تذکرہ نافعہ در عقائد احمد

[wpdm_package id=’9133′]

امام احمد کے مشہور و معروف عقائد جو حنابلہ میں  مقبول  ہیں  ان میں سے ہیں

اول : مردے ميں روح کا آنا
دوم : روز محشر عرش عظيم پر رسول اللہ کو بٹھايا جانا
سوم بيابان ميں فرشتوں کو غيبي مدد کے لئے پکارنا
چہارم : تعويذ لکھا اور حاملہ عورتوں پر بندھوانا

کتاب صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم للالبانی ص 26 حاشیہ 3 ط المکتب الاسلامی 1403ھ، اور  العجلونی کی  کشف الخفاء 1961 میں امام مالک رحمہ اللہ  کا قول ہے کہ  امام مالک کا ہم عصر علماء کی غلطیوں پر  حکم تھا کہ

ہم میں سے ہر ایک رد کرسکتا ہے اور اس کا رد کیا جاسکتا ہے، سوائے اس قبر والے (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے

اب ہم  التحذير من زلة العالم  (عالم کی غلطی پر عوام کو متنبہ کرنا ) کے تحت  ان عقائد  پر نگاہ ڈالتے ہیں

مردے میں قبر میں روح کا  واپس آنا

قرآن سورة الزمر 42 آیت ٣٩ میں موحود ہے کہ مرنے والے کی روح کو روک لیا جاتا ہے اس کو جسم میں نہیں ڈالا جاتا

اللہ جانوں کو پکڑتا  ہے ان کي موت کے وقت اور جو نہ مريں انہيں ان کے سوتے ميں پھر جس پر موت کا حکم فرماديا اسے روک رکھتا ہے اور دوسري ايک ميعاد مقرر تک چھوڑ ديتا ہے بيشک اس ميں ضرور نشانياں ہيں سوچنے والوں کے ليے

اس کے برخلاف امام احمد نے مسدد ابن المسرھد کو خط لکھ کر صحیح عقیدہ بتایا کہ ارواح کو جسموں میں سوال و جواب کے لئے لوٹایا جاتا ہے -یہ عقیدہ امام احمد کا  مشہور ہے اور امام ابن تیمیہ اس کے ناقل ہیں   – امام احمد کی طرف اس عقیدے کی نسبت کو جب عثمانی صاحب نے پیش کیا تو وہ لوگ جو خود اس کے قائل کہ یہ عقیدہ صحیح ہے انہوں نے دعوی کیا کہ امام احمد سے یہ عقیدہ ثابت نہیں ہے کہ یہ خط ثابت نہیں ہے  -گویا یہ صحیح عقیدہ ہے لیکن  امام احمد  سے ثابت نہیں ہے –  اس عجیب و غریب موقف کو اس لئے گھڑا کیا کہ بے جا حق کی مخالفت کی جائے

ابو جابر دامانوی نے دین الخالص میں لکھا

ابن تیمیہ نے  ابن مندہ کا قول نقل کیا تھا کہ اس کی سند میں مجہول ہے لیکن ابن تیمیہ نے لکھا کہ ابن مندہ نے یہ شوشہ اس لئے چھوڑا ہے کیونکہ وہ اس کا قائل ہے کہ اللہ کا عرش خالی ہو جاتا ہے جب اللہ تعالی آسمان دنیا پر نزول کرتا ہے – ابن تیمیہ نے ابن مندہ کا رد کیا اور اس خط کو قبول کیا لہذا دامانوی نے ابن  تیمیہ کو سمجھننے میں غلطی کی کیونکہ دامانوی عربی نہیں جانتے تھے

خط ایک خبر کی طرح ہے اور اس حوالے سے خود ان کے اصول کے مطابق یہ علم کی ایک قسم ہے – علم کی قسموں پر بات کرتے ہوئے ابن تيميه فتوی میں کہتے ہیں اول علم وہ ہے

والاستدلال يوجب العلم من أربعة أوجه: أحدها: أن تتلقاه الأمة بالقبول، فيدل ذلك على أنه حق، لأن الأمة لا تجتمع على الخطأ ولأن قبول الأمة له يدل على أن الحجة قد قامت عندهم بصحته، لأن العادة أن خبر الواحد الذي لم تقم الحجة به لا تجتمع الأمة على قبوله، وإنما يقبله قوم ويرده قوم.

جس کو امت نے درجہ قبولیت دیا ہو تو یہ دلیل ہے کہ پس یہ حق ہے کہ امت غلطی پر مجتمع نہیں ہوئی اور امت کا اس کو قبول کرنا دلالت کرتا ہے کہ اس کی صحت قائم ہے کیونکہ یہ عادت میں ہے کہ خبر واحد اگر قابل حجت نہ ہو تو اس پر امت جمع نہ ہو گی

ابن تیمیہ مزید کہتے ہیں
مذهب أصحابنا أن أخبار الآحاد المتلقاة بالقبول تصلح لإثبات أصول الديانات.
ہمارے اصحاب کا مذھب ہے کہ خبر واحد جو درجہ قبولیت پر ہو تو اس سے دین کے اصول لینا صحیح ہے

خط کے تناظر میں ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ امام احمد کا رسالہ جو مسدد کو لکھا گیا تھا اس کو امت نے تلقھا بالقبول کا درجہ دیا ہے اور ابن مندہ کا عقیدہ باطل ہے جس نے شوشہ چھوڑا کہ اس رسالہ کی سند میں مجہول ہے
کتاب حدیث شرح النزول میں لکھتے ہیں
وأما رسالة أحمد بن حنبل إلى مُسَدَّد بن مسرهد، فهي مشهورة عند أهل الحديث والسنة من أصحاب أحمد وغيرهم، تلقوها بالقبول، وقد ذكرها أبو عبد الله بن بطة في كتاب [الإبانة] ، واعتمد عليها غير واحد كالقاضي أبي يعلى وكتبها بخطه.

اور جہاں تک امام احمد کا خط ہے مسدد کی طرف تو یہ اہل سنت و حدیث میں مشہور ہے ، امام احمد کے اصحاب میں اس کو درجہ قبولیت حاصل ہے اور اس کا ذکر ابن بطہ نے کتاب ابانه میں کیا ہے اور اس پر قاضی ابو یعلی اور ایک سے زائد کا اعتماد ہے

ابن تیمیہ کے شاگرد ابن قیم نے بھی اس خط کا ذکر اپنی کتاب کیا ہے یعنی ان دونوں نے اس خط کے مندرجات کو رد نہیں کیا
ابن مفلح نے بھی اس خط کا ذکر کیا ہے جو ابن تیمیہ کے بعد آئے

فرشتوں کو بیابان میں پکارنا

کتاب مسائل الإمام أحمد لابنه عبدالله میں ہے امام احمد کے بیٹے عبد الله نے بیان کیا کہ ان کے باپ احمد بن حنبل نے کہا

حَدثنَا قَالَ سَمِعت ابي يَقُول حججْت خمس حجج مِنْهَا ثِنْتَيْنِ رَاكِبًا وَثَلَاثَة مَاشِيا اَوْ ثِنْتَيْنِ مَاشِيا وَثَلَاثَة رَاكِبًا فضللت الطَّرِيق فِي حجَّة وَكنت مَاشِيا فَجعلت اقول يَا عباد الله دلونا على الطَّرِيق فَلم ازل اقول ذَلِك حَتَّى وَقعت الطَّرِيق اَوْ كَمَا قَالَ ابي

میرے باپ نے کہا میں نے پانچ حج کیے جن میں دو سواری پر اور تین چل کر کیے یا کہا تین سواری پر اور دو پیدل – تو مجھ پر حج کا راستہ کھو گیا اور میں پیدل چل رہا تھا تو میں نے کہنا شروع کر دیا

اللہ کے بندو ! مجھے راستہ بتاؤ۔ میں مسلسل کہتا رہا حتی کہ صحیح راستے پر آ گیا – ایسا میرے باپ نے کہا

امام احمد کے پیش نظر مسند البزار کی ایک منکر روایت تھی جس پر وہ عمل کر رہے تھے

إن لله ملائكة في الأرض سوی الحفظة، يكتبون ا سقط من ورق الشجر، فإذا أصاب أحدكم عرجة بأرض فلاة، فليناد : أعينوا عبادالله.
زمین میں حفاظت والے فرشتوں کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ہوتے ہیں جو درختوں کے گرنے والے پتوں کو لکھتے ہیں۔ جب تم میں سے کسی کو ویرانے میں چلتے ہوئے پاؤں میں موچ آ جائے تو وہ کہے : اللہ کے بندو ! میری مدد کرو

اس کو البانی نے بھی بیان کیا

أن حديث ابن عباس الذي حسنه الحافظ كان الإمام أحمد يقويه، لأنه قد عمل به

حدیث ابن عباس جس کو حافظ ابن حجر نے حسن قرار دیا ہے اس کو امام احمد نے قوی کیا ہے کیونکہ وہ اس پر عمل کرتے تھے

فرشتوں کو غیبی مدد کے لئے  پکارنا  مشرکانہ عمل  ہے

تعویذ و تمیمہ کرنا

ابی داوود مسائل الإمام أحمد رواية أبي داود السجستاني میں کہتے ہیں کہ میں نے
رَأَيْتُ عَلَى ابْنٍ لِأَحْمَدَ، وَهُوَ صَغِيرٌ تَمِيمَةً فِي رَقَبَتِهِ فِي أَدِيم
میں نے احمد کے بیٹے جبکہ وہ چھوٹے تھے ایک چمڑے کا تَمِيمَةً (تعویذ ) گلے میں دیکھا

امام احمد کو ایک منکر اثر ملا جو مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: إِذَا عَسِرَ عَلَى الْمَرْأَةِ وَلَدُهَا، فَيَكْتُبُ هَاتَيْنِ الْآيَتَيْنِ وَالْكَلِمَاتِ فِي صَحْفَةٍ ثُمَّ تُغْسَلُ فَتُسْقَى مِنْهَا «بِسْمِ اللَّهِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ، سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَرَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ» {كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحَاهَا} [النازعات: 46] {كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، بَلَاغٌ فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ} [الأحقاف: 35]

سعید بن جبیر نے ابن عباس سے روایت کیا کہ جب عورت کو بچہ جننے میں مشکل ہو تو اس کے لئے یہ دو آیات اور کلمات ایک صفحہ پر لکھو پھر ان کو دھو کر اس کا دھون عورت کو پلا دو
بِسْمِ اللَّهِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ، سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَرَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ

كَاَنَّـهُـمْ يَوْمَ يَرَوْنَـهَا لَمْ يَلْبَثُوٓا اِلَّا عَشِيَّةً اَوْ ضُحَاهَا
جس دن اسے دیکھ لیں گے (تو یہی سمجھیں گے کہ دنیا میں) گویا ہم ایک شام یا اس کی صبح تک ٹھہرے تھے۔

كَاَنَّـهُـمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوْعَدُوْنَ لَمْ يَلْبَثُـوٓا اِلَّا سَاعَةً مِّنْ نَّـهَارٍ ۚ بَلَاغٌ ۚ فَهَلْ يُهْلَكُ اِلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُوْنَ
ایک دن میں سے ایک گھڑی بھر رہے تھے، آپ کا کام پہنچا دینا تھا، سو کیا نافرمان لوگوں کے سوا اور کوئی ہلاک ہوگا۔
اسکی سند میں محمد بن عبد الرحمن بن أبي ليلى ہے جو خراب حافظہ کا مالک تھا

امام احمد کے بیٹے نے خبر دی کہ اسی روایت کی بنیاد پر امام احمد تعویذ کرتے تھے کتاب المسائل امام احمد بن حنبل میں امام احمد نے با قاعدہ تعویذ بتایا کہ

كِتَابَة التعويذة للقرع والحمى وللمراة اذا عسر عَلَيْهَا الْولادَة

حَدثنَا قَالَ رَأَيْت ابي يكْتب التعاويذ للَّذي يقرع وللحمى لاهله وقراباته وَيكْتب للمراة اذا عسر عَلَيْهَا الْولادَة فِي جَام اَوْ شَيْء لطيف وَيكْتب حَدِيث ابْن عَبَّاس

کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ کو تعویذ لکھتے دیکھا گنج پن ، بیماری یا درد زہ کے لئے- خاندان والو اور رشتہ داروں کے لئے اور ان عورتوں کے لئے جن کو جننے میں دشواری ہو ان کے لئے وہ ایک برتن یا باریک کپڑے پر ابن عبّاس کی روایت لکھتے تھے-

محمد عمرو بن عبد اللطيف مصری عالم نے تكميل النفع بما لم يثبت به وقف ولا رفع میں لکھا ہے
مع ضعف هذا الأثر، فقد عمل به الإمام أحمد رحمه الله …. قال الخلال : أنبأنا أبو بكر المروذي (3) أن أبا عبد الله جاءه رجل فقال : يا أبا عبد الله تكتب لامرأة قد عسر عليها ولدها منذ يومين ، فقال : قل له يجئ بجام واسع وزعفران . ورأيته يكتب لغير واحد … )) . قلت : وفي هذا دليل على أن الإمام أحمد رحمه الله كان يأخذ بالأحاديث والآثار الضعيفة إذا لم يجد في الباب غيرها ، ولم يكن هناك ما يدفعها ، والله أعلم

اور اس اثر کے ضعیف ہونے کے باوجود امام احمد کا اس پر عمل ہے …. خلال نے ذکر کیا کہ ہمیں ابو بکر المروزی نے خبر دی کہ ایک شخص امام احمد کے پاس آیا اور کہا اے ابو عبد اللہ میرے بیوی کے لئے تعویذ لکھیں اس کو جننے میں مشکل ہے دو روز سے پس امام احمد نے کہا ایک بڑا برتن لاو اور زعفران اور میں نے دیکھا کہ ایک سے زائد کے لئے یہ لکھتے تھے
میں (محمد عمرو بن عبد اللطيف) کہتا ہوں یہ دلیل ہے کہ احمد ان احادیث و اثار کو لیتے تھے جو ضعیف ہوتے تھے جب ان کو اس باب میں کوئی اور نہ ملتا و اللہ اعلم

كتاب الفروع از ابن مفلح الحنبلي (المتوفى: 763هـ ) میں ہے

وَقَالَ ابْنُ مَنْصُورٍ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: هَلْ يُعَلِّقُ شَيْئًا مِنْ الْقُرْآنِ؟ قَالَ: التَّعْلِيقُ كُلُّهُ مَكْرُوهٌ، وَكَذَا قَالَ فِي رِوَايَةِ صَالِحٍ. وَقَالَ الْمَيْمُونِيُّ: سَمِعْت مَنْ سَأَلَ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عَنْ التَّمَائِمِ تُعَلَّقُ بَعْدَ نُزُولِ الْبَلَاءِ فَقَالَ: أَرْجُو أَنْ لَا يَكُونَ بِهِ بَأْسٌ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَقَدْ رَأَيْت عَلَى ابْنٍ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ وَهُوَ صَغِيرٌ تَمِيمَةً فِي رَقَبَتِهِ فِي أُدُمٍ، قَالَ الْخَلَّالُ: قَدْ كَتَبَ هُوَ مِنْ الْحُمَّى بَعْدَ نُزُولِ الْبَلَاءِ، وَالْكَرَاهَةُ مِنْ تَعْلِيقِ ذَلِكَ قَبْلَ نُزُولِ الْبَلَاءِ هُوَ الَّذِي عَلَيْهِ الْعَمَلُ، انْتَهَى

المروزی نے امام احمد سے پوچھا کیا قرآن میں سے کچھ لٹکایا جائے ؟ امام احمد نے کہا ہر لٹکانے والی چیز مکروہ ہے اور ایسا ہی صالح نے روایت کیا ہے اور میمونی نے کہا میں نے امام احمد سے تعویذ پر سوال کیا کہ آفت نازل ہونے کے بعد لٹکا لیا جائے انہوں نے کہا اس میں امید ہے کوئی برائی نہیں اور امام ابو داود کہتے ہیں انہوں نے احمد کے چھوٹے بیٹے کے گلے میں چمڑے کا تمیمہ دیکھا الخلال کہتے ہیں اور امام احمد تمیمہ لکھتے بخآر کے لئے آفت کے نزول کے بعد اور اس سے کراہت کرتے کہ اس کو نزول بلا سے پہلے لٹکایا جائے اور اسی پر (حنابلہ کا) عمل ہے انتھی

إسحاق بن منصور بن بهرام أبو يعقوب الكوسج المروزی کی وفات ٢٥١ ھ میں امام ابو داود  سے پہلے    ہوئی اورأبو داود سليمان بن الأشعث بن إسحاق المتوفی ٢٧٥ ھ کہتے ہیں امام احمد کے بیٹے کے گلے میں ایک تمیمہ ہوتا تھا – پھر گھر والوں کی گواہی  سب سے اہم ہے کیونکہ  احمد کے  بیٹوں نے  اپنی  کتب باپ  احمد کی وفات کے بعد مرتب کی ہیں

عرش عظیم پر رسول اللہ (ص) کا بٹھایا جانا

قرآن کی سوره بنی اسرائیل کی آیت ہے

عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا
ہو سکتا ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر مبعوث کرے

بخاری کی حدیث میں ہے کہ یہ روز قیامت ہو گا جب نبی صلی الله علیہ وسلم الله سے دعا کریں گے جو ان کی نبی کی حیثیت سے وہ خاص دعا ہے جو رد نہیں ہوتی اور تمام انبیاء اس کو کر چکے سوائے نبی صلی الله علیہ وسلم کے

پس بخاری کی حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سجدہ میں دعا کریں گے. رب تعالی کہے گا
ثم يقول ارفع محمد، وقل يسمع، واشفع تشفع، وسل تعطه
محمد اٹھو ، کہو سنا جائے گا ، شفاعت کرو قبول ہو گی، مانگو ، دیا جائے گا
نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
وهذا المقام المحمود الذي وعده نبيكم صلى الله عليه وسلم
اور یہ وہ مقام محمود ہے جس کا تمھارے نبی صلی الله علیہ وسلم سے وعدہ کیا گیا ہے
معلوم ہوا کہ یہ قدر و منزلت کا مقام ہے

امام احمد نے امت پر ظلم کیا کہ یہ عقیدہ دیا کہ ہ الله عرش پر نبی صلی الله علیہ وسلم کو بٹھائے گا

ابن أبي يعلى کتاب الاعتقاد میں لکھتے ہیں
وقال ابن عمير: سمعت أبا عبد الله أحمد بن حنبل وسئل عن حديث مجاهد: ” يُقعد محمداً على العرش “. فقال: قد تلقته العلماء بالقبول، نسلم هذا الخبر كما جاء
ابن عمیر کہتے ہیں انہوں نے احمد بن حنبل کو سنا ان سے مجاہد کی حدیث پر سوال ہوا کہ محمد کو عرش پر بٹھایا جائے گا پس انہوں نے کہا علماء نے اس کو قبولیت دی ہے ہم اس خبر کو جیسی آئی ہے مانتے ہیں
القاضي أبو يعلى ، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء (المتوفى : 458هـ) کتاب إبطال التأويلات لأخبار الصفات میں لکھتے ہیں
ونظر أَبُو عبد اللَّه فِي كتاب الترمذي، وقد طعن عَلَى حديث مجاهد فِي قوله: {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} فَقَالَ: لَمْ هَذَا عَن مجاهد وحده هَذَا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وقد خرجت أحاديثا فِي هَذَا، وكتبها بخطه وقرأها
اور ابو عبدللہ امام احمد نے ترمذی کی کتاب دیکھی اور اس نے مجاہد کی حدیث پر طعن کیا اس قول عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا کے حوالے سے پس امام احمد نے کہا مجاہد پر ہی کیوں؟ ایسا ابن عباس سے بھی مروی ہے اور اس کی احادیث نکالیں اور ان کو بیان کیا
کتاب الاعتقاد از ابن أبي يعلى میں ابن حارث کہتے ہیں
وقال ابن الحارث: ” نعم يقعد محمدا على العرش” وقال عبد الله بن أحمد: “وأنا منكر على كل من رد هذا الحديث”.
ابن حارث کہتے ہیں ہاں عرش پر محمّد کو الله بٹھائے گا اور عبدللہ بن احمد کہتے ہیں میں ہر اس شخص کا انکار کرتا ہوں جو اس حدیث کو رد کرے
کتاب السنہ از ابو بکر الخلال میں ہے کہ
قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: لَا يَرُدُّ هَذَا إِلَّا أَهْلُ الْبِدَعِ وَالْجَهْمِيَّةُ
ابو قلابہ نے کہا کہ اس کو سوائے اہل بدعت اور جھمیہ کے کوئی رد نہیں کرتا
یہ سراسر عیسائی عقیدہ ہے کہ عیسیٰ وفات کے بعد الله کے ساتھ عرش پر بیٹھا ہے مسلمانوں میں بھی یہ غلو در کر آیا ہے
سعودی مفتی ابن باز کے استاد اور سعودی عرب کے سابق مفتی اکبر علامہ محمد بن ابراہیم بھی کہتے ہیں کہ مقام محمود سے شفاعت عظمیٰ اور عرش پر بٹھایا جانا دونوں ہی مراد ہیں اور ان میں کوئی تضاد نہیں وہ اس کو اہل سنت کا قول بھی کہتے ہیں
قيل الشفاعة العظمى، وقيل إِنه إِجلاسه معه على العرش كما هو المشهور من قول أَهل السنة
فتاوى ورسائل سماحة الشيخ محمد بن إبراهيم بن عبد اللطيف آل الشيخ
جلد2 ، ص136
دوسرے حنبلی مقلد عالم محمّد صالح المنجد اس پر لکھتے ہیں کہ امام ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ امام احمد کا یہ قول فضائل کی وجہ سے ہے

آٹھویں صدی میں جا کر الذھبی اور ابن تیمیہ کے دور میں علماء کا ماتھا اس روایت پر ٹھنکا اور اس کا انکار کیا گیا اسی وجہ سے الذھبی نے کتاب العلو للعلي الغفار في إيضاح صحيح الأخبار وسقيمها میں اس کا رد کیا

عصر حاضر میں مختصر العلو للعلي العظيم للذهبي ص ٢٣٤ میں البانی اپنے حاشیہ میں کہتے ہیں
وان عجبي لا يكاد ينتهي من تحمس بعض المحدثين السالفين لهذا الحديث الواهي والاثر المنكر ومبالغتم في الانكار على من رده واساءتهم الظن بعقيدته … وهب أن الحديث في حكم المرسل فكيف تثبت به فضيلة؟! بل كيف يبنى عليه عقيده أن الله يقعد نبيه – صلى الله عليه وسلم – معه على عرشه
اور میں حیران ہو کہ سلف میں بعض محدثین کا اس واہی حدیث اور منکر اثر پر جوش و خروش کی کوئی انتہا نہیں تھی اور( حیران ہوں کہ) محدثین کا اپنے مخالفین کے انکار اور رد میں مبالغہ آمیزی اور عقیدے میں ان کو برا کہنے پر … اور حدیث مرسل ہے تو اس سے فضیلت کیسے ہوثابت ہو گئی؟ بلکہ یہ عقیدہ ہی کیسے بنا لیا کہ الله عرش پر نبی صلی الله علیہ وسلم کو بٹھائے گا!

================================================

مخالفین کا کہنا ہے کہ ہم امام احمد کے اقوال کیوں نقل کرتے ہیں جبکہ وہ صحیح عقیدہ نہیں تھے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ اصول حدیث امام احمد کے مرتب کردہ نہیں ہیں اس میں حدیث عود روح کو رد کرنے والے امام شعبہ ہیں- اس میں اماموں کے امام یحیی بن سعید القطان تھے جو کہتے تھے کہ راوی پر جرح کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم سے جھگڑا کریں – ان میں امام مالک بھی ہیں
علم حدیث کسی ایک شخص کا مرتب کردہ نہیں ہے نہ ہی کسی مدرسہ کی پروڈکٹ ہے
ان ائمہ کو اہل فن و صنعت کہا جاتا ہے لہذا انہی اصولوں کو ہم بھی قبول کرتے ہیں

=======================================

نتائج

فرقوں  کے محققین  مثلا ابن تیمیہ اور ایک جم کثیر   اس کے قائل ہیں کہ احمد کا یہ عقیدہ کہ نبی کو عرش پر بٹھایا جائے گا صحیح نہیں ہے

فرقوں کے  محققین  اور خود برصغیری اہل حدیث  کہتے ہیں کہ فرشتوں کو پکارنا بھی باطل عقیدہ  ہے

فرقوں کے  محققین میں وہابی  اور خود بعض  برصغیری اہل حدیث  کہتے ہیں کہ تعویذ و تمیمہ شرک ہے

ہمارے نزدیک عقیدہ عود روح بھی باطل  ہے 

اس طرح ہم سب اس پر جمع ہیں کہ امام احمد صحیح عقیدہ پر نہیں تھے

 قُلْ يَآ اَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَآءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّـٰهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهٖ شَيْئًا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّـٰهِ ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْهَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ (64)

کہہ اے اہلِ کتاب! ایک بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ سوائے اللہ کے اور کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور سوائے اللہ کے کوئی کسی کو رب نہ بنائے، پس اگر وہ پھر جائیں تو کہہ دو گواہ رہو کہ ہم تو فرمانبردار ہونے والے ہیں۔

2 thoughts on “تذکرہ نافعہ در عقائد احمد

  1. علی احمد

    السلام عليكم :

    احمد بن حنبل اپنے عقائد ونظریات کی رو سے موحد
    ومومن ہیں یا کافر ومشرک؟؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      فرشتوں کو بیابان میں پکارنے کی بنا پر احمد مشرک ہو گئے – اور اس شرک کا بر ملا اظہار ان کے بیٹوں نے اپنی کتاب میں کیا ہے

      Reply

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *