Category Archives: عرض عمل – Records

اعمال پيش ٿيڻ جي عقيدي جو رد

218 Downloads

اس ويب سائٹ کي کتب کا سندھي ميں ترجمہ کا آغاز کيا گيا ہے – اس سلسلے کي پہلي کتاب عقيدہ عرض عمل کے بارے میں ہے – قارئين اس کو يہاں سے ڈونلوڈ کر سکتے ہيں
اللہ سے دعا ہے کہ مترجمين کي اس کاوش کو قبول کرے اور ان کو اجر عظيم دے
امين

 

عرض عمل کے دلائل کا جائزہ

مشہور مدرسہ دیوبند والوں کے فتوی ( جو یہاں پر موجود ہے) پر تبصرہ طلب کیا گیا ہے

اس بلاگ میں  ان لوگوں   نے جو دلائل  جمع کیے ہیں اور ان کو صحیح قرار دینے کا جو پروپیگنڈا   کیا ہے اس کو دیکھا جائے گا – راقم  کا تبصرہ جوابات کی صورت نیچے  متن میں دیکھا جا سکتا

فتوی نویس علمائے دیو بند  عقیدہ عرض عمل کے دلائل جمع کرتے ہوئے  فرماتے ہیں

پہلی دلیل

    حا فظ نورالدین علی بن ابی بکر الہیثمی   المتوفی ۸۰۷ھ نے مجمع الزوائد ومنبع الفوائد میں عرضِ اعمال علی الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اثبات میں مسند بزارکے حوالہ سے ایک صحیح حدیث نقل فرمائی ہے

باب مایحصل لأمّته صلی اللہ علیہ وسلم من استغفاره بعدوفاته صلی اللہ علیہ وسلم

عن عبداﷲ بن مسعود… قال وقال رسول اﷲ حیاتي خیرلکم تحدثون وتحدث لکم، ووفاتي خیرلکم، تعرض عليّ أعمالکم، فمارأیت من خیرحمدت اﷲعلیه، ومارأیت من شرّ استغفرت اﷲ لکم  رواه البزّار، ورجاله رجال الصحیح  ( مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، کتاب علامات النبوّة، مایحصل لأمّتها من استغفاره بعد وفاته، (۹/۲۴) ط دار الکتاب بیروت، ۱۹۷۸م)

مذکورہ حدیث کی سندکے رجال صحیحین کے رجال ہیں اورحدیث بالکل صحیح ہے۔

جواب

مسند البزار کی سند ہے

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: نا عَبْدُ الْمَجِيدِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رَوَّادَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ زَاذَانَ

اس کی سند میں زاذان ہے جس پر محدثین کا کلام ہے کہ اس کو وہم ہوتا ہے غلطییاں کرتا ہے – اس کے علاوہ عَبْدُ الْمَجِيدِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رَوَّادَ ہے جس کو أبو حاتم کہتے ہیں : ليس بالقوي يكتب حديث. قوی نہیں حدیث لکھ لو.  الدارقطنيُّ کہتے ہیں لا يحتج به، نا قابل احتجاج ہے . أبو زرعة ،ابن سعد ان کو ضعیف گردانتے ہیں-  اس کو ضعیف کہنے کی ایک وجہ  مرجیہ ہونا تھا

راقم کہتا ہے یہ لوگ اس سند کو صحیح  کہہ رہے ہیں جبکہ اس کی سند میں    عَبْدُ الْمَجِيدِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رَوَّادَ     پر سخت جرح ہے – عجيب بات ہے کہ تخريج أحاديث إحياء علوم الدين میں  العِراقي (806 هـ)  اس روایت پر یہ تبصرہ کرتے ہیں

قال العراقي: رواه البزار من حديث ابن مسعود ورجاله رجال الصحيح إلا أن عبد المجيد بن عبد العزيز بن رواد وان أخرج له مسلم ووثقه ابن معين والنسائي فقد ضعفه كثيرون

عراقی نے کہا اس حدیث کو البزار نے ابن مسعود سے روایت کیا ہے اس کے رجال صحیح کے ہیں  – بے شک عبد المجید بن عبد العزیز  اگرچہ اس سے امام مسلم نے روایت لی ہے اس کی توثیق ابن معین   اور نسائی نے کی ہے  اس کی  کثیر نے تضعیف بھی کی ہے

دوسری دلیل

                  علامہ سیوطی نے الجامع الصغیرفي أحادیث البشیروالنذیر میں ایک صحیح روایت نقل کی ہے

تُعْرَضُ الأَعْمالُ يَوْمَ الاثْنَيْنِ والخَمِيسِ على الله تَعَالَى وتُعْرَضُ على الأنْبِياءِ وعَلى الآباءِ والأُمَّهاتِ يَوْمَ الجُمُعَةِ فَيَفْرَحُونَ بِحَسَناتِهِمْ وَتَزْدادُ وُجُوهُهُمْ بَياضاً وإِشْراقاً فاتَّقُوا الله وَلَا تؤذُوا مَوْتاكُمْ (الْحَكِيم) عن والد عبد العزيز.

جواب

اس کا ترجمہ ہے

اللہ تعالی پر اعمال پیر و جمعرات کو پیش ہوتے ہیں اور انبیاء پر اور ماں باپ پر جمعہ کے روز – پس یہ نیکیوں پر خوش ہوتے ہیں … پس اللہ سے ڈرو اور اپنے مردوں کو تکلیف مت دو

البانی نے اس حدیث پر موضوع  کا حکم لگایا ہے حديث رقم: 2446 في ضعيف الجامع

تیسری دلیل

                      علامہ مناوی اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے رقم طرازہیں

وفائدة العرض علیهم إظهار اﷲ للأموات عذره في مایعامل به أحیاء هم من عاجل العقوبات وأنواع البلیّات في الدنیا، فلوبلغهم ذٰلك من غیرعرض أعمالهم علیهم لکان وجدهم أشدّ  قال القرطبي یجوز أن یکون المیّت یبلغ من أفعال الأحیاء وأقوالهم بمایؤذیه أویسرّه بلطیفة یحدثها اﷲ لهم من ملك یبلغ أوعلامة أودلیل أوماشاء اﷲ وهو القاهر فوق عباده وعلی من یشاء  وفیه زجرعن سوء القول في الأموات، وفعل ماکان یسرّهم في حیاتهم وزجر عن عقوق الأصول والفروع بعد موتهم بمایسوء هم من قول أوفعل، قال وإذاکان الفعل صلة وبرًّا کان ضدّه قطیعة وعقوقًا  (فیض القدیر، شرح الجامع الصغیر للعلامة المناوي، حرف التاء،   رقم الحدیث۳۳۱۶  تعرض الأعمال یوم الإثنین،(۳/۲۵۱) طمطبعۃ مصطفٰی محمّد مصر،۱۳۵۶ھ/ ۱۹۳۸م)

جواب

المناوی   نے اس موضوع  یا گھڑی  ہوئی  روایت پر لکھا ہے

اور عرض عمل کا فائدہ یہ ہے کہ اللہ مردوں پر ظاہر کرتا ہے کہ جو دنیا میں ہیں ابھی زندہ ہیں وہ کیوں عقوبت و آزمائش میں جاتے ہیں پس ان تک پہنچایا جاتا ہے … قرطبی نے کہا یہ جائز ہے کہ میت پر زندہ کے اعمال پیش ہوں  اور ان کے اقوال بھی یہ اس سے ان کو تکلیف و خوشی ہو  پس اللہ تعالی کے لطف سے یہ فرشتہ پہنچاتا ہے یا علامت یا دلیل یا جو اللہ چاہے اور وہ اپنے بندوں پر قاہر ہے

راقم  کہتا ہے یہ تبصرہ بے کار ہے کیونکہ جب تک دلیل ثابت نہ ہو گھڑی ہوئی روایت پر تبصرہ کوئی درجہ نہیں رکھتا

راقم کہتا ہے یہ روایت حدیث حوض سے متعارض ہے

صحیح بخاری حدیث نمبر: 7048
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ قَالَتْ أَسْمَاءُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَنَا عَلَى حَوْضِي أَنْتَظِرُ مَنْ يَرِدُ عَلَيَّ، فَيُؤْخَذُ بِنَاسٍ مِنْ دُونِي فَأَقُولُ أُمَّتِي. فَيَقُولُ لاَ تَدْرِي، مَشَوْا عَلَى الْقَهْقَرَى». قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ أَنْ نَرْجِعَ عَلَى أَعْقَابِنَا أَوْ نُفْتَنَ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر بن سری نے بیان کیا، کہا ہم سے نافع بن عمر نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (قیامت کے دن) میں حوض کوثر پر ہوں گا اور اپنے پاس آنے والوں کا انتظار کرتا رہوں گا پھر (حوض کوثر) پر کچھ لوگوں کو مجھ تک پہنچنے سے پہلے ہی گرفتار کر لیا جائے گا تو میں کہوں گا کہ یہ تو میری امت کے لوگ ہیں۔ جواب ملے گا کہ آپ کو معلوم نہیں یہ لوگ الٹے پاؤں پھر گئے تھے۔ ابن ابی ملیکہ اس حدیث کو روایت کرتے وقت دعا کرتے اے اللہ! ہم تیری پناہ مانگتے ہیں کہ ہم الٹے پاؤں پھر جائیں یا فتنہ میں پڑ جائیں۔

چوتھی دلیل

   زرقانی  میں ہے

(روی ابن المبارك) عبداﷲ الذي تستنزل الرحمة بذکره (عن سعیدبن المسیّب) التابعي الجلیل بن الصحابي (قال لیس من یوم إلّا وتعرض علی النبيّ صلی اللہ علیہ وسلم أعمال أمّته غدوةً وعشیاً، فیعرفهم بسیماهم وأعمالهم، فیحمد اﷲ و یستغفرلهم، فإذا علم المسيء ذلك قدیحمله الإقلاع، ولایعارضه قوله صلی اللہ علیہ وسلم تعرض الأعمال کلّ یوم الإثنین والخمیس علی اﷲ، وتعرض علی الأنبیاء والآباء والأمّهات یوم الجمعة … رواه الحکیم الترمذي؛ لجواز أنّ العرض علی النبيّ صلی اللہ علیہ وسلم کلّ یوم علی وجه التفصیل وعلی الأنبیاء  ومنهم نبیّنا  علی وجه الإجمال یوم الجمعة، فیمتاز صلی اللہ علیہ وسلم بعرض أعمال أمّته کلّ یوم تفصیلاً ویوم الجمعة إجمالاً  (شرح العلامة الزرقاني علی المواهب اللدنیة بالمنح المحمدیّة، المقصد الرابع، الفصل الرابع مااختصّ به صلی اللہ علیہ وسلم من الفضائل والکرامات، (۷/۳۷۳  ۳۷۴)طدارالکتب العلمیۃ بیروت، ۱۴۱۷ھ ۔

            مذکورہ حدیث مرسل ہے،امام شافعی  کے سوا باقی ائمہ اورمحدثین رحمہم ﷲکے ہاں مرسل حجت ہے۔

ولذا قال جمهورالعلماء إنّ المرسل حجّة مطلقًا بناءً علی الظاهرمن حاله … وقال الشافعي یقبل أي لامطلقاً، بل فیه تفصیل  (شرح شرح نخبة الفکر لعلي القاري الحنفي المرسل، (ص۴۰۳  ۴۰۷) طقدیمی کتب خانہ کراچی)

بالخصوص سعیدبن المسیب کی مرسل کوبعض ایسے حضرات بھی قبول کرتے ہیں جو حجیۃ المرسل کے قائل نہیں۔

والثاني قوله (وقال الشافعي یقبل المرسل ممّن عرف أنّه لایرسل إلّا عن ثقة، کابن المسیّب  (توضیح الأفکارلمعاني تنقیح الأنظار، للعلامة الصنعاني، مسألة في اختلاف العلماء في قبول المرسل، (۱/۲۸۷  ۲۸۸)طدارإحیاء التراث العربي،بیروت،۱۴۱۸ھ   ۱۹۹۸م

اشتهرعن الشافعي أنّه لایحتجّ بالمرسل، إلّا مراسیل سعید بن المسیب  (تدریب الراوي في شرح تقریب النواوي للسیوطي، المرسل، (ص۱۷۱) طقدیمی کتب خانہ کراچی)

جواب

زرقانی کے لکھے  شرح کے متن میں ہے

(روی ابن المبارك) عبداﷲ الذي تستنزل الرحمة بذکره (عن سعیدبن المسیّب) التابعي الجلیل بن الصحابي (قال لیس من یوم إلّا وتعرض علی النبيّ صلی اللہ علیہ وسلم أعمال أمّته غدوةً وعشیاً، فیعرفهم بسیماهم وأعمالهم، فیحمد اﷲ و یستغفرلهم، فإذا علم المسيء ذلك قدیحمله الإقلاع، ولایعارضه قوله صلی اللہ علیہ وسلم تعرض الأعمال کلّ یوم الإثنین والخمیس علی اﷲ، وتعرض علی الأنبیاء والآباء والأمّهات یوم الجمعة … رواه الحکیم الترمذي؛ لجواز أنّ العرض علی النبيّ صلی اللہ علیہ وسلم کلّ یوم علی وجه التفصیل وعلی الأنبیاء  ومنهم نبیّنا  علی وجه الإجمال یوم الجمعة، فیمتاز صلی اللہ علیہ وسلم بعرض أعمال أمّته کلّ یوم تفصیلاً ویوم الجمعة إجمالاً  (شرح العلامة الزرقاني علی المواهب اللدنیة بالمنح المحمدیّة، المقصد الرابع، الفصل الرابع مااختصّ به صلی اللہ علیہ وسلم من الفضائل والکرامات، (۷/۳۷۳  ۳۷۴)طدارالکتب العلمیۃ بیروت، ۱۴۱۷ھ ۔

 اور ابن مبارک نے روایت کیا عبد اللہ سے …. تابعی جلیل ابن المسیب سے روایت ہے سے فرمایا کوئی ایسا روز نہیں ہے جب صبح و شام  امت کا عمل  نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش  نہ ہوتا ہو پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو پیشانیوں  و عمل  سے پہچان نہ جائیں  پس آپ اللہ تعالی کی حمد کرتے ہیں  اور ان کے لئے استغفار کرتے ہیں … اور یہ نبی کے قول سے متعارض نہیں ہے کہ ہر پیر و جمعرات کو اللہ تعالی پر  عمل پیش ہوتا ہے اور انبیاء و ماں باپ پر جمعہ کے دن اس کو حکیم الترمذی نے روایت کیا ہے

راقم کہتا  ہے  الزهد والرقائق لابن المبارك (يليه «مَا رَوَاهُ نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ فِي نُسْخَتِهِ زَائِدًا عَلَى مَا رَوَاهُ الْمَرْوَزِيُّ عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ فِي كِتَابِ الزُّهْدِ» ) میں اس روایت کی سند ہے ابن مبارک نے کہا

أَنَا رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ يَقُولُ: ” لَيْسَ مِنْ يَوْمٍ إِلَّا يُعْرَضُ فِيهِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمَّتُهُ غُدْوَةً وَعَشِيَّةً، فَيَعْرِفُهُمْ بِسِيمَاهُمْ، لِيَشْهَدَ عَلَيْهِمْ، يَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: {فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا} [النساء: 41] “

انصار میں سے ایک شخص نے خبر دی اس نے المنھال بن عمرو سے روایت کیا کہ اس نے سعید بن المسیب سے سنا فرمایا کوئی ایسا روز نہیں ہے جب صبح و شام  امت کا عمل  نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش  نہ ہوتا ہو پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو  پیشانیوں  سے پہچان نہ جائیں تاکہ ان پر گواہ ہوں اللہ تبارک و تعالی کا قول ہے پس کیا (عالم ) ہو گا جب ہم ہر امت میں ایک گواہ لائیں گے اور ان سب پر آپ کو گواہ کریں گے

راقم کہتا ہے اس کی سند رجل میں انصار مجہول الحال ہے اور المنھال بن عمرو ہے جس پر بد مذھب کا جوزجانی کا فتوی ہے اور سعید بن المسیب سے اس کا سماع منقطع ہے – سرمایہ حدیث میں یہ واحد روایت ہے جس میں المنھال نے براہراست سعید بن المسیب سے روایت کیا ہے

پانچویں دلیل

                 علامہ آلوسی  علیہ سورۃ النحل کی  آیت ۸۹  {وَجِئْنَابِكَ شَھِیْداً عَلٰی هٰؤُلآءِ } کے تحت رقم طراز ہیں

المراد به ولآء أمّتها عند أکثرالمفسرین، فإنّ أعمال أمّته علیه الصلاة والسلام تعرض علیه بعدموته  فقد روي عنها أنّه قال حیاتي خیرلکم، تحدثون ویحدث لکم، ومماتي خیرلکم، تعرض عليّ أعمالکم، فمارأیت من خیر حمدت اﷲ تعالیٰ علیه ومارأیت من شرّ استغفرت اﷲ تعالیٰ لکم، بل جاء إنّ أعمال العبد تعرض علی أقاربه من الموتٰی

جواب

اس شرح کا دارومدار  بھی اوپر والی منکر و ضعیف روایت پر ہے

چھٹی دلیل

دیو بندی علماء نے دلیل دی

  فقدأ خرج ابن أبي ا لدنیا عن أبي هریرة أنّ النبيّ صلی اللہ علیہ وسلم قال لاتفضحوا أمواتکم بسیئات أعمالکم؛ فإنها تعرض علی أولیائکم من أهل القبور

جواب راقم کہتا ہے اس کا ترجمہ ہے

پس ابن ابی الدنیا نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  فرمایا اپنے مردوں کو ان کے گناہوں پر  برا مت کہو کہ (جو برا بھلا کہا ) وہ تمہارے (مردہ ) دوستوں پر قبروں میں پیش ہوتا  ہے

اور سند کتاب المنامات از ابن ابی الدنیا میں  ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، ثنا أَبُو سَعِيدٍ الْمَدِينِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَبِيبٍ، ثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ شَيْبَةَ الْحِزَامِيُّ، ثَنَا فُلَيْحُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، وَالْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَفْضَحُوا مَوْتَاكُمْ بِسَيِّئَاتِ أَعْمَالِكُمْ فَإِنَّهَا تُعْرَضُ عَلَى أَوْلِيَائِكُمْ  مِنْ أَهْلِ الْقُبُورِ»

سند میں أَبُو سَعِيدٍ الْمَدِينِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَبِيبٍ مجہول ہے – اور الحِزَامِيُّ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ عَبْدِ المَلِكِ بنِ شَيْبَةَ ہے جو ابْنُ أَبِي دَاوُدَ کے مطابق ضَعِيْفٌ ہے

ساتویں دلیل

وأخرج أحمد عن أنس مرفوعاً إنّ أعمالکم تعرض علی أقاربکم وعشائرکم من الأموات، فإن کان خیراً استبشروا، وإن کان غیرذٰلك قالوا اللّٰهمّ لاتمتهم حتّٰی تهدیهم  کما هدیتنا

جواب

راقم کہتا ہے یہ جملے الوسی کی تفسیر روح المعانی سے بلا تحقیق سند  نقل کیے گئے ہیں

راقم کہتا ہے مسند احمد میں اس کی سند ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَمَّنْ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ أَعْمَالَكُمْ تُعْرَضُ عَلَى أَقَارِبِكُمْ وَعَشَائِرِكُمْ مِنَ الْأَمْوَاتِ، فَإِنْ كَانَ خَيْرًا اسْتَبْشَرُوا بِهِ، وَإِنْ كَانَ غَيْرَ ذَلِكَ، قَالُوا: اللهُمَّ لَا تُمِتْهُمْ، حَتَّى تَهْدِيَهُمْ كَمَا هَدَيْتَنَا

شعيب الأرنؤوط – عادل مرشد، وآخرون کہتے ہیں

إسناده ضعيف لإبهام الواسطة بين سفيان وأنس. وهذا الحديث تفرد به الإمام أحمد.

وفي الباب عن أبي أيوب الأنصاري عند الطبراني في “الأوسط” (148) ، لكن إسناده ضعيف جداً، فيه مسلمة بن عُلَيّ الخشني، وهو متروك الحديث، فلا يفرح به.

آٹھویں دلیل

  وأخرجه أ بوداود من حدیث جابر بزیادة وأ لهمهم أن یعملوا بطاعتك

جواب

راقم کہتا ہے یہ جملے الوسی کی تفسیر روح المعانی سے بلا تحقیق سند  نقل کیے گئے ہیں

وأخرجه أبو داود من حديث جابر بزيادة «وألهمهم أن يعملوا بطاعتك» .

 ابو داود میں ہے حدیث جابر ہے جس میں اضافہ ہے کہ ان پر الہام ہو کہ اللہ کی اطاعت پر عمل کریں

راقم کہتا ہے یہ حدیث   ابو داود الطيالسي کی   مسند  ہے

حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ دِينَارٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ أَعْمَالَكُمْ تُعْرَضُ عَلَى عَشَائِرِكُمْ وَأَقْرِبَائِكُمْ فِي قُبُورِهِمْ، فَإِنْ كَانَ خَيْرًا اسْتَبْشَرُوا بِهِ، وَإِنْ كَانَ غَيْرَ ذَلِكَ قَالُوا: اللَّهُمَّ أَلْهِمْهُمْ أَنْ يَعْمَلُوا بِطَاعَتِكَ “

جابر نے روایت کیا رسول اللہ نے فرمایا تمھارے اعمال رشتہ داروں و آقارب پر قبروں میں پیش ہوتے ہیں اگر وہ اچھے ہوں تو وہ خوش ہوتے ہیں اور اگر ایسے نہ ہوں تو وہ کہتے ہیں اے آل پر الہام کر کہ تیری اطاعت کریں

سند میں الصَّلْتُ بْنُ دِينَارٍ  پر ابن سعد کا کہنا ہے  ضعيف ليس بشيء- احمد کا کہنا ہے ليس بثقة ثقہ نہیں ہے اور ابن حجر نے متروک قرار دیا ہے

نویں دلیل

   وأخرج ابن أبي الدنیاعن أبي الدرداء أنّه قال إنّ أعمالکم تعرض علی موتاکم، فیسرّون ویساؤون، فکان أبوالدرداء یقول عندذلك “اللّٰهم إنّي أعوذبك أن یمقتني خالي عبداﷲ بن رواحة إذا لقیته، یقول ذلك في سجوده، والنبيّ صلی اللہ علیہ وسلم لأمّته بمنزلة الوالد بل أولٰی  (روح المعاني، النحل۸۹ (۱۴/۲۱۳)طإدارۃ الطباعۃ المنیریۃ مصر۔)

            علامہ آلوسی  نے اس سلسلہ میں جن احادیث کونقل فرمایا ان پرکوئی اعتراض نہیں کیا، جب کہ ان کی عادت یہ ہے کہ وہ احادیثِ ضعیفہ یاموضوعہ کی نشان دہی کرتے ہیں اوران پرردفرماتے ہیں، جس سے معلوم ہواکہ یہ مذکورہ احادیث صحیح ہیں، ورنہ کم سے کم درجہ حسن کی ہیں۔

جواب

راقم کہتا ہے یہ جملے الوسی کی تفسیر روح المعانی سے بلا تحقیق سند  نقل کیے گئے ہیں – متن کا ترجمہ ہے

اور ابن ابی الدنیا نے ابو الدرداء سے تخریج کی ہے کہ انہوں نے فرمایا بلا شبہ اعمال مردوں پر پیش ہوتے ہیں ..

المنامات از ابن ابی الدنیا میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، ثني مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ، ثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، أَنَّ أَبَا الدَّرْدَاءِ، كَانَ يَقُولُ: «إِنَّ أَعْمَالَكُمْ تُعْرَضُ عَلَى مَوْتَاكُمْ فَيُسَرُّونَ وَيُسَاءُونَ»

الذهبی کتاب العبر في خبر من غبر میں لکھتے ہیں

 عبد الرحمن بن جبيْر بن نفَير الحضرمِي الحمصي. وهو مُكْثرٌ عن أبيه وغيره. ولا أعلمه روى عن الصحابة. وقد رأى جماعة من الصحابة

عبد الرحمن بن جبيْر بن نفَير الحضرمِي الحمصي ہیں اپنے باپ سے بہت سی روایات کی ہیں اور میں نہیں جانتا ان کی صحابہ سے کوئی روایت اور انہوں نے صحابہ کو دیکھا ہے

ابن ماكولا کتاب الإكمال میں لکھتے ہیں

جبير بن نفير من قدماء التابعين، روى عن أبيه وغيره. وابنه عبد الرحمن بن جبير بن نفير.

جبير بن نفير قدیم تابعين میں سے ہیں اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں اور ان کے بیٹے عبد الرحمن بن جبير بن نفير ہیں

معلوم ہوا کہ یہ روایت متصل نہیں- عبد الرحمن بن جبير بن نفير کا صحابہ سے سماع ثابت نہیں اور ان کے باپ خود تابعی ہیں

دسویں دلیل

     تفسیرمظہری میں ہے

{وَجِئْنَابِكَ عَلٰی هؤُلآءِ شَهِیْدًا} یشهد النبيّ صلی اللہ علیہ وسلم علی جمیع الأمّة من رآه ومن لم یره  أخرج ابن المبارك عن سعیدبن المسیّب قال لیس من یوم إلّا وتعرض علی النبيّ صلی اللہ علیہ وسلم أمّته غدوةً وعشیّةً، فیعرفهم بسیماهم وأعمالهم فلذلك یشهد علیهم   (التفسیرالمظهري،   النساء۴۱ (۲/۱۱۰)ط بلوچستان بک ڈپو، کوئٹہ)

جواب

اس تفسیر میں بھی ابن المسیب سے منسوب قول سے دلیل لی گئی ہے جس پر تبصرہ اوپر گزر چکا ہے

گیارہویں دلیل

               صاحب تفسیر ابن کثیر نے آیت کریمہ { وَجِئْنَابِكَ عَلٰی هؤُلآءِ شَهِیْداً }کی تفسیرمیں التذکرة للقرطبي کے حوالہ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ

وأمّا ما ذکره أبو عبد اﷲ القرطبي فيالتذکرةحیث قال باب ماجاء في شهادة النبي صلی اللہ علیہ وسلم علی أمّته، قالأنا ابن المبارك، قال أنارجل من الأنصارعن المنهال بن عمرو أنّه سمع سعید بن المسیّب یقول لیس من یوم إلّایعرض فیه علی النبيّ صلی اللہ علیہ وسلم أمّته غدوةً وعشیًّا، فیعرفهم بأسمائهم وأعمالهم، فلذلك یشهد علیهم، یقول اﷲتعالیٰ{فَکَیْفَ اِذَاجِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّةٍ بِشَهِیْدٍ وَّجِئْنَابِكَ عَلٰی هؤُلآءِ شَهیْدًا}؛ فإنّه أثر، وفیه انقطاع، فإنّ فیه رجلاً مبهمًا لم یسمّ، وهومن کلام سعید بن المسیّب،لم یرفعه، وقدقبله القرطبي، فقال بعد إیراده فقد تقدّم أنّ الأعمال تعرض علی اﷲ کلّ یوم اثنین وخمیس، وعلی الأنبیاء والآباء والأمّهات یوم الجمعة، قال ولاتعارض، فإنّه یحتمل أن یخصّ نبیّنا صلی اللہ علیہ وسلم بمایعرض علیه کلّ یوم، ویوم الجمعة مع الأنبیاء علیه وعلیهم أفضل الصلاة والسلام  ( تفسیرالقراٰن العظیم للحافظ ابن کثیر،  النساء۴۱ (۱/۴۹۸ ۴۹۹) طقدیمی کراچی)

            حافظ عمادالدین ابن کثیر نے بھی احادیثِ مذکورہ کے بارے میں کچھ نکیر نہیں کی، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عرضِ اعمال کی احادیث مجموعی اعتبار سے ان کے نزدیک صحیح ہیں۔

جواب

یہاں تفسیر ابن کثیر کا حوالہ دیا گیا ہے اور ابن کثیر کی بھی غلطی ہے کہ سعید بن المسیب سے منسوب قول کو دلیل بنایا ہے جس کا ذکر اوپر گذر چکا ہے

بارہویں دلیل

                  تفسیرمنار میں ہے

{ فَکَیْفَ اِذَاجِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّةٍ م بِشَهِیْدٍ…الآیة }، تعرض أعمال کلّ أمّة علی نبیّها   ( تفسیرالقراٰن الحکیم الشهیر بـ “تفسیرالمنار”، للسیّد محمدرشیدرضا، [ النساء ۴۱](۵/۱۰۹)ط مطبعۃ المنارمصر،۱۳۲۸ھ)

جواب

اس آیت کی یہ تفسیر کہ امت کا عمل نبی پر پیش ہو رہا ہے ورنہ گواہ نہ ہوں  گے نبی کو عالم الغیب قرار دینے کے مترادف ہے

تیرہویں دلیل

                      مسنداحمد میں ہے 

 عمّن سمع أنس بن مالك یقول  قال النبيّ   إنّ أعمالکم تعرض علی أقاربکم وعشائرکم من الأموات، فإن کان خیرًا استبشروا، وإن کان غیرذٰلك، قالوا  اللّٰهمّ لاتمتهم حتّٰی تهدیهم کماهد یتنا   ( المسند للإمام أحمدبن حنبل، مسندأنس بن مالك رضي اﷲ عنه، [ رقم الحدیث  ۱۲۶۱۹]  (۱۰/۵۳۲-۵۳۳) ط  دارالحدیث  القاهرة)

            واضح رہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ حدیث وفقہ کے امام ہیں، اور ناقد بھی، اور احادیث پر جرح بھی کرتے ہیں، جب کہ آپ نے اس حدیث پر کوئی جرح نہیں فرمائی، گویا آپ نے اس حدیث کی توثیق کی ہے۔

جواب

مسند احمد میں امام احمد نے سوائے ایک دو روایات کے کسی پر جرح نہیں کی  لیکن العلل میں انہی روایات پر جرح کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام روایات امام احمد کے نزدیک صحیح نہیں تھیں یہ صرف احادیث کا مجموعہ تھا – یہاں عمّن سمع جس نے سنا کون ہے ؟ کوئی نہیں جانتا اس کی سند کو سند کو درست کہنا آنکھوں میں دھول جھوکنا ہے

چودہویں دلیل

  شرح الصدور   میں ہے

          وأخرج الطیالسي في  مسنده عن جابر بن عبداﷲ قال  قال رسول اﷲ  صلی اللہ علیہ وسلم   إنّ أعمالکم تعرض علی عشائرکم وأقربائکم في قبورهم، فإن کان خیراً استبشروا، وإن کان غیر ذلك، قالوا  اللّٰهمّ ألهمهم أن یعملوا بطاعتك 

جواب

یہاں مسند ابو داود الطیالسي سے روایت لی گئی ہے

حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ دِينَارٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ أَعْمَالَكُمْ تُعْرَضُ عَلَى عَشَائِرِكُمْ وَأَقْرِبَائِكُمْ فِي قُبُورِهِمْ، فَإِنْ كَانَ خَيْرًا اسْتَبْشَرُوا بِهِ، وَإِنْ كَانَ غَيْرَ ذَلِكَ قَالُوا: اللَّهُمَّ أَلْهِمْهُمْ أَنْ يَعْمَلُوا بِطَاعَتِكَ

اس روایت پر تبصرہ اوپر کیا جا چکا ہے سند میں متروک راوی ہے

پندرہوین دلیل

         وأخرج ابن المبارك وابن أبي الدنیا عن أبي أیّوب، قال  تعرض أعمالکم علی الموتٰی، فإن رأواحسنًا فرحوا واستبشروا، وإن رأوا سوءً، قالوا  اللّٰهمّ راجع به 

جواب

المنامات از ابن ابی الدنیا میں اس کی سند ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، ثني مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ، ثني يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ، ثني عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي رُهْمٍ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، قَالَ: ” تُعْرَضُ أَعْمَالُكُمْ عَلَى الْمَوْتَى , فَإِنْ رَأَوْا حَسَنًا فَرِحُوا وَاسْتَبْشَرُوا وَقَالُوا: اللَّهُمَّ هَذِهِ نِعْمَتُكَ عَلَى عَبْدِكَ فَأَتِمَّهَا عَلَيْهِ , وَإِنْ رَأَوْا سُوءًا قَالُوا: اللَّهُمَّ رَاجِعْ بِهِ “

الزهد والرقائق لابن المبارك (يليه «مَا رَوَاهُ نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ فِي نُسْخَتِهِ زَائِدًا عَلَى مَا رَوَاهُ الْمَرْوَزِيُّ عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ فِي كِتَابِ الزُّهْدِ» ) میں ہے

أَخْبَرَكُمْ أَبُو عُمَرَ بْنُ حَيَوَيْهِ، وَأَبُو بَكْرٍ الْوَرَّاقُ قَالَا: أَخْبَرَنَا يَحْيَى قَالَ: حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ قَالَ: أَخْبَرَنَا ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي رُهْمٍ السَّمَاعِيِّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ: ” إِذَا قُبِضَتْ نَفْسُ الْعَبْدِ تَلَقَّاهُ أَهْلُ الرَّحْمَةِ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ كَمَا يَلْقَوْنَ الْبَشِيرَ فِي الدُّنْيَا، فَيُقْبِلُونَ عَلَيْهِ لِيَسْأَلُوهُ، فَيَقُولُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: أَنْظِرُوا أَخَاكُمْ حَتَّى يَسْتَرِيحَ، فَإِنَّهُ كَانَ فِي كَرْبٍ، فَيُقْبِلُونَ عَلَيْهِ فَيَسْأَلُونَهُ مَا فَعَلَ فُلَانٌ؟ مَا فَعَلَتْ فُلَانَةٌ؟ هَلْ تَزَوَّجَتْ؟ فَإِذَا سَأَلُوا عَنِ الرَّجُلِ قَدْ مَاتَ قَبْلَهُ، قَالَ لَهُمْ: إِنَّهُ قَدْ هَلَكَ، فَيَقُولُونَ: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ذُهِبَ بِهِ إِلَى أُمِّهِ الْهَاوِيَةِ، فَبِئْسَتِ الْأُمُّ، وَبِئْسَتِ الْمُرَبِيَّةُ، قَالَ: فَيُعْرَضُ عَلَيْهِمْ [ص:150] أَعْمَالُهُمْ، فَإِذَا رَأَوْا حَسَنًا فَرِحُوا وَاسْتَبْشَرُوا، وَقَالُوا: هَذِهِ نِعْمَتُكَ عَلَى عَبْدِكَ فَأَتِمَّهَا، وَإِنْ رَأَوْا سُوءًا قَالُوا: اللَّهُمَّ رَاجِعْ بِعَبْدِكِ

اس کے متن میں ہے کہ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ رضی اللہ عنہ نے کہا  جب کسی کی جان قبض ہوتی ہے اور وہ اہل رحمت سے جب ( عالم البرزخ ) میں ملتا ہے تو  یہ ارواح اپس  میں کلام کرتی ہیں  جاننا چاہتی ہیں کہ کون کس حال میں ہے  پھر دعا کرتی ہیں … ان کو ان کا عمل دکھایا جاتا ہے

اس سند میں أَبِي رُهْمٍ السَّمَاعِيِّ کا سماع  أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ رضی اللہ عنہ سے معلوم نہیں ہو سکا کہ تھا بھی یا نہیں

سولویں دلیل

          وأخرج ابن أبي شیبة في  المصنف والحکیم الترمذي وابن أبي الدنیاعن إبراهیم بن میسرة، قال غزٰی أبو أیّوب القسطنطینة فمرّ بقاصّ وهو یقول  إذاعمل العبد العمل في صدرالنهار عرض علی معارفه إذا أمسی من أهل الآخرة، وإذا عمل العمل في آخرالنهار عرض علی معارفه إذا أصبح من أهل الآخرة، فقال أبوأیّوب  انظر ما تقول! قال  واﷲ إنّه لکما أقول، فقال أبو أیوب  اللّٰهم إنّي أعوذبك أن تفضخي عند عبادة بن الصامت وسعد بن عبادة بما عملت بعدهم، فقال القاصّ  واﷲ لایکتب اﷲ ولایته لعبد إلّاسترعوراته وأثنی علیه بأحسن عمله 

 جواب

إبراهیم بن میسرة نے کہا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ  نے القسطنطینة   کا جہاد کیا کا گذر ایک قصہ گو پر ہوا جو کہہ رہا تھا …. ابو ایوب نے کہا دیکھو کیا بول رہے ہو ! پھر فرمایا  اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں کہ عبادة بن الصامت وسعد بن عبادة کے بعد جو عمل میں نے کیا اس پر میری فضاحت ہو

راقم کہتا ہے یہ قول کسی  عُبَيْدِ بْنِ سَعْدٍ کا ہے جو ابراہیم کو ملا – کتاب الأولياء از ابن ابی الدنیا میں ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، نا دَاوُدُ بْنُ عَمْرٍو الضَّبِّيُّ، نا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: ” غَزَوْنَا حَتَّى إِذَا انْتَهَيْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ مَدِينَةِ قُسْطَنْطِينِيَّةَ إِذَا قَاصٌّ يَقُولُ: مَنْ عَمِلَ عَمَلًا مِنْ أَوَّلِ النَّهَارِ عُرِضَ عَلَى مَعَارِفِهِ إِذَا أَمْسَى مِنْ أَهْلِ الْآخِرَةِ، وَمَنْ عَمِلَ عَمَلًا مِنْ آخِرِ النَّهَارِ عُرِضَ عَلَى مَعَارِفِهِ إِذَا أَصْبَحَ مِنْ أَهْلِ الْآخِرَةِ، فَقَالَ لَهُ أَبُو أَيُّوبَ: أَيُّهَا الْقَاصُّ، انْظُرْ مَا تَقُولُ، قَالَ: وَاللَّهِ إِنَّ ذَلِكَ لَكَذَلِكَ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ لَا تَفْضَحْنِي عِنْدَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ وَلَا عِنْدَ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ فِيمَا عَمِلْتُ بَعْدَهُمَا، فَقَالَ الْقَاصُّ: وَإِنَّهُ وَاللَّهُ مَا كَتَبَ اللَّهَ مَا كَتَبَ وِلَايَتَهُ لِعَبْدٍ إِلَّا سَتَرَ عَلَيْهِ عَوْرَتَهُ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ بِأَحْسَنِ عَمَلِهِ “

عُبَيْدِ بْنِ سَعْدٍ کی ثقاہت  کا حال معلوم  نہیں ہے

سترہویں  دلیل

       وأخرج الحکیم الترمذي وابن أبي الدنیا في کتاب المنامات والبیهقي في شعب الإیمان عن النعمان بن بشیر سمعت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یقول اﷲ اﷲ في إخوانکم من أهل القبور، وأنّ أعمالکم تعرض علیهم

جواب

المنامات از ابن ابی الدنیا میں ہے

حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ رِزْقِ اللَّهِ الْكَلْوَذَانِيُّ، وَهَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ   قَالَا: نا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ الْوُحَاظِيُّ، قَالَ: نا أَبُو إِسْمَاعِيلَ السَّكُونِيُّ، سَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ أُدَيٍّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ، وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «أَلَا إِنَّهُ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا مِثْلُ الذُّبَابِ تَمُورُ فِي جَوِّهَا , فَاللَّهَ اللَّهَ فِي إِخْوَانِكُمْ مِنْ أَهْلِ الْقُبُورِ , فَإِنَّ أَعْمَالَكُمْ تُعْرَضُ عَلَيْهِمْ»

میزان از الذھبی میں ہے  کہ یہ مجہول ہے اور قال الأزدي: لا يصح إسناده  اس کی اسناد صحیح نہیں ہیں

اس کی سند مستدرک حاکم میں بھی ہے

نعمان بن بشیر رضی الله تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا …. لوگوں اپنے مردہ بھائیوں کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو کیونکہ تمہارے اعمال ان پر پیش کیے جاتے ہیں

الذهبی کہتے ہیں       فيه مجهولان  اس میں مجھول راوی ہیں

اٹھارویں دلیل

        وأخرج ابن أبي الد نیا وابن منده وابن عساکر عن أحمد بن عبداﷲ بن أبي الحواری، قالحدّثني أخي محمّد بن عبداﷲ، قالدخل عبّاد الخواص علی إبراهیم بن صالح الهاشمي  وهو أمیر فلسطین  فقال له إبراهیم عظني! فقال قد بلغني إنّ أعمال الأحیاء تعرض علی أقاربهم من الموتٰی، فانظر ماتعرض علی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم من عملك  (  روایت نمبر۱۴  سے  روایت نمبر۱۸  تک دیکھیے شرح الصدوربشرح حال الموتیٰ والقبور، باب عرض أعمال الأحیاء علی الأموات،(ص۱۱۴ ۱۱۵) طمطابع الرشید بالمدینۃ المنورۃ۔)

جواب

اس میں حدیث سرے سے ہی نہیں ہے

کسی امیر فلسطین کے قول کا ذکر ہے

انیسویں دلیل

        أکثر وا من الصلاة عليّ في کلّ یوم جمعة؛ فإنّ صلاة أمّتي تعرض عليّ في کلّ یوم جمعة … (هب) عن أبي أمامة  (کنزالعمّال في سنن الأقوال والأفعال، الکتاب الثاني، الباب السادس في الصلاة علیه وآله علیه الصلاة والسلام، (۱/۴۸۸) ط مؤسّسة الرسالة، بیروت،۱۴۰۱ھ ۱۹۸۱م۔)

جواب

حياة الأنبياء میں بیہقی نے اس کو اس طرق سے روایت کیا ہے

   إبراهيم بن الحجاج السامي البصري ثنا حماد بن سلمة عن بُرد بن سنان عن مكحول الشامي عن أبي أمامة رفعه “أكثروا عليّ من الصلاة في كل يوم جمعة، فإنّ صلاة أمتي تعرض عليّ في كل يوم جمعة، فمن كان أكثرهم عليّ صلاة، كان أقربهم مني منزلة”.

سند میں انقطاع ہے

 المنذري اور الذهبي کا کہنا ہے کہ مكحول کا سماع أبي أمامة سے نہیں ہے

  المنذري نے الترغيب میں  کہا :  لم يسمع من أبي أمامة”

وقال الذهبي: قلت: مكحول قيل: لم يلق أبا أمامة” المهذب

بیسویں دلیل

                 بلوغ الأماني من أسرار الفتح الرباني میں ہے

عن أبي الدرداء رضي اﷲ عنه قالقال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم أکثروا من الصلاة عليّ یوم الجمعة، فإنّه مشهود تشهده الملائکة، وإنّ أحداً لن یصلي عليّ إلّا عرضت عليّ صلاته حتّٰی یفرغ منها، قال قلت وبعد الموت؟ قالإنّ اﷲ حرّم علی الأرض أن تاکل أجساد الأنبیاء علیهم الصلاة والسلام  رواه ابن ماجه بسند جیّد   (بلوغ الأماني من أسرارالفتح الرباني للإمام أحمدعبدالرحمٰن، أبواب صلاة الجمعة، فصل منه في الحثّ علی الإکثارمن الصلاة علی النبيّ صلی اللہ علیہ وسلم یوم الجمعة، (۶/۱۱) ط دارالشهاب، القاهرة)

جواب

روایت ہے

عن أبي الدرداء قال: قال رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “أكثروا الصلاة عليّ يوم الجمعة؛ فإنه مشهود تشهده الملائكة. وإن أحدا لا يصلي علي إلا عُرضت عَلَيّ صلاته حتى يفرغ منها”. قال: قلت: وبعد الموت؟ قال: ” [وبعد الموت]، إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء” [فنبي الله حي يرزق].

هذا حديث غريب من هذا الوجه، وفيه انقطاع بين عُبادة بن نَسي وأبي الدرداء، فإنه لم يدركه

اس کی سند میں بھی انقطاع ہے عُبادة بن نَسي  کی أبي الدرداء سے نہ ملاقات ہے نہ سماع ہے


دیوبندیوں کی طرح  سلفی علماء بھی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ میت کو اپنے ورثاء کی  حرکتوں کا علم ہوتا ہے – میت  کو علم ہوتا ہے کون اس پر رو رہا ہے جس سے میت کو دکھ ہوتا ہے

 ابن عثيمين  سے درج ذيل سوال كيا گيا

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان كا معنى كيا ہے ؟

” يقينا ميت كو اس كے گھر والوں كے رونے سے عذاب ہوتا ہے ”

ابن عثيمين   کا جواب تھا کہ اس کا مطلب ہے

جب ميت كے اہل و عيال ميت پر روتے ہيں تو اسے اس كا علم ہوتا اور اس سے اسے تكليف ہوتى ہے، اس كا معنى يہ نہيں كہ اللہ تعالى ميت كو اس كى سزا ديتا ہے، كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے: كوئى بھى جان كسى دوسرى جان كا بوجھ ( گناہ ) نہيں اٹھائيگى .عذاب سے يہ لازم نہيں آتا كہ اسے سزا ہوتى ہے، كيا آپ ديكھتے نہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:” سفر عذاب كا ايك ٹكڑا ہے “حالانكہ سفر كوئى سزا نہيں، ليكن اس سے انسان كو تكليف ہوتى ہے اور تھك جاتا ہے، تو اسى طرح جب ميت كے اہل و عيال ميت پر روتے ہيں اسے اس سے تكليف ہوتى ہے اور وہ تھك جاتا ہے، اگرچہ يہ اللہ تعالى كى جانب سے اسے سزا نہيں ہے.حديث كى يہ شرح واضح اور صريح ہے، اور اس پر كوئى اشكال وارد نہيں ہو سكتا، اور نہ ہى اس شرح ميں يہ ضرورت ہے كہ كہا جائے كہ يہ اس شخص كے متعلق ہے جو نوحہ كرنے كى وصيت كرے، يا پھر اس شخص كے متعلق ہے جن كى عادت نوحہ كرنا ہو، اور وہ مرتے وقت انہيں نوحہ كرنے سے منع نہ كرے، بلكہ ہم تو يہ كہتے ہيں: انسان كو كسى چيز كے ساتھ عذاب ہوتا ہے ليكن اسے اس سے كوئى ضرر بھى نہيں پہنچتا ” انتہى.

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 17 / 408 ).

راقم کہتا ہے یہ عقیدہ باطل ہے کہ میت کو ورثاء کے رونے کا  علم ہوتا ہے

روایات عرض عمل اور دیوبندی علماء

عرض عمل کی روایات اس امت میں شیعہ راویوں یا اہل بیت کے غلاموں کی پھیلائی ہوئی ہیں – ان کا اجراء خروج ائمہ کو جواز دینے کے لئے کیا گیا کہ مخالفین اہل بیت، بنو امیہ مسلمان ہی نہیں – ان کا درود نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش نہیں ہوتا

راقم عرض عمل کی روایات کو رد کرتا ہے – عرض عمل کی روایات پر منطقی اعتراض کا ذکر جناب  الیاس گھمن متکلم دیو بند ایک تقریر میں فرماتے ہیں

دیوبندیوں کے متکلم الیاس گھمن ١:٠٠ منٹ پر کہتے ہیں کہ

ایک سآئل نے سوال کیا کہ حدیبیہ میں عثمان مشرکین مکہ کی قید میں تھے
اور نبی پاک نے عثمان کے قتل کا بدلہ لینے پر بیعت لے لی تو کیا عثمان کا درود نبی پر پیش نہ ہوتا تھا ؟
الیاس گھمن جواب دیتے ہیں میں نے اس سائل سے کہا

آج تک کبھی آپ نے ہمارے اکابر کی کتاب میں یہ عقیدہ پڑھا ہو یا ہمارے اکابر سے سنا ہو کہ ہم نے یہ کہا ہو کہ
حضور پاک جب اس دنیا میں زندہ تھے تو حضور پر جو درود دور سے پڑھتا جاتا تھا وہ پیش ہوتا تھا ؟
کہا جی نہیں – میں نے کہا جب یہ ہمارا عقیدہ ہی نہیں ہے تو تم نے اعتراض کیسے کیا

الیاس ٢:٠٠ منٹ پر کہتے ہیں
ہمارا عقیدہ ہے
من صلی علی عند قبری
جب میں دنیا سے چلا جاؤں گا تو میری قبر کے پاس درود پڑھو گے تو میں سن لوں گا

و من صلی علی نائيا بلغته
جو دور سے پڑھا جائے گا پہنچایا جائے گا

یہ اس اس زندگی میں ہے یا بعد کی بات ہے

اعتراض تب تھا جب ہم یہ کہتے کہ اس دنیا میں جو مدینہ سے باہر رہ کر دورد پڑھتا وہ پیش ہوتا تھا – جب یہ ہمارا عقیدہ ہی نہیں تو اعتراض کی حیثیت کیا ہے ؟

اس دنیا میں مدینہ سے باہر رہ کر درود پڑھتا تھا وہ پیش ہوتا تھا اب اس پر دلیل پیش کرتے ہیں کہ عثمان کا پیش کیوں نہیں ہوا ؟
یہ ہمارا عقیدہ ہی نہیں

الیاس 3:16 منٹ پر کہتے ہیں
سوال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس دنیا میں تھے تو یہ مسئلہ نہیں تھا اور جب دنیا سے چلے گئے تو پھر یہ مسئلہ ہے
ایسا کیوں ہے ؟
جب اس دنیا میں تھے تو ہمارا عقیدہ نہیں ہے کہ دور سے پڑھیں تو فرشتے پہنچاتے ہیں
جب دنیا چھوڑ کر قبر میں تشریف لے گئے اب ہمارا عقیدہ ہے کہ اگر دور سے درود پڑھیں تو فرشتے پہنچاتے ہیں
یہ فرق کیوں ہے ؟
یہ فرق اس وجہ سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے اللہ رب العزت کے دین کو
دنیا والوں تک پہنچانے کے لئے … جب ایک مقصد کو لے کر چلنے والا اس کو لے کر چلتا ہے تو لوگ قبول کریں تو اس کو خوشی ہوتی ہے
جب اللہ کے نبی اس دنیا میں ہیں ، صحابہ اکرام مدینہ آ رہے ہیں مدینہ سے جا رہے ہیں
حضور پاک اپنے کام کی کار گزاری دیکھ رہے ہیں – اب دور سے بذریعہ ملائکہ زندگی میں درود پہنچانے کی ضرورت نہیں ہے
جب اللہ کے نبی قبر میں تشریف لے گئے …. اب ضرورت ہے کہ پغمبر پر کار گزاری پہنچے
جب قبر پر جائیں اور درود پڑھیں تو حضور سن لیتے ہیں اور دور سے پڑھیں تو ملائکہ پہنچا دیتے ہیں

ساتھ دوسری حدیث بھی ذہن میں رکھ لیں عرض اعمال کی اللہ کے نبی نے فرمایا

تمہارے اعمال مجھ پر پیش ہوتے ہیں

جب اس دنیا میں تھے تو دور سے اعمال پیش ہونے کی حاجت نہیں تھی آنکھوں سے آپ کار گزاری دیکھ رہے تھے
لوگ آ بھی رہے تھے اور جا بھی رہے تھے – جب نبی دنیا سے چلے گئے تو امت کی کار گزاری
حضور قبر میں رہ کر ساری دنیا کو دیکھیں یہ ہمارا عقیدہ نہیں ہے لہذا
اللہ ملائکہ کے ذریعہ امت کے اعمال پیش کر کے نبی کو ان کی کار گزاری سناتے رہتے ہیں

انتھی کلامہ

========================

لب لباب ہوا کہ دیو بندیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ زندگی میں درود تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش ہی نہیں ہوتا تھا

اس طرح الیاس گھمن صاحب نے ان احادیث کو رد کر دیا

سنن ابن ماجہ کی روایت ہے
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ الْمِصْرِي، حَدّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو ابْنِ الْحَارِثِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَيْمَنَ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَي عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: “أَكْثِرُوا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَإِنَّهُ مَشْهُودٌ تَشْهَدُهُ الْمَلَائِكَةُ،
وَإِنَّ أَحَدًا لَنْ يُصَلِّيَ عَلَيَّ إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَاتُهُ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهَا” قَالَ: قُلْتُ: وَبَعْدَ الْمَوْتِ؟ قَالَ: “وَبَعْدَ الْمَوْتِ، إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ”، فَنَبِيُّ اللَّهِ حَيٌّ يُرْزَقُ
امام ابن ماجہ فرماتے ہیں کہ ہم سے عمروبن سواد المصری نے بیان کیا ۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے عبد اﷲ بن وہب نے بیان کیا اور وہ عمر بن حارث سے اور وہ سید بن ابی ہلال سے۔ وہ یزید بن ایمن سے اور وہ عبادة بن نسی سے اور وہ ابوالدراد
رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ نے ارشاد فر مایا کہ جمعہ کہ دن مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو کیونکہ وہ دن حاضری کا ہے۔ اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ مجھ پر جو کوئی شخص دورد پڑھتا ہے اس
کا ددور مجھ پر پیش کیا جاتا ہے حتی کہ وہ اس سے فارغ ہو۔ میں نے کہا یا رسول اﷲ آپ کی موت کے بعد ؟ آپ نے فرمایا الله نے حرام کر دیا ہے کہ زمین انبیاء کے جسموں کو کھائے پس نبی الله کو رزق دیا جاتا ہے

نوٹ : روایت ضعیف منقطع ہے

سنن ابو داود میں ہے
حدثنا هارون بن عبد الله، ‏‏‏‏‏‏حدثنا حسين بن علي، ‏‏‏‏‏‏عن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر، ‏‏‏‏‏‏عن ابي الاشعث الصنعاني، ‏‏‏‏‏‏عن اوس بن اوس، ‏‏‏‏‏‏قال ‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن من أفضل أيامكم يوم الجمعة فأكثروا علي من الصلاة فيه فإن صلاتكم معروضة علي قال
فقالوا يا رسول اللهِ وكيف تعرض صلاتنا عليك وقد أرمت قال يقولون بليت قال إن الله تبًارك وتعالى حرم على الأرض أجساد الأنبياء صلى الله عليهم
اوس بن اوس رضی الله عنہ نے کہا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : بے شک تمہارے دنوں میں جمعہ سب سے افضل ہے پس اس میں کثرت سے درود پڑھو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش ہوتا ہے – صحابہ نے پوچھا یا رسول الله یہ کیسے
جبکہ اپ تو مٹی ہوں گے … رسول الله نے فرمایا بے شک الله تبارک و تعالی نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ انبیاء کے جسموں کو کھائے

اس روایت میں صریحا زندگی میں دورد پیش ہونے کا ذکر ہے – صحابہ کو اشکال ہوا کہ موت کے بعد بھی ہو گا کہ نہیں تو اس کا جواب بھی اثبات میں دیا گیا ہے

نوٹ :  روایت امام ابن ابی حاتم کے نزدیک معلول ہے 

مسند البزار کی روایت ہے
حَدَّثَنَاهُ يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: نا جَرِيرٌ، عَنْ حُسَيْنٍ الْخَلْقَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ زَاذَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً سَيَّاحِينَ يُبَلِّغُونِي عَنْ أُمَّتِي السَّلَامَ» ، قَالَ حُسَيْنٌ فِي حَدِيثِهِ: «إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً يَطُوفُونَ فِي الطُّرُقِ
يُبَلِّغُونَ، عَنْ أُمَّتِي السَّلَامَ» ، وَهَذَا الْحَدِيثُ لَا نَعْلَمُهُ يُرْوَى عَنْ عَبْدِ اللَّهِ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ
حُسَيْنٍ الْخَلْقَانِيّ نے روایت کیا کہ عبد الله بن السَّائِبِ نے زاذان سے روایت کیا اس نے عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ سے روایت کیا کہ .. اللہ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو راستوں میں پھرتے رہتے ہیں اور میری امت کا سلام مجھ تک لاتے ہیں

اس روایت کو بھی وفات کے بعد کے دور سے مقید نہیں کیا جا سکتا

نوٹ راقم کے نزدیک سند منقطع ہے – زاذان کا ابن مسعود رضی اللہ عنہ  سے سماع نہیں ہے

ان روایات پر مزید تفصیل راقم کی کتاب میں ملاحظہ کریں

[wpdm_package id=’8847′]

رد عقیدہ عرض درود

سن ٢٠١٧ میں اس کتاب عقیدہ عرض اعمال  کو ویب سائٹ پر ڈالا گیا تھا

اس حوالے سے قارئین نے سوالات کیے تھے اور چند مزید روایات پر  بحث کی گئی ہے

لہذا ضرورت محسوس کی  گئی کہ اس کتاب  میں اضافہ کیا جائے

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

عرض عمل نہیں ہوتا سلف کا قول

 امام أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676هـ) سے طلاق کے حوالے سے سوال کیا گیا جو  ان کے فتووں میں موجود ہے جس کو  فَتَّاوَى الإِمامِ النَّوَوَيِ  یا المَسَائِل المنْثورَةِ  کہا جاتا

مسألة: رجل حلف “بالله” أو بالطلاق، أن ابن صياد هو الدجال، وأن النبي – صلى الله عليه وسلم – يسمع الصلاة عليه، من غير مبلغ هل يحنث

الجواب: لا يحكم بالحنث للشك في ذلك والورع أن يلزم الحنث.

مسئلہ : ایک شخص نے الله کی قسم کھائی یا (بیوی کو) طلاق کی قسم لی کہ ابن صیاد ہی الدجال ہے اور نبی صلی الله علیہ وسلم  اپنے اپ پر درود سنتے ہیں ، (ان کو) پہنچتا نہیں ہے ، تو کیا قسم ٹوٹ گئی؟

جواب: اس قسم کا حکم ٹوٹنے کا نہیں ہے  کیونکہ اس میں شک ہے اور احتیاطا    لازم ہے کہ قسم ٹوٹ جائے گی

قریب ٣٠٠ سال بعد امام شمس محمد بن عبد الرحمن السخاوي (المتوفى: 902 هـ) سے امام النووی کے اس فتوے پر سوال ہوا جس کا ذکر الأجوبة المرضية فيما سئل السخاوي عنه من الأحاديث النبوية  میں ہے

 مسألة ما قولكم في قول صاحب العلم المنشور في فضل الأيام والشهور: أولعت فسقة القصاص بأن رسول الله صلى الله عليه وسلم يسمع من يصلي عليه، ثم أبطل ما احتجوا به وفي حديث: “ما من أحد يسلم علي … ” إلى آخره وهل تعم الصلاة أم لا؟ وهل هو في الحاضر عند الحرجة الشريفة أو يعم وإن بعدت المسافة أم لا؟ وقول بعض الخطباء في الثانية: فإنه في هذا اليوم يسمع بأذنيه صلاة من يصلي عليه، ومعنى “لتعرض”في حديث أنس “وتبلغني” في غيره، وهل هذا الكتاب مشهور، أو عليه العمل أم لا؟

وفي مسألة في فتاوى النووي، وهي: رجل حلف بالطلاق الثلاث، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم يسمع الصلاة عليه وفي الجواب لا يحكم بالحنث للشك في ذلك والورع أن يلتزم الحنث بينوا لنا ذلك مبسوطًا؟

نعم، قد جاء أنه صلى الله عليه وسلم يسمع الصلاة والسلام ممن يصلي ويسلم عليه عند قبره الشريف خاصة. ومن كان بعيدًا عنه يبلغه، ومما ورد في ذلك ما رواه أبو الشيخ الحافظ في كتاب “الثواب” له بسند جيد كما قال شيخنا …. وإذا تقرر هذا، فما نقله السائل عن صاحب “العلم المنشور في فضل الأيام والشهور” أنه قال: أولعت فسقه القصاص بأن رسول الله صلى الله عليه وسلم يسمع من يصلي عليه، فيشبه أن يكون إنكارًا منه لمن يقول بسماعه له بلاد واسطة عن بعد، وإذا كان كذلك فهو إنكار صحيح، وأما مطلقًا بحيث يتناول القريب فلا، والعلم المنشور وإن كان مشهورًا ففي مصنفع وهو الإمام أبو الخطاب ابن دحية مع كونه موصوًا بالمعرفة، وسعة العلم مقال وفي وإذا تقرر هذا، فما نقله السائل عن صاحب “العلم المنشور في فضل الأيام والشهور” أنه قال: أولعت فسقه القصاص بأن رسول الله صلى الله عليه وسلم يسمع من يصلي عليه، فيشبه أن يكون إنكارًا منه لمن يقول بسماعه له بلاد واسطة عن بعد، وإذا كان كذلك فهو إنكار صحيح، وأما مطلقًا بحيث يتناول القريب فلا، والعلم المنشور وإن كان مشهورًا ففي مصنفع وهو الإمام أبو الخطاب ابن دحية مع كونه موصوًا بالمعرفة، وسعة العلم مقال وفي تواليفه أشياء تنقم عليه من تصحيح وتضعيف عفا الله عنا وعنه….. والفرع المنقول عن فتاوي النووي رحمه الله في عدم الحكم باحلنث فيمن حلف بالطلاق الثلاث أنه صلى الله عليه وسلم يسمع الصلاة عليك للشك في ذلك صحيح، ولكن الورع كما قال: أن يلتزم الحنث. وقد صرح النووي في مقدمه شرح مسلم أنه لو حلف في غير أحاديث الصحيحين بالطلاق أنها من قول النبي صلى الله عليه وسلم أنا لا نحنثه، لكن تستحب له الرجعة احتياطًا لاحتمال الحنث وهو احتمال ظاهر، فهذا يوافق ما في الفتاوي بخلاف ما لو حلف في أحاديث الصحيحين، لأن احتمال الحنث فيهما هو في غاية من الضعف، ولذلك لا يستحب له المراجعة، لضعف احتمال موجبها، والهل الموفق.

مسئلہ:  کیا کہنا ہے اپ  کا ایک صاحب کتاب  العلم المنشور في فضل الأيام والشهور  دنوں اور مہینوں کی افضلیت کے حوالے سے قول پر : قصہ گوؤں نے بکواس کی کہ اپ صلی الله علیہ وسلم  سننتے ہیں جب درود ان پر پڑھا جاتا ہے پھر اس  کی دلیل کو رد کیا اور  حدیث میں ہے کوئی نہیں جو مجھ پر  سلام  کہے  (اور الله میری روح کو نہ لوٹا دے ) آخر تک تو کیا اپ نبی علیہ السلام پر (درود) ہمیشہ (پیش) ہوتا ہے یا نہیں ؟ اور کیا وہ اپنے حجرہ شریفہ میں حاضر ہیں وہاں ہوتے ہیں اور اگر (درود پڑھنے والے میں اور  حجرہ شریفہ میں بھی) مسافت   دور ہو  ؟ اور بعض خطیبوں کا  دوسرے قول پر کہنا کہ یہی دن ہے کہ اپ صلی الله علیہ وسلم  درود اپنے  کانوں سے سنتے ہیں جو ان پر درود کہے اور حدیث میں عرض (درود ) کا کیا مطلب ہے اور حدیث انس میں تبلغني (پہنچتا  ہے ) کا کیا مفہوم ہے ؟ اور کیا یہ کتاب مشہور ہے اس پر عمل ہے یا نہیں؟

اسی طرح فتاوی نووی میں ہے ایک شخص نے الله کی قسم کھائی یا (بیوی کو) طلاق کی قسم لی کہ ابن صیاد ہی الدجال ہے اور نبی صلی الله علیہ وسلم  اپنے اپ پر درود سنتے ہیں ، (ان کو) پہنچتا نہیں ہے ، تو کیا قسم ٹوٹ گئی؟ نووی نے کہا  اس قسم کا حکم ٹوٹنے کا نہیں ہے  کیونکہ اس میں شک ہے اور احتیاطا    لازم ہے کہ قسم ٹوٹ جائے گی  تو اس حوالے سے ہمارے لئے تفصیل سے وضاحت کر دیں

 سخاوی نے جواب دیا: ہاں یہ آیا ہے کہ اپ صلى الله عليه وسلم بے شک درود و سلام سنتے ہیں جب کوئی نبی صلى الله عليه وسلم پر درود و سلام قبر شریف پر  خاص کہے  اور جو دور ہے اس کا پہنچتا ہے اور اس حوالے سے کتاب الثواب از ابو الشیخ میں حدیث اتی ہے سند جید کے ساتھ جیسا ہمارے شیخ  (ابن حجر ) کا کہنا ہے ….. تو اس سب کے اقرار کے بعد جو سائل نے کتاب العلم المنشور في فضل الأيام والشهور کے حوالے سے سوال کیا ہے قصہ گوؤں نے بکواس کی کہ  رسول الله صلى الله عليه وسلم اپنے اوپر  پڑھے جانے والا درود  سنتے ہیں  تو اس پر شبہ ہوتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ انکار کر رہے ہیں جو یہ بلا واسطہ سننے کا کہے اور اگر ایسا ہے تو یہ انکار صحیح ہے اور اگر وہ مطلقا انکار کر رہے ہیں کہ قریب کو بھی ملا رہے ہیں تو ایسا نہیں ہے اور یہ کتاب العلم المنشور جو مشہور ہے یہ تصنیف ہے امام أبو الخطاب ابن دحية (أبو الخطاب عمر بن الحسن بن علي   الكلبي المتوفی ٦٣٣ ھ) کی جو موصوف ہیں معرفت و وسعت علم سے اور ان کی توالیف میں چیزیں ہیں جن میں صحیح و ضعیف ہے الله کی مغفرت کرے … اور جو امام نووی سے منقول ہے کہ تین طلاق کی قسم نہ ٹوٹے گی کہ اگر شک ہو کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سنتے ہیں یا نہیں تو یہ صحیح ہے لیکن احتیاط یہ ہے جیسا کہ نووی نے کہا کہ یہ ٹوٹ جائے گی اور نووی نے مقدمہ صحیح مسلم میں صراحت کی ہے کہ کہ اگر صحیین سے باہر کی احادیث پر  قسم لی کہ یہ قول نبی نہیں ہیں تو قسم نہ ٹوٹے گی لیکن مستحب ہے کہ کہ احتیاط ہے کہ یہ ٹوٹ جائے گی جو ظاہر احتمال ہے تو یہ موافق ہے اس فتوی سے کہ اگر صحیحین کی احادیث ہوں تو قسم ٹوٹ جائے گی کیونکہ وہ ضعیف ہو سکتی ہیں

اس بحث سے معلوم ہوا کہ

أبو الخطاب عمر بن الحسن بن علي  الأندلسي السبتي  الكلبي المتوفی ٦٣٣ ھ   نے اپنی کتابوں میں نبی صلی الله علیہ وسلم پر عرض عمل یا درود پیش ہونے کو رد کیا تھا

امام النووی کے نزدیک نبی صلی الله علیہ وسلم پر درود پیش ہونے والی روایات میں شک موجود تھا

لیکن افسوس متاخرین نے ان اقوال کو رد کر دیا اور واپس انہی احادیث کو صحیح کہہ دیا جن میں عرض عمل کا شرکیہ عقیدہ موجود تھا

کتاب رد عقیدہ عرض اعمال

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

فہرست

عقیدہ عرض اعمال  قرآن میں

عقیدہ عرض اعمال اہل تشیع  کے مطابق

عقیدہ عرض اعمال اہل سنت کے مطابق

حرف آخر


سلام اسلامی معاشرت کا شعار ہے. مسلم کی حدیث ہے کہ

عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرةَ  رَضِی اللّٰہ تعالیٰ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَا تَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حتّٰی تُوٴْمِنُوْا وَلَا تُوٴْمِنُوْا حتّٰی تَحَابُّوا، اَولَا اَدُلُّکُمْ عَلٰی شيءٍ اِذَا فَعَلْتُمُوْہُ تَحَابَبْتُمْ؟ اَفْشُوا السَّلَامَ بَیْنَکُمْ․ (روا ہ مسلم

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں  کہ جب تک تم ایمان نہ لاؤ جنت میں داخل نہیں ہو سکتے اور تم ایمان نہیں لاؤ گے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرو‘کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتلاؤں کہ جب تم وہ کرو تو آپس میں محبت کرنے لگو؟ فرمایا کہ تم اپنے درمیان سلام کو پھیلاؤ

معلوم ہوا کہ سلام کا تعلق ادب سے ہے اور ایک دوسرے کے لئے دعائیہ کلمات ہیں.  ہم براہ راست الله سے دوسرے شخص کے لئے دعا کر سکتے ہیں لیکن اس صورت میں دوسرے شخص کو ہمارے خلوص کا پتا نہیں چلے گا لہذا معاشرت میں خلوص کی وجہ سے  اس کی تلقین کی گئی  ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے لئے دعا کریں . ہم خط لکھ کر دوسرے شخص کو بھیجتے ہیں اس میں بھی یہی خلوص مقصد ہوتا ہے . لیکن جب کوئی شخص انتقال کر جائے تو اس کی نماز جنازہ ادا کی جاتی ہے اور دعائیہ کلمات میت کو سنانا مقصد نہیں ہوتا، نہ ہی اس میت سے واپس جواب کی امید کی جاتی ہے. میت کو تو پتا بھی نہیں ہوتا کہ کس نے اس کی تعریف کی اور کس نے برائی ، کس نے نماز جنازہ پڑھی اور کس نے نہیں، کس نے غسل دیا اور کس نے کفن دیا-  اسلامی معاشرت کے تحت نبی صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کو سلام کیا اور صحابہ نے آپ کو. پھر نبی کے لئے درود یعنی رحمت کی دعا کرنے کا الله نے حکم دیا

اِنَّ اللّـٰهَ وَمَلَآئِكَـتَه يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا (56)

بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں، اے ایمان والو تم بھی اس پر رحمت اور سلام بھیجو۔

جب ہم الله کے نبی پر درود پڑھتے ہیں تو ہمارا مقصد نبی صلی الله علیہ وسلم کو سنانا نہیں ہوتا بلکہ الله  کی بارگاہ میں نبی کے لئے دعائے رحمت مقصود ہوتی ہے. نبی صلی الله علیہ وسلم نے نماز میں درود جھر (بلند آواز) سے پڑھنے کا حکم نہیں دیا ورنہ کسی کا خیال ہو سکتا تھا کہ صحابہ ، نبی صلی الله علیہ وسلم کو درود سناتے تھے-    اگر درود پیش ہونا ہی حقیقت ہوتا تو نماز کا درود جھر سے پڑھا جاتا تاکہ نبی صلی الله علیہ وسلم سن سکیں کہ کون امتی درود پڑھ رہا ہے اور کون منافق ہے-  صحیح مسلم کے مطابق نبی صلی الله علیہ وسلم پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتے کہ اس دن اعمال الله کے پاس پیش ہوتے ہیں

عُرِضَتْ عَلَيَّ أَعْمَالُ أُمَّتِي حَسَنُهَا وَسَيِّئُهَا، فَوَجَدْتُ فِي مَحَاسِنِ أَعْمَالِهَا الْأَذَى يُمَاطُ عَنِ الطَّرِيقِ، وَوَجَدْتُ فِي مَسَاوِي أَعْمَالِهَا النُّخَاعَةَ تَكُونُ فِي الْمَسْجِدِ، لَا تُدْفَنُ

ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ میری امت کے اچھے اور برے تمام اعمال میرے سامنے لائے گئے تو راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا میں نے اچھے اعمال میں پایا اور برے اعمال میں میں نے وہ تھوک اور بلغم دیکھا جو مسجد سے صاف نہ کیا گیا ہو

نبی صلی الله علیہ وسلم کو امت کے ان اعمال کی خبر زندگی میں ہی دی گئی تاکہ نیک اور برے اعمال سے امت کو باخبر کر سکیں لیکن وفات کے بعد اعمال پیش ہونے کا فائدہ کیا ہے کسی صحیح حدیث میں بیان نہیں ہوا-   بئر معونہ کا واقعہ ہمارے سامنے ہے کفّار نے اصحاب رسول کو گھیر لیا اور قتل کرنا شروع کیا صحابہ نے اللہ سے دعا کی کہ ہمارے قتل کی خبر نبی کو دے دے اگر درود پیش ہونے کا عقیدہ ہوتا تو اس کی ضرورت ہی نہیں تھی. ایک ہی روز میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو پتا چل جاتا کہ درود پیش نہیں ہو رہا. اسی طرح عثمان رضی الله تعالی عنہ کی شہادت کی خبر پر نبی صلی الله علیہ وسلم نے بیعت رضوان لے لی -اب تو امت میں درود تاج، درود تنجینا جسے درود بھی ہیں یہ بھی نبی صلی الله علیہ وسلم پر پیش ہوتے ہونگے تو پھرقیامت کے دن الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم  سے ان کی  امت کے گمراہ لوگوں کے  لئے کیسے کہا جائے گا

مَا تَدْرِي مَا أَحْدَثَتْ بَعْدَكَ

آپ کونہیں پتا کہ انہوں نے آپ کےبعد کیا باتیں نکالیں

درود سلام الله تک جاتا ہے نبی صلی الله علیہ وسلم تک اس کو پہنچانا اصل میں علم غیب کا دعوی کرنا ہے اپ صلی الله علیہ وسلم کو ان کی زندگی ہی میں معلوم تھا کہ کون مومن ہے اور کون منافق ہے جبکہ قرآن میں ہے  تم ان کو نہیں جانتے ہم جانتے ہیں-

ایک اہل حدیث عالم اسی تفریق کو نہ سمجھتے ہوئے نبی صلی الله علیہ وسلم پر امت کے درود و سلام کا عقیدہ اختیار کئی ہوئے ہیں اور اس کا دفاع اس انداز میں کرتے ہیں

میت کے لیے ہم دعائیں کرتے ہیں نمازِ جنازہ میں بھی اور نمازِ جنازہ کے علاوہ بھی وقتا فوقتا فوت شدہ مسلمانوں کے لیے دعائیں کی جاتی ہیں تو یہ دعائیں اللہ کے فضل و کرم سے ان کو پہنچتی ہیں۔ پھر ہم بذریعہ خط و کتابت یا بذریعہ دوست و احباب دوسروں کو سلام دعاء پہنچاتے رہتے ہیں تو یہ سلام دعاء بھی ان تک پہنچ جاتے ہیں۔ دیکھئے آپ اپنا یہ مکتوب جس میں آپ کا میری طرف سلام بھی درج ہے، مجھ پر پیش کیا تو وہ مجھ پر پیش ہوگیا ہے تو آپ غور فرمائیں اگر کوئی فرمائے: ’’ بقول آپ کے کسی بھائی یا دوست کو بھیجے ہوئے سلام دعاء اس پر پیش کیے جاتے ہیں تو اس کو پہنچ جاتے ہیں۔ دعاء و سلام ایک عبادت ، دعائیہ عمل ہے سورۂ الشوریٰ آیت نمبر: ۵۳ کے تحت تمام امور اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں۔ دعاو سلام کسی کو بھیجتے وقت بھی ہم دعاء اللہ کے حضور کرتے ہیں کہ اے اللہ! ہمارے فلاں بھائی یا دوست پر سلامتی نازل فرما تو سننے والے اس دعاء کو اللہ کی بارگاہ کی بجائے ہمارے فلاں دوست یا بھائی کے حضور پیش کردیتے ہیں۔ کیا یہ ہمارے دعائیہ کلمات سلام ودعاء سننے والے ہمارے بھائی دعاء سلام دوسروں تک پہنچانے والے عربی، اُردو، انگریزی وغیرہ سے ناواقف ہیں یا آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ کچھ اعمال ہمارے دوستوں اور بھائیوں کے حضور پیش ہوتے ہیں اور کچھ اللہ کے حضور یا آپ اپنے دوستوں اور بھائیوں کو معبود سمجھ کر ان کے حضور اعمال پیش ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔‘‘ تو آپ کا کیا جواب ہوگا؟

 ان عالم کا قول سراسر غلط ہے –  میت کے لئے ہم دعا کرتے ہیں تو اگر دعا قبول ہوئی تو ان کے نتیجے میں الله تعالی میت پر رحمت کرتے ہیں – یہ عقیدہ کہ میت کو خبر دی جاتی ہے کہ کس رشتہ دار نے اس کے لئے دعا کی گمراہی ہے-  سلام کا مقصد  سنانا نہیں  ایک دوسرے  کے حق میں الله سے رحمت  طلب کرنا ہے  اب چاہے یہ خط میں لکھا جائے یا نہ لکھا جائے –  دنیا میں ایک دوسرے کو خط و کتابت سے یا پھر ای میل سے جو دعا بھیجی جائے ان سب کا مقصد الله سے  دعا  کرنا ہے

ہمارے تمام اعمال  کی تفصیل فرشتے لکھتے ہیں اور الله تک پہنچاتے ہیں اس سے کسی کو انکار نہیں لیکن دنیا میں جو بھی کام ہوتے ہیں کیا وہ الله تک نہیں جاتے اس میں تعمق فرماتے ہوئے عالم لکھتے ہیں

پھر سورۂ الشوریٰ کی محولہ بالا آیت کریمہ کے الفاظ: ﴿أَلَا إِلَى اللَّـهِ تَصِيرُ‌ الْأُمُورُ‌ (٥٣)﴾اس کا ترجمہ و مطلب آپ نے لکھا ہے: ’’ تمام امور اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں۔‘‘ جبکہ قرآنِ مجید کی اس آیت کریمہ کی ہم معنی و مطلب دیگر آیات کے الفاظ ہیں: ﴿وَإِلَى اللَّـهِ تُرْ‌جَعُ الْأُمُورُ‌ (١٠٩)﴾’’ اللہ ہی کی طرف تمام کام لوٹائے جاتے ہیں۔‘‘ ﴿ وَإِلَيْهِ يُرْ‌جَعُ الْأَمْرُ‌ كُلُّهُ ﴾آپ ذرا مزید غور فرمالیں- پھر ان آیات کریمہ میں اعمال کی کوئی تخصیص نہیں۔ آخرت کی بھی کوئی تخصیص نہیں تو اگر کوئی صاحب ان آیات کریمہ کے عموم کو سامنے رکھتے ہوئے فرمادیں کہ جج صاحبان کے ہاں جو کاغذات پیش کیے جاتے ہیں یا دوسرے محکموں میں کاغذات وغیرہ کی جو پیشیاں ہوتی ہیں یہ سب سورۂ الشوریٰ کی آیت نمبر ۵۳ کہ: ’’ تمام امور اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں۔‘‘ کے منافی و مخالف ہیں تو کیا خیال ہے آپ کی تحقیق کی رو سے ان کی یہ بات درست ہوگی؟

آیت اپنے مفہوم  میں بالکل واضح ہے. دینا کیا چیز ہے، اس کے جج، حاکم، شہنشاہ سب کے اعمال الله کے حضور پیش ہو رہے ہیں- موصوف کہنا  چاہتے ہیں کہ    جس طرح جج و  احکام  کے سامنے کاغذات پیش ہو سکتے  ہیں اسی طرح  الله تعالی کے حضور بھی پیش ہوتے ہیں –     دنیا میں جب    دستاویزات  پیش کی جاتی ہیں تو ان کا مقصد   عرض اعمال نہیں بلکہ   متعدد  وجوہات ہو سکتی ہیں-   دستاویزات جعلی بھی ہوتے ہیں  انسان ان کو بھی قبول کر لیتے ہیں لیکن مالک الملک کے سامنے جب عمل اتا ہے تو وہ اس کو جانتا ہے کہ کون خلوص سے کر رہا ہے اس بظاہر  انسان کے عمل کے پیچھے کیا کارفرما ہے اس کو سب خبر ہے

اس کتاب میں    اسی عرض اعمال کے گمراہ کن عقیدہ یعنی  نبی صلی الله علیہ وسلم پر درود پیش ہونے والی روایات   اور رشتہ داروں پر عمل پیش ہونے والی روایات  کا جائزہ پیش کیا گیا  ہے  تاکہ اپ اس عقیدہ  سے متعلق روایات میں ضعیف راویوں کی حثیت کو جان سکیں – یاد رہے کہ جو الله کا حق ہے وہ اسی کا ہے جو اس کو چھیننے کی کوشش کرے گا وہ جواب دہ ہو گا

ابو شہر یار

٢٠١٧

یا النبی سلام علیک

نبی صلی الله علیہ وسلم  کے لئے  سلامتی  کی دعا یا درود کا حکم الله تعالی کا ہے-  درود پڑھنے کا ثواب ہے لیکن اس کا مقصد نبی صلی الله علیہ وسلم کو سنانا نہیں یا ان تک پہنچانا نہیں  ہے بلکہ قرآن کے مطابق تمام اعمال آسمان میں جاتے ہیں اور صحیح حدیث کے مطابق یہ سدرہ المنتہی پر آ کر رک جاتے ہیں –

فرشتے کیا الله تک پہنچا رہے ہیں اس کا ذکر صحیح بخاری کی روایت میں  ہے

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [ص:87]: “ إِنَّ لِلَّهِ مَلاَئِكَةً يَطُوفُونَ فِي الطُّرُقِ يَلْتَمِسُونَ أَهْلَ الذِّكْرِ، فَإِذَا وَجَدُوا قَوْمًا يَذْكُرُونَ اللَّهَ تَنَادَوْا: هَلُمُّوا إِلَى حَاجَتِكُمْ ” قَالَ: «فَيَحُفُّونَهُمْ بِأَجْنِحَتِهِمْ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا» قَالَ: ” فَيَسْأَلُهُمْ رَبُّهُمْ، وَهُوَ أَعْلَمُ مِنْهُمْ، مَا يَقُولُ عِبَادِي؟ قَالُوا: يَقُولُونَ: يُسَبِّحُونَكَ وَيُكَبِّرُونَكَ وَيَحْمَدُونَكَ وَيُمَجِّدُونَكَ ” قَالَ: ” فَيَقُولُ: هَلْ رَأَوْنِي؟ ” قَالَ: ” فَيَقُولُونَ: لاَ وَاللَّهِ مَا رَأَوْكَ؟ ” قَالَ: ” فَيَقُولُ: وَكَيْفَ لَوْ رَأَوْنِي؟ ” قَالَ: ” يَقُولُونَ: لَوْ رَأَوْكَ كَانُوا أَشَدَّ لَكَ عِبَادَةً، وَأَشَدَّ لَكَ تَمْجِيدًا وَتَحْمِيدًا، وَأَكْثَرَ لَكَ تَسْبِيحًا ” قَالَ: ” يَقُولُ: فَمَا يَسْأَلُونِي؟ ” قَالَ: «يَسْأَلُونَكَ الجَنَّةَ» قَالَ: ” يَقُولُ: وَهَلْ رَأَوْهَا؟ ” قَالَ: ” يَقُولُونَ: لاَ وَاللَّهِ يَا رَبِّ مَا رَأَوْهَا ” قَالَ: ” يَقُولُ: فَكَيْفَ لَوْ أَنَّهُمْ رَأَوْهَا؟ ” قَالَ: ” يَقُولُونَ: لَوْ أَنَّهُمْ رَأَوْهَا كَانُوا أَشَدَّ عَلَيْهَا حِرْصًا، وَأَشَدَّ لَهَا طَلَبًا، وَأَعْظَمَ فِيهَا رَغْبَةً، قَالَ: فَمِمَّ يَتَعَوَّذُونَ؟ ” قَالَ: ” يَقُولُونَ: مِنَ النَّارِ ” قَالَ: ” يَقُولُ: وَهَلْ رَأَوْهَا؟ ” قَالَ: ” يَقُولُونَ: لاَ وَاللَّهِ يَا رَبِّ مَا رَأَوْهَا ” قَالَ: ” يَقُولُ: فَكَيْفَ لَوْ رَأَوْهَا؟ ” قَالَ: ” يَقُولُونَ: لَوْ رَأَوْهَا كَانُوا أَشَدَّ مِنْهَا فِرَارًا، وَأَشَدَّ لَهَا مَخَافَةً ” قَالَ: ” فَيَقُولُ: فَأُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَهُمْ ” قَالَ: ” يَقُولُ مَلَكٌ مِنَ المَلاَئِكَةِ: فِيهِمْ فُلاَنٌ لَيْسَ مِنْهُمْ، إِنَّمَا جَاءَ لِحَاجَةٍ. قَالَ: هُمُ الجُلَسَاءُ لاَ يَشْقَى بِهِمْ جَلِيسُهُمْ ” رَوَاهُ شُعْبَةُ، عَنِ الأَعْمَشِ، وَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَرَوَاهُ سُهَيْلٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو راستوں میں پھرتے رہتے ہیں اور اللہ کی یاد کرنے والوں کو تلاش کرتے رہتے ہیں۔ پھر جہاں وہ کچھ ایسے لوگوں کو پا لیتے ہیں کہ جو اللہ کا ذکر کرتے ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کو آواز دیتے ہیں کہ آؤ ہمارا مطلب حاصل ہو گیا۔ پھر وہ پہلے آسمان تک اپنے پروں سے ان پر امنڈتے رہتے ہیں۔ پھر ختم پر اپنے رب کی طرف چلے جاتے ہیں۔ پھر ان کا رب ان سے پوچھتا ہے …. حالانکہ وہ اپنے بندوں کے متعلق خوب جانتا ہے …. کہ میرے بندے کیا کہتے تھے؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ وہ تیری تسبیح پڑھتے تھے، تیری کبریائی بیان کرتے تھے، تیری حمد کرتے تھے اور تیری بڑائی کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے؟ کہا کہ وہ جواب دیتے ہیں نہیں، واللہ! انہوں نے تجھے نہیں دیکھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، پھر ان کا اس وقت کیا حال ہوتا جب وہ مجھے دیکھے ہوئے ہوتے؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ اگر وہ تیرا دیدار کر لیتے تو تیری عبادت اور بھی بہت زیادہ کرتے، تیری بڑائی سب سے زیادہ بیان کرتے، تیری تسبیح سب سے زیادہ کرتے۔ پھر اللہ تعالیٰ دریافت کرتا ہے، پھر وہ مجھ سے کیا مانگتے ہیں؟ فرشتے کہتے ہیں کہ وہ جنت مانگتے ہیں۔ بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ دریافت کرتا ہے کیا انہوں نے جنت دیکھی ہے؟ فرشتے جواب دیتے ہیں نہیں، واللہ اے رب! انہوں نے تیری جنت نہیں دیکھی۔ بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ دریافت کرتا ہے ان کا اس وقت کیا عالم ہوتا اگر انہوں نے جنت کو دیکھا ہوتا؟ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ اگر انہوں نے جنت کو دیکھا ہوتا تو وہ اس سے اور بھی زیادہ خواہشمند ہوتے، سب سے بڑھ کر اس کے طلب گار ہوتے۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے کہ وہ کس چیز سے پناہ مانگتے ہیں؟ فرشتے جواب دیتے ہیں، دوزخ سے۔ اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے کیا انہوں نے جہنم دیکھا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں نہیں، واللہ، انہوں نے جہنم کو دیکھا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، پھر اگر انہوں نے اسے دیکھا ہوتا تو ان کا کیا حال ہوتا؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ اگر انہوں نے اسے دیکھا ہوتا تو اس سے بچنے میں وہ سب سے آگے ہوتے اور سب سے زیادہ اس سے خوف کھاتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہیں گواہ  بناتا ہوں کہ میں نے ان کی مغفرت کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر ان میں سے ایک فرشتے نے کہا کہ ان میں فلاں بھی تھا جو ان ذاکرین میں سے نہیں تھا، بلکہ وہ کسی ضرورت سے آ گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ یہ(ذاکرین) وہ لوگ ہیں جن کی مجلس میں بیٹھنے والا بھی نامراد نہیں رہتا۔ اس حدیث کو شعبہ نے بھی اعمش سے روایت کیا لیکن اس کو مرفوع نہیں کیا۔ اور سہیل نے بھی اس کو اپنے والدین ابوصالح سے روایت کیا، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے

ابن مسعود  رضی الله عنہ سے منسوب روایات 

ایک راوی زاذان نے ان الفاظ کو تبدیل کیا اور مسند البزار کی روایت ہے

حَدَّثَنَاهُ يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: نا جَرِيرٌ، عَنْ حُسَيْنٍ الْخَلْقَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ زَاذَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً سَيَّاحِينَ يُبَلِّغُونِي عَنْ أُمَّتِي السَّلَامَ» ، قَالَ حُسَيْنٌ فِي حَدِيثِهِ: «إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً يَطُوفُونَ فِي  الطُّرُقِ يُبَلِّغُونَ، عَنْ أُمَّتِي السَّلَامَ» ، وَهَذَا الْحَدِيثُ لَا نَعْلَمُهُ يُرْوَى عَنْ عَبْدِ اللَّهِ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ

حُسَيْنٍ الْخَلْقَانِيّ نے روایت کیا کہ عبد الله بن السَّائِبِ نے زاذان سے روایت کیا اس نے عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ سے روایت کیا کہ .. اللہ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو راستوں میں پھرتے رہتے ہیں اور میری امت کا سلام مجھ تک لاتے ہیں

معجم الشیوخ از امام الذہبی کے مطابق زاذان کبھی بھی ابن مسعود رضی الله عنہ سے نہیں ملا لہذا یہ روایت انقطاع کے سبب ضعیف ہے- تلخیص الموضوعات میں بھی الذھبی نے کہا ہے زاذان کی ملاقات ابن مسعود رضی الله عنہ سے نہیں ہے –الذھبی حیرت ہے  کہ تلخیص مستدرک میں اس روایت کو  صحیح کہہ گئے ہیں

زاذان اہل تشیع کے مطابق کٹر شیعہ ہیں اور  ابو بکر و عمر کی تنقیص کرتے ہیں اس کا ذکر بشار عواد المعروف نے تہذیب الکمال کے حاشیہ میں بھی کیا ہے

شیعہ عالم ابن داوود الحلي  کتاب رجال ابن داود میں کہتے ہیں

 أبو عمرو الفارسى زاذان، بالزاي والذال المعجمتين ى (جخ) خاص به

زاذان، علی کے خاص اصحاب میں سے ہے

رجال البرقي کے مطابق بھی زاذان خاص تھے

کہا جاتا ہے یہ قبیلہ مضر کا تھا

شیعہ عالم کتاب الكنى والالقاب ج1 از  عباس القمي   لکھتے ہیں

نقل الاغا رضا القزويني في ضيافة الاخوان عن القاضي ابى محمد ابن ابي زرعة الفقيه القزويني ان زاذان كان من اصحاب امير المؤمنين ” ع ” وقتل تحت رايته ثم انتقل اولاده إلى قزوين.  قال الرافعي زاذانية قبيلة في قزوين فيهم أئمة كبار من المتقدمين والمتأخرين انتهى

آغا رضا القزويني نے ضيافة الاخوان میں القاضي ابى محمد ابن ابي زرعة الفقيه القزويني سے روایت کیا ہے کہ زاذان امیر المومنین علی کے اصحاب میں تھا اور ان کے جھنڈے تلے قتل ہوا پھر اس کی اولاد قزوین منتقل ہوئی اور  الرافعي نے کہا کہ  زاذانية  قبیلہ ہے قزوين میں  جس سے بہت متقدمین اور متاخرین میں بہت سے (شیعہ) علماء آئے ہیں

اہل سنت میں ابن حجر نے بھی اس کو متشیع قرار دیا ہے –  اسی طرح اندلس کے مشہور محدث  امام أحمد بن سعيد بن حزم الصدفي المنتجالي    نے زاذان کو اصحاب علی میں شمار کیا ہے – الکمال از مغلطاي  میں ہے

وفي «كتاب المنتجالي»: زاذان أبو عمر كان صاحب علي

یاد رہے کہ امام أحمد بن سعيد بن حزم الصدفي المنتجالي ، امام ابن حزم  (علي بن أحمد بن سعيد بن حزم بن غالب) کے والد ہیں جو ایک عظیم محدث ہیں – اندلس  کے محدثین زاذان کی روایت کردہ  عود روح والی روایت کو رد کرتے تھے

ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ نے اس بات کا ذکر کتابچہ ایمان خالص میں کیا تھا

دراصل قبر میں مردے کے جسم میں روح کے لوٹائے جانے کی روایت شریعت ِجعفریہ کی روایت ہے جو اس روایت کے راوی زاذان (شیعہ) نے وہاں سے لے کر براء بن عازب سے منسوب کر دی ہے۔

( ایمانِ خالص ، دوسری قسط،ص : 18)

اس پر مولویوں نے ایک واویلا مچا دیا کہ زاذان کو اہل سنت میں سے کسی نے شیعہ نہیں کہا لہذا ڈاکٹر صاحب نے دلیل دی کہ اس کو ابن حجر  نے تقریب التہذیب میں شیعہ قرار دیا ہے- ابن حجر نے تقریب التہذیب میں کہا ہے

فیه شیعیة

اس میں شیعیت ہے

اس پر زاذان کے   کرم فرماؤں نے مزید خامہ فرسائی کی اس کا ذکر بھی ہونا چاہیے

ایک غیر مقلد مولوی صاحب نے لکھا

فیہ شیعیة  ( اس میں شیعیت ہے۔) تو اب کے شیعیت کو شیعہ بنانے والوں کو کچھ نہ کچھ تو ضرور حاصل ہوگا، کیونکہ یہ بھی تو ایک کارنامہ ہی ہے نا

http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/4888/156/

دوسری غیر مقلد مولوی رفیق طاہر صاحب لکھتے ہیں

احمد بن حجر جنہوں نے زازان پر شیعہ ہونے کی تہمت لگائی ہےاور یہ بھی نہیں کہا کہ وہ شیعہ ہے بلکہ یہ کہا ہے : ’فیہ تشیع قلیل‘ اس کے اندر تھوڑا سا تشیع ہے ، تھوڑی سی شیعیت ہے

http://www.urduvb.com/forum/showthread.php?t=18614
http://forum.mohaddis.com/threads/منکرین-برزخ-کا-عقیدہ-اور-اس-کا-رد.3280/

اپ دیکھیں کس قدر دھوکہ ہے کہ ابن حجر کے الفاظ تک تبدیل کر دے ہیں کہ فیه شیعیة  کو فیہ تشیع قلیل بنا دیا اور یہ حوالہ بھی نہیں دیا کہ کس کتاب سے اس کو اخذ کیا

رفیق طاہر کی تقریر (٢٣ منٹ پر ) یہاں سن سکتے ہیں جہاں وہ زاذان کو فیه تشیع قلیل کہہ رہے ہیں

رفیق طاہر کے التباس کا رد اسی سے ہو جاتا ہے کہ

تاریخ ابن خلدون ج ٢ ص ٢٩٩ کے مطابق رفض کا لفظ زید بن علی (المتوفی ١٢٢ ھ) نے سب سے پہلے شیعوں کے لئے استعمال کیا.  شیعوں نے زید بن علی سے پوچھا کہ آپ کی ابو بکر اور عمر کے بارے میں کیا رائے ہے. انہوں نے کہا کہ ہم ان سے زیادہ امارت کے حقدار تھے لیکن انہوں  نے یہ حق ہم سے چھین لیا لیکن یہ کام کفر تک نہیں پہنچتا. اس پر شیعوں نے ان کو برا بھلا کہا اور جانے لگے. زید نے کہا

 رفضونی  تم نے مجھے چھوڑ دیا

اسی وقت سے شیعہ رافضیہ کے نام سے موصوف ہوۓ

 زید بن علی سے پہلے شیعہ چاہے سبائی ھو یا غالی یا غیر غالی سب کو شیعہ ہی بولا جاتا رہا اور یہ انداز جرح و تعدیل کے ائمہ کا ہے اس کی متعدد مثالیں ہیں

تفصیل کے لئے دیکھیں

⇑ ائمہ جرح و تعدیل جب کسی راوی کو شیعہ کہتے ہیں اس سے کیا ان کی مراد علی کا خاص ساتھی ہوتی ہے ؟

https://www.islamic-belief.net/q-a/علم-الحدیث/

مولانا نیاز احمد جن کا ڈاکٹر عثمانی کی تنظیم سے کچھ لینا دینا نہیں ہے وہ فیه شیعیة کا ترجمہ کرتے ہیں

ابو جابر دامانوی کتاب دین الخالص میں اثر پیش کرتے ہیں

اس پر محدثین کا کہنا ہے کہ اس میں عطاء بن السائب الثقفي الكوفي ہے جس سے خالد بن عبد الله نے روایت کیا ہے کتاب المختلطين  از صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق

من سمع منه بأخرة فهو مضطرب الحديث. منهم: هشيم، وخالد بن عبد الله.

جس نے عطاء بن السائب الثقفي الكوفي  سے آخر میں سنا ہے تو وہ مضطرب الحدیث ہے اور ان سننے والوں  میں ہیں  هشيم اور خالد بن عبد الله.

لہذا یہ اثر قابل رد ہے کیونکہ یہ دور  اختلاط کا  ہے

میزان الاعتدال از الذھبی میں ہے کہ عطاء بن السائب کو بصرہ میں  وہم ہوتا تھا محدثین میں ابن علیہ نے کہا

ابن علیہ :  قدم علينا عطاء بن السائب البصرة، فكنا نسأله، فكان يتوهم فنقول له: من؟ فيقول: أشياخنا ميسرة، وزاذان، وفلان.

عطاء بن السائب ہمارے پاس بصرہ پہنچا تو ہم نے اس سے سوال کیے پس یہ وہم کا شکار ہوتا ہم اس سے کہتے کس نے کہا ؟ تو کہتا  ہمارے شیوخ ميسرة،  اور زاذان  اور فلاں نے

محدثین میں مشھور ہوا کہ جب بھی تین نام ایک ساتھ بیان کرے تو یہ اس کا  اختلاط ہے

دامانوی صاحب اثر پیش کرتے ہیں کہ

لیکن جیسا واضح کیا یہ مشکوک اثر ہے کیونکہ اس  میں نے تین نام لئے ہیں

طبقات ابن سعد میں ہے ابن علیہ نے کہا

  وسألت عنه شعبة فقال: إذا حدثك عن رجل واحد فهو ثقة. وإذا جمع فقال زاذان وميسرة وأبو البختري فاتقه .

میں نے امام شعبہ سے اس کے متعلق پوچھا: کہا جب یہ ایک شخص سے روایت کرے تو صحیح ہے لیکن جب یہ زاذان اور ميسرة اور أبو البختري کو ایک ساتھ جمع کرے تو بچو 

اسی طرح تاریخ الاسلام از الذھبی میں ہے

قال ابن المديني: قُلْتُ لِيَحْيَى الْقَطَّانِ: مَا حَدَّثَ سُفْيَانُ وَشُعْبَةُ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ صَحِيحٌ هُوَ؟ قَالَ: نَعَمْ إِلا حَدِيثَيْنِ كَانَ شُعْبَةُ يَقُولُ: سَمِعْتُهُمَا بِأَخَرَةٍ عَنْ زَاذَانَ

ابن المدینی نے کہا میں نے یحیی سے پوچھا کہ جو شعبہ اور سفیان نے عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ سے روایت کیا کیا صحیح ہے ؟ کہا ہاں سوائے دو حدیثوں کے جو شعبہ کہتے عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ نے آخر میں زاذان سے سنی تھیں

یعنی محدثین کو عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ  کی زاذان سے روایت تک پر اعتبار نہ تھا

دوسری طرف  عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ کی بنیاد پر زاذان کو پابند تراویح ثابت کیا جا رہا ہے

حبل الله کیایک اشاعت میں کتاب  إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از کے حوالے سے ابو بشر دولابی کا قول لکھا گیا تھا

 كان فارسيا من شيعة علي، ومات سلطان عبد الملك

زاذان شیعہ تھا عبد الملک بن مروان کے دور میں مرا

غیر مقلد عالم ابو جابر دامانوی نے الدولابی کو  زاذان کو بچانے کے لئے ضعیف قرار دے دیا ہے لہذا کتاب دعوت قرآن کے نام پر قرآن و حدیث سے انحراف میں لکھا

جبکہ کتاب وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان  از  ابن خلكان میں ابو بشر الدولابی کا تعارف اس طرح کرایا گیا ہے

أبو بشر محمد بن أحمد بن حماد بن سعد، الأنصاري بالولاء، الوراق الرازي الدولابي؛ كان عالما بالحديث والأخبار والتواريخ

أبو بشر محمد بن أحمد بن حماد بن سعد، الأنصاري … حدیث کے عالم اور تاریخ کے عالم ہیں

لسان المیزان کے مطابق  الدولابی کے حوالے سے اس قول کو نعیم بن حماد نے کہا ہے

قال ابن عَدِي: ابن حماد متهم فيما قاله في نعيم بن حماد لصلابته في أهل الرأي.
ابن عدی نے کہا نعیم نے کہا اہل رائے کی اولاد میں سے ہے متہم ہے

یہ جرح غیر مفسر ہے کیونکہ کسی کا اہل رائے میں سے ہونا قابل جرح نہیں ہے- صحیح بخاری کی کتاب کی سند میں بہت سے اہل رائے کے لوگ ہیں

دارقطنی، الدولابی کے بارے میں  کہتے ہیں
تكلموا فيه، لما تبين من أمرة الأخير
ان پر کلام کیا جاتا ہے میں ان کے بارے میں خیر کے سوا کچھ نہیں جانتا

امام دولابی کا تذکرہ  ارشاد الحق اثری نے مقالات  اثری میں تفصیل سے ذکر کیا ہے

دامانوی نے الدولابی پر خوب بھڑاس نکالنے کے بعد رخ محدث  مغلطاي بن قليج بن عبد الله البكجري المصري الحكري الحنفي، أبو عبد الله، علاء الدين (المتوفى: 762هـ) کی طرف کیا اور کتاب دعوت قرآن کے نام پر قرآن و حدیث سے انحراف میں لکھا

اور ” کنجری” قرار دیا ؟

اس کتاب کی اشاعت سال ١٩٩٥  میں ہوئی تب سے اب تک وضاحت نہیں کی گئی کہ یہ لفظ   مغلطاي بن قليج کے لئے کیوں زبیر علی زئی نے استمعال کیا

خطوط میں زبیر علی محدثین کو گالیاں لکھ کر ابو جابر دامانوی کو پوسٹ کرتے رہے اور وہ بھی بلا تحقیق بیان کرتے رہے

ممکن ہے یہ ٹائپ کی غلطی ہو لیکن کیا یہ علماء کے لئے مناسب ہے کہ نظر ثانی کیے بغیر مسودے کی تشہیر کرتے ہیں

اس سے ظاہر ہے کہ یہ کتاب اغلاط سے پر ہے جس میں تحقیق کم اور مخالف پر بھڑاس زیادہ ہے

چند سال پہلے ارشد کمال نے کتاب المسند فی عذاب القبر میں اسی قسم کی حماقتوں کا مظاہرہ کیا

دوسری طرف  یہ حیرت انگیز ہے کہ ابن حجر نے ٢٠٠ سے زائد مرتبہ تہذیب التہذیب  میں واقدی کا حوالہ دیا ہے اور خبر کو لیا ہے

الکنی میں محدث دولابی نے ٣٥ مرتبہ اسی سند سے رجال پر کلام کیا ہے

ارشد کمال نے تاریخ بغداد کے حوالے سے محمد بن ابراہیم کو غیر ثقہ قرار دیا ہے جبکہ اس کتاب میں ان پر کوئی جرح منقول نہیں ہے

ابن تیمیہ نے فتووں میں واقدی کو جرح کو رد کیا ہے مثلا راس حسین میں کہا

ومعلوم أن الواقدي نفسه خير عند الناس

اور معلوم ہے کہ بے شک واقدی نفسا لوگوں کے نزدیک خیر والا ہے

ابن ہمام   نے کہا: وهذا تقوم به الحجة عندنا إذا وثقنا الواقدي إلخ [فتح القدير ج 1ص 69 

محدثین نے رجال کے حالات اور پیدائش و وفات میں واقدی کے اقوال پر بھروسہ کیا ہے  اور یھاں بھی ایسا ہی ہے کہ واقدی نے خبر دی کہ زاذان شیعان میں سے تھا واقدی نے یہ خبر دی ہے جرح نہیں کی

مزید علتیں

اس سند میں  عَبد اللهِ بْنُ السائب  پر محدثین کی آراء ہیں

الجرح و التعدیل از ابن ابی حاتم میں ہے

حدثنا عبد الرحمن نا صالح بن أحمد بن حنبل نا علي – يعني ابن المديني – قال سمعت يحيى – يعني ابن سعيد – قال: أنكر سفيان في حديث عبد الله بن السائب عن زاذان (والأمانة في كل شئ في الوضوء وفي الركوع) قال سفيان: أنا ذهبت بالأعمش إلى عبد الله بن السائب

یحیی بن سعید نے سفیان کی روایت کا انکار کیا حدیث (والأمانة في كل شئ في الوضوء وفي الركوع)  جو عبد  الله بن السائب عن زاذان سے ہے- سفیان نے کہا میں اعمش کے ساتھ  عبد الله بن السائب کے پاس گیا تھا 

یعنی عبد  الله بن السائب عن زاذان  کی سند سے   روایات کو  امام یحیی بن سعید نے رد کیا

خود عبد  الله بن السائب  پر امام احمد کا کوئی قول نہیں ہے نہ جرح ہے نہ تعدیل ملتی ہے

  عبدللہ کی کتاب   العلل ومعرفة الرجال میں الثوري  کی تدلیس پر ہے 

سَمِعت أبي يَقُول قَالَ يحيى بن سعيد مَا كتبت عَن سُفْيَان شَيْئا إِلَّا مَا قَالَ حَدثنِي أَو حَدثنَا إِلَّا حديثين ثمَّ قَالَ أبي حَدثنَا يحيى بن سعيد عَن سُفْيَان عَن سماك عَن عِكْرِمَة ومغيرة عَن إِبْرَاهِيم فَإِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَكُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ قَالَا هُوَ الرجل يسلم فِي دَار الْحَرْب فَيقْتل فَلَيْسَ فِيهِ دِيَة فِيهِ كَفَّارَة قَالَ أبي هذَيْن الْحَدِيثين الَّذِي زعم يحيى أَنه لم يسمع سُفْيَان يَقُول فيهمَا حَدثنَا أَو حَدثنِي

عبدللہ کہتے ہیں کہ میرے باپ احمد نے کہا کہ یحیی بن سعید نے کہا میں نے سفیان سے کچھ نہ لکھا سوائے اس کے جس میں انہوں نے حدثنی یا حدثنا بولا      –    اور دو حدیثین ہیں (جن میں انہوں نے   تحدیث نہیں کی )-       قَالَ أبي حَدثنَا يحيى بن سعيد عَن سُفْيَان عَن سماك عَن عِكْرِمَة ومغيرة عَن إِبْرَاهِيم فَإِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَكُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ قَالَا هُوَ الرجل يسلم فِي دَار الْحَرْب فَيقْتل فَلَيْسَ فِيهِ دِيَة فِيهِ كَفَّارَة  عبد الله نے کہا میرے باپ نے کہا یہ دو حدیثین ہیں جن پر یحیی کا دعوی ہے ان کو سفیان نے نہیں سنا اور ان میں حدثنا اور حدثنی کہا ہے  

دوسری طرف  احمد کا قول تہذیب الکمال میں ہے جس کے مطابق عبد الله بن السائب الكندي، الشيباني، الكوفي سے الثوري  نے صرف تین روایات سنی ہیں

وقال: أحمد بن حنبل: سمع منه الثوري ثلاثة أحاديث. «تهذيب الكمال» 14/ (3289

اب یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ امام سفیان باوجود اس کے کہ انہوں نے حدیث سنی نہیں ہوتی تھی اس پر بھی حدثنی کہہ دیتے تھے – اس علم کے بعد سفیان پر کذب کا فتوی جاری کیوں نہیں ہوا؟ یہ محدثین نے وضاحت نہیں کی کیونکہ اگر راوی نے سنا نہ ہو اور وہ حدثنی کہے تو یہ سراسر جھوٹ ہے

ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے ہی منسوب دیگر روایات ہیں

مسند احمد میں ہے

 حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا سريج قال ثنا عبد الله بن نافع عن بن أبي ذئب عن سعيد المقبري عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لا تتخذوا قبري عيدا ولا تجعلوا بيوتكم قبورا وحيثما كنتم فصلوا علي فإن صلاتكم تبلغني

معجم الاوسط طبرانی میں ہے

 حدثنا موسى بن هارون ، نا مسلم بن عمرو الحذاء المديني ، نا عبد الله بن نافع ، عن ابن أبي ذئب ، عن سعيد بن أبي سعيد المقبري ، عن أبي هريرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : « لا تجعلوا بيوتكم قبورا ، ولا تجعلوا قبري عيدا ، وصلوا علي ، فإن صلاتكم تبلغني حيث ما كنتم » «

ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میری قبر کو میلہ کے لئے اختیار مت کرو اور نہ اپنے گھروں کو قبر بناؤ اور جہاں کہیں بھی تم ہو مجھ پر درود کہو کہ یہ مجھ تک پہنچتا ہے

طبرانی کہتے ہیں

لم يصل هذا الحديث عن ابن أبي ذئب إلا عبد الله بن نافع

صرف عبد الله بن نافع نے اس  روایت کو ابن ابی ذئب سے ملایا ہے

 الہیثمی  مجمع الزوائد میں کہتے ہیں

  رواه أبو يعلى وفيه عبد الله بن نافع وهو ضعيف

اس کو أبو يعلى نے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں  عبد الله بن نافع ہے جو ضعیف ہے

اپ اوپر دونوں سندوں کو دیکھ سکتے ہیں اس میں عبد الله بن نافع  ہے جو ضعیف ہے

اسی سند سے سنن ابوداود میں یہ روایت ہے

 علی  رضی الله عنہ سے منسوب روایات

مسند ابویعلی میں اس قسم کی ایک روایت علی رضی الله عنہ سے بھی منسوب کی گئی ہے

حدثنا موسى بن محمد بن حيان ، حدثنا أبو بكر الحنفي ، حدثنا عبد الله بن نافع ، أخبرني العلاء بن عبد الرحمن قال : سمعت الحسن بن علي بن أبي طالب قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : « صلوا في بيوتكم ، لا تتخذوها قبورا ، ولا تتخذوا بيتي عيدا ، صلوا علي وسلموا ، فإن صلاتكم  وسلامكم يبلغني أينما كنتم »

علی نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : گھروں میں نماز پڑھو – ان کو قبر مت کرو – میرے گھر پر میلہ  نہ لگاو – اور مجھ پر سلام کہو اور درود کیونکہ تمہارا درود و سلام مجھ تک اتا ہے جہاں کہیں بھی تم ہو

یہاں بھی عبد الله بن نافع الصائغ  (پیدائش ١٢٠ کے اس پاس – وفات  ٢٠٦ ہجری ) کا تفرد ہے

الکامل از ابن عدی میں ہے امام احمد نے کہا

لم يكن صاحب حديث كان ضيقا فيه

یہ صاحب حدیث نہیں بلکہ اس سے تو اس کا سینہ تنگ ہوتا ہے

امام احمد کے بقول یہ ٤٠ سال امام مالک کے ساتھ رہا لیکن کچھ روایت نہیں کیا جبکہ ابن عدی کہتے ہیں

وعبد الله بن نافع قد روى عن مالك غرائب یہ امام مالک سے عجیب و غریب باتیں روایت کرتا ہے

شیعہ عالم کی کتاب أصحاب الامام الصادق (ع)از  عبد الحسين الشبستري کے مطابق عبد الله بن نافع الصائغ اصحاب محمد بن عبد الله المہدی میں سے ہے  جو اس امت کے المہدی تھے اور ان سے متعلق روایات گھڑی گئیں ہیں جن کا ذکر راقم نے اپنی کتاب میں کیا ہے

ہیثمی کی کتاب  كشف الأستار عن زوائد البزار میں ایک اور سند ہے

حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ اللَّيْثِ الْبَغْدَادِيُّ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، ثنا عِيسَى بْنُ جَعْفَرِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الطَّالِبِيُّ، ثنا عَلِيُّ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّهِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لا تَجْعَلُوا قَبْرِي عِيدًا، وَلا بُيُوتَكُمْ قُبُورًا، وَصَلُّوا عَلَيَّ وَسَلِّمُوا، فَإِنَّ صَلاتَكُمْ تَبْلُغُنِي» .
قَالَ الْبَزَّارُ: لا نَعْلَمُهُ عَنْ عَلِيٍّ إِلا بِهَذَا الإِسْنَادِ، وَقَدْ رَوَى بِهِ أَحَادِيثَ مَنَاكِيرَ، وَفِيهَا أَحَادِيثُ صَالِحَةٌ، وَهَذَا غَيْرُ مُنْكَرٍ، قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ: «لا تَجْعَلُوا قَبْرِي عِيدًا، وَلا بُيُوتَكُمْ قُبُورًا» .

البزار نے کہا علی سے منسوب ہم اس روایت کو اسی سند سے جانتے ہیں اور اس نے منکر روایات بیان کی ہیں اور اس کی احادیث صالح بھی ہیں اور یہ روایت کئی طرق سے ہے قبر کو میلہ مت کرو اور نہ گھروں کو قبر

سند میں عِيسَى بْنُ جَعْفَرِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ مجھول ہے اور علي بن عمر  کو ابن حجر نے مستور قرار دیا ہے

حسن رضی الله عنہ سے منسوب روایات

معجم الکبیر طبرانی کی روایت ہے

 حدثنا أحمد بن رشدين المصري ثنا سعيد بن أبي مريم ثنا محمد بن جعفر أخبرني حميد بن أبي زينب : عن حسن بن حسن بن علي بن أبي طالب عن أبيه أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : حيث ما كنتم فصلوا علي فإن صلاتكم تبلغني

حسن بن حسن بن علی  نے حسن رضی الله عنہ سے روایت کیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تم جہاں بھی ہو درود کہو کیونکہ یہ مجھ تک پہچ رہا ہے

 ہیثمی مجمع الزوائد میں کہتے ہیں

رواه الطبراني في الكبير والأوسط وفيه حميد بن أبي زينب ولم أعرفه، وبقية رجاله رجال الصحيح.

اس کو طبرانی نے روایت کیا الکبیر میں اور الاوسط میں اس میں حميد بن أبي زينب  ہے جس کو میں نہیں جانتا اور باقی رجال صحیح کے ہیں

حیرت ہے کہ سخاوی کتاب القول البديع ص 153  میں اس سند کو حسن کہتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں

إنّ فيه من لم يعرف

اس میں راوی ہے جس کو میں نہیں جانتا

کتاب سير أعلام النبلاء از الذھبی میں حسن رضی الله عنہ کے ترجمہ میں ہے

ابْنُ عَجْلاَنَ: عَنْ سُهَيْلٍ، وَسَعِيْدٍ مَوْلَى المُهْرِيِّ، عَنْ حَسَنِ بنِ حَسَنِ بنِ عَلِيٍّ:
أَنَّهُ رَأَى رَجُلاً وَقَفَ عَلَى البَيْتِ الَّذِي فِيْهِ قَبْرُ النَّبِيِّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يَدْعُو لَهُ، وَيُصَلِّي عَلَيْهِ، فَقَالَ لِلرَّجُلِ (1) : لاَ تَفْعَلْ، فَإِنَّ رَسُوْلَ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- قَالَ: (لاَ تَتَّخِذُوا بَيْتِيَ عِيْداً، وَلاَ تَجْعَلُوا بُيُوْتَكُم قُبُوْراً، وَصَلُّوا عَلَيَّ حَيْثُ مَا كُنْتُم، فَإِنَّ صَلاَتَكُم تَبْلُغُنِي) (2) .
هَذَا مُرْسَلٌ، وَمَا اسْتَدَلَّ حَسَنٌ فِي فَتْوَاهُ بِطَائِلٍ مِنَ الدَّلاَلَةِ، فَمَنْ وَقَفَ عِنْدَ الحُجْرَةِ المُقَدَّسَةِ ذَلِيْلاً، مُسْلِماً، مُصَلِيّاً عَلَى نَبِيِّهِ، فَيَا طُوْبَى لَهُ، فَقَدْ أَحْسَنَ الزِّيَارَةَ، وَأَجْمَلَ فِي التَّذَلُّلِ وَالحُبِّ، وَقَدْ أَتَى بِعِبَادَةٍ زَائِدَةٍ عَلَى مَنْ صَلَّى عَلَيْهِ فِي أَرْضِهِ، أَوْ فِي صَلاَتِهِ، إِذِ الزَّائِرُ لَهُ أَجْرُ الزِّيَارَةِ، وَأَجْرُ الصَّلاَةِ عَلَيْهِ، وَالمُصَلِّي عَلَيْهِ فِي سَائِرِ البِلاَدِ لَهُ أَجْرُ الصَّلاَةِ فَقَطْ، فَمَنْ صَلَّى عَلَيْهِ وَاحِدَةً، صَلَّى الله عَلَيْهِ عَشْراً، وَلَكِنْ مَنْ زَارَهُ – صَلَوَاتُ اللهِ عَلَيْهِ – وَأَسَاءَ أَدَبَ الزِّيَارَةِ، أَوْ سَجَدَ لِلْقَبْرِ، أَوْ فَعَلَ مَا لاَ يُشْرَعُ، فَهَذَا فَعَلَ حَسَناً وَسَيِّئاً، فَيُعَلَّمُ بِرفْقٍ، وَاللهُ غَفُوْرٌ رَحِيْمٌ.
فَوَاللهِ مَا يَحْصَلُ الانْزِعَاجُ لِمُسْلِمٍ، وَالصِّيَاحُ وَتَقْبِيْلُ الجُدْرَانِ، وَكَثْرَةِ البُكَاءِ، إِلاَّ وَهُوَ مُحِبٌّ للهِ وَلِرَسُوْلِهِ، فَحُبُّهُ المِعْيَارُ وَالفَارِقُ بَيْنَ أَهْلِ الجَنَّةِ وَأَهْلِ النَّارِ، فَزِيَارَةُ قَبْرِهِ مِنْ أَفَضْلِ القُرَبِ، وَشَدُّ الرِّحَالِ إِلَى قُبُوْرِ الأَنْبِيَاءِ وَالأَوْلِيَاءِ، لَئِنْ سَلَّمْنَا أَنَّهُ غَيْرُ مَأْذُوْنٍ فِيْهِ لِعُمُوْمِ قَوْلِهِ – صَلَوَاتُ اللهُ عَلَيْهِ -: (لاَ تَشُدُّوا الرِّحَالَ إِلاَّ إِلَى ثَلاَثَةِ مَسَاجِدَ) (3) .
فَشَدُّ الرِّحَالِ إِلَى نَبِيِّنَا -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-مُسْتَلْزِمٌ لِشَدِّ الرَّحْلِ إِلَى مَسْجِدِهِ، وَذَلِكَ مَشْرُوْعٌ بِلاَ نِزَاعٍ، إِذْ لاَ وُصُوْلَ إِلَى حُجْرَتِهِ إِلاَّ بَعْدَ الدُّخُوْلِ إِلَى مَسْجِدِهِ، فَلْيَبْدَأْ بِتَحِيَّةِ المَسْجِدِ، ثُمَّ بِتَحِيَّةِ صَاحِبِ المَسْجِدِ – رَزَقَنَا اللهُ وَإِيَّاكُمْ ذَلِكَ آمِيْنَ

ابْنُ عَجْلاَنَ: عَنْ سُهَيْلٍ، وَسَعِيْدٍ مَوْلَى المُهْرِيِّ، عَنْ حَسَنِ بنِ حَسَنِ بنِ عَلِيٍّ سے روایت کیا کہ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا جو اس گھر میں رکا جس میں قبر النبی ہے اس سے دعا کر رہا تھا درود کہہ رہا تھا پس ایک رجل نے کہا یہ مت کر کیونکہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے میرے گھر کو میلہ مت کرو اور نہ اپنے گھروں کو قبر بنا دو اور مجھ پر درود کہو جہاں بھی تم ہو کیونکہ تمہارا درود مجھ تک پہنچتا ہے -یہ مرسل ہے پر اس فتوے میں جو اچھا ہے اس پر اور دلائل سے نشاندھی ہوتی ہے  –  پس جو حجرہ مقدس کے پاس اپنے اپ کو تذلل میں رکھتے ہوئے مسلم بنا   اور درود نبی پر کہتے ہوئے رکا تو اس کے لئے بشارت ہے تو پس یہ بہترین زیارت ہے اور تذلل میں سب سے اجمل ہے اور محبت میں اور جو زائر نبی صلی الله علیہ وسلم پر ان کی زمین پر درود کہے تو یہ عبادت میں زائد ہے تو اس پر اجر بھی زائد ہے اور درود کہنے کا اجر ہے اور تمام شہروں میں جو درود کہیں ان کے تو فقط اجر ہے اور جس نے ایک بار کہا اس پر دس بار سلامتی ہے لیکن جس نے نبی صلی الله علیہ وسلم کی زیارت کی اور ادب زیارت میں خرابی کی یا قبر کو سجدہ کیا یا کوئی غیر شرعی کام کیا تو یہ کام اچھا و برا ہے پس فرق کو جانو اور الله تو غفور و رحیم ہے – الله کی قسم مسلمان کو جو مشکل ملتی ہے  اور جو وہ روتا ہے اور دیواروں کو چومتا ہے اور بہت روتا ہے تو یہ کچھ نہیں صرف الله اور اس کے رسول سے محبت ہے تو اس محبت کا معیار ہے اور یہ اہل جنت و جہنم کو الگ کرنے والی ہے پس قبر نبی کی زیارت قرب میں افضل ہے اور سواری کسنا انبیاء اور اولیاء کی قبور کے لئے ہے اور اس میں قول نبوی سے ممانعت نہیں ہے کہ اپ نے فرمایا سواری نہ کسی جائے صرف تین مسجدوں کے لئے پس ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم کے لئے سواری کسنا تو لازم ہے کہ ان کی مسجد کا سفر ہو اور یہ مشروع ہے اس میں نزاع نہیں ہے کیونکہ حجرہ نہیں ملے گا جب تک مسجد میں داخل نہ ہو لیں پس تَحِيَّةِ المَسْجِدِ سے شروعات کرو پھر تَحِيَّةِ صاحب المَسْجِدِ سے شروع کرو الله تم کو اور ہم کو یہ دے امین

الذھبی نے چند جملوں سے ابن تیمیہ کی کتاب کا رد کر دیا

حسین رضی الله عنہ سے منسوب روایات

 مسند ابی یعلی، مصنف ابن ابی شیبہ  میں حسین رضی الله عنہ سے منسوب ایک روایت ہے

حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة ، حدثنا زيد بن الحباب ، حدثنا جعفر بن إبراهيم ، من ولد ذي الجناحين ، قال : حدثنا علي بن عمر ، عن أبيه ، عن علي بن حسين ، أنه رأى رجلا يجيء إلى فرجة كانت عند قبر النبي صلى الله عليه وسلم ، فيدخل فيها فيدعو ، فنهاه ، فقال : ألا أحدثكم حديثا سمعته من أبي ، عن جدي ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، قال : « لا تتخذوا قبري عيدا ، ولا بيوتكم قبورا ، فإن تسليمكم يبلغني أينما كنتم »

علی بن حسین نے ایک آدمی کو دیکھا جو اس سوراخ تک آیا جو قبر النبی میں ہے اس میں سے قبر میں داخل ہوا اور وہاں دعا کی – پس انہوں نے منع کیا اور کہا میں تم سے حدیث بیان کرتا ہو جو میں نے حسین سے سنی انہوں نے علی سے انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے کہ اپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : میری قبر کو میلہ کا مقام مت کرو –اور نہ اپنے گھروں کو قبر کرو  کیونکہ  تمہارا درود مجھ تک پہنچ رہا ہے جہاں کہیں بھی تم ہو

ہیثمی  مجمع الزوائد میں کہتے ہیں

رواه أبو يعلى وفيه جعفر بن إبراهيم الجعفري ذكره ابن أبي حاتم ولم يذكر فيه جرحاً وبقية رجاله ثقات

اس کو ابو یعلی نے روایت کیا ہے اس میں جعفر بن إبراهيم الجعفري ہے جس کا ذکر ابن ابی حاتم نے کیا ہے اور اس پر کوئی جرح ذکر نہیں کی اور باقی سب ثقات ہیں

ابن حجر لسان المیزان میں کہتے ہیں

فلعل إبراهيم نسبه إلى جده الأعلى جعفر إن كان الخبر لجعفر

اگر یہ خبر جعفر ہی کی ہے تو ممکن ہے کہ جعفر کو اس کے جد اعلی ابراہیم کی طرف نسبت دی گئی ہے

 ساتھ ہی ابن حجر کہتے ہیں

وذكره ابن أبي طي في رجال الشيعة

اور ابن أبي طي نے  جعفر بن إبراهيم کا ذکر رجال شیعہ میں ذکر کیا ہے

اس سند میں زيد بن الحباب بھی ہے جس کو کثیر الخطا  امام احمد نے قرار دیا ہے

سب سے بڑھ کر قبر نبوی میں ایک سوراخ بھی تھا ؟ جس میں سے انسان گزر کر قبر میں داخل ہو جاتا تھا ایسا کسی بھی صحابی نے بیان نہیں کیا- اس سوراخ کو بند کیوں نہیں کیا گیا- یہ روایت منکر ہے

حسن بن حسن بن علی کی روایت

مصنف عبد الرزاق [ص:577]  6726  ٤٨٣٩  اور مصنف ابن ابی شیبہ ٧٥٤٣ کی روایت ہے

عَبْدُ الرَّزَّاقِ، – عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ رَجُلٍ يُقَالُ لَهُ: سُهَيْلٌ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ، قَالَ: رَأَى قَوْمًا عِنْدَ الْقَبْرِ فَنَهَاهُمْ وَقَالَ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا تَتَّخِذُوا قَبْرِي عِيدًا، وَلَا تَتَّخِذُوا بُيُوتَكُمْ قُبُورًا، وَصَلُّوا عَلِيَّ حَيْثُمَا كُنْتُمْ، فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ تَبْلُغُنِي»

ابن عجلان نے کہا کہ ایک شخص جس کو سہیل کہا جاتا تھا اس نے حسن بن حسن بن علی سے روایت کیا کہ  حسن بن حسن بن علی نے ایک بار ایک قوم کو دیکھا کہ وہ قبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے ہیں  پس انہوں نے منع کیا اور کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے  کہ لوگوں میرے گھر پر میلا نہ لگاو اور نہ اپنے گھروں کو قبرستان بناو ،البتہ جہاں کہیں بھی رہومیرے اوپر درود بھیجتے رہو، اسلئے کہ تمھارا درود مجھ تک یقینا پہنچے گا

روایت مقطوع ہے اس میں  صحابی کا نام نہیں جس سے یہ روایت سنی

ابن تیمیہ اپنی کتاب اقتضاء الصراط المستقيم 1/ 298 – 299 و 2/ 656  میں سنن سعید بن منصور کے حوالے سے سند دیتے ہیں

عن عبد العزيز بن محمد الدراوردي أني سهيل بن أبي سهيل قال: رآني الحسن بن الحسن بن علي بن أبي طالب عند القبر فناداني وهو في بيت فاطمة يتعشى، فقال: هلم إلى العشاء، فقلت: لا أريده، فقال: ما لي رأيتك عند القبر؟ قلت: سلمت على النبي – صلى الله عليه وسلم -، فقال: إذا دخلت المسجد فسلم. ثم قال: إنّ رسول الله – صلى الله عليه وسلم – قال “لا تتخذوا قبري عيدا، ولا تتخذوا بيوتكم مقابر، لعن الله اليهود اتخذوا قبور أنبياءهم مساجد، وصلوا عليّ، فإنّ صلاتكم تبلغني حيث ما كنتم” ما أنتم ومن بالأندلس إلا سواء.

سهيل بن أبي سهيل نے کہا مجھ کو حسن بن حسن نے دیکھا میں قبر کے پاس تھا پس انہوں نے مجھے پکارا اور وہ فاطمہ کے گھر میں رات کا کھانا کھا رہے تھے انہوں نے کہا کھا لو – میں نے کہا مجھے ضرورت نہیں- پوچھا کہ میں نے تم کو قبر کے پاس کیوں دیکھا ؟ میں نے کہا نبی صلی الله علیہ وسلم پر سلام کہہ رہا تھا – انہوں نے کہا جب مسجد میں داخل ہو سلام کہو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میری قبر کو میلہ مت بناؤ اور نہ گھروں کو قبریں – الله کی لعنت ہو یہود پر جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا – مجھ پر درود کہو کیونکہ تم جہاں بھی ہو یہ مجھ تک اتا ہے اور یہ برابر ہے تم میں اور اندلس والوں میں

امام بخاری تاریخ الکبیر میں کہتے ہیں سہیل کا سماع حسن سے نہیں ہے

سهيل عن حسن بن حسن روى عنه محمد بن عجلان منقطع

سہیل جس سے حسن بن حسن نے روایت کیا اور اس سے ابن عجلان نے – منقطع ہے

ابو مسعود الانصاری رضی الله عنہ سے منسوب روایات

  الحاكم  کتاب   المستدرك على الصحيحين میں روایت پیش کرتے ہیں

حدثنا الشيخ أبو بكر بن إسحاق الفقيه ، أنبأ أحمد بن علي الأبار ، ثنا أحمد بن عبد الرحمن بن بكار الدمشقي ، ثنا الوليد بن مسلم ، حدثني أبو رافع ، عن سعيد المقبري ، عن أبي مسعود الأنصاري رضي الله عنه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : « أكثروا علي الصلاة في يوم الجمعة ، فإنه ليس أحد يصلي علي يوم الجمعة إلا عرضت علي صلاته »

أبي مسعود الأنصاري رضي الله عنه  سے مروی ہے کہ  نبي صلى الله عليه وسلم نے فرمایا تم کثرت سے جمعہ کے دن درود کہو کتونکہ ایسا کوئی نہیں جو درود  جمعہ کے دن اور وہ فرشتے مجھ تک نہ پہنچا دیں

اس کی سند میں أبو رافع إسماعيل بن رافع  ہے جس کو امام ابن معین نے ضعیف کوئی چیز نہیں کہا ہے اور احمد نے منکر الحدیث قرار دیا ہے –  نسائی نے متروک قرار دیا ہے

انس رضی الله عنہ سے منسوب روایات

حدثنا أحمد قال : نا إسحاق قال : نا محمد بن سليمان بن أبي داود قال : نا أبو جعفر الرازي ، عن الربيع بن أنس ، عن أنس بن مالك ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : « من ذكر الله ففاضت عيناه من خشية الله حتى تصيب الأرض دموعه لم يعذبه الله يوم القيامة » وقال النبي صلى الله عليه وسلم : « من صلى علي بلغتني صلاته ، وصليت عليه ، وكتبت له سوى ذلك عشر حسنات » « لم يرو هذين الحديثين عن أبي جعفر إلا محمد بن سليمان

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جو الله کا ذکر کرے اور اس کے خوف سے اس کی آنکھ نم ہو جائے حتی کہ آنسو زمیں تک آ جائے تو  اس کو روز محشر عذاب نہ ہو گا  .. اور جس نے مجھ پر درود کہا وہ مجھ تک آ گیا اور میں نے اس کے لئے دعا کی اور اس کے لئے دس نیکییاں لکھ دی گئیں

اس کی سند میں أبو جعفر الرازي  عيسى بن ماهان ہے جس کو عقیلی نے  ليس بالقوي في الحديث قرار دیا ہے – احمد نے بھی کمزور اور مضطرب الحدیث کہا ہے

 قارئیں اپ دیکھ سکتے ہیں تمام اسناد ضعیف ہیں

کتاب ذہن پرستی از مسعود احمد بی ایس سی میں اوپر والی تمام روایات کی تصحیح و تحسین کی گئی ہے دیکھتے ہیں امیر جماعت المسلمین کیا لکھ گئے ہیں

اپ ہماری تحقیق  کو  غیر مقلدین کی تحقیق سے ملا کر دیکھ سکتے ہیں کہ حق کیا ہے

یاد رہے کہ جو الله کا حق ہے وہ اسی کا ہے جو اس کو چھیننے کی کوشش کرے گا وہ جواب دہ ہو گا

سلف کے متعدد  لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر میں درود و سلام سنتے ہیں یہاں تک کہ  بعض کے نزدیک اگر قبر نبوی کے قریب سلام کہا جائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود سنتے ہیں اور دور سے کہا جائے، تو خود نہیں سنتے، بلکہ فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ درود و سلام پہنچاتے ہیں۔ اس عقیدے کے قائل بڑے بڑے نام ہیں مثلا ابن تیمیہ، ابن قیم، ابن کثیر، النووی وغیرہ – اسی عقیدے کے قائل وہابی علماء ہیں اور آج بھی روضہ رسول کے اوپر سوره الحجرات کی آیت لگی ہے کہ اپنی آواز کو رسول کی آواز سے پست رکھو – اس کا مقصد یہ ہے کہ قبر نبوی میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم،  سلام کا جواب دے رہے ہیں جو دھیمی آواز کی وجہ سے سنا  نہیں جا رہا لہذا جو یہاں مجمع لگائے ہوئے ہیں وہ بھی اسی قدر انداز  میں درود و سلام کہیں- اس کے بر عکس نبی   صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی قبر مبارک میں قریب یا دور سے سلام سننا قطعاً ثابت نہیں۔ جو لوگ ایسے عقائد  رکھتے ہیں ان کی اساس بعض ضعیف روایات ہیں-

کتاب الصَّارِمُ المُنْكِي في الرَّدِّ عَلَى السُّبْكِي میں  شمس الدين محمد بن أحمد بن عبد الهادي الحنبلي (المتوفى: 744هـ) کہتے ہیں

فأخبر أنه يسمع الصلاة من القريب وأنه يبلغ ذلك من البعيد

پس اپ صلی الله علیہ وسلم نے خبر دی کہ اپ قریب سے کہا جانے والا سلام سنتے ہیں اور دور کا پہنچا دیا جاتا ہے

ابن تيمية  ، مجموع الفتاوى ( 27 / 384 ) میں کہتے ہیں

 أنه صلى الله عليه وسلم يسمع السلام من القريب

بے شک اپ صلی الله علیہ وسلم قریب سے کہا جانے والا سلام سنتے ہیں

کتاب القَولُ البَدِيعُ في الصَّلاةِ عَلَى الحَبِيبِ الشَّفِيعِ میں امام السخاوی کہتے ہیں

 وعنه أيضاً – رضي الله عنه – قال: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم – من صلى علي عند قبري سمعته ومن صلى علي من بعيد أعلمته أخرجه أبو الشيخ في الثواب له من طريق أبي معاوية عن الأعمش عن أبي صالح عنه ومن طريقه الديلمي وقال ابن القيم أنه غريب قلت: وسنده جيد كما أفاده شيخنا

اور ابو ہریرہ رضی الله عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میری قبر کے پاس درود پڑھا  گیا تو یہ میں سنتا ہوں اور جس نے دور سے پڑھا تو یہ مجھ تک پہنچتا ہے اس کی تخریج ابو الشیخ نے کی ہے أبي معاوية عن الأعمش عن أبي صالح کے طرق سے اور الديلمي کے طرق سے اور ابن قیم نے کہا یہ منفرد ہے میں السخاوی کہتا ہوں اس کی سند جید ہے جیسا فائدہ ہمارے شیخ ابن حجر نے دیا ہے

 جو یہ مانتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم درود نہیں سنتے وہ یہ عقیدہ اختیار کر گئے ہیں کہ درود فرشتے  رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر پیش کر رہے ہیں – فرقہ پرستوں کے مطابق جب بھی کوئی درود کہتا ہے تو روح نبوی جسد نبوی میں واپس ڈالی جاتی ہے اور پھر امت کا عمل درود و دعا  پیش ہوتا ہے-

کتاب القَولُ البَدِيعُ في الصَّلاةِ عَلَى الحَبِيبِ الشَّفِيعِ میں امام السخاوی، قبر نبوی میں روح کی واپسی والی روایت پر  کہتے ہیں

وقال شيخنا رواته ثقات، قلت لكن أفرد به يزيد عبد الله بن قسيط براوية له عن أبي هريرة وهو يمنع من الجزم بصحته لأن فيه مقالاً وتوقف مالك فقال في حديث خارج الموطأ ليس بذاك وذكر التقي بن تيمية ما معناه أن رواية أبي داود فيها يزيد بن عبد الله وكأنه لم يدرك

ہمارے شیخ ابن حجر کہتے ہیں اس کے راوی ثقہ ہیں لیکن میں کہتا ہوں اس میں یزید بن عبد الله بن قسیط کا تفرد ہے جو ابو ہریرہ سے روایت پر ہے اور جزم کے ساتھ اس کی روایت کی صحت کا کہنے پر منع ہے کیونکہ اس پر کلام ہے اور امام مالک کا توقف ہے  اور ایک حدیث جو موطا  میں نہیں ہے اس پر ان کا کہنا ہے کہ یہ لیس بذاک ہے اور ابن تیمیہ نے ذکر کیا اس کی روایت کا جو سنن ابو داود میں اس معنوں میں کہ گویا عبدالله نے ابوہریرہ کو نہیں پایا

یعنی مسلک پرستوں کی ممدوح شخصیت خود کہہ رہی ہیں کہ رد الله علی روحی والی روایت مشکوک ہے

راقم کہتا ہے سخاوی کا قول صحیح ہے لیکن ابن تیمیہ کے حوالے سے جو انہوں نے سمجھا ہے وہ صحیح نہیں کہ وہ اس روایت کو رد کرتے ہیں

سردست یہاں نبی صلی الله علیہ وسلم پر درود پیش ہونے والی روایات کا جائزہ پیش کیا گیا  ہے  تاکہ اپ اس عقیدہ  سے متعلق روایات میں ضعیف راویوں کی حثیت کو جان سکیں

درود سلام الله تک جاتا ہے نبی صلی الله علیہ وسلم تک اس کو پہنچانا اصل میں علم غیب کا دعوی کرنا ہے اپ صلی الله علیہ وسلم کو ان کی زندگی ہی میں معلوم تھا کہ کون مومن ہے اور کون منافق ہے جبکہ قرآن میں ہے  تم ان کو نہیں جانتے ہم جانتے ہیں- شیعہ راویوں یا شیعہ نواز راویوں  نے اس عقیدہ کو گھڑا تاکہ اس کو پہلے نبی صلی الله علیہ وسلم کے حوالے سے قبول کروایا جائے پھر ائمہ کے لیے بھی اس کا دعوی کیا جائے-

اہل تشیع کا یہ عقیدہ ہے کہ امت کا عمل ائمہ پر پیش ہوتا ہے

کتاب الأمالي للطوسي کی روایت ہے

 أخبرنا محمد بن محمد، قال أخبرنا أبو الحسن علي بن بلال المهلبي، قال حدثنا علي بن سليمان، قال حدثنا أحمد بن القاسم الهمداني، قال حدثنا أحمد بن محمد السياري، قال حدثنا محمد بن خالد البرقي، قال حدثنا سعيد بن مسلم، عن داود بن كثير الرقي، قال كنت جالسا عند أبي عبد الله )عليه السلام( إذ قال مبتدئا من قبل نفسه يا داود، لقد عرضت علي أعمالكم يوم الخميس

 داود بن كثير الرقى (مجھول الحال ہے نسائی نے خصائص علی میں روایت لی ہے) نے کہا امام ابو عبد الله نے کہا .. تمہارے اعمال  مجھ پر جمعرات کو پیش ہوتے ہیں 

الکافی میں باب عرض الاعمال على النبي صلى الله عليه وآله والائمة عليهم السلام دیکھا جا سکتا ہے

عدة من أصحابنا، عن أحمد بن محمد، عن الحسين بن سعيد، عن النضر بن سويد، عن يحيى الحلبي، عن عبدالحميد الطائي، عن يعقوب بن شعيب قال: سألت أبا عبدالله عليه السلام عن قول الله عزوجل: ” اعملوا فسيرى الله عملكم ورسوله والمؤمنون ” قال: هم الائمة.

يعقوب بن شعيب نے کہا میں نے امام ابو عبد الله سے قول الله  اعملوا فسيرى الله عملكم ورسوله والمؤمنون  پر سوال کیا- فرمایا اس سے مراد ائمہ ہیں

تفسیر القمی میں ہے

وعن محمد بن الحسن الصفار عن ابي عبدالله عليه السلام قال ان اعمال العباد تعرض على رسول الله صلى الله عليه وآله كل صباح ابرارها وفجارها فاحذروا فليستحيي احدكم ان يعرض على نبيه العمل القبيح، وعنه صلوات الله عليه وآله قال ما من مؤمن يموت او كافر يوضع في قبره حتى يعرض عمله على رسول الله صلى الله عليه وآله وعلى امير المؤمنين عليه السلام

اور  محمد بن الحسن الصفار سے روایت ہے کہ امام ابو عبد الله علیہ السلام نے کہا بے شک  بندوں کا عمل رسول الله صلی الله علیہ و الہ پر پیش ہوتا ہے ہر صبح کو نیکو کاروں اور گناہ گاروں کا پس حیا کرو کہ تمہارا عمل قبیح نبی پر پیش ہو اور اپ صلوات الله عليه وآله نے فرمایا ہے کوئی مرنے والا مومن یا کافر نہیں جو قبر میں ہو  حتی کہ اس کا عمل رسول الله صلی الله علیہ و الہ اور امیر المومننیں علیہ السلام پر پیش نہ ہو

عقیدہ عرض اعمال کا سیاسی پہلو

شیعہ راویوں یا شیعہ نواز رویوں نے اغلبا عرض اعمال کا عقیدہ اس لئے  گھڑا کہ بنو ہاشم نے دور بنو امیہ میں کئی بار خروج کیا اس دوران یہ ثابت کرنے کے لئے کہ مخالف اصل میں مسلمان نہیں بلکہ منافق ہیں اس عقیدہ کا اجراء ہوا کہ یہ کہا جائے کہ امت میں منافق ختم نہیں  ہوئے بلکہ اقتدار نشیں ہو گئے ہیں ان کے خلاف خروج کرنا ہو گا اور یہ بات کہ مخالف منافق ہیں اس کی خبر درود سے مل رہی ہے کہ ان منافقوں کا درود نبی صلی الله علیہ وسلم پر پیش نہیں ہوتا اور ائمہ پر بھی پیش نہیں ہوتا

عرض اعمال کی روایات پر مزید تحقیق یہاں ہے

https://www.islamic-belief.net/wp-content/uploads/2015/11/مصطفی-سراپا-رحمت-پہ-لاکھوں-سلام.pdf

غلو | وسیلہ | عرض اعمال

[کیا  کہنا صحیح الله ، اس کا رسول جو چاہیں یا الله چاہے پھر اس کا رسول چاہے ؟]

جواب

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيّ صلیٰ الله علیه وآله وسلم مَا شَائَ االله وَشِئْتَ فَقَالَ لَه النَّبِيُّ صلیٰ الله علیه وآله وسلم أَجَعَلْتَنِي وَالله عَدْلًا بَلْ مَا شَائَ الله وَحْدَحه
احمد بن حنبل، المسند، 1: 214، رقم: 1839، موسسۃ قرطبۃ، مصر
ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا جو اﷲ چاہے اور آپ چاہیں ۔ نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کیا تو مجھے اور اﷲ کو برابر کر رہا ہے ؟ یوں کہو جو اکیلے اﷲ نے چاہا۔
یہ صحيح لغيره روایت ہے یعنی مسند احمد کی سند ضعیف ہے لیکن متن دیگر صحیح سند سے معلوم ہے

حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَجْلَحُ الْكِنْدِيُّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِذَا حَلَفَ أَحَدُكُمْ فَلَا يَقُلْ: مَا شَاءَ اللَّهُ وَشِئْتَ، وَلَكِنْ لِيَقُلْ: مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ شِئْتَ
ابن ماجه، السنن، 1: 684، رقم: 2117، دار الفکر بیروت
عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما کا بیان ہے کہ نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی قسم کھائے تو یوں نہ کہے کہ جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں بلکہ یوں کہے جو اللہ چاہے پھر آپ چاہیں۔
سند ضعیف ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَعْبَدُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ قُتَيْلَةَ بِنْتِ صَيْفِيٍّ الْجُهَنِيَّةِ قَالَتْ: أَتَى حَبْرٌ مِنَ الْأَحْبَارِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، نِعْمَ الْقَوْمُ أَنْتُمْ، لَوْلَا أَنَّكُمْ تُشْرِكُونَ، قَالَ: «سُبْحَانَ اللَّهِ، وَمَا ذَاكَ؟»، قَالَ: تَقُولُونَ إِذَا حَلَفْتُمْ وَالْكَعْبَةِ، قَالَتْ: فَأَمْهَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا ثُمَّ قَالَ: ” إِنَّهُ قَدْ قَالَ: فَمَنْ حَلَفَ فَلْيَحْلِفْ بِرَبِّ الْكَعْبَةِ “، ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، نِعْمَ الْقَوْمُ أَنْتُمْ، لَوْلَا أَنَّكُمْ تَجْعَلُونَ لِلَّهِ نِدًّا، قَالَ: «سُبْحَانَ اللَّهِ، وَمَا ذَاكَ؟»، قَالَ: تَقُولُونَ مَا شَاءَ اللَّهُ وَشِئْتَ، قَالَ: فَأَمْهَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا ثُمَّ قَالَ: «إِنَّهُ قَدْ قَالَ، فَمَنْ قَالَ مَا شَاءَ اللَّهُ فَلْيَفْصِلْ بَيْنَهُمَا ثُمَّ شِئْتَ» (حم) 27093
قُتَیْلَہ بنت صیفی جُہینْہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ یہودیوں کا ایک بڑا عالم بارگاہ نبوت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا اے محمد صلی اﷲ علیک وسلم تم بہت اچھے لوگ ہو اگر شرک نہ کرو۔آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سبحان اﷲ وہ کیا ہے؟ اس نے کہا تم لوگ قسم اٹھاتے وقت بولتے ہو ’کعبہ کی قسم‘ کھاتی ہیں: نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ وقت خاموش رہنے کے بعد فرمایا کہ اس یہودی نے یہ کہا ہے۔ لہذا جو (مسلمان) قسم اٹھائے ’رب کعبہ‘ کی اٹھائے پھر یہودی عالم بولا اے محمد صلی اﷲ علیک وسلم تم بہت اچھے لوگ ہواگر اﷲ کے ساتھ شریک نہ ٹھہراؤ۔آپ نے فرمایا: سبحان اﷲ وہ کیا؟ کہنے لگا تم (مسلمان) کہتے ہو جو اﷲ چاہے
اور آپ چاہیں ۔اس پرنبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کچھ دیر خاموش رہے پھر فرمایا کہ اس یہودی نے یہ کہا ہے ۔اب جو کہے ماشاء اﷲ دونوں میں فاصلہ رکھ کر کہے پھر آپ چاہیں۔

یہ روایت منقطع ہے جامع التحصيل في أحكام المراسيل میں ہے
عبد الله بن يسار آخر قال عثمان بن سعيد سألت يحيى بن معين عن عبد الله بن يسار الذي يروي منصور عنه عن حذيفة لا تقولوا ما شاء الله ألقي حذيفة قال لا أعلمه قلت وروي أيضا عن علي رضي الله عنه فيكون أيضا مرسلا
عثمان نے امام ابن معین سے عبد الله بن يسار پر سوال کیا جو حذيفة سے روایت کرتا ہے لا تقولوا ما شاء الله – اس نے اس روایت کو حذيفة پر ڈالا ابن معین نے کہا نہیں جانتا اور اسنے اس کو علی سے بھی روایت کیا ہے تو یہ بھی مرسل ہے

ابن ماجہ میں ہے
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ، أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ رَأَى فِي النَّوْمِ أَنَّهُ لَقِيَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ، فَقَالَ: نِعْمَ الْقَوْمُ أَنْتُمْ لَوْلَا أَنَّكُمْ تُشْرِكُونَ، تَقُولُونَ: مَا شَاءَ اللَّهُ وَشَاءَ مُحَمَّدٌ، وَذَكَرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ” أَمَا وَاللَّهِ، إِنْ كُنْتُ لَأَعْرِفُهَا لَكُمْ، قُولُوا: مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ شَاءَ مُحَمَّدٌ “، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنِ الطُّفَيْلِ بْنِ سَخْبَرَةَ، أَخِي عَائِشَةَ لِأُمِّهَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِهِ
__________

لہذا خواب والی روایت صحیح ہے جو ابن ماجہ میں ہے
اور اس کی تائید صحیح مسلم کی روایت سے بھی ہوتی ہے

صحيح مسلم، كتاب الجمعة، باب تخيف الصلاة والخطبة : 870۔ نسائي، كتاب النكاح، باب ما يكره من الخطبة : 3281۔ ابوداؤد، كتاب الصلاة، باب الرجل يخطب على قوس : 1099۔ كتاب الادب : 4981۔ مسند احمد : 4/ 256۔ بيهقي : 1/ 86، 3/ 216۔ مستدرك حاكم : 1/ 289]

حَدَّثَنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ نُمَيْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، أَنَّ رَجُلًا خَطَبَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَنْ يُطِعِ اللهَ وَرَسُولَهُ، فَقَدْ رَشَدَ، وَمَنْ يَعْصِهِمَا، فَقَدْ غَوَى، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” بِئْسَ الْخَطِيبُ أَنْتَ، قُلْ: وَمَنْ يَعْصِ اللهَ وَرَسُولَهُ “. قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ: فَقَدْ غَوِي

اس میں ہے کہ ایک ضمیر میں جمع کرنے سے منع کیا
——–
اس کی مخالف حدیث ابو داود میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ سکھایا اس میں مذکور ہے :
حدَّثنا محمدُ بنُ بشارٍ، حدَّثنا أبو عاصم، حدَّثنا عِمران، عن قتادةَ، عن عبدِ ربه، عن أبي عياض
عن ابنِ مسعود: أن رسولَ الله – صلَّى الله عليه وسلم – كان إذا تشهدَ، ذكر نحوه، قال بعد قوله: “ورسوله”: “أرسله بالحق بشيراً ونذيراً بين يدي الساعة، من يطع الله ورسوله فقد رَشَدَ، ومن يعصهما فإنه لا يَضُرُّ إلا نفسَه، ولا يَضُرُّ الله شيئاً

اس کی سند میں أبي عياض مجھول ہے – البانی نے اس کو ضعیف کہا ہے

[/EXPAND]

[کیا یہ کہنا صحیح ہے کہ انبیاء و فرشتے نبی صلی الله علیہ وسلم کے غلام ہیں ؟]

جواب

جواب
سوره ال عمران میں ہے
وإذ أخذ الله ميثاق النبيين لما آتيتكم من كتاب وحكمة ثم جاءكم رسول مصدق لما معكم لتؤمنن به ولتنصرنه قال أأقررتم وأخذتم على ذلكم إصري قالوا أقررنا قال فاشهدوا وأنا معكم من الشاهدين ( 81 ) فمن تولى بعد ذلك فأولئك هم الفاسقون
انبیاء کو ایک دوسرے کا مدد گار کہا گیا ہے غلام تو یہ صرف الله کے ہیں
نبی صلی الله علیہ وسلم کی جب جنت میں انبیاء سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ایک دوسرے کو سلام کیا اور عبد صالح کہا مالک یا آقا نہیں کہا

 فرشتے بھی الله کے غلام ہیں – رسول الله صلی الله علیہ وسلم بہت سے موقعوں پر فرشتوں کو پہچان نہ سکے یہاں تک کہ ان کو خبر دی گئی کہ یہ فرشتے ہیں
مثلا
خواب میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو دو شخص آ کر  لے گئے ان کو بہشت میں ان کا مقام دکھایا گیا
آخر میں بتایا گیا کہ یہ جبریل اور یہ میکایل ہیں

غلام کے لئے جائز نہیں کہ آقا کو اپنے اپ کو ظاہر نہ کرے

ظاہر ہے یہ سب بحکم الہی ہوا جس کے سب غلام ہیں

[/EXPAND]

[یا رسول الله اور یا علی کہنا کیا شرک ہے ؟ اس کے کیا دلائل ہیں کہ یہ پکار کی جا سکتی ہے ؟]

جواب

مختصرا انبیاء و اولیاء کی وفات ہو چکی ہے وہ دار فانی سے جا چکے ہیں ان کو ان کی زندگی میں قریب سے بطور خطاب و کلام پکارا گیا انہوں نے جواب دیا – دور سے کوئی پکارے تو یہ نہیں سن سکتے تھے مثلا کوئی مکہ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو پکارتا ہے تو اس کی خبر مدینہ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو نہیں تھی – بالکل ایک بشر کی طرح وہ ان اخبار سے بے خبر تھے الا یہ کہ الله خود خبر دے
——–

جو لوگ رسول الله کو پکارتے ہیں ان کے نزدیک وہ سن سکتے ہیں اور مدد کرتے ہیں یہ مقام صرف الله کا ہے وہی سنتا و جانتا ہے – اور کسی حدیث و آیات میں نہیں کہ رسول الله کو ایسا کوئی اختیار دیا گیا تھا
بعض کہتے ہیں مثلا شیعہ کہ یہ ان کے علماء کے نزدیک وسیلہ ہے
بعض کہتے ہیں کہ درود پہنچتا ہے اور جو درود نبی نے سکھایا اس میں خطاب کا صغیہ ہے
بعض بے سند روایات اور صوفیوں کے قصے بھی ہیں

بریلوی دلیل
نبی اکرم صلی اللہ اپنے چچا سیدنا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی عزوہ احد میں شہادت پر اس قدر روئے کہ انہیں ساری زندگی اتنی شدت سے روتے نہیں دیکھا گیا۔ پھر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے فرمانے لگے :
يا حمزة يا عم رسول الله اسد الله واسد رسوله يا حمزة يا فاعل الخيرات! يا حمزة ياکاشف الکربات يا ذاب عن وجه رسول الله.
(المواهب اللدينه، 1 : 212)
نبی علیہ الصلوۃ والسلام اپنے وفات شدہ چچا سے فرما رہے ہیں یا کاشف الکربات (اے تکالیف کو دور کرنے والے)۔

راقم کہتا ہے اس کی سند کہیں نہیں ملی لہذا دلیل نہیں لی جا سکتی

شیعہ کی دلیل
http://www.erfan.ir/urdu/67540.html
شیخ عباس قمی المعروف “محدث قمی” رحمة اللہ علیہ نے اپنی مشہور زمانہ اور زندہ جاوید کتاب دعاء “مفاتیح الجنان” (جنت کی کنجیاں) میں تحریر فرمایا ہے کہ حضرت امام زمانہ ولی العصر بقیةاللہ الاعظم سلام اللہ علیہ و علی آبائہ الطیبین الطاہرین، نے ایک شخص کو اس دعا کی تعلیم دی جو اسیر تھا اور وہ اسیری سے رہا ہو گیا۔ یہ دعاء کفعمی کی کتاب بلدالامین سے نقل ہوئی ہے۔ شیعہ کے نزدیک یہ یا محمد (ص) اور یا علی (ع) کہنا بعنوان وسیلہ الی اللہ، جائز ہے۔
دعائے فَرَج:
الهی عظم البلاء و برح الخفاء وانکشف الغطاء و انقطع الرجاء وضاقت الارض و منعت السماء و انت المستعان و الیک المشتکی و علیک المعول فی الشدة و الرخا اللهم صل علی محمد و آل محمد اولی الامر الذین فرحت علینا طاعتهم و عرفتنا بذلک منزلتهم ففرج عنا بحقهم فرجا عاجلا فریبا کلمح البصر او هو اقرب یا محمد یا علی یا علی یا محمد اکفیانی فانکما کافیان و انصرانی فانکما ناصران یا مولانا یا صاحب الزمان الغوث الغوث ادرکنی ادرکنی الساعه الساعه الساعه العجل العجل العجل یا ارحم الراحمین بحق محمد و اله الطاهرین۔

راقم کہتا ہے اس کتاب میں لکھا ہے
قال الكفعمي في البلد الامين: هذا دعاء صاحِب الامر (عليه السلام) وقد علّمه سجيناً فأطلق سراحه
یہ صاحِب الامر کی دعا ہے جو انہوں نے جیل میں سکھائی
گیارہویں امام الحَسنِ العَسكرىِّ سے اس کو منسوب کیا گیا ہے
لیکن اس قول کی کوئی سند نہیں ہے جیل میں ظاہر ہے کسی سے ملاقات کیا ہوئی ہو گی؟

اسی طرح شیعوں میں ایک نظم ہے جس کو ناد علی کہا جاتا ہے اس سے دلیل لی جاتی ہے کہ اس میں پکار کا حکم ہے

راقم کہتا ہے
سیرت ابن ہشام میں ہے کہ یوم احد میں رسول الله نے فرمایا
قَالَ ابْنُ هِشَامٍ: وَحَدَّثَنِي بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ، أَنَّ ابْنَ أَبِي نَجِيحٍ قَالَ: نَادَى مُنَادٍ يَوْمَ أُحُدٍ:
لَا سَيْفَ إلَّا ذُو الْفَقَارِ، وَلَا فَتَى إلَّا عَلِيٌّ
کوئی تلوار نہیں سوائے ذو الفقار کے کوئی جوان نہیں سوائے علی کے
بحار الأنوار / جزء 20 / صفحة[ 73 ] از مجلسی میں ہے اس قول پر فرشتوں کو حیرت ہوئی کہ کس نے یہ کہا
بتایا گیا یہ جبریل کا قول ہے
فقد تعجبت الملائكة، أما علمت أن جبرئيل قال في ذلك اليوم وهو يعرج إلى السماء: لا
سيف إلا ذو الفقار، ولا فتى إلا علي.

وعن عكرمة، عن علي عليه السلام قال قال لي
النبي صلى الله عليه وآله يوم احد: أما تسمع مديحك في السماء ؟ إن ملكا اسمه رضوان
ينادي: لا سيف إلا ذو الفقار، ولا فتى إلا علي. قال: ويقال: إن النبي صلى الله عليه
وآله نودي في هذا اليوم: ناد عليا مظهر العجائب * تجده عونا لك في النوائب كل غم
وهم سينجلي * بولايتك يا علي يا علي يا علي
اور عکرمہ نے علی سے روایت کیا کہ نبی صلی الله علیہ و الہ نے احد کے دن کہا کیا تم نے آسمان میں اپنی تعریف سنی ؟ وہاں ایک فرشتہ رضوان ہے اس نے پکارا کوئی تلوار نہیں سوائے ذو الفقار کے کوئی جوان نہیں سوائے علی کے اور فرمایا اس نے کہا
ناد عليا مظهر العجائب *
تجده عونا لك في النوائب
كل غموهم سينجلي *
بولايتك يا علي يا علي يا علي
علی کو پکارو جو عجائبات کا مظہر ہے
تم اس کو مدد گار پاؤ گے اپنی مشکل میں
تمام غم اس سے حل ہوں گے
تمھاری ولایت سے اے علی علی علی

عکرمہ خارجی سوچ کا حامل تھا جو تقیہ کرتا تھا لیکن عکرمہ سے لے کر مجلسی تک سند نہیں ہے

الانتباہ فی سلاسل الاولیاء میں درج ہے کہ شاہ ولی اللہ خرقہ ابو طاہر کردی کے ہاتھ سے پہنا جس نے اُس عمل کی اجازت دی جو جواہر خمسہ میں ہیں

اسی جواہر خمسہ میں دعائے سیفی کی ترکیب میں لکھا ہے

ناد علی ہفت بار یا سہ بار یا یک بار بخواند وآں ایں است

ناد علیاً مظہر العجائب
تجدہ عونالک فی نوائب
کل ھم وغم سینجلی
بولایتک یا علی یاعلی یاعلی

https://www.islamimehfil.com/topic/23459-نادِ-علی-کرّم-اللّٰہ-وجھہ-کے-بارے-درست-معلومات-بمع-حوالہ-چاہئے/

بریلوی فرقہ کہتا ہے اس کو پڑھنا جائز ہے
http://www.thefatwa.com/urdu/questionID/2918/نادِ-علی-کیا-ہے/

https://www.dawateislami.net/bookslibrary/1454/page/837
————-
یعنی بریلوی اور شیعہ دونوں نے بے سند اقوال سے اتنا بڑا شرک کرنے کی دلیل لے لی ہے جبکہ اسناد معلوم نہیں کون کس نے سنا کوئی خبر نہیں

نماز میں تشہد میں اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَ بَرَکَاتُه پڑھا جاتا ہے اس کا مقصد بھی سنانا نہیں نہ یہ پکار ہے یہ تو دعا ہے
لیکن اس مفہوم کو صوفیوں نے بدلا غزالی نے لکھا
واحضر فی قلبک النبي صلي الله عليه وآله وسلم وشخصه الکريم، وقُلْ : سَلَامٌ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَ بَرَکَاتُه. وليصدق أملک في أنه يبلغه و يرد عليک ما هو أوفٰي منه.

’’(اے نمازی! پہلے) تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کریم شخصیت اور ذاتِ مقدسہ کو اپنے دل میں حاضر کر پھر کہہ : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَ بَرَکَاتُه. تیری امید اور آرزو اس معاملہ میں مبنی پر صدق و اخلاص ہونی چاہیے کہ تیرا سلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں پہنچتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے کامل تر جواب سے تجھے نوازتے ہیں۔‘‘

غزالی، إحياء علوم الدين، 1 : 151

راقم کہتا ہے گویا درود نبی پر پیش ہوتا ہے اور روایات میں ہے دور والا پہنچا دیا جاتا ہے اس کو دلیل بناتے ہوئے یا نبی کی پکار کا جواز لیا گیا ہے جو اصل میں یا نبی سلام علیک تھا لیکن مختصر ہو کر یا نبی ہو گیا
یہ روایات ضعیف ہیں

ابن قیم نے کتاب الكلم الطيب میں ذکر کیا

في الرجل إذا خدرت
عن الهيثم بن حنش قال: كنا عند عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، فخدرت رجله فقال له رجل: اذكر أحب الناس إليك، فقال: يا محمد، فكأنما نشط من عقال

الهيثم بن حنش نے کہا کہ ابن عمر کے پاس ایک شخص کی ٹانگ سن ہو گئی انہوں نے کہا اس شخص کو یاد کرو جو لوگوں میں سب سے محبوب ہو اس نے کہا اے محمد

ابن قیم نے کتاب الکلم الطیب میں اس روایت کا ان اذکار میں ذکر کیا ہے جو ایک مسلم کو کرنے چاہیے ہیں

اسی طرح کتاب  الوابل الصيب من الكلم الطيب میں اس روایت کا ذکر کیا

یہ تو علماء نے جواز کے فتوے دیے اس طرح نبی کو پکارا اور وسیلہ بنا لیا گیا جبکہ روایات ضعیف ہیں بے سند ہیں
قرآن کے خلاف ہیں

ایک اور دلیل
بخاری و مسلم کی روایت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ کَانَ فِیْ حَاجَةِ اَخِيْهِ کَانَ اللّٰهُ فِی حَاجته وَمَن فَرَّجَ عَنْ مُسْلمٍ کُرْبَةً فَرَّجَ اللّٰهُ عَنْهُ بِهَا کُرْبَةَ مِنْ کُرْب يوم الْقيامة.
’’جو شخص اپنے کسی بھائی کی حاجت روائی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی حاجت پوری فرماتا ہے۔ اور جس نے کسی مسلمان کی ایک تکلیف دور کی (مشکل حل کر دی) اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے قیامت کی تکلیفوں میں سے اس کی ایک تکلیف دور فرما دے گا‘‘۔

کہا جاتا ہے یہ کیسسے ممکن ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم امتی کی مدد نہ کریں
قبر سے باہر انے کا نظریہ یہیں سے لیا گیا ہے کہ بزرگان دین و انبیاء قبروں سے باہر آ کر مدد کرتے ہیں
یہ دلیل قیاس پر ہے

جبکہ انبیاء تو زمین پر گر جاتے ہیں جیسے سلیمان علیہ السلام کا جسد گرا جنوں نے دیکھا وہ قبر سے باہر کھڑے نہیں رہ سکتے

قرآن میں صرف الله کو پکارنے کا حکم ہے اور اس کے ساتھ کسی کو پاور فل ماننا
لا حول و لا قوه الا باللہ
کا انکار ہے

[/EXPAND]

[حنبلی علماء کا غیر الله سے توسل لینا کیا ثابت ہے ؟]

جواب

تاریخ بغداد باب ما ذكر في مقابر بغداد المخصوصة بالعلماء والزهاد از خطیب بغدادی میں ہے ابو علی الخلال جن کا ذکر خطیب نے صاحب أَحْمَد بْن حنبل کے نام سے کیا ہے ان کے بارے میں بتایا کہ

أَخْبَرَنَا الْقَاضِي أَبُو مُحَمَّد الْحَسَن بْن الحسين بْن مُحَمَّد بْن رامين الإستراباذي، قَالَ: أَخبرنا أَحْمَد بْن جعفر بْن حمدان القطيعي، قَالَ: سمعت الْحَسَن بْن إِبْرَاهِيمَ أبا عَلِيّ الخلال، يقول: ما همني أمر فقصدت قبر مُوسَى بْن جعفر، فتوسلت به إلا سهل الله تعالى لي ما أحب.

القطيعي، نے کہا میں نے ابو علی الخلال کو کہتے سنا جب کسی امر میں الجھ جاتا ہوں تو قبر موسی بن جعفر پر جاتا ہوں ان کا توسل لیتا ہوں

اس کی سند صحیح ہے

ذهبی کتا ب سیر اعلام النبلاء ،ج ٩ ص ٣٤٤ ، میں لکھتے ہیں
وعن ابراهیم الحربی ، قال ۰ قبر معروف ( الکرخی ) التریاق المجرب
اور ابراهیم حربی کہتے هیں کہ معروف (کرخی) کی قبر مجرب تریاق هے

الذھبی، سیر الاعلام النبلاء ج ٩ ص ٣٤٣ پر اس با ت کی تا ئید کرتے ہیں

يُرِيْدُ إِجَابَةَ دُعَاءِ المُضْطَرِ عِنْدَهُ؛ لأَنَّ البِقَاعَ المُبَارَكَةِ يُسْتَجَابُ عِنْدَهَا الدُّعَاءُ، كَمَا أَنَّ الدُّعَاءَ فِي السَّحَرِ مَرْجُوٌّ، وَدُبُرَ المَكْتُوْبَاتِ، وَفِي المَسَاجِدِ، بَلْ دُعَاءُ المُضْطَرِ مُجَابٌ فِي أَيِّ مَكَانٍ اتَّفَقَ، اللَّهُمَّ إِنِّيْ مُضْطَرٌ إِلَى العَفْوِ، فَاعْفُ عَنِّي

ابراہیم حربی کی مراد یہ هے کہ معروف کرخی کی قبر کے پاس مضطر آدمی کی دعا قبول هوتی هے ،کیونکہ مبارک مقامات کے پاس دعا قبول هوتی هے ،جیسا کہ سحری کے وقت ،اور فرض نمازوں کے بعد ،اور مساجد میں ،بلکہ مضطر آدمی کی دعا هر جگہ قبول هو تی هے

امام احمد کہتے ہیں بحر الدم (1010) بحوالہ موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله، دار الکتب

وقال أحمد: معروف من الأبدال، وهو مجاب الدعوة

احمد کہتے ہیں معروف ابدال میں سے ہیں اور ان کی دعا قبول ہوتی ہے

امام احمد صوفیوں کے مدح تھے اور ان کے شاگرد ابراہیم الحربی صوفی معروف الکرخی کی قبر کو تریاق المجرب کہتے تھے

[/EXPAND]

[وسیلہ لینے سے کیا مراد ہے ؟]

الله تعالی تو جس کو چاہتا ہے سنوا دیتا ہے

الله تعالی نبی پر درود بھیجتا ہے

جواب

وسیلہ کی بعض شکلیں جائز ہیں اور بعض شرک ہیں

صورت حال : اپ ایک مشکل میں ہیں کافی دن سے الله کو براہ راست پکار رہی ہیں لیکن مشکل حل نہیں ہوئی اب اپ وسیلہ کرنے کا سوچتی ہیں

قسم اول : اپ ایک زندہ بزرگ سے درخواست کرتی ہیں کہ اپ کے لئے دعا کرے یہ جائز ہے
قرآن میں ہے

قَالُوا يَا أَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ قَالَ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
بنی یعقوب نے کہا اے ابا جان ہمارے گناہوں کی معافی کے لئے دعا کریں ہم خطا کار تھے – میں تمھارے لئے دعا کروں گا اپنے رب سے وہ بہت غفور و رحیم ہے

قسم دوم : اپ کی مشکل ابھی بھی حل نہیں ہوئی اب اپ ایک مردہ بزرگ کی قبر پر جا کر ان سے دعا کی درخواست کرتی ہیں
یہاں سے عقیدہ کا اضطراب شروع ہوتا ہے کیونکہ اپ ایک مردہ کو پکار رہی ہیں جبکہ اپ خود کہتی ہیں کہ الله جس کو چاہتا ہے سنواتا ہے تو اپ کو کیسے معلوم ہوا کہ الله اس مردہ کو سنوانا چاہ رہا ہے
پھر اگر اپ اس مردہ کو مردہ نہیں سمجھتیں تو اپ ایک زندہ مقبور سے کلام کر رہی ہیں تو اس آیت سے دلیل نہیں لے سکتیں کیونکہ آیت مردوں کے بارے میں ہے نہ کہ زندوں سے متعلق ہے
پھر آیت کا سیاق و سباق تو کفار سے متعلق ہے جبکہ اپ تو کسی فوت شدہ مسلم کی قبر پر گئی ہوں گی

قسم ثالث: اپ کی مشکل اب بھی حل نہیں ہوئی- اب اپ نہ تو کسی قبر تک جاتی ہیں نہ کسی زندہ بزرگ سے درخواست کرتی ہیں بلکہ الله پر زور زبردستی والے انداز میں نبی کا صدقے میں اہل بیت کے صدقے میں کے الفاظ استمعال کرتی ہیں تو یہ صریح شرک ہے کیونکہ الله صمد ہے اس پر کسی کا حق نہیں جس کو جتایا جا سکے یا اس کے فصلے کو بدلا جا سکے
خود نبی صلی الله علیہ وسلم کا بیٹا ان کے ہاتھوں میں دم توڑ گیا
——-

الله صلی کرتا ہے یعنی سلامتی نازل کرتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ الله سے نبی کی جاہ و حشمت کا واسطہ دے کر مانگا جا سکتا ہے

[/EXPAND]

[ابن کثیر تفسیر میں کہتے ہیں مردہ رشتہ داروں پر زندہ رشتہ داروں کے اعمال پیش ہوتے ہیں کیا یہ بات صحیح حدیث میں ہے ؟]

جواب

سوره التوبہ کی آیت ١٠٥ ہے

وقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى الله عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ وَسَتُرَدُّونَ إِلى عالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِما كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ

یہ آیت غزوہ تبوک کے تناظر میں نازل ہوئی تھی .ایسے لوگ جو متساہل یا منافق تھے ان کو کہا جا رہا ہے کہ الله، اس کا رسول اور عام مومنین تمہارے اعمال کا مشاہدہ کریں گے کہ تم لوگ واقعی سنجیدہ ہو یا بہانے بناتے ہو اور جان لو کہ واپس الله عالم الغیب کی طرف ہی پلٹنا ہے

ان اعمال میں مسجد آنا، زکواة دینا وغیرہ شامل ہے جو مشاھدے میں آ سکیں. مقصد یہ ہے اب منافقین کی حرکات و سکنات پر نگاہ رکھی جائے گی پہلے جیسی چھوٹ ختم ہو گئی

شیعوں نے اس آیت کے مفھوم میں وسعت پیدا کی اور روایت بیان کر دی

عبداللہ بن ابان ایک روایت میں کہتے ہیں:“ میں نے حضرت امام رضا ﴿ع﴾ کی خدمت میں عرض کی کہ: میرے اور میرے خاندان کے لئے ایک دعا فرمائیے۔ حضرت ﴿ع﴾ نے فرمایا:“ کیا میں دعا نہیں کرتا ھوں؟ خدا کی قسم آپ کے اعمال ہر روز وشب میرے سامنے پیش کئے جاتے ہیں، لہذا ہر ناسب امر کے بارے میں دعا کرتا ہوں”۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ امام ﴿ع﴾ کا یہ کلام میرے لئے عجیب تھا کہ ہمارے اعمال ہر روز و شب امام ﴿ع﴾ کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں۔ جب امام ﴿ع﴾ میرے تعجب کے بارے میں آگاہ ھوئے تو مجھ سے مخاطب ھوکر فر مایا:“ کیا آپ خداوند متعال کی کتاب نہیں پڑھتے ہیں، جہاں پر خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے:“ وقل اعملوا فسیراللہ عملکم و رسولہ والمؤمنون” اور اس کے بعد فرمایا:“ خدا کی قسم اس آیت میں مومنون سے مراد علی بن ابی طالب ﴿ع﴾ ہیں الکافی ج1، ص ‏219، ح‏  ٤

ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں  کہتے ہیں

قَدْ وَرَدَ: أَنَّ أَعْمَالَ الْأَحْيَاءِ تُعرَض عَلَى الْأَمْوَاتِ مِنَ الْأَقْرِبَاءِ وَالْعَشَائِرِ فِي الْبَرْزَخِ

بے شک یہ آیا ہے کہ زندوں کے اعمال مردہ رشتہ داروں پر البرزخ میں پیش ہوتے ہیں

خالصتا شیعوں کا عقیدہ لے کر اہل سنت میں پھیلایا گیا کیونکہ آیت  کا یہ مفھوم  شیعہ کی معتمد علیہ کتاب الکافی سے لیا گیا ہے

ابن کثیر شاید وہ پہلے مفسر ہیں جنہوں نے سوره توبہ کی آیت سے یہ اسخراج کیا ہے کہ رشتہ داروں پر اعمال پیش ہوتے ہیں ان سے پہلے یہ تفسیر کرنے کی، سوائے شیعہ حضرات کے ، کسی کی ہمت نہ ہوئی

 ابن کثیر تفسیر ج ٣ ص ٤٤٠ میں یہ بھی  لکھتے ہیں

اس باب میں صحابہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہم) سے بہت سے آثار و روایات مروی ہیں- حضرت عبداللہ ابن رواحۃ کے انصاری رشتہ داروں میں سے ایک فرمایا کرتے تھے :اللّٰہم انی اعوذ بک من عمل اخزیٰ بہ عند عبداللّٰہ بن رواحۃ،اے اللہ میں ایسے عمل سے تیری پناہ مانگتا ہوں جس سے عبداللہ بن رواحہ کی نگاہ میں میری رسوائی ہو

ابن تیمیہ فتوی میں لکھتے ہیں

ولما کانت اعمال الاحیاء تعرض علی الموتٰی کان ابوالدرداء یقول اللّٰہم انی اعوذ بک ان اعمل عملاً اخزیٰ بہٖ عند عبداللّٰہ ابن رواحۃ-(مجموعہ فتاویٰ ابن تیمیہ، ج ٢٤ ، ص ٣١٨)

چونکہ زندوں کے اعمال مردوں پر پیش کیے جاتے ہیں اس لیے ابو درداء  فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں ایسے عمل سے جس سے عبداللہ ابن رواحۃ کی نظر میں میری رسوائی ہو

 ابن حجر عسقلانی  فتح الباری (ج ۸، ص١٤٩ ) میں لکھتے ہیں

قَالَ الْخَطَّابِيُّ زَعَمَ بَعْضُ مَنْ لَا يُعَدُّ فِي أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْمُرَادَ بِقَوْلِهِ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ لَا كَرْبَ عَلَى أَبِيكِ بَعْدَ الْيَوْمِ أَنَّ كَرْبَهُ كَانَ شَفَقَةً عَلَى أُمَّتِهِ لِمَا عَلِمَ مِنْ وُقُوعِ الْفِتَنِ وَالِاخْتِلَافِ وَهَذَا لَيْسَ بِشَيْءٍ لِأَنَّهُ كَانَ يَلْزَمُ أَنْ تَنْقَطِعَ شَفَقَتُهُ عَلَى أُمَّتِهِ بِمَوْتِهِ وَالْوَاقِعُ أَنَّهَا بَاقِيَةٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لِأَنَّهُ مَبْعُوثٌ إِلَى مَنْ جَاءَ بَعْدَهُ وَأَعْمَالُهُمْ تُعْرَضُ عَلَيْهِ

خطابی نے کہا  کہ نبی علیہ السلام نے فاطمہ سے وفات سے کچھ پہلے کھا تھا کہ لا کرب علی ابیک بعد الیوم (یعنی اے فاطمہ تمہارے والد کو آج کے دن کے بعد اب کوئی تکلیف نہیں ہوگی) بعض وہ لوگ جن کا شمار اہل علم میں نہیں ہوتا وہ یہ گمان کرتے ہیں کہنبی صلی الله علیہ وسلم  کو علم دیا گیا تھا کہ ان کے بعد ان کی امت میں فتنے اور اختلافات پیدا ہوں گے، امت پر شفقت و محبت کی وجہ سے آپ کو اس کی فکر رہتی تھی، یہ فکر آپ کی تکلیف کا باعث تھی اب چونکہ آپ دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں لہٰذا آپ کی یہ فکر بھی دور ہو رہی ہے، اس حدیث میں تکلیف سے یہی مراد ہے، حالانکہ یہ بالکل بے سروپا  بات ہے، اس لیے کہ اس سے لازم آتا ہے کہ امت پر نبی کی شفقت و محبت آپ کی وفات کے ساتھ ہی منقطع اور ختم ہو جائے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ کی امت پر آپ کی شفقت و محبت قیامت تک باقی ہے، کیونکہ آپ ان لوگوں کے لیے بھی مبعوث کیے گئے ہیں جو آپ کے بعد آئیں گے اور ان کے اعمال آپ پر پیش کیے جائیں گے

ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ نے جب اس باطل عقیدے پر چوٹ کی تو وَانْصُرُوا (مدد کرو) کی  پکار اس طرح بلند ہوئی

خواجہ محمد قاسم کتاب کراچی کا عثمانی مذھب میں لکھتے ہیں

qasim-ibnkaseer

قارئین آپ بھی ہماری طرح متحر ہونگے کہ روایت کی سندی حثیت کی تحقیق کی بجائے یہ کیا کیفیت ہے کہ ضعیف روایت کو مانا جائے گا  ورنہ صحابہ پر فتوی لگنا چاہیے. قاسم صاحب کی اس عبارت سے علم حدیث، جرح و تعدیل کی تمام کتب آتش بغض میں بھسم ہو گئیں

یہ روایت المنامات  از ابن أبي الدنيا سے لی گئی ہے. ابن أبي الدنيا کی کتب ، احادیث کے ذخیرہ کی کمزور ترین روایات کا مجموعہ ہے. اس کی سند ہے

حدثنا أبو بكر ، ثني محمد بن الحسين ، ثنا علي بن الحسن بن شقيق ، ثنا عبد الله بن المبارك ، عن صفوان بن عمرو ، عن عبد الرحمن بن جبير بن نفير ، أن أبا الدرداء ، كان يقول : « إن أعمالكم تعرض على موتاكم فيسرون ويساءون » وكان أبو الدرداء ، يقول عند ذلك : « اللهم إني أعوذ بك أن أعمل عملا يخزى به عبد الله بن رواحة

الذهبی کتاب العبر في خبر من غبر میں لکھتے ہیں

 عبد الرحمن بن جبيْر بن نفَير الحضرمِي الحمصي. وهو مُكْثرٌ عن أبيه وغيره. ولا أعلمه روى عن الصحابة. وقد رأى جماعة من الصحابة

عبد الرحمن بن جبيْر بن نفَير الحضرمِي الحمصي ہیں اپنے باپ سے بہت سی روایات کی ہیں اور میں نہیں جانتا ان کی صحابہ سے کوئی روایت اور انہوں نے صحابہ کو دیکھا ہے

ابن ماكولا کتاب الإكمال میں لکھتے ہیں

جبير بن نفير من قدماء التابعين، روى عن أبيه وغيره. وابنه عبد الرحمن بن جبير بن نفير.

جبير بن نفير قدیم تابعين میں سے ہیں اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں اور ان کے بیٹے عبد الرحمن بن جبير بن نفير ہیں

معلوم ہوا کہ یہ روایت متصل نہیں. عبد الرحمن بن جبير بن نفير کا صحابہ سے سماع ثابت نہیں اور ان کے باپ خود تابعی ہیں

دوسری روایت

حاکم نے مستدرک میں (ج ۴/ص : ۳۴۲ ) روایت بیان کرتے ہیں

أَخْبَرَنَا أَبُو النَّضْرِ الْفَقِيهُ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْقَارِئُ، قَالَا: ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، ثَنَا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ الْوُحَاظِيُّ، ثَنَا أَبُو إِسْمَاعِيلَ السَّكُونِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ أُدَىٍّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ، رَضِيَ الله عَنْهُمَا يَقُولُ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ: سَمِعْتُ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «أَلَا إِنَّهُ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا مِثْلُ الذُّبَابِ تَمُورُ فِي جَوِّهَا، فَاللَّهَ  فِي إِخْوَانِكُمْ مِنْ أَهْلِ الْقُبُورِ فَإِنَّ أَعْمَالَكُمْ تُعْرَضُ عَلَيْهِمْ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ “

نعمان بن بشیر رضی الله تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا …. لوگوں اپنے مردہ بھائیوں کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو کیونکہ تمہارے اعمال ان پر پیش کیے جاتے ہیں

الذهبی کہتے ہیں فيه مجهولان  اس میں مجھول راوی ہیں

تیسری روایت 

طبرانی معجم کبیرج ٤ ص  ۱۲۹اور معجم اوسط ج ١، ص  ٥٤ روایت کرتے ہیں

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عُثْمَانَ بْنِ صَالِحٍ، ثنا عَمْرُو بْنُ الرَّبِيعِ بْنِ طَارِقٍ، ثنا مَسْلَمَةُ بْنُ عُلَيٍّ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَلَامَةَ، عَنْ أَبِي رُهْمٍ السَّمَاعِيَّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” إِنَّ نَفْسَ الْمُؤْمِنِ إِذَا قُبِضَتْ تَلَقَّاهَا مِنْ أَهْلِ الرَّحْمَةِ مِنْ عَبَادِ اللهِ كَمَا تَلْقَوْنَ الْبَشِيرَ فِي الدُّنْيَا، فَيَقُولُونَ: انْظُرُوا صَاحِبَكُمْ يَسْتَرِيحُ، فَإِنَّهُ قَدْ كَانَ فِي كَرْبٍ شَدِيدٍ، ثُمَّ يَسْأَلُونَهُ مَاذَا فَعَلَ فُلَانٌ؟، وَمَا فَعَلَتْ فُلَانَةُ؟ هَلْ تَزَوَّجَتْ؟ فَإِذَا سَأَلُوهُ عَنِ الرَّجُلِ قَدْ مَاتَ قَبْلَهُ، فَيَقُولُ: أَيْهَاتَ قَدْ مَاتَ ذَاكَ قَبْلِي، فَيَقُولُونَ: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، ذُهِبَتْ بِهِ إِلَى أُمِّهِ الْهَاوِيَةِ فَبِئْسَتِ الْأُمُّ وَبِئْسَتِ الْمُرَبِّيَةُ ” قَالَ: ” وَإِنَّ أَعْمَالَكُمْ تُعْرَضُ عَلَى أَقَارِبِكُمْ وَعَشَائِرِكُمْ مِنْ أَهْلِ الْآخِرَةِ، فَإِنْ كَانَ خَيْرًا فَرِحُوا وَاسْتَبْشَرُوا، وَقَالُوا: اللهُمَّ هَذَا فَضْلُكَ وَرَحْمَتُكَ فَأَتْمِمْ نِعْمَتَكَ عَلَيْهِ، وَأَمِتْهُ عَلَيْهَا وَيُعْرَضُ عَلَيْهِمْ عَمَلُ الْمُسِيءِ، فَيَقُولُونَ: اللهُمَّ أَلْهِمْهُ عَمَلًا صَالِحًا تَرْضَى بِهِ عَنْهُ وتُقَرِّبُهُ إِلَيْكَ “.

روایت کے الفاظ ہیں

وان اعمالکم تعرض علی اقاربکم وعشائرکم فان کان خیراً فرحوا واستبشروا وقالوا اللّٰھم ھٰذا فضلک ورحمتک فأتمم نعمتک علیہ ویعرض علیہم عمل المسئی فیقولون اللّٰہم الہمہ عملا صالحاً ترضٰی بہٖ عنہ و تقربہ الیک

ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

 تمہارے اعمال تمہارے  عزیز و اقارب پر پیش کیےجاتے ہیں، اگر وہ اعمال اچھے ہوتے ہیں تو وہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے اللہ یہ تیرا فضل و رحمت ہے تو اس پر اپنی نعمتوں کا اتمام فرما دے اور جب ان پر برے عمل پیش کیے جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ اے اللہ اس کو عمل صالح کی توفیق عطا فرما جس سے تو اس سے راضی ہو جائے اور تیری قربت حاصل ہو

 الہیثمی مجمع الزوائد میں اس روایت پر کہتے ہیں کہ اس کی سند میں مسلمہ بن علی ہے اور وہ ضعیف ہے

رشتہ داروں پر اعمال پیش ہونے کی کوئی ایک روایت بھی سندا صحیح نہیں لیکن اس کو عقیدے کا حصہ بنایا گیا

زبیر علی زئی کتاب توضیح الاحکام میں لکھتے ہیں

zubair-amal-paish

اہل حدیث حضرات ابھی تک حدیث کی صحت پر متفق نہیں

ابن قیم سنن ابی داود پر اپنے حاشیہ تهذيب سنن أبي داود وإيضاح علله ومشكلاته  میں کہتے ہیں

وَلَا رَيْب أَنَّ الْمَيِّت يَسْمَع بُكَاء الْحَيّ وَيَسْمَع قَرْع نِعَالهمْ وَتُعْرَض عَلَيْهِ أعمال أقاربه الأحياء

اور کوئی شک نہیں کہ میت زندوں کا رونا اور ان کے قدموں کی چاپ سنتی ہے اور اس پر زندہ رشتہ داروں کے  اعمال پیش ہوتے ہیں

الله اس شرک سے نکلنے کی توفیق دے

[/EXPAND]

[کیا درود نبی صلی الله علیہ وسلم تک پہنچایا جاتا ہے؟ ]

جواب

مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ہے

حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة ، حدثنا زيد بن الحباب ، حدثنا جعفر بن إبراهيم ، من ولد ذي الجناحين ، قال : حدثنا علي بن عمر ، عن أبيه ، عن علي بن حسين ، أنه رأى رجلا يجيء إلى فرجة كانت عند قبر النبي صلى الله عليه وسلم ، فيدخل فيها فيدعو ، فنهاه ، فقال : ألا أحدثكم حديثا سمعته من أبي ، عن جدي ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، قال : « لا تتخذوا قبري عيدا ، ولا بيوتكم قبورا ، فإن تسليمكم يبلغني أينما كنتم »

علی زین العابدین رحمہ اللہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر کے پاس ایک سوراخ کے پاس آکر اس میں داخل ہوتا ہے اور دعا کرتا ہے ، چنانچہ اسے اپنے پاس بلایا اور فرمایا: کیا میں تمہیں وہ حدیث نہ سناوں جو میں نے اپنے باپ سے سنی ہے اور میرے باپ نے میرے دادا سے سنی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: میری قبر کو عید [میلہ گاہ] نہ بناو اور جہاں کہیں بھی رہو مجھ پر سلام پڑھو تمھارا سلام مجھ تک پہنچ جائے گا۔

یہ روایت صحیح نہیں ہے اس میں ہے کہ قبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں خلل پیدا ہوا کہ حتی کہ ایک اتنا بڑا گڑھا ہو گیا کہ شخص اس میں داخل ہو جاتا اور اس نقص کی طرف کسی کی توجہ نہ ہوئی ایسا کسی بھی حدیث یا تاریخی روایت میں نہیں لہذا ضعیف ہے

ہیثمی نے اس پر لکھا ہے

رواه أبو يعلى وفيه جعفر بن إبراهيم الجعفري ذكره ابن أبي حاتم ولم يذكر فيه جرحاً وبقية رجاله ثقات

اس کو ابو یعلی نے روایت کیا ہے اور اس میں جعفر بن ابراہیم ہے جس کا ذکر ابن اب حاتم نے کیا ہے اور اس پر جرح نہیں کی باقی راوی ثقہ ہیں

یعنی یہ جعفر مجھول ہے

[/EXPAND]

[سوره النسا کی آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول الله کا وسیلہ پکڑا جا سکتا ہے اور یہ الله کی عطا ہے اس وجہ سے نبی کو شفیع المذنبن کہا جاتا ہے دوا کھانا بھی تو وسیلہ ہے اسی طرح رسول الله کا  لعاب دھن ]

جواب

یہ سورہ النساء کی آیت ٦٤ ہے

وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا

ابن کثیر نے تفسیر میں ایک باطل روایت لکھی ہے
وَقَدْ ذَكَرَ جَمَاعَةٌ مِنْهُمْ الشَّيْخُ أَبُو نَصْرِ بْنُ الصَّبَّاغِ فِي كِتَابِهِ الشَّامِلِ الْحِكَايَةَ الْمَشْهُورَةَ عَنْ الْعُتْبِيِّ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، سَمِعْتُ اللَّهَ يَقُولُ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جاؤُكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّاباً رَحِيماً

ابن کثیر المتوفی ٧٧٤ ھ نے اس جھوٹی روایت کو اپنی تفسیر میں لکھ کر اپنی بد عقیدتی کا اظہار کیا ان سے قبل شمس الدين أبي عبد الله محمد بن أحمد بن عبد الهادي المقدسي الحنبلي المتوفی ٧٤٤ ھ اس کو کتاب الصارم المنكي في الرد على السبكي میں رد کر چکے تھے

اس روایت کو امام النووی نے بھی صحیح مان کر لکھا ہے

آیت کا تعلق منافقین کی جنگ میں شرکت نہ کرنے سے ہے کہ ان کی حیلہ سازی کے باوجود اگر وہ الله سے معافی مانگیں تو الله معاف کر دے گا لیکن سوره التوبہ میں یہ بات ختم ہوئی جب منافق کا جنازہ پڑھنے سے روک دیا گیا اور کہا کہ اب معافی ختم
ان آیات کا سیاق و سباق ہے

الله نے حکم دیا ہے کہ اس سے براہ راست طلب کیا جائے کسی کے وسیلہ کا حکم نہیں دیا نہ یہ قرآن میں کسی کے لئے ہے بلکہ یعقوب علیہ السلام کے بیٹے باپ سے کہتے ہیں کہ ہمارے لئے دعائیں کریں وہ چاھتے تو ابراہیم اور اسحاق و اسمعیل کا وسیلہ پکڑ سکتے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا

الله ہر ایک سے بے پرواہ ہے اس کی شان یہ ہے کہ انسان صرف اس سے مانگے یہی انبیاء کا عمل تھا

دوا کھانا اور لعاب دھن کے معجزہ کا اس بحث سے کوئی تعلق نہیں

الله نے بیماری کی شفا نازل کی ہے جو اس نے کیمکل میں رکھی ہے اور انسان ان کیمکل کو کھا لے تو اس کو شفا ہوتی ہے اس پر سب سے زیادہ تحقیق پرانے زمانے میں ہندووں نے کی جو آریو وید کے نام سے مشھور ہے ان سے یہ علم یونان کو منتقل ہوا – یہ سب مشرک اقوام تھیں جنہوں نے تجربات سے کیمکل دریافت کیے اور دیکھا کس چیز میں شفا ہے کس میں نہیں

اس سب کو لکھنے کا مقصد ہے کہ اردو میں محاورہ ہے
اگن کے بچے کھجور میں بتانا
یعنی کہیں کی بات کہیں منڈنا – دوا اور شفا کا وسیلہ کے عقیدے سے کوئی ربط نہیں ہے اور خارج عن بحث بات ہے

لعآب دھن تو رسول الله کا معجزہ تھا اور معجزہ الله کا خاص حکم ہوتا ہے اس کا وسیلہ سے کوئی تعلق نہیں ہے

دنیا کے بہت سے کام ہمیں کرنا ہوں تو وہ کام کسی کے ذریعہ ہوتا ہے
بہت سے کام ہم خود کر لیتے ہیں مثلا کھانا کھانا ناک سنکنا وغیرہ کیا اس میں کوئی وسیلہ ہے ؟ کوئی نہیں ہے

بعض لوگ کوئی دوا نہیں لیتے صرف الله سے دعآ کرتے ہیں اور شفا پاتے ہیں مثلا یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں اتنا عرصۂ رہے کوئی وسیلہ نہ لیا تو نکل آئے لیکن جب الله کا حکم ہوا دعائیں تو وہ کافی عرصہ کرتے رہے یعنی ایک زندہ نبی تک کی دعآ پوری نہیں ہوئی اس کو بھی ٹائم لگا تو ایک عام آدمی جو نبی کا وسیلہ لگا رہا ہے اس کو کوئی فائدہ نہیں

امام ابو حنیفہ کا فتوی ہے کہ بحق فلاں کہنے پر اگ کا عذاب ہو گا

فقه حنفي كي كتاب هدايه از المرغيناني، أبو الحسن برهان الدين (المتوفى: 593هـ) مين ہے
ويكره أن يقول الرجل في دعائه بحق فلان أو بحق أنبياؤك ورسلك”؛ لأنه لا حق للمخلوق على الخالق.
اور کراہت کی جاتی ہے کہ آدمی دعا میں بحق فلاں کہے یا بحق انبیاء اور رسول کیونکہ مخلوق کا خالق پر کوئی حق نہیں

[/EXPAND]

[کیا امام حاکم کا عقیدہ وسیلہ میں صحیح تھا؟ کیا مستدرک میں روایات پر ان کی تصحیح قابل قبول ہے ؟]

جواب  أَبَا إِسْمَاعِيْل عَبْدَ اللهِ بنَ مُحَمَّدٍ الهَرَوِيَّ  محدث    ابو عبدللہ محمّد بن عبدللہ   حاکم النیشابوری      صاحب المستدرک کے لئے کہتے ہیں     رَافضيٌّ خَبِيْث   ( سیر الاعلام النبلاء ج ١٢، ص ٥٧٦، دار الحديث- القاهرة    ).    الذھبی  کہتے ہیں   قُلْتُ: كَلاَّ لَيْسَ هُوَ رافضيًّا، بل يتشيِّع.  یہ رافضی تو نہیں لیکن شیعیت رکھتے تھے

عقائد میں حاکم صاحب مستدرک  صحیح منہج پر نہیں تھے وہ انبیاء پر وسیلے کی تہمت لگاتے تھے جیسا کہ انہوں نے مستدرک میں آدم علیہ السلام  کی دعا نبی علیہ السلام کے وسیلے سے قبول ہوئی روایت کیا ہے اور اس کو صحیح کہا ہے

حالانکہ ان کی سند میں متکلم فیہ راوی ہے اس پر اپنی کتاب المدخل میں خود  اس پر جرح کی  ہے  بعض محدثین ابن حجر کی رائے میں مستدرک لکھتے وقت  ان کی  دماغی حالت صحیح نہیں تھی اور اسی آخری وقت میں انہوں نے مستدرک لکھی ہے

لہذا مستدرک میں حاکم کی تصحیح  قبول نہیں کی جاتی

[/EXPAND]

[ابن کثیر کے نزدیک قبر نبی پر جا کر مدد مانگی جا سکتی ہے ؟]

جواب ابن کثیر اپنی کتاب : البداية والنهاية ج ٧ ص ٩١ اور ٩٢  میں روایت نقل کرتے ہیں

وَقَالَ الْحَافِظُ أَبُو بَكْرٍ الْبَيْهَقِيُّ: أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَةَ وَأَبُو بكر الفارسي قالا: حدثنا أبو عمر بْنُ مَطَرٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَلِيٍّ الذُّهْلِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ مَالِكٍ قال: أصاب الناس قحط في زمن عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ اسْتَسْقِ اللَّهَ لِأُمَّتِكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَكُوا فَأَتَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في المنام فقال: ايت عمر فأقره منى السلام وأخبرهم أنهم مسقون، وقل له عليك بالكيس الْكَيْسَ. فَأَتَى الرَّجُلُ فَأَخْبَرَ عُمَرَ فَقَالَ: يَا رب ما آلوا إِلَّا مَا عَجَزْتُ عَنْهُ. وَهَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ.

ابن-کثیر

إس كي سند ضعیف ہے اعمش مدلس عن سے روایت کر رہا ہے جبکہ امام مالک سے عمر رضی الله عنہ تک سند نہیں ہے ابو صالح غیر واضح ہے افسوس ابن کثیر اتنی علتوں کے باوجود اس کو صحیح کہتے ہیں جبکہ قبر پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا سننا ثابت نہیں

لہذا ابن کثیر کی بد عقیدگی کی نشانی ہے

[/EXPAND]

[محدث ابن حبان قبروں سے فیض لینے کے قائل تھے ؟]

 ابن حبان المتوفی  ٣٥٤ ھ   اپنی صحیح میں روایت کرتے  ہیں

 أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ سُرَيْجٍ النَّقَّالُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْيَمَانِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِذَا مَرَرْتُمْ بِقُبُورِنَا وَقُبُورِكُمْ مِنْ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ، فَأَخْبِرُوهُمْ أَنَّهُمْ فِي النَّارِ

ابو هُرَيْرَةَ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا  جب تم ہماری (اہل اسلام) اور اہل الْجَاهِلِيَّةِ کی قبروں پر سے گزرتے ہو تو پس ان کو خبر دو کہ وہ اگ والے ہیں

البانی کتاب التعليقات الحسان على صحيح ابن حبان وتمييز سقيمه من صحيحه، وشاذه من محفوظه میں  کہتے ہیں صحيح اور اسی طرح – «الصحيحة» (18)، «أحكام الجنائز» (252) میں اس کو صحیح قرار دیتے ہیں

ibn-habban-title

ibn-habbanj2pg220

جبکہ شعيب الأرنؤوط کتاب الإحسان في تقريب صحيح ابن حبان   پر اپنی تعلیق میں کہتے ہیں

إسناده ضعيف جداً، الحارث بن سريج قال ابن معين. ليس شيء، وقال النسائي. ليس بثقة، وقال ابن عدي: ضعيف يسرق الحديث، وشيخه يحيي بن اليمان كثير الخط.

اس کی سند بہت ضعیف ہے اس میں الحارث بن سريج ہے جس کو ابن معین کوئی چیز نہیں کہتے ہیں نسائی کہتے ہیں ثقہ نہیں ہے اور ابن عدی کہتے ہیں ضعیف حدیث چوری کرتا تھا اور اس کا شیخ يحيي بن اليمان  بہت غلطیاں کرتا تھا

ابن حبان اس حدیث پر صحیح ابن حبان میں حاشیہ لکھتے ہیں

قَالَ أَبُو حَاتِمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَمَرَ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْخَبَرِ الْمُسْلِمَ إِذَا مَرَّ بِقَبْرِ غَيْرِ الْمُسْلِمِ، أَنْ يَحْمَدَ اللَّهَ جَلَّ وَعَلَا عَلَى هِدَايَتِهِ إِيَّاهُ الْإِسْلَامَ، بِلَفْظِ الْأَمْرِ بِالْإِخْبَارِ إِيَّاهُ أَنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، إِذْ مُحَالٌ أَنْ يُخَاطَبَ مَنْ قَدْ بَلِيَ بِمَا لَا يَقْبَلُ عَنِ الْمُخَاطِبِ بِمَا يُخَاطِبُهُ بِهِ

  نبی صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا اس حدیث میں کہ جب کوئی مسلمان کسی غیر مسلم کی قبر پر سے گزرے تو الله کی تعریف کرے اس ہدایت پر جو اس نے اسلام سے دی اور حکم کے الفاظ جو اس حدیث میں ہیں کہ وہ اگ میں سے ہیں سے یہ محال ہے کہ ان  کو مخاطب کیا جائے جو بے شک (اتنے) گل سڑ گئے ہوں کہ  خطاب کرنے والے (کی اس بات ) کو قبول نہ کر سکتے ہوں جس پر ان کو مخاطب کیا گیا ہے

ابن حبان کے حساب سے ایسا خطاب نبی صلی الله علیہ وسلم نے سکھایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مردے سمجھنے اور سننے کے قابل  ہیں اس ضعیف روایت کو اپنی صحیح  میں بھی لکھتے ہیں اس سے بھی عجیب بات ہے کہ مردوں کے نہ سننے کے قائل البانی اس روایت کو صحیح کہتے ہیں جبکہ سندا یہ روایت کمزور ہے

ابن حبان مردوں کے سننے کے قائل  تھے اور نیک و صالحین کی قبور پر جا کر دعا کرتے اور وہ ان کے مطابق قبول بھی ہوتیں

وما حلت بي شدة في وقت مقامي بطوس, فزرت قبر علي بن موسى الرضا صلوات الله على جده وعليه ودعوت الله إزالتها عني إلا أستجيب لي, وزالت عني تلك الشدة, وهذا شيء جربته مرارا, فوجدته كذلك
طوس میں قیام کے وقت جب بھی مجھے کوئی پریشانی لاحق ہوئی ،میں نے (امام) علی بن موسی الرضا صلوات الله على جده وعليه کی قبرکی زیارت کی، اور اللہ سے اس پریشانی کے ازالہ کے لئے دعاء کی ۔تو میری دعاقبول کی گئی،اورمجھ سے وہ پریشانی دورہوگئی۔اوریہ ایسی چیز ہے جس کامیں نے بارہا تجربہ کیا تو اسی طرح پایا

[الثقات لابن حبان، ط دار الفكر: 8/ 456]

 قبروں سے فیض حاصل کرنے اور مردوں کے سننے کے ابن حبان قائل تھے

کہا جاتا ہے کہ ابن حبان  صالحین کی قبروں کی زیارت کے وقت کودعاء کی قبولیت کاوقت سمجھتے ہوں گے لیکن ایسا کسی حدیث میں نہیں لہذا یہ بدعت ہوئی اور پھر ان کا مردوں کے سننے کا عقیدہ اس بات کو اور الجھا دیتا ہے

ذهبی   کتا ب  سیر اعلام النبلاء ،ج ٩ ص ٣٤٤ ، میں لکھتے ہیں
وعن ابراهیم الحربی ، قال ۰ قبر معروف ( الکرخی ) التریاق المجرب 
 اور ابراهیم حربی کہتے هیں کہ  معروف (کرخی) کی قبر مجرب تریاق هے

الذھبی، سیر الاعلام النبلاء ج ٩ ص ٣٤٣ پر اس با ت کی تا ئید کرتے ہیں

يُرِيْدُ إِجَابَةَ دُعَاءِ المُضْطَرِ عِنْدَهُ؛ لأَنَّ البِقَاعَ المُبَارَكَةِ يُسْتَجَابُ عِنْدَهَا الدُّعَاءُ، كَمَا أَنَّ الدُّعَاءَ فِي السَّحَرِ مَرْجُوٌّ، وَدُبُرَ المَكْتُوْبَاتِ، وَفِي المَسَاجِدِ، بَلْ دُعَاءُ المُضْطَرِ مُجَابٌ فِي أَيِّ مَكَانٍ اتَّفَقَ، اللَّهُمَّ إِنِّيْ مُضْطَرٌ إِلَى العَفْوِ، فَاعْفُ عَنِّي

  ابراہیم حربی کی مراد یہ هے کہ معروف کرخی کی قبر کے پاس مضطر آدمی کی دعا قبول هوتی هے ،کیونکہ مبارک مقامات کے پاس دعا قبول هوتی هے ،جیسا کہ سحری کے وقت ،اور فرض نمازوں کے بعد ،اور مساجد میں ،بلکہ مضطر آدمی کی دعا هر جگہ قبول هو تی هے

اس پر شعيب الأرناؤوط  تعلیق میں لکھتے ہیں

هذا الكلام لا يسلم لقائله، إذ كيف يكون قبر أحد من الاموات الصالحين ترياقا ودواءا للاحياء، وليس ثمة نص من كتاب الله يدل على خصوصية الدعاء عند قبر ما من القبور، ولم يأمر به النبي صلى الله عليه وسلم، ولا سنه لامته، ولا فعله أحد من الصحابة والتابعين لهم بإحسان، ولا استحسنه أحد من أئمة المسلمين الذين يقتدى بقولهم، بل ثبت النهي عن قصد قبور الأنبياء والصالحين لاجل الصلاة والدعاء عندها

ایسا کلام قائل کے لئے مناسب نہیں کیونکہ کسی نیک شخص کی قبر کیسے تریاق یا دوا زندوں کے لئے ہو سکتی ہے ؟اور اس پر ایک رتی بھی کتاب الله میں دلیل نہیں کہ کوئی خصوصیت نکلتی ہو قبروں کے پاس دعا کی اور ایسا نبی صلی الله علیہ وسلم نے حکم نہیں کیا اور امت کو کہا اور نہ صحابہ نے نہ التابعين  نے ایسا کیا نہ ائمہ مسلمین نے اس کو مستحسن کہا جن کے قول کی اقتدہ کی جاتی ہے، بلکہ  دعا یا نماز کے لئے  انبیاء والصالحين  کی قبروں (کے سفر ) کے قصد  کی ممانعت ثابت ہے

امام احمد کہتے ہیں بحر الدم (1010) بحوالہ موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله،  دار الکتب

وقال أحمد: معروف من الأبدال، وهو مجاب الدعوة

احمد کہتے ہیں معروف ابدال میں سے ہیں اور ان کی دعا قبول ہوتی ہے

امام احمد صوفیوں کے مدح  تھے اور ان  کے شاگرد ابراہیم الحربی صوفی معروف الکرخی کی قبر کو تریاق المجرب کہتے تھے

امت  میں احبار اور رہبان  کی تمیز کا دور اب  ختم ہو رہا ہے (تیسری صدی ہجری کا اختتام) اور  اپس میں اشتراک کا دور شروع ہو گیا ہے اب حدود  واضح نہیں رہیں گی اور محدثین صوفیوں کے مدح نظر آنا شروع ہوں گے اور صوفی منش  اور زہاد لوگ محدث بنیں  گے بات زہد سے نقل کر عقیدے کی خرابی کا سبب بنے گی

ہمارے نزدیک  مردوں کے سننے کا عقیدہ اور قبروں سے فیض حاصل کرنا گمراہی ہے

اللہ ہم سب کو ہدایت دے

[/EXPAND]

[امام النووی نے اپنی کتاب میں ایک اعرابی کے قبر نبی پر دعا کرنے اور نبی کو وسیلہ بنانے والی روایت کی تحسین کی ہے کیا یہ کرنا صحیح عقیدہ ہے؟]

جواب

ڈاکٹر عثمانی کتاب مزار یا میلے میں لکھتے ہیں کہ توسل سے متعلق روایات بے اصل ہیں

mazar1

فقہ حنفی میں توسل  حرام ہے – ڈاکٹر عثمانی حوالہ دیتے ہیں

mazar2

افسوس محدثین میں سے کچھ  توسل یا وسیلہ  کے قائل تھے

امام النووی ساتویں صدی کے محدث ہیں- انہوں نے صحیح مسلم کی شرح لکھی ہے، اس کے علاوہ ریاض الصالحین کے نام سے ان کی ایک کتاب مشھور ہے جس میں صحیح و ضعیف روایات کو ملا جلا کر مختلف عنوانات کے تحت لکھا گیا ہے- اسی طرح ان کا فقہ شافعی پر بھی کام ہے- اپنی فقہ سے متعلق کتاب میں نووی نے زیارت قبر نبوی کے آداب لکھے ہیں، جن کو پڑھ کر آج بھی زیارت حج و عمرہ اور مدینہ کی کتب ترتیب دی جاتی ہیں-

امام النووی  قبر کے پاس سماع کے قائل  تھے کتاب کتاب المجموع شرح المهذب میں لکھتے ہیں

قَالَ قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (مَا مِنْ أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ إلَّا رَدَّ الله عَلَيَّ رُوحِي حَتَّى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلَامُ) رَوَاهُ أَبُو دَاوُد بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا 

ایسا کوئی نہیں کہ مجھے سلام کہے اور الله میری روح نہ لوٹا دے یہاں تک کہ میں سلام پلٹ کر کہوں

اس کو ابو داود نے صحیح اسناد سے روایت کیا ہے

ہمارے نزدیک یہ روایت صحیح نہیں لیکن امام النووی اسی کی بنیاد پر قبر کے پاس درود و سلام کے قائل تھے

امام نووی المتوفى: 676هـ  کتاب المجموع شرح المهذب   میں لکھتے ہیں

ثُمَّ يَأْتِي الْقَبْرَ الْكَرِيمَ فَيَسْتَدْبِرُ الْقِبْلَةَ وَيَسْتَقْبِلُ جِدَارَ الْقَبْرِ وَيُبْعِدُ مِنْ رَأْسِ الْقَبْرِ نَحْوَ أَرْبَعِ أَذْرُعٍ وَيَجْعَلُ الْقِنْدِيلَ الَّذِي فِي الْقِبْلَةِ عِنْدَ الْقَبْرِ عَلَى رَأْسِهِ وَيَقِفُ نَاظِرًا إلَى أَسْفَلِ مَا يَسْتَقْبِلُهُ مِنْ جِدَارِ الْقَبْرِ غَاضَّ الطَّرْفِ فِي مَقَامِ الْهَيْبَةِ وَالْإِجْلَالِ فَارِغَ الْقَلْبِ مِنْ عَلَائِقِ الدُّنْيَا مُسْتَحْضِرًا فِي قَلْبِهِ جَلَالَةَ مَوْقِفِهِ وَمَنْزِلَةَ مَنْ هُوَ بِحَضْرَتِهِ ثُمَّ يُسَلِّمُ وَلَا يَرْفَعُ صَوْتَهُ بَلْ يَقْصِدُ فَيَقُولُ السَّلَامُ عَلَيْك يَا رَسُولَ اللَّهِ السَّلَامُ عَلَيْك يَا نَبِيَّ الله السَّلَامُ عَلَيْك يَا خِيرَةَ اللَّهِ السَّلَامُ عَلَيْك يا حبيب الله السلام عيك يَا سَيِّدَ الْمُرْسَلِينَ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ السَّلَامُ عَلَيْك يَا خَيْرَ  الْخَلَائِقِ أَجْمَعِينَ السَّلَامُ عَلَيْك وَعَلَى آلِكَ وَأَهْلِ بَيْتِك وَأَزْوَاجِك وَأَصْحَابِك أَجْمَعِينَ السَّلَامُ عليك وعلى سائر النبيين وجميع عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ جَزَاك الله يَا رَسُولَ الله عَنَّا أَفْضَلَ مَا جَزَى نَبِيًّا وَرَسُولًا عَنْ أُمَّتِهِ وَصَلَّى عَلَيْك كُلَّمَا ذَكَرَك ذَاكِرٌ وَغَفَلَ عَنْ ذِكْرِك غَافِلٌ أَفْضَلَ وَأَكْمَلَ مَا صَلَّى عَلَى أَحَدٍ مِنْ  الْخَلْقِ أَجْمَعِينَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إلَهَ إلَّا الله وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّك عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَخِيرَتُهُ مِنْ خَلْقِهِ وَأَشْهَدُ أَنَّك بَلَّغْت الرِّسَالَةَ وَأَدَّيْت الْأَمَانَةَ وَنَصَحْت الْأُمَّةَ وَجَاهَدْت فِي الله حَقَّ جِهَادِهِ اللَّهُمَّ آتِهِ الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ وَآتِهِ نِهَايَةَ مَا يَنْبَغِي أَنْ يَسْأَلَهُ السَّائِلُونَ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَرَسُولِكَ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إبْرَاهِيمَ وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إبْرَاهِيمَ فِي الْعَالَمِينَ إنَّك حَمِيدٌ مَجِيدٌ

وَمَنْ طَالَ عَلَيْهِ هَذَا كُلُّهُ اقْتَصَرَ عَلَى بَعْضِهِ وَأَقَلُّهُ السَّلَامُ عَلَيْك يَا رسول الله صلى الله عليك وَسَلَّمَ

پھر قبر کریم کے پاس آئے، قبلہ پیٹھ کی جانب رکھے اور سامنے قبر کی دیوار کو اور قبر کی اٹھان سے چار ہاتھ دور رہے اور قندیل جو قبلہ کی طرف ہے وہ سر پر ہو اور نظر نیچے رکھے قبر کے پاس اور نظر مقام ہیبت و جلال سے نیچے ہو اور دل دنیا و مافیھا سے دور اپنے قلب میں اس مقام کی جلالت کو حاضر رکھتے ہوئے اور….، پھر سلام کرے  اور آواز بلند نہ ہو بلکہ دھیمی ہو، پس کہے

السَّلَامُ عَلَيْك يَا رَسُولَ الله

السَّلَامُ عَلَيْك يَا نَبِيَّ الله

 السَّلَامُ عَلَيْك يَا خِيرَةَ الله

السَّلَامُ عَلَيْك يا حبيب الله

السلام عيك يَا سَيِّدَ الْمُرْسَلِينَ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ

السَّلَامُ عَلَيْك يَا خَيْرَ  الْخَلَائِقِ أَجْمَعِينَ

 السَّلَامُ عَلَيْك وَعَلَى آلِكَ وَأَهْلِ بَيْتِك وَأَزْوَاجِك وَأَصْحَابِك أَجْمَعِينَ

 السَّلَامُ عليك وعلى سائر النبيين وجميع عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ

جَزَاك الله يَا رَسُولَ الله عَنَّا أَفْضَلَ مَا جَزَى نَبِيًّا وَرَسُولًا عَنْ أُمَّتِهِ

 وَصَلَّى عَلَيْك كُلَّمَا ذَكَرَك ذَاكِرٌ وَغَفَلَ عَنْ ذِكْرِك غَافِلٌ

 أَفْضَلَ وَأَكْمَلَ مَا صَلَّى عَلَى أَحَدٍ مِنْ  الْخَلْقِ أَجْمَعِينَ

 أَشْهَدُ أَنْ لَا إلَهَ إلَّا الله وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّك عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ

 وَخِيرَتُهُ مِنْ خَلْقِهِ وَأَشْهَدُ أَنَّك بَلَّغْت الرِّسَالَةَ وَأَدَّيْت الْأَمَانَةَ

 وَنَصَحْت الْأُمَّةَ وَجَاهَدْت فِي الله حَقَّ جِهَادِهِ

اللَّهُمَّ آتِهِ الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ وَآتِهِ نِهَايَةَ مَا يَنْبَغِي أَنْ يَسْأَلَهُ السَّائِلُونَ

 اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَرَسُولِكَ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إبْرَاهِيمَ وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إبْرَاهِيمَ فِي الْعَالَمِينَ إنَّك حَمِيدٌ مَجِيدٌ

وَمَنْ طَالَ عَلَيْهِ هَذَا كُلُّهُ اقْتَصَرَ عَلَى بَعْضِهِ وَأَقَلُّهُ السَّلَامُ عَلَيْك يَا رسول الله صلى الله عليك وَسَلَّمَ

اس کے بعد امام النووی کہتے ہیں کہ ابو بکر اور عمر پر بھی سلام پڑھے

فَيَقُولُ السَّلَامُ عَلَيْك يَا أَبَا بَكْرٍ صَفِيَّ رَسُولِ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَثَانِيَهُ فِي الْغَارِ

 جَزَاك الله عَنْ أُمَّةِ رَسُولِ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرًا

ثُمَّ يَتَأَخَّرُ إلَى صَوْبِ يَمِينِهِ قَدْرَ ذِرَاعٍ لِلسَّلَامِ عَلَى عُمَرَ رَضِيَ الله عَنْهُ وَيَقُولُ

 السَّلَامُ عَلَيْك يَا عُمَرُ الَّذِي أَعَزَّ الله بِهِ الْإِسْلَامَ جَزَاك الله عَنْ أُمَّةِ نَبِيِّهِ صَلَّىالله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرًا

اس کے بعد امام النووی کہتے ہیں

ثُمَّ يَرْجِعُ إلَى مَوْقِفِهِ الْأَوَّلِ قُبَالَةَ وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَتَوَسَّلُ بِهِ فِي حَقِّ نَفْسِهِ وَيَسْتَشْفِعُ بِهِ إلَى رَبِّهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى وَمِنْ أَحْسَنِ مَا يَقُولُ مَا حَكَاهُ الْمَاوَرْدِيُّ وَالْقَاضِي أَبُو الطَّيِّبِ وَسَائِرُ أَصْحَابِنَا عَنْ الْعُتْبِيِّ مُسْتَحْسِنِينَ لَهُ قَالَ (كُنْت جَالِسًا عِنْدَ قَبْرِ رَسُولِ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْك يَا رَسُولَ الله سَمِعْت الله يَقُولُ (وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا الله وَاسْتَغْفَرَ لهم الرسول لوجدوا الله توابا رحيما) وَقَدْ جِئْتُك مُسْتَغْفِرًا مِنْ ذَنْبِي

مُسْتَشْفِعًا بِك إلَى رَبِّي ثُمَّ أَنْشَأَ يَقُولُ

* يَا خَيْرَ مَنْ دُفِنْت بِالْقَاعِ أَعْظَمُهُ

* فَطَابَ مِنْ طِيبِهِنَّ الْقَاعُ وَالْأَكَمُ نَفْسِي الْفِدَاءُ لِقَبْرٍ أَنْتَ سَاكِنُهُ

* فِيهِ الْعَفَافُ وَفِيهِ الْجُودُ وَالْكَرَمُ ثُمَّ انْصَرَفَ فَحَمَلَتْنِي عَيْنَايَ

فَرَأَيْت النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّوْمِ فَقَالَ يَا عُتْبِيُّ الْحَقْ الْأَعْرَابِيَّ فَبَشِّرْهُ بِأَنَّ الله تَعَالَى قَدْ غَفَرَ لَهُ

پھر سلام کے بعد واپس جائے اول موقف پر کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے سامنے ہو اور ان سے توسل کرے اپنے لئے اور ان کی شفاعت کے ذریعہ اپنے رب  الله سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى سے طلب کرے- اور اور کیا خوب الْمَاوَرْدِيُّ اور وَالْقَاضِي أَبُو الطَّيِّبِ اور ہمارے تمام اصحاب  .. نے حکایت نقل کی ہے کہ میں قبر رسول کے پاس بیٹھا تھا پس ایک اعرابی آیا اور کہا السَّلَامُ عَلَيْك يَا رَسُولَ الله، الله کا کہا سنا  وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا الله وَاسْتَغْفَرَ لهم الرسول لوجدوا الله توابا رحيما،  پس میں آیا ہوں مغفرت مانگتے ہوئے اپنے گناہوں سے اپنے رب کے حضور پس اس نے اشعار کہے

اے بہترین انسان کہ جس کا پیکر اس سرزمین میں دفن ہے اور جس کے عطر و خوشبو سے اس سرزمین کی بلندی اور پستی معطر ہوگئی ہے، میری جان ایسی زمین پر قربان کہ جسے آپ نے انتخاب کیا اور اس میں عفت و جود وکرم پوشیدہ ہوگیا ہے۔

  پس نبی صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا انہوں نے فرمآیا  الله نے تجھے بخش دیا

افسوس اس روایت ابن کثیر نے تفسیر ابن کثیر میں سوره النساء میں نقل کر دیا ہے جو گمراہی پھیلا رہا ہے

وَقَدْ ذَكَرَ جَمَاعَةٌ مِنْهُمْ الشَّيْخُ أَبُو نَصْرِ بْنُ الصَّبَّاغِ فِي كِتَابِهِ الشَّامِلِ الْحِكَايَةَ الْمَشْهُورَةَ عَنْ الْعُتْبِيِّ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ الله، سَمِعْتُ الله يَقُولُ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جاؤُكَ فَاسْتَغْفَرُوا الله وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا الله تَوَّاباً رَحِيماً وَقَدْ جِئْتُكَ مُسْتَغْفِرًا لِذَنْبِي مُسْتَشْفِعًا بك إلى ربي. ثم أنشأ يقول: [البسيط] يَا خَيْرَ مَنْ دُفِنَتْ بِالْقَاعِ أَعْظُمُهُ … فَطَابَ مِنْ طِيبِهِنَّ الْقَاعُ وَالْأَكَمُ
نَفْسِي الْفِدَاءُ لِقَبْرٍ أَنْتَ سَاكِنُهُ … فِيهِ الْعَفَافُ وَفِيهِ الْجُودُ وَالْكَرَمُ
ثُمَّ انْصَرَفَ الْأَعْرَابِيُّ، فَغَلَبَتْنِي عَيْنِي فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّوْمِ، فَقَالَ يَا عُتْبِيُّ، الْحَقِ الْأَعْرَابِيَّ فَبَشِّرْهُ أَنَّ الله قَدْ غَفَرَ لَهُ» .

بعض بزرگان مانند شیخ ابو نصر صباغ نے اس مشہور داستان کو عتبی سے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے کہ وہ کہتا ہے : میں قبر پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک اعرابی داخل ہوا اور کہا: ”السلام علیک یا رسول اللہ

النووی کہتے ہیں

لَا يَجُوزُ أَنْ يُطَافَ بِقَبْرِهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيُكْرَهُ إلْصَاقُ الظُّهْرِ وَالْبَطْنِ بِجِدَارِ الْقَبْرِ قَالَهُ أَبُو عُبَيْدِ الله الْحَلِيمِيُّ وَغَيْرُهُ قَالُوا وَيُكْرَهُ مَسْحُهُ بِالْيَدِ وَتَقْبِيلُهُ

یہ جائز نہیں کہ قبر صلی الله علیہ وسلم کا طواف کیا جائے اور کراہت کی ہے کہ پیٹھ یا  پیٹ کو قبر کی دیوار سے لگائے اور أَبُو عُبَيْدِ الله الْحَلِيمِيُّ اور دوسرے کہتے ہیں کہ کراہت کرتے ہیں کہ قبر کو ہاتھ سے مس کیا جائے یا اس کو چوما جائے

ایک دوسرے محدث امام احمد کا نقطہ نظر الگ تھا

عبد الله بن احمد کتاب العلل ومعرفة الرجال میں اپنے باپ امام احمد کی رائے پیش کرتے ہیں

سَأَلته عَن الرجل يمس مِنْبَر النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ويتبرك بمسه ويقبله وَيفْعل بالقبر مثل ذَلِك أَو نَحْو هَذَا يُرِيد بذلك التَّقَرُّب إِلَى الله جلّ وَعز فَقَالَ لَا بَأْس بذلك

میں نے باپ سے سوال کیا اس شخص کے بارے میں جو رسول الله کا منبر چھوئے اور اس سے تبرک حاصل کرے اور اس کو چومے اور ایسا ہی قبر سے کرے اور اس سے الله کا تقرب حاصل کرے پس انہوں نے کہا اس میں کوئی برائی نہیں

افسوس

قبر پر درود و سلام پڑھنا ان کو چومنا اور پھر ان سے توسل لینا اور نبی کا خواب میں آنا

یہ سب  سلف کے اہل حدیث کہہ رہے ہیں

 یہ سب غلط ہوا جو بھی ہوا

لہذا توحید  کی کھلی دعوت دی جائے اور بتایا جائے کہ جو ہوا سو ہوا اس سب سے توبہ کرو

[/EXPAND]

[کیا امام احمد نبی کا وسیلہ دعاووں میں لیتے تھے ؟]

جواب

كتاب الفروع ومعه تصحيح الفروع لعلاء الدين علي بن سليمان المرداوي  کے مطابق

قَالَ أَحْمَدُ فِي مَنْسَكِهِ الَّذِي كَتَبَهُ لِلْمَرُّوذِيِّ: إنَّهُ يَتَوَسَّلُ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي دُعَائِهِ

احمد نے مَنْسَكِهِ میں کہا جو انہوں نے المروزی کے لئے لکھی کہ وہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے وسیلہ سے دعائیں کرتے ہیں

 کتاب  الإنصاف في معرفة الراجح من الخلاف از  علاء الدين أبو الحسن علي بن سليمان المرداوي الدمشقي الصالحي الحنبلي کے مطابق

قَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ: الْمَرُّوذِيُّ يَتَوَسَّلُ بِالنَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فِي دُعَائِهِ وَجَزَمَ بِهِ فِي الْمُسْتَوْعِبِ

امام احمد نے کہا المروزی کو کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو وسیلہ لیں دعاووں میں

اسی طرح کتاب  كشاف القناع عن متن الإقناع از  منصور بن يونس بن صلاح الدين ابن حسن بن إدريس البهوتى الحنبلى کے مطابق بھی وسیلہ جائز ہے

واضح رہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے صحابہ دعا کرنے کی درخواست کرتے تھے لیکن وفات النبی کے بعد دعا میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا وسلیہ غلط عمل ہے

لہذا حنابلہ کے ہاں یہ تلقھا بالقبول کا درجہ رکھتا تھا

اس تحریر “مَنْسَكِهِ ” کو چھپا دیا گیا ہے اور اب اس کا ذکر نہیں کیا جاتا

امام احمد کے وسیلہ کے قول کا ذکر عبد الوہاب النجدی نے اپنے فتوی تک میں کیا ہے

wasilah-ahmed-najdi

دسواں مسئلہ – علماء اسلام کا قول ہے کہ دعائے استسقاء میں نیکوکاروں کا وسیلہ اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں اور امام احمد فرماتے ہیں: صرف نبی صلی الله علیہ وسلم کا وسیلہ لینا چاہئے ، اسی کے ساتھ ان علماء نے صراحت کے ساتھ یہ بھی کہا کہ کسی بھی مخلوق سے مدد طلب کرنا درست نہیں ، لہٰذا (مدد طلب کرنے اور وسیلہ لینے کے درمیان) فرق بلکل واضح ہے اور ہم جو مسئلہ بیان کر رہے ہیں ، اس پر کوئی اعتراض نہیں ، بعض صالحین توسل کو جائز قرار دیتے ہیں ، تو یہ ایک فقہی مسئلہ ہے ، اگرچہ ہمارے نزدیک صحیح قول جمہور کا ہے کہ توسل مکروہ ہے ، مگر وسیلہ لینے والوں کو ہم غلط بھی نہیں کہتے ، کیونکہ اجتہادی مسائل میں انکار و اعتراض کی گنجائش نہیں ہے – (مؤلفات محمد بن عبد الوہاب / فتاویٰ و مسائل ، جلد ٤ ، صفحہ ٦٨)

البانی کتاب التوسل أنواعه وأحكامه میں اعتراف کرتے ہیں کہ امام احمد نے نبی صلی الله علیہ وسلم کا وسیلہ لینے  کو جائز کیا ہے

فأجاز الإمام أحمد التوسل بالرسول صلى الله عليه وسلم وحده فقط، وأجاز غيره كالإمام الشوكاني التوسل به وبغيره من الأنبياء والصالحين

پس امام احمد نے صرف نبی صلی الله علیہ وسلم کا وسیلہ لینے  کو جائز قرار دیا ہے اور دیگر نے جیسے امام شوکانی نے انبیاء و صالحین سے اور نبی صلی الله علیہ وسلم سے وسیلہ لینے کو جائز کیا ہے

مجموع فتاوى میں ابن تيمية، الجزء الأول، ص 347   پر کہتے ہیں

وَرَأَيْت فِي فَتَاوِي الْفَقِيهِ أَبِي مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ السَّلَامِ قَالَ: لَا يَجُوزُ أَنْ يُتَوَسَّلَ إلَى اللَّهِ بِأَحَدِ مِنْ خَلْقِهِ إلَّا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إنْ صَحَّ حَدِيثُ الْأَعْمَى: فَلَمْ يُعْرَفْ صِحَّتُهُ – ثُمَّ رَأَيْت عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ وَأَبِي يُوسُفَ وَغَيْرِهِمَا مِنْ الْعُلَمَاءِ أَنَّهُمْ قَالُوا: لَا يَجُوزُ الْإِقْسَامُ عَلَى اللَّهِ بِأَحَدٍ مِنْ الْأَنْبِيَاءِ وَرَأَيْت فِي كَلَامِ الْإِمَامِ أَحْمَدَ أَنَّهُ فِي النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

میں نے فَتَاوِي الْفَقِيهِ أَبِي مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ السَّلَامِ میں دیکھا کہ کہا کسی کے لئے جائز نہیں کہ مخلوق میں سے کسی کا وسیلہ لے سوائے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے اگر اندھے والی حدیث صحیح ہے – اس کی صحت کا علم بھی نہیں ہے – پھر میں نے دیکھا کہ ابو حنیفہ نے اور ابو یوسف نے اور دیگر علماء نے کہ وہ کہتے ہیں کسی کے لئے جائز نہیں کہ ان (وسیلہ کی اقسام کو انبیاء میں سے کسی کی بھی الله کے لئے جائز کرتے ہوں اور میں نے امام احمد کا کلام دیکھا کہ وہ جائز کرتے ہیں

یہ دلائل ثابت کرتے ہیں کہ امام احمد توسل کے قائل تھے جبکہ یہ بدعت اور شرک ہے

[/EXPAND]

[کیا رسول الله صلی الله علیہ وسلم دوسرے انبیاء کے وسیلہ دعا کرتے تھے ؟]

جواب ایک روایت ہے جو المعجم الكبير  طبرانی اور حلية الأولياء وطبقات الأصفياء اور  مجمع الزوائد ومنبع الفوائد

میں نقل ہوئی ہے اس کے مطابق علی رضی الله عنہ کی والدہ فاطمہ بنت اسد کی وفات پر صلی الله علیہ وسلم نے دعا کی

اللهُ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ، اغْفِرْ لِأُمِّي فَاطِمَةَ بِنْتِ أَسَدٍ، ولَقِّنْهَا حُجَّتَها، وَوَسِّعْ عَلَيْهَا مُدْخَلَهَا، بِحَقِّ نَبِيِّكَ وَالْأَنْبِيَاءِ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِي فَإِنَّكَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ

اے الله جو زندہ کرتا ہے مردہ کرتا ہے جو زندہ ہے اور جس کو موت نہیں ہے مغفرت کر میری ماں فاطمہ بنت اسد کی اور ان کی قبر وسیع کر اس حق پر جو انبیاء کا ہے اور پچھلے انبیاء کا ہے کہ آپ رحم کرنے والے ہیں

یہ روایت ایک ہی راوی رَوْحُ بْنُ صَلَاحٍ  سے آئی ہے جو ضعیف ہے

 الدَّارَقُطْنِيّ کہتے ہیں : كان ضعيفًا في الحديث، سكن مصر.  حدیث میں ضعیف ہے مصر کا باسی تھا «المؤتلف والمختلف

ابن عدي کہتے ہیں: ضعيف

ابن ماكولا کہتے ہیں : ضعفوه سكن مصر ضعیف ہے مصر کا باسی تھا

امام حاکم نے ثقہ کہا ہے لیکن جمہور کے مقابلے پر ان کی تعدیل کلعدم ہے

مخلوق کا الله پر کوئی حق نہیں بلکہ الله الصمد الله سب سے بے نیاز ہے چاہے فرشتے ہوں یا انبیاء ہوں

[/EXPAND]

[کیا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا سایہ تھا ؟]

جواب

اس دنیا کی جو بھی شی نظر اتی ہے اس کے پیچھے روشنی کا انعکاس کارفرما ہے روشی ٹھوس جسم پر پڑتی ہے اور پلٹ کر دیکھنے والے کی نگاہ تک جاتی ہے جب ایسا ہو تو اس جسم کا سایہ بننا لازمی ہے لہذا اس سے کوئی بھی ٹھوس جسم نہیں بچا البتہ مادہ کی دوسری حالت گیس کا سایہ نظر نہیں اتا  جیسے ہوا کا سایہ  نظر نہیں اتا کیونکہ اس میں ایٹم دور ہیں اور روشنی گزر جاتی ہے

 صحیح ابن خزیمہ کی صحیح سند سے روایت ہے

 نا بَحْرُ بْنُ نَصْرِ بْنِ سَابَقٍ الْخَوْلَانِيُّ، نا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ عِيسَى بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: صَلَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الصُّبْحِ قَالَ: فَبَيْنَمَا هُوَ فِي الصَّلَاةِ مَدَّ يَدَهُ، ثُمَّ أَخَّرَهَا، فَلَمَّا فَرَغَ مِنَ الصَّلَاةِ، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، صَنَعْتَ فِي صَلَاتِكَ هَذِهِ مَا لَمْ تَصْنَعْ فِي صَلَاةٍ قَبْلَهَا قَالَ: «إِنِّي رَأَيْتُ الْجَنَّةَ قَدْ عُرِضَتْ عَلَيَّ، وَرَأَيْتُ فِيهَا. . . . قُطُوفُهَا دَانِيَةٌ، حَبُّهَا كَالدُّبَّاءِ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَتَنَاوَلَ مِنْهَا، فَأُوحِيَ إِلَيْهَا أَنِ اسْتَأْخِرِي، فَاسْتَأْخَرَتْ، ثُمَّ عُرِضَتْ عَلَيَّ النَّارُ، بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ حَتَّى رَأَيْتُ ظِلِّيَ وَظِلَّكُمْ، فَأَوْمَأْتُ إِلَيْكُمْ أَنِ اسْتَأْخَرُوا، فَأُوحِيَ إِلَيَّ أَنْ أَقِرَّهُمْ، فَإِنَّكَ أَسْلَمْتَ وَأَسْلَمُوا، وَهَاجَرْتَ وَهَاجَرُوا، وَجَاهَدْتَ وَجَاهَدُوا، فَلَمْ أَرَ لِي عَلَيْكُمْ فَضْلًا إِلَّا بِالنُّبُوَّةِ» 

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کے ساتھ ہم نے صبح کی نماز پڑھی پھر نماز کے دوران انہوں نے باتھ کو آگے کیا پھر پیچھے پس ہم نماز سے فارغ ہوئے تو پوچھا کہ آپ نے نماز میں کیا کیا  جو اس سے پہلے نہیں کیا – فرمایا میں نے جنت دیکھی اور اس میں لٹکتے پھل دیکھے … پس ارادہ کیا کہ اس کو لوں تو وحی کی گئی کہ چھوڑ کروں لہٰذا چھوڑ دیا  پھر جہنم پیش کی گئی یہاں تک (روشنی میں)  میں نے اپنآ سایہ اور تمھارے سائے تک دیکھے

الذھبی نے اسکو صحیح کہا ہے روایت دلیل ہے کہ رسول الله کا سایہ تھا

صحیح مسلم کی روایت ہے کہ نور سے فرشتوں کو تخلیق کیا گیا صحیح بخاری میں فرشتوں کے سایہ کا ذکر ہے

عن جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: لَمَّا قُتِلَ أَبِي جَعَلْتُ أَبْكِي، وَأَكْشِفُ الثَّوْبَ عَنْ وَجْهِهِ، فَجَعَلَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَوْنِي وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَنْهَ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لاَ تَبْكِيهِ – أَوْ: مَا تَبْكِيهِ – مَا زَالَتِ المَلاَئِكَةُ تُظِلُّهُ بِأَجْنِحَتِهَا حَتَّى رُفِعَ “[صحيح البخاري 5/ 102 رقم 4080 ]۔

جابر بن عبد الله رضی الله عنہ کہتے ہیں میرے والد کا قتل شہادت ہوئی میں رونے لگا اور ان کے چہرے پر سے کپڑا ہٹاتا  پس اصحاب رسول نے منع کیا لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے منع نہ کیا اور کہا مت رو فرشتوں نے ان پراپنے پروں  سایہ کرنا نہ چھوڑا یہاں تک کہ بلند ہوئے

یعنی انکی روح کی پرواز تک فرشتے ان پر پروں سے سایہ کیے رہے

بعض علماء نے غلو کا عقیدہ اختیار کیا مثلا   زرقاني (المتوفى1122 ) نے کہا
روى ابن المبارك وابن الجوزي، عن ابن عباس: لم يكن للنبي -صلى الله عليه وسلم- ظل، ولم يقم مع الشمس قط إلا غلب ضوؤه ضوء الشمس، ولم يقم مع سراج قط إلا غلب ضوء السراج[شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية 5/ 525]۔

ابن مبارک اور ابن جوزی نے روایت کیا ہے ابن عباس سے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا سایہ نہیں تھا اور نبی مبارک سورج کے ساتھ کبھی کھڑے نہ ہوئے الا یہ کہ نبی کی روشنی سورج سے بڑھ کر ہوتی یا چراغ کے ساتھ کھڑے نہ ہوئے کہ نبی کی روشی چراغ سے بڑھ کر ہوتی

الزرقاني (المتوفى1122) نے نقل کیا
وقال ابن سبع: كان -صلى الله عليه وسلم- نورًا، فكان إذا مشى في الشمس أو القمر لا يظهر له ظل”؛ لأن النور لا ظلَّ له[شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية 5/ 525]۔

أبو ربيع سليمان ابن سبع نے کہا نبی صلی الله علیہ وسلم نور تھے پس جب چلتے سورج یا چاند کی روشنی میں تو ان کا سایہ ظاہر نہیں ہوتا تھا کیونکہ نور کا سایہ نہیں ہوتا

کتاب المواهب اللدنية بالمنح المحمدية  از أحمد بن محمد بن أبى بكر بن عبد الملك القسطلاني القتيبي المصري، أبو العباس، شهاب الدين (المتوفى: 923هـ) کے مطابق

 ولم يكن له- صلى الله عليه وسلم- ظل فى شمس ولا قمر رواه الترمذى الحكيم عن ذكوان

نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ مبارک نہ سورج کی دھوپ میں نظر آتا تھا نہ چاند میں اس کو حکیم الترمذی نے ذکوان سے روایت کیا ہے 

حکیم الترمذی ایک صوفی تھا اس کی کتاب نوادر میں یہ قول نہیں ملا البتہ سیوطی نے الخصائص الکبری میں اس کی سند دی ہے

عبد الرحمن بن قيس الزعفراني عن عبد الملك بن عبد الله بن الوليد عن ذكوان ان رسول الله  لم يكن يرى له ظل في شمس ولا قمر ولا أثر قضاء حاجة

اس  کی سند میں   عبدالرحمن بن قیس زعفرانی ہے جو احادیث گھڑتا تھا

المواھب میں ایک اور قول بھی ہے

رواه البيهقى، ولم يقع له ظل على الأرض، ولا رؤى له ظل فى شمس ولا قمر. ويشهد له أنه- صلى الله عليه وسلم- لما سأل الله تعالى أن يجعل فى جميع أعضائه وجهاته نورا، ختم بقوله: «واجعلنى نورا»

البیہقی نے روایت کیا ہے کہ ان کا سایہ زمین پر نہیں اتا نہ ان کا سایہ سورج میں دیکھا گیا نہ چاند میں اور اس کی شہادت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب الله سے دعا کرتے تو وہ مانگتے کہ ان کے تمام  جسم میں نور ہو جائے اور کہتے اور مجھ میں نور کر دے

یہ دعا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے تمام امت کو سکھائی اور اس کو رات کی نماز میں پڑھا جاتا  ہے  آج تک یہ دعا کسی بھی مومن کی قبول نہیں ہوئی؟  ظاہر ہے یہ بلا دلیل ہے اور نور قلبی ایمان ہے

افسوس عقل سلیم سے عاری علماء اس قول کو بیان کر گئے ورنہ کیا رات میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سفر نہ کیا  کسی صحابی نے اس قسم کا محیر العقول معجزہ نقل نہ کیا

مخلوق میں سایہ ہونا خوبی ہے الله اس کو اپنی  الوہیت کی نشانی کہتا ہے اور سورج اس پر دلیل ہے

سوره الرعد میں ہے

لِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَظِلَالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ ١٥
اور (سات) آسمانوں اور زمین میں جو  ہیں مرضی اور بغیر مرضی سے اللہ تعالیٰ کے آگے سجدہ کرتی ہیں اور ان کے سائے بھی صبح و شام سجدہ کرتے ہیں۔

سوره النحل میں ہے

أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَى مَا خَلَقَ اللَّهُ مِنْ شَيْءٍ يَتَفَيَّأُ ظِلَالُهُ عَنِ الْيَمِينِ وَالشَّمَائِلِ سُجَّدًا لِلَّهِ وَهُمْ دَاخِرُونَ٤٨
کیا انہوں نے جو  اللہ نے خلق کیا ان  میں کسی کو نہیں دیکھا کہ ان کے سائے دائیں اور بائیں گرتے ہیں الله کے لئے سجدے میں اور وہ کم ترکیے گئے ہیں

الله سایہ ہونے کو مخلوق کی شان کہتا ہے لیکن ان غلو پسندوں نے دعوی کیا ہے کہ یہ رسول الله میں نہیں تھا جو ان کا کھلا کذب و افتراء ہے جس کو کوئی دلیل نہیں اور مخلوق کو خالق سے ملانے کی کوشش ہے

کہا جاتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا سایہ اس لئے نہیں بننے دیا گیا کہ کہیں کسی بے ادب کا پیر سایہ مبارک پر نہ پڑھ جائے

اس قول کو  نسفی نے  تفسیر مدارک ج ٢ ص ٤٩٢ میں سوره النور کی تفسیر میں نقل کیا ہے

 وقال عثمان إن الله ما أوقع ظلم على الأرض لئلا يضع إنسان قدمه على ذلك الظل فلما لم يمكن أحداً من وضع القدم على ظلك

 عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا کہ الله عزوجل نے آپ کا سایہ زمین پر پڑنے نہیں دیا تاکہ اس پر کسی انسان کا قدم نہ پڑ جائے۔

لیکن خود رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر مشرکین مکہ نے اوجڑی ڈالی ان  کے دانت پر سر پر ضرب لگائی جسد مبارک  ان کی دی گئی تکلیف کو بشری شان سے برداشت کرتا رہا

نسفی کا  عثمان رضی الله عنہ سے منسوب قول بلا سند ہے

ایک اور دلیل بھی پیش کی جاتی ہے

عن الحسن بن علی رضی ﷲ تعالیٰ عنھما قال سألت خالی ھند بن ابی ھالۃ(ربیب النبی ﷺ) وکان وصافاً عن حلیۃ النبی ﷺ وانا اشتھی ان یصف لی منھا شیئاً اتعلق بہٖ فقال کان رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہٖ وسلم فخما مفخماً یتلا لؤ وجھہٗ تلا لؤ القمر لیلۃ البدر۔
(شمائل ترمذی، ص۲)
ترجمہ۔ سیدنا امام حسن بن علی کہتے ہیں  کہ میں نے اپنے ماموں (نبی ﷺ کے ربیب) ہند بنی ابی ہالہ سے جو نبی صلی الله علیہ وسلم کے بہترین وصاف تھے، نبی  حلیہ مبارکہ دریافت کیا، میرا دل چاہتا تھا کہ وہ حلیہ مقدسہ سے کچھ بیان کریں اور میں اس سے پوری طرح متعارف ہو جائوں، توانہوں نے فرمایا  عظیم اور معظم تھے، آپ کا چہرۂ انور ایسا چمکتا اور روشنی دیتا تھا جیسے چودہویں رات میں چاند چمکتا ہے

دلائل النبوہ ابو نعیم میں اس کی سند ہے

 حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ قَالَ: ثنا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ قَالَ: ثنا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ النَّهْدِيُّ وَثنا أَبُو بَكْرٍ الطَّلْحِيُّ قَالَ: ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُزَنِيُّ قَالَ: ثنا أَبُو غَسَّانَ مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ: ثنا جَمِيعُ بْنُ عُمَيْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعِجْلِيُّ قَالَ: حَدَّثَنِي رَجُلٌ بِمَكَّةَ عَنِ ابْنِ أَبِي هَالَةَ التَّمِيمِيِّ [ص:628] عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: سَأَلْتُ خَالِي هِنْدَ بْنَ أَبِي هَالَةَ التَّمِيمِيَّ وَكَانَ وَصَّافًا عَنْ حِلْيَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَأَنِّي أَشْتَهِي أَنْ يَصِفَ لِي مِنْهَا شَيْئًا أَتَعَلَّقُ بِهِ فَقَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخْمًا مُفَخَّمًا يَتَلَأْلَأُ وَجْهُهُ تَلَأْلُؤَ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ

اس میں ایک مجھول شخص حسن بن علی سے روایت کر رہا ہے لہذا ضعیف روایت ہے

[/EXPAND]

[قبروں سے فیض پر دیوبندیوں کی پیش کردہ روایات پر سوال ہے]

در محتار میں مطلب فِي زِيَارَة الْقُبُور کے باب میں ہے
رَوَى ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ: «أَنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – كَانَ يَأْتِي قُبُورَ الشُّهَدَاءِ بِأُحُدٍ عَلَى رَأْسِ كُلِّ حَوْلٍ
تاریخ ابن شبہ میں اس کی سند ہے
قال أَبُو غَسَّانَ : حَدَّثَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عِمْرَانَ ، عَنْ مُوسَى بْنِ يَعْقُوبَ الزَّمْعِيِّ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ ، ” أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْتِي قُبُورَ الشُّهَدَاءِ بِأُحُدٍ عَلَى رَأْسِ كُلِّ حَوْلٍ ، فيقول : سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ سورة الرعد آية 24 ، قال : وَجَاءَهَا أَبُو بَكْرٍ ، ثُمَّ عُمَرُ ، ثُمَّ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ ، فَلَمَّا قَدِمَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ ، حَاجًّا ، جَاءَهُمْ قال : وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا وَاجَهَ الشِّعْبَ ، قال : ” سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ ”
روایت مصنف ابن ابی شیبہ میں نہیں ملی
اس کی سند میں عباد بن ابی صالح ہے
الذھبی میزان میں کہتے ہیں
قال علي بن المديني: ليس بشئ. کوئی چیز نہیں
وقال ابن حبان: لا يجوز الاحتجاج به إذا انفرد اس کی منفرد روایت سے احتجاج نہ کیا جائے
صحیح مسلم کے مطابق صرف سال وفات میں اپ آخری ایام میں احد کے شہداء کی قبور پر گئے

————-

حضرت مالک دار رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ کے زمانے میں لوگ قحط میں مبتلا ہوگئے۔ ایک صحابی نبی کریمﷺ کی قبر اطہر پر آئے اور عرض کیا۔ یارسولﷺ آپ اپنی امت کے لئے بارش مانگئے کیونکہ وہ ہلاک ہوگئی۔(مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الفضائل، حدیث نمبر 32002، مکتبہ الرشد، ریاض، سعودی عرب)

حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ مَالِكِ الدَّارِ، قَالَ: وَكَانَ خَازِنَ عُمَرَ عَلَى الطَّعَامِ، قَالَ: أَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِي زَمَنِ عُمَرَ، فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اسْتَسْقِ لِأُمَّتِكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَكُوا، فَأَتَى الرَّجُلَ فِي الْمَنَامِ فَقِيلَ لَهُ: ” ائْتِ عُمَرَ فَأَقْرِئْهُ السَّلَامَ، وَأَخْبِرْهُ أَنَّكُمْ مُسْتَقِيمُونَ وَقُلْ لَهُ: عَلَيْكَ الْكَيْسُ، عَلَيْكَ الْكَيْسُ “، فَأَتَى عُمَرَ فَأَخْبَرَهُ فَبَكَى عُمَرُ ثُمَّ قَالَ: يَا رَبِّ لَا آلُو إِلَّا مَا عَجَزْتُ عَنْهُ
الْأَعْمَشِ مدلس عن سے روایت کر رہا ہے ضعیف ہے
ابن حجر حسب روایت اپنی ناقص تحقیق فتح الباری میں پیش کرتے ہیں کہتے ہیں

وروى بن أَبِي شَيْبَةَ بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ مِنْ رِوَايَةِ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ عَنْ مَالِكٍ الدَّارِيِّ وَكَانَ خَازِنُ عُمَرَ قَالَ أَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِي زَمَنِ عُمَرَ فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى قَبْرِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ اسْتَسْقِ لِأُمَّتِكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَكُوا فَأَتَى الرَّجُلَ فِي الْمَنَامِ فَقِيلَ
لَهُ ائْتِ عُمَرَ الْحَدِيثَ وَقَدْ رَوَى سَيْفٌ فِي الْفُتُوحِ أَنَّ الَّذِي رَأَى الْمَنَامَ الْمَذْكُورَ هُوَ بِلَالُ بْنُ الْحَارِثِ الْمُزَنِيُّ أَحَدُ الصَّحَابَةِ وَظَهَرَ بِهَذَا كُلِّهِ مُنَاسَبَةُ التَّرْجَمَةِ لِأَصْلِ هَذِهِ الْقِصَّةِ أَيْضًا وَاللَّهُ الْمُوَفِّقُ
یہ روایت صحیح ہے

مسند الفاروق میں ابن کثیر اس کو پیش کر کے کہتے ہیں
هذا إسناد جيد قوي
اس کی سند اچھی بہت قوی ہے
مالك الدَّار ایک مجہول شخص ہے افسوس ابن حجر اور ابن کثیر نے وسیلہ کی بد عقیدتی پھیلا دی ہے

البيهقي نے اس کو دلائل النبوة 7 / 47 میں باب ما جاؤ في رؤية النبي صلى الله عليه وسلم في المنام ذکر کیا ہے رسول اللہ کو خواب میں دیکھا جا سکتا ہے

کتاب المجالسة وجواهر العلم از أبو بكر أحمد بن مروان الدينوري المالكي (المتوفى : 333هـ) کے مطابق
قَالَ أَبُو بَكْرٍ الْمَالِكِيُّ: مَالِكُ الدَّارِ هَذَا هُوَ مَالِكُ بْنُ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ، وَسُمِّيَ مَالِكُ الدَّارِ، لِأَنَّ عُمَرَ وَلَّاهُ دَارَ الصَّدَقَةِ
امام بخاری کہتے ہیں
مَالِكُ بنُ أَوْسٍ، قَالَ بَعْضُهُم: لَهُ صُحْبَةٌ، وَلاَ يَصِحُّ
یہ صحابی نہیں ہے

طبقات ابن سعد کے مطابق مالک الدار اصل میں مالك بن عياض الدار مولى عمر ہیں
ابن أبي حاتم نے الجرح میں اور امام بخاری نے تاریخ الکبیر اس پر سکوت کیا ہے جو مجھول راویوں کے ساتھ کا معاملہ ہے
المنذري (المتوفى: 656هـ) کتاب الترغيب والترهيب من الحديث الشريف میں مالک الدار اور عمر رضی الله عنہ کی ایک دوسری روایت پر لکھتے ہیں
وَمَالك الدَّار لَا أعرفهُ
اور مالک الدار کو نہیں جانتا

الهيثمي في ((مجمع الزوائد)) (3/ 127): مالك الدار لم أعرفه
ہیثمی بھی یہی کہتے ہیں

نخب الأفكار في تنقيح مباني الأخبار في شرح معاني الآثار از الحنفى بدر الدين العينى (المتوفى: 855هـ) کے مطابق
ابن المديني مالک الدار کو مجهول کہتے ہیں

یعنی احناف متقدمین میں یہ مالک الدار مجھول ہے
————
حضرت دائود بن صالح سے مروی ہے کہ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز مروان آیا اور اس نے دیکھا کہ ایک آدمی حضور نبی کریمﷺ کی مزارِ انور پر اپنا منہ رکھے ہوئے تو اس (مروان) نے کہا: کیا تو جانتا ہے کہ توکیا کررہا ہے؟ جب مروان اس کی طرف بڑھا تودیکھا وہ صحابی رسولﷺ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ تھے۔ اور انہوں نے جواب دیا۔ ہاں میں جانتا ہوں۔ میں رسول اﷲﷺ کے پاس آیا ہوں ’’لم ات الحجر‘‘ میں کسی پتھر کے پاس نہیں آیا۔ (مسند امام احمد بن حنبل،حدیث نمبر 23646، مطبوعہ دارالفکر ، بیروت )

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، قَالَ: أَقْبَلَ مَرْوَانُ يَوْمًا فَوَجَدَ رَجُلًا وَاضِعًا وَجْهَهُ عَلَى الْقَبْرِ، فَقَالَ: أَتَدْرِي مَا تَصْنَعُ؟ فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ فَإِذَا هُوَ أَبُو أَيُّوبَ، فَقَالَ: نَعَمْ، جِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ آتِ الْحَجَرَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَا تَبْكُوا عَلَى الدِّينِ إِذَا وَلِيَهُ أَهْلُهُ، وَلَكِنْ ابْكُوا عَلَيْهِ إِذَا وَلِيَهُ غَيْرُ أَهْلِهِ»

اسکی سند میں داود بن صالح ہے کتاب إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي بن قليج الحنفي (المتوفى: 762هـ) کے مطابق
ذكره العقيلي وابن الجاورد في «جملة الضعفاء».
وخرج الحاكم حديثه في «المستدرك».
وقال ابن حبان: يروي الموضوعات عن الثقات حتى كأنه متعمد لها.
یہ ضعیف راویوں میں سے ہے

مغلطاي حنفی ہیں یہاں بھی متقدمین احناف اس روایت کو ضعیف سمجھتے ہیں
———-

تاریخ بغداد کی امام شافعی کی روایت ہے
أَخْبَرَنَا الْقَاضِي أَبُو عَبْد اللَّهِ الْحُسَيْنُ بْن عَلِيّ بْن مُحَمَّد الصيمري قال أنبأنا عمر بن إبراهيم قال نبأنا عَلِيّ بْن ميمون قَالَ: سمعت الشافعي يقول: إني لأتبرك بأبي حنيفة وأجيء إِلَى قبره في كل يوم- يَعْنِي زائرا- فإذا عرضت لي حاجة صليت ركعتين وجئت إِلَى قبره وسألت الله تعالى الحاجة عنده، فما تبعد عني حتى تقضى
کہ میں امام ابو حنیفہ کی قبر پر جاتا تھا

سند میں عُمَر بْن إسحاق بْن إِبْرَاهِيمَ مجھول ہے
علی بن میمون الرقی ایک صاحب ہیں لیکن امام الشافعی کے اصحاب میں سے نہیں ہیں
————
محدث ابن خزیمہ کا امام موسی کی قبر کی زیارت کا حوالہ نہیں ملا اغلبا یہ غلطی ہے یہ بات امام ابن حبان کی ہے وہ قبر امام پر جاتے تھے
⇓ محدث ابن حبان قبروں سے فیض لینے کے قائل تھے ؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/عقائد/عرض-اعمال/

محدثین میں قبروں سے فیض حاصل کرنے کی بدعت تیسری اورچوتھی صدی میں شروع ہوئی

قبروں کے پاس جا کر دعائیں کرنے سے ان کی قبولیت پر شریعت میں کوئی رتی دلیل نہیں بلکہ اس پر دلائل تار عنکبوت ہیں

[/EXPAND]

[تفسیر طبری کے مطابق خضر علم الغیب رکھتے تھے]

ابن عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ خضر ایک ایسے شخص تھے جس کو علم غیب پتا تھا

 وكان رجلا يعلم علم الغيب

جواب

سند ہے

حدثنا ابن حميد، قال: ثنا سلمة، قال: ثنا ابن إسحاق، عن الحسن بن عمارة، عن الحكم بن عتيبة، عن سعيد بن جبير، قال: جلست فأسْنَدَ ابن عباس

اس روایت کی سند میں الحسن بن عمارة  بن المضرب البجلي مولاهم، أبو محمد الكوفي الفقيه، قاضي بغداد المتوفی ١٥٣ ھ ہے

شعبہ کہتے ہیں کذاب ہے اور محدثین کی ایک جماعت کے نزدیک متروک ہے

میزان الاعتدال في نقد الرجال از الذہبی  کے مطابق

 روى الحسن بن عمارة أحاديث عن الحكم، فسألنا [الحكم]  عنها، فقال: ما سمعت منها شيئا.

حسن بن عمارہ نے الحکم سے روایت  کیا پھر ہم نے ان روایات کے بارے میں الحکم سے پوچھا تو انہوں نے کہا اس نے مجھ سے کچھ نہ سنا

اور کہا وقال أحمد بن سعيد الدارمي: حدثنا النضر بن شميل، حدثنا شعبة، قال: أفادني الحسن بن عمارة عن الحكم سبعين حديثاً، فلم يكن لها أصل

حسن بن عمارہ نے الحکم بن عتيبة سے ستر احادیث روایت کیں جن کا کوئی اصل نہیں ہے

حیرت ہے کہ ابن کثیر نے بھی اس روایت کو تفسیر میں بلا جرح نقل کیا ہے اور السيوطي نے الدر المنثور  میں اس روایت کو بیان کیا ہے

[/EXPAND]

[امہات المومنین پیش ہوتی ہیں یہ عقیدہ کیسے بنا]

جواب

یہ عقیدہ اس طرح بنا کہ ابن فورک المتوفی ٤٠٦ ھ جو امام بیہقی کے استاد تھے ایک متکلم تھے ان کی بحث ہوئی کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نبی ہیں یا نبی تھے اس کلامی بحث کا انجام اس پر ہوا کہ یہ عقیدہ بنایا گیا کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ رسول الله کی وفات ہوئی تو یہ گویا ان کی نبوت کا انکار ہو جائے گا کہ رسول الله نبی نہیں رہے گویا موت ان متکمین کے نزدیک تمام خوبیوں کی ختم کرنے والی ہے لہذا انہوں نے یہ عقیدہ اختیار کیا کہ رسول الله قبر میں مسلسل زندہ ہی ہیں وہ زندہ ہیں اس لئے رسول بھی رہیں گے لہذا ان کی نبوت قیامت تک ہے

دوسرا عقیدہ یہ بنا کہ قرآن میں ہے کہ ازواج النبی رسول الله کی بیویاں ہیں جن کے بعد وہ اور نکاح نہیں کر سکتے لہذا یہ ازواج بھی حیات سے متصف ہیں اور مسلسل زندہ ہیں
اب چونکہ دونوں زندہ ہیں اور نبی اور ان کی ازواج کا نکاح بھی ہے تو وہ قبر میں ملاقات بھی کرتے ہیں

یہ اس بحث کا ایک کلامی نتیجہ تھا جس کو لوگوں نے قبول کر لیا اور اہل طریقت اور شریعت کا حیات النبی فی القبر پر عقیدہ بن گیا

برصغیر میں اس عقیدہ کو احمد رضا خان صاحب نے پیش کیا
انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی حیات حقیقی،حسی،دنیاوی ہے ۔ان پر تصدیق وعدہ الٰہیہ کے لئے محض ایک آن کو موت طاری ہوتی ہے، پھر فورا اُن کو ویسے ہی حیات عطا فرما دی جاتی ہے۔ اس حیات پر وہی احکام دنیویہ ہیں۔ان کا ترکہ نہیں بانٹا جائے گا ،ان کی ازواج کو نکاح حرام نیز ازواج مطہرات پر عدت نہیں ہے وہ اپنی قبور میں کھاتے پیتے اور نماز پڑھتے ہیں،بلکہ سیدی محمد عبدالباقی زرقانی یہ فرماتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کی قبور مطہرہ میں ازواج مطہرات پیش کی جاتی ہیں ، وہ اُن سے شب باشی کرتے ہیں ” (ملفوظات حصہ سوم صفہ 362)۔(
———–

راقم کہتا ہے بعض زاویے شروع سے ہی غلط ہوتے ہیں ان کی بنیاد پر سوچ کے پیمانے بھی غلط ہوتے ہیں اور اگر بنیاد ٹیڑھی ہو تو عمارت بھی سیدھی نہیں رہتی نبوت کو موت سے ختم نہیں کیا جا سکتا یہ سمجھنا کہ ایک نبی کا منصب نبوت موت پر ختم ہوا غلط ہے اصلا انبیاء کی جو ڈیوٹی تھی وہ قومی تھی سوائے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے کہ ان کی نبوت و رسالت آخری اور تمام انسانیت کے لئے تھی مثلا جب عالم بالا میں برزخ میں رسول الله کی ملاقات فوت شدہ انبیاء سے معراج پر ہوتی ہے تو اپ صلی الله علیہ وسلم ان کو نبی ہی کہتے ہیں یہ کلامی بحث جنت میں معراج پر نہیں چھڑی کہ یہ انبیاء جو فوت ہوئے اب یہ نبی کیسے ہیں
لہذا متکلمین کا نبوت کو موت سے منسلک کرنا ہی سرے سے غلط تھا

[/EXPAND]

[رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو شارع مجاز کہا جا سکتا ہے ؟ کہا جاتا ہے ]

آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے شارعِ مُجاز بناکر پاک چیزوں کو حلال اور ناپاک چیزوں کو حرام قرار دینے کا اختیاربھی عطا فرمایا ہے ،چنانچہ آپ ﷺ کا فرمان ہے: ”سنو!مجھے کتاب عطافرمائی گئی ہے اور اُس کی مثل (یعنی میری سنت)بھی اُس کے ساتھ ہے،سنو!قریب ہے کہ ایک شخص پیٹ بھرا ہوا اپنی مَسند پر ٹیک لگائے ہوگا (اور)کہے گا:اس کتاب (قرآن)کو لازم پکڑو،پس جو کچھ تم اس میں حلال پائو ،اُسے حلال جانو اور جو کچھ تم اِس میں حرام پائو، اُسے حرام جانو،سنو!میںتمہارے لیے پالتو گدھے اور کُچلیوں سے شکار کرنے والے درندوں کو حرام قرار دیتا ہوں ،(ابودائود:4604)‘‘۔اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے بتایا کہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں ،جن کی حرمت کا ذکر قرآنِ مجید میں نہیں ہے ، مگر میں انہیں حرام قرار دیتا ہوں اور یہ اختیار قرآن کی رُو سے اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرمایا ہے –

جواب

یہ روایت صحیح ہے

پالتو گدھوں کا گوشت جنگ خیبر پر ممنوع قرار دیا گیا اور روایات کے مطابق اس روز کھانے میں صرف ان کی ممانعت کا حکم ہوا لہذا ظاہر ہے کہ یہ قول نبوی جو اپ نے پیش کیا اس کے بعد کا ہے
فتح خیبر سن ٦ یا ٧ ہجری میں ہوئی اس سے قبل سن ٢ ہجری کی سوره بقرہ میں حکم آ چکا تھا کہ طیب چیزیں کھاؤ مسلمانوں کا خیبر میں گدھوں کو پکانا ظاہر کرتا ہے کہ چونکہ جنگی حالت تھی ان کو اشتباہ تھا کہ یہ حرام نہیں جبکہ یہ حرام تھے لہذا ان کو ذبح کر کے پکا بھی لیا یہاں تک کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو خبر ہوئی اور اپ نے اس سے منع کیا یہاں تک کہ برتن بھی تڑوا دیے گئے

جانوروں کی حرمت توریت میں بھی ہے جس کے مطابق گدھے حرام ہیں اور وہ جانور جو کچلیوں سے شکار کرتے ہیں حرام ہیں لہذا یہ حرمت حدیث سے نہیں ہے یہ تو قرآن سے بھی پہلے رسول الله سے بھی پہلے توریت سے چلی آ رہی ہے تمام انبیاء کا دین اسلام ہے جس میں ان چیزوں کی حرمت پہلے سے ہے

توریت میں حکم ہے
you shall not eat this out of those that regurgitate the cud and out of those that have a (undivided) hoof
تم پر حرام ہے کہ کھاؤ ان جانوروں کو جو جگالی کرتے ہیں اور ان میں سے جن کا کھر جڑا ہے

گدھے کا کھر بیچ سے ٹوٹا نہیں ہے لہذا توریت کے مطابق حرام ہے

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس کا واپس اعادہ کیا ہے ظاہر ہے اس دور میں توریت عبرانی میں تھی اور احبار اس کو چھپا کر رکھتے تھے لہذا مسلمان اس توریت کے کھانے کے احکام سے لا علم تھے لیکن رسول الله کو من جانب الله علم تھا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کو براہ راست وہی علم دیا گیا جو توریت میں پہلے بیان ہو چکا تھا

لہذا یہ کہنا کہ رسول الله کو شارع مجاز کیا گیا الفاظ صحیح نہیں ہیں شریعت ساز تو الله ہی ہے اسی کا حکم چلتا ہے اور جو رسول الله حکم کرتے ہیں وہ بھی الوحی کے تحت ہوتے ہیں

ان جانوروں کی حرمت کا حکم کتاب الله قرآن اور توریت دونوں میں ہے یعنی یہ طیب نہیں لیکن چونکہ یہ قرآن کا استخراجی حکم بنتا ہے لہذا رسول الله نے فرمایا کہ لوگ سمجھیں گے کہ یہ کتاب الله سے نہیں لیا گیا لیکن جیسا ہم نے وضاحت کی یہ احکام کتاب الله یعنی توریت سے لیا گیا اور اپ صلی الله علیہ وسلم نے اسی حکم کا اعادہ کیا

[/EXPAND]

[کچھ لوگ یہ عیقدہ رکھتے ہیں کہ حضور صلی الله وسلم کو چیزوں کو حرام اور حلال کرنے کا اختیار تھا ]

جواب

راقم کے نزدیک اس کی دلیل نہیں ہے رسول الله الوحی کے تابع عمل و حکم کرتے ہیں جو من جانب الله ہے لہذا بہت سے احکام حدیث میں ہیں ان کی بنیاد پر رسول الله کو شارع نہیں کہا جاتا کیونکہ شریعت الله کی ہے
—————-
سوره الاعراف میں ہے
الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ۚ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (157
جو اس رسول النبی الامی کی اتباع کرتے ہیں جس کا ذکر یہ توریت و انجیل میں پاتے ہیں جو ان کو معروف کا حکم کرتا ہے اور منکر سے روکتا ہے اور طیبات کو حلال کرتا ہے اور خبیت کو حرام کرتا ہے اور بوجھ اور زنجیروں کو اتارنے والا ہے پس جو اس پر رسول پر ایمان لائے اور اس کی مدد کی اور نصرت کی اور اس نور کی اتباع کی جو اس کے ساتھ ہے تو یہ مفلح ہیں
——————–
اس پر کہا جاتا ہے رسول الله کو یہ حثیت حاصل تھی کہ طیب کو حلال کریں کہا جاتا ہے کہ اگر چیز طیب ہو تو اس کو حلال کیوں گیا گیا وہ تو سب کو پتا تھی اسی طرح خبیث بھی سب کو پتا ہو گی تو اس کو رسول الله کے کہنے پر حرام کیا گیا ؟ یہ انداز بریلوی فرقہ کا ہے
https://www.facebook.com/video.php?v=641054195967611&permPage=1
اس کا جواب ہے کہ یہ آیات اہل کتاب کے بارے میں ہے جو کہتے تھے کہ اونٹ حرام ہے جو یہ نبی کھاتا ہے اور توریت میں اونٹ ایک حرام جانور ہے یہ وہ زنجیر تھی جو اہل کتاب نے اپنے اوپر ڈالی ہوئی تھی اونٹ کا گوشت طیب تھا اس کو حلال الله نے کیا لیکن چونکہ رسول الله کی نبوت و رسالت میں یہود و نصاری کو شک ہے اس کو ایک نشانی کے طور پر پیش کیا گیا کہ یہ نبی جو طیب ہے اسی کو حلال کر رہا ہے کیونکہ اونٹ کا گوشت تو یعقوب نے بھی کھایا ہے اسی طرح حرام جن چیزوں کو کیا ان میں سور ہے جس کو نصرانی کھا رہے تھے جو تھا ہی اصلا خبیث

[/EXPAND]

[نبی صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش پر نور نکلا جس سے عراق و شام روشن ہو گئے؟]

تحقیق درکار ہے

خالد بن معدان رحمہ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمیں آپ اپنے بارے میں بتلائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میں اپنے والد ابراہیم کی دعا اور عیسی کی دی ہوئی خوشخبری ہوں، میری والدہ جب امید سے ہوئیں تو [انہیں ایسا محسوس ہوا کہ] گویا ان کے جسم سے روشنی نکلی ہے جس کی وجہ سے سرزمین شام میں بصری کے محل روشن ہو گئے )
خالد بن معدان رحمہ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمیں آپ اپنے بارے میں بتلائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میں اپنے والد ابراہیم کی دعا اور عیسی کی دی ہوئی خوشخبری ہوں، میری والدہ جب امید سے ہوئیں تو [انہیں ایسا محسوس ہوا کہ] گویا ان کے جسم سے روشنی نکلی ہے جس کی وجہ سے سرزمین شام میں بصری کے محل روشن ہو گئے )

اس روایت کو ابن اسحاق نے اپنی سند سے بیان کیا ہے: (سیرت ابن ہشام: 1/66) اور انہی کی سند سے امام طبری نے اسے اپنی تفسیر طبری : (1/566) میں اور امام حاکم نے اپنی کتاب مستدرک : (2/600) میں روایت کیا ہے، اور ساتھ امام حاکم یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح سند والی ہے، لیکن بخاری اور مسلم نے اسے روایت نہیں کیا، ان کے اس تبصرے پر امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔

مزید کیلیے دیکھیں: سلسلہ صحیحہ: (1545)(سیرت ابن ہشام: 1/66) اور انہی کی سند سے امام طبری نے اسے اپنی تفسیر طبری : (1/566) میں اور امام حاکم نے اپنی کتاب مستدرک : (2/600) میں روایت کیا ہے، اور ساتھ امام حاکم یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح سند والی ہے، لیکن بخاری اور مسلم نے اسے روایت نہیں کیا، ان کے اس تبصرے پر امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔

مزید کیلیے دیکھیں: سلسلہ صحیحہ:

(1545)

جواب

ابن اسحاق امام مالک کے ہم عصر ہیں اور واقدی امام احمد کے دونوں میں 60 سال کا فرق ہے اس دور میں غلو مسلمانوں میں شروع ہو چکا تھا ان کو کسی طرح یہ ثابت کرنا تھا کہ ان کے نبی سب سے افضل ہیں
اس میں راقم کو کوئی شک نہیں ہے لیکن ان مسلمانوں نے جو طریقه اختیار کیا وہ صحیح نہیں تھا مثلا اہل کتاب نے جو جھوٹی باتیں مشھور کر رکھی تھیں ان کی ان مسلموں نے ایسی تاویل کی کہ یہ باتیں اسلام کے حق میں ہو جائیں یہ روایات پرو پیگنڈا کا ایک نہایت منفی انداز تھا مثلا اہل کتاب میں مشھور تھا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے دوران سفر کسی نسطوری نصرانی سے علم لیا جس کے بعد نبوت کا دعوی کیا یہ کتب آج چھپ چکی ہیں ابن اسحاق نے اس کا جواب دینا ضروری سمجھا اور وہ بھی اس طرح کہ نسطوری راہب بحیرہ سے نبی صلی الله علیہ وسلم کی بچپن میں ملاقات کا واقعہ بیان کیا جو کذب تھا
نصرانی راہب کو نسطوری اس لیے بیان کیا جاتا ہے کیونکہ وہ کتھلویک یا آرتھوڈوکس چرچ کا نہیں تھا ان دونوں کا مخالف تھا

اسی طرح انجیل یوحنا کے مطابق عیسیٰ ایک نور تھا جو مجسم ہوا باب اول آیات ایک تا ١٤ میں یہ عقیدہ بیان ہوا ہے مسلمان اس ڈور میں پیچھے کیوں رہتے انہوں نے بھی بیان کیا کہ رسول الله جب پیدا ہوئے تو نور نکلا جس سے شام اور بصرہ عراق روشن ہو گئے کیونکہ بصرہ اور شام میں اس وقت قیصر نصرانی کی حکومت تھی گویا ہمارا نبی دنیا میں آیا تو اس کا نور عیسیٰ سے بڑھ کر تھا

اس طرح کی بہت سی اور روایات ہیں جو صرف نصرانیوں سے مقابلے پر بنانی گئی ہیں

شام کے محلات روشن ہوئے پر روایات مسند احمد میں ہیں جن  کو  بہت ذوق و شوق سے تمام فرقوں کے لوگ بیان کرتے ہیں یہاں تک کہ عصر حاضر کے علماء میں البانی ( صحيح لغيره – “الصحيحة” (1546 و 1925)) اور شعيب الأرنؤوط – عادل مرشد بھی مسند احمد پر تعلیق میں اس کو صحیح لغیرہ کہتے ہیں

مسند احمد کی سند ہے

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ السُّلَمِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” إِنِّي عِنْدَ اللهِ فِي أُمِّ الْكِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّينَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِينَتِهِ، وَسَأُنَبِّئُكُمْ  بِتَأْوِيلِ ذَلِكَ، دَعْوَةِ أَبِي إِبْرَاهِيمَ وَبِشَارَةِ عِيسَى قَوْمَهُ، وَرُؤْيَا أُمِّي الَّتِي رَأَتْ أَنَّهُ خَرَجَ مِنْهَا نُورٌ أَضَاءَتْ لَهُ قُصُورُ الشَّامِ، وَكَذَلِكَ تَرَى أُمَّهَاتُ النَّبِيِّينَ صَلَوَاتُ اللهِ عَلَيْهِمْ

سند میں  سعيد بن سويد شام حمص کا ہے  میزان الاعتدال از الذھبی کے مطابق

امام  البخاري: لا يتابع في حديثه.

امام بخاری کہتے ہیں اس کی حدیث کی متا بعت نہیں کی جاتی

البزار المتوفی ٢٩٢ ھ بھی اس کو مسند میں بیان کرتے ہیں کہتے ہیں

وَهَذَا الْحَدِيثُ لا نَعْلَمُهُ يُرْوَى عَن رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم بِإِسْنَادٍ مُتَّصِلٍ عَنْهُ بِأَحْسَنَ مِنْ هَذَا الإِسْنَادِ وَسَعِيدُ بْنُ سُوَيْدٍ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ

یہ حدیث ہم نہیں جانتے  کہ اس کو اس سے اچھی متصل اسناد سے رسول اللہ سے کسی نے روایت کیا ہو سوائے اس سند کے اور سعید بن سوید شام کا ایک آدمی ہے جس میں برائی نہیں ہے

یعنی امام بخاری اور البزار کا اس راوی پر اختلاف تھا ایک اس میں کوئی برائی نہیں جانتا تھا اور دوسرا اس کی روایات کو منفرد کہتا تھا

صحیح ابن حبان میں ابن حبان نے اسی سند سے  اس روایت کو علامت نبوت میں شمار کیا ہے اور اسی سند کو تلخیص مستدرک میں امام الذھبی نے صحیح کہا ہے

راقم کہتا ہے روایت  چاہے  سعید بن سوید کی سند سے ہو یا کسی اور کی سند سے اس میں شامیوں کا تفرد ہے اور ان شامیوں کو اپنے پروسٹیوں اہل کتاب پر ثابت کرنا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کا نور عیسیٰ علیہ السلام سے بڑھ کر ہےاور یہ شامیوں کا غلو ہے

[/EXPAND]

[کیا حجرہ عائشہ رضی الله عنہا کو مزار کہا جا سکتا  ؟ یہ صحیح بخاری میں ہے ]

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ ،‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ التَّمَّارِ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ حَدَّثَهُ، ‏‏‏‏‏‏”أَنَّهُ رَأَى قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسَنَّمًا”. حَدَّثَنَا فَرْوَةُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَلِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ “لَمَّا سَقَطَ عَلَيْهِمُ الْحَائِطُ فِي زَمَانِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ أَخَذُوا فِي بِنَائِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَبَدَتْ لَهُمْ قَدَمٌ فَفَزِعُوا،‏‏‏‏ وَظَنُّوا أَنَّهَا قَدَمُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَمَا وَجَدُوا أَحَدًا يَعْلَمُ ذَلِكَ،‏‏‏‏ حَتَّى قَالَ لَهُمْ عُرْوَةُ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهِ مَا هِيَ قَدَمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏مَا هِيَ إِلَّا قَدَمُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ”.

ہم سے محمد نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ نے خبر دی ‘ کہا کہ ہمیں ابوبکر بن عیاش نے خبر دی اور ان سے سفیان تمار نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک دیکھی ہے جو کوہان نما ہے۔ ہم سے فروہ بن ابی المغراء نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے علی بن مسہر نے بیان کیا ‘ ان سے ہشام بن عروہ نے ‘ ان سے ان کے والد نے کہ ولید بن عبدالملک بن مروان کے عہد حکومت میں (جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارک کی) دیوار گری اور لوگ اسے (زیادہ اونچی) اٹھانے لگے تو وہاں ایک قدم ظاہر ہوا۔ لوگ یہ سمجھ کر گھبرا گئے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم مبارک ہے۔ کوئی شخص ایسا نہیں تھا جو قدم کو پہچان سکتا۔ آخر عروہ بن زبیر نے بتایا کہ نہیں اللہ گواہ ہے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم نہیں ہے بلکہ یہ تو عمر رضی اللہ عنہ کا قدم ہے۔

جواب

ابنِ منظور افریقی المتوفی ٧١١ ھ کتاب  لسان العرب میں  لکھتے ہیں

وَالمَزَارُ موضع الزيارة.

مزار سے مراد زیارت کرنے کا مقام ہے۔

ابن منظور إفريقي، لسان العرب، 4 : 333

کتاب  المصباح المنير في غريب الشرح الكبير  المؤلف: أحمد بن محمد بن علي الفيومي ثم الحموي، أبو العباس (المتوفى: نحو 770هـ) کے مطابق

 وَالْمَزَارُ يَكُونُ مَصْدَرًا وَمَوْضِعُ الزِّيَارَةِ وَالزِّيَارَةُ فِي الْعُرْفِ قَصْدُ الْمَزُورِ إكْرَامًا لَهُ وَاسْتِئْنَاسًا بِهِ.

مزار مصدر ہے اور زیارت کا مقام ہے اور اس سے مراد زیارت کرنے والے کا قصد اکرام ہے

اسی سے زَائِر کا لفظ  ہے جس کا معنی ہے : زیارت کے لئے جانے والا شخص یا ملاقاتی۔

حجرہ عائشہ رضی الله عنہا کو دور اصحاب رسول میں مزار نہیں کہا گیا جبکہ یہ عربی کا لفظ ہے

مزار کا لفظ آٹھویں صدی سے پہلے عربی میں نہیں ملتا قرون ثلاثہ میں تو کہیں بھی یہ لفظ موجود نہیں

امیر المومنین الولید نے لہذا مزار کی تعمیر نہیں کی تھی بلکہ حجرہ عائشہ کی تعمیر نو کی تھی تاکہ اس کو مظبوط کیا جا سکے

قبر نبی مرجع الخلائق نہیں تھی  عائشہ رضی الله عنہا کے بعد ان کے بھانجے عبد الله بن زبیر رضی الله عنہ اور ان کے بعد خبیب بن عبد الله بن زبیر اس کے متولی تھے  خبیب کے قتل کے بعد الولید کے حکم پر عمر بن عبد العزیز نے اس حجرہ کی تعمیر کی تاکہ اس کو مخالفین کا گھڑ بننے سے بچایا جا سکے اور ال زبیر کو اس سے نکالا گیا

لہذا اس حجرہ میں نہ اس سے قبل نہ اس کے بعد کوئی داخل نہیں ہو سکتا تھا جس کو زیارت کہا جائے یہ تاریخ سے ثابت ہے

موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني میں ہے

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ «كَانَ إِذَا أَرَادَ سَفَرًا، أَوْ قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ جَاءَ قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى عَلَيْهِ، وَدَعَا ثُمَّ انْصَرَفَ» .
قَالَ مُحَمَّدٌ: هَكَذَا يَنْبَغِي أَنْ يَفْعَلَهُ إِذَا قَدِمَ الْمَدِينَةَ يَأْتِي قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

عبد الله بن دینار المتوفی ١٢٧ ھ نے کہا کہ ابن عمر جب سفر کا ارادہ کرتے اور سفر سے اتے تو قبر نبی صلی الله علیہ وسلم تک جاتے اور وہاں درود پڑھتے اور دعا کرتے پھر جاتے

امام محمد نے کہا : اس طرح  یہ ہونا چاہیے کہ  جب وہ مدینہ جاتے ہوں کہ قبر نبی صلی الله علیہ وسلم پر اتے ہوں

امام محمد نے ایسا کہا کیونکہ ابن عمر رضی الله عنہ مدینہ سے مکہ منتقل ہو گئے تھے

موطا کی اور اسناد  عن: معن والقعنبي، وابن بكير، وأبي مصعب. وقال ابن وهب میں ہے ثم يدعو لأبي بكر وعمر

پھر ابن عمر رضی الله عنہ ، ابو بکر اور عمر کے لئے دعا کرتے

یہ عمل تمام اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم کا نہیں تھا صرف ابن عمر رضی الله عنہ کا تھا

کیا یہ زیارت ملاقات ہے ؟  نہیں یہ تو دعا ہے جس کی ضرورت ابن عمر کے مطابق شیخین کو ہے

لہذا زیارت جو بریلوی فرقہ کے ذہن میں ہے وہ اس  روایت نہیں ہے جس میں اہل قبور سے فیض لیا جاتا ہے ان سے بپتائیں بیان کی جاتی ہیں الٹا یہاں تو ان کے لئے دعا کی جا رہی ہے جو شریعت میں معلوم ہے

[/EXPAND]

[ذوالقرنین کون تھے ؟ اصحاب کہف کی قبر پر مسجد بنی ؟]

جواب

سوال : ذو القرنین کون تھے ؟ نبی یا پیغمبر؟
جواب : قرآن میں ان کا بطور حاکم ذکر ہے جو الله کی جانب سے ہدایت پا رہے تھے ان کا دور ابراہیم علیہ السلام سے بھی پہلے کا ہے یہاں تک کہ تاریخ لکھنے سے بھی قبل کا ہے
انہوں نے دیوار بنائی اور الله نے ان کو خبر دی کہ یہ قیامت تک رہے گی لیکن حتمی طور پر ہم کو خبر نہیں کہ واقعی نبی تھے یا نہیں
مستدرک الحاکم کی روایت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
وَمَا أَدْرِي ذُو الْقَرْنَيْنِ نَبِيًّا كَانَ أَمْ لَا
میں نہیں جانتا کہ ذوالقرنین نبی تھے یا نہیں

——–
سوال: سوره کہف میں ہے کہ میری زندگی رہی تو اصحاب کہف کے غار پر مسجد بناو گا اس سے حوالہ لیا جاتا ہے کہ دربار بنانا یا قبر سے تبرک لینا جائز ہے
قرآن میں ذکر ہے تو کیوں نہیں بنا سکتے

جواب : قرآن میں سوره کہف میں ہے جب لوگوں نے اصحاب کہف کو دریافت کر لیا اور ان کے غار پر پہنچ کر یہ دیکھ لیا تو
فَقَالُوا ابْنُوا عَلَيْهِمْ بُنْيَانًا رَبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَى أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِمْ مَسْجِدًا (21)
انہوں نے کہا یہاں دیوار بنا کر (غار کا دھانہ پاٹ دو) ان کا رب ان کے بارے میں جانتا ہے- ان پر جو غلبہ رکھتے تھے انہوں نے کہا ہم اس مقام کو مسجد کے طور پر اختیار کریں گے

یہ قرآن میں ان کا اختلاف بیان ہوا کہ لوگ حکمران کا مذھب اختیار کر لیتے ہیں ورنہ رائے عامہ تھی کہ غار کو بند کر دیا جائے لیکن انہوں نے اس مقام کو مسجد بنا دیا یعنی چرچ – یہ روایت قدیم نصرانییوں میں چلی آئی ہے کہ چرچ اسی مقام پر بنایا جاتا ہے جہاں کوئی بزرگ دفن ہو – ہم کو معلوم ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے اس چیز سے منع کیا
مزید تفصیل کے لئے کتاب دیکھیں

https://www.islamic-belief.net/wp-content/uploads/2013/11/مجمع-البحرین.pdf
صفحہ ٢٢ یا ٢٤ پر

مسجد مطلب جہاں سجدہ ہو لہذا حدیث میں چرچ کو بھی مسجد کہا گیا ہے-
نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
الله کی لعنت ہو یہود و نصاری پر جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا دیا

آج کل بھی روم میں سنت پیٹر برگ میں پوپ پیٹر کی قبر کو سجدہ کرتا ہے
https://www.youtube.com/watch?v=eAJi3q01TUM

پوپ کے آگے اصل میں پطرس کی قبر ہے

اصحاب کہف کا واقعہ ان لوگوں کے ساتھ ہوا جو دوبارہ زندہ ہونے پر شک کر رہے تھے- یہ مسلمان نہیں تھے –
پہلا بادشاہ یونانی و رومی مذھب کا تھا
Roman emperor Decius, around 250 AD
اور دوسرا نصرانی
Theodosius II
کہا جاتا ہے
اس وقت نصرانی تھے لیکن ان میں تثلیث کا عقیدہ بھی تھا اور الوہیت عیسیٰ کا بھی تھا اس میں ان کا اختلاف تھا کہ عیسیٰ کب الوہی ہوا
یہ بادشاہ نصرانی نسطور راھب سے متاثر تھا جو مریم کو والدہ اله کہتا تھا

نصرانی اصحاب کہف کو
the Seven Sleepers of Ephesus
کے نام سے جانتے ہیں

[/EXPAND]

[نور محمدی کو سب سے پہلے خلق کیا گیا؟]
جواب

متن ہے
“أول ما خلق الله نور نبيك يا جابر
اے جابر الله نے سب سے پہلے تمھارے نبی کا نور خلق کیا

سند دی جاتی
عبدالرزق عن معمر عن ابن المنکدر عن جابر

  یہ روایت مصنف عبد الرزق کی کہی جاتی ہے – ایک گروہ کا کہنا ہے کہ یہ اس کتاب میں میں نہیں تھی پھر کسی صوفی دور میں اس کو اس کے کسی نسخہ میں شامل کیا گیا

راقم کے نزدیک یہ امکان بعید ہے

دیگر روایات میں یہ بھی ہے
إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّهُ الْقَلَمَ
سب سے پہلے قلم بنا

ایک اور میں ہے
إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى الْعَقْلُ
سب سے پہلے عقل بنی

ایک میں ہے
أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْقَلَمُ وَالْحُوتُ ,
سب سے پہلے ایک قلم و مچھلی بنی

راقم اس قسم کی بے سروپا بحث نہیں کرنا چاہتا لیکن بریلوی ذہن کی سطح پر آ کر کچھ کلام کرتا ہے

نبی صلی الله علیہ وسلم کو نور کا ثابت کرنے کے لئے اس کو پیش کیا جاتا ہے لیکن صحیح مسلم میں ہے نور بدھ کو خلق ہوا اور فرشتے نور سے بنے
پھر نوری فرشتوں نے خاکی آدم کو سجدہ کیا اس طرح خاک کی اہمیت نور اور اگ (ابلیس کا عنصر) دونوں سے بلند ہو گئی

ابلیس کو صرف عناصر اربعہ کی خبر تھی ہوا – اگ پانی اور زمین اسی میں اس کا ذہن چلا اور بہک کیا – نور عنصر نہیں اگ کا مظہر ہے – اگ جلتی ہے تو نور نکلتا ہے لہذا اگ کو نور سے پہلے خلق کیا گیا ہو گا اور اگ سے ابلیس بنا

نبی کو نور کا کہنے کے بعد یہ لوگ الله تعالی کو نور کہتے ہیں جبکہ الله اپنی مخلوق کی طرح نہیں ہے –
نور الله کی مخلوق ہے کیونکہ یہ جعل یا خلق ہوا

——
یہ روایت اصلا اہل تشیع کی ہے
في البحار، عن رياض الجنان لفضل الله بن محمود الفارسي: عن جابر بن عبد الله قال: قلت لرسول الله (صلى الله عليه وآله): أول شئ خلق الله تعالى ما هو ؟ فقال: نور نبيك يا جابر، خلقه ثم خلق منه كل خير
جس میں سند کو بدل کر اس کو مصنف عبد الرزاق میں لکھا گیا ہے

———
أحمد بن محمد بن أبى بكر بن عبد الملك القسطلاني القتيبي المصري، أبو العباس، شهاب الدين (المتوفى: 923هـ) نے اس روایت کا ذکر کتاب المواهب اللدنية بالمنح المحمدية
میں کیا ہے
وروى عبد الرزاق بسنده عن جابر بن عبد الله الأنصارى قال: قلت يا رسول الله، بأبى أنت وأمى، أخبرنى عن أول شىء خلقه الله تعالى قبل الأشياء. قال: يا جابر، إن الله تعالى قد خلق قبل الأشياء نور نبيك من نوره،
اس سے پہلے اغلبا کسی نے اس روایت کو بیان نہیں کیا جس سے محسوس ہوتا ہے کہ دسویں صدی میں اس روایت کااندراج مصنف عبد الرزاق میں کیا گیا

مستدرک حاکم میں ہے
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حَمْشَاذَ الْعَدْلُ، إِمْلَاءً، ثنا هَارُونُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْهَاشِمِيُّ، ثنا جَنْدَلُ بْنُ وَالِقٍ، ثنا عَمْرُو بْنُ أَوْسٍ الْأَنْصَارِيُّ، ثنا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «أَوْحَى اللَّهُ إِلَى عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ يَا عِيسَى آمِنْ بِمُحَمَّدٍ وَأْمُرْ مَنْ أَدْرَكَهُ مِنْ أُمَّتِكَ أَنْ يُؤْمِنُوا بِهِ فَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُ آدَمَ وَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُ الْجَنَّةَ وَلَا النَّارَ وَلَقَدْ خَلَقْتُ الْعَرْشَ عَلَى الْمَاءِ فَاضْطَرَبَ فَكَتَبْتُ عَلَيْهِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولٌ اللَّهِ فَسَكَنَ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ ”

ابن عباس نے کہا الله نے عیسیٰ پر الوحی کی و لو لا محمد ما خلقت آدم ، ولولا محمد ما خلقت الجنة والنار
اور اگر محمد نہ ہوتے تو جنت و جہنم خلق نہ ہوتے
سند میں جندل بن والق بن هجرس التغلبي أبو علي الكوفي ہے امام مسلم اس کو «الكنى» میں متروك الحديث کہتے ہیں

ابن عباس کو عیسیٰ علیہ السلام پر ہونے والی الوحی کا علم کیسے ہوا؟

میزان میں الذہبی کہتے ہیں
عمرو بن أوس.
يجهل حاله.
أتى بخبر منكر.
أخرجه الحاكم في مستدركه، وأظنه موضوعا من طريق جندل بن والق.
حدثنا عمرو بن أوس، حدثنا سعيد عن أبي عروبة، عن قتادة، عن سعيد بن المسيب، عن ابن عباس، قال: أوحى الله إلى عيسى آمن بمحمد، فلولاه ما خلقت آدم ولا الجنة ولا النار … الحديث.

سند کا دوسرا راوی عمرو بن اوس مجھول ہے منکر خبر لایا ہے کہ اگر محمد نہ ہوتے تو آدم و جنت و جہنم نہ ہوتے

[/EXPAND]

فرشتوں کا سلام پہنچانا اور غیر مقلدین

فرقہ غیر مقلدین سے منسلک ایک ویب سائٹ

kitabosunnat.com

پر کتاب دیکھنے کو ملی کتاب تبلیغی نصاب کے رد میں تھی اور اس کا عنوان تھا تبلیغی نصاب کا جائزہ قرآن و حدیث کی نظر میں از محمد منیر

زاذان  صحابی رسول  عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ سے روایت نقل کرتا ہے

  إنّ لله ملائكة سیّاحین في الأرض یبلغوني من أمتی السلام

بے شک الله کے سیاح فرشتے ہیں زمین پر جو میری امت کا سلام لاتے ہیں

یہاں اس کی تصحیح کرنے والے علماء کی لسٹ دیں تو کافی طویل ہو گا اس کے لئے کتابچہ عرض اعمال کی روایات دیکھیں جو ہماری اس ویب سائٹ پر موجود ہے

محمد منیر لکھتے ہیں

muneer-arz-amal-tableeghi

ان اقتباسات میں تبلیغی بھائیوں کی بجائے اہل حدیث بھائیوں بھی پڑھا جائے تو ٹھیک ہے کیونکہ عرض اعمال

اہل حدیث کا بھی عقیدہ ہے

یہ ایک اچھی بات ہے کہ اہل حدیث بھائی تصویر کے دونوں رخ اپنی ویب سائٹ پر رکھتے ہیں تاکہ تقلید کا کوئی شکار نہ ہو الله ہم سب کو ہدایت دے

عقیدہ عرض اعمال کا ارتقاء

قرآن الله تعالی کی طرف سے ہے اور ان تمام عقائد کی وضاحت کرتا جو ایک انسان کی اخروی فلاح کے لئے ہوں

افسوس !

عقائد میں اضافے کیے جاتے رہے صوفیا ہوں یا محدثین دونوں نے روایات کی بنیاد پر اضافے کیے ہیں

قرآن کہتا ہے

أَفَمَنۡ هُوَ قَآٮِٕمٌ عَلَىٰ كُلِّ نَفۡسِۭ بِمَا كَسَبَتۡ‌ۗ وَجَعَلُواْ لِلَّهِ شُرَكَآءَ۔
تو کیا جو (اللہ) ہر متنفس کے اعمال کا نگراں (ونگہباں) ہے (وہ تمہارے معبودوں کی طرح بےعلم وبےخبر ہوسکتا ہے) اور ان لوگوں نے اللہ کے شریک مقرر کر رکھے ہیں۔ سورة الرعد ۳۳

يَعۡلَمُ مَا تَكۡسِبُ كُلُّ نَفۡسٍ۬‌ۗ۔
ہر متنفس جو کچھ کر رہا ہے وہ اسے جانتا ہے۔ سورة الرعد٤۲

وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ بِذُنُوبِ عِبَادِهِۦ خَبِيرَۢا بَصِيرً۬ا
اور تمہارا پروردگار اپنے بندوں کے گناہوں کو جاننے اور دیکھنے کیلئے کافی ہے۔ سورة بنی اسرائیل۱۷

وَإِلَى ٱللَّهِ تُرۡجَعُ ٱلۡأُمُورُ
اور سب کاموں کا رجوع اللہ ہی کی طرف ہے۔ سورة البقرہ۲۱۰

وَإِلَيۡهِ يُرۡجَعُ ٱلۡأَمۡرُ كُلُّهُ ۥ
اور تمام امور کا رجوع اسی کی طرف ہے۔ سورة ھود ۱۲۳

وَلِلَّهِ عَـٰقِبَةُ ٱلۡأُمُورِ
اور سب کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے ۔ سورة الحج ٤۱

وَإِلَى ٱللَّهِ عَـٰقِبَةُ ٱلۡأُمُورِ
اور (سب)کاموں کا انجام اللہ ہی کی طرف ہے ۔ سورة لقمان۲۲

أَلَآ إِلَى ٱللَّهِ تَصِيرُ ٱلۡأُمُورُ
دیکھو سب کام اللہ کی طرف رجوع ہوں گے ۔ سورة الشوریٰ۵۳

اس کے برعکس رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے منسوب ایک روایت پیش کی جاتی ہے
إن من أفضل أيامكم يوم الجمعة فأكثروا علي من الصلاة فيه فإن صلاتكم معروضة علي قال فقالوا يا رسول اللهِ وكيف تعرض صلاتنا عليك وقد أرمت قال يقولون بليت قال إن الله تبًارك وتعالى حرم على الأرض أجساد الأنبياء صلى الله عليهم
بے شک تمہارے دنوں میں جمعہ سب سے افضل ہے پس اس میں کثرت سے درود پڑھو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش ہوتا ہے – صحابہ نے پوچھا یا رسول الله یہ کیسے جبکہ اپ تو مٹی ہوں گے … رسول الله نے فرمایا بے شک الله تبارک و تعالی نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ انبیاء کے جسموں کو کھائے

اس روایت کو اگر درست تسلیم کیا جائے تواس سے یہ نکلتا ہے

اول عرض اعمال قبر میں انبیاء پر ہوتا ہے

دوم رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر جمعہ کے دن قبر میں عمل پیش ہوتا ہے

سوم انبیاء کے اجسام محفوظ رہیں گے

چہارم درود رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر  زندگی میں بھی پیش ہو رہا تھا صحابہ کو اشکال وفات کےبعد والے دور پر ہوا

بعض علماء ایسی روایات کو سنتے ہی وجد میں آ گئے اور تصحیح کر بیٹھے مثلا

البانی کتاب صحیح ابی داود میں  ابن ابی حاتم کا قول پیش کرتے ہیں

وقد أعِل الحديث بعلة غريبة، ذكرها ابن أبي حاتم في “العلل ” (1/197) ،  وخلاصة كلامه: أن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر- وهو شامي- لم يحدتْ عنه  أحد من أهل العراق- كالجعفي-، وأن الذي يروي عنه أبو أسامة وحسين الجعفي واحد، وهو عبد الرحمن بن يزيد بن تميم، وهو ضعيف؛ وعبد الرحمن بن يزيد بن  جابر ثقة، وهذا الحديث منكر، لا أعلم أحداً رواه غير حسين الجعفي!  قلت: ويعني: أنه أخطأ في قوله: عبد الرحمن بن يزيد بن جابر؛ وإنما هو:  عبد الرحمن بن يزيد بن تميم؛ الضعيف! وهذه علة واهية كما ترى؛ لأن الجعفي ثقة اتفاقاً؛ فكيف يجوز تخطئته لمجرد عدم العلم بأن أحداً من العراقيين لم يحدِّث عن ابن جابر؟! وما المانع من أن يكون الجعفي العرافي قد سمع من ابن جابر حين لزل هذا البصرة قبل أن يتحول إلى دمشق، كما جاء في ترجمته؟! وتفرد الثقه بالحديث لا يقدح؛ إلا أدْ يثبت خَطَأهُ كماهو معلوم.

اور بے شک اس پر ایک انوکھی علت بیان کی جاتی ہے جس کا ذکر ابن ابی حاتم نے العلل 1/ ١٩٧ میں کیا اور خلاصہ کلام ہے کہ عبد الرحمن بن یزید بن جابر جو شامی ہے اس سے کسی عراقی نے روایت نہیں کی جیسے یہ الجعفی  – اور وہ جس سے  ابو اسامہ اور  حسين الجعفي روایت کرتے ہیں وہ اصل میں عبد الرحمن بن يزيد بن تميم  ہے جو ضعیف ہے جبکہ عبد الرحمن بن يزيد بن جابر ثقہ ہے اور یہ حدیث منکر ہے جس کو سوائے حسین کے کوئی روایت نہیں کرتا

البانی کہتے ہیں میں کہتا ہوں اور اس کا مطلب ہوا کہ اس حسين الجعفي    نے عبد الرحمن بن يزيد بن جابر بولنے میں غلطی کی اور وہ عبد الرحمن بن يزيد بن تميم تھا جو ضعیف ہے (حد ہو گئی) اور ابی حاتم کی پیش کردہ علت واہیات ہے جیسے کہ دیکھا کیونکہ یہ الجعفي  ثقہ بالاتفاق ہے اور یہ کیسے جائز ہے کہ ایک لا علمی پر مجرد غلطی کہا جائے کہ کسی عراقی نے ابن جابر سے روایت نہیں کیا ہے؟ اور اس میں کچھ مانع نہیں کہ عراقی الجعفي  نے ابن جابر سے سنا ہو جب بصرہ گئے دمشق سے پہلے جیسا کہ ان کے ترجمہ میں ہے اور ثقہ کا تفرد حدیث میں مقدوح نہیں

البانی کا مقصد ہے کہ حسين الجعفي  جو کوفی تھا ممکن ہے کبھی بصرہ میں اس کی ملاقات عبد الرحمان بن یزید بن جابر سے ہوئی ہو- ایسے ممکنات کو دلیل بناتے ہوئے البانی اس کی تصحیح کے لئے بے چین ہیں اور حد ہے کہ ائمہ حدیث ابی حاتم تک پر جرح کر رہے ہیں اور ان کے قول کو واھی کہہ رہے ہیں- باقی امام بخاری کی رائے بھی ابی حاتم والی ہی ہے اس کو خوبصورتی سے گول کر گئے

البانی کے عقائد پر کتاب موسوعة العلامة الإمام مجدد العصر محمد ناصر الدين الألباني  کے مطابق البانی  اس روایت کی دلیل پر ایک دوسری روایت بھی پیش کرتے ہیں

ولعل مما يشير إلى ذلك قوله صلى الله عليه وسلم: “ما من أحد يسلم علي إلا رد الله علي روحي حتى أرد عليه السلام”   وعلى كل حال فإن حقيقتها لا يدريها إلا الله سبحانه وتعالى، ولذلك فلا يجوز قياس الحياة البرزخية أو الحياة الأخروية على الحياة الدنيوية

اور ہو سکتا ہے کہ اسی بات پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کے  قول  میں اشارہ دیا گیا کہ   تم میں کوئی ایسا نہیں جو مجھ پر سلام پڑھے اور الله میری روح کو نہ لوٹا دے اور ہر حال میں حقیقت الله ہی جانتا ہے اور اس لئے یہ جائز نہیں کہ حیات برزخی یا اخروی کو دنیاوی پر قیاس کیا جائے

سلام بولنے پر روح لوٹانے والی روایت کو اہل حدیث علماء خواجہ محمّد قاسم اور زبیر علی زئی رد کرتے ہیں جبکہ البانی اسی کو دلیل میں پیش کر رہے ہیں –  ابن کثیر تفسیر میں سورہ الاحزاب  میں اس سلام پر روح لوٹائے جانے والی روایت کو صحیح کہتے ہیں اور دلیل بناتے ہوئے لکھتے ہیں

وَمِنْ ذَلِكَ أَنَّهُ يُسْتَحَبُّ الصَّلَاةُ والسلام عليه عند زيارة قبره صلى الله عليه وسلم

اور اس لئے یہ مستحب ہے کہ  زيارة قبر نبی صلى الله عليه وسلم  کے وقت  الصَّلَاةُ والسلام کہے

عرض اعمال والی روایت کو صحیح کہنے والے ابو داود کا بھی حوالہ دیتے ہیں کہ انہوں نے اس پر سکوت کیا ہے اور ان سے منسوب ایک خط میں انہوں نے کہا کہ قد قال في رسالته لأهل مكة كل ما سكت عنه فهو صالح  جس پر بھی میں سکوت کروں وہ صحیح سمجھی جائے –اس کے برعکس البانی اس قول کو خاطر میں نہیں لاتے اور پوری ایک کتاب ضیف ابو داود تالیف کر بیٹھے جس میں اکثر وہ روایات ہیں جن پر ابو داود کا سکوت ہے

سوال یہ ہے کہ یہ تضاد کیوں ہے عقیدے کی ضعیف سے ضعیف روایت پر ابو داود کے سکوت کا حوالہ دینا اور قبول کرنا اور  عمل میں انہی کو رد کرنا

عرض اعمال والی درود پیش ہونے والی روایت پر ابن حبان کا بھی حوالہ دیا جاتا ہے کہ انہوں نے اس کو صحیح میں لکھا ہے – ابن حبان چوتھی صدی ہجری کے محدث ہیں ان سے ایک   صدی قبل بخاری اور ابی حاتم اس روایت کو معلول قرار دے چکے تھے لیکن وہ اس کی تصحیح کر بیٹھے – اس کی وجہ ابن حبان کا اپنا عقیدہ ہے کہ قبروں کے پاس دعائیں قبول ہوتی ہیں اور ابن حبان سماع الموتی کے قائل تھے

 ابن حبان المتوفی  ٣٥٤ ھ   اپنی صحیح میں روایت کرتے  ہیں

 أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ سُرَيْجٍ النَّقَّالُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْيَمَانِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِذَا مَرَرْتُمْ بِقُبُورِنَا وَقُبُورِكُمْ مِنْ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ، فَأَخْبِرُوهُمْ أَنَّهُمْ فِي النَّارِ

ابو هُرَيْرَةَ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا  جب تم ہماری (اہل اسلام) اور اہل الْجَاهِلِيَّةِ کی قبروں پر سے گزرتے ہو تو پس ان کو خبر دو کہ وہ اگ والے ہیں

البانی کتاب التعليقات الحسان على صحيح ابن حبان وتمييز سقيمه من صحيحه، وشاذه من محفوظه میں  کہتے ہیں صحيح اور اسی طرح – «الصحيحة» (18)، «أحكام الجنائز» (252) میں اس کو صحیح قرار دیتے ہیں

ابن حبان اس حدیث پر صحیح ابن حبان میں حاشیہ لکھتے ہیں

قَالَ أَبُو حَاتِمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَمَرَ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْخَبَرِ الْمُسْلِمَ إِذَا مَرَّ بِقَبْرِ غَيْرِ الْمُسْلِمِ، أَنْ يَحْمَدَ اللَّهَ جَلَّ وَعَلَا عَلَى هِدَايَتِهِ إِيَّاهُ الْإِسْلَامَ، بِلَفْظِ الْأَمْرِ بِالْإِخْبَارِ إِيَّاهُ أَنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، إِذْ مُحَالٌ أَنْ يُخَاطَبَ مَنْ قَدْ بَلِيَ بِمَا لَا يَقْبَلُ عَنِ الْمُخَاطِبِ بِمَا يُخَاطِبُهُ بِهِ

  نبی صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا اس حدیث میں کہ جب کوئی مسلمان کسی غیر مسلم کی قبر پر سے گزرے تو الله کی تعریف کرے اس ہدایت پر جو اس نے اسلام سے دی اور حکم کے الفاظ جو اس حدیث میں ہیں کہ وہ اگ میں سے ہیں سے یہ محال ہے کہ ان  کو مخاطب کیا جائے جو بے شک (اتنے) گل سڑ گئے ہوں کہ  خطاب کرنے والے (کی اس بات ) کو قبول نہ کر سکتے ہوں جس پر ان کو مخاطب کیا گیا ہے

ابن حبان کے حساب سے ایسا خطاب نبی صلی الله علیہ وسلم نے سکھایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مردے سمجھنے اور سننے کے قابل  ہیں اس ضعیف روایت کو اپنی صحیح  میں بھی لکھتے ہیں اس سے بھی عجیب بات ہے کہ مردوں کے نہ سننے کے قائل البانی اس روایت کو صحیح کہتے ہیں جبکہ سندا یہ روایت کمزور ہے

ابن حبان مردوں کے سننے کے قائل  تھے اور نیک و صالحین کی قبور پر جا کر دعا کرتے اور وہ ان کے مطابق قبول بھی ہوتی

وما حلت بي شدة في وقت مقامي بطوس, فزرت قبر علي بن موسى الرضا صلوات الله على جده وعليه ودعوت الله إزالتها عني إلا أستجيب لي, وزالت عني تلك الشدة, وهذا شيء جربته مرارا, فوجدته كذلك
طوس میں قیام کے وقت جب بھی مجھے کوئی پریشانی لاحق ہوئی ،میں نے (امام) علی بن موسی الرضا صلوات الله على جده وعليه کی قبرکی زیارت کی، اور اللہ سے اس پریشانی کے ازالہ کے لئے دعاء کی ۔تو میری دعاقبول کی گئی،اورمجھ سے وہ پریشانی دورہوگئی۔اوریہ ایسی چیز ہے جس کامیں نے بارہا تجربہ کیا تو اسی طرح پایا

[الثقات لابن حبان، ط دار الفكر: 8/ 456]

 قبروں سے فیض حاصل کرنے اور مردوں کے سننے کے ابن حبان قائل تھے

شیعہ اماموں کی قبروں سے اہلسنت کے محدثین کا فیض حاصل کرنا کسی شیعہ نے لکھا ہوتا تو سب رافضی کہہ کر رد کر دیتے لیکن یہ ابن حبان خود لکھ رہے ہیں – اس ضعیف الاعتقادی کی وجہ سے وہ صحیح ابن حبان میں عرض اعمال کی روایت کی تصحیح کر گئے

عرض اعمال والی  روایت کو پانچویں صدی کے  امام حاکم نے بھی صحیح قرار دیا اور شیخین کی شرط پر کہا جبکہ بخاری تاریخ الکبیر اور الصغیر میں اس روایت کے راوی حسین الجعفی پر بات کر چکے ہیں – امام حاکم خود شیعیت کی طرف مائل ہوئے اور حدیث طیر کو صحیح کہتے تھے کہ علی سب صحابہ سے افضل ہیں

چوتھی صدی کے امام دارقطنی (المتوفى: 385هـ) بھی حرم علی الازض والی روایت کی تصحیح کر گئے حالانکہ اپنی کتاب العلل میں ایک روایت پر لکھتے ہیں

وَرَوَاهُ أَبُو أُسَامَةَ، فَقَالَ: عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ وَوَهِمَ فِي نَسَبِهِ، وَإِنَّمَا هُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ تَمِيمٍ

اور اس کو ابو اسامہ نے روایت کیا ہے اور کہا ہے عبد الرحمان بن یزید بن جابر اور اس کے نسب میں وہم کیا اور یہ تو بے شک عبد الرحمان بن یزید بن تمیم ہے

یعنی دارقطنی یہ مان رہے ہیں کوفی ابو اسامہ نے عبد الرحمن بن یزید  کے نسب میں غلطی کی لیکن اس کو حسین الجعفی کے لئے نہیں کہتے جو بالکل یہی غلطی کر رہا ہے

آٹھویں صدی کے ابن تیمیہ اور ابن قیم نے ایسی روایات کی بھرپور تائید کی

حسين بن علي الجعفي صحيح بخاري کے راوی ہیں لیکن امام بخاری کے نزدیک ان کی تمام روایات صحیح نہیں ہیں اور یہ غلطی نسب میں کر گئے ہیں اور عبد الرحمان بن یزید بن تمیم کو ابن جابر کہہ گئے

حسین بن علی الجعفي کے لئے ابن سعد طبقات میں لکھتے ہیں

وَكَانَ مَأْلَفًا لِأَهْلِ الْقُرْآنِ وَأَهْلِ الْخَيْرِ

اور یہ اہل قرآن اور اہل خیر کی طرف مائل تھے

الذھبی سیر الاعلام النبلاء میں لکھتے ہیں کہ مُحَمَّدُ بنُ رَافِعٍ کہتے ہیں

وَكَانَ رَاهِبَ أَهْلِ الكُوْفَةِ.

اور یہ اہل کوفہ کے راھب تھے

اور يَحْيَى بنُ يَحْيَى التَّمِيْمِيُّ  کے مطابق

إِنْ كَانَ بَقِيَ مِنَ الأَبْدَالِ أَحَدٌ، فَحُسَيْنٌ الجُعْفِيُّ

اگر ابدال میں سے کوئی رہ گیا ہے تو وہ  حُسَيْنٌ الجُعْفِيُّ ہیں

صحیح مسلم کے مقدمے میں امام مسلم  لکھتے ہیں کہ اہل خیر کے بارے میں ائمہ محدثین کی رائے اچھی نہیں تھی

وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَتَّابٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَفَّانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: «لَمْ نَرَ الصَّالِحِينَ فِي شَيْءٍ أَكْذَبَ مِنْهُمْ فِي الْحَدِيثِ»   قَالَ ابْنُ أَبِي عَتَّابٍ: فَلَقِيتُ أَنَا مُحَمَّدَ بْنَ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانَ، فَسَأَلْتُهُ عَنْهُ، فَقَالَ: عَنْ أَبِيهِ، «لَمْ تَرَ أَهْلَ الْخَيْرِ فِي شَيْءٍ أَكْذَبَ مِنْهُمْ فِي الْحَدِيثِ». قَالَ مُسْلِمٌ: ” يَقُولُ: يَجْرِي الْكَذِبُ عَلَى لِسَانِهِمْ، وَلَا يَتَعَمَّدُونَ الْكَذِبَ

حسین بن علی  الجعفی کا روایت میں غلطی کرنا ان کا اہل خیر کی طرف مائل ہونا اور لوگوں کا ان کو ابدال کہنا اور راہب کوفہ کہنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ زہد کی طرف مائل تھے اور روایت جب عبد الرحمان بن یزید بن تمیم سے سنی تو اس قدر پسند آئی کہ اس کے متن اور عبد الرحمان سے اس کا پورا نسب تک نہ جانا اور بیان کر دی

اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ بات محدثین نے صرف ان کے لئے کی ہے نہیں ائمہ محدثین تو نسب میں غلطیاں بہت سے راویوں سے منسوب کرتے ہیں جس کے لئے کتب تک موجود ہیں لہذا بخاری  اور ابی حاتم جیسے پائے کے محدثین کی رائے کو لفاظی کر کے رد نہیں کیا جا سکتا