Category Archives: نصرانی – Christians

دور نبوی کے ادیان باطلہ

  تمام  انبیاء و رسل ، اولیاء اللہ  ، ربانی  اہل  کتاب  کا دین اسلام تھا – اب چاہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وسلم کی بعثت سے صدیوں  پہلے کے ہوں – یعنی  وہ دین  جو  آدم  علیہ السلام سے چلا  آ رہا ہے وہ دین، وہی ہے جس  کا  حکم  تمام بعد کے انبیاء  نے کیا ہے –  اس کو اسلام  کہا  جاتا ہے  –  اسلام  کا مطلب  شریعت  محمد ہی نہیں ہے بلکہ  شریعت  موسوی بھی اسلام ہی  ہے ، یہودیت نہیں ہے – قوم موسی کے مومن  مسلم  تھے – بنی اسرائیل  میں سے   عیسیٰ  کے  حواری بھی  مسلم تھے –  یعنی یہ سب دین اسلام پر عمل پیرا  تھے  –  اگرچہ عیسیٰ  علیہ السلام کے حواری ،  ہیکل سلیمانی میں جا کر سوختی  قربانی دیتے یا  مناسک ہیکل بجا  لاتے تھے  اور کعبہ کی  طرف نہیں بلکہ ہیکل سلیمانی کی طرف منہ  کر کے نماز پڑھتے تھے ، قرآن  میں ان سب کو مسلم  کہا  گیا ہے – معلوم ہوا   شریعت  کا ظاہر  الگ  تھا  لیکن باطن ایک تھا –

  اس دین  سے جو روز الست سے   چلا آ رہا  ہے ،  الگ  ہو  جانے والے  فرقہ ہیں – سورہ ال عمران ١٩ میں ہے

اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّـٰهِ الْاِسْلَامُ ۗ وَمَا اخْتَلَفَ الَّـذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتَابَ اِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَآءَهُـمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَـهُـمْ ۗ وَمَنْ يَّكْـفُرْ بِاٰيَاتِ اللّـٰهِ فَاِنَّ اللّـٰهَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ  

بےشک دین اللہ کے ہاں اسلام  ہی ہے، اور جنہیں کتاب دی گئی تھی انہوں نے صحیح علم ہونے کے بعد آپس کی ضد کے باعث اختلاف کیا، اور جو شخص اللہ کی آیات  کا انکار کرے تو اللہ جلد ہی حساب لینے والا ہے۔

اب جب دین   ایک ہی قابل قبول ہے تو وہ اسلام ہے –  قرآن سورہ الانعام  میں ہے

 إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۚ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ

وہ جنہوں نے  اپنے دین میں فرقے  کیے   اور گروہوں  میں  بٹ گئے   ان سے  آپ کا کوئی سروکار  نہیں ہے – ان  کا فیصلہ  اللہ پر ہے ، پھر  وہ ان کو بتائے  گا کہ انہوں نے کیا  کارگزاری کی 

عرف  عام  میں ہم  یہودیت، نصرانیت  وغیرہ  کو ہم  الگ  دین کہتے ہیں  لیکن قرآن کی ڈکشنری  میں یہ  فرقے ہیں  جو اصل  صراط سے ہٹ   گئے ہیں

یہود کے نزدیک  توریت  آخری  منزل من اللہ کتاب ہے اور  آخری  نبی ملاکی

Malachi

ہے   جس  کا دور سن ٤٢٠ ق م کا کہا  جاتا ہے –  راقم   کے نزدیک  بائبل کی کتاب جو اس نبی سے منسوب  ہے گھڑی ہوئی ہے –   قتل  انبیاء  و رسل  کو  یہودی حلقوں میں  فخر  و افسوس دونوں طرح بیان کیا جاتا ہے – یہود کے نزدیک  اصل اہمیت  اس بات کی  ہے کہ یہود  تمام قوموں  میں اللہ  تعالی کے پسندیدہ ہیں  اور  اللہ نے ارض  مقدس ان کے نام  لکھ دی ہے – یہود کے مطابق  ان کے بعض  سفھاء  و جہلاء  نے انبیاء  و رسل کا قتل کیا جس کی بنا پر ان پر عذاب آیا  جو بابل و اشوری قوم کی طرف سے ان کا   حشر  اول   تھا  یعنی  یہود کو جمع کیا گیا ان کی زمین سے نکالا گیا  –   یہود کے نزدیک حشر  دوم   عذاب نہیں آزمائش  تھا کیونکہ  اس  دور میں  انہوں نے کسی اللہ کے  رسول  کا قتل نہ کیا ( یاد رہے کہ عیسیٰ   ان کے نزدیک رسول و پیغبر نہیں ہیں ) بلکہ بعض لوگوں  نے مسیح کے ظاہر  ہونے  کا جلد گمان  کیا  اور وقت سے  پہلے ان کے  مجاہدوں   نے رومی فوج  کے خلاف  خروج کر دیا  یہ سوچ کر کہ دور خروج   مسیح  آ گیا ہے –  وقت  خروج  کے تعین  میں  اس صریح   غلطی کی وجہ سے  رومی ، یہود  پر  غالب آئے – ہیکل سلمانی فنا  ہو گیا ، یہود  کا حشر  دوم ہوا –  یہود کے مطابق   وہ ابھی بھی اللہ کے محبوب  ہیں اور جہنم میں نہیں  جائیں گے  اگر گئے بھی تو سات دن سے زیادہ نہیں جلیں گے –

عیسیٰ  و  محمد  صلی اللہ علیھما   یہود  کے نزدیک  جھوٹے  انبیاء  تھے  اسی لئے تلمود کے مطابق   عیسیٰ کو رجم کر دیا گیا اور   خیبر  میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر دیا گیا  – احمق  راویوں  نے بیان کیا کہ اسی  زہر کے زیر اثر  وفات النبی  ہوئی  جبکہ یہ جھوٹ ہے

قرآن  میں اس کا صریح  رد ہے کہ عیسیٰ  کا قتل ہوا – قرآن میں ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام  کا رفع  ہوا ان کو زندہ حالت نیند  میں آسمان پر  اٹھا لیا گیا

صابئی

Sabians

کے نزدیک ان  کا مذھب  شیث بن آدم  و نوح  علیھما السلام  سے اتا ہے –  یہ انوخ کی نبوت کے بھی قائل ہیں –  کہا جاتا  ہی کہ ان کے نزدیک  آخری پیغمبر یحیی علیہ السلام   تھے اور آخری منزل من اللہ کتاب زبور ہے – یہ  لوگ عراق  میں آج بھی  آباد ہیں- البیرونی کے مطابق یہ  یہودی قبائل تھے جو غلام بنا کر  بابل  لائے  گئے تھے – وہاں یہ جادو و کہانت سے متاثر  ہوئے – اصل توریت کو کھو بیٹھے –  صابئیوں  پر معلومات  کا مصدر  صرف  ایک کتاب  ہے   جس کا نام ہے

الفلاحة النبطية   یا   الزراعة النبطية

 The Nabataean Agriculture

ہے – جو  أبو بكر أحمد بن علي بن قيس  المعروف  ابن وحشية النبطي کی تالیف ہے- کہا  جاتا  ہے کہ یہ سن ٢٩١ ھ  میں لکھی گئی تھی –  یہ کتاب   صلاح الدین  ایوبی  کے   طبیب   یہودی  حبر    میمونید

Maimonides

کے پاس بھی تھی اور اس نے بھی اس کے حوالے  اپنی کتب میں دیے ہیں

راقم البیرونی کی رائے سے متفق نہیں ہے – صابئی  کو روحانیون بھی کہا  جاتا ہے  – یہ عقیدے رکھتے ہیں کہ جو چیز آسمان میں ہے اور زمین پر اتی ہے اس کی روح ہے مثلا شہاب یا قوس قزح یا ستاروں و سیاروں میں روح ہے اور اہرام مصر انبیاء کی قبروں پر ہیں

مجوس  کے نزدیک  آخری  نبی فارس  میں زرتشت  تھے – ان کے اقوال کا مجموعہ   اوستا ہے –  مقدس آگ  رب نہیں ہے مظہر  الہی ہے ، قبلہ نما ہے  جس کو مخصوص طریقہ سے جلایا جاتا ہے –  –  مجوس  کا لفظ اصل میں فارسی میں   مگوس  ہے  ( جو معرب  ہوا تو مجوس ہوا )  – مگؤس سے ہی  میگی

Magi

کا لفظ نکلا ہے  یعنی آتش   پرست – نصرانیوں  کے نزدیک یہ علم ہیت سے واقف تھے اور   انجیل میں ذکر ہے کہ پیدائش عیسیٰ پر   ستارہ بیت لحم  پر  ظاہر ہوا اور تین مگؤس   وہاں اس ستارہ کو دیکھتے دیکھتے پہنچے  (گویا مجوس بھی منتظر  مسیح  تھے) پھر انہوں نے تحائف  عیسیٰ علیہ السلام کو عطا کیے جس طرح ایک  بادشاہ کو دیے جاتے ہیں –

انگریزی میں  میگی  کا لفظ   میجی بھی ہوا اور اسی سے میجک یعنی جادو  کا لفظ نکلا ہے

 دور  عمر  میں فتح فارس  ایک روایت کے مطابق   مجوس  کے علماء کو جادو  گر قرار دے کر قتل کر دیا گیا تھا

امام شافعی اور دیگر فقہاء   نے  مجوس و صابئیوں  کا شمار اہل کتاب میں کیا ہے  ان کے ذبیحہ کو حلال قرار دیا ہے

نصرانی   (الله کی پناہ) کہتے ہیں کہ عیسیٰ رب ہے – الله  کا ایک جز  (الروح آیلوھم / نور   ) عرش سے زمین تک  آیا –  ایک عورت کو حمل رکھوا دیا اور پھر اس کا وجود کا حصہ عالم بشری میں پیدا ہوا-  اس طرح عیسیٰ کو رب کہتے ہیں آج کل یہی نصرانی مذھب ہے

دور نبوی میں یا اس سے پہلے ایک فرقہ تھا جو کہتا تھا کہ عیسیٰ الله کا منہ بولا بیٹا تھا،  انسان ہی تھا  لیکن یہ فرقہ عام  نصاری کے نزدیک بدعتی تھا اور اب معدوم ہے- قرآن  میں اس کا بھی رد ہے

نصرانیوں کے نزدیک الله  تعالی  خود کو تین اقانیم   ثلاثہ   میں منقسم کرتا ہے  – اس کو لاھوت  کا  ناسوت  میں جانا کہتے ہیں – قرآن  کے مطابق  اللہ  تعالی  کے تین ٹکڑے کرنا کہ کہنا کہ   رب تعالی :   روح القدس اور عیسیٰ اور الله  ہے – یہ کفر ہے   اور اس میں شرک بھی ہے-  اس عقیدے  کو سورہ  المائدہ  میں کفر   کہا گیا  ہے کہ  نصرانیوں  نے کہا الله تو اب تین میں سے ایک  ہے- یہ عقیدہ  آجکل تمام نصرانیوں  کا ہے

سوال اٹھتا ہے کہ اگر یہی عقیدہ صحیح تھا تو اللہ  تعالی  نے توریت  میں اس کا ذکر  کیوں نہ کیا ؟ اس اشکال  کا جواب نصرانی علماء  اس طرح دیتے ہیں کہ   یہود کی کم  عقلی کی وجہ سے اصل مذھب موسی نے توریت میں نہیں بتایا تھا کہ الله تین کا ایک ہے بلکہ اس میں ایک ہی  رب کا ذکر کیا گیا  لیکن اشارات  چھوڑے  گئے کہ  رب منقسم ہوتا ہے – نصرانیوں نے  اپنے فلسفہ سے  الله  تعالی کی ذات کے تین حصے کیے اور کہا کہ یہ تین رب نہیں،  ایک ہی ہیں،  صرف متشکل تین طرح ہوتے ہیں-  یعنی الله تو ایک ہی ہے لیکن ظہور الگ الگ ہے-  آج کل  نصرانی عامیوں  کی جانب سے اس کی مثال پانی سے دی جاتی ہے کہ پانی  زندگی ہے  جو  بھاپ ہے ، مائع ہے اور برف بھی ہے-   الله نے اس  عقیدے کو کفر کہا

 نصرانی اپنے مذھب کا شمار

Monotheism

یا توحیدی مذھب میں کرتے ہیں – جو ان کی خود فریبی ہے-  یعنی یہ بھی مانتے ہیں کہ الله کی تین شکیں یا ظہور یا تجلیات ہیں لیکن اس کو ایک ہی رب بھی کہتے ہیں –  نصرانی  عبادت  میں  پطرس کا اور اپنے اولیاء  کا وسیلہ بھی لیتے ہیں- پوپ

ویٹی کن میں موجود  قبر پطرس کو سجدہ  کرتا ہے

پوپ قبر پطرس کو سجدہ کرتے ہوئے

اللہ  تعالی   قرآن سورہ  المائدہ ٦٩ میں کہتا  ہے کہ وہ   یہودی ، نصرانی ، صائبی  میں سے ان کو معاف  کرے  گا  جو  اللہ  تعالی  اور روز جزا پر ایمان  لائیں  گے

اِنَّ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَالَّـذِيْنَ هَادُوْا وَالصَّابِئُـوْنَ وَالنَّصَارٰى مَنْ اٰمَنَ بِاللّـٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْـهِـمْ وَلَا هُـمْ يَحْزَنُـوْنَ  

بے شک مسلمان اور یہودی اور صابئی اور عیسائی جو کوئی بھی   اللہ اور قیامت پر ایمان لایا اور نیک کام کیے تو ان پر کوئی خوف نہیں ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

سورہ  حج ١٧  میں ہے کہ   یہودی، نصرانی ، صائبی، مجوسی ، مشرکین  سب کا فیصلہ  اللہ کرے گا

اِنَّ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَالَّـذِيْنَ هَادُوْا وَالصَّابِئِيْنَ وَالنَّصَارٰى وَالْمَجُوْسَ وَالَّـذِيْنَ اَشْرَكُوْاۖ اِنَّ اللّـٰهَ يَفْصِلُ بَيْنَـهُـمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ شَهِيْدٌ (17)

بے شک اللہ مسلمانوں اور یہودیوں اور صابیوں اور عیسائیوں اور مجوسیوں اور مشرکوں میں قیامت کے دن فیصلہ کرے گا، بے شک ہر چیز اللہ کے سامنے ہے۔

یہ وہ   لوگ  ہیں  جو رسول  اللہ صلی اللہ علیہ  وسلم سے قبل گزرے  ہوں گے – بعثت  محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کا اقرار   قرآن کی دوسری آیات سے معلوم ہے کہ  اخروی  کامیابی  کے لئے  ضروری امر ہے –  اللہ نے  خبر دے دی ہے کہ وہ شرک کو معاف   نہیں کرے  گا

ملت کا فرق اور قول معروف

93 Downloads

شعائر اسلام کی دین میں اہمیت ہے یعنی وہ چیزیں یا باتیں جس سے غیر مسلموں کو معلوم ہو جائے کہ یہ لوگ مسلم ہیں
ایک ملت اسلامیہ ہے ایک ملت یہود ہے ایک ملت نصاری ہے ایک ملت کفر ہے – قرآن میں ہے کہ یہودی و نصرانی راضی نہ ہوں گے جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی ملت پر نہیں چلتے

ایک مسلمان دوسرے مذہب سے اس طرح الگ ہو جاتا ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ ان سب کا معاشرتی لباس و انداز رہن سہن ایک ہو – مثلا ایک عرب یہودی کی بھی داڑھی ہے اور ایک مسلمان کی بھی ہے – ان دونوں کا لباس ایک جیسا ہے – یعنی کلچر ایک ہے اگرچہ ملت الگ ہے – اس سادہ بات کو لوگوں نے گنجلک بنا کر کچھ سے کچھ بنا دیا ہے – پھر اس طرح یہ غیر عرب _ مغربی و چینی کلچر کی ہر چیز کو حرام قرار دے دیتے ہیں – کوٹ ، پتلون شرٹ غیر اسلامی قرار دے دیے جاتے ہیں اور جبہ اور واسکٹ اسلامی سمجھے جانے لگ جاتے ہیں – داڑھی کو بھی ان لوگوں نے اسی طرح ملت و سنت سمجھا ہے جبکہ اس کا تعلق اس سے نہیں تھا

پیدائش النبی کی عید

نبی صلی الله علیہ وسلم کی اس دنیا میں  پیدائش سے قبل عالم ارضی میں اہل کتاب عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا دن بہت خوشی سے مناتے تھے اس کی وجہ یہ ہے کہ نصرانیوں کے بقول عیسیٰ نے موت کے چکر کو ختم کر دیا اب جو بھی ان کو الله کی پناہ رب کا بیٹا مان لے گا وہ ابدی زندگی سے ہمکنار ہو گا اور جو نہیں مانے گا وہ حیات اخروی نہ پائے گا بلکہ اس کی روح معدوم ہو جائے گی

اس کو نئی زندگی کی نوید کہا جاتا ہے لہٰذا عیسیٰ کی آمد کے سلسلے میں جشن منایا جاتا تھا اور ہے – نصرانیوں کی انجیل یوحنا کی آیات ہیں

یعنی عیسیٰ نور تھا جو الله سے جدا ہوا اور کلمہ الله بن کر انسانی صورت مجسم ہوا – یہ شرح یوحنا نے کی جو ایک یونانی ذہن کا شخص تھا اور انجیل کی ابتداء میں اپنی شرح بیان کی

 الله تعالی نے اس کا رد کیا اور خبر دی کہ عیسیٰ ابن مریم نور نہیں بلکہ کتاب الله یعنی انجیل نور تھی اور کلمہ الله مجسم نہیں ہوا بلکہ مریم کو القا ہوا اور ان میں عیسیٰ کی روح پھونکی گئی

لیکن ١٠٠ ہجری کے اندر ہی اس فرق کو میٹ دیا گیا اور راویوں نے بیان کیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش پر بھی نور نکلا

حدثنا أحمد قال: نا يونس بن بكير عن ابن إسحق قال: حدثني ثور بن يزيد عن خالد بن معدان، عن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم أنهم قالوا: يا رسول الله، أخبرنا عن نفسك، فقال: دعوة أبي إبراهيم، وبشرى عيسى، ورأت أمي حين حملت بي أنه خرج منها نور أضاءت له قصور بصرى من أرض الشام، واسترضعت في بني سعد بن بكر، فبينا أنا مع أخ لي في بهم لنا، أتاني رجلان عليهما ثياب بياض، معهما طست من ذهب مملوءة ثلجاً، فأضجعاني، فشقا بطني، ثم استخرجا قلبي فشقاه، فأخرجا منه علقة سوداء، فألقياها، ثم غسلا قلبي وبطني بذاك الثلج، حتى إذا أنقياه، رداه كما كان، ثم قال أحدهما لصاحبه: زنه بعشرة من أمته، فوزنني بعشرة، فوزنتهم، ثم قال: زنه بألف من أمته، فوزنني بألف، فوزنتهم، فقال: دعه عنك، فلو وزنته بأمته لوزنهم.

 خالد بن معدان بن أبى كرب الكلاعى ، أبو عبد الله الشامى الحمصى نے اصحاب رسول سے روایت کیا   کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمیں آپ اپنے بارے میں بتلائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  میں اپنے والد ابراہیم کی دعا اور عیسی کی دی ہوئی خوشخبری ہوں، میری والدہ جب امید سے ہوئیں تو انہوں نے دیکھا  ان کے جسم سے نور نکلا  جس  سے سرزمین شام میں بصری کے محل روشن ہو گئے

اس روایت کو ابن اسحاق نے اپنی سند سے بیان کیا ہے: (سیرت ابن ہشام: 1/66) اور انہی کی سند سے امام طبری نے اسے اپنی تفسیر طبری : (1/566) میں اور امام حاکم نے اپنی کتاب مستدرک : (2/600) میں روایت کیا ہے، اور ساتھ امام حاکم یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح سند والی ہے، لیکن بخاری اور مسلم نے اسے روایت نہیں کیا، ان کے اس تبصرے پر امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔

کتاب جامع التحصیل کے مطابق اس راوی کا سماع شام منتقل ہونے والے اصحاب سے ہے ہی نہیں

خالد بن معدان الحمصي يروي عن أبي عبيدة بن الجراح ولم يدركه قال أحمد بن حنبل لم يسمع من أبي الدرداء وقال أبو حاتم لم يصح سماعه من عبادة بن الصامت ولا من معاذ بن جبل بل هو مرسل وربما كان بينهما اثنان وقال أبو زرعة لم يلق عائشة وقال بن أبي حاتم سألته يعني أباه خالد بن معدان عن أبي هريرة متصل فقال قد أدرك أبا هريرة ولا يذكر له سماع

اور خود   الذهبي کا کہنا ہے  كان يرسل ويدلس یہ ارسال و تدلیس بھی کرتا ہے

میرے نزدیک جب تک صحابی کا نام نہ لے اس روایت کو متصل نہیں سمجھا جائے گا کیونکہ یہ مدلس ہے واضح رہے اصحاب رسول عدول ہیں لیکن ان سے راوی  کا سماع نہیں ہے

امام بخاری نے صحیح میں خالد کی  أَبَا أُمَامَة والمقدام بن معد يكرب وَعُمَيْر بن الْأسود الْعَنسِي سے روایت لی ہے یعنی بخاری کے نزدیک ان اصحاب رسول سے سماع ہے لیکن نور نکلنے والی روایت میں اصحاب رسول کا نام نہیں لیا گیا لہذا یہ بات مشکوک ہے

انجیل یوحنا کے مطابق عیسیٰ ایک نور تھا جو مجسم ہوا باب اول آیات ایک تا ١٤ میں یہ عقیدہ بیان ہوا ہے مسلمان اس ڈور میں پیچھے کیوں رہتے انہوں نے بھی بیان کیا کہ رسول الله جب پیدا ہوئے تو نور نکلا جس سے شام اور بصرہ عراق روشن ہو گئے کیونکہ بصرہ اور شام میں اس وقت قیصر نصرانی کی حکومت تھی گویا ہمارا نبی دنیا میں آیا تو اس کا نور عیسیٰ سے بڑھ کر تھا

اس طرح کی بہت سی اور روایات ہیں جو صرف نصرانیوں سے مقابلے پر بنانی گئی ہیں

شام کے محلات روشن ہوئے پر روایات مسند احمد میں ہیں جن  کو  بہت ذوق و شوق سے تمام فرقوں کے لوگ بیان کرتے ہیں یہاں تک کہ عصر حاضر کے علماء میں البانی ( صحيح لغيره – “الصحيحة” (1546 و 1925)) اور شعيب الأرنؤوط – عادل مرشد بھی مسند احمد پر تعلیق میں اس کو صحیح لغیرہ کہتے ہیں

مسند احمد کی سند ہے

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ السُّلَمِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” إِنِّي عِنْدَ اللهِ فِي أُمِّ الْكِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّينَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِينَتِهِ، وَسَأُنَبِّئُكُمْ  بِتَأْوِيلِ ذَلِكَ، دَعْوَةِ أَبِي إِبْرَاهِيمَ وَبِشَارَةِ عِيسَى قَوْمَهُ، وَرُؤْيَا أُمِّي الَّتِي رَأَتْ أَنَّهُ خَرَجَ مِنْهَا نُورٌ أَضَاءَتْ لَهُ قُصُورُ الشَّامِ، وَكَذَلِكَ تَرَى أُمَّهَاتُ النَّبِيِّينَ صَلَوَاتُ اللهِ عَلَيْهِمْ

سند میں  سعيد بن سويد شام حمص کا ہے  میزان الاعتدال از الذھبی کے مطابق

امام  البخاري: لا يتابع في حديثه.

امام بخاری کہتے ہیں اس کی حدیث کی متا بعت نہیں کی جاتی

البزار المتوفی ٢٩٢ ھ بھی اس کو مسند میں بیان کرتے ہیں کہتے ہیں

وَهَذَا الْحَدِيثُ لا نَعْلَمُهُ يُرْوَى عَن رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم بِإِسْنَادٍ مُتَّصِلٍ عَنْهُ بِأَحْسَنَ مِنْ هَذَا الإِسْنَادِ وَسَعِيدُ بْنُ سُوَيْدٍ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ

یہ حدیث ہم نہیں جانتے  کہ اس کو اس سے اچھی متصل اسناد سے رسول اللہ سے کسی نے روایت کیا ہو سوائے اس سند کے اور سعید بن سوید شام کا ایک آدمی ہے جس میں برائی نہیں ہے

یعنی امام بخاری اور البزار کا اس راوی پر اختلاف تھا ایک اس میں کوئی برائی نہیں جانتا تھا اور دوسرا اس کی روایات کو منفرد کہتا تھا

صحیح ابن حبان میں ابن حبان نے اسی سند سے  اس روایت کو علامت نبوت میں شمار کیا ہے اور اسی سند کو تلخیص مستدرک میں امام الذھبی نے صحیح کہا ہے

راقم کہتا ہے روایت  چاہے  سعید بن سوید کی سند سے ہو یا کسی اور کی سند سے اس میں شامیوں کا تفرد ہے اور ان شامیوں کو اپنے پروسٹیوں اہل کتاب پر ثابت کرنا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کا نور عیسیٰ علیہ السلام سے بڑھ کر ہےاور یہ شامیوں کا غلو ہے

خصائص الکبری میں پیدائش کی روایت تفصیل سے ہے نعوذباللہ جس کے مطابق اپ صلی الله علیہ وسلم کس طرح اپنی ماں سے باہر نکلے بیان کیا گیا ہے
اسی میں ہے کہ
وأبصرت تِلْكَ السَّاعَة مَشَارِق الأَرْض وَمَغَارِبهَا وَرَأَيْت ثَلَاثَة أَعْلَام مضروبات علما فِي الْمشرق وعلما فِي الْمغرب وعلما على ظهر الْكَعْبَة فأخذني الْمَخَاض فَولدت مُحَمَّدًا صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَلَمَّا خرج من بَطْني نظرت إِلَيْهِ فَإِذا أَنا بِهِ سَاجِدا
آمنہ نے کہا من نے مشرق و مغرب میں دیکھا اور تین جھنڈے دیکھے ایک مشرق میں ایک مغرب میں ایک کعبہ پر اور محمد باہر آیا تو سجدے میں تھا

یہ طویل روایت ابو نعیم اصبہانی نے دلائل النبوہ میں دی ہے

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ ثنا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّبَّاحِ قَالَ: ثنا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَمْرٍو الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ

اس کی سند میں أبو بكر بن عبد الله بن أبي مريم الغساني الشامي ہے جو سخت ضعیف ہے
قال ابن حبان: هو رديء الحفظ، وهو عندي ساقط الاحتجاج به إذا انفرد.
ابن حبان نے کہا ردی حافظہ کا مالک تھا اور میرے نزدیک اس کی منفرد روایت ساقط دلیل ہے

اس طرح   شامیوں کی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ بطن آمنہ میں سے نور نکلنے والے روایت – محراب و منبر پر بیان کی جاتیں ہیں

اس نور کی منظر کشی عصر حاضر میں ایرانی فلم میں کی گئی

  شامی راویوں  کی اس روایت کو اہل تشیع نے قبول کر لیا

شیعوں کی کتاب الخصال از  أبى جعفر محمد بن علي بن الحسين بن بابويه القمى المتوفى 381 ہجری کے مطابق

حدثنا أبوأحمد محمد بن جعفر البندار الفقيه بأخسيكث ( 2 ) قال : حدثنا
أبوالعباس محمد بن جمهور ( 3 ) الحمادي قال : حدثني أبوعلي صالح بن محمد البغدادي ببخارا
قال : حدثنا سعيد بن سليمان ، ومحمد بن بكار ، وإسماعيل بن إبراهيم قال ( 4 ) : حدثنا
الفرج بن فضالة ، عن لقمان بن عامر ، عن أبي امامة قال : قلت : يا رسول الله ما كان
بدء أمرك ، قال : دعوة أبي إبراهيم ، وبشرى عيسى بن مريم ، ورأت أمي أنه خرج منها شئ أضاءت منه قصور الشام (

الفرج بن فضالة الحمصي الشامی نے روایت کیا لقمان بن عامر سے اس نے ابی امامہ سے کہ میں نے رسول الله سے پوچھا اپ کا امر نبی کیسے شروع ہوا؟ فرمایا میں اپنے باپ ابراھیم کی دعا ہوں اور عیسیٰ ابن مریم کی بشارت ہوں اور میری امی نے دیکھا کہ ان میں سے نور نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے

اس کی سند میں الفرج بن فضالة الحمصي الشامی اہل سنت میں سخت ضعیف ہے اور اہل تشیع کی کتب رجال میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ملا

رسول الله کی پیدائش پر ان کے ساتھ ان کی ماں کے بطن سے ایک عظیم نور نکلا اس روایت کے مختلف طرق ہیں سب میں شامیوں کا تفرد ہے

مزید دیکھیں

عید میلاد النبی

 

ملحمہ الکبری کی بڑھ

الملحمة الكبرى کی روایات

127 Downloads

یہودیوں  نے خبر دی ہے کہ یروشلم میں لومڑیاں نظر آ  رہی ہیں –  اس قسم کی خبر کہا جاتا ہے کہ کتاب گریہ بائبل میں موجود ہے جس میں گیڈروں کے گزرنے  کا ذکر ہے

https://biblehub.com/lamentations/5-18.htm

for Mount Zion, which lies desolate, with jackals prowling over it.

صیھون کے پہاڑ  پر بربادی ہو گی اور اس پر گیڈر چلیں گے 

اول تو کوہ  صیھون کہاں ہے اس پر یہود میں خود اختلاف ہے – خاص وہ مقام جہاں مسجد بیت المقدس ہے وہ کوہ صیھون نہیں ہے

بہرحال  میڈیا میں مسلسل یہودی اپنی جنگ کا ذکر کرتے رهتے ہیں

ملحمہ سے مراد
Armageddon
ہے – جس کی اسلام میں کوئی دلیل نہیں ہے- یہ یہود و نصاری کی بڑھ ہے جس میں ان کے مطابق اہل کتاب تمام دنیا پر غالب ہوں گے

اللہ تعالی نے قرآن سوره أل عمران میں بتایا ہے کہ یہود کی سرکشی کی وجہ سے اس نے یہود پر ذلت و مسکنت قیامت تک لکھ دی ہے

ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُوا إِلا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ الأنْبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ
ان پر ذلت کی مار ہے جہاں بھی جائیں مگر ساتھ اللہ کی (وقتی ) پناہ سے یا لوگوں کی (وقتی ) پناہ سے اور وہ اللہ کے غضب میں گھرے ہوۓ ہیں اور ان پر پستی لازم کی گئی، یہ اس لیے ہے کہ اللہ کی آیات کا کفر کرتے تھے اور انبیاء کو ناحق قتل کرتے تھے، یہ لیے کہ انہوں نے سرکشی کی اور حد کو پار کیا

اس آیت سے بتایا گیا کہ مدینہ کے یہودی ہوں یا کہیں اور کے ہوں – یہودی ، اللہ کے نزدیک معذب ہیں – ان کی کامیابی یا دولت زیادہ عرصے نہ رہے گی – دوسری طرف یہود نے اپنے انبیاء کے نام پر یہ آیات گھڑیں کہ عنقریب ان کا باقی دنیا سے معرکہ ہو گا اور وہ تمام عالم پر غالب ہو جائیں گے – اس بات کو گمراہ ہونے والے نصرانییوں نے بھی مان لیا اور نصرانییوں نے اس کو اپنے لئے بیان کیا ہے –

نام

Armageddon

پر اہل کتاب کے علماء کا کہنا ہے کہ یہ اصل مقام
Megiddo
ہے   جو اب اسرائیل میں ہے – اس کا ذکر صرف عہد نامہ جدید میں ہے – کتاب الرویا از مجہول الحال یحیی میں ہے

Revelation 16:16
And they assembled them at the place that in Hebrew is called Harmagedon.
اور وہ اس جگہ جمع ہوں گے جس کو عبرانی میں ہر مجدون کہتے ہیں

فَجَمَعَهُمْ إِلَى الْمَوْضِعِ الَّذِي يُدْعَى بِالْعِبْرَانِيَّةِ «هَرْمَجَدُّونَ كتاب الرويا

ھر کا مطلب عبرانی میں پہاڑ یا جبل ہے اور مجدون جگہ کا مقام ہے جو آجکل
bikat megiddon
کہلاتا ہے -اس  کا ذکر بائبل کتاب زکریا میں ہے اور اس کو یروشلم میں ایک مقام بتایا گیا ہے
Zechariah (12:11)
In that day there shall be a great mourning in Jerusalem, like the mourning at Hadad Rimmon in the plain of Megiddo.
اس روز یروشلم میں خوب رونا پیٹنا ہو گا جیسے حداد رمؤن میں مجدوں میں ہوا تھا

فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ يَعْظُمُ النَّوْحُ فِي أُورُشَلِيمَ كَنَوْحِ هَدَدْرِمُّونَ فِي بُقْعَةِ مَجِدُّونَ.
زكريا 12 : 11
اصل لفظ مَجِدُّونَ کا پہاڑ ہے جو اصل میں بیت المقدس ہی مراد ہے –

یعنی
Armageddon
سے مراد جنگ کے بعد یروشلم میں اس مقام پر نوحہ و گریہ زاری ہے

اب سوال یہ ہے کہ بائبل کے انبیاء کی کتب میں اس مقام کا ذکر کیوں ہے ؟ وہاں کون گریہ کرے گا ؟ راقم نے اس سوال پر دو سال تحقیق کی ہے اور جو معلوم ہوا وہ یہ ہے کہ یہ آیات یہود نے گھڑی ہیں – ان آیات کو گھڑنے کا اصل مدعا یہ تھا حشر دوم کے بعد یہود جب واپس اسرائیل پہنچے تو دیکھا کہ وہاں غیر یہودی آباد ہیں – شروع میں انے والے گروہوں نے مقامی آبادی میں شادیان کر لیں اور مسجد اقصی کو تعمیر بھی کیا – وہاں اس وقت  متعین ایک افسر عزیر
Ezra

بھی تھا  جو فارسیوں کا ملازم تھا –  نوٹ کیا گیا  کہ بنی اسرائیل میں بغاوت کے جذبات آ رہے ہیں وہ نسل داود سے واپس کسی کو بادشاہ مقرر کرنا چاہتے ہیں – اس دوران دو فارس مخالف انبیاء ظاہر ہوۓ ایک نام زکریا تھا اور دوسرے کا نام حججی تھا – اسی طرح چند اور لوگوں نے دعوی کیا کہ ان کو بنی اسرائیل کے سابقہ انبیاء کے نام سے کتب ملی ہیں جن میں کتاب یسعیاہ، یرمییاہ ، حزقی ایل ، عموس وغیرہ ہیں – یعنی  یہودی اپس میں لڑنے لگے اور انبیاء کے نام پر کتب ایجاد کیں – یہ بات  یہود کی  ان کتب انبیاء  کو پڑھنے اور تقابل کرنے پر ظاہر ہو جاتی ہے کیونکہ اگر ان کتب کا اپس میں تقابل کیا جائے تو باہم متضاد اور مخالف بیانات ملتے ہیں – انبیاء جھوٹ نہیں بولتے  یہ یہودی جھوٹے ہیں جنہوں نے ان کے نام سے کتب کو جاری کیا – یہود   میں فارس کے خلاف  بغاوت کے جذبات پیدا ہو چلے تھے – فارس کے خلاف بغاوت کی سازش کرنے لگے- اس بغاوت کو کچلنے کے لئے فارسیوں نے ایک افسر نحمیاہ کو بھیجا   اور اس نے سختی سے اس بغاوت کو کچل دیا اورمیں  نبوت  کے دعویداروں کا قتل بھی ہوا اور ہیکل کے پروہتوں  کا بھی

فرضی نبی زکریا نے  ہر مجدون میں جس رونے پیٹنے کا ذکر کیا ہے وہ اصل میں انہی اپس کے اختلاف پر یہود کا ایک دوسرے کو قتل کرنا ہے – واضح رہے یہ زکریا وہ نبی نہیں جن کا ذکر قرآن میں  ہے بلکہ ان کا دور اس فرضی نبی سے کئی سو سال بعد کا ہے

  اب عزیر ایک بیوروکریٹ تھا اور نحمیاہ ان کا نیا گورنر تھا – عزیر نے ایک نئی توریت یہود کو دی اور الہامی متن کو تبدیل کیا – توریت اصلا عبرانی میں تھی عزیر نے اس کو بدل کر آشوری میں کر دیا – یہود کے اپس کے اس جھگڑے میں لیکن ایک مسیح کا تصور باقی رہ گیا کہ کوئی نسل داود سے آئے گا جو بنی  اسرائیل کو غیر قوموں کے چنگل سے نکالے گا – اس بغاوت کے قریب ٥٠٠ سال بعد اللہ تعالی نے مسیح عیسیٰ ابن مریم علیھما السلام کو بھیجا- اس وقت تک بنی اسرائیل پر رومیوں کا قبضہ ہو چکا تھا لیکن یہود کے معاملات  پر وہ حاکم  تھے جو عزیر کی دی گئی توریت کو پڑھتے تھے – عزیر خود یہود کے مطابق اللہ کا نبی نہیں تھا وہ محض ایک سرکاری افسر تھا جو فارس کا مقرر کردہ تھا البتہ بعض یہودی فرقوں نے اس سوال کا جواب کہ اس نے توریت کو اشوری میں کیسے کر دیا اس طرح دیا کہ اس کو اللہ کا بیٹا کہنا شروع کر دیا – جس کو وہ بنو الوھم کہتے تھے یعنی اللہ کے بیٹے جن پر روح القدس کا نزول ہوا اور توریت موسی ، اصلی  عبرانی سے فارس میں بولی جانے والی اشوری میں بدل گئی

افسوس مسلمانوں نے عزیر کو نبی کہنا دینا شروع کر دیا ہے اور اس کے ساتھ علیہ السلام کا لاحقہ بھی لگایا جاتا ہے جبکہ ابی داود کی حدیث ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

مَا أَدْرِي أَعُزَيْرٌ نَبِيٌّ هُوَ أَمْ لَا
مجھے نہیں پتا کہ عزیر نبی ہے یا نہیں

جیسا عرض کیا کہ یہود نے انبیاء کے نام پر کتب گھڑیں تو وہ ان میں باقی رہ گئیں اور عیسیٰ علیہ السلام کے بعد انہی کتب کو گمراہ ہونے والے نصرانییوں نے لیا اور انہوں نے ذکر کردہ بغاوت اور نتیجے میں ہونے والی جنگ پر استخراج کیا کہ سابقہ انبیاء سے منسوب  کتب میں جس  جنگ کا ذکر ہے وہ نصرانییوں کی جھوٹے مسیح  سے جنگ کے بارے میں ہے –

دو مسیح کا تصور انہی انبیاء سے منسوب   کتب میں اختلاف  سے نکلا ہے

ایک داود کی نسل کا اور ایک یوسف کی نسل کا

یا 

ایک حاکم مسیح اور ایک منتظم مسجد  و روحانی مسیح

یا

ایک اصلی مسیح اور ایک دجال

یہ تصورات یہود میں عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے سے آ گئے تھے – ان کی بازگشت بحر مردار کے طومار

Dead Sea Scrolls

میں سنی جا سکتی ہے

حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے مسیح ابن مریم رسول اللہ کو بھیجا ہے یعنی وہ مسیح جو کسی نسب کا نہیں ہے نہ داود کی نسل سے ہے نہ یوسف کی نسل سے وہ نبی   ہے شاہ نہیں  اور مسیح عیسیٰ علیہ السلام  کا مشن  کسی عالمی  جنگ کی سربراہی کرنا نہیں ہے بلکہ توحید کا سبق دینا ہے اصل کامیانی آخرت کی ہے دنیا کی جنگوں  نہیں – نزول ثانی پر عیسیٰ علیہ السلام کا مشن جنگیں کرنا نہیں  بلکہ گمراہ مسلمان فرقوں کو توحید کی تبلیغ کرنا ہو گا – اسی لئے حدیث نبوی  میں دجال اور عیسیٰ دونوں کا کعبہ کا طواف کرنے کا ذکر ہے

عرب نصرانی اسی جنگ کو ملحمہ الکبری کہتے ہیں – اور یہود میں سے مسلمان ہونے والا کعب الاحبار اسی کو الْمَلْحَمَةَ الْعُظْمَى یا الْمَلْحَمَةَ الْكُبْرَى کہتا تھا (کتاب الفتن از نعیم بن حماد )- شامی مسلمانوں نے الْمَلْحَمَةَ الْكُبْرَى سے متعلق اقوال کو حدیث نبوی بنا کر پیش کر دیا ہے

عصر حاضر میں اس جنگ کا ذکر پھر سننے میں آ رہا ہے جبکہ یہ محض یہود کا پروپیگنڈا تھا اور اب اسی کو بعض لا علم لوگ حدیث رسول بنا کر پیش کر رہے ہیں-احادیث رسول سے معلوم ہے کہ دجال سے جنگ مسلمان نہیں کریں گے وہ پہاڑوں میں روپوش رہیں گے اور نزول عیسیٰ پر دجال فورا ہی عیسیٰ ابن مریم کے ہاتھوں قتل ہو جائے گا

مسند احمد اور سنن ترمذی کی روایت ہے
حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَابِتِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ يَخَامِرَ، عَنْ مُعَاذٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” عُمْرَانُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ خَرَابُ يَثْرِبَ، وَخَرَابُ يَثْرِبَ خُرُوجُ الْمَلْحَمَةِ، وَخُرُوجُ الْمَلْحَمَةِ فَتْحُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ، وَفَتْحُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ خُرُوجُ الدَّجَّالِ “. ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى فَخِذِ الَّذِي حَدَّثَهُ أَوْ مَنْكِبِهِ، ثُمَّ قَالَ: ” إِنَّ هَذَا لَحَقٌّ (1) كَمَا أَنَّكَ هَاهُنَا “. أَوْ كَمَا ” أَنَّكَ قَاعِدٌ ” يَعْنِي: مُعَاذًا
مُعَاذٍ رضی الله عنہ نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بیت المقدس کی آبادی، مدینہ کی بربادی ہے اور مدینہ کی بربادی ملحمہ (خون ریز جنگیں) کا نکلنا ہے اور ملحمہ کا نکلنا الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ کی فتح ہے اور الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ کی فتح دجال کا خروج ہے
اس کی سند ضعیف ہے سند میں عبد الرحمن بن ثوبان ہے جس کی وجہ سے مسند احمد کی تعلیق میں شعيب الأرنؤوط نے اس روایت کو رد کیا ہے- نسائی نے اس راوی کو ليس بالقوي قرار دیا ہے
کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق لابن أبي حاتم کہتے ہیں
سمعت أبي يقول عبد الرحمن بن ثابت بن ثوبان قد أدرك مكحولا ولم يسمع منه شيئا
میں نے اپنے باپ سے سنا عبد الرحمن بن ثابت بن ثوبان نے مکحول شامی کو پایا لیکن ان سے سنا نہیں
زیر بحث روایت بھی مکحول سے اس نے روایت کی ہے
ابو حاتم کہتے ہیں وتغير عقله في آخر یہ آخری عمر میں تغیر کا شکار تھے
ضعفاء العقيلي کے مطابق امام احمد نے کہا لم يكن بالقوي في الحديث حدیث میں قوی نہیں ہے
الكامل في ضعفاء الرجال کے مطابق يَحْيى نے کہا یہ ضعیف ہے
ابو داود میں روایت کی سند میں ہے جو شعَيب الأرنؤوط – محَمَّد كامِل قره بللي کے مطابق ضعیف ہے اور البانی نے صحيح الجامع: 4096 , المشكاة: 5424 میں اس کو صحیح کہا ہے – راقم کے نزدیک شعَيب الأرنؤوط – محَمَّد كامِل قره بللي کی تحقیق صحیح ہے

اس متن کا ایک دوسرا طرق ہے جو مصنف ابن ابی شیبہ میں ح 37209 ہے
حَدَّثَنَا – أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ مَكْحُولٍ، أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، قَالَ: ” عِمْرَانُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ خَرَابُ يَثْرِبَ وَخَرَابُ يَثْرِبَ خُرُوجُ الْمَلْحَمَةِ , وَخُرُوجُ الْمَلْحَمَةِ فَتْحُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ , وَفَتْحُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ خُرُوجُ الدَّجَّالِ , ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى مَنْكِبِ رَجُلِ وَقَالَ: وَاللَّهِ إِنَّ ذَلِكَ لَحَقٌّ
اس روایت کی علت کا امام بخاری اور ابن ابی حاتم نے اپنی کتاب تاریخ اور علل میں ذکر کی ہے کہ ابو اسامہ نے عبد الرحمان بن یزید بن تمیم کا نام غلط لیا ہے اور دادا کا نام ابن جابر کہا ہے
جبکہ یہ نام غلط ہے اصلا یہ عبد الرحمان بن یزید بن تمیم ہے جو منکر الحدیث ہے

مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنِي بَحِيرُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ ابْنِ أَبِي بِلَالٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ بُسْرٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” بَيْنَ الْمَلْحَمَةِ وَفَتْحِ الْمَدِينَةِ سِتُّ سِنِينَ، وَيَخْرُجُ مَسِيحٌ الدَّجَّالُ فِي السَّابِعَةِ
عَبْدِ اللهِ بْنِ بُسْر نے روایت کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خون زیر جنگوں اور مدینہ کی فتح میں چھ سال ہیں اور ساتویں سال دجال نکلے گا

شعيب الأرنؤوط – عادل مرشد کہتے ہیں
إسناده ضعيف لضعف بقية- وهو ابن الوليد- ولجهالة ابن أبي بلال – واسمه عبد الله

مسند احمد کی حدیث ہے
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَرْطَاةَ، قَالَ: سَمِعْتُ جُبَيْرَ بْنَ نُفَيْرٍ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” فُسْطَاطُ الْمُسْلِمِينَ يَوْمَ الْمَلْحَمَةِ الْغُوطَةُ، إِلَى جَانِبِ مَدِينَةٍ يُقَالُ لَهَا: دِمَشْقُ
أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمانوں کا کیمپ ملحمہ کے دن غوطہ میں ہو گا اس شہر کی جانب جس کو دمشق کہا جاتا ہے

مسند احمد میں اس کو بعض اصحاب رسول سے مرفوع نقل کیا گیا ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «سَيُفْتَحُ عَلَيْكُمُ الشَّامُ وَإِنَّ بِهَا مَكَانًا يُقَالُ لَهُ الْغُوطَةُ، يَعْنِي دِمَشْقَ، مِنْ خَيْرِ مَنَازِلِ الْمُسْلِمِينَ فِي الْمَلَاحِمِ
اس میں رجل من اصحاب النبی کہا ہے نام نہیں لیا – بہت سے محدثین کے نزدیک یہ سند قابل قبول نہیں ہے

ان اسناد میں روایت کو مرفوع روایت کیا گیا ہے لیکن تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ محدثین کے نزدیک یہ حدیث مرفوع نہیں قول تبع التابعی ہے

مختصر سنن أبي داود از المؤلف: الحافظ عبد العظيم بن عبد القوي المنذري (المتوفى: 656 هـ) میں ہے
وقال يحيى بن معين -وقد ذكروا عنده أحاديث من ملاحم الروم- فقال يحيى: ليس من حديث الشاميين شيء أصح من حديث صدقةَ بن خالد عن النبي -صلى اللَّه عليه وسلم-: “معقل المسلمين أيام الملاحم: دمشق”.
ابن معین نے کہا اور ملاحم روم کے بارے میں حدیث ذکر کیں پھر ابن معین نے کہا شامییوں کی احادیث میں اس سے زیادہ کوئی اصح حدیث نہیں جو صدقةَ بن خالد (تبع تابعی) نے نبی صلى اللَّه عليه وسلم سے روایت کی ہے کہ ملاحم کے دنوں میں مسلمانوں کا قلعہ دمشق ہو گا

یعنی ابن معین کے نزدیک یہ روایت صحیح نہیں جیسا کہ انہوں نے ابو درداء کی روایت کا ذکر نہیں کیا

تاريخ ابن معين (رواية الدوري) میں ہے

قَالَ يحيى وَكَانَ صَدَقَة بن خَالِد يكْتب عِنْد الْمُحدثين فِي أَلْوَاح وَأهل الشَّام لَا يَكْتُبُونَ عِنْد الْمُحدثين يسمعُونَ ثمَّ يجيئون إِلَى الْمُحدث فَيَأْخُذُونَ سماعهم مِنْهُ
ابن معین نے کہا کہ صدقه بن خالد محدثین سے لکھتے تھے الواح پر اور اہل شام محدثین سے نہیں لکھتے تھے وہ بس سنتے تھے پھر محدث کے پاس جاتے اور ان سے سماع کرتے

معلوم ہوا کہ صدقه بن خالد کے لکھنے کی وجہ سے ابن معین کے نزدیک ان کی سند صحیح تھی جبکہ باقی اہل شام کی روایات پر ان کو شک تھا

ابو داود میں ہے
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا بُرْدٌ أَبُو الْعَلَاءِ، عَنْ مَكْحُولٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: “مَوْضِعُ فُسْطَاطِ الْمُسْلِمِينَ فِي الْمَلَاحِمِ أَرْضٌ يُقَالُ لَهَا الْغُوطَةُ

اس میں مکحول کوئی صحابی نہیں لیکن لوگوں نے اس سند کو بھی صحیح کہہ دیا ہے

فضائل صحابہ از احمد کے مطابق یہ قول تابعی مکحول کا تھا
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قثنا أَبُو سَعِيدٍ قثنا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ قَالَ: نا مَكْحُولٌ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «فُسْطَاطُ الْمُؤْمِنِينَ فِي الْمَلْحَمَةِ، الْغُوطَةُ مَدِينَةٌ يُقَالُ لَهَا دِمَشْقُ هِيَ خَيْرُ مَدَائِنِ الشَّامِ» .

الولید بن مسلم المتوفی ١٥٩ ھ نے ان اس روایت میں اضافہ کیا – کتاب الفتن از نعیم بن حماد میں ہے
حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ ….وَيَظْهَرُ أَمْرُهُ وَهُوَ السُّفْيَانِيُّ، ثُمَّ تَجْتَمِعُ الْعَرَبُ عَلَيْهِ بِأَرْضِ الشَّامِ، فَيَكُونُ بَيْنَهُمْ قِتَالٌ حَتَّى يَتَحَوَّلَ الْقِتَالُ إِلَى الْمَدِينَةِ، فَتَكُونُ الْمَلْحَمَةُ بِبَقِيعِ الْغَرْقَدِ»
ولید بن مسلم نے کہا سفیانی کے خروج کے بعد عرب شام میں جمع ہوں گے پھر یہ جدل و قتال مدینہ منتقل ہو گا بقیع الغرقد پر

ولید اپنے دور کی ہی بات کر رہا ہے جب بنو امیہ میں سے سفیانی کا خروج ہوا اور امام المہدی محمد بن عبد اللہ نے مدینہ میں اپنی خلافت کا اعلان سن ١٢٥ ھ میں مدینہ میں کر چکا تھا
سفیانی سے مراد يزيد بن عبد الله بن يزيد بن معاوية بن أبي سفيان ہیں اور یہ خروج سفیانی سن ١٣٣ ھ میں ہوا-

سنن ابو داود میں ہے
حدَّثنا عبد الله بن محمَّد النُّفيليُّ، حدَّثنا عيسى بن يونس، عن أبي بكر بن أبي مريم، عن الوليد بن سُفيان الغسانيِّ، عن يزيد بن قُطَيب السَّكونىِّ، عن أبي بحرية
عن معاذ بنِ جبلِ، قال: قالَ رسولُ الله – صلَّى الله عليه وسلم -: الملحمَةُ الكبرى وفتحُ القُسطنطينية وخروجُ الدجال في سَبعَة أشهر

معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بڑی خونریز جنگوں اور فتح القُسطنطينية اور خروج دجال میں سات ماہ ہیں

شعیب کہتے ہیں سند ضعیف ہے
إسناده ضعيف لضعف أبي بكر بن أبي مريم والوليد بن سفيان، ولجهالة يزيد بن قُطيب. أبو بحرية: هو عبد الله بن قيس

ابو داود نے دوسرا طرق دیا ہے اور کہا
حد ثنا حيوة بن شُرَيح الحمصيُّ، حدَّثنا بقيَّة، عن بَحِيْرٍ، عن خالدٍ، عن ابن أبي بلالٍ
عن عبدِ الله بن بُسرٍ، أن رسولَ الله – صلَّى الله عليه وسلم – قال: “بين الملحمةِ وفتح المدينة ستُّ سنينَ، ويخرج المسيحُ الدَّجالُ في السابعة”
قال أبو داود: هذا أصحُّ من حديثِ عيسى
یہ طرق عيسى بن يونس سے اصح ہے

لیکن اس طرق کو بھی شعیب نے رد کیا ہے
إسناده ضعيف لضعف بقية -وهو ابن الوليد الحمصي- وجهالة ابن أبي بلال -واسمه عبد الله- خالد: هو ابن معدان الكلاعي، وبَحِير: هو ابن سعد السَّحُولي
اور ابن ماجہ کی تعلیق میں البانی نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے

الغرض ملحمہ ایک فرضی جنگ کا قصہ ہے اور یہود کا پروپیگنڈا تھا جو ان سے نصرانییوں کو ملا اور پھر اسرائیلیات پسند کرنے والے راویوں کی وجہ سے اس کا ذکر احادیث میں شامل ہو گیا

واضح رہے کہ دنیا میں جنگیں  ہوتی رہتی ہیں – جنگ عظیم اول و دوم کا ہم کو علم ہے لیکن ان جنگوں کو مذھب کے تحت کوئی اخروی معرکہ نہیں سمجھتا – اسی طرح مستقبل کی بھی کسی بھی جنگ کو آخری معرکہ قرار دینا غیر دانشمندی ہے
مسلمانوں کے دانشمند اسی قسم کے مغالطے دیتے رہے ہیں مثلا عباسی خلیفہ واثق پر یاجوج ماجوج کا اتنا اثر ہوا کہ خواب میں دیکھا کہ ان کا خروج ہو گیا ہے فورا ایک شخص کو بھیجا کہ جا کر خبر لائے اور اس شخص نے جا کر یاجوج ماجوج کو بھی دیکھ لیا -یا للعجب –  اسی طرح تاتاریوں کے حملے کو بھی خروج یاجوج موجوج سمجھ کر ان سے جنگ نہ کی گئی – ان کا اتنا رعب بیٹھا کہ تلوار تک نہ اٹھا سکے

عصر حاضر میں اصل میں یہود یہ چاہتے ہیں کہ ملحمہ ہو جس کا ذکر اصل میں ان کی کتب میں موجود ہے – یہ کوئی نئی بات نہیں ایسا یہودی کرتے آئے ہیں قرآن میں ہے
كُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ المائدة:64
جب بھی یہ جنگ کی اگ بھڑکاتے ہیں اللہ اس کو بجھا دیتا ہے

سوال ہے کہ یہود ایسا کیوں کرتے ہیں ؟ تو اس کا جواب راقم نے یہود کی کتب میں پڑھا ہے کہ اس کا مقصد ہے کہ اللہ کو نعوذ باللہ مجبور کیا جائے کہ وہ اصلی مسیح کو ظاہر کرے

اللہ سب مسلمانوں کو کفار کے شر سے اور فتنوں سے محفوظ رکھے

نزول المسیح و خروج الدجال پر کتاب ٢

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

کتاب کا موضوع   روایات   نزول مسیح و خروج  دجال ہے  جو صحیح احادیث سے ثابت ہے لیکن ان   روایات میں تمام صحیح نہیں – بعض اہل کتاب کے اقوال ، سیاسی بیانات اور   ذاتی آراء بھی ہیں جو حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم  سمجھی جانے لگی ہیں-   امت  میں نزول مسیح اور قتل دجال کے مقام کے حوالے سے اختلاف چلا آ رہا ہے اور یہ اختلاف مشہور محدثین میں بھی موجود ہے –  امام مسلم نے غلطی سے     اس  حدیث  کو صحیح سمجھا ہے جو نواس   رضی اللہ عنہ سے منسوب  کی گئی ،  جبکہ   راقم کے نزدیک  یہ کعب  الاحبار کے   خیالات  اور اسرائیلیات   کا مجموعہ   ہے –  نواس   رضی اللہ عنہ سے منسوب  کی گئی  اس حدیث کے مطابق  عیسیٰ علیہ السلام کا   نزول دمشق میں ہے  اور دجال کا قتل لد پر ہو گا – دوسری طرف   محدث ابن خزیمہ اس کے قائل تھے کہ دجال بیت المقدس میں  ایک زلزلہ میں ہلاک ہو گا- ابن خزیمہ نے ان احادیث کو  اپنی   صحیح میں نقل نہیں کیا جن میں   ہے کہ دجال لد پر قتل ہو  گا- سیوطی  اور ملا علی قاری بھی  اس کے قائل ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کا نزول   بیت المقدس میں ہو گا -بعض علماء کا قول یہ بھی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا نزول دمشق سے باہر مشرق کی سمت پر ہو گا مثلا  امام حاکم اس کے قائل ہیں کہ مسیح کا نزول   مشرقی دمشق   میں ہو گا ( نہ کہ وسط دمشق  میں الفاظ ہیں  فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ )- امام  ابن حبان اور امام بخاری  نے اپنی  اپنی صحیح  میں حدیث نواس رضی اللہ عنہ  کو درج نہیں کیا اور نزول مسیح کے مقام سے متعلق کوئی روایت نہیں دی،  نہ ان دونوں نے سفید  مینار کا  کوئی  ذکر کیا ہے – ابن حبان اگرچہ  ایک دوسری سند سے اس کے قائل ہیں کہ دجال کا قتل لد پر ہو گا – امام   ابی حاتم کے نزدیک اس حوالے سے بعض  روایات اصلا کعب الاحبار کے اقوال ہیں –    راقم کی تحقیق سے امام ابی حاتم کا قول ثابت ہوتا ہے-

بعض روایات صریحا خلاف قرآن ہیں لیکن افسوس ان بھی قبول کر لیا گیا ہے مثلا درخت  غرقد  کی خبر  کہ وہ اللہ اور اس کے رسولوں کا دشمن ہے   یا خبر  کہ  حربی  یہود  کے علاوہ    سب یہود  کو  بلا   امتیاز  قتل کیا جائے گا-  اسی طرح  بعض  خبریں  دجال کی  الوہی صفات   پر ہیں مثلا اس کا  مردے  کو زندہ کرنا، آسمان و زمین کا اس کی اطاعت کرنا- افسوس ان میں سے ایک آدھ خبر صحیح بخاری و مسلم میں بھی موجود ہے  جن کا تعاقب  علماء  و محدثین  کے اقوال ، زمینی حقائق، قرائن، اسرائیلیات   کی روشنی   میں  کیا گیا ہے – استدراج  دجال کے حوالے سے   امت میں اختلاف موجود ہے –  بعض کے نزدیک یہ محض دھوکہ ہے ، بعض کے نزدیک جادو ، بعض  کے نزدیک فن سائنس میں  انسانی ترقی     وغیرہ –

 ابن حزم،  الفصل في الملل والأهواء والنحل    میں لکھتے ہیں

إِن الْمُسلمين فِيهِ على أَقسَام فَأَما ضرار ابْن عمر وَسَائِر الْخَوَارِج فَإِنَّهُم ينفون أَن يكون الدَّجَّال جملَة فَكيف أَن يكون لَهُ آيَة وَأما سَائِر فرق الْمُسلمين فَلَا ينفون ذَلِك والعجائب الْمَذْكُورَة عَنهُ إِنَّمَا جَاءَت بِنَقْل الْآحَاد وَقَالَ بعض أَصْحَاب الْكَلَام أَن الدَّجَّال إِنَّمَا يَدعِي الربوبية ومدعي الربوبية فِي نفس قَوْله بَيَان كذبه قَالُوا فظهور الْآيَة عَلَيْهِ لَيْسَ مُوجبا لضلال من لَهُ عقل وَأما مدعي النُّبُوَّة فَلَا سَبِيل إِلَى ظُهُور الْآيَات عَلَيْهِ لِأَنَّهُ كَانَ يكون ضلالا لكل ذِي عقل قَالَ أَبُو مُحَمَّد رَضِي الله عَنهُ وَأما قَوْلنَا فِي هَذَا فَهُوَ أَن الْعَجَائِب الظَّاهِرَة من الدَّجَّال إِنَّمَا هِيَ حيل…. وَمن بَاب أَعمال الحلاج وَأَصْحَاب الْعَجَائِب

مسلمان دجال کے حوالے سے  منقسم  ہیں پس ضرار ابْن عمر  اور تمام خوارج یہ اس کا ہی انکار کرتے ہیں کہ دجال ہے پس دجال کی  نشانیاں (ان کے نزدیک ) پھر کیوں ہوں گی – اور جہاں تک باقی مسلمان فرقے ہیں تو وہ دجال کی نفی نہیں کرتے  اور بعض اصحاب اہل کلام کہتے ہیں کہ  دجال یہ رب ہونے کا مدعی ہو گا اور اپنے لئے ایسا قول کہنا ہی اس کے کذاب ہونے کو ظاہر کرتا ہے – وہ کہتے ہیں کہ  جس کے پاس بھی عقل ہے وہ جانتا ہے کہ  دجال سے نشانیوں کا ظہور ہو بھی جائے تو یہ اس کے گمراہ ہونے کی دلیل نہیں ہے  …. امام ابن حزم  نے کہا : ہمارا قول ہے اس پر کہ دجال کے عجائب جو ظہور ہوں گے یہ حیل و فریب ہوں گے  جیسا  …. حلاج کے اصحاب نے یا عجائب کے اصحاب نے کیا

ابن کثیر نے لکھا  ہے

وَقَدْ تَمَسَّكَ بِهَذَا الْحَدِيثِ طَائِفَةٌ مِنَ الْعُلَمَاءِ كَابْنِ حَزْمٍ وَالطَّحَاوِيِّ وَغَيْرِهِمَا فِي أَنَّ الدَّجَّالَ مُمَخْرِقٌ  مُمَوِّهٌ لَا حَقِيقَةَ لِمَا يُبْدِي لِلنَّاسِ مِنَ الْأُمُورِ الَّتِي تُشَاهَدُ فِي زَمَانِهِ

ان احادیث سے علماء کے ایک گروہ مثلا ابن حزم اور امام طحاوی نے تمسک کیا ہے کہ دجال ایک شعبدہ باز ہو گا  جو حقیقت پر منبی نہ گا جب وہ ان امور کو اپنے زمانے کے لوگوں کو دکھائے گا

– البيضاوي (ت 685هـ) کے مطابق دجال کا عمل شعبذة الدجال یعنی  شعبدہ بازی ہے

موجودہ دور میں    ایک بد ترین  گمراہی   یہ بھی پیدا ہو چکی ہے کہ استدراج دجال کو آیات انبیاء کا مماثل قرار دیا جا رہا ہے   اور ان کو بھی معجزات کی قبیل  میں سمجھا جانے لگا ہے – نعوذباللہ  من تلک الخرافات-

راقم  کہتا ہے کہ فرعون کے جادو گروں نے جادو کیا تھا  جس سے نظر و  تخیل   کو بدلا    گیا تھا اور یہ    عمل  سحر  تھا جو شیاطین کی مدد سے کیا گیا-     سحر کا اثر وقتی و    چند لمحوں  کا تھا    (سحر کے حوالے سے راقم کی کتاب ویب سائٹ پر موجود ہے ) البتہ    روایات  میں    دجال   کے عجائب  کل   وقتی  و ہنگامی نوعیت کے بیان  نہیں  ہوئے ہیں بلکہ اس میں  تخیل  و سحر سے بڑھ کر صفات الہیہ  کے ظہور    کا ذکر   آیا  ہے   مثلا دجال کے پاس قوت الاحیاء الموتی کا  ہونا ،   اس کا زمین کی گردش بدلنا   اور دنوں کو  طویل کرنا ، دجال  کا آسمان و زمین کو حکم کرنا   اور   زمین  و آسمان  کا    بلا چون و چرا  دجال   کی   اطاعت کرنا وغیرہ – لہذا  ان روایات کی مکمل چھان بین کرنا ضروری ہے  –

خروج دجال سے متعلق  روایات میں    اختلاف پایا جاتا ہے جن کی وجہ سے دجال ایک مسلمان سے یہودی بن جاتا ہے – نزول مسیح     میں التباس پیدا ہوتا ہے اور   آخر میں  شریعت   کے حکم کہ غیر حربی کفار و اہل کتاب کا اور خاص کر عورتوں بچوں اور بوڑھوں کا قتل نہ ہو گا ، اس کا انکار ہوتا ہے –  صدیوں سے سنتے آئے قصوں کو    تاریخ کی کسوٹی پر   پرکھنا  مشکل کام ہے – اس تحقیق سے ہر ایک کا متفق ہونا بھی ضروری نہیں ہوتا  – لیکن   راقم   تک جو علم آیا ہے  اور جو شواہد مل گئے ہیں ان کی بنیاد پر  اب یہ  مشکل امر ہے کہ وہ  اس   سب   کو      چھپا   دے  جو معلوم ہوا – لہذا  جو معلوم ہوا    ان  میں سے  کچھ ضروری  باتیں   و اسرار    اس کتاب میں    آپ کے سامنے  لائے جائیں گے-  اس کتاب کو سن  ٢٠١٧ میں ویب سائٹ پر رکھا گیا تھا  – اس پر قارئین  نے سوالات کیے  اور مزید مباحث  پیدا ہوئے   جن کی بنا پر اس کتاب کی نئی تہذیب کی گئی ہے اور اضافہ ہوا ہے

و ما علینا الا البلاغ المبین –  وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَىٰ تَنفَعُ الْمُؤْمِنِينَ

ابو شہر یار

٢٠١٩

https://www.islamic-belief.net/حَتَّى-إِذَا-فُتِّحَتْ-يَاجُوجُ-وَمَ/
یاجوج ماجوج   کا خروج قتل دجال کے فورا بعد ہے یا قیامت کی آخری نشانی ہے ؟
اس سوال  پر اس کتاب میں بحث ہے

مسجد دمشق کی حقیقت

صحیح بخاری کی حدیث ہے

حَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنِي مَعْمَرٌ وَيُونُسُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عَائِشَةَ وَابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ “لَمَّا نَزَلَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَفِقَ يَطْرَحُ خَمِيصَةً عَلَى وَجْهِهِ فَإِذَا اغْتَمَّ كَشَفَهَا عَنْ وَجْهِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ وَهُوَ كَذَلِكَ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ يُحَذِّرُ مَا صَنَعُوا”

.مجھ سے بشر بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے کہا مجھ کو معمر اور یونس نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے خبر دی کہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نزع کی حالت طاری ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چادر چہرہ     پر باربار ڈال لیتے پھر جب شدت بڑھتی تو اسے ہٹا دیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حالت میں فرمایا تھا، اللہ کی لعنت ہو یہود و نصاریٰ پر کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس امت کو ان کے کئے سے ڈرانا چاہتے تھے۔

موطا    امام مالک   ميں ہے
وَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِي وَثَنًا يُعْبَدُ. اشْتَدَّ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى قَوْمٍ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ

عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ نے کہا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے کہا اے الله ميري قبر کو بت مت بنا – الله کا غضب پڑھتا ہے اس قوم پر جو اپنے انبياء کي قبروں کو مسجد بنا دے

سن ٣٢٥ بعد مسیح  کی بات ہے،   قیصر روم کونستینٹین [1]کی والدہ فلاویہ اولیا  ہیلینا آگسٹا[2]  نے  عیسائی مبلغ  یسوبئوس [3]کو طلب کیا اور نصرانی دھرم کی حقانیت جاننے کے لئے شواہد طلب کیے- کونستینٹین نے اپنی والدہ کو نصرانی دھرم  سے متعلق آثار جمع کرنے پر مقرر کیا یا بالفاظ دیگر ان کو آرکیالوجی کی وزارت کا قلمدان دیا گیا اور اس سب کام میں اس قدر جلدی کی وجہ یہ تھی کہ مملکت کے حکمران طبقہ نے متھرا دھرم[4] چھوڑ کر نصرانی دھرم قبول کر لیا تھا اور اب اس کو عوام میں بھی استوار کرنا تھا لہذا راتوں رات روم میں بیچ شہر میں موجود جوپیٹر یا مشتری کے مندر کو ایک عیسائی عبادت گاہ میں تبدیل کیا گیا اس کے علاوہ یہی کام دیگر اہم شہروں یعنی دمشق اور یروشلم میں بھی کرنے تھے – لیکن ایک مشکل درپیش تھی کہ کن کن مندروں اور مقامات کو گرجا گھروں میں تبدیل کیا جائے؟   اسی کام کو کرنے کا کونستینٹین کی والدہ   ہیلینا نے بیڑا اٹھا لیا اور عیسائی مبلغ  یسوبئوس کو ایک مختصر مدت میں ساری مملکت میں اس قسم کے آثار جمع کرنے کا حکم دیا جن سے دین نصرانیت کی سچائی ظاہر ہو-

عیسائی مبلغ  یسوبئوس  نے نصرانیت کی تاریخ پر کتاب بھی  لکھی اور بتایا کہ ہیلینا کس قدر مذہبی تھیں[5] – یہ یسوبئوس   ہی تھے جنہوں نے کونستینٹین کے سامنے نصرانیوں کا عیسیٰ کی الوہیت پر اختلاف پیش کیا اور سن ٣٢٥ ب م   میں  بادشاہ نے فریقین کا مدعا سننے کے بعد تثلیث [6]کے عقیدے کو   پسند کیا اور اس کو نصرانی دھرم قرار دیا گیا-  واضح رہے کہ کونستینٹین ابھی ایک کافر بت پرست ہی تھا کہ اس کی سربراہی میں نصرانی دھرم کا یہ اہم فیصلہ کیا گیا  – کچھ عرصہ  بعد بادشاہ کونستینٹین  نے خود بھی اس مذھب کو قبول کر لیا-

 بحر الحال،  یسوبئوس  نے راتوں رات کافی کچھ برآمد کر ڈالا جن میں انبیاء کی قبریں، عیسیٰ کی پیدائش اور تدفین کا مقام ،اصلی صلیب، یحیی علیہ السلام کے سر کا مقام، وہ مقام جہاں ہابیل قتل ہوا، کوہ طور، بھڑکتا شجر جو موسی کا دکھایا گیا اور عیسیٰ کے ٹوکرے جن میں مچھلیوں والا معجزہ ہوا تھا  وغیرہ شامل تھے – یہودی جو فارس یا بابل میں تھے وہ بھی بعض انبیاء سے منسوب قبروں کو پوجتے تھے   مثلا دانیال کی قبر وغیرہ- ان مقامات کو فورا مقدس قرار دیا گیا اور یروشلم واپس دنیا کا ایک اہم  تفریحی اور مذہبی مقام بن گیا جہاں ایک میوزیم کی طرح تمام اہم چیزیں لوگوں کو دین مسیحیت کی حقانیت کی طرح بلاتی تھیں- یسوبئوس سے قبل ان مقامات کوکوئی  جانتا تک نہیں تھا اور نہ ہی کوئی تاریخی شواہد اس پر تھے اور نہ ہی یہودی اور عیسائیوں میں یہ مشہور  تھے- مسلمان آج اپنی تفسیروں ،میگزین  اور  فلموں میں انہی مقامات کو دکھاتے ہیں جو در حققت یسوبئوس  کی دریافت تھے- سن ١٧ ہجری میں مسلمان   عمر رضی الله عنہ کے دور میں  ان علاقوں میں داخل ہوئے اور ان عیسائی و یہودی  مذہبی مقامات کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا – یہاں تک کہ نبو امیہ کا دور آیا –  خلیفہ عبد الملک بن مروان کے دور میں ان میں سے بعض مقامات کو مسجد قرار دیا گیا مثلا جامع الاموی دمشق جس میں مشہور  تھا کہ اس میں یحیی علیہ السلام کا سر دفن ہے -اس سے قبل اس مقام پر الحداد کا مندر تھا پھر مشتری کا مندر بنا اور  جس کو یسوبئوس   کی دریافت پر یحیی علیہ السلام کے سر کا مدفن کہا گیا- اسی مقام پر نصرانیوں نے ایک گرجا بنا دیا اور اس میں ان کی عبادت ہونے لگی تھی  –  کہا جاتا ہے کہ جب مسلمان دمشق میں داخل ہوئے تو شہر کے وسط میں ہونے کی وجہ سے اس کے ایک حصے میں مسلمان اپنی عبادت کرتے رہے جو جنوب  شرقی حصے میں ایک چھوٹا سا مصلی تھا –  لیکن مکمل گرجا پر عیسائیوں کا ہی کنٹرول تھا وقت کے ساتھ کافی لوگ مسلمان ہوئے اور ولید بن عبد الملک کے دور میں اس پر مسلمانوں نے مکمل قبضہ کیا-

مسجد دمشق    جامع  بنی امیہ  میں یحیی علیہ السلام سے منسوب مقام

https://www.youtube.com/watch?v=kf6B1cKJFKg

ولید بن عبد الملک بن مروان   کی  تعمیرات

ولید نے کافی تعمیراتی کام کروایے ،   لیکن ان سب کو اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد کیا گیا – اگر ان کے سامنے یہ سب ہوتا تو وہ اس کو پسند نہ کرتے-وقت کے ساتھ مسلمانوں نے ان مقامات پر قبضہ کرنا شروع کیا جو بنیادی طور پر یسوبئوس  کی دریافت تھے اور وہی قبریں جن سے دور رہنے کا فرمان نبوی تھا ان کو اس  امت میں واپس آباد کیا گیا-

ابن بطوطہ المتوفی ٧٧٩ ھ کتاب تحفة النظار في غرائب الأمصار وعجائب الأسفار میں لکھتے ہیں

وفي وسط المسجد قبر زكرياء عليه السلام  ، وعليه تابوت معترض بين أسطوانتين مكسو بثوب حرير أسود معلّم فيه مكتوب بالأبيض:” يا زكرياء إنا نبشرك بغلام اسمه يحيى

اور مسجد کے وسط میں زکریا علیہ السلام کی قبر ہے اور تابوت ہے دو ستونوں کے درمیان جس پر کالا ریشمی کپڑا ہے  اس پر لکھا ہے سفید رنگ میں  یا زكرياء إنا نبشرك بغلام اسمه يحيى

کہیں اس کو یحیی علیہ السلام   کی قبر کہا جاتا ہے کہیں اس کو زکریا علیہ السلام   کی قبر کہا جاتا ہے بعض کتاب میں اس کو هود علیہ السلام کی قبر بھی کہا گیا ہے- کتاب  فضائل الشام ودمشق از ابن أبي الهول (المتوفى: 444هـ)  کے مطابق

 أخبرنا عبد الرحمن بن عمر حدثنا الحسن بن حبيب حدثنا أحمد بن المعلى حدثنا أبو التقي الحمصي حدثنا الوليد بن مسلم قال لما أمر الوليد بن عبد الملك ببناء مسجد دمشق كان سليمان بن عبد الملك هو القيم عليه مع الصناع فوجدوا في حائط المسجد القبلي لوح من حجر فيه كتاب نقش فأتوا به الوليد بن عبد الملك فبعث به إلى الروم فلم يستخرجوه ثم بعث به إلى العبرانيين فلم يستخرجوه ثم بعث به إلى من كان بدمشق من بقية الأشبان فلم يقدر أحد على أن يستخرجه فدلوه على وهب بن منبه فبعث إليه فلما قدم عليه أخبروه بموضع ذلك الحجر الذي وجدوه في ذلك الحائط ويقال إن ذلك الحائط من بناء هود  النبي عليه السلام وفيه قبره

ولید بن مسلم کہتے ہیں کہ جب ولید بن عبد الملک نے مسجد دمشق بنانے کا ارادہ کیا تو سلیمان بن عبد الملک اس پر مقرر کیا   جو کاریگروں کا کام دیکھتے تھے اور ان کو ایک  پتھر کی لوح ملی مسجد کے صحن سے جس پر نقش تھے اور اس کو ولید بن عبد الملک کو دکھایا گیا جس نے اس کو روم بھجوایا  ان سے بھی حل نہ ہوا پھر یہودیوں کو دکھایا ان سے بھی حل نہ ہوا  پھر دمشق کے بقیہ افراد کو دکھایا اور کوئی بھی اس کے حل پر قادر نہ ہوا پس اس کو وھب بن منبہ پر پیش کیا  انہوں نے کہا کہ یہ دیوار هود کے دور کی ہے اور یہاں صحن میں  ان کی قبر ہے

الغرض صحابہ رضوان الله علیھم اجمعین اس مقام کو گرجا کے طور پر ہی جانتے تھے اور ایسی مسجد جس میں جمعہ ہو  کے لئے یہ جگہ معروف نہ تھی-

مینار بنانا ایک عیسائی روایت تھی،  جس میں راہب اس کے اوپر بیٹھتے اور عبادت کرتے اور باقی لوگوں کو اوپر انے کی اجازت نہیں ہوتی تھی-  کتاب  أخبار وحكايات لأبي الحسن الغساني   از  محمد بن الفيض بن محمد بن الفياض أبو الحسن ويقال أبو الفيض الغساني (المتوفى: 315هـ) کی ایک مقطوع روایت ہے

 حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ هِشَامِ بن يحيى الغساني قَالَ حدثن أَبِي عَنْ جَدِّي يَحْيَى بْنِ يحي قَالَ لَمَّا هَمَّ الْوَلِيدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بِكَنِيسَةِ مَرْيُحَنَّا لِيَهْدِمَهَا وَيَزِيدَهَا فِي الْمَسْجِدِ دَخَلَ الْكَنِيسَةَ ثُمَّ صَعَدَ مَنَارَةَ ذَاتِ الْأَكَارِعِ الْمَعْرُوفَةَ بِالسَّاعَاتِ وَفِيهَا رَاهِبٌ نُوبِيٌّ صومعة لَهُ فأحدره من الصوعمعة فَأَكْثَرَ الرَّاهِبُ كَلَامَهُ فَلَمْ تَزَلْ يَدُ الْوَلِيدِ فِي قَفَاهُ حَتَّى أَحْدَرَهُ مِنَ الْمَنَارَةِ ثُمَّ هَمَّ بِهَدْمِ الْكَنِيسَةِ فَقَالَ لَهُ جَمَاعَةٌ مِنْ نَجَّارِي النَّصَارَى مَا نَجْسُرُ عَلَى أَنْ نَبْدَأَ فِي هَدْمِهَا يَا أَمِير الْمُؤمنِينَ نخشى أنَعْثُرَ أَوْ يُصِيبَنَا شَيْءٌ فَقَالَ الْوَلِيد تحذرون وتخافون يَا غلان هَاتِ الْمِعْوَلَ ثُمَّ أُتِيَ بِسُلَّمٍ فَنَصَبَهُ عَلَى مِحْرَابِ الْمَذْبَحِ وَصَعَدَ فَضَرَبَ بِيَدِهِ الْمَذْبَحَ حَتَّى أَثَّرَ فِي هـ أَثَرًا كَبِيرًا ثُمَّ صَعَدَ الْمُسْلِمُونَ فَهَدَمُوهُ وَأَعْطَاهُمُ الْوَلِيدُ مَكَانَ الْكَنِيسَةِ الَّتِي فِي الْمَسْجِدِ الْكَنِيسَةَ الَّتِي تُعْرَفُ بِحَمَّامِ الْقَاسِمِ بِحِذَاءِ دَارِ أَن الْبَنِينَ فِي الْفَرَادِيسِ فَهِيَ تُسَمَّى مَرْيُحَنَّا مَكْانَ هَذِهِ الَّتِي فِي الْمجد وَحَوَّلُوا شَاهِدَهَا فِيمَا يَقُولُونَ هُمْ إِلَيْهَا إِلَى تِلْكَ الْكَنِيسَةِ قَالَ يَحْيَى بْنُ يَحْيَى أَنَا رَأَيْتُ الْوَلِيدَ بْنَ عَبْدِ الْمَلِكِ فَعَلَ ذَلِكَ بِكَنِيسَةِ

 يَحْيَى بْنِ يحي کہتے ہیں کہ جب الْوَلِيدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ نے    کنِيسَةِ مَرْيُحَنَّا کو گرانے کا ارادہ کیا اور اس کی جگہ مسجد کو بنانے کا تو وہ کنِيسَةِ میں آئے اور مَنَارَةَ ذَاتِ الْأَكَارِعِ  پر چڑھے جو السَّاعَاتِ کے نام سے معروف ہے جن میں  راہب    نُوبِيٌّ   تھا … پس عیسائی بڑھییوں نے کہا اے امیر المومنین ہم خوف زدہ ہیں کہ ہم کو کوئی برائی نہ پہنچے پس ولید نے کہا تم سب ڈرتے ہو اوزار لاؤ پھر محراب الْمَذْبَحِ   پر گئے اور وہاں ضرب لگائی جس پر بہت اثر ہوا پھر مسلمان چڑھے اور انہوں نے ضرب لگائی اور اس کو گرایا اور ولید نے عیسائیوں کو کنِيسَةِ کی جگہ….. دوسرا مقام دیا

بنو امیہ کا مقصد قبر پرستی نہیں تھا – ان کا مقصد سیاسی تھا کہ عیسائیوں کو   ان کے معبد خانوں سے بے دخل کرنا تھا کیونکہ وہ شہروں کے بیچ میں تھے اور اہم مقامات پر تھے  – لیکن انہوں نے ان   عیسائیوں  کے اقوال پر ان کو انبیاء کی قبریں مان لیا اور ان کو    مسجد میں بدل دیا گیا – جو مقامات  یسوبئوس نے دریافت کیے تھے ان کو بغیر تحقیق کے قبول کر لیا گیا جبکہ نہ کوئی حدیث تھی نہ حکم رسول- اگلی صدیوں میں ان مقامات کو قبولیت عامہ مل گئی –    تاریخ بیت المقدس نامی کتاب میں جو ابن جوزی تصنیف ہے اس میں مصنف نے بتایا ہے  یہاں کس کس کی قبر ہے جو روایت  بلا سند کے مطابق جبریل علیہ السلام نے بتایا

هذا قبر أبراهيم، هذا قبر سارة، هذا قبر إسحاق، هذا قبر ربعة، هذا قبر يعقوب، هذا قبر زوجته

انہی قبروں کو یہود و نصاری نے آباد کر رکھا تھا جن پر کوئی دلیل نہیں تھی  -اب  انہی  قبروں کو  مسلمانوں    نے   آباد کر رکھا ہے  اور تصور قائم رکھا ہوا کہ یہاں عیسیٰ کا نزول ہو گا – ایسی جگہ عیسیٰ علیہ السلام کا نزول کیوں ہو گا جہاں  انبیاء کی قبریں   کو پوجا کی گئی ہو اور ابھی تک یہ مزارات وہاں موجود ہیں

جامع مسجد الاموی  کا مینار جو بقول ابن کثیر  سن ٧٤١ ھ میں   سفید  پتھر سے  بنا یا  گیا  

مسجد دمشق وہی مقام ہے   جو  انبیاء کی قبروں سے منسوب ہے  اور یہاں اصلا ایک چرچ تھا جس کو  بنو امیہ نے مسجد بنا دیا –    فضائل الشام ودمشق از ابن أبي الهول (المتوفى: 444هـ)  میں ہے

وأخبرنا تمام قال: حدثنا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ المعلى حدثنا القاسم بن عثمان قال: سمعت الوليد بن مسلم وسأله رجل يا أبا العباس أين بلغك رأس يحيى بن زكريا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بلغني أنه ثم وأشار بيده إلى العمود المسفط الرابع من الركن الشرقي.

ولید بن مسلم  نے  ایک شخص کے سوال پر کہ یحیی کا سر     (مسجد دمشق میں ) کہاں ہے کہا کہ مجھ تک پہنچا پھر ہاتھ سے چوتھے ستون کی طرف رکن شرقی کی طرف اشارہ کیا کہ وہاں ہے

یکایک یہ  دریافتیں شاید دمشق کی اہمیت بڑھانے کے لئے تھیں  کہ امت دمشق کو بھی مقدس سمجھے اور وہاں جا کر ان  مقامات کو دیکھے[7]،   جبکہ موطا ور  بخاری و مسلم میں انبیاء کی ان  نام نہاد قبروں کا وجود و خبر   تک نہیں

عیسیٰ دمشق میں نازل ہوں گے  

عیسیٰ علیہ السلام اپنے نزول پر  کہاں ظاہر ہوں گے اس پر نصرانیوں کا اختلاف ہے – ایسٹرن آرتھوڈوکس چرچ کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام دمشق میں ظاہر ہوں گے – پروٹسٹنٹ  فرقے کے بقول یروشلم میں اور کیتھولک  فرقے کے مطابق روم میں-

مسیح کی آمد ثانی کو نصرانی

Parousia, the Second Coming of Christ

کہتے ہیںشام، لبنان ، اردن فلسطین  میں   آج بھی ایسٹرن آرتھوڈوکس چرچ  کا زور ہے اور  وہاں کے تمام قدیم چرچ اسی فرقہ کے کنٹرول میں ہیں –

یسعیاہ   باب ١٧ میں ہے

An  oracle concerning  Damascus.

Behold, Damascus will cease to be a city

and will become a heap of ruins

اور دمشق پر پیشنگوئی ہے کہ خبردار دمشق شہر نہ رہے گا اور کھنڈر بن جائے گا

اس آیت کی بنا پر کہا جاتا ہے کہ عیسیٰ کی آمد سے پہلے دمشق جنگ  سے اجڑا ہو گا –

نصرانی کہتے ہیں کہ عیسیٰ   صلیب پر  فوت ہوئے   اور دوبارہ زندہ  ہوئے  اور  دمشق  کے رستے میں لوگوں پر ظاہر ہوئے –  ان کے جھوٹے رسول پاول نے خبر دی کہ دمشق  کے رستہ میں عیسیٰ نے حکم دیا کہ جاو تبلیغ کرو-  پاول کے بقول پہلی بار زندہ مسیح دمشق کے رستے میں ظاہر ہوا – عرب  نصرانیوں  جن کی اکثریت

Eastern Orthodox Church

کی ہے ان میں   یہ بات مشہور چلی آئی ہے  کہ عیسیٰ علیہ السلام نزول ثانی پر دمشق میں ظاہر ہوں گے  –  اس کی وجہ یہ ہے کہ صلیب کے بعد سینٹ پال کے بقول اس نے دمشق کے راستہ میں سب سے پہلے جی اٹھنے والے مسیح کو دیکھا تھا –  اس بنا پر  عرب نصرانی اس کے منتظر ہیں کہ آمد ثانی پر بھی  عیسیٰ   دمشق کے پاس ظاہر ہوں گے – ایسٹرن  آرتھوڈوکس نصرانی کہتے ہیں کہ دمشق  میں نزول ثانی  کے بعد عیسیٰ فاتحانہ انداز میں گھوڑے  کی سواری کر کے یروشلم میں داخل ہوں گے – مسجد الاقصی جائیں گے وہاں   یہود یا تو آپ کو مسیح تسلیم کر لیں گے یا قتل ہوں گے  – اس  کو بائبل کی کتب  یرمیاہ    و  زکریا    سے اخذ کیا گیا  ہے –  چند سال پہلے پوپ  بینی ڈکٹ

Pope  Benedict

نے جب دمشق کا دورہ کیا تو ویٹی کن کے ایک کارندے نے اخباری نمائندوں کو اس کی یہی وجہ بتائی کہ یہ نصرانی  روایات ہیں کہ عیسیٰ نزول ثانی پر دمشق میں ظاہر ہوں گے جس کو راقم نے خود ایک ڈوکومینٹری میں سنا-

مسلمانوں میں مشہور ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا نزول  صدر   دمشق   میں  جامع  مسجد   الاموی پر ہو گا جس کا مینار سفید  ہے  – البتہ دور بنو امیہ کی مشہور جامع الاموی کا مینار  سفید نہیں تھا – کتاب  النهاية في الفتن والملاحم    میں ابن کثیر کا کہنا ہے

وقد جدد بناء المنارة في زماننا في سنة إحدى وأربعين وسبعمائة من حجارة بيض ، وكان بناؤها من أموال النصارى الذين حرقوا المنارة التي كانت مكانها ،
اس مینار کی تجدید کی گئی ہمارے دور میں سن ٧٤١ ھ میں کہ اس کو سفید   پتھر کا کیا گیا  اور اس کو   اس مال سے بنایا گیا جو نصرانییوں  کا تھا جنہوں نے اصل مینار  کو  جلا دیا  جو پہلے یہاں تھا

کتاب     البداية والنهاية ج ١٣ / ص ١٧٥ پر ابن کثیر نے لکھا

وفي ليلة الأحد الخامس والعشرين من رجب وقع حريق بالمنارة الشرقية فأحرق جميع حشوها وكانت سلالمها سقالات من خشب وهلك للناس ودائع كثيرة كانت فيها وسلم الله الجامع وله الحمد وقدم السلطان بعد أيام إلى دمشق فأمر بإعادتها كما كانت قلت ثم احترقت وسقطت بالكلية بعد سنة أربعين وسبعمائة وأعيدت عمارتها أحسن مما كانت ولله الحمد وبقيت حينئذ المنارة البيضاء الشرقية بدمشق كما نطق به الحديث في نزول عيسى عليه السلام عليها

اور اتوار  رجب کی ٢٥ تاریخ  کو شرقی مینار میں اگ لگی اور یہ سب جل گیا   بس اس کے کچھ لکڑی کے  ڈنڈے رہ گئے   …  اور اللہ نے مسجد کو بچا لیا  اس کا شکر ہے اور سلطان چند روز بعد دمشق  تشریف لائے اور انہوں نے اس کی تعمیر نو کا حکم کیا جیسا یہ پہلے تھا – میں کہتا ہوں  یہ   جلا   اور تمام گر گیا تھا پھر  سن  ٧٤١ ھ   کے بعد  اور اسکی تعمیر نو کی گئی اچھی طرح    و للہ لحمد اور اب یہ باقی ہے   سفید مینار کے طور پر جیسا حدیث نزول عیسیٰ میں بولا گیا ہے

تفسیر   ابن کثیر میں ابن کثیر کا قول ہے

وفيها دلالة على صفة نزوله ومكانه ، من أنه بالشام ، بل بدمشق ، عند المنارة الشرقية ، وأن ذلك يكون عند إقامة الصلاة للصبح وقد بنيت في هذه الأعصار ، في سنة إحدى وأربعين وسبعمائة منارة للجامع الأموي بيضاء ، من حجارة منحوتة ، عوضا عن المنارة التي هدمت بسبب الحريق المنسوب إلى صنيع النصارى – عليهم لعائن الله المتتابعة إلى يوم القيامة – وكان أكثر عمارتها من أموالهم ، وقويت الظنون أنها هي التي ينزل عليها [ المسيح ] عيسى ابن مريم ، عليه السلام

ان روایات سے عیسیٰ کے نزول  کی صفت اور مکان کا معلوم ہوا کہ وہ شام میں ہے  بلکہ دمشق میں ہے  سفید مینار کے پاس اور یہ ہو سکتا ہے نماز فجر کے وقت اور  عصر حاضر میں سن ٧٤١ ھ   میں جامع الاموی  کا مینار سفید کیا گیا     اس پتھر کو  لیا گیا جو فن صناعی میں استعمال ہوتا ہے    – اس سے مینار کو بنایا گیا جو  منسوب ہے کہ نصرانییوں کی  حرکت سے جلا ان پر اللہ کی متعدد لعنت ہو قیامت تک  اور اکثر تعمیر ان کے  ہی اموال  سے کی گئی  اور ان گمانوں کو تقویت ملی کہ عیسیٰ ابن مریم  علیہ السلام کا اس پر نزول ہو گا  

ابن کثیر کے اقوال سے معلوم ہوا کہ اصل مینار لکڑی کا تھا جو جل گیا لیکن بعد میں  یہ سمجھتے ہوئے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا نزول اس مسجد پر ہو گا اس کو سفید پتھر کا کیا گیا

راقم کہتا ہے عیسیٰ علیہ السلام کا نزول اس مقام پر ممکن نہیں جہاں انبیاء کی قبروں پر مسجد ہو

——————————–

[1] Constantine I  full name   Flavius Valerius Aurelius  Constantius Herculius Augustus (272 – 337 AD) age 65

[2] Flavia Iulia Helena c. 250 – c. 330

[3] Eusebius of Caesarea ( Greek: Εὐσέβιος, Eusébios; ad 260/265 – 339/340)

[4] Mithra Religion

[5] History of Church by Eusebius

[6] Trinity

[7]

عبد الملک بن مروان اور ولید بن عبد الملک کی جانب سے یہ یہ سب  عبد اللہ ابن زبیر رضی الله عنہ کی مخالفت میں کیا گیا تاکہ لوگ مکہ و مدینہ  کے سفر کی بجائے  دمشق میں ہی رہیں  اور اس کو بھی ایک مقدس مقام سمجھیں –  اس پر بحث مولف کی کتاب روایات المہدی تاریخ اور جرح و تعدیل کے میزان میں کی گئی ہے

ہیکل سلیمانی ، زکریا اور مریم

مزید تفصیل کے لئے پڑھیں
تاریخ قبلتین

144 Downloads

یہود مسجد الاقصی کو هيكل سلیمان بولتے تھے اور ہیں – مسجد عربی کا لفظ ہے جس کا مطلب عبادت کا مقام ہے اور الاقصی بھی عربی کا لفظ  ہے جس کا مطلب دور ہے – اور یہ دور اصل میں مکہ سے دوری کے طور پر بولا گیا تھا جب واقعہ معراج کا ذکر الله تعالی نے سورہ بنی اسرائیل میں کیا

سُبْحَانَ الَّـذِىٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَى الَّـذِىْ بَارَكْنَا حَوْلَـهٝ لِنُرِيَهٝ مِنْ اٰيَاتِنَا ۚ اِنَّهٝ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْـرُ (1)

پاک ہے وہ  (رب) جو لے گیا سفر میں  اپنے بندے کو رات  میں مسجد الحرام سے مسجد الاقصی جس کا ماحول ہم نے  با برکت کیا ہے  کہ اس کو اپنی کچھ نشانیاں دکھائے بے شک وہ  (الله) سننے دیکھنے والا ہے

الْاَقْصَى اصل میں فاصلے پر نسبت ہے  کہ اتنی دور ایک رات میں ہی لے کر گئے- ظاہر ہے دور سلیمان و داود میں اور اس کے بعد بھی یروشلم میں رہنے والے احبار و ربانی  اہل کتاب اس مسجد کو مسجد الاقصی نہیں بولتے ہوں گے- بنی اسرائیل کی تاریخ کے مطابق اس مسجد کو ہیکل سلیمان کے نام سے یاد کیا جاتا تھا

هيكل کا لفظ  عربی اور عبرانی دونوں میں مستعمل ہے اور عربی لغت تاج العروس من جواهر القاموس میں بھی موجود ہے  

الهَيْكَلُ: الضَّخْمُ مِنْ كُلِّ شَيْء یعنی کسی بھی چیز کا بڑا ہونا – ہیکل سلیمان کا مطلب  ہے مسجد الاقصی بہت بڑی تھی

لغت مجمع بحار الأنوار في غرائب التنزيل ولطائف الأخبار از  جمال الدين، محمد طاهر بن علي الصديقي الهندي الفَتَّنِي الكجراتي (المتوفى: 986هـ) میں ہے

الهيكل – ذو الضخامة والشرف، ثم استعمل فيما يكتب من الأسماء الإلهية والأدرعة الربانية ونحو ذلك

الهيكل – بہت عظمت و شرف   والا پھر اس لفظ کا استمعال ہوا اگر اسماء الہی  وغیرہ لکھے ہوں

ظاہر ہے یہ لفظ عربی میں بھی موجود ہے تو مسجد الاقصی کو اگر ہیکل کہا جائے تو اس میں کوئی عیب نہیں کیونکہ دور سلیمان میں ظاہر ہے اس کو الاقصی نہیں کہا جا سکتا – سلیمان  علیہ السلام کی مملکت ارض مقدس میں تھی

ہیکل سلیمانی  کا مطلب ہے سلیمان علیہ السلام کا بنایا ہوا ہیکل

Heikal

جس میں ایک    چٹان یا  الصخرہ تھی اس کو یہودی زمین کا سب سے مقدس مقام سمجھتے ہیں اور ان کے مطابق زمیں کا آغاز اسی چٹان سے ہوا اور مسلمان ہونے والے  یمنی یہودیوں کے مطابق اس کے نیچے تمام دنیا کی ہوائیں اور نہریں ہیں  جیسا کہ ایک روایت میں ہے- یہود کے مطابق اس چٹان پر تابوت سکینہ رکھا ہوا تھا اور معلوم ہوا ہے کہ اس ہیکل پر کسوہ کعبہ کی طرح کا ایک غلاف بھی ہوتا تھا  اس کے سامنے

Altar

تھا جس میں قربانی کا گوشت جلا کر الله کی نذر کیا جاتا تھا اور خون کوقربان گاہ پر  چھڑکا جاتا- اس قربان گاہ کے پاس حجرات تھے جن میں منتظم سامان رکھتے اور اس مسجد کے صحن سے بھی زمزم کی طرح ایک چشمہ ابلتا تھا جس کو جیحوں

Gihon

کہا جاتا ہے

مسلمان مورخین کے مطابق تبع نے بعثت نبوی سے کئی سو سال پہلے سب سے پہلے غلاف کعبہ دیا – تبع (المتوفی ٤٢٠ بعد مسیح عیسوی ) ایک  یمنی یہودی بادشاہ تھا جس  نے کعبہ کو سب سے پہلے غلاف دیا کیونکہ مسجد اقصی میں ہیکل سلیمانی میں قدس الاقدس پر بھی غلاف تھا اس کا ذکر انجیل میں ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی مزموعہ صلیب کے وقت مقدس کا غلاف یا کسوہ پھٹ گیا

At that moment the curtain of the temple was torn in two from top to bottom. The earth shook, the rocks split

اور اس ( موت کے) وقت ہیکل کا کسوہ اوپر سے نیچے تک  پھٹ گیا زمیں لرز گئی اور چٹانیں چٹخ گئیں

http://biblehub.com/matthew/27-51.htm

قرآن میں ذکر ہے کہ زوجہ عمران  نے منت مانی کہ اگر لڑکا ہوا تو میں اس کو الله کی نذر کر دوں گی –

إِذْ قَالَتِ امْرَأَتُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

اور جب مریم کی ماں  نے کہا اے رب  میرے بطن میں جو ہے اس کو نذر کر رہی ہوں وقف کرتے ہوئے پس اس کو قبول کر بے شک توسننے والا جاننے والا ہے 

اس میں محرر کا لفظ ہے یعنی اب اس بطن میں جو ہے وہ تمام عمر کے لئے وقف نذر ہو چکا ہے – اس نذر کی بنا پر مریم اب کبھی بھی شادی نہیں کر سکتی تھیں –

قرآن میں مریم کو اخت ہارون کہا گیا یعنی وہ ہارون علیہ السلام کی نسل سے تھیں اور اس طرح ان کے والد عمران بھی نسل ہارون میں سے تھے – اہل کتاب کے  مطابق ہیکل سلیمان یا مسجد الاقصی  میں رسوم کی ادائیگی صرف نسل ہارون والے کر سکتے ہیں –  بہر حال زوجہ عمران نے لڑکے کی بجائے ایک لڑکی مریم کو جنا اور ان کو بطور منت کی ادائیگی ہیکل سپرد کر دیا گیا –

نذر کا مطلب تورات کتاب گنتی باب ٦ میں موجود ہے

اسلام میں بھی معتکف بال نہیں کاٹ سکتا

اس منت کو پورا کرانے کے لئے  اقلام ڈالے گئے یعنی قرع اندازی ہوئی  کہ کون مریم کی کفالت کرے گا

 ذَٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۚ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلَامَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَ 

يه غیب کی خبریں ہیں جو ہم الوحی کر رہے ہیں تم ان کے ساتھ نہ تھے جب یہ اقلام پھینک رہے تھے کہ کون مریم کی دیکھ بھال کرے گا اور نہ ساتھ تھے جب یہ اس (کفالت ) کے لئے لڑ رہے تھے

ہیکل میں امور سر انجام دینے کے لئے اقلام کیسے ڈالے جاتے  تھے اس کا ذکر یہود کی کتاب  مشنا میں ہے

The officials of Temple said to them, Come and cast lots to decide who among  them would kill the sacrifice, who would sprinkle the blood and who would clear the altar of  ashes, who would light the menorah ” ∗. The room Gazith (Lots casting room) was in form of  large Hall. The casting took place from the east side of it. With an elder sitting on the west. The priest stood about in a circle and official grabbed the hat off this or that person, and by this they understood where the lot was to begin

Mishnah Tamid 3.1; see from Jesus Christ in Talmud by J. Lightfoot published in 1658

ہیکل سلیمانی میں خدمت انجام دینے کے لئے مسجد اقصی کے منتظمین کہتے کہ اقلام ڈالو اور ہم فیصلہ کریں کہ کون قربانی کرے گا کون خون کو چھڑکے گا کون قربان گاہ کی راکھ کو صاف کرے گا اور کون منورہ میں شمع جلاۓ گا – ایک بہت بڑا  حجرہ غازث (مسجد الاقصی میں) تھا جس میں اقلام ڈالے جاتے تھے اور وہ اس کے مشرق سے شروع کیا جاتا جب ایک عالم کرسی پر بیٹھتا اور تمام خدمت گزار ایک دائرے کی صورت کھڑے ہوتے اور عالم اشارہ دیتا  کہ اقلام ڈالنا کہاں سے شروع ہو گا

اس اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقلام ڈالنا مسجد الاقصی میں کیا جاتا تھا اور قرآن میں بھی اس کا ذکر ہے جس سے ظاہر ہے نسل ہارون یا خدمت  گزار  لوگ  جن کو لاوی کہا جاتا تھا اس  اقلام ڈالنے میں شریک ہوتے تھے

قرآن میں مزید موجود ہے کہ مریم علیہ السلام جس مقام پر  منت کر رہی تھیں وہ المحراب تھی – یہ اس قدر واضح اشارہ ہے کہ شاید ہی کوئی اور اشارہ قرآن میں اس کے سوا ہو کہ یہ اعتکاف مسجد الاقصی میں تھا اور جب الله نے اس کا ذکر کیا تو کسی بھی یہودی پر یہ مخفی نہ رہا ہو گا-المحراب اصل میں مسجد الاقصی کا ایک حجرہ تھا جو اس کے شمال میں تھا یہ  کمرہ خدمت گزاروں کے لئے وقف تھا وہ  وہاں رکتے نماز پڑھتے اور اپس میں مسجد کے انتظام کا ذکر کرتے تھے –

Bet ha-Moed or Bet Hamoked (Chamber of the Hearth) was the domed chamber in temple, was in north of the ’Azarah (inner court where burning altar was placed), See Jewish Encyclopedia

بیت ہا معید یا بیت ہموکد ایک گنبد نما حجرہ ہیکل میں تھا جو مسجد اقصی کے صحن کے شمالی سمت میں تھا

This dome-covered structure was the quarters for the priests who performed the services

محراب نما حجرہ متظمین ہیکل کے لئے تھا

Architecture of Herod, the Great Builder by Ehud Netzer, Baker Academic, October 1, 2008

Beth-haMoked,  … was built on arches

بیت ہموکد میں محرابیں تھیں

The Temple–Its Ministry and Services by Alfred Edersheim

قرآن میں موجود ہے کہ زکریا علیہ السلام نماز محراب میں پڑھ رہے تھے جب ان پر الوحی ہوئی کہ یحیی علیہ السلام کی ولادت ہو گی

فَخَرَجَ عَلَىٰ قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ فَأَوْحَىٰ إِلَيْهِمْ أَن سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا

پس زکریا محراب سے باہر نکل کر قوم کے پاس آیا اور ان کو اشارہ کیا کہ صبح و شام تسبیح کرو

اسی طرح ذکر ہے کہ جب بھی زکریا محراب میں اتے تو مریم کے پاس رزق ہوتا

كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِندَهَا رِزْقًا

محراب میں جب بھی زکریا مریم کے پاس داخل ہوتے ان کے پاس رزق پاتے 

 یعنی یہ محراب ایک بہت بڑا حجرہ تھا جس میں مریم بھی تھیں اور زکریا بھی تھے اور  یہاں مریم معتکف تھیں ان کے باقی حجرہ کے درمیان ایک پردہ تھا اور وہ اس حجرہ کے مشرق میں تھیں

وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِيًّا (16) فَاتَّخَذَتْ مِن دُونِهِمْ حِجَابًا فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا

أور الكتاب  میں مریم کا ذکر کرو جب وہ اپنے اہل کو چھوڑ(محراب میں ) شرقی جانب میں (معتکف ہو) گئی اور اپنے اور باقی لوگوں کے درمیان ایک پردہ ڈالا تو ہم نے ایک روح (ناموس یا فرشتہ) اس کی طرف بھیجا جو ایک آدمی کی صورت ظاہر ہوا

یقینا مریم اس اشکال میں ہوں گی کہ وہ ایک لڑکی ہیں اور مسجد الاقصی میں کس طرح ان کا قیام جاری رہے گا – لہذا ان کو خبر دی گئی کہ وہ اب حیض کی حالت میں کبھی نہ جائیں گی – اللہ نے خبر دی

وَإِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَىٰ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ

اور فرشتوں نے مریم سے کہا اے مریم الله نے اپ کو منتخب کر لیا ہے اور پاک کر دیا ہے   تمام عالمین کی عورتوں میں سے اپ کو چنا ہے

طہر کا لفظ  اشارہ ہے کہ مریم اب کبھی بھی نطفہ سے ماں نہیں بن سکیں گی اور نہ ان کو  عام عورتوں کی طرح حیض آئے گا – ساتھ ہی خبر دی گئی کہ وہ بن بیاہی ماں بن جائیں گی

إِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ (45)

اور جب فرشتوں نے کہا اے مریم بے شک الله اپ کو بشارت دیتا ہے اپنے جانب سے کلمہ کی جس کا نام المسیح عیسیٰ بن مریم ہو گا دنیا و آخرت میں مقربوں میں سے ہو گا

یقینا مریم اہل کتاب کی اس خواہش  کا علم رکھتی ہوں گی جس کا ذکر کتاب یسعیاہ میں ہے کہ ان میں ایک کنواری کے بطن سے مسیح کا ظہور ہو جو  مردوں کو زندوں کر دے جو نابینا کو نگاہ دے اور جو اپاہج کو صحیح کر دے  – فرشتوں نے ان کو خبر دی کہ وہ وہ کنواری ہیں جو المسیح کو جنم دے گی

اللہ نے اس طرح  مسیح کو کسی بھی نسب کا نہ کیا کیونکہ اہل کتاب میں اختلاف چل رہا تھا ایک گروہ کا دعوی تھا کہ مسیح داود کی نسل سے ہو گا اور دوسرے گروہ کا دعوی تھا کہ یوسف کی نسل سے ہو گا – الله نے نسل ہارون کو پسند کیا اس کی لڑکی کو المسیح کی ماں بننے کا شرف ملا اس طرح ان تمام جھگڑوں کو ختم کر دیا جو مسیح کے نسب پر اہل کتاب میں تھا

و الله اعلم

ذي القرنين  أفريدون سے  سكندر تک

ارنسٹ والس بج  ایک مغربی  تاریخ دان تھے اور قدیم کتب کا ترجمہ کرنے میں ماہر تھے مثلا انہوں نے اہرام مصر کی دیواروں پر موجود عبارت کا ترجمہ کیا اسی طرح ایک کتاب ان کو ملی جو سکندر کے سفر نامے پر تھی اور اس  کے دو نسخنے ہیں –  والس نے اس نسخے کا ترجمہ کیا جو سریانی  کی زبان میں تھا-  سریانی زبان والا نسخہ میں  کہانی کا ایک  حصہ جو ہماری دلچپسی کا ہے اس میں ہے کہ مصر اسکندریہ میں  سکندر ایک جنگ کا اردہ کرتا ہے اور خدا سے مدد مانگتا ہے

And king Alexander bowed himself and did reverence, saying, “0 God, Lord of kings and judges, thou who settest up kings and destroyest their power, I know in my mind that thou hast exalted me above all kings, and thou hast made me horns upon my head, wherewith I might thrust down the kingdoms of the world۔

اور شاہ سکندر نے سجدہ کیا اور کہا اے رب مالک الملک والقضآة  جو بادشاہ کرتا ہے اور انکی قوت کو تباہ کرتا ہے مجھے اپنے نفس میں خبر ہے آپ نے مجھ کو تمام بادشاہوں پر بلند کیا اور آپ نے میرے سر پر سینگ کیے جس سے میں بادشاہتوں کو دھکیل دیتا ہوں

The History of Alexander the Great,  Being the Syriac Version of the Pseudo-Callisthenes,

Volume 1″,page 146, The University Press, 1889.  By Ernest A. Wallis Budge

یہاں والس ایک نوٹ لگاتے ہیں

wallis-note

دو سینگوں والا ایک مشھور لقب ہے سکندر کا اتھوپیا کے مسودہ میں ہے …. دو سینگ – قرآن سوره 18 – کچھ کہتے ہیں کہ قرآن میں اس سے مراد سکندر ہے جبکہ دوسرے کہتے ہیں ابراہیم کا ہم عصر ہے جو فارس کا بادشاہ تھا اور کچھ یمن کے بادشاہ کو کہتے ہیں

حکایت کے مطابق سکندر  مصر کے لوہاروں کو لیتا ہے اور عراق سے ہوتا ہوا ارمنینا تک جاتا ہے اور وہاں ایک ایسے مقام تک پہنچ جاتا ہے جس کے قریب جنت ہے اور وہ سمندر، جھیل اور نہروں میں گھری ہے

wallis-2

اے بادشاہ ہم اور ہمارے اجداد اس پہاڑ پر نہیں چڑھ پاتے اور یہ ایک سرحد کے طور ہمارے اور دیگر قوموں کے بیچ ہے سکندر نے پوچھا اس پہاڑ کے اندر تم کس قوم کو دیکھتے ہو ؟ بوڑھے نے کہا  “ھن” کو – سکندر نے پوچھا ان کے بادشاہ کون ہیں ؟ بوڑھے نے کہا یاجوج اور ماجوج اور نوال جو جافث کی نسل سے ہیں اور جج اورتیمروں اور تمروں اور یکشفر اور سلگادو اور نسلک اور معرفل اور کوزہ ھن کے شاہ ہیں – سکندر نے پوچھا یہ دیکھنے میں کیسے ہیں کیا پہنتے ہیں کیا بولتے ہیں؟

سریانی میں سکندر کی اس کہانی میں یاجوج ماجوج کو بہت سے بادشاہوں میں سے  چند  بتایا گے ہے جو نہ صرف بائبل کے خلاف ہے بلکہ قرآن  کے بھی خلاف ہے –

 سکندر اپنی فوج سے کہتا ہے

wallis-3

سکندر نے اپنی فوج سے کہا کیا تم سمجھتے ہو ہمیں اس جگہ کوئی عظیم کام کرنا چاہیے ؟ فوج نے کہا جیسا آپ کا حکم سکندر نے کہا ایک دروازہ اس درہ کے بیچ بناؤ جس سے اس کو پاٹ دیں – اور سکندر نے 3 ہزار آدمی اس کام پر لگا دیے اور انہوں نے آٹے کی طرح لوہا اور تانبہ گوندھ دیا جس سے دروازہ بنا ….

والس یہاں نوٹ لکھتے ہیں

wallis-4

یہ گزرگاہ یا درہ وہی ہے .. جس کو ترک

 Demir Kapija

کہتے تھے  –

 دمیر کاپیا کا مطلب ہے آہنی دروازہ –

Demir Kapija

میسی ڈونیا (مقدونیہ) کے علاقے میں ایک جگہ کا نام ہے نہ کہ ارمنینا میں

بحر الحال اس کتاب کے قصے سے  بعض مستشرقین  کو اشتباہ ہوا کہ یہ وہی دیوار ہے جس کا قرآن میں  ذی القرنین کے قصے میں ذکر ہے

سفرنامہ سکندر پر کتاب کا  ایک دوسرا نسخہ بھی ہے جو ارمیننا کی زبان کا ہے

THE ROMANCE OF ALEXANDER THE GREAT BY PSEUDO-CALLISTHENES

Translated from the Armenian Version  with an Introduction by

Albert Mugrdich Wolohojian

COLUMBIA UNIVERSITY PRESS New York and London 1969

دوسرا  نسخہ میں جو ارمنینا کا ہے اس میں سرے سے اس   دیوار کے قصے کا ذکر ہی نہیں کہ سکندر نے آرمینا میں کچھ بنوایا بھی تھا یا نہیں – اس کے علاوہ یاجوج و ماجوج کا ذکر بھی نہیں ہے

لاطینی سیاح مارکو پولو کے بقول انہوں نے بھی سد سکندری

Rampart of Alexander

کو دیکھا

The Travels of Marco Polo: The Complete Yule-Cordier Edition By Marco Polo, Sir Henry Yule, Henri Cordier

ہینری کوردئر اس پر تبصرہ کرتے ہیں  کہ یہ مفروضہ کہ تاتار ، یاجوج و ماجوج ہیں ، سد سکندری  کو دیوار چین سے ملانے کا سبب بنا – یعنی مارکو پولو دیوار چین کو سد سکندری سمجھ بیٹھا

لیکن وہاں ایک اور دلچسپ حوالہ دیتے ہیں

henry-marco-1

ریکولڈ مونٹکرو دو دلیل دیتے ہیں جس سے یہود  کو تاتاریوں سے ملایا گیا ہے جن کو سکندر نے دیوار سے بند کیا ایک یہ کہ تاتاری سکندر کے نام سے ہی نفرت کرتے ہیں اور وہ اس کو سن نہیں سکتے اور دوسرا یہ کہ ان کی تحریر بابل جیسی ہے جو سریانی کی طرح ہے  لیکن وہ کہتے ہیں کہ یہود کی اس سے کوئی مماثلت نہیں ہے اور ان کو شریعت کا پتا نہیں ہے

پس ظاہر ہوا کہ  جان بوجھ کر اتھوپیا کے عیسائیوں  نے یہود کی مخالفت میں اس کتاب

THE ROMANCE OF ALEXANDER THE GREAT BY PSEUDO-CALLISTHENES

کو گھڑا

اسلام سے قبل  عیسائیوں اور یہود میں بنتی نہیں تھی – اس دور چپقلش میں عیسائیوں  نے یہ کتاب گھڑی جس میں اپنی  مذہبی آراء کو یہود کے خلاف استمعال کیا – اس کے لئے انہوں نے سکندر کا کردار چنا – وجہ یہ تھی کہ یہود بابل کے غلام تھے پھر فارس  نے بابل پر قبضہ کیا اور یہود کو واپس یروشلم جانے کی اجازت دی یہود نے اپنی حکومت وہاں بنا لی لیکن سکندر کے بعد یونانیوں نے یہود کو غلام بنا لیا- یہود میں اس پر یونان  مخالف جذبات پیدا ہوئے اور وہ فارس کی طرف دیکھتے کہ کوئی ائے اور ان کو بچائے –

عیسیٰ علیہ السلام کے بعد یہود اور نصاری میں خوب جگھڑے ہوئے اور بالاخر عیسائیوں  نے یہود کے مخالف کے طور پر سکندر کے اوپر ایک فرضی داستان گھڑی – سکندر ایک بت پرست مشرک تھا لیکن عیسائیوں  نے اس کو کہانی میں الہ پرست   قرار دیا – اس کو مسیح کا منتظر دکھایا جو یروشلم کو مسیح کے حوالے کرے اور یہود کا مذاق اڑایا کہ سکندر نے  ایک  دیوار بنا کر ان وحشی یہود کو باقی دنیا سے الگ کر دیا

واضح رہے کہ بائبل کی کتاب  حزقی ایل کی کتاب کے مطابق یاجوج ایک شخص ہے اور ماجوج قوم ہے – لیکن عیسائیوں  نے ارمیننا کے “ھن” قوم کے  بادشاہوں میں ماجوج کو بھی ایک بادشاہ قرار دے دیا اس طرح یاجوج و ماجوج قوموں کی بجائے بادشاہوں کے نام بنا دیے- اتھوپیا کے عیسائیوں  نے سکندر کو ایک افریقی گینڈے کی طرح تشبیہ دی جو اپنے سینگوں سے مخالف حکومتوں کو دھکیلتا ہے-

نزول قرآن کے دور میں  یہود بھی یہی کہتے ہونگے کہ ذو القرنین سکندر نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہود کو بخوبی پتا تھا کہ سکندر کا یاجوج ماجوج سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ جب سکندر پیدا بھی نہیں ہوا تھا حزقی ایل جو بابل میں غلام تھے وہ یاجوج ماجوج کا تذکرہ اپنی کتاب میں کر چکے تھے – تاریخ کے مطابق  سکندر کے یہود سے اچھے تعلقات تھے یہاں تک کہ یہود نے اس کی اجازت سے کوہ گزیرم پر موجود یروشلم مخالف  سامرہ کے یہودیوں کی عبادت گاہ کو مسمار کیا اور وہاں موجود   اس فرقے کا قتل عام کیا – گویا سکندر یروشلم پہنچ کر مسیحا کے لئے گدی چھوڑنے کی بجائے خود یہود سے دوستی کر چکا تھا – عیسائیوں  کا  اس کتاب کو گھڑنا یہود کے لئے نہ تھا بلکہ وہ اپنے ہی ہم مسلک عیسائیوں  کو جھوٹی کہانیاں سنا کر تسلیاں دے رہے تھے

اب  اس سوال کی طرف  توجہ کرتے ہیں کہ ذوالقرنین کس دور میں گذرا- بابل کی غلامی کے دور میں یہود اس کی شخصیت سے واقف ہوئے جب نہ کورش تھا ن سکندر لہذا یہ  ان دونوں سے قبل گزرنے والی کوئی شخصیت ہے-

قدیم مورخین کے مطابق ذو القرنین  افریدوں

Fereydun

Faridon

Fereydoun

ہے جس کا ذکر قدیم فارس کی

Proto- Iranian

داستانوں میں ہے یعنی یہ ایک ایسی شخصیت ہے جو تاریخ لکھے جانے سے پہلے کا دور ہے یہی وجہ ہے کہ اس پر معلومات کم تھیں اور یہود و نصاری میں اس شخصیت پر جھگڑا تھا کہ کون ہے

فریدوں کی ایک تصویر ١٩ صدی میں بنائی گئی جس میں اس کے ہاتھ میں عصآ ہے جس پر دو سینگ ہیں

https://en.wikipedia.org/wiki/Fereydun

 یقینا مصور کے پاس اس پر کوئی معلومات تھیں جس کی بنا پر افریدوں کو دو سینگوں کے ساتھ دکھایا گیا

اس سب تفصیل کو بٹاتے کا مقصد ہے کہ بعض مستشرقین  نے اس مذکورہ کتاب کو قرآن کی سوره الکھف کا منبع قرار دیا اور ثابت کرنے کی کوشش کی کہ گویا ذو القرنین کا قصہ اصلا اس کتاب کا سرقه ہے

http://wikiislam.net/wiki/Dhul-Qarnayn_and_the_Alexander_Romance#Early_Jewish_Legends

سوره کہف ، حکایات سکندر  سے گھڑنے کی بات کس قدر احمقانہ ہے اس کا اندازہ اسی سے ہو جاتا ہے خود اہل کتاب   نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے ذو القرنین پر سوال کیا تھا – انکو عیسائیوں  کی یہود مخالف تحاریر کا بھی علم تھا اور اگر مذکورہ بالا  سکندر پر کتاب اس وقت  موجود تھی تو یقینا اس کا بھی یہود و نصاری کو  علم ہو گا

اول  قرآن نے یاجوج ماجوج کو قوم قرار دیا نہ کہ بادشاہ

دوم قرآن نے یاجوج ماجوج کو یہود قرار نہیں دیا

سوم ذو القرنین کو سکندر نہیں کہا حالانکہ  سکندر جیسا مشہور حاکم  قرار دینا نہایت آسان تھا

واللہ اعلم