Category Archives: گھر والے -Prophetic Hosuehold

اہل بیت کا قبر پر خیمہ لگانا

قصہ مختصر
امام بخاری نے تعلیق صحیح بخاری میں چلتے چلتے بلا سند لکھا کہ فاطمہ بنت حسین نے اپنے شوہر حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب کی موت کے بعد ان کی قبر پر خیمہ لگایا پھر وہ قبرستان میں رکی رہیں پھر جب کوئی فائدہ نہ ہوا تو قبر پر معتکف نہ رہیں اور آواز کسنے والے نے آواز لگائی مل گیا تجھ کو جس کے لئے بیٹھی تھی ؟
راقم نے مراجع اہل سنت میں اس کی سندین تلاش کی – ابھی تک تو نہیں ملی – پھر کتب شیعہ کو دیکھا – اس میں بھی نہیں ملی لیکن بعض شیعہ علماء نے اسی طرح اس واقعہ کو تعلیقا درج کیا ہے – راقم کہتا ہے جب تک سند نہ ہو یہ اہل بیت پر ایک اتہام ہے اس کو بیان نہیں کیا جانا چاہیے نہ لکھنا چاہیے

امام بخاری نے ذکر کیا ہے
فاطمة بنت الحسين بن علي زوجہ حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب نے اپنے شوہر کی وفات کے بعد ان کی قبر پر قبہ تعمیر کیا اور ایک سال تک وہ ان کی قبر پر رہا

امام بخاری نے صحیح باب مَا يُكْرَهُ مِنِ اتِّخَاذِ المَسَاجِدِ عَلَى القُبُورِ میں بلا سند  لکھا ہے
وَلَمَّا مَاتَ الحَسَنُ بْنُ الحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ ضَرَبَتِ امْرَأَتُهُ القُبَّةَ عَلَى قَبْرِهِ سَنَةً، ثُمَّ رُفِعَتْ
جب حسن بن حسن بن علی کی وفات ہوئی تو ان کی بیوی نے قبہ (گنبد ) ان کی قبر پر بنایا جو ایک سال رہا پھر اس کو ہٹایا
راقم کہتا ہے یہ اثر عجیب و غریب ہے اس کا ذکر شیعہ کتب میں بھی ہے
تهذيب المقال – از السيد محمد على الأبطحى میں ہے
ولما مات الحسن بن الحسن (ع) ضربت زوجته فاطمة بنت الحسين بن علي عليهما السلام على قبره فسطاطا، وكانت تقوم الليل وتصوم النهار، وكانت تشبه بالحور العين لجمالها، فلما كان رأس السنة قالت لمواليها: إذا اظلم الليل فقوضوا هذا الفسطاط، فلما أظلم الليل سمعت قائلا يقول: ” هل وجدوا ما فقدوا ” فأجابه آخر: ” بل يئسوا فانقلبوا ” ذكره المفيد في إرشاده وابن زهرة في غاية الاختصار ص 42 و 59 وغيرهما.
جب حسن بن حسن کی وفات ہوئی تو ان کی بیوی فاطمہ بنت حسین نے قبر پر خیمہ لگایا اور وہ وہاں رات کو رکتیں اور دن میں روزہ رکھتیں اور ان کی خوبصورتی کی وجہ سے ان کو حور العين سے تشبیہ دی جاتی تھی پس جب ایک سال مکمل ہوا انہوں نے غلاموں سے کہا جب رات تاریک ہو جائے اس خیمہ کو ختم کرو اور رات کے اندھیرے میں سنا گیا کہ کسی نے کہا کیا تجھ کو ملا جو کھو گیا تھا ؟ دوسرے نے جواب دیا نہیں یہ مایوس ہو گئی اور چلی گئی اس کا ذکر مفید نے ارشاد میں کیا ہے اور ابن زهرة نے غاية الاختصار ص 42 و 59 میں ذکر کیا ہے

شیعہ کتاب بحار الانور از مجلسی میں یہی ہے
ولما مات الحسن ابن الحسن ضربت زوجته فاطمة بنت الحسين بن علي عليهما السلام على قبره فسطاطا وكانت تقوم الليل وتصوم النهار، وكانت تشبه بالحور العين لجمالها، فلما كان رأس السنة قالت لمواليها: إذا أظلم الليل فقوضوا هذا الفسطاط، فلما أظلم الليل سمعت صوتا يقول: ” هل وجدوا ما فقدوا ” فأجابه آخر يقول: ” بل يئسوا فانقلبوا

التوضيح لشرح الجامع الصحيح از ابن ملقن میں ہے
هذِه الزوجة هي فاطمة بنت الحسين بن علي، وهي التي حلفت له بجميع ما تملكه أنها لا تزوج عبد الله بن عمرو بن عثمان بن عفان ثم تزوجته، فأولدها محمد الديباج (1). وهذا المتكلم يجوز أن يكون من مؤمني الجن أو من الملائكة، قالاه موعظة، قاله ابن التين
یہ بیوی فاطمة بنت الحسين بن علي تھیں … ان کی شادی پھر عبد الله بن عمرو بن عثمان بن عفان سے ہوئی جن سے
محمد الديباج پیدا ہوئے –

راقم کہتا ہے کہ فاطمہ واقعہ کربلا کی عینی شاہد ہیں ان کو دمشق بھیجا گیا پھر مدینہ اور فاطمة بنت الحسين بن علي اہل سنت کی حدیث کی کتب سنن أبو داود ، الترمذي ، مسند علي از النسائي ، ابن ماجه وغیرہ کی راویہ بھی ہیں

امام بخاری نے ذکر کیا
فَسَمِعُوا صَائِحًا يَقُولُ: أَلاَ هَلْ وَجَدُوا مَا فَقَدُوا، فَأَجَابَهُ الآخَرُ: بَلْ يَئِسُوا فَانْقَلَبُوا
ایک کہنے والے نے کہا خبردار کیا تو نے پا لیا جو کھو گیا تھا ؟ دوسرے نے جواب دیا یہ مایوس ہوے اور پلٹ گئے

یہ کس نے کہا ؟ ابن التین نے کہا یہ وہ ہیں جو مومن جنات و فرشتے ہیں

عمدة القاري شرح صحيح البخاري میں العينى نے لکھا
قَالَ ابْن بطال: ضربت الْقبَّة على الْحسن وسكنت فِيهَا وَصليت فِيهَا فَصَارَت كالمسجد
ابْن بطال نے کہا حسن کی قبر پر قبہ بنانا گیا اور اس میں رکا گیا اور نماز پڑھی گئی اور اس کو مسجد کر دیا گیا

كوثَر المَعَاني الدَّرَارِي في كَشْفِ خَبَايا صَحِيحْ البُخَاري از الشنقيطي (المتوفى: 1354هـ) میں ہے
قال ابن المنير: إنما ضربت الخيمة هناك للاستماع بالميت بالقرب منه تعليلًا للنفس
زین ابن المنیر نے کہا انہوں نے قبر پر خیمہ لگایا کہ میت کو سن سکیں، اس کا قرب لینے

راقم کہتا ہے یہ خام خیالی ہے

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ملا علی القاری میں ہے
الظَّاهِرُ أَنَّهُ لِاجْتِمَاعِ الْأَحْبَابِ لِلذِّكْرِ، وَالْقِرَاءَةِ، وَحُضُورِ الْأَصْحَابِ لِلدُّعَاءِ وَالْمَغْفِرَةِ وَالرَّحْمَةِ
ظاہر ہے کہ یہ قبہ بنایا گیا کہ احباب یہاں ذکر و اذکار کریں اور حاضر ہوں قرات کرنے اور دعا و مغفرت

راقم کہتا ہے کہ اس واقعہ کی سند نہ کتب اہل سنت میں ملی ہے نہ اہل تشیع میں لہذا ایسا ہوا مشکوک ہے

حديث ثقلين کا ايک ثقل

سنتی  يا عترتي

نبي صلي اللہ عليہ وسلم کے رشتہ داروں کي امت ميں بہت اہميت ہے – خاص کر امہات المومنين کا درجہ ان ميں سب سے بلند ہے جو تمام مومنوں  کي مائيں ہيں – رشتہ داروں میں  نبي کے مسلمان ہونے والے چچا و کزن وغيرہ ہيں – ان سب کو اہل بيت النبي يا گھر والے کہا جاتا ہے اور ان سب يعني امہات  المومنين ، نبي کے چچا و چچا زاد کزن وغيرہ پر صدقه حرام ہے – يہ اللہ کا مقرر کردہ نظم تھا تاکہ اقرباء پروري کي تہمت سے دين کو بچايا جا سکے اور اب کوئي مشرک يا ملحد يہ نہيں کہہ سکتا کہ نبي نے اپنے رشتہ داروں کو نوازا

مسند احمد کي روايت ہے
حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْرَائِيلَ يَعْنِي إِسْمَاعِيلَ بْنَ أَبِي إِسْحَاقَ الْمُلَائِيَّ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ، أَحَدُهُمَا أَكْبَرُ مِنَ الْآخَرِ كِتَابُ اللهِ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ، وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي، وَإِنَّهُمَا لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ

رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمايا ميں دو بوجھ تم پر چھوڑ کر جا رہا ہوں ايک ان ميں دوسرے سے بھاري ہے کتاب اللہ ہے جو رسي ہے آسمان سے زمين تک اور ميرے گھر والوں ميں قريبي رشتہ دار اور يہ دونوں الگ الگ نہيں ہوں گے حتي کہ تم حوض پر مجھ سے ملو گے

اہل سنت کہتے ہيں سند ميں عطية بن سعد العوفي ضعيف ہے کٹر غالي ہے

ابن معين کہتے ہيں أصحابُ الحديث لا يكتبون حديثه محدثين اس کي حديث نہيں لکھتے

امام احمد اس روايت کو مسند ميں لکھا ہے کيونکہ مسند ميں ہر قسم کي موضوع ، منقطع اور ضعيف روايات کو جمع کيا گيا ہے

موضوعات از ابن جوزی میں اس روایت کی ایک سند پر ہے
هَذَا حَدِيثٌ لا يَصِحُّ أَمَّا عَطِيَّةُ فَقَدْ ضَعَّفَهُ أَحْمَدُ وَيَحْيَى وَغَيْرُهُمَا
اس میں عطیہ ہے جس کی امام احمد اور امام یحیی نے تضعیف کی ہے

دوسرا طرق ہے رواه الطبراني في الكبير (2681) و (4971) -من طريق عبد الله بن بكير الغنوي، عن حكيم بن جبير، عن أبي الطفيل، عن زيد بن أرقم مطولاً، وفيه فانظروا كيف تخلفوني في الثقلين فقال رجل وما الثقلان؟ قال رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كتاب الله طرفٌ بيد الله، وطرفٌ بأيديكم، فاستمسكوا به لا تضلوا، والآخر عترتي، وإنهما لن يفترقا حتى يردا علي الحوض

طبراني ميں بھي ہے يہاں حکيم بن جبير متروک ہے ، عبد الله بن بكير الغنوي سخت مجروح ہے

مستدرک حاکم ميں ہے

ورواه الحاكم 3/109 من طريق حسان بن إبراهيم الكرماني، عن محمد بن سلمة بن كهيل، عن أبيه، عن أبي الطفيل، عن زيد بن أرقم، بلفظ إني تارك فيكم أمرين لن تضلوا إن اتبعتموهما، وهما كتاب الله، وأهل بيتي عترتي

اس سند ميں محمد بن سلمة بن كهيل ضعيف ہے

النسائي (8148) و (8464) ،الطحاوي في شرح مشكل الآثار (1765) ، ابن أبي عاصم في السنة (1555) ، الطبراني الكبير (4969) ، مستدرک الحاكم 3/109 من اس طرق سے ہے

أبي عوانة، عن الأعمش، عن حبيب بن أبي ثابت، عن أبي الطفيل، عن زيد بن أرقم، بلفظ حديث أبي سعيد
يہ سند منقطع ہے کيونکہ حبيب بن أبي ثابت کا سماع کسي صحابي سے نہيں
قال ابن المديني لقي ابن عباس وسمع من عائشة، ولم يسمع من غيرهما من الصحابة
اعمش مدلس کا عنعنہ بھي ہے اور ابو طفيل کي ملاقات زيد بن ارقم سے ثابت نہيں
دوم ابو طفيل آخري عمر ميں مختار ثقفي کے ساتھ تھے اور بعض محدثين نے اس کي صحابيت کو رد کيا ہے
راقم ابو طفيل کو صحابي نہيں سمجھتا
ابو طفيل عامر بن واثلة کے نزديک عترت رسول سے مراد امام باقر يا زين العابدين نہيں بلکہ امام محمد بن حنفيہ تھے اور يہ خود کيسانيہ فرقے سے تعلق رکھتے تھے جن کے نزديک اصل امام ابن حنفيہ تھے – ابن حنفيہ خود ان سب شيعوں سے بيزار تھے اور ابن زبير کے قتل کے بعد فورا عبد الملک بن مروان کو خليفہ تسليم کيا

شيعہ عالم السيد علي البروجردي طرائف المقال ميں کہتے ہيں

عامر بن واثلة بالثاء المنقطة فوقها ثلاث نقطة كيساني صه وفي ق معدود من خواصه، وفي كش كان ممن يقول بحياة محمد وله في ذلك شعر، وخرج تحت راية المختار
عامر بن واثلة يہ کيساني تھا يہ ان ميں تھا جو محمد بن حنفيہ کے زندہ رہنے کے قائل ہيں اور اس نے اس پر شعر کہے اور يہ مختار ثقفي کے جھنڈے تلے نکلا

شيعہ کتاب اختيار معرفة الرجال از ابي جعفر الطوسي ميں ہے
وأما عامر بن واثلة فكانت له يد عند عبدالملك بن مروان فلهى عنه
عامر نے عبد الملک کو اپنا ہاتھ ديا اور پھر بيعت سے نکل گيا

يعني شيعہ علماء کے مطابق يہ بيعت توڑ کر کيساني بن گيا تھا

راقم کہتا ہے امام بخاري نے غلطي کي ہے اور اس کو صحابي سمجھا ہے

امام بخاری کے استاد امام علی المدینی کا قول تھا کہ محدثین نے کہا تھا اس کی روایت مت لو

الکامل از ابن عدی میں ہےحَدَّثَنَا ابْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثني صَالِحُ بْنُ أَحْمَد بْن حنبل، قَال: حَدَّثَنا علي، قَالَ: سَمِعْتُ جرير بْن عَبد الحميد، وقِيلَ لَهُ: كَانَ مغيرة ينكر الرواية، عَن أبي الطفيل؟ قَال: نَعم.

امام علی نے کہا میں نے جریر کو کہتے سنا کہ ان سے پوچھا گیا کہ کیا مغیرہ ابو طفیل کی روایت کا انکار کرتے تھے ؟ جریر نے کہا ہاں
ابو طفیل آخری عمر میں المختار الثقفي کذاب کے ساتھ تھے جس کا قتل ابن زبیر رضی الله عنہ نے کرایا

الترمذي (3788) من اسي طريق يعني حبيب بن أبي ثابت، عن زيد بن أرقم سے يہ روايت ہے لہذا يہ بھي منقطع ہے کيونکہ اصل ميں روايت کے بيچ ميں ابو طفيل غائب ہے

اس کا ايک دوسرا طرق الترمذي (3786) ، الطبراني في الكبير (2680) ميں ہے

نصر بن عبد الرحمن الكوفي، عن زيد بن الحسن الأنماطي، عن جعفر بن محمد، عن أبيه، عنه، مرفوعاً في خطبته صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في حجة الوداع بلفظ يا أيها الناس إني قد تركت فيكم ما إن أخذتم به لن تضلوا كتاب الله، وعترتي أهل بيتي

اس کي سند بھي ضعيف ہے – سند ميں زيد بن الحسن الأنماطي مجروح ہے – شيعہ کہتے ہيں يہ أصحاب الصادق عليه السلام ميں سے تھے

صحيح مسلم ميں دوسري طرف جابر کي سند سے حديث ہے جس کے الفاظ ہيں
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، جَمِيعًا عَنْ حَاتِمٍ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْمَدَنِيُّ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ …. وقد تركت فيكم ما لن تضلوا بعده إن اعتصمتم به، كتاب الله
اس ميں رشتہ داروں کا ذکر نہيں ہے

زيد بن الحسن الأنماطي نے يہ روايت ابو طفيل کيساني سے بھي منسوب کي ہے

الطبراني الكبير (2683) اور (3052) من اس کا ايک طرق ہے

زيد بن الحسن الأنماطي، عن معروف بن خربوذ، عن أبي الطفيل، عنه، مرفوعاً، وفيه وإني سائلكم حين تردون علي عن الثقلين، فانظروا كيف تخلفوني فيهما، الثقل الأكبر، كتاب الله عز وجل، سببٌ طرفهُ بيد الله، وطرفُه بأيديكم، فاستمسكوا به لا تضلوا ولا تبدلوا، وعترتيأهل بيتي، فانه قد نبأني اللطيف الخبير، أنهما لن ينقضيا حتى يردا علي الحوض،

يہ سند ضعيف ہے – سند ميں وہی زيد بن الحسن الأنماطي ضعیف ہے – امام أبو حاتم اس کو منكر الحديث قرار ديتے ہيں
اس کے علاوہ معروف بن خربوذ بھي سخت مجروح ہے

ابن أبي عاصم في السنة (1558) ، والطحاوي في شرح مشكل الآثار (1760) من دو طرق ہيں
عن أبي عامر العقدي، عن كثير بن زيد، عن محمد بن عمر بن علي، عن أبيه، عنه الفاظ ہيں

إني قد تركت فيكم ما إن أخذتم به لن تضلوا كتاب الله، سببه بيد الله، وسببه بأيديكم، وأهل بيتي

طحاوي کا قول ہے
وَكَثِيرُ بْنُ زَيْدٍ مَدِينِيٌّ مَوْلًى لِأَسْلَمَ , قَدْ حَدَّثَ عَنْهُ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ , وَوَكِيعٌ , وَأَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ
کثير بن زيد مديني ہے – لہذا يہ سند بھي ضعيف ہے کيونکہ كثير بن زيد الأسلمي المدني ضعيف ہے
قال النسائي (الضعفاء والمتروكون) ضعيف
قال ابن المديني صالح، وليس بقوي
معلمي کہتے ہيں ضعيف ہے
الأنوار الكاشفة (ص 41) غير قوي، وص (145) ضعيف

مسند البزار ميں ہے
عن الحسين بن علي بن جعفر، عن علي بن ثابت (وهو الدهان العطار الكوفي) ، عن سعاد بن سليمان، عن أبي إسحاق (وهو السبيعي) ، عن الحارث، عنعلي، مرفوعاً، بلفظ إني مقبوض، وإني قد تركت فيكم الثقلين -يعني كتاب الله، وأهل بيتي
اس سند ميں الحسين بن علي بن جعفر مجہول ہے قال أبو حاتم لا أعرفه ميں اس کو نہيں جانتا
سعاد بن سليمان کو بھي أبو حاتم نے ضعيف قرار ديا ہے
لَيْسَ بِقَوِيٍّ فِي الْحَدِيثِ

شيعہ کتاب أصحاب الامام الصادق (ع) – عبد الحسين الشبستري ميں ہے کہ سعاد ان ميں ہے جو صدوقا يخطئ صدوق ہو کر غلطياں کرتے ہيں

مسند عبد بن حميد (240) ، وابن أبي عاصم (754) ، والطبراني في الكبير (4921) و (4922) و (4923) ان سب ميں اس کا ايک اور طرق ہے – سند ہے
شريك، عن الركين بن الربيع، عن القاسم بن حسان، عنه، مرفوعاً، بلفظ إني تارك فيكم ما إن تمسكتم به لن تضل كتاب الله، وعترتي أهل بيتي، فإنهما لن يفترقا حتى يردا عليَّ الحوض،

راقم کہتا ہے سند میں شَريك بن عبد الله النخعي ہے جس کو سيئ الحفظ خراب حافظہ والا بتایا گیا ہے اور امام مسلم نے اس کی حدیث نہیں لی الذهبي الميزان ميں کہتے ہيں اس کي حديث منکر ہے
الکامل از ابن عدی میں ہے

أخبرنا الساجي، حَدَّثَنا الحسن بن أحمد، حَدَّثَنا مُحَمد بن أبي عُمَر الضرير، عن أبيه، قالَ: سَألتُ ابن المُبَارك عن شَرِيك قال ليس حديثه بشَيْءٍ.
سمعتُ ابن حماد يقول: قال السعدي شَرِيك بن عَبد الله سيء الحفظ مضطرب الحديث مائل.
ابن مبارک کہتے ہیں اس کی حدیث کوئی چیز نہیں
جوزجانی کہتےہیں مضطرب الحدیث ہے

مشکل الاثار از امام طحاوی میں ہے

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ شُعَيْبٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ , عَنْ سُلَيْمَانَ يَعَنْي الْأَعْمَشَ قَالَ حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ , عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ , عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ: لَمَّا رَجَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , عَنْ حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَنَزَلَ بِغَدِيرِ خُمٍّ أَمَرَ بِدَوْحَاتٍ فَقُمِّمْنَ , ثُمَّ قَالَ: ” كَأَنِّي دُعِيتُ فَأَجَبْتُ , إِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ , أَحَدُهُمَا أَكْبَرُ مِنَ الْآخَرِ: كِتَابَ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي , فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونِي فِيهِمَا , فَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ ” ثُمَّ قَالَ: ” إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ مَوْلَايَ , وَأَنَا وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ ” ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فَقَالَ: ” مَنْ كُنْتُ وَلِيَّهُ فَهَذَا وَلِيُّهُ , اللهُمَّ وَالِ مَنْ وَالِاهُ ,
وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ ” فَقُلْتُ لِزَيْدٍ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: مَا كَانَ فِي الدَّوْحَاتِ أَحَدٌ إِلَّا رَآهُ بِعَيْنَيْهِ , وَسَمِعَهُ بِأُذُنَيْهِ , [ص:19] قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: فَهَذَا الْحَدِيثُ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ , لَا طَعْنَ لِأَحَدٍ فِي أَحَدٍ مِنْ رُوَاتِهِ

الطحاوي: هذا الحديث صحيح الإسناد، لا طعن لأحد في أحد من رواته
طحاوی کہتے ہیں اس کی سند صحیح ہے راوی پر کوئی طعن نہیں ہے

راقم کہتا ہے اس کی سند میں حبیب مدلس کا عنعنہ ہے اور ابو طفیل پر کثیر کلام اوپر گذر چکا ہے کہ یہ اہل تشیع و اہل سنت میں بھی بعض کے نزدیک مشکوک شخص ہے جو صحیح عقیدے پر نہیں تھا

البدایہ و النہایہ از ابن کثیر میں ہے
وَقَدْ رَوَى النَّسَائِيُّ فِي سُنَنِهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُثَنَّى عَنْ يَحْيَى بْنِ حَمَّادٍ عَنْ أَبِي معاوية عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ. قال: لما رجع رسول الله مِنْ حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَنَزَلَ غَدِيرَ خُمٍّ أَمَرَ بِدَوْحَاتٍ فَقُمِمْنَ [2] ثُمَّ قَالَ: «كَأَنِّي قَدْ دُعِيتُ فأجبت، انى قد تركت فيكم الثقلين كِتَابُ اللَّهِ وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي، فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونِي فِيهِمَا، فَإِنَّهُمَا لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ، ثُمَّ قَالَ اللَّهُ مَوْلَايَ وَأَنَا وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ، ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ فَقَالَ: مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ
فَهَذَا وَلِيُّهُ، اللَّهمّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ» فَقُلْتُ لِزَيْدٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا كَانَ فِي الدَّوْحَاتِ أَحَدٌ إِلَّا رَآهُ بِعَيْنَيْهِ وَسَمِعَهُ بِأُذُنَيْهِ تَفَرَّدَ بِهِ النَّسَائِيُّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. قَالَ شَيْخُنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الذَّهَبِيُّ وَهَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.

اس سند پر ابن کثیر نے لکھا ہے کہ امام الذھبی کہتے تھے کہ اس کی سند صحیح ہے

راقم کہتا ہے امام علی المدینی کا قول ہے کہ حبیب کا سماع کسی صحابی سے نہیں
وقال سفيان الثوري وأحمد بن حنبل ويحيى بن معين والبخاري وغيرهم لم يسمع حبيب بن أبي ثابت من عروة بن الزبير شيئا
اور احمد ، سفیان ثوری ، ابن معین ، بخاری کے نزدیک اس کا سماع عروہ بن زبیر المتوفی ٩٣ ھ سے بھی نہیں

دوسری طرف اہل تشیع نے حبیب بن ابی ثابت سے کوئی روایت نہ تفسیروں میں لکھی ہے نہ اپنی حدیث کی کتب میں
نہ ان کے ہزار سال میں علماء رجال میں سے کسی نے اس کا ترجمہ قائم کیا ہے یہاں تک کہ امام الخوئی کا جنم ہوا

مسند یعقوب بن سفیان میں ہے
جرير بن عبد الحميد الرازي عن الحسن بن عبيد الله النخعي عن أبي الضحى مسلم بن صُبيح عن زيد بن أرقم مرفوعاً: “إني تارك فيكم ما إن تمسكتم به لن تضلوا: كتاب الله عز وجل وعترتي أهل بيتي، وإنهما لن يتفرقا حتى يردا عليَّ الحوض
اس سند میں الحسن بن عبيد الله النخعي ضعیف ہے

قال الدَّارَقُطْنِيّ: ليس بالقوي
النکت میں معلمی کا قول ہے
عامّة حديثه مضطرب
اس کی بیشتر احادیث میں اضطراب ہے

ايک روايت ميں ميرا نسب بھي بيان ہوا ہے مسند البزار (2617) زوائد، والحاكم 1/93 ميں ہے
عن داود بن عمرو الضبي، عن صالح بن موسى الطلحي، عن عبد العزيز بن رفيع، عن أبي صالحٍ، عن أبي هريرة، مرفوعاً، بلفظ إني خلفت فيكم اثنين لن تضلوا بعدهما أبدا، كتاب الله، ونسبي لفظ البزار

اس کي سند صالح بن موسى الطلحي کي وجہ سے ضعيف ہے
اہل تشيع کہتے ہيں صالح بن موسى الطلحي الكوفي ، أصحاب الصادق عليه السلام ميں سے ہے ليکن اس کي توثيق پر کوئي کلمہ ان کی کتب میں نہيں ملا

مسند یعقوب بن سفیان میں ہے
حدثنا عبيد الله بن موسى، قال: أخبرنا إسرائيل، عن عثمان بن المغيرة، عن علي بن ربيعة، قال: لقيت زيد بن أرقم وهو يريد الدخول على المختار، فقلت له بلغني عنك حديث. قال: ما هو؟ قلت: أسمعت النبي صلى الله عليه وعلى آله وسلم يقول: «إني تارك فيكم الثقلين: كتاب الله عز وجل، وعترتي»؟ قال: نعم.
علی بن ربيعة نے کہا میں زید سے ملا وہ مختار کے پاس جا رہے تھے میں نے ان سے کہا مجھ کو آپ کی ایک حدیث پہنچی ہے – زید بولے کون سی ؟ میں نے کہا کیا آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ انہوں نے فرمایا کہ میں دو بوجھ چھوڑ رہا ہوں ؟ زید نے کہا ہاں

سند میں عثمان بن المغيرة أبو المغيرة الثقفي مولاهم الكوفي پر دارقطني کہتے ہیں : ليس بالقوي قوی نہیں ہے

مصادر اہل تشیع

نبي صلي اللہ عليہ وسلم کي وفات کے بعد ان کے رشتہ داروں نے بھي دين ميں اسي چيز پر عمل کيا ہے جو سنت سے معلوم ہے يا دين کا فہم ہے لہذا روايات ميں عترتي کے الفاظ کس مقصد کے لئے تھے ؟ اہل تشيع کہتے ہيں عترت يعني اخص اقربائي ہے يعني خاص رشتہ دار يا قريبي رشتہ دار يا خون کے رشتہ سے رشتہ دار مراد ہيں – سسرالي رشتہ دار يا بيوياں مراد نہيں ہيں – اس طرح وہ اہل بيت ، عترت سے الگ ہو جاتے ہيں – اور نيچے روايات آ رہي ہيں جن ميں راويوں کا مدعا ہے کہ ابو بکر اور عمر اور ان کي بيٹيياں رضي اللہ عنہما تمام عترت سے خارج ہيں

اب مصادر اہل تشيع کي طرف توجہ کريں جس ميں نبي صلي اللہ عليہ وسلم کے تمام خون کے رشتہ داروں کو عترت سے نکال ديا گيا ہے سوائے علي رضي اللہ عنہ کے – کليني روايت لائے ہيں کہ عترت ميں نہ عباس ہيں نہ ان کي اولاد ، نہ عقيل ہيں نہ ان کي اولاد بلکہ عترت ميں مراد صرف علي ہيں

الکافي از کليني کي روايت ہے
أحمد بن محمد ومحمد بن يحيى، عن محمد بن الحسين، عن محمد بن عبدالحميد عن منصور بن يونس، عن سعد بن طريف، عن أبي جعفر عليه السلام قال قال رسول الله صلى الله عليه وآله من أحب أن يحيى حياة تشبه حياة الانبياء، ويموت ميتة تشبه ميتة الشهداء ويسكن الجنان التي غرسها الرحمن(2) فليتول عليا وليوال وليه وليقتد بالائمة من بعده، فإنهم عترتي خلقوا من طينتى، اللهم ارزقهم فهمي وعلمي، وويل للمخالفين لهم من امتي، اللهم لا تنلهم شفاعتي

رسول اللہ نے فرمايا علي سے دوستي کرو يہ ميري عترت ميں سے ہے ميري مٹي سے ہي اس کي تخليق ہوئي ہے

سند سعد بن طريف کي وجہ سے ضعيف ہے – شيعہ عالم ابن داوود الحلي کتاب رجال ابن داود ميں کہتے ہيں
سعد بن طريف، بالطاء المهملة، الحنظلي وقيل الدئلي وهو الاسكاف، ويقال الخفاف ين، قر، ق (كش) قال حمدويه كان ناووسيا وقف على أبي عبدالله عليه
السلام حديثه يعرف وينكر (غض) في حديثه نظر وهو يروي عن الاصبغ بن نباتة
سعد بن طريف ناوسي تھا يعني امامت امام جعفر پر توقف کيا ہوا تھا اس کي حديث پر نظر ہے

نجاشي کہتے ہيں يہ بنو اميہ کا قاضي تھا
سعد بن طريف الحنظلي مولاهم، الإسكاف، كوفي، يعرف وينكر روى عن الأصبغ بن نباتة، وروى عن أبي جعفر وأبي عبد الله عليهما السلام ، وكان قاضيا

الکافي از کليني ميں ہے

عدة من أصحابنا، عن أحمد بن محمد بن عيسى، عن الحسين بن سعيد، عن فضالة بن أيوب عن أبي المغرا، عن محمد بن سالم، عن أبان بن تغلب قال سمعت أبا عبدالله عليه السلام يقول قال رسول الله صلى الله عليه وآله من أراد أن يحيى حياتي، ويموت ميتتي ويدخل جنة عدن التي غرسها الله ربي بيده، فليتول علي بن أبي طالب وليتول وليه، وليعاد عدوه، وليسلم للاوصياء من بعده، فإنهم عترتي من لحمي ودمي، أعطاهم الله فهمي وعلمي، إلى الله أشكو [أمر] امتي، المنكرين لفضلهم، القاطعين فيهم صلتي، وأيم الله ليقتلن ابني(1) لا أنالهم الله شفاعتي

رسول اللہ نے فرمايا علي سے دوستي کرو وہ ميري عترت و خون و گوشت ہے
سند ميں ابان بن تغلب سخت مجروح ہے
سمعتُ ابن حماد يقول قَالَ السعدي أَبَان بْن تغلب زائغ مذموم المذهب مجاهر
حد سے بڑھا ہوا مذھب ميں مذموم ہے

اس سے روايت کرنے والا محمد بن سالم مجہول الحال ہے

أبي المغرا کا ذکر شيعہ کتب رجال ميں مفقود ہے

قال ابن الأثير : وعترته -صلى الله عليه وسلم- بنو عبد المطلب
ابن اثیر کہتے ہیں عترت یہ بنو عبد المطلب ہیں
یعنی علی اور ان کی اولاد ہی نہیں بہت سے ہیں

اب تک معلوم ہوا کہ عترت ميں سے نبي صلي اللہ عليہ السلام کے خون کے رشتہ داروں ميں سے بنو عباس و بنو عقيل کو اہل تشيع نے نکال ديا اور اس طرح اس قول نبوي سے پہلے سنت کو خارج کيا گيا پھر اہل بيت النبي کو محدود کيا پھر بنو عباس و بنو عقيل کو بھي نکال ديا اہل سنت اس چھانٹي کو راويوں کي سياست قرار ديتے ہيں اور اہل سنت ميں مقبول فرقوں پر کتب (الملل و النحل ، الفرق بين الفرق وغيرہم ) ميں اسي وجہ سے شيعہ کو ايک سياسي فرقہ قرار ديا گيا ہے

کیا ازواج النبی اہل بیت بھی نہیں ؟

بعض غالي راوي يہ بھي بيان کر رہے تھے کہ ازواج النبي بھي اہل بيت ميں سے نہيں ہيں

سنن الدارمي ميں ہے

حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ حَيَّانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا خَطِيبًا فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَنِي رَسُولُ رَبِّي فَأُجِيبَهُ، وَإِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللَّهِ فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ، [ص2091] فَتَمَسَّكُوا بِكِتَابِ اللَّهِ، وَخُذُوا بِهِ ، فَحَثَّ عَلَيْهِ وَرَغَّبَ فِيهِ، ثُمَّ قَالَ «وَأَهْلَ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي ثَلَاثَ مَرَّاتٍ
رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ايک دن خطبہ ميں پہلے اللہ تعالي کي تعريف کي حمد کي پھر فرمايا اے لوگوں ميں ايک بشر ہوں ہو سکتا ہے اللہ کا فرشتہ آئے اور ميں اپنے رب کو جواب دوں ميں تم ميں دو بوجھ چھوڑ رہا ہوں پہلا بوجھ اللہ کي کتاب ہے جس ميں ہدايت ہے نور ہے اس کو کتاب سے پکڑو اور تھام لو اس کي طرف رغبت کرو پھر فرمايا دوسرا بوجھ ميرے اہل بيت ہيں تين بار فرمايا

اس کی سند مسلم کی شرط پر ہے اور اہل بیت کو خمس دینے کا حکم قرآن میں ہے اور قرابت داری کو قائم رکھنا بھی دین کا حکم ہے

صحیح مسلم میں ہے

حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَشُجَاعُ بْنُ مَخْلَدٍ، جَمِيعًا عَنِ ابْنِ عُلَيَّةَ، قَالَ زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنِي أَبُو حَيَّانَ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ حَيَّانَ، قَالَ انْطَلَقْتُ أَنَا وَحُصَيْنُ بْنُ سَبْرَةَ، وَعُمَرُ بْنُ مُسْلِمٍ، إِلَى زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، فَلَمَّا جَلَسْنَا إِلَيْهِ قَالَ لَهُ حُصَيْنٌ لَقَدْ لَقِيتَ يَا زَيْدُ خَيْرًا كَثِيرًا، رَأَيْتَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَمِعْتَ حَدِيثَهُ، وَغَزَوْتَ مَعَهُ، وَصَلَّيْتَ خَلْفَهُ لَقَدْ لَقِيتَ، يَا زَيْدُ خَيْرًا كَثِيرًا، حَدِّثْنَا يَا زَيْدُ مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ يَا ابْنَ أَخِي وَاللهِ لَقَدْ كَبِرَتْ سِنِّي، وَقَدُمَ عَهْدِي، وَنَسِيتُ بَعْضَ الَّذِي كُنْتُ أَعِي مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا حَدَّثْتُكُمْ فَاقْبَلُوا، وَمَا لَا، فَلَا تُكَلِّفُونِيهِ، ثُمَّ قَالَ قَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فِينَا خَطِيبًا، بِمَاءٍ يُدْعَى خُمًّا بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَوَعَظَ وَذَكَّرَ، ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ، أَلَا أَيُّهَا النَّاسُ فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِكُ
أَنْ يَأْتِيَ رَسُولُ رَبِّي فَأُجِيبَ، وَأَنَا تَارِكٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللهِ فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ فَخُذُوا بِكِتَابِ اللهِ، وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ فَحَثَّ عَلَى كِتَابِ اللهِ وَرَغَّبَ فِيهِ، ثُمَّ قَالَ «وَأَهْلُ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي» فَقَالَ لَهُ حُصَيْنٌ وَمَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ؟ يَا زَيْدُ أَلَيْسَ نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ؟ قَالَ نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، وَلَكِنْ أَهْلُ بَيْتِهِ مَنْ حُرِمَ الصَّدَقَةَ بَعْدَهُ، قَالَ وَمَنْ هُمْ؟ قَالَ هُمْ آلُ عَلِيٍّ وَآلُ عَقِيلٍ، وَآلُ جَعْفَرٍ، وَآلُ عَبَّاسٍ قَالَ كُلُّ هَؤُلَاءِ حُرِمَ الصَّدَقَةَ؟ قَالَ نَعَمْ

يزيد بن حيان التيمي کہتے ہیں میں اور حصين بن سبرة اور عمر بن مسلم ، زيد بن أرقم رضی الله عنہ کے پاس گئے

فقال له حصين ( بن سبرة) ومن أهل بيته يا زيد (بن أرقم) أليس نساؤه من أهل بيته قال ان نساءه من أهل بيته ولكن أهل بيته من حرم الصدقة بعده قال ومن هم قال هم آل على وآل عقيل وآل جعفر وآل عباس قال أكل هؤلاء حرم الصدقة قال نعم

حصين ( بن سبرة) نے زيد (بن أرقم) سے پوچھا کہ اے زید کیا نبی کی ازواج ان اہل بیت میں سے نہیں ہیں ؟ انہوں نے کہا بے شک وہ اہل بیت میں سے ہیں لیکن اہل بیت وہ (بھی) ہیں جن پر صدقه حرام ہے ان کے بعد پوچھا وہ کون ؟ کہا وہ ال علی ال عقیل ال جعفر ال عباس ہیں کہا ان سب پر صدقه حرام ہے ؟ کہا ہاں

اس ميں امہات المومنين کو اہل بيت ہي کہا گيا ہے

ليکن پھر صحيح مسلم ميں روايت 4314 ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارِ بْنِ الرَّيَّانِ، حَدَّثَنَا حَسَّانُ يَعْنِي ابْنَ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ سَعِيدٍ وَهُوَ ابْنُ مَسْرُوقٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ حَيَّانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ دَخَلْنَا عَلَيْهِ فَقُلْنَا لَهُ لَقَدْ رَأَيْتَ خَيْرًا، لَقَدْ صَاحَبْتَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَلَّيْتَ خَلْفَهُ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ أَبِي حَيَّانَ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ أَلَا وَإِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ أَحَدُهُمَا كِتَابُ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، هُوَ حَبْلُ اللهِ، مَنِ اتَّبَعَهُ كَانَ عَلَى الْهُدَى، وَمَنْ تَرَكَهُ كَانَ عَلَى ضَلَالَةٍ وَفِيهِ فَقُلْنَا مَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ؟ نِسَاؤُهُ؟ قَالَ لَا، وَايْمُ اللهِ إِنَّ الْمَرْأَةَ تَكُونُ مَعَ الرَّجُلِ الْعَصْرَ مِنَ الدَّهْرِ، ثُمَّ يُطَلِّقُهَا فَتَرْجِعُ إِلَى أَبِيهَا وَقَوْمِهَا أَهْلُ بَيْتِهِ أَصْلُهُ، وَعَصَبَتُهُ الَّذِينَ حُرِمُوا الصَّدَقَةَ بَعْدَهُ
ہم نے زید سے پوچھا کيا نبي کي عورتيں ان کي اہل بيت نہيں ؟ زيد نے کہا نہيں اللہ کي قسم کيوں ہوں گي ؟ عورت تو مرد کے ساتھ ايک زمانے رہتي ہے پھر وہ طلاق دے کر دوسري شادي کر ليتا ہے اور عورت اپنے باپ کے گھر لوٹ آتي ہے

راقم کہتا ہے کہ يہ روايت موضوع ہے – گھڑنے والے جاہل حسان بن إبراهيم بن عبد الله الكرمانى قاضى كرمان کو يہ معلوم نہيں ہے کہ امہات المومنين کو طلاق دينا نبي پر ممنو ع قرار دے ديا گيا تھا اور صدقات امھات المومنين پر بھي حرام تھا
حسان بن إبراهيم بن عبد الله الكرمانى ، اہل تشيع مجہول ہے

آوزاج نبي کي تعداد محدود کرنے والي آيات ميں اے نبي سے خطاب کيا جا رہا ہے
يَآ اَيُّـهَا النَّبِىُّ اِنَّـآ اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ اللَّاتِـى اتَيْتَ اُجُوْرَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِيْنُكَ مِمَّآ اَفَـآءَ اللّـهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِىْ هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَاَةً مُّؤْمِنَةً اِنْ وَّّهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ اِنْ اَرَادَ النَّبِىُّ اَنْ يَّسْتَنْكِحَهَا خَالِصَةً لَّكَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْـهِـمْ فِـى اَزْوَاجِهِـمْ وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُـهُـمْ لِكَيْلَا يَكُـوْنَ عَلَيْكَ حَرَجٌ وَكَانَ اللّـهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا (50)
اے نبي ہم نے آپ کے ليے آپ کي بيوياں حلال کر ديں جن کے آپ مہر ادا کر چکے ہيں اور وہ عورتيں جو آپ کي مملوکہ ہيں جو اللہ نے آپ کو غنيمت ميں دلوا دي ہيں اور آپ کے چچا کي بيٹياں اور آپ کي پھوپھيوں کي بيٹياں اور آپ کے ماموں کي بيٹياں اور آپ کے خالاؤں کي بيٹياں جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کي، اور اس مسلمان عورت کو بھي جو بلا عوض اپنے کو پيغمبر کو دے دے بشرطيکہ پيغمبر اس کو نکاح ميں لانا چاہے، يہ خالص آپ کے ليے ہے نہ کہ اور مسلمانوں کے ليے، ہميں معلوم ہے جو کچھ ہم نے مسلمانوں پر ان کي بيويوں اور لونڈيوں کے بارے ميں مقرر کيا ہے تاکہ آپ پر کوئي دقت نہ رہے، اور اللہ معاف کرنے والا مہربان ہے

تُرْجِىْ مَنْ تَشَآءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِى اِلَيْكَ مَنْ تَشَآءُ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ ذلِكَ اَدْنى اَنْ تَقَرَّ اَعْيُنُهُنَّ وَلَا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِمَآ اتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ وَاللّـهُ يَعْلَمُ مَا فِىْ قُلُوْبِكُمْ وَكَانَ اللّـهُ عَلِيْمًا حَلِيْمًا (51)
آپ ان ميں سے جسے چاہيں چھوڑ ديں اور جسے چاہيں اپنے پاس جگہ ديں، اور ان ميں سے جسے آپ (پھر بلانا) چاہيں جنہيں آپ نے عليحدہ کر ديا تھا تو آپ پر کوئي گناہ نہيں، يہ اس سے زيادہ قريب ہے کہ ان کي آنکھيں ٹھنڈي ہوں اور غمزدہ نہ ہوں اور ان سب کو جو آپ ديں اس پر راضي ہوں، اور جو کچھ تمہارے دلوں ميں ہے اللہ جانتا ہے، اور اللہ جاننے والا بردبار ہے
لَّا يَحِلُّ لَكَ النِّسَآءُ مِنْ بَعْدُ وَلَآ اَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّلَوْ اَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ اِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِيْنُكَ وَكَانَ اللّـهُ عَلى كُلِّ شَىْءٍ رَّقِيْبًا (52)
اس کے بعد آپ کے ليے عورتيں حلال نہيں اور نہ يہ کہ آپ ان سے اور عورتيں تبديل کريں اگرچہ آپ کو ان کا حسن پسند آئے مگر جو آپ کي مملوکہ ہوں، اور اللہ ہر ايک چيز پر نگران ہے

يه سورہ احزاب ميں ہے
سورہ احزاب کي قيد وفات النبي صلي اللہ عليہ وسلم تک رہي کہ وہ مزيد ازواج نہيں لے سکتے

سورہ تحريم ميں تنبيہ کے لئے اللہ تعالي نے امہات المومنين کو خبردار کيا کہ يہ قيد اٹھائي جا سکتي ہے
اس ميں ہے کہ تعداد ازواج والي قيد ختم کي جا سکتي ہے يہ نہيں ہے کہ کر دي گئي ہے

تمام کلام عسي يعني اگر ہے سے تبنيہ کے انداز ميں شروع ہو رہا ہے

عَسى رَبُّه اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ يُّبْدِلَـه اَزْوَاجًا خَيْـرًا مِّنْكُنَّ
اگر نبي تميں طلاق دے دے تو بہت جلد اس کا رب اس کے بدلے ميں تم سے اچھي بيوياں دے دے گا

يعني تعداد ازواج والا حکم اللہ ختم کر سکتا ہےليکن ہم کو معلوم ہے ايسا نہيں کيا گيا

جنگ جمل سے پہلے حسن رضي اللہ عنہ نے بصرہ ميں خطبہ ديا اور اس ميں اسي وجہ سے فرمايا کہ
إِنَّهَا زَوْجَةُ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ
اے لوگوں عائشہ بصرہ کي طرف آ رہي ہيں جان لو وہ دنيا و آخرت ميں نبي صلي اللہ عليہ وسلم کي بيوي ہيں ليکن اللہ نے تم کو آزمائش ميں ڈال ديا ہے

بات صرف یہ ہے کہ اہل بیت النبی میں بنو عبد المطلب یہ چاہتے تھے کہ ان کو خمس میں سے مال وقت پر ملتا رہے اور ان کے بارے میں احکام کو بیان کیا جائے مثلا ذوی القربی کی آیت قرآن سورہ الشوری میں ہے

قُلْ لَّآ اَسْاَلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِى الْقُرْبٰى ۗ وَمَنْ يَّقْتَـرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَـهٝ فِيْـهَا حُسْنًا ۚ اِنَّ اللّـٰهَ غَفُوْرٌ شَكُـوْرٌ
کہہ دو میں تم سے اس پر کوئی اجرت نہیں مانگتا بجز رشتہ داری کی محبت کے، اور جو نیکی کمائے گا تو ہم اس میں اس کے لیے بھلائی زیادہ کر دیں گے، بے شک اللہ بخشنے والا قدر دان ہے۔

صحیح مسلم میں ہے خوارج کے سردار نَجْدَةُ بن عامر نے ابن عباس سے سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا

إِنَّكَ سَأَلْتَ عَنْ سَهْمِ ذِي الْقُرْبَى الَّذِي ذَكَرَ اللهُ مَنْ هُمْ؟ وَإِنَّا كُنَّا نَرَى أَنَّ قَرَابَةَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُمْ نَحْنُ، فَأَبَى ذَلِكَ عَلَيْنَا قَوْمُنَا

تم نے سوال کیا ہے کہ ذی القربی پر کہ اللہ نے اس میں جن کا ذکر کیا وہ کون ہیں ؟ ہم (بنو عبد المطلب ) دیکھتے ہیں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار ہیں یعنی یہ ہم ہیں ، لیکن ہماری قوم نے اس پر ہمارا انکار کیا

بنو عبد المطلب نے صبر سے کام لیا اور اس تفسیری اختلاف پر باقی اصحاب رسول سے الگ فرقہ قائم نہیں کیا، لیکن ان کے شیعہ و آزاد کردہ غلام اس چیز پر رائی کا پربت بنا کر فرقہ در فرقہ ہوتے گئے

علی ، کعبہ اور زحل

ایک فلم نبأ السماء یعنی آسمانی خبر کے عنوان سے بن رہی ہے جس کو ایک کویتی رافضی فلم ڈائریکٹر عباس الیوسفی بنا رہے ہیں
فلم کا ایک ٹریلیر راقم نے دیکھا اور اچھا لگا البتہ اس میں ضعیف روایات پر منظر کشی کی گئی ہے
مثلا ایک مجہول الحال راوی یزید بن قعنب کے قول پر فاطمہ بنت اسد کا قصہ دکھایا گیا ہے کہ وہ کعبہ میں چلی گئیں اور علی رضی اللہ عنہ  کی وہاں پیدائش ہوئی
قابل غور کہ شیعہ مورخین کے پاس اس واقعہ کی کوئی سند نہیں سوائے اس ایک  یزیدی خبر کے
یزید بن قعنب کا احوال راقم کافی دن سے مصادر اہل تشیع و اہل سنت میں ڈھونڈھ رہا ہے لیکن ابھی تک نہ متقدمین میں نہ متاخرین میں اس شخص  پر کوئی قول ملا ہے

فلم میں علی اور سیارہ زحل کو بھی دکھایا گیا ہے جو آج اس بلاگ کا موضوع ہے


اس منظر کی وجہ راقم نے ڈھونڈی تو  مندرجہ ذیل روایت ملی – مستدرك سفينة البحار از علي النمازي اور بحار الأنوار / جزء 26 / صفحة[112] از ملا باقر مجسلی، الخصال از الصدوق
أبى جعفر محمد بن علي بن الحسين بن بابويه القمى المتوفى 381 ہجری میں ہے

حدثنا محمد بن موسى بن المتوكل رضي الله عنه قال : حدثنا علي بن الحسين
السعد آبادي ، عن أحمد بن أبي عبد الله البرقي ، عن أبيه ، وغيره ، عن محمد بن سليمان
الصنعاني ( 1 ) ، عن إبراهيم بن الفضل ، عن أبان بن تغلب

قال: كنت عند أبي عبد الله (عليه السلام) إذ دخل عليه رجل من أهل اليمن فسلم عليه فرد أبو عبد الله (عليه السلام) فقال له: مرحبا يا سعد، فقال له الرجل: بهذا الاسم سمتني امي، وما أقل من يعرفني به، فقال أبو عبد الله (عليه السلام): صدقت يا سعد المولى. فقال الرجل: جعلت فداك، بهذا كنت القب، فقال أبو عبد  الله (عليه السلام): لا خير في اللقب إن الله تبارك وتعالى يقول في كتابه: ” ولا تنابزوا بالالقاب بئس الاسم الفسوق بعد الايمان ” (1) ما صناعتك يا سعد ؟ فقال: جعلت فداك إنا أهل بيت ننظر في النجوم لا يقال: إن باليمن أحدا أعلم بالنجوم منا. فقال أبو عبد الله (عليه  السلام): كم ضوء المشترى على ضوء القمر درجة ؟ فقال اليماني: لا أدري، فقال أبو عبد الله (عليه السلام): صدقت، كم ضوء المشتري على ضوء عطارد درجة ؟ فقال اليماني: لا أدري، فقال له أبو عبد الله (عليه السلام): صدقت، فما اسم النجم الذي إذا طلع هاجت الابل ؟
فقال اليماني: لا أدري، فقال له أبو عبد الله (عليه السلام): صدقت، فما اسم النجم الذي إذا طلع هاجت البقر ؟ فقال اليماني: لا أدري، فقال له أبو عبد الله (عليه السلام) صدقت، فما اسم النجم الذي إذا طلع هاجت الكلاب ؟ فقال اليماني: لا أدري. فقال له أبو عبد الله (عليه السلام). صدقت في قولك: لاأدري، فما زحل عندكم في النجم ؟ فقال اليماني: نجم نحس، فقال أبو عبد الله (عليه السلام): لا تقل هذا فانه نجم أمير المؤمنين صلوات الله عليه فهو نجم الاوصياء عليهم السلام وهو النجم الثاقب
الذي قال الله في كتابه (2). فقال اليماني: فما معنى الثاقب ؟ فقال: إن مطلعه في السماء السابعة فإنه ثقب بضوئه حتى أضاء في السماء الدنيا فمن ثم سماه الله النجم الثاقب، ثم قال: يا أخا العرب عندكم عالم ؟ قال اليماني: نعم جعلت فداك إن باليمن قوما ليسوا كأحد من الناس في علمهم. فقال أبو عبد الله (عليه السلام): وما يبلغ من علم عالمهم ؟ قال اليماني إن عالمهم ليزجر الطير ويقفو الاثر في ساعة واحدة مسيرة شهر للراكب المحث (3)، فقال أبو عبد الله (عليه السلام): فان عالم المدينة أعلم من
عالم اليمن، قال اليماني: وما يبلغ من علم عالم المدينة ؟ قال: إن علم عالم المدينة ينتهي إلى أن يقفوا الاثر ولا يزجر الطير ويعلم ما في اللحظة الواحدة مسيرة الشمس تقطع اثنى عشر برجا واثنى عشر برا واثنى عشر بحرا واثنى عشر عالما، فقال له اليماني: ما ظننت أن أحدا يعلم هذا وما يدرى ما كنهه  قال: ثم قام اليماني ،

أبان بن تغلب نے کہا میں امام ابو عبد اللہ جعفر کے ساتھ تھا جب یمن کے کچھ لوگ آئے وہ ان کے پاس گئے سلام کیا اور امام نے جواب دیا مرحبا اے سعد- اس یمنی شخص نے کہا یہ نام مجھ کو میری ماں نے دیا ہے لیکن کچھ ہی لوگ اس بات سے واقف ہیں – امام نے فرمایا اے سعد المولی سچ کہا – وہ شخص بولا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ نے مجھے لقب دے دیا – امام نے فرمایا القاب میں خیر نہیں ہے اللہ تعالی نے کتاب اللہ میں کہا ہے کہ برے القاب دینے سے پرہیز کرو فسق میں نام کرنا سب سے برا کام ہے – تیرا کیا کام ہے اے سعد ؟ وہ بولا ہم فدا ہوں: ہم اہل بیت ستاروں کو دیکھتے ہیں یا نہیں ؟ اس نے کہا ہم یمنییوں میں نجوم کو سب سے زیادہ دیکھتے ہیں – امام بولے یہ مشتری کی روشنی کا درجہ چاند کی روشنی پر کتنا ہے ؟ یمنی بولا معلوم نہیں – امام نے فرمایا تو سچ بولا، یہ مشتری کی روشنی و چمک عطارد کے مقابلے میں کس درجہ پر ہے ؟ یمنی بولا معلوم نہیں – امام نے فرمایا تو نے سچ کہا –  پھر امام نے پوچھا وہ کون سا ستارہ ہے جو جب طلوع ہوتا ہے تو اونٹ و اونٹنی جماع کرتے ہیں ؟ یمنی بولا معلوم نہیں – امام نے فرمایا تو نے سچ کہا – امام نے پوچھا وہ کون سا ستارہ ہے جو جب طلوع ہوتا ہے تو گائے و بیل جماع کرتے ہیں ؟
یمنی بولا معلوم نہیں – امام نے فرمایا تو نے سچ کہا
وہ کون سا ستارہ ہے جو جب طلوع ہوتا ہے تو کتے جماع کرتے ہیں ؟
یمنی بولا معلوم نہیں – امام نے فرمایا تو نے سچ کہا
امام نے پوچھا : یہ زحل تیرے نزدیک کیا ہے ؟
یمنی بولا ایک بد بختی لانے والا ستارہ ہے
امام نے فرمایا ایسا مت بولو یہ تو امیر المومنین صلوات الله عليه کا ستارہ ہے یہ الاوصياء کا ستارہ ہے اور یہی نجم ثاقب ہے جس کا ذکر اللہ تعالی نے کتاب اللہ (سورہ الطارق ) میں کیا ہے
یمنی بولا : الثاقب سے کیا مراد ہے ؟ امام نے فرمایا یہ ساتویں آسمان میں طلوع ہوتا ہے اور اس سے آسمان دنیا روشن ہو جاتا ہے
اسی بنا پر اللہ نے اس کا نام نجم الثاقب رکھا ہے
امام نے پوچھا کہ اے عرب بھائیوں کیاتم میں کوئی عالم بھی ہے ؟
یمنی بولا جی ہاں، ہم فدا ہوں ، یمن میں ایک قوم ہے جن سے بڑھ کر کسی قوم کا علم نہیں ہے
امام نے فرمایا مدینہ کا عالم تو یمن کے عالم سے بڑھ کر ہے
یمنی بولا یمنییوں کے عالم تو پرندہ کی اڑان سے، اور اثر کے نشان سے گزرے ہونے مسافر تک کی خبر کر دیتے ہیں جس کو ایک ماہ ہوا ہو اور اس مقام سے گزرا ہو
امام نے فرمایا مدینہ کے عالم کا علم تو یہاں تک جاتا ہے کہ پرندہ کی اڑان دیکھنے والا یمنی عالم تک اس کی حد تک نہیں جا سکتا – مدینہ کا عالم تو ایک لمحہ میں جان لیتا ہے کہ  سورج نے کن بارہ ستاروں کو پار کیا، کن بارہ صحراؤں کو پار کیا ، کن بارہ سمندروں کو پار کیا ، کن بارہ عالموں کو پار کیا
یمنی بولا میں فدا ہوں میں نہیں سمجھتا کہ کوئی اس قدر جان سکا ہے اور مجھے نہیں معلوم یہ سب کیا ہے
پھر وہ یمنی اٹھا اور چلا گیا

نوٹ راوی محمد بن سليمان الصنعاني پر کوئی تعدیل و جرح شیعہ کتب میں نہیں ملیں لہذا یہ مجہول ہوا
اسی طرح راوی إبراهيم بن الفضل پر کتاب أصحاب الامام الصادق (ع) – عبد الحسين الشبستري میں لکھا ہے
أبو اسحاق ابراهيم بن الفضل الهاشمي، المدني. محدث مجهول الحال،

شیعہ کتاب بحار الانور از مجلسی میں ہے

الكافي: عن علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن ابن محبوب، عن مالك بن عطية، عن سليمان بن خالد، قال: سألت أبا عبد الله عليه السلام عن الحر والبرد ممن (2) يكونان ؟ فقال لي: يا أبا أيوب، إن المريخ كوكب حار وزحل كوكب بارد فإذا بدأ المريخ في الارتفاع انحط
زحل، وذلك في الربيع، فلا يزالان كذلك كلما ارتفع المريخ درجة انحط زحل درجة ثلاثة أشهر حتى ينتهي المريخ في الارتفاع وينتهي زحل في الهبوط، فيجلوا المريخ فلذلك يشتد الحر، فإذا كان في آخر الصيف وأوان (3) الخريف بدأ زحل في الارتفاع وبدأ المريخ في
الهبوط، فلا يزالان كذلك كلما ارتفع زحل درجة انحط المريخ درجة حتى ينتهي المريخ في الهبوط وينتهي زحل في الارتفاع، فيجلو زحل وذلك في أول (4) الشتاء وآخر الصيف (5) فلذلك يشتد البرد، وكلما ارتفع هذا هبط هذا وكلما هبط هذا ارتفع هذا، فإذا كان في
الصيف يوم بارد فالفعل في ذلك للقمر، وإذا كان في الشتاء يوم حار فالفعل في ذلك للشمس، هذا تقدير العزيز العليم، وأنا عبد رب العالمين (

الکافی میں ہے عن علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن ابن محبوب، عن مالك بن عطية کی سند سے ہے کہ سليمان بن خالد نے امام جعفر سے سوال کیا کہ سردی و گرمی کیوں ہوتی ہے ؟ امام نے فرمایا اے ابو ایوب مریخ یہ گرمی کا ستارہ ہے اور زحل یہ
سردی کا ستارہ ہے – پس جب مریخ زحل کے انحطط پر طلوع ہونا شروع ہوتا ہے تو موسم بہار اتا ہے یہ کیفیت ختم نہیں ہوتی یہاں تک کہ تین ماہ رہتی ہے حتی کہ مریخ الارتفاع و بلند ہوتا ہے اور زحل کا ہبوط و نیچے جانا ختم ہو جاتا ہے
پس مریخ سرخ ہوتا ہے پس یہ گرمی کی شدت ہوتی ہے پھر جب گرمیاں ختم ہوتی ہیں اور موسم سرما شروع ہوتی ہے تو سردی کی شدت ہوتی ہے پس ایک کا ارتفاع ہوتا ہے تو دوسرے کا ہبوط ہوتا ہے اور جب ایک کا ہبوط ہوتا ہے تو دوسرے کا ارتفاع ہوتا ہے – پس جب گرمی میں اگر سردی ہو جائے تو یہ چاند کی بنا پر ہوتی ہے اور سردیوں میں اگر گرم دن آ جائے تو یہ سورج کی وجہ سے ہوتا ہے  اور یہ سب اللہ تعالی کی تدبیر ہے جو عزیز و علیم ہے اور میں عبد رب العالمین ہوں

شیعہ کتاب وسائل الشيعة از محمد بن الحسن الحر العاملي (1033 – 1104 هـ). میں ہے

وعن علي بن إبراهيم ، عن أبيه ، عن ابن أبي عمير ، عن جميل بن صالح ، عمن أخبره ، عن أبي عبدالله ( عليه السلام ) قال : سئل عن النجوم ؟ قال : ما يعلمها إلا أهل بيت من العرب وأهل بيت من الهند
امام جعفر نے فرمایا جب کسی نے علم نجوم پر سوال کیا کہ عرب میں اہل بیت سب سے بڑھ کر علم نجوم کو جانتے ہیں اور ہندوستان میں اہل بیت اس کو جانتے ہیں

معلوم نہیں کہ راوی کا ہندوستان کے اہل بیت سے کیا مراد تھی

بہر حال ان روایات کو یہاں پیش کیا گیا ہے کہ قرن دوم میں علی اور سیارہ زحل کو اپس میں ملایا گیا ہے – ہندوؤں میں زحل کو شنی دیو کہا جاتا ہے جو نحوست کا دیوتا ہے -اسلامی شیعی لٹریچر میں علی کو زحل سے ملایا گیا ہے اور زحل کو خوش بختی کہا گیا ہے
راقم سمجھتا ہے کہ راوی یزید بن قعنب اورابراهيم بن الفضل دونوں کسی شیعی فرقے کے تھے جو غالی تھے – یہ علم نجوم کے دلدادہ اور سیارہ زحل کے اثر کو ماننے والے تھے جن کے مطابق روح زحل کعبہ میں داخل ہو کر علی کی شکل میں
مجسم ہو گئی

شیعہ تفسیر تفسير علي بن إبراهيم میں ہے
والطارق الذي يطرق الأئمة من عند الله مما يحدث بالليل والنهار، وهو الروح الذي مع الأئمة يسددهم
الطارق وہ ہے جو ائمہ کے ساتھ چلتا ہے اللہ کی طرف سے جو دن و رات میں ہوتا ہے اور یہ ایک روح ہے جو ائمہ کے ساتھ ہے ان کی مدد گار

کعبہ کے گرد طواف کو زحل کے گرد دائروں سے علم نجوم والے آج بھی ملاتے ہیں

شیعہ کتاب رسائل المرتضى جلد ٣ ص ١٤٥ از الشريف المرتضى میں ہے

وزعم بعض الناس أن بيت الله الحرام كان بيت زحل
بعض لوگوں نے دعوی کیا ہے کہ بیت اللہ یہ بیت زحل ہے

زحل سے شیعہ راوی متاثر تھے کہ ایک بصری عمر بن عبدالعزيز البصري أبو حفص بن ابي بشار، المعروف بزحل نے اپنا لقب ہی زحل رکھا ہوا تھا

اختيار معرفة الرجال میں ہے کہ یہ لقب سیارہ زحل پر لیا گیا تھا

زحل عمر بن عبدالعزيز عمربن عبدالعزيز بن أبي بشار بفتح الموحدة وتشديد المعجمة، لقبه زحل بضم الزاي وفتح المهملة واللام، على اسم سابع السيارات، وكنيته أبوحفص

زحل کا تذکرہ بعد میں شیعی مسلم فلکیات دانوں بو علی سینا اور الفارابی کی کتب میں بھی ملتا ہے جس میں افلاک کو علی و فاطمہ سے ملایا گیا ہے

شیعہ عالم رضي الدين أبي القاسم علي بن موسى بن جعفر بن محمد بن طاووس الحسيني المتوفی ٦٦٤ نے باقاعدہ علم نجوم پر کتاب فرج المهموم في تاريخ علماء النجوم لکھی ہے جس میں ائمہ اہل بیت کو علم نجوم کا شوقین ثابت کیا گیا ہے
اور ان شیعہ علماء کا رد کیا گیا ہے وہ علم نجوم کے استعمال سے روک رہے تھے

اہل بیت کے حقوق

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت پر ایک ذمہ داری ڈالی تھی  کہ ان کے اہل بیت کا خیال رکھا  جائے

اہل بیت سے مراد  گھر و خاندان  والے و ازواج رسول ہیں- ان  سب پر صدقه کھانا حرام ہے  – ظاہر ہے صدقه حرام ہے کہ تو ان کی معاش کا ذریعہ بعد رسول کیا ہو گا ایک اہم سوال ہے –  

جنگ بدر میں مسلمانوں کو کفار پر فتح نصیب ہوئی اس کے نتیجے میں جو مال غنیمت ملا اس کی تقسیم پر الله نے حکم دیا سوره انفال

وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِنْ كُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللَّهِ وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

[41]

 اور جان رکھو کہ جو چیز تم (کفار سے) لوٹ کر لاؤ اس میں سے پانچواں حصہ خدا کا اور اس کے رسول کا اور اہل قرابت کا اور یتیموں کا اور محتاجوں کا اور مسافروں کا ہے۔ اگر تم خدا پر اور اس (نصرت) پر ایمان رکھتے ہو جو (حق وباطل میں) فرق کرنے کے دن (یعنی جنگ بدر میں) جس دن دونوں فوجوں میں مڈھ بھیڑ ہوگئی۔ اپنے بندے (محمد ) پر نازل فرمائی۔ اور خدا ہر چیز پر قادر ہے

سارا مال پانچ برابر حصوں میں تقسیم ہو گا اور اس کے پانچوں حصوں کی  تقسیم اس طرح ہو گی

پہلا حصہ  الله اور اس کے رسول کا

دوسرا حصہ  الله کے رسول کے رشتہ دار

تیسرا حصہ  یتیم کا

چوتھا حصہ مسکین کا

پانچواں حصہ  مسافر

بنو نضیر ایک  یہودی آبادی تھی جو مدینہ میں تھی یہ لوگ کھیتی باڑی، تجارت اور لیں دیں کا کاروبار کرتے تھے اور ان کے مشرکین مکہ سے بھی اچھے تعلقات تھے لیکن بد قسمتی سے ان کا میلان نبی صلی الله علیہ وسلم کی مسلسل مخالفت اور سازش کرنا تھا یہاں تک کہ انہوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو قتل کرنے کی بھی کوشش کی جس کی خبر الله نے اپنے نبی کو دی اور  ان کو مدینہ سے نکال دیا گیا  اور مال و متاع لے جانے کی اجازت نہیں دی گئی بس جان بخشی ہوئی – یہی یہودی  مدینہ کے  مغرب میں جا کر ایک دوسری یہودی بستی میں بس گئے  وہاں بھی سازشی ماحول کی وجہ سے سن ٧ ہجری میں ان پر حملہ (خیبر) کیا گیا اور سوره الحشر میں اس پر تبصرہ کیا گیا اس میں بہت سے باغات ملے جن کو مال فیے کہا جاتا ہے  یہ الله کی طرف سے نبی صلی الله علیہ وسلم کے لئے خاص تحفہ تھے

سوره الحشر میں ہے

وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَىٰ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

[6]

 اور جو (مال) الله نے اپنے پیغمبر کو ان لوگوں سے (بغیر لڑائی بھڑائی کے) دلوایا ہے اس میں تمہارا کچھ حق نہیں کیونکہ اس کے لئے نہ تم نے گھوڑے دوڑائے نہ اونٹ لیکن الله اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے۔ اور الله ہر چیز پر قادر ہے

 مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ ۚ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ

[7]

 جو مال الله نے اپنے پیغمبر کو دیہات والوں سے دلوایا ہے وہ الله کے اور پیغمبر کے اور (پیغمبر کے) قرابت والوں کے اور یتیموں کے اور حاجتمندوں کے اور مسافروں کے لئے ہے۔ تاکہ جو لوگ تم میں دولت مند ہیں ان ہی کے ہاتھوں میں نہ پھرتا رہے۔ سو جو چیز تم کو پیغمبر دیں وہ لے لو۔ اور جس سے منع کریں (اس سے) باز رہو۔ اور الله سے ڈرتے رہو۔ بےشک الله سخت عذاب دینے والا ہے

انہی باغوں میں فدک کے باغ تھے جو الله نے نبی صلی الله علیہ وسلم قرابت والوں کے اور یتیموں کے اور حاجتمندوں کے اور مسافروں کو دیے

بخاری کی ابو ہریرہ رضی الله عنہ  حدیث ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

لاَ يَقْتَسِمُ وَرَثَتِي دِينَارًا، مَا تَرَكْتُ بَعْدَ نَفَقَةِ نِسَائِي وَمَئُونَةِ عَامِلِي، فَهُوَ صَدَقَةٌ

میری وراثت کا دینار تقسیم نہیں ہو گا میں جو چھوڑوں اس میں ازواج کے نفقہ اور عامل کی تنخواہ کے علاوہ سب صدقه ہے

اُم المؤمنین عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ فاطمہ اور عبّاس  دونوں  ابوبکر صدیق  کے پاس آئے آپ کا ترکہ مانگتے تھے یعنی جو زمین آپ کی فدک میں تھی او رجوحصہ خیبر کی اراضی میں تھا طلب کررہے تھے۔ ابوبکر نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ  سے سنا ہے آپ نے فرمایا ہم (انبیاء) جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے البتہ بات یہ ہے کہ محمد کی آل اس میں سے کھاتی پیتی رہے گی۔ ابوبکر نے یہ فرمایاکہ اللہ کی قسم جس نے رسول اللہ  کوجو کام کرتے دیکھا میں اسے ضرور کروں گا اسے کبھی چھوڑنے کا نہی

عائشہ رضی الله عنہا  فرماتی ہیں کہ

فقال لها أبو بكر: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا نورث، ما تركنا صدقة»، فغضبت فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فهجرت أبا بكر، فلم تزل مهاجرته حتى توفيت، وعاشت بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم ستة أشهر

رسول اللہ کی بیٹی  فاطمہ رضی الله عنہا  نے ابوبکر رضی الله عنہ سے رسول کی وفات کے بعد میراث طلب کی  جس پر ابو بکر رضی الله عنہ نے کہا وہ صدقه ہے اس پر فاطمۂ ناراض ہوئیں اور انہوں نے اپنی وفات تک خلیفئہ اول  کو چھوڑا ( ترک کلام رکھا)  یہ رسول الله  کی وفات کے بعد چھہ ماہ تک زندہ رہی

یہی مطالبہ امہات المومنین نے بھی ابو بکر سے  کرنا چاہا

عن عائشه أن أزواج النبی صلی اللہ علیه وسلم حین توفی رسول اللہ صلی اللہ علیه وآله وسلم أردن أن یبعثن عثمان إلی أبی بکر یسألنه مبراثھن فقالت عائشة ألیس قد قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم لا نورث ماترکنا صدقة»( صحیح بخاری کتاب الفرائض باب قول النبی لانورث ماترکنا صدقة)

عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم  کی وفات ہوگئی تو آپ  کی بیویوں نے یہ ارادہ کیاکہ عثمان کو ابوبکر  کے پاس بھیجیں اور اپنے ورثہ کا مطالبہ کریں تو اس پر میں ان کو کہا کیا تم کو معلوم نہیں کہ رسول الله  نے یہ فرمایا ہے: ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔‘

در حقیقیت نبی صلی الله علیہ وسلم نے کچھ دینار و درہم  چھوڑا بھی نہیں تھا بخاری کی حدیث ہے

عمرو بن الحارث کہتے ہیں کہ

ما ترك رسول الله صلى الله عليه وسلم عند موته درهما ولا دينارا

رسول الله نے اپنی موت پر نہ کوئی دینار چھوڑا نہ درہم

فدک و خیبر کے  باغات صرف اہل بیت کے لئے نہیں تھے ان میں غیر اہل بیت یتیم ، حاجت مند اور مسافروں کا بھی حق تھا لہذا نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان کو اہل بیت کو نہیں دیا گیا اور ابو بکر رضی الله عنہ نے ان کا انتظام  اپنے ہاتھ میں رکھا عمر رضی الله عنہ نے باغ فدک  کا انتظام علی اور عباس رضی الله عنہ کے باتھ میں اس شرط پر دیا کہ یہ اس کو انہی مدوں میں خرچ کریں گے جن میں نبی صلی الله علیہ وسلم نے کیا

کتاب فتوح البلدان از البَلَاذُري (المتوفى: 279هـ) کے مطابق

حدثنا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ الدِّمَشْقِيُّ، قَالَ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ حَدَّثَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قَالَ كَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلاثُ صَفَايَا، مَالُ بَنِي النَّضِيرِ وَخَيْبَرَ، وَفَدَكَ، فَأَمَّا أَمْوَالُ بَنِي النَّضِيرِ فَكَانَتَ حَبْسًا لِنَوَائِبِهِ، وَأَمَّا فَدَكُ فَكَانَتْ لأَبْنَاءِ السَّبِيلِ، وَأَمَّا خَيْبَرُ فَجَزَّأَهَا ثَلاثَةَ أَجْزَاءٍ، فَقَسَّمَ جُزْأَيْنِ منها بين المسلمين وحبسر جُزْءًا لِنَفْسِهِ وَنَفَقَةِ أَهْلِهِ، فَمَا فَضَلَ مِنْ نَفَقَتِهِمْ رَدَّهُ إِلَى فُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ

عمر رضی الله عنہ نے کہا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے لئے مال غنیمت سے آمدنی کے تین ذرائع تھے   مال بنو النَّضِيرِ  اور مال خیبر اور مال فدک -پس مال بنو النَّضِيرِ  کو کیا  نوائب کے لئے اور فدک کو مسافر کے لئے اور خیبر  کو تین حصوں میں تقسیم کیا جن میں سے دو حصے (غریب) مسلمانوں کے لئے کیے اور ایک حصہ اپنے اور اہل کے نفقے کے لئے کیا اور جو زیادہ ہوتا تو اس کو (بھی) فقراء مہاجرین کو دیتے

اسی کتاب کی دوسری روایت ہے

حَدَّثَنَا الْحُسَيْن بن الأسود، قال حدثنا يحيى بن آدم، قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَان عَنِ الزهري قَالَ. كانت أموال بني النضير مما أفاء اللَّه عَلَى رسوله ولم يوجف المسلمون عَلَيْهِ بخيل ولا ركاب فكانت لرسول اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خالصة فقسمها بَيْنَ المهاجرين ولم يعط أحدا منَ الأنصار منها شيئا إلا رجلين كانا فقيرين، سماك بْن خرشة أَبَا دجانة، وسهل بْن حنيف

الزہری کہتے ہیں کہ بنو النضير  کے اموال رسول الله کے لئے خاص تھے …..پس اپ نے (اپنی خوشی سے) ان

 کو مہاجرین میں تقسیم کیا اور انصار میں سے کسی کو کچھ نہ دیا سوائے دو افراد کے جو

فقیر تھے ایک  سماك بْن خرشة أَبَا دجانة   اوردوسرے  سهل بْن حنيف   تھے

درحقیقت عباس اور علی رضی الله عنہما نے ایک زبردست ذمہ داری کو  اٹھا لیا کہ وہ مال فدک میں نہ صرف اہل بیت حصہ نکالیں گے بلکہ الله اور اس کے رسول کا ، مسافروں، یتیموں ،مسکینوں کا بھی حصہ نکالیں گے اگر یہ کام خلیفہ کو دیا جاتا تو اس میں انتظام کا مسئلہ نہیں ہوتا

اہل بیت پر صدقه کی حرمت

اہل بیت پر ان خصوصی انعام و اکرام کے ساتھ یہ پابندی بھی لگائی جا چکی تھی  کہ ان پر صدقه حرام کر دیا گیا تھا جس پر شیعہ و سنی دونوں متفق ہیں-

مسند احمد کی  بريدة  رضی الله عنہ کی حدیث ہے

حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا زيد بن الحباب حدثني حسين حدثني عبد الله بن بريدة قال سمعت بريدة يقول : جاء سلمان إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم حين قدم المدينة بمائدة عليها رطب فوضعها بين يدي رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم ما هذا يا سلمان قال صدقة عليك وعلى أصحابك قال أرفعها فانا لا نأكل الصدقة

سلمان رضی الله عنہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے اور ان کو تازہ کھجور پیش کی پس رسول الله نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ سلمان رضی الله عنہ نے کہا یہ صدقه ہے آپ اور آپ کے لوگوں کے لئے نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اس کو اٹھا لو ہم صدقه نہیں کھاتے

ایک دفعہ حسن رضی الله عنہ نے بچپن میں صدقه کی کھجور اپنے منہ میں ڈالی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کو ان کے منہ سے نکالا

صدقه کی یہ پابندی اس قدر تھی کہ گھر والیوں اور غلاموں اور عام رشتہ داروں سب پر لاگو ہوتی تھی

مسند احمد کی روآیت ہے

حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا وكيع ثنا سفيان عن عطاء بن السائب قال أتيت أم كلثوم ابنة علي بشيء من الصدقة فردتها وقالت حدثني مولى للنبي صلى الله عليه و سلم يقال له مهران أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : إن آل محمد لا تحل لنا الصدقة ومولى القوم منهم

عطاء بن السائب کہتے ہیں میں أم كلثوم بن علی کے پاس گیا صدقه لے کر انہوں نے اس کو لوٹا دیا اور کہا مجھ کو رسول الله کے آزاد کردہ غلام مهران نے کہا کہ ال محمّد صدقه نہیں کھاتے اور ان کے غلام بھی

مسلم کی حدیث ہے

حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا يحيى بن آدم ثنا بن المبارك عن يونس عن الزهري عن عبد الله بن الحرث بن نوفل عن عبد المطلب بن ربيعة بن الحرث انه هو والفضل أتيا رسول الله صلى الله عليه و سلم ليزوجهما ويستعملهما على الصدقة فيصيبان من ذلك فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إن هذه الصدقة إنما هي أوساخ الناس وإنها لا تحل لمحمد ولا لآل محمد

نبی صلی الله علیہ وسلم نے عبد المطلب بن ربيعة بن الحرث اور الفضل بن عباس کو صدقه کے معاملات دینے سے انکار کیا اور کہا کہ یہ لوگوں کا میل ہے اور محمّد اور ال محمد پر حرام ہے

ال محمد سے مراد  نبی صلی الله  علیہ وسلم کی ازواج ،  چار بیٹیاں یعنی زینب ، رقیہ ، ام کلثوم اور فاطمہ  رضی اللہ عنہما  ہیں اور  نبی صلی الله علیہ وسلم کے خاندان والے

 مسلم میں ہے

يزيد بن حيان التيمي کہتے ہیں میں اور حصين بن سبرة اور عمر بن مسلم ،  زيد بن أرقم رضی الله عنہ کے پاس گئے

 فقال له حصين ( بن سبرة)  ومن أهل بيته يا زيد (بن أرقم) أليس نساؤه من أهل بيته قال ان نساءه من أهل بيته ولكن أهل بيته من حرم الصدقة بعده قال ومن هم قال هم آل على وآل عقيل وآل جعفر وآل عباس قال أكل هؤلاء حرم الصدقة قال نعم

حصين ( بن سبرة)  نے  زيد (بن أرقم) سے پوچھا کہ اے زید  کیا نبی کی ازواج ان اہل بیت میں سے نہیں ہیں ؟ انہوں نے کہا بے شک وہ اہل بیت میں سے ہیں لیکن اہل بیت وہ (بھی) ہیں جن پر صدقه حرام ہے ان کے بعد پوچھا وہ کون ؟ کہا وہ ال علی ال عقیل ال جعفر ال عباس ہیں کہا ان سب پر صدقه حرام ہے ؟ کہا ہاں

اس میں امہات المومنین کو بھی اہل بیت کہا گیا ہے

مسلم میں اسی روایت کی  دوسری سند میں الفاظ ہیں جن میں امہات المومنین کو خارج کیا گیا ہے جو زید بن ارقم کی روایت میں الفاظ کا اضطراب ہے  کیونکہ مسلم کی دوسری روایت میں یہ الفاظ  نہیں ہیں  اس مخصوص روایت کے الفاظ ہیں

مَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ؟ نِسَاؤُهُ؟ قَالَ: لَا، وَايْمُ اللهِ إِنَّ الْمَرْأَةَ تَكُونُ مَعَ الرَّجُلِ الْعَصْرَ مِنَ الدَّهْرِ، ثُمَّ يُطَلِّقُهَا فَتَرْجِعُ إِلَى أَبِيهَا وَقَوْمِهَا أَهْلُ بَيْتِهِ أَصْلُهُ، وَعَصَبَتُهُ الَّذِينَ حُرِمُوا الصَّدَقَةَ بَعْدَه

اہل بیت کون ہیں ؟ ازواج؟ زید نے کہا الله کی قسم ایک عورت آدمی کے ساتھ ہوتی ہے ایک عرصۂ تک پھر وہ اس کو طلاق دیتا ہے اور وہ اپنے باپ اور قوم میں لوٹ جاتی ہے اور اہل بیت تو اصل والے اور جڑ والے ہیں جن پر صدقه حرام ہے

 اس کی سند میں حسان بن إبراهيم بن عبد الله الكرمانى المتوفی ١٨٩ یا ١٨٦ ھ ہیں جن کو  النسائى : ليس بالقوى کہتے ہیں ، ابن حجر ،  صدوق يخطىء  صدوق غلطیاں کرتے تھے کہتے ہیں  ابن عدی کہتے ہیں  من أهل الصدق إلا أنه يغلط في الشئ ولا يتعمد یہ اہل صدق میں سے ہیں لیکن غلطیاں کرتے ہیں اور قابل اعتماد نہیں ہیں

اس کی واضح مخالف حدیث بخاری میں موجود ہے

عائشہ رضی اللہ عنہا  کو ایک   لونڈی بریرہ   نے گوشت دیا (یہ اس وقت  ام المومنین کی لونڈی نہ تھیں ) – جو  ان کے پاس کہیں سے صدقہ کا گوشت آیا جو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں بھیج دیا تو اس گوشت کو دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، اچھا یہ وہی ہے جو بریرہ کو صدقہ میں ملا ہے۔ یہ ان کے لیے تو صدقہ ہے لیکن ہمارے لئے ہدیہ ہے ۔

ابن عبّاس رضی الله عنہ کی بخاری کی روایت ہے

وجد النبي صلى الله عليه وسلم شاة ميتة، أعطيتها مولاة لميمونة من الصدقة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «هلا انتفعتم بجلدها؟» قالوا: إنها ميتة: قال: «إنما حرم أكلها

نبی صلی الله علیہ وسلم کو ایک بکری ملی نظر آئی جو مری پڑی تھی اور میمونہ رضی الله عنہا کی لونڈی کو کسی نے صدقه میں دی ، نبی صلی الله علیہ وسلم کا گزر اس بکری کے پاس ہواتو آپ نے فرمایا: ” ان لوگوں نے اس کی کھال کیوں نہیں اتار لی کہ اسے دباغت دے کر کام میں لے آتے ” ؟ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ تو مردار ہے، آپ نے فرمایا: ” صرف اس کا کھانا حرام ہے

الغرض صدقه کی پابندی میں امہات المومنین، نبی صلی الله علیہ وسلم  کی بیٹیاں ، نبی صلی الله علیہ وسلم  کے خاندان بنو عبد المطلب  کے مسلم افراد  اور ان کے لونڈی غلام (الا یہ کہ ان کو آزاد کر دیا جائے) سب شامل تھے

حدیث کساء کی حیثیت

صحیح مسلم میں عائشہ رضی الله عنہا سے مروی حدیث ہے

خرج النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ غداةً وعليه مِرْطٌ مُرحَّلٌ ، من شعرٍ أسودٍ . فجاء الحسنُ بنُ عليٍّ فأدخلَه . ثم جاء الحسينُ فدخل معه . ثم جاءت فاطمةُ فأدخلها . ثم جاء عليٌّ فأدخلَه . ثم قال ” إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ” [ 33 / الأحزاب / 33 ] .

عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کے وقت ایک اونی منقش چادر اوڑھے ہوئے باہر تشریف لائے تو آپ کے پاس حسن بن علی رضی اﷲ عنہما آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں اُس چادر میں داخل کر لیا، پھر حسین رضی اللہ عنہ آئے اور وہ بھی ان کے ہمراہ چادر میں داخل ہو گئے، پھر فاطمہ رضی اﷲ عنہا آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں بھی اس چادر میں داخل کر لیا، پھر علی رضی الله عنہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں بھی چادر میں لے لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی : بے شک اللہ چاہتا ھے کہ  وہ تم اہل بیت سے رجس کو دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔

امام مسلم اس کی سند دیتے ہیں

وحَدَّثَنِي سُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، ح وحَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ شَيْبَةَ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ، عَنْ عَائِشَةَ،

اس کی سند میں مصعب بن شيبة بن جبير بن شيبة کا تفرد ہے – امام احمد اس روایت کو پسند نہیں کرتے

قال أحمد بن محمد بن هانىء: ذكرت لأبي عبد الله الوضوء من الحجامة، فقال: ذاك حديث منكر، رواه مصعب بن شيبة، أحاديثه مناكير، منها هذا الحديث، وعشيرة من الفطرة، وخرج رسول الله – صلى الله عليه وسلم – وعليه مرط مرجل. «ضعفاء العقيلي» (1775)

احمد بن محمد بن ہانی کہتے ہیں میں نے ابی عبد الله سے حدیث ذکر کی کہ حجامہ میں وضو پس کہا یہ حدیث منکر ہے اس کو  مُصْعَبِ بْنِ شيبة  روایت کرتا ہے اس کی حدیثیں منکر ہیں جن میں یہ حدیث ہے اور … اور نبی صلی الله علیہ وسلم   ایک اونی منقش چادر اوڑھے ہوئے باہر تشریف لائے والی

  • وقال أبو بكر الأثرم: سمعت أبا عبد الله أحمد بن حنبل يقول: مصعب بن شيبة روى أحاديث مناكير. «الجرح والتعديل» 8/ (1409) .

کتاب ضعفاء العقيلي میں امام احمد اس کی خاص اس ایک اونی منقش چادر والی روایت کو رد کرتے ہیں

ترمذی میں بھی یہ موجود ہے جہاں اس کی سند ہے

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ الْأَصْبَهَانِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، رَبِيبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ {إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ البَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا} [الأحزاب: 33] فِي بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، فَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَجَلَّلَهُمْ بِكِسَاءٍ وَعَلِيٌّ خَلْفَ ظَهْرِهِ فَجَلَّلَهُ بِكِسَاءٍ ثُمَّ قَالَ: «اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي فَأَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَهِّرْهُمْ تَطْهِيرًا» قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: وَأَنَا مَعَهُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «أَنْتِ عَلَى مَكَانِكِ وَأَنْتِ إِلَى خَيْرٍ

نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروردہ عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب اُم المؤمنین اُم سلمہ رضی اﷲ عنہا کے گھر نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ آیت ”اہلِ بیت! اللہ چاہتا ھے کہ وہ تم سے  رجس دُور کر دے اور تمہیں  طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔” نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فاطمہ اور حسنین سلام اﷲ علیہم کو بلایا اور انہیں ایک کملی میں ڈھانپ لیا۔ علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی کملی میں ڈھانپ لیا، پھر فرمایا : اے اﷲ! یہ میرے اہل بیت ہیں، پس ان سے ہر قسم کی آلودگی دور فرما اور انہیں خوب پاک و صاف کر دے۔ اُم سلمہ رضی اﷲ عنہا نے عرض کیا : اے اللہ کے نبی! میں (بھی) ان کے ساتھ ہوں، فرمایا : تم اپنی جگہ رہو اور تم تو بہتر مقام پر فائز ہو۔”

امام ترمذی اس کو حسن بھی نہیں کہتے بلکہ لکھتے ہیں وهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الوَجْهِ یہ حدیث انوکھی ہے اس طرق سے

دونوں احادیث میں ایک ہی واقعہ ہے- ایک دفعہ اس میں عائشہ رضی الله عنہا کو دکھایا گیا اور دوسری دفعہ ام سلمہ رضی الله عنہا کو – ظاہر ہے یہ ایک دفعہ ہی ہوا ہو گیا اگر ہوا بھی – مسلم کی حدیث امام احمد کے نزدیک  ضعیف ہے

اہل سنت کے جن علماء نے اس کو لکھا ہے ان کے نزدیک یہ حدیث امہات المومنین کو اہل بیت میں سے خارج نہیں کرتی لہذا یہ متنا صحیح ہے کیونکہ اس میں ہے کہ تم خیر میں ہو

امہات المومنین

وفات نکاح امہات المومنین رضی الله عنہما
١٠بعد بعثت ١٥ قبل نبوت خدیجہ بنت خویلد
٢٢ ھ ١٠ بعد بعثت  شوال سودہ بنت زمعہ
٥٣ یا ٥٧ ھ ٢ ھ شوال عائشہ بنت ابی بکر
٤٥ھ ٣ھ شعبان حفصہ بنت عمر
٤ھ ٤ ھ زینب بنت خزیمہ
٥٩ھ ٤ھ شوال ام سلمہ  ہند بنت ابی امیہ
٢٠ھ ٥ ھ  ذیقعدہ زینب بنت جحش
٥٠ھ ٦ ھ شعبان جویریہ بنت حارث
٤٤ھ ٦ھ ام حبیبہ رملہ بنت ابو سفیان
٥٠ھ ٧ھ محرم صفیہ بنت حی بن اخطب
٥١ھ ٧ھ  ذیقعدہ میمونہ بنت حارث

یہ سب امت کی مائیں ہیں اور اہل بیت میں سے ہیں سوره الاحزاب کی آیات تطہیر  بھی انہی سے متعلق  ہیں انہی کو ہدایات دی جا رہی ہیں کہ آگے مستقبل  میں کیا کیا کرنا ہے جس کے بعد وہ منافقین کے کسی بھی رجس سے پاک رہیں گی یا با الفاظ دیگر منافقین ان کے حوالے سے کچھ بھی پروپیگنڈا کرنے میں ناکام رہیں گے

اس آیت کے نزول کے وقت   میمونہ بنت حارث ، زینب بنت جحش ، جویریہ بنت حارث،صفیہ بنت حی بن اخطب، ام حبیبہ رملہ بنت ابو سفیان رضی الله عنہما آپ صلی الله علیہ وسلم کے نکاح میں نہیں تھیں لیکن اس میں الله کا ارادہ کا ذکر ہے جو ظاہر ہے سب بعد میں نبی صلی الله علیہ وسلم کے نکاح میں انے والیوں کے لئے  ہے

 اہل بیت کے الفاظ  نبی صلی الله علیہ وسلم کے خاندان کے لئے اس لئے بعض حلقوں میں  مخصوص ہوئے کیونکہ

امہات المومنین کے انتقال کے بعد وہی اہل بیت میں سے باقی رہ گئے تھے اور انہوں نے اپنی تقریروں میں بنو امیہ سے بلند دکھانے کے لئے ان الفاظ کو استمعال کیا لیکن انہوں نے کہیں بھی دعوی نہیں کیا کہ امہات المومنین اہل بیت نہیں تھیں

شیعہ نقطۂ نظر

شیعہ پہلے آیات کو ان کے محل سے ہٹا کر ان کے مفہوم سے امہات المومنین کو نکالتے ہیں پھر آیت تطہیر کو  پانچ لوگوں کے لئے خاص کرتے ہیں اس کے بعد اہل بیت میں معصوم لوگوں کا عقیدہ نکالتے ہیں اور اس کے بعد امامت کا عقیدہ

 شیعہ مذھب میں حدیث کساء نہایت مقبول ہے  لیکن انہوں نے بھی اس کے نقص پر غور نہیں کیا -شیعہ مذھب کے مطابق اہل بیت معصومین تو پیدا ہی الگ طرح ہوتے ہیں ان کی تخلیق ہی کائنات کے رازوں میں سے ہے لہذا ان سب افراد کی پیدائش کے اتنے عرصہ بعد ان کو رجس سے پاک کرنا کیا مطلب ہوا؟  اگر یہ صرف دکھانے کے لئے تھا تو بھی تک نہیں بنتی اس کا مطلب ہے مخصوص اہل بیت کے معصوم  ہونے کا عقیدہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے امت پر  پیش تک نہیں کیا تھا – شیعوں نے افراط میں  امہات المومنین کو  اہل بیت سے نکال دیا لیکن  اس کاوش میں  خدیجہ رضی الله عنہا کو بھی اہل بیت سے نکال دیا گیا

آیات کو ان کے محل سے ہٹا کر دیکھنا ، کیا صحیح طرز عمل ہے؟ – آیت تطہیر پر عمل

حسین کی ولادت کے بعد ہوا ، کیا اس سے پہلے یہ پانچ  معصومین تھے یا نہیں ؟

انبیاء کی وراثت پر ان کے دلائل  درج ذیل ہیں

شیعہ کتب کے مطابق داود علیہ السلام نے سلیمان علیہ السلام کو اپنا وارث بنایا اگر داود نے کوئی میراث نہیں چھوری تھی تو سلیمان کو وارث بنانے کا مقصد کیا تھا -حالانکہ قرآن میں یہ سرے سے ہے ہی نہیں کہ انبیاء کسی کو وارث بولتے ہوں قرآن میں ہے

وورث سليمان داود

اور سلیمان، داود کا وارث ہوا

قرآن نے صرف ایک وقوعہ بتایا ہے-  کیا نبوت اور  جائداد میں کوئی فرق نہیں ؟کیا موسی علیہ السلام کسی جائداد کے مالک تھے جب بنی اسرائیل صحرا میں تھے؟ ان کے بیٹے تو ان کے وارث نہیں تھے بلکہ یوشع بن نوں خلیفہ ہوئے؟

قرآن میں زکریا علیہ السلام کی دعا ہے کہ ایک بیٹا دے جو

يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيّا

میرا اور ال یعقوب کا وارث ہو

زکریا علیہ السلام اس وقت کس سلطنت کے حاکم تھے؟  اس میں ان کے پاس کیا جائداد تھی جس کے ضائع ہونے کا ان کو خطرہ تھا کچھ بیان نہیں ہوا بلکہ رومیوں کے دور میں تو ان پر ایک ظالم بادشاہ حاکم تھا-  ال یعقوب کہہ کر زکریا علیہ السلام نے اس وراثت  کو بنوت و رسالت کی طرف موڑ دیا

الکافی    کی روایت ہے  الكافي – از الكليني – ج 1 – ص ٣٤  باب ثواب العالم والمتعلم

محمد بن الحسن وعلي بن محمد ، عن سهل بن زياد ، ومحمد بن يحيى ، عن أحمد بن محمد جميعا ، عن جعفر بن محمد الأشعري ، عن عبد الله بن ميمون القداح ، وعلي بن  إبراهيم ، عن أبيه ، عن حماد بن عيسى ، عن القداح ، عن أبي عبد الله عليه السلام قال : قال  رسول الله صلى الله عليه وآله : من سلك طريقا يطلب فيه علما سلك الله به طريقا إلى الجنة

وإن الملائكة لتضع أجنحتها لطالب العلم رضا به وإنه يستغفر لطالب العلم من  في السماء ومن في الأرض حتى الحوت في البحر ، وفضل العالم على العابد كفضل  القمر على سائر النجوم ليلة البدر ، وإن العلماء ورثة الأنبياء إن الأنبياء لم يورثوا

دينارا ولا درهما ولكن ورثوا العلم فمن أخذ منه أخذ بحظ وافر

 جعفر صادق نے فرمایا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا …. بے شک علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں اس لیےکہ انبیاء علیہم السلام کی وراثت درہم و دینار کی صورت میں نہیں ہوتی وہ اپنی باتیں وراثت میں چھوڑتے ہیں جو انہیں لے لیتا ہے اس نے پورا حصہ پالیا

الكافي از  الكليني – ج 5 – ص ١٣ / ١٥ کی   روایت ہے کہ

علي بن إبراهيم ، عن أبيه ، عن بكر بن صالح ، عن القاسم بن بريد ، عن أبي عمرو الزبيري ، عن أبي عبد الله ( عليه السلام ) قال

ثم أخبر عن هذه الأمة وممن  هي وأنها من ذرية إبراهيم ومن ذرية إسماعيل من سكان الحرم ممن لم يعبدوا غير الله
قط الذين وجبت لهم الدعوة ، دعوة إبراهيم وإسماعيل من أهل المسجد الذين أخبر عنهم  في كتابه أنه أذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهيرا الذين وصفناهم قبل هذا في صفة أمة إبراهيم

امام جعفر کہتے ہیں پھر الله نے خبر دی اس امت کے بارے میں اور یہ ابراہیم کی نسل میں سے ہے اور اسمٰعیل کی نسل میں سے جو حرم میں اقامت پذیر ہوئے ان میں سے جو غیر الله کی عبادت نہیں کرتے ہوں ان پر دعوت واجب ہوئی ابراہیم اور اسمعیل کی دعوت مسجد والوں کے لئے جن کے لئے کتاب میں خبر دی گئی کہ ان سے رجس (شرک) کو دور کیا گیا اور ان کو پاک کیا گیا اور اس صفت سے ان سے پہلے امت ابراہیم کو بھی متصف کیا گیا

امام بخاری اور اہل بیت

شيعوں کي معتبر کتاب بصائر الدرجات از ابو جعفر محمدبن الحسن بن فروخ الصفار المعروف بالصفار القمي (المتوفي 290 ق) جو الإمام الحسن عسکري کے اصحاب ميں سے تھے اور امام بخاري و مسلم کے ہم عصر بھي ہيں  روايت پيش کرتے ہيں
حدثنا احمد بن محمد عن على بن الحكم عن سيف بن عميره عن ابى بكر الحضرمى عن حذيفة بن اسيد الغفار قال قال رسول الله صلى الله عليه وآله ماتكاملت النبوة لنبى في الاظلة حتى عرضت عليه ولايتى وولاية اهل بيتى ومثلوا له فاقروا بطاعتهم وولايتهم.

حذيفة بن اسيد الغفار رضي اللہ عنہ نے کہا رسول اللہ صلى الله عليه وآله نے فرمايا
کسي نبي کو اس وقت تک نبوت نہيں ملي جب تک اس کے سامنے ميري اور ميرے اہل بيت کي ولايت پيش نہيں کي گئي اور يہ ائمہ ان کے سامنے پيش نہيں کئے گئے پس انہوں نے ان کي ولايت و اطاعت کا اقرار کيا تب ان کو نبوت ملي

يعني شيعہ جب کسي غير نبي کو “عليہ السلام ” کہتے ہيں تو احتراما ايسا نہيں کہہ رہے ہوتے ، بلکہ وہ ان کو مامور من اللہ ، انبياء سے افضل يا کم از کم برابر جان کے ايسا کہتے ہيں اور ائمہ اہل بيت کے ساتھ  علیہ السلام کے  لاحقہ کو لگانا ضروري سمجھتے ہيں-  يہ بات اہل سنت کو معلوم ہے اس بنا پر وہ ائمہ شيعہ يا اہل بيت کے ساتھ عليہ السلام کا لاحقہ نہيں لگاتے

دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں امام حسن عسکری کے ہم عصر امام بخاری کی جامع الصحیح تک میں اہل بیت کے ناموں کے ساتھ علیہ السلام کا لاحقہ لگا ہوا ہے

صحيح بخاري 2089 ميں ہے
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ، أَنَّ حُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَخْبَرَهُ أَنَّ عَلِيًّا عَلَيْهِ السَّلاَمُ، قَالَ: «كَانَتْ لِي شَارِفٌ مِنْ نَصِيبِي مِنَ المَغْنَمِ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَانِي شَارِفًا مِنَ الخُمُسِ، فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَبْتَنِيَ بِفَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاعَدْتُ رَجُلًا صَوَّاغًا مِنْ بَنِي قَيْنُقَاعَ أَنْ يَرْتَحِلَ مَعِي، فَنَأْتِيَ بِإِذْخِرٍ أَرَدْتُ أَنْ أَبِيعَهُ مِنَ الصَّوَّاغِينَ، وَأَسْتَعِينَ بِهِ فِي وَلِيمَةِ عُرُسِي

صحيح بخاري 4947 ميں
حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلاَمُ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ كُتِبَ مَقْعَدُهُ مِنَ الجَنَّةِ، وَمَقْعَدُهُ مِنَ النَّارِ» فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلاَ نَتَّكِلُ؟ قَالَ: «لاَ، اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ» ثُمَّ قَرَأَ: {فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى وَصَدَّقَ بِالحُسْنَى فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى} [الليل: 5] إِلَى قَوْلِهِ {فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى} [الليل: 10]

صحيح بخاري 3748 ميں
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الحُسَيْنِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنِي حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أُتِيَ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ زِيَادٍ بِرَأْسِ الحُسَيْنِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ، فَجُعِلَ فِي طَسْتٍ، فَجَعَلَ يَنْكُتُ، وَقَالَ فِي حُسْنِهِ شَيْئًا، فَقَالَ أَنَسٌ: «كَانَ أَشْبَهَهُمْ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ مَخْضُوبًا بِالوَسْمَةِ»

صحيح بخاري ميں 20 بار متن حديث ميں فاطمةَ عليها السلامُ لکھا ہوا ہے

520
2911
3092
3110
3113
3185
3705
3711
3854
4035
4240
4433
4462
5248
5362
5722
6280
6285

اور دو بار فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نام کے ساتھ علیہ السلام کا لاحقہ تعلیق ابواب میں اتا ہے  – اس طرح کل ملا کر یہ ٢٠ حوالے بنتے ہیں

اس سب کو دکھانے کا مقصد ہے کہ اہل سنت کو معلوم ہونا  چاہیے کہ کتاب میں مذھبی الفاظ کا اضافہ کاتب کرتے رہے ہیں اور اس قسم کی پابندی کا کسی محدث نے ذکر نہیں کیا کہ کاتب ضروری ہے کہ   شیعہ یا خارجی یا رافضی نہ ہو کیونکہ کتابت ایک فن ہے اور فن کی قیمت ادا کی جاتی ہے اس میں دین و مذھب کو نہیں دیکھا جاتا  – اگرچہ یہ ضروری تھا کہ اضافہ شدہ  علیہ السلام کے الفاظ کو رضی اللہ عنہ سے بدلا جاتا  لیکن یہ نہیں کیا گیا اور اب صحیح البخاری میں الگ الگ مقامات پر ان اضافوں کو دیکھا جا سکتا ہے

عطاء اللہ حنیف بھوجیانی  اپنا فتویٰ نقل کرتے ہیں

“اہل سنت کے کسی حلقے کی طرف سے حضرت علیؓ، حسنؓ و حسینؓ کے لئے “علیہ السلام” کا استعمال شعوری یا غیر شعوری طور پر شیعی نقطہ نظر کے فروغ کا باعث ہے جس سے اجتناب ضروری ہے۔” (آثار حنیف بھوجیانی جلد اول صفحہ ۲۳۷)

بھوجیانی  کے بقول یہ اہل بیت کے ناموں کے ساتھ رحمہ اللہ وغیرہ کی اضافت محمد بن أبي حاتم الرازي الورّاق النحوي کا کمال ہے جو امام بخاری کا شاگرد ہے جبکہ اس کی دلیل نہیں ہے

مسلمانوں میں کتابت  میں یہ عالم تھا کہ امام  احمد کہتے ہیں کہ قرآن تک  نصرانی سے لکھوایا جاتا تھا کیونکہ کاتب کم تھے

جزء في مسائل عن أبي عبد الله أحمد بن حنبل المؤلف: أبو القاسم عبد الله بن محمد بن عبد العزيز بن المَرْزُبان بن سابور بن شاهنشاه البغوي (المتوفى: 317هـ) تحقيق: أبي عبد الله محمود بن محمد الحداد
الناشر: دار العاصمة، الرياض
الطبعة: الأولى، 1407 هـ

وَقَالَ: وَسَأَلَ رَجُلٌ أَحْمَدَ وَأَنَا أَسْمَعُ: بَلَغَنِي أَنَّ نَصَارَى يَكْتُبُونَ الْمَصَاحِفَ فَهَلْ يَكُونُ ذَلِكَ؟ قَالَ: نَعَمْ نَصَارَى الْحَيْرَةِ كَانُوا يَكْتُبُونَ الْمَصَاحِفَ، وَإِنَّمَا كَانُوا يَكْتُبُونَهَا لِقِلَّةِ مَنْ كَانَ يَكْتُبُهَا. فَقَالَ رَجُلٌ: يُعْجِبُكَ ذَلِكَ؟ ! قَالَ: لا مَا يُعْجِبُنِي.

ایک رجل  نے احمد سے پوچھا کہ: میں نے سنا ہے کہ نصاری بھی قرآن کو لکھا کرتے تھے، یہ بات صحیح ہے ؟احمد  نے جواب دیا کہ: ہاں، حیرہ کے رہنے والے نصاری قرآن کو لکھا کرتے تھے، اس لیے کہ کاتب  کم تھے۔
ایک دوسرے شخص نے پوچھا کہ: کیا تم کو اس جواب سے تعجب ہوا  ؟ اس نے کہا: نہیں

یہ حوالہ بہت سی کتب میں موجود ہے

قرآن تو تواتر سے ملا ہے اور ظاہر  ہے اس میں غلطی آج بھی فورا پکڑ لی جاتی ہے جو وعدہ الہی کی عملی شکل ہے

رہی سہی کسر  پبلشرز نے پوری کر دی کہ انہوں نے جامع الصحیح میں جہاں بھی صحابی کا نام آئے وہاں رضی اللہ عنہ وغیرہ کے الفاظ کا اضافہ خود کر دیا ہے  جبکہ محدثین میں اس قسم کا  رواج نہیں تھا نہ جرح و تعدیل کی کتب میں اصحاب رسول کے ناموں کے ساتھ رحمتوں کا لاحقہ لگایا جاتا تھا

راقم کا مدعا یہ کہنا نہیں کہ اصحاب رسول کے ناموں کے ساتھ رضی اللہ عنہ نہ لکھا جائے بلکہ نسخوں کی اصل حالت اور ان کے مندرجات میں بعد والوں کی تحریفات و اضافوں کا رد کرنا ہے – مصنف ابن ابی شیبہ میں اور مصنف عبد الرزاق کے نسخوں میں اہل حدیث کے بقول احناف نے ناف سے نیچے ہاتھ باندھو اور حدیث نور کا اضافہ کر دیا ہے –  – یعنی اہل سنت کے فرقوں کے بقول احادیث تک کو نسخوں میں بدلا یا ڈالا گیا ہے

اہل حدیث علماء میں صلاح الدین یوسف اپنی کتاب “رسومات محرم الحرام اور واقعہ کربلا “صفحہ ۵۲ میں اہل سنت کے علماء کی جانب سے ائمہ اہل تشیع اور فاطمہ کے نام کے ساتھ علیہ السلام کا لاحقہ لگا نے پر لکھتے ہیں:

محترم !اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ علماء و فقہاء کے لئے “امام” کے لفظ کا استعمال اس معنی میں ہوتا ہے کہ وہ حدیث و فقہ کے ماہر تھے، حضرت حسینؓ کے لئے بھی اسے اس معنیٰ میں استعمال کیا جائے تو اس میں نہ صرف یہ کہ کوئی حرج نہیں بلکہ اس معنیٰ میں وہ بعد کے ائمہ سے زیادہ اس لفظ کے مستحق ہیں۔ لیکن بات تو یہ ہورہی ہے کہ حضرت حسینؓ کو اس معنی میں “امام” نہیں کہا جاتا، اگر ایسا ہوتا تو ابوبکر و عمر و دیگر صحابہ کرام کو بھی امام لکھا اور بولا جاتا کہ وہ علوم قرآن و حدیث کے حضرت حسینؓ سے زیادہ رمز شناس تھے۔ جب کسی بڑے سے بڑے صحابی کے لئے امام کا لفظ نہیں بولا جاتا تو اس کے صاف معنیٰ یہ ہیں کہ صرف حضرت حسینؓ کے ساتھ اس لفظ کا استعمال ان معنوں میں قطعاً نہیں جن میں اس کا استعمال عام ہے۔ بلکہ یہ شیعیت کے مخصوص عقائد کا غماز ہے۔ اس لئے اہلسنت کو اس سے اجتناب کرنا چاہیئے

سوال یہ ہے کہ صحیح بخاری میں پھر علیہ السلام کیوں لکھا جا رہا ہے

==========================

نوٹ : صحیح میں اضافوں کی  مزید مثال

 کہا جاتا ہے امام بخاری نے احمد کو رحمہ اللہ لکھا

Sahih Bukhari Hadees # 377

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ ، قَالَ : سَأَلُوا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ ، مِنْ أَيِّ شَيْءٍ الْمِنْبَرُ ؟ فَقَالَ : مَا بَقِيَ بِالنَّاسِ أَعْلَمُ مِنِّي ، هُوَ مِنْ أَثْلِ الْغَابَةِ ، عَمِلَهُ فُلَانٌ مَوْلَى فُلَانَةَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَقَامَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ عُمِلَ وَوُضِعَ ، فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ كَبَّرَ وَقَامَ النَّاسُ خَلْفَهُ ، فَقَرَأَ وَرَكَعَ وَرَكَعَ النَّاسُ خَلْفَهُ ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ ، ثُمَّ رَجَعَ الْقَهْقَرَى فَسَجَدَ عَلَى الْأَرْضِ ، ثُمَّ عَادَ إِلَى الْمِنْبَرِ ، ثُمَّ رَكَعَ ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ ، ثُمَّ رَجَعَ الْقَهْقَرَى حَتَّى سَجَدَ بِالْأَرْضِ ، فَهَذَا شَأْنُهُ ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ : قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ : سَأَلَنِي أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ رَحِمَهُ اللَّهُ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ ، قَالَ : فَإِنَّمَا أَرَدْتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عْلَى مِنَ النَّمسِ ، فَلَا بَأْسَ أَنْ يَكُونَ الْإِمَامُ أَعْلَى مِنَ النَّاسِ بِهَذَا الْحَدِيثِ ، قَالَ : فَقُلْتُ : إِنَّ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ كَانَ يُسْأَلُ عَنْ هَذَا كَثِيرًا فَلَمْ تَسْمَعْهُ مِنْهُ ، قَالَ : لَا .

راقم کہتا ہے اس مقام پر رحمہ اللہ کے الفاظ  متن میں تحریف  ہیں   کیونکہ زندہ  کو کوئی مرحوم نہیں کہتا

امام بخاری نے علی المدینی کا قول نقل کیا اور علی المدینی نے زندہ احمد کو  رحمہ اللہ کہا

اب سوال ہے
اول امام احمد کا اس وقت انتقال  ہو چکا تھا یا حیات تھے  ؟ زندہ پر کوئی اس طرح رحمت کی دعا نہیں کرتا اکثر مردوں پر کی جاتی ہے
علی المدینی کا تو احمد سے بھی پہلے انتقال ہو گیا تھا

دوسرا سوال ہے کہ بعض الناس  کے بقول امام بخاری نے صحیح مرتب کرنے کے بعد اس کو امام احمد پر پیش کیا
کیا اس میں یہ الفاظ اس وقت لکھے ہوئے تھے؟
زندہ شخص کو اگر آج بھی کوئی مرحوم کہہ دے تو وہ ناراض ہو  جاتا ہے جبکہ مرحوم کا مطلب ہے اس پر رحم ہو، جو دعا ہے

یہ الفاظ ہر متن میں نہیں بلکہ اس اقتباس کا حوالہ ابن اثیر المتوفي ٦٠٦ نے جامع الأصول في أحاديث الرسول مين بھی دیا ہے اور رحمہ اللہ علیہ نہیں لکھا
قال البخاري: قال علي بن عبد الله (2) : سألني أحمد بن حنبل عن هذا الحديث؟ وقال: إنما أردتُ أن النبيَّ – صلى الله عليه وسلم- كان أعلى من الناس، فلا بأس أن يكون الإمام أعلى من الناس بهذا الحديث، قال: فقلت له: إن سفيانَ بن عيينة كان يُسألُ عن هذا كثيراً فلم تسمعه منه؟ قال: لا

حمیدی ٤٨٨ ھ نے الجمع بين الصحيحين البخاري ومسلم میں اس اقتباس کا ذکر کیا ہے
قَالَ أَبُو عبد الله البُخَارِيّ: قَالَ عَليّ بن عبد الله: سَأَلَني أَحْمد بن حَنْبَل عَن هَذَا الحَدِيث، وَقَالَ: إِنَّمَا أردْت أَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم كَانَ أَعلَى من النَّاس، فَلَا بَأْس أَن يكون الإِمَام أَعلَى من النَّاس بِهَذَا الحَدِيث. قَالَ: فَقلت لَهُ: إِن سُفْيَان بن عُيَيْنَة كَانَ يسْأَل عَن هَذَا كثيرا، فَلم تسمعه مِنْهُ؟ قَالَ: لَا

یعنی حمیدی اور ابن اثیر کے دور تک یعنی ٦٠٦ ہجری تک صحیح بخاری کے متن میں یہاں احمد کے نام کے ساتھ رحمہ اللہ نہیں لکھا تھا اس کو بعد میں ڈالا گیا ہے

اہل بیت کی خفیہ تحریریں

کیا قرن اول میں شیعأن علي کوئی خفیہ سوسائٹی تھی؟ جس کے گرینڈ ماسٹر علی رضی الله عنہ تھے ؟ راقم إس قول کو رد کرتا ہے لیکن قابل غور ہے کہ علی کے حوالے سے اس خفیہ علم کا ذکر ہوتا رہتا ہے جو بقول اہل تصوف اور اہل تشیع صرف خواص کے لئے تھا عوام کے لئے نہ تھا- اہل تشیع کے بعض جہلاء کی جانب سے یہ پروپیگنڈا بھی سننے کو ملتا رہتا ہے کہ علی رضی الله عنہ کے پاس کوئی خفیہ قرآن تھا جس کو وہ چھپا کر رکھتے تھے اور کہتے تھے اس کو قیامت تک کوئی نہ دیکھ سکے گا – کہا جاتا ہے اس وقت یہ قرآن سر من رأى – سامراء العراق میں کسی غار
میں امام المھدی کے پاس ہے جو وقت انے پر ظاہر کیا جائے گا – اس خفیہ قرآن کی خبر اہل سنت کی کتب میں بھی در کر آئی ہیں جس کا ذکر امام الحاکم کرتے ہیں

مستدرک حاکم ميں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ مُصْلِحٍ الْفَقِيهُ بِالرِّي، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَيُّوبَ، ثَنَا يَحْيَى بْنُ الْمُغِيرَةِ السَّعْدِيُّ، ثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَبْدِ اللهِ النَّخَعِيِّ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ صُبَيْحٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، رَضِيَ
اللَّهُ عَنْه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ: كِتَابَ اللهِ، وَأَهْلَ بَيْتِي، وَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ.
هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الإِسْنَادِ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ.
زيد بن ارقم رضي الله عنہ سے مروي ہے کہ رسول الله صلي الله عليہ وسلم نے فرمايا ميں دو بوجھ چھوڑ رہا ہوں کتاب الله  اور ميرے اہل بيت اور يہ دونوں جدا نہ ہوں گے يہاں تک کہ يہ ميرے حوض پر مجھ سے مليں گے
امام حاکم کہتے ہيں کہ يہ حديث صحيح الاسناد ہے بخاري و مسلم کي شرط پر ہے

سند ميں الْحَسَنِ بْنِ عَبْدِ اللهِ النَّخَعِيِّ نامعلوم و مجہول ہے

مستدرک حاکم کي ایک اور روايت ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَفِيدُ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ نَصْرٍ، ثنا عَمْرُو بْنُ طَلْحَةَ الْقَنَّادُ، الثِّقَةُ الْمَأْمُونُ، ثنا عَلِيُّ بْنُ هَاشِمِ بْنِ الْبَرِيدِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي ثَابِتٍ، مَوْلَى أَبِي ذَرٍّ قَالَ: كُنْتُ مَعَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَوْمَ الْجَمَلِ، فَلَمَّا رَأَيْتُ عَائِشَةَ وَاقِفَةً دَخَلَنِي بَعْضُ مَا يَدْخُلُ النَّاسَ، فَكَشَفَ اللَّهُ عَنِّي ذَلِكَ عِنْدَ صَلَاةِ الظُّهْرِ، فَقَاتَلْتُ مَعَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ، فَلَمَّا فَرَغَ ذَهَبْتُ إِلَى الْمَدِينَةِ فَأَتَيْتُ أُمَّ سَلَمَةَ فَقُلْتُ: إِنِّي وَاللَّهِ مَا جِئْتُ أَسْأَلُ طَعَامًا وَلَا شَرَابًا وَلَكِنِّي مَوْلًى لِأَبِي ذَرٍّ، فَقَالَتْ: مَرْحَبًا فَقَصَصْتُ عَلَيْهَا قِصَّتِي، فَقَالَتْ: أَيْنَ كُنْتَ حِينَ طَارَتِ الْقُلُوبُ مَطَائِرَهَا؟ قُلْتُ: إِلَى حَيْثُ كَشَفَ اللَّهُ ذَلِكَ عَنِّي عِنْدَ زَوَالِ الشَّمْسِ، قَالَ:
أَحْسَنْتَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «عَلِيٌّ مَعَ الْقُرْآنِ وَالْقُرْآنُ مَعَ عَلِيٍّ لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَأَبُو سَعِيدٍ التَّيْمِيُّ هُوَ عُقَيْصَاءُ ثِقَةٌ مَأْمُونٌ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ “

ابو ثابت مولي ابو ذر نے کہا ميں جمل ميں علي کے ساتھ تھا ليکن جب ميں نے عائشہ کو ديکھا اور ان کو پہچان گيا …. پس الله نے ميرا دل نماز ظہر پر کھول ديا اور ميں نے علي کے ساتھ قتال کيا پس جب فارغ ہوا ميں مدينہ ام سلمہ کے پاس پہنچا انہوں نے مرحبا کہا اور ميں نے قصہ ذکر کيا … ميں نے تذکرہ کيا کہ الله نے مجھ پر زوال کے وقت (حق کو) کشف کيا – پس ام سلمہ نے کہا اچھا کيا ميں نے رسول الله سے سنا ہے کہ علي قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علي کے ساتھ ہے يہ الگ نہ ہوں گے يہاں تک کہ حوض پر مليں گے
امام حاکم نے کہا يہ حديث صحيح الاسناد ہے

سند ميں علي بن هاشم بن البريد ہے جس کو شيعي غال کہا گيا ہے

الکامل از ابن عدي ميں ہے
وَعلي بْن هاشم هُوَ من الشيعة المعروفين بالكوفة ويروي فِي فضائل علي أشياء لا يرويها غيره بأسانيد مختلفة وقد حدث عنه جماعة من الأئمة، وَهو إن شاء الله صدوق في روايته
علي بْن هاشم کوفہ کے معروف شيعوں ميں سے ہے جو فضائل علي ميں وہ چيزيں روايت کرتا ہے جو کوئي اور نہيں کرتا مختلف اسناد سے اور اس سے ائمہ کي جماعت نے روايت کيا ہے اور يہ
صدوق ہے

ابن حبان نے کہا
كان غاليا في التشيع وروى المناكير عن المشاهير
يہ غالي شيعہ ہے

سؤالات الحاكم ” للدارقطني: هاشم بن البريد ثقة مأمون وابنه علي كذاب
دارقطني کہتے ہيں علي بن هاشم بن البريد کذاب ہے

یہ روایات غالی شیعوں کی بیان کردہ ہیں لیکن امام حاکم نے اپنی حالت اختلاط میں منکر و موضوع روایات تک کو صحیح قرار دے دیا تھا جس کی وجہ سے مستدرک عجیب و غریب روایات کا
مجموعہ بن گئی اور اہل سنت میں شیعیت کو فروغ ملا –

اب ہم اہل تشیع کے معتبر ذرائع کو دیکھتے ہیں کہ علی کے پاس کیا کیا علوم تھے – الکافي از کليني باب النوادر کي حديث 23 ہے

محمد بن يحيى، عن محمد بن الحسين، عن عبدالرحمن بن أبي هاشم، عن سالم بن سلمة قال: قرأ رجل على أبي عبدالله عليه السلام وأنا أستمع حروفا من القرآن ليس على ما يقرؤها الناس، فقال أبوعبدالله عليه السلام: كف عن هذه القراء ة اقرأ كما يقرأ الناس حتى يقوم القائم فإذا قام القائم عليه السلام قرأ كتاب الله عزو جل على حده وأخرج المصحف الذي كتبه علي عليه السلام وقال: أخرجه علي عليه السلام إلى الناس حين فرغ منه وكتبه فقال لهم: هذا كتاب الله عزوجل كما أنزله [الله] على محمد صلى الله عليه وآله وقد جمعته من اللوحين فقالوا: هو ذا عندنا مصحف جامع فيه القرآن لا حاجة لنا فيه، فقال أما والله ما ترونه بعد يومكم هذا أبدا، إنما كان علي أن اخبركم حين جمعته لتقرؤوه.

سالم بن سلمة نے کہا امام ابو عبد الله کے سامنے کسي شخص نے قرات کي اور ميں سن رہا تھا قرآن کے وہ حروف تھے جو لوگ قرات نہيں کرتے پس امام ابو عبد الله نے فرمايا اس قرات سے رک جاو ايسا ہي پڑھو جيسا لوگ پڑھتے ہيں يہاں تک کہ القائم کھڑے ہوں گے تو کتاب الله کي قرات اس کي حد تک کريں گے اور وہ مصحف نکاليں گے جو علي نے لکھا تھا اور کہا جب علي نے مصحف لکھ کر مکمل کيا اس سے فارغ ہوئے اس کو لوگوں کے پاس لائے اور کہا يہ کتاب الله ہے جو اس نے محمد پر نازل کي اور اس کو انہوں نے الواح ميں جمع کيا تو لوگوں نے کہا وہ جو مصحف ہمارے پاس ہے وہ جامع ہے ہميں اس کي ضرورت نہيں پس علي نے کہا الله کي قسم آج کے بعد اس کو کبھي نہ ديکھو گے يہ ميرے پاس تھا اب جب تم جمع کر رہے ہو تو ميں نے خبر دي کہ اس کو پڑھو

اس روايت کا راوي سالم شيعہ محققين کے نزديک مجہول ہے – الخوئي کتاب معجم رجال الحديث ميں کہتے ہيں

سالم بن سلمة :
روى عن أبي عبدالله عليه السلام ، وروى عنه عبدالرحمان بن أبي
هاشم . الكافي : الجزء 2 ، كتاب فضل القرآن 3 باب النوادر 13 الحديث 23 .
ـ 22 ـ
أقول كذا في الوافي والطبعة المعربة من الكافي ايضا ولكن في الطبعة
القديمة والمرآة : سليم بن سلمة ، ولا يبعد وقوع التحريف في الكل والصحيح
سالم أبوسلمة بقرينة الراوي والمروي عنه .

سالم بن سلمة يہ ابو عبد الله سے روايت کرتا ہے اور اس سے عبدالرحمان بن أبي
هاشم . الكافي : الجزء 2 ، كتاب فضل القرآن 3 باب النوادر 13 الحديث 22 اور 23 ميں

ميں کہتا ہوں ايسا ہي الوافي ميں اور الکافي کي الطبعة المعربة ميں ہے ليکن جو قديم طباعت ہے اس ميں ہے سليم بن سلمة اور يہ بعيد نہيں کہ يہ تحريف ہو الکل ميں اور صحيح ہے کہ سالم ابو سلمہ ہے راوي اور مروي عنہ کے قرينہ سے

الخوئي نے اس راوي کو سالم بن سلمة، أبو خديجة الرواجنى سے الگ کيا ہے جو طوسي کے نزديک ثقہ ہے ليکن الخوئي کے نزديک مجہول ہے

معلوم ہوا کہ تحريف قرآن سے متعلق يہ روايت ہي ضعيف ہے

سالم بن سلمة نام کے شخص کي يہ الکافي ميں واحد روايت ہے جس کا ترجمہ ہي کتب رجال شيعہ ميں نہيں ہے

الکافي کي روايت ہے

محمد بن يحيى، عن أحمد بن محمد، عن علي بن الحكم، عن عبدالله بن فرقد والمعلى بن خنيس قالا: كنا عند أبي عبدالله عليه السلام ومعنا ربيعة الرأي فذكرنا فضل القرآن فقال أبوعبدالله عليه السلام: إن كان ابن مسعود لا يقرأ على قراء تنا فهو ضال، فقال ربيعة: ضال؟ فقال: نعم ضال، ثم قال أبوعبدالله عليه السلام: أما نحن فنقرأ على قراء ة أبي
ابو عبد الله نے کہا ان کے ساتھ (امام مالک کے استاد اہل سنت کے امام ) ربيعة الرأي تھے پس قرآن کي فضيلت کا ذکر ہوا تو ابو عبد الله نے کہا اگر ابن مسعود نے بھي وہ قرات نہيں کي جو ہم نے کي تو وہ گمراہ ہيں – ربيعة الرأي نے کہا گمراہ ؟ امام نے کہا جہاں تک ہم ہيں تو ہم ابي بن کعب کي قرات کرتے ہيں

حاشيہ ميں محقق کہتے ہيں
يدل على أن قراء ة ابى بن كعب أصح القراء ات عندهم عليهم السلام
يہ دليل ہوئي کہ ابي بن کعب کي قرات امام ابو عبد الله کے نزديک سب سے صحيح قرات تھي

اس کي سند ميں معلى بن خنيس ہے نجاشي نے اس کا ذکر کيا ہے
قال النجاشي : ” معلى بن خنيس ، أبوعبدالله : مولى ( الصادق ) جعفر بن
محمد عليه السلام ، ومن قبله كان مولى بني أسد ، كوفي ، بزاز ، ضعيف جدا ،
لا يعول عليه ، له كتاب يرويه جماعة

دوسرا شخص عبدالله بن فرقد ہے اس پر بھي شيعہ کتب رجال ميں کوئي معلومات نہيں ہيں

کتاب الکافی میں مذکور ہے کہ امام جعفر صادق نے فرمایا ہے

عدة من أصحابنا، عن أحمد بن محمد، عن عبدالله بن الحجال، عن أحمد بن عمر الحلبي، عن أبي بصير قال: دخلت على أبي عبدالله عليه السلام فقلت له: جعلت فداك إني أسألك عن مسألة، ههنا أحد يسمع كلامي(1)؟ قال: فرفع أبوعبد عليه السلام سترا بينه وبين بيت آخر فأطلع فيه ثم قال: يا أبا محمد سل عما بدا لك، قال: قلت: جعلت فداك إن شيعتك يتحدثون أن رسول الله صلى الله عليه وآله علم عليا عليه السلام بابا يفتح له منه ألف باب؟ قال: فقال: يا أبا محمد علم رسول الله صلى الله عليه وآله عليا عليه السلام ألف باب يفتح من كل باب ألف باب قال: قلت: هذا والله العلم قال: فنكت ساعة في الارض ثم قال: إنه
لعلم وما هو بذاك.قال: ثم قال: يا أبا محمد وإن عندنا الجامعة وما يدريهم ما الجامعة؟ قال: قلت: جعلت فداك وما الجامعة؟ قال: صحيفة طولها سبعون ذراعا بذراع رسول الله صلى الله عليه وآله وإملائه(2) من فلق فيه وخط علي
بيمينه، فيها كل حلال وحرام وكل شئ يحتاج الناس إليه حتى الارش في الخدش وضرب بيده إلي فقال: تأذن لي(3) يا أبا محمد؟ قال: قلت: جعلت فداك إنما أنا لك فاصنع ما شئت، قال: فغمزني بيده وقال: حتى
أرش هذا – كأنه مغضب – قال: قلت: هذا والله العلم(4) قال إنه لعلم وليس بذاك.
ثم سكت ساعة، ثم قال: وإن عندنا الجفر وما يدريهم ما الجفر؟ قال قلت: وما الجفر؟ قال: وعاء من أدم فيه علم النبيين والوصيين، وعلم العلماء الذين مضوا من بني إسرائيل، قال قلت: إن هذا هو العلم، قال: إنه
لعلم وليس بذاك.ثم سكت ساعة ثم قال: وإن عندنا لمصحف فاطمة عليها السلام وما يدريهم ما مصحف فاطمة عليها السلام؟ قال: قلت: وما مصحف فاطمة عليها السلام؟ قال: مصحف فيه مثل قرآنكم هذا ثلاث مرات، والله ما فيه
من قرآنكم حرف واحد، قال: قلت: هذا والله العلم قال: إنه لعلم وما هو بذاك.

ابو بصیر کہتے ہیں کہ میں امام جعفر صادق کی خدمت میں حاضر ہو ا اور عر ض کی : میں آپ سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کیا یہا ں کوئی اور شخص تو موجود نہیں ہے جو میری بات سن رہا ہو ؟ امام جعفر صادق نے اپنے کمرے اور دوسرے کمرے میں پڑے ہو ئے پر دہ کو اٹھا کر دیکھا اور پھر فرمایا ابو محمد تمہیں جو کچھ پو چھنا ہو پو چھو ؛میں نے عر ض کی میں آپ پر قربان جاوُں شیعہ ایک حد یث بیان کر تے ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے حضر ت علی کو ایک علم کے باب کی تعلیم دی جس سے علم کے ہزار باب کھل گئے تھے پھر میں نے کہا خدا کی قسم کیا یه کامل اور
حقیقی علم ہے ،امام صادق کچھ دیر سو چتے رہے اور پھر فرمایا ! وہ علم ہے لیکن پھر بھی وہ کامل علم نہیں ہے

پھر آپ نے فرمایا . ابو محمد ہما رے پاس جامعہ ہے لیکن لوگوں کو کیا پتہ کہ جامعہ کیا ہے ؟جواب میں آپ نے کہا : وہ ایک ایسی کتا ب ہے جس کا طو ل( ہاتھ کی لمبائی ) پیغمبر(ص) کے مطابق ستر ہاتھ لمبا ہے رسول خدا نے اسے املا کیا ا ور حضر ت علی نے اسے لکھا، اس میں تمام حلال و حرام اور لوگوں کی جملہ دینی ضروریات حتیٰ کہ خراش لگانے کے جرمانہ تک کا ذکر ہے ، پھر آپ نے اپنا ہاتھ میرے بدن پر مار کر فرمایا : ابو محمد کیا تم مجھے اس کی اجازت دیتے ہو ؟

میں نے کہا ؛ میں آپ ہی کا جزو ہوں آپ جو چاہیں انجام دیں آپ کو اس کا اختیار حاصل ہے ، پھر آپ نے میرے جسم پر چٹکی کاٹی اور فرمایا کہ اس چٹکی کاٹنے کی دیت اور جرمانہ بھی جامعہ میں موجود ہے . آپ نے یہ الفاظ کہے اور آپ اس وقت غصے میں دکھائی دے رہے تھے ، میں نے کہا خدا کی قسم ! یہ کامل علم ہے۔ آپ نے فرمایا ! یہ علم ہے لیکن پھر بھی یہ کا مل علم نہیں ہے ،پھرآپ کچھ دیر تک خاموش رہے اور فرمایا : ہمارے پاس جفر ہے لوگ کیا جانیں کہ جفر کیا ہے ؟میں نے کہا کہ جفر کیا ہے ؟

آپ نے فرمایا : وہ چمڑے کا ایک مخزن ہے جس میں سابقہ انبیاء و اوصیاء اور علمائے بنی اسرائیل کا علم ہے میں نے عرض کیا:یہ علم کامل ہے۔ آپ نے فرمایا ! یہ علم ہے لیکن یہ بھی کا مل علم نہیں ہے ،پھرآپ کچھ دیر تک خاموش رہے اور فرمایا : و ان عندنا لمصحف فاطمہ علیہا السلام ؛

ہما رے پاس مصحف فاطمہ ہے لیکن لوگوں کو کیا پتہ کہ مصحفِ فاطمہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا وہ ایک ایسا مصحف ہے جو تمہارے ہاتھوں میں مو جود قرآن مجید سے تین گنا بڑ ا ہے خدا کی قسم اس میں تمہا رے قرآن مجید کا ایک بھی حرف نہیں ہے ؛

میں نے عرض کیا ؛ کیا یه کامل علم ہے ؟آپ نے فر مایا ؛ یه بھی علم ہے لیکن کامل علم نہیں ہے ،پھرآپ کچھ دیر تک خاموش رہے اور فرمایا ہما رے پاس گزشتہ اور قیا مت کے دن تک آنے والے حالات کا علم موجود ہے میں نے عرض کیا:یہ کامل علم ہے ؟ آ پ نے فرمایا ؛ یہ بھی علم ہے لیکن کا مل علم نہیں ہے میں نے پو چھا کہ کامل علم کیا ہے؟ آپ نے فر مایا: علم کامل وہ علم ہے جو روزانہ دن رات میں ایک عنوان کے بعد دوسر ے عنوان اور ایک چیز کے بعد دوسری  چیز کے بارے میں سامنے آتا رہتا ہے اور جو قیا مت تک ظاہر ہوتا رہے گا

اس کی سند میں عبدالله بن الحجال ہے جو مجہول ہے

الکافی کی روایت ہے
عدة من أصحابنا، عن أحمد بن محمد، عن علي بن الحكم، عن الحسين ابن أبي العلاء قال: سمعت أبا عبدالله عليه السلام يقول: إن عندي الجفر الابيض، قال: قلت: فأي شئ فيه؟ قال: زبور داود، وتوراة موسى،
وإنجيل عيسى، وصحف ابراهيم عليهم السلام والحلال والحرام، ومصحف فاطمة، ما أزعم أن فيه قرآنا، وفيه ما يحتاج الناس إلينا ولا نحتاج إلى أحد حتى فيه الجلدة، ونصف الجلدة، وربع الجلدة وأرش الخدش.
وعندي الجفر الاحمر، قال: قلت: وأي شئ في الجفر الاحمر؟ قال: السلاح وذلك إنما يفتح للدم يفتحه صاحب السيف للقتل، فقال له عبدالله ابن أبي يعفور: أصلحك الله أيعرف هذا بنو الحسن؟ فقال: إي والله كما
يعرفون الليل أنه ليل والنهار أنه نهار ولكنهم يحملهم الحسد وطلب الدنيا على الجحود والانكار، ولو طلبوا الحق بالحق لكان خيرا لهم.

الحسين ابن أبي العلاء نے کہا میں نے امام جعفر سے سنا وہ کہہ رہے تھے میرے پاس سفید جفر ہے – میں نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ فرمایا داود کی زبور اور موسی کی توریت اور عیسیٰ کی انجیل اور ابراہیم کا مصحف ہے اور حلال و حرام ہے اور مصحف فاطمہ ہے میں یہ دعوی نہیں کرتا کہ اس میں قرآن ہے لیکن اس میں ہے وہ ہے جس کو لوگوں کو حاجت ہے اور ہمیں اس کی بنا پر کسی کی حاجت نہیں … اور میرے پاس جفر سرخ ہے میں نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ فرمایا : اسلحہ ہے جس سے خون کھولا جاتا ہے اور تلوار والا قتل کرتا ہے اس پر عبدالله ابن أبي يعفور نے امام
جعفر سے کہا الله اصلاح کرے اپ کو بنو الحسن کی حرکت کا علم ہے ؟ فرمایا ہاں الله کی قسم جیسے تم رات کو جانتے ہو کہ رات ہے اور دن کو کہ دن ہے لیکن انہوں نے حسد کو اور طلب دنیا
کو لیا ہے اگر حق کو حق سے طلب کرتے تو اچھا ہوتا

اس کی سند میں الحسين ابن أبى العلاء الخفاف أبو على الاعور یا الخصاف أبو على الاعور ہے – اس کا ایک نام أبو العلاء الحسين ابن أبي العلاء خالد بن طهمان العامري بھی بیان کیا جاتا ہے اس کا ایک
نام الزندجي أبو علي بھی بیان کیا گیا ہے
راقم کہتا ہے یہ شخص مجہول ہے – التحرير الطاووسى کے مولف حسن صاحب المعالم شیعہ عالم کا کہنا ہے
فيه نظر عندي لتهافت الاقوال فيه
اس راوی پر نظر ہے اس کے بارے میں بے شمار (متخالف ) اقوال کی وجہ سے

یعنی اہل تشیع اس راوی کا تعین نہیں کر سکے ہیں اور تین نام کے مختلف قبائل کے لوگوں کو ملا کر ان کے علماء کا دعوی ہے کہ ایک شخص ہے – حقیقت یہ ہے کہ اس کے بارے میں کوئی یقینی
قول نہیں کہ کون ہے

الکافی کی ایک اور روایت ہے

علي بن إبرإهيم، عن محمد بن عيسى، عن يونس، عمن ذكره، عن سليمان بن خالد قال: قال أبوعبدالله عليه السلام: إن في الجفر الذي يذكرونه(1) لما يسوؤهم، لانهم لا يقولون الحق(2) والحق فيه، فليخرجوا
قضايا علي وفرائضه إن كانوا صادقين، وسلوهم عن الخالات والعمات(3)، وليخرجوا مصحف فاطمة عليها السلام، فإن فيه وصية فاطمة عليها السلام، ومعه(4) سلاح رسول الله صلى الله عليه وآله: إن الله
عزوجل يقول: ” فأتوا بكتاب من قبل هذا أو أثارة من علم إن كنت صادقين

سليمان بن خالد نے کہا امام جعفر نے مصحف فاطمہ نکالا جس میں فاطمہ کی وصیت تھی اور ان کے پاس رسول الله صلی الله علیہ و اله کا اسلحہ تھا

اس کی سند میں عمن ذكره، لوگ مجہول ہیں

الکافی کی ایک اور روایت ہے

عدة من أصحابنا، عن أحمد بن محمد، عن عمر بن عبدالعزيز، عن حماد بن عثمان قال: سمعت أبا عبدالله عليه السلام يقول: تظهر الزنادقة في سنة ثمان وعشرين ومائة وذلك أني نظرت في مصحف فاطمة
عليها السلام، قال: قلت: وما مصحف فاطمة؟ قال: إن الله تعالى لما قبض نبيه صلى الله عليه وآله دخل على فاطمة عليها السلام من وفاته من الحزن ما لا يعلمه إلا الله عزوجل فأرسل الله إليها ملكا يسلي غمها
ويحدثها، فشكت ذلك(1) إلى أمير المؤمنين عليه السلام فقال: إذا أحسست بذلك وسمعت الصوت قولي لي فأعلمته بذلك فجعل أمير المؤمنين عليه السلام يكتب كلما سمع حتى أثبت من ذلك مصحفا قال: ثم قال: أما
إنه ليس فيه شئ من الحلال والحرام ولكن فيه علم ما يكون.

حماد بن عثمان نے کہا میں نے امام جعفر المتوفی ١٤٥ ھ کو کہتے سنا الزنادقة سن ١٢٨ میں ظاہر ہوئے اور اس وقت میں مصحف فاطمہ دیکھ رہا تھا – میں نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ فرمایا جب الله تعالی نے اپنے نبی کی روح قبض کی وہ فاطمہ کے گھر میں داخل ہوئے اور وہاں رہے جس کو علم صرف اللہ کو ہے اس وقت اللہ نے ایک فرشتہ بھیجا جو ان کے غم کو دور کرے (علی کو اس پر خبر دیر سے ہوئی) اس پر علی نے شکوہ کیا اور کہا اگر مجھے احساس ہوتا اور (فرشتے کی) آواز سن لی ہوتی تو میں اس علم کو جان جاتا- پس علی نے وہ لکھا جو سنا (یعنی جو فرشتہ نے علم دیا
س کا آدھا پونا لکھا) اس کو مصحف میں ثبت کیا – امام جعفر نے کہا اس میں نہ صرف حلال و حرام ہے بلکہ اس کا علم بھی ہے جو ہو گا

کہا جاتا ہے کہ سند میں حماد بن عثمان بن عمرو بن خالد الفزاري ہے – اس کا سماع امام جعفر سے نہیں ہے کیونکہ بصائر الدرجات کے مطابق یہ حماد بن عثمان اصل میں عمر بن يزيد کی سند سے
امام جعفر سے روایت کرتا ہے دوم سند میں عمر بن عبدالعزيز أبوحفص بن أبي بشار المعروف بزحل ہے قال النجاشي انه مختلط
الفضل بن شاذان کا کہنا ہے أبو حفص يروى المناكير
معلوم ہوا سند ضعیف ہے انقطاع بھی ہے

الغرض علی رضی الله عنہ کےپاس کوئی الگ  علم خواص نہ تھا جو اور اصحاب رسول کو معلوم نہ ہو اور نہ ہی کوئی الگ قرآن تھا بلکہ اس کی تمام خبریں غالیوں کی بیان کردہ ہیں جو  مجہول و غیر معروف یا مختلط یا ضعیف  راوی ہیں

اہل بیت کی انگوٹھیاں

انگوٹھی پر آیات یا اسماء الحسنی کندہ کروانا

صحیح احادیث کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ایک انگوٹھی تھی جس پر محمد رسول الله کندہ تھا -اس کو اپ صلی الله علیہ وسلم  بطور مہر استعمال کرتے تھے- لیکن بعد میں یہ انگوٹھی   عثمان رضی الله عنہ سے مدینہ میں  اریس نامی ایک کنواں میں گر گئی اور ملی نہیں

کتب اہل سنت

طبقات الکبری از ابن سعد  کی روایت ہے

قَالَ: أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ الْكِلابِيُّ قَالَ: أَخْبَرَنَا مُعْتَمِرٌ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الشَّيْبَانِيِّ قَالَ: قَرَأْتُ نَقْشَ خَاتَمِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ فِي صُلْحِ أَهْلِ الشَّامِ: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ.

ابی اسحٰق الشیبانی نے کہا میں نے علی کی انگوٹھی پر نقش اہل شام سے صلح کے وقت دیکھا اس پر لکھا تھا محمد رسول الله

سند میں أَبُو إِسْحَاقَ الشَّيْبَانِيُّ  الكوفي ہے جس کو سُلَيْمَانُ بْنُ فَيْرُوزَ یا  سُلَيْمَانُ ابْنُ خَاقَانَ یا سلَيْمَان بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ بھی کہا جاتا ہے  – اس نے علی کو نہیں پایا اور  اس طرح کی انگوٹھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تھی جو معدوم ہوئی- کتاب  إمتاع الأسماع بما للنبي من الأحوال والأموال والحفدة والمتاع از  المقريزي (المتوفى: 845هـ) کے محقق   محمد عبد الحميد النميسي کہتے ہیں

 قال أحمد بن يحى بن جابر: نسبت إلى أريس رجل من المدينة من اليهود، عليها مال لعثمان بن عفان رضى اللَّه عنه، وفيها سقط خاتم النبي صلّى اللَّه عليه وسلّم من يد عثمان، في السنة السادسة من خلافته، واجتهد في استخراجه بكل ما وجد إليه سبيلا، فلم يوجد إلى هذه الغاية، فاستدلوا بعد به على حادث في الإسلام عظيم

احمد بن یحیی بن جابر نے کہا : اس کنواں کی نسبت اریس کی طرف ہے جو مدینہ کا ایک یہودی تھا اور اس پر عثمان کا مال لگا اور کنواں میں رسول الله صلّى اللَّه عليه وسلّم  کی مہر عثمان کے ہاتھ سے گری ان کی خلافت کے چھٹے سال اور انہوں نے اس کو نکلالنے کا اجتہاد کیا لیکن کوئی سبیل نہ پائی اس میں کامیاب نہ ہوئے اور اس پر استدلال کیا گیا کہ یہ  اسلام کا ایک عظیم حادثہ ہے

یعنی محمد رسول الله کے الفاظ سے کندہ کرائی انگوٹھی کھو گئی تھی- رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بعد کسی کے لئے یہ جائز  نہیں تھا کہ وہ اس طرح کی انگوٹھی اپنے لئے  بناتا

سنن ترمذی میں ہے

حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الخَلَّالُ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، “أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَنَعَ خَاتَمًا مِنْ وَرِقٍ، فَنَقَشَ فِيهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ”، ثُمَّ قَالَ: “لَا تَنْقُشُوا عَلَيْهِ”: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَمَعْنَى قَوْلِهِ: “لَا تَنْقُشُوا عَلَيْهِ”، نَهَى أَنْ يَنْقُشَ أَحَدٌ عَلَى خَاتَمِهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ

رسول الله نے حکم دیا اس نقش (محمد رسول الله) کو  کوئی اور کندہ نہ کروائے

طبقات الکبری از ابن سعد  کی روایت ہے

قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبَانُ بْنُ قَطَنٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ أَبِيهِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى: أَنَّ

عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ تَخَتَّمَ فِي يَسَارِهِ

عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى  نے کہا علی سیدھے ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے

اس کی سند میں محمد بن عبد الرحمن بن أبي ليلى ہے جس کو امام احمد نے  مضطرب الحديث قرار دیا ہے

قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أُوَيْسٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلالٍ عَنْ جعفر بن محمد عَنْ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيهِ: أَنَّ عَلِيًّا تَخَتَّمَ فِي الْيَسَارِ.

جعفر بن محمد نے علی سے انہوں نے باپ سے روایت کیا کہ علی سیدھے ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے

معجم ابن الأعرابي از أبو سعيد بن الأعرابي أحمد بن محمد بن زياد بن بشر بن درهم البصري الصوفي (340هـ) کی روایت ہے

نا مُحَمَّدٌ الْغَلَابِيُّ، نا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى بْنِ زَيْدٍ قَالَ: حَدَّثَنِي عَمِّي الْحُسَيْنُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَ نَقْشُ خَاتَمِ عَلِيٍّ «الْمُلْكُ لِلَّهِ، عَلِيٌّ عَبْدُهُ»

جعفر بن محمد نے علی سے انہوں نے باپ سے روایت کیا کہ علی   انگوٹھی پہنتے تھے جس پر نقش تھا الله  کے لئے بادشاہت ہے علی اس کا بندہ ہے

سند میں امام جعفر ہیں جو   روایت حدیث میں مضطرب ہیں

طبقات الکبری از ابن سعد  کی روایت ہے

[قَالَ: أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى الأَشْيَبُ وَعَمْرُو بْنُ خَالِدٍ الْمِصْرِيُّ قَالا: أَخْبَرَنَا زُهَيْرٌ عَنْ جَابِرٍ الْجُعْفِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ: كَانَ نَقْشُ خَاتَمِ عَلِيٍّ: اللَّهُ الْمَلِكُ] . [قَالَ: أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى قَالَ: أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ جَابِرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ: كَانَ نَقْشُ خَاتَمِ عَلِيٍّ: اللَّهُ الْمَلِكُ] .

جابر جعفی نے  ابن حنفیہ سے روایت کیا کہ علی کی انگوٹھی پر لکھا تھا الله الملک

اس کی سند میں جابر جعفی سخت ضعیف ہے

کتب اہل تشیع

مستدرك سفينة البحار از   علي النمازي میں ہے

عن الصّادق، عن أبيه(عليهما السلام): إنّ خاتم رسول الله(صلى الله عليه وآله) كان من فضّة ونقشه «محمّد رسول الله». قال: وكان نقش خاتم عليّ(عليه السلام): الله الملك. وكان نقش خاتم والدي رضي الله عنه: العزّة لله

امام جعفر صادق  نے باپ سے روایت کیا کہ رسول الله صلى الله عليه وآله کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس پر نقش تھا محمد رسول الله اور علی کی انگوٹھی پر نقش تھا الله الملک اور  امام جعفر کے باپ کی انگوٹھی پر نقش تھا عزت الله کی ہے

مستدرك سفينة البحار از   علي النمازي میں ہے

الكافي: عن أبي عبدالله(عليه السلام) قال: في خاتم الحسن والحسين الحمدلله(3).

وعن الرّضا(عليه السلام): كان نقش خاتم الحسن: العزّةلله، وخاتم الحسين: إنّ الله بالغ أمره(4).

الکافی از کلینی میں ہے ابو عبد الله سے روایت ہے کہ امام حسن و حسین کی انگوٹھی پر کندہ تھا الحمد للہ اور امام رضا سے روایت ہے حسن کی انگوٹھی پر لکھا تھا العزّةلله، اور حسین کی انگوٹھی پر لکھا تھا إنّ الله بالغ أمره

قرآن کی آیت إنّ الله بالغ أمره سورہ طلاق میں ہے

مستدرك سفينة البحار از   علي النمازي میں ہے

أمالي الصدوق: عن الباقر(عليه السلام): كان للحسين بن عليّ(عليه السلام) خاتمان نقش أحدهما: لا إله إلاّ الله عدّة للقاء الله، ونقش الآخر: إنّ الله بالغ أمره. وكان نقش خاتم عليّ بن الحسين(عليه السلام): خزي وشقي قاتل الحسين بن عليّ(عليه السلام)(5). في أنّ الحسين(عليه السلام) أوصى إلى ابنه عليّ بن الحسين(عليه السلام) وجعل خاتمه في إصبعه وفوّض أمره إليه، ثمّ صار الخاتم إلى محمّد بن عليّ، ثمّ إلى جعفر بن محمّد وكان يلبسه كلّ جمعة ويصلّي فيه، فرآه محمّد بن مسلم في إصبعه وكان نقشه: لا إله إلاّ الله عدّة للقاء الله(6).

أمالي  از  الصدوق میں امام   الباقر(عليه السلام) سے روایت ہے کہ حسین بن علی علیہ السلام کی انگوٹھیاں تھیں- ان میں سے  ایک پر لکھا تھا لا إله إلاّ الله عدّة للقاء الله اور دوسری پر لکھا تھا  إنّ الله بالغ أمره اور علی بن حسین علیہ السلام کی انگوٹھی پر کندہ تھا  ذلیل و رسوا ہوں حسین بن علی کے قاتل کیونکہ حسین نے اپنے بیٹے علی بن حسین کو امر سونپ دیا تھا پھر یہ انگوٹھی گئی محمد بن علی کے پاس وہ اس کو ہر جمعہ پہنتے اور اسی میں نماز پڑھتے  اس کو محمد بن مسلم نے ان کی انگلی میں  دیکھا کہ اس پر کندہ تھا   لا إله إلاّ الله عدّة للقاء الله

بحار الأنوار از   محمد باقر المجلسيى  کی کتاب میں ہے

عن سعد: عن ابن عيسى، عن ابن فضال، عن ابن بكير، عن محمد بن مسلم، عن أبي جعفر عليه  السلام قال: إن لرسول الله صلى الله عليه واله عشرة أسماء: خمسة منها في القرآن،  وخمسة ليست في القرآن، فأما التي في القرآن: فمحمد، وأحمد، وعبد الله، ويس، ون، وأما التي ليست في القرآن: فالفاتح، والخاتم، والكاف، والمقفي، والحاشر

محمد بن مسلم نے أبي جعفر عليه  السلام سے روایت کیا کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پانچ نام قرآن میں ہیں اور پانچ اس میں نہیں ہیں – جو پانچ قرآن میں ہیں وہ ہیں محمد ، احمد ، عبد الله ، یس، ن اور جو نہیں ہیں وہ ہیں فاتح ،  خاتم، کاف اور مقفی اور حاشر

یہ نام بھی تعویذات میں لکھے جاتے ہیں

انگوٹھیوں پر  اسماء الحسنی اور آیات قرانی کندہ کروانا دونوں  اہل سنت  اور اہل تشیع نے اہل بیت النبی سے منسوب کیا ہے – اس کا مقصد کیا تھا مہر تھی یا تعویذ یہ واضح نہیں ہوا

انگوٹھیوں میں پتھر پہنا

کتب اہل سنت

صحیح مسلم  اور مسند ابو یعلی  میں ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ وَهْبٍ الْمِصْرِيُّ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ: «كَانَ خَاتَمُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ وَرِقٍ، وَكَانَ فَصُّهُ حَبَشِيًّا»

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ أَيُّوبَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ الْمِصْرِيُّ أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ قَالَ کَانَ خَاتَمُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ وَرِقٍ وَکَانَ فَصُّهُ حَبَشِيًّا

ترجمہ :  یحیی بن ایوب، عبداللہ بن وہب، مصری یونس بن یزید ابن شہاب، حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس کا نگینہ حبش کا تھا۔

حديث:990

و حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَبَّادُ بْنُ مُوسَی قَالَا حَدَّثَنَا طَلْحَةُ بْنُ يَحْيَی وَهُوَ الْأَنْصَارِيُّ ثُمَّ الزُّرَقِيُّ عَنْ يُونُسَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَبِسَ خَاتَمَ فِضَّةٍ فِي يَمِينِهِ فِيهِ فَصٌّ حَبَشِيٌّ کَانَ يَجْعَلُ فَصَّهُ مِمَّا يَلِي کَفَّهُ

عثمان بن ابی شیبہ، عباد بن موسی، طلحہ بن یحیی، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چاندی کی انگوٹھی اپنے دائیں ہاتھ میں پہنی تھی جس میں حبشہ کا نگینہ تھا انگوٹھی پہنتے وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کا نگینہ اپنی ہتھیلی کی رخ کی طرف کرلیتے تھے۔

محمد فؤاد عبد الباقي شرح میں لکھتے ہوں

  (حبشيا) قال العلماء يعني حجرا حبشيا أي فصا من جزع أو عقيق فإن معدنهما بالحبشة واليمن وقيل لونه حبشي أي أسود

علماء کہتے  ہیں حبشی پتھر تھا یعنی نگ سنگ مرمر کا یا عقیق کا تھا اور کہا جاتا ہے کالا تھا جیسے حبشی ہوتے ہیں

بیہقی شعب الایمان میں اس روایت پر کہتے ہیں

وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ دَلَالَةٌ عَلَى أَنَّهُ كَانَ خَاتَمَانِ أَحَدُهُمَا فَصُّهُ حَبَشِيًّا،

یہ روایت دلالت کرتی ہے کہ رسول الله کے پاس انگوٹھیاں تھیں جن میں ایک میں حبشہ کا نگ لگا تھا

صحیح مسلم کی اس روایت میں يونس بن يزيد  الايلى، صاحب الزهري  کا تفرد ہے- یہ مختلف فیہ ہے ابن سعد نے کہا   ليس بحجة  حجت نہیں ہے اور امام وكيع نے کہا  سيئ الحفظ  اس کا حافظہ خراب ہے اور امام احمد نے اس کی بعض احادیث کو منکر قرار دیا

  وقال الاثرم: ضعف أحمد أمر يونس.

الاثرم نے کہا احمد نے يونس بن يزيد  الايلى، صاحب الزهري کے کام کو ضعیف کہا

علمائے اہل سنت میں سے بعض مثلا اہل حدیث اور وہابیوں کے نزدیک یہ پتھر بطور زینت رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے  پہنا

یہ قول قابل غور ہے کہ ائمہ شیعہ عقیق نماز کے وقت پہنتے  کیونکہ قرآن میں ہے

يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ

اے بنی آدم  ہر سجدے پر اپنی زینت  لو

کتب اہل تشیع

کتاب بشارة المصطفى ( صلى الله عليه وآله ) لشيعة المرتضى ( عليه السلام ) کے مطابق

حدثنا عبد الرزاق ، عن معمر ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة : قالت :« دخلت على رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) وفي يده خاتم فضة عقيق فقلت : يارسول الله ما هذا الفص ؟ فقال لي : من جبل أقر لله بالربوبية ولعلي بالولاية ولولده بالامامة ولشيعته بالجنة

عائشہ سے روایت ہے کہ میں رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) کے پاس داخل ہوئی دیکھا ان کے ہاتھ میں عقیق کی چاندی کی انگوٹھی ہے پوچھا یہ نگ کس لئے؟ فرمایا : یہ پہاڑ ہے جو الله کی ربوبیت کا اقراری ہے اور علی کی ولایت کا اور ان کی اولاد کی امامت جا اور ان کے شیعوں کے لئے جنت کا

یہ روایت عبد الرزاق سے صحیح سند سے ہے لیکن کتب اہل سنت میں نہیں ملی

مسند امام الرضا میں ہے

عنه عن علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن على بن معبد، عن الحسين بن خالد عن الرضا عليه السلام، قال: كان أبو عبد الله عليه السلام يقول: من اتخذ خاتما فصه عقيق لم يفتقر ولم يقض له إلا بالتى هي أحسن

الحسين بن خالد نے امام الرضا سے روایت کیا کہ أبو عبد الله عليه السلام نے کہا جس نے عقیق کو انگوٹھی چاندی کے ساتھ لی وہ فقیر نہ ہو گا  اس کا کوئی کام پورا نہ ہو گا لیکن احسن انداز سے

اہل تشیع کی بعض روایات میں ہے عقيق أصفر پہنو یا عقيق احمر پہنو

الکافی از کلینی میں ہے

عنه، عن بعض أصحابه، عن صالح بن عقبة، عن فضيل بن عثمان، عن ربيعة الرأي قال: رأيت في يدعلي بن الحسين عليه السلام فص عقيق فقلت: ماهذا الفص؟ فقال: عقيق رومي، وقال رسول الله صلى الله عليه وآله: من تختم بالعقيق قضيت حوائجه.

(12631 5) عنه، عن بعض أصحابه رفعه قال: قال أبوعبدالله عليه السلام: العقيق أمان في السفر.

ربيعة الرأي نے کہا میں نے علی بن حسین کے ہاتھ میں عقیق کا نگ دیکھا پوچھا یہ کیسا نگ ہے ؟ کہا یہ رومی عقیق ہے اور رسول الله صلى الله عليه وآله نے فرمایا  جس نے عقیق کی انگوٹھی پہنی اس کی حاجات پوری ہوئیں- اور … ابو عبد اللہ سے روایت ہے عقیق سے سفر میں امان ملتی  ہے

فیروزہ پہنے پر روایات

وسائل الشيعة   باب استحباب لبس الداعي خاتم فيروزج وخاتم عقيق

أحمد بن فهد في ( عدة الداعي ) عن أبي عبدالله ( عليه السلام ) قال : قال رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) : قال الله عز وجل : إني لأستحيي من عبدي يرفع يده وفيها خاتم فيروزج فأردها خائبة

بحار الأنوار از   محمد باقر المجلسيى  کی کتاب میں ہے

الصادق عليه السلام قال: قال رسول الله صلى الله عليه واله: قال الله سبحانه:

إني لاستحيي من عبد يرفع يده وفيها خاتم فيروزج فأردها خائبة.

حدیث قدسی ہے کہ میں اس سے حیا کرتا ہوں کہ بندہ ہاتھ دعا کے لئے بلند کرے اور اس میں فیروزہ ہو اور میں اس کو قبول نہ کروں

ابن سبا کا فلسفہ

یہود کے مطابق عقیق اور فیروزہ ان دو پتھروں کا تعلق  یہود کے ١٢ میں سے دو قبیلوں سے تھا جن کے نام دان اور نفتالی ہیں – یہ یہود کے کھو جانے والے قبائل ہیں –

ہیکل سلیمانی کے امام کے گلے کے ہار میں ١٢ نگ ہونے چاہیے ہیں جو ١٢ قبائل سے منسوب ہیں  – توریت کتاب خروج میں ہے

Exodus 28:18 the second row shall be turquoise, lapis lazuli and emerald;
Exodus 28:19 the third row shall be jacinth, agate and amethyst;

دوسری رو میں فیروزہ  … ہو گا

تیسری میں … عقیق ہو گا

یہود کی کتاب ترجم میں ہے

Targum, Jewish Magic and Superstition, by Joshua Trachtenberg, 1939

Shebo [agate] is the stone of Naphtali
Turquoise is the stone of Dan

شیبو یا عقیق یہ نفتالی کا پتھر ہے

فیروزہ یہ دان کا نگ ہے

یہودی محقق ٹیوڈر پارفٹ لکھتے ہیں

The Road to Redemption: The Jews of the Yemen, 1900 – 1950 by Tudor Parfitt, 1996, Brill  Publisher, Netherland

In the nineteenth century even the Jewish world knew relatively little of  the Jews of South Arabia. In 1831 Rabbi Yisrael of Shklov sent an emissary to Yemen … emissaries who had visited Yemen some years before and who had claimed to have met members of the tribe of Dan in the deserts of  Yemen..

انیسویں صدی میں دنیائے یہود کو جزیرہ العرب کے جنوب میں یہود کے بارے میں  بہت کم معلومات تھیں – سن ١٨٣١ میں ربی اسرائیل جو شخلو کے تھے انہوں نے ایک سفارتی وفد یمن بھیجا جہاں ان کی ملاقات یہودی قبیلہ دان کے لوگوں سے ہوئی جو یمن کے صحراء میں ٹہرے

 

The conviction that the lost tribes were to be found in the more remote areas of the Yemen was one which was shared by the Yemenite Jews themselves. Over the centuries they had elaborated numerous legends about the tribes, and particularly about the supposed valour of the Tribe of Dan

یہ یقین کہ کھوئے ہوئے قبیلے یمن کے دور افتادہ علاقوں میں ملیں گے یہ یقین یمنی یہودیوں کو بھی ہے – صدیوں سے ان کے قبائل کے  بارے میں بہت سی حکایتیں جمع ہیں جن میں قبیلہ دان کی بہادری کے تزکرے ہیں

 راقم کہتا ہے ابن سبا بہت ممکن ہے دان یا نفتالی قبیلہ کا تھا جو یمن میں آباد تھے اور لشکر علی میں شامل ہو کر کوفہ پہنچے اور شیعوں میں مل گئے لیکن قبائلی عصبیت باقی رہی اور اپنے قبیلوں سے منسوب نگوں کو اہل بیت کی انگوٹھیوں میں لگوا دیا یعنی ان سے منسوب کیا

دان نفتالی ابن سبا اور آصف بن برخیاہ پر مزید دیکھیں

اصف بن بر خیا کا راز