Category Archives: تاریخ قبل اسلام – Ancient History

1 التاریخ الاسلام

ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ کے جوابات

  جواب :  آپ کا پہلا نکاح جو خدیجہ رضی الله عنھا کے ساتھ ہوا اس کے بارے میں تاریخ میں آتا ہے کہ اس زمانے کے رواج کے مطابق ابو طالب نے وہ نکاح پڑھایا تھا.لیکن احادیث میں یہ معاملہ واضح نہیں ہے.

باقی اس کے بعد الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم کے جو نکاح ہوۓ اس میں نہ کسی نے نکاح پڑھاۓ ہیں اور نہ ایجاب و قبول کرایا.یہ الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم کی خصوصیت کا معاملہ ہے.خیبر کی فتح کے بعد جب صفیہ رضی الله عنھا قید ہو کر آئیں ہیں تو صحابہ کرام رضی الله عنہ نے کہا اب دیکھنا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم انکو ملک یمین،لونڈی بناتے ہیں یا بیوی.اگر آپ پردہ کراتے ہیں تو سمجھ لیجئے کے یہ آپ کی بیوی ہیں اور اگر پردہ نہیں کراتے تو یہ لونڈی ہیں . اورآخر جب آپ نے انکو پردہ کرایا تو تب صحابہ کرام رضی الله عنہ جان گئے کہ صفیہ رضی الله عنھا کو آپ نے لونڈی نہیں بنایا بلکہ وہ آپ کی بیوی ہیں.اس سے معلوم ہوا کہ نکاح کا نہ پڑھایا جانا اور ایجاب و قبول کا نہ کرانا نبی علیہ السلام کی خصوصیت تھی .عائشہ اور سودہ رضی الله عنھما کے ساتھ آپکے نکاح جو مکے میں ہوۓ اور اسکے بعد جو آپ کے نکاح ہوۓ ہیں اس میں بھی اسکا کوئی ذکر نہیں ہے

 

Questions answered by Abu Shahiryar

متعہ نکاح کی ایک قسم تھا جو عربوں میں رائج تھا اس کی اسلام میں اجازت صرف غزوات وغیرہ میں حالتِ سفر میں دی گئی  اور   اسی میں ان پر پابندی بھی لگائی گئی

 سنن سعید بن منصور کی روایت ہے

سنن سعید بن المنصور کی روایت ہے سَبْرَةَ الْجُهَنِيِّ  کہتے ہیں

حَدَّثَنَا سَعِيدٌ قَالَ: نا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ سَبْرَةَ الْجُهَنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ نِكَاحِ الْمُتْعَةِ عَامَ الْفَتْحِ

بے شک رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس سے فتح مکہ کے سال منع فرمایا

فتح مكه رمضان ٨ هجري میں ہوئی  خیبر ٧ ہجری میں ہوئی

عبدللہ ابن عبّاس کی ولادت  ہجرت سے تین سال پہلے  ہوئی اور سن ٨ ہجری میں آپ  عبّاس رضی الله تعالی عنہ کے ساتھ مدینہ پھنچے یعنی آپ ١١ سال کے  تھے  چونکہ اپ بہت چھوٹے تھے لہذا بالغوں کے مسائل سے اگاہ نہیں تھے  اور  نکاح المتعہ جو عربوں میں رائج تھا اس کی ممانعت آپ تک نہیں پہنچی اور  آپ اس کے قائل رہے

 ان کے برعکس دیگر اصحاب اور اہل بیت اس کی ممانعت سے اگاہ تھے لہذا علی رضی الله عنہ نے اس سے ان کو اگاہ کیا

صحیح مسلم اور سنن سعید بن المنصور کے مطابق

حَدَّثَنَا سَعِيدٌ قَالَ: نا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، سَمِعَ عَبْدَ الله، وَالْحَسَنَ، ابْنَيْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ يُحَدِّثَانِ عَنْ أَبِيهِمَا، عَنْ عَلِيٍّ، رَضِيَ الله عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ لِابْنِ عَبَّاسٍ: «إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى زَمَنَ خَيْبَرَ عَنْ نِكَاحِ الْمُتْعَةِ وَعَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ

علی رضی الله عنہ نے ابن عباس رضی  الله عنہ سے کہا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے خیبر کے دنوں میں اس سے منع کیا اور پالتو گدھے کے گوشت سے بھی

لیکن شاید وہ پھر بھی قائل نہیں ہو سکے کیونکہ بعض روایات میں اس کی ممانعت فتح مکہ کے سال کہی گئی ہے یہاں تک کہ اس حوالے سے ان کا ابن زبیر رضی الله عنہ سے اختلاف بھی ہوا

عامہ اصحاب اور تابعین اس کے قائل نہیں تھے سنن سعید بن المنصور کے مطابق حسن بصری کہتے تھے

 حَدَّثَنَا سَعِيدٌ قَالَ: نا هُشَيْمٌ، قَالَ: أنا مَنْصُورٌ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: «إِنَّمَا كَانَتِ الْمُتْعَةُ مِنَ النِّسَاءِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، وَلَمْ يَكُنْ قَبْلَ ذَلِكَ وَلَا بَعْدَهُ

حسن بصری کہتے ہیں متعہ صرف تین دن تھا نہ اس سے پہلے نہ بعد میں

اس تناظر میں ظاہر ہے ابن عباس کسی کا متعہ کرنا سنتے تو اس کو غلط نہیں گردنتے اب  مصنف عبد الرزاق کی روایت دیکھینے

عبد الرزاق عن ابن جريج عن عطاء قال : لاول من سمعت منه المتعة صفوان بن يعلى ، قال : أخبرني عن يعلى أن معاوية استمتع بامرأة بالطائف ، فأنكرت ذلك عليه ، فدخلنا على ابن عباس ، فذكر له بعضنا ، فقال له : نعم ، فلم يقر في نفسي ، حتى قدم جابر ابن عبد الله ، فجئناه في منزله ، فسأله القوم عن أشياء ، ثم ذكروا له المتعة ، فقال : نعم ، استمتعنا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ، وأبي بكر ، وعمر ، حتى إذا كان في آخر خلافة عمر استمتع عمرو بن حريث بامرأة – سماها جابر فنسيتها – فحملت المرأة ، فبلغ ذلك عمر ، فدعاها فسألها ، فقالت : نعم ، قال : من أشهد ؟ قال عطاء : لا أدري قالت : أمي ، أم وليها ، قال : فهلا غيرهما ، قال : خشي أن يكون دغلا الاخر ، قال عطاء : وسمعت ابن عباس يقول : يرحم الله عمر ، ما كانت المتعة إلا رخصة من الله عزوجل ، رحم بها أمة محمد صلى الله عليه وسلم ، فلو لا نهيه عنها ما احتاج إلى الزنا إلا شقي

ابن جریج عطا سے روایت کرتے ہیں کہ پہلا شخص کے جس سے میں نے متعہ کے بارے میں سنا، وہ صفوان بن یعلی تھا۔ اس نے کہا کہ میرے والد نے مجھے بتایا کہ معاویہ نے طائف میں متعہ کیا؛ مگر میں نے اس کی تردید کی۔ سو ہم ابن عباس سے ملے، اور اس کا کچھ تذکرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ مگر میں نے نہ مانا۔ یہ رہا یہاں تک کہ ہم جابر بن عبداللہ سے ملے، ہم ان کے گھر آئے، اور لوگوں نے ان سے سوال پوچھے۔ پھر متعہ کی بات چھڑی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے نبی پاک کی زندگی میں متعہ کیا، پھر ابو بکر کی زندگی میں، اور پھر عمر کے زمانے میں یہاں تک کہ ان کی خلافت کے آخری عرصے میں عمر ابن حریث نے متعہ کیا ایک عورت کے ساتھ، جابر نے اس کا نام لیا تاہم میں بھول گیا۔ وہ حاملہ ہو گئی، اور یہ بات عمر تک پہنچی، عمر نے اسے بلایا اور اس بارے میں پوچھا عطا نے پھر کہا کہ میں نے ابن عباس سے سنا کہ اللہ عمر پر رحم کرے، متعہ اللہ کی جانب سے ایک رخصت تھی امت محمدیہ کے لیے۔ اگر اسے منع نہ کیا جاتا، تو سوائے شقی کے، کوئی زنا نہ کرتا

یہ روایت ان وجوہات کی بنا پر صحیح نہیں

اول  ابن جريج مدلس ہیں عن سے روایت کر رہے ہیں یہ جلیل القدرتبہ  تابعین  میں سے ہیں – عَطاء بن أبي رَبَاح  المتوفی ١١٥ھ  ہیں الذھبی سیر الاعلام النبلاء میں  کہتے ہیں وُلِدَ: فِي أَثْنَاءِ خِلاَفَةِ عُثْمَانِ یہ عثمان رضی الله عنہ کے دور میں پیدا ہوئے-

دوم اس میں کہا گیا ہے کہ عمر رضی الله عنہ نے اس سے منع کیا جو تاریخی طور پر صحیح نہیں ہے ابو بکر رضی الله عنہ کے دور میں تو یہ ثابت ہی نہیں ہے

سوم  صفوان بن يعلى بْنِ أُمَيَّةَ التَّمِيمِيُّ کو ان کے باپ نے خبر دی کہ معاویہ نے متعہ کیا یہ بھی عجیب ہے جس کو سن کر ابن عباس  کو کہنا چاہیے تھا اس میں کیا برائی ہے کیونکہ   ایک طرف تو روایات ہیں کہ ابن عباس خود اس کے قائل تھے دوسری طرف کوئی تو وہ اپنا موقف واضح نہیں کرتے

بعض روایات میں ہے کہ ابن عباس نے اس رائے سے رجوع کر لیا تھے- ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ

إِنَّمَا كَانَتِ الْمُتْعَةُ فِي أَوَّلِ الإِسْلاَمِ، كَانَ الرَّجُلُ يَقْدَمُ البَلْدَةَ لَيْسَ لَهُ بِهَا مَعْرِفَةٌ فَيَتَزَوَّجُ الْمَرْأَةَ بِقَدْرِ مَا يَرَى أَنَّهُ يُقِيمُ فَتَحْفَظُ لَهُ مَتَاعَهُ، وَتُصْلِحُ لَهُ شَيْئَهُ، حَتَّى إِذَا نَزَلَتِ الآيَةُ: {إِلاَّ عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ}، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَكُلُّ فَرْجٍ سِوَى هَذَيْنِ فَهُوَ حَرَامٌ.

متعہ اوّل اسلام میں جائز تھا یہاں تک کہ آیت (الّا علیٰ ازواجھم اوماملکت ایمانھم)نازل ہوئی تو وہ منسوخ ہو گیا اس کے بعد ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ زوجہ اور مملوکہ کے علاوہ ہر طرح کی شرمگاہ سے استمتاع حرام ہے۔” (ترمذی۱/۱۳۳)

ابو بکر جصاص ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کے رجوع کے متعلق  لکھتے  ہیں

تمام صحابہ رضی اللہ عنہ میں سوائے ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کے کوئی بھی حلت متعہ کا قائل نہیں اور انہوں نے بھی متعہ کے جواز سے اس وقت رجوع کر لیا تھا جب تمام صحابہ رضی اللہ عنہم سے متعہ کی حرمت ان کے ہاں تواتر کے ساتھ ثابت ہو گئی۔” (احکام القرآن۲/۱۵۶)

البانی کتاب إرواء الغليل في تخريج أحاديث منار السبيل میں لکھتے ہیں

أن ابن عباس رضى الله عنه روى عنه فى المتعة ثلاثة أقوال:

الأول: الإباحة مطلقا.

الثانى: الإباحة عند الضرورة.

والآخر: التحريم مطلقا , وهذا مما لم يثبت عنه صراحة , بخلاف القولين الأولين , فهما ثابتان عنه.

ابن عباس رضی الله عنہ کے سے متعلق تین اقوال ہیں

اول مطلق مباح ہے

دوم ضرورتا مباح ہے

سوم مطلق حرام ہے اور یہ وہ قول ہے جو صراحت کے ساتھ ثابت نہیں ہے

الغرض ابن عباس رضی الله عنہ اس کے قائل تھے پھر انہوں نے اس سے رجوع کیا  ابو بکر الجصاص کی رائے میں اور البانی کی رائے ہے انہوں نے رجوع نہیں کیا –

الغرض معاویہ رضی الله عنہ کا متعہ کرنا  ثابت نہیں ہوتا کیونکہ اس روایت کا متن دیگر روایات سے متصادم اور سند غیر مظبوط ہے

عبدالرزاق ابن ہمام، جو کہ بخاری کے شیوخ میں ہیں؛ اپنی کتاب المصنف، جلد ۷، صفحہ ۴۹٦-۴۹۷؛ لکھتے ہیں

ابن جریج عطا سے روایت کرتے ہیں کہ پہلا شخص کے جس سے میں نے متعہ کے بارے میں سنا، وہ صفوان بن یعلی تھا۔ اس نے کہا کہ میرے والد نے مجھے بتایا کہ معاویہ نے طائف میں متعہ کیا؛ مگر میں نے اس کی تردید کی۔ سو ہم ابن عباس سے ملے، اور اس کا کچھ تذکرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ مگر میں نے نہ مانا۔ یہ رہا یہاں تک کہ ہم جابر بن عبداللہ سے ملے، ہم ان کے گھر آئے، اور لوگوں نے ان سے سوال پوچھے۔ پھر متعہ کی بات چھڑی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے نبی پاک کی زندگی میں متعہ کیا، پھر ابو بکر کی زندگی میں، اور پھر عمر کے زمانے میں یہاں تک کہ ان کی خلافت کے آخری عرصے میں عمر ابن حریث نے متعہ کیا ایک عورت کے ساتھ، جابر نے اس کا نام لیا تاہم میں بھول گیا۔ وہ حاملہ ہو گئی، اور یہ بات عمر تک پہنچی، عمر نے اسے بلایا اور اس بارے میں پوچھا
عطا نے پھر کہا کہ میں نے ابن عباس سے سنا کہ اللہ عمر پر رحم کرے، متعہ اللہ کی جانب سے ایک رخصت تھی امت محمدیہ کے لیے۔ اگر اسے منع نہ کیا جاتا، تو سوائے شقی کے، کوئی زنا نہ کرتا
عربی متن یوں ہے

عبد الرزاق عن ابن جريج عن عطاء قال : لاول من سمعت منه المتعة صفوان بن يعلى ، قال : أخبرني عن يعلى أن معاوية
استمتع بامرأة بالطائف ، فأنكرت ذلك عليه ، فدخلنا على ابن عباس ، فذكر له بعضنا ، فقال له : نعم ، فلم يقر في نفسي ، حتى قدم جابر ابن عبد الله ، فجئناه في منزله ، فسأله القوم عن أشياء ، ثم ذكروا له المتعة ، فقال : نعم ، استمتعنا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ، وأبي بكر ، وعمر ، حتى إذا كان في آخر خلافة عمر استمتع عمرو بن حريث بامرأة – سماها جابر فنسيتها – فحملت المرأة ، فبلغ ذلك عمر ، فدعاها فسألها ، فقالت : نعم ، قال : من أشهد ؟ قال عطاء : لا أدري قالت : أمي ، أم وليها ، قال : فهلا غيرهما ، قال : خشي أن يكون دغلا الاخر ، قال عطاء : وسمعت ابن عباس يقول : يرحم الله عمر ، ما كانت المتعة إلا رخصة من الله عزوجل ، رحم بها أمة محمد صلى الله عليه وسلم ، فلو لا نهيه عنها ما احتاج إلى الزنا إلا شقي

Link : http://islamport.com/d/1/mtn/1/115/4335.html

جواب

عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ قَالَ: لَأَوَّلُ مَنْ سَمِعْتُ مِنْهُ الْمُتْعَةَ صَفْوَانُ بْنُ يَعْلَى قَالَ: أَخْبَرَنِي، عَنْ يَعْلَى، أَنَّ مُعَاوِيَةَ اسْتَمْتَعَ بِامْرَأَةٍ بِالطَّائِفِ فَأَنْكَرَتْ ذَلِكَ عَلَيْهِ

اسکی سند میں ابن جریج مدلس ہیں اور عن سے روایت ہے لھذا بن باز کا اس کو صحیح کہنا درست نہیں ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اگر یہ جائز سمجھا جاتا تو معاویہ رضی الله عنہ کو کوئی نہیں روک سکتا تھا کہ وہ اس کے جواز کا بھی فتوی دیتے اور اپنی خلافت میں اس کی اجازت دیتے لیکن ٢٠ سال کے دور میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ملتا

موطا کی حدیث ہے
وَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ أَنَّ خَوْلَةَ بِنْتَ حَكِيمٍ دَخَلَتْ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَقَالَتْ: إِنَّ رَبِيعَةَ بْنَ أُمَيَّةَ اسْتَمْتَعَ بِامْرَأَةٍ فَحَمَلَتْ مِنْهُ، فَخَرَجَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَزِعًا يَجُرُّ رِدَاءَهُ، فَقَالَ: «هَذِهِ الْمُتْعَةُ. وَلَوْ كُنْتُ تَقَدَّمْتُ فِيهَا، لَرَجَمْتُ»
خولہ بنت حکیم ، عمر رضی الله عنہ کے پاس آئیں اور کہا کہ ربیعیہ بن امیہ نے ایک عورت سے متعہ کیا جس سے وہ حاملہ ہوئی پس عمر نکلے جلدی سے اپنی چادر کو گھسیٹے ہوئے اور کہا یہ تو متعہ ہے

تاریخ دمشق کی روایت ہے کہ
حتى صعد المنبر فقال: إنه بلغني أن ربيعة بن أمية بن خلف، تزوج مولدةً من مولدات المدينة بشهادة امرأتين؛ وإني لو كنت قدمت في مثل هذا لرجمته.
عمر منبر پر چڑھے اور کہا مجھ تک دو عورتوں کی گواہی پہنچی ہے کہ ربيعة بن أمية بن خلف نے ایک دائی سے نکاح کیا اگر یہ پیش ہوا ہوتا تو میں اس میں رجم کرتا

ربيعة بن أمية بن خلف بن وهب بن حذافة ایک صحابی ہیں یہ شراب بھی پی لیتے تھے یہاں تک کہ عمر رضی الله عنہ کے دور میں یہ کوڑووں کے خوف سے شام چلے گئے
تاریخ دمشق کے مطابق
ربيعة بن أمية بن خلف بن وهب بن حذافة ابن جمح الجمحي القرشي (2) أدرك النبي (صلى الله عليه وسلم) وأسلم ثم شرب الخمر في خلافة عمر فهرب خوفا من إقامة الحد إلى الشام

ظاہر ہے اگر ایک صحابی نے کوئی غلط کام کیا شراب پی لی یا متعہ کیا تو اس پر اس کو آج جائز نہیں کہا جائے گا لگتا ہے یہ واقعہ شراب پینے کی وجہ سے ہوا
———

موطا امام محمد میں ہے
قَالَ مُحَمَّدٌ: الْمُتْعَةُ مَكْرُوهَةٌ، فَلا يَنْبَغِي، فَقَدْ نَهَى عَنْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا جَاءَ فِي غَيْرِ حَدِيثٍ، وَلا اثْنَيْنِ، وَقَوْلُ عُمَرَ: لَوْ كُنْتُ تَقَدَّمْتُ فِيهَا لَرَجَمْتُ، إِنَّمَا نَضَعُهُ مِنْ عُمَرَ عَلَى التَّهْدِيدِ، وَهَذَا قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
امام محمد نے کہا متعہ مکروہ ہے پس یہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس سے نبی صلی الله علیہ وسلم نے منع کیا … اور عمر کا قول کہ اگر مجھ پر پہلے پیش ہوتا تو میں رجم کر دیتا یہ عمر کا اس کے خطرہ سے ڈرانا تھا اور یہی قول ابو حنیفہ جا ہے اور عام فقہاء کا ہے

أبو الحسنات (المتوفى: 1304هـ) التعليق الممجد على موطأ محمد میں لکھتے ہیں

وأخرج الطبراني في الأوسط عن سالم بن عبد الله قال: قيل لعبد الله بن عمر: إنَّ ابن عباس يأمر بنكاح المتعة، فقال: سبحان الله؟ ما أظنه يفعل هذا، قالوا: إنه يأمر به، قال: وهل كان ابن عباس إلاَّ غلاماً صغيراً في عهد رسول الله صلّى الله عليه وسلّم، نهانا رسول الله صلّى الله عليه وسلّم عن المتعة وما كنا مسافحين. وعن عمر أنه خطب حين استُخلف فقال: إن رسول الله أذن لنا في المتعة ثلاثاً ثم نهى عنه، أخرجه ابن المنذر والبيهقي.
طبرانی نے الاوسط میں روایت کیا ہے کہ سالم بن عبد الله نے عبد اللہ بن عمر سے کہا کہ ابن عباس متعہ کے نکاح کا حکم کرتے ہیں تو ابن عمر نے کہا سبحان اللہ میں نہیں گمان کرتا وہ یہ کرتے ہیں کہا وہ کرتے ہیں ابن عمر نے کہا ابن عباس تو ایک چھوٹے بچے تھے دور نبوی میں اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے متعہ سے منع کیا اور ہم فحاشی کرنے والے نہیں تھے اور جب عمر خلیفہ ہوئے انہوں نے کہا کہ رسول الله نے اس کی اجازت دی تین پھر منع کر دیا اس کی تخریج ابن منذر اور بیہقی نے کی ہے

ابو الحسنات لکھتے ہیں
والمشهور عن ابن عباس هو الحلُّ، لكن ثبت أنه رجع عنه،
اور مشھورہے کہ ابن عباس اس کو حلال کرتے تھے لیکن جو ثابت ہے کہ انہوں نے اس سے رجوع کیا

صحیح بخاری کی حدیث ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا [ص:13] شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ: سُئِلَ عَنْ مُتْعَةِ النِّسَاءِ «فَرَخَّصَ»، فَقَالَ لَهُ مَوْلًى لَهُ: إِنَّمَا ذَلِكَ فِي الحَالِ الشَّدِيدِ، وَفِي النِّسَاءِ قِلَّةٌ؟ أَوْ نَحْوَهُ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «نَعَمْ»

أَبِي جَمْرَةَ نے کہا میں نے ابن عباس کو کہتے سنا ان سے متعہ عورتوں سے کرنے پر سوال ہوا پس انہوں نے اس کی اجازت دی ان سے ایک آزاد کردہ غلام نے کہا یہ اس وقت ہے جب حالت شدید ہو عورتیں کم ہوں ابن عباس نے کہا ہاں

جمہور اصحاب رسول کی رائے اس کے خلاف تھی
——–

متعہ جمہور کے مطابق ایک وقت تھا جب جائز تھا اس کو کچھ اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم نے کیا اس کے بعد اس سے منع کر دیا گیا اس میں کچھ شرطیں تھیں کہ ایام جنگ میں جائز کیا گیا جس میں اضطراری کیفیت تھی اور اس کو مقیم کے شہر میں نہیں کیا گیا اس میں نبی صلی الله علیہ وسلم سے پیشگی اجازت لی گئی

متعه کی ممانعت کب ہوئی اس میں بہت سی روایات ہیں کہا گیا ہے یہ جنگ خیبر سن ٧ میں منع ہوا لیکن بعض کے مطابق فتح مکہ کے سال سن ٨ ہجری میں منع ہوا

صحیح بخاری کی حدیث ہے
حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ الزُّهْرِيَّ، يَقُولُ: أَخْبَرَنِي الحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، وَأَخُوهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِمَا، أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ لِابْنِ عَبَّاسٍ: «إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ المُتْعَةِ، وَعَنْ لُحُومِ الحُمُرِ الأَهْلِيَّةِ، زَمَنَ خَيْبَرَ»
محمد بن علی سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے باپ علی رضی الله عنہ نے ابن عباس رضی الله عنہ سے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ سے منع کیا اور پالتو گدھوں کے گوشت سے خیبر کے زمانے میں

صحیح بخاری کی حدیث ہے
حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ عَمْرٌو، عَنِ الحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَسَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ، قَالاَ: كُنَّا فِي جَيْشٍ، فَأَتَانَا رَسُولُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «إِنَّهُ قَدْ أُذِنَ لَكُمْ أَنْ تَسْتَمْتِعُوا فَاسْتَمْتِعُوا»
جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَسَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ کہتے ہیں ہم ایک جنگ میں تھے پس رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس گئے اور کہا گیا بے شک انہوں نے اجازت دی متعہ پس کر لو

قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: «وَبَيَّنَهُ عَلِيٌّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ مَنْسُوخٌ»
امام بخاری نے کہا پس علی نے وضاحت کر دی کہ یہ منسوخ ہے

——-

چونکہ ابن عبّاس نے اس کو جائز سمجھا ہے اس لیے امت میں اس پر ابہام آ گیا اور اہل تشیع نے ابن عباس کا فتوی لیا اور اہل سنت نے جمہور کا

صحیح مسلم میں ہے

وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ الزُّبَيْرِ، قَامَ بِمَكَّةَ، فَقَالَ: «إِنَّ نَاسًا أَعْمَى اللهُ قُلُوبَهُمْ، كَمَا أَعْمَى أَبْصَارَهُمْ، يُفْتُونَ بِالْمُتْعَةِ»، يُعَرِّضُ بِرَجُلٍ، فَنَادَاهُ، فَقَالَ: إِنَّكَ لَجِلْفٌ جَافٍ، فَلَعَمْرِي، لَقَدْ كَانَتِ الْمُتْعَةُ تُفْعَلُ عَلَى عَهْدِ إِمَامِ الْمُتَّقِينَ – يُرِيدُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَقَالَ لَهُ ابْنُ الزُّبَيْرِ: «فَجَرِّبْ بِنَفْسِكَ، فَوَاللهِ، لَئِنْ فَعَلْتَهَا لَأَرْجُمَنَّكَ بِأَحْجَارِكَ
عروه نے نے خبر دی کہ ابن زبیر نے مکہ میں خطبہ دیا انہوں نے کہا وہ جن کے دل الله نے اندھے کر دے جس طرح ان کی آنکھیں وہ متعہ کا کہتے ہیں اس پر ایک شخص نے اعتراض کیا اور پکارا اور کہا (اے ابن زبیر) تیری (آنکھ کی) پتلی تنگ ہے لعمری بے شک متعہ ہوا امام المتقین کے دور میں ان کا مقصد رسول الله صلی الله علیہ وسلم تھے پس ابن زبیر نے کہا تو اپنے اپ کو دیکھ- الله کی قسم اگر ایسا کیا تو میں تیرے پتھر سے تجھ کو رجم کروں گا
———–

جمہور اصحاب رسول نے اس کو منسوخ کہا ہے اور اس طرح یہ حرام بھی کہا گیا ہے

ابن عباس بھی اس کو عموم نہیں مانتے تھے بلکہ ایک اضطراری کیفیت میں جائز کہتے جب عورتیں کم ہوں اور عمل جنسی کرنے کی شدید خواہش ہو ظاہر ہے عورتیں کم کب ہوں گی جب اپ اپنے علاقے میں نہ ہوں اور دوران سفر ہوں

و الله اعلم

جواب

ربيعة بن أمية بن خلف الجمحي نے شراب پی ، عمر رضی الله عنہ نے ان کو جلاوطن کیا جب یہ چلے گئے تو بھید کھلا کہ یہ دائی سے متعہ بھی کر چکے ہیں اس کی خبر جب عمر رضی الله عنہ کو ہوئی انہوں نے کہا کہ پہلے پتا چلتا تو اس کو رجم کرتا

موطا امام مالک میں ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو مُصْعَبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ , أَنَّ خَوْلَةَ بِنْتَ حَكِيمٍ دَخَلَتْ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ – رضي الله عنه – , فَقَالَتْ: إِنَّ رَبِيعَةَ بْنَ أُمَيَّةَ اسْتَمْتَعَ بِامْرَأَةٍ مُوَلَّدَةٍ , فَحَمَلَتْ مِنْهُ، فَخَرَجَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَجُرُّ رِدَاءَهُ فَزِعًا، وقَالَ: هَذِهِ الْمُتْعَةُ، وَلَوْ كُنْتُ تَقَدَّمْتُ فِيهَا، لَرَجَمْتُ.

تاریخ مدینہ ابن شبہ میں ہے عمر نے کہا
بَلَغَنِي أَنَّ رَبِيعَةَ بْنَ أُمَيَّةَ تَزَوَّجَ امْرَأَةً سِرًّا فَحَمَلَتْ مِنْهُ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَوْ تُقُدِّمْتُ فِي هَذَا لَرَجَمْتُ فِيهِ
رَبِيعَةَ بْنَ أُمَيَّةَ نے ایک عورت سے خفیہ روجیت کی

اسی کتاب میں سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ کا قول ہے
أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ غَرَّبَ رَبِيعَةَ بْنَ أُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ فِي الْخَمْرِ، أُرَاهُ قَالَ: إِلَى خَيْبَرَ، فَلَحِقَ بِهِرَقْلَ فَتَنَصَّرَ , فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: لَا أُغَرِّبُ أَحَدًا بَعْدَهُ

عمر رضی الله عنہ نے رَبِيعَةَ بْنَ أُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ کو شراب پینے کی بنا پر خیبر جلا وطن کیا یہ وہاں سے نکل کر ھرقل سے مل گئے عمر نے کہا آئندہ کسی کو مغرب کی طرف نہیں بھیجوں گا

اسی کتاب کی روایت ہے
كَانَ قَدْ أَدْمَنَ الشَّرَابَ، فَشَرِبَ فِي رَمَضَانَ، فَضَرَبَهُ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَغَرَّبَهُ إِلَى ذِي الرِّدَّةِ، فَلَمْ يَزَلْ بِهَا حَتَّى تُوُفِّيَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
رَبِيعَةَ بْنَ أُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ شراب کے عادی تھے پس عمر نے کوڑے لگوائے اور ذی الردہ کی طرف جلاوطن کیا یہاں تک کہ عمر رضی الله عنہ فوت ہوئے

الموطأ پر محمد مصطفى الأعظمي کی تعلیق میں یہ موجود ہے
یہ روم میں رہے یہاں تک کہ عثمان رضی الله عنہ نے ابو الأعور السلمي عَمْرو بْن سُفْيَانَ بْن قائف کو ان کے پاس بھیجا کہ واپس آئیں اور یہ واپس مدینہ ا گئے

معرفة الصحابة از أبو نعيم أحمد بن عبد الله بن أحمد بن إسحاق بن موسى بن مهران الأصبهاني (المتوفى: 430هـ)

معرفة الصحابة لابن منده از أبو عبد الله محمد بن إسحاق بن محمد بن يحيى بن مَنْدَه العبدي (المتوفى: 395هـ)

معجم الصحابة از أبو القاسم عبد الله بن محمد بن عبد العزيز بن المَرْزُبان بن سابور بن شاهنشاه البغوي (المتوفى: 317هـ)

میں ان کا شمار اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں کیا گیا ہے

تاریخ الطبری کی روایت ہے حَدَّثَنَا ابْنُ حُمَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ زِيَادِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: لما قبض النبي ص كَانَ أَبُو بَكْرٍ غَائِبًا، فَجَاءَ بَعْدَ ثَلاثٍ، وَلَمْ يَجْتَرِئْ أَحَدٌ أَنْ يَكْشِفَ عَنْ وَجْهِهِ، حَتَّى أُرْبِدَ بَطْنُهُ

کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا پیٹ پھول گیا اور ابو بکر صدیق رضی الله عنہ تین دن بعد آئے

اس کی سند منقطع ہے ابراہیم النخعی کی کسی صحابی سے ملاقات نہیں ہوئی کتاب جامع التحصیل کے مطابق وقال علي بن المديني إبراهيم النخعي لم يلق أحدا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم

علی بن المدینی کہتے ہیں کہ ابراہیم کی کسی صحابی سے ملاقات نہیں ہوئی دوم ان سے سننے والے ابی ایوب بھی  مجھول ہیں

کتاب المعجم الصغير لرواة الإمام ابن جرير الطبري از  أكرم بن محمد زيادة الفالوجي الأثري کے مطابق . أبو أيوب – غير مسمى، ولا منسوب – من الخامسة، عن إبراهيم. وعنه: أبو معشر، زياد بن كليب، التميمي، الحنظلي، الكوفي (3219) لم أعرفه، ولم أجد له ترجمة

یہ ابو ایوب مجھول ہے

نبی صلی الله علیہ وسلم  کے جنازہ پڑھنے سے متعلق تمام  روایات ضعیف ہیں

فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِذَا أَنْتَ قُبِضْتَ فَمَنْ يُغَسِّلُكَ؟ وَفِيمَ نُكَفِّنُكَ؟ وَمَنْ يُصَلَّى عَلَيْكَ؟ وَمَنْ يَدْخُلُ الْقَبْرَ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا عَلِيُّ أَمَّا الْغُسْلُ فاغْسِلْنِي أَنْتَ، وَالْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ يَصُبُّ عَلَيْكَ الْمَاءَ، وَجِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ ثَالِثُكُمَا، فَإِذَا أَنْتُمْ فَرَغْتُمْ مِنْ غُسْلِي فَكَفِّنُونِي فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ جُدُدٍ، وَجِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ يَأْتِينِي بِحَنُوطٍ مِنَ الْجَنَّةِ، فَإِذَا أَنْتُمْ وَضَعْتُمُونِي عَلَى السَّرِيرِ فَضَعُونِي فِي الْمَسْجِدِ وَاخْرُجُوا عَنِّي، فَإِنَّ أَوَّلَ مَنْ يُصَلِّي عَلَيَّ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ فَوْقِ عَرْشِهِ، ثُمَّ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ، ثُمَّ مِيكَائِيلُ، ثُمَّ إِسْرَافِيلُ عَلَيْهِمَا السَّلَامُ، ثُمَّ الْمَلَائِكَةُ زُمَرًا زُمَرًا، ثُمَّ ادْخُلُوا، فَقُومُوا صُفُوفًا لَا يَتَقَدَّمُ عَلَيَّ أَحَدٌ»

عبد المنعم بن إدريس بن سنان اليماني اپنے باپ سے وہ وھب بن منبہ سے روایت کرتے ہیں کہ علی نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا یا سول اللہ! جب آپ کی روح قبض ہو گی تو آپ کو غسل کون دے گا؟ ہم آپ کو کفن کس طرح دیں گے، آپ کی نماز جنازہ کون پڑھائے گا اور آپ کو قبر میں کون اُتارے گا؟ اس پر نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا غسل مجھے تم دینا، فضل بن عباس مجھ پر پانی بہائیں گے اور جبرئیل علیہ السلام تمہارے تیسرے ساتھی ہوں گے۔ سو جب تم میرے غسل سے فارغ ہوجاؤ تو مجھے تین نئے کپڑوں میں کفنانا اور جبرئیل علیہ السلام میرے لئے جنت سے حنوط (خوشبو) لائیں گے اور تم مجھے چارپائی میں رکھو تو مجھے مسجد میں رکھ کر مجھ سے پرے ہٹ جانا۔ چنانچہ سب سے پہلے جو میری نمازِ جنازہ پڑھیں گے، وہ ربّ تعالیٰ عرش کے اوپر سے پڑھیں گے۔ پھر جبرئیل بعد ازاں میکائیل، اس کے بعد اسرافیل پھر تمام فرشتے جماعت در جماعت میری نمازِ جنازہ پڑھیں گے۔ پھر تم حجرہ میں داخل ہونا اور صفوں میں کھڑے ہونا، کوئی بھی میرا پیش امام نہ بنے

طبرانی الکبیر میں اس کی سند ہے حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْبَرَاءِ، ثنا عَبْدُ الْمُنْعِمِ بْنُ إِدْرِيسَ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، وَعَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ

اس کی سند میں عبد المنعم بن إدريس بن سنان اليماني ہے دارقطنی کتاب الضعفاء والمتروكين کہتے ہیں اپنے باپ سے روایت کرنے میں متروک ہیں

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا بَهْزٌ، وَأَبُو كَامِلٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ يَعْنِي الْجَوْنِيَّ، عَنْ أَبِي عَسِيبٍ، أَوْ أَبِي عَسِيمٍ، قَالَ بَهْزٌ: إِنَّهُ شَهِدَ الصَّلَاةَ عَلَى رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: كَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْهِ؟ قَالَ: «ادْخُلُوا أَرْسَالًا أَرْسَالًا» ، قَالَ: «فَكَانُوا يَدْخُلُونَ مِنْ هَذَا الْبَابِ فَيُصَلُّونَ عَلَيْهِ، ثُمَّ يَخْرُجُونَ مِنَ الْبَابِ الْآخَرِ» ، قَالَ: ” فَلَمَّا وُضِعَ فِي لَحْدِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ الْمُغِيرَةُ: قَدْ بَقِيَ مِنْ رِجْلَيْهِ شَيْءٌ لَمْ يُصْلِحُوهُ، قَالُوا: فَادْخُلْ فَأَصْلِحْهُ، فَدَخَلَ، وَأَدْخَلَ يَدَهُ فَمَسَّ قَدَمَيْهِ، فَقَالَ: أَهِيلُوا عَلَيَّ التُّرَابَ، فَأَهَالُوا عَلَيْهِ التُّرَابَ، حَتَّى بَلَغَ أَنْصَافَ سَاقَيْهِ، ثُمَّ خَرَجَ، فَكَانَ يَقُولُ أَنَا أَحْدَثُكُمْ عَهْدًا بِرَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ابو عسیب ابو عسیم بیان کرتے ہیں وہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی نماز ِجنازہ میں حاضر ہوئے تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ آپ کی نمازِ جنازہ کیسے پڑھیں؟ اس پر صحابہ کرام نے کہا: ٹولیوں کی شکل میں شامل ہو جاؤ۔ چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین ایک دروازے سے داخل ہوتے اور آپ نماز ِجنازہ پڑھتے، پھر دوسرے دروازے سےنکل جاتے تھے پس جب آپ کو لحد میں رکھ دیا گیا مغیرہ نے کہا نبی صلی الله علیہ وسلم کے قدموں میں سے کوئی صحیح نہیں ہے پس کہا داخل ہو اور صحیح کرو پس ہاتھ ڈال کر قدم کو مس کیا کہا مٹی ڈالو پس مٹی ڈالی گئی یہاں تک کہ نصف پنڈلیوں کے پس اس کے بعد (دفنانے والے) باہر نکلے

یہ وہ واحد روایت کے جس میں دعوی کیا گیا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا جنازہ پڑھا گیا لیکن اس میں کچھ مشکلات ہیں

اول حجرہ عائشہ رضی الله تعالی عنہا میں دو دروازے تھے کسی حدیث میں بیان نہیں ہوا

دوم قدم مبارک دفنانے میں صحیح انداز میں نہیں رکھا جا سکا اور پھر بعد میں اس کو ہاتھ ڈال کر درست کرنا پڑا بھی عجیب بات ہے جبکہ علی رضی الله تعالی عنہ وہاں موجود ہیں اور اہل بیت میں ہونے کی وجہ سے ان کی ذمہ داری ہے کہ تدفین کا انتظام کریں لیکن مغیرہ بن شعبہ رضی الله تعالی عنہ بتاتے ہیں کہ قدم درست نہیں رکھا گیا

دوسری روایت ہے کہ

مستدرک الحاکم کی روایت ہے حَدَّثَنَا حَمْزَةُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْعَبَّاسِ الْعَقَبِيُّ، بِبَغْدَادَ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوْحٍ الْمَدَائِنِيُّ، ثنا سَلَّامُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمَدَائِنِيُّ، ثنا سَلَامُ بْنُ سُلَيْمٍ الطَّوِيلُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنِ الْحَسَنِ الْعُرَنِيِّ، عَنِ الْأَشْعَثِ بْنِ طَلِيقٍ، عَنْ مُرَّةَ بْنِ شَرَاحِيلَ، عَنْ عَبْدِ الله بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ الله عَنْهُ قَالَ: لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا: مَنْ يُصَلِّي عَلَيْكَ يَا رَسُولَ الله فَبَكَى وَبَكَيْنَا وَقَالَ: «مَهْلًا، غَفَرَ الله لَكُمْ، وَجَزَاكُمْ عَنْ نَبِيِّكُمْ خَيْرًا، إِذَا غَسَّلْتُمُونِي وَحَنَّطْتُمُونِي وَكَفَّنْتُمُونِي فَضَعُونِي عَلَى شَفِيرِ قَبْرِي، ثُمَّ اخْرِجُوا عَنِّي سَاعَةً، فَإِنَّ أَوَّلَ مَنْ يُصَلِّي عَلَيَّ خَلِيلِي وَجَلِيسِي جِبْرِيلُ وَمِيكَائِيلُ، ثُمَّ إِسْرَافِيلُ، ثُمَّ مَلَكُ الْمَوْتِ مَعَ جُنُودٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ، ثُمَّ لِيَبْدَأْ بِالصَّلَاةِ عَلَيَّ رِجَالُ أَهْلِ بَيْتِي، ثُمَّ نِسَاؤُهُمْ، ثُمَّ ادْخُلُوا أَفْوَاجًا أَفْوَاجًا وَفُرَادَى وَلَا تُؤْذُونِي بِبَاكِيةٍ، وَلَا بِرَنَّةٍ وَلَا بِصَيْحَةٍ، وَمَنْ كَانَ غَائِبًا مِنْ أَصْحَابِي فَأَبْلِغُوهُ مِنِّي السَّلَامَ، فَإِنِّي أُشْهِدُكُمْ عَلَى أَنِّي قَدْ سَلَّمْتُ عَلَى مَنْ دَخَلَ فِي الْإِسْلَامِ، وَمَنْ تَابَعَنِي عَلَى دِينِي هَذَا مُنْذُ الْيَوْمِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ»

جب رسو ل اللہ کی بیماری شدت اختیار کر گئی تو ہم نے پوچھا : یارسول اللہ! آپ کی نمازِ جنازہ کون پڑھائے گا؟ اس پر آپ رو دیئے او رہم بھی اشک بار ہوگئے۔ پھر کچھ دیر بعد آپ نے فرمایا: اللہ تعالی تمہاری مغفرت فرمائے اور تمہارے نبی کی طرف سے تمہیں جزائے خیر دے۔ جب تم مجھے غسل دے لو ، مجھے کافور لگا لو اور مجھے کفن دے دو تو مجھے میری قبر کے کنارے رکھ دینا، پھر کچھ دیر کے لئے مجھ سے دور ہوجانا، چنانچہ سب سے پہلے میری نمازِ جنازہ میرے جبرئیل و میکائیل پڑھیں گے، پھر اسرافیل، ازاں بعد ملک الموت فرشتوں کے لشکروں سمیت میری نماز جنازہ پڑھیں گے۔پھر میری نمازِ جنازہ کا آغاز میرے اہل بیت کے فرد، ان کے بعد اہل بیت کی عورتیں کریں۔پھر تم گروہ در گروہ اور تنہا تنہا داخل ہونا(اور نماز ادا کرنا) الحاکم کہتے ہیں عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الَّذِي فِي هَذَا الْإِسْنَادِ مَجْهُولٌ، لَا نَعْرِفُهُ بِعَدَالَةٍ وَلَا جَرْحٍ وَالْبَاقُونَ كُلُّهُمْ ثِقَاتٌ ”

اس کی سند میں عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ہے جو مجھول ہے

ابن ماجہ ، الشريعة از ابو بكر الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) میں روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ قَالَ [ص:2362]: حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ سُلَيْمَانَ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ: وَحَدَّثَنِي حُسَيْنُ بْنُ عَبْدِ الله , عَنْ عِكْرِمَةَ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ وَذَكَرَ وَفَاةَ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ , وُضِعَ عَلَى سَرِيرِهِ فِي بَيْتِهِ , وَقَدْ كَانَ الْمُسْلِمُونَ اخْتَلَفُوا فِي دَفْنِهِ , فَقَالَ قَائِلٌ: نَدْفِنُهُ فِي مَسْجِدِهِ , وَقَالَ قَائِلٌ: يُدْفَنُ مَعَ أَصْحَابِهِ. فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ الله عَنْهُ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَا قُبِضَ نَبِيُّ إِلَّا دُفِنَ حَيْثُ يُقْبَضُ» فَرُفِعَ فِرَاشُ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي تُوُفِّيَ عَلَيْهِ فَحُفِرَ لَهُ تَحْتَهُ ثُمَّ دَخَلَ النَّاسُ عَلَى رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَالًا , الرِّجَالُ حَتَّى إِذَا فَرَغُوا دَخَلَ النِّسَاءُ , حَتَّى إِذَا فَرَغْنَ دَخَلَ الصِّبْيَانُ , وَلَمْ يَؤُمَّ النَّاسَ عَلَى رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ ثُمَّ دُفِنَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ وَسَطِ اللَّيْلِ لَيْلَةَ الْأَرْبِعَاءِ عبدللہ ابن عبّاس رضی الله تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات منگل کو ہوئی … ابوبکر نے کہا کہ نبی جہاں وفات پائیں وہیں دفن ہوتے ہیں بدھ کی رات تدفین ہوئی

ابن ماجہ میں یہ بھی ہے کہ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، ْفَضْلُ بْنُ الْعَبَّاسِ، َقُثَمُ ُ، وَشُقْرَانُ مَوْلَى رَسُولِ الله  صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے آپ کو قبر میں اتارا

اس کی سند میں راوی حسين بن عبد الله ابن عبيد الله بن عباس بن عبد المطلب المدني ہے جو ضعیف ہے اس کے علاوہ محمّد بن اسحاق بن یسار ہے جو مختلف فیہ ہے

یہ روایت صحیح روایت کے بھی خلاف ہے جس کے مطابق آپ کی وفات پیر کو ہوئی

الموطأ میں امام مالک کہتے ہیں ان کو یہ بات پہنچی ہے

وَصَلَّى النَّاسُ عَلَيْهِ أَفْذَاذاً اور لوگوں نے الگ الگ نماز کی

صلی کا لفظ نماز کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور دعا کے لئے بھی لہذا اس میں واضح نہیں کہ باقاعدہ نماز جنازہ ہوئی

قرین قیاس بات یہ ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی نماز جنازہ نہیں ہوئی بلکہ اگر غور کریں تو اس کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ دعا تو عام لوگوں کے لئے کی جاتی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تو ہےکہ ان کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف ہیں جیسا قرآن میں ہے لہذا کسی نماز جنازہ کی ضرورت نہیں تھی

نبی صلی الله علیہ وسلم کو

كُفِّنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ بِيضٍ تین سفید کپڑوں میں کفن دیا گیا

یہ صحیح مسلم کی روایت ہے

الشمائل للترمذی ، مسند عبد بن حمید ، ،  المعجم الکبیر للطبرائی  دلائل النبوۃ للبیھقی السنن الکبری   للنسائی کی روایت ہے

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الله بْنُ دَاوُدَ قَالَ [ص:337]: حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ نُبَيْطٍ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ أَبِي هِنْدَ، عَنْ نُبَيْطِ بْنِ شَرِيطٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عُبَيْدٍ، وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ قَالَ: أُغْمِيَ عَلَى رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ فَأَفَاقَ، فَقَالَ: «حَضَرَتِ الصَّلَاةُ» ؟ فَقَالُوا: نَعَمْ. فَقَالَ: «مُرُوا بِلَالًا فَلْيُؤَذِّنْ، وَمُرُوا أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ للنَّاسِ» – أَوْ قَالَ: بِالنَّاسِ – قَالَ: ثُمَّ أُغْمِيَ عَلَيْهِ، فَأَفَاقَ، فَقَالَ: «حَضَرَتِ الصَّلَاةُ؟» فَقَالُوا: نَعَمْ. فَقَالَ: «مُرُوا بِلَالًا فَلْيُؤَذِّنْ، وَمُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ» ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: إِنَّ أَبِي رَجُلٌ أَسِيفٌ، إِذَا قَامَ ذَلِكَ الْمَقَامَ بَكَى فَلَا يَسْتَطِيعُ، فَلَوْ أَمَرْتَ غَيْرَهُ قَالَ: ثُمَّ أُغْمِيَ عَلَيْهِ فَأَفَاقَ فَقَالَ: «مُرُوا بِلَالًا فَلْيُؤَذِّنْ، وَمُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، فَإِنَّكُنَّ صَوَاحِبُ أَوْ صَوَاحِبَاتُ يُوسُفَ» قَالَ: فَأُمِرَ بِلَالٌ فَأَذَّنَ، وَأُمِرَ أَبُو بَكْرٍ فَصَلَّى بِالنَّاسِ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ خِفَّةً، فَقَالَ: «انْظُرُوا لِي مَنْ أَتَّكِئِ عَلَيْهِ» ، فَجَاءَتْ بَرِيرَةُ [ص:338] وَرَجُلٌ آخَرُ، فَاتَّكَأَ عَلَيْهِمَا فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ ذَهَبَ لِينْكُصَ فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ أَنْ يَثْبُتَ مَكَانَهُ، حَتَّى قَضَى أَبُو بَكْرٍ صَلَاتَهُ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُبِضَ، فَقَالَ عُمَرُ: وَالله لَا أَسْمَعُ أَحَدًا يَذْكُرُ أَنَّ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُبِضَ إِلَا ضَرَبْتُهُ بِسَيْفِي هَذَا قَالَ: وَكَانَ النَّاسُ أُمِّيِّينَ لَمْ يَكُنْ فِيهِمْ نَبِيٌّ قَبْلَهُ، فَأَمْسَكَ النَّاسُ، فَقَالُوا: يَا سَالِمُ، انْطَلِقْ إِلَى صَاحِبِ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَادْعُهُ، فَأَتَيْتُ أَبَا بَكْرٍ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ فَأَتَيْتُهُ أَبْكِي دَهِشًا، فَلَمَّا رَآنِي قَالَ: أَقُبِضَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْتُ: إِنَّ عُمَرَ يَقُولُ: لَا أَسْمَعُ أَحَدًا يَذْكُرُ أَنَّ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُبِضَ إِلَا ضَرَبْتُهُ بِسَيْفِي هَذَا، فَقَالَ لِي: انْطَلِقْ، فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ، فَجَاءَ هُوَ وَالنَّاسُ قَدْ دَخَلُوا عَلَى رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَفْرِجُوا لِي، فَأَفْرَجُوا لَهُ فَجَاءَ حَتَّى أَكَبَّ عَلَيْهِ وَمَسَّهُ، فَقَالَ: {إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ} [الزمر: 30] ثُمَّ قَالُوا: يَا صَاحِبَ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَقُبِضَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَعَلِمُوا أَنْ قَدْ صَدَقَ، قَالُوا: يَا صَاحِبَ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيُصَلَّى عَلَى رَسُولِ الله؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالُوا: وَكَيْفَ؟ قَالَ: يَدْخُلُ قَوْمٌ فَيُكَبِّرُونَ وَيُصَلُّونَ وَيَدْعُونَ، ثُمَّ يَخْرُجُونَ، ثُمَّ يَدْخُلُ قَوْمٌ فَيُكَبِّرُونَ وَيُصَلُّونَ وَيَدْعُونَ، ثُمَّ يَخْرُجُونَ، حَتَّى يَدْخُلَ النَّاسُ، قَالُوا: يَا صَاحِبَ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيُدْفَنُ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالُوا: أَينَ؟ قَالَ: فِي الْمكَانِ الَّذِي قَبَضَ الله فِيهِ رُوحَهُ، فَإِنَّ الله لَمْ يَقْبِضْ رُوحَهُ إِلَا فِي مَكَانٍ طَيِّبٍ. فَعَلِمُوا أَنْ قَدْ صَدَقَ، ثُمَّ أَمَرَهُمْ أَنْ يَغْسِلَهُ بَنُو أَبِيهِ وَاجْتَمَعَ الْمُهَاجِرُونَ يَتَشَاوَرُونَ، فَقَالُوا: انْطَلِقْ بِنَا إِلَى إِخْوانِنَا مِنَ الْأَنْصَارِ نُدْخِلُهُمْ مَعَنَا فِي هَذَا الْأَمْرِ، فَقَالَتِ الْأَنْصَارُ: مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: مَنْ لَهُ مِثْلُ هَذِهِ الثَّلَاثِ {ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ الله مَعَنَا} [التوبة: 40] مَنْ هُمَا؟ قَالَ: ثُمَّ بَسَطَ يَدَهُ فَبَايَعَهُ وَبَايَعَهُ النَّاسُ بَيْعَةً حَسَنَةً جَمِيلَةً

سالم عبید الاشجعیؓ بیان کرتے ہیں

رسول اللہ کے مرض میں آپ  پر غشی طاری ہوئی، پھر افاقہ ہو گیا۔ آپ  نے دریافت فرمایا کہ کیا نماز کا وقت ہوگیا ہے؟ عرض کی گئی، جی ہاں! آپ  نے فرمایا، بلال کو حکم دو کہ وہ اذان کہیں اور ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کونماز پڑھائیں۔ سیدہ عائشہؓ نے عرض کی، میرے والد تو نہایت نرم دل آدمی ہیں۔ جب وہ اس جگہ (مصلی رسول) پر کھڑے ہوں گے تو رونے لگیں گے اور نماز نہ پڑھا سکیں گے، اگر آپ کسی اور کو حکم دیں تو اچھا ہو گا۔ آپ  غشی طاری ہوئی، پھر افاقہ ہوا تو فرمایا، بلال کو حکم دو کہ وہ اذان کہیں اور ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، تم تو یوسف والیاں ہو۔ پھر سیدنا بلالؓ کو حکم دیا گیا، انہوں نے اذان کہی اور سیدنا ابوبکرؓ کو حکم دیا گیا، انہوں نے نماز پڑھائی۔ پھر رسول اللہ  نے کچھ سکون محسوس کیا تو فرمایا، میرے سہارا لینے (اور مسجد جانے) کے لیے کسی کو دیکھو۔ بریرہ اور ایک آدمی آئے۔ آپ  نے ان دونوں کا سہارا لیا(اور مسجد میں آگئے)، جب سیدنا ابوبکرؓ نے آپ  کو دیکھا تو (مصلی امانت سے) پیچھے ہٹنے لگے، آپ  نے ان کی طرف اشارہ فرمایا کہ وہ اپنی جگہ میں رہیں، یہاں تک کہ سیدنا ابوبکرؓ نے نمازپوری کر لی۔ پھر رسول اللہ  فوت ہوگئے۔ سیدنا عمرؓ نے کہا، اللہ کی قسم! میں کسی کو یہ کہتے نہیں سنوں گا کہ رسول اللہ  فوت ہوگئے۔ مگر اپنی تلوار سے قتل کر دوں گا اور کہا، لوگ ان پڑھ تھے، ان میں آپ  سے پہلے کوئی نبی نہیں تھا (جہالت ابھی باقی ہے، پھر رسول اللہ  کیسے فوت ہو سکتے ہیں؟)۔ لوگ سہم گئے اور انہوں نے کہا، اے سالم! تم رسول اللہ  کے ساتھی (سیدنا ابوبکرؓ) کے پاس جاؤ اور ان کو بلاؤ۔ میں سیدنا ابوبکرؓ کے پاس گیا، آپؓ اپنی مسجد میں تھے، میں آپؓ کے پاس روتے ہوئے اور دہشت زوہ گیا۔ جب آپؓ نے مجھے دیکھا تو پوچھنے لگے، کیا رسول اللہ  وفات پا گئے ہیں؟ میں نے کہا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہہ رہے ہیں کہ میں کسی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے نہیں سنوں گا، مگر اپنی اس تلوار سے اسے قتل کردوں گا۔ آپؓ نے مجھے فرمایا، چلو۔ میں آپؓ کے ساتھ چلا۔ آپؓ تشریف لائے تولوگ رسول اللہ  کے گھر میں داخل چکے تھے۔ آپؓ نے فرمایا، لوگو! مجھے راستہ دو! لوگوں نے آپؓ کو راستہ دے دیا۔ آپؓ آ کر رسول اللہ  پر جھک گئے اور آپ  کو بوسہ دیا، پھر قرآن کریم کی یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی:

(اِنَّكَ مَيِّتٌ وَّاِنَّهُمْ مَّيِّتُوْنَ)(الزمر:۳۰/۳۹)

(اے نبی! یقیناً آپ فوت ہونے والے ہیں اور وہ کافر بھی فوت ہونے والے ہیں)، پھر لوگوں نے کہا، اے اللہ کے رسول کے ساتھی! کیا رسول اللہ  فوت ہو گئے ہیں؟ آپؓ نے فرمایا، ہاں! لوگوں نے یقین کر لیا کہ آپؓ سچ کہہ رہے ہیں۔ لوگوں نےکہا، اے رسول اللہ  کے ساتھی! کیا رسول اللہ  کا جنازہ پڑھا جائے گا؟ آپؓ نے فرمایا، ہاں! انہوں نے کہا، کیسے؟ فرمایا، کچھ لوگ (حجرۂ عائشہ میں) داخل ہوں گے اور اللہ اکبر کہیں گے، درود و سلام پڑھیں گے اور دعا کریں گے، پھر وہ نکل آئیں گے، پھر کچھ لوگ داخل ہوں گے اور اللہ اکبر کہیں، درود و سلام پڑھیں گے اور دعا کرکے نکل آئیں گے، یہاں تک کہ(تمام) داخل ہو جائیں گے۔ لوگوں نے کہا، اے اللہ کے رسول  کے ساتھی؟ کیا رسول اللہ  کو دفن کیا جائے گا؟ فرمایا، ہاں! انہوں نے کہا، کہاں؟ فرمایا، اسی جگہ میں، جہاں اللہ تعالی نے ان کی روح قبض کی ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے ان کی روح عمدہ جگہ میں قبض فرمائی ہے۔ انہوں نے جان لیا کہ آپ نے سچ فرمایا ہے۔ پھر آپؓ نے حکم دیا کہ آپ  کو آپ کے خاندان والے غسل دیں۔ مہاجرین مشورہ کے لیے جمع ہوئے، انہوں نے کہا، آپ ہمارے ساتھ ہمارے انصاری بھائیوں کی طرف چلیں تاکہ ہم ان کو بھی اس معاملے میں اپنے ساتھ شامل کرلیں۔ انصار نے کہا، ایک امیر ہم میں سے ایک تم میں سے ہو گا۔ اس پر سیدنا عمربن خطابؓ نے فرمایا، کس کے لیے ان تین فضائل جیسی کوئی فضیلت ہے؟ اس جیسی منقبت کس کے لیے ہے؟

(ثَانِيَ اثْنَيْنِ اِذْ هُمَا فِي الْغَارِ اِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ الله مَعَنَا) (التوبہ: ۴۰/۹)

 آپ  دو میں سے دوسرے تھے، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب آپ  اپنے ساتھی سے فرما رہے تھے کہ گھبراؤ نہیں، اللہ ہمارے ساتھ ہے

 وہ دونوں کون ہیں؟ پھر آپ نے ہاتھ بڑھایا اوربیعت کی اور سب لوگوں نے اچھی اور خوبصورت بیعت کی۔

اس کی سند اتنی مظبوط نہیں

کتاب  الاغتباط بمن رمي من الرواة بالاختلاط از سبط ابن العجمي (المتوفى: 841هـ)  کے مطابق

سلمة بن نبيط بن شريط الأشجعي

قال البخاري يقال اختلط بآخره

بخاری کہتے ہیں آخری  عمر میں اختلاط کا شکار تھے

کتاب  إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از   مغلطاي    (المتوفى: 762هـ)کے مطابق

وذكره العقيلي في  جملة الضعفا

                                                                                                                                                عقیلی نے ان کا ذکر ضعیف راویوں میں کیا ہے

روایت کا متن بھی صحیح احادیث کے خلاف ہے اس میں ہے نبی صلی الله علیہ وسلم نے ابو بکر کو نماز پڑھانے کا حکم دیا انہوں نے نماز مکمل کی اور نبی صلی الله علیہ وسلم کی روح قبض ہوئی

حَتَّى قَضَى أَبُو بَكْرٍ صَلَاتَهُ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُبِضَ،

حالانکہ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ نبی کی وفات کے وقت ابو بکر مقام السنح میں تھے

اس روایت میں ہے کہ ابو بکر کی بیعت مسجد النبی میں ہوئی یہ بھی صحیح احادیث کے خلاف ہے

اسی طرح عمر رضی الله عنہ پر کوئی غم کی کیفیت نہیں ہے جبکہ صحیح احادیث میں ہے کہ انہوں نے کہنا شروع کر دیا تھا کہ جس نے کہا رسول الله کی وفات ہوئی اس کی گردن اڑا دوں گا

لہذا یہ  منکر روایت ہے

شیعہ کہتے ہیں کہ  ابن سعد نے لکھا ہے

جب حضور کی وفات ہوئی اور حضرت عمر کو اس کی اطلاع ملی تو وہ مسجد نبوی میں آئے اور اتنے جوش سے تقریر فرمائی کہ ان کی دونوں باچھوں سے جھاگ نکلنے لگی. حضرت عمر نے کہا کہ حضور نے وفات نہیں پائی بلکہ ان کی روح معراج پر گئی ہے اور جلد واپس لوٹے گی. جس کسی نے بھی کہا کہ حضور فوت ہو گئے ہیں اس کے ہاتھ اور پاؤں تلوار سے کاٹ دئیے جائیں گے. اتنے میں حضرت عبّاس رضی اللہ عنہہ آئے اور حضرت عمر کو بتایا کہ حضور کے جسم سے بو آنے لگی ہے اور وہ واقعی وفات پا گئے ہیں. ان کو اب دفنا دیا جائے. تب جا کر کہیں حضرت عمر خاموش ہوۓ. (طبقات ابن سعد، جلد اول، حصّہ دوئم، صفحہ نمبر ٢٢٥)

یہ درست نہیں عمر رضی الله عنہ کو تو اسی روز یہ خیال آیا جس دن وفات ہوئی اور جس روز وفات ہوئی اس وقت تک جسد مطہر سڑتا کیسے؟ افسوس ان کی عقل پر اہل بیت جن کو یہ معصوم و طاہر کہتے ہیں ان سے بلند شخصیت نبی صلی الله علیہ وسلم کا جسد کیسے ناپاک ہو سکتا ہے

طبقات ابن سعد کی روایات میں واقدی اور ابن لہیہ وغیرہ ہیں جو قابل قبول نہیں دوم ان میں جسد میں سے بو انے منہ سے جھاگ نکلنے کا کوئی تذکرہ نہیں

آپ ان شیعہ کی عقلوں پر ماتم کریں ایک طرف تو کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا جسد تدفین سے پہلے ہی سڑ گیا اور دوسری طرف غلو میں انبیاء اور اماموں کو قبروں میں زندہ مانتے ہیں اور ان کے جسد کی بقا کے قائل ہیں- نبی کا جسد سڑ گیا؟ لیکن حسین کا کٹا ہوا سر مہینوں تلاوت کرتا رہا وہ نہیں سڑا سب بکواس ان کے مولویوں نے انکو سکھا دی ہے

اس کی دلیل ان کے مطابق  واقعہ قرطاس کی حدیث ہے جس میں الفاظ ہیں

قَالَ النَّبِى (صلى الله عليه وسلم) هَلُمَّ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لا تَضِلُّوا بَعْدَهُ

نبی نے کہا جاؤ میں کچھ تمھارے لئے تحریرلکھ دوں جس کے بعد تم گمراہ نہ ہو.

ان کے مطابق نبی صلی الله علیہ وسلم لکھنا جانتے تھے لیکن ان کو سازش کے تحت لکھنے نہیں دیا گیا

لیکن یہ الفاظ مرض وفات میں وفات سے چار دن پہلے کہے اور طبعیت سنبھلنے پر واپس قلم و قرطاس کا حکم نہیں دیا لہذا

یہ الفاظ شدت مرض میں ادا ہوئے اور یہ حقیقت حال  اور قرآن کے خلاف ہیں نبی صلی الله علیہ وسلم لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے

صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ بیعت رضوان کے وقت آپ صلی الله علیہ وسلم نے کہا مجھے دکھاؤ کہاں محمد رسول الله لکھا ہے پھر آپ نے اس کو اپنے باتھ سے مٹا دیا

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا شُرَيْحُ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُوسُفَ بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي البَرَاءُ رَضِيَ الله عَنْهُ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَرَادَ أَنْ يَعْتَمِرَ أَرْسَلَ إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ يَسْتَأْذِنُهُمْ لِيَدْخُلَ مَكَّةَ، فَاشْتَرَطُوا عَلَيْهِ أَنْ لاَ يُقِيمَ بِهَا إِلَّا ثَلاَثَ لَيَالٍ، وَلاَ يَدْخُلَهَا إِلَّا بِجُلُبَّانِ السِّلاَحِ، وَلاَ يَدْعُوَ مِنْهُمْ أَحَدًا، قَالَ: فَأَخَذَ يَكْتُبُ الشَّرْطَ  بَيْنهُمْ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَكَتَبَ هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ الله، فَقَالُوا: لَوْ عَلِمْنَا أَنَّكَ رَسُولُ الله لَمْ نَمْنَعْكَ وَلَبَايَعْنَاكَ، وَلكِنِ اكْتُبْ هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الله، فَقَالَ: «أَنَا وَالله مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَأَنَا وَالله رَسُولُ الله» قَالَ: وَكَانَ لاَ يَكْتُبُ، قَالَ: فَقَالَ لِعَلِيٍّ: «امْحَ رَسُولَ الله» فَقَالَ عَلِيٌّ: وَالله لاَ أَمْحَاهُ أَبَدًا، قَالَ: «فَأَرِنِيهِ»، قَالَ: فَأَرَاهُ إِيَّاهُ فَمَحَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ،

بعض منکرین حدیث اور نام نہاد اہل حدیث بھی اس کے قائل ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم امی نہیں تھے ان کی دلیل یہ آیت ہے

وَمَا كُنْتَ تَتْلُو مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتَابٍ تم اس سے قبل کوئی کتاب نہ پڑھتے تھے

سوره العنکبوت جو مکہ میں اتری ہے اس کی آیات میں یہ ہے ہی نہیں کہ آپ لکھنا پڑھنا سیکھ گئے تھے بلکہ یہ ہے کہ تم اس  سے قبل لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے

مدنی آیات میں بھی نبی کو امی کہا گیا ہے تفسیر طبری میں ہے حدثنا بشر قال : ثنا يزيد قال : ثنا سعيد ، عن قتادة قوله : ( وما كنت تتلو من قبله من كتاب ولا تخطه بيمينك ) قال : كان نبي الله لا يقرأ كتابا قبله ، ولا يخطه بيمينه ، قال : كان أميا ، والأمي : الذي لا يكتب

قتادہ کہتے ہیں نبی امی تھے اور امی وہ ہوتا ہے جو لکھنا نہ جانتا ہو

اور صحیح بخاری کی اوپر والی حدیث سے واضح ہے کہ آپ پڑھنا بھی نہیں جانتے تھے

اس قرانی تناظر میں حق یہی ہے کہ قلم و قرطاس والی حدیث میں نبی کے الفاظ مرض کی شدت میں ادا ہوئے

جب  پہلی وحي آئی تو جبریل نے کہا کہ اقرا پڑھ  آپ نے فرمایا

ما انا بقارئ

میں نہیں  پڑھ سکتا

جواب  اس کی تفصیل قرآن و حدیث میں نہیں البتہ عیسائیوں کی کتب میں ہے کہ ان کی عمر ١٢ سال تھی

دیکھئے Protoevangelium of James

 یہودیوں میں ١٣ سال کے لڑکے اور ١٢ سال کی لڑکی کی شادی ہو جاتی ہے

جواب

تاریخ الطبری کے مطابق زیاد بن کلیب، مغیرہ سے نقل کرتے ہیں کہ عمر بن الخطاب ، علی کے گھر کی طرف گئے ان کے گھر میں طلحہ زبیر اور مہاجرین تھے عمر نے کہا الله کی قسم میں تم سب کو آج اگ میں جلاؤں گا یا پھر بیعت کرنے نکلو

تاریخ الطبری میں سند ہے

حَدَّثَنَا ابْنُ حُمَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ كُلَيْبٍ، قَالَ: أَتَى عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ مَنْزِلَ عَلِيٍّ وَفِيهِ طَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ وَرِجَالٌ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ، فَقَالَ: وَالله لأَحْرِقَنَّ عَلَيْكُمْ أَوْ لَتَخْرُجُنَّ إِلَى الْبَيْعَةِ

أبو معشر الكوفى  زياد بن كليب التميمى الحنظلى المتوفی ١٢٠ ھ   نے عمر رضی الله عنہ  کا دور نہیں دیکھا  ان کو ثقہ کہا جاتا ہے لیکن میزان الاعتدال کے مطابق

قال أبو حاتم: ليس بالمتين في حفظه.

ابو حاتم کہتے ہیں ان کا حافظہ مظبوط نہیں

کتاب جمل من أنساب الأشراف از أحمد بن يحيى بن جابر بن داود البَلَاذُري (المتوفى: 279هـ) کے مطابق شیعوں کا ثقہ راوی الْمَدَائِنِيُّ کہتا ہے کہ

الْمَدَائِنِيُّ، عَنْ مَسْلَمَةَ بْنِ مُحَارِبٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ التيمى، وعى ابْنِ عَوْنٍ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ أَرْسَلَ إِلَى عَلِيٍّ يُرِيدُ الْبَيْعَةَ، فَلَمْ يُبَايِعْ. فَجَاءَ عُمَرُ، ومعه فتيلة   .

فتلقته فاطمة على الباب، فقالت فاطمة:  يا ابن الْخَطَّابِ، أَتُرَاكَ مُحَرِّقًا عَلَيَّ بَابِي؟ قَالَ: نَعَمْ، وَذَلِكَ أَقْوَى فِيمَا جَاءَ بِهِ أَبُوكِ. وَجَاءَ عَلِيٌّ، فَبَايَعَ وَقَالَ:

كُنْتُ عَزَمْتُ أَنْ لا أَخْرُجَ مِنْ مَنْزِلِي حَتَّى أَجْمَعَ الْقُرْآنَ

 فاطمہ نے عمر سے کہا اے ابن الخطاب کیا تم چاھتے ہو کہ میرے سامنے میرا دروازہ جلا دو ؟ عمر نے کہا ہاں … (اتنے میں ) علی آئے اور بیعت کر لی اور کہا میں  نے ارادہ کیا کہ  قرآن جمع  کر لو پھر اتا ہوں

مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ہے

مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ , نا عُبَيْدُ الله بْنُ عُمَرَ , حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ , عَنْ أَبِيهِ أَسْلَمَ أَنَّهُ حِينَ بُويِعَ لِأَبِي بَكْرٍ بَعْدَ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَلِيٌّ وَالزُّبَيْرُ يَدْخُلَانِ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيُشَاوِرُونَهَا وَيَرْتَجِعُونَ فِي أَمْرِهِمْ , فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِكَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَرَجَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى فَاطِمَةَ فَقَالَ: «يَا بِنْتَ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَالله مَا مِنْ أَحَدٍ أَحَبَّ إِلَيْنَا مِنْ أَبِيكِ , وَمَا مِنْ أَحَدٍ أَحَبَّ إِلَيْنَا بَعْدَ أَبِيكِ مِنْكِ , وَايْمُ الله مَا ذَاكَ بِمَانِعِي إِنِ اجْتَمَعَ هَؤُلَاءِ النَّفَرُ عِنْدَكِ ; أَنْ أَمَرْتُهُمْ أَنْ يُحَرَّقَ عَلَيْهِمِ الْبَيْتُ» , قَالَ: فَلَمَّا خَرَجَ عُمَرُ جَاءُوهَا فَقَالَتْ: تَعْلَمُونَ أَنَّ عُمَرَ قَدْ جَاءَنِي وَقَدْ حَلَفَ بِاللَّهِ لَئِنْ عُدْتُمْ لَيُحَرِّقَنَّ عَلَيْكُمُ الْبَيْتَ وَايْمُ الله لَيَمْضِيَنَّ لِمَا حَلَفَ عَلَيْهِ , فَانْصَرِفُوا رَاشِدِينَ , فَرَوْا رَأْيَكُمْ وَلَا تَرْجِعُوا إِلَيَّ , فَانْصَرَفُوا عَنْهَا فَلَمْ يَرْجِعُوا إِلَيْهَا حَتَّى بَايَعُوا لِأَبِي بَكْرٍ

زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ جب ابو بکر کی بیعت ہوئی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد تو علی اور زبیر، فاطمہ کے پاس آئے اور ان سے مشورہ کرنے لگے اور … پس جب اس کی خبر عمر کو ہوئی تو وہ فاطمہ کے پاس آئے اور کہا اے رسول اللہ کی بیٹی الله کی قسم ہم کو آپ کے باپ سے زیادہ کوئی محبوب نہ تھا اور ان کے بعد آپ سے زیادہ لیکن الله کے لئے یہ مجھے مانع نہ ہو گا کہ میں ایک جتھا اپ کے لئے لے آوں کہ وہ اس گھر کو جلا دے، پس جب عمر چلے گئے تو  فاطمہ نے  علی سے کہا  کیا اپ کو پتا ہے عمر آئے تھے اور الله کی قسم لے کر گئے ہیں کہ اگر دیر کی تو وہ گھر جلا ڈالیں گے اور الله کی قسم وہ یہ کر دیں گے جس کی قسم لی ہے پس سید ھے سیدھے جاؤ …. اور واپس نہ آنا حتی کہ ابو بکر کی بیعت کر لو

معلوم ہوا یہ سب متضاد قصے ہیں

ایک میں  ہے کہ عمر نے گھر جلانے کی دھمکی دی اور علی کو فاطمہ نے بھیجا کہ فورا بیعت کرو – عمر اور علی میں کوئی مکالمہ نہ ہوا

 دوسری میں ہے عمر اور  علی میں مکالمہ ہوا، علی نے بہانہ کیا کہ قرآن جمع کر رہا تھا

کچھ نے  اور ڈرامائی قصہ سنایا کہ فاطمہ کا حمل بھی ضائع ہوا

أبو الفتح محمد بن عبد الكريم بن أبى بكر أحمد الشهرستاني (المتوفى: 548هـ) نے کتاب الملل و النحل میں لکھا ہے کہ روافض یہ الزام لگاتے ہیں کہ

وزاد في الفرية فقال: إن عمر ضرب بطن فاطمة يوم البيعة حتى ألقت الجنين من بطنها

اور انہوں نے جھوٹ میں اضافہ کیا کہ عمر نے فاطمہ کو ضرب لگائی بیعت کے دن یہاں تک کہ حمل ضائع ہو گیا

اس کو شیعہ ویب سائٹ پر ایسے پیش کیا گیا ہے جیسے کہ الشهرستاني اس قول کے حق میں ہوں

یہی دھوکہ کتاب الوافی الوفیات از صلاح الدين خليل بن أيبك بن عبد الله الصفدي (المتوفى: 764هـ)

 کے حوالے سے پھیلایا  جا رہا ہے جس میں ہے

وَمِنْهَا ميله إِلَى الرَّفْض ووقوعه فِي أكَابِر الصَّحَابَة رَضِي الله عَنْهُم وَقَالَ نَص النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم على أَن الإِمَام عَليّ وعينه وَعرفت الصَّحَابَة ذَلِك وَلَكِن كتمه عمر لأجل أبي بكر رَضِي الله عَنْهُمَا وَقَالَ إِن عمر ضرب بطن فَاطِمَة يَوْم لبيعة حَتَّى أَلْقَت المحسن من بَطنهَا

اور ان (گمراہوں) میں سے کچھ رفض کی طرف مائل ہوئے اور اکابر صحابہ کو برا کہا اور کہا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے علی کی خلافت پر نص دی تھی لیکن اس کو عمر نے  چھپا دیا ابو بکر کے لئے اور کہا کہ عمر نے فاطمہ کو ضرب لگائی بیعت کے لئے بیعت  کےدن ، جس سے محسن پیٹ سے نکل آئے

الله کے شیر،  علی رضی الله کو ایسے پیش کرنا کہ وہ بیوی کا حمل ضائع ہونے پر بھی خاموش رہے کیا علی رضی الله عنہ کے شایان شان ہے ؟  اور جب گھر جلا ہی نہیں تو  اس قدر واویلا کیوں ؟  ایسا جھوٹ بولنے والے الله سے توبہ کریں

جواب

مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ہےمُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ , نا عُبَيْدُ الله بْنُ عُمَرَ , حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ , عَنْ أَبِيهِ أَسْلَمَ أَنَّهُ حِينَ بُويِعَ لِأَبِي بَكْرٍ بَعْدَ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَلِيٌّ وَالزُّبَيْرُ يَدْخُلَانِ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيُشَاوِرُونَهَا وَيَرْتَجِعُونَ فِي أَمْرِهِمْ , فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِكَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَرَجَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى فَاطِمَةَ فَقَالَ: «يَا بِنْتَ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَالله مَا مِنْ أَحَدٍ أَحَبَّ إِلَيْنَا مِنْ أَبِيكِ , وَمَا مِنْ أَحَدٍ أَحَبَّ إِلَيْنَا بَعْدَ أَبِيكِ مِنْكِ , وَايْمُ الله مَا ذَاكَ بِمَانِعِي إِنِ اجْتَمَعَ هَؤُلَاءِ النَّفَرُ عِنْدَكِ ; أَنْ أَمَرْتُهُمْ أَنْ يُحَرَّقَ عَلَيْهِمِ الْبَيْتُ» , قَالَ: فَلَمَّا خَرَجَ عُمَرُ جَاءُوهَا فَقَالَتْ: تَعْلَمُونَ أَنَّ عُمَرَ قَدْ جَاءَنِي وَقَدْ حَلَفَ بِاللَّهِ لَئِنْ عُدْتُمْ لَيُحَرِّقَنَّ عَلَيْكُمُ الْبَيْتَ وَايْمُ الله لَيَمْضِيَنَّ لِمَا حَلَفَ عَلَيْهِ , فَانْصَرِفُوا رَاشِدِينَ , فَرَوْا رَأْيَكُمْ وَلَا تَرْجِعُوا إِلَيَّ , فَانْصَرَفُوا عَنْهَا فَلَمْ يَرْجِعُوا إِلَيْهَا حَتَّى بَايَعُوا لِأَبِي بَكْرٍ

زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ جب ابو بکر کی بیعت ہوئی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد تو علی اور زبیر، فاطمہ کے پاس آئے اور ان سے مشورہ کرنے لگے اور … پس جب اس کی خبر عمر کو ہوئی تو وہ فاطمہ کے پاس آئے اور کہا اے رسول اللہ کی بیٹی الله کی قسم ہم کو آپ کے باپ سے زیادہ کوئی محبوب نہ تھا اور ان کے بعد آپ سے زیادہ لیکن الله کے لئے یہ مجھے مانع نہ ہو گا کہ میں ایک جتھا اپ کے لئے لے آوں کہ وہ اس گھر کو جلا دے، پس جب عمر چلے گئے تو فاطمہ نے علی سے کہا کیا اپ کو پتا ہے عمر آئے تھے اور الله کی قسم لے کر گئے ہیں کہ اگر دیر کی تو وہ گھر جلا ڈالیں گے اور الله کی قسم وہ یہ کر دیں گے جس کی قسم لی ہے پس سید ھے سیدھے جاؤ …. اور واپس نہ آنا حتی کہ ابو بکر کی بیعت کر لو

یہ روایت متن میں غیر واضح اور تنقیص علی رضی الله عنہ پر مبنی ہے – علی رضی الله عنہ ناراض تھے کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ ان کو اس سے مطلع کیا جاتا اور روایات سے معلوم ہے کہ ابو بکر اور عمر رضی الله عنہما سعد بن عبادہ کو روکنے گئے تھے جو انصار میں سے خلیفہ کا ارادہ رکھتے تھے- عبادہ کو یہ حدیث نہیں پہنچی تھی کہ خلفاء قریش میں سے ہوں گے اس کی وضاحت کے لئے ابو بکر و عمر نے عجلت کی اگر انصار میں سے کوئی خلیفہ ہو جاتا تو مسلمان دو حصوں میں بٹ جاتے ایک طرف انصار ہوتے اور دوسری طرف مہاجرین

اہل بیت اور زبیر رسول الله کے خاندان کے لوگ تھے یہ تدفین اور رشتہ داروں کے ساتھ تھے ان سب کو بعد میں معلوم ہوا کہ یہ سب ہو گیا ہے – الفرض اگر جانے سے پہلے شیخین مسجد النبی میں اعلان کرا دیتے کہ اس باغ میں یہ ہو رہا ہے ہم وہاں جا رہے ہیں تو یہ اشتعال پر مبنی ہوتی کیونکہ قریش اور مہاجرین بدک جاتے اور ان کے انصار سے تعلقات کشیدہ ہو جاتے

سعد بن عبادہ رضی الله عنہ نے ابو بکر رضی الله عنہ کی بیعت نہیں کی کیونکہ ان کو لگا کہ اسلام میں اب انصار کا رول ختم ہو گیا ہے اب تو صرف قریشی خلفاء ہوں گے

علی رضی الله عنہ کسی سے ڈرنے والے نہ تھے ان کا اپنا مزاج تھا اور صحیح بخاری کے مطابق ٦ ماہ بعد انہوں نے ابو بکر کی بیعت کی

راقم مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت کو پہلے أَسْلَمُ العَدَوِيُّ العُمَرِيُّ مَوْلَى عُمَرَ بنِ الخَطَّابِ کی بڑھ کہا تھا لیکن تحقیق سے معلوم ہوا اس سند میں یہ  نہیں ہیں

یہ روایت فضائل صحابہ از احمد میں بھی ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قثنا أَبُو مَسْعُودٍ قَالَ: نا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو قثنا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: لَمَّا بُويِعَ لِأَبِي بَكْرٍ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ عَلِيٌّ وَالزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ يَدْخُلَانِ عَلَى فَاطِمَةَ فَيُشَاوِرَانِهَا، فَبَلَغَ عُمَرَ فَدَخَلَ عَلَى فَاطِمَةَ فَقَالَ: يَا بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ، مَا أَحَدٌ مِنَ الْخَلْقِ أَحَبَّ إِلَيْنَا مِنْ أَبِيكِ، وَمَا أَحَدٌ مِنَ الْخَلْقِ بَعْدَ أَبِيكِ أَحَبَّ إِلَيْنَا مِنْكِ، وَكَلَّمَهَا، فَدَخَلَ عَلِيٌّ وَالزُّبَيْرُ عَلَى فَاطِمَةَ فَقَالَتِ: انْصَرِفَا رَاشِدَيْنِ، فَمَا رَجَعَا إِلَيْهَا حَتَّى بَايَعَا.
——

مستدرک الحاکم میں ہے
حَدَّثَنَا مُكْرَمُ بْنُ أَحْمَدَ الْقَاضِي، ثنا أَحْمَدُ بْنُ يُوسُفُ الْهَمْدَانِيُّ، ثنا عَبْدُ الْمُؤْمِنِ بْنُ عَلِيٍّ الزَّعْفَرَانِيُّ، ثنا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «يَا فَاطِمَةُ، وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْكِ، وَاللَّهِ مَا كَانَ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ بَعْدَ أَبِيكِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْكِ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ ”
[التعليق – من تلخيص الذهبي] 4736 – غريب عجيب

اس کو عجیب و غریب الذھبی نے کہا ہے
سند میں زيد بن أسلم العَدَوِي العمري المدني المتوفی ١٣٦ ھ ہے جس کا ذکر ابن عدی نے الکامل میں کیا ہے لیکن ثقہ کہا ہے

دوسرے عبيد الله بن عمربن ميسرة القواريري المتوفی ٢٤٠ ھ ہیں جو حماد بن زید بصری کے ہم عصر ہیں یہ ثقہ ہیں

امکان ہے کہ یہ محمد بْن بِشْر بْن الفَرَافِصَة بْن المختار ، أبو عَبْد اللَّه الكُوفيُّ المتوفی ٢٣٠ ھ نے مرسل بیان کیا ہے کیونکہ دیگر اسناد میں واقعہ بیان نہیں ہوا جو محمد بن بشر العبدي نے بیان کیا ہے
محمد بن بشر العبدي ارسال بھی کرتا ہے – ممکن ہے یھاں ارسال ہو اور اصل نام نہیں لیا گیا جس نے اس واقعہ کو بیان کیا

لگتا ہے زيد بن أسلم اور عبيد الله بن عمربن ميسرة القواريري کے درمیان انقطاع ہے
البتہ الکامل از ابن عدی میں ہے
حماد بن زيد قال قدمت المدينة وأهل المدينة يتكلمون في زيد بْن أسلم فقلت لعبد اللَّه ما تقول في مولاكم هذا قَال: مَا نعلم به بأسا إلا أنه يفسر القرآن برأيه.
حماد بن زید نے کہا میں مدینہ پہنچا اور اہل مدینہ زید بن اسلم پر کلام کرتے پس میں نے عبد الله سے پوچھا کہ یہ اس پر کیا کہتے ہیں انہوں نے کہا یہ قرآن کی تفسیر رائے سے کرتا ہے

بعض کتابوں میں ہے کہ حماد سے اس کو عبيد الله بن عمربن ميسرة نے بیان کیا گویا عبيد الله بن عمربن ميسرة اتنے بڑے تھے کہ وہ زید پر تبصرہ کر سکتے تھے جبکہ ان دونوں کی وفات میں سو سال سے اوپر کا فرق ہے – اس قول سے یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ زید اور عبید الله کا سماع بھی ہوا ہے – کتب حدیث میں یہ واحد روایت ہے جو عبید الله نے زید کی سند سے بیان کی ہے

راقم  کو  مسند احمد میں سند ملی

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ، حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ الْحَكَمِ بْنِ أَوْسٍ الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنِي أَبُو عُبَادَةَ الزُّرَقِيُّ الْأَنْصَارِيُّ، مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ

یھاں حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ اور زید کے درمیان دو راوی ہیں

مسند ابویعلی میں سند ہے
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَطَاءٌ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ فَتَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ مِنْ غَرْفَةٍ وَاحِدَةٍ»

یہاں عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ اور زید کے درمیان ایک راوی ہے

اسی کتاب میں بعض دفعہ ان کے درمیان دو راوی اتے ہیں
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ

لہذا صحیح بات ہے کہ ُعبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ کا سماع زید بن اسلم سے نہیں ہے

اگر ایسا ہے تو پھر سند میں حدثنا کیوں ہے ؟ یہ اغلبا محمد بن بشر کی غلطی ہے

جواب

البانی صاحب کتاب سلسلہ احادیث الصحیحہ میں ایک روایت کے شاہد پر دلیل دیتے ہیں

كما في “تفسير ابن كثير” (4/159) – عن عبد الله البهي قال:
إني لفي المسجد حين خطب مروان فقال: إن الله تعالى قد أرى أمير المؤمنين
في (يزيد) رأياً حسناً وأن يستخلفه، فقد استخلف أبو بكر عمر- رضي الله عنهما-. فقال عبد الرحمن بن أبي بكر- رضي الله عنهما-: أهرقلية؟! إن أبا بكر- رضي
الله عنه- ما جعلها في أحد من ولده، وأحد من أهل بيته، ولا جعلها معاوية
إلا رحمة وكرامة لولده! فقال مروان: ألست الذي قال لوالديه: (أفٍّ لكما) ؟ فقال

عبد الرحمن: ألست يا مروان! ابن اللعين الذي لعن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – أباك؟! قال: وسمعتهما عائشة- رضي الله عنها-، فقالت: يا مروان! أنت القائل لعبد الرحمنكذا وكذا؟! كذبت! ما فيه نزلت، ولكن نزلت في فلان بن فلان. ثم انتحب
مروان (!) ثم نزل عن المنبر حتى أتى باب حجرتها، فجعل يكلمها حتى انصرف. قلت: سكت عنه ابن كثير، وهو إسناد صحيح.

 جیسا کہ تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ

عبداللہ بہی نے کہا کہ ہم مسجد میں تھے جب مروان نے خطبہ دیا کہ اللہ نے معاویہ کو یزید کے بارے میں اچھی رائے دی ہے، کہ وہ انہیں اپنا خلیفہ بنائے جیسے ابو بکر نے عمر کو خلیفہ بنایا۔ عبدالرحمن بن ابو بکر نے کہا کہ کیا ہرقل  کے مطابق؟ ابوبکر نے اپنی اولاد میں کسی کو نہیں بنایا نہ اپنے گھر والوں میں، معاویہ اپنی اولاد پر رحمت و کرامت کر رہا ہے۔ مروان نے کہا کہ تہمارے لیے یہ آیت آئی ہے۔ اس پر عبدالرحمن نے کہا یہ اے مروان! کیا تم لعنتی کے بیٹے نہیں جس کے باپ پر اللہ کے رسول نے لعنت کی؟ یہ عائشہ رضی الله عنہا نے سنا تو انہوں نے کہا کہ اے مروان! تم عبدالرحمن کے لیے فلان فلان چیز کے قائل ہو؟ تم نے جھوٹ بولا، یہ فلان فلان کے لیے نازل ہوئی۔ مروان نیچے اترا جلدی سے، اور آپ کے حجرے پر آیا، کچھ بولا اور پھر چلا گیا۔ 

میں البانی یہ کہتا ہوں کہ ابن کثیر اس پر چپ رہے ہیں، مگر یہ سند صحیح ہے

عبد الله البھی کا عائشہ رضی الله عنہا سے سماع ثابت نہیں ہے کتاب جامع التحصیل کے مطابق امام احمد کے نزدیک ان کا سماع نہیں ہے

عبد الله البهي سئل أحمد بن حنبل هل سمع من عائشة رضي الله عنها قال ما أرى في هذا شيئا إنما يروي عن عروة

اہم سوال ہے کہ کیا علی رضی الله عنہ نے ہرقل کی سنت پر عمل نہ کیا؟

جواب ایک روایت کتاب الاحاد و المثانی از ابن ابی عاصم کی ہے

 أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، نا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ الْقَاسِمِ، قَالَ: قَدِمَ مُعَاوِيَةُ الْمَدِينَةَ فَاسْتَأْذَنَ عَلَى عَائِشَةَ فَأَذِنَتْ لَهُ وَحْدَهُ، وَلَمْ يَدْخُلْ مَعَهُ أَحَدٌ، فَلَمَّا دَخَلَ قَالَتْ عَائِشَةُ: «أَكُنْتَ تَأْمَنُ أَنْ أُقْعِدَ لَكَ رَجُلًا فَيَقْتُلَكَ كَمَا قَتَلْتَ أَخِي مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ؟» قَالَ: مَا كُنْتِ تَفْعَلِينَ ذَلِكَ. قَالَتْ: «لِمَ؟» قَالَ: إِنِّي فِي بَيْتِ أَمْنٍ. قَالَتْ: «أَجَلْ»

 معاویہ رضی الله عنہ  مدینہ آئے  تو عائشہ رضی الله عنہا  سے ملنے گئے۔ ان کے ساتھ کوئی اندر نہ گیا۔  عائشہ  رضی الله عنہا نے ان سے پوچھا کہ تمہیں کونسی چیز اس بات سے امن میں رکھے گی کہ میں ایک شخص کو لا کر نہ بیٹھاؤں جو تمہارا قتل کر دے جیسا کہ تم نے میرے بھائی محمد بن ابو بکر کا کیا۔ اس پر معاویہ نے کہا کہ آپ ایسا نہیں کریں گی۔ عائشہ رضی الله عنہا نے پوچھا کیوں؟ معاویہ نے کہا کہ میں امن والے گھر میں داخل ہو چکا ہوں- عائشہ رضی الله عنہا  نے کہا ٹھیک ہے

 کتاب جامع التحصیل از  صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق امام ابن معین کہتے ہیں کہ راوی معمر بن راشد نے امام الزہری سے نہیں سنا

يقول فيه معمر أخبرت عن الزهري يعني لم يسمعه منه

وہ معمر کے لئے کہتے کہ یہ الزہری کی خبر بھی دیتا ہے یعنی معمر نے ان سے نہیں سنا

معمر مدلس تھے اور یہ روایت بھی عن سے ہے لہذا قابل رد ہے

مستدرک حاکم کی روایت ہے

 أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَتَّابٍ الْعَبْدِيُّ بِبَغْدَادَ، ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ النَّرْسِيُّ، ثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ الْكِلَابِيُّ، ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ، قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ مُعَاوِيَةَ، عَلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَقَالَتْ: يَا مُعَاوِيَةُ، قَتَلْتَ حُجْرًا وَأَصْحَابَهُ وَفَعَلْتَ الَّذِي فَعَلْتَ أَمَا تَخْشَى أَنْ أَخْبَأَ لَكَ رَجُلًا فَيَقْتُلَكَ؟ قَالَ: لَا إِنِّي فِي بَيْتِ أَمَانٍ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «الْإِيمَانُ قَيْدُ الْفَتْكِ، لَا يَفْتِكُ مُؤْمِنٌ»

مروان بن حکم کہتے ہیں کہ میں معاویہ رضی الله عنہ  کے ساتھ  عائشہ رضی الله عنہا کے  پاس گیا۔ انہوں نے کہا کہ اے معاویہ تم نے حجر اور اس کے ساتھیوں کو مار ڈالا، اور وہ کیا جو کیا۔ کیا تم اس سے خوفزدہ نہیں کہ میں کسی کو بلا لوں تا کہ تم کو قتل کر دے۔ معاویہ نے کہا نہیں میں امن والے گھر میں ہوں۔ اور میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم  سے سنا کہ ایمان بربادی کو قید کر لیتی ہے۔ مومن بربادی یا تباہی نہیں کرتا

سند میں علی بن زید بن جدعان ہے جس کو دارقطنی ضعیف کہتے  ہیں المعلمي  فوائد میں ضعیف کہتے ہیں

ابن معین اور احمد ليس بشي کہتے ہیں

الغرض یہ روایات ضعیف ہیں

کونڈے ایک قسم کی نیاز ہے جو اہل تشیع کے ائمہ میں کسی کے لئے کی جاتی ہے- غیر الله کی نذر حرام ہے
لیکن چونکہ شیعوں کا امام عالم الغیب ہوتا ہے تو ان کے مطابق وہ سب جانتا ہے اور سفارش بھی کرتا ہے

بعض اہل سنت نے اس کو امیر معاویہ کی وفات کا دن کہا ہے جبکہ یہ تسلیم شدہ امر نہیں ہے انکی تاریخ وفات میں اختلاف ہے مثلا

کتاب المحبر میں محمد بن حبيب بن أمية بن عمرو الهاشمي، بالولاء، أبو جعفر البغدادي (المتوفى: 245هـ) لکھتے ہیں
مات معاوية لهلال رجب من سنة ستين
معاویہ کی موت ہوئی رجب کے ہلال پر سن ٦٠ ہجری میں
ہلال یعنی مہینے کے شروع میں

————-
تاريخ خليفة بن خياط کے مطابق
مَاتَ مُعَاوِيَة بِدِمَشْق يَوْم الْخَمِيس لثمان بَقينَ من رَجَب
معاویہ دمشق میں مرے جمرات کے دن جب رجب میں آٹھ دن رہ گئے
————-
تاریخ ابن خلدون میں ہے معاویہ
وتوفي في منتصف رجب
رجب کے بیچ میں مرے
——————-

کتاب المنتظم از ابن الجوزی میں ہے
توفي معاوية فِي رجب لأربع ليال خلت من سنة ستين
معاویہ کی وفات رجب میں چار رات گزرنے پر ہوئی سن ٦٠ ھ میں

————-

کتاب الكامل في التاريخ از ابن الأثير (المتوفى: 630هـ
کے مطابق
ثُمَّ مَاتَ بِدِمَشْقَ لِهِلَالِ رَجَبٍ، وَقِيلَ لِلنِّصْفِ مِنْهُ، وَقِيلَ لِثَمَانٍ بَقِينَ مِنْهُ،
پھر دمشق میں معاویہ کی رجب کے ہلال پر وفات ہوئی اور کہا جاتا ہے رجب کے بیچ میں ہوئی اور کہا جاتا ہے جب اس میں آٹھ راتیں رہیں

لہذا اس کو معاویہ رضی الله عنہ کی وفات سے ملآنا صحیح نہیں ہے زبردستی کا جھگڑا ہے

کونڈوں کے لئے کہا جاتا ہے کہ یہ امام جعفر کی نیاز ہے جن کی وفات شوال میں ہوئی ہے اس پر اہل سنت کہتے ہیں کہ یہ اصل میں معاویہ سے دشمنی ہے
راقم کی رائے : امام موسى الكاظم بن جعفر الصادق کی وفات رجب کی ہے اور اغلبا غلطی سے لوگوں کو امام موسی کے والد کا نام یاد رہ گیا اور عوام میں مشھور ہوا کہ یہ نیاز رجب میں امام جعفر کی ہے جبکہ یہ ان کے بیٹے موسى الكاظم بن جعفر الصادق کی تھی

غیر الله کی نذر ہر صورت حرام ہے چاہے کسی کی بھی ہو لیکن اس مسئلہ کو صحابہ دشمنی کہنا بھی صحیح نہیں ہے
مثلا اہل سنت ١٢ ربیع اول کو میلاد النبی بناتے ہیں لیکن اس کووفات کا دن بھی کہا جاتا ہے اور یہی دن بارہ وفات سے مشھور تھا
عوام میں مشھور باتوں کو تختہ مشق بنانا صحیح نہیں

شاید یہ کسی شیعہ عالم نے لکھا بھی نہیں ہو گا کہ ہم ایسا معاویہ دشمنی میں کرتے ہیں

عَنِ ‏‏ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما ‏‏قَالَ ‏ :قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ‏‏صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : (‏ ‏لَمَّا كَانَتْ اللَّيْلَةُ الَّتِي ‏‏أُسْرِيَ ‏‏بِي فِيهَا ، أَتَتْ عَلَيَّ رَائِحَةٌ طَيِّبَةٌ ، فَقُلْتُ : يَا ‏جِبْرِيلُ ‏،‏ مَا هَذِهِ الرَّائِحَةُ الطَّيِّبَةُ ؟ فَقَالَ : هَذِهِ رَائِحَةُ ‏‏مَاشِطَةِ ابْنَةِ فِرْعَوْنَ ‏‏وَأَوْلادِهَا ، قَالَ : قُلْتُ : وَمَا شَأْنُهَا ؟ قَالَ : بَيْنَا هِيَ تُمَشِّطُ ابْنَةَ ‏‏فِرْعَوْنَ ‏‏ذَاتَ يَوْمٍ ، إِذْ سَقَطَتْ ‏‏الْمِدْرَى ‏‏مِنْ يَدَيْهَا ، فَقَالَتْ : بِسْمِ اللَّهِ ، فَقَالَتْ لَهَا ابْنَةُ ‏ ‏فِرْعَوْنَ :‏ ‏أَبِي ؟ قَالَتْ : لا ، وَلَكِنْ رَبِّي وَرَبُّ أَبِيكِ اللَّهُ ، قَالَتْ : أُخْبِرُهُ ‏‏بِذَلِكَ ! قَالَتْ : نَعَمْ ، فَأَخْبَرَتْهُ ، فَدَعَاهَا فَقَالَ : يَا فُلانَةُ ؛ وَإِنَّ لَكِ رَبًّا غَيْرِي ؟ قَالَتْ : نَعَمْ ؛ رَبِّي وَرَبُّكَ اللَّهُ ، فَأَمَرَ بِبَقَرَةٍ مِنْ نُحَاسٍ فَأُحْمِيَتْ ، ثُمَّ أَمَرَ بِهَا أَنْ‏ ‏تُلْقَى هِيَ وَأَوْلادُهَا فِيهَا ، قَالَتْ لَهُ : إِنَّ لِي إِلَيْكَ حَاجَةً ، قَالَ : وَمَا حَاجَتُكِ ؟ قَالَتْ : أُحِبُّ أَنْ تَجْمَعَ عِظَامِي وَعِظَامَ وَلَدِي فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ وَتَدْفِنَنَا ، قَالَ : ذَلِكَ لَكِ عَلَيْنَا مِنْ الْحَقِّ ، قَالَ : فَأَمَرَ بِأَوْلادِهَا فَأُلْقُوا بَيْنَ يَدَيْهَا وَاحِدًا وَاحِدًا إِلَى أَنْ انْتَهَى ذَلِكَ إِلَى صَبِيٍّ لَهَا مُرْضَعٍ ، وَكَأَنَّهَا تَقَاعَسَتْ مِنْ أَجْلِهِ ، قَالَ : يَا ‏‏أُمَّهْ ؛‏ ‏اقْتَحِمِي فَإِنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ ، فَاقْتَحَمَتْ ) . ‏‏قَالَ ‏‏ابْنُ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما : ‏تَكَلَّمَ أَرْبَعَةُ صِغَارٍ : ‏‏عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ ‏‏عَلَيْهِ السَّلام ،‏ ‏وَصَاحِبُ ‏جُرَيْجٍ ،‏ ‏وَشَاهِدُ ‏‏يُوسُفَ ‏، ‏وَابْنُ ‏مَاشِطَةِ ابْنَةِ فِرْعَوْنَ .
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ فرماتے ہیں کہ اسراء کی رات ایک مقام سے مجھے نہایت ہی اعلیٰ خوشبو کی مہک آنے لگی۔ میں نے کہا اے جبریل ! یہ کیسی اچھی خوشبو ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ فرعون کی بیٹی کی کنگھی کرنے والی (خادمہ) اور اُس کی اَولاد کی ہے‘ اس کی شان پوچھی گئی توعرض کیا‘فرعون کی بیٹی کو کنگھی کرتے ہوئے اس مومنہ خاتون کے ہاتھ سے اتفاقاً کنگھی گر پڑی تو اس کی زبان سے بے ساختہ بسم اللہ نکل گیا۔ فرعون کی بیٹی نے کہا اللہ تو میرا باپ ہے۔ اُس (خادمہ) نے جواب دیا کہ نہیں، میرا اور تیرے باپ کا پروردگار اللہ ہے۔ فرعون کی بیٹی نے کہا کہ میں اس کی خبر اپنے باپ کو دے دوں گی تو اس نے کہی کوئی حرج نہیں۔پس اُس نے اپنے باپ کو ساری بات سُنائی۔ فرعون نے اُس (خادمہ) کو بلوایا اور کہا کیا تم میرے سوا کسی اور کو ربّ مانتی ہو۔ کہا ہاں میرا اور تیرا پروردگار اللہ ہے۔ فرعون نے اُسی وقت حکم دیا کہ تانبے کی گائے کو آگ میں تپایا جائے‘ جب وہ بالکل آگ جیسی ہو جائے تو پھر اِسے اور اِس کے بچوں کو ایک ایک کر کے اُس میں ڈال دیا جائے۔ اُس مومنہ عورت نے فرعون سے کہا میری ایک درخواست ہے اُس نے کہا کیا ہے؟ اُس نے کہا میری اور میرے بچوں کی ہڈیاں ایک کپڑے میں جمع کرکے دفن کردینا ۔ فرعون نے کہا اَچھا تیرے کچھ حقوق ہمارے ذمہ ہیں اِس لئے یہ منظور ہے۔
بعد ازیں فرعون نے حکم دیا کہ ایک ایک کر کے اِس کے بچوں کو آگ کی طرح تپتی ہوئی آگ میں ڈال دو۔ جب دُودھ پیتے بچے کی باری آئی (فرعون کے سپاہیوں نے جب اُس بچے کو چھینا) تو وہ گھبرائی( تو اللہ تعالیٰ نے دُودھ پیتے بچے کو گویائی عطا فرمائی)۔ اُس نے (اپنی ماں سے) کہا امی جان اَفسوس نہ کریں بلکہ (آگ میں) ڈال دیں کیونکہ دنیا کا عذاب ،آخرت کےعذاب سے بہت ہلکا ہے، تب (ماں نے بچے کوآگ میں) ڈال دی ۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ چارچھوٹے بچوں نے بات کی وہ یہ ہیں۔
(1)عیسی بن مریم علیہ السلام(2)صاحب جریج(3)یوسف کی گواہی دینے والا(4)فرعون کی بیٹی کی مشاطہ کا بیٹا

جواب

یہ مسند ابو یعلی موصلی، مسند البزار ، الرد على الجهمية ، مسند الإمام أحمد بن حنبل صحیح ابن حبان ، حاکم میں ہے
حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ

البانی نے «الضعيفة» (880) میں اس کو ضعیف کہا ہے کہ اس کے متن میں نکارت ہے – شعيب الأرنؤوط صحیح ابن حبان کی تعلیق میں سندہ قوی کہتے ہیں اور مسند احمد میں حسن کہتے ہیں – احمد شاکر مسند احمد پر تعلیق میں اس کو صحیح کہتے ہیں – امام حاکم اور الذھبی اس کو صحیح کہتے ہیں

جو صحیح کہتے ہیں وہ کہتے ہیں حماد بن سلمة سمع من عطاء قبل اختلاطه. حماد کا سماع عطا سے اختلاط سے قبل ہے
لیکن امام عقیلی کہتے ہیں
قال أبو سعيد العلائي: ” وذكر العقيلي أن حماد بن سلمة ممن سمع منه بعد الاختلاط.
حماد بن سلمہ نے عطا سے الاختلاط کے بعد سنا ہے

لہذا یہ روایت ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے

جواب

عبدالرحمن بن ابی بکر سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے زید بن حارثہ کو وادی القریٰ بھیجا، وہاں بنو فزارا سے ان کی مٹھ بھیڑ ہوئی۔ ان کے بہت سے ساتھی شہید ہوئے اور خود زید بھی مقتولین کے درمیان سے سخت مجروح اٹھائے گئے۔ اس واقعہ میں بنو بدر کے ایک شخص کے ہاتھ سے بنو سعد بن ہذیم کے ورد بن عمر مارے گئے۔ مدینہ آ کر زید نے عہد کیا کہ تا وقتیکہ وہ بنو فزارا پر چڑھائی نہ کر لیں، غسل جنابت بھی نہیں کریں گے۔ جب وہ اپنے زخموں سے صحت یاب ہوئے، رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایک فوج کے ساتھ بنو فزارہ کے ساتھ لڑنے کیلئے بھیجا۔ وادی القریٰ میں حریفوں کا مقابلہ ہوا، زیدؓ نے ان کے بہت سے آدمی قتل کر دیئے۔ قیس بن المسحر الیعمری نے معدہ بن حکمہ بن مالک بن بدر کو قتل کر دیا، اور ام قرفہ فاطمہ بن ربیعہ بن بدر کو جو مالک بن حذیفہ بن بدر کی بیوی تھی گرفتار کر لیا۔ یہ ایک بہت سن رسیدہ عورت تھی، اس کے ہمراہ اس کی ایک بیٹی اور عبداللہ بن معدہ بھی گرفتار ہوا۔ زید کے حکم سے ام قرفہ کو نہایت بے دردی سے اس طرح قتل کیا گیا کہ اس کے دونوں پیروں میں رسیاں باندھی گئیں اور پھر اسے دو اونٹوں کے درمیان لٹکا کر ان اونٹوں کو ہانکا گیا، جس سے اس کے دو ٹکڑے ہو گئے “۔

طبری:تاریخ الاامم و الملوک

حدثني ابن إسحاق، عن عبد الله بن أبي بكر، قال بعث رسول الله ص زَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ إِلَى وَادِي الْقُرَى، فَلَقِيَ بِهِ بَنِي فَزَارَةَ، فَأُصِيبَ بِهِ أُنَاسٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، وَارْتَثَّ زَيْدٌ مِنَ بَيْنِ الْقَتْلَى، وَأُصِيبَ فيها ورد ابن عَمْرٍو أَحَدُ بَنِي سَعْدٍ بَنِي هُذَيْمٍ، أَصَابَهُ أَحَدُ بَنِي بَدْرٍ، فَلَمَّا قَدِمَ زَيْدٌ نَذَرَ الا يَمَسَّ رَأْسَهُ غُسْلٌ مِنْ جَنَابَةٍ حَتَّى يَغْزُوَ فَزَارَةَ، فَلَمَّا اسْتَبَلَّ مِنْ جِرَاحِهِ بَعَثَهُ رَسُولُ الله ص فِي جَيْشٍ إِلَى بَنِي فَزَارَةَ، فَلَقِيَهُمْ بِوَادِي الْقُرَى، فَأَصَابَ فِيهِمْ، وَقَتَلَ قَيْسُ بْنُ الْمُسَحِّرِ الْيَعْمُرِيُّ مَسْعدَةَ بْنَ حِكْمَةَ بْنِ مَالِكِ بْنِ بَدْرٍ، وَأَسَرَ أُمَّ قِرْفَةَ- وَهِيَ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَبِيعَةَ بْنِ بَدْرٍ، وَكَانَتْ عِنْدَ مَالِكِ بْنِ حُذَيْفَةَ بْنِ بَدْرٍ، عَجُوزًا كَبِيرَةً- وَبِنْتًا لَهَا، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعَدَةَ فَأَمَرَ زَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ أَنْ يَقْتُلَ أُمَّ قِرْفَةَ، فَقَتَلَهَا قَتْلا عَنِيفًا، رَبَطَ بِرِجْلَيْهَا حَبْلَيْنِ ثُمَّ رَبَطَهُمَا إِلَى بَعِيرَيْنِ حَتَّى شَقَّاهَا.

اس کی سند میں عبد الله بن أبي بكر، هو المقدمي، البصري ہے جو ضعیف ہے اور اس کی سند بھی منقطع ہے کیونکہ اس سے لے کر زید تک کی سند نہیں ہے

٢.

فاطمہ بنت ربیعہ

فاطمہ بنت ربیعہ المعروف ام قرفہ کا تعلق بنو فزارا نام کے بت پرست قبیلے سے تھا۔ وہ بارہ بیٹوں اور ایک انتہائی خوبصورت بیٹی کی ماں تھی۔ ام قرفہ وادی القریٰ کے ارد گرد کے تقریبا سو دیہات کی مشترکہ سردارنی/ رئیسہ تھی۔ اس کے سماجی مرتبے کے اظہار اس بات سے ہوتا ہے کہ اس کے گھر میں پچاس سے زیادہ تلواریں لٹکی ہوئی تھیں ، جو مختلف قبائل کے سرداروں نے اسے عزت کے طور پر نذر کی تھیں۔ ایک روایت کے مطابق اگر کہیں دو قبیلے آپس میں لڑ پڑتے تھے تو انہیں لڑائی سے روکنے کیلئے ام قرفہ کا دوپٹہ بھیجا جاتا تھا جسے نیزے پر نصب کر کے میدان جنگ میں گاڑ دیا جاتا تھا اور لڑائی فوراََ بند ہو جایا کرتی تھی۔
۔” راوی کہتا ہے کہ ام قرفہ اپنی قوم میں ایسی بلند مرتبہ سمجھی جاتی تھی۔ کہ لوگ تمنا کیا کرتے تھے کہ ہم کو ام قرفہ کی سی عزت نصیب ہو”۔

ابن اسحاق، سیرۃ رسول اللہ

جواب
یہ ایک قصہ میں کردار ہے اس سے زیادہ نہیں اور اس قصہ کی سند نہیں

٣.

ہم (جابرؓ بن عبداللہ) نے عرض کیا، یا رسول اللہ ﷺ کیا آپ بھی بکریاں چراتے تھے۔ فرمایا، ہاں، اور کوئی ایسا پیغمبر نہیں جس نے نہ چرائی ہوں۔
طبقات ابن سعد، جلد اول، صفحہ 139

جواب
یہ اگر کسی نے تنقید کے لئے پیش کی ہے تو جاہل ہے اصل میں بکری چرانا یعنی گلہ بانی کا کہا گیا ہے نہ کہ سرقه کرنا
عربی متن میں گلہ بانی ہے

٤.

قتیلہ بنت نوفل

سیرۃ کی تمام کتابوں میں ایک عورت کا ذکر ہے، جس کا نام قتیلہ بنت نوفل بتایا جاتا ہے، وہ عورت کعبہ کے نزدیک رہتی تھی۔ ایک دن جب عبداللہ بن عبدالمطلب اپنے باپ کے ساتھ جا رہے تھے اور اس عورت کے پاس سے گذرے تو اس نے کہا:

۔” اے عبداللہ، کہاں جاتے ہو؟، فرمایا، اپنے والد کے ساتھ جا رہا ہوں۔ اس نے کہا جتنے اونٹ تمہاری طرف سے ذبح کئے گئے ہیں، اسی قدر میں تمہاری نذر کرتی ہوں، مجھ سے شادی کر لو۔ عبداللہ نے فرمایا، میں اپنے باپ کا مطیع فرمان ہوں، ان کی منشا کے خلاف نہیں کر سکتا“۔

سیرۃ رسول اللہ، ابن اسحاق

جواب
کعبه کسی کا گھر نہیں تھا کہ کوئی عورت اس میں رہ جائے اس کو کھولنے اور بعد کرنے اور اس کو چوکیداری کا مکمل انتظام تھا جو ایام جاہلیت سے چلا آ رہا تھا اور اسلام میں اس کو باقی رکھا گیا
عن محمد بن إسحاق قال: لما فدي عبد الله بن عبد المطلب من الذبح بمائة من الإبل ونحرت عنه انصرف عبد المطلب آخذا بيد ابنه عبد الله فمر به على امرأة من بني أسد وهي عند الكعبة فقالت له حين نظرت إلى وجهه: أين تذهب يا عبد الله؟ قال: مع أبي، قالت: لك مثل الإبل قوله: «عن محمد بن إسحاق» :
هو في سيرته [/ 42] ، ومن طريقه ابن هشام [1/ 155] ، والبيهقي في الدلائل [1/ 102]

إس مين ایک قصہ ہے کہ عبد الله کے اندر نور تھا جو انکی پشانی سے جھلکتا تھا اور یہ نور ان سے آمنہ کے رحم میں منتقل ہوا جو ولادت نبوی کے وقت نکلا جس سے شام تک کے محل روشن ہو گئے اور فارس کا اتش کدہ بجھ گیا اور بت گر گئے وغیرہ
ان کی اسناد میں رآویوں پر جھوٹ تک کا حکم محدثین نے لگایا ہے

٥.

۔”حضرت طلق بن علیؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو صحبت کیلئے بلائے تو وہ ہر حال میں اس کے پاس جائے، خواہ وہ تندور پر ( روٹیاں پکا رہی ) ہی کیوں نہ ہو”۔

جامع ترمذی، ابواب الرضاع، حدیث نمبر 1031

جواب

اس کی سند میں قیس بن علی ہے جس پر محدثین کہتے ہیں

قيس بن طلق [عو] بن علي الحنفي.
عن أبيه.
ضعفه أحمد، ويحيى في إحدى الروايتين عنه.
وقال ابن أبي حاتم: سألت أبي وأبا زرعة عنه، فقالا: ليس ممن تقوم به حجة.
قال ابن القطان: يقتضى أن يكون خبره حسنا لا صحيحا.
امام احمد اور یحیی نے اس کو تضعیف کی ہے
ابن ابی حاتم کہتے ہیں اس سے حجت قائم نہیں ہوتی
ابن القطان کہتے ہیں اس کی خبر صحیح نہیں حسن ہے

لہذا یہ ایک روایت ہے جو مظبوط نہیں ہے

اسلام سے قبل عرب معاشرہ میں عورتوں کی دو حصوں میں تقسیم تھی ایک وہ تھیں جو خاندان میں دولت کی وجہسے ایک مقام رکھتی تھیں اور تجارت کرتی تھیں اور مردوں کو ملازم رکھتی تھیں اس میں خدیجہ رضی الله عنہا ایک ایسی ہی مال دار عورت تھیں
بعض عورتیں شاعری بھی کرتی تھیں اور سرداروں کو بیویاں جنگوں میں ان سے ساتھ بھی ہوتی تھیں
بعض جنگ میں آگے آگے جزر پڑھتی اور لوگوں کو جنگ کے لئے ابھرتی تھیں

اس کے علاوہ جو لوگ مکہ میں اتے قریش مکہ باہر والوں کے لباس اترواتے تھے اور اس کو بے حیائی نہیں سمجھا جاتا تھا
عرب کے علاوہ پوری دنیا میں لونڈیاں رکھی جاتی تھیں جو معاشرہ کا کمزور طبقہ تھا
اسلام نے اس طبقہ کو ختم نہیں کیا لیکن ان کو آزاد کرنا نیکی کر یا اور ان کو رکھنا ایک کنٹریکٹ بنا دیا
لہذا مسلمان لونڈیاں عموما جنگوں میں ملنے والی غیر عرب عورتیں ہوتی گئیں جو نو مسلم تھیں یا اہل کتاب میں سے تھیں

تمام عرب لڑکیوں کو دفن نہیں کرتے تھے بلکہ یہ چند قبائل کا عمل تھا لیکن عوام میں اولاد نرینہ کو مادہ پر فوقیت دی جاتی تھی

جواب

اس کے بارے میں مشھور قول ہے کہ انکی عمر ٤٠ سال تھی

دیکھئے طبقات  ابن سعد 1/ 132 و 8/ 17 عن الواقدي ،  والطبري 2/ 280 عن الكلبي، وقال البلاذري 1/ 98: وذلك الثبت عند العلماء. وانظر السبل 2/ 225.

سیرت نگاروں نے ان کو قبول کیا ہے

یہ سب شیعہ مورخین مثلا واقدی ،کلبی،  بلاذری  کے اقوال ہیں اور اس عمر پر عورتیں بچے جننے کے قابل نہیں رہتیں لہذا صرف تیسری  بیٹی فاطمہ رضی الله عنہا کی پیدائش ثابت کرنے کے لئے اس کو بیان کیا گیا کیونکہ شیعوں کے نزدیک رسول الله کی باقی تین بیٹیاں خدیجہ رضی الله عنہا کے پہلے شوہر سے تھیں

بیہقی نے دلائل النبوه میں أبو عبد الله الحاكم اور مصعب بن عبد الله الزبيري کے مطابق عمر ٤٠ کے قریب تھی
ابن عساکر کے مطابق حكيم بن حزام کے مطابق عمر چالیس تھی

غیر مقلد علماء کے مطابق بھی چالیس سال تھی  الرحيق المختوم از  صفي الرحمن المباركفوري

بعض اہل سنت کے مطابق نبی صلی الله علیہ وسلم کی  بیٹی ام کلثوم  کی پیدائش ١٩ قبل نبوت میں ہوئی (یعنی جب رسول الله ٢١ سال کے تھے) اور فاطمہ کی بعثت نبوی سے پانچ سال پہلے

انساب کے ماہر امام ابن حزم کتاب جمهرة أنساب العرب میں کہتے ہیں

زينب، أكبرهنّ؛ وتاليتها رقيّة؛ وتاليتها فاطمة؛ وتاليتها أم كلثوم. أم جميع ولده صلى الله عليه وسلم

زینب سب سے بڑی تھیں پھر رقیہ پھر فاطمہ اور پھر ام کلثوم اور یہ تمام رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اولاد ہیں

راقم کے نزدیک یہ قول صحیح ہے

شیعوں کی کتاب  تاريخ أهل البيت (ع) – رواية كبار المحدثين والمؤرخين – ص 90 – 92  از آلسيد محمد رضا الحسيني کے مطابق
ولد النبي صلى الله عليه وآله قال الفريابي : حدثني أخي عبد الله بن محمد – وكان عالما بأمر أهل البيت : حدثني أبي : حدثني ابن سنان ، عن أبي بصير : ( 2 ) . عن أبي عبد الله عليه السلام ، قال : ولد لرسول الله صلى الله عليه وآله ، من خديجة : القاسم وعبد الله و ( هو ) الطاهر ( 3 ) . ‹ صفحة 92 › وزينب ورقية وأم كلثوم وفاطمة عليها السلام ومن مارية القبطية – أهداها إلى النبي صلى الله عليه وآله ، ملك الإسكندرية المقوقس – : إبراهيم .

ابی عبد الله علیہ السلام کہتے ہیں خدیجہ سے رسول الله صلی الله علیہ و الہ کی اولاد ہوئی قاسم اور عبد الله اور طاہر اور زینب اور رقیہ اور ام کلثوم اور فاطمہ

یعنی شیعہ  کتب میں سچ بھی بولا گیا ہے جس کی یہ مثال ہے

انساب الاشراف از بلاذری میں ہے پہلے قاسم کی ولادت ہوئی
الْقَاسِم بْن رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وبه كَانَ يكنى. ومات وقد مشى، وهو ابن سنتين.
قاسم دو سال کی عمر میں فوت ہوئے

پھر
زينب بنت رسول الله. وهي أكبر بنات رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
زینب پیدا ہوئیں جو سن سے بڑی تھیں

اور رقیہ ام کلثوم اور فاطمہ پیدا ہوئیں
—–
ابن حزم انساب میں لکھتے ہیں
وكان  لرسول الله صلى الله عليه وسلم من الولد سوى إبراهيم: القاسم، وآخر اختلف في اسمه، فقيل: الطاهر، وقيل: الطيّب، وقيل: عبد الله، وقيل: عبد العزى  ، ماتوا صغاراً جدّا.
اور رسول الله کے بیٹے ابراہیم کے علاوہ قاسم پیدا ہوئے اور ایک اور جن کے نام میں اختلاف ہے
کہا جاتا ہے طاہر یا طیب یا عبد الله یا عبد العزی

یعنی نبوت سے قبل قاسم اور چار لڑکیاں پیدا ہوئیں

مصعب الزُّبيريُّ کہتے ہیں دوسرے بیٹے
وُلِدَ بعد الوحي
طیب یا طاہر نبوت کے بعد پیدا ہوئے
اس میں کہیں بھی سال کا ذکر نہیں ہے کہ کب کون پیدا ہوا

اسی طرح ابراہیم مدینہ میں پیدا ہوئے

جواب

یہ بات کہ جویرہ رضی الله عنہا کسی اور کی لونڈی بنیں پھر انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے مدد مانگی اور اپ نے ان سے شادی کی سیرت ابن ھشام میں ہے
أخرجه ابن راهويه في “مسنده” (725) ، وأبو داود (3931) ،وابن الجارود فى “المنتقى” (705) ، وأبو يعلى في “مسنده” (4963) ،والطبرى فى “التاريخ” 2/610، والطحاوي في “شرح مشكل الآثار” (4748) ،وفى “شرح معانى الآثار 3/21،” وابن حبان في “صحيحه” (4054) و (4055) ، والطبرانى فى “الكبير” (159) /24،والحاكم في “المستدرك” 4/26، والبيهقى فى “السنن

أخرجه ابن هشام في ” السيرة ” 2 / 294، 295، عن ابن إسحاق ومن طريقه أحمد 6 / 277 حدثني محمد بن جعفر بن الزبير، عن عروة بن الزبير عن عائشة قالت: لما قسم رسول الله صلى الله عليه وسلم سبايا بني المصطلق، وقعت جويرية بنت الحارث في السهم لثابت بن قيس بن الشماس أو لابن عم له، فكاتبته على نفسها، وكانت امرأة حلوة ملاحة لا يراها أحد إلا أخذت بنفسه، فأتت رسول الله صلى الله عليه وسلم نستعينه في كتابتها، قالت عائشة: فوالله ما هو إلا أن رأيتها على باب حجرتي، فكرهتها وعرفت أنه سيرى فيها صلى الله عليه وسلم ما رأيت، فدخلت عليه فقالت: يا رسول الله أنا جويرية بنت الحارث بن أبي ضرار سيد قومه، وقد أصابني من البلاء ما لم يخف عليك، فوقعت في السهم لثابت بن قيس بن الشماس أو لابن عم له، فكاتبته على نفسي، فجئتك أستعينك على كتابتي، وأتزوجك، قالت: نعم يا رسول الله.قال: ” قد فعلت “، قالت: وخرج الخبر إلى الناس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد تزوج جويرية ابنة الحارث بن أبي ضرار، فقال الناس: أصهار رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأرسلوا ما بأيديهم، قالت: فلقد أعتق لتزويجه إياها مئة أهل بيت من بني المصطلق، فما أعلم امرأة كانت أعظم على قومها بركة منها.

اس کی تمام اسناد میں ابن اسحاق کا تفرد ہے جو امام مالک کے نزدیک دجالوں سے ایک دجال ہیں- ابن اسحاق کی منفرد روایت قابل رد ہے
احمد کہتے ہیں اس کی روایت حلال و حرام میں نہیں لی جائے گی
غزوہ بنو المصطلق سن ٥ میں ہوا ایسا بعض نے کہا ہے اور ٣ ہجری کا بھی قول ہے
یعنی مدینہ انے کے تیسرے سال یہ جنگ ہوئی جس میں جویرہ رضی الله عنہا ملیں

روایت مظبوط نہیں ہیں طبقات ابن سعد کی سند ہے
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدِ بْنِ قُسَيْطٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ
اس میں زَيْدِ بْنِ قُسَيْطٍ مجھول ہے یا یہ یزید ہے لیکن یہ بھی مجھول ہے

طبقات ابن سعد میں ہے
وَكَانَتْ مِنْ مِلْكِ يَمِينِ النَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
جویرہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی لونڈی تھیں پھر اپ نے ان سے نکاح کر لیا
سند ہے
أَخْبَرَنَا وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، وَالْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، عَنْ زَكَرِيَّاءُ، عَنْ عَامِرٍ قَالَ
یہ مرسل تابعی ہے صحابی تک نہیں جاتی

طبقات میں یہ بھی ہے کہ جویرہ کے والد آئے اورگزارش کی کہ ان کی بیٹی کو آزاد کر دیا جائے پھر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان سے شادی کی
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ قَالَ: حدثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي قِلابَةَ أَنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – سَبَى جُوَيْرِيَةَ بِنْتَ الْحَارِثِ فَجَاءَ أَبُوهَا إِلَى النَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ –
فَقَالَ: إِنَّ ابْنَتِي لا يُسْبَى مِثْلُهَا فَأَنَا أَكْرَمُ مِنْ ذَاكَ فَخَلِّ سَبِيلَهَا. قَالَ: أَرَأَيْتَ إِنْ خَيَّرْنَاهَا أَلَيْسَ قَدْ أَحْسَنَّا؟ قَالَ: بَلَى وَأَدَّيْتَ مَا عَلَيْكَ. قَالَ: فَأَتَاهَا أَبُوهَا فَقَالَ: إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ قَدْ خَيَّرَكِ فَلا تَفْضَحِينَا. فَقَالَتْ: فَإِنِّي قَدِ اخْتَرْتُ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَالَ: قَدْ وَاللَّهِ فَضَحَتْنَا.

یعنی مورخین نے اس میں دو اقوال دیے ہیں ایک وہ ہے جس میں ہے وہ کسی اور کی لونڈی تھیں اور پھر اپنا مقدمہ رسول الله کے سامنے رکھا دوسرا ہے وہ نبی کی ہی لونڈی تھیں لیکن ان کے باپ کی درخواست پر رسول الله نے ان سے نکاح کیا ان کے باب حارث اور چچا زاد مُسَافِعُ بنُ صَفْوَانَ بنِ أَبِي الشُّفَرِ دونوں مسلمان ہوئے
راقم کہتا ہے باپ والی بات زیادہ صحیح ہے کیونکہ ان کا صحابی ہونا پتا ہے

جواب

سوره الفتح میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو بشارت دی گئی
لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا
کہ الله اپ کے پچھلے اور اگلے گناہ معاف کر دے اور نعمت تمام کر دے اور سیدھے رستہ پر ہدایت دے

اور سوره النصر میں کہا استغفار کرو وہ توبہ قبول کرے گا

وفات سے چند دن پہلے رسول الله نے خبر دی کہ ایک بندے کو اختیار دے دیا گیا ہے کہ دینا کو لیں یا آخرت کو
عائشہ رضی الله عنہا نے کہا کہ اپ نے جو الفاظ کہے اس پر میں جان گئی کہ اپ نے آخرت کو چن لیا ہے
اور سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کی آخری دور کی حدیث میں خواب میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو ان کا بہشت میں مقام دکھا دیا گیا اور کہا گیا کہ زندگی پوری کر کے ہاں ا جائیں گے

اس طرح رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی نماز جنازہ کی ضرورت ختم ہوئی ان کی نماز جنازہ نہیں ہوئی

نماز جنازہ تو اس کی ہوتی ہے جس کے گناہ ہوں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے لئے ایسا ہم قبول نہیں کرتے کہ ان کے نامہ اعمال میں وفات کے وقت گناہ تھے لہذا اس بنا پر ان کی نماز جنازہ کا کسی صحیح السند روایت میں ذکر نہیں ہے
موطا میں ہے کہ امام مالک کو پہنچا کہ نبی کی وفات پیر کو ہوئی اور تدفین منگل کو
حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِكٍ أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «تُوُفِّيَ يَوْمَ الْإِثْنَيْنِ، وَدُفِنَ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ، وَصَلَّى النَّاسُ عَلَيْهِ أَفْذَاذًا لَا يَؤُمُّهُمْ أَحَدٌ»
إس میں بَلَغَهُ ہے یعنی پہنچا یہ باقاعدہ روایت نہیں ہوا صرف زبان زد عام کی طرح مدینہ میں مشھور تھا کہ رسول الله پر لوگوں الگ الگ صلی کیا
یہ بات موطا کے تمام نسخوں میں نہیں ہے صرف ایک کاتب کی سند میں ہے امام محمد اس کو روایت نہیں کرتے
صلی راقم کے نزدیک یہاں نماز نہیں درود ہے

مسند احمد میں أبو عسيب مولى رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ یا أَبِي عَسِيمٍ نام کے ایک شخص سے ایک روایت ہے جس کا متن عجیب و غریب ہے اس میں ہے نماز ہوئی
حَدَّثَنَا بَهْزٌ، وَأَبُو كَامِلٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ يَعْنِي الْجَوْنِيَّ، عَنْ أَبِي عَسِيبٍ، أَوْ أَبِي عَسِيمٍ، قَالَ بَهْزٌ: إِنَّهُ شَهِدَ الصَّلَاةَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: كَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْهِ؟ قَالَ: ” ادْخُلُوا أَرْسَالًا أَرْسَالًا “، قَالَ: ” فَكَانُوا يَدْخُلُونَ مِنْ هَذَا الْبَابِ فَيُصَلُّونَ عَلَيْهِ، ثُمَّ يَخْرُجُونَ مِنَ الْبَابِ الْآخَرِ “، قَالَ: ” فَلَمَّا وُضِعَ فِي لَحْدِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ الْمُغِيرَةُ: قَدْ بَقِيَ مِنْ رِجْلَيْهِ شَيْءٌ لَمْ يُصْلِحُوهُ، قَالُوا: فَادْخُلْ فَأَصْلِحْهُ، فَدَخَلَ، وَأَدْخَلَ يَدَهُ فَمَسَّ قَدَمَيْهِ، فَقَالَ: أَهِيلُوا عَلَيَّ التُّرَابَ، فَأَهَالُوا عَلَيْهِ التُّرَابَ، حَتَّى بَلَغَ أَنْصَافَ سَاقَيْهِ، ثُمَّ خَرَجَ، فَكَانَ يَقُولُ أَنَا أَحْدَثُكُمْ عَهْدًا بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ”

البغوي کہتے ہیں : لا أدري له صحبة أم لا نہیں جانتا کہ یہ صحابی بھی ہے یا نہیں
ابن حجر نے الإصابة في تمييز الصحابة میں أبو عسيب اور أبو عسيم کو دو الگ لوگوں میں شمار کیا ہے

سوال یہ ہے کہ جو اماموں کو معصوم عن الخطاء سمجھتے ہیں وہ اماموں کی نماز جنازہ کیوں پڑھتے ہیں؟

اس پر مزید بحث یہاں ہے

⇓ تاریخ الطبری کی روایت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا جسم تین دن بعد دفن ہوا کیا یہ بات صحیح ہے؟ کیا نبی صلی الله علیہ وسلم کی نماز جنازہ ہوئی تھی؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/تاریخ/

مختار بن ابی عبید الثقفی ملحد نہیں فتنہ پرداز سیاسی شیعہ تھا یہ ابن عمر رضی الله عنہ کا سالا تھا اس کو ثقیف کا کذاب کہا جاتا ہے
اس کا باپ ایک صحابی ہیں لیکن یہ چراغ تلے اندھیرا تھا

اس نے جھوٹا دعوی کہ عمر بن سعد بن ابی وقاص نے حسین رضی الله عنہ کا قتل کیا پھر اس نے دعوی کیا کہ یہ حسین کے قتل میں اتنے لوگ قتل کرے گا جتنے یحیی علیہ السلام کے قتل کے بدلے قتل کیے گئے یہ بات اس جھوٹے نے بولی جبکہ یحیی علیہ السلام کے بدلے میں کسی کا قتل نہیں ہوا
تاريخ المذاهب الإسلامية محمد أبو زهرة

اس جھوٹے نے دعوی کیا کہ محمد بن علی (ابن حنفيه) جو علی رضی الله عنہ کے بیٹے ہیں وہ امام ہیں
محمد بن علی نے اس کا انکار کیا عجب بات یہ ہے کہ اثنا عشری شیعوں نے مختار کو ایک سچا آدمی قرار دیا جبکہ اس کا فریب ظاہر ہے

اس کا فرقہ الكيسانية کہلاتا ہے
فرقة قالت بإمامة محمد بن الحنفيّة، و إنّما سمّوا بذلك لأنّ المختار بن أبي عُبَيد الثقفي كان رئيسهم و كان يلقّب كيسان، و هو الذي طلب بدم الحسين(ع) و ثأره حتّى قتل من قتله، و ادّعى أنّ محمد بن الحنفيّة أمره بذلك، و أنّه الإمام بعد أبيه.
فِرق الشيعة، ص 41.

مختار نے کوفہ میں ایک کرسی لوگوں کو دکھائی اور دعوی کیا کہ یہ علی کی کرسی ہے جنگ میں ساتھ ہو تو فتح ہو گی لہذا یہ کرسی جنگ میں ساتھ رہتی

اس نے نبوت کا بھی دعوی کیا
مسند ابو داود طیالسی کی روایت ہے
حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ رِفَاعَةَ بْنِ شَدَّادٍ، قَالَ: كُنْتُ أَبْطَنَ شَيْءٍ بِالْمُخْتَارِ يَعْنِي الْكَذَّابَ قَالَ: فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ ذَاتَ يَوْمٍ فَقَالَ: دَخَلْتَ وَقَدْ قَامَ جِبْرِيلُ قَبْلُ مِنْ هَذَا الْكُرْسِيِّ
مختار نے رفاعہ سے کہا تو داخل ہوا تو جبریل اس کرسی کے پیچھے تھا
رفاعہ نے کہا مَا أَنْتَظِرُ أَنْ أَمْشِيَ بَيْنَ رَأْسِ هَذَا وَجَسَدِهِ
میں انتظار نہیں کروں گا اس تیرے سر اور دھڑ کے بیچ چلوں

مختار کو مصعب بن زبیر نے ابن زبیر رضی الله عنہ کی خلافت میں جہنم رسید کیا اور ابن زبیر کی جانب سے علی رضی الله عنہ کے بیٹے عبید الله جو لیلی بنت ابن مسعود کے بطن سے تھے انہوں نے بھی مختار کذاب سے قتال کیا

———–
کوئی بھی صحابی اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا تھا

⇓ صحابہ خوارج کے پیچھے نماز پڑھتے تھے اور کیا تابعین مختار کذاب کے پیچھے نماز پڑھتے تھے؟
https://www.islamic-belief.net/masalik/خوارج/

مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ہے کہ تابعین کذاب مختار کے پیچھے نماز پڑھتے تھے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، قَالَ: «كَانَ أَصْحَابُ عَبْدِ الله يُصَلُّونَ مَعَ الْمُخْتَارِ الْجُمُعَةَ، وَيَحْتَسِبُونَ بِهَا

عبد الله ابن مسعود کے اصحاب مختار کے ساتھ جمعہ پڑھتے تھے اور (ایک دوسرے کو) گنتے تھے

سُفْيَانَ الثوری مدلس عن سے روایت کر رہے ہیں لہذا روایت مظبوط نہیں- دوم اصحاب عبد الله تمام اہل سنت میں سے نہ تھے ان سے بعض داعی شیعہ بھی تھے اور ان کا مختار غالی کے پیچھے نماز پڑھنا چندہ بعید نہیں

مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ہے

حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عُقْبَةَ الْأَسَدِيِّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، «أَنَّ أَبَا وَائِلٍ جَمَعَ مَعَ الْمُخْتَارِ

يَزِيدَ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ کہتے ہیں کہ ابو وَائِلٍ، مختار کے ساتھ (نماز میں؟) جمع ہوئے

سند میں يَزِيدَ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ ہے جو مجھول ہے

مسند احمد میں ہے

حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا رَجَعَ مِنْ أُحُدٍ، فَجَعَلَتْ نِسَاءُ الْأَنْصَارِ يَبْكِينَ عَلَى مَنْ قُتِلَ مِنْ أَزْوَاجِهِنَّ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” وَلَكِنْ حَمْزَةُ لَا بَوَاكِيَ لَهُ ” قَالَ: ثُمَّ نَامَ فَاسْتَنْبَهَ وَهُنَّ يَبْكِينَ قَالَ: فَهُنَّ الْيَوْمَ إِذًا يَبْكِينَ يَنْدُبْنَ بِحَمْزَةَ

جب رسول الله نے انصار کے گھروں سے شہداء پر رونے کی صداییں سنیں تو آپ کی انکھیں اشکوں سے بھر گییں اور آپ گریہ کرنے لگے پھر اس کے بعد آپ نے فرمایا: افسوس حمزہ پرکویی گریہ کرنے والا نہیں ہے
عبد الله بن أحمد: سَمِعتُهُ قول (يعني أباه) : روى أسامة بن زيد عن نافع أحاديث مناكير. «العلل» (503)

امام احمد نے کہا اسامہ بن زید ، نافع سے منکر احادیث روایت کرتا ہے

يحيى بن سعيد کے نزدیک یہ راوی متروک ہے
———-

کسی کے مرنے پر رونا منع نہیں ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم اپنے بیٹے ابراہیم کی وفات پر روئے
اسلام میں رونے پر شور کرنا منع ہے کہہ چیخ و پکار کی جاۓ جس کو گریہ و زاری یا عزہ داری کہا جاتا ہے یہ منع ہے

تفسیر فیروزآبادی اصل میں مُحَمَّد بن مَرْوَان عَن الْكَلْبِيّ عَن ابي صَالح عَن ابْن عَبَّاس کی سند سے تفسیر ہے جس سے یہ قول لیا گیا ہے
اس میں کلبی پر کذب کا حکم محدثین لگاتے ہیں اور اس کی ابی صالح سے روایت رد کی گئی ہے

اسی طرح کا ایک مرسل قول أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عمرو بن حزم سے بھی منسوب ہے جو طبقات ابن سعد میں ہے لیکن اس کی سند میں واقدی ہے یہ بھی شیعہ تھے اور ان کی بدمذہبی روایت ناقابل قبول ہے

اسی طرح یہ قول مقاتل بن سلیمان سے بھی منسوب ہے
روي أن هذه الآية نزلت في رجل من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم قال: لئن قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم لأنكحن عائشة قال مقاتل بن سليمان: هو طلحة بن عبيد الله فأخبر الله تعالى أن ذلك محرم،
ابن سعد طبقات میں کہتے ہیں
وأصحاب الحديث يتقون حديثه وينكرونه.
اصحاب حدیث اس کی حدیث سے بچتے ہیں اور انکار کرتے ہیں

ابن جوزی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں
وزعم مقاتل أن ذلك الرجل طلحة بن عبيد الله.
اور مقاتل نے دعوی کیا یہ طلحہ تھے
یعنی یہ قول مقاتل کا ہے
الله کا عذاب اس مقاتل کو گھیر لے گا

قرطبی تفسیر میں لکھتے ہیں
قُلْت: وَكَذَا حَكَى النَّحَّاسُ عَنْ مَعْمَرٍ أَنَّهُ طَلْحَةُ، وَلَا يَصِحُّ. .
میں کہتا ہوں اسی طرح حکایت کیا ہے النحاس نے معمر سے کہ یہ طلحہ تھے اور یہ صحیح نہیں ہے

مصنف عبد الرزاق میں ہے
قَالَ مَعْمَرٌ: سَمِعْتُ أَنَّ هَذَا الرَّجُلَ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ
معمر نے کہا میں نے سنا یہ طلحہ تھے

معمر نے کس مجھول سے سنا؟

التحرير والتنوير میں محمد الطاهر بن محمد بن محمد الطاهر بن عاشور التونسي (المتوفى : 1393هـ) کہتے ہیں

وَأَقُولُ: لَا شَكَّ أَنَّهُ مِنْ مَوْضُوعَاتِ الَّذِينَ يَطْعَنُونَ فِي طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ. وَهَذِهِ الْأَخْبَارُ وَاهِيَةُ الْأَسَانِيدِ وَدَلَائِلُ الْوَضْعِ وَاضِحَةٌ فَإِنَّ طَلْحَةَ إِنْ كَانَ قَالَ ذَلِكَ بِلِسَانِهِ لَمْ يَكُنْ لِيَخْفَى عَلَى النَّاسِ فَكَيْفَ يَتَفَرَّدُ بِرِوَايَتِهِ مَنِ انْفَرَدَ.
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ گھڑی ہوئی بات ہے طلحہ بن عبید الله کے لئے اور یہ خبریں اور اسناد واہی ہیں

محمد إبن سعد – الطبقات الكبرى – الجزء : ( 8 ) – رقم الصفحة : ( 59 ) 9584 – أخبرنا : عبد الله بن نمير ، عن الأجلح ، عن عبد الله بن أبي ملكية قال : خطب رسول الله (ص) عائشة بنت أبي بكر الصديق ، فقال : إني كنت أعطيتها مطعماً لإبنه جبير فدعني حتى أسلها منهم ، فإستسلها منهم فطلقها فتزوجها رسول الله (ص)

ترجمہ —-رسول اکرم ﷺ نے ابوبکر سے عائشہ سے شادی کرنے کا پوچھا تو ابوبکر نے کہا میں اسے پہلے ھی معطم بن جبیر کو دے چکا ھوں مجھے اس سے پوچھنے دیں اور اس سے پوچھا تو جبیر نے اسے طلاق دے دی اور عائشہ کی شادی رسول اللہ ﷺ سے کروا دی

جواب

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنِ الْأَجْلَحِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ: ” خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صلّى الله عليه وسلم عَائِشَةَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنِّي كُنْتُ أَعْطَيْتُهَا مُطْعِمًا لِابْنِهِ جُبَيْرٍ فَدَعْنِي حَتَّى أَسُلَّهَا مِنْهُمْ. فَاسْتَسَلَّهَا مِنْهُمْ , فَطَلَّقَهَا فَتَزَوَّجَهَا رَسُولُ اللَّهِ صلّى الله عليه وسلم ”

اس روایت کے راوی الأجلح بْن عَبد اللَّهِ أَبُو حجية الكندي شیعہ ہیں

اس روایت میں ہے کہ میں عائشہ رضی الله عنہا کی بات مطعم بن جبیر سے کر چکا ہوں
اس میں نکاح کے الفاظ نہیں ہیں اور یہ شیعوں کی اڑائی ہوئی ہی روایت ہے

امام بخاری و مسلم نے اس سے صحیح میں کوئی روایت نہیں لی
محدثین کا اصول ہے کہ بدعتی کی روایت اس کی بد مذھب کے حق میں ناقابل قبول ہے

ذو القرنین کا سفر

ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں روایت نقل کی

وَفِي الْمُخْتَارَةِ لِلْحَافِظِ الضِّيَاءِ الْمُقَدِّسِيِّ مِنْ طَرِيقِ قُتَيْبَةَ عَنْ أَبِي عَوَانَةَ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ حَبِيبِ بْنِ حِمَازٍ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَسَأَلَهُ رَجُلٌ عَنْ ذي القرنين كيف بلغ المشرق والمغرب؟ فَقَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ سَخَّرَ لَهُ السَّحَابَ وَقَدَّرَ له الأسباب وبسط له اليد.

حَبِيبِ بْنِ حِمَاز نے کہا میں علی رضی اللہ عنہ  کے پاس تھا جب ایک شخص نے سوال کیا کہ ذو القرنین مشرق و مغرب تک کیسے پہنچے ؟ علی نے کہا سبحان اللہ ، اللہ تعالی نے ان کے لیے بادل کو مسخر کیا اور اسباب پر قدرت دی اور ان کے ہاتھ کو پھیلایا

الْمُخْتَارَةِ  میں المقدسی کی مکمل سند ہے

 أَخْبَرَنَا عبد الْمعز بْنُ مُحَمَّدٍ الْهَرَوِيُّ قِرَاءَةً عَلَيْهِ بِهَا قُلْتُ لَهُ أَخْبَرَكُمْ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ الْفُضَيْلِ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنْتَ تَسْمَعُ أَنَا مُحَلِّمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الضَّبِّيُّ أَنَا الْخَلِيلُ بْنُ أَحْمَدَ السِّجْزِيُّ أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ السَّرَّاجُ ثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ حَبِيبِ بْنِ حِمَازٍ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَسَأَلَهُ رَجُلٌ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ كَيْفَ بَلَغَ الْمَشْرِقَ وَالْمَغْرِبَ قَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ سُخِّرَ لَهُ السَّحَابُ وَمُدَّتْ لَهُ الأَسْبَابُ وَبُسِطَ لَهُ النُّورُ فَقَالَ أَزِيدُكَ قَالَ فَسَكَتَ الرَّجُلُ وَسَكَتَ عَلِيٌّ

 راقم کو اس کی مزید اسناد ملیں

تفسیر عبد الرزاق ح 1706  میں ہے

قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ – أَخْبَرَنِي إِسْرَائِيلُ , عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ , عَنْ حَبِيبِ بْنِ حِمَازٍ الْأَسَدِيِّ , قَالَ: أَتَى رَجُلٌ فَسَأَلَ عَلِيًّا وَأَنَا عِنْدَهُ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ , فَقَالَ: «هُوَ عَبْدٌ صَالِحٌ نَاصِحٌ لِلَّهِ , فَأَطَاعَ اللَّهَ فَسَخَّرَ لَهُ السَّحَابَ فَحَمَلَهُ عَلَيْهِ , وَمَدَّ لَهُ فِي الْأَسْبَابِ وَبَسَطَ لَهُ فِي النُّورِ» , ثُمَّ قَالَ: «أَيَسُرُّكَ يَا رَجُلُ أَنْ أَزِيدَكَ , فَسَكَتَ الرَّجُلُ وَجَلَسَ»

حَبِيبِ بْنِ حِمَازٍ نے کہا ایک آدمی آیا اور اس نے علی سے ذو القرنین پر  سوال کیا اور میں ان کے پاس تھا ، پس علی نے اس  شخص سے  کہا وہ نیک آدمی تھے نصحت کرتے تھے اللہ کی اطاعت کرتے پس اللہ نے بادل کو ان کے لئے مسخر کیا جو ان کو اٹھاتا تھا اور اسباب کو ان کے لئے پھیلایا اور روشی و نور کو پھیلایا  پھر کہا کیا تم خوش ہو کہ میں نے اس کو زیادہ کر کے بتایا پس وہ آدمی چپ رہا اور بیٹھ گیا

جزء من حديث أبي حفص عمر بن أحمد ابن شاهين عن شيوخه از  ابن شاهين (المتوفى: 385هـ) میں ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَيْمَانَ الْبَاغَنْدِيُّ، نا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، نا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي زَائِدَةُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ حِمَازٍ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِعَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلَامُ: كَيْفَ بَلَغَ ذُو الْقَرْنَيْنِ الْمَشْرِقَ وَالْمَغْرِبَ؟ فَقَالَ عَلِيُّ: «سُخِّرَ لَهُ السَّحَابُ، وَمُدَّتْ لَهُ الْأَسْبَابُ، وَبُسِطَ لَهُ النُّورُ»

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ حِمَازٍ، قَالَ: قِيلَ لِعَلِيٍّ: كَيْفَ بَلَغَ ذُو الْقَرْنَيْنِ الْمَشْرِقَ وَالْمَغْرِبَ، قَالَ: «سُخِّرَ لَهُ السَّحَابُ، وَبُسِطَ لَهُ النُّورُ، وَمُدَّ لَهُ الْأَسْبَابُ»، ثُمَّ قَالَ: «أَزِيدُكَ؟» قَالَ: حَسْبِي

حَبِيبِ بْنِ حِمَازٍ نے کہا میں نے علی سے پوچھا کہ ذو القرنین کیسے مشرق ق مغرب تک پہنچے ؟ علی نے کہا  ان کے لئے بادل کو مسخر کیا گیا اور نور کو پھیلایا گیا اور سبب تک ان کو لے جایا گیا – علی کہا اور زیادہ بتاؤں؟ کہا : اتنا  کافی ہے

ابن اسحٰق نے   سیرت میں ذکر کیا

نا يونس عن عمرو بن ثابت عن سماك بن حرب عن رجل من بني أسد قال:

سأل رجل علياً: أرأيت ذا القرنين كيف استطاع أن يبلغ المشرق والمغرب؟

فقال: سخر له السحاب ومد له في الأسباب وبسط له النور فكان الليل والنهار عليه سواء.

سماک نے بنی اسد کے ایک آدمی کی سند سے روایت کیا کہا ایک آدمی نے علی سے سوال کیا  کیا تم نے ذو القرنین کو دیکھا کیسے وہ مشرق و مسغرب تک پہنچ گیا ؟ علی نے کہا اس کے لئے  بادل کو مسخر کیا اور اسباب تک پہنچے اور نور ان کے لئے پھیلایا  پس ان کے لئے دن و رات برابر تھے

ان تمام میں سماک بن حرب کا تفرد ہے

 ابن المبارك: سماك ضعيف في الحديث

 وقال صالح بن محمَّد البغداديُّ: يُضَعَّف

من رواية زكريا بن عدي عن ابن المبارك عن الثوري أنه قال: سماك بن حرب ضعيف

 وقال أبو طالب عن أحمد: مضطرب الحديث

وقال أحمد بن سعد بن أبي مريم عن يحيى بن معين: ثقة، وكان شعبة يضعِّفه

امام احمد ، امام ابن مبارک ، امام صالح اور امام ثوری کے نزدیک سماک ضعیف ہے

ابن اسحٰق نے   سیرت میں  ایک دوسری روایت دی

نا يونس عن بسام مولى علي بن أبي الطفيل قال: قام علي بن أبي طالب على المنبر فقال: سلوني قبل ألا تسألوني ولن تسألوا بعدي مثلي؛ فقام ابن الكواء   فقال: يا أمير المؤمنين ما ذو القرنين، أنبي أو ملك؟ فقال: ليس بملك ولا نبي ولكن كان عبداً صالحاً أحب الله فأحبه وناصح الله بنصحه فضرب على قرنه الأيمن فمات ثم بعثه، ثم ضرب على قرنه الأيسر فمات وفيكم مثله.

بسام مولى علي بن أبي الطفيل نے کہا علی منبر پر کھڑے تھے پس کہا مجھ سے سوال کرو قبل اس کے سوال نہ کر پاؤ اور نہ مجھ سا کو ملے گا جس سے سوال کرو – پس ابن الكواء کھڑا ہوا اور کہا اے امیر المومنین یہ ذو القرنین کون ہے نبی ہے یا بادشاہ ہے ؟ پس علی نے کہا نہ بادشاہ ہے نہ نبی لیکن نیک بندے تھے اللہ   سے محبت کرتے تھے پس اللہ ان سے محبت کرتا تھا  اور وہ اللہ کے لئے نصیحت کرتے تھے – پس انہوں نے سیدھے سینگ پر ضرب  لگائی پس موت ہوئی پھر زندہ ہوئے ، پھر الٹے سینگ پر ضرب کی پس موت ہوئی اور تم لوگوں کے پاس ذو القرنین کے جیسا ایک ہے

سند میں بسام مولى علي بن أبي الطفيل  مجہول الحال ہے  کسی محدث نے اس کیا ذکر نہیں کیا

شرح مشکل الاثار از طحاوی میں ہے

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَرْزُوقٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ دَاوُدَ الْخُرَيْبِيُّ , عَنْ بِسَامٍّ الصَّيْرَفِيِّ , عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ قَالَ: قَامَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ: ” سَلُونِي قَبْلَ أَنْ لَا تَسْأَلُونِي , وَلَنْ تَسْأَلُوا بَعْدِي مِثْلِي ” فَقَامَ إِلَيْهِ ابْنُ الْكَوَّاءِ فَقَالَ: مَا كَانَ ذُو الْقَرْنَيْنِ , أَمَلَكٌ كَانَ أَوْ نَبِيٌّ؟ قَالَ: ” لَمْ يَكُنْ نَبِيًّا وَلَا مَلَكًا , وَلَكِنَّهُ كَانَ عَبْدًا صَالِحًا , أَحَبَّ اللهَ فَأَحَبَّهُ , وَنَاصَحَ اللهَ فَنَصَحَهُ , ضَرَبَ عَلَى قَرْنِهِ الْأَيْمَنِ فَمَاتَ , ثُمَّ بَعَثَهُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ , ثُمَّ ضَرَبَ عَلَى قَرْنِهِ الْأَيْسَرِ فَمَاتَ , وَفِيكُمْ مِثْلُهُ

بِسَامٍّ الصَّيْرَفِيِّ  نے  أَبِي الطُّفَيْلِ سے روایت کیا کہ علی کھڑے ہوئے منبر پر اور کہا سوال کرو قبل کہ سوال نہ کر پاؤ نہ سوال کر پاؤ میرے جیسے کسی اور سے – پس ابْنُ الْكَوَّاءِ  کھڑا ہوا اور کہا یہ ذو القرنین بادشاہ تھے یا نبی ؟ علی نے کہا نہ نبی نہ بادشاہ  لیکن عبد صالح ، اللہ سے محبت کی پس اللہ نے ان سے محبت کی  ، اور اللہ کے لئے نصیحت کی  پس سیدھے سینگ پر ضرب لگائی تو ان کی موت ہوئی پھر اللہ نے ان کو زندہ کیا پھر انہوں نے الٹے ہاتھ پر سینگ کو مارا تو ان کی موت ہوئی ، اور تمھارے پاس ان کے جیسا ہے

سند میں بسام بن عبد الله، أبو الحسن الصيرفي الأسدي الكوفي یا بسَّام بن عبد الرحمن الصيرفي الكوفي  ہے – امام بخاری کہتے ہیں کہ اس کے پاس مرسل روایات ہیں

قال البخاري: عنده مراسيل

امام طحاوی نے ذکر کیا کہ

 وَمِمَّنْ كَانَ يَذْهَبُ إِلَى هَذَا الْقَوْلِ أَبُو عُبَيْدٍ الْقَاسِمُ بْنُ سَلَامٍ حَدَّثَنِي بِذَلِكَ عَنْهُ عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَحَدَّثَنِي عَلِيٌّ

أَبُو عُبَيْدٍ الْقَاسِمُ بْنُ سَلَامٍ  نے اسی طرح روایت کیا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ سے جس نے علی سے روایت کیا

ان روایات کی اسناد میں ابو طفیل ہے جو آخری عمر میں دجال مختار ثقفی کے لشکر میں تہے اس کا جھنڈا اٹھاتے تھے

تاریخ دمشق کی روایت ہے کہ

قال سيف بن وهب: دخلت شعب ابن عامر على أبي الطفيل عامر بن واثلة، قال: فإذا شيخ كبير قد وقع حاجبه على عينيه، قال: فقلت له: أحب أن تحدثني بحديث سمعته من علي ليس بينك وبينه أحد؛ قال: أحدثك به إن شاء الله، وتجدني له حافظاً: أقبل علي يتخطى رقاب الناس بالكوفة، حتى صعد المنبر، فحمد الله وأثنى عليه ثم قال: يا أيها الناس، سلوني قبل أن تفقدوني، فوالله ما بين لوحي المصحف آية تخفى علي، فيم أنزلت ولا أين نزلت، ولا ما عنى بها؛ والله لا تلقون أحداً يحدثكم ذلك بعدي حتى تلقوا نبيكم صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قال: فقام رجل يتخطى رقاب الناس، فنادى: يا أمير المؤمنين، قال: فقال علي: ما أراك بمسترشد، أو ما أنت مسترشد، قال: يا أمير المؤمنين؛ حدثني عن قول الله عز وجل: ” والذاريات ذرواً “؟ قال: الرياح، ويلك، قال: ” فالحاملات وقراً “؟ قال: السحاب ويلك، قال: ” فالجاريات يسراً “؟ قال: السفن ويلك، قال: ” فالمدبرات أمراً “؟ قال: الملائكة ويلك، قال: يا أمير المؤمنين، أخبرني عن قول الله عز وجل: ” والبيت المعمور، والسقف المرفوع “؟ قال: ويلك بيت في ست سماوات، يدخله كل يوم سبعون ألف ملك لا يعودون إليه إلى يوم القيامة، وهو الضراح، وهو حذاء الكعبة من السماء؛ قال: يا أمير المؤمنين؛ حدثني عن قول الله عز وجل: ” ألم تر إلى الذين بدلوا نعمة الله كفراً وأحلوا قومهم دار البوار، جهنم “؟ قال: ويلك ظلمة قريش، قال: يا أمير المؤمنين! حدثني عن قول الله عز وجل: ” قل هل ننبئكم بالأخسرين أعمالاً الذين ضل سعيهم في الحياة الدنيا “؟ قال: ويلك منهم أهل حروراء، قال: يا أمير المؤمنين، حدثني عن ذي القرنين، أنبياً كان أو رسولاً؟ قال: لم يكن نبياً ولا رسولاً ولكنه عبد ناصح الله عز وجل، فناصحه الله عز وجل وأحب الله فأحبه الله، وإنه دعا قومه إلى الله فضربوه على قرنه فهلك، فغبر زماناً، ثم بعثه الله عز وجل فدعاهم إلى الله عز وجل، فضربوه على قرنه الآخر، فهلك فذلك قرناه.

 شعب ابن عامر آیا اور على أبي الطفيل عامر بن واثلة کے گھر داخل ہوا اور اس وقت ان کی نظر پر پردہ آ گیا تھا پس میں نے ان سے کہا علی کی کوئی بات بیان کریں جس میں نہ اپ اور ان کے درمیان کوئی نہ ہو پس على أبي الطفيل عامر بن واثلة نے کہا ہاں میں بیان کروں گا إن شاء الله اور تم مجھ کو یاد رکھنے والا پاؤ گے : علی لوگوں کو پھلانگتے ہوئے آئے اور منبر پر چڑھ گئے پس اللہ کی تعریف کی اور کہا  … پھر ایک شخص اٹھا سوال کیا کہ ذو القرنین کون تھا ؟ نبی یا بادشاہ ؟ علی نے کہا نہ نبی نہ بادشاہ لیکن عبد صالح  اور یہ اللہ سے محبت کرتے اور الله ان سے اور انہوں نے اپنی قوم کو پکارا جس نے ان کے قرن پر ضرب لگائی اور یہ ہلاک ہوئے پھر ایک زمانہ گذر گیا پھر اللہ نے ان کو زندہ کیا انہوں نے اللہ کی طرف پکارا اور ان کے دوسرے سینگ پر ضرب لگی اور یہ ہلاک ہو گئے پس یہ ان کے سینگ تھے

سند میں سيف بن وهب ہے  جو ضعیف ہے

 قال أحمد: ضعيف الحديث، وقال يحيى: هالك، وقال النسائي: ليس بثقة.

ابن السكن اور امام احمد کے نزدیک ابو طفیل صحابی نہیں ہے

 سَمعت أبا عَبْد الله محمد بن يَعْقُوبَ الأخرم وسُئل: لم ترك البخاري حديث عامر بن وائلة؟ فقال: لأنه كان يُفرط في التشيع.

امام بخاری نے اس کی احادیث نہیں لیں کیونکہ یہ شیعت میں بڑھا ہوا تھا

 وقال ابن المديني: قلت لجَرير بن عَبْد الحميد: أكان مغيرة يكره الروايةَ عن أبي الطُفيل؟ قال: نعَم.

جریر بن عبد الحمید  نے کہا مغیرہ ان روایات کا انکار کرتے جو ابو طفیل بیان کرتا – امام علی بن المديني  نے کہا ہاں

الأعلام از الزركلي  میں ہے

خرج على بني أمية مع المختار الثقفي، مطالبا بدم الحسين.

ابو طفیل نے بنو امیہ کے خلاف  خروج کیا

راقم کہتا ہے یعنی  اس نے خلیفہ عبد الملک یا مروان کے دور میں خروج کیا

وہ الشعری کا رب ہے

احادیث صحیحیہ کے مطابق مشرکین مکہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک طنزیہ نام   ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ  رکھا ہوا تھا – یہ نام  أَبِي كَبْشَةَ پر اس لئے لیا گیا تھا کیونکہ  أَبِي كَبْشَةَ  الشعری کا پجاری تھا اوربت پرستی کے خلاف تھا –  مشرکین مکہ دوسری طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بت پرست  کے مخالف کے طور پر جانتے تھے لہذا ان کو لگا کہ یہ دونوں اپس میں ملے ہوئے ہیں یا کم از کم متاثر ضرور ہیں

قال الفرزدق:

وأوقدت الشعرى مع الليل نارَها     وأضحت محولاً جلدها يتوسّف

الفرزدق  شاعر  نے کہا  

اور الشعرى  کی اگ سے   شب روشن ہوئی

العبور بھی الشعرى   کا ہی نام ہے جس کا انگریزی میں نام

Sirius

ہے – عرب  مشرکوں   میں  الشعرى العَبُور کوپوجا جاتا تھا جس کو بعض اوقات الشعرى  الیمانیہ بھی کہا جاتا تھا اور علم فلکیات  جو عربوں میں ہے اس کے مطابق   الشعرى کو اورائیان

Orion

سے ملا کر  ایک کتے کی شکل دی گئی تھی

 غریب الحدیث  از إبراهيم بن إسحاق الحربي أبو إسحاق  میں ہے

وَالشِّعْرَى: كَوْكَبٌ يَتْلُو الْجَوْزَاءَ , وَهِيَ الشِّعْرَى الْعَبُورُ

اور الشعرى   یہ الْجَوْزَاءَ کا تارا ہے اور یہی  الشِّعْرَى الْعَبُورُ ہے

لسان العرب از ابن منظور میں ہے

وأَما العَبور فَهِيَ مَعَ الجوْزاء تكونُ نيِّرةً، سُمّيت عَبوراً لأَنها عَبَرت المَجَرَّةَ

اور العبور یہ الجوْزاء کے ساتھ ایک کوکب ہے اس کو عبور کرنے والی کہتے ہوں کیونکہ یہ ملکی وے کو عبور کرتی  ہے

دیکھنے والی آنکھ کو لگتا ہے کہ الشعری  آسمان میں ملکی وے میں سے گزر رہا ہے

الشعریOrion

 

ابن الأئير في “النهاية” 4/144: كان المشركون ينسُبون النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إلى أبي كبشة، وهو رجل من خُزاعة خالف قريشاً في عبادة الأوثان، وعَبَد الشعرى والعَبُور، فلما خالفَهم النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في عبادة الأوثان شبهوه به.

النہایہ میں ابن اثیر  نے لکھا ہے  مشرکین  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ابی کبشہ سے نسبت دیتے جو بنو خُزاعة  کا ایک شخص تھا اور بتوں کی عبادت پر قریش کا مخالف تھا اور یہ الشعرى اور العَبُور  کا پجاری تھا- پس جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بتوں کی مخالفت کی تو قریش  کو اس پر شبہ ہوا

مجمع بحار الأنوار في غرائب التنزيل ولطائف الأخبار از  جمال الدين، محمد طاهر بن علي الصديقي الهندي الفَتَّنِي الكجراتي (المتوفى: 986 ) میں ہے

وقيل: إنه كان جد النبي صلى الله عليه وسلم من قبل أمه فأرادوا أنه نزع في الشبه إليه.

کہا جاتا ہے کہ یہ ابی کبشہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کی والدہ  کے خاندان سے نانا تھا پس قریش نے ارادہ کیا کہ اس مشابہت پر نبی سے جھگڑا کریں

المجموع المغيث في غريبي القرآن والحديث از  محمد بن عمر بن أحمد بن عمر بن محمد الأصبهاني المديني، أبو موسى (المتوفى: 581هـ) میں ہے

 وقيل: بل أَبُو كَبْشَة كُنيةُ زوجِ حَلِيمةَ حاضِنَةِ النّبىّ – صلى الله عليه وسلم

أَبُو كَبْشَة کہا جاتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دائی حلیمہ  کے شوہر کی کنیت تھی

صحیح بخاری میں ہے

ہم کو ابوالیمان حکم بن نافع نے حدیث بیان کی، انہیں اس حدیث کی شعیب نے خبر دی۔ انہوں نے زہری سے یہ حدیث سنی۔ انہیں عبیداللہ ابن عبداللہ ابن عتبہ بن مسعود نے خبر دی کہ عبداللہ بن عباس سے ابوسفیان بن حرب نے یہ واقعہ بیان کیا کہ ہرقل (شاہ روم)نے ان کے پاس قریش کے قافلے میں ایک آدمی بلانے کو بھیجا اور اس وقت یہ لوگ تجارت کے لیے ملک شام گئے ہوئے تھے اور یہ وہ زمانہ تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش اور ابوسفیان سے ایک وقتی عہد کیا ہوا تھا۔ جب ابوسفیان اور دوسرے لوگ ہرقل کے پاس ایلیاء پہنچے جہاں ہرقل نے دربار طلب کیا تھا۔ اس کے گرد روم کے بڑے بڑے لوگ (علماء وزراء امراء) بیٹھے ہوئے تھے۔ ہرقل نے ان کو اور اپنے ترجمان کو بلوایا۔ پھر ان سے پوچھا کہ تم میں سے کون شخص مدعی رسالت کا زیادہ قریبی عزیز ہے؟ ابوسفیان کہتے ہیں کہ میں بول اٹھا کہ میں اس کا سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار ہوں۔ (یہ سن کر) ہرقل نے حکم دیا کہ اس کو (ابوسفیان کو)میرے قریب لا کر بٹھاؤ اور اس کے ساتھیوں کو اس کی پیٹھ کے پیچھے بٹھا دو۔ پھر اپنے ترجمان سے کہا کہ ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں ابوسفیان سے اس شخص کے (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے) حالات پوچھتا ہوں۔  …….. ۔ اللہ کے بندے اور اس کے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ خط ہے شاہ روم کے لیے۔ اس شخص پر سلام ہو جو ہدایت کی پیروی کرے اس کے بعد میں آپ کے سامنے دعوت اسلام پیش کرتا ہوں۔ اگر آپ اسلام لے آئیں گے تو (دین و دنیا میں) سلامتی نصیب ہو گی۔ اللہ آپ کو دوہرا ثواب دے گا اور اگر آپ (میری دعوت سے) روگردانی کریں گے تو آپ کی رعایا کا گناہ بھی آپ ہی پر ہو گا۔ اور اے اہل کتاب! ایک ایسی بات پر آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے۔ وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور نہ ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا اپنا رب بنائے۔ پھر اگر وہ اہل کتاب (اس بات سے) منہ پھیر لیں تو (مسلمانو!) تم ان سے کہہ دو کہ (تم مانو یا نہ مانو) ہم تو ایک اللہ کے اطاعت گزار ہیں۔ ابوسفیان کہتے ہیں: جب ہرقل نے جو کچھ کہنا تھا کہہ دیا اور خط پڑھ کر فارغ ہوا تو اس کے اردگرد بہت شور و غوغہ ہوا، بہت سی آوازیں اٹھیں اور ہمیں باہر نکال دیا گیا۔ تب میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابوکبشہ کے بیٹے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) کا معاملہ تو بہت بڑھ گیا (دیکھو تو)اس سے بنی اصفر (روم) کا بادشاہ بھی ڈرتا ہے۔ مجھے اس وقت سے اس بات کا یقین ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عنقریب غالب ہو کر رہیں گے۔ حتیٰ کہ اللہ نے مجھے مسلمان کر دیا

مکہ میں سورہ نجم سن کر سب مشرک سجدے میں چلے گئے کیونکہ اس میں یہ آیت تھی

وَأَنَّهُ هُوَ رَبُّ الشِّعْرَى

اور  اللہ تعالی ہی الشِّعْرَى  کا رب ہے

اس وقت مشرک سورہ نجم کے  مضامین  سے اتفاق کررہے تھے کہ  اللہ تعالی ہی آسمان و زمین کو کنٹرول کر رہا ہے اور وہ واقعی فرشتوں کو  اللہ کی شفاعت کی بنا پر پکار رہے ہیں اور یہ التباس بھی دور ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پوشیدہ طور پر ابی کبشہ سے ملے ہوئے ہیں بلکہ ان کے نزدیک الشعری تو مخلوق ہے    – لیکن بعد میں مشرکوں کو احساس ہوا کہ ان کی مکہ پر اجارہ داری کا کوئی جواز ہی نہیں رہے گا اگر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا مان لیں

راقم سمجھتا ہے کہ ابی کبشہ   الروحانیت یا الصابئة میں سے کسی مذھب پر تھا اور یہی قدیم مصریوں کا مذھب تھا

 الشهرستاني (المتوفى: 548هـ) نے کتاب الملل و النحل میں الروحانيات کے نام سے  ایک دین کا ذکر کیا ہے جو یونانی و عرب مشرکوں میں مروج تھا – یہ عناصر کی اور اجرام فلکی میں سات کی پوجا کرتے اور ان کے ہیکل تعمیر کرتے تھے – ان میں اور حنفاء عرب میں اختلاف تھا – دونوں اگرچہ  بت پرستی کے خلاف تھے لیکن حنفاء کے نزدیک روحانیت والے بھی گمراہ تھے اور مشرکین عرب بھی
الروحانيات والوں کے نزدیک تمام اجرام فلکی کے اندر روح ہے اور ہر وہ چیز جو آسمان سے زمین پر آئے اس میں بھی روح ہے یہاں تک کہ بارش ، قوس قزح، بجلی کی کڑک ، برق ، ملکی وے وغیرہ تک کے لئے یہ ہیکل بناتے تھے – یہ هرمس: شيث، وإدريس عليهما السلام کے وجود کے قائل تھے – روحانیت والے اگرچہ بت نہیں تراشتے تھے لیکن اجرام و عناصر کے لیے ہیکل بناتے تھے
الشهرستاني نے ان کا شمار عبدة الكواكب ستارہ پرستوں میں کیا ہے – ان کے نزدیک جسم انسانی بھی ہیکل کی مانند  ہے کہ وكأن أعضاءنا السبعة هياكله ہمارے أعضاء سات ہیکل  ہیں یا جسم انسانی ایک ٹیمپل ہے جس میں آسمانی ستارہ کی روح اتی ہے
الصابئة بھی اسی قسم کے کسی عقیدے پر تھے الشهرستاني نے ذکر کیا کہ ان کے نزدیک
وهيكل زحل مسدس، وهيكل المشتري مثلث، وهيكل المريخ مربع مستطيل، وهيكل الشمس مربع، وهيكل الزهرة مثلث في جوف مربع، وهيكل عطارد مثلث في جوفه مربع مستطيل، وهيكل القمر مثمن.

زحل کا ہیکل مسدس ہو گا یعنی چھ دیوار والا
مشتری کا تین دیوار والا مثلث
مریخ کا مستطیل
سورج کا چوکور
زہرہ کا بیچ میں مثلث لیکن نیچے سے مربع
عطارد کا بیچ میں مثلث اور مربع و مستطیل ہو گا
چاند کا ہیکل آٹھ دیوار والا ہو گا

حسن المحاضرة في تاريخ مصر والقاهرة از عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (المتوفى : 911هـ) میں مصر کے اہرام کی خبر ہے کہ

والقبط تزعم أنهما والهرم الصغير الملون قبور، فالهرم الشرقي فيه سوريد الملك، وفي الهرم الغربي أخوه هرجيب، والهرم الملون فيه أفريبون (1) ابن هرجيب.
والصائبة تزعم أن أحدهما قبر شيث، والآخر قبر هرمس، والملون قبر صاب بن هرمس؛ وإليه تنسب الصابئة، وهم يحجون إليها، ويذبحون عندها الديكة والعجول السود، ويبخرون بدخن. ولما فتحه المأمون، فتح إلى زلاقة ضيقة من الحجر الصوان الأسود الذي لا يعمل فيه الحديد، بين حاجزين ملتصقين بالحائط، قد نقر في الزلاقة حفر يتمسك الصاعد بتلك الحفر، ويستعين بها على المشي في الزلاقة لئلا يزاق، وأسفل الزلاقة بئر عظيمة بعيدة القعر. ويقال: إن أسفل البئر أبواب يدخل منها إلى مواضع كثيرة، وبيوت ومخادع وعجائب، وانتهت بهم الزلاقة إلى موضع مربع في وسطه حوض من حجر جلد مغطى، فلما كشف عنه غطاؤه لم يوجد فيه إلا رمة بالية.

قبطییوں کا دعوی ہے کہ اہرام مصر قبریں ہیں پس جو مشرقی طرف ہے یہ شاہ سورید کی ہے اور غربی اس کے بھائی هرجيب کی قبر ہے اور رنگ ولا ہرم فريبون ابن هرجيب کی قبر ہے اور الصائبة کا دعوی ہے کہ ایک ان میں سے شیث کی قبر ہے اور دوسری ہرمس کی اور رنگ والے میں صاب بن ہرمس کی قبر ہے – اور اس سے ہی الصائبة منسوب ہیں یہ وہاں حاجت مانگتے ہیں وہاں کالے بچھڑے اور مرغیاں ذبح کرتے ہیں اور دھونی دیتے ہیں پس جب مامون نے اس کو کھولا تو اس میں پھسلاو تک چلا گیا وہاں کالے پتھر تھے جن پر لوہا کا عمل نہ ہوتا تھا .. اور جب وہاں اس کے وسط میں آئے تو ایک حوض ملا جو ڈھکا ہوا تھا اس کو کھولا تو اس میں سوائے گلی سڑی رسی کچھ نہ تھا

اہرام مصر کا تعلق شیث سے تھا اور الصائبة وہاں پوجا کرتے تھے

کتاب الاصنام

 

کتاب الاصنام

قریب ڈیڑھ ہزار سال ہوئے  کہ  مشرکین مکہ کا مذھب عرب میں معدوم ہوا  اور اسلام غالب آیا – نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

لا إله إلا الله وحده ، صدق وعده ، ونصر عبده ، وهزم الأحزاب وحده

کوئی اله نہیں سوائے اللہ کے – اس نے وعدہ سچا کیا – اپنے بندے کی مدد کی – اور اکیلے تمام لشکروں کو  شکست دی

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام مندروں کو ڈھا دیا جہاں اصنام  تھے اور پجاریوں کو قتل کر دیا گیا –

اس حوالے سے ان بتوں کی جو معلومات ہم تک پہنچی ہیں وہ محدود ہیں اور ان کو قرن دوم  میں الکلبی نے پہلی بار جمع کیا تھا –  شروع کے ادوار میں ظاہر ہے یہ کوئی اہم کام  یا دینی فریضہ نہ تھا کہ ان بتوںکی  معلومات جمع کی جاتیں لہذا  الکلبی کی  اس کاوش کا کوئی خاص تذکرہ نہ ہوا  یہاں تک کہ مستشرقین نے اسلام پر رکیک حملے کیے اور اس کتاب کا تذکرہ کرنا شروع کیا –

مستشرقین  کا بنیادی مقصد  یہ تھا کہ کسی طرح یہ ثابت کر دیا جائے کہ اللہ اصل میں کوئی ابراہیمی مذھب کا اله واحد نہیں ہے بلکہ اسلام نے آلات نامی ایک دیوی کی ثنویت کو ختم کر کے اس سے ایک مزکر اله بنا دیا ہے – بعض نے دعوی کیا کہ اللہ اصل میں کوئی نبطی دیوتا ہے – دوسری طرف  مستشرقین میں سے بعض   کا مقصد تھا کہ یہ ثابت کیا جائے کہ اسلام  نے  جس مشرکانہ عرب کلچر کو یا مذھب کو معدوم کیا ہے وہ اصل میں  قدیم حکمت کا منبع تھا –

کتاب الاصنام  یا بتوں پر کتاب کی  اہمیت کا احساس راقم کو مستشرقین کے یہ سب فلسفہ پڑھ کر ہوا  اور یہ جاننا ضروری ہوا کہ قرآن و حدیث اور جاہلی  عرب لٹریچر میں ان بتوں پر کیا معلومات ہیں – اس حوالے سے ہمارے پاس جو  معلومات  ہیں وہ’ بہت محدود  ہیں اور بنیادی طور پر الکلبی کی کتاب ہی سب کی تحقیق کا مصدر رہی ہے – البتہ خود اہل کتاب جو تحقیق اپنے یہودی اور نصرانی فرقوں  پر کی  ہے ان سے مدد لیتے ہوئے راقم نے   ان  عرب بتوں پر معلومات جمع کی ہیں اور  معلوم ہوا ہے کہ مشرکین مکہ  یہ بت اصل میں ابراہیمی ادیان کے اعلام تھے جن کو وسیلہ لینے کے لئے کعبہ میں جمع کیا گیا تھا

فَإِنَّهُنَّ الْغَرَانِيقُ الْعُلَى؟

قرآن کہتا ہے

أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الأُخْرَى أَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الأُنْثَى تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيزَى إِنْ هِيَ إِلا أَسْمَاءٌ سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بهَا من سُلْطَان

کیا تم نے اللَّاتَ، َالْعُزَّى اور ایک اور تیسری مَنَاةَ کو دیکھا؟ کیا تمہارے لئے تو ہوں لڑکے اور اس کے لئے لڑکیاں؟ یہ تو بڑی غیر منصفانہ تقسیم ہوئی! یہ تو صرف چند نام ہیں، جو تم نے اور تمہارے اباؤ اجداد نے رکھ دیے ہیں، الله کی طرف سے ان پر کوئی سند نہیں اتری

اللات طائف میں، العُزَّى مکہ میں اور مَنَاة مدینہ میں عربوں کی خاص دیویاں تھیں

الكلبي (المتوفى: 204هـ) کی کتاب الاصنام میں ہے

عرب طواف میں پکارتے

وَاللاتِ وَالْعُزَّى وَمَنَاةَ الثَّالِثَةِ الأُخْرَى … فَإِنَّهُنَّ الْغَرَانِيقُ الْعُلَى وَإِنَّ شفاعتهن لَتُرْتَجَى

اور اللاتِ اور الْعُزَّى اور ایک اور تیسری مَنَاةَ

یہ تو بلند پرند نما حسین (دیویاں) ہیں اور بے شک ان کی شفاعت گونجتی ہے

کتاب غریب الحدیث از ابن الجوزی کے مطابق

تِلْكَ الغرانيق الْعلَا قَالَ ابْن الْأَعرَابِي الغرانيق الذُّكُور من الطير
وَاحِدهَا غرنوق وغرنيق وَكَانُوا يدعونَ أَن الْأَصْنَام تشفع لَهُم فشبهت بالطيور الَّتِي ترْتَفع إِلَى السَّمَاء وَيجوز أَن تكون الغرانيق جمع الغرانق وَهُوَ الْحسن

یہ تو بلند غرانیق ہیں – ابن الاعرابی کہتے ہیں غرانیق سے مراد نر پرندے ہیں جن کا واحد غرنوق ہے اور غرنيق ہے یہ مشرکین ان ( دیویوں) کو اس نام سے اس لئے پکارتے تھے کیونکہ یہ بت ان کے لئے شفاعت کرتے اور(نر) پرندے بن کر جاتے جو آسمان میں بلند ہوتے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد حسن ہو

تاج العروس اور غریب الحدیث از ابن قتیبہ میں کہا گیا ہے کہ غرانیق سے مراد

طيور الماء طويلة العنق

پانی کے پرندے ہیں جن کی طویل گردن ہوتی ہے

اردو میں ان کو بگلا کہتے ہیں مشرکین نے فرشتوں کو بگلے بنا دیا اور پھر ان کو دیوی کہا

تفسیر بغوی میں سوره الحج کی تفسیر میں لکھا ہے
[سورة الحج (22) : الآيات 52 الى 53] وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلا نَبِيٍّ إِلاَّ إِذا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنْسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آياتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (52) لِيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطانُ فِتْنَةً لِلَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ وَالْقاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَفِي شِقاقٍ بَعِيدٍ (53)
قَوْلُهُ تَعَالَى: وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلا نَبِيٍّ إِلَّا إِذا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ، الْآيَةَ.
«1467» قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ كَعْبٍ الْقُرَظِيُّ وَغَيْرُهُمَا مِنَ الْمُفَسِّرِينَ: لَمَّا رَأَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَلِّي قَوْمِهِ عَنْهُ وَشَقَّ عَلَيْهِ مَا رَأَى مِنْ مُبَاعَدَتِهِمْ عَمَّا جَاءَهُمْ بِهِ مِنَ اللَّهِ تَمَنَّى فِي نَفْسِهِ أَنْ يَأْتِيَهُ مِنَ اللَّهِ مَا يُقَارِبُ بَيْنَهُ
وَبَيْنَ قَوْمِهِ لِحِرْصِهِ عَلَى إِيمَانِهِمْ، فكان يوما في مجلس لقريش فأنزل الله تعالى سورة والنجم فَقَرَأَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَلَغَ قَوْلَهُ: أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى (19) وَمَناةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرى (20) [النجم: 19- 20] أَلْقَى الشَّيْطَانُ عَلَى لِسَانِهِ بِمَا كَانَ يُحَدِّثُ بِهِ نَفْسَهُ وَيَتَمَنَّاهُ: تِلْكَ الْغَرَانِيقُ الْعُلَى وَإِنَّ شَفَاعَتَهُنَّ لِتُرْتَجَى، فَلَمَّا سَمِعَتْ قُرَيْشٌ ذَلِكَ فَرِحُوا بِهِ وَمَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قِرَاءَتِهِ، فَقَرَأَ السُّورَةَ كُلَّهَا وَسَجَدَ فِي آخِرِ السُّورَةِ فَسَجَدَ الْمُسْلِمُونَ بِسُجُودِهِ وَسَجَدَ جَمِيعُ مَنْ فِي الْمَسْجِدِ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَلَمْ يَبْقَ فِي الْمَسْجِدِ مُؤْمِنٌ وَلَا كَافِرٌ إِلَّا سَجَدَ إِلَّا الْوَلِيدُ بْنُ الْمُغِيرَةِ وَأَبُو أُحَيْحَةَ سَعِيدُ بْنُ العاصِ فَإِنَّهُمَا أَخَذَا حَفْنَةً مِنَ الْبَطْحَاءِ وَرَفَعَاهَا إِلَى جَبْهَتَيْهِمَا وَسَجَدَا عَلَيْهَا لِأَنَّهُمَا كَانَا شَيْخَيْنِ كَبِيرَيْنِ فَلَمْ يَسْتَطِيعَا السُّجُودَ، وَتَفَرَّقَتْ قُرَيْشٌ وَقَدْ سَرَّهُمْ مَا سَمِعُوا مِنْ ذِكْرِ آلِهَتِهِمْ وَيَقُولُونَ قَدْ ذَكَرَ مُحَمَّدٌ آلِهَتَنَا بِأَحْسَنِ الذِّكْرِ، وَقَالُوا قَدْ عَرَفْنَا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَيَخْلُقُ وَيَرْزُقُ وَلَكِنَّ آلِهَتَنَا هذه تشفع لنا عنده، فإن جعل لها محمد نَصِيبًا فَنَحْنُ مَعَهُ، فَلَمَّا أَمْسَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَاهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ مَاذَا صَنَعْتَ لَقَدْ تَلَوْتَ عَلَى النَّاسِ مَا لَمْ آتِكَ بِهِ عَنِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَحَزِنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُزْنًا شَدِيدًا وَخَافَ من الله خوفا كبيرا [1] فَأَنْزَلَ اللَّهُ هَذِهِ الْآيَةَ يُعَزِّيهِ وَكَانَ بِهِ رَحِيمًا، وَسَمِعَ بِذَلِكَ مَنْ كَانَ بِأَرْضِ الْحَبَشَةِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَلَغَهُمْ سُجُودُ قُرَيْشٍ. وَقِيلَ: [قد] [2] أَسْلَمَتْ قُرَيْشٌ وَأَهْلُ مَكَّةَ فَرَجَعَ أَكْثَرُهُمْ إِلَى عَشَائِرِهِمْ، وَقَالُوا: هُمْ أَحَبُّ إِلَيْنَا حَتَّى إِذَا دَنَوْا مِنْ مَكَّةَ بَلَغَهُمْ أَنَّ الَّذِي كَانُوا تُحَدَّثُوا بِهِ [3] مِنْ إِسْلَامِ أَهْلِ مَكَّةَ كَانَ بَاطِلًا فَلَمْ يَدْخُلْ أَحَدٌ إِلَّا بِجِوَارٍ أَوْ مُسْتَخْفِيًا فَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ قَالَتْ قُرَيْشٌ: نَدِمَ مُحَمَّدٌ عَلَى مَا ذَكَرَ مِنْ مَنْزِلَةِ آلِهَتِنَا عِنْدَ اللَّهِ فَغَيَّرَ ذَلِكَ وَكَانَ الْحَرْفَانِ اللَّذَانِ أَلْقَى الشَّيْطَانُ عَلَى لِسَانُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ وَقَعَا فِي فَمِ كُلِّ مُشْرِكٍ فَازْدَادُوا شَرًّا إِلَى مَا كَانُوا عَلَيْهِ، وَشِدَّةً عَلَى مَنْ أَسْلَمَ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَهُوَ الَّذِي يَأْتِيهِ جِبْرِيلُ بِالْوَحْيِ عَيَانًا، وَلَا نَبِيٍّ، وَهُوَ الَّذِي تَكُونُ نُبُوَّتُهُ إِلْهَامًا أو مناما، فكل رَسُولٍ نَبِيٌّ، وَلَيْسَ كُلُّ نَبِيٍّ رَسُولًا. إِلَّا إِذَا تَمَنَّى، قَالَ بَعْضُهُمْ: أَيْ: أَحَبَّ شَيْئًا وَاشْتَهَاهُ وحدّث به نفسه مما لَمْ يُؤْمَرْ بِهِ أَلْقَى الشَّيْطَانُ في أمنيته يعني مُرَادِهِ. وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: إِذَا حَدَّثَ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي حديثه ما وجد إِلَيْهِ سَبِيلًا، وَمَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا تَمَنَّى أَنْ يُؤْمِنَ بِهِ قومه ولم يتمنى ذَلِكَ نَبِيٌّ إِلَّا أَلْقَى الشَّيْطَانُ عَلَيْهِ مَا يَرْضَى بِهِ قَوْمُهُ فَيَنْسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ.
عبداللہ بن عباس اور محمد بن کعب القرظی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم قریش کی اسلام سے بے رغبتی پر انتہائی افسردہ وغمگین تھے، اور قریش کے جانب سے دعوت اسلام کو پزیرائی حاصل نہ ہونے پر سخت مایوس تھے، ان کے دل میں شدت میں سے یہ چاہت تھی کہ اللہ کی جانب سے کوئی ایسا کلام نازل ہو جو موحدین اور مشرکین کے درمیان دوری کو قربت میں تبدیل کردے۔ ایک مرتبہ پیغمبر اسلام بیت اللہ میں قریش کی ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ پر اللہ کی جانب سے وحی کا نزول شروع ہو اور آپ نے سورة النجم کی قراءت شروع کی اور جب ان آیات تک پہنچے افراٴیتم اللات و العزیٰ و مناة الثالثة الاخریٰ تو شیطان نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی زبان سے یہ الفاظ جاری کرا دئیےتلک الغرانیق العلیٰ و ان شفاعتھن لترتجی ﴿یعنی یہ لات اور منات بہت بلند پایہ کے بت ہیں اور یقیناً ان کی شفاعت بھی اللہ کے ہاں قبول کی جائے گی﴾ مشرکین آپ کی زبان سے اپنے معبودین کے لئے یہ الفاظ سن کر انتہائی مسرور ہوئے پیغمبر اسلام نے اپنی تلاوت مکمل کرنے کے بعد سجدہ تلاوت کیا تو اس مجلس میں موجود تمام مشرکین بھی سجدہ ریز ہو گئے اور بیت اللہ میں موجود کوئی بھی مومن اور مشرک ایسا نہ بچا جو سجدہ ریز نہ ہوا ہو۔ اس مجلس میں موجود ولید بن مغیرہ اور ابواحیحہ سعید بن العاص جو دونوں انتہائی ضعیف تھے اور سجدہ کرنے پر قادر نہ تھے اس لئے دونوں نے زمین سےمشت بھر مٹی اٹھا کر پیشانی سےتک لے گئے اور اس پر سجدہ کیا۔ اس کے بعد مجلس برخاست ہوئی اور قریش کے لوگ بے حد خوش ہوئے کہ آج محمد نے پہلی دفعہ قریش کے معبودین کا ذکر اچھے الفاظ میں کیا اور انہوں نے کہا کہ آج ہمیں معلوم ہوگیا کہ اللہ ہی زندگی اور موت دیتا ہے وہی رزق دیتا ہے اور تخلیق کرتا ہے اور ہمارے یہ معبود یعنی لات و منات اللہ کے ہاں ہماری سفارش کریں گے، پس اگر محمد ہمارے معبودوں کو ایسے بہتر الفاظ کے ساتھ یاد کرے گا تو ہم بھی اس کے ساتھ ہیں۔ پھر شام کو جبرائیل پیغمبر محمد کے پاس آئے اور کہا کہ اے محمد آج تم نے کیا کیا؟ آج تم نے قریش کے سامنے وہ کلام تلاوت کیا جوتم پر اللہ کی طرف سے نازل نہیں ہوا تھا، یہ سن کر تو آپ صلی الله علیہ وسلم بے حد غمگین ہوگئے اور ان پر خشیت الہٰی کی کیفیت طاری ہو گئی۔ تو اللہ کو رحم آیا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی تسلی کیلئے یہ آیت نازل کی۔
وَمَا أَرْ‌سَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّ‌سُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّـهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّـهُ آيَاتِهِ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
ترجمہ: اور ہم نے آپ سے قبل بھی جتنے رسول اور پیغمبر بھیجے ان میں سے ہر ایک ﴿کے ساتھ یہ واقعہ ضرور پیش آیا کہ﴾ جب انہوں نے ﴿اللہ کے کلام کو﴾ پڑھا تو شیطان نے ان کے پڑھنے میں اپنی جانب سے الفاظ شامل کر دیئے، پھر اللہ شیطان کےشامل کئے ہوئے الفاظ کوتو ختم کر دیتا ہے اور آپنی آیات کوبرقرار رکھتا ہے اور اللہ تو بہت ہی خبر رکھنے والا اور سیانا ہے۔
جب یہ آیت نازل ہوئی تو مشرکین مکہ نے کہا محمد ہمارے معبودوں کا اچھے الفاط میں تذکرہ کرنے پر شرمندہ ہے اس لئے اس نے اپنا کلام بدل لیا۔﴿بحوالہ تفسیر بغوی در تفسیر سورة الحج آیت نمبر ۵۲﴾
لنک
http://library.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?flag=1&bk_no=51&surano=22&ayano=52

یہ واقعہ اپنے اضطراب کے ساتھ کئی اور تفاسیر میں بھی بیان ہوا ہے مثلا
تفسير مقاتل بن سليمان المتوفی ١٥٠ ھ
تفسير يحيى بن سلام المتوفی ٢٠٠ ھ
تفسیر الطبری ٣١٠ ھ
تفسیر ابن أبي زَمَنِين المتوفی ٣٩٩ ھ
تفسیر الثعلبي، أبو إسحاق المتوفى ٤٢٧ھ
تفسیر بغوی المتوفی ٥١٦ ھ

ان آیات کے الفاظ عربوں میں مشهور تھے اور یہ دیویوں کا بھجن تھے
فَإِنَّ شَفَاعَتَهَا هِيَ الْمُرْتَجَى وَإِنَّهَا لِمَنَ الْغَرَانِيقِ الْعُلَى
یہ تو بلند پرند نما حسین (دیویاں) ہیں اور بے شک ان کی شفاعت گونجتی ہے
لہذا یہ کوئی ایسی آیات نہ تھی جو مشرکین نہ سنتے ہوں

کیا واقعہ غرانیق ہوا ہے کہ معاذ اللہ ، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے غلط الفاظ ادا ہوئے

ابن كثير الدمشقي نے اور الألوسي اس واقعہ کا انکار کیا اور ابن حجر المصري نے اس کا استقرار کیا ہے کہ یہ ہوا ہے اور

ابن حجر عسقلانی نے کہا ہے کہ اس کا کوئی نہ کوئی اصل تھا جس پر البانی نے ابن حجر عسقلانی پر جرح کی ہے

ابن تیمیہ نے اس کی تاویل کی ہے اپنے فتاوی ج ١٠ ص ٢٩١ میں کہتے ہیں
قَالَ هَذَا أَلْقَاهُ الشَّيْطَانُ فِي مَسَامِعِهِمْ وَلَمْ يَلْفِظْ بِهِ الرَّسُولُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
یہ شیطان کا القا تھا مشرکین کے کانوں پر اور یہ رسول الله کے الفاظ نہ تھے

الذھبی نے سير أعلام النبلاء ج 1 ص 149 پر اس کا ذکر کیا ہے اور کوئی جرح نہیں کی ہے

الزمخشري معتزلی نے الکشاف میں اس کو بیان کیا ہے کوئی جرح نہیں کی

دكتور عمر عبد السلام التدمري تاريخ ألإسلام از الذھبی پر اپنی تعلیق میں لکھتے ہیں
وقال الحافظ البيهقي في دلائل النبوّة 2/ 62: هذه القصة غير ثابتة من جهة النقل. وبيّن جرح رواتها وطعن حملة العلم فيهم. وفي «البحر» أنّ هذه القصة سئل عنها محمد بن إسحاق صاحب «السيرة» فقال: هذا من وضع الزنادقة. وقال أبو منصور الماتريديّ: الصّواب أنّ قوله «تلك الغرانيق إلخ» من جملة إيحاء الشيطان إلى أوليائه من الزّنادقة، والرسالة بريئة من هذه الرواية.
وقال القاضي عياض في الشفاء 2/ 28: يكفيك أنّ هذا الحديث لم يخرجه أحد من أهل الصّحة، ولا رواه ثقة بسند سليم متصل، مع ضعف نقلته، واضطراب رواياته، وانقطاع إسناده، واختلاف كلماته.
وقد فصّل القاضي عياض عدم صحّة هذه الرواية من عدّة وجوه يحسن مراجعتها. في كتابه الشفاء 2/ 116- 123، وانظر تفسير القرطبي 12/ 82، والنويري في نهاية الأرب 16/ 235- 241.
بیہقی نے دلائل النبوه میں کہا ہے یہ قصہ غیر ثابت ہے نقلی لحاظ سے اور البحر از أبو حيان میں ہے کہ ابن اسحاق سے اس قصہ پر سوال ہوا تو کہا یہ زنادقه کا گھڑا ہوا ہے اور ابو منصور ماتریدی کہتے ہیں ٹھیک یہ قول ہے کہ تلک الغرانیق کا قول شیطان کی اپنے اولیاء پر وحی ہے اور قاضی عیاض کہتے ہیں یہی کافی ہے کہ اہل صحت میں سے کسی نے اس کی تخریج نہیں کی نہ اس کے راوی متصل سند ہیں ثقاہت کے ساتھ پھر انکا نقل میں کمزور ہونا ہے اور روایات کا اضطراب ہے اور اسناد میں انقطاع ہے اور کلمات کا اختلاف ہے انتھی

اس پورے قصے کو محمد بن قيس بن مخرمة اور محمد بن کعب سے محمد بن السائب بن بشر الکلبی المتوفی ١٤٦ ھ منسوب کرتا ہے اسی طرح أبي العالية البصرى المتوفی ٩٣ ھ، السدی کوفی مَولَى قَيس بْن مَخرَمَة المتوفی ١٢٧ ھ ، قتادہ بصری المتوفی ١١٨ ھ نے بھی اس پر تبصرے کیے ہیں اس کے علاوہ اس کو عثمان بن الأسود مکی المتوفی ١٥٠ھ ، عن سعيد بن جبير المتوفی ٩٥ ھ ، عن ابن عباس کی سند سے بھی بیان کیا گیا ہے مثلا اسباب النزول الواحدی میں اور ابن مردويه میں
اسی طرح أبي بشر جعفر بن إياس بصری المتوفی ١٢٦ ھ کی سند سے یہ سعید بن جبیر کا مرسل قول ہے
لہذا سب سے پہلے اس واقعہ کا ذکر بصریوں مثلا رفيع بْن مهران بصري المعروف بأبي العالية الرياحي المتوفی ٩٠ یا ٩٣ ھ نے مرسل روایت کیا ہے اور قتادہ البصری المتوفی ١١٨ھ نے روایت کیا ہے – قتادہ خود بھی أَبُو الْعَالِيَةِ البصری کے شاگرد ہیں دونوں مدلس ہیں -ایک طرف تو بصرہ میں اس کو قتادہ بیان کرتے ہیں دوسری طرف مکہ میں سعید بن جبیر المتوفی ٩٥ ھ بھی ابن عباس سے اس کو روایت کرتے ہیں- یعنی لگ بھگ سن ٨٠ ھ کے بعد اس قصہ کا دور شروع ہوا اور اس کا گڑھ بصرہ تھا وہاں سے یہ مکہ پہنچا اور اس کو ابن عباس رضی الله سے منسوب کیا گیا ہے

کتاب المعرفۃ والتاریخ: 2/148 از الفسوی کے مطابق شعبہ نے کہا
لم يسمع قتادة من أبي العالية إلا ثلاثة أشياء. قلت ليحيى عدها، قال قول على رضي الله عنه القضاه ثلاثة، وحديث: لا صلاه بعد العصر، وحديث يونس بن متى.
قتادہ نے ابی العالیہ سے صرف تین چیزیں سنیں میں نے یحیی سے کہا ان کو گن دیجیے کہا علی رضی الله عنہ کا قول فیصلوں کے بارے میں اور حدیث کہ عصر کے بعد نماز نہیں اور حدیث یونس بن متی
یعنی بصرہ میں اس روایت کا منبع قتادہ ہوئے جو اس کا ذکر کرتے ہیں یہ سخت مدلس تھے اور روایت جس سے سن لیں اس کا نام بعض اوقات نہیں لیتے
امام یحیی بن معین نے فرمایا: “لم يلق سَعِيد بن جبير، ولا مجاهدا ولا سُلَيْمان بن يسار” قتادہ نے سعید بن جبیر، مجاہد، اور سلیمان بن یسار میں سے کسی کو نہیں پایا۔ سوالات ابن الجنید: ص

یعنی سعید بن جبیر المتوفی ٩٥ ھ کو یہ روایت قتادہ سے نہیں ملی

اس کی دو سندیں ہیں
أَبِي بِشْرٍ بصری ( جعفر بن إياس، وهو ابن أبي وَحْشِيَّة المتوفی ١٢٤ ھ )، عَن سَعِيد بْنِ جُبَير، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ
المعجم الكبير از طبرانی اور مسند البزار
اور
عُثْمَانُ بْنُ الأَسْوَدِ المکی المتوفی ١٤٧ ھ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ
یعنی ایک بصری اور ایک مکی نے اس روایت کو سعید بن جبیر سے منسوب کیا ہے اس میں جعفر بن ایاس کو محدثین ثقہ کہتے ہیں اور عُثْمَانُ بْنُ الأَسْوَدِ کو بھی ثقہ کہتے ہیں
یعنی محدثین کے مطابق اس روایت کا بار سعید بن جبیر نے اٹھا لیا کیونکہ اس کی سند میں ثقات ہیں ابن عباس رضی الله عنہ کے شاگردوں میں اس کو صرف سعید بن جبیر ہی روایت کرتے ہیں
حجاج بن یوسف نے سعید بن جبیر کو قتل کیوں کیا؟ اس سوال کا جواب شاید یہ روایت ہے

روایت پسندی صحیح نہیں ہے سنن دارمی کی روایت ہے
أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ أَنَّهُ حَدَّثَ يَوْمًا بِحَدِيثٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَجُلٌ: فِي كِتَابِ اللَّهِ مَا يُخَالِفُ هَذَا، قَالَ: «لَا أُرَانِي أُحَدِّثُكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتُعَرِّضُ فِيهِ بِكِتَابِ اللَّهِ، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمَ بِكِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى مِنْكَ»
سعید بن جبیر نے ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بیان کی تو ایک شخص نے کہہ دیا : قرآن میں اس کےخلاف بات موجود ہے۔ اس پر انہوں نے فرمایا : میں تجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کر رہا ہوں اور تو اس کے خلاف اللہ کی کتاب پیش کر رہا ہے ! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی کتاب کے مندرجات کو تجھ سے بڑھ کر جانتے تھے۔

آج علماء یہی کہہ رہے ہیں کہ غرانیق والی روایت باوجود یہ کہ سعید بن جبیر سے ثقات نے روایت کی ہے یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ قرآن میں اس کے خلاف موجود ہے کہ رسول الله سے غلطی نہیں ہو سکتی لہٰذا راقم کہتا ہے اس قسم کی روایات کا بار راویوں پر ہے
– علماء جو اس روایت کے خلاف ہیں وہ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ قتادہ یا سعید بن جبیر نے اس قسم کی فضول روایت کیوں بیان کیں- سوره حج کی آیات مدنی ہیں اور سوره النجم مکی سوره ہے ظاہر ہے اتنے طویل عرصے کے بعد اس پر تبصرہ کوئی معنی نہیں رکھتا

وہابی اور غیر مقلد  علماء کی بدلتی آراء

البانی کی رائے

البانی نے نصب المجانيق لنسف قصة الغرانيق میں اس کی اسناد کو جمع کیا اور کہا ہے کہ تمام ضعیف ہیں بلکہ موضوع ہیں

محمد بن عبد الوہاب النجدی کی رائے
مختصر سيرة الرسول صلى الله عليه وسلم میں مؤلف: محمد بن عبد الوهاب بن سليمان التميمي النجدي (المتوفى: 1206هـ) لکھتے ہیں
قصته صلى الله عليه وسلم معهم – لما قرأ سورة النجم بحضرتهم – فلما وصل إلى قوله: {أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى – وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى} [النجم: 19 – 20] (1) ألقى الشيطان في تلاوته: تلك الغرانيق العلى، وإن شفاعتهن لترتجى.
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قصہ ہے کہ جب انہوں نے سورہ النجم کی قرات قریش کی موجودگی میں کی جب اس آیت پر آئے
أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى – وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى
تو شیطان نے تلاوت میں القا کیا
تلك الغرانيق العلى، وإن شفاعتهن لترتجى

محمد بن عبد الوھاب النجدی نے اس واقعہ کو درجہ قبولیت دیا

زهير الشاويش کی رائے

تيسير العزيز الحميد في شرح كتاب التوحيد الذى هو حق الله على العبيد از سليمان بن عبد الله بن محمد بن عبد الوهاب (المتوفى: 1233هـ) مع تحقیق زهير الشاويش میں بھی اس کا ذکر کیا
فلما أنزل الله سورة النجم قال: {أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى} [النجم] ألقى الشيطان عندها كلمات حين ذكر الطواغيت فقال: تلك الغرانيق العلا، وإن
شفاعتهن لترتجى ….. وهي قصة مشهورة صحيحة رويت عن ابن عباس من طرق بعضها صحيح. ورويت عن جماعة من التابعين بأسانيد صحيحة منهم عروة وسعيد بن جبير وأبو العالية وأبو بكر بن عبد الرحمن وعكرمة، والضحاك وقتادة، ومحمد بن كعب القرظي ومحمد بن قيس والسدي وغيرهم. وذكرها أيضًا أهل السير وغيرها وأصلها في “الصحيحين”.

پس جب اللہ تعالی نے سورہ نجم نازل کی فرمایا

أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى – وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى
تو شیطان نے کلمات تلاوت میں القا کیے جن میں طاغوتوں کا ذکر تھا کہا
تلك الغرانيق العلى، وإن شفاعتهن لترتجى
اور یہ قصہ صحیح و مشہور ہے ابن عباس سے روایت کیا گیا ہے جن میں سے بعض صحیح ہیں اور تابعین کی ایک جماعت نے صحیح اسناد کے ساتھ اس کو عروہ بن زبیر اور سعید بن جبیر اور ابو العالیہ اور ابو بکر بن عبد الرحمان اور عکرمہ اور ضحاک اور قتادہ سے محمد بن كعب القرظي ومحمد بن قيس والسدي سے روایت کیا ہے اور دیگر اہل سیرت نے بھی روایت کا ہے اس کی اصل صحیحین میں موجود ہے

أسامة بن عطايا العتيبي کی رائے

عصر حاضر کے ایک وہابی عالم أسامة بن عطايا العتيبي نے عبد الوہاب نجدی کا دفاع کیا اور کتاب تيسير العزيز الحميد میں مقدمة التحقيق میں الحاشية ص 30 پر لکھا

انْتَقَدَ بَعْضُ العُلَمَاءِ إِيْرَادَ شَيْخِ الإسْلامِ مُحَمَّدِ بنِ عَبْدِالوَهَّابِ لِقِصَّةِ الغَرَانِيقِ فِي مُخْتَصَرِهِ لِلسِّيْرَةِ، وَهَذَا فِي حَقِيْقَتِهِ انْتِقَادٌ غَيْرُ صَحِيْحٍ، فَقِصَّةُ الغَرَانِيقِ ثَابِتَةٌ، تَلَقَّتْهَا الأُمَّةُ بِالقَبُولِ، وَقَدْ صَحَّحَهَا جَمَاعَةٌ مِنْ الأَئِمَّةِ مِنْهُمُ: الضِّيَاءُ الْمَقْدِسِيُّ فِي الْمُخْتَارَةِ (10/ 234)، وَالْحَافِظُ ابنُ حَجَرٍ فِي تَخْرِيجِ أحَادِيْثِ الكَشَّافِ (4/ 114)، وَالسُّيُوطِيُّ، وَالشَّيْخُ سُلَيْمَانُ وَغَيْرُهُمْ، وَفَسَّرَهَا-أيْ قَولَهُ تَعَالَى: {ألْقَى الشَّيْطَانُ فِي أمْنِيَّتِهِ} بِهَا جَمَاعَةٌ مِنْ الأَئِمَّةِ كَابنِ جَرِيْرٍ (17/ 186)، والنَّحَّاسِ فِي مَعَانِي القُرْآنِ (4/ 426)، وَالبَغَوِيِّ (3/ 293 – 294)، والوَاحِدِيِّ فِي تَفْسِيْرِهِ (2/ 737)، وَأَبُو اللَّيثِ السَّمَرْقَنْدِيِّ (2/ 465)، وابنِ أَبِي زَمَنِيْنَ (3/ 186)، والسَّمْعَانِيِّ (3/ 448)، وابنِ جُزَيٍّ فِي التَّسْهِيْلِ (3/ 44)، وَشَيْخِ الإسْلامِ ابنِ تَيْمِيَّةَ فِي مَجْمُوعِ الفَتَاوَى (2/ 282)، وَقَالَ فِي مِنْهَاجِ السُّنَّةِ (2/ 409): «عَلَى الْمَشْهُورِ عِنْدَ السَّلَفِ والْخَلَفِ» وَالسَّعْدِيِّ (ص/ 542) وَغَيْرُهُمْ كَثِيْرٌ جِدًّا

بعض علماء نے شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب پر مختصر سیرہ میں قصہ غرانیق کا ذکر کرنے پر تنقید کی ہے اور حقیقت میں یہ تنقید صحیح نہیں ہے کیونکہ قصہ غرانیق ثابت ہے اس کو امت نے تلقیہا بالقبول کا درجہ دیا ہے اور ایک جماعت نے اس کو صحیح کہا ہے جن میں ہیں
الضِّيَاءُ الْمَقْدِسِيُّ فِي الْمُخْتَارَةِ (10/ 234)، وَالْحَافِظُ ابنُ حَجَرٍ فِي تَخْرِيجِ أحَادِيْثِ الكَشَّافِ (4/ 114)، وَالسُّيُوطِيُّ، وَالشَّيْخُ سُلَيْمَانُ وَغَيْرُهُمْ، وَفَسَّرَهَا-أيْ قَولَهُ تَعَالَى: {ألْقَى الشَّيْطَانُ فِي أمْنِيَّتِهِ} بِهَا جَمَاعَةٌ مِنْ الأَئِمَّةِ كَابنِ جَرِيْرٍ (17/ 186)، والنَّحَّاسِ فِي مَعَانِي القُرْآنِ (4/ 426)، وَالبَغَوِيِّ (3/ 293 – 294)، والوَاحِدِيِّ فِي تَفْسِيْرِهِ (2/ 737)، وَأَبُو اللَّيثِ السَّمَرْقَنْدِيِّ (2/ 465)، وابنِ أَبِي زَمَنِيْنَ (3/ 186)، والسَّمْعَانِيِّ (3/ 448)، وابنِ جُزَيٍّ فِي التَّسْهِيْلِ (3/ 44)، وَشَيْخِ الإسْلامِ ابنِ تَيْمِيَّةَ فِي مَجْمُوعِ الفَتَاوَى (2/ 282)، وَقَالَ فِي مِنْهَاجِ السُّنَّةِ (2/ 409): «عَلَى الْمَشْهُورِ عِنْدَ السَّلَفِ والْخَلَفِ» وَالسَّعْدِيِّ (ص/ 542) اور دیگر بہت سے

مفتی بن باز کی رائے

مجموع فتاوى العلامة عبد العزيز بن باز ج 8 ص 301  پر ایک سوال کے جواب میں فتوی میں عبد العزيز بن باز کہتے ہیں کہ قصہ غرانیق پر مرسل احادیث ہیں لیکن

إلقاء الشيطان في قراءته صلى الله عليه وسلم في آيات النجم وهي قوله: {أفرأيتم اللات والعزى} الآيات، شيء ثابت بنص الآية في سورة الحج

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سورہ نجم کی  قرات  میں  شیطان کا القا ہونا یہ سورہ حج کی آیت سے ثابت ہے

معلوم ہوا کہ  روایت پسند واپس اس قصہ کو صحیح کہہ رہے ہیں

شیعہ علماء کی آراء

تفسير مجمع البيان میں  أبي على الفضل بن الحسن الطبرسي المتوفی ٥٤٨ ھ  لکھتے ہیں

روي عن ابن عباس و غيره أن النبي (صلى الله عليهوآلهوسلّم) لما تلا سورة و النجم و بلغ إلى قوله أ فرأيتم اللات و العزى و منات الثالثة الأخرى ألقى الشيطان في تلاوته تلك الغرانيق العلى و إن شفاعتهن لترجى فسر بذلك المشركون فلما انتهى إلى السجدة سجد المسلمون و سجد أيضا المشركون لما سمعوا من ذكر آلهتهم بما أعجبهم فهذا الخبر أن صح محمول على أنه كان يتلو القرآن فلما بلغ إلى هذا الموضع و ذكر أسماء آلهتهم و قد علموا من عادته (صلى الله عليه وآله وسلّم) أنه كان يعيبها قال بعض الحاضرين من الكافرين تلك الغرانيق العلى و ألقى ذلك في تلاوته توهم أن ذلك من القرآن فأضافه الله سبحانه إلى الشيطان لأنه إنما حصل بإغوائه و وسوسته و هذا أورده المرتضى قدس الله روحه في كتاب التنزيه و هو قول الناصر للحق من أئمة الزيدية و هو وجه حسن في تأويله

اگر یہ خبر صحیح ہے تو یہ محمول ہے کہ اس مقام پر آ کر رسول اللہ  صلى الله عليه وآله وسلّم  حاضرین کفار میں سے بعض کو عیب دیا اور اس کو تلاوت میں بولا تو (لوگوں کو ) وہم ہو گیا کہ یہ قرآن میں اضافہ ہے

اسی بات کو تفسير نور الثقلين میں بیان کیا گیا ہے

مجلسی کی رائے

مجلسی نے بحار الأنوار میں  لکھا

كذب الله تعالى في الحال، و ذلك لا يقول به مسلم

یہ روایت  اس حال میں اللہ پر جھوٹ ہے اور ایسا مسلم نہیں کہہ سکتا

=====================================================

راقم کہتا ہے اس روایت کو شیعہ راوی الکلبی نے بھی روایت کیا ہے

تفسیر یحیی بن سلام میں ہے

وَفِي تَفْسِيرِ الْكَلْبِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ عَلَيْهِ السَّلامُ كَانَ يُصَلِّي عِنْدَ الْبَيْتِ وَالْمُشْرِكُونَ جُلُوسٌ فَقَرَأَ: {وَالنَّجْمِ} [النجم: 1] ، فَحَدَّثَ نَفْسَهُ حَتَّى إِذَا بَلَغَ: {أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى {19} وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الأُخْرَى {20} } [النجم: 19-20] أَلْقَى الشَّيْطَانُ عَلَى لِسَانِهِ: فَإِنَّهَا مَعَ الْغَرَانِيقِ الْعُلَى وَإِنَّ شَفَاعَتَهَا هِيَ الْمُرْتَجَى.

تفسیر کلبی میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں نماز پڑھتے تھے اور مشرک پیٹھے ہوئے تھے پس قرات کی و النجم انہوں نے اپنے آپ سے کہا جب یہاں پر پہنچے

أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى {19} وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الأُخْرَى

شیطان نے القا کر دیا ان کی زبان پر

فَإِنَّهَا مَعَ الْغَرَانِيقِ الْعُلَى وَإِنَّ شَفَاعَتَهَا هِيَ الْمُرْتَجَى.

معلوم ہوا کہ روافض شروع سے اس قصہ کو قبول کر رہے تھے  طبرسی کے دور یعنی چھٹی صدی  تک اس کی تاویل کرتے چلے آ رہے تھے

ہیکل سلیمانی ، زکریا اور مریم

مزید تفصیل کے لئے پڑھیں
تاریخ قبلتین

148 Downloads

یہود مسجد الاقصی کو هيكل سلیمان بولتے تھے اور ہیں – مسجد عربی کا لفظ ہے جس کا مطلب عبادت کا مقام ہے اور الاقصی بھی عربی کا لفظ  ہے جس کا مطلب دور ہے – اور یہ دور اصل میں مکہ سے دوری کے طور پر بولا گیا تھا جب واقعہ معراج کا ذکر الله تعالی نے سورہ بنی اسرائیل میں کیا

سُبْحَانَ الَّـذِىٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَى الَّـذِىْ بَارَكْنَا حَوْلَـهٝ لِنُرِيَهٝ مِنْ اٰيَاتِنَا ۚ اِنَّهٝ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْـرُ (1)

پاک ہے وہ  (رب) جو لے گیا سفر میں  اپنے بندے کو رات  میں مسجد الحرام سے مسجد الاقصی جس کا ماحول ہم نے  با برکت کیا ہے  کہ اس کو اپنی کچھ نشانیاں دکھائے بے شک وہ  (الله) سننے دیکھنے والا ہے

الْاَقْصَى اصل میں فاصلے پر نسبت ہے  کہ اتنی دور ایک رات میں ہی لے کر گئے- ظاہر ہے دور سلیمان و داود میں اور اس کے بعد بھی یروشلم میں رہنے والے احبار و ربانی  اہل کتاب اس مسجد کو مسجد الاقصی نہیں بولتے ہوں گے- بنی اسرائیل کی تاریخ کے مطابق اس مسجد کو ہیکل سلیمان کے نام سے یاد کیا جاتا تھا

هيكل کا لفظ  عربی اور عبرانی دونوں میں مستعمل ہے اور عربی لغت تاج العروس من جواهر القاموس میں بھی موجود ہے  

الهَيْكَلُ: الضَّخْمُ مِنْ كُلِّ شَيْء یعنی کسی بھی چیز کا بڑا ہونا – ہیکل سلیمان کا مطلب  ہے مسجد الاقصی بہت بڑی تھی

لغت مجمع بحار الأنوار في غرائب التنزيل ولطائف الأخبار از  جمال الدين، محمد طاهر بن علي الصديقي الهندي الفَتَّنِي الكجراتي (المتوفى: 986هـ) میں ہے

الهيكل – ذو الضخامة والشرف، ثم استعمل فيما يكتب من الأسماء الإلهية والأدرعة الربانية ونحو ذلك

الهيكل – بہت عظمت و شرف   والا پھر اس لفظ کا استمعال ہوا اگر اسماء الہی  وغیرہ لکھے ہوں

ظاہر ہے یہ لفظ عربی میں بھی موجود ہے تو مسجد الاقصی کو اگر ہیکل کہا جائے تو اس میں کوئی عیب نہیں کیونکہ دور سلیمان میں ظاہر ہے اس کو الاقصی نہیں کہا جا سکتا – سلیمان  علیہ السلام کی مملکت ارض مقدس میں تھی

ہیکل سلیمانی  کا مطلب ہے سلیمان علیہ السلام کا بنایا ہوا ہیکل

Heikal

جس میں ایک    چٹان یا  الصخرہ تھی اس کو یہودی زمین کا سب سے مقدس مقام سمجھتے ہیں اور ان کے مطابق زمیں کا آغاز اسی چٹان سے ہوا اور مسلمان ہونے والے  یمنی یہودیوں کے مطابق اس کے نیچے تمام دنیا کی ہوائیں اور نہریں ہیں  جیسا کہ ایک روایت میں ہے- یہود کے مطابق اس چٹان پر تابوت سکینہ رکھا ہوا تھا اور معلوم ہوا ہے کہ اس ہیکل پر کسوہ کعبہ کی طرح کا ایک غلاف بھی ہوتا تھا  اس کے سامنے

Altar

تھا جس میں قربانی کا گوشت جلا کر الله کی نذر کیا جاتا تھا اور خون کوقربان گاہ پر  چھڑکا جاتا- اس قربان گاہ کے پاس حجرات تھے جن میں منتظم سامان رکھتے اور اس مسجد کے صحن سے بھی زمزم کی طرح ایک چشمہ ابلتا تھا جس کو جیحوں

Gihon

کہا جاتا ہے

مسلمان مورخین کے مطابق تبع نے بعثت نبوی سے کئی سو سال پہلے سب سے پہلے غلاف کعبہ دیا – تبع (المتوفی ٤٢٠ بعد مسیح عیسوی ) ایک  یمنی یہودی بادشاہ تھا جس  نے کعبہ کو سب سے پہلے غلاف دیا کیونکہ مسجد اقصی میں ہیکل سلیمانی میں قدس الاقدس پر بھی غلاف تھا اس کا ذکر انجیل میں ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی مزموعہ صلیب کے وقت مقدس کا غلاف یا کسوہ پھٹ گیا

At that moment the curtain of the temple was torn in two from top to bottom. The earth shook, the rocks split

اور اس ( موت کے) وقت ہیکل کا کسوہ اوپر سے نیچے تک  پھٹ گیا زمیں لرز گئی اور چٹانیں چٹخ گئیں

http://biblehub.com/matthew/27-51.htm

قرآن میں ذکر ہے کہ زوجہ عمران  نے منت مانی کہ اگر لڑکا ہوا تو میں اس کو الله کی نذر کر دوں گی –

إِذْ قَالَتِ امْرَأَتُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

اور جب مریم کی ماں  نے کہا اے رب  میرے بطن میں جو ہے اس کو نذر کر رہی ہوں وقف کرتے ہوئے پس اس کو قبول کر بے شک توسننے والا جاننے والا ہے 

اس میں محرر کا لفظ ہے یعنی اب اس بطن میں جو ہے وہ تمام عمر کے لئے وقف نذر ہو چکا ہے – اس نذر کی بنا پر مریم اب کبھی بھی شادی نہیں کر سکتی تھیں –

قرآن میں مریم کو اخت ہارون کہا گیا یعنی وہ ہارون علیہ السلام کی نسل سے تھیں اور اس طرح ان کے والد عمران بھی نسل ہارون میں سے تھے – اہل کتاب کے  مطابق ہیکل سلیمان یا مسجد الاقصی  میں رسوم کی ادائیگی صرف نسل ہارون والے کر سکتے ہیں –  بہر حال زوجہ عمران نے لڑکے کی بجائے ایک لڑکی مریم کو جنا اور ان کو بطور منت کی ادائیگی ہیکل سپرد کر دیا گیا –

نذر کا مطلب تورات کتاب گنتی باب ٦ میں موجود ہے

اسلام میں بھی معتکف بال نہیں کاٹ سکتا

اس منت کو پورا کرانے کے لئے  اقلام ڈالے گئے یعنی قرع اندازی ہوئی  کہ کون مریم کی کفالت کرے گا

 ذَٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۚ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلَامَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَ 

يه غیب کی خبریں ہیں جو ہم الوحی کر رہے ہیں تم ان کے ساتھ نہ تھے جب یہ اقلام پھینک رہے تھے کہ کون مریم کی دیکھ بھال کرے گا اور نہ ساتھ تھے جب یہ اس (کفالت ) کے لئے لڑ رہے تھے

ہیکل میں امور سر انجام دینے کے لئے اقلام کیسے ڈالے جاتے  تھے اس کا ذکر یہود کی کتاب  مشنا میں ہے

The officials of Temple said to them, Come and cast lots to decide who among  them would kill the sacrifice, who would sprinkle the blood and who would clear the altar of  ashes, who would light the menorah ” ∗. The room Gazith (Lots casting room) was in form of  large Hall. The casting took place from the east side of it. With an elder sitting on the west. The priest stood about in a circle and official grabbed the hat off this or that person, and by this they understood where the lot was to begin

Mishnah Tamid 3.1; see from Jesus Christ in Talmud by J. Lightfoot published in 1658

ہیکل سلیمانی میں خدمت انجام دینے کے لئے مسجد اقصی کے منتظمین کہتے کہ اقلام ڈالو اور ہم فیصلہ کریں کہ کون قربانی کرے گا کون خون کو چھڑکے گا کون قربان گاہ کی راکھ کو صاف کرے گا اور کون منورہ میں شمع جلاۓ گا – ایک بہت بڑا  حجرہ غازث (مسجد الاقصی میں) تھا جس میں اقلام ڈالے جاتے تھے اور وہ اس کے مشرق سے شروع کیا جاتا جب ایک عالم کرسی پر بیٹھتا اور تمام خدمت گزار ایک دائرے کی صورت کھڑے ہوتے اور عالم اشارہ دیتا  کہ اقلام ڈالنا کہاں سے شروع ہو گا

اس اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقلام ڈالنا مسجد الاقصی میں کیا جاتا تھا اور قرآن میں بھی اس کا ذکر ہے جس سے ظاہر ہے نسل ہارون یا خدمت  گزار  لوگ  جن کو لاوی کہا جاتا تھا اس  اقلام ڈالنے میں شریک ہوتے تھے

قرآن میں مزید موجود ہے کہ مریم علیہ السلام جس مقام پر  منت کر رہی تھیں وہ المحراب تھی – یہ اس قدر واضح اشارہ ہے کہ شاید ہی کوئی اور اشارہ قرآن میں اس کے سوا ہو کہ یہ اعتکاف مسجد الاقصی میں تھا اور جب الله نے اس کا ذکر کیا تو کسی بھی یہودی پر یہ مخفی نہ رہا ہو گا-المحراب اصل میں مسجد الاقصی کا ایک حجرہ تھا جو اس کے شمال میں تھا یہ  کمرہ خدمت گزاروں کے لئے وقف تھا وہ  وہاں رکتے نماز پڑھتے اور اپس میں مسجد کے انتظام کا ذکر کرتے تھے –

Bet ha-Moed or Bet Hamoked (Chamber of the Hearth) was the domed chamber in temple, was in north of the ’Azarah (inner court where burning altar was placed), See Jewish Encyclopedia

بیت ہا معید یا بیت ہموکد ایک گنبد نما حجرہ ہیکل میں تھا جو مسجد اقصی کے صحن کے شمالی سمت میں تھا

This dome-covered structure was the quarters for the priests who performed the services

محراب نما حجرہ متظمین ہیکل کے لئے تھا

Architecture of Herod, the Great Builder by Ehud Netzer, Baker Academic, October 1, 2008

Beth-haMoked,  … was built on arches

بیت ہموکد میں محرابیں تھیں

The Temple–Its Ministry and Services by Alfred Edersheim

قرآن میں موجود ہے کہ زکریا علیہ السلام نماز محراب میں پڑھ رہے تھے جب ان پر الوحی ہوئی کہ یحیی علیہ السلام کی ولادت ہو گی

فَخَرَجَ عَلَىٰ قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ فَأَوْحَىٰ إِلَيْهِمْ أَن سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا

پس زکریا محراب سے باہر نکل کر قوم کے پاس آیا اور ان کو اشارہ کیا کہ صبح و شام تسبیح کرو

اسی طرح ذکر ہے کہ جب بھی زکریا محراب میں اتے تو مریم کے پاس رزق ہوتا

كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِندَهَا رِزْقًا

محراب میں جب بھی زکریا مریم کے پاس داخل ہوتے ان کے پاس رزق پاتے 

 یعنی یہ محراب ایک بہت بڑا حجرہ تھا جس میں مریم بھی تھیں اور زکریا بھی تھے اور  یہاں مریم معتکف تھیں ان کے باقی حجرہ کے درمیان ایک پردہ تھا اور وہ اس حجرہ کے مشرق میں تھیں

وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِيًّا (16) فَاتَّخَذَتْ مِن دُونِهِمْ حِجَابًا فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا

أور الكتاب  میں مریم کا ذکر کرو جب وہ اپنے اہل کو چھوڑ(محراب میں ) شرقی جانب میں (معتکف ہو) گئی اور اپنے اور باقی لوگوں کے درمیان ایک پردہ ڈالا تو ہم نے ایک روح (ناموس یا فرشتہ) اس کی طرف بھیجا جو ایک آدمی کی صورت ظاہر ہوا

یقینا مریم اس اشکال میں ہوں گی کہ وہ ایک لڑکی ہیں اور مسجد الاقصی میں کس طرح ان کا قیام جاری رہے گا – لہذا ان کو خبر دی گئی کہ وہ اب حیض کی حالت میں کبھی نہ جائیں گی – اللہ نے خبر دی

وَإِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَىٰ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ

اور فرشتوں نے مریم سے کہا اے مریم الله نے اپ کو منتخب کر لیا ہے اور پاک کر دیا ہے   تمام عالمین کی عورتوں میں سے اپ کو چنا ہے

طہر کا لفظ  اشارہ ہے کہ مریم اب کبھی بھی نطفہ سے ماں نہیں بن سکیں گی اور نہ ان کو  عام عورتوں کی طرح حیض آئے گا – ساتھ ہی خبر دی گئی کہ وہ بن بیاہی ماں بن جائیں گی

إِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ (45)

اور جب فرشتوں نے کہا اے مریم بے شک الله اپ کو بشارت دیتا ہے اپنے جانب سے کلمہ کی جس کا نام المسیح عیسیٰ بن مریم ہو گا دنیا و آخرت میں مقربوں میں سے ہو گا

یقینا مریم اہل کتاب کی اس خواہش  کا علم رکھتی ہوں گی جس کا ذکر کتاب یسعیاہ میں ہے کہ ان میں ایک کنواری کے بطن سے مسیح کا ظہور ہو جو  مردوں کو زندوں کر دے جو نابینا کو نگاہ دے اور جو اپاہج کو صحیح کر دے  – فرشتوں نے ان کو خبر دی کہ وہ وہ کنواری ہیں جو المسیح کو جنم دے گی

اللہ نے اس طرح  مسیح کو کسی بھی نسب کا نہ کیا کیونکہ اہل کتاب میں اختلاف چل رہا تھا ایک گروہ کا دعوی تھا کہ مسیح داود کی نسل سے ہو گا اور دوسرے گروہ کا دعوی تھا کہ یوسف کی نسل سے ہو گا – الله نے نسل ہارون کو پسند کیا اس کی لڑکی کو المسیح کی ماں بننے کا شرف ملا اس طرح ان تمام جھگڑوں کو ختم کر دیا جو مسیح کے نسب پر اہل کتاب میں تھا

و الله اعلم

ذي القرنين  أفريدون سے  سكندر تک

ارنسٹ والس بج  ایک مغربی  تاریخ دان تھے اور قدیم کتب کا ترجمہ کرنے میں ماہر تھے مثلا انہوں نے اہرام مصر کی دیواروں پر موجود عبارت کا ترجمہ کیا اسی طرح ایک کتاب ان کو ملی جو سکندر کے سفر نامے پر تھی اور اس  کے دو نسخنے ہیں –  والس نے اس نسخے کا ترجمہ کیا جو سریانی  کی زبان میں تھا-  سریانی زبان والا نسخہ میں  کہانی کا ایک  حصہ جو ہماری دلچپسی کا ہے اس میں ہے کہ مصر اسکندریہ میں  سکندر ایک جنگ کا اردہ کرتا ہے اور خدا سے مدد مانگتا ہے

And king Alexander bowed himself and did reverence, saying, “0 God, Lord of kings and judges, thou who settest up kings and destroyest their power, I know in my mind that thou hast exalted me above all kings, and thou hast made me horns upon my head, wherewith I might thrust down the kingdoms of the world۔

اور شاہ سکندر نے سجدہ کیا اور کہا اے رب مالک الملک والقضآة  جو بادشاہ کرتا ہے اور انکی قوت کو تباہ کرتا ہے مجھے اپنے نفس میں خبر ہے آپ نے مجھ کو تمام بادشاہوں پر بلند کیا اور آپ نے میرے سر پر سینگ کیے جس سے میں بادشاہتوں کو دھکیل دیتا ہوں

The History of Alexander the Great,  Being the Syriac Version of the Pseudo-Callisthenes,

Volume 1″,page 146, The University Press, 1889.  By Ernest A. Wallis Budge

یہاں والس ایک نوٹ لگاتے ہیں

wallis-note

دو سینگوں والا ایک مشھور لقب ہے سکندر کا اتھوپیا کے مسودہ میں ہے …. دو سینگ – قرآن سوره 18 – کچھ کہتے ہیں کہ قرآن میں اس سے مراد سکندر ہے جبکہ دوسرے کہتے ہیں ابراہیم کا ہم عصر ہے جو فارس کا بادشاہ تھا اور کچھ یمن کے بادشاہ کو کہتے ہیں

حکایت کے مطابق سکندر  مصر کے لوہاروں کو لیتا ہے اور عراق سے ہوتا ہوا ارمنینا تک جاتا ہے اور وہاں ایک ایسے مقام تک پہنچ جاتا ہے جس کے قریب جنت ہے اور وہ سمندر، جھیل اور نہروں میں گھری ہے

wallis-2

اے بادشاہ ہم اور ہمارے اجداد اس پہاڑ پر نہیں چڑھ پاتے اور یہ ایک سرحد کے طور ہمارے اور دیگر قوموں کے بیچ ہے سکندر نے پوچھا اس پہاڑ کے اندر تم کس قوم کو دیکھتے ہو ؟ بوڑھے نے کہا  “ھن” کو – سکندر نے پوچھا ان کے بادشاہ کون ہیں ؟ بوڑھے نے کہا یاجوج اور ماجوج اور نوال جو جافث کی نسل سے ہیں اور جج اورتیمروں اور تمروں اور یکشفر اور سلگادو اور نسلک اور معرفل اور کوزہ ھن کے شاہ ہیں – سکندر نے پوچھا یہ دیکھنے میں کیسے ہیں کیا پہنتے ہیں کیا بولتے ہیں؟

سریانی میں سکندر کی اس کہانی میں یاجوج ماجوج کو بہت سے بادشاہوں میں سے  چند  بتایا گے ہے جو نہ صرف بائبل کے خلاف ہے بلکہ قرآن  کے بھی خلاف ہے –

 سکندر اپنی فوج سے کہتا ہے

wallis-3

سکندر نے اپنی فوج سے کہا کیا تم سمجھتے ہو ہمیں اس جگہ کوئی عظیم کام کرنا چاہیے ؟ فوج نے کہا جیسا آپ کا حکم سکندر نے کہا ایک دروازہ اس درہ کے بیچ بناؤ جس سے اس کو پاٹ دیں – اور سکندر نے 3 ہزار آدمی اس کام پر لگا دیے اور انہوں نے آٹے کی طرح لوہا اور تانبہ گوندھ دیا جس سے دروازہ بنا ….

والس یہاں نوٹ لکھتے ہیں

wallis-4

یہ گزرگاہ یا درہ وہی ہے .. جس کو ترک

 Demir Kapija

کہتے تھے  –

 دمیر کاپیا کا مطلب ہے آہنی دروازہ –

Demir Kapija

میسی ڈونیا (مقدونیہ) کے علاقے میں ایک جگہ کا نام ہے نہ کہ ارمنینا میں

بحر الحال اس کتاب کے قصے سے  بعض مستشرقین  کو اشتباہ ہوا کہ یہ وہی دیوار ہے جس کا قرآن میں  ذی القرنین کے قصے میں ذکر ہے

سفرنامہ سکندر پر کتاب کا  ایک دوسرا نسخہ بھی ہے جو ارمیننا کی زبان کا ہے

THE ROMANCE OF ALEXANDER THE GREAT BY PSEUDO-CALLISTHENES

Translated from the Armenian Version  with an Introduction by

Albert Mugrdich Wolohojian

COLUMBIA UNIVERSITY PRESS New York and London 1969

دوسرا  نسخہ میں جو ارمنینا کا ہے اس میں سرے سے اس   دیوار کے قصے کا ذکر ہی نہیں کہ سکندر نے آرمینا میں کچھ بنوایا بھی تھا یا نہیں – اس کے علاوہ یاجوج و ماجوج کا ذکر بھی نہیں ہے

لاطینی سیاح مارکو پولو کے بقول انہوں نے بھی سد سکندری

Rampart of Alexander

کو دیکھا

The Travels of Marco Polo: The Complete Yule-Cordier Edition By Marco Polo, Sir Henry Yule, Henri Cordier

ہینری کوردئر اس پر تبصرہ کرتے ہیں  کہ یہ مفروضہ کہ تاتار ، یاجوج و ماجوج ہیں ، سد سکندری  کو دیوار چین سے ملانے کا سبب بنا – یعنی مارکو پولو دیوار چین کو سد سکندری سمجھ بیٹھا

لیکن وہاں ایک اور دلچسپ حوالہ دیتے ہیں

henry-marco-1

ریکولڈ مونٹکرو دو دلیل دیتے ہیں جس سے یہود  کو تاتاریوں سے ملایا گیا ہے جن کو سکندر نے دیوار سے بند کیا ایک یہ کہ تاتاری سکندر کے نام سے ہی نفرت کرتے ہیں اور وہ اس کو سن نہیں سکتے اور دوسرا یہ کہ ان کی تحریر بابل جیسی ہے جو سریانی کی طرح ہے  لیکن وہ کہتے ہیں کہ یہود کی اس سے کوئی مماثلت نہیں ہے اور ان کو شریعت کا پتا نہیں ہے

پس ظاہر ہوا کہ  جان بوجھ کر اتھوپیا کے عیسائیوں  نے یہود کی مخالفت میں اس کتاب

THE ROMANCE OF ALEXANDER THE GREAT BY PSEUDO-CALLISTHENES

کو گھڑا

اسلام سے قبل  عیسائیوں اور یہود میں بنتی نہیں تھی – اس دور چپقلش میں عیسائیوں  نے یہ کتاب گھڑی جس میں اپنی  مذہبی آراء کو یہود کے خلاف استمعال کیا – اس کے لئے انہوں نے سکندر کا کردار چنا – وجہ یہ تھی کہ یہود بابل کے غلام تھے پھر فارس  نے بابل پر قبضہ کیا اور یہود کو واپس یروشلم جانے کی اجازت دی یہود نے اپنی حکومت وہاں بنا لی لیکن سکندر کے بعد یونانیوں نے یہود کو غلام بنا لیا- یہود میں اس پر یونان  مخالف جذبات پیدا ہوئے اور وہ فارس کی طرف دیکھتے کہ کوئی ائے اور ان کو بچائے –

عیسیٰ علیہ السلام کے بعد یہود اور نصاری میں خوب جگھڑے ہوئے اور بالاخر عیسائیوں  نے یہود کے مخالف کے طور پر سکندر کے اوپر ایک فرضی داستان گھڑی – سکندر ایک بت پرست مشرک تھا لیکن عیسائیوں  نے اس کو کہانی میں الہ پرست   قرار دیا – اس کو مسیح کا منتظر دکھایا جو یروشلم کو مسیح کے حوالے کرے اور یہود کا مذاق اڑایا کہ سکندر نے  ایک  دیوار بنا کر ان وحشی یہود کو باقی دنیا سے الگ کر دیا

واضح رہے کہ بائبل کی کتاب  حزقی ایل کی کتاب کے مطابق یاجوج ایک شخص ہے اور ماجوج قوم ہے – لیکن عیسائیوں  نے ارمیننا کے “ھن” قوم کے  بادشاہوں میں ماجوج کو بھی ایک بادشاہ قرار دے دیا اس طرح یاجوج و ماجوج قوموں کی بجائے بادشاہوں کے نام بنا دیے- اتھوپیا کے عیسائیوں  نے سکندر کو ایک افریقی گینڈے کی طرح تشبیہ دی جو اپنے سینگوں سے مخالف حکومتوں کو دھکیلتا ہے-

نزول قرآن کے دور میں  یہود بھی یہی کہتے ہونگے کہ ذو القرنین سکندر نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہود کو بخوبی پتا تھا کہ سکندر کا یاجوج ماجوج سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ جب سکندر پیدا بھی نہیں ہوا تھا حزقی ایل جو بابل میں غلام تھے وہ یاجوج ماجوج کا تذکرہ اپنی کتاب میں کر چکے تھے – تاریخ کے مطابق  سکندر کے یہود سے اچھے تعلقات تھے یہاں تک کہ یہود نے اس کی اجازت سے کوہ گزیرم پر موجود یروشلم مخالف  سامرہ کے یہودیوں کی عبادت گاہ کو مسمار کیا اور وہاں موجود   اس فرقے کا قتل عام کیا – گویا سکندر یروشلم پہنچ کر مسیحا کے لئے گدی چھوڑنے کی بجائے خود یہود سے دوستی کر چکا تھا – عیسائیوں  کا  اس کتاب کو گھڑنا یہود کے لئے نہ تھا بلکہ وہ اپنے ہی ہم مسلک عیسائیوں  کو جھوٹی کہانیاں سنا کر تسلیاں دے رہے تھے

اب  اس سوال کی طرف  توجہ کرتے ہیں کہ ذوالقرنین کس دور میں گذرا- بابل کی غلامی کے دور میں یہود اس کی شخصیت سے واقف ہوئے جب نہ کورش تھا ن سکندر لہذا یہ  ان دونوں سے قبل گزرنے والی کوئی شخصیت ہے-

قدیم مورخین کے مطابق ذو القرنین  افریدوں

Fereydun

Faridon

Fereydoun

ہے جس کا ذکر قدیم فارس کی

Proto- Iranian

داستانوں میں ہے یعنی یہ ایک ایسی شخصیت ہے جو تاریخ لکھے جانے سے پہلے کا دور ہے یہی وجہ ہے کہ اس پر معلومات کم تھیں اور یہود و نصاری میں اس شخصیت پر جھگڑا تھا کہ کون ہے

فریدوں کی ایک تصویر ١٩ صدی میں بنائی گئی جس میں اس کے ہاتھ میں عصآ ہے جس پر دو سینگ ہیں

https://en.wikipedia.org/wiki/Fereydun

 یقینا مصور کے پاس اس پر کوئی معلومات تھیں جس کی بنا پر افریدوں کو دو سینگوں کے ساتھ دکھایا گیا

اس سب تفصیل کو بٹاتے کا مقصد ہے کہ بعض مستشرقین  نے اس مذکورہ کتاب کو قرآن کی سوره الکھف کا منبع قرار دیا اور ثابت کرنے کی کوشش کی کہ گویا ذو القرنین کا قصہ اصلا اس کتاب کا سرقه ہے

http://wikiislam.net/wiki/Dhul-Qarnayn_and_the_Alexander_Romance#Early_Jewish_Legends

سوره کہف ، حکایات سکندر  سے گھڑنے کی بات کس قدر احمقانہ ہے اس کا اندازہ اسی سے ہو جاتا ہے خود اہل کتاب   نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے ذو القرنین پر سوال کیا تھا – انکو عیسائیوں  کی یہود مخالف تحاریر کا بھی علم تھا اور اگر مذکورہ بالا  سکندر پر کتاب اس وقت  موجود تھی تو یقینا اس کا بھی یہود و نصاری کو  علم ہو گا

اول  قرآن نے یاجوج ماجوج کو قوم قرار دیا نہ کہ بادشاہ

دوم قرآن نے یاجوج ماجوج کو یہود قرار نہیں دیا

سوم ذو القرنین کو سکندر نہیں کہا حالانکہ  سکندر جیسا مشہور حاکم  قرار دینا نہایت آسان تھا

واللہ اعلم

حمورابی کوڈ اور توریت

کیا  توریت کے  احکام اصلا حمورابی  کے احکام کا چربہ ہیں ؟ بعض لوگ کہتے ہیں  موسی علیہ السلام  ایک فرضی کردار ہے کیونکہ قدیم تاریخ  میں ان کا ذکر نہیں اور آرکیالوجی سے بھی کچھ دریافت نہیں ہوا

جواب

حمورابی  نے میسوپوتما یا بابل  پر ١٧٩٢ سے ١٧٥٠  تک ٤٢ سال  حکومت کی یعنی عیسیٰ سے 18 صدیوں پہلے- حمورابی کے ٣٥٠ سال بعد پیدا ہونے والے بنی اسرائیلی نبی موسی علیہ السلام  یہودی روایات کے مطابق  ١٣٩٣ ق م میں پیدا ہوئے اور ١٢٧٣ ق م میں وفات پا گئے

حمورابی کوڈ ٣٠٠ قوانین پر مشتمل  ایک تحریر ہے جو  ستون پر درج  ہے جس کے تین مختلف ٹکڑے تھے ان hamurabiCodeکو سوس ایران  کے شہر سے فرانسیسی محققین نے دریافت کیا – ستون پر حمورابی بابلی  خدائے سما و ارض شمس کے سامنے ہاتھ باندہے کھڑا ہے اور احکام لے رہا ہے –

 حمورابی کا کوڈ بابلی عقیدے کے مطابق خدا شمس کا عطا کردہ ہے نہ کہ حمورابی کی ذاتی کاوش لہذا یہ بابل کا الہامیادب ہے –  توریت کے احکام الله تعالی یا یہوی کے عطا کردہ ہیں – بعض احکام میں مماثلت ہے مثلا

حمورابی کوڈ توریت کے احکام 
 ١٢٩ اور ١٤ زنا اور اغوا  خروج باب ٢١ آیت ١٠ ، لاوی باب ٢٠  آیت ١٦
١٩٦ آنکھ کے بدلے آنکھ لاوی باب ٢١ آیات ٢٣ تا ٢٥
٢٠٦ خروج باب ٢١ آیت  ١٨ تا ١٩

شروع میں کہا گیا کہ  توریت حمورابی کے قوانین کا ایک چربہ ہے لیکن اب اس   تھیوری کو رد کر دیا گیا ہے اس کی وجہ ہے تین چار کے علاوہ حمورابی کوڈ میں سخت سزایں  توریت سے زیادہ ہیں مثلا   چوری کی سزا ١٠  سے ٣٠ گنا مال واپس دینا بصورت دیگر قتل ہے- توریت میں ایسا نہیں ہے – اس میں سخت قوانین ہیں لیکن حمورابی  کوڈ اس سے بھی سخت ہے

جو چیز ایک دور میں قبولیت عامہ اختیار کر لے اس کو معروف کہا جاتا ہے اور ابراہیمی ادیان میں اسی معروف پر بھی عمل ہوتا ہے اور یہی قانونی شکل لیتا ہے – حمورابی کوڈ یا توریت ایک ایسے دور میں ہیں جن میں معاشروں کی بقا کے لئے سخت قوانین کو اپنانا ضروری تھا اور یہی اس دور میں انسانی ذہن کے لئے قابل قبول تھا – ملحدین کہہ سکتے ہیں کہ موسی کو دشت میں بنی اسرائیل پر کنٹرول کے لئے سخت قوانین درکار تھے لیکن بابل  کے کشادہ و فارغ البال  ملک میں اس قسم کے سخت احکام کیوں  لگائے گئے ؟ اس کے جواب میں یہی مضمر ہے کہ اس دور میں قبولیت عامہ اسی جیسے قواینن کو تھی  لہذا چند قوانین میں مماثلت اصلا نقل یا سرقه نہیں

موسی علیہ السلام پر فراعنہ مصر کی تحریریں خاموش ہیں-  نہ کتبوں پر کچھ ملا نہ تابوتوں پر نہ دیواروں پر نہ کھنڈرووں میں ان کے بارے میں کچھ ملا – ایسا کیوں ہوا ؟ اس کا جواب ہے کہ  موسی ایک فرد ہیں اور فرعونوں کے خاندان سے نہیں – کیا فراعنہ مصر کے علاوہ  کسی اور شخصیت کا ذکر  ملا؟  نہیں ملا – کیونکہ بادشاہتوں میں رویل فیملی ہی کی اہمیت ہوتی ہے اور مخالفین کا ذکر نہیں ہوتا الا یہ کہ وہ کوئی مشھور بادشاہ ہو- موسی علیہ السلام ایک غریب و غلام قوم کے شخص تھے  ان کا نام و نسب فرآعنہ مصر کیوں لکھواتے؟  کہا جاتا ہے  یونانی مورخ ہیروڈوٹس

Herodotus

  جو تاریخ مصر میں طاق تھے انہوں بھی موسی کا ذکر نہیں کیا- لیکن کیا ہیروڈوٹس   جو ٤٨٤ ق م میں پیدا ہوئے کیا تمام مصر کی تاریخ لکھ گئے یا صرف اپنے زمانے کی ہی لکھ پائے اور ان یونانی مورخین نے جو تاریخی غلطیاں کی ہیں ان کا ذکر ہم کیوں بھول جاتے ہیں ؟ ہیروڈوٹس کو جھوٹ کا باپ بھی کہا جاتا ہے – اس کے بقول ایران میں لومڑی کے سائز کی چونٹی ہوتی ہے جو سونا  پھیلاتی ہیں جب زمین میں سوراخ کرتی ہیں تاریخ کتاب 3 اقتباس ١٠٢  تا ١٠٥ – اسی قسم  کے  قول  کو مفسرین نے سوره  النمل میں سلیمان علیہ السلام سے کلام کرنے والی چیونٹی کی  تفسیر  کے لئے استمعال کیا (ابن کثیر تفسیر میں لکھتے ہیں أَوْرَدَ ابْنُ عَسَاكِرَ مِنْ طَرِيقِ إِسْحَاقَ بْنِ بِشْرٍ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنِ الْحَسَنِ أَنَّ اسْمَ هَذِهِ النَّمْلَةِ حَرَسُ، وَأَنَّهَا مِنْ قَبِيلَةٍ يُقَالُ لَهُمْ بَنُو الشَّيْصَانِ، وأنها كانت عرجاء، وكانت بقدر الذئب ابن عساکر نے اسحاق بن بشر عن سعید عن قتادہ عن حسن کی سند سے روایت کیا ہے کہ وہ چیونٹی لومڑی کے سائز کی تھی- یہ ابن کثیر کی غلطی ہے کیونکہ اس کی سند میں اسحاق بن بشر ہے جو قصہ گو ہے اور ضعیف ہے بلکہ محدثین کہتے ہیں موضوعآت بیان کرتا ہے)–  بابل اور مصر کے حوالے سے موصوف نے کافی زمین و آسمان کے قلابے ملائے اور ارکیلوجی سے ثابت ہوا کہ یہ سب فرضی قصے تھے – لق و دق  میسوپوتما کے شہروں کو ٹروپیکل جزیروں کی شکل میں پیش کرنا انہی کا فن تھا – بحر الحال قصہ مختصر بندر کی بلا طویلے کے سر کا مقولہ مشھور ہے –

pyramids

آرکیالوجی سے ثابت ہو چکا ہے کہ مصر میں غلامی زوروں پر تھی اور تقریبا تمام دنیا میں ہی غلامی تھی – بعض عرب مفکروں مثلا دکتور نديم عبد الشافى السيار نے یہ شوشہ چھوڑا کہ مصر میں بنی اسرائیل غلام نہیں تھے اور قدماء فراعنہ مصر موحد تھے –  مصر پر تحقیق کرنے والے مغربی محققین کے خیال میں صرف ایک فرعون بنام اخناتوں

Akhenaten

میں اس عقیدے کا اثر تھا اس کی موت کے بعد اس کی تصویریں مقابر و مندروں میں توڑی گئیں اور اس کی توحید یہ تھی کہ صرف  اتان  دیوتا کی پوجا ہو – اس سے پہلے اوربعد میں کسی فرعون کے لئے یہ عقیدہ نہیں ملتا-  الغرض اگر کسی ممی کے سر کی ہڈی پردراڑ ہو تو محققین اس پر پوری قتل کی کہانی بنا دیتے ہیں اور یہ مصر پر تحقیق کا انداز ہے اس میں کوئی چیز حتمی نہیں ہے بلکہ تھیوری ہے – ایک نشان سے رائی کا پربت بنا دیا جاتا ہے- قدیم تاریخ لکھنے سے بھی پہلے کی باتیں ثابت نہ ہوں تو ان کا انکار نہیں کیا جا سکتا – دوم جتنی بھی قدیم تاریخیں ہیں  وہ سب بائبل سے لی گئی ہیں زمین کی عمر یہود کے مطابق ٦٠٠٠ سال کے قریب  ہے  لہذآ جو بھی واقعہ قدیم دور کا بتایا جاتا ہے وہ اسی مدت کے اندر کا ہی ہوتا ہے اس کی وجہ ہے کہ مغربی محققین چاہے ملحد ہوں یا لا دین یا بے دین یا عقیدہ رکھنے والے ان  کے پاس قدیم تحریروں میں بائبل ہی ایک ذریعہ ہے جس سے  یہ تمام تواریخ مقرر کی گئی ہیں- لہذا  جملہ معترضہ کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ کیا انصاف ہے کہ بائبل کے نام نہاد مصنف موسی   کو فرضی کہا جائے اور ان کی کتاب سے قدیم تاریخ مقرر کی جاتی ہے- قدیم مصر کی تواریخ

Manetho

سے منسوب ہے جو 3 قبل مسیح کا ایک مصری پروہیت  تھا اور کہا جاتا ہے  فراعنہ مصر کے دین پر تھا – اس دور میں آرکیالوجی نہیں تھی لیکن اس کی مقرر کردہ تاریخ میں کھینچ تان کر کے اس کو ایسے پیش کیا جاتا ہے جیسے یہ ایک مستند ذریعہ ہو- کہنے کا مقصد ہے جس چیز میں خود جھول ہو اس کی بنیاد پر الہامی کتب کو رد کرنا سفیہانہ عمل ہے