدفین کر دی گئی ہے
ایسا روایات میں ہے – ان کی سند کی صحت کا مجھ کو علم نہیں
السلام علیکم
کیا یہ حدیث صحیح ہے؟
مجمع الزوائد:
“وعن أبي وائل قال : جاء رجل من بجيلة إلى عبد الله – يعني ابن مسعود – فقال : إني تزوجت جاريةً بكراً وإني خشيت أن تفركني، فقال عبد الله: ألا إن الإلف من الله، وإن الفرك من الشيطان؛ ليكره إليه ما أحل الله، فإذا دخلت عليها فمرهافلتصل خلفك ركعتين. قال الأعمش : فذكرته لإبراهيم [ فقال ]: قال عبد الله : وقل : اللهم بارك لي في أهلي وبارك لهم في، اللهم ارزقهم مني وارزقني منهم، اللهم اجمع بيننا ما جمعت إلى خير، وفرق بيننا إذا فرقت إلى الخير”. رواه الطبراني ورجاله رجال الصحيح”. (کتاب النکاح، باب ما يفعل إذا دخل بأهله :۴/ ۵۳۶، ط: دار الفكر، بيروت)
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّبَرِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، عَنِ الثَّوْرِيِّ، وَمَعْمَرٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ بَجِيلَةَ إِلَى عَبْدِ اللهِ، فَقَالَ: إِنِّي تَزَوَّجْتُ جَارِيَةً بِكْرًا، وَإِنِّي قَدْ خَشِيتُ أَنْ تَفْرِكَنِي، فَقَالَ عَبْدُ اللهِ: «إِنَّ الْإِلْفَ مِنَ اللهِ، وَإِنَّ الْفَرْكَ مِنَ الشَّيْطَانِ، لِيُكَرِّهَ إِلَيْهِ مَا أَحَلَّ اللهُ لَهُ، فَإِذَا دَخَلْتَ عَلَيْهَا فَمُرْهَا فَلْتُصَلِّ خَلْفَكَ رَكْعَتَيْنِ» قَالَ الْأَعْمَشُ: فَذَكَرْتُهُ لِإِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ: قَالَ عَبْدُ اللهِ: ” وَقُلْ: اللهُمَّ بَارِكْ لِي فِي أَهْلِي، وَبَارِكْ لَهُمْ فِيَّ، اللهُمَّ ارْزُقْنِي مِنْهُمْ وَارْزُقْهُمْ مِنِّي، اللهُمَّ اجْمَعَ بَيْنَنَا مَا جَمَعْتَ إِلَى خَيْرٍ، وَفَرِّقْ بَيْنَنَا إِذَا فَرَّقْتَ إِلَى خَيْرٍ ”
سند ضعیف ہے
إسحاق بن إبراهيم الدبري
پر کلام ہے کہ یہ عبد الرزاق سے منکرات نقل کرتا ہے
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھا ہواتھا، میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: سورۂ بقرہ سیکھو، اس کی تعلیم حاصل کرنا باعث ِ برکت ہے اور اسے چھوڑنا باعث ِ حسرت ہے، باطل پرست اس پر غالب نہیں آ سکتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ دیر کے لیے ٹھہر گئے اور پھر فرمایا: سورۂ بقرہ اور سورۂ آل عمران سیکھو،یہ دونوں چمکدار اور خوبصورت سورتیں ہیں،یہ روز قیامت اپنے پڑھنے والوں کواس طرح ڈھانپ لیں گی گویا کہ دو بادل ہوں یا دو سایہ دار چیزیں یا پر پھیلائے ہوئے پرندوں کے دو غول ہوں اور یقیناقرآن مجید قیامت کے دن تلاوت کرنے والے کو اس وقت ملے گا، جب اس کی قبر پھٹے گی، وہ کمزور اوررنگت تبدیل شدہ آدمی کی مانند ہوگا اور بندے سے کہے گا: کیا تو مجھے پہچانتا ہے؟ وہ کہے گا: میں نہیں پہچانتا، قرآن پھر کہے گا: کیا تو مجھے پہچانتا ہے؟ یہ کہے گا: میں نہیں پہچانتا، وہ کہے گا: میں تیرا ساتھی قرآن ہوں، جس نے تجھے دوپہر کے وقت پیاسا رکھا اورتجھے رات کو جگاتا رہا، آج ہر تاجر اپنی تجارت کے پیچھے ہے (یعنی ہر تاجر اپنی تجارت سے نفع حاصل کرنے کی امید رکھتا ہے) اور آج تو ہر تجارت کے پیچھے ہو۔ (یعنی آج تجھے ہر تجارت سے بڑھ کر فائدہ حاصل ہوگا) پھر اسے دائیں ہاتھ میں بادشاہت اور بائیں ہاتھ میں ہمیشگی دی جائیگی، اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جائے گا، اور اس کے والدین کو دو عمدہ پوشاکیں پہنائی جائیں گی، وہ اس قدر بیش قیمت ہوں گی کہ دنیا ومافیہا (کی قیمت) ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ وہ کہیں گے: اے ہمارے ربّ! یہ پوشاکیں ہمارے لیے کیوں ہیں؟ انہیں بتایا جائے گا کہ تمہارے بیٹے کے قرآن پڑھنے کی وجہ سے پہنایا گیا ہے، پھر اس سے کہا جائے گا پڑھتا جا اور جنت کی منزلیں طے کرتا جا، وہ جنت کے بالا خانوں میں چڑھتا جائے گا، جب تک پڑھتا جائے گا، چڑھتا جائے گا، تیز پڑھے یا آہستہ پڑھے۔
Musnad Ahmed#8482
What will you about this hadith? is it authentic?
یہ روز قیامت اپنے پڑھنے والوں کواس طرح ڈھانپ لیں گی گویا کہ دو بادل ہوں
Yes authentic
My Tafseer of Surah Al-Baqarah and Surah Aal-Imran is named after this hadith
Two illuminated Clouds of Quran
السلام علیکم
آپ کی خدمت میں عورت اور مرد کی نماز میں فرق کے حوالے سے کچھ حوالے پیش کر رہا ہوں۔
ابن همام، فتح القدير، 1 : 246
’’تکبیر تحریمہ کے وقت، عورت کندھوں کے برابر اپنے ہاتھ اٹھائے یہ صحیح تر ہے کیونکہ اس میں اس کی زیادہ پردہ پوشی ہے۔‘‘
فإن کانت إمرأة جلست علی إليتهاالأيسری و أخرجت رجليها من الجانب الأيمن لأنه أسترلها.
ابن همام، فتح القدير، 1 : 274
’’اگر عورت نماز ادا کر رہی ہے تو اپنے بائیں سرین پر بیٹھے اور دونوں پاؤں دائیں طرف باہر نکالے کہ اس میں اس کا ستر زیادہ ہے۔‘‘
والمرأة تنخفض فی سجودها و تلزق بطنها بفخذ يها لأن ذلک أسترلها.
مرغينانی، هدايه،1 : 50
’’عورت اپنے سجدے میں بازو بند رکھے اور اپنے پیٹ کو اپنی رانوں سے ملا دے کیونکہ یہ صورت اس کے لئے زیادہ پردہ والی ہے۔‘‘
علامہ کاسانی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
فأما المرأة فينبغی أن تفترش زرا عيها و تنخفض ولا تنتصب کإنتصاب الرجل و تلزق بطنها بفخذيها لأن ذلک أسترلها.
الکاسانی، بدائع الصنائع، 1 : 210
’’عورت کو چاہیے اپنے بازو بچھا دے اور سکڑ جائے اور مردوں کی طرح کھل کر نہ رہے اور اپنا پیٹ اپنے رانوں سے چمٹائے رکھے کہ یہ اس کے لئے زیادہ ستر والی صورت ہے۔‘‘
عورت سجدہ میں کیسے ہو؟ احادیث مبارکہ کی روشنی میں
عن علی رضی الله عنه قال اذا سجدت المرأة فلتحتفر ولتضم فخذيها.
ابن ابي شيبه، المصنف، 1 : 241، الرقم : 2777
’’حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے جب عورت سجدہ کرے تو سمٹ کر کرے اور اپنی ران (پیٹ اور پنڈلیوں) سے ملائے رکھے۔‘‘
عن ابن عباس أنه سئل عن صلاة المرأة فقال تجتمع وتحتفر.
ابن ابی شيبه، المصنف، 1 : 241، الرقم : 2778
’’ابن عباس سے عورت کی نماز کے بارے میں پوچھا گیا، انہوں نے فرمایا جسم کوسکیٹر کر اور سمٹا کر نماز ادا کرے۔‘‘
عن مغيرة عن ابراهيم قال إذا سجدت المرأة فلتضم فخذيها والتضع بطنها عليها.
ابن ابی شيبه، المصنف، 1 : 242، الرقم : 2779
’’جب عورت سجدہ کرتے تو اپنے ران جوڑ کر اپنا پیٹ ان پر رکھے۔‘‘
عن مجاهد أنه کان يکره أن يضع الرجل بطنه علی فخذيه إذا سجد کما تضع المرأة.
ابن ابی شيبه، المصنف، 1 : 242، الرقم : 2780
’’(ابن عباس کے شاگرد) مجاہد کہتے ہیں مرد سجدہ میں اپنا پیٹ عورتوں کی طرح رانوں پر رکھے، یہ مکروہ ہے۔‘‘
عن الحسن (البصری) قال المرأة تضم فی السجود.
ابن ابی شيبه، المصنف، 1 : 242، الرقم : 2781
’’عورت سجدہ میں سمٹ جڑ کر رہے۔‘‘
عن إبراهيم قال إذا سجدت المرأة فلتلزق بطنها بفخذيها ولا ترفع عجيزتها ولا تجا فی کما يجافی الرجل.
ابن ابی شيبه، المصنف،1 : 242، الرقم : 2782
’’جب عورت سجدہ کرے تو پیٹ اپنے زانوؤں سے ملائے اور اپنی پیٹھ (سرین) مرد کی طرح بلند نہ کرے۔‘‘
عورت نماز میں کیسے بیٹھے؟ احادیث کی روشنی میں
عن خالد بن اللجلاج قال کن النسآء يؤمرن أن يتربعن إذا جلسن فی الصلوة ولا يجلسن جلوس الرجل علی أور اکهن يتقی علی ذلک علی المرأة مخافة أن يکون منها الشی…
ابن ابی شبيه، المصنف، 1 : 242، الرقم : 2783
’’عورتوں کو نماز میں چوکڑی بھر کر (مربع شکل میں) بیٹھنے کا حکم تھا اور یہ کہ وہ مردوں کی طرح سرینوں کے بل نہ بیٹھیں تاکہ اس میں ان کی پردہ پوشی کھلنے کا ڈر نہ رہے۔‘‘
عن نافع ان صفية کانت تصلی وهی متربعة.
ابن ابی شبيه، المصنف،1 : 242، الرقم : 2784
’’نافع سے روایت ہے حضرت سیدہ صفیہ نماز میں مربع شکل میں بیٹھا کرتی تھیں۔‘‘
عورت کو رکوع و سجود میں جسم کھلا نہیں رکھنا چاہیے
قال إبراهيم النخعی کانت المرأة تؤمر إذا سجدت أن تلزق بطنها بفخذيها کيلا ترتفع عجيزتها ولا تجا فی کما يجا فی الرجل.
بيهقی، السنن الکبری، 2 : 223
’’ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کہتے ہیں عورت کو حکم تھا یہ سجدہ کرتے وقت اپنا پیٹ رانوں سے ملائے رکھے تاکہ اس کی پیٹھ بلند نہ ہو۔ اس طرح بازو اور ران نہ کھولے جیسے مرد۔‘‘
قال علی رضی الله عنه إذا سجدت المرأة فلتضم فخذيها.
بيهقی، السنن الکبری، 2 : 222، الرقم : 3014
’’حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا عورت سجدہ میں سکڑ کر رہے اعضاء کو ملا کر رکھے۔‘‘
عن ابی سعيد الخدری صاحب رسول اﷲ عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم أنه قال خير صفوف الرجال الاول و خير صفوف النساء الصف الأخر وکان يامر الرجال أن يتجا فوا فی سجودهم يأمر النسآء أن ينخفضن فی سجود هن وکان يأمر الرجال أن يفر شوا اليسریٰ وينصبوا اليمنی فی التشهدو يأمر النسآء أن يتربعن وقال يا معشر النسآء لا ترفعن أبصار کن فی صلاتکن تنظرن إلی عورات الرجال.
بيهقی، السنن الکبری،2 : 222، الرقم : 3014
’’ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نماز میں مردوں کی سب سے بہتر صف پہلی عورتوں کی سب سے بہتر صف آخری ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرکار مردوں کو نماز میں سجدہ کے دوران کھل کھلا کر رہنے کی تلقین فرماتے اور عورتوں کو سجدوں میں سمٹ سمٹا کر رہنے کی۔ مردوں کو حکم فرماتے کہ تشہد میں بایاں پاؤں بچھائیں اور دایاں کھڑا رکھیں اور عورتوں کو مربع شکل میں بیٹھنے کا حکم دیتے اور فرمایا عورتو! نماز کے دوران نظریں اٹھا کر مردوں کے ستر نہ دیکھنا۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إذا جلست المرأة فی الصلاة وضعت فخذها علی فخذها الاخریٰ و إذا سجدت الصقت بطنها فی فخذيها کأستر مايکون لها وإن اﷲ تعالی ينظر إليها ويقول يا ملآ ئکتی أشهد کم إنی قد غفرت لها.
بيهقی، السنن الکبری، 2 : 222، الرقم : 3014
’’جب عورت نماز میں اپنا ایک ران دوسرے ران پر رکھ کر بیٹھتی ہے اور دوران سجدہ اپنا پیٹ رانوں سے جوڑ لیتی ہے جیسے اس کے لئے زیادہ ستر والی صورت ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی ط…
و علیکم السلام
تمام اسناد ضعیف ہیں
عورت سجدہ میں کیسے ہو؟ احادیث مبارکہ کی روشنی میں
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: «إِذَا سَجَدَتِ الْمَرْأَةُ فَلْتَحْتَفِرْ وَلْتَضُمَّ فَخِذَيْهَا»
ابن ابي شيبه، المصنف، 1 241، الرقم 2777
عی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جب عورت سجدہ کرے تو سمٹ کر کرے اور اپنی ران (پیٹ اور پنڈلیوں) سے ملائے رکھے۔
سند ضعیف ہے – أَبِي إِسْحَاقَ مدلس عن سے روایت کر رہا ہے –
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: نا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَيُّوبَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ صَلَاةِ الْمَرْأَةِ، فَقَالَ: «تَجْتَمِعُ وَتَحْتَفِرُ»
ابن ابی شيبه، المصنف، 1 241، الرقم 2778
سند ضعیف ہے – يَزِيدَ بْنِ حَبِيبٍ مجہول ہے
عباس سے عورت کی نماز کے بارے میں پوچھا گیا، انہوں نے فرمایا جسم کوسکیٹر کر اور سمٹا کر نماز ادا کرے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: نا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: «إِذَا سَجَدَتِ الْمَرْأَةُ فَلْتَضُمَّ فَخِذَيْهَا، وَلْتَضَعْ بَطْنَهَا عَلَيْهِمَا»
ابن ابی شيبه، المصنف، 1 242، الرقم 2779
عورت سجدہ کرتے تو اپنے ران جوڑ کر اپنا پیٹ ان پر رکھے
سنده ضعيف، فمغيرة بن مِقْسم مدِّلس ولم يُصَرِّح بالسماع
بيهقی، السنن الکبری، 2 223
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، أنبأ أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ الْفَقِيهُ، أنبأ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ زِيَادٍ قَالَ: ثنا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، ثنا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْحَارِثِ قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ ” إِذَا سَجَدْتِ الْمَرْأَةُ فَلْتَضُمَّ فَخِذَيْهَا ” وَقَدْ رُوِيَ فِيهِ حَدِيثَانِ ضَعِيفَانِ لَا يُحْتَجُّ بِأَمْثَالِهِمَا
ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کہتے ہیں عورت کو حکم تھا یہ سجدہ کرتے وقت اپنا پیٹ رانوں سے ملائے رکھے تاکہ اس کی پیٹھ بلند نہ ہو۔ اس طرح بازو اور ران نہ کھولے جیسے مرد۔‘‘
سنده ضعيف، فمغيرة بن مِقْسم مدِّلس ولم يُصَرِّح بالسماع
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: نا جَرِيرٌ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّهُ كَانَ يَكْرَهُ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ بَطْنَهُ عَلَى فَخِذَيْهِ إِذَا سَجَدَ كَمَا تَضَعُ الْمَرْأَةُ
ابن ابی شيبه، المصنف، 1 242، الرقم 2780
(ابن عباس کے شاگرد) مجاہد کہتے ہیں مرد سجدہ میں اپنا پیٹ عورتوں کی طرح رانوں پر رکھے، یہ مکروہ ہے
سند میں لَيْث بن أبي سُلَيم ہے
قال ابن سعد: كان ليث رجلا صالحا عابدا وكان ضعيفا في الحديث
وقال يحيى بن معين: ليس حديثه بذاك ضعيف
وقال أبو حاتم وأبو زرعة لا يشتغل به هو مضطرب الحديث
وقال الإمام أحمد مضطرب الحديث
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: نا ابْنُ مُبَارَكٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: «الْمَرْأَةُ تَضْطَمُّ فِي السُّجُودِ»
ابن ابی شيبه، المصنف، 1 242، الرقم 2781
عورت سجدہ میں سمٹ جڑ کر رہے۔‘‘
سند ضعیف ہے – وهشام هو ابن حسان، لكن رواية هشام عن الحسن فيها مقال
ہشام کا سماع حسن سے ثابت نہیں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: نا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: «إِذَا سَجَدَتِ الْمَرْأَةُ فَلْتَلْزَقْ بَطْنَهَا بِفَخِذَيْهَا، وَلَا تَرْفَعْ عَجِيزَتَهَا، وَلَا تُجَافِي كَمَا يُجَافِي الرَّجُلُ
ابن ابی شيبه، المصنف،1 242، الرقم 2782
جب عورت سجدہ کرے تو پیٹ اپنے زانوؤں سے ملائے اور اپنی پیٹھ (سرین) مرد کی طرح بلند نہ کرے
سند میں سفیان ثوری کا عنعنہ ہے جو مدلس ہے لہذا ضعیف ہے
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: نا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ زُرْعَةَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلَاجِ، قَالَ: «كُنَّ النِّسَاءُ يُؤْمَرْنَ أَنْ يَتَرَبَّعْنَ إِذَا جَلَسْنَ فِي الصَّلَاةِ، وَلَا يَجْلِسْنَ جُلُوسَ الرِّجَالِ عَلَى أَوْرَاكِهِنَّ، يُتَّقَى ذَلِكَ عَلَى الْمَرْأَةِ مَخَافَةَ أَنْ يَكُونَ مِنْهَا الشَّيْءُ
ابن ابی شبيه، المصنف، 1 242، الرقم 2783
عورتوں کو نماز میں چوکڑی بھر کر (مربع شکل میں) بیٹھنے کا حکم تھا اور یہ کہ وہ مردوں کی طرح سرینوں کے بل نہ بیٹھیں تاکہ اس میں ان کی پردہ پوشی کھلنے کا ڈر نہ رہے۔‘‘
سند ضعیف ہے – زرعة بن إبراهيم پر محدث أبو حاتم کا قول ہے ليس بالقوى.
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: نا أَبُو خَالِدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنْ نَافِعٍ، «أَنَّ صَفِيَّةَ، كَانَتْ تُصَلِّي وَهِيَ مُتَرَبِّعَةٌ»
ابن ابی شبيه، المصنف،1 242، الرقم 2784
نافع سے روایت ہے سیدہ صفیہ نماز میں مربع شکل میں بیٹھا کرتی تھیں
نافع کی ملاقات صفیہ رضی اللہ عنہا سے ثابت نہیں ہے
ابن عجلان پر امام مالک کا کہنا ہے یہ بیروکریٹ تھا اس کو حدیث کا اتا پتا نہیں ہے
قال علی رضی الله عنه إذا سجدت المرأة فلتضم فخذيها.
بيهقی، السنن الکبری، 2 222، الرقم 3014
علی نے فرمایا عورت سجدہ میں سکڑ کر رہے اعضاء کو ملا کر رکھے۔
حَدَّثَنَاهُ أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللهِ بْنُ يُوسُفَ بْنِ أَحْمَدَ الْأَصْبَهَانِيُّ، أنبأ أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ الْحَسَنِ الْقَطَّانُ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَارِثِ الْبَغْدَادِيُّ، ثنا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، ثنا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى شَيْءٍ يُكَفِّرُ اللهُ [ص:26] بِهِ الْخَطَايَا وَيَزِيدُ بِهِ فِي الْحَسَنَاتِ؟ ” قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: ” إِسْبَاغُ الْوُضُوءِ عِنْدَ الْمَكَارِهِ، وَكَثْرَةُ الْخُطَا إِلَى هَذِهِ الْمَسَاجِدِ، وَانْتِظَارُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ، مَا مِنْكُمْ مِنْ رَجُلٍ يَخْرُجُ مِنْ بَيْتِهِ مُتَطَهِّرًا فَيُصَلِّي مَعَ الْمُسْلِمِينَ الصَّلَاةَ فِي جَمَاعَةٍ، ثُمَّ يَقْعُدُ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ يَنْتَظِرُ الصَّلَاةَ الْأُخْرَى إِلَّا أَنَّ الْمَلَائِكَةَ تَقُولُ: اللهُمَّ اغْفِرْ لَهُ اللهُمَّ ارْحَمْهُ، فَإِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاعْدِلُوا صُفُوفَكُمْ وَأَقِيمُوهَا، وَسُدُّوا الْفُرَجَ فَإِنِّي أَرَاكُمْ مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِي، فَإِذَا قَالَ إِمَامُكُمْ: اللهُ أَكْبَرُ فَقُولُوا اللهُ أَكْبَرُ، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا: اللهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ، وَإِنَّ خَيْرَ صُفُوفِ الرِّجَالِ الْمُقَدَّمُ وَشَرَّهَا الْمُؤَخَّرُ، وَخَيْرَ صُفُوفِ النِّسَاءِ الْمُؤَخَّرُ وَشَرَّهَا الْمُقَدَّمُ، يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ إِذَا سَجَدَ الرِّجَالُ فَاخْفِضْنَ أَبْصَارَكُنَّ لَا تَرَيْنَ عَوْرَاتِ الرِّجَالِ مِنْ ضِيقِ الْأُزُرِ
عن ابی سعيد الخدری صاحب رسول اﷲ عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم أنه قال خير صفوف الرجال الاول و خير صفوف النساء الصف الأخر وکان يامر الرجال أن يتجا فوا فی سجودهم يأمر النسآء أن ينخفضن فی سجود هن وکان يأمر الرجال أن يفر شوا اليسریٰ وينصبوا اليمنی فی التشهدو يأمر النسآء أن يتربعن وقال يا معشر النسآء لا ترفعن أبصار کن فی صلاتکن تنظرن إلی عورات الرجال.
بيهقی، السنن الکبری،2 222، الرقم 3014
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نماز میں مردوں کی سب سے بہتر صف پہلی عورتوں کی سب سے بہتر صف آخری ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرکار مردوں کو نماز میں سجدہ کے دوران کھل کھلا کر رہنے کی تلقین فرماتے اور عورتوں کو سجدوں میں سمٹ سمٹا کر رہنے کی۔ مردوں کو حکم فرماتے کہ تشہد میں بایاں پاؤں بچھائیں اور دایاں کھڑا رکھیں اور عورتوں کو مربع شکل میں بیٹھنے کا حکم دیتے اور فرمایا عورتو! نماز کے دوران نظریں اٹھا کر مردوں کے ستر نہ دیکھنا۔‘‘
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
حَدِيثُ أَبِي مُطِيعٍ الْحَكَمِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الْبَلْخِيِّ، عَنْ عُمَرَ بْنِ ذَرٍّ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِذَا جَلَسَتِ الْمَرْأَةُ فِي الصَّلَاةِ وَضَعَتْ فَخِذَهَا عَلَى فَخِذِهَا الْأُخْرَى، وَإِذَا سَجَدَتْ أَلْصَقَتْ بَطْنَهَا فِي فَخِذَيْهَا كَأَسْتَرِ مَا يَكُونُ لَهَا، وَإِنَّ اللهَ تَعَالَى يَنْظُرُ إِلَيْهَا وَيَقُولُ: يَا مَلَائِكَتِي أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَهَا .
بيهقی، السنن الکبری، 2 222، الرقم 3014
جب عورت نماز میں اپنا ایک ران دوسرے ران پر رکھ کر بیٹھتی ہے اور دوران سجدہ اپنا پیٹ رانوں سے جوڑ لیتی ہے جیسے اس کے لئے زیادہ ستر والی صورت ہے
سند ضعیف ہے
أَبُو مُطِيعٍ الْحَكَمُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْبَلْخِيُّ ضَعِيفٌ
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنُ حَنْبَلٍ قَالَ: سَأَلْتُ أَبِي، عَنْ أَبِي مُطِيعٍ الْحَكَمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَلْخِيِّ قَالَ: ” لا يَنْبَغِي أَنْ يَرْوِيَ عَنْهُ
باقی تمام متاخرین احناف کی انہی ضعیف آثار پر ارا ہیں
لیکن اس میں کوئی بھی مرفوع قول نبوی نہیں ہے
لہذا یہ احادیث نہیں ہیں اثار ہیں
kaha ja raha k marwan bin hakm k lie quran mn shajr e khabeesah ki misal di gi. kia yeh bt sahi hai
اس کی کوئی دلیل نہیں ہے
السلام عليكم
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص سورت بقرہ کی دو آیات پڑھے گا تو اس کو ہر مانگی ہوئی چیز مل جائے گی۔
اس حدیث کو ظاہری لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن جسمانی بیماریوں کیلئے بھی شفا ہے؟؟؟
سلام علیکم
مجھے اس میں جسم کا کوئی ذکر نہیں نظر آ رہا
السلام عليكم
بعض کے نزدیک خبر واحد پر عقیدہ بنایا تو کسی دوسرے عالم نے اس روایت کو ضعیف قرار دے دیا تو اس کے عقیدے کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی جبکہ اگر قرآن پر عقیدہ بنایا جائے اسکو کوئی قیامت تک ریجیکٹ نہیں کر سکتا اس کی کوئی آیت ضعیف وغیرہ نہیں ہے اس بارے میں تفصیل سے وضاحت آپ کی درکار ہے جزاک اللہ۔
سلام علیکم
خبر واحد – خبر ہے لہذا اس کو قبول کیا جائے گا مثلا اہل کتاب کی خبر قبول کرنے کا ذکر قرآن میں ہے کہ اہل ذکر سے پوچھ لو
اس طرح عبد اللہ بن سلام نے جنت کی خبر کی تصدیق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کرائی کہ جنتی کو کیا کھانے کو ملے گا
خبر اس طرح سچی تھی لیکن حق تھی یا نہیں اس میں اشکال تھا
اصولی طور پر خبر کو لیا جائے گا الا یہ کہ کوئی علت معلوم ہو
جہاں تک غلط عقائد کا تعلق ہے تو لوگ ان تک کو قرآن سے ثابت کرتے ہیں مثلا شہداء قبروں میں زندہ ہیں بعض کے نزدیک لیکن ہم خبر واحد سے ثابت کرتے ہیں صحیح مسلم کی روایت کہ شہداء جنت میں ہیں پرندوں میں ہیں
faraat k kinare kutta b mar jae to mn uska zemadar hon hazrat umr ne kaha. kia ye qol sahi hai
مجھے اس کی سند کا علم نہیں
خبر واحد کا درجہ قرآن جیسا نہیں ہے قرآن لاریب ہے خبر واحد لاریب نہیں ہوسکتی ۔تو پھر خبر واحد پر عقیدہ کیسے بنایا جاسکتا ہے؟؟
خبر واحد ایک سائن بورڈ کی طرح ہے – آپ رستہ پر جا رہے ہیں آگے جا کر دو رستے ہو جاتے ہیں تو خبر واحد آپ کو ایک صحیح سمت دے سکتی ہے
مثلا جو شہید ہو گئے وہ زندہ ہیں مگر کیا قبر میں ہیں یا جنت میں
خبر واحد یہاں صحیح عقیدہ تک لے جاتی ہے
خبر واحد کا مطلق منکر ، منکر حدیث کہا جائے گا اور یہ صحیح منہج نہیں ہے
اس سے
Related
ایک اور سوال ہے کہ خبر واحد پر بنائے گے عقیدے کا حکم کیا ہے؟
حنفی عالم نے ایک کتاب لکھی ہے
اصول فقہ پر ایک نظر جس میں ہےکہ خبر واحد کے منکر کی تکفیر نہیں ہوگی؟؟؟
کون سی خبر واحد ہے ؟ عمل کی یا عقیدے کی ؟ عقائد میں خبر واحد کو رد کرتا تحقیق طلب ہے
مثلا میں نے نزول مسیح کو رد نہیں کیا لیکن اس کی کچھ روایات کو رد کر دیا ہے
یہ خبر واحد کا انکار ہے لیکن نزول مسیح کا انکار نہیں جو دیگر خبر واحد سے مل رہا ہے
لہذا کیا تمام کی تمام اس عقیدہ کی خبر واحد کو رد کر دیا گیا ہے
یہ دیکھنا پڑے گا
السلام علیکم
اگر فجر کی سنت رہے جائے اور جماعت کھڑی ہوجائے تو کیا جماعت کے ساتھ فرض نماز پڑھ کر، اس کے بعد سنت نماز پڑسکتے ہیں؟
ترمزی شریف 422 کو امام ترمزی نے ضعیف کہا ہے۔ جبکہ ابوداود 1267 اور ابن ماجہ 1154 بھی ہے۔
تو کیا اس کی کوئی صحیح یا حسن موجود ہے؟
کیا قیس جو راوی ہیں، ان کے دو نام ہیں؟
مہربانی فرما کر رہنمائی کریں۔ شکریہ
و علیکم السلام
فرض نماز کے بعد پڑھ سکتے ہیں جس طرح حدیث میں ہے کہ رات کے نفل رہ جائیں تو دن میں پڑھ لئے جائیں
واللہ اعلم
حدیث کا عربی متن کیا ہے ؟
ترمزی 422
——
حدثنا محمد بن عمرو السواق البلخي، قال: حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن سعد بن سعيد، عن محمد بن إبراهيم، عن جده قيس، قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم فاقيمت الصلاة فصليت معه الصبح، ثم انصرف النبي صلى الله عليه وسلم فوجدني اصلي، فقال: ” مهلا يا قيس اصلاتان معا “، قلت: يا رسول الله إني لم اكن ركعت ركعتي الفجر، قال: ” فلا إذا ” قال ابو عيسى: حديث محمد بن إبراهيم لا نعرفه مثل هذا إلا من حديث سعد بن سعيد، وقال سفيان بن عيينة: سمع عطاء بن ابي رباح، من سعد بن سعيد هذا الحديث، وإنما يروى هذا الحديث مرسلا، وقد قال قوم من اهل مكة بهذا الحديث: لم يروا باسا ان يصلي الرجل الركعتين بعد المكتوبة قبل ان تطلع الشمس. قال ابو عيسى: وسعد بن سعيد هو اخ ويحيى بن سعيد الانصاري، قال: وقيس هو جد يحيى بن سعيد الانصاري ويقال: هو قيس بن عمر، ويقال: هو قيس بن قهد، وإسناد هذا الحديث ليس بمتصل، محمد بن إبراهيم التيمي لم يسمع من قيس، وروى بعضهم هذا الحديث، عن سعد بن سعيد، عن محمد بن إبراهيم، ان النبي صلى الله عليه وسلم خرج فراى قيسا، وهذا اصح من حديث عبد العزيز، عن سعد بن سعيد.
قیس (قیس بن عمرو بن سہل) رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور جماعت کے لیے اقامت کہہ دی گئی، تو میں نے آپ کے ساتھ فجر پڑھی، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پلٹے تو مجھے دیکھا کہ میں نماز پڑھنے جا رہا ہوں، تو آپ نے فرمایا: ”قیس ذرا ٹھہرو، کیا دو نمازیں ایک ساتھ ۱؎ (پڑھنے جا رہے ہو؟)“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے فجر کی دونوں سنتیں نہیں پڑھی تھیں۔ آپ نے فرمایا: ”تب کوئی حرج نہیں“ ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ہم محمد بن ابراہیم کی حدیث کو اس کے مثل صرف سعد بن سعید ہی کے طریق سے جانتے ہیں،
۲- سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ عطاء بن ابی رباح نے بھی یہ حدیث سعد بن سعید سے سنی ہے
———
———
ترمزی 423
——-
) حدثنا عقبة بن مكرم العمي البصري، حدثنا عمرو بن عاصم، حدثنا همام، عن قتادة، عن النضر بن انس، عن بشير بن نهيك، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” من لم يصل ركعتي الفجر فليصلهما بعد ما تطلع الشمس “. قال ابو عيسى: هذا حديث لا نعرفه إلا من هذا الوجه، وقد روي عن ابن عمر انه فعله، والعمل على هذا عند بعض اهل العلم، وبه يقول: سفيان الثوري , وابن المبارك , والشافعي , واحمد , وإسحاق، قال: ولا نعلم احدا روى هذا الحديث عن همام بهذا الإسناد نحو هذا إلا عمرو بن عاصم الكلابي، والمعروف من حديث قتادة، عن النضر بن انس، عن بشير بن نهيك، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ” من ادرك ركعة من صلاة الصبح قبل ان تطلع الشمس فقد ادرك الصبح.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو فجر کی دونوں سنتیں نہ پڑھ سکے تو انہیں سورج نکلنے کے بعد پڑھ لے“ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں،
——–
اس حدیث کی سند میں ایک راوی قتادہ ہیں جو مدلس ہیں، انہوں نے نصر بن انس سے عنعنہ کے ساتھ روایت کیا ہے، نیز یہ حدیث اس لفظ کے ساتھ غیر محفوظ ہے، عمرو بن عاصم جو ہمام سے روایت کر رہے ہیں، ان الفاظ کے ساتھ منفرد ہیں، ہمام کے دیگر تلامذہ نے ان کی مخالفت کی ہے اور اسے ان لفاظ کے علاوہ دوسرے الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے اور وہ الفاظ یہ ہیں «من أدرك ركعة من صلاة الصبح قبل أن تطلع الشمس فقد أدرك الصبحَ» ”جس آدمی نے سورج طلوع ہونے سے پہلے صبح کی نماز کی ایک رکعت پالی اس نے صبح کی نماز پا لی (یعنی صبح کے وقت اور اس کے ثواب کو) نیز یہ حدیث اس بات پر بصراحت دلالت نہیں کرتی ہے کہ جو اسے صبح کی نماز سے پہلے نہ پڑھ سکا ہو وہ سورج نکلنے کے بعد ہی لازماً پڑھے، کیونکہ اس میں صرف یہ ہے کہ جو اسے نہ پڑھ سکا ہو وہ سورج نکلنے کے بعد پڑھ لے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو اسے وقت ادا میں نہ پڑھ سکا ہو یعنی سورج نکلنے سے پہلے نہ پڑھ سکا ہو تو وہ اسے وقت قضاء میں یعنی سورج نکلنے کے بعد پڑھ لے، اس میں کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس سے صبح کی نماز کے بعد ان دو رکعت کو پڑھنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے اس کی تائید دارقطنی، حاکم اور بیہقی کی اس روایت سے ہوتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں «من لم يصل ركعتي الفجرحتى تطلع الشمس فليصلهما» ”جو آدمی سورج طلوع ہونے تک فجر کی دو رکعت سنت نہ پڑھ سکے وہ ان کو (سورج نکلنے کے بعد) پڑھ لے
———-
یہ دونوں روایت آپ کے سامنے ہیں۔
جزاک اللہ
shukriya
السلام عليكم
زازان کیلئے تابعی کا لفظ بولنا درست ہے حدیث میں خیر القرون میں تابعی بھی آتے ہیں جو راوی بدعقیدہ ہو اسے خیر قرون میں کیسے شامل کیا جاسکتا ہے؟ لیکن اصول حدیث کے تحت تو وہ تابعی ہی ہیں ۔
تابعی سے مراد اتبع کرنے والا ہے – زاذان اس طرح تابعی نہیں ہے لیکن اگر تعریف یہ کرو کہ اصحاب رسول کو دیکھنے والا تو کہا جاتا ہے یہ لشکر علی میں موجود تھا
بالکل اسی طرح جس طرح ابن سبا موجود تھا
والرسخون فی العلم کے بارے میں تفسیر احسن البیان میں لکھا ہے کہ مضبوط علم والے بھی متشابہات کا علم جانتے ہیں اس آیت کی صحیح تفسیر کر دیجیئے شکریہ
والرسخون فی العلم
جو علم میں راسخ ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ متشابھات آیات بھی من جانب اللہ ہیں ان پر ایمان لاتے ہیں
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان کو متشابھات کا علم ہے
یہ عقیدے ان کے کے ایجاد کردہ ہیں جنہوں نے متشابھات کی تشریح کی کوشش کی ہے اور اس میں فتنہ پیدا کیا ہے مثلا یہ کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے یا معراج پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم عرش تک چلے گئے
ان عقائد کو متشابھات سے نکالا جاتا ہے
میری کتاب
توحید اسماء الحسنی میں اس پر تفصیل ہے
کیا چھٹی کی رسم بدعت ہے؟
ہر رسم جو بلا نیکی کے تصور میں محض رسم پر کی جاتی ہو وہ بدعت نہیں ہے
اس کو معروف کہتے ہیں جو ہر معاشرہ میں الگ الگ ہوتا ہے
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے متعلق اہل علم کی آرا:
سر پھرے عثمانی صاحبان تو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو بد عقیدہ مشرک ،شرک کا داعی اور طاغوت کہتے ہیں لیکن دوسری طرف اہل علم ، محدثین و آئمہ دین وغیرہ کا اجماع ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ صالح و عادل مومن و مسلم اور مبلغ اسلام تھے۔
(1) امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ جو امام بخاری رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں وہ کہتے ہیں:
هو إمام و هو حجة،
”وہ احمد بن حنبل امام اور حجت ہیں ۔“
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم الرازي :جلد 2 صفحہ 70 ،و سنده صحيح)
نیز فرماتے ہیں:
إذا رأيتم الرجل يحب أحمد بن حنبل فاعلم أنه صاحب سنة
”جب تم کسی آدمی کو دیکھو کہ وہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے محبت کرتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ صاحب سنت ہے۔
(الجرح والتعديل لابن ابی حاتم الرازي :308/1،و سنده صحيح)
(2) امام نسائی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
الثقة المأمون أحد الائمة
احمد بن حنبل ثقہ مامون اماموں میں سے ایک ہیں ۔“
(تہذیب التہذیب لابن حجر :75/1)
(3) امام یحیی بن آدم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
”احمد بن حنبل اللہ ہمارے امام ہیں ۔“
(تہذیب التہذیب لابن حجر: 73/1)
(4) امام قتیبہ بن سعید رحمہ اللہ کہتے ہیں:
احمد بن حنبل رحمہ اللہ دنیا کے امام ہیں ۔“
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم :295/1 ، و سندہ صحیح)
(5) امام بخاری رحمہ اللہ نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو ائمہ اہل سنت میں شامل کیا ہے۔
( جز رفع الیدین ،ص:64)
(6) محدث دورقی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
من سمعتموه يذكر أحمد بسوء فاتهموه على الإسلام،
” جب تم کسی کو سنو کہ وہ احمد بن حنبل کا برائی کے ساتھ ذکر کر رہا ہے تو اس کے اسلام پر تہمت لگاؤ۔
( مناقب الامام احمد ابن الجوزی صفحہ 495,494، و سندہ صحیح)
(7) امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:
من أبغض أحمد بن حنبل فهو كافر
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے بغض رکھنے والا کافر ہے ۔
(طبقات الحنابلة : 7/1)
اس وقت معتزلہ وغیرہ گمراہ اور بد عقیدہ فرقے امام احمد رحمہ اللہ کا ذکر برائی سے کرتے تھے اور امام صاحب سے انتہائی درجہ کا بغض رکھتے تھے، آج اس دور میں عثمانی فرقہ ان کے نقش قدم پر چل رہا ہے۔
(8) نیز فرماتے ہیں:
أحمد إمام في ثمان خصال إمام في الحديث إمام في الفقه إمام في اللغة إمـام فـي الـقـرآن إمـام فـي الـفـقـر امـام فـي الزهـد إمـام فـي الورع إمام في السنة ”
امام احمد بن حنبل : آٹھ خصائل: حدیث ،فقہ ،لغت،قرآن فقر ، زہد، تقوی اور سنت میں امام ہیں ۔
(طبقات الحنابلة :5/1)
اختصار کے پیش نظر یہاں چند اقوال نقل کئے گئے ہیں، ورنہ اگر دوسرے اہل علم کے اقوال بھی نقل کیے جاتے تو ایک کتاب بن جاتی ،اب اس بات کا جواب عثمانی فرقہ کے ذمہ ہے کہ جو اہل علم امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو امام قرار دیتے ہیں، کیا وہ کافر تھے یا مسلمان ………
اور ان اہل علم میں سر فہرست ہیں
امام شافعی رحمہ اللہ
امام بخاری رحمہ اللہ
امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ جو امام بخاری رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں
اور امام نسائی رحمہ اللہ جن کو دنیا جانتی اور مانتی ہے ؟؟؟؟
لگاؤ فتوی
یہ ایک احمد بن حنبل کا مقلد کی پوسٹ ہے اس پر تبصرہ فرما دیجئے جزاک اللہ۔
طبقات حنابلہ میں امام شافعی کے قول کی مکمل سند ہی نہیں ہے
وقال الربيع بن سليمان قَالَ الشافعي من أبغض أحمد بن حنبل فهو كافر فقلت: تطلق عليه أسم الكفر فقال نعم من أبغض أحمد بن حنبل عاند السنة ومن عاند السنة قصد الصحابة ومن قصد الصحابة أبغض النَّبِيّ ومن أبغض النَّبِيّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – كفر بالله العظيم
قتیبہ کے قول کی سند بھی نہیں ہے
وقال قتيبة بن سعيد أحمد بن حنبل إمامنا من لم يرض به فهو مبتدع.
کیا احمد کے ایک ایک عقیدہ کا ان محدثین کو علم تھا یہ دعوی تو آج ہم بھی نہیں کرتے ہم تو صرف جو تقریر میں سنا اس کی ہی گواہی دے سکتے ہیں
مثلا امام احمد کا تعویز کرنا امام ابو داود اور احمد کے گھر والوں نے بیان کیا ہے تمام محدثین کو اس کا علم نہ تھا
امام احمد فرشتوں کو بیاباں میں پکارتے تھے گھر والوں نے ذکر کیا ہے تمام محدثین کو اس کا علم نہ تھا
اس طرح گھر والوں کی گواہی سب سے بڑھ کر ہے
کوئی سوال کرے کہ معتزلہ کا عقیدہ خلق قرآن درست تھا تو ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ غلط تھا امام احمد کا موقف بہتر تھا
اس طرح یہ اقوال جو جمع کیے جاتے ہیں یہ کسی تناظر میں ہوتے ہیں اور ان کو ان کی حد میں ہی سمجھا جا سکتا ہے
امام احمد جرح و تعدیل کے امام ہیں اس میں ان کا قول لیا جائے گا لیکن مسئلہ خلق قرآن میں جب ان کو کوڑے لگے تو ان کی عقل چلی گئی تھی اور انہوں نے جو عقائد پیش کیے ان پر اہل علم نے امام احمد کا نام لئے بغیر نکیر کی ہے
مثلا امام بخاری کو امام احمد کے خلق قرآن کے اس موقف پر اعتراض تھا کہ قرآن کی تلاوت کو بھی مخلوق نہ کہا جائے
یہ موقف امام بخاری و امام الذھبی نے رد کیا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عرش پر بیٹھا دیا جائے گا یہ امام احمد کا عقیدہ کہا جاتا ہے
امام ابن تیمیہ و امام الذھبی نے اس عقیدے کو رد کیا ہے
امام احمد تعویذ کرتے تھے اس عمل کو آج تک امت میں متعدد علماء کی جانب سے شرک کہا جاتا ہے
امام احمد کا معلوم ہوا فرشتوں کو پکارتے تھے اس پر اجماع اہل علم ہے کہ یہ بھی شرک ہے
توحید باری تعالی کے معاملے میں کوئی کومپرومائز نہیں ہو گا یہ بات یاد رہے
فرقے یہ فریاد کیوں کرتے رہتے ہیں کہ امام احمد امام تھے ؟ امام احمد مر کھپ چکے ہیں لیکن یہ احمد کے عقائد کو چھپاتے ہیں
یا ان کا غیر ضروری دفاع کرتے ہیں
ان کو کوئی احساس ندامت نہیں کیونکہ یہ ان کا پیشہ ہے کہ حق کو چھپا کر لوگوں کو علماء کی پوجا میں لگا دیا جائے
جزاک اللہ شیخ
شیخ یہ ساری پی ڈی ایف اٹیچ کردی جائے اسکے جواب میں؟؟
احمد کے مشرکانہ عقائد انکی ہی کتب سے آپ نے جواب دے دیا ہے کئی سال پہلے- موصوف کو فرصت نہیں ملی پڑھنے کی۔
send kar dain
السلام عليكم
کسی روایت کو ایک راوی بیان کرے تو کیا اس پر
عمل نہیں کیا جاسکتا؟
جیسے اپ نے ایت الکرسی کے متعلق کہا اپنی کتاب میں کہ صرف ایک راوی اس کی فضیلت بیان کر رہا ہے جبکہ اتنی فضیلت والی روایت کو سب کو بیان کرنا چاہیے؟؟(کتاب بدعات)
و علیکم السلام
کیا جا سکتا ہے – فضائل میں جب کسی عمل کو بڑھا کر بیان کیا گیا ہو تو اس کا علم سب کو ہو گا یہ ایک انسانی تجربہ کی بات ہے
السلام عليكم
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى أَبُو مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ، أَخْبَرَنِي الْحُسَيْنُ بْنُ وَاقِدٍ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ يَعْنِي ابْنَ سَالِمٍ الْمُقَفَّعَ، قَالَ: رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ يَقْبِضُ عَلَى لِحْيَتِهِ فَيَقْطَعُ مَا زَادَ عَلَى الْكَفِّ، وَقَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَفْطَرَ، قَالَ: ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ .
مروان بن سالم مقفع کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ وہ داڑھی کو اپنی مٹھی میں لیتے اور اس سے جو بڑھی ہوئی ہوتی اسے کاٹ ڈالتے ۔ اور بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب روزہ افطار کرتے تو یہ دعا پڑھتے تھے : «ذهب الظمأ وابتلت العروق وثبت الأجر إن شاء الله» ’’ پیاس بجھ گئی ‘ رگیں تر ہو گئیں اور اللہ نے چاہا تو اجر بھی ثابت ہو گیا ۔“
Sunnan e Abu Dawood#2357
اس روایت کی سند صحیح ہے؟
Sunnan e Abu Dawood Hadees # 2357
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى أَبُو مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ، أَخْبَرَنِي الْحُسَيْنُ بْنُ وَاقِدٍ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ يَعْنِي ابْنَ سَالِمٍ الْمُقَفَّعَ، قَالَ: رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ يَقْبِضُ عَلَى لِحْيَتِهِ فَيَقْطَعُ مَا زَادَ عَلَى الْكَفِّ، وَقَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَفْطَرَ، قَالَ: ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ .
میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا، وہ اپنی داڑھی کو مٹھی میں پکڑتے اور جو مٹھی سے زائد ہوتی اسے کاٹ دیتے، اور کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب افطار کرتے تو یہ دعا پڑھتے: «ذهب الظمأ وابتلت العروق وثبت الأجر إن شاء الله» پیاس ختم ہو گئی، رگیں تر ہو گئیں، اور اگر اللہ نے چاہا تو ثواب مل گیا ۔
یہ حسن ہے
ap ki kitab mn shahdat e usman wale qisse mn ik hadith hai jis mn ik shkhs ne yeh tasur dia k. k mavia r.a ne planning se usman r.a ko shaheed kia
yeh kaisi hai …
or kaha yeh ja raha usman r a ne apno ko ameer muqarar kiaor fyda dia or marwan bin hakm ko apna damad bnaya or sari hukomat us k. control mn thi hzrt usman r.ak control nae tha….. yeh shia manty hai.
کس کتاب میں کس صفحہ پر ہے ؟
اس قسم کی روایت معلوم نہیں
sulah e hassan ki ik hadith hai bukhari mn us ka sahi. tarjma kr dein..
us mn hai yehmere sathi mall o marah k elawa razi na hongy …..
is se tohyeh niklta k hzrt umr r.a ne wazaif mn tabqat bna kr tafreeq paida ki…. ap kia khty hai
حدیث کا متن کیا ہے نمبر کیا ہے ؟
2704 sahih bukhari
yeh b maloom hai k hazrt mr r.a ne husnain r.a ka wazifa ashab e bdr jitna rakha tha
https://mohaddis.com/View/Sahi-Bukhari/T2/2704
یہ ترجمہ صحیح ہے
sulah e hassan 2704 sahih bukhariiiii
Apki kitb. hazrat Ali mm bait e khilaft k qisso mn. safa no 64 pe hai woh hadith
بیعت علی پر کوئی صحیح روایت نہیں
میں نے روایات جمع کر کے ان پر بحث کی ہے
مضطرب ہیں متن تاریخ سے بھی غلط ثابت ہوتا ہے
السلام عليكم
ابو شہریار صاحب
احمد کے خط کو قرآن کے مقابلے میں غیر یقینی کہنا کیا طاغوت کا دفاع کرنا ہے؟؟
و علیکم السلام
قرآن یقینا من جانب اللہ ہے لیکن بہت سی اور خبروں کو بھی’ علم یقین مانا جاتا ہے
اس کی مثال قرآن میں ہی ہے کہ ہدہد نے سلیمان علیہ السلام سے کہا میں یقینی خبر لایا ہوں
کہ ملکہ سبا و اس کی قوم مشرک ہے
سلیمان نے خبر قبول کی اور دھمکی آمیز خط ملکہ کو بھیجا
موسی علیہ السلام کو ایک شخص نے خبر دی کہ دربار فرعون میں ان کے قتل پر بات ہو رہی ہے – موسی ایک شخص کی بات پر مصر چھوڑ گئے
لہذا خبر واحد سے بھی یقینی خبر مل جاتی ہے کہ فلاں مشرک ہے
احمد کا معاملہ صرف خط تک محدود نہیں رہا ہے ٠ ااحمد کے وہ عقائد بھی معلوم ہوئے ہیں جو ڈاکٹر عثمانی کے علم میں نہیں تھے لیکن شرک ہیں
مثلا
تعویذ کرنا
فرشتوں کو پکارنا
اس پر گواہ احمد کے بیٹے ہیں گھر والے ہیں
جن کو گواہی کو لیا جاتا ہے
اس طرح اگر خط کو غیر یقینی کھو تو کیا کہنے والا مردے کی حیات فی القبر پر احمد کی اس عقیدے پر نسبت کو رد کر رہا ہے ؟ تو اس سے اس کے خلاف دلیل طلب کی جائے کہ اس کو کیسے علم ہوا کہ یہ احمد کا عقیدہ ممکن ہے نہ ہو ؟
اس طرح تو ہر مشہور شخص پر شک کا اظہار ہو گا
منصور حلاج سے ہماری ملاقات نہیں لیکن تمام صوفیا کہتے ہیں اس کا نعرہ انا الحق تھا
جب کسی عقیدے کی نسبت ایک شخص سے مشہور ہو جائے اور سارا عالم کہے کہ یہ اس شخص کا عقیدہ ہے تو ہم اسی قول مشہور کو لیں گے
اس طرح یہ خبر واحد کی بحث احمد سے اس کے عقیدہ کی نسبت کو ختم نہیں کر سکتی
میرے نزدیک یہ خبر واحد کی یہاں بحث چھیڑنا احمد سے اس عقیدے کی نسبت کو مشکوک قرار دینا ہے
اس کا کوئی فائدہ نہیں
کیونکہ ہم کو صحیح کہنے کا حکم ہے
اگر ہم نے نوٹ کیا کہ کسی نے غلط عقیدہ دیا ہے تو ہم اس عقیدے کی نسبت اس شخص یعنی احمد سے ہی کریں گے
اس طرح خلط مبحث نہیں کریں گے
بعض قوانین حدیث کے لئے ہیں – علماء کے اقوال پر تحقیق کے لئے نہیں ہیں
خبر واحد کی بحث حدیث و روایات کے لئے ہے
علماء سے منسوب ان کے مشہور عقیدوں کے لئے نہیں ہے
لب لباب ہوا کہ اس قسم کے علمی شوشوں سے طاغوت کو غیر طاغوت بنا کر پیش کیا جا سکتا ہے اور بہتر ہے کہ علم حدیث کو حدیث پر لگایا جائے نہ کہ مشہور شخصیت کی خبروں پر
جزاک اللہ
بعض کے نزدیک قران کی خبر واحد قطعی اور یقینی ہے اور اس سے اختلاف کفر ہے لیکن حدیث میں جو خبر واحد آئے وہ لا ریب نہیں نہ ہی اس سے اختلاف کفر ہے وضاحت درکار ہے جزاک اللہ شیخ
کسی حدیث کا متن منکر ہو تو ایسا کیا جا سکتا ہے ورنہ قول نبوی کا پھر کیسے علم ہو گا اگر سب صحیح احادیث مشکوک ہیں ؟
صادق راوی کی خبر واحد – نبا یقین ہے جیسا ہدہد کے قصے میں ہے یعنی سچی خبر
اب اس میں اشکال نہیں ہے
محدثین نے حدیث پر جرح کی ہے تو اس کی دلیل بھی دی ہے لہذا دلیل کے تحت بات کی جاتی ہے
بلا دلیل سب مجموعہ احادیث کو غیر یقینی مشکوک نہیں کہہ سکتے
insan ko ik nafs se bnaya phir us se uska jora bnaya is ka mutlb kia hai … is se kya us hadith se mutabiqt hoti k aurt pasli se bni… i hadith sahi hai k nahi.. ya dono ka khameer matti se utha ik nafs se bnnae ka yeh mutlb hai
or phir ek sath roh phonki gae q k yeh hai k tumor tumhari bivi jannt mn raho
yeh jannat ka hukm toh adams k asma btane or satan ka raz fash hone or adam ko sajda krne k bad jannat mn rehne ko bola gya yani jab yeh sab ho raha tab hawa a.s bhi wahn thi
or ehd alst kia us waqpt hoa jab kalamt seekh kr galti ki maafi mangi to phle ehd hoa phir zameen pe utara gya
عورت کو آدم پسلی سے بنایا صحیح روایت نہیں
قرآن میں ہے کہ ایک نفس سے بنایا – اس کا مکمل علم اللہ کو ہے ہم ایمان لاتے ہیں
کس طرح تخلیق ہوا کسی صحیح حدیث میں نہیں ہے
شادی کے وقت ام المومنین حضرت عائشہ کی عمر 15 یا 16سال کے قریب تھی اور رخصتی کے وقت 18 یا 19 سال۔
بخاری کی 6 اور 9 سال کی روایت خود بخاری کی پانچ مستند روایات سے متصادم ھے۔اگر اس روایت کو درست مانا جاۓ کہ ام المومنین کی عمر شادی کے وقت 9 سال تھی تو پھر اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ ان کی پیدائش اعلان نبوت کے پانچ سال بعد ہوئی ہو گی۔جبکہ تاریخ طبری میں لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر کی تمام اولاد زمانہ جاہلیت میں ہوئی تھی، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت سے پہلے ہی سیدہ عائشہ پیدا ہو چکی تھیں اور اس حساب سے ان کی نکاح کے وقت عمر 18 یا 19 سال بنتی ہے۔
1: بخاری کی 9 سال والی روایت کو بخاری میں موجود مواد ھی رد کرتا ھے۔ سورۃ القمر 5 نبوی میں نازل ہوئی، بخاری کی روایت نمبر 4876 میں سیدہ عائشہ بیان کرتی ہیں کہ جب سورہ قمر نازل ہوئی تو میں اس وقت کھیلتی پھرتی تھی۔
یعنی سیدہ عائشہ عمر کے اس حصے میں تھیں کہ جہاں وہ اپنی ہم عمر لڑکیوں کے ساتھ کھیلتی بھی تھیں ۔ اس سورۃ کے نزول کے وقت اگر ہم سیدہ عائشہ کی عمر چھ سال بھی فرض کریں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کے وقت 15 یا 16سال کے قریب عمر بنتی ھے اور رخصتی کے وقت 18 یا 19 سال۔
2: بخاری میں ہی ایک روایت (بخاری – 2880) موجود ہے کہ سیدہ عائشہ غزوہ احد میں شریک تھیں اور زخمیوں کو پانی پلانے کیلئے مشکیزے بھر بھر کر لا رہی تھیں۔ یاد رھے کہ غزوہ احد 3 ھجری میں ھوا۔ اب 9 سال میں شادی کو مانیں تو عمر 10 سال بنتی ھے جبکہ بخاری کی ہی ایک روایت (بخاری – 2664) میں موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ احد میں پندرہ سال سے کم عمر بچوں کو جانے کی اجازت نہیں دی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ احد کے وقت سیدہ عائشہ کی عمر 15 سال سے زیادہ تھی۔
3: یہ محکم حقیقت ھے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی بڑی بہن سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے9 یا 10 سال چھوٹی تھیں۔سیدہ اسماء کی وفات 73 ہجری میں ہوئی جب ان کی عمر99 یا 100 سال تھی۔
ثابت یہ ہوا کہ اگر 73 ہجری میں ان کی عمر 100 سال تھی تو پھر ہجرت کے وقت ان کی عمر 26 یا 27 سال ہو گی، اور سیدہ عائشہ ان سے 9 یا 10 سال چھوٹی تھیں تو ان کی عمر ہجرت کے وقت 15 سے 16 سال ہو گی۔ اور ہجرت کے تقریباً دو یا تین سال بعد سیدہ عائشہ کی رخصتی ہوئی تھی یعنی اس وقت ان کی عمر 18 یا 19 سال تھی۔
(ابن کثير، البدايه والنهايه 8 / 346)
(علامه ابن حجر عسقلانی، تهذيب التهذيب 12 ص 426)
(محمد ابن سود الکاتب الواقدی 168ه م 230ه الطبقات الکبریٰ ج 8 / 255)
(امام ابن الجوزی، اسدالغايه فی معرفة الصحابة ج 5 ص 392)
(سيرة ابن هشام م 1 ص 271 طبع بيروت)
4۔ حضرت عائشہ رض کی حضور ص سے نسبت سے پہلے ایک منگنی ٹوٹ چکی تھی اور کچھ حوالوں میں نکاح ھو کر رخصتی سے پہلے طلاق ھوچکی تھی۔ یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ یہ معاملات چھ سال کی عمر میں ھوئے ھوں۔ جبکہ حضور سے نکاح اور رخصتی ان معاملات سے بعد ھوئی۔
نوٹ۔ اس تحریر میں میں نے سات مختلف تحاریر و تقاریر سے استفادہ کیا ھے ۔ چونکہ ان افادات میں آپس میں تضاد بھی تھا اس لئے ان معلومات کو
باربط بنا کر لکھا ھے۔
is pr ap kia khty hai
سورہ قمر کب نازل ہوئی کسی صحیح روایت سے معلوم نہیں
ان روایات پر بحث ام المومنین پر کتاب میں موجود ہے
https://youtu.be/MskG3HYNhEc
السلام عليكم
یہاں وگ کو جائز قرار دیا گیا ہے جبکہ یہ تو حرام ہے وضاحت درکار ہے۔
مندرجہ ذیل روایت ضعیف ہے؟
سنن نسائي
كتاب الزينة من السنن
کتاب: زیب و زینت اور آرائش کے احکام و مسائل
41. بَابُ : مَنْ أُصِيبَ أَنْفُهُ هَلْ يَتَّخِذُ أَنْفًا مِنْ ذَهَبٍ
41. باب: کیا جس کی ناک کٹ جائے وہ سونے کی ناک لگوا سکتا ہے؟
حدیث نمبر: 5165
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا يزيد بن زريع، عن ابي الاشهب , قال: حدثني عبد الرحمن بن طرفة، عن عرفجة بن اسعد بن كريب، قال: وكان جده , قال: حدثني انه راى جده اصيب انفه يوم الكلاب في الجاهلية، قال: فاتخذ انفا من فضة، فانتن عليه , فامره النبي صلى الله عليه وسلم ان يتخذه من ذهب”.
عبدالرحمٰن بن طرفہ کہتے ہیں کہ انہوں نے دیکھا کہ جاہلیت میں جنگ کلاب کے دن ان کے دادا (عرفجہ بن اسد رضی اللہ عنہ) کی ناک کٹ گئی، تو انہوں نے چاندی کی ناک بنوائی، پھر اس میں بدبو آ گئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ سونے کی ناک بنوا لیں۔
روایت حسن درجہ پر ہے
سونا مجبوری کی وجہ سے یہاں اجازت کے بعد استعمال ہوا ہے
زیبائش کے لیے نہیں
shohr bulay or aurt rukh pher ley ya na jae to farishte raat bhar lant krty hai
kesi riwayt hai
agr begum quran online claas mn buzy ho ya kisi es se mutalka kaam mn ho tab b yehi hadith wala hulagay ga
إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فَأَبَتْ فَبَاتَ غَضْبَانَ عليها لَعَنَتْهَا الملائكة حتى تصبح
صحیح روایت ہے
السلام علیکم
میرا سوال لایف انشورنس ، ہیلتھ انشورنس کے حوالے سے ہے۔ کیا یہ جائز ہے؟؟
کہتے ہیں کہ انشورنس حرام ہے۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی انشورنس بھی ہے۔ جس کا کوئی اسلامی نام دے دیا ہے۔ اس میں بھی سب لوگ پیسے جمع کرواتے ہیں ۔ اور فائدہ اٹھاتے ہیں۔
اگر انشورنس کو اس لئے حرام قرار دیا گیا ہے کہ وہ کمپنی سود لیتی ہے یا سودی کاروبار کرتی ہے۔ توجو سود لیتا ہے۔ اس کا گناہ اسی پر ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر
پاکستان قرضہ لیتا ہے۔ سود پر پھر وہ پیسے عوام پر لگائے جاتے ہیں۔ اب جس نے سود لیا ہے وہ ذمہ دار۔ پاکستان کی عوام تو ذمہ دار نہیں۔
ایک انشورنس کمپنی لاکھوں لوگوں سے پیسے لیتی ہے۔ وہ ان پیسوں سے بزنس کر کہ اپنی کمپنی کے خرچے اور بل نکالتی ہے۔ لاکھوں لوگوں کے پیسے ہیں، تو جو انشورنس کلیم کرتا ہے۔ پیسے اسی کے پاس جاتے ہیں۔
میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی کمپنی سود لیتی ہے تو اس کے ذمہ دار ہم کیسے؟
جزاک اللہ
لایف انشورنس ، ہیلتھ انشورنس کی اسلام میں ضرورت نہیں بلکہ بالکل بے مقصد ہے
مجبوری میں لی جا سکتی ہے مثلا کسی نوکری میں سب پر لازم کو ہیلتھ انشورس لیں تو یہ مجبوری ہے
اللہ تعالی نے فرعوں کے جرم میں اس کی قوم کو شامل کیا ہے
Quran mn fasiq ki jhooti khbr ka shan nuzool waleed bin uqba k lie hai musaand ahmed mn shan e nuzool mn in k waqie ka zikr hai yeh hadith kesi hai
or es k baap se. mutaliq hai k us ne camel ki ojriAap s aw pr rakhi phr fatimaelr.a ne aa k hattai
kia fatah maqqa pr muslim hony walo ko tulaqa kha gya hai. or es lafz ka maani kia hai .. kia in ko munfiqeen mn gina jana drust hai
waleed bin uqba
کے حوالے سے آیت کے شان نزول کی روایات مشکوک و ضعیف ہیں
السلام عليكم
ذیل میں حدیث کی تحقیق درکار ہے جزاک اللہ
صحيح مسلم حدیث نمبر 4245
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ، وَاللَّفْظُ لِزُهَيْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: كَانَتْ ثَقِيفُ حُلَفَاءَ لِبَنِى عُقَيْلٍ، فَأَسَرَتْ ثَقِيفُ رَجُلَيْنِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَسَرَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رَجُلًا مِنْ بَنِي عُقَيْلٍ، وَأَصَابُوا مَعَهُ الْعَضْبَاءَ، فَأَتَى عَلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الْوَثَاقِ، قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، فَأَتَاهُ، فَقَالَ: «مَا شَأْنُكَ؟» فَقَالَ: بِمَ أَخَذْتَنِي، وَبِمَ أَخَذْتَ سَابِقَةَ الْحَاجِّ؟ فَقَالَ: «إِعْظَامًا لِذَلِكَ أَخَذْتُكَ بِجَرِيرَةِ حُلَفَائِكَ ثَقِيفَ»، ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْهُ، فَنَادَاهُ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، يَا مُحَمَّدُ، وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَحِيمًا رَقِيقًا، فَرَجَعَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: «مَا شَأْنُكَ؟» قَالَ: إِنِّي مُسْلِمٌ، قَالَ: «لَوْ قُلْتَهَا وَأَنْتَ تَمْلِكُ أَمْرَكَ أَفْلَحْتَ كُلَّ الْفَلَاحِ»، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَنَادَاهُ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، يَا مُحَمَّدُ، فَأَتَاهُ، فَقَالَ: «مَا شَأْنُكَ؟» قَالَ: إِنِّي جَائِعٌ فَأَطْعِمْنِي، وَظَمْآنُ فَأَسْقِنِي، قَالَ: «هَذِهِ حَاجَتُكَ»، فَفُدِيَ بِالرَّجُلَيْنِ، قَالَ: وَأُسِرَتِ امْرَأَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ وَأُصِيبَتِ الْعَضْبَاءُ، فَكَانَتِ الْمَرْأَةُ فِي الْوَثَاقِ وَكَانَ الْقَوْمُ يُرِيحُونَ نَعَمَهُمْ بَيْنَ يَدَيْ بُيُوتِهِمْ، فَانْفَلَتَتْ ذَاتَ لَيْلَةٍ مِنَ الْوَثَاقِ، فَأَتَتِ الْإِبِلَ، فَجَعَلَتْ إِذَا دَنَتْ مِنَ الْبَعِيرِ رَغَا فَتَتْرُكُهُ حَتَّى تَنْتَهِيَ إِلَى الْعَضْبَاءِ، فَلَمْ تَرْغُ، قَالَ: وَنَاقَةٌ مُنَوَّقَةٌ فَقَعَدَتْ فِي عَجُزِهَا، ثُمَّ زَجَرَتْهَا فَانْطَلَقَتْ، وَنَذِرُوا بِهَا فَطَلَبُوهَا فَأَعْجَزَتْهُمْ، قَالَ: وَنَذَرَتْ لِلَّهِ إِنْ نَجَّاهَا اللهُ عَلَيْهَا لَتَنْحَرَنَّهَا، فَلَمَّا قَدِمَتِ الْمَدِينَةَ رَآهَا النَّاسُ، فَقَالُوا: الْعَضْبَاءُ نَاقَةُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِنَّهَا نَذَرَتْ إِنْ نَجَّاهَا اللهُ عَلَيْهَا لَتَنْحَرَنَّهَا، فَأَتَوْا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرُوا ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: «سُبْحَانَ اللهِ، بِئْسَمَا جَزَتْهَا، نَذَرَتْ لِلَّهِ إِنْ نَجَّاهَا اللهُ عَلَيْهَا لَتَنْحَرَنَّهَا، لَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَةٍ، وَلَا فِيمَا لَا يَمْلِكُ الْعَبْدُ»، وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ حُجْرٍ: «لَا نَذْرَ فِي مَعْصِيَةِ اللهِ
مجھے زہیر بن حرب اور علی بن حجر سعدی نے حدیث بیان کی ۔۔۔ الفاظ زہیر کے ہیں ۔۔۔ ان دونوں نے کہا : ہمیں اسماعیل بن ابراہیم نے حدیث سنائی ، کہا : ہمیں ایوب نے ابوقلابہ سے حدیث بیان کی ، انہوں نے ابومہلب سے اور انہوں نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : ثقیف ، بنو عقیل کے حلیف تھے ، ثقیف نے رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے دو آدمیوں کو قید کر لیا ، ( بدلے میں ) رسول اللہ ﷺ کے اصحاب نے بنو عقیل کے ایک آدمی کو قیدی بنا لیا اور انہوں نے اس کے ساتھ اونٹنی عضباء بھی حاصل کر لی ، رسول اللہ ﷺ اس آدمی کے پاس سے گزرے ، وہ بندھا ہوا تھا ، اس نے کہا : اے محمد ! آپ ﷺ اس کے پاس آئے اور پوچھا :’’ کیا بات ہے ؟‘‘ اس نے کہا : آپ نے مجھے کس وجہ سے پکڑا ہے اور حاجیوں ( کی سواریوں ) سے سبقت لے جانے والی اونٹنی کو کیوں پکڑا ہے ؟ آپ نے ۔۔۔ اس معاملے کو سنگین خیال کرتے ہوئے ۔۔۔ جواب دیا :’’ میں نے تمہیں تمہارے حلیف ثقیف کے جرم کی بنا پر ( اس کے ازالے کے لیے ) پکڑا ہے ۔‘‘ پھر آپ وہاں سے پلٹے تو اس نے ( پھر سے ) آپ کو آواز دی اور کہا : اے محمد ! اے محمد ( ﷺ ) ! رسول اللہ ﷺ بہت رحم کرنے والے ، نرم دل تھے ۔ پھر سے آپ اس کے پاس واپس آئے اور فرمایا :’’ کیا بات ہے ؟‘‘ اس نے کہا : ( اب ) میں مسلمان ہوں ۔ آپ نے فرمایا :’’ اگر تم یہ بات اس وقت کہتے جب تم اپنے مالک آپ تھے ( آزاد تھے ) تو تم پوری بھلائی حاصل کر لیتے ( اب بھی ملے گی لیکن پوری نہ ہو گی ۔ ) ‘‘ پھر آپ پلٹے تو اس نے آپ کو آواز دی اور کہا : اے محمد ! اے محمد ( ﷺ ) ! آپ ( پھر ) اس کے پاس آئے اور پوچھا :’’ کیا بات ہے ؟‘‘ اس نے کہا : میں بھوکا ہوں مجھے ( کھانا ) کھلائیے اور پیاسا ہوں مجھے ( پانی ) پلائیے ۔ آپ نے فرمایا :’’ ( ہاں ) یہ تمہاری ( فوراً پوری کی جانے والی ) ضرورت ہے ۔‘‘ اس کے بعد ( معاملات طے کر کے ) اسے دونوں آدمیوں کے بدلے میں چھوڑ دیا گیا ۔ ( اونٹنی پیچھے رہ گئی اور رسول اللہ ﷺ کے حصے میں آئی ۔ لیکن مشرکین نے دوبارہ حملے کر کے پھر اسے اپنے قبضے میں لے لیا ۔ )
کہا : ( بعد میں ، غزوہ ذات القرد کے موقع پر ، مدینہ پر حملے کے دوران ) ایک انصاری عورت قید کر لی گئی اور عضباء اونٹنی بھی پکڑ لی گئی ، عورت بندھنوں میں ( جکڑی ہوئی ) تھی ۔ لوگ اپنے اونٹ اپنے گھروں کے سامنے رات کو آرام ( کرنے کے لیے بٹھا ) دیتے تھے ، ایک رات وہ ( خاتون ) اچانک بیڑیوں ( بندھنوں ) سے نکل بھاگی اور اونٹوں کے پاس آئی ، وہ ( سواری کے لیے ) جس اونٹ کے بھی قریب جاتی وہ بلبلانے لگتا تو وہ اسے چھوڑ دیتی حتی کہ وہ عضباء تک پہنچ گئی تو وہ نہ بلبلائی ، کہا : وہ سدھائی ہوئی اونٹنی تھی تو وہ اس کی پیٹھ کے پچھلے حصے پر بیٹھی ، اور اسے دوڑایا تو وہ چل پڑی ۔ لوگوں کو اس ( کے جانے ) کا علم ہو گیا ، انہوں نے اس کا تعاقب کیا لیکن اس نے انہیں بے بس کر دیا ۔ کہا : اس عورت نے اللہ کے لیے نذر مانی کہ اگر اللہ نے اس اونٹنی پر اسے نجات دی تو وہ اسے ( اللہ کی رضا کے لیے ) نحر کر دے گی ۔ جب وہ مدینہ پہنچی ، لوگوں نے اسے دیکھا تو کہنے لگے : یہ عضباء ہے ، رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی ۔ وہ عورت کہنے لگی کہ اس نے یہ نذر مانی ہے کہ اگر اللہ نے اسے اس اونٹنی پر نجات عطا فرما دی تو وہ اس اونٹنی کو ( اللہ کی راہ میں ) نحر کر دے گی ۔ اس پر لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو یہ بات بتائی تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ سبحان اللہ ! اس عورت نے اسے جو بدلہ دیا وہ کتنا برا ہے ! اس نے اللہ کے لیے یہ نذر مانی ہے کہ اگر اللہ نے اس کو اس اونٹنی پر نجات دے دی تو وہ اسے ذبح کر دے گی ، معصیت میں نذر پوری نہیں کی جا سکتی ، نہ ہی اس چیز میں جس کا بندہ مالک نہ ہو ۔‘‘
ابن حجر کی روایت میں ہے :’’ اللہ کی معصیت میں کوئی نذر ( جائز ) نہیں ۔‘‘
دوسرا سوال
کیا مندرجہ بالا حدیث کا متن اس حدیث سے نہیں ٹکرا رہا جس میں ہے کہ صحابہ نے ایک کافر کو قتل کردیا جبکہ اس نے کلمہ پڑھ لیا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا تو فرمایا کیوں ایسا کیا صحابی نے کہا اس نے قتل کے ڈر سے پڑھا نبی نے فرمایا کہ تم نے اس کا سینہ چیر کا دیکھا تھا؟
اب اس حدیث میں راوی کہہ رہا ہے کہ جب ایک کافر نے کہا کہ میں مسلمان ہوتا ہوں اسے کہا گیا کہ تو غلام ہے تو ایسا کہہ رہا ہے آزاد ہوکر کہو تو تمہارا اسلام مانا جائے گا
کیا شیخ یہ کنٹروڈکشن نہیں ہے متن میں؟
یہ حدیث ہے وہ ملاحظہ فرمائیں 👇🏻
اسامہ بن زید بن حارثہ رضی اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں :
بَعَثَنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إِلَی الْحُرَقَةِ مِنْ جُهَيْنَةَ، فَصَبَّحْنَا الْقَوْمَ، فَهَزَمْنَاهُمْ، وَلَحِقْتُ أَنَا وَرَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ رَجُلًا مِنْهُمْ، فَلَمَّا غَشِيْنَا قَالَ : لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ. فَکَفَّ عَنْهُ الأَنْصَارِيُّ، وَطَعَنْتُهُ بِرُمْحِي حَتَّی قَتَلْتُهُ. قَالَ : فَلَمَّا قَدِمْنَا، بَلَغَ ذَالِکَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ لِي : يَا أُسَامَةُ، أَقَتَلْتَهُ بَعْدَ مَا قَالَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ؟ قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّمَا کَانَ مُتَعَوِّذًا. قَالَ : فَقَالَ : أَقَتَلْتَهُ بَعْدَ مَا قَالَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ؟ قَالَ : فَمَا زَالَ يُکَرِّرُهَا عَلَيَّ حَتَّی تَمَنَّيْتُ أَنِّي لَمْ أَکُنْ أَسْلَمْتُ قَبْلَ ذَالِکَ الْيَوْمِ.
بخاری، الصحيح، کتاب المغازي، باب بعث النّبيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أسامة بن زيد إلی الحرقات من جهينة، 4 : 1555، رقم : 40212. بخاری، کتاب الديات، باب قول اﷲ تعالی : ومن أحياها، 6 : 2519، رقم : 64783.
ابن حبان، الصحيح، 11 : 56، رقم : 4751
”رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں جہاد کے لیے مقام حرقہ کی طرف روانہ کیا جو قبیلہ جہینہ کی ایک شاخ ہے۔ ہم صبح وہاں پہنچ گئے اور (شدید لڑائی کے بعد) انہیں شکست دے دی۔ میں نے اور ایک انصاری صحابی نے مل کر اس قبیلہ کے ایک شخص کو گھیر لیا، جب ہم اس پر غالب آگئے تو اس نے کہا : لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ. انصاری تو (اس کی زبان سے) کلمہ سن کر الگ ہو گیا لیکن میں نے نیزہ مار کر اسے ہلاک کر ڈالا۔ جب ہم واپس آئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اس واقعہ کی خبر ہو چکی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا : اے اسامہ! تم نے اسے کلمہ پڑھنے کے باوجود قتل کیا؟ میں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! اس نے جان بچانے کے لئے کلمہ پڑھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا : تم نے اسے کلمہ پڑھنے کے باوجود قتل کیا؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بار بار یہ کلمات دہرا رہے تھے اور میں افسوس کر رہا تھا کہ کاش آج سے پہلے میں اِسلام نہ لایا ہوتا۔”
و علیکم السلام
اگر کوئی قیدی مشرک بولے کہ میں مسلمان ہوں تو اس کو قتل نہیں کیا جائے گا
ان روایات میں کوئی مشکل نہیں ہے
mustadrak hakim ki. riwayt 4802 jis mn. khutba hasan hai sanadan or matan kesi hai
امام الذھبی نے اس کو غیر صحیح کہا ہے
حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى ابْنِ أَخِي طَاهِرٍ الْعَقِيقِيُّ الْحَسَنِيُّ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، حَدَّثَنِي عَمِّي عَلِيُّ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنِي الْحُسَيْنُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ قَالَ: خَطَبَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ النَّاسَ حِينَ قُتِلَ عَلِيٌّ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: «لَقَدْ قُبِضَ فِي هَذِهِ اللَّيْلَةَ رَجُلٌ لَا يَسْبِقُهُ الْأَوَّلُونَ بِعَمَلٍ وَلَا يُدْرِكُهُ الْآخِرُونَ، وَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِيهِ رَايَتَهُ فَيُقَاتِلُ وَجِبْرِيلُ عَنْ يَمِينِهِ وَمِيكَائِيلُ عَنْ يَسَارِهِ، فَمَا يَرْجِعُ حَتَّى يَفْتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ، وَمَا تَرَكَ عَلَى أَهْلِ الْأَرْضِ صَفْرَاءَ وَلَا بَيْضَاءَ إِلَّا سَبْعَ مِائَةِ دِرْهَمٍ فَضَلَتْ مِنْ عَطَايَاهُ أَرَادَ أَنْ يَبْتَاعَ بِهَا خَادِمًا لِأَهْلِهِ» ، ثُمَّ قَالَ: ” أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ عَرَفَنِي فَقَدْ عَرَفَنِي وَمَنْ لَمْ يَعْرِفْنِي فَأَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، وَأَنَا ابْنُ النَّبِيِّ، وَأَنَا ابْنُ الْوَصِيِّ، وَأَنَا ابْنُ الْبَشِيرِ، وَأَنَا ابْنُ النَّذِيرِ، وَأَنَا ابْنُ الدَّاعِي إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ، وَأَنَا ابْنُ السِّرَاجِ الْمُنِيرِ، وَأَنَا مِنْ أَهْلِ الْبَيْتِ الَّذِي كَانَ جِبْرِيلُ يَنْزِلُ إِلَيْنَا وَيَصْعَدُ مِنْ عِنْدِنَا، وَأَنَا مِنْ أَهْلِ الْبَيْتِ الَّذِي أَذْهَبَ اللَّهُ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَهَّرَهُمْ تَطْهِيرًا، وَأَنَا مِنْ أَهْلِ الْبَيْتِ الَّذِي افْتَرَضَ اللَّهُ مَوَدَّتَهُمْ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ فَقَالَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: {قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى وَمَنْ يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَزِدْ لَهُ فِيهَا حُسْنًا} [الشورى: 23] فَاقْتِرَافُ الْحَسَنَةِ مَوَدَّتُنَا أَهْلَ الْبَيْتِ ”
[التعليق – من تلخيص الذهبي]
4802 – ليس بصحيح
السلام عليكم
مسجد کو فنڈ دینا جائز ہے دلیل درکار ہے جزاک اللہ
فی سبیل اللہ کی مد میں دیا جا سکتا ہے
فی سبیل اللہ میں کافی چیزیں آ جاتی ہیں
hadith adam a.s apni olad mn se qayamt k roz 1000mnne 999 iktrf or1ik trf kry. .. taweel ki gae. k woh 999 hajooj majooj hai q k wo. bhi bni adm hai
kia aisa hai
یہ متن چار اصحاب رسول سے منسوب ہے لیکن اس کی تمام سندوں میں مسائل ہیں – صحیح البخاری والی سند ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے لیکن اس سند میں علت ہے
کتاب المنتخب میں ہے کہ راوی کو شک ہے کہ یہ قول نبوی ہے یا نہیں
کتاب یاجوج و ماجوج میں اس پر تفصیلی بحث ہے وہاں دیکھیں
—–
میرے نزدیک یہ شاذ و مضطرب روایت ہے
السلام عليكم
سورت ال عمران کی آیت 50 کی تفسیر درکار ہے۔
کیا نبی شارع مجاز تھے؟ ایسا کوئی سوال ویب پر موجود تھا وہ لنک بھی درکار ہے شکریہ
دین میں غلو مت کرو
میں اس پا کلام ہے
احادیث میں اتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احکام دے جو خاص تھے عام سے الگ تھے مثلا ایک شخص نے عید کی نماز سے پہلے قربانی کی اور جب اس کو پتا چلا کہ نماز کے بعد قربانی ہے تو اس نے سوال کیا اب کیا کرے؟
اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیری قربانی ہو گئی لیکن کسی اور کی نہ ہو گی
اس قسم کے واقعات سے بعض فرقوں نے یہ نکالا ہے کہ رسول اللہ شرع میں ایسا حکم کر سکتے تھے جو اللہ لے مقرر کردہ حکم سے الگ ہو
اس کے بعد وہ رسول اللہ کو شارع مجاز کہتے ہیں
ہم ایسا نہیں سمجھتے کیونکہ رسول اللہ اپنی مرضی سے نہیں بلکہ اللہ کے حکم کے تحت کرتے تھے
اور مخصوص واقعات کو ہم الوحی کے تحت ہی سمجھتے ہیں
السلام عليكم
یوسف علیہ السلام کے وزیر خزانہ کے متعلق دو الگ باتیں کی جاتی ہیں کہ وہ طاغوتی نظام میں وزیر خزانہ بنے اس لیے وزیر بن سکتے ہیں مشرکانہ حکومت میں بھی۔
اور دوسرا موقف یہ بیان کیا جاتا ہے کہ یوسف علیہ السلام وزیر خزانہ بنے تھے نہ کہ وزیراعظم اور وزیر خزانہ اور وزیراعظم کے عہدے میں فرق ہے اور اسکو فروعی مسئلہ بھی کہا گیا۔میری سمجھ سے باہر ہے کہ وزیر خزانہ ہو یا وزیر اعظم بنے تو مشرکانہ حکومت کا حصہ ہی تھے نہ؟ کیا وزیر خزانہ حکومت کےا نڈر کام نہیں کرتا؟
کنفوجن یہ ہے کہ ایک مومن مشرکانہ نظام کا حصہ کیسے بن سکتا ہے اور یہ مسئلہ فروعی کیوں بنایا گیا ہے یہ تو عقیدے کا مسئلہ ہے ۔مندرجہ بالا وضاحت لنک میں موجود ہے:
https://forum.mohaddis.com/threads/%D8%AC%D9%85%DB%81%D9%88%D8%B1%DB%8C%D8%AA-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D8%AF%DB%8C%D9%86%D9%90-%D8%AC%D8%AF%DB%8C%D8%AF.11616/page-4
اپ کی کتاب میں یہ ٹوپک ہے تو پیج نمبر کے ساتھ بتائیے گا جزاک اللہ۔
یوسف علیہ السلام کا مشن الگ تھا
ان کو مصر میں من جانب اللہ اس مقام پر پہنچایا گیا تھا اور اس منصوبے کا مقصد آگے بنی اسرائیل کو مصر لانا تھا
االسلام علیکم
آپ نے لکھا ہے کہ
صحیح حدیث کے مطابق حائضہ اور جنبی قرآن نہیں پڑھے گا
یہ صحیح حدیث کہاں ہے؟
—————
1. نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
«لاَ تَقْرَأِ الحَائِضُ، وَلاَ الجُنُبُ شَيْئًا مِنَ القُرْآنِ
’’حائضہ عورت اور جنبی دونوں قرآن سے کچھ نہ پڑھیں۔‘‘
اس روایت کو بعض حضرات نے اس کے کچھ متابعات کی بنیاد پر صحیح کہا ہے لیکن محدث عصر شیخ البانی نے اُنہیں بھی غیر معتبر قرار دے کر اس روایت کو ضعیف ہی قرار دیا ہے
یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ اسماعیل بن عیاش حجازیوں سے روایت کرتے ہیں، اور اس کا حجازیوں سے روایت کرنا ضعیف ہے
بلکہ تعلیقاتِ مشکاۃ میں امام احمد کے حوالے سے اسے باطل کہا ہے۔
حافظ ابن حجرنے بھی امام طبری کے حوالے سے اس روایت کی بابت کہا: “ضعیف من جمیع طرقه”
’’جتنے بھی طرق سے یہ روایت آتی ہے، سب ضعیف ہیں۔‘‘
2. سیدنا علی سے مروی ہے:
کان ﷺ یقضی حاجته ثم یخرج فیقرأ القرآن ویأکل معنا اللحم ولا یحجبه، وربما قال: لا یحجزه من القرآن شيء لیس الجنابة. (رواه الخمسة)]
’’نبیﷺ قضائے حاجت سے فارغ ہو کر نکلتے تو قرآن پڑھتے اور ہمارے ساتھ گوشت تناول فرماتے اور آپﷺ کے قرآن پڑھنے میں سوائے جنابت کے کوئی چیز رکاوٹ نہ بنتی تھی۔‘‘
اس روایت کی بابت حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
’’اسے اصحاب السنن نے روایت کیا ہے اور ترمذی، ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے اور بعض نے اس کے بعض راویوں کی تضعیف کی ہے اور حق بات یہ ہے کہ یہ روایت حسن کے قبیل سے ہے جو حجت کے قابل ہوتی ہے۔‘‘
حافظ ابن حجر کی اس رائے کی وجہ سے اکثر علماء اس روایت سے استدلال کرتے ہیں، لیکن شیخ البانی نے ابن حجر کی اس رائے کا رد کرتے ہوئے دیگر محدثین کی تائید سے اسکو ضعیف قرار دیا ہے۔
3. تیسری حدیث جو مذکورہ حدیث کے متابع کے طور پر پیش کی جاتی ہے اور اسے علمائے معاصرین میں سے بعض نے صحیح اور بعض نے حسن کہا ہے،یہ مسند احمد (۱؍۱۱۰) کی روایت ہے۔ اس کے الفاظ حسب ذیل ہیں:
’’حضرت علی کے پاس وضو کا پانی لایا گیا، پس آپ نے کلی کی اور تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالا، تین مرتبہ اپنا چہرہ دھویا اور اپنے دونوں ہاتھ اور دونوں بازو تین تین مرتبہ دھوئے، پھر اپنے سرکا مسح کیا، پھر اپنے دونوں پیر دھوئے، پھر فرمایا: میں نے رسول اللّٰہﷺ کو اسی طرح دیکھا ہے کہ آپﷺ نے وضو کیا۔ پھر قرآن کریم سے کچھ پڑھا اور فرمایا: یہ (قرآن کا پڑھنا) اس شخص کے لیے ہے جو جنبی نہیں ہے۔ رہا جنبی تو وہ ایک آیت بھی نہیں پڑھ سکتا۔‘‘
اس روایت کو بعض علماء نے صحیح قرار دیا ہے، جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا۔ لیکن شیخ البانی نے ضعیف راوی ابو الغریب[8] کی وجہ سے اس سے بھی اختلاف کیا ہے اور کہا ہے کہ
ثانیاً:… اگر یہ روایت صحیح بھی ہو، تب بھی اس کا مرفوع ہونا صریح نہیں۔
ثالثاً:… اس کا مرفوع ہونا بھی اگر صریح ہو تو یہ شاذ یا منکر ہے، اس لیے کہ عائذ بن حبیب اگرچہ ثقہ ہے لیکن ابن عدی نے اس کی بابت کہا ہے کہ اس نے کئی منکر روایات بیان کی ہیں۔
بعض اہل علم حائضہ عورت کے لیے قرآن مجید کی تلاوت جائز قرار دیتے ہیں، امام مالک کا مسلک یہی ہے، اور امام احمد سے بھی ایک روایت ہے
———————-
اس مسلئے پر صحیح حکم کیا ہے؟
کیا حائضہ نماز پڑھ سکتی ہے ؟ نہیں پڑھ سکتی کیونکہ یہ ناپاکی کی حالت ہے – اس حالت میں قرآن پڑھنا بھی اسی لئے منع ہے
اس پر جو روایات ہیں وہ اگر حسن درجے کی بھی ہوں تو ان کو قبول کیا جائے گا
جو حائضہ و جنبی کے لئے قرآن پڑھنا جائز کر رہے ہیں ان کے دلائل بھی بودے ہیں مثلا ان کی دلیل ہے
مشہور حدیث ہے کہ سفر حج کے دوران ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کو حیض آگیا ۔ وہ رونے لگیں کہ اب حج نہیں کر پائیں گی ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے انہیں تسلی دی ۔ اس موقع پر آپؐ نے فرمایا :
فَاقضِي مَا یَقضِي الحَاجُّ، غَیرَ أن لَا تَطُوفِي بِالبَیتِ
(بخاری:294،مسلم:1211)
(وہ سب کرو جو حاجی کرتا ہے ، بس طواف نہ کرو
اس روایات کو دلیل بنایا جاتا ہے کہ قرآن کو پڑھا جا سکتا ہے جبکہ معلوم ہے کہ اس حالت میں بھی نماز نہیں پڑھی جا سکتی
اس طرح یہ دلیل نہیں بنتی
میری سمجھ میں نہیں اتا کہ اس قسم کے مسائل پر بحث کیوں ہوتی ہے – جس کو قرآن پڑھنا ہو وہ غسل کرے اور پڑھ لے اس میں چند منٹ لگیں گے اور طہارت کے بھی قریب ہے
اپنی توجہ ضروری مسائل پر مذکور کریں
السلام عليكم
اس حدیث میں کن فتنوں کے متعلق بات ہو رہی ہے جو سمندر کی موجوں کی طرح امنڈ آئے گے؟
صحیح البخاری
کتاب: روزے کا بیان
باب: باب: روزہ گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے۔
حدیث نمبر: 1895
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا جَامِعٌ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَنْ يَحْفَظُ حَدِيثًا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْفِتْنَةِ قَالَ حُذَيْفَةُ أَنَا سَمِعْتُهُ يَقُولُ فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ وَجَارِهِ تُکَفِّرُهَا الصَّلَاةُ وَالصِّيَامُ وَالصَّدَقَةُ قَالَ لَيْسَ أَسْأَلُ عَنْ ذِهِ إِنَّمَا أَسْأَلُ عَنْ الَّتِي تَمُوجُ کَمَا يَمُوجُ الْبَحْرُ قَالَ وَإِنَّ دُونَ ذَلِکَ بَابًا مُغْلَقًا قَالَ فَيُفْتَحُ أَوْ يُکْسَرُ قَالَ يُکْسَرُ قَالَ ذَاکَ أَجْدَرُ أَنْ لَا يُغْلَقَ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ فَقُلْنَا لِمَسْرُوقٍ سَلْهُ أَکَانَ عُمَرُ يَعْلَمُ مَنْ الْبَابُ فَسَأَلَهُ فَقَالَ نَعَمْ کَمَا يَعْلَمُ أَنَّ دُونَ غَدٍ اللَّيْلَةَ
ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے جامع بن راشد نے بیان کیا، ان سے ابو وائل نے اور ان سے حذیفہ (رض) نے کہ عمر (رض) نے پوچھا فتنہ کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی حدیث کسی کو یاد ہے ؟ حذیفہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے سنا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ انسان کے لیے اس کے بال بچے، اس کا مال اور اس کے پڑوسی فتنہ (آزمائش و امتحان) ہیں جس کا کفارہ نماز روزہ اور صدقہ بن جاتا ہے۔ عمر (رض) نے کہا کہ میں اس کے متعلق نہیں پوچھتا میری مراد تو اس فتنہ سے ہے جو سمندر کی موجوں کی طرح امنڈ آئے گا۔ اس پر حذیفہ (رض) نے کہا کہ آپ کے اور اس فتنہ کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔ (یعنی آپ کے دور میں وہ فتنہ شروع نہیں ہوگا) عمر (رض) نے پوچھا وہ دروازہ کھل جائے گا یا توڑ دیا جائے گا ؟ حذیفہ (رض) نے بتایا کہ توڑ دیا جائے گا۔ عمر (رض) نے فرمایا کہ پھر تو قیامت تک کبھی بند نہ ہو پائے گا۔ ہم نے مسروق سے کہا آپ حذیفہ (رض) سے پوچھئے کہ کیا عمر (رض) کو معلوم تھا کہ وہ دروازہ کون ہے، چناچہ مسروق نے پوچھا تو آپ (رض) نے فرمایا ہاں ! بالکل اس طرح (انہیں علم تھا) جیسے رات کے بعد دن کے آنے کا علم ہوتا ہے۔
بیشتر شارحین کا کہنا ہے کہ یہ قتل عثمان رضی اللہ عنہ سے متعلق ہے
kia qabeel ne habil ka qatl aurt k lie kia tha
eski kia haqiqt hai
is par koi sahih riwayat nahi.
السلام عليكم
قرآن کو تحریف شدہ کہنا اور قرآن میں تحریف کرنا کیا دونوں کفر برابر ہیں؟
جی ہاں
السلام عليكم
میرا سوال یہ تھا کہ شیعہ کہتے ہیں جو قران ہم پڑھتے ہیں یہ تحریف شدہ ہے اصلی قرآن انکا بارہواں امام لائے گا جب غار سے نکلے گا۔۔۔۔۔۔
دوسری بات یہ ہے کہ احمد رضا خان نے تحریف کی ہے کہ قل انما انا بشر مثلکم یوحی الیّ میں
کہ ایک لفظ انما کو دو لفظ بنا کر ان ما کرکے ترجمہ کیا
اے نبی کہہ دو میں تحقیق نہیں ہوں میں تم جیسا بشر۔۔۔۔
کیا دونوں کا کفر اسلام سے خارج کرتا ہے؟؟؟
شیعہ کہتے ہیں جو قران ہم پڑھتے ہیں یہ تحریف شدہ ہے اصلی قرآن انکا بارہواں امام لائے گا جب غار سے نکلے گا۔
جواب
جواب جہاں تک مجھے معلوم ہے یہ شیعوں کا کوئی غالی فرقہ ہے تمام کا قول نہیں ہے
جو تحریف کے قائل ہیں وہ اسلام سے خارج ہیں
دوسری بات یہ ہے کہ احمد رضا خان نے تحریف کی ہے کہ قل انما انا بشر مثلکم یوحی الیّ میں
کہ ایک لفظ انما کو دو لفظ بنا کر ان ما کرکے ترجمہ کیا
اے نبی کہہ دو میں تحقیق نہیں ہوں میں تم جیسا بشر۔۔۔۔
جواب
قرآن کے متن کو بدلنا کہ ترجمہ بدل کر کچھ اور اپنی مرضی کا لکھنا بھی کفر ہے
السلام علیکم
فأخرج ابن جریر وابن أبی حاتم وابن مردویہ عن ابن عباس فی ہذہ الآیة قال : أمر اللّٰہ نساء الموٴمنین اذا خرجن من بیوتہن فی حاجة أن یغطین وجوہہن من فوق روٴوسہن بالجلابیب ویبدین عینًا واحدة۔
حضرت عبداللہ بن عباساس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مومنین کی عورتوں کو یہ حکم فرمایا ہے کہ جب وہ کسی ضرورت سے اپنے گھروں سے باہر نکلیں تو چادروں کے ذریعے اپنے چہروں کو اپنے سروں کے اوپر سے ڈھانپ لیں اور صرف ایک آنکھ کھولیں
–آپ نے جلباب کے حوالے سے جو کتاب لکھی ہے اس کا صفہ نمبر 71-72-73 میں نے دیکھا ہے۔ اس میں بتائے گئے راوی اور اس میں بتائی گئی سند مختلف ہے۔ کیا یہ سند صحیح ہے؟
وعلیکم السلام
ہر مقام پر اس کی سند میں علی بن ابی طلحہ ہے اور اس کا سماع ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے
فتح القدیر میں یہ سند بھی آئی ہے
فأخرج ابن جریر وابن أبی حاتم وابن مردویہ عن ابن عباس
اس سند میں علی بن ابی طلحہ نہٰں ہے بلکہ ابن مردویہ ہے۔
یہ سند نہیں ہے
اس عبارت میں لکھا ہے کہ (ابن جریر اور ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابن عباس سے روایت کیا ہے)
لیکن جب ان کتب میں سند دیکھیں تو ان میں سماع منقطع ہے
ترمزی 1519
—–
بن الحسين لم يدرك علي بن ابي طالب.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن کی طرف سے ایک بکری عقیقہ کیا، اور فرمایا: ”فاطمہ! اس کا سر مونڈ دو اور اس کے بال کے برابر چاندی صدقہ کرو“، فاطمہ رضی الله عنہا نے اس کے بال کو تولا تو اس کا وزن ایک درہم کے برابر یا اس سے کچھ کم ہوا
—— اس کی سند متصل نہیں ہے، اور راوی ابوجعفر الصادق محمد بن علی بن حسین نے علی بن ابی طالب کو نہیں پایا ہے۔ —–
لیکن مستدرک الحاکم 4828 میں بھی یہی روایت ہے کسی دوسری سند کے ساتھ۔ کیا وہ صحیح ہے یا حسن لغیرہ ہے؟
قابل قبول ہے؟
مستدرک حاکم
٤٨٢٨
کی سند ہے
حَدَّثَنَا أَبُو عَلِيٍّ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحَافِظُ، أَنَا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ صَاعِدٍ، ثنا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، ثنا حُسَيْنُ بْنُ زَيْدٍ الْعَلَوِيُّ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَقَالَ: «زِنِي شَعْرَ الْحُسَيْنِ وَتَصَدَّقِي بِوَزْنِهِ فِضَّةً، وَأَعْطِي الْقَابِلَةَ رِجْلَ الْعَقِيقَةِ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ ”
[التعليق – من تلخيص الذهبي]
4828 – ليس بصحيح
امام الذھبی نے اس کو غیر صحیح لکھا ہے
السلام عليكم
اپ کی کتاب الصوم میں لکھا ہے کہ عرفہ عاشورہ اور شوال کے
روزے ثابت نہیں ہیں لیکن بعض کے نزدیک تعامل امت کی وجہ سے عرفہ اور عاشورہ اور شوال کے روزے رکھنا سنت ہے اپ کیا کہے گے اس بارے میں؟
تعامل اس وقت ہوتا ہے جب تمام امت میں اس کو مان لیا جائے مثلا اہل سنت رکوع سے کھڑے ہو کر ہاتھ کھول دیتے ہیں
یہاں ایسا نہیں ہے – امام مالک نے موطا میں اس کا ذکر کیا ہے کہ شوال کے روزے ثابت نہیں
اور بات مالکیہ میں بیان کی جاتی ہے
اسلام علیکم
ابن ماجه ابوداود کے حدیث هے
پیشاب موقع پر بات کرنا الله متعال کی غضب باعث هے کی
اے حدیث صحیح ہےا
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يخرج اثنان إلى الغائط فيجلسان يتحدثان كاشفين عورتهما فإن الله عز وجل يمقت على ذلك (مجمع الزوائد، الرقم: ۱٠۲۱)[19]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دو آدمی قضائے حاجت کے لیے (ایسی جگہ) نہ جائے کہ دونوں قضائے حاجت کے دوران ستر کھولے ہوئے آپس میں بات چیت کرے، بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ عمل ناپسندیدہ ہے۔
سند ضعیف ہے
راوی هلال بن عياض مجھول ہے
qayamt us waqt tk na qayam hoga jab tk faraat se sonay ka pahaar na nikle.. jung hogi or 99 qatl hogy 100 mn se…. kesi hadith hai es hadith ka kia mutlb hai
عن أبي هريرة رضي الله عنه مرفوعاً: «لا تقوم الساعة حتى يحسر الفرات عن جبل من ذهب يُقْتَتَلُ عليه، فَيُقْتَلُ من كل مائة تسعة وتسعون، فيقول كل رجل منهم: لعلي أن أكون أنا أنجو». وفي رواية: «يوشك أن يحسر الفرات عن كنز من ذهب، فمن حضره فلا يأخذ منه شيئا».
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ دریائے فرات سے سونے کا پہاڑ نہ نکل آئے جس پر لڑ ائی ہوگی اور ہر سو ميں سے ننانوے آدمی مارے جائيں گے۔ ان میں سے ہر ایک یہ
سوچے گا کہ شاید میں بچ جاؤں“۔ ایک اور روایت میں ہے کہ: ”قريب ہے کہ دریائے فرات (خشک ہوکر) سونے کے خزانے کو ظاہر کردے۔ لہٰذا جو شخص اس وقت موجود ہو، اس میں سے کچھ بھی نہ لے
میرے نزدیک اس حدیث کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح نہیں – کتب احادیث میں اسناد دیکھنے سے پتا چلتا ہے کہ اس روایت پر راوی کو شک رہا ہے
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ يُوسُفَ، ثنا عِمْرَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، ثنا الْحُسَيْنُ بْنُ حَفْصٍ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، لَا أَعْلَمُهُ إِلَّا قَدْ رَفَعَهُ قَالَ: ” يَحْسِرُ الْفُرَاتُ عَنْ جَبَلٍ مِنْ ذَهَبٍ , قَالَ: فَيَتَقَاتَلُونَ عِنْدَهُ , فَيُقْتَلُ مِنْ كُلِّ مِائَةٍ تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ كُفَّارًا
الفاظ لَا أَعْلَمُهُ إِلَّا قَدْ رَفَعَهُ سے ظاہر ہو رہا ہے کہ اس روایت پر راوی کو شک ہے کہ یہ مرفوع ہے یا نہیں کیا ابو ہریرہ نے اس کو رفع کر کے حدیث بنا دیا ہے
میرے نزدیک یہ مرفوع نہیں بلکہ کسی اور کا قول ہے لیکن ابو ہریرہ نے اس کو حدیث کی طرح بیان کیا اور شک پیدا ہوا