Category Archives: طائفة وفرق – Sects and Cults

islamic cluts

الصابئين اور حنیف مذھب

صابئی   / الصابئين/ الصابئون

Sabians

کے نزدیک ان  کا مذھب  شیث بن آدم  و نوح  علیھما السلام  سے آتا ہے- آجکل یہ عراق میں آباد ہیں  – صابئیوں کے ہاں بہتا   پانی (الماء  الجاری ) زندگی ہے لہذا یہ مقدس نہروں دجلہ و فرات کے پاس رہتے ہیں –   صابئی کہتے ہیں کہ ان کے مذھب   کا نام صبغ    سے تھا یعنی پانی میں پبتسمہ دینا  لیکن  غلط العام میں  یہ بدل کر  صابئی  ہو گیا – بعض مفسرین نے کہا کہ لفظ   صابئ  کا تعلق اولاد ادریس سے ہے

  متوشلخ بن إدريس عليه الصلاة والسلام، وكان علي الحنيفية الأولى

 یہ ادریس علیہ السلام  کی نبوت کے بھی قائل ہیں –  کہا جاتا  ہی کہ ان کے نزدیک  آخری پیغمبر یحیی علیہ السلام   تھے اور آخری منزل من اللہ کتاب زبور ہے – یہ  لوگ عراق  میں آج بھی  آباد ہیں – صابئی  مذھب کی اصل تحاریر  نبطی زبان  میں ہیں البتہ ان کے تراجم عربی میں موجود ہیں  –   صابئی اپنے عقائد کو سر   عام  بیان  نہیں کرتے یعنی  ان کے   مذھب قبول کروانے والی مشنریاں/ تبلیغی گروہ   نہیں ہیں  جیسی اسلام و نصرانیت  میں ہیں

آجکل  صابئیوں   کو

Mandaeism

المندائية بھی کہا جاتا ہے – ان کی مقدس کتاب کا نام کنز اربا

Ginza Rba

   ہے جو  آرامی میں ہے

  https://www.youtube.com/watch?v=IC06iY2KHJE

صابئیوں  یا المندائية ‏ کے نزدیک صوم صغیر ہے کہ  تیس دن تک کسی بھی  ذی روح  پر مبنی کھانا  نہیں کھاتے-  تین وقت کی  نماز   (اشراق  ، ظہر اور مغرب)   پڑھتے ہیں  جو وضو کے بعد پڑھی جاتی ہے جس میں صرف قیام و سجود ہوتا ہے – ان کا قبلہ قطب شمالی ہے  – یہ    اپنے اپ کو نصرانیوں سے الگ کرتے ہیں  اور ہر ہفتہ کے دن بپتمسہ   لیتے ہیں –  اللہ کو واحد کہتے ہیں  – آجکل  یہ عراق میں ہی آباد ہیں-

ابتداء  کے حساب سے الصابئين کا آغاز مصر سے ہوتا ہے – وہاں ادریس علیہ السلام کی  نبوت پر ایمان لانے والے موحد اصل میں الصابئين تھے – یہ بت پرستی کے خلاف تھے – اس طرح  صابئی   اور  حنیف  لوگوں  میں مماثلت تھی – دونوں موحد تھے اور بت پرستی کے خلاف تھے  – السراج المنير في الإعانة على معرفة بعض معاني كلام ربنا الحكيم الخبير از شمس الدين، محمد بن أحمد الخطيب الشربيني الشافعي (المتوفى: 977هـ) میں ہے

 وما سموا صابئين إلا لأنهم صبأوا عن الأديان كلها أي  خرجوا

صابئين  کو نام دیا گیا کیونکہ انہوں نے ادیان سے  صبأوا  کیا یعنی ان سب ادیان  سے نکل گئے

حنیف مذھب والے کسی بھی دین پر نہیں تھے – یہ موحد تھے  – اس وجہ سے ان میں اور صابئين   میں مماثلت تھی

مصر میں  الصابئين  کا ایک فرقہ گمراہ ہوا اور اس نے  اللہ تعالی  کے ساتھ نجوم کی پرستش شروع کر دی -غرائب التفسير وعجائب التأويل از  محمود بن حمزة بن نصر، أبو القاسم برهان الدين الكرماني، ويعرف بتاج القراء (المتوفى: نحو 505هـ) میں  ہے

كان فرعون يتعاطى مذهب الصابئين، وإنهم يعبدون النجوم

فرعون ،الصابئين کے مذھب  پر چلتا تھا اور یہ ستاروں کی پوجا کرتے تھے

یہاں تک کہ انہوں نے سمجھا کہ کائنات کو کئی الہ  کنٹرول کر رہے ہیں – ال فرعون  نے اللہ کو الہ موسی  کہا   اور کہتے کہ دعا کرو کہ یہ وبا ہٹا دے-  اس طرح  ال فرعون   اللہ  تعالی کے وجود و قدرت کے قائل تھے البتہ یہ باقی الصابئين   و حنیف گروہوں   سے الگ ہو چکے تھے- اس طرح دربار فرعون  مصر میں  حنیف عقیدہ والے تھے جن میں سورہ مومن کا رجل مومن بھی  تھا جو مصلحتا  تقیہ کر رہا تھا –   ال فرعون   کو خوب  معلوم تھا کہ موسی (علیہ السلام )  سے پہلے  مصر میں  یوسف (علیہ السلام ) بھی اللہ کا نبی تھا-

صابئیوں کو روحانیون  بھی کہا  جاتا تھا – راقم سمجھتا ہے  کہ ال فرعون اسی عقیدہ پر تھے   – یہ عقیدہ  رکھتے ہیں کہ جو  چیز بھی  آسمان  میں ہے اور زمین پر آتی ہے اس کی روح ہے مثلا  شہاب  یا قوس قزح یا ستاروں و سیاروں میں روح ہے اور  اہرام مصر  انبیاء کی قبروں کے اوپر  تعمیر کیے  گئے  ہیں- حنیف مذھب والے اس قسم کا تصور نہیں رکھتے تھے کہ ستاروں سے روح زمین پر آتی ہے  – آجکل کے صابئی اپنے عقیدہ کو مشرکوں سے الگ کرتے خود کو موحد  کہتے ہیں –

 صابئیوں  کی ایک بستی تستر  یا شوشتر فارس  میں بھی آباد تھی –   البیرونی  کی الاثار  الباقیہ   کے مطابق یہ  یہودی قبائل تھے جو غلام بنا کر  بابل  لائے  گئے تھے  ،  وہاں یہ جادو و کہانت سے متاثر  ہوئے ،  اصل توریت کو کھو بیٹھے – البیرونی   نے اس طرح تمام صابئیوں   کو مشرک کہہ دیا ہے ،  راقم  اس رائے سے متفق نہیں ہے  –

صابئیوں  پر  اہل سنت کے پاس  تحریری  معلومات  کا مصدر  صرف  ایک کتاب  ہے   جس کا نام ہے

الفلاحة النبطية   یا   الزراعة النبطية

 The Nabataean Agriculture

ہے – جو  أبو بكر أحمد بن علي بن قيس  المعروف  ابن وحشية النبطي کی تالیف ہے- کہا  جاتا  ہے کہ یہ سن ٢٩١ ھ  میں لکھی گئی تھی –  یہ کتاب   صلاح الدین  ایوبی  کے   طبیب   یہودی  حبر    میمونید

Maimonides

کے پاس بھی تھی اور اس نے بھی اس کے حوالے  اپنی کتب میں دیے ہیں – ابن وحشیہ  کے دور  میں یہ  الحران  میں آباد  تھے اور ان کو نبطی  مذھب  کہا  جاتا تھا – تب سے لے کر آج تک  صرف ان پر کوئی کتاب نہیں لکھی گئی – صرف شهرستاتی و ابن حزم نے سرسری تبصرے کیے ہیں- ابن وحشیہ کے مطابق صابئی  کہتے ہیں کہ ہیکل سلیمانی کے مقام    پر ایک مندر  تعمیر  انبیاء سے  پہلے سے موجود  تھا  جو  مریخ  کا مندر  تھا  اور طاموز

Tammùz /  Dumuzid

 کا بت اس میں نصب  تھا  جو  انات ( عربي  دیوی المناة)  کا عاشق  تھا [1]

موسوعة الملل والأديان میں  عَلوي بن عبد القادر السقاف نے ذکر کیا کہ

وقد أفتى أبو سعيد الاصطخري بأن لا تقبل الجزية منهم  ونازعه في ذلك جماعة من الفقهاء.

 أبو سعيد الاصطخري نے فتوی دیا کہ صابئیوں کا جزیہ قبول نہیں جس پر  فقہاء کی ایک جماعت نے اس پر اس سے جھگڑا گیا

دَرْجُ الدُّرر في تَفِسيِر الآيِ والسُّوَر از  أبو بكر عبد القاهر بن عبد الرحمن بن محمد الفارسي الأصل، الجرجاني الدار (المتوفى: 471هـ) میں ہے

والصّابئون: أهل كتاب عند أبي حنيفة تحلّ مناكحتهم وذبائحهم

صابئی   ‏، امام ابو حنیفہ کے نزدیک اہل کتاب ہیں ان سے نکاح اور ان کا ذبیحہ  حلال ہے

امام شافعی کا موقف عجیب و غریب ہے – ان کے نزدیک یہ اہل کتاب ہیں لیکن ذبیحہ  حلال نہیں ہے

مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه از  إسحاق بن منصور بن بهرام، أبو يعقوب المروزي، المعروف بالكوسج (المتوفى: 251هـ) میں ہے

قال إسحاق: لا بأس بذبائح الصابئين لأنهم طائفة من أهل الكتاب

 إسحاق بن راهويه نے کہا الصابئين  کے ذبیحہ میں کوئی برائی نہیں یہ اہل کتاب کا ایک طائفہ ہیں

کتاب غرائب التفسير وعجائب التأويل از  محمود بن حمزة بن نصر، أبو القاسم برهان الدين الكرماني، ويعرف بتاج القراء (المتوفى: نحو 505هـ) میں ہے

والصابئون مقدمون على النصارى في الزمان، لأنهم كانوا قبلهم

صابئی   ، نصرانیوں سے بھی پہلے کے ہیں

أخرج ابْن أبي حَاتِم عَن أبي الزِّنَاد قَالَ: الصابئون قَالَ: الصابئون مِمَّا يَلِي الْعرَاق وهم بكوثى يُؤمنُونَ بالنبيين كلهم

 أبي الزِّنَاد نے کہا صابئی    عراق میں كوثى میں ہیں اور یہ تمام انبیاء پر ایمان لاتے ہیں

كوثى  اصل میں ابراھیم علیہ السلام  کا شہر ہے

قرآن سورہ الحج میں ہے

الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ

اس میں صلوات  بعض  مفسرین  کے   مطابق مَسَاجِد الصابئين ہیں

[1]

The Last Pagans of Iraq: Ibn Wahshiyya And His Nabatean Agriculture (Islamic History and Civilization) (Islamic History & Civilization)  –  Jaakko Hameen-Anttila ، Brill Academic Publishers  June 1, 2006

 

==========================================================================

Sabi’een / Sabians

The religion of the Sabians is derived from the teachings of Seth, son of Adam, and Noah (peace be upon them). Nowadays, they are mainly found in Iraq. Sabians consider water to be a source of life, so they reside near the sacred rivers Tigris and Euphrates. They claim that the name of their religion was originally ‘Sabgha,’ which means ‘to immerse in water,’ but over time it changed to ‘Sabian.’ Some scholars suggest that the term ‘Sabian’ is derived from the descendants of Idris (Enoch).

They also believe in the prophet-hood of Idris (peace be upon him) and claim that the last prophet among them was Yahya (John the Baptist, peace be upon him), and the final divine scripture they recognize is the Psalms (Zabur). Sabians still exist in Iraq today. The original texts of Sabian religion are in their native language, but translations are available in Arabic.

Sabians do not openly propagate their beliefs or engage in missionary activities like Islam and Christianity.

Currently, Sabians are also known as Mandaeans. Their sacred scripture is called the Ginza Rba, written in Mandaic, an Aramaic dialect.

Sabians or Mandaeans observe a minor fast, abstaining from food associated with living beings for thirty days. They perform three daily prayers (Ishraq, Zuhr, and Maghrib) that are recited after ablution, consisting only of standing and prostration. Their qibla is the northern pole. They differentiate themselves from Christians and commemorate Baptism every Sunday. They believe in the oneness of Allah and are primarily concentrated in Iraq.

According to historical accounts, the Sabians originated from Egypt, where they were originally monotheists who believed in the prophet-hood of Idris. They opposed idolatry, similar to the Hanif religion. Both groups were monotheistic and opposed idol worship. Al-Siraj al-Muneer fi al-I’anah ‘ala Ma’rifat Ba’di Ma’ani Kalami Rabbina al-Hakeem al-Khabeer by Shams al-Din Muhammad ibn Ahmad al-Khatib al-Sharbini (d. 977 AH) contains information on this matter.

Pharaoh followed the religion of the Sabians, and they worshiped the stars. Pharaoh called Allah the God of Moses and asked him to pray for the removal of the plague. Although Pharaoh acknowledged the existence and power of Allah, he had separated himself from the other Sabian and Hanif groups. Thus, in the court of Pharaoh, there were Hanif believers, including a man who disguised his faith (mentioned in Surah al-Mumineen). Pharaoh was well aware that Musa (Moses, peace be upon him) was not the first prophet in Egypt, as Yusuf (Joseph, peace be upon him) had also been a prophet of Allah.

Sabians were also known as spiritualists, and this author hold opinion  that Pharaohs of Egypt  had similar beliefs. They believe that anything in the sky or on the earth possesses a soul. For example, celestial bodies like meteors, rainbows, stars, and planets have souls, and the pyramids of Egypt were constructed over the graves of the prophets. Hanif believers did not hold such beliefs that the soul descends from the stars to the earth. Nowadays, Sabians dissociate themselves from polytheists and identify as monotheists.

There was also a Sabian community settled in Tuster or Shushtar, Persia. Al-Biruni’s Al-Athar al-Baqiyah confirms that they were Jewish.

بیت المقدس کی ایک حدیث

قصہ مختصر
حدیث رسول ہے کہ میری امت کا ایک گروہ حق پر رہے گا اس کو زوال نہ ہو گا حتی کہ اللہ کا امر آئے
اس حدیث میں لاحقے لگائے گئے – بعض راویوں نے اضافہ کیا کہ اہل شام و اہل بیت المقدس غالب رہیں گے – آج کل کے فلسطین کے  سیاسی حالات میں اس موضوع اضافہ کا ذکر پھر شروع ہو چلا ہے – قابل غور ہے کہ شام و ارض مقدس  پر صلیبی نصرانی، یہودی ، نصیری ادیان  کو اللہ نے غالب کیا اور مسلمانوں کو آزمائش میں ڈالا ان کو ملغوب کیا – اس طرح ہم کو بتایا گیا کہ یہ حدیث صحیح تھی لیکن اس حدیث کا تعلق شروع کے صرف بارہ خلفاء سے تھا اور امر اللہ یعنی اللہ  کے حکم سے مراد  مسلمانوں کے زوال کا حکم تھا

مسند احمد  میں عبد اللہ بن احمد  کا اضافہ ہے ح ٢٢٣٢٠  میں ہے

 قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ: وَجَدْتُ فِي كِتَابِ أَبِي بِخَطِّ يَدِهِ: حَدَّثَنِي مَهْدِيُّ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا ضَمْرَةُ، عَنِ السَّيْبَانِيِّ (4) وَاسْمُهُ يَحْيَى بْنُ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللهِ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:    لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى الدِّينِ ظَاهِرِينَ لَعَدُوِّهِمْ قَاهِرِينَ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ إِلَّا مَا أَصَابَهُمْ مِنْ لَأْوَاءَ حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللهِ وَهُمْ كَذَلِكَ   . قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ وَأَيْنَ هُمْ؟ قَالَ:    بِبَيْتِ الْمَقْدِسِ وَأَكْنَافِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ

أَبِي أُمَامَةَ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ  رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  نے فرمایا  میری امت میں ایک گروہ رہے گا جو اپنے دشمنوں پر غالب رہے گا ، ان پر غالب رہے گا ، اس کو مخالف  نقصان نہ دے سکیں گے سوائے اس کے کہ جو ان کو غم ملے گا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ جائے اور وہ اسی صورت حال میں رہیں گے  – ہم نے کہا   یا رسول  اللہ یہ کہاں

ہیں ؟  فرمایا بیت المقدس میں اور اس کے مضافات میںسند میں   عمرو بن عبد الله السَّيْباني الحضرمي  مجہول ہے

مجمع الزوائد  میں ہیثمی  نے کہا

وَالطَّبَرَانِيُّ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ

اس کے رجال  ثقات ہیں

اس کی وجہ یہ ہے کہ عجلی اور ابن حبان نے مجہول کو بھی ثقہ قرار دیا ہے  – اس طرح اس روایت کو قبول کرنے والے  کی بات پر اڑے ہوئے ہیں کہ یہ روایت صحیح ہے  جبکہ یہ متن صحیح نہیں

 قال الذهبي في   الميزان  : ما علمت روى عنه سوى يحيى بن أبي عمرو.

وقال في   الديوان  : مجهول.

وقال في   المغني  : لا يعرف.

قال الذهبي في   ديوان الضعفاء   (رقم: 3188)   تابعيٌّ مجهولٌ

بعض کتاب میں اس قسم کا متن  ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی منسوب ہے –  أبو يعلى والطبراني في الأوسط  میں  أبي هريرة رضي الله عنه سے منسوب ہے

حَدَّثَنَا أَبُو طَالِبٍ عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ الْحِمْصِيُّ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبَّادٍ، عَنْ عَامِرٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا تَزَالُ عِصَابَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى أَبْوَابِ دِمَشْقَ، وَمَا حَوْلَهُ وَعَلَى أَبْوَابِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ وَمَا حَوْلَهُ، لَا يَضُرُّهُمْ خُذْلَانُ مَنْ خَذَلَهُمْ ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ إِلَى أَنْ تَقُومَ السَّاعَةُ»

طبرانی نے لکھا ہے

 لم يروه عن عامر الأحول إلا الوليد بن عباد، تفرد به إسماعيل بن عياش. وقال ابن عدي: وهذا الحديث بهذا اللفظ ليس يرويه غير ابن عياش عن الوليد بن عباد

سند میں الوليد بن عباد  مجہول ہے –  الهيثمي نے اس کو  رجاله ثقات   المجمع 10/ 60 – 61 بول دیا ہے جبکہ اسی کتاب میں دوسرے مقام پر  ایک دوسری حدیث پر کہا  وفيه الوليد بن عباد وهو مجهول   المجمع 7/ 288 یہ مجہول ہے  -اسی طرح يعقوب بن سفيان کی کتاب   المعرفة   (2/ 298) میں طرق  ہے

عن محمد بن عبد العزيز الرَّمْلي ثنا عباد بن عباد أبو عتبة عن أبي زرعة عن أبي وعلة -شيخ من عك– قال: قدم علينا كريب من مصر يريد معاوية، فزرناه، فقال: ما أدري عدد ما حدثني مُرّة البهزي في خلاء وفي جماعة أنه سمع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول:   لا تزال طائفة من أمتي على الحق ظاهرين على من ناوأهم، وهم كالإناء بين الأكلة حتى يأتي أمر الله عز وجل وهم كذلك

فقلنا: يا رسول الله، من هم؟ وأين هم؟ قال:   بأكناف بيت المقدس

طبرانی اور تاریخ دمشق از ابن عساکر میں ہے

أنا أبو بكر محمد بن عبد الله بن ريذة (4) أنا أبو القاسم سليمان بن أحمد الطبراني نا حصين بن وهب الأرسوفي نا زكريا بن نافع الأرسوفي نا عباد بن عباد الرملي عن أبي زرعة السيباني عن أبي زرعة الوعلاني عن كريب السحولي حدثني مرة البهزي أنه سمع رسول الله (صلى الله عليه وسلم) يقول لا تزال طائفة من أمتي على الحق ظاهرين على من ناوأهم وهم كالأناس (5) الآكلة حتى يأتي أمر الله وهم كذلك قلنا يا رسول الله وأين هم قال بأكناف بيت المقدس

اس طرق میں  یہ متن  أبو وعلة یا  أبي زرعة الوعلاني کی سند سے ہے – یہ بھی مجہول ہے

اس طرح یہ تمام طرق  ضعیف ہیں  البتہ فلسطین کے   عرب ان کو پیش کر کے دعوی کرتے ہیں کہ اس سے مراد کوئی علمی گروہ نہیں بلکہ محض  بیت المقدس میں رہنے والے  عرب ہیں جو کسی بھی فرقے کے ہو سکتے ہیں

یہ روایت ضعیف  و شامی  مجہولین کی روایت کردہ ہیں

===================
مزید تفصیل کے لئے کتاب بلا عنوان دیکھیں

139 Downloads

قرون ثلاثہ کے مشہور ظاہری فرقے

اس کتاب میں قرون ثلاثہ (سن ٣٥ ھ – ٣٠٠ ھ ) کے ظاہری فرقوں (غیر باطنی فرقوں ) میں سے فرقہ خوارج اول ، روافض ، زیدی فرقہ ، فرقہ معتزلہ کے پیش کردہ مسئلہ خلق القرآن وغیرہ کا متاخرین کی آراء کے ساتھ ذکر ہے – ساتھ ہی منہج المرجئہ کے موقف بھی ذکر ہے جو اہل سنت میں فرقہ نہیں ایک رجحان و منہج تھا

فہم سلف دین میں حجت نہیں

فرقے یہ دعوی کرتے ہیں کہ اٹھویں صدی کے ائمہ مثلا ابن تیمیہ و ابن کثیر و ابن قیم سلف ہیں اور وہ سلف کے مذھب پر ہیں – راقم کہتا ہے سلف سے دین لینے کا کوئی حکم قرآن و حدیث میں نہیں ہے – دین میں کتاب اللہ و حدیث کے بعد صرف اصحاب رسول و تابعین کے اقوال کی اہمیت ہے

   بد ترین مثالوں میں سے ایک  مثال یہ ہے کہ ان علماء کے نزدیک معاویہ رضی الله عنہ خلفاء راشدین کی صف سے خارج ہیں – ان کو یہ فرقے بادشاہ قرار دیتے ہیں گویا کہ دین میں بادشاہ کا منصب کوئی معیوب بات ہو- قرآن میں سلیمان و داود و طالوت کو ملک یعنی بادشاہ ہی قرار دیا گیا ہے- رسول   صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اپنی سنت کو لازم پکڑنے کا حکم دینے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ ایک اور چیز کو بھی لازم پکڑنے کا حکم فرما رہے ہیں اور وہ دوسری چیز جماعت، یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کا طریقہ ہے – یہ ناممکن ہے کہ کاتب الوحی کو یا سفیر اسلام معاویہ جن کی تربیت رسول صلی الله علیہ وسلم نے کی ہو وہ راشد یا ہدایت یافتہ نہ ہوں بلکہ ان فرقوں کے تیسری اور آٹھویں صدی کے مولوی ہوں – حدیث معلوم ہے کہ دین کا کوئی کام جو غیرصحابی کرے اس کا محشر میں وہ وزن نہ اٹھے گا جو ایک صحابی کے عمل سے اٹھے گا- تو پھر کس طرح نام نہاد سلف کا فہم اصحاب رسول کے فہم سے بڑھ کر ہے ؟

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں واضح طور پر فرماتے ہیں :

 وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا (النساء : ١١٥)

اور جو شخص سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالفت کرے اور مؤمنوں کے راستے کے سوا اور راستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اُسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور جہنم میں داخل کر دیں گے اور وہ بری جگہ ہے۔

بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے (جہنم میں جانے کا سبب) رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کے ساتھ ساتھ مؤمنوں کی راہ پر نہ چلنا بھی بیان کیا ہے۔ یہ بات (مؤمنوں کی راہ) یعنی جمہور اصحاب رسول کا ذکر  یہاں کیوں لایا گیا ؟  صرف یہ گوش گزار کرانے کے لئے اجماع صحابہ ہی اصل حجت ہے ، بعد کے مولویوں کے فتوے  ہرگز اس زمرے میں نہیں آتے –  معاویہ رضی الله عنہ کی خلافت کے سال کو عام الجماعہ کہا جاتا ہے یعنی وہ سال جس میں تمام امت پھر جمع ہوئی- 

پھران سلفی بدعتی فرقوں کی جرات و غرور  کا یہ عالم ہے کہ  یہ اصحاب  رسول اللہ  تک کو غلط عقیدہ پر  قرار دے دیتے ہیں  یا کہتے ہیں وہ صحیح عقائد  بھول  جاتے تھے 

فرقہ خوارج پر اہل سنت کا اضطراب

اہل سنت  میں خوارج  کے حوالے سے سخت  خلجان  پایا جاتا ہے – ہر صدی میں ان کے حوالے سے نت نئے خیالات کا اظہار  کتب اہل سنت  میں  ملتا ہے – عصر  حاضر  کے دہشت گردوں کو  بھی  خوارج کہا  جانے لگا ہے –  اصل  خوارج کا اصحاب رسول سے عقائد  میں کوئی اختلاف  نہیں تھا  محض  معاملات  پر تھا  لیکن یہ اختلاف  بڑھ  کر قتال  تک چلا گیا تھا –  – اس وجہ سے اصحاب رسول  نے کبھی بھی خوارج کی تکفیر  نہیں کی

متاخرین خوارج نے اہل سنت سے عقیدہ  و منہج میں اختلاف  کیا ہے – یہ فرقہ معدوم  نہیں ہے جیسا  کہ مغالطہ  اہل سنت دیتے ہیں –  آجکل  خوارج کی اکثریت  تیونس  لیبیا اور عمان میں  ہے جہاں ان کی حکومتیں رہی ہیں   یا  ہیں