Category Archives: شعوب و قبائل و اسباط – Tribes and Clans

امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ

[wpdm_package id=’9813′]

فہرست

پیش لفظ 6
علی کی خواہش 8
حدیث منزلتین 9
حدیث غدیر خم 14
حدیث الْمَارِقِينَ 21
حدیث طیر 27
حدیث ثقلین 31
حدیث حواب 49
حدیث خوارج 50
حدیث کساء 51
حدیث مباھلہ 56
بیعت خلافت کے قصے 62
سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ کی روایت 62
واقدی کی روایت 67
حسن بصری کی روایت 69
اشتر کی روایت 69
طارق بن شہاب کی روایت 73
عمرو یا عمر بن جاوان کی روایت 74
وَضَّاحُ بْنُ يَحْيَى النَّهْشَلِيُّ کی روایت 80
سعد بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف کی روایت 81
الْحَارِث بن كعب الوالبي کی روایت 82
أبو المتوكل الناجي البصري کی روایت 83
علی کا لشکر اور قبائلی عصبیت 85
خلافت علی پرتوقف کرنے والے 98
ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کا توقف 98
ابن عمر رضی اللہ عنہ کا توقف 99
اسامہ بن زید کا توقف 100
عقیل بن ابی طالب کی بیزاری 102
بصرہ کا قصد 103
تذکرہ جنگ جمل 106
شہادت طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ 106
شہادت زبیر بن العوام 109
مصنف ابن ابی شیبہ کی ضعیف روایات 112
مصنف ابن ابی شیبہ کی صحیح السند روایات 137
رافضی روایت 141
جنگ کے بعد اصلی نماز 143
جنگ کے نتائج 147
تذکرہ جنگ صفین 151
مصنف ابن ابی شیبہ میں جنگ صفین کا احوال 151
صلح اور خروج خوارج 161
تذکرہ جنگ نہروان 167
زید بن وھب الجھنی کی روایت 167
عبيدة السلماني المرادي الهمداني کی روایت 177
عُبَيْدِ اللهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، مَوْلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کی روایت 178
أَبُو الْوَضِيئِ کی روایت 180
أَبِي مَرْيَمَ کی روایت 181
أَبِي بَرَكَةَ الصَّائِدِيِّ کی روایت 183
الرَّيَّانُ بْنُ صَبِرة کی روایت 183
بکر بن قرواش کی روایت 184
الضَّحَّاكُ بْنُ مُزَاحِمٍ کی روایت 185
رَبِيعَةَ بْنِ نَاجِدٍ کی روایت 187
عبد الله بن شداد کی روایت 188
قول نبوی کے مطابق یہ آخری دور میں ہو گا 199
قول نبوی : ان کو پاتا تو قتل کرتا 203
سمت و جہت کی اہمیت 204
یہ عربی النسل ہوں گے 207
نتائج 219
روایات ابو سعید الخدری رضی الله عنہ 221
خوارج جہنم کے کتے ہیں؟ 224
علی رضی الله عنہ کی عراق میں تقریریں 235
شام اور قصاص عثمان 254
محمد بن ابی بکر کا انجام 254
عبد الرحمن بن عُدَيْسٍ کا انجام 260
حسن کی شادیاں 263
مصادر اہل تشیع میں حسن کی شادیوں کا ذکر 265
فتنہ ابن سبا 270
علی الیاس ہیں اورآنے والا دابة الارض ہیں 278
علی ہارون ہیں 282
حسن و حسین کو بنی ہارون کے نام دینا 284
شبر و شبیر کا بھیانک انجام 291
عقیدہ رجعت کی تبلیغ 294
علي ذوالقرنین ہیں؟ 304
علی دربار سلیمان میں بھی موجود تھے ؟ 311
شہادت علی 321
علی کا معاویہ کے لئے حکم 335
حسن کی خلافت پر تعیناتی 336

================

بسم اللہ الرحمان الرحیم

پیش لفظ

امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ قریش میں بنو ہاشم میں سے تھے اور خلافت کی تمنا دل میں رکھتے تھے – ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہ کے بعد عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ نے عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کیا – علی رضی اللہ خلیفہ نہ ہو پائے – دور نبوی سے لے کر خلافت عثمانی تک علی کو کسی بھی مقام پر گورنر مقرر نہیں کیا گیا –
غیر قریشی اصحاب رسول جو عثمان کو ناپسند کرتے تھے ، علی کے گرد جمع ہوئے اور ان لوگوں نے علی کے لئے ان کی خلافت کو ہموار کیا – علی خلیفہ ہوئے اور مدینہ پر کسی بھی شمالی جانب سے حاجیوں کے بھیس میں حملہ کے خطرہ کی وجہ سے انہوں نے دار الخلافہ مدینہ سے عراق منتقل کر دیا – وہاں وہ مصریوں ، کوفیوں ، یمنیوں میں گھر گئے – چند اہل بیت مثلا ابن عباس ، قثم بن عباس وغیرہ ان کے ساتھ ہوئے – چند دن بعد کوفہ میں ان کے خالص ہمدردوں کا ایک گروہ اس بات پر ان کی خلافت سے خروج کرگیا کہ انہوں نے معاویہ سے صلح کیوں کر لی ؟

خوارج نے کوفہ کے مضافات میں لوٹ مار شروع کر دی اور اپنا ایک لیڈر نامزد کر دیا – علی نے ان سے قتال کیا اور یہ بھاگ کھڑے ہوئے، معدوم نہ ہوئے – اسی دوران لشکر معاویہ نے مصر پر حملہ کیا اور قاتلین عثمان میں سے محمد بن ابی بکر، عبد الرحمان وغیرہ کا قتل کر دیا اور مصر پر قبضہ کر لیا – خوارج نے گوریلا وار شروع کی اور ایک حملہ میں علی پر وار کیا جو ان کی شہادت کی وجہ بنا –
علی کی شخصیت پر لوگ بٹ گئے – ایک فرقہ اہل سنت کا بنا ، ایک شیعہ کہلایا ، ایک خارجی کہلایا ، ایک باطنی کہلایا ، ایک سبائی کہلایا ، اس طرح بہت سے غالی فرقے نکلے یہاں تک کہ علی ، بشر سے رب بن بنا دیے گئے – اس کتاب میں علی کی سیاسی زندگی پر بحث کی گئی ہے – ان سے متعلق غالی روایات پر بحث راقم کی کتاب الغلو فی علی میں ہے

ابو شہر یار
٢٠٢٠

لَا تَـرْفَعُـوا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ

سورہ الحجرات کي آيات ہيں

بِسْمِ اللّـهِ الرَّحْـمنِ الرَّحِيْـمِ
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ امَنُـوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَىِ اللّـهِ وَرَسُوْلِـه وَاتَّقُوا اللّـهَ اِنَّ اللّـهَ سَـمِيْعٌ عَلِـيْمٌ (1)
اے ايمان والو اللہ اور اس کے رسول کے سامنے پہل نہ کرو اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ امَنُـوْا لَا تَـرْفَعُـوا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوْا لَـه بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْـتُـمْ لَا تَشْعُرُوْنَ (2)
اے ايمان والو اپني آوازيں نبي کي آواز سے بلند نہ کيا کرو اور نہ بلند آواز سے رسول سے بات کيا کرو جيسا کہ تم ايک دوسرے سے کيا کرتے ہو
کہيں تمہارے اعمال برباد نہ ہوجائيں اور تمہيں خبر بھي نہ ہو
اِنَّ الَّـذِيْنَ يَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَـهُـمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّـهِ اُولئِكَ الَّـذِيْنَ امْتَحَنَ اللّـهُ قُلُوْبَـهُـمْ لِلتَّقْوى لَـهُـمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ عَظِـيْمٌ (3)
بے شک جو لوگ اپني آوازيں رسول اللہ کے حضور دھيمي کر ليتے ہيں يہي لوگ ہيں کہ اللہ نے ان کے دلوں کو پرہيزگاري کے ليے جانچ ليا ہے ان
کے ليے بخشش اور بڑا اجر ہے
اِنَّ الَّـذِيْنَ يُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرَاتِ اَكْثَرُهُـمْ لَا يَعْقِلُوْنَ (4)
بے شک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہيں اکثر ان ميں سے عقل نہيں رکھتے
وَلَوْ اَنَّـهُـمْ صَبَـرُوْا حَتّـى تَخْرُجَ اِلَيْـهِـمْ لَكَانَ خَيْـرًا لَّـهُـمْ وَاللّـهُ غَفُوْرٌ رَّحِـيْـمٌ (5)
اور اگر وہ صبر کرتے يہاں تک کہ آپ ان کے پاس سے نکل کر آتے تو ان کے ليے بہتر ہوتا اور اللہ بخشنے والا نہايت رحم والا ہے

ان آيات ميں بتايا جا رہا ہے کہ لوگ حجرات النبي کے باہر جمع ہو جاتے اور شور کرتے کہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم باہر تشريف لائيں-اس عمل پر تنبيہ کي گئي کہ اگر آئندہ ايسا کيا تو عمل فنا ہو جائيں گے اور معلوم تک نہ ہو گا – صحيح بخاري ميں اس کے برعکس بيان کيا گيا ہے
کہ حجرات النبي کے باہر نہيں بلکہ عين نبي صلي اللہ عليہ وسلم کے سامنے شيخين کا جھگڑا ہوا اور اور وہ اپني اپني چلانے کي کوشش کر رہے تھے – حديث بيان کي جاتي ہے

حَدَّثَني إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُمْ: «أَنَّهُ قَدِمَ رَكْبٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَمِّرِ القَعْقَاعَ بْنَ مَعْبَدِ بْنِ زُرَارَةَ قَالَ عُمَرُ: بَلْ أَمِّرِ الأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: مَا أَرَدْتَ إِلَّا خِلاَفِي قَالَ عُمَرُ: مَا أَرَدْتُ خِلاَفَكَ فَتَمَارَيَا حَتَّى ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا فَنَزَلَ فِي ذَلِكَ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تُقَدِّمُوا} [الحجرات: 1] حَتَّى انْقَضَتْ , (خ) 4367
ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ نے بيان کيا کہ ابن زبير رضي اللہ عنہ نے ان کو خبر دي کہ نبو تميم کا وفد نبي صلي اللہ عليہ وسلم کي خدمت ميں پہنچا – ابو بکر رضي اللہ عنہ نے کہا القَعْقَاعَ بْنَ مَعْبَدِ بْنِ زُرَارَةَ کو ان کا امير کريں ، عمر رضي اللہ عنہ نے کہا بلکہ الأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ کو ان کا امير کريں ،- ابو بکر نے کہا عمر تم تو ميرے خلاف ہي بات کرنا ، عمر نے کہا ميں نے تمہاري مخالفت کا ارادہ نہيں کيا پس اس ميں کلام ہوا اور آواز بلند ہو گئي پس يہ آيت نازل ہوئي
اے مومنوں رسول اللہ کے سامنے پيش قدمي مت کرو

واقعہ بيان کيا جاتا ہے کہ وفد ميں ميں دو صحابي الأقرع بْن حابس التميمي المُجاشِعِي اور القَعْقَاعَ بْنَ مَعْبَدِ بْنِ زُرَارَةَ تھے
ابن ابي مليکہ نے کہا کہ اس وفد کي آمد کے موقعہ پر امير کے انتخاب پر ابو بکر اور عمر کي بحث ہوئي اور بات شور تک پہنچي تو حکم نازل ہوا کہ رسول کي موجودگي ميں پيش قدمي مت کرو – راوي ابن ابي مليکہ سے يہ قصہ نافع بن عمر الجمحي اور ابن جريج نے نقل کيا ہے نافع بن عمر پر ابن سعد کا قول ہے کہ ثقہ ہے مگر اس ميں کوئي چيز ہے قال ابن سعد ثقة فيه شيء – دوسرا راوي ابن جريج مدلس ہے اور اس قصہ کي تمام اسناد ميں اس کا عنعنہ ہے – يعني يہ روايت صحيح کے درجہ کي نہيں سمجھي جا سکتي

ترمذي نے اس کے تحت لکھا ہے کہ
قَدْ رَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ مُرْسَلاً وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ.
بعض نے اس قصہ کو بيان کيا ہے کہ ابن ابي مليکہ اس قصہ کو مرسل بيان کرتا تھا اور اس روايت کي سند کو ابن زبير تک نہيں لاتا تھا

راقم کہتا ہے بہت ممکن ہے ابن ابي مليکہ کو ابن زبير سے يہ قصہ نہيں ملا بلکہ کسي اور سے ملا اور بعد ميں راويوں نے اس کي سند کو بلند کيا اور اس کو ابن زبير کا بيان کردہ قصہ بنا ديا

دوسري طرف صحيح مسلم کي حديث ہے کہ جب يہ آيت نازل ہوئي (رسول اللہ کي موجودگي ميں آواز بلند مت کرو ) تو انصاري موذن ثابت بن قيس
کا ذکر ہوا کہ ان کو لگا ہے کہ آيت ان کے بارے ميں ہے – اس حديث ميں سعد بن معاذ رضي اللہ عنہ کا بھي ذکر ہے جن کي وفات جنگ خندق پر ہوئي جو سن 3 يا 4 ہجري کا واقعہ ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّهُ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ} [الحجرات: 2] إِلَى آخِرِ الْآيَةِ جَلَسَ ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ فِي بَيْتِهِ وَقَالَ: أَنَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ وَاحْتَبَسَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ فَقَالَ: «يَا أَبَا عَمْرٍو مَا شَأْنُ ثَابِتٍ؟ اشْتَكَى؟» قَالَ سَعْدٌ: إِنَّهُ لَجَارِي وَمَا عَلِمْتُ لَهُ بِشَكْوَى قَالَ: فَأَتَاهُ سَعْدٌ فَذَكَرَ لَهُ قَوْلَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ثَابِتٌ: أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَلَقَدْ عَلِمْتُمْ أَنِّي مِنْ أَرْفَعِكُمْ صَوْتًا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَنَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَذَكَرَ ذَلِكَ سَعْدٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بَلْ هُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ»
انس بن مالک نے کہا جب آيت نازل ہوئي اے ايمان والوں اپني آواز کو رسول کي آواز سے بلند مت کرو آخر تک تو ثابت بن قيس رضي اللہ عنہ (جو موذن تھے ) گھر جا کر بيٹھ گئے اور کہنے لگے ميں جہنمي ہوں … رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے يہ نوٹ کيا کہ قيس موجود نہيں سعد سے پوچھا کہ ابو عمرو ثابت کا کيا حال ہے ؟ سعد بن معاذ نے کہا وہ ميرے پڑوسي ہيں اور مجھ کو کسي شکوہ کا علم نہيں پس سعد قيس کے ہاں پہنچے اور قول رسول کا ذکر کيا – ثابت نے کہا آيت نازل ہوئي ہے کہ اپني آواز کو رسول کي آواز سے بلند مت کرو ميں تو جہنمي ہو گيا پس اس کا ذکر نبي سے کيا گيا آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا وہ جنتي ہے

اس روايت کي بنا پر صحيح بخاري کي روايت کو صحيح نہيں سمجھا جا سکتا کيونکہ اس کے تحت آيات کا نزول غزوہ خندق سے بھي پہلے ہوا اور تاريخا وفد بنو تميم کي آمد اس غزوہ کے بعد ہي ممکن ہے کيونکہ بنو تميم عرب ميں مدينہ کے مشرق ميں تھے جہاں آجکل رياض ہے اور وہاں سے مدينہ تک رستے ميں مشرکين کے قبائل تھے لہذا وہاں سے کثیر تعداد میں لوگوں کا مسجد النبی تک آنا ممکن نہیں تھا  – متن قرآن ميں موجود ہے کہ لوگ جن کو تنبيہ کي گئي وہ حجرات النبي کے باہر سے پکارا کرتے تھے وہ نبي کے سامنے شور و غل نہيں کر رہے تھے

مشکل الاثار از طحاوي کي روايت ہے جس کے مطابق سورہ حجرات کي پہلي آيت کا تعلق عبادات سے ہے

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ شُعَيْبٍ الْكَيْسَانِيُّ حَدَّثَنِي أَبِي فِي إمْلَاءِ أَبِي يُوسُفَ عَلَيْهِمْ , عَنْ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ التَّيْمِيِّ عَنْ حِبَالِ بْنِ رُفَيْدَةَ عَنْ مَسْرُوقِ بْنِ الْأَجْدَعِ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ عَرَفَةَ وَالنَّاسُ يَسْأَلُونَ يَرَوْنَ أَنَّهُ يَوْمُ النَّحْرِ فَقَالَتْ لِجَارِيَةٍ لَهَا: ” أَخْرِجِي لِمَسْرُوقٍ سَوِيقًا وَحَلِّيهِ فَلَوْلَا أَنِّي صَائِمَةٌ لَذُقْتُهُ ” فَقَالَ لَهَا: أَصُمْتِ هَذَا الْيَوْمَ وَهُوَ يُشَكُّ فِيهِ؟ فَقَالَتْ: ” نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِي مِثْلِ هَذَا الْيَوْمِ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللهِ وَرَسُولِهِ} [الحجرات: 1] كَانَ قَوْمٌ يَتَقَدَّمُونَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّوْمِ وَفِيمَا أَشَبَهَهُ , فَنُهُوا عَنْ ذَلِكَ

عائشہ رضي اللہ عنہا کے شاگرد مسروق نے روايت کيا کہ ام المومنين نے بيان کيا کہ ايک قوم تھي جو روزے اور اسي قسم کي عبادات ميں نبي صلي اللہ عليہ وسلم پر پيش قدمي کرتي اس آيت {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللهِ وَرَسُولِهِ} [الحجرات: 1] کے ذريعہ سے ان کو اس (بدعتي ) عمل سے منع کيا گيا

طبراني ميں ہے
فَقَالَتْ: إِنَّ نَاسًا كَانُوا يَتَقَدَّمُونَ الشَّهْرَ، فَيَصُومُونَ قَبْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
عائشہ رضي اللہ عنہا نے فرمايا لوگ (رمضان کا ) مہينہ انے سے پہلے روزے رکھتے کہ رسول اللہ سے بھي پہلے روزے رکھ ليتے

شيعہ تفسير طوسي ميں ہے
وقال الحسن: ذبح قوم قبل صلاة العيد يوم النحر، فأمروا باعادة ذبيحة اخرى
حسن بصري نے کہا لوگ رسول اللہ سے پہلے عيد ميں ذبح کرتے پس ان کو حکم ديا گيا کہ دوبارہ ذبح کرو ، نبي صلي اللہ عليہ وسلم کے بعد

شيعہ تفسير طبرسي ميں ہے
نزل قوله « يا أيها الذين آمنوا لا ترفعوا أصواتكم » إلى قوله « غفور رحيم » في وفد تميم و هم عطارد بن حاجب بن زرارة في أشراف من بني تميم منهم الأقرع بن حابس و الزبرقان بن بدر و عمرو بن الأهتم و قيس بن عاصم في وفد عظيم فلما دخلوا المسجد نادوا رسول الله (صلى الله عليهوآلهوسلّم) من وراء الحجرات أن اخرج إلينا يا محمد

آيت آواز بلند مت کرو ، يہ نازل ہوئي وفد بنو تميم کي آمد پر اور اس ميں عطارد بن حاجب بن زرارة تھا جو بنو تميم کے معزز لوگ تھے جن ميں الأقرع بن حابس اور الزبرقان بن بدر اور عمرو بن الأهتم اور قيس بن عاصم بھي تھے – يہ ايک عظيم وفد تھا پس جب يہ مسجد النبي ميں داخل ہوئے انہوں نے پکارنا شروع کر ديا حجرات النبي کے پيچھے سے اے محمد باہر نکلو

راقم کہتا ہے يہ تفسير اس حد تک  متن قرآن سے مطابقت رکھتي ہے کہ حجرات سے باہر لوگ پکار رہے تھے اور آيت کے شان نزول کا ابو بکر يا عمر سے کوئي تعلق نہيں ہے

الکافي از کليني ميں تدفين حسن رضي اللہ عنہ کا ذکر ہے حسين رضي اللہ عنہا نے ام المومنين رضي اللہ عنہا کي شان اقدس ميں طنزيہ جملے بولے اور اس آيت کا ذکر کيا ليکن يہ نہيں کہا کہ يہ آيات ابو بکر کے لئے نازل ہوئي

علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن بكر بن صالح [قال الكليني] وعدة من أصحابنا، عن ابن زياد، عن محمد بن سليمان الديلمي، عن هارون بن الجهم، عن محمد ابن مسلم قال سمعت ابا جفعر عليه السلام يقول …. وبهذا الاسناد، عن سهل، عن محمد بن سليمان، عن هارون بن الجهم، عن محمد بن مسلم قال: سمعت أبا جعفر عليه السلام يقول …. فقال لها الحسين بن علي صلوات الله عليهما … قال الله عزوجل ” يا أيها الذين آمنوا لا ترفعوا أصواتكم فوق صوت النبي ” ولعمري لقد ضربت أنت لابيك وفاروقه عند اذن رسول الله صلى الله عليه وآله المعاول، وقال الله عزوجل ” إن الذين يغضون أصواتهم عند رسول الله اولئك الذين امتحن الله قلوبهم للتقوى(1) ” ولعمري لقد أدخل أبوك وفاروقه على رسول الله صلى الله عليه وآله بقربهما منه الاذى،

راقم کہتا ہے کہ اسکي سند ضعيف بھي ہے – شيعہ علماء رجال کے مطابق اس کي سند ضعيف ہے -شيعہ کتاب رجال طوسي کے مطابق اس سند ميں محمد بن سليمان الديلمي بصري ضعيف ہے مشايخ الثقات- غلام رضا عرفانيان ميں بھي اس راوي کو ضعيف قرار ديا گيا ہے

غور طلب ہے کہ شيعوں نے جو سن 300 ہجري تک کے ہيں ان ميں کسي نے سورہ حجرات کي ابتدائي آيات کے شان نزول ميں يہ ذکر نہيں کيا جو صحيح بخاري کي روايت ميں بيان ہوا کہ شيخين رضي اللہ عنہما کا جھگڑا نبي صلي اللہ عليہ وسلم کے سامنے ہوااور آيات نازل ہوئيں

راقم اس تحقيق کے تحت صحيح بخاري کي اس منکر روايت کو رد کرتا ہے

اب عرب میں ویدانت پھیلے گا

قبیلہ دوس کا ذکر

دوس کے خلاف دوس کے حق میں
صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: قَالَ سَعِيدُ بْنُ المُسَيِّبِ، أَخْبَرَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَضْطَرِبَ أَلَيَاتُ نِسَاءِ دَوْسٍ عَلَى ذِي الخَلَصَةِ

 

ابو ہریرہ الدوسی رضی الله عنہ نے خبر دی کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا قیامت قائم نہ ہو گی  یہاں تک کہ دوس کی عورتوں کے کولہے ذی الخلصہ کے آگے تھرکیں گے

 

صحیح ابن حبان میں اس حدیث کے تحت لکھا ہے

قَالَ مَعْمَرٌ: إِنَّ عَلَيْهِ الْآنَ بَيْتًا مبنيا مغلقا

معمر نے کہا ان کا ایک گھر (مندر) ابھی تک بند پڑا ہے

جبکہ صحیح بخاری میں ہے کہ مندر ذوالخلصہ کی عمارت کو گرا کر اس میں اصحاب رسول نے  آگ لگا دی

 

ترمذی میں ہے

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ آدَمَ ابْنِ بِنْتِ أَزْهَرَ السَّمَّانِ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الوَارِثِ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو خَلْدَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو العَالِيَةِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مِمَّنْ أَنْتَ»؟ قَالَ: قُلْتُ: مِنْ دَوْسٍ. قَالَ: «مَا كُنْتُ أَرَى أَنَّ فِي دَوْسٍ أَحَدًا فِيهِ خَيْرٌ قال الألباني : صحيح الإسناد

ابو ہریرہ نے کہا مجھ سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا تو کہاں سے ہے ؟ میں نے کہا دوس سے – فرمایا میں نہیں دیکھتا کہ دوس میں کسی میں کوئی بھلائی  ہو

 

 

 

صحیح بخاری میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ، قَالَ: قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: قَدِمَ طُفَيْلُ بْنُ عَمْرٍو الدَّوْسِيُّ وَأَصْحَابُهُ، عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ دَوْسًا عَصَتْ [ص:45] وَأَبَتْ، فَادْعُ اللَّهَ عَلَيْهَا، فَقِيلَ: هَلَكَتْ دَوْسٌ، قَالَ: «اللَّهُمَّ اهْدِ دَوْسًا وَأْتِ بِهِمْ»

 

ابو ہریرہ نے کہا ابو طفیل دوسی اور اس کے اصحاب آئے نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس اور کہا اے رسول اللہ ، دوس والے نا فرمان ہیں  برباد ہوئے- ان کے لئے دعا کریں – پس ان سے کہا گیا دوس ہلاک ہوا .. رسول الله نے دعا کی اے الله دوس کو ہدایت دے

 

معجم طبرانی میں ہے

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ قِيرَاطٍ الدِّمَشْقِيُّ، ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ثنا عُمَرُ بْنُ صَالِحٍ الْأَزْدِيُّ، ثنا أَبُو جَمْرَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَرْبَعُمِائَةٍ مِنْ دَوْسٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَرْحَبًا أَحْسَنَ النَّاسِ وُجُوهًا، وَأَطْيَبَهُمْ أَفْوَاهًا، وَأَعْظَمَهُمْ أَمَانَةً»

ابن عباس نے کہا رسول الله کے پاس دوس سے ٤٠٠ مرد آئے اپ نے فرمایا مرحبا لوگوں میں سب سے اچھی شکل کے اور خوشبو دار منہ والے اور امانت  کا خیال رکھنے والے

 

ازد اور دوس ایک ہی  تھے  راوی بھی  الْأَزْدِيُّ  ہیں

دوس کا علاقہ مدینہ کے  مشرق  میں  عمان میں تھا آجکل اس کو متحدہ امارت کہا جاتا ہے  روايت ہے

صحیح بخاری میں ہے

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنِي قَيْسُ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: قَالَ لِي جَرِيرٌ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَلاَ تُرِيحُنِي مِنْ ذِي الخَلَصَةِ» وَكَانَ بَيْتًا فِي خَثْعَمَ يُسَمَّى كَعْبَةَ اليَمَانِيَةِ، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ فِي خَمْسِينَ وَمِائَةِ فَارِسٍ مِنْ أَحْمَسَ، وَكَانُوا أَصْحَابَ خَيْلٍ، قَالَ: وَكُنْتُ لاَ أَثْبُتُ عَلَى الخَيْلِ، فَضَرَبَ فِي صَدْرِي حَتَّى رَأَيْتُ أَثَرَ أَصَابِعِهِ فِي صَدْرِي، وَقَالَ: «اللَّهُمَّ ثَبِّتْهُ، وَاجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا»، فَانْطَلَقَ إِلَيْهَا فَكَسَرَهَا وَحَرَّقَهَا، ثُمَّ بَعَثَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخْبِرُهُ، فَقَالَ رَسُولُ جَرِيرٍ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالحَقِّ، مَا جِئْتُكَ حَتَّى تَرَكْتُهَا كَأَنَّهَا جَمَلٌ أَجْوَفُ أَوْ أَجْرَبُ، قَالَ: فَبَارَكَ فِي خَيْلِ أَحْمَسَ، وَرِجَالِهَا خَمْسَ مَرَّاتٍ

 ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا ‘ ان سے اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا مجھ سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ذوالخلصہ کو (برباد کر کے) مجھے راحت کیوں نہیں دے دیتے۔ یہ ذوالخلصہ قبیلہ خثعم کا ایک بت خانہ تھا اور اسے «كعبة اليمانية» کہتے تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں قبیلہ احمس کے ایک سو پچاس سواروں کو لے کر چلا۔ یہ سب حضرات بڑے اچھے گھوڑ سوار تھے۔ لیکن میں گھوڑے کی سواری اچھی طرح نہیں کر پاتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے پر (اپنے ہاتھ سے) مارا ‘ میں نے انگشت ہائے مبارک کا نشان اپنے سینے پر دیکھا۔ فرمایا: اے اللہ! گھوڑے کی پشت پر اسے ثبات عطا فرما ‘ اور اسے دوسروں کو ہدایت کی راہ دکھانے والا اور خود ہدایت یافتہ بنا ‘ اس کے بعد جریر رضی اللہ عنہ روانہ ہوئے ‘ اور ذوالخلصہ کی عمارت کو گرا کر اس میں آگ لگا دی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر بھجوائی۔ جریر رضی اللہ عنہ کے قاصد (ابو ارطاۃ حصین بن ربیعہ) نے خدمت نبوی میں حاضر ہو کر عرض کیا اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے۔ میں اس وقت تک آپ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوا ‘ جب تک ہم نے ذوالخلصہ کو ایک خالی پیٹ والے اونٹ کی طرح نہیں بنا دیا ‘ یا (انہوں نے کہا) خارش والے اونٹ کی طرح (مراد ویرانی سے ہے) جریر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ احمس کے سواروں اور قبیلوں کے تمام لوگوں کے لیے پانچ مرتبہ برکتوں کی دعا فرمائی۔

صحیح بخاری ٤٣٥٧ میں موجود ہے

قَالَ: وَكَانَ ذُو الخَلَصَةِ بَيْتًا بِاليَمَنِ لِخَثْعَمَ، وَبَجِيلَةَ، فِيهِ نُصُبٌ تُعْبَدُ، يُقَالُ لَهُ الكَعْبَةُ

اور ذُو الخَلَصَةِ کا مندر یمن میں ِخَثْعَمَ (قبیلہ) میں  تھا اس میں بت نصب تھا جس کو کعبہ کہا جاتا تھا

الکلبی کی کتاب الاصنام میں ہے

وَهَدَمَ بُنْيَانَ ذِي الْخَلَصَةِ وَأَضْرَمَ فِيهِ النَّارَ فَاحْتَرَقَ

اور ذِي الْخَلَصَةِ  کے مندر کو بنیاد سے منہدم کر دیا گیا اور اس پر اگ لگا دی گئی جس میں یہ بھڑک گیا

یہ قول صحیح بخاری کی روایت کا شاہد ہے – یعنی بت مکمل معدوم ہوا –

  معجم قبائل العرب القديمة والحديثة از  عمر بن رضا  الدمشق (المتوفى: 1408هـ) کے مطابق

 دَوْس بن عُدْثان: بطن من شنوءة، من الأزد، من القحطانية، وهم: بنو دوس بن عدثان بن عبد الله ابن زهران بن كعب بن الحارث بن كعب ابن عبد الله بن مالك بن نصر، وهو شنوءة بن الأزد

دَوْس بن عُدْثان یہ شنوءة کے بطن میں ہیں ازد میں سے

 الإنباه على قبائل الرواة  از  أبو عمر يوسف بن عبد الله   القرطبي (المتوفى: 463هـ) کے مطابق

قَالَ ابْن إِسْحَاق هُوَ دوس بن عبد الله بن زهران بن الأزد بن الْغَوْث مِنْهُم أَبُو هُرَيْرَة والطفيل بن عَمْرو

ابن اسحاق نے کہا … دوس بن عبد الله بن زهران بن الأزد بن الْغَوْث وہ ہیں جن سے أَبُو هُرَيْرَة  اور الطفيل بن عَمْرو ہیں

حدیث میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے موسی علیہ السلام کے بارے میں خبر دی کہ ان کی شکل  شنوءة کے مردوں جیسی   تھی – یہ عرب قبیله ازد ہے جو آجکل عمان میں ہے
ياقوت کی معجم البلدان 3/368 میں ہے
«شنوءة مخلاف باليمن، بينها وبين صنعاء اثنان وأربعون فرسخًا، تنسب إليها قبائل من الأزد يقال لهم: أزد شنوءة»
شنوءة کا علاقہ یمن کے مخالف سمت پر ہے اور اس میں اور صنعاء میں ٤٢ فرسخ کا فاصلہ ہے اس کی نسبت قبیلہ ازد سے ہے جن کو أزد شنوءة کہا جاتا ہے

یعنی شنوءة یا ازد یا دوس تو یمن سے  بہت دور ہیں –  تو اب سوال یہ ہے کہ  ذوالخلصہ کا بت یمن سے عمان کیسے منتقل ہو گا  جو قبیلہ ماضی  میں بھی اس بت کو نہ پوجتا ہو وہ آخر   کس طرح ایک اجنبی  قبیلہ کے بت کو پوجے گا ؟

مسند احمد میں ہے جس کو شعيب الأرنؤوط نے صحیح کہا ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ ابْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَضْطَرِبَ أَلْيَاتُ نِسَاءِ دَوْسٍ حَوْلَ ذِي الْخَلَصَةِ ” وَكَانَتْ صَنَمًا يَعْبُدُهَا دَوْسٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ بِتَبَالَةَ

ابو ہریرہ رضی الله عنہ نے کہا رسول الله نے فرمایا قیامت برپا نہ گی حتی کہ دوس کی عورتوں کے کولہے  ذِي الْخَلَصَةِ کے گرد تھرکیں گے اور یہ بت تھا جس کی دوس جاہلیت  میں تبالہ میں عبادت کرتے تھے

 کتاب قلائد الجمان في التعريف بقبائل عرب الزمان از  أبو العباس أحمد بن علي القلقشندي (المتوفى: 821هـ) میں ہے

قال في العبر: وبلاد خثعم مع إخوتهم بجيلة بسروات اليمن والحجاز إلى تبالة، وقد افترقوا أيضاً أيام الفتح الإسلامي فلم يبق منهم في مواطنهم إلا قليل.

العبر میں ہے کہ خثعم کے شہر ان کے بھائیوں کے ساتھ بجلیہ میں یمن  میں ہے اور  حجاز میں تبالہ تک ہے اور  اسلام کی فتح کی بدولت یہ بکھر گئے اور اب یہ اپنے علاقہ میں نہیں سوائے چند کے

مسند احمد کی تعلیق میں شعيب الأرنؤوط نے  متضاد بات لکھی  ہے

“تبالة”: موضع باليمن، قال القاضي إسماعيل الأكوع في “البلدان اليمانية” ص 56: تبالة بلدة عامرة، كانت مركز ناحية خَثْعَم من عَسِير، وتقع إلى الغرب من بيشة. وانظر “الأماكن” للحازمي 1/153 بتعليق الأستاذ حمد الجاسر.

“تبالة” یہ یمن میں جگہ ہے  – بقول القاضي إسماعيل الأكوع  کے …  تبالة ایک آباد شہر ہے جو خَثْعَم من عَسِير کے علاقہ کے قرب میں  ہے اور بيشة کے غرب میں ہے

 الجامع الصحيح للسنن والمسانيد کے مولف صهيب عبد الجبار نے لکھا ہے

تَبَالَةَ : قَرْيَة بَيْنَ الطَّائِف وَالْيَمَن

تَبَالَةَ  ایک قریہ ہے  الطَّائِف  اور َالْيَمَن کے درمیان

اشکال یہ ہے کہ  بعض محققین کے مطابق مقام   تبالہ حجاز  میں خود  قبیلہ  خثعم والے باقی نہیں دوم   ذِي الْخَلَصَةِ کے بت  کو  توڑ کر اصحاب رسول نے جلا دیا تو واپس اس کی پرستش کا اجراء اب  کیسے  ممکن ہے جبکہ یہ معدوم ہو چکا ہے

وہابیوں کی کتاب عنوان المجد في تاريخ نجد از عثمان بن عبد الله ابن بشر کے مطابق حوادث سنة 1230هـ ط 4 الجزء الأول صفحہ ٣٧٢ پر امیر عبد العزيز بن محمد بن سعود   کے لئے لکھا ہے

http://ia800205.us.archive.org/7/items/omftn/omftn1.pdf

http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php?t=100576

(ثم إن محمد علي وعساكره رحلوا من تربة في الحال وساروا إلى بيشة ، ونازلوا أكلب وأطاعوا لهم ، ثم سار منها إلى تبالة ، وهي البلد التي هدم المسلمون فيها ذا الخلصة زمن عبدالعزيز بن محمد بن سعود ، وهو الصنم الذي بعث إليه النبي صلى الله عليه وسلم جرير بن عبدالله البجلي فهدمه ، فلما طال الزمان أعادوه وعبدوه ، فنازلوا شعلان أمير الفزع وشمران … الخ).

پھر یہ آگے بڑھے تبالة کی طرف یہ وہی شہر  ہے جس میں ذو الخلصة کو منہدم کرنے رسول الله صلی الله علیہ وسلم  نے جریر بن عبد الله البجلی رضی الله عنہ  کو بھیجا تھا  پھر اس پر ایک زمانہ گزرا اور انہوں نے اس ذو الخلصة  کی عبادت کا اعادہ کیا پس  ان پر امیر عبد العزيز بن محمد بن سعود کا نزول ہوا

يعني عبد العزيز بن محمد بن سعود کے دور ميں اس بت ذا الخلصة کو پاش کيا گيا اس طرح ان وہابيوں کے مطابق حديث رسول سچ ہوئي وہاں سياسي مخالفين کو قتل کر ديا گيا کہ يہ اس بت کي پوجا کر رہے تھے

اس واقعہ کا ذکر عصر حاضر ميں ايک کتاب ميں بھي کيا گيا ہے

Even after the idol was destroyed by Muhammad’s followers, the cult of Dhul Khalasa was resurrected and worshipped in the region until 1815, when members of the Sunni Wahhabi movement organised military campaigns to suppress remnants of pagan worship. The reconstructed idol was subsequently destroyed by gunfire. 

S. Salibi, Kamal (2007). Who Was Jesus?: Conspiracy in Jerusalem. Tauris Parke Paperbacks. p. 146. 

راقم کہتا ہے وہ مندر جس کو مسمار کیا گیا  وہ الكعبة اليمانية  کہلاتا تھا جو  یمن کی طرف تھا جہاں جریر بن عبد الله البجلی رضی الله عنہ  کو بھیجا گیا تھا –  اب سوال یہ ہے کہ جو بت یمن میں ہو اس کوتبالہ میں   سن ١٢٣٠ ھ میں کوئی کیوں پوج رہا تھا ؟    کیا صحابی نے اس بت  کو مکمل مسمار نہیں کر دیا جیسا کہ صحیح بخاری کی ہی حدیث میں ہے

کتاب الأصنام از کلبی  (المتوفى: 204هـ) کے مطابق

وَذُو الخلصة الْيَوْم عتبَة بَاب مَسْجِد تبَالَة

آج (مندر ذُو الخلصة ) مسجد تبالہ کے داخلہ پر ہے

یعنی یہ  مقام جہاں مندر تھا اب وہاں مسجد تبالہ ہے

وہابیوں کے بقول اس حدیث  کی پیشن گوئی پوری ہوئی ان عربوں کو قتل کیا جا چکا ہے اور اہل حدیث اس حدیث کو ابھی تک بیان کرتے ہیں  – اسی کی بنیاد پر عربوں کو دلیل ملی عرب پر مشرکوں کے مندر تعمیر کیے جائیں کیونکہ اس حدیث کی پیشنگوئی پوری ہو چکی ہے

وفات النبی کے بعد عرب میں بننے والا پہلا مشرکوں کا مندر 

 

سوال یہ ہے کہ ذو الخلصہ یا ذي الخلصة   لیکن کیا تھا ؟  ذو الخلصہ  پر کلبی نے لکھا ہے

كان مروة بيضاء منقوشة، عليها كهيئة التاج

یہ سفید سنگ مرمر تھا جس پر نقش تھے اور اس پر تاج  بنا تھا

الکامل از ابن اثیر کے مطابق

وَكَانَ مِنْ حَجَرٍ أَبْيَضَ بِتَبَالَةَ

ذي الخلصة ایک سفید پتھر تھا

ابن اسحاق کی روایت کے مطابق[1]

ويصبون عليه اللبن

اس پر دودھ کا چڑھاوا دیا جاتا تھا

تاريخ العرب القديم از  توفيق برو ، دار الفكر کے مطابق

أما عن حضارة دولة كندة فإنها لم تترك من الآثار الحضرية شيئًا سوى ذكرى شاعرها الكبير امرئ القيس وقصائده الشهيرة، إذ لم يكن لها مدن ولا حصون ولا قصور جديرة بالخلود، إنما الذين قاموا عليها كانوا بدوا حافظوا على نظم البداوة وتقاليدها، واستعملوا الخيام مساكن لهم، ولم يستقروا في حاضرة معينة، أما ديانتهم فكانت وثنية، من أصنامهم ذو الخلصة. على أن اليهودية قد تسربت إلى بعضهم

مملکت کندہ کے جو اثار ہیں ان کا ذکر صرف  امرئ القيس کے شعروں اور قصوں میں ہے  … ان کا دین بت پرستی تھا اور  بتوں میں ذو الخلصة تھا اور ان بتوں  بعض  بت   یہودوں میں بھی آ گئے  تھے (یعنی یہودی بھی ان کی پوجا کر رہے تھے )

ہندوستان میں  امر ناتھ  مندر  جو جموں میں غار میں  ہے  اس میں سفید شوا لنگم کی پوجا ہوتی ہے – راقم کا گمان ہے کہ ذو الخلصة بھی شوا لنگم کی کوئی قسم تھا – ممکن ہے کہ یہ حدیث خبر ہے عرب میں ویدانت پھیلے گا

سن ٢٠٢١  سے عربی اسکولوں میں مہا بھارت اور رامائن بھی پڑھائی جائے گی تاکہ مسلمان دھرم ویدانت سے واقف ہو  سکیں – اس کا ذکر اخبارات و سوشل میڈیا  میں حال ہی میں ہوا  ہے

[1]

بحوالہ الأزرقي، أخبار مكة “1/ 73” “باب ما جاء في الأصنام التي كانت على الصفا والمروة”، تاج العروس “4/ 389” “خلص” البلدان “8/ 434”.

روایات اور قبائل کا ذکر

برصغیر میں مشھور ہے کہ قبائل صرف انسانوں کو پہچاننے کے لئے ہیں اس کی دلیل  قرآن میں ہے

 وجعلناكم شعوبا وقبائل لتعارفوا

أور تم کو قبائل کیا کہ تعارف ہو

لیکن احادیث رسول جو ہم تک پہنچی ہیں ان میں قبائل کے حوالے سے منصبوں کا ذکر ہے کہ امت میں خلافت ، امامت، بیت المال پر چند قبائل کا ہی حق ہے مثلا  حدیث مشہور ہے خلفاء قریش سے ہوں گے اس کے علاوہ مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو مَرْيَمَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” الْمُلْكُ فِي قُرَيْشٍ، وَالْقَضَاءُ فِي الْأَنْصَارِ، وَالْأَذَانُ فِي الْحَبَشَةِ، وَالسُّرْعَةُ فِي الْيَمَنِ “، وَقَالَ زَيْدٌ مَرَّةً يَحْفَظُهُ: وَالْأَمَانَةُ فِي الْأَزْدِ

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم  کا  قول  ہے
الـْمُلْكُ فِى قُرَيْشٍ وَالْقَضَاءُ فِى الأَنْصَارِ وَالأَذَانُ فِى الْحَبَشَةِ وَالأَمَانَةُ فِى الأَزْدِ  يَعْنِى الْيَمَنَ
بادشاہت (یعنی خلافت) قریش میں رہنی چاہیے۔(عہدہ )  قضا انصار میں، اذان اہل حبشہ میں اورامانت قبیلہ ازد یعنی یمن میں

 شعيب الأرنؤوط  کہتے ہیں

رجاله رجال الصحيح غير أبي مريم -وهو الأنصاري- فقد روى له أبو داود والترمذي وهو ثقة.

رجال صحیح کے ہیں سوائے أبي مريمکے جو  الأنصاري ہیں ابو داود و ترمذی نے روایت لی ہے ثقہ ہیں

دوسری طرف قبائل سے متعلق متضاد روایات بھی ملتی ہیں- اس تحقیق میں چند قبائل کا ذکر ہے

بنو تمیم سے متعلق متضاد روایات

 بنو تمیم میں سے لوگ نکلیں گے جو دین سے نکل جائیں گے نبو تمیم دجال مخالف ہوں گے
حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقْسِمُ قِسْمًا، أَتَاهُ ذُو الخُوَيْصِرَةِ، وَهُوَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ اعْدِلْ، فَقَالَ: «وَيْلَكَ، وَمَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَعْدِلْ، قَدْ خِبْتَ وَخَسِرْتَ إِنْ لَمْ أَكُنْ أَعْدِلُ». فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ائْذَنْ لِي فِيهِ فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ؟ فَقَالَ: «دَعْهُ، فَإِنَّ لَهُ أَصْحَابًا يَحْقِرُ أَحَدُكُمْ صَلاَتَهُ مَعَ صَلاَتِهِمْ، وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ، يَقْرَءُونَ القُرْآنَ لاَ يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، يُنْظَرُ إِلَى نَصْلِهِ فَلاَ يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ، ثُمَّ يُنْظَرُ إِلَى رِصَافِهِ فَمَا يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ، ثُمَّ يُنْظَرُ إِلَى نَضِيِّهِ، – وَهُوَ قِدْحُهُ -، فَلاَ يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ، ثُمَّ يُنْظَرُ إِلَى قُذَذِهِ فَلاَ يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ، قَدْ سَبَقَ الفَرْثَ وَالدَّمَ، آيَتُهُمْ رَجُلٌ أَسْوَدُ، إِحْدَى عَضُدَيْهِ مِثْلُ ثَدْيِ المَرْأَةِ، أَوْ مِثْلُ البَضْعَةِ تَدَرْدَرُ، وَيَخْرُجُونَ عَلَى حِينِ فُرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ» قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَأَشْهَدُ أَنِّي سَمِعْتُ هَذَا الحَدِيثَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَشْهَدُ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ قَاتَلَهُمْ وَأَنَا مَعَهُ، فَأَمَرَ بِذَلِكَ الرَّجُلِ فَالْتُمِسَ فَأُتِيَ بِهِ، حَتَّى نَظَرْتُ إِلَيْهِ عَلَى نَعْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي نَعَتَهُ

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھ کو ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم (جنگ حنین کا مال غنیمت) تقسیم فرما رہے تھے اتنے میں بنی تمیم کا ایک شخص ذوالخویصرہ نامی آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! انصاف سے کام لیجئے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا افسوس! اگر میں ہی انصاف نہ کروں تو دنیا میں پھر کون انصاف کرے گا۔ اگر میں ظالم ہو جاؤں تب تو میری بھی تباہی اور بربادی ہو جائے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس کے بارے میں مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن مار دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو۔ اس کے جوڑ کے کچھ لوگ پیدا ہوں گے کہ تم اپنے روزوں کو ان کے روزوں کے مقابل ناچیز سمجھو گے۔ وہ قرآن کی تلاوت کریں گے لیکن وہ ان کے حلق کے نیچے نہیں اترے گا۔ یہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے زور دار تیر جانور سے پار ہو جاتا ہے۔ اس تیر کے پھل کو اگر دیکھا جائے تو اس میں کوئی چیز (خون وغیرہ) نظر نہ آئے گی پھر اس کے پٹھے کو اگر دیکھا جائے تو چھڑ میں اس کے پھل کے داخل ہونے کی جگہ سے اوپر جو لگایا جاتا ہے تو وہاں بھی کچھ نہ ملے گا۔ اس کے نفی (نفی تیر میں لگائی جانے والی لکڑی کو کہتے ہیں) کو دیکھا جائے تو وہاں بھی کچھ نشان نہیں ملے گا۔ اسی طرح اگر اس کے پر کو دیکھا جائے تو اس میں بھی کچھ نہیں ملے گا۔ حالانکہ گندگی اور خون سے وہ تیر گزرا ہے۔ ان کی علامت ایک کالا شخص ہو گا۔ اس کا ایک بازو عورت کے پستان کی طرح (اٹھا ہوا) ہو گا یا گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہو گا اور حرکت کر رہا ہو گا۔ یہ لوگ مسلمانوں کے بہترین گروہ سے بغاوت کریں گے۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی اور میں گواہی دیتا ہوں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ان سے جنگ کی تھی (یعنی خوارج سے) اس وقت میں بھی علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا۔ اور انہوں نے اس شخص کو تلاش کرایا (جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گروہ کی علامت کے طور پر بتلایا تھا) آخر وہ لایا گیا۔ میں نے اسے دیکھا تو اس کا پورا حلیہ بالکل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کئے ہوئے اوصاف کے مطابق تھا۔

حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ القَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لاَ أَزَالُ أُحِبُّ بَنِي تَمِيمٍ بَعْدَ ثَلاَثٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُهَا فِيهِمْ: «هُمْ أَشَدُّ أُمَّتِي عَلَى الدَّجَّالِ» وَكَانَتْ فِيهِمْ سَبِيَّةٌ عِنْدَ عَائِشَةَ، فَقَالَ: «أَعْتِقِيهَا، فَإِنَّهَا مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ»، وَجَاءَتْ صَدَقَاتُهُمْ، فَقَالَ: ” هَذِهِ صَدَقَاتُ قَوْمٍ، أَوْ: قَوْمِي

صحیح بخاری

 

ہم سے زہیر بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے عمارہ بن قعقاع، ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں بنو تمیم سے ہمیشہ محبت کرتا رہا ہوں (دوسری سند امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا) مجھ سے ابن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو جریر بن عبدالحمید نے خبر دی، انہیں مغیرہ نے، انہیں حارث نے، انہیں ابوزرعہ نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے، (تیسری سند) اور مغیرہ نے عمارہ سے روایت کی، انہوں نے ابوزرعہ سے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، تین باتوں کی وجہ سے جنہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ میں بنو تمیم سے ہمیشہ محبت کرتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا کہ یہ لوگ دجال کے مقابلے میں میری امت میں سب سے زیادہ سخت مخالف ثابت ہوں گے۔ انہوں نے بیان کیا کہ (ایک

مرتبہ) بنو تمیم کے یہاں سے زکوٰۃ (وصول ہو کر آئی) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ہماری قوم کی زکوٰۃ ہے۔ بنو تمیم کی ایک عورت قید ہو کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اسے آزاد کر دے کہ یہ اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہے۔

ربیعہ و مضر سے متعلق متضاد روایات

ربيعة اور مضر عربوں کے دو طاقت ور قبیلے تھے جو ایام جاہلیت میں یمن میں تھے پھر  جزیرہ عرب کے شمال مشرق   میں گئے اور پھر  فرات کی طرف منتقل ہوئے – یہ قبائل علی رضی الله عنہ کے مدد گار بن گئے تھے

اہل تشیع کی کتب میں مضر اور کی تعریف کی گئی ہے

 

مضر جو مشرق میں تھے یھاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا
 

شفعه الله تعالى يوم القيامة في مثل ربيعة و مضر

مستدرك الوسائل

 

 

قَالاَ: وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: ” وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ يَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ، يَدْعُو لِرِجَالٍ فَيُسَمِّيهِمْ بِأَسْمَائِهِمْ، فَيَقُولُ: اللَّهُمَّ أَنْجِ الوَلِيدَ بْنَ الوَلِيدِ، وَسَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ، وَعَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ وَالمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ المُؤْمِنِينَ اللَّهُمَّ اشْدُدْ وَطْأَتَكَ عَلَى مُضَرَ وَاجْعَلْهَا عَلَيْهِمْ سِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ ” وَأَهْلُ المَشْرِقِ يَوْمَئِذٍ مِنْ مُضَرَ مُخَالِفُونَ لَهُ

صحیح بخاری

ابوبکر اور ابوسلمہ دونوں نے کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سر مبارک (رکوع سے) اٹھاتے تو«سمع الله لمن حمده،‏‏‏‏ ربنا ولك الحمد‏» کہہ کر چند لوگوں کے لیے دعائیں کرتے اور نام لے لے کر فرماتے۔ یا اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور تمام کمزور مسلمانوں کو (کفار سے) نجات دے۔ اے اللہ! قبیلہ مضر کے لوگوں کو سختی کے ساتھ کچل دے اور ان پر قحط مسلط کر جیسا کہ یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں آیا تھا۔ ان دنوں مشرق والے قبیلہ مضر کے لوگ مخالفین میں تھے۔

 

صحیح مسلم

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، ح وَحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، ح وَحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ كُلُّهُمْ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، ح وَحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ الْحَارِثِيُّ – وَاللَّفْظُ لَهُ – حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: سَمِعْتُ قَيْسًا يَرْوِي عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ، قَالَ: أَشَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ نَحْوَ الْيَمَنِ، فَقَالَ: «أَلَا إِنَّ الْإِيمَانَ هَهُنَا، وَإِنَّ الْقَسْوَةَ وَغِلَظَ الْقُلُوبِ فِي الْفَدَّادِينَ، عِنْدَ أُصُولِ أَذْنَابِ الْإِبِلِ، حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنَا الشَّيْطَانِ فِي رَبِيعَةَ، وَمُضَرَ

 

 

قحطان سے متعلق  روایات  

کتاب  مسند الموطأ للجوهري کے مطابق

قَالَ الزُّبَيْرُ: وَزَعَمَ نُسَّابُ أَهْلِ الْيَمَنِ: أَنَّ قَحْطَانَ هُوَ يَقْطُنُ بْنُ عَابِرٍ وَهُوَ هُودٌ النَّبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بْنُ شَالِخِ بْنِ أرفخشد بْنِ سَامِ بْنِ نُوحِ بْنِ لامك بْنِ متوشلخ بْنِ أخنوخ بْنِ يرد بْنِ مهلابيل بْنِ فسيان بْنِ أنوش بْنِ شيث بْنِ آدَمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

وَزَعَمَ نُسَّابُ أَهْلِ الْحِجَازِ: أَنَّ قَحْطَانَ بْنَ يَمَنَ بْنِ بِنْتِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلِ الرَّحْمَنِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

الزبیر نے کہا اہل نسب کا دعوی ہے کہ قحطان یمنی ہیں جو ہود علیہ السلام بن شَالِخِ بْنِ أرفخشد بْنِ سَامِ بْنِ نُوحِ بْنِ لامك بْنِ متوشلخ بْنِ أخنوخ بْنِ يرد بْنِ مهلابيل بْنِ فسيان بْنِ أنوش بْنِ شيث بْنِ آدَمَ کی نسل سے ہیں

قحطان اور المراد یا تجوبی یا سکونی یہ قبائل کا ایک جتھہ تھا جو اپنے اپ کو قریش سے قدیم مانتا ہے اور مکہ کے جنوب میں یمن میں ہے –شروع میں یہ علی کے ساتھ تھے  پھر مرادی و قحطانی خوارج بنے اور علی کا قتل کیا

لشکر علی میں انکا اثر و رسوخ تھا کہ  حدیث بیان کی گئی

 قحطان کا کوئی شخص بھی عمل دار ہو گا  کہ  خلافت قریش سے نکل کر قحطان میں چلی جائے گی – یہ گمان بعض قحطان مخالف راویوں کو  ہوا  جب قحطان کی اکثریت علی رضی الله عنہ کے کیمپ میں شامل ہوئی  اور ان کے ساتھ جنگ جمل اور صفین میں لڑی اور لگنے لگا کہ  قحطان سے خلیفہ ہو جائے گا- بعض قحطانیوں نے اختلاف کیا اور بالاخر ایک قحطانی عبد الرحمن ابن ملجم بن عمرو نے علی رضی الله عنہ کا قتل کیا

بعض محدثین اس  روایت کی علتوں کو بھانپ نہ سکے اور یہ روایت متفق علیہ بن گئی

صحيح بخاري كي روایت ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي الغَيْثِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ، حَتَّى يَخْرُجَ رَجُلٌ مِنْ قَحْطَانَ، يَسُوقُ النَّاسَ بِعَصَاهُ»

صحیح مسلم کی سند ہے

وَحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي الْغَيْثِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَخْرُجَ رَجُلٌ مِنْ قَحْطَانَ يَسُوقُ النَّاسَ بِعَصَاهُ»

سالم  أَبِي الغَيْثِ ، ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک قحطان قبیلے کا ایک شخص نہ نکلے   جو  لوگوں کو اپنی چھڑی سے   ہانکے گا.

موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله  کے مطابق امام احمد کہتے ہیں

سالم، أبو الغيث المدني، مولى عبد الله بن مطيع.  قال أبو الحسن الميموني، عن أحمد بن حنبل، وسألته عن أبي الغيث، الذي يروي، عن أبي هريرة. فقال: لا أعلم أحداً روى عنه إلا ثور، وأحاديثه متقاربة

سالم، أبو الغيث المدني، مولى عبد الله بن مطيع. أبو الحسن الميموني نے کہا امام احمد سے اس پر سوال کیا تو انہوں نے کہا اس سے سوائے ثور کوئی اور روایت نہیں کرتا اس کی احادیث  سرسری یا واجبی  سی ہیں

مقارب الحدیث یا وأحاديثه متقاربة اس وقت بولا جاتا ہے جب راوی بہت مشھور نہ ہو اور اس کی مرویات میں کوئی خاص بات نہ ہو بلکہ واجبی سی ہوں

مغلطاي کتاب إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال  میں کہتے ہیں

وقال أحمد بن حنبل: أبو الغيث سالم- الذي يروي عنه ثور ثقة، وقال: وقال مرة أخرى: ليس بثقة.

امام احمد نے کہا أبو الغيث سالم جس سے ثور روایت کرتا ہے ثقہ ہے اور دوسری دفعہ کہا ثقہ نہیں ہے

میزان الآعتدال از الذھبی کے مطابق ابن معین نے بھی اسکو ثقہ اور پھر غیر ثقہ کہا

لہذا یہ راوی مشتبہ ہو گیا اور   روایت اس سند سے ضروری نہیں صحیح ہو

كتاب الفتن از ابو نعیم کی روایت ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ ثَوْرٍ، وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ أَوْسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: وَجَدْتُ فِي بَعْضِ الْكُتُبِ: يَوْمَ غَزَوْنَا يَوْمَ الْيَرْمُوكِ «أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ أَصَبْتُمُ اسْمَهُ، عُمَرُ الْفَارُوقُ قَرْنٌ مِنْ حَدِيدٍ أَصَبْتُمُ اسْمَهُ، عُثْمَانُ ذُو النُّورَيْنِ أُوتِيَ كِفْلَيْنِ مِنَ الرَّحْمَةِ لِأَنَّهُ قُتِلَ مَظْلُومًا أَصَبْتُمُ اسْمَهُ، ثُمَّ يَكُونُ سَفَّاحٌ، ثُمَّ يَكُونُ مَنْصُورٌ، ثُمَّ يَكُونُ مَهْدِيُّ، ثُمَّ يَكُونُ الْأَمِينُ، ثُمَّ يَكُونُ سِينٌ وَسَلَامٌ، يَعْنِي صَلَاحًا وَعَافِيَةً، ثُمَّ يَكُونُ أَمِيرُ الْغَضَبِ، سِتَّةٌ مِنْهُمْ مِنْ وَلَدِ كَعْبِ بْنِ لُؤَيٍّ، وَرَجُلٌ مِنْ قَحْطَانَ، كُلُّهُمْ صَالِحٌ لَا يُرَى مِثْلُهُ»

عُقْبَةَ بْنِ أَوْسٍ، عبد الله بن عمرو سے روایت کرتا ہے کہ میں نے بعض کتب میں پایا  جنگ یرموک کے دن …. قحطان کا آدمی یہ سب صالح ہیں ان سا کوئی نہیں

سؤالات ابن الجنيد لأبي زكريا يحيى بن معين کے مطابق

قال ابن الغلابي:  يزعمون أن عقبة بن أوس السدوسي لم يسمع من عبد الله بن عمرو

ابن الغلابي کہتے ہیں (محدثین) دعوی کرتے ہیں کہ عقبہ نے عبد الله بن عمرو سے نہیں سنا

مسند احمد اور صحیح بخاری کی روایت ہے

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، يُحَدِّثُ أَنَّهُ بَلَغَ مُعَاوِيَةَ وَهُوَ عِنْدَهُ فِي وَفْدٍ مِنْ قُرَيْشٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ يُحَدِّثُ أَنَّهُ سَيَكُونُ مَلِكٌ مِنْ قَحْطَانَ، فَغَضِبَ مُعَاوِيَةُ، فَقَامَ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّ [ص:65] رِجَالًا مِنْكُمْ يُحَدِّثُونَ أَحَادِيثَ لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ، وَلَا تُؤْثَرُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أُولَئِكَ جُهَّالُكُمْ، فَإِيَّاكُمْ وَالْأَمَانِيَّ الَّتِي تُضِلُّ أَهْلَهَا، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ هَذَا الْأَمْرَ فِي قُرَيْشٍ، لَا يُنَازِعُهُمْ أَحَدٌ إِلَّا أَكَبَّهُ اللَّهُ عَلَى وَجْهِهِ، مَا أَقَامُوا الدِّينَ»

امام الزُّهْرِيِّ کہتے ہیں کہ مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ نے بتایا کہ وہ معاویہ کے پاس پہنچے اور وہ ایک قریشی وفد کے ساتھ تھے – عبد الله بن عمرو نے کہا کہ عنقریب بادشاہت قحطان میں سے ہو گی اس پر معاویہ غضب ناک ہوئے اور کہا الله کی حمد کی جس کا وہ اہل ہے پھر کہا پس مجھے پہنچا ہے کہ تم میں سے بعض مرد ایسی   احادیث بیان کرتے ہو جو کتاب الله میں نہیں ہیں نہ ہی اثر میں ہیں جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے ملا ، یہ لوگ تمہارے جاہل ہیں ان سے بچو اور انکی خواہشات سے جس سے گمراہ ہوئے پس میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے انہوں نے کہا یہ امر قریش میں رہے گا اس میں کسی کا جھگڑا نہ ہو گا سواۓ اس کے کہ وہ اوندھآ ہو جائے گا اپنے چہرے پر – جب تک یہ دین قائم کریں

اسکی سند  میں  بِشْرُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ  ہے جو اپنے باپ سے روایت کر رہا ہے محدثین کا اس پر اختلاف ہے  کہ اس نے اپنے باپ سے سنا یا نہیں- امام  یحیی ابن معین  اور امام احمد کے مطابق نہیں سنا-  یعنی مسند احمد کی یہ روایت خود امام احمد کے نزدیک منقطع ہے لیکن امام بخاری نے اس کو متصل سمجھ لیا ہے

صحیحین میں ہے

سالم  أَبِي الغَيْثِ ، ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک قحطان قبیلے کا ایک شخص نہ نکلے   جو  لوگوں کو اپنی چھڑی سے   ہانکے گا.

یہ روایت منکر ہے  – خلافت قریش سے نکل کر منگولوں اور ترکوں میں چلی گئی – البتہ اس روایت کو آج تک صحیح سمجھا جاتا ہے اور اسی کی بنیاد پر محمد بن عبد الله القحطانی نے مکہ  میں ١٩٧٨ میں  مسجد الحرام پر قبضہ کیا اور وہاں قتل عام کیا

امام بخاری نے تاریخ الکبیر میں  صحابی کی ذِي مِخبَر الحَبَشيّ  ایک   روایت بیان کی ہے
قَالَ أَبو اليَمان: حدَّثنا حَرِيز بْنُ عُثمان، عن راشد، عن أبي حَيٍّ المُؤَذن، عَنْ ذِي مِخبَر الحَبَشيّ، عَنِ النَّبيِّ صَلى اللَّهُ عَلَيه وسَلم: كَانَ هَذا الأَمرُ فِي حِميَرَ، فَنَزَعَهُ اللَّهُ مِنهُم، وجَعَلَهُ فِي قُرَيش، وسَيَعُودُ إِلَيهِم”.
رسول الله نے فرمایا یہ خلافت حمیر میں تھی، پس الله نے ان سے جھگڑا کیا اور اس کو قریش کے لئے کر دیا اور پھر یہ ان میں واپس پلٹ جائے گی

 روایات اصل میں دور معاویہ و علی کے دوران بنی ہیں کیونکہ قحطانی قبائل کا اثر بہت تھا- روایت میں بیان کیا گیا ہے  شام میں سمجھا جا رہا تھا کہ علی کے خلیفہ قریشی نہیں قحطانی ہو  جائے گا – قحطانی  خلیفہ تو نہیں ہو سکے لیکن علی کا قتل کر گئے

کتاب  الاستيعاب في معرفة الأصحاب از قرطبی

عَبْد الرَّحْمَنِ بْن ملجم [1] ، قيل التجوبي، وقيل السكوني، وقيل الحميري. قَالَ الزُّبَيْر: تجوب رجل من حمير، كَانَ أصاب دما فِي قومه، فلجأ إِلَى مراد فَقَالَ لهم: جئت إليكم أجوب البلاد، فقيل لَهُ: أنت تجوب. فسمي بِهِ فهو اليوم في مراد، وهو رهط بعد الرَّحْمَنِ بْن ملجم المرادي ثُمَّ التجوبي، وأصله من حمير، ولم يختلفوا أَنَّهُ حليف لمراد وعداده فيهم

ابن ملجم کہا جاتا ہے تجوبی ہے کہا جاتا ہے سکونی ہے کہا جاتا ہے حمیری ہے … یہ المرادی ہے پھر تجوبی ہے جن کی اصل حمیر ہے

طبقات ابن سعد کے مطابق

عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنِ مُلْجَمٍ الْمُرَادِيُّ. وَهُوَ مِنْ حِمْيَرَ. وِعِدِادُهُ فِي مُرَادٍ. وَهُوَ حَلِيفُ بَنِي جَبَلَةَ مِنْ كِنْدَةَ

عبد الرحمان ابن ملجم حِمْيَرَ کا تھا جو کندہ کا حلیف ہے

کتاب الإنباه على قبائل الرواة  المؤلف: أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (المتوفى: 463هـ) کے مطابق

وَبَنُو قرن بن ردمان بن نَاجِية بن مُرَاد رَهْط اويس الْقَرنِيوَفِي عداد مُرَاد تجوب

قَالَ ابْن الزبير تجوب رجل من حمير كَانَ أصَاب دَمًا فِي قومه فلجأ إِلَى مُرَاد فَقَالَ جِئْت إِلَيْكُم أجوب الْبِلَاد لأحالفكم فَقيل لَهُ أَنْت تجوب فَسُمي بِهِ وَهُوَ الْيَوْم فِي مُرَاد رَهْط عبد الرَّحْمَن بن ملجم الْمرَادِي ثمَّ التجوبي وأصلهم من حمير

ابن ملجم التجوبي ہے جو حمیر کا ہے

کتاب  الأنساب  المؤلف: عبد الكريم بن محمد بن منصور التميمي السمعاني المروزي، أبو سعد (المتوفى: 562هـ)   کے مطابق

التدؤليّ  بفتح التاء المنقوطة باثنتين من فوقها وسكون الدال المهملة وهمزة الواو المضمومة [4] وفي آخرها/ اللام، هذه النسبة الى تدؤل وهو بطن من مراد من جملتهم عبد الرحمن بن ملجم المرادي التدؤلي أحد بنى تدؤل

ابن ملجم التدؤليّ   ہے  المرادی ہے

کتاب سلم الوصول إلى طبقات الفحول  المؤلف: مصطفى بن عبد الله القسطنطيني العثماني المعروف بـ «كاتب جلبي» وبـ «حاجي خليفة» (المتوفى 1067 هـ)   کے مطابق

عبد الرحمن بن ملجم التجوبي   قاتل علي.

التُجِيبي: [نسبة] إلى تُجِيب، بضم التاء وكسر الجيم وبفتح، قبيلة من كندة

ابن ملجم التُجِيبي ہے جو کندہ کا قبیلہ ہے

شیعہ کتاب اضبط المقال فى ضبط اسماء الرجال کے مطابق

تجوب : قبيلة من حمير حلفاء لمراد منهم ابن ملجم المرادي

تجوب اج حمیر کا قبیلہ ہے اس کے حلفا میں سے ابن ملجم المرادی تھا

تاریخ دمشق کے مطابق

فلما مات علي ودفن بعث الحسن بن علي إلى عبد الرحمن بن ملجم فأخرجه من السجن ليقتله فاجتمع الناس وجاؤوا بالنفط والبواري والنار فقالوا : نحرقه فقال عبد الله بن جعفر وحسين بن علي ومحمد بن الحنفية : دعونا حتى نشفي أنفسنا منه فقطع عبد الله بن جعفر يديه ورجليه فلم يجزع ولم يتكلم فكحل عينيه بمسمار محمى فلم يجزع وجعل يقول : إنك لتكحل عيني عمك بملمول ممض وجعل يقرأ : ” اقرأ باسم ربك الذي خلق خلق الإنسان من علق ” حتى أتى على آخر السورة كلها وإن عينيه لتسيلان ثم أمر به فعولج عن لسانه ليقطعه فجزع فقيل له قطعنا يديك ورجليك وسملنا عينيك يا عدو الله فلم تجزع . فلما صرنا إلى لسانك جزعت ؟ ! فقال : ما ذاك من جزع إلا أني أكره أن أكون في الدنيا فواقا لا أذكر الله فقطعوا لسانه ثم جعلوه في قوصرة وأحرقوه بالنار والعباس بن علي يومئذ صغير فلم يستأن به بلوغه

بَنُو أُمَيَّةَ وَثَقِيفٌ وَبَنُو حَنِيفَةَ کا ذکر

مسند ابو یعلی ح ٧٤٢١ میں ہے

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، جَارِهِمْ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُطَرِّفٍ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ، قَالَ: «كَانَ أَبْغَضَ الْأَحْيَاءِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَنُو أُمَيَّةَ وَثَقِيفٌ وَبَنُو حَنِيفَةَ

أَبِي بَرْزَةَ، رضی الله عنہ نے فرمایا زندوں میں سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے بغض رکھنے میں سب سے بڑھ کر بنو امیہ اور ثقیف اور بنو حنفیہ تھے

حسين سليم أسد کہتے ہیں اسناد حسن ہیں

باقی قسط کا انتظار کریں