Category Archives: سحر – Occult Sciences

لکیریں ، علم رمل اور محدثین

صحیح مسلم میں ہے

ابوجعفر، محمد بن صباح، ابوبکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن ابراہیم، حجاج صواف، یحیی بن ابی کثیر، ہلال بن ابی میمونہ، عطاء بن یسار، معاویہ ابن حکم سلمی (رض) سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ اسی دوران جماعت میں سے ایک آدمی کو چھینک آئی تو میں نے (یَرحَمُکَ اللہ) کہہ دیا تو لوگوں نے مجھے گھورنا شروع کردیا میں نے کہا کاش کہ میری ماں مجھ پر رو چکی ہوتی تم مجھے کیوں گھور رہے ہو یہ سن کر وہ لوگ اپنی رانوں پر اپنے ہاتھ مارنے لگے پھر جب میں نے دیکھا کہ وہ لوگ مجھے خاموش کرانا چاہتے ہیں تو میں خاموش ہوگیا جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز سے فارغ ہوگئے میرا باپ اور میری ماں آپ (صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم) پر قربان میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے نہ ہی آپ کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہتر کوئی سکھانے والا دیکھا اللہ کی قسم نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے جھڑکا اور نہ ہی مجھے مارا اور نہ ہی مجھے گالی دی پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ نماز میں لوگوں سے باتیں کرنی درست نہیں بلکہ نماز میں تو تسبیح اور تکبیر اور قرآن کی تلاوت کرنی چاہئے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میں نے زمانہ جاہلیت پایا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام کی دولت سے نوازا ہے ہم میں سے کچھ لوگ کاہنوں کے پاس جاتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم ان کے پاس نہ جاؤ میں نے عرض کیا ہم میں سے کچھ لوگ برا شگون لیتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو وہ لوگ اپنیدل میں پاتے ہیں تم اسطرح نہ کرو پھر میں نے عرض کیا ہم میں سے
کچھ لوگ لکیریں کھینچتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انبیا کرام میں سے ایک نبی بھی لکیریں کھیچتے تھے تو جس آدمی کا لکیر کھینچھنا اس کے مطابق ہو وہ صحیح ہے۔

متن میں ہے
كان نبيٌّ من الأنبياء يَخُطُّ، فمَن وافَقَ خطَّه فذاك
نبیوں میں ایک نبی لکیریں کھینچتے تھے پس جس کی لکیر ان کی جیسی ہوئیں تو وہ وہی ہے

یہ روایت صحیح مسلم میں ہے اور اس علم کو علم رمل (ریت  کا علم ) کہا جاتا ہے یعنی علم رمل انبیاء کے علوم میں سے ہے

انگریزی میں اس کو

Geomancy

کہا جاتا ہے

یہاں نبی کو ایک علم دیا گیا ہے جو وہ لکیریں بنا کر حاصل کرتا ہے  اور روایت میں نبی کا تقابل عمل کہانت سے کرایا گیا ہے کہ گزشتہ  انبیاء میں سے کسی کو ایسا علم دیا گیا تھا

لکیروں کا مقصد

لکیر کھینچنے کا مقصد کیا ہے ؟ ظاہر ہے یہ غیب کو جاننا تھا

سنن ابو داود ٣٩٠٧ میں ہے
باب فِي الْخَطِّ وَزَجْرِ الطَّيْرِ باب: رمل اور پرندہ اڑا نے کا بیان ۔

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَوُفٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَيَّانُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ غَيْر مُسَدَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَيَانُ بْنُ الْعَلَاءِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا قَطَنُ بْنُ قَبِيصَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ “الْعِيَافَةُ وَالطِّيَرَةُ وَالطَّرْقُ مِنَ الْجِبْتِ”، ‏‏‏‏‏‏الطَّرْقُ:‏‏‏‏ الزَّجْرُ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعِيَافَةُ:‏‏‏‏ الْخَطُّ.

قبیصہ بن وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: “رمل، بدشگونی اور پرند اڑانا کفر کی رسموں میں سے ہے” پرندوں کو ڈانٹ کر اڑانا طرق ہے، اور «عيافة»  وہ لکیریں ہیں جو زمین پر کھینچی جاتی ہیں جسے رمل کہتے ہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ بَشَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عَوْفٌ:‏‏‏‏ “الْعِيَافَةُ زَجْرُ الطَّيْرِ وَالطَّرْقُ الْخَطُّ يُخَطُّ فِي الْأَرْضِ”. عوف کہتے ہیں «عيافة» سے مراد پرندہ اڑانا ہے اور «طرق» سے مراد وہ لکیریں ہیں جو زمین پر کھینچی جاتی ہیں (اور جسے رمل کہتے ہیں)

نبی کون تھے ؟

محمد بن إسماعيل بن صلاح كأسلافه بالأمير (المتوفى: 1182هـ) نے میں رائے دی ہے

كان نبي من الأنبياء إدريس أو دانيال أو خالد بن سنان.
یہ نبی یا تو ادریس تھے یا دانیال یا خالد بن سنان

شروحات

قال القاضي: أي يضرب خطوطاً كخطوط الرمل فيعرف الأحوال
قاضی عیاض نے کہا وہ لکیر کھینچتے رمل کے جیسے تاکہ احوال جان سکیں

قال الزمخشري (2): كانت العرب تأخذ خشبة وتخط خطوطاً كثيرة على عجل كي يلحقها العدد وتمحوا خطين فإن بقى زوج فهو علامة النجاح أو فرد فعلامة الخيبة
زمخشری کا قول ہے کہ عرب لکڑی لیتے اور ان سے گائے پر لکیر لگاتے بہت سی لکیریں لگاتے جن میں عدد ہوتے اگر وہ بچ جاتی تی یہ نجات کی علامت ہوتی اور نہیں بچتی تو یہ مصیبت کی

مطالع الأنوار على صحاح الآثار از ابن قرقول (المتوفى: 569هـ) میں ہے
وقوله: “كَانَ نَبِيٌّ مِنَ الأنْبِيَاءِ يَخُطُّ” (6) فسروه بخط الرمل للحساب ومعرفة ما يدل عليه.
رسول کا قول کہ نبیوں میں ایک نبی کی لکیر پس تفسیر کی کہ خط رمل کی حساب اور اس علم کی دلیل کی و معرفت کے طور پر

شَرْحُ صَحِيح مُسْلِمِ میں قاضی عياض نے لکھا ہے
وقال ابن عباس فى تفسير هذا الحديث : هو الخط الذى يخطه الحازى وهو علم قد تركه الناس
ابن عباس نے اس حدیث کی تفسیر کی ہے کہ یہ خط وہ ہے جو الحازى لگاتا ہے اور یہ علم لوگوں نے ترک کر دیا ہے

لسان العرب میں الحازى پر ہے
هو الذى ينظر فى الأعضاء وفى خيلان الوجه يتكهَّن ويقدر الأشياء بظنه
الحازى وہ ہے جو الأعضاء کو دیکھے … اور اس پر کہانت کرے

سیوطی کا قول ہے
وَمنا رجال يخطون كَانَ نَبِي من الْأَنْبِيَاء يخط فَمن وَافق فَذَاك قَالَ النَّوَوِيّ الصَّحِيح أَن مَعْنَاهُ من وَافق خطه فَهُوَ مُبَاح لَهُ وَلَكِن لَا طَرِيق لنا إِلَى الْعلم اليقيني بالموافقة فَلَا يُبَاح
نووی نے کہا کہ اس حدیث کا صحیح مطلب ہے کہ جس کی لکیر ان نبی جیسی ہوئی تو وہ مباح عمل ہے لیکن ہمارے پاس علم یقینی نہیں ہے کہ کہہ سکیں کہ لکیر مواقفت کر گئی ہے

ابن قیم یا العظيم آبادي کا عون المعبود شرح سنن أبي داود میں قول ہے
وَإِنَّمَا قَالَ النبي فَمَنْ وَافَقَ خَطَّهُ فَذَاكَ وَلَمْ يَقُلْ هُوَ حَرَامٌ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس کی لکیر ان نبی سے موافقت کر گئی پس آپ نے اس کو حرام قرار نہیں دیا

  راقم  کے سوالات ہیں

کیا علم غیب اکتسابی علم ہے ؟ کوئی نبی سکھا سکتا ہے ؟ لکیروں سے حاصل ہو سکتا ہے ؟

اس روایت میں اشارتا بیان کیا گیا  ہے کہ علم غیب کوئی اکتسابی علم ہے جو لکیروں کو بنانے سے حاصل ہو سکتا ہے اس بنا پر روایت اور اس کی یہ تشریحات قابل قبول نہیں ہیں

اسناد دین ہیں

اس روایت کی دو سندیں ہیں – ایک سند میں مدلس يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ کا عنعنہ ہے

يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ يَسَارٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ السَّلَمِيِّ،

دوسری سند امام مسلم نے دی
حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي لَبِيدٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” كَانَ نَبِيٌّ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ يَخُطُّ، فَمَنْ وَافَقَ عِلْمَهُ، فَهُوَ عِلْمُهُ “

رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نے فرمایا نبیوں میں ایک نبی تھے جس کی لکیر ان کی جیسی ہوئی پس اس نے ان کے علم کی موافقت کی اور وہ جان لے گے
اس سند میں عبد الله بن أبي لبید ہے – اس کا ذکر امام بخاری نے اپنی کتاب ، الضعفاء الصغير میں کیا ہے اور لکھا ہے کہ اس کا جنازہ تک صَفْوَان بن سليم المتوفی 132ھ نے نہیں پڑھا
وَقَالَ الدَّرَاورْدِي لم يشْهد صَفْوَان بن سليم جنَازَته وَهُوَ مُحْتَمل

راقم کہتا ہے ایک سند میں مدلس کا عنعنہ ہے اور دوسری سند میں مختلف فیہ راوی ہے لہذا اس کو رد کرنا مناسب ہے

ابن صیاد کا دل کا حال جاننا

اسلامی تاریخ میں اتا ہے کہ مدینہ میں دور نبوی میں ایک عورت نے بچے کو جنا جو پیدائشی کانا تھا (مسند احمد) – یہ بچہ مسلمانوں کے بچوں کے ساتھ کھیلتا تھا اور کسی حدیث میں نہیں کہ مسلمانوں نے اپنے بچوں کو اس سے ملنے سے منع کر دیا ہو- ابن صیاد یا ابْنِ صَائِدٍ کے حوالے سے  مسائل اس وقت پیدا ہوئے جب بچپن میں ہی اس کا امر مشتبہ ہوا اور اس نے اپنے اوپر القا ہونے کا دعوی بھی کر دیا – اس طرح دجال کی جو نشانیاں تھیں ان میں سے چند اس میں جمع ہونا شروع ہوئیں – اس کی والدہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئیں اور عرض کی کہ آ کر اس کے بیٹے کا معائینہ کریں – اس لئے رسول الله صلی الله علیہ وسلم ابن صیاد کے گھر گئے اور اس سے سوال و جواب کیا – صحیح بخاری و مسلم  میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : تو کیا دیکھتا ہے؟
ابن صیاد : میں سمندر پر عرش دیکھتا ہوں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : وہ ابلیس کا عرش ہے
ابن صیاد : میرے پاس ایک سچا اور ایک جھوٹا اتا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : تیرا معامله مختلط (مشکوک ) ہو گیا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : میں نے تیرے لئے کچھ چھپایا ہے
ابن صیاد : وہ الدخ، الدخ ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ہٹ – تو اس پر قدرت نہیں رکھتا

نوٹ : صحیح بخاری کی کسی حدیث میں موجود نہیں کہ اس وقت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ الدخان کا سوچا البتہ یہ بات بعض دیگر کتب حدیث میں ہے

شارحین کا اس الدخ (دھواں) پر جو کہنا ہے اس کی تلخیص صحیح ابن حبان کی تعلیق میں شعيب الأرنؤوط نے پیش کی ہے

قال النووي في شرح مسلم 18/49: الجمهور على أن المراد بالدخ هنا: الدخان، وأنها لغة فيه، وخالفهم الخطابي، فقال: لا معنى للدخان هنا، لأنه ليس مما يخبأ في كف أو كم كما قال، بل الدخ بيت موجود بين النخيل والبساتين، قال: إلا أن يكون معنى “خبأت”: أضمرت لك اسم الدخان وهي قوله تعالى: {فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين} قال القاضي: قال الداودي: وقيا: كانت سورة الدخان مكتوبة في يده صلى الله عليه وسلم، وقيل: كتب الآية في يده.قال القاضي: وأصح الأقوال أنه لم يهتد من الآية التي أضمر النبي صلى الله عليه وسلم إلا لهذا اللفظ الناقص على عادة الكهان

نووی نے شرح مسلم میں کہا جمہور کہتے ہیں کہ ابن صیاد کی دخ سے مراد یہاں ہے الدخان ہے اور یہ لغت ہے لیکن خطابی نے مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ دخان یہاں مطلب نہیں ہے کیونکہ یہ وہ نہیں جس کو مٹھی میں چھپایا جا سکے بلکہ گھر میں دھواں موجود تھا جو کھجور وں اور باغ کے بیچ میں تھا (یعنی دھواں پھیلا ہوا تھا )– نووی نے کہا خبأت (چھپانے ) میں مضمر ہے کہ نام الدخان تھا اور یہ اللہ کا قول ہے {فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين}- قاضی نے کہا الدوادی نے کہا سورہ الدخان اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر لکھی ہوئی تھی اور کہا گیا اپنے ہاتھ سے آیات لکھی تھیں – قاضی نے کہا ان اقوال میں صحیح یہ ہے کہ ابن صیاد کو ہدایت نہ ہوئی کہ اس آیت تک جاتا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوچی تھی سوائے کاہنوں کی طرح ایک لفظ ناقص کے

راقم کہتا ہے کہ یہ بات صحیح بخاری میں موجود نہیں کہ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ الدخان سوچی تھی – یہ راقم کے نزدیک امام معمر بن راشد کا ادراج ہے کیونکہ یہ روایت اعمش کی سند سے اور امام الزہری کے دیگر شاگردوں کی سند سے معلوم ہے – انہوں نے سورہ الدخان کا ذکر نہیں کیا ہے – اس لئے خطابی کا قول صحیح ہے ابن صیاد نے صرف اٹکل سے کام لیا دیکھا اس وقت دھواں پھیلا ہوا ہے تو فورا وہی بول دیا کہ شاید اسی چیز کا خیال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کر رہے ہوں – و اللہ اعلم

مسند البزار اور معجم کبیر از طبرانی میں ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَامِرٍ الْأَنْطَاكِيُّ، قَالَ: نا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَابِقٍ، قَالَ: نا زِيَادُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ فُرَاتٍ الْقَزَّازُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ فُرَاتٍ الْقَزَّازِ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ [ص:169] حَارِثَةَ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِبَعْضِ أَصْحَابِهِ: «انْطَلِقْ» فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَصْحَابُهُ مَعَهُ حَتَّى دَخَلُوا بَيْنَ حَائِطَيْنِ فِي زُقَاقٍ طَوِيلٍ، فَلَمَّا انْتَهَوْا إِلَى الدَّارِ إِذَا امْرَأَةٌ قَاعِدَةٌ، وَإِذَا قِرْبَةٌ عَظِيمَةٌ مَلْأَى مَاءً، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَرَى قِرْبَةً وَلَا أَرَى حَامِلَهَا» فَأَشَارَتِ الْمَرْأَةُ إِلَى قَطِيفَةٍ فِي ناحِيَةِ الدَّارِ، فَقَامُوا إِلَى الْقَطِيفَةِ، فَكَشَفُوهَا فَإِذَا تَحْتَهَا إِنْسَانٌ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «شَاهَ الْوَجْهُ» ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، لِمَ تَفْحَشُ عَلَيَّ؟، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنِّي قَدْ خَبَأْتُ لَكَ خَبْئًا، فَأَخْبِرْنِي مَا هُوَ» ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ خَبَأَ لَهُ سُورَةَ الدُّخَانِ، فَقَالَ: «الدُّخُّ» ، فَقَالَ: اخْسَهْ، مَا شَاءَ اللَّهُ كَانَ “، ثُمَّ انْصَرَفَ وَهَذَا الْحَدِيثُ قَدْ رَوَى بَعْضَهُ أَبُو الطُّفَيْلِ نَفْسُهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذَكَرَهُ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ
اس سند میں معمر نہیں ہے لیکن متن میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ الدخان سوچی
یہ سند ضعیف ہے – سند میں زياد بن الحسن بن فرات القزاز التميمى الكوفى منکر الحدیث ہے –

معجم الاوسط از طبرانی میں اسی سند سے ہے
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الرَّازِيُّ قَالَ: نا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عِيسَى التَّنُوخِيُّ قَالَ: نا زِيَادُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ فُرَاتٍ الْقَزَّازُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ الْفُرَاتِ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ قَالَ: كُنْتُ غُلَامًا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ: «انْطَلِقُوا بِنَا إِلَى إِنْسَانٍ قَدْ رَأَيْنَا شَأْنَهُ» قَالَ: فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَمْشِي وَأَصْحَابُهُ مَعَهُ، حَتَّى دَخَلُوا حَائِطَيْنِ فِي زُقَاقٍ طَوِيلٍ، وَانْتَهَوْا إِلَى بَابٍ صَغِيرٍ، فِي أَقْصَى الزُّقَاقِ، فَدَخَلُوا إِلَى دَارٍ، فَلَمْ يَرَوْا فِي الدَّارِ أَحَدًا غَيْرَ امْرَأَةٍ قَاعِدَةٍ، وَإِذَا قِرْبَةٌ عَظِيمَةٌ مَلْأَى مَاءً، فَقَالُوا: نَرَى قِرْبَةً وَلَا نَرَى حَامِلَهَا، فَكَلَّمُوا الْمَرْأَةَ، فَأَشَارَتْ إِلَى قَطِيفَةٍ فِي نَاحِيَةِ الدَّارِ، فَقَالَتْ: انْظُرُوا مَا تَحْتَ الْقَطِيفَةِ فَكَشَفُوهَا، فَإِذَا تَحْتَهَا إِنْسَانٌ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «شَاهَ الْوَجْهُ» فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، لِمَ تَفْحَشُ عَلَيَّ؟ قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنِّي قَدْ خَبَأْتُ لَكَ خَبْأً، فَأَخْبِرْنِي مَا هُوَ» وَقَالَ لِأَصْحَابِهِ: «إِنِّي قَدْ خَبَّأْتُ لَهُ سُورَةَ الدُّخَانِ» فَقَالَ: سُورَةُ الدُّخَانِ؟ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اخْسَأْ، مَا شَاءَ اللَّهُ كَانَ، ثُمَّ انْصَرَفَ»
اس متن میں ہے کہ ابن صیاد نے سورہ الدخان تک بولا – سند وہی مسند البزار والی ہے

معجم الاوسط میں ہے
حَدَّثَنَا مُعَاذٌ قَالَ: نا عَمْرُو بْنُ سَعِيدٍ الزِّمَّانِيُّ قَالَ: نا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ قَالَ: نا الْحَارِثُ بْنُ حَصِيرَةَ قَالَ: ثَنَا زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ قَالَ: قَالَ أَبُو ذَرٍّ: لَأَنْ أَحْلِفُ عَشْرَةَ أَيْمَانٍ أَنَّ ابْنَ صَائِدٍ هُوَ الدَّجَّالُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَحْلِفَ مَرَّةً أَنَّهُ لَيْسَ بِهِ، وَذَلِكَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَنِي إِلَى أُمِّهِ، فَقَالَ: «سَلْهَا، كَمْ حَمَلَتْ؟» فَسَأَلْتُهَا، فَقَالَتْ: اثْنَيْ عَشَرَ شَهْرًا، فَقَالَ: «سَلْهَا، كَيْفَ كَانَتْ صَيْحَتُهُ حِينَ وَقَعَ؟» قَالَتْ: صَيْحَةَ الصَّبِيِّ ابْنِ شَهْرٍ، وَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنِّي قَدْ خَبَأْتُ لَكَ خَبَأً، فَمَا هُوَ؟» فَقَالَ: عَظْمُ شَاةٍ عَفْرَاءَ، فَجَعَلَ يُرِيدُ يَقُولُ: الدُّخَانُ فَجَعَلَ يَقُولُ: الدُّخَ الدُّخَ، فَقَالَ: «اخْسَأْ، فَإِنَّكَ لَنْ تَسْبِقَ الْقَدَرَ»
لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ الْحَارِثِ إِلَّا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا میں نے ایک چیز چھپائی ہے – ابن صیاد بولا بھیڑ کی سب سے بڑی ہڈی
پس وہ کہنا چاہ رہا تھا الدخان لیکن منہ سے نکلا الدخ – پس نبی نے فرمایا ہٹ پرے تو اس پر قادر نہیں ہے –
سندا اس میں عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ اور الْحَارِثُ بْنُ حَصِيرَةَ بہت مضبوط نہیں ہیں

لب لباب ہے کہ ابن صیاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں موجود سورہ الدخان کے الفاظ میں سے الدخ تک پہنچ گیا منکر روایت ہے – یہ بات صرف معمر بن راشد  کے تفرد کے ساتھ معلوم ہے – دل کے حال کا علم صرف اللہ کو ہے

واللہ علیم بذات الصدور

ابن صیاد کی شادی بھی ہوئی اور اولاد بھی کسی روایت میں نہیں کہ اس کو دجال سمجھتے ہوئے مسلمانوں نے اس کو بیٹی دینے سے انکار کیا بلکہ اس کی اولاد موطا امام مالک میں راوی ہے – عمارة ابن عبد الله ابن صياد اس کے بیٹے ہیں اور مدینہ کے فقہا میں سے ہیں – الإصابة في تمييز الصحابة از ابن حجر کے مطابق وكان من خيار المسلمين من أصحاب سعيد بن المسيّب
ابن صیاد کے بیٹے اچھے مسلمانوں میں سے تھے سعید بن المسیب کے ساتھیوں میں سے – تاریخ زبیر بن بکار کے مطابق عمارة ابن عبد الله ابن صياد خلیفہ الولید بن عبد الملک کے دور تک زندہ تھے یعنی ابن صیاد پر جو بھی شک ہو وہ صرف اس تک محدود تھا
طبقات ابن سعد کے مطابق وغزا مع المسلمين ابن صیاد نے مسلمانوں کے ساتھ جہاد میں حصہ بھی لیا اگر تمام اصحاب رسول اس کو دجال ہی سمجھتے تو بنو امیہ اس کو جہاد میں شامل ہی نہ کرتے

سامری کا مذھب ٢

 قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ سامری دجال نے قوم موسی کو گمراہ کیا ایک بت ایجاد کیا جس میں آواز بھی  آتی تھی –  جب موسی علیہ  السلام نے اس پر سوال کیا تو سامری بولا   (سورہ طہ ٩٦) –

قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَٰلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي

میں نے وہ چیز دیکھی تھی جو دوسروں نے نہ دیکھی پھر میں نے رسول کے نقشِ قدم کی ایک مٹھی مٹی میں لے کر ڈال دی

وہ علماء جو استدراج کے قائل ہیں انہوں نے اس کو نقش قدم   جبریل/موسی    یا جبریل کے گھوڑے  کے   قدم    کی مٹی  کی برکت قرار دیا ہے  – دوسری طرف   وہ علماء  جو   سامری   کی بات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے انہوں نے اس کو محض ایک جھانسہ  قرار دیا ہے اور سامری کی دھوکہ بازی   والی تقریر   اور آواز کا بچھڑے  میں پیدا ہونا  صرف    کوئی   شعبدہ بازی

سامری کا مدعا تھا کہ اس کے عمل  کو کوئی  معجزہ سمجھا جائے کہ اس نے نقش قدم کی مٹی سے  بولنے والا پتلا  خلق کر دیا –  یہاں رسول سے مراد بعض نے جبریل علیہ السلام کو لیا ہے کہ فرشتہ کی برکت سے ایسا ممکن ہوا کہ بچھڑہ بولنے لگا اور بعض نے اس کو موسی علیہ السلام کے قدم کی برکت قرار دیا ہے – اور بعض نے جبریل کے گھوڑے  کا ذکر کیا ہے –

قتادہ بصری کا قول ہے کہ جبریل کے گھوڑے کی برکت سے بچھڑہ بولنے لگا تفسیر طبری میں ہے

حدثنا بشر، قال: ثنا يزيد، قال: ثنا سعيد، عن قتادة (فَكَذَلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُّ) قال: كان الله وقَّت لموسى ثلاثين ليلة ثم أتمها بعشر، فلما مضت الثلاثون قال عدوّ الله السامري: إنما أصابكم الذي أصابكم عقوبة بالحلي الذي كان معكم، فهلموا وكانت حليا تعيروها (1) من آل فرعون، فساروا وهي معهم، فقذفوها إليه، فصوّرها صورة بقرة، وكان قد صرّ في عمامته أو في ثوبه قبضة من أثر فرس جبرائيل، فقذفها مع الحليّ والصورة (فَأَخْرَجَ لَهُمْ عِجْلا جَسَدًا لَهُ خُوَارٌ) فجعل يخور خوار البقر، فقال (هَذَا إِلَهُكُمْ وَإِلَهُ مُوسَى) .

حدثنا الحسن، قال: أخبرنا عبد الرزاق، قال: أخبرنا معمر، عن قتادة، قال: لما استبطأ موسى قومه قال لهم السامريّ: إنما احتبس عليكم لأجل ما عندكم من الحليّ، وكانوا استعاروا حليا من آل فرعون فجمعوه فأعطوه السامريّ فصاغ منه عجلا ثم أخذ القبضة التي قبض من أثر الفرس، فرس الملك، فنبذها في جوفه، فإذا هو عجل جسد له خوار، قالوا: هذا إلهكم وإله موسى، ولكن موسى نسي ربه عندكم.

حدثني أحمد بن يوسف، قال: ثنا القاسم، قال: ثنا هشيم، عن عباد، عن قَتادة مثل ذلك بالصاد بمعنى: أخذت بأصابعي من تراب أثر فرس الرسول

یہ   قتادہ    مدلس کے اقوال  ہیں اور یہ    اس کو کس سے معلوم ہوا خبر نہیں ہے کہ جبریل   کے گھوڑے  کی برکت سے ایسا ہوا

ابن عباس   رضی اللہ عنہ  سے بھی منسوب ہے

حدثنا ابن حميد، قال: ثنا سلمة، قال: ثني محمد بن إسحاق، عن حكيم بن جبير، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال: لما قذفت بنو إسرائيل ما كان معهم من زينة آل فرعون في النار، وتكسرت، ورأى السامري أثر فرس جبرائيل عليه السلام، فأخذ ترابا من أثر حافره، ثم أقبل إلى النار فقذفه فيها، وقال: كن عجلا جسدا له خوار، فكان للبلاء والفتنة.

اس کی سند میں ابن اسحاق مدلس ہے

تفسیر طبری میں  یہ قول  مجاہد کا بھی ہے کہ جبریل کے گھوڑے  کے قدم سے ایسا ہوا

حدثني محمد بن عمرو، قال: ثنا أبو عاصم، قال: ثنا عيسى; وحدثني الحارث قال: ثنا الحسن، قال: ثنا ورقاء جميعا، عن ابن أبي نجيح، عن مجاهد، في قول الله: (فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا) قال: من تحت حافر فرس جبرائيل، نبذه السامريّ على حلية بني إسرائيل، فانسبك عجلا جسدا له خوار، حفيف الريح فيه فهو خواره، والعجل: ولد البقرة

اس کی سند میں      انقطاع ہے –  جامع التحصيل في أحكام المراسيل از العلائي (المتوفى: 761هـ) میں ہے

وقال إبراهيم بن الجنيد قلت ليحيى بن معين أن يحيى بن سعيد يعني القطان يزعم

 أن بن أبي نجيح لم يسمع التفسير من مجاهد وإنما أخذه من القاسم بن أبي برة

امام ابن معین نے کہا کہ یحیی القطان نے دعوی کیا کہ ابن أبي نجيح نے تفسیر مجاہد سے نہیں سنی

مستدرک حاکم میں ہے

حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حَمْشَاذَ الْعَدْلُ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ الْحَارِثِ، ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، أَنْبَأَ إِسْرَائِيلُ، ثنا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عَمْرٍو السَّلُولِيُّ، وَأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: ” لَمَّا تَعَجَّلَ مُوسَى إِلَى رَبِّهِ عَمَدَ السَّامِرِيُّ فَجَمَعَ مَا قَدَرَ عَلَيْهِ مِنَ الْحُلِيِّ، حُلِيِّ بَنِي إِسْرَائِيلَ فَضَرَبَهُ عِجْلًا، ثُمَّ أَلْقَى الْقَبْضَةَ فِي جَوْفِهِ، فَإِذَا هُوَ عِجْلٌ لَهُ خُوَارٌ فَقَالَ لَهُمُ السَّامِرِيُّ: هَذَا إِلَهُكُمْ وَإِلَهُ مُوسَى فَقَالَ لَهُمْ هَارُونُ: يَا قَوْمِ أَلَمْ يَعِدُكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَنًا. فَلَمَّا أَنْ رَجَعَ مُوسَى إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ وَقَدْ أَضَلَّهُمُ السَّامِرِيُّ أَخَذَ بِرَأْسِ أَخِيهِ فَقَالَ لَهُ هَارُونُ مَا قَالَ فَقَالَ مُوسَى لِلسَّامِرِيِّ مَا خَطْبُكَ؟ قَالَ السَّامِرِيُّ: قَبَضْتُ قَبْضَةً مِنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي. قَالَ: فَعَمَدَ مُوسَى إِلَى الْعِجْلِ فَوَضَعَ عَلَيْهِ الْمَبَارِدَ فَبَرَدَهُ بِهَا وَهُوَ عَلَى شِفِّ نَهَرٍ، فَمَا شَرِبَ أَحَدٌ مِنْ ذَلِكَ الْمَاءِ مِمَّنْ كَانَ يَعْبُدُ ذَلِكَ الْعِجْلَ إِلَّا اصْفَرَّ وَجْهُهُ مِثْلَ الذَّهَبِ، فَقَالُوا لِمُوسَى: مَا تَوْبَتُنَا؟ قَالَ يَقْتُلُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا. فَأَخَذُوا السَّكَاكِينَ فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَقْتُلُ أَبَاهُ وَأَخَاهُ وَلَا يُبَالِي مَنْ قَتَلَ حَتَّى قُتِلَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ أَلْفًا فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى مُوسَى مُرْهُمْ فَلْيَرْفَعُوا أَيْدِيَهُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لِمَنْ قُتِلَ وَتُبْتُ عَلَى مَنْ بَقِيَ «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخْرِجَاهُ»

[التعليق – من تلخيص الذهبي]

3434 – على شرط البخاري ومسلم

علی  نے کہا  سامری نے مورت بناتے وقت اس کے پیٹ میں مٹھی بھر پھینکا تو بیل بولنے لگا

سند میں  أَبُو إِسْحَاقَ مدلس   نے   عَنْ سے روایت کیا ہے  یہ روایت تدلیس کے احتمال کی وجہ سے صحیح نہیں ہے

اس طرح یہ تمام اقوال لائق التفات نہیں  ہیں –

مستدرک حاکم میں ہے کہ بچھڑے میں آواز ہارون علیہ السلام کی دعا سے پیدا ہوئی

حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ صَفْوَانَ الْجُمَحِيُّ، بِمَكَّةَ فِي دَارِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ثنا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، أَنْبَأَ سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: أَتَى هَارُونُ عَلَى السَّامِرِيِّ وَهُوَ يَصْنَعُ الْعِجْلَ، فَقَالَ لَهُ: مَا تَصْنَعُ؟ قَالَ: مَا يَنْفَعُ وَلَا يَضُرُّ فَقَالَ: اللَّهُمَّ أَعْطِهِ مَا سَأَلَكَ فِي نَفْسِهِ فَلَمَّا ذَهَبَ قَالَ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ أَنْ يَخُورَ فَخَارَ، وَكَانَ إِذَا سَجَدَ خَارَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ خَارَ، وَذَلِكَ بِدَعْوَةِ هَارُونَ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ وَلَمْ يُخْرِجَاهُ “

[التعليق – من تلخيص الذهبي]

3251 – على شرط مسلم

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہارون  ، سامری کے پاس پہنچے تو وہ   بچھڑہ   بنا رہا تھا – پوچھا یہ کیا ہے ؟ سامری بولا  یہ وہ  ہے جو نہ نفع دے گا نہ نقصان – ہارون   علیہ السلام نے دعا کی : اے اللہ  اس کو وہ دے جو اس نے خود مانگا  ہے پس جب جا نے لگے تو کہا : اے  اللہ    میں  سوال کرتا ہوں کہ    یہ   بیل کی آواز   نکالے  جب سجدہ کرے  جب سر اٹھائے  –   اور یہ سب  ہارون کی دعا سے ہوا

راقم  کہتا ہے اس کی سند  میں       سماك بن حرب  ضعیف ہے –  احمد کے نزدیک  مضطرب الحدیث  ہے

سنن الکبری  نسائی،  مسند ابو یعلی ،   میں ایک طویل روایت میں ہے جو ابن عباس سے مروی ہے

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا أَصْبَغُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، أني سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَبَّاسٍ عَنْ قَوْلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ لِمُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ: {وَفَتَنَّاكَ فُتُونًا} [طه: 40]، فَسَأَلْتُهُ عَنِ الْفُتُونِ مَا هُوَ؟ قَالَ: اسْتَأْنِفِ النَّهَارَ يَا ابْنَ جُبَيْرٍ، فَإِنَّ لَهَا حَدِيثًا طَوِيلًا، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ غَدَوْتُ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ لِأَنْتَجِزَ مِنْهُ مَا وَعَدَنِي مِنْ حَدِيثِ الْفُتُونِ، ……….. وَكَانَ السَّامِرِيُّ مِنْ قَوْمٍ يَعْبُدُونَ الْبَقَرَ جِيرَانٍ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ، وَلَمْ يَكُنْ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَاحْتَمَلَ مَعَ مُوسَى وَبَنِي إِسْرَائِيلَ حِينَ احْتَمَلُوا،فَقُضِيَ لَهُ أَنْ رَأَى أَثَرًا فَأَخَذَ مِنْهُ قَبْضَةً، فَمَرَّ بِهَارُونَ، فَقَالَ لَهُ هَارُونُ عَلَيْهِ السَّلَامُ: يَا سَامِرِيِّ، أَلَا تُلْقِي مَا فِي يَدِكَ؟ وَهُوَ قَابِضٌ عَلَيْهِ لَا يَرَاهُ أَحَدٌ طُوَالَ ذَلِكَ، فَقَالَ: هَذِهِ قَبْضَةٌ مِنْ أَثَرِ الرَّسُولِ الَّذِي جَاوَزَ بِكَمُ الْبَحْرَ، فَلَا أُلْقِيهَا بِشَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَدْعُوَ اللهَ إِذَا أَلْقِيْتُ أَنْ يَكُونَ مَا أُرِيدُ، فَأَلْقَاهَا وَدَعَا لَهُ هَارُونُ، فَقَالَ: أُرِيدُ أَنْ تَكُونَ عِجْلًا، فَاجْتَمَعَ مَا كَانَ فِي الْحُفْرَةِ مِنْ مَتَاعٍ أَوْ حِلْيَةٍ أَوْ نُحَاسٍ أَوْ حَدِيدٍ، فَصَارَ عِجْلًا أَجْوَفَ لَيْسَ فِيهِ رَوْحٌ لَهُ خُوَارٌ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَا وَاللهِ، مَا كَانَ لَهُ صَوْتٌ قَطُّ، إِنَّمَا كَانَتِ الرِّيحُ تَدْخُلُ مِنْ دُبُرِهِ وَتَخْرُجُ مِنْ فِيهِ، فَكَانَ ذَلِكَ الصَّوْتُ مِنْ ذَلِكَ

ابن عباس  رضی اللہ عنہ نے کہا : سامری ان میں سے تھا جو بنی اسرائیل کے لئے  گائے کے پجاری تھے مجاور تھا اور یہ خود بنی اسرائیل  کا نہ تھا پس یہ موسی اور بنی اسرائیل کے ساتھ   (خروج مصر   کے وقت )  ہو لیا – پس یہ لکھا تھا کہ وہ نقش قدم کو دیکھے اور سامری نے اس میں سے مٹی لی اور ہارون کا اس کے پاس گذر ہوا تو انہوں نے کہا : اے سامری یہ ہاتھ میں کیا ہے پھینکو ؟ وہ اس کو مٹھی میں پکڑے تھا جس کو کوئی دیکھ نہ سکتا تھا – سامری نے کہا    اس  مٹھی میں نقش رسول ہے جب سمندر پار کیا   تھا  تب  سے میں نے  اس کو نہیں پھینکا ہے  – اس کو میں اللہ سے دعا کر کے پھینکوں گا کہ وہ ہو جائے جو میں چاہ رہا ہوں –  پس  سامری  نے پھینکا اور ہارون نے  اس   کو  دعا دی – (سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ نے پوچھا) سامری نے کہا میں چاہتا ہوں تو  بچھڑہ  کی شکل لے  پس اس  نے جمع کیا جو گڑھے میں (مٹی ) تھی   زیور، دھواں، لوہا  اور بنایا اس سے بچھڑہ جس کے اندر روح نہیں تھی لیکن آواز تھی ؟ ابن عبّاس نے کہا نہیں اللہ کی قسم اس میں آواز بھی نہیں تھی بلکہ ہوا اس کی دبر سے اندر جاتی اور نکلتی تو آواز یہ تھی

سند میں  أصبغ بن زيد ہے جو بقول ابن سعد حدیث میں ضعیف ہے- ابن عدي: له أحاديث غير محفوظة-  دارقطنی نے اس کو ثقہ کہا ہے اس طرح یہ  مختلف فیہ راوی ہے –    اس   روایت میں کئی اقوال کو ملا دیا گیا ہے مثلا   یہ مانا گیا ہے کہ سامری نے واقعی  موسی   علیہ السلام کے  قدم کی مٹی لی – یہ بھی مانا گیا ہے کہ ہارون     علیہ السلام نے دعا دی اور یہ بھی مانا گیا ہے کہ  پتلے میں  آواز کا پیدا ہونا  صرف شعبدہ تھا- اس طرح اس میں تمام اقوال کو جمع کر دیا گیا ہے – البتہ اس راوی  أصبغ بن زيد   کا معلوم ہے کہ یہ کاتب  تھا اور یہ متن   کسی اور سند سے معلوم نہیں ہے لہذا یہ روایت بھی لائق التفات نہیں ہے

قال ابن كثير: وهو موقوف من كلام ابن عباس وليس فيه مرفوع إلا قليل منه، وكأنه تلقاه ابن عباس مما أبيح نقله من الإسرائيليات عن كعب الأحبار أو غيره، وسمعت شيخنا الحافظ أبا الحجاج المزي يقول ذلك أيضاً” التفسير3/ 153

 ابن کثیر نے کہا  یہ کلام ابن عباس پر موقوف ہے اور  اس کا کچھ حصہ مرفوع بھی ہے  مگر بہت تھوڑا –  اور ابن عباس نے  گویا  کہ روایت میں  کعب   الاحبار کی  الإسرائيليات  کو نقل کر دیا ہے اور دوسروں کی  اور ہمارے شیخ  المزی      بھی ایسا ہی کہتے ہیں
بحوالہ أنِيسُ السَّاري في تخريج وَتحقيق الأحاديث التي ذكرها الحَافظ ابن حَجر العسقلاني في فَتح البَاري  از  نبيل بن منصور  البصارة الكويتي

روایات میں ہارون علیہ السلام کا ذکر اسرائیلیات کا اثر ہے کیونکہ یہ بنی اسرائیل کا دعوی ہے کہ بچھڑے یا عجل  کا بت ہارون نے تراشا  – توریت خروج باب ٣٢ میں اس کا   ذکر ہے

 شیعوں کی تفسیر قمی  ،  تفسیر  طبرسی  وغیرہ میں بھی  اس کو قدم    رمکہ   جبریل   یعنی جبریل کے   گھوڑے   کے پیر کی مٹی کی  برکت قرار دیا گیا ہے  جو سامری  نے سمندر پھٹنے   پر     جو   رستہ بنا اس میں سے لی تھی    (من تحت حافر رمكه جبرئيل في البحر فنبذتها يعني أمسكتها فنبذتها في جوف العجل) –  اس قول کی سند   شیعہ  تفسیروں میں موجود  نہیں ہے

راقم کہتا ہے سامری کا یہ قول محض جھانسا دینا ہے – وہ موسی علیہ السلام کو ذہنی رشوت دے رہا ہے کہ گویا ابھی قوم کے سامنے موسی تم میری بات کو اس طرح قبول کر لو     کہ تمہاری برکت سے ایسا ہوا     اور ہم دونوں آپس میں مل جاتے ہیں-موسی علیہ السلام نے اس کو فورا بد دعا دے دی-   حبل اللہ  شمارہ     ٢١        (مدیر  اعظم   خان  ، نائب مدیر  انیس الدین ) میں اسی     کو  سامری   کی نفسیاتی   چا ل    قرار دیا گیا ہے نہ کہ جبریل  علیہ السلام یا موسی یا ہارون علیہما  السلام کا کوئی معجزہ    –

راقم  کہتا ہے   ایک جم غفیر نے  سامری  کے عمل کو موسی  علیہ السلام  یا    جبریل علیہ السلام کے گھوڑے    کے سم کی برکت قرار دیا ہے اور اس کو تابعین و اصحاب رسول کا قول کہہ  کر قبول کیا ہے – اسی گروہ  کے علماء   کا کہنا ہے کہ  کفار کو معجزہ   یا استدراج  من جانب اللہ ملتا ہے –  لیکن جیسا ہم نے دیکھا  یہ نتیجہ جن  روایات کی بنیاد پر   اخذ کیا گیا ہے وہ سندا صحیح نہیں ہیں  اور متن قران میں   بھی  کسی    دھوکہ باز  کے جملے ذکر   ہونے کا  مطلب یہ نہیں ہے وہ حقیقت  حال  ہیں  کیونکہ    جو  دھوکہ باز ہو وہ   دھوکہ دھی  کے لئے کچھ بھی بول سکتا ہے

سامری کا مذھب

قرآن مجید میں قوموں کا ذکر ہے کہ کس طرح انہوں نے شرک کو ترویج دی  – ان میں امت موسی میں ایک بنی اسرائیلی کا ذکر بھی ہے جس کو سامری کہا جاتا ہے  – اس کے بارے میں خبر دی گئی کہ جب موسی جبل طور پر کتاب الله توریت حاصل کرنے گئے اس وقت ہارون کو خلیفہ کر گئے اور سامری نے  فتنہ برپا  کیا اور دعوی کیا کہ اصل رب ایک بچھڑا ہے-اس  کی صنم گری کی گئی اور بنی اسرائیلی عورتوں نے اپنے زیور سامری کو دیے کہ ان کو پگھلا کر اس مورت کو ایجاد کرے – سامری کی صناعی و کاریگری کی بدولت اس مورت کے جسد میں سے بیل کی آواز بھی  انے لگی-یہ آواز سنتے ہی بنی اسرائیلی اس کو رب مان بیٹھے اور سجدوں میں گر گئے-اس سب کا ظاہر ہے کہ اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن   اس پر بات کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ اس کا  تعلق راقم  کے نزدیک دجال سے ہو سکتا ہے

قرآن میں ہے

وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوجِ 

أور برجوں والا آسمان

سورہ الفرقان  میں ہے

تَبَارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَجَعَلَ فِيهَا سِرَاجًا وَقَمَرًا مُنِيرًا

بابرکت ہے جس نے آسمان کو برجوں والا بنایا اور اس میں  چراغ رکھا اور چمکتا چاند

سورہ الحجر میں ہے

 وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَزَيَّنَّاهَا لِلنَّاظِرِينَ

اور بے شک ہم نے آسمان میں بروج بنا دیے اور ان کو دیکھنے والوں کے لئے مزین کر دیا

قرآن میں ہے کہ خود فرعون بھی کئی معبودوں کا قائل تھا   وہ مشرک تھا   سورہ المومن یا غافر میں ہے- رجل مومن نے جب تقریر کی تو کہا تم گمان کرتے تھے کہ  الله یوسف کے بعد کوئی رسول نہ بھیجے گا- اس کا مطلب ہوا کہ فرعون کوالله اور رسالت کا علم تھا لیکن وہ مصر میں جادو گروں کے ذریعہ سیاست کر رہا تھا

وَلَقَدْ جَاءَكُمْ يُوسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا زِلْتُمْ فِي شَكٍّ مِمَّا جَاءَكُمْ بِهِ حَتَّى إِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَنْ يَبْعَثَ اللَّهُ مِنْ بَعْدِهِ رَسُولًا كَذَلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُرْتَابٌ (34)

اور بے شک اس سے قبل یوسف نشانیاں لے کر آیا تم لوگ شک میں رہے جو وہ لایا یہاں تک کہ جب وہ ہلاک ہوا تم نے کہا اب الله یہاں کسی کو رسول بنا کر نہ بھیجے گا اس طرح الله گمراہ کرتا ہے جو حد سے گزر جائے 

معلوم ہوا ال فرعون کو الله کی الوہیت کا علم تھا اور ان کے نزدیک یوسف الله کے ایک نبی تھے

سورہ الاعراف میں ہے

وَقَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوْسٰى وَقَوْمَهٝ لِيُفْسِدُوْا فِى الْاَرْضِ وَيَذَرَكَ وَاٰلِـهَتَكَ ۚ قَالَ سَنُـقَتِّلُ اَبْنَـآءَهُـمْ وَنَسْتَحْيِىْ نِسَآءَهُـمْۚ وَاِنَّا فَوْقَهُـمْ قَاهِرُوْنَ (127 

اور فرعون کی قوم کے سرداروں نے کہا کیا تو موسٰی اور اس کی قوم کو چھوٹ دیتا ہے تاکہ وہ ملک میں فساد کریں اور (موسٰی) تجھے اور تیرے معبودوں کو چھوڑ دے، (فرعون نے) کہا ہم ان کے بیٹوں کو قتل کریں گے اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھیں گے، اور بے شک ہم ان پر غالب ہیں۔

یعنی ال فرعون  الله کے ساتھ ساتھ اس کائنات میں دوسرے معبودوں کا وجود بھی مانتے تھے اور اس کا ذکر سورہ الاعراف میں ہے کہ وہ الله تعالی کو بھی انسانی معملات میں مداخلت کرنے والا سمجھتے تھے

فَاَرْسَلْنَا عَلَيْـهِـمُ الطُّوْفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالـدَّمَ اٰيَاتٍ مُّفَصَّلَاتٍۖ فَاسْتَكْـبَـرُوْا وَكَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِيْنَ (133)
پھر ہم نے ان پر طوفان اور ٹدی اور جوئیں اور مینڈک اور خون یہ سب کھلے کھلے معجزے بھیجے، پھر بھی انہوں نے تکبر ہی کیا اور وہ لوگ گناہگار تھے۔
وَلَمَّا وَقَـعَ عَلَيْـهِـمُ الرِّجْزُ قَالُوْا يَا مُوْسَى ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَكَ ۖ لَئِنْ كَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُـؤْمِنَنَّ لَكَ وَلَنُـرْسِلَنَّ مَعَكَ بَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ (134)
اور جب ان پر کوئی عذاب آتا تو کہتے اے موسٰی! ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کر جس کا اس نے تجھ سے عہد کر رکھا ہے، اگر تو نے ہم سے یہ عذاب دور کر دیا تو بے شک ہم تجھ پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو تیرے ساتھ بھیج دیں گے۔
فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْـهُـمُ الرِّجْزَ اِلٰٓى اَجَلٍ هُـمْ بَالِغُوْهُ اِذَا هُـمْ يَنْكُـثُوْنَ (135)
پھر جب ہم نے ان سے ایک مدت تک عذاب اٹھا لیا کہ انہیں اس مدت تک پہنچنا تھا اس وقت وہ عہد توڑ ڈالتے۔

یعنی ان کے نزدیک موسی و یوسف کا رب بھی زمین کے  معاملات  دیکھ سکتا  تھا اور اسی طرح ان کے اپنے اور معبود بھی

راقم سمجھتا ہے کہ یہ دوسرے معبود ان کے نزدیک آسمان کے برج یا تارے   تھے  انہی برجوں کو مصریوں نے شکلیں دے کر پوجا ہے –  مصری مذھب کے مطابق کائنات  میں ١٢ برج ہیں جو اثر زیادہ رکھتے ہیں اور اس کے علاوہ جو برج ہیں وہ بھی زمیں پر اثر کرتے ہیں

یہ معلومات مصری  مندر داندرہ

Dandera zodiac

سے ملتی ہے  جس کی چھت پر  برج بنے تھے

Dendera Zodiac   in the temple complex Hathor in Dendera.

دندرہ کے مندر میں جو منظر ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ  کائنات کی  ابتداء کے وقت برج سرطان  سے زمین گزری

زمین کا محور ایک دائرے میں گھوم رہا ہے اس کی مدت ٢٥٩٢٠ سال ہے اور یہ مصریوں اور ہندوؤں کے علم میں ہے – ہندو اسی ٢٥٩٢٠ سال کو کئی یگوں میں ٹورتے ہیں اور اس میں بیشتر کے نزدیک ابھی کالی یگ چل رہا ہے- مزید یہ کہ ہندو کہتے ہیں کہ زمین اصل میں سورج کے گرد نہیں کسی اور ستارے کے گرد ایک بیضوی فلک میں  گھوم رہی ہے جس کو سپر سن

Super Sun

کہتے ہیں -ایک برج کی مدت ٢١٦٠ سال ہے جس کو اعیان

Aeon

کہا جاتا ہے -بہر حال زمین کے قطب کو مسلسل نظر میں رکھنے کی وجہ سے  مصری بھی  یہ جانتے تھے کہ قطب   بدل جاتا ہے  ایک دور میں قطب نسر الواقع

Vega

تھا پھر ثعبان

ہوا – ثعبان  تارہ جس برج میں  ہے اس کو مصری ایک عورت و دریائی گھوڑے کی شکل میں بناتے تھے – دندرہ کے مندر میں زوداک میں بیچ میں یہی ہے یعنی جس وقت یہ مندر بنا اس وقت ثعبان  کا تارہ قطب شمالی تھا جس کے گرد زمین گھوم رہی تھی

 آجکل زمین کا  قطب شمالی  کا تارا

Phoenice

  ہے – سفر میں اس کی اہمیت تھی  کیونکہ زمین میں سمت کا تعین اسی سے کیا جاتا تھا

بہر حال دندرہ مندر جو مصر  میں  ہے اس  میں برجوں کی آمد کا جو ذکر ہے اس کے مطابق  برج    زمیں پر اثر کرتا ہے اس کو دور یا

age

کہا جاتا ہے

سامری نے جو یہ سب ایجاد کیا تو اس کے پیچھے کیا فلسفہ چل رہا تھا اس کی رسائی میں معلوم ہوتا ہے کہ اصلا یہ مصریوں کا مذھب تھا اور اہل مصر کے نزدیک آسمان کے رب کئی تھے جو بروج تھے  اور سامری کا دور اصل میں

Age of Taurus

تھا یا برج ثور کا دور تھا جس میں  اس ثور یا بیل کی پوجا کرنے کو صحیح سمجھا جا رہا تھا

اس وقت ثعبان قطب شمالی تھا لیکن چونکہ بنی اسرائیل پر بادل رہا ان کو آسمان پر سمت کا تعین نہیں ہو سکا اور اسی طرح دشت میں ہی بھٹکتے رہے

موسی علیہ السلام نے اس صنم ثور  جس کو قرآن میں عجل (بیل) کہا گیا ہے اس کو توڑ کر پیس دیا

آجکل کا دور

Age of Aquarius

کہا جاتا ہے یعنی برج دلو کا دور جس کا برجوں کے پجاری بڑی شدت سے انتظار کر رہے تھے اور سن ١٩٦٩   میں ایک گانے میں اس کا ذکر بھی ہے

When the moon is in the Seventh House

And Jupiter aligns with Mars

یہ آسمانی وقوعہ  اسی سال جنوری ٢٠١٨ میں ان کے مطابق  ہوا ہے  اور اس طرح آج ہم سب برج دلو کے دور میں آ چکے  ہیں

انہی برجوں کو دجالی لوگ  پہلے بھی استعمال کرتے رہے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ  مسیح الدجال  بھی  اس  کواستعمال  کرے و الله اعلم

کتاب سرگزشت سحر

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

فہرست

باب ١ : سحر اوربابل کی غلامی  کا دور

باب ٢: ھاروت و ماروت   کون؟

باب٣ :بابل کی غلامی کے بعد شیطان کے تصور   میں تبدیلی

باب ٤ :  سانپ مقرب بارگاہ الہی؟

باب ٥ : صوفیاء کا یہود سے اکتساب

باب٦ :سحر سے متعلق چند سوال و جواب

======================================================

پیش لفظ

کتاب   هذا      میں سحر سے متعلق مختلف مباحث  کو جمع  کیا گیا  ہے –  سحر قرآن سے ثابت ہے کہ اس میں موسی علیہ السلام کو لاٹھیاں اور چھڑیاں   اڑتی ہوئی محسوس ہوئیں – نہ صرف موسی علیہ السلام بلکہ تمام مجمع  مسحور ہو گیا- البتہ   جادو گروں  نے جب اس کو ختم  ہوتے دیکھا تو اقرار کیا کہ انہوں نے مجبورتاً اس کو کیا-  معلوم ہوا جادو   فعل قبیح ہی  تھا لیکن  فرعون کے حکم کی وجہ سے انھوں نے کیا –

 الله تعالی   نہ صرف  خالق خیر بلکہ خالق شر  بھی ہے –   قرآن میں ہے پناہ مانگو

من شر ما خلق

اس شر سے جو الله نے خلق کیا

عبد الله بن امام احمد  العلل  میں روایت کرتے ہیں   ابن عون نے کہا

  إن قومًا يزعمون أن الله لم يخلق الشر. فقال: أستعيذ بالسميع العليم-قل أعوذ برب الفلق من شر ما خلق-. «العلل» (4860)

 ابن عون نے کہا ایک قوم ہے جو دعوی کرتی ہے کہ الله نے شر کو خلق نہیں کیا- پس کہا السمیع  العلیم سے پناہ مانگو؟  کہو میں پناہ مانگتا ہوں  پھاڑنے والے رب کی جس نے شر کو خلق کیا

 کتاب إعراب القرآن للأصبهاني  از   إسماعيل بن محمد بن الفضل الأصبهاني (المتوفى: 535هـ)  کے مطابق    المعتزلة    میں

قرأ عمرو بن عبيد (مِنْ شَرٍّ مَا خَلَقَ) بالتنوين؛ لأنّه كان [ … ] أنّ الله لم يخلق الشَّرَّ

عمرو بن عبيد[1]  آیت کی قرات تنوین سے کرتا مِنْ شَرٍّ مَا خَلَقَ .. کہ الله نے شر خلق نہیں کیا

یعنی  شر کو اسم کر دیا جو   اس کے نزدیک مخلوق کا عمل ہے یا ان کی تخلیق ہے-  المعتزلة کہتے  تھے کہ   ان کے پانچ اصول ہیں جن میں ایک عدل ہے اس سے ان کی  مراد تھی   أن الله لم يخلق الشر  وأن كل عبد يخلق أفعاله  الله تعالی نے شر کو خلق نہیں کیا اور   ہر بندہ اپنا عمل خود خلق کر رہا ہے- اسی طرح  قدری کہتے

حَدَّثَنِي أَبِي، نا عَبْدُ الصَّمَدِ، نا عِكْرِمَةُ، قَالَ: سَأَلْنَا يَحْيَى بْنَ أَبِي كَثِيرٍ عَنِ الْقَدَرِيَّةِ، فَقَالَ: «هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ إِنَّ اللَّهَ لَمْ يُقَدِّرِ الشَّرَّ»

يَحْيَى بْنَ أَبِي كَثِيرٍ نے قدریوں سے متعلق کہا:  یہ کہتے ہیں کہ الله نے شر کو تقدیر میں نہیں لکھا

سحر مصر میں ہوتا تھا اور اسی طرح بابل میں بھی کیا جاتا تھا- اس کتاب میں قرانی آیات کو سمجھنے کے لئے چند مباحث کی تفصیل ہے- الله ہم کو حق کی طرف ہدایت دے

ابو شہر یار

٢٠١٧

[1]

عمرو بن عبيد بن كيسان بن باب، أبو عثمان البصري المعتزلي مولى بني تميم، كان أصله من فارس سكن البصرة، مات في طريق مكة سنة 144 هـ، قال ابن حبان في المجروحين ج2/68: “كان من العباد الخشن وأهل الورع الدقيق ممن جالس الحسن سنين كثيرة ثم أحدث ما أحدث من البدع واعتزل مجلس الحسن وجماعة معه فسموا بالمعتزلة، وكان عمرو بن عبيد داعية إلى الاعتزال يشتم أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ويكذب مع ذلك في الحديث توهما لا تعمداً” والذي أزاله عن مذهب أهل السنة هو واصل بن عطاء. قال أحمد بن محمد الحضرمي سألت ابن معين، عن عمرو بن عبيد فقال: “لا يكتب حديثه. فقلت له: كان يكذب. فقال: كان داعية إلى دينه. فقلت له: فلم وثقت قتادة وابن أبي عروبة وسلام بن مسكين؟ فقال: كانوا يصدقون في حديثهم، ولم يكونوا يدعون إلى بدعة”. انظر: ترجمته في ميزان الاعتدال ج3/273-280؛ تاريخ بغداد ج12/166-188.

 

جادو برج فرشتے اور محدثین ٢

قرآن میں سوره البقرہ میں ہے  کہ بابل میں یہود سحر کا علم حاصل کرتے تھے جو ان کی آزمائش تھا آیات ہیں

واتبعوا ما تتلو الشياطين على ملك سليمان وما كفر سليمان ولكن الشياطين كفروا يعلمون الناس السحر وما أنزل على الملكين ببابل هاروت وماروت وما يعلمان من أحد حتى يقولا إنما نحن فتنة فلا تكفر فيتعلمون منهما ما يفرقون به بين المرء وزوجه وما هم بضارين به من أحد إلا بإذن الله ويتعلمون ما يضرهم ولا ينفعهم ولقد علموا لمن اشتراه ما له في الآخرة من خلاق ولبئس ما شروابه أنفسهم لو كانوا يعلمون

اور  (یہود) لگے اس  (علم) کے پیچھے جو شیطان مملکت سلیمان کے حوالے سے پڑھتے تھے اور سلیمان  نے تو کفر نہیں کیا، بلکہ شیاطین نے کفر کیا جو لوگوں کو سحر سکھاتے تھے اور جو بابل میں فرشتوں هاروت وماروت پر نازل ہوا تھا تو (وہ بھی) اس میں سے کسی کو نہ سکھاتے تھے حتی کہ کہتے ہم فتنہ ہیں، کفر مت کر!  لیکن وہ (یہودی) پھر بھی سیکھتے، تاکہ مرد و عورت میں علیحدگی کرائیں اور وہ کوئی نقصان نہیں کر سکتے تھے الا یہ کہ الله کا اذن ہو-  اور وہ ان سے (سحر) سیکھتے جو نہ فائدہ دے سکتا تھا نہ نقصان- اوروہ جانتے تھے کہ وہ کیا خرید رہے ہیں،  آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہ ہو گا اور بہت برا سودا کیا اگر ان کو پتا ہوتا

سحر کا علم ان کو فرشتوں هاروت وماروت  سے ملا  تھا لیکن ان کو پتا تھا کہ یہ فتنہ ہے لیکن اپنی سابقہ حرکتوں کو توجیہ دینے کے لئے انہوں نے تمام علوم کا مخزن چاہے ( شرک و سحر ہی کیوں نہ ہو ) سانپ کو  قراردیا – یہود کے مطابق یہ سب اس شجر علم میں چھپا تھا جو جنت عدن کے بیچوں بیچ تھا –  واضح رہے کہ موجودہ  توریت کی  کتاب پیدائش میں سانپ سے مراد شیطان نہیں ہے بلکہ انسانوں کا ہمدرد ایک مخلوق ہے جو چھپ کر انسان کو علم دیتا ہے جبکہ الله تعالی کا ارادہ انسان کو کم علم رکھنے کا تھا – یہ سب کیوں لکھا گیا اس پر آپ تفصیل

https://www.islamic-belief.net/muslim-belief/satan/ابراہیمی-ادیان-میں-شیطان-کا-تصور/

میں پڑھ سکتے ہیں

سحر کا علم دنیا میں ہاروت و ماروت سے پہلے مصریوں کے پاس بھی تھا جس کا ذکر موسی علیہ السلام کے حوالے سے قرآن میں موجود ہے کہ جادو گرووں نے موسی علیہ السلام اور حاضرین  کا تخیل تبدیل کر دیا اور ایک عظیم سحر کے ساتھ ائے جس میں لاٹھیاں اور رسیاں چلتی ہوئی محسوس ہوئیں

یہاں سوره البقرہ میں بتایا گیا کہ بابل میں یہود کا ذوق شادی شدہ عورتوں کو حاصل کرنے کی طرف ہوا جس میں ان کو طلاق دلانے کے لئے سحر و جادو کیا جاتا – اگر سحر صرف نظر بندی ہوتا تو یہ ممکن نہ تھا لہذا اس کو ایک شیطانی عمل  کہا جاتا ہے جس میں شریعت کی پابندی کو رد کیا جاتا ہے اور حسد انسان کو سحر کی طرف لے جاتا ہے

اس میں گرہ لگا کر پھونکا جاتا ہے سوره الفلق

تیسری صدی میں جب معتزلہ کا زور تھا انہوں نے مجوسیوں کی طرح الله کی طرف شر کو منسوب کرنے سے انکار کیا اور سوال اٹھایا کہ کیا حسن کی طرح قبیح و سحر و شر کی نسبت الله کی طرف درست ہے ؟ کیا الله خالق سحر و شر ہے ؟

علماء نے اس کا جواب دیا کہ قرآن سے ثابت ہے کہ الله ہی شیطان کا خالق ہے اور تمام گناہ اس نے لکھ دیے ہیں لہذا وہی شر کا خالق ہے – کسی بھی علم کا اثر انگیز ہونا بھی اسی حکم کے تحت ہے لہذا اگرچہ سحر شرک و ناپسندیدہ ہے اس کی تاثیر من جانب الله ہے

 ہاروت و ماروت الله کے دو فرشتے تھے جو سحر کا علم لے کر بابل میں اترے اور یہود کی آزمائش بنے- اگر ہاروت و ماروت نے جادو نہیں سکھایا تو وہ یہ کیوں کہتے تھے کہ ہم فتنہ ہیں کفر مت کرو

دوسری صدی ہجری

سابقہ یمنی یہودی کعب الاحبار ایک قصہ سناتے

تفسیر عبد الرزاق  المتوفي ٢١١ هجري کی روایت ہے

عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَال – نا الثَّوْرِيُّ , عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ , عَنْ سَالِمٍ , عَنِ ابْنِ عُمَرَ , عَنْ كَعْبٍ , قَالَ: «ذَكَرَتِ الْمَلَائِكَةُ أَعْمَالَ بَنِي آدَمَ , وَمَا يَأْتُونَ مِنَ الذُّنُوبِ» فَقِيلَ لَهُمْ: «اخْتَارُوا مَلَكَيْنِ , فَاخْتَارُوا هَارُوتَ وَمَارُوتَ» قَالَ: فَقَالَ لَهُمَا: «إِنِّي أُرْسِلُ رُسُلِي إِلَى النَّاسِ , وَلَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَكُمَا رَسُولٌ , انْزِلَا وَلَا تُشْرِكَا بِي شَيْئًا , وَلَا تَزْنِيَا , وَلَا تَسْرِقَا» قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: قَالَ كَعْبٌ: «فَمَا اسْتَكْمَلَا يَوْمَهُمَا الَّذِي أُنْزِلَا فِيهِ حَتَّى عَمِلَا مَا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِمَا»

کعب نے کہا : ذکر کیا فرشتوں کا ان کا جو نبی آدم پر نگہبان تھے اور جو ان کے گناہوں کے بارے میں ہے پس ان فرشتوں سے کہا گیا کہ چن لو فرشتوں کو انہوں نے ہاروت و ماروت کو چنا اور ہاروت و ماروت سے کہا میں اپنے سفیر بنی آدم کی طرف بھیج رہا ہوں اور میرے اور تمھارے درمیان کوئی اور نہیں ہو گا بنی آدم  پر نازل ہو اور شرک نہ کرنا نہ زنا اور نہ چوری – ابن عمر رضی الله عنہ نے کہا کہ کعب نے کہا انہوں نے وہ کام نہ کیا جس پر نازل کیا گیا تھا یہاں تک کہ حرام کام کیا

اسنادی حیثیت سے قطع نظر ان روایات میں یہود کی کتاب

Book of Enoch

Book of Jubilees

کا قصہ نقل کیا گیا ہے ہبوط شدہ فرشتے

Fallen Angels

یا

Watchers

اپنے ہی ہبوط شدہ فرشتوں میں سے دو کو انسانوں کو سحر سکھانے بھیجتے ہیں

یہود کے مطابق انوخ اصلا ادریس علیہ السلام  کا نام ہے

ایک روایت قتادہ بصری سے منسوب ہے

عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ نا مَعْمَرٌ , عَنْ قَتَادَةَ قَالَ: «كَتَبَتِ الشَّيَاطِينُ كُتُبًا فِيهَا كُفْرٌ وَشِرْكٌ , ثُمَّ دَفَنَتْ تِلْكَ الْكُتُبَ تَحْتَ كُرْسِيِّ سُلَيْمَانَ , فَلَمَّا مَاتَ سُلَيْمَانُ اسْتَخْرَجَ النَّاسُ تِلْكَ الْكُتُبَ» فَقَالُوا: هَذَا عِلْمٌ كَتَمَنَاهُ سُلَيْمَانُ فَقَالَ اللَّهُ: {وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُوا الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ} [البقرة: 102]

شیاطین نے کتابیں لکھیں جس میں کفر و شرک تھا پھر ان کو سلیمان  کے تخت کے نیچے چھپا دیا پھر جب سلیمان کی وفات  ہوئی تو لوگوں نے ان کو نکالا اور کہا یہ وہ علم ہے جو سلیمان نے ہم سے چھپایا پس الله نے کہا{وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُوا الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ} [البقرة:

تذكرة الحفاظ از الذھبی کے مطابق مفسر مجاہد نے تحقیق کی

ذكر محمد بن حميد أخبرنا عبد الله بن عبد القدوس عن الأعمش قال: كان مجاهد لا يسمع بأعجوبة إلا ذهب لينظر إليها. ذهب الى حضرموت ليرى بئر برهوت وذهب الى بابل وعليه وال فقال له مجاهد: تعرض على هاروت وماروت فدعا رجلا من السحرة فقال: اذهب به فقال اليهودي بشرط ألا تدعو الله عندهما قال فذهب به الى قلعة فقطع منها حجرا ثم قال خذ برجلى فهوى به حتى انتهى الى جوبة فإذا هما معلقين منكسين كالجبلين فلما رأيتهما قلت سبحان الله خالقكما فاضطربا فكأن الجبال تدكدكت فغشي على وعلى اليهودي ثم أفاق قبلى فقال قد أهلكت نفسك وأهلكتنى.

الأعمش نے کہا کہ مجاہد عجوبہ بات نہیں سنتے یہاں تک کہ اس کو دیکھتے وہ حضر الموت گئے تاکہ برهوت کا کنواں دیکھیں اور بابل گئےوہاں افسر تھا اس سے کہا مجھ پر ہاروت و ماروت کو پیش کرو پس  جادو گروں کو بلایا گیا ان سے کہا کہ وہاں تک لے چلو ایک یہودی نے کہا اس شرط پر کہ وہاں ہاروت و ماروت کے سامنے اللہ کو نہیں پکارو گے  – پس وہ وہاں گئے قلعہ تک اس کا پتھر نکالا گیا پھر یہودی نے پیر سے پکڑا اور لے گیا جہاں دو پہاڑوں کی طرح ہاروت و ماروت معلق تھے پس ان کو دیکھا  (تو بے ساختہ مجاہد بولے) سبحان الله جس نے ان کو خلق کیا – اس پر  وہ (فرشتے) ہل گئے اور مجاہد  اور یہودی غش کھا گئے پھرجب  افاقہ ہوا تو یہودی بولا:  تم نے تو اپنے آپ کو اور مجھے مروا ہی دیا تھا

تیسری صدی ہجری

امام احمد اس قصے  کو منکر کہتے تھے – الكتاب: أنِيسُ السَّاري في تخريج وَتحقيق الأحاديث التي ذكرها الحَافظ ابن حَجر العسقلاني في فَتح البَاري از آبو حذيفة، نبيل بن منصور بن يعقوب بن سلطان البصارة الكويتي

وقال أحمد بن حنبل: هذا منكر، إنما يروى عن كعب” المنتخب لابن قدامة ص 296 ہ

امام احمد نے کہا یہ منکر ہے اس کو کعب نے روایت کیا ہے

چوتھی صدی ہجری

تفسیر ابن ابی حاتم کی روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبِي ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ- يَعْنِي ابْنَ عُمَرَ- عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو وَيُونُسَ بْنِ خَبَّابٍ عَنْ مُجَاهِدٍ. قَالَ: كُنْتُ نَازِلا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ فِي سَفَرٍ فَلَمَّا كَانَ ذَاتَ لَيْلَةٍ قَالَ لِغُلامِهِ. انْظُرْ طَلَعَتِ الْحَمْرَاءُ لَا مَرْحَبًا بِهَا وَلا أَهْلا وَلا حَيَّاهَا اللَّهُ هِيَ صَاحِبَةُ الْمَلَكَيْنِ- قَالَتِ الْمَلائِكَةُ: رَبِّ كَيْفَ تَدَعُ عُصَاةَ بَنِي آدَمَ وَهُمْ يَسْفِكُونَ الدَّمَ الْحَرَامَ، وَيَنْتَهِكُونَ مَحَارِمَكَ، وَيُفْسِدُونَ فِي الأَرْضِ؟  قَالَ: إِنِّي قَدِ ابْتَلَيْتُهُمْ فَلَعَلِّي إِنِ ابْتَلَيْتُكُمُ بِمِثْلِ الَّذِي ابْتَلَيْتُهُمْ بِهِ فَعَلْتُمْ كَالذي يَفْعَلُونَ قَالُوا: لَا. قَالَ: فَاخْتَارُوا مِنْ خِيَارِكُمُ اثْنَيْنِ، فَاخْتَارُوا هَارُوتَ وَمَارُوتَ فَقَالَ لَهُمَا إِنِّي مُهْبِطُكُمَا إِلَى الأَرْضِ وَعَاهِدٌ إِلَيْكُمَا أَنْ لَا تُشْرِكَا وَلا تَزْنِيَا، وَلا تَخُونَا. فَأُهْبِطَا إِلَى الأَرْضِ، وَأَلْقَى عَلَيْهِمَا الشَّبَقَ وَأُهْبِطَتْ لَهُمَا الزُّهْرَةُ فِي أَحْسَنِ صُورَةِ امْرَأَةٍ فَتَعَرَّضَتْ

مجاہد کہتے ہیں ہم سفر  میں آبن عمر رضی الله عنہ کے ساتھ تھے  پس جب رات ہوئی انہوں نے لڑکے سے کہا دیکھو الْحَمْرَاءُ کا طلوع ہوا اس میں خوش آمدید نہیں ہے نہ اس کے اہل کے لئے … یہ ان فرشتوں کی ساتھی ہے – فرشتوں نے کہا اے رب ہم انسانوں کے گناہوں کو کیسے دور کریں وہ خون بہا رہے ہیں اور زمین پر فساد برپا کر رہے ہیں؟ کہا : بے شک میں ان کی آزمائش کروں گا جس طرح میں نے تم کو آزمائش میں ڈالا اور دیکھوں گا کیسا عمل کرتے ہیں ؟ … پس اپنے فرشتوں میں سے چنوں دو کو – انہوں نے ہاروت و ماروت کو چنا ان سے کہا زمین پر ہبوط کرو اور تم پر عہد ہے نہ شرک کرنا نہ زنا اور نہ خیانت پس وہ زمین پر اترے اور ان پر شہوانیت القی کی گئی اور الزہرا کو بھی اترا یا ایک حسین عورت کی شکل میں اور ان کا دیکھنا ہوا

سياره الزهراء يا

Venus

کو الْحَمْرَاءُ کہا گیا ہے یعنی سرخی مائل اور اس کو ایک عورت کہا گیا ہے جو مجسم ہوئی اور فرشتوں ہاروت و ماروت کی آزمائش بنی  خبر دی گئی کہ فرشتے انسانوں سے جلتے تھے اس تاک میں رہتے کہ الله تعالی کے سامنے ثابت کر سکیں کہ ہم نے جو پہلے کہا تھا کہ یہ انسان فسادی ہے اس کو صحیح ثابت کر سکیں – اس پر الله نے کہا کہ تم فرشتوں سے خود دو کو چنوں اور پھر وہ فرشتے کیا آزمائش بنتے وہ خود الزہرا پر عاشق ہو گئے

کتاب العلل از ابن ابی حاتم میں ابن ابی حاتم نے اپنے باپ سے اس روایت پر سوال کیا

وسألتُ أَبِي عَنْ حديثٍ رَوَاهُ معاذ بن خالد العَسْقلاني عَنْ زُهَير (1) بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ جُبَير (2) ، عَنْ نَافِعٍ، عن عبد الله بْنِ عُمَرَ؛ أنَّه سَمِعَ النبيَّ (ص) يقول: إِنَّ آدَمَ [لَمَّا] (3) أَهْبَطَهُ (4) اللهُ إلَى الأَرْضِ، قَالَتِ المَلاَئِكَةُ: أَيْ رَبِّ! {أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ} (5) ، قَالُوا: رَبَّنَا، نَحْنُ أَطْوَعُ لَكَ مِنْ بَنِي آدَمَ … وذكَرَ الحديثَ: قِصَّةَ (6) هاروتَ وماروتَ؟

قَالَ أَبِي: هذا حديثٌ مُنكَرٌ

میرے باپ نے کہا یہ منکر ہے

ابن ابی حاتم اپنی تفسیر کے ج 10، ص 3241-3242 پر ایک واقعہ نقل کرتے ہیں

قَوْلُهُ تَعَالَى: وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَانَ وَأَلْقَيْنَا عَلَى كُرْسِيِّهِ جَسَدًا ثُمَّ أَنَابَ
18355 – وَبِسَنَدٍ قَوَيٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: أَرَادَ سُلَيْمَانُ عَلَيْهِ السَّلامُ أَنْ يَدْخُلَ الْخَلاءَ فَأَعْطَى الْجَرَادَةَ خَاتَمَهُ وَكَانَتِ امْرَأَتُهُ، وَكَانَتْ أَحَبَّ نِسَائِهِ إِلَيْهِ فَجَاءَ الشَّيْطَانُ فِي صُورَةِ سُلَيْمَانَ فَقَالَ لَهَا: هَاتِي خَاتَمِي فَأَعْطَتْهُ فَلَمَّا لَبِسَهُ دَانَتْ لَهُ الْجِنُّ وَالْإِنْسُ وَالشَّيَاطِينُ، فَلَمَّا خَرَجَ سُلَيْمَانُ عَلَيْهِ السَّلَامُ مِنَ الْخَلَاءِ قال لها: هَاتِي خَاتَمِي فَقَالَتْ: قَدْ أَعْطَيْتُهُ سُلَيْمَانَ قَالَ: أَنَا سُلَيْمَانُ قَالَتْ: كَذَبْتَ لَسْتَ سُلَيْمَانَ فَجَعَلَ لَا يَأْتِي أَحَدًا يَقُولُ: أَنَا سُلَيْمَانُ إِلا كَذَّبَهُ حَتَّى جَعَلَ الصِّبْيَانُ يَرْمُونَهُ بِالْحِجَارَةِ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ عَرَفَ أَنَّهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَقَامَ الشَّيْطَانُ يَحْكُمُ بَيْنَ النَّاسِ.
فَلَمَّا أَرَادَ اللَّهُ تَعَالَى أَنْ يَرُدَّ عَلَى سليمان عليه السلام سلطانه ألْقَى فِي قُلُوبِ النَّاسِ إِنْكَارَ ذَلِكَ الشَّيْطَانِ فَأَرْسَلُوا إِلَى نِسَاءِ «1» سُلَيْمَانَ عَلَيْهِ السَّلامُ فَقَالُوا لهن أيكون من سليمان شيء؟ قلنا: نَعَمْ إِنَّهُ يَأْتِينَا وَنَحْنُ حُيَّضٌ، وَمَا كَانَ يَأْتِينَا قَبْلَ ذَلِكَ

قوی سند کے ساتھ ابن عباس سے نقل کیا گیا ہے کہ جب سلیمان علیہ السلام بیت الخلاء میں جاتے، اپنی انگوٹھی جرادہ کو دیتے، جو کہ ان کی بیوی تھی، اور سب سے عزیز تھی۔ شیطان حضرت سلیمان کی صورت میں اس کے پاس آیا، اور کہا کہ مجھے میری انگوٹھی دو۔ تو اس نے دے دی۔ جب اس نے پہن لی، تو سب جن و انس و شیطان اس کے قابو میں آ گئے۔ جب سلیمان علیہ السلام نکلے، تو اس سے کہا کہ مجھے انگوٹھی دو۔ اس نے کہا کہ وہ تو میں سلیمان کو دے چکی ہوں۔ آپ نے کہا کہ میں سلیمان ہوں۔ اس نے کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو، تم سلیمان نہیں۔ پس اس کے بعد ایسا کوئی نہیں تھا کہ جس سے انہوں نے کہا ہو کہ میں سلیمان ہوں، اور ان کی تکذیب نہ کی گئی ہو۔ یہاں تک کہ بچوں نے انہیں پتھروں سے مارا۔ جب انہوں نے یہ دیکھا تو سمجھ گئے کہ یہ اللہ کا امر ہے۔ شیطان لوگوں میں حکومت کرنے لگا- جب اللہ نے اس بات کا ارادہ کیا کہ حضرت سلیمان کو ان کی سلطنت واپس کی جائے تو انہوں نے لوگوں کے دلوں میں القا کیا کہ اس شیطان کا انکار کریں۔ پس وہ ان کی بیویوں کے پاس گئے اور ان سے پوچھا کہ آپ کو سلیمان میں کوئی چیز نظر آئی؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! اب وہ ہمارے پاس حیض کے دونوں میں بھی آتے ہیں، جب کہ پہلے ایسا نہیں تھا۔

یہاں اس پر قوی سند لکھا ہوا ہے راقم کہتا ہے

تفسیر ابن حاتم ٩٠٠ صفحات کی کتاب ہے اس میں کسی بھی روایت پر سند قوی یا ضعیف یا صحیح نہیں ملتا
یہ واحد روایت 18355 ہے جس پر وَبِسَنَدٍ قَوَيٍ سند قوی ملتا ہے لیکن حیرت ہے کہ اس کی سند ابن ابی حاتم نے نہیں دی
لگتا ہے اس میں تصرف و تحریف ہوئی ہے جب سند ہے ہی نہیں تو قوی کیسے ہوئی؟

اس کی سند ہے
ومن أنكرها أيضًا ما قال ابن أبي حاتم: حدثنا علي بن حسين، قال: حدثنا محمد بن العلاء وعثمان بن أبي شيبة وعلي بن محمد، قال: حدثنا أبو معاوية، قال: أخبرنا الأعمش، عن المنهال بن عمرو، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس -رضي الله عنهما- في قوله – تعال ى-: {وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَانَ وَأَلْقَيْنَا عَلَى كُرْسِيِّهِ جَسَدًا ثُمَّ أَنَابَ}، قال: أراد سليمان -عليه الصلاة والسلام- أن يدخل الخلاء وكذا وكذا؛ ذكر الرواية التي سبق ذكرها

اس کی سند میں المنهال بن عمرو ہے جو ضعیف ہے

چوتھی صدی کے ہی  ابن حبان اس روایت کو صحیح ابن حبان المتوفی ٣٥٤ ھ  میں نقل کرتے ہیں

أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكير عَنْ زُهَيْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُوسَى بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:  (إِنَّ آدَمَ ـ لَمَّا أُهْبِطَ إِلَى الْأَرْضِ ـ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ: أَيْ رَبِّ! {أَتَجْعَلُ فِيهَا مِنْ يُفسد فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ ونُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ} [البقرة: 30] قَالُوا: رَبَّنَا نَحْنُ أَطْوَعُ لَكَ مِنْ بَنِي آدَمَ قَالَ اللَّهُ لِمَلَائِكَتِهِ: هَلُمُّوا مَلَكَيْنِ مِنَ الْمَلَائِكَةِ فَنَنْظُرَ كَيْفَ يَعْمَلَانِ قَالُوا: رَبَّنَا هَارُوتُ وَمَارُوتُ قَالَ: فَاهْبِطَا إِلَى الْأَرْضِ قَالَ: فَمُثِّلَتْ لَهُمُ الزُّهْرةُ امْرَأَةً مِنْ أَحْسَنِ الْبَشَرِ فَجَاءَاهَا فَسَأَلَاهَا نَفْسَهَا فَقَالَتْ: لَا وَاللَّهِ حَتَّى تكَلِّما بِهَذِهِ الْكَلِمَةِ مِنَ الْإِشْرَاكِ قَالَا: وَاللَّهِ لَا نُشْرِكُ بِاللَّهِ أَبَدًا فَذَهَبَتْ عَنْهُمَا ثُمَّ رَجَعَتْ بصبيٍّ تَحْمِلُه فَسَأَلَاهَا نَفْسَهَا فَقَالَتْ: لَا وَاللَّهِ حَتَّى تَقْتُلَا هَذَا الصَّبِيَّ فَقَالَا: لَا وَاللَّهِ لَا نَقْتُلُهُ أَبَدًا فَذَهَبَتْ ثُمَّ رَجَعَتْ بِقَدَحٍ مِنْ خَمْرٍ تَحْمِلُه فَسَأَلَاهَا نَفْسَهَا فَقَالَتْ: لَا وَاللَّهِ حَتَّى تَشْرَبَا هَذَا الْخَمْرَ فَشَرِبَا فَسَكِرَا فَوَقَعَا عَلَيْهَا وَقَتَلَا الصَّبِيَّ فَلَمَّا أَفَاقَا قَالَتِ الْمَرْأَةُ: وَاللَّهِ مَا تركتُما مِنْ شَيْءٍ أَثِيمًا إِلَّا فَعَلْتُمَاهُ حِينَ سَكِرْتُما فخُيِّرا ـ عِنْدَ ذَلِكَ ـ بَيْنَ عَذَابِ الدُّنْيَا وَعَذَابِ الآخرة فاختارا عذاب الدنيا)

قَالَ أَبُو حَاتِمٍ: الزُّهرة ـ هَذِهِ ـ: امْرَأَةٌ كَانَتْ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ، لَا أَنَّهَا الزُّهرة الَّتِي هِيَ فِي السَّمَاءِ، الَّتِي هِيَ مِنَ الخُنَّسِ.

ابن عمر رضی الله عنہ سے مروی ہے انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا فرمایا: جب آدم کا زمین کی طرف ہبوط ہوا فرشتوں نے کہا اے رب کیا اس کو خلیفہ کیا ہے کہ اس میں فساد کرے اور خون بہائے اور ہم آپ کی تعریف کرتے ہیں اور تقدس کرتے ہیں ؟ فرمایا : میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے – فرشتوں نے کہا  ہمارے رب ہم انسانوں سے بڑھ کر آپ کے اطاعت گزار ہیں الله تعالی نے فرشتوں سے کہا : فرشتوں کو لو پس دیکھیں یہ کیا عمل کرتے ہیں- فرشتوں نے کہا : آے رب ہاروت و ماروت ہیں- حکم الہی ہوا : زمین کی طرف ہبوط کرو – وہاں الزہرا انسانوں میں سے ایک حسن عورت ان کو ورغلائے گی پس وہ ان فرشتوں کے پاس گئی اور نفس کے  بارے میں سوال کیا (یعنی زنا کی ہاروت و ماروت نے ترغیب دی) اور بولی : نہیں الله کی قسم میں نہیں کروں گی یہاں تک کہ تم شرکیہ کلمات ادا کرو – ہاروت و ماروت نے کہا و الله ہم یہ کلمات نہیں بولیں گے پس وہ لوٹ گئی ایک لڑکے کے ساتھ اور واپس انہوں نے  نفس کا سوال کیا  وہ بولی میں اس لڑکے کو مار ڈالوں گی فرشتوں نے کہا نہیں مارو وہ لوٹ گئی پھر آئی ایک قدح لے کر شراب کا اس پر سوال کیا فرشتوں نے کہا ہم نہیں پییں گے یہاں تک کہ وہ پی گئے پس وہ واقعہ ہوا (زنا) اور لڑکے کو قتل کیا – جب افاقہ ہوا عورت بولی الله کی قسم میں نے تم کو کہیں کا نہ چھوڑا گناہ میں کوئی چیز نہیں جو تم نہ کر بیٹھے ہو اور تم نے نہیں کیا جب تک شراب نہ پی لی  … تم نے دنیا و آخرت میں سے دنیا کا  عذاب چنا

ابو حاتم ابن حبان نے کہا الزہرہ یہ اس دور میں عورت تھی وہ وہ نہیں جو آسمان میں ہے جو الخنس ہے

ابن حبان نے اس روایت کو صحیح میں لکھا اس میں اختلاف صرف یہ کیا کہ الزہرہ کو ایک مسجم عورت کی بجائے ایک حقیقی عورت کہا

البدء والتاريخ  از المطهر بن طاهر المقدسي (المتوفى: نحو 355هـ)  قصة هاروت وماروت،  اختلفوا المسلمون [1] فيه اختلافا كثيرا

القدسی نے تاریخ میں لکھا کہ مسلمانوں کا اس پر اختلاف ہے

یعنی ابن ابی حاتم اس کو منکر کہتے ہیں اور ابن حبان صحیح

العلل دارقطنی از امام دارقطنی المتوفی ٣٨٥ ھ  میں ہے

وَسُئِلَ عَنْ حَدِيثِ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عليه وسلم: أن آدم لما أهبطه الله إلى الأرض قالت الملائكة: أي رب: {أتجعل فيها من يفسد فيها ويسفك الدماء} ، قالوا: ربنا، نحن أطوع لك من بني آدم، قال الله للملائكة: هلموا ملكين … فذكر قصة هاروت وماروت.

فقال: اختلف فيه على نافع:

فرواه موسى بن جبير، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

وَخَالَفَهُ مُوسَى بْنُ عقبة، فرواه عن نافع، عن ابن عمر، عن كعب الأحبار، من رواية الثوري، عن موسى بن عقبة.

وقال إبراهيم بن طهمان: عن موسى بن عقبة، عن سالم، عن أبيه، عن كعب.

دارقطنی نے العلل میں اس کی اسناد نقل کیں لیکن رد نہیں کیا

پانچویں صدی ہجری

امام حاکم  المتوفی ٤٠٥ ھ مستدرک میں اس قصہ  کو صحیح کہتے ہیں

آٹھویں صدی ہجری

الذھبی سیر میں لکھتے ہیں

قُلْتُ: وَلِمُجَاهِدٍ أَقْوَالٌ وَغَرَائِبُ فِي العِلْمِ وَالتَّفْسِيْرِ تُسْتَنْكَرُ، وَبَلَغَنَا: أَنَّهُ ذَهَبَ إِلَى بَابِلَ، وَطَلَبَ مِنْ مُتَوَلِّيْهَا أَنْ يُوْقِفَهُ عَلَى هَارُوْتَ وَمَارُوْتَ.

میں کہتا ہوں : مجاہد کے اقوال اور علم و تفسیر میں غریب باتیں ہیں جن کا انکار کیا جاتا ہے اور ہم تک پہنچا ہے کہ یہ بابل گئے اور وہاں کے متولی سے کہا کہ ہاروت و ماروت سے ملاو

لیکن  الذھبی مستدرک حاکم کی تلخیص میں ہاروت و ماروت کے  اس قصہ  کو صحیح کہتے ہیں

أَخْبَرَنَا أَبُو زَكَرِيَّا الْعَنْبَرِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ السَّلَامِ، أَنْبَأَ إِسْحَاقُ، أَنْبَأَ حَكَّامُ بْنُ سَلْمٍ الرَّازِيُّ وَكَانَ ثِقَةً، ثنا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عَبَّادٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ} [البقرة: 102] الْآيَةُ. قَالَ: ” إِنَّ النَّاسَ بَعْدَ آدَمَ وَقَعُوا فِي الشِّرْكِ اتَّخَذُوا هَذِهِ الْأَصْنَامَ، وَعَبَدُوا غَيْرَ اللَّهِ، قَالَ: فَجَعَلَتِ الْمَلَائِكَةُ يَدْعُونَ عَلَيْهِمْ وَيَقُولُونَ: رَبَّنَا خَلَقْتَ عِبَادَكَ فَأَحْسَنْتَ خَلْقَهُمْ، وَرَزَقْتَهُمْ فَأَحْسَنْتَ رِزْقَهُمْ، فَعَصَوْكَ وَعَبَدُوا غَيْرَكَ اللَّهُمَّ اللَّهُمَّ يَدْعُونَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ لَهُمُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: إِنَّهُمْ فِي غَيْبٍ فَجَعَلُوا لَا يَعْذُرُونَهُمْ ” فَقَالَ: اخْتَارُوا مِنْكُمُ اثْنَيْنِ أُهْبِطُهُمَا إِلَى الْأَرْضِ، فَآمُرُهُمَا وَأَنْهَاهُمَا ” فَاخْتَارُوا هَارُوتَ وَمَارُوتَ – قَالَ: وَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ فِيهِمَا – وَقَالَ فِيهِ: فَلَمَّا شَرِبَا الْخَمْرَ وَانْتَشَيَا وَقَعَا بِالْمَرْأَةِ وَقَتَلَا النَّفْسَ، فَكَثُرَ اللَّغَطُ فِيمَا بَيْنَهُمَا وَبَيْنَ الْمَلَائِكَةِ فَنَظَرُوا إِلَيْهِمَا وَمَا يَعْمَلَانِ فَفِي ذَلِكَ أُنْزِلَتْ {وَالْمَلَائِكَةُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ، وَيَسْتَغْفِرُونَ لِمَنْ فِي الْأَرْضِ} [الشورى: 5] الْآيَةُ. قَالَ: فَجَعَلَ بَعْدَ ذَلِكَ الْمَلَائِكَةُ يَعْذُرُونَ أَهْلَ الْأَرْضِ وَيَدْعُونَ لَهُمْ «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ»

[التعليق – من تلخيص الذهبي]  3655 – صحيح

نویں صدی ہجری

هیثمی  المتوفی ٨٠٧ ہجری کتاب مجمع الزوائد میں لکھتے ہیں

وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا – قَالَ: اسْمُ الْمَلَكَيْنِ اللَّذَيْنِ يَأْتِيَانِ فِي الْقَبْرِ مُنْكَرٌ وَنَكِيرٌ، وَكَانَ اسْمُ هَارُوتَ وَمَارُوتَ – وَهُمَا فِي السَّمَاءِ – عَزَرًا وَعَزِيزًا ..  رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوْسَطِ، وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ.

اس کی اسناد حسن ہیں

ابن حجر المتوفي ٨٥٢ هجري  فتح الباری میں کہتے ہیں

قال الحافظ: وقصة هاروت وماروت جاءت بسند حسن من حديث ابن عمر في مسند أحمد

اور ہاروت و ماروت کا قصہ حسن سند سے مسند احمد میں ہے ابن عمر کی سند سے

دسویں صدی ہجری

التخريج الصغير والتحبير الكبير  ابن المِبْرَد الحنبلي (المتوفى: 909 هـ)

حديث: “هَارُوتَ وَمَارُوتَ” الإمام أحمد، وابن حبان، بسند صحيح.

ابن المِبْرَد  کے مطابق مسند احمد اور صحیح ابن حبان میں اس کی سند صحیح ہے

الدرر المنتثرة في الأحاديث المشتهرة از عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (المتوفى: 911هـ)

قصة هاروت وماروت.  وفي مسند أحمد، وصحح ابن حبان من حديث ابن عمر بسند صحيح.

قلت: لها طرق عديدة استوعبتها في التفسير المسند، وفي تخريج أحاديث الشفاء، انتهى.

قصہ ہاروت و ماروت کا یہ مسند احمد صحیح ابن حبان میں ہے صحیح سند سے ابن عمر رضی الله عنہ کی

میں السيوطي کہتا ہوں اس کے بہت سے طرق مسند احمد کی تفسیر میں ہے اور احادیث کتاب الشفاء کی تخریج میں

کتاب  تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة  المؤلف: نور الدين، علي بن محمد بن علي بن عبد الرحمن ابن عراق الكناني (المتوفى: 963هـ)

” وَمن طَرِيقه (خطّ) من حَدِيث ابْن عمر، وَفِيه قصَّة لنافع مَعَ ابْن عمر وَلَا يَصح، فِيهِ الْفرج بن فضَالة، وسنيد ضعفه أَبُو دَاوُد وَالنَّسَائِيّ (تعقبه) الْحَافِظ ابْن حجر فِي القَوْل المسدد فَقَالَ: أخرجه أَحْمد فِي مُسْنده وَابْن حبَان فِي صَحِيحه من وَجه آخر، وَله طرق كَثِيرَة جمعتها فِي جُزْء مُفْرد يكَاد الْوَاقِف عَلَيْهَا لكثرتها وَقُوَّة مخارج أَكْثَرهَا يقطع بِوُقُوع هَذِه الْقِصَّة، انْتهى قَالَ السُّيُوطِيّ: وجمعت أَنا طرقها فِي التَّفْسِير الْمسند وَفِي التَّفْسِير الْمَأْثُور فَجَاءَت نيفا وَعشْرين طَرِيقا مَا بَين مَرْفُوع وَمَوْقُوف، وَلِحَدِيث ابْن عمر بِخُصُوصِهِ طرق مُتعَدِّدَة.

اور جو طرق حدیث ابن عمر کا ہے اور اس میں نافع کا ابن عمر کے ساتھ کا قصہ ہے صحیح نہیں ہے اس میں فرج بن فضالہ ہے اور سنید ہے جس کی تضعیف کی ہے ابو داود نے اور نسائی نے اس کا تعقب کیا ہے ابن حجر نے کتاب القول لمسدد میں اور کہا ہے اس کی تخریج کی ہے احمد نے مسند میں ابن حبان نے صحیح میں  دوسرے طرق سے اور اس کے کثیر طرق ہیں جو سب مل کر ایک جز بن جاتے ہیں اور واقف جان جاتا ہے اس کثرت پر اور مخارج کی قوت پر … السُّيُوطِيّ نے کہا اور میں نے جمع کر دیا ہے اس کے طرق تفسیر میں اور … خاص کر ابن عمر کی حدیث کے تو بہت طرق ہیں

تذكرة الموضوعات میں محمد طاهر بن علي الصديقي الهندي الفَتَّنِي (المتوفى: 986هـ) لکھتے ہیں

قِصَّةُ هَارُوتَ وَمَارُوتَ مَعَ الزَّهْرَةِ وَهُبُوطِهِ إِلَى الأَرْضِ امْرَأَةً حَسَنَةً حِينَ طَغَتِ الْمَلائِكَةُ وَشُرْبِهِمَا الْخَمْرَ وقتلهما النَّفس وزناهما» عَن ابْن عمر رَفعه وَفِيه مُوسَى ابْن جُبَير مُخْتَلف فِيهِ وَلَكِن قد توبع، وَلأبي نعيم عَن عَليّ قَالَ «لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الزَّهْرَةَ وَقَالَ إِنَّهَا فتنت الْملكَيْنِ» وَقيل الصَّحِيح وَقفه على كَعْب وَكَذَا قَالَ الْبَيْهَقِيّ، وَفِي الْوَجِيز قصتهما فِي الْفرج بن فضَالة: ضَعِيف قلت قَالَ ابْن حجر لَهَا طرق كَثِيرَة يقطع بوقوعها لقُوَّة مخارجها.

قصہ ہاروت و ماروت کا الزہرا کے ساتھ اور ان کا زمین پر ہبوط کرنا ایک حسین عورت کے ساتھ اور فرشتوں کا بغاوت کرنا اور شراب پینا اور قتل نفس کرنا اور زنا کرنا جو ابن عمر سے مروی ہے ان تک جاتا ہے اور اس میں موسی بن جبیر ہے مختلف فیہ ہے لیکن اس کی متابعت کی ہے ابو نعیم نے علی کی روایت سے کہ الله کی لعنت ہو الزہرا پر اور کہا اس نے فرشتوں کو آزمائش میں ڈالا اور کہا ہے صحیح ہے کعب پر موقوف ہے اور اسی طرح کہا ہے البیہقی نے اور فرج کےقصہ پر کہا ضعیف ہے میں کہتا ہوں ابن حجر نے کہا ہے کہ اس کے طرق بہت سے ہیں

ابن کثیر نے تفسیر میں لکھا

ابن کثیر نے بھی اپنی تفسیر، ج 7، ص 59-60 میں درج کیا ہے۔ سند کے بارے میں انہوں نے بھی یہی کہا ہے کہ

إسناده إلى ابن عباس رضي الله عنهما قَوِيٌّ، وَلَكِنَّ الظَّاهِرَ أَنَّهُ إِنَّمَا تَلَقَّاهُ ابْنُ عباس رضي الله عنهما إِنْ صَحَّ عَنْهُ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَفِيهِمْ طائفة لا يعتقدون نبوة سليمان عليه الصلاة والسلام فَالظَّاهِرُ أَنَّهُمْ يَكْذِبُونَ عَلَيْهِ، وَلِهَذَا كَانَ فِي هذا السِّيَاقِ مُنْكَرَاتٌ مِنْ أَشَدِّهَا ذِكْرُ النِّسَاءِ فَإِنَّ المشهور عن مجاهد وغير واحد من أئمة السلف أَنَّ ذَلِكَ الْجِنِّيَّ لَمْ يُسَلَّطْ عَلَى نِسَاءِ سليمان بل عصمهن الله عز وجل منه تشريفا وتكريما لنبيه عليه السلام. وَقَدْ رُوِيَتْ هَذِهِ الْقِصَّةُ مُطَوَّلَةً عَنْ جَمَاعَةٍ من السلف رضي الله عنهم كَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ وَزَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ وَجَمَاعَةٍ آخَرِينَ وَكُلُّهَا مُتَلَقَّاةٌ مِنْ قَصَصِ أَهْلِ الْكِتَابِ، والله سبحانه وتعالى أعلم بالصواب.

اس کی سند ابن عباس تک قوی ہے۔ لیکن بظاہر یہ ان کو اہل کتاب سے ملی جسے انہوں نے صحیح مانا۔ جب کہ ان میں ایک گروہ تھا جو کہ حضرت سلیمان کی نبوت کا منکر تھا۔ اور بظاہر ان کی تکذیب کرتا تھا۔ اور اس میں شدید منکر باتیں ہیں خاص کر بیویوں والی۔ اور مجاھد اور دیگر ائمہ سے مشہور ہے کہ جن ان کی بیویوں پر مسلط نہیں ہوا تھا۔ بلکہ اللہ نے ان کی عصمت رکھی اور شرف و تکریم بخشا۔ اور یہ واقعہ سلف میں ایک جماعت نے نقل کیا جیسا کہ سعید بن مسیت، زید بن اسلم، اور بعد کی ایک جماعت نے بھی جن کو یہ اہل کتاب کے قصوں سے ملا

راقم کہتا ہے ابن کثیر کا قول باطل ہے یہ کام ابن عباس رضی الله عنہ کا نہیں کہ اہل کتاب سے روایت کریں بلکہ اس میں جرح منہال بن عمرو پر ہے

چودھویں صدی ہجری

کتاب التحرير والتنوير از محمد الطاهر بن محمد بن محمد الطاهر بن عاشور التونسي (المتوفى : 1393هـ) کے مطابق

وَلِأَهْلِ الْقِصَصِ هُنَا قِصَّةٌ خُرَافِيَّةٌ مِنْ مَوْضُوعَاتِ الْيَهُودِ فِي خُرَافَاتِهِمُ الْحَدِيثَةِ اعْتَادَ بَعْضُ الْمُفَسِّرِينَ ذِكْرَهَا مِنْهُمُ ابْنُ عَطِيَّةَ وَالْبَيْضَاوِيُّ وَأَشَارَ الْمُحَقِّقُونَ مِثْلُ الْبَيْضَاوِيِّ وَالْفَخْرِ وَابْنِ كَثِيرٍ وَالْقُرْطُبِيِّ وَابْنِ عَرَفَةَ إِلَى كَذِبِهَا وَأَنَّهَا مِنْ مَرْوِيَّاتِ كَعْبِ الْأَحْبَارِ وَقَدْ وَهِمَ فِيهَا بَعْضُ الْمُتَسَاهِلِينَ فِي الْحَدِيثِ فَنَسَبُوا رِوَايَتَهَا عَنِ النَّبِيءِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ عَنْ بَعْضِ الصَّحَابَةِ بِأَسَانِيدَ وَاهِيَةٍ وَالْعَجَبُ لِلْإِمَامِ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى كَيْفَ أَخْرَجَهَا مُسْنَدَةً لِلنَّبِيءِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَعَلَّهَا مَدْسُوسَةٌ عَلَى الْإِمَامِ أَحْمَدَ أَوْ أَنَّهُ غَرَّهُ فِيهَا ظَاهِرُ حَالِ رُوَاتِهَا مَعَ أَنَّ فِيهِمْ مُوسَى بْنَ جُبَيْرٍ وَهُوَ مُتَكَلَّمٌ فِيهِ

اور اہل قصص کے لئے اس میں بہت سے یہودیوں کے گھڑے ہوئے قصے ہیں جس سے مفسرین دھوکہ کھا گئے ان میں ابن عطیہ اور بیضاوی ہیں اور محققین مثلا بیضاوی اور فخر الرازی اورابن کثیر اور قرطبی اور ابن عرفہ نے ان کے کذب کی طرف اشارہ کیا ہے  جو  بے شک کعب الاحبار کی مرویات ہیں اور اس میں وہم ہے بعض متساهلین کا حدیث کے لئے تو انہوں نے ان قصوں کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دیا ہے  یا بعض اصحاب رسول کی طرف واہیات اسناد کے ساتھ اور عجیب بات ہے کہ امام احمد بن حنبل الله رحم کرے نے ان کو کیسے مسند میں لکھا اور ہو سکتا ہے وہ بہک گئے ہوں اس کے ظاہر حال پر اس میں موسی بن جبیر ہے اور متکلم فیہ ہے

یہ بھی لکھتے ہیں

وَ (هَارُوتَ وَمَارُوتَ) بَدَلٌ مِنَ (الْمَلَكَيْنِ) وَهُمَا اسْمَانِ كَلْدَانِيَّانِ دَخَلَهُمَا تَغْيِيرُ التَّعْرِيفِ لِإِجْرَائِهِمَا عَلَى خِفَّةِ الْأَوْزَانِ الْعَرَبِيَّةِ، وَالظَّاهِرُ أَنَّ هَارُوتَ مُعَرَّبُ (هَارُوكَا) وَهُوَ اسْمُ الْقَمَرِ عِنْدَ الْكَلْدَانِيِّينَ وَأَنَّ مَارُوتَ مُعَرَّبُ (مَا رُودَاخَ) وَهُوَ اسْمُ الْمُشْتَرِي عِنْدَهُمْ وَكَانُوا يَعُدُّونَ الْكَوَاكِبَ السَّيَّارَةَ مِنَ الْمَعْبُودَاتِ الْمُقَدَّسَةِ الَّتِي هِيَ دُونَ الْآلِهَةِ لَا سِيَّمَا الْقَمَرِ فَإِنَّهُ أَشَدُّ الْكَوَاكِبِ تَأْثِيرًا عِنْدَهُمْ فِي هَذَا الْعَالَمِ وَهُوَ رَمْزُ الْأُنْثَى، وَكَذَلِكَ الْمُشْتَرِي فَهُوَ أَشْرَفُ الْكَوَاكِبِ السَّبْعَةِ عِنْدَهُمْ وَلَعَلَّهُ كَانَ رَمْزَ الذَّكَرِ عِنْدَهُمْ كَمَا كَانَ بَعْلٌ عِنْدَ الْكَنْعَانِيِّينَ الْفِنِيقِيِّينَ.

اور ہاروت و ماروت فرشتوں کا بدل ہیں اور یہ نام کلدانی کے ہیں ان کو شامل کیا گیا ہے تبدیل کر کے عربیوزن پر اور ظاہر ہے ہاروت معرب ہے ہاروکا کا جو چاند کا نام ہے کلدانیوں کے نزدیک اور ماروت معرب ہے ماروداخ کا جو مشتری کا نام ہے ان کے ہاں – اور یہ کواکب کو مقدس معبودات میں شمار کرتے تھے  خاص طور پر چاند کو کیونکہ یہ کواکب میں سب سے بڑھ کر تاثیر رکھتا ہے ان کے نزدیک تمام عالم میں اور یہ رمز ہے مونث پر اور اسی طرح مشتری سات کواکب میں سب سے با عزت ہے جو اشارہ ہے مذکر پر ان کے نزدیک جیسا کہ بعل تھا فونشیوں  اور کنعآنیوں کے نزدیک

صحیح ابن حبان کی تعلیق میں  شعيب الأرنؤوط   لکھتے ہیں

قلت: وقول الحافظ ابن حجر في “القول المسدد” 40-41 بأن: للحديث طرقاً كثيرة جمعتها في جزء مفرد يكاد الواقف عليه أن يقطع بوقوع هذه القصة لكثرة الطرق الواردة فيها وقوَّة مخارج أكثرها، خطأ مبين منه -رحمه الله- ردَّه عليه العلامة أحمد شاكر -رحمه الله- في تعليقه على “المسند” (6178) فقال: أمَّا هذا الذي جزم به الحافظ بصحة وقوع هذه القصة صحة قريبة من القطع لكثرة طرقها وقوة مخارج أكثرها، فلا، فإنها كلها طرق معلولة أو واهية إلى مخالفتها الواضحة للعقل، لا من جهة عصمة الملائكة القطعية فقط، بل من ناحية أن الكوكب الذي نراه صغيراً في عين الناظر قد يكون حجمه أضعاف حجم الكرة الأرضية بالآلاف المؤلفة من الأضعاف، فأنَّى يكون جسم المرأة الصغير إلى هذه الأجرام الفلكية الهائلة!

  شعيب الأرنؤوط نے ابن حجر کی تصحیح کو ایک غلطی قرار دیا اور احمد شاکر نے بھی ابن حجر کی رائے کو رد کیا

بابل کا مذھب

بابل میں مردوک

Marduk

 کی پوجا ہوتی تھی – بابلی زبان میں مردوک کو

Marutuk

ماروتک

بولا جاتا تھا

 Frymer-Kensky, Tikva (2005). Jones, Lindsay, ed. Marduk. Encyclopedia of religion 8 (2 ed.). New York. pp. 5702–5703. ISBN 0-02-865741-1.

https://en.wikipedia.org/wiki/Marduk

بعض مغربی محققین اس بات تک پہنچے ہیں کہ یہ بابلی دیوتا اصلا فرشتے تھے تصاویر میں بھی اس کو پروں کے ساتھ دکھایا جاتا ہے

جادوگروں نے اس قصے میں  سیارہ الزہرا یعنی وینس ، چاند اور مشتری کا  اثر  تمثیلی انداز میں سکھایا  ہے کہ یہ چاند اور مشتری کا جادو الزہرا کی موجودگی میں بڑھ جاتا ہے – چاند کی بہت اہمیت ہے کیونکہ اس کی ٢٧ منزلیں  ہیں جن میں چاند گھٹتا اور بڑھتا ہے اور عبرانی کے بھی ٢٧ حروف ہیں لہذا کلمات شرکیہ کو ان سے ملا کر اخذ کیا جاتا  تھا

In general, though not always, the zodiac is divided into 27 or 28 segments relative to fixed stars – one for each day of the lunar month, which is 27.3 days long

https://en.wikipedia.org/wiki/Lunar_mansion

بابل کی اسیری سے پہلے بنی اسرائیل جو عبرانی استمال کرتے تھے اس کو

Palaeo-Hebrew alphabet

کہا جاتا ہے جس میں ٢٢ حروف تھے جو ابجد حروف کہلاتے ہیں

یہود کے مطابق بابل کی اسیری میں کسی موقع پر ان  کی زبان تبدیل ہوئی جس میں اشوری اور بابلی زبان سے حروف لئے گئے

بائیس حروف کو ٢٧ میں بدلنے کے پیچھے کیا چاند کی ٢٧ منازل تھیں ؟ راقم کے نزدیک اس کا جواب ہمارے اسلامی جادو یا سحر کی کتب میں ہے جس پر کسی اور بلاگ میں بحث ہو گی

جادو، برج، فرشتےاورمحدثین

بابل میں جادو کا بہت زور تھا اور اس طرف اہل کتاب کا میلان ہوا اس کا ذکر قرآن میں سوره البقرہ میں موجود ہے

وہاں غلامی کے دور کے ایک شخص حزقی ایل نے دیکھا کہ

ezekiel-2

++====================================================

ezekiel-3

ezekiel-4

ترجمہ جیو لنک ریسورس کنسلٹنٹ بار اول ٢٠١٠

اس پورے مکاشفہ میں اہم بات یہ ہے

حزقی ایل باب ١: ٢٦ میں لکھتے ہیں

וּמִמַּעַל, לָרָקִיעַ אֲשֶׁר עַל-רֹאשָׁם, כְּמַרְאֵה אֶבֶן-סַפִּיר, דְּמוּת כִּסֵּא; וְעַל, דְּמוּת הַכִּסֵּא, דְּמוּת כְּמַרְאֵה אָדָם עָלָיו, מִלְמָעְלָה

اور آسمان سے اوپر جو ان کے سروں پر تھا  ایک عرش تھا جیسا کہ نیلم کا پتھر ہوتا ہے اور اس عرش نما پر ایک انسان نما  تخت افروز تھا

یہودیت تصوف میں ان آیات کا مفہوم اللہ کے حوالے سے لیا جاتا ہے اور مرکبہ کو عرش ہی سمجھا جاتا ہے جو بادلوں اوربجلی کی کڑک میں  ہے

 الله ، مرکبہ پر  تھا جس کو چار فرشتے اٹھاتے ہیں اور وہ بادل میں ہے فرشتوں کی شکلوں کے بارے میں ہے کہ ان میں سے

ایک چہرہ بیل جیسا

ایک انسان جیسا

ایک شیر جیسا

ایک عقاب جیسا تھا

اگلی صدیوں میں جب یہود نے بیت الفا  کی عبادت گاہ تعمیر کی تو اس کے فرش پر بارہ برج بھی بناۓ

buni-circle

https://en.wikipedia.org/wiki/Beth_Alpha

اس تصویر میں جو چیز اہم ہے وہ یہ کہ چار چہرے ہیں جو ایک دوسرے کے متوازی ہیں

ایک برج انسان جیسا (برج دلو) ہے اس کے متوازی ایک برج (اسد) شیر جیسا  ہے

ایک برج  بیل جیسا (برج ثور) اور اسکے متوازی برج بچھو  (عقرب) جیسا  ہے

دیو ملائی آسٹرولوجی یا علم نجوم پر ایک کتاب کے مطابق

Scorpio also holds out the promise of ressurection of returning to light; thus Scorpio is regarded as sign of transformation. And certainly it is scorpio that has always been associated with occult wisdom. Some astrologers have imagined scorpio as a fourfold process – from angry scorpion into introspective lizard (the underworld sojourn) to doaring eagle (rebirth) to whitewinged dove (Holy Spirit). (pg 312)

Babylonian linked this (scorpion) sign with the deadly scorpion they also linked it with eagle, as is clear in vision of Ezekiel. (pg 312)

Mythic Astrology: Archetypal Powers in the Horoscope  

By Ariel Guttman, Gail Guttman, Kenneth Johnson

بچھو  دوبارہ زندگی، روشی کی طرف پلٹنے کی نوید رکھتا ہے لہذا بچھو کو تبدیلی کا نشان کہا جاتا ہے …… اور اسی بچھو کو  چھپکلی (قبر کی زندگی) یا عقاب سے(دوبارہ زندگی) اور سفید پروالی فاختہ (روح القدس) سے  تبدیل کیا گیا صفحہ ٣١٢

بابلیوں نے اس (برج والے) نشان کو زہریلے بچھو سے ملایا اور اسی کو عقاب سے بھی ملایا جیسا کہ حزقی ایل کے مکاشفہ سے ظاہر ہے

اس اقتباس کے مطابق  ایک برج کو بابل میں بچھو (عقرب) یا عقاب سے بدلا جاتا رہا ہے اور جیسا کہ اوپر والی تصویر سے ظاہر ہے  اسی کو یہودیوں نے اپنی عبادت گاہ میں بنایا

اب دیکھیں محدثین کے کہہ رہے ہیں

کتاب نقض الإمام أبي سعيد على المريسي العنيد  از عثمان بن سعید میں ایک مقطوع حدیث نقل ہوئی ہے جو کتاب حزقی ایل کی  آیت ١٠ کی نقل ہے

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، ثنا حَمَّادٌ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ عُرْوَةَ ، قَالَ : ” حَمَلَةُ الْعَرْشِ مِنْهُمْ مَنْ صُورَتُهُ عَلَى صُورَةِ الْإِنْسَانِ ، وَمِنْهُمْ مَنْ صُورَتُهُ عَلَى صُورَةِ النِّسْرِ ، وَمِنْهُمْ مَنْ صُورَتُهُ عَلَى صُورَةِ الثَّوْرِ ، وَمِنْهُمْ مَنْ صُورَتُهُ عَلَى صُورَةِ الْأَسَدِ

عروه کہتے ہیں کہ عرش کو جنہوں نے اٹھایا ہوا ہے ان میں انسانی صورت والے ہیں اور عقاب کی صورت والے اور بیل کی صورت والے اور شیر کی صورت والے

ابن ابی شیبہ کی  کتاب العرش  کی روایت ہے

حدثنا : علي بن مكتف بن بكر التميمي ، حدثنا : يعقوب بن إبراهيم بن سعد ، عن أبيه ، عن محمد بن إسحاق ، عن عبد الرحمن بن الحارث بن عياش بن أبي ربيعة ، عن عبد الله بن أبي سلمة قال : أرسل إبن عمر (ر) إلى إبن عباس (ر) يسأله : هل رأى محمد ربه ؟ فأرسل إليه إبن عباس : أن نعم ، قال : فرد عليه إبن عمر رسوله أن كيف رآه ؟ ، قال : رآه في روضة خضراء ، روضة من الفردوس دونه فراش من ذهب ، على سرير من ذهب يحمله أربعة من الملائكة ، ملك في صورة رجل ، وملك في صورة ثور ، وملك في صورة أسد ، وملك في صورة نسر.

عبد الله بن أبي سلمة کہتے ہیں کہ  ابن عمر نے ابن عباس کے پاس بھیجا کہ کیا نبی نے الله کو دیکھا؟ ابن عباس نے کہا ہاں دیکھا. اس پر ابن عمر نے اس کو رد کیا اور کہا کیسے؟ ابن عباس نے کہا الله  کو سبز باغ میں دیکھا،  فردوس کے باغ میں جس میں سونے کا فرش تھا اور ایک تخت تھا سونے کا جس کو چار فرشتوں نے اٹھایا ہوا تھا، ایک کی شکل انسان جیسی، ایک کی بیل جیسی ،ایک کی شیر جیسی ،ایک کی عقاب جیسی تھی

اس سند سے عبدللہ بن احمد بھی کتاب السنہ میں روایت کرتے ہیں، إبن خزيمة – التوحيد – باب ذكر الأخبار المأثورة میں ، البيهقي – الأسماء والصفات – باب ما جاء في العرش والكرسي میں، الآجري – الشريعة میں روایت کرتے ہیں

اس کی سند میں محمد بن إسحاق بن يسار کا تفرد ہے جس کو امام مالک دجالوں میں سے ایک دجال کہتے  ہیں

ابن  الجوزی اس کو کتاب العلل المتناهية في الأحاديث الواهية میں ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں

هَذَا حَدِيثٌ لا يَصِحُّ تَفَرَّدَ بِهِ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ وَقَدْ كَذَّبَهُ مَالِكٌ وَهِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ.

یہ حدیث صحیح نہیں اس میں محمد بن اسحاق کا تفرد ہے اور اس کو امام مالک اور ھشام بن عروہ جھوٹا کہتے ہیں

ابن کثیر سوره غافر کی آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں

 رَبَّنَا وَأَدْخِلْهُمْ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدْتَهُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (8) وَقِهِمُ السَّيِّئَاتِ وَمَنْ تَقِ السَّيِّئَاتِ يَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَهُ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (9)
يخبر تعالى عن الملائكة المقربين من حَمَلة العرش الأربعة، ومن حوله من الكروبيين، بأنهم يسبحون بحمد ربهم

الله نے خبر دی ان چار مقربین فرشتوں کے بارے میں جنہوں نے عرش کو اٹھایا ہوا ہے اور اس کے ارد گرد کروبیں کے بارے میں کہ وہ الله کی تسبیح کرتے ہیں اس کی تعریف کے ساتھ ……ہ

اس کے بعد ابن کثیر ایک روایت نقل کرتے ہیں جس میں محمد بن اسحاق ہے اور کے کچھ اشعار نقل ہوئے ہیں جن  میں آدمی، بیل، شیر اور عقاب کا ذکر ہے اور نبی صلی الله علیہ وسلم کہتے ہیں سچ کہا

 وقد قال الإمام أحمد: حدثنا عبد الله بن محمد -هو ابن أبي شيبة -حدثنا عبدة بن سليمان، عن محمد بن إسحاق، عن يعقوب بن عتبة، عن عكرمة عن ابن عباس [رضي الله عنه]  أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صَدّق أمية في شيء من شعره، فقال:

رَجُلٌ وَثَور تَحْتَ رِجْل يَمينه … وَالنَّسْرُ للأخْرَى وَلَيْثٌ مُرْصَدُ …فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “صدق”..

اس کے بعد ابن کثیر  کہتے ہیں

وهذا إسناد جيد: وهو يقتضي أن حملة العرش اليوم أربعة، فإذا كان يوم القيامة كانوا ثمانية

اس کی سند جید ہے عرش کو چار فرشتوں نے آج اٹھایا ہوا ہے پس جب قیامت ہو گی تو آٹھ اٹھائے ہوں گے

یعنی ابن کثیر کے نزدیک یہ جانوروں کے منہ والے فرشتے جو برجوں کی شکل تھے اصل میں فرشتے ہیں

کتاب  بحر الفوائد المشهور بمعاني الأخبار ازالكلاباذي  الحنفي (المتوفى: 380هـ) کے مطابق

وَقِيلَ فِي حَمَلَةِ الْعَرْشِ إِنَّهُمْ أَمْلَاكٌ أَحَدُهُمْ عَلَى صُورَةِ الْإِنْسَانِ، يَشْفَعُ إِلَى اللَّهِ فِي أَرْزَاقِهِمْ، وَالثَّانِي عَلَى صُورَةِ النَّسْرِ يَشْفَعُ إِلَى اللَّهِ فِي أَرْزَاقِ الطَّيْرِ، وَالثَّالِثُ عَلَى صُورَةِ الْأَسَدِ يَشْفَعُ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى فِي أَرْزَاقِ الْبَهَائِمِ وَدَفْعِ الْأَذَى عَنْهُمْ، وَالرَّابِعُ عَلَى صُورَةِ الثَّوْرِ يَشْفَعُ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى فِي أَرْزَاقِ الْبَهَائِمِ، وَدَفْعِ الْأَذَى عَنْهُمْ يُصَدِّقُ ذَلِكَ

کہا جاتا ہے کہ عرش کو اٹھانے والے فرشتوں میں سے ایک انسان کی شکل کا ہے جو الله سےانسانوں کے رزق کی سفارش کرتا ہے دوسرا عقاب کی شکل کا ہے جو پرندوں کے رزق کی سفارش کرتا ہے تیسرا شیر کی شکل کا ہے جو درندوں کے رزق کی سفارش کرتا ہے چوتھا بیل کی شکل کا ہے جو چوپایوں کے رزق کی سفارش کرتا ہے

ایک اور روایت ہے ایک روز یہود رسول اللہﷺ کے پاس آئے

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَقْبَلَتْ يَهُودُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: يَا أَبَا القَاسِمِ، أَخْبِرْنَا عَنِ الرَّعْدِ مَا هُوَ؟ قَالَ: مَلَكٌ مِنَ الْمَلاَئِكَةِ مُوَكَّلٌ بِالسَّحَابِ مَعَهُ مَخَارِيقُ مِنْ نَارٍ يَسُوقُ بِهَا السَّحَابَ حَيْثُ شَاءَ اللَّهُ فَقَالُوا: فَمَا هَذَا الصَّوْتُ الَّذِي نَسْمَعُ؟ قَالَ: زَجْرَةٌ بِالسَّحَابِ إِذَا زَجَرَهُ حَتَّى يَنْتَهِيَ إِلَى حَيْثُ أُمِرَ قَالُوا: صَدَقْتَ

 اور چند باتیں دریافت کرنے لگے کہ اے ابوالقاسم! رعد کون ہے؟ اور اس کی حقیقت کیا ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا: رعد اس فرشتے کا نام ہے جو بادلوں کو چلانے پر مقرر ہے اور کڑک اس فرشتے کی آواز ہے جو بادلوں کو ہانکنے کے وقت اس فرشتے کے منہ سے نکلتی ہے ۔ اس فرشتے کے پاس آگ کے کوڑے ہیں جن سے وہ بادلوں کو ہانکتا ہے۔ یہ چمک (بجلی) اسی کی آواز ہے

ترمذی اس کو حسن اور احمد شاکر اور البانی  صحیح کہتے ہیں جبکہ یہ حزقی ایل کی کتاب سے مماثلت رکھتی ہے

سند میں  بكير بن شهاب الدامغانى ہے جس کو ابن حجر اور ابن عدی منکر الحدیث کہتے ہیں

کتاب  بغية النقاد از ابن المواق (المتوفى: 642 هـ)  کے مطابق یہ روایت    وليست بصحيحة صحیح نہیں ہے

سوال ہے کہ یہ آثار کیوں پھیلائے گئے؟ اس پر کوئی تحقیق نہیں کرتا –  ان احادیث و آثار کو صحیح کہنے والے محدثین صرف سند دیکھ کر ہی خوش ہوتے رہے جبکہ یہ اصلا بابل کا جادو تھا

محدثین سند سے چلتے تھے اور اس میں ان کا منہج قبول عامہ والا تھا کہ کسی کی روایت اگر قبول ہوتی ہو تو اس کو ثقہ کہا جاتا لیکن یہ علم بھی غلطی سے پاک نہیں اور اس میں بھی خطا ممکن ہے کیونکہ انسانی علم محدود ہے