صحو و سکر کا تماشہ

تصوف میں سالک یا تپسوی پر جو کیفیت یا حال  طاری ہوتا ہے اس کو واردات کہا جاتا ہے – اس کیفیت میں غیب کا کشف ہوتا ہے (جس کو غیبت کہا جاتا ہے ) اور کچھ نیا پانے (عربی میں وجد – یعنی پا لینا)  پر ایک خوشی ہوتی ہے اور اس واردات کے اختتام پر (اردو والا) وجد ہوتا ہے یعنی رقص- یہ السکر کہلاتا ہے –تپسیا یا سلوک پر جب سالک یا تپسوی کوئی چھپی چیز دیکھتا ہے، حواس باختہ ہو جاتا ہے- یہ کیفیت اہل طریقت کے مطابق ان اولیاء و انبیاء پر طاری ہوتی ہے جو ابھی اس راہ میں پختہ نہیں ہوتے

دوسری کیفیت کو الصحو کہا جاتا ہے – اس میں سالک یا تپسوی کا دماغ، واپس درست حالت پر اتا ہے یا کہہ سکتے ہیں بندہ اپنے جامے میں ہی رہتا ہے اور حواس باختہ نہیں ہوتا – یہ کیفیت تپسیا یا مراقبہ میں پختہ ہونے کی علامت ہے

اس پر تفصیل كتاب التعريفات  از  علي بن محمد بن علي الزين الشريف الجرجاني میں دیکھی جا سکتی ہے

أبو إسماعيل عبد الله بن محمد بن علي الأنصاري الهروي  (المتوفى: 481هـ)  کتاب منازل السائرين میں بَاب الصحو لکھتے ہیں

قَالَ الله عز وَجل حَتَّى إِذا فزع عَن قُلُوبهم قَالُوا مَاذَا قَالَ ربكُم قَالُوا الْحق 

الصحو فَوق السكر وَهُوَ يُنَاسب مقَام الْبسط

والصحو مقَام صاعد عَن الِانْتِظَار مغن عَن الطّلب طَاهِر من الْحَرج

فَإِن السكر إِنَّمَا هُوَ فِي الْحق والصحو إِنَّمَا هُوَ بِالْحَقِّ وكل مَا كَانَ فِي عين الْحق لم يخل من حيرة لَا حيرة الشُّبْهَة

بل الْحيرَة فِي مُشَاهدَة نور الْعِزَّة

الله عز وَجل کا قول پس جب ان کے دلوں پر سے گبراہٹ ختم ہوتی ہے وہ پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا کہا ؟ کہا : اس نے حق کہا

ألصحو كا مقام السكر سے اوپر ہے اور یہ  ألصحو  مقام سرور  ہے

الصحو  اوپر چڑھنے کا مقام ہے اس امید پر کہ پاک بات ملے

اور السکر تو وہ تو حق میں سے ہے اور الصحو تو حق اس کے ساتھ ہے

اور جو بالکل حق میں سے ہو تو اس پر حیرت طاری نہیں ہوتی نہ اس پر حیرت کا شبہہ ہوتا ہے بلکہ حیرت ہوتی ہے الله کے نور (نور الْعِزَّت)  کے مشاہدے پر

اسی کتاب کی شرح  ابن القیم نے مدارج السالکین کے نام سے کی ہے یعنی تپسویوں کے درجات-  ابن القیم اس کتاب میں الھروی کے الفاظ کی شرح کرتے ہیں

قَوْلُهُ: ” الصَّحْوُ فَوْقَ السُّكْرِ ” يَعْنِي: أَنَّ السُّكْرَ يَكُونُ فِي الِانْفِصَالِ. وَالصَّحْوُ فِي

الِاتِّصَالِ، وَأَيْضًا فَالسُّكْرُ فَنَاءٌ، وَالصَّحْوُ بَقَاءٌ.

وَأَيْضًا فَالسُّكْرُ غَيْبَةٌ وَالصَّحْوُ حُضُورٌ، وَأَيْضًا فَالسُّكْرُ غَلَبَةٌ وَالصَّحْوُ تَمَكُّنٌ، وَأَيْضًا فَالسُّكْرُ كَالنَّوْمِ وَالصَّحْوُ كَالْيَقَظَةِ.

الھروی کا قول  الصَّحْوُ فَوْقَ السُّكْرِ  کہ الصحو جو ہے السکر سے اوپر ہے یعنی السکر اس وقت ہے جب  (تپسوی کا ذہین غیب سے) جڑ جائے  اور الصحو (غیبی حقیقت) ملنے پر ہے اور اسی طرح السکر فنا ہے اور الصحو بقا ہے

اور اسی طرح السکر غیبت (غیب دیکھنا) ہے اور الصحو اس کو حاضر پانا ہے اور اسی طرح السکر غلبہ ہے اور الصحو میں ٹہراؤ ہے اور اسی طرح السکر نیند جیسا ہے اور الصحو جاگنے کی کیفیت جیسا ہے

یہاں فنا سے مراد ہے  تپسوی کو یاد نہ رہے کہ انسانی جامے میں  واپس پلٹنا  ہے اور بقا سے مراد ہے کہ تپسوی واپس انسانی جامے میں ہی رہے اور اس کو یاد رہے کہ کیا دیکھا ہے – تصوف کے مدارج کو ابن قیم نے خوب سمجھا ہے اور فنا و بقا  کو  بیان کیا ہے

ابن قیم کے نقش قدم پر دیوان شمس تبریزی میں مولانا جلال‌الدین محمد بلخی  المعروف مولانا روم کہتے ہیں

سبق الجد الینا نزل الحب علینا

سکن العشق لدینا فسکنا و ثوینا

زمن الصحو ندامه زمن السکر کرامه

خطر العشق سلامه ففتنا و فنینا

 

گزر گیا اک دور ہم پر، محبت کا نزول ہوا ہم پر

رہا عشق سامنے ہمارے،  ٹہرایا ہم نے، دفنایا ہم نے

صحو کا دور ندامت ہے،  سکر کا دور کرامت ہے

خطرہ عشق سلامت ہے ،  فتنہ بپا  کیا ہم نے ، فنا کیا ہم نے

رومی کے مطابق دونوں کیفیات تپسوی پر طاری ہو سکتی ہیں  صحو ے بعد ندامت ہو سکتی ہے   سکر کا واقعہ ہونا کرامت ہے   لیکن دونوں پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے کیونکہ  راہب  یا سالک یا تپسوی اس کو اپنے اوپر طاری کرتا ہے

اھل  طریقت میں صحو و سکر پر اختلاف ھے کہ کون سی کیفیت بہتر ھے بعض کے نزدیک سکر کی واردات صحو سے بلند ھے مثلا علی الھجویری کے نزدیک

چلہ کو سمجھانے کے لئے بو الحسن علي بن عثمان  الہجویری (المعروف داتا گنج بخش) کتاب کشف المحجوب میں بیان کرتے ہیں

kashaf-mahjoob-420

علی الہجویری کہتے  ہیں اہل حیا اصحاب سکر ہیں

kashaf-mahjoob-388

علی الہجویری صحو و سکر کی وضاحت کرتے ہیں

kashaf

نعوذ باللہ من تلک الخرافات

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی (حالت سكر ميں) نظر زینب رضی الله عنہ پر پڑنے کی وجہ سے وہ ان پر حلال ہوئیں اور داود علیہ السلام کی (حالت صحو میں) نظر اوریا حتی کی بیوی پر پڑنے پر وہ ان کے لئے حرام ہوئی – دونوں جھوٹے قصے تھے جن کو صحیح مانتے ہوئے علی الہجویری نے صحو و سکر کی شرح کی

ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله تعالی لکھتے ہیں

توحید الخالص١ ص١١٩

اسی اتحادی دین کی اصطلاحات کی شرح سلف کے متبع ابن قیم کرتے رہے اور  بجائے اس کے کہ اس کا رد ہوتا بقول شاعر

گردشیں جام و سبو کرتے رہے

رند مشقِ ہاؤ ہو کرتے رہے

واضح رہے کہ صحو و سکر کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ دیگر ادیان میں بھی اس طرح مراقبہ میں کیفیت طاری ہونا بتایا گیا ہے جس میں ہونے والے مشآھدے کو حق سمجھا جاتا ہے