Category Archives: تعویذ – Amulets

تعویذ کا ناجائز دفاع

فرقہ اہل حدیث و سلفی وہابی فرقوں  میں تعویذ کے جواز پر شدید اختلاف موجود ہے  -پاکستانی اہل حدیث میں سے ایک کثیر تعداد تعویذ کو لٹکاتی ہے اس کو  عین توحید سمجھتی ہے اور دوسری طرف سمندر پار جزیرہ عرب میں عبد الوہاب النجدی نے کتاب التوحید میں اس کو شرک قرار دیا تھا   – اس اختلاف کو چھپا کر رکھا جاتا تھا یہاں تک کہ عثمانی رحمہ اللہ علیہ نے کتاب تعویذات کا شرک مرتب کی اور عوام میں بانٹی –

عثمانی صاحب نے روایت پیش کی

اس کے بعد سے آج تک اہل حدیث کی جانب سے ہر سال تعویذ پر تحقیق ہو رہی ہے اور نت نئے  انکشافات سامنے اتے رہتے ہیں – مثلا  بعض اھل حدیث محققین کی جانب سے تعویذ کے جواز پر  جوابا کہا جا رہا ہے  کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی تعویذ کے خلاف احادیث تمام  کی تمام ضعیف ہیں

عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت

سنن ابو داود ح  3883 میں ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ، عَنِ ابْنِ أَخِي زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ زَيْنَبَ، امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ الرُّقَى، وَالتَّمَائِمَ، وَالتِّوَلَةَ شِرْكٌ» [ص:10] قَالَتْ: قُلْتُ: لِمَ تَقُولُ هَذَا؟ وَاللَّهِ لَقَدْ كَانَتْ عَيْنِي تَقْذِفُ وَكُنْتُ أَخْتَلِفُ إِلَى فُلَانٍ الْيَهُودِيِّ يَرْقِينِي فَإِذَا رَقَانِي سَكَنَتْ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: إِنَّمَا ذَاكَ عَمَلُ الشَّيْطَانِ كَانَ يَنْخُسُهَا بِيَدِهِ فَإِذَا رَقَاهَا كَفَّ عَنْهَا، إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكِ أَنْ تَقُولِي كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «أَذْهِبِ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ، اشْفِ أَنْتَ الشَّافِي، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا»
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرما رہے تھے: “جھاڑ پھونک (منتر)  گنڈا(تعویذ) اور تولہ  شرک ہیں” عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے کہا: آپ ایسا کیوں کہتے ہیں؟ قسم اللہ کی میری آنکھ درد کی شدت سے نکلی آتی تھی اور میں فلاں یہودی کے پاس دم کرانے آتی تھی تو جب وہ دم کر دیتا تھا تو میرا درد بند ہو جاتا تھا، عبداللہ رضی اللہ عنہ بولے: یہ کام تو شیطان ہی کا تھا وہ اپنے ہاتھ سے آنکھ چھوتا تھا تو جب وہ دم کر دیتا تھا تو وہ اس سے رک جاتا تھا، تیرے لیے تو بس ویسا ہی کہنا کافی تھا جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے تھے: «ذهب الباس رب الناس اشف أنت الشافي لا شفاء إلا شفاؤك شفاء لا يغادر سقما» “لوگوں کے رب! بیماری کو دور فرما، شفاء دے، تو ہی شفاء دینے والا ہے، ایسی شفاء جو کسی بیماری کو نہ رہنے دے”۔

نوٹ : اس حدیث کو البانی نے صحیح کہا ہے اور حاکم نے بھی صحیح قرار دیا ہے – امام الذھبی نے موافقت کی ہے

اعتراض اہل حدیث جدید کا کہنا ہے کہ یہ متن منکر ہے -یہودی سے اصحاب رسول کا دم کرانا منکر روایت ہے

جواب

قال الربيع بن سليمان ، تلميذ الشافعي :
” سَأَلْت الشَّافِعِيَّ عن الرُّقْيَةِ ؟ فقال : لاَ بَأْسَ أَنْ يرقى الرَّجُلُ بِكِتَابِ اللَّهِ ، وما يَعْرِفُ من ذِكْرِ اللَّهِ .
قُلْت : أيرقى أَهْلُ الْكِتَابِ الْمُسْلِمِينَ ؟
فقال : نعم ؛ إذَا رَقُوا بِمَا يُعْرَفُ من كِتَابِ اللَّهِ ، أو ذِكْرِ اللَّهِ .
فَقُلْت : وما الْحُجَّةُ في ذلك ؟
قال : غَيْرُ حُجَّةٍ ؛ فَأَمَّا رِوَايَةُ صَاحِبِنَا وَصَاحِبِك ـ يعني : الإمام مالكا رحمه الله ـ ؛ فإن مَالِكًا أخبرنا عن يحيى بن سَعِيدٍ عن عَمْرَةَ بِنْتِ عبد الرحمن أَنَّ أَبَا بَكْرٍ دخل على عَائِشَةَ وَهِيَ تَشْتَكِي وَيَهُودِيَّةٌ تَرْقِيهَا فقال أبو بَكْرٍ أرقيها بِكِتَابِ اللَّهِ ” انتهى .
“الأم” للشافعي (7/228) 

الربيع بن سليمان نے امام شافعی سے پوچھا  دم کرنےپر امام شافعی نے کہا اس میں کوئی برائی نہیں کہ کتاب اللہ سے دم کیا جائے اور جو اللہ کا ذکر معلوم ہو اس سے 

میں الربيع بن سليمان نے کہا کیا اہل کتاب مسلمانوں کو دم کر سکتے ہیں ؟

امام شافعی نے فرمایا ہاں – جب وہ کتاب اللہ  میں جو جانتے ہوں اس سے دم کریں یا اللہ کے ذکر سے 

میں نے کہا اس کی دلیل کیا ہے  ؟

امام شافعی نے فرمایا  ہمارے اور تمھارے امام مالک صاحب رحمہ اللہ  کی روایت ہے – امام مالک نے خبر دی یحییٰ بن سعید سے انہوں نے عمرہ سے روایت کیا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر داخل ہوئے تو یہودیہ ان کو دم کر رہی تھی  پس ابو بکر نے کہا کتاب اللہ سے دم کرو

امام محمد نے بھی اسی روایت سے دلیل لی ہے

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَخْبَرَتْنِي عَمْرَةُ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا وَهِيَ تَشْتَكِي، وَيَهُودِيَّةٌ تَرْقِيهَا، فَقَالَ: «ارْقِيهَا بِكِتَابِ اللَّهِ» .
قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا بَأْسَ بِالرُّقَى بِمَا كَانَ فِي الْقُرْآنِ، وَمَا كَانَ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ، فَأَمَّا مَا كَانَ لا يُعْرَفُ مِنْ كَلامٍ، فَلا يَنْبَغِي أَنْ يُرْقَى بِهِ
ہم اسی روایت کو لیتے ہیں کہ قرآن سے دم کرنے میں برائی نہیں ہے جس میں الله کا ذکر ہو جہاں تک وہ کلام ہے جو جانا نہیں جاتا اس سے دم نہیں کرنا چاہیے

معلوم ہوا کہ امام مالک، امام شافعی  اور احناف میں اہل کتاب سے دم کرا سکتے ہیں

وہابی مفتی ابن باز سے سوال ہوا : هل تجوز رقية النصراني واليهودي للمسلم؟
کیا نصرانی و یہودی کا رقیہ مسلم کے لئے ہے ؟

فأجاب: إذا لم يكن من أهل الحرابة، وكانت من الرقية الشرعية، فلا بأس بذلك
پس جواب دیا اگر حربی نہیں ہے اور رقیہ شرعی ہے تو برائی نہیں ہے

 راقم کہتا ہے کہ صحیح بات ہے کہ شرک پر اگر دل مطمئن ہو جائے  تو کفر کا فتوی لگتا ہے – یہاں  ابن مسعود رضی الله عنہ کی  بیوی نے کوئی ایسا عمل نہیں کیا جو شرک ہو صرف دم کرایا تھا

   اہل حدیث  مبشر ربانی دور کی کوڑی لاتے ہیں  مبشر ربانی  کتاب مسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط ص   ٢٩٥  میں لکھتے ہیں

راقم کہتا ہے اس حدیث میں کہیں نہیں ہے کہ زینب  زوجہ ابن مسعود شرک کی مرتکب تھیں تو اس پر حاشیہ آرائی غیر مناسب ہے – دین میں اہل کتاب سے دم کرا سکتے ہیں – ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اصل میں شرکیہ دم سے منع کیا ہے جو ان کی بیوی نے سمجھا کہ ابن مسعود اس وقت دم کو  مطلق حرام  کہہ رہے ہیں (جبکہ ابن مسعود کا مدعا الگ ہے )   – زوجہ ابن مسعود کا سوال  یہ صرف وضاحت و اشکال والا معاملہ ہے

اس کا ایک ترجمہ مبشر ربانی نے اسی کتاب میں پیش کیا ہے

اس روایت کے متن میں ہے کہ یہودیہ دم کرنے میں مشغول تھی کہ ابن مسعود پہنچ گئے اور اس تانت کو توڑ دیا

اس میں یہ ہرگز نہیں ہے کہ زوجہ ابن مسعود مشرکہ تھیں

اعتراض : اعمش اس میں مدلس ہے اور سند عن سے ہے

جواب
صحیح بخاری میں اعمش نے حدثنی کے ساتھ روایت کیا ہوا ہے سماع ثابت ہے
اور اہل حدیث کا اصول ہے کہ اگر ایک ہی سند میں سماع کی تصریح مل جائے تو سماع ہوتا ہے
تدلیس کا خطرہ ختم ہو جاتا ہے

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: ” قَالَ أَبُو لَهَبٍ عَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَبًّا لَكَ سَائِرَ اليَوْمِ فَنَزَلَتْ: {تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ} [المسد: 1] “

وَقَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا [ص:35] الأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَى، حَدَّثَنَا أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَزَلَ رَمَضَانُ فَشَقَّ عَلَيْهِمْ، فَكَانَ مَنْ أَطْعَمَ كُلَّ يَوْمٍ مِسْكِينًا تَرَكَ الصَّوْمَ مِمَّنْ يُطِيقُهُ، وَرُخِّصَ لَهُمْ فِي ذَلِكَ، فَنَسَخَتْهَا: {وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ} [البقرة: 184] فَأُمِرُوا بِالصَّوْمِ

یہاں اعمش نے عمرو بن مرہ سے  تحدیث کے ساتھ روایت کیا ہے

مستدرک حاکم 7505  میں یہی روایت اس سند سے بھی   ہے

حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الزَّاهِدُ الْأَصْبَهَانِيُّ، ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مِهْرَانَ، ثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، ثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ قَيْسِ بْنِ السَّكَنِ الْأَسَدِيِّ، قَالَ: دَخَلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى امْرَأَةٍ فَرَأَى عَلَيْهَا حِرْزًا مِنَ الْحُمْرَةِ فَقَطَعَهُ قَطْعًا عَنِيفًا ثُمَّ قَالَ: إِنَّ آلَ عَبْدِ اللَّهِ عَنِ الشِّرْكِ أَغْنِيَاءُ وَقَالَ: كَانَ مِمَّا حَفِظْنَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَنَّ الرُّقَى وَالتَّمَائِمَ وَالتَّوْلِيَةَ مِنَ الشِّرْكِ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ ”
[التعليق – من تلخيص الذهبي] 7505 – صحيح

یہاں الذھبی نے اس کو صحیح قرار دیا ہے

اعتراض کیا جاتا ہے

مستدرک حاکم 7505 کی سند میں أَحْمَدُ بْنُ مِهْرَانَ مجہول ہے

جواب
مجہول نہیں ہے
تاریخ اسلام از الذھبی میں ہے
أحمد بن مهران بن المنذر، أبو جعفر الهمذاني القطان. [الوفاة: 261 – 270 ه] سَمِعَ: محمد بن عبد الله الأنصاري، وعثمان بن الهيثم المؤذن، والقعنبي.
وَعَنْهُ: علي بن مهروية القزويني.
قال أبو حاتم: صدوق.

الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة از ابن قُطْلُوْبَغَا میں ہے

أحمد بن مهران بن المنذر القَطَّان الهَمَذَاني، أبو جعفر.
قال ابن أبي حاتم (1): سمع أبي في كتابه كتاب «الموطأ» عن القعنبي، روى عن عثمان بن الهيثم، وعبد الله بن رجاء، وحسن بن موسى الأشيب، والأنصاري، وهو صدوق.

اعتراض

مستدرک حاکم کی سند میں اسرائیل بن یونس بن ابی اسحاق ضعیف ہے

جواب
إِسْرَائِيل بن يُونُس بن أبي إِسْحَاق صحیح بخاری کا راوی ہے اور اس کی ہر روایت اہل حدیث کے اصول پر صحیح متصور ہو گی
ہمارے نزدیک اس متن میں اس کا تفرد نہیں ہے لہذا حدیث اپنی جگہ قائم ہے اس کی اصل ہے

اہل حدیث میں سے بعض تعویذ لٹکانے والے کہتے ہیں کہ مسند احمد  میں اس روایت کی سند ضعیف ہے

مسند احمد
٣٦٠٥
حَدَّثَنَا (1) جَرِيرٌ، عَنْ الرُّكَيْنِ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ عَمِّهِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: ” كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَكْرَهُ عَشْرَ خِلَالٍ: تَخَتُّمَ الذَّهَبِ، وَجَرَّ الْإِزَارِ، وَالصُّفْرَةَ – يَعْنِي الْخَلُوقَ -، وَتَغْيِيرَ الشَّيْبِ – قَالَ جَرِيرٌ: إِنَّمَا يَعْنِي بِذَلِكَ (2) نَتْفَهُ – وَعَزْلَ الْمَاءِ عَنْ مَحِلِّهِ، وَالرُّقَى إِلَّا بِالْمُعَوِّذَاتِ، وَفَسَادَ الصَّبِيِّ غَيْرَ (3) مُحَرِّمِهِ، وَعَقْدَ التَّمَائِمِ، وَالتَّبَرُّجَ بِالزِّينَةِ لِغَيْرِ مَحِلِّهَا، وَالضَّرْبَ بِالْكِعَابِ

جواب اگرچہ  مسند کے محقق شعیب نے اس کو منکر ہے لیکن احمد شاکر کا کہنا ہے روایت صحیح ہے

إسناده صحيح، الركين: هو ابن الربيع، سبق توثيقه 868. القاسم بن حسان العامري:
ثقة: وثقه أحمد بن صالح، وذكره ابن حبان في ثقات التابعين، وذكر البخاري في الكبير 4/ 1/ 161 اسمه فقط، ولم يذكر عنه شيئَاً. وترجمه ابن أبي حاتم في الجرح والتعديل 3/ 2/ 108 فلم يذكر عنه جرحاً. عبد الرحمن بن حرملة الكوفي: ذكره ابن حبان في الثفات، وذكره البخاري في الضعفاء21 قال: “عبد الرحمن بن حرملة عن ابن مسعود، روى عنه القاسم بن حسان، لا يصح حديثه”. والحديث رواه أبو داود 4: 143 – 144 من طريق المعتمر عن الركين. قال المنذري: “وأخرجه النسائي، وفي إسناده قاسم بن حسان الكوفي عن عبد الرحمن بن حرملة، قال البخاري: القاسم بن
حسان: سمع من زيد بن ثابت وعن عمه عبد الرحمن بن حرملة، وروى عنه الركين ابن الربيع، لم يصح حديثه في الكوفيين. قال علي بن المديني حديث ابن مسعود أن النبي – صلى الله عليه وسلم – كان يكره عشر خلال: هذا حديث كوفي، وفى إسناده من لا يعرف. وقال =
ابن المديني أيضاً: عبد الرحمن بن حرملة: روى عنه قاسم بن حسان، لا أعلم رُوي عن عبد الرحمن هذا شيء من هذا الطريق، ولا نعرفه من أصحاب عبد الله. وقال عبد الرحمن بن أبي حاتم. سألت أبي عنه؟، فقال: ليس بحديثه بأس، وإنما روى حديثاً واحداً، ما يمكن أن يعتبر به، ولم أسمع أحداً ينكره أو يطعن عليه، وأدخله البخاري في كتاب الضعفاء، وقال أبي: يحوَّل منه”. والذي نقله المنذري عن البخاري في شأن القاسم بن حسان لا أدري من أين جاء به، فإنه لم يذكر في التاريخ الكبير إلا اسمه فقط. كما قلنا، ثم لم يترجمه في الصغير، ولم يذكره في الضعفاء. وأخشى أن يكون المنذري وهم فأخطأ، فنقل كلام ابن أبي حاتم بمعناه منسوباً للبخاري. وأنا أظن أن قول البخاري في عبد الرحمن بن حرملة “لا يصح حديثه” إنما مرده إلى أنه لم يعرف شيئَاً عن القاسم بن حسان، فلم يصح عنده لذلك حديث عمه عبد الرحمن. (فائدة): قال أبو داود، بعد أن روى هذا الحديث: “انفرد بإسناد هذا الحديث أهل البصرة”!، وهو خطأ عجيب، فإن رواته كلهم كوفيون. ليس فيهم بصري!. تفسير جرير “تغير الشيب” بأنه نتفه، هو الصحيح، وبذلك في شه ابن الأثير، وقال “فإن تغيير لونه قد أمر به في غير حديث”. “وفساد الصبي” إلخ: قال ابن الأثير: “هو أن يطأ المرأة المرضع، فإذا حملت فسد لبنها، وكان من ذلك فساد الصبي، ويسمى الغيلة. أقوله غير محرمه: أي أنه كرهه ولم يبلغ حد التحريم”. وانظر معالم السنن 4: 213.

اہل حدیث میں سے بعض تعویذ لٹکانے والے کہتے ہیں کہ طبرانی کی سند ضعیف ہے

طبرانی کبیر میں ہے
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُوسَى، ثنا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ الضَّبِّيُّ، ثنا أَبُو إِسْرَائِيلَ الْمُلَائِيُّ، عَنْ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرِو، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ، دَخَلَ عَلَى بَعْضِ أُمَّهَاتِ أَوْلَادِهِ فَرَأَى فِي عُنُقِهَا تَمِيمَةً، فَلَوى السَّيْرَ حَتَّى قَطَعَهُ، وَقَالَ: «أَفِي بُيُوتِي الشِّرْكُ؟» ثُمَّ قَالَ: «التَّمَائِمُ، وَالرُّقَى، وَالتُّوَلَةُ شِرْكٌ، أَوْ طَرَفٌ مِنَ الشِّرْكِ»

ان کا اعتراض ہے کہ اس سند میں أَبُو إِسْرَائِيلَ الْمُلَائِيُّ منکر الحدیث ہے

جواب ابو اسرئیل إسماعيل بن خليفة العبسي أبو إسرائيل الملائي، الكوفي ایک غالی شیعہ ہے اور بعض محدثین نے اس کو غلو کی بنا پر ترک کیا ہے
بدعتی کی روایت غیر غلو کی صورت قبول کی جاتی تھی

عبد اللہ نے باپ امام احمد سے اس پر سوال کیا تو کہا
قلت: إن بعض من قال: هو ضعيف. قال: لا، خالف في أحاديث
میں نے کہا بعض کہتے ہیں یہ ضعیف ہے ؟ احمد نے کہا نہیں
– یہ بعض احادیث میں اختلاف کرتا ہے

اہل حدیث میں سے بعض تعویذ لٹکانے والے کہتے ہیں طبرانی کی یہ سند بھی ضعیف ہے

طبرانی کبیر میں ہے
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ الْجَزَرِيِّ، عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، أَوْ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، – شَكَّ مَعْمَرٌ – قَالَ: رَأَى ابْنُ مَسْعُودٍ، فِي عُنُقِ امْرَأَتِهِ خَرَزًا قَدْ تَعَلَّقَتْهُ مِنَ الْحُمْرَةِ فَقَطَعَهُ، وَقَالَ: «إِنَّ آلَ عَبْدِ اللهِ لَأَغْنِيَاءُ عَنِ الشِّرْكِ»

ان کا کہنا ہے کہ اس سند  میں زِيَادِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ مجہول ہے

جواب
قال البرقاني: سمعت أبا الحسن الدَّارَقُطْنِيّ يقول زياد بن أبي مريم، روى عنه عبد الكريم الجزري، حراني، ثقة.

دارقطنی کے نزدیک یہ ثقہ ہے
قال العجلي: جزري تابعي ثقةٌ
ابن حبان نے ثقہ کہا ہے اور اس قول میں منفرد نہیں ہے

 معلوم ہوا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت صحیح ہے – اس کی اسناد میں سے بعض صحیح ہیں بعض حسن ہیں اور روایت کا اصل ہے

 

عقبہ بن عامر کی روایات

مسند احمد
١٧٤٢٢
17422
حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي مَنْصُورٍ، عَنْ دُخَيْنٍ الْحَجْرِيِّ،
عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْبَلَ إِلَيْهِ رَهْطٌ، فَبَايَعَ تِسْعَةً وَأَمْسَكَ عَنْ وَاحِدٍ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، بَايَعْتَ تِسْعَةً وَتَرَكْتَ هَذَا؟ قَالَ: ” إِنَّ عَلَيْهِ تَمِيمَةً ” فَأَدْخَلَ يَدَهُ فَقَطَعَهَا، فَبَايَعَهُ، وَقَالَ: ” مَنْ عَلَّقَ تَمِيمَةً فَقَدْ أَشْرَكَ

اس پر اہل حدیث کا اعتراض ہے کہ اس میں راوی دخين بن عامر الحجرى ، أبو ليلى المصرى مجہول ہے

جواب

يعقوب بن سفيان ،ابن حبان، ابن حجر ، الذھبی  نے دخين بن عامر الحجري کو ثقہ قرار دیا ہے

البانی نے سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها ح 492   اس حدیث  کو صحیح قرار دیا ہے

احمد شاکر نے بھی صحیح کہا ہے

شعيب الأرنؤوط – عادل مرشد کا حکم ہے کہ اس روایت کی اسناد قوی ہیں
إسناده قوي

تعویذ کی محبت میں گرفتار اہل حدیث کہتے ہیں يَزِيدُ بْنُ أَبِي مَنْصُورٍ کی منفرد روایت ضعیف ہے
جواب
یزید بن ابی منصور پر کوئی کلمہ جرح معلوم نہیں ہے اور اس کی تعدیل کا ذکر محدثین نے کیا ہے

لہذا یہ دعوی کہ اس کی منفرد روایت ضعیف ہے قابل رد ہے

معلوم ہوا کہ روایات صحیح ہیں – ان احادیث کو خود اہل حدیث اور سلفی فرقہ کا ایک کثیر گروہ  صحیح کہتا ہے

 

تعویذ کے جواز کے دلائل کا جائزہ

فرقہ پرست تعویذ کے جواز پر جو دلائل دیتے ہیں ان پر تبصرہ یہاں ایک جگہ کیا گیا ہے

فرقوں کی دلیل
قرآن میں ہے
وننزل من القرآن ما ھوشفاء ورحمۃ للمومنین۔
سورۃ بنی اسرائیل
اور ہم نے قرآن نازل کیا جو کہ مومنین کے لیے سراپا شفا اور رحمت ہے۔

تبصرہ
اس آیت کا تعلق قلبی بیماریوں سے ہے جن کو قرآن میں فی قلوبھم مرض کہا گیا ہے

غور طلب ہے قرآن فرقہ پرستوں کے مطابق شفاء ہے جس کی  دلیل ان کے نزدیک قرآن ہی کی یہ آیت سوره الاسراء ٨٢ میں ہے
وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا
أور هم نے اس قرآن میں نازل کی ہے شفاء اور مومنوں کے لئے رحمت اور یہ ظالموں کے لئے کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتی سوائے خسارے کے

فرقہ پرست دم کرنے کے حوالے سے ایک روایت پیش کرتے ہیں جس میں ایک سردار کو بچھو ڈستا ہے اور اس کافر کو قرآن سے شفاء ہو جاتی ہے
حالانکہ قرآن میں ہے کہ کفار کو قرآن سے شفاء ممکن نہیں ہے

روایت کے مطابق قبیلہ کا سردار کافر تھا یعنی شرک کا ظلم کرتا تھا تو آیت میں اگر شفاء سے مراد جسمانی شفاء ہے تو وہ روایت تو اس کے بر خلاف بیان کر رہی ہے جس میں سوره فاتحہ کے دم سے سردار کو شفاء ملتی ہے – اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آیت جسمانی بیماریوں کے متعلق نہیں بلکہ اعتقادی مرض سے متعلق ہے جس کو قرآن فی قلوبھم مرض کہتا ہے-

فرقوں کی دلیل

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے بہترین دوا قرآن ہے۔
سنن ابن ماجہ

تبصرہ
اس روایت کو فرقوں کے اماموں نے رد کیا ہے
حدثنا محمد بن عبيد بن عبد الرحمن الكندي قال: حدثنا علي بن ثابت قال: حدثنا سعاد بن سليمان، عن ابي إسحاق، عن الحارث، عن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «خير الدواء القرآن»
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمای بہترین دوا قرآن مجید ہے ۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۰۰۵۶) (ضعیف) (سند میں حارث الاعور ضعیف راوی ہے)

قال زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة
ضعيف / تقدم:3501

قال الألباني: ضعيف

فرقوں کی دلیل

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ تعویذات لکھا کرتے تھے۔
مصنف ابن ابی شیبہ ج12 ص 75 ابوداود ج 2 ص 543 پر

عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ ان کے والد سے نقل
کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی نیند میں ڈر جائے تو یہ دعا پڑھے أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِهِ وَعِقَابِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ (یعنی۔ میں اللہ کے غضب، عقاب، اسکے بندوں کے فساد، شیطانی وساوس اور ان (شیطانوں) کے ہمارے پاس آنے سے اللہ کے پورے کلمات کی پناہ مانگتا ہوں) اگر وہ یہ دعا پڑھے گا تو وہ خواب اسے ضرر نہیں پہنچا سکے گا۔ عبد اللهؓ بن عمرو(بن العاص) یہ دعا اپنے بالغ بچوں کو سکھایا کرتے تھے اور نابالغ بچوں کے لیے لکھ کر ان کے گلے میں ڈال دیا کرتے تھے

۔[جامع الترمذي » كِتَاب الدَّعَوَاتِ » بَاب مَا جَاءَ فِي عَقْدِ التَّسْبِيحِ بِالْيَدِ ۔۔۔ رقم الحديث: 3475 (3528)

تبصرہ : عمرو بن شعيب بن محمد بن عبد الله بن عمرو بن العاص ضعیف ہے – بعض محدثین کے نزدیک اسکی روایت حسن ہے- عمل میں اس کی روایت سے فقہاء نے دلیل لی ہے – سند میں محمد بن اسحاق بھی ہے جس کو ثقہ کے علاوہ دجال بھی کہا گیا ہے –بعض کے نزدیک حسن الحدیث ہے

یہ روایت انڈیا کے اہل حدیث  کفایت اللہ سنابلی و غیرھم  کے نزدیک بھی ضعیف  ہے – یہی بات جب سن ٨٠ میں ڈاکٹر عثمانی کرتے تھے تو اہل حدیث اس روایت کے دفاع میں تقریریں کرتے تھے  – اللہ کا شکر ہے جس نے  ہم کو سن ٨٠ میں ہی اس روایت سے بچا لیا  جبکہ  متعدد اہل حدیث تعویذ گلوں میں  لکٹائے  اپنے  مقام برزخ میں پہنچ  گئے –  و للہ الحمد

فرقوں کی دلیل عیسیٰ علیہ السلام کا تعویذ کا حکم

المجالسة وجواهر العلم از المؤلف : أبو بكر أحمد بن مروان الدينوري المالكي (المتوفى : 333هـ) میں ہے

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ، نَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ قُتَيْبَةَ، نَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سُلَيْمَانَ مِنْ وَلَدِ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ، عَنْ أَبِي بِشْرِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ فِطْرِ بْنِ خَلِيفَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: [ص:170] مَرَّ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ [صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ] بِبَقَرَةٍ قَدِ اعْتَرَضَ وَلَدُهَا فِي بَطْنِهَا، فَقَالَ: يَا كَلِمَةَ اللهِ! ادْعُ اللهَ أَنْ يُخَلِّصَنِي. فقال [صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ] : ياخالق النَّفْسِ مِنَ النَّفْسِ! وَيَا مُخْرِجَ النَّفَسِ مِنَ النَّفْسِ! خَلِّصْهَا، فَأَلْقَتْ مَا فِي بَطْنِهَا. قَالَ: فَإِذَا عَسِرَ عَلَى الْمَرْأَةِ وَلْدُهَا؛ فَلْيُكْتَبْ لَهَا هَذَا

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا ایک گائے پر گزر ہوا جس کے بطن میں اولاد نے مشکل کی تھی پس گائے نے کہا اے کلمہ اللہ اللہ سے دعا کریں کہ اس مشکل سے خلاصی ہو – پس عیسیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے   کہا اے نفس سے نفس کو خلق کرنے والے اے نفس میں سے نفس کو نکالنے والے اس کو خلاصی دے پس جو اس گائے کے  بطن میں تھا نکل آیا – ابن عباس نے کہا جب عورت کو اس طرح جننا مشکل ہو تو یہ کلمات اس کے لئے لکھ دو

سند میں ابراہیم بن سلیمان مجہول ہے

لیکن تفسیر روح البيان میں اس قصہ کو درج کیا گیا ہے

سلف کی دلیل جلد ولادت کا مجرب نسخہ

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بچے کی پیدائش کے لیے دو آیات قرآنی لکھ کر دیتے تھے کہ ان کو دھو کر مریضہ کو پلا دو
مصنف ابن ابی شیبہ ج12 ص 60 پر
بلکہ طبرانی شریف میں اس حدیث کے بعض الفاظ یوں بھی ملتے ہیں کہ کچھ پانی اس کے پیٹ اور منہ پر چھڑک دو۔

تبصرہ

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: إِذَا عَسِرَ عَلَى الْمَرْأَةِ وَلَدُهَا، فَيَكْتُبُ هَاتَيْنِ الْآيَتَيْنِ وَالْكَلِمَاتِ فِي صَحْفَةٍ ثُمَّ تُغْسَلُ فَتُسْقَى مِنْهَا «بِسْمِ اللَّهِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ، سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَرَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ» {كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحَاهَا} [النازعات: 46] {كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، بَلَاغٌ فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ} [الأحقاف: 35]

سعید بن جبیر نے ابن عباس سے روایت کیا کہ جب عورت کو بچہ جننے میں مشکل ہو تو اس کے لئے یہ دو آیات اور کلمات ایک صفحہ پر لکھو پھر ان کو دھو کر اس کا دھون عورت کو پلا دو
بِسْمِ اللَّهِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ، سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَرَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ

كَاَنَّـهُـمْ يَوْمَ يَرَوْنَـهَا لَمْ يَلْبَثُوٓا اِلَّا عَشِيَّةً اَوْ ضُحَاهَا
جس دن اسے دیکھ لیں گے (تو یہی سمجھیں گے کہ دنیا میں) گویا ہم ایک شام یا اس کی صبح تک ٹھہرے تھے۔

كَاَنَّـهُـمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوْعَدُوْنَ لَمْ يَلْبَثُـوٓا اِلَّا سَاعَةً مِّنْ نَّـهَارٍ ۚ بَلَاغٌ ۚ فَهَلْ يُهْلَكُ اِلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُوْنَ
ایک دن میں سے ایک گھڑی بھر رہے تھے، آپ کا کام پہنچا دینا تھا، سو کیا نافرمان لوگوں کے سوا اور کوئی ہلاک ہوگا۔
اسکی سند میں محمد بن عبد الرحمن بن أبي ليلى ہے جو خراب حافظہ کا مالک تھا

تفسیر الدر المنثور از السیوطی میں ہے
أخرج ابْن السّني والديلمي عَن ابْن عَبَّاس – رَضِي الله عَنْهُمَا – قَالَ: قَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: إِذا عسر على الْمَرْأَة وِلَادَتهَا أَخذ اناءٌ نظيفٌ وكُتِبَ عَلَيْهِ (كَأَنَّهُمْ يَوْم يرَوْنَ مَا يوعدون ) (الْأَحْقَاف الْآيَة 35) إِلَى آخر الْآيَة (وَكَأَنَّهُم يَوْم يرونها ) (النازعات الْآيَة 46) إِلَى آخر الْآيَة {لقد كَانَ فِي قصصهم عِبْرَة لأولي الْأَلْبَاب} إِلَى آخر الْآيَة ثمَّ تغسل وتسقى الْمَرْأَة مِنْهُ وينضح على بَطنهَا وفرجها

تفسیر قرطبی میں ہے
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِذَا عَسِرَ عَلَى الْمَرْأَةِ وَلَدُهَا تَكْتُبُ هَاتَيْنِ الْآيَتَيْنِ وَالْكَلِمَتَيْنِ فِي صَحِيفَةٍ ثُمَّ تُغَسَّلُ وَتُسْقَى مِنْهَا، وَهِيَ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْعَظِيمُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ، سُبْحَانَ اللَّهُ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ” كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَها لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا عَشِيَّةً «4» أَوْ ضُحاها” [النازعات: 46].” كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ بَلَاغٌ فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ” صَدَقَ اللَّهُ الْعَظِيمُ. وَعَنْ قتادة: لا يهلك الله»

الدعوات الكبير از طبرانی میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو طَاهِرٍ الْفَقِيهُ، أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ السُّلَمِيُّ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ عُتَيْبَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي الْمَرْأَةِ يَعْسُرُ عَلَيْهَا وَلَدُهَا قَالَ: يُكْتَبُ فِي قِرْطَاسٍ ثُمَّ تُسْقَى: بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَكِيمُ الْكَرِيمُ، سُبْحَانَ اللَّهِ تَعَالَى رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، {كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، بَلَاغٌ، فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ} [الأحقاف: 35] ، {كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحَاهَا} [النازعات: 46] “. هَذَا مَوْقُوفٌ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ

المجالسة وجواهر العلم از أبو بكر أحمد بن مروان الدينوري المالكي (المتوفى : 333هـ) میں ہے
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ، نَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُسْلِمٍ؛ قَالَ: حَدَّثُونِي عَنْ يَعْلَى، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: [ص:171] إِذَا عَسِرَ عَلَى الْمَرْأَةِ وِلَادُهَا؛ فَلْيُكْتَبْ لَهَا: بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهَ الْحَلِيمَ الْكَرِيمَ، سُبْحَانَ اللهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، {كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إِلا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ بَلاغٌ فَهَلْ يُهْلَكُ إلا القوم الفاسقون} [الأحقاف: 35]

اہل حدیث کے شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اپنے فتوی میں سندا اس روایت کو لکھا ہے اور محدث کا تجربہ بھی نقل کیا ہے
مجموع الفتاوى ج ١٩ ص ٦٥ پر

قال علي: يكتب في كاغدة فيعلق على عضد المرأة قال علي: وقد جربناه فلم نر شيئا أعجب منه فإذا وضعت تحله سريعا ثم تجعله في خرقة أو تحرقه.
علي بن الحسن بن شقيق المتوفی ٢١٥ ھ نے کہا اس کو کاغذ پر لکھے پھر اس کو عورت کی ران پر لٹکا دے اور ہم نے اس کا تجربہ کیا اور ہم نے اس سے زیادہ حیرانگی والی چیز نہ دیکھی جیسے ہی عورت جن دے  اس تعویذ کو خرقے میں جلدی  رکھو  یا  پھر اس کو  جلا دو

مکمل متن ہے
كَمَا نَصَّ عَلَى ذَلِكَ أَحْمَد وَغَيْرُهُ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَد: قَرَأْت عَلَى أَبِي ثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ؛ ثَنَا سُفْيَانُ؛ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ الْحَكَمِ؛ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ؛ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: إذَا عَسِرَ عَلَى الْمَرْأَةِ وِلَادَتُهَا فَلْيَكْتُبْ: بِسْمِ اللَّهِ لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ {كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوا إلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحَاهَا} {كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ بَلَاغٌ فَهَلْ يُهْلَكُ إلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ} . قَالَ أَبِي: ثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ بِإِسْنَادِهِ بِمَعْنَاهُ وَقَالَ: يُكْتَبُ فِي إنَاءٍ نَظِيفٍ فَيُسْقَى قَالَ أَبِي: وَزَادَ فِيهِ وَكِيعٌ فَتُسْقَى وَيُنْضَحُ مَا دُونَ سُرَّتِهَا قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: رَأَيْت أَبِي يَكْتُبُ لِلْمَرْأَةِ فِي جَامٍ أَوْ شَيْءٍ نَظِيفٍ. وَقَالَ أَبُو عَمْرٍو مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَد بْنِ حَمْدَانَ الحيري: أَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ النسوي؛ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَد بْنِ شبوية؛ ثنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ؛ ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ؛ عَنْ سُفْيَانَ؛ عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى؛ عَنْ الْحَكَمِ؛ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ؛ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: إذَا عَسِرَ عَلَى الْمَرْأَةِ وِلَادُهَا فَلْيَكْتُبْ: بِسْمِ اللَّهِ لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ؛ سُبْحَانَ اللَّهِ وَتَعَالَى رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ؛ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ {كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوا إلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحَاهَا} {كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ بَلَاغٌ فَهَلْ يُهْلَكُ إلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ} . قَالَ عَلِيٌّ: يُكْتَبُ فِي كاغدة فَيُعَلَّقُ عَلَى عَضُدِ الْمَرْأَةِ قَالَ عَلِيٌّ: وَقَدْ جَرَّبْنَاهُ فَلَمْ نَرَ شَيْئًا أَعْجَبَ مِنْهُ فَإِذَا وَضَعَتْ تُحِلُّهُ سَرِيعًا ثُمَّ تَجْعَلُهُ فِي خِرْقَةٍ أَوْ تُحْرِقُهُ.

الغرض ان حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ سلف میں اس عمل کو کیا گیا ہے اور یہ عمل ابن عباس سے منسوب کیا گیا ہے

لیکن یہ ابن عباس سے ثابت نہیں ہے کیونکہ اس کی سندوں میں محمد بن عبد الرحمن بن أبي ليلى کا تفرد ہے جو ضعیف ہے
محمد بن عبد الرحمن بن أبي ليلى الفقيه: صدوق، سيء الحفظ، قال ابن معين: ضعيف، وقال مرة: ليس بذاك، وقال النسائي: ليس بالقوي

وہابی عالم أبو عبيدة مشهور بن حسن آل سلمان نے المجالسة وجواهر العلم از أبو بكر أحمد بن مروان الدينوري المالكي (المتوفى : 333هـ) میں اس سند کو کتاب میں ضعیف قرار دیا ہے-

سند میں مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ہے
محمد بن أبي ليلى سيئ الحفظ جدا بہت خراب حافظہ کے مالک تھے-
اور اس حالت میں اس نے اس روایت کو ابن عباس سے منسوب کر دیا ہے-

أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ نے کہا : لا يُحْتَجُّ بِهِ، سَيِّئُ الحفظ.دلیل مت لینا خراب حافظہ کا ہے
وَرَوَى مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ عَنِ ابْنِ مَعِينٍ: ضَعِيفٌ. ابن معین نے کہا ضعیف ہے
وَقَالَ النَّسَائِيُّ، وَغَيْرُهُ: لَيْسَ بِالْقَوِيِّ.نسائی نے کہا قوی نہیں ہے
وَقَالَ الدَّارَقُطْنِيُّ: رديء الحفظ، كثير الوهم.دارقطنی نے کہا ردی حافظہ اور کثرت سے وہم کا شکار تھا-

امام احمد نے اس سند کو ناقابل دلیل قرار دیا ہے لیکن ان کے بیٹے نے خبر دی کہ اسی روایت کی بنیاد پر امام احمد تعویذ کرتے تھے کتاب المسائل امام احمد بن حنبل میں امام احمد نے با قاعدہ تعویذ بتایا کہ

كِتَابَة التعويذة للقرع والحمى وللمراة اذا عسر عَلَيْهَا الْولادَة

حَدثنَا قَالَ رَأَيْت ابي يكْتب التعاويذ للَّذي يقرع وللحمى لاهله وقراباته وَيكْتب للمراة اذا عسر عَلَيْهَا الْولادَة فِي جَام اَوْ شَيْء لطيف وَيكْتب حَدِيث ابْن عَبَّاس

کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ کو تعویذ لکھتے دیکھا گنج پن ، بیماری یا درد زہ کے لئے- خاندان والو اور رشتہ داروں کے لئے اور ان عورتوں کے لئے جن کو جننے میں دشواری ہو ان کے لئے وہ ایک برتن یا باریک کپڑے پر ابن عبّاس کی روایت لکھتے تھے-

محمد عمرو بن عبد اللطيف مصری عالم نے تكميل النفع بما لم يثبت به وقف ولا رفع میں لکھا ہے
مع ضعف هذا الأثر، فقد عمل به الإمام أحمد رحمه الله …. قال الخلال : أنبأنا أبو بكر المروذي (3) أن أبا عبد الله جاءه رجل فقال : يا أبا عبد الله تكتب لامرأة قد عسر عليها ولدها منذ يومين ، فقال : قل له يجئ بجام واسع وزعفران . ورأيته يكتب لغير واحد … )) . قلت : وفي هذا دليل على أن الإمام أحمد رحمه الله كان يأخذ بالأحاديث والآثار الضعيفة إذا لم يجد في الباب غيرها ، ولم يكن هناك ما يدفعها ، والله أعلم

اور اس اثر کے ضعیف ہونے کے باوجود امام احمد کا اس پر عمل ہے …. خلال نے ذکر کیا کہ ہمیں ابو بکر المروزی نے خبر دی کہ ایک شخص امام احمد کے پاس آیا اور کہا اے ابو عبد اللہ میرے بیوی کے لئے تعویذ لکھیں اس کو جننے میں مشکل ہے دو روز سے  پس امام احمد نے کہا ایک بڑا برتن لاو اور زعفران اور میں نے دیکھا کہ ایک سے زائد کے لئے یہ لکھتے تھے
میں (محمد عمرو بن عبد اللطيف) کہتا ہوں یہ دلیل ہے کہ احمد ان احادیث و اثار کو لیتے تھے جو ضعیف ہوتے تھے جب ان کو اس باب میں کوئی اور نہ ملتا و اللہ اعلم

ہمارا سوال ہے کہ باریک کپڑے پر لکھنے کا مقصد کیا ہے؟اصلا توہم پرست ان آیات لکھےکپڑوں کو کھاتے تھے یا زعفران سےآیات کٹورے کے کناروں پر لکھتے پھر اس میں پانی ڈال کر دھون پیتے-

امام ابن تیمیہ کتاب إيضاح الدلالة في عموم الرسالة میں لکھتے ہیں

قال عبد الله بن أحمد بن حنبل – قال أبي : حدثنا أسود بن عامر بإسناده بمعناه وقال يكتب في إناء نظيف

فيسقى … قال عبد الله رأيت أبي يكتب للمرأة في حام أو شئ نظيف

عبد الله بن احمد کہتے ہیں میرے باپ نے کہا ہم سے اسود نے روایت کیا….. اور کہا اور وہ صاف برتن پر لکھتے اور پھر پیتے عبد الله کہتے ہیں میرے باپ باریک چیز یا صاف چیز پر لکھتے۔

ابن تیمیہ اس کی تائید میں کہتے ہیں:

يجوز أن يكتب للمصاب وغيره شئ من كتاب الله وذكره بالمداد المباح – ويسقى

اور یہ جائز ہے کہ مصیبت زدہ کے لئے کتاب الله اور ذکر کو مباح روشنائی سے لکھے اور پی لے

اس کو ابن قیم نے بھی کتاب زاد المعاد میں جائز کہا ہے۔

فرقوں کی دلیل : فاطمہ پر دم

ابن السنی نے میں ایک اور روایت دی ہے
حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَامِرٍ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ خُنَيْسٍ، حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَطَاءٍ، ثنا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، حَدَّثَنِي عِيسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْقُرَشِيُّ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُمِّهِ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: ” أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا دَنَا وِلَادُهَا أَمَرَ أُمَّ سُلَيْمٍ، وَزَيْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ أَنْ تَأْتِيَا فَاطِمَةَ، فَتَقْرَآ عِنْدَهَا آيَةَ الْكُرْسِيِّ، وَ {إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ} [الأعراف: 54] إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، وَتُعَوِّذَاهَا بِالْمُعَوِّذَتَيْنِ “

حسین رضی اللہ عنہ نے اپنی ماں فاطمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی ولادت کا وقت انے کا پتا چلا آپ نے ام سلیم اور زینب بن جحش رضی اللہ عنہا کو حکم دیا کہ فاطمہ کے پاس جائیں اور ان پر آیت الکرسی پڑھیں اور سورہ الاعراف کی آیت ٥٤ سے آخر تک اور مُعَوِّذَتَيْنِ   پڑھیں

تبصرہ
سند میں بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ ضعیف ہے
موسى بن أبي حبيب بھی ضعیف ہے – الذھبی نے دیوان میں اس کا ذکر کیا ہے عن زين العابدين علي، ضعفه أبو حاتم

فرقوں کی دلیل

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی اس کی قائل تھیں کہ پانی میں تعویذ ڈال کر وہ پانی مریض پر چھڑکا جائے۔
مصنف ابن ابی شیبہ ج12 ص60
تبصرہ
عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت:-

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ، عَنْ عَائِشَةَ: «أَنَّهَا كَانَتْ لَا تَرَى بَأْسًا أَنْ يُعَوَّذَ فِي الْمَاءِ ثُمَّ يُصَبَّ عَلَى الْمَرِيضِ»

أَبِي مَعْشَرٍ سے مروی ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس میں برائی نہیں دیکھتی تھیں کہ پانی پر تعوذ کیا جائے پھر مریض پر اس کو ڈالا جائے-

ابی معشر ضعیف ہے – العلل ومعرفة الرجال از احمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ) کے مطابق

سَأَلت یحیی بن معِين عَن أبي معشر الْمَدِينِيّ الَّذِي يحدث عَن سعيد المَقْبُري وَمُحَمّد بن كَعْب فَقَالَ لَيْسَ بِقَوي فِي الحَدِيث
ابن معین کہتے ہیں کہ أبي معشر الْمَدِينِيّ جو سعید المقبری سے روایت کرتا ہے … یہ حدیث میں قوی نہیں ہے-

ابی معشر زياد بن كليب کا سماع تابعین سے ہے اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس کی روایت منقطع ہے اور ان دونوں کے درمیان إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ اور الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ کا واسطہ ہے اور بعض اوقات ان دونوں کے درمیان الشَّعْبيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ کا واسطہ اتا ہے-

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، أَنَّ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ سُئِلَتْ عَنِ النُّشَرِ، فَقَالَتْ: «مَا تَصْنَعُونَ بِهَذَا؟ هَذَا الْفُرَاتُ إِلَى جَانِبِكُمْ، يَسْتَنْقِعُ فِيهِ أَحَدُكُمْ يَسْتَقْبِلُ الْجِرْيَةَ»
الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ نے ام المومنین عائشہ سے نشر کا (عمل ) پوچھا – انہوں نے کہا کیسے کرتے ہیں ؟ یہ میٹھا پانی تمہارے پہلو میں ہے تم میں سے کوئی اس پانی کو لے اور گلے کے حلقوم کے سامنے لائے-

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «مَنْ أَصَابَهُ بُسْرَةٌ أَوْ سُمٌّ أَوْ سِحْرٌ فَلْيَأْتِ الْفُرَاتَ، فَلْيَسْتَقْبِلِ الْجِرْيَةَ، فَيَغْتَمِسْ فِيهِ سَبْعَ مَرَّاتٍ»
الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ نے ام المومنین عائشہ سے روایت کیا انہوں نے فرمایا جس کو بسرہ کی بیماری ہو یا زہر یا جادو- وہ میٹھا پانی لے اس کو حلقوم کے سامنے کرے اور اس پانی میں سات بار اپنے آپ کو ڈبوئے-

عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس میں پانی پر دم کرنے کا ذکر نہیں کیا ہے بلکہ صرف سات بار پانی سے بخار ٹھنڈا کرنے کا ذکر کیا ہے

فرقوں کی دلیل عائشہ رضی اللہ عنہا کا تعویذ کرنا

اماں عائشہ رضی ش عنہانے فرمایا کہ: ”(تمیمہ) تعویذ اسے کہتے ہیں جسے کسی مصیبت کے لاحق ہونے سے پہلے لٹکایا جائے، نہ کہ اس کے بعد“ (البیہقی: 9/351)۔

تبصرہ

اس کے متن میں اضطراب ہے
بیہقی سنن الکبریٰ میں عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا سے روایت بیان کرتے ہیں کہ

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، وَأَبُو سَعِيدِ بْنُ أَبِي عَمْرٍو قَالَا: ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ , ثنا هَارُونُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ثنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ:

لَيْسَتْ التَّمِيمَةُ مَا يُعَلَّقُ قَبْلَ الْبَلَاءِ إنَّمَا التَّمِيمَةُ مَا يُعَلَّقُ بَعْدَ الْبَلَاءِ لِتَدْفَعَ بِهِ الْمَقَادِيرَ
تعویذ وہ نہیں جو آفت سے پہلے لٹکایا جائے بلکہ تعویذ تو وہ ہے جو آفت کے بعد دفع کے لئے لٹکایا جائے

اس کے برعکس حاکم مستدرک میں روایت بیان کرتے ہیں

وَحَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ، ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: «لَيْسَتِ التَّمِيمَةُ مَا تَعَلَّقَ بِهِ بَعْدَ الْبَلَاءِ، إِنَّمَا التَّمِيمةُ مَا تَعَلَّقَ بِهِ قَبْلَ الْبَلَاءِ
عائشہ رضی الله روایت کرتی ہیں کہ تعویذ نہیں جو آفت کے بعد لٹکایا جائے بلکہ تعویذ تو وہ ہے جو آفت سے پہلے لٹکایا جائے

مضطرب المتن روایت بھی قابل رد ہوتی ہے کیونکہ یہ واضح نہیں رہا کہ کیا کہا گیا تھا

فرقوں کی دلیل مجاہد کا تعویذ کرنا

حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ قرآنی آیات کو لکھ کر ڈرنے والے مریض کو پلائی جائیں۔
مصنف ابن ابی شیبہ ج12 ص 74 پر
تبصرہ

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ ثُوَيْرٍ، قَالَ: «كَانَ مُجَاهِدٌ يَكْتُبُ لِلنَّاسِ التَّعْوِيذَ فَيُعَلِّقُهُ عَلَيْهِمْ»

ثوير بن أبى فاختة نے کہا مجاہد لوگوں کے لئے تعویذ لکھتے اور ان پر لٹکاتے

تبصرہ: سند میں ثوير بن أبى فاختة سخت ضعیف ہے

فرقوں کی دلیل سعید بن المسیب کا تعویذ کرنا
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي عِصْمَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ عَنِ التَّعْوِيذِ، فَقَالَ: «لَا بَأْسَ إِذَا كَانَ فِي أَدِيمٍ»
أَبِي عِصْمَةَ کہتے ہیں میں نے ابن المسیب سے سوال کیا تعویذ پر – کہا اگر چمڑے میں ہو تو کوئی برائی نہیں ہے

سنن الکبری البیہقی میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ الْحَسَنِ قَالَا: ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ الْأَصَمُّ، ثنا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ، ثنا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي نَافِعُ بْنُ يَزِيدَ، أَنَّهُ سَأَلَ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ عَنِ الرُّقَى وَتَعْلِيقِ الْكُتُبِ، فَقَالَ: كَانَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ يَأْمُرُ بِتَعْلِيقِ الْقُرْآنِ وَقَالَ: لَا بَأْسَ بِهِ. قَالَ الشَّيْخُ رَحِمَهُ اللهُ: وَهَذَا كُلُّهُ يَرْجِعُ إِلَى مَا قُلْنَا مِنْ أَنَّهُ إِنْ رَقَى بِمَا لَا يُعْرَفُ أَوْ عَلَى مَا كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ مِنْ إِضَافَةِ الْعَافِيَةِ إِلَى الرُّقَى لَمْ يَجُزْ , وَإِنْ رَقَى بِكِتَابِ اللهِ أَوْ بِمَا يَعْرِفُ مِنْ ذِكْرِ اللهِ مُتَبَرِّكًا بِهِ وَهُوَ يَرَى نُزُولَ الشِّفَاءِ مِنَ اللهِ تَعَالَى فَلَا بَأْسَ بِهِ، وَبِاللهِ التَّوْفِيقُ

نافع بن یزید ( الكلاعي أبو يزيد المصري المتوفی ١٦٨ ھ یا کوئی مجھول) نے یحیی بن سعید المتوفی ١٩٨ ھ سے دم اور تعویذ پر سوال کیا انہوں نے کہا کہ سعید بن المسیب قرآن لٹکانے کا حکم کرتے تھے –

یہ روایت ہی منقطع ہے کیونکہ یحیی بن سعید سے ابن مسیب تک کی سند نہیں ہے اس کے علاوہ نافع بن یزید خود یحیی سے کافی بڑے ہیں ان کا سوال کرنا بھی عجیب لگ رہا ہے

تبصرہ:
احمد العلل میں کہتے ہیں
أبو عصمة صاحب نعيم بن حماد، وقد روى شعبة، عن أبي عصمة، عن رجل، عن ابن المسيب، في التعويذ. «العلل» (1460)
معلوم ہوا کہ اس روایت میں مجھول راوی ہے

فرقوں کی دلیل امام ابو جعفر الباقر کا تعویذ کرنا
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ حَسَنٍ، عَنْ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِيهِ «أَنَّهُ كَانَ لَا يَرَى بَأْسًا أَنْ يَكْتُبَ الْقُرْآنَ فِي أَدِيمٍ ثُمَّ يُعَلِّقُهُ»
امام جعفر نے کہا میرے باپ نے کہا اس میں کوئی برائی نہیں اگر قرآن کو چمڑے پر لکھا جائے پھر لٹکایا جائے

تبصرہ: اس روایت کے راوی کون سے حسن ہیں؟ کیونکہ حسن نام کے سات راوی ہیں جو جعفر الصادق سے روایات بیان کرتے ہیں اور یہ سب ثقہ نہیں بلکہ بعض مجھول بھی ہیں

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ أَبَانَ بْنِ ثَعْلَبٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ خَبَّابٍ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ عَنِ التَّعْوِيذِ يُعَلَّقُ عَلَى الصِّبْيَانِ، «فَرَخَّصَ فِيهِ»

يُونُسَ بْنِ خَبَّابٍ نے کہا میں نے ابو جعفر سے بچوں پر تعویذ کا پوچھا تو انہوں نے اجازت دی

تبصرہ : سند میں يُونُسَ بْنِ خَبَّابٍ ضعیف ہے

فرقوں کی دلیل عطا کا تعویذ کرنا

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ عَطَاءٍ، فِي الْحَائِضِ يَكُونُ عَلَيْهَا التَّعْوِيذُ، قَالَ: «إِنْ كَانَ فِي أَدِيمٍ فَلْتَنْزِعْهُ، وَإِنْ كَانَ فِي قَصَبَةِ فِضَّةٍ فَإِنْ شَاءَتْ وَضَعَتْهُ وَإِنْ شَاءَتْ لَمْ تَضَعْهُ»

عطا سے پوچھا گیا کہ ایک حائضہ ہے جس پر تعویذ ہے – انہوں نے کہا اگر وہ چمڑے میں ہے تو اتار دے اگر چاندی میں ہے تو چاہے تو اتار رکھے اور چاہے تو نہ اتارے

تبصرہ : اگر اس سند میں عَبْدِ الْمَلِك سے مراد عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ ہے تو اغلبا یہ عطاء بن السائب ہے نہ کہ عطا بن ابی رباح – و الله اعلم

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: ….. قَالَ حَجَّاجٌ: وَسَأَلْتُ عَطَاءً، فَقَالَ: «مَا سَمِعْنَا بِكَرَاهِيَةٍ إِلَّا مِنْ قِبَلِكُمْ مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ»

حجاج نے کہا میں نے عطا بن ابی رباح سے تعویذ کے بارے میں پوچھا کہا ہم نے اس کی کراہت کے بارے میں اہل عراق سے قبل کسی کو نہیں سنا
تبصرہ : هُشيم ابن بشير، السلمي الواسطي نے جس حجاج سے روایت کیا وہ اصل میں حجاج بن أرطأة ہے جو مختلف فیہ اور مدلس بھی ہے -امام ابن معین کہتے ہیں یہ ضعیف ہے اور نسائی کہتے ہیں قوی نہیں ہے- لہذا سند ضعیف ہے

فرقوں کی دلیل ابن سیرین کا تعویذ کرنا

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ: «أَنَّهُ كَانَ لَا يَرَى بَأْسًا بِالشَّيْءِ مِنَ الْقُرْآنِ»
ابن سیرین سے مروی ہے کہ وہ قرآن میں سے کسی چیز(کو بھی لٹکانے ) میں برائی نہیں دیکھتے تھے

تبصرہ : کتاب المتفق والمفترق کے مطابق
أخبرنا البرقاني قال قال لي أبو الحسن الدارقطني إسماعيل بن مسلم المكي وأصله بصري يروي عن الحسن وابن سيرين وقتادة متروك
امام دارقطنی کہتے ہیں إسماعيل بن مسلم المكي اور اصلا بصري ہیں الحسن سے ابن سيرين سے اور قتادہ سے روایت کرتے ہیں متروک ہیں

تعویذ پر تساہل علماء

تعویذ کو عبد الوہاب النجدی نے اپنی کتاب التوحید میں شرک قرار دیا لیکن اسی دور میں بر صغیر کے اہل حدیث علماء اس کے جواز کے فتوے دیتے تھے-خود غیر مقلد علماء میں سے داؤد غزنوی، سید ابو بکر غزنوی ، نواب صدیق حسن خان ، مفتی ابوالبرکات احمد ، مولانا ثناء اللہ امرتسری ، عبدالرحمان مبارکپوری، حکیم صادق سیالکوٹی، ، میاں نذیر حسین دہلوی سمیت غزنوی ، لکھوی ، گیلانی ، قلعوی اور روپڑی خاندان کے نامی گرامی حضرات تعویزات و عملیات کے نہ صرف جواز کے قائل تھے بلکہ خود بھی بڑے عامل تھے۔ چنانچہ سید نذیر حسین دہلوی سے سوال ہوا کہ گلے میں تعویذ لٹکانا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب میں لکھا :تعویذ نوشتہ در گلو انداختن مضائقہ ندارد۔ مگر اشہر و اصح جواز است۔
فتاویٰ نذیریہ ج3 ص 298 پر

لکھے ہوئے تعویذ کو گلے میں لٹکانا درست ہے کوئی حرج کی بات نہیں زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ جائز ہے۔

اس فتویٰ کی تائید غیر مقلدین کے محدث عبدالرحمان مبارکپوی نے بھی کی اور لکھا

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنے بالغ لڑکوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے کلمات یاد کراتے تھے اور نابالغ لڑکوں کے لیے ان کلمات کو ایک کاغذ پر لکھ کر ان کے گلے میں لٹکا دیتے تھے۔ )ابوداود ترمذی(مزید لکھتے ہیں کہ شراح حدیث اس روایت کے تحت لکھتے ہیں کہ جس تعویذ میں اللہ کا نام لکھا ہوا ہو یا قرآن کی کوئی آیت یا کوئی دعا ماثورہ لکھی ہوئی ہو ایسے تعویذ کا کا بالغ لڑکوں کے گلے میں لٹکانا درست ہے۔
فتاویٰ نذیریہ ج 3 ص 299 پر

زاد المعاد میں ابن قیم نے اپنے شیخ ابن تیمیہ کا ذکر کیا
كِتَابٌ للرّعاف: كَانَ شَيْخُ الْإِسْلَامِ ابْنُ تَيْمِيَّةَ رَحِمَهُ اللَّهُ يكتب على جبهته:
وَقِيلَ يا أَرْضُ ابْلَعِي ماءَكِ، وَيا سَماءُ أَقْلِعِي وَغِيضَ الْماءُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ «2» .
وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: كَتَبْتُهَا لِغَيْرِ وَاحِدٍ فَبَرَأَ،

نکسیر پھوٹنے پر لکھنا- شیخ اسلام ابن تیمیہ … پیشانی پر لکھا کرتے
وَقِيلَ يا أَرْضُ ابْلَعِي ماءَكِ، وَيا سَماءُ أَقْلِعِي وَغِيضَ الْماءُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ
اور میں نے ان کو کہتے سنا کہ ایک سے زائد کے لئے لکھا وہ اس سے صحت یاب ہوئے۔

آیات کو جسم پر ٹیٹو کی طرح لکھنا، آیات کو زعفران سے لکھ کر دھون پینا، یا آیات کپڑے پر لکھ کر حاملہ پر لٹکانا یا اس کو کھلانا کس سنت سے معلوم ہے؟

ابن تیمیہ و ابن قیم سے سلفیوں کو دلیل ملی کہ جسم پر قرانی آیات کو ٹیٹو  بنا سکتے ہیں اور عرب نوجوان ایسا کر بھی رہے ہیں

دم و تعویذ

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

اس کتاب کا اجراء سن  ٢٠١٧ میں ہوا تھا – اس کے بعد سے اب تک اس میں اضافہ ہوا ہے

تعویذ کی ممانعت سے متعلق  احادیث  حسن   اور صحیح لغیرہ درجہ کی ہیں-  یہ ممانعت قولی احادیث میں ہے یعنی بزبان نبوی اس سے منع کیا گیا ہے – تعویذ  کے جواز سے متعلق بیشتر روایات میں اہل مکہ کا تفرد ہے اور ممانعت کی روایت فقہائے عراق سے نقل لی گئی ہے – اس بنا پر تعویذ  چاہے قرانی ہو یا غیر قرانی اس کو استعمال نہ کیا جائے   کیونکہ قولی حدیث میں اس کی ممانعت مل گئی ہے-

دم کی اسلام میں اجازت ہے لیکن یہ دم اگر شرکیہ ہوں تو مطلقا حرام ہیں – اس کتاب میں   دم اور تعویذ سے متعلق مباحث ہیں

شرعی تعویذات کا فراڈ

عام مسلمان جن کے گلے میں تعویذ ہو جب ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ اپ تعویذ کیوں لٹکاتے ہیں تو وہ جواب دیتے ہیں کہ قرآن کلام الله ہے اس میں قوت و طاقت ہے اس کی وجہ سے جنات بھاگ جاتے ہیں شیاطین قریب نہیں اتے اور بیماری نہیں ہوتی کیونکہ اس میں شفا ہے

قرآن  سوره الاسراء  ٨٢ میں  ہے

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا

أور هم نے اس قرآن میں نازل کیا  ہے وہ جس میں  شفاء اور  رحمت  ہے اور ظالموں کے لئے سوائے خسارے کے یہ کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا

یہاں  شفا سے مراد قرانی اصطلاح فی قلوبھم مرض کی طرف اشارہ ہے کہ آیات سے ان کو شفا مل سکتی ہے – ظاہر ہے جب ہم قرآن میں فی قلوبھم مرض پڑھتے ہیں تو ہم اس کا مطلب یہ نہیں لیتے کہ کفار عنید کو دل کا آپریشن یا ٹرانسپلانٹ درکار ہے بلکہ ان الفاظ کی تاویل کی جاتی ہے – فرقوں کی جانب سے  آیت کا مفہوم ایک طرف تو اس کے ظاہر پر لیا جاتا ہے کہ  مومن کو شفا ملتی ہے لیکن یہ نہیں کہتے کہ  ظالم  (یا مشرک ) کو قرآن سے  شفا نہیں ملتی –   دوسری طرف فرقہ پرستوں کی جانب سے حدیث پیش کی جاتی ہے جس میں ایک  مشرک سردار  کو شفا ملنے کا ذکر ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ واقعہ خاص تھا عام نہیں تھا

امام بخاری الصحيح  میں ابُ الشَّرْطِ فِي الرُّقْيَةِ بِقَطِيعٍ مِنَ الغَنَمِ روایت کرتے ہیں کہ

ابن عباس اور ابو سعید الخدری رضی الله تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ  نبی الله علیہ وسلم کے کچھ اصحاب سفر میں تھے – دوران سفر انہوں نے اک قبیلے کے پاس پڑاؤ کیا – صحابہ نے چاہا کہ قبیلہ والے ان کو مہمان تسلیم کریں  لیکن قبیلہ والوں نے صاف انکار کر دیا – ان کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا – قبیلہ والوں نے اصحاب رسول سے  ہی علاج کے لئے مدد طلب کی جس پر ایک صحابی نے سوره الفتاحہ پڑھ کر سردار کو دم کیا اور وہ اچھا بھی ہو گیا -اس کے بدلے میں انہوں نے تیس بکریاں بھی لے لیں – صحابہ نے اس پر کراہت کا اظہا ر کیا اور مدینہ پہنچ کر آپ صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا آپ نے قصہ سننے کے بعد کہا  

إِنَّ أَحَقَّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا كِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ

بے شک تم حق رکھتے تھے اس اجر  پر جو تم نے کتاب الله سے حاصل کیا

اس حدیث کی غلط تاویل  کر کے  تعویذ لکھنے پر علماء کی طرف سے اجرت طلب کی جاتی ہے یا با الفاظ دیگر تعویذ بیچا جاتا ہے –  اس طرح قرآن اور حدیث سے اس پر اپنی  پسند کی نص لانے کے بعد سلف کا عمل بھی دلیل میں پیش ہوتا ہے -فرقہ پرستوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ اسلام میں تعویذ جائز ہے اور اس کے لئے دلیل سلف کا عمل ہے مثلا    امام احمد کے صلبی  فرزند نے اپنے باپ سے پوچھے گئے فتووں  پر کتاب تالیف کی   جس کا نام المسائل امام احمد بن حنبل ہے – اس میں امام احمد نے با قاعدہ تعویذ بتایا کہ

كِتَابَة التعويذة للقرع والحمى وللمراة اذا عسر عَلَيْهَا الْولادَة

حَدثنَا قَالَ رَأَيْت ابي يكْتب التعاويذ للَّذي يقرع وللحمى لاهله وقراباته وَيكْتب للمراة اذا عسر عَلَيْهَا الْولادَة فِي جَام اَوْ شَيْء لطيف وَيكْتب حَدِيث ابْن عَبَّاس

 میں نے اپنے باپ کو تعویذ لکھتے دیکھا گنج پن ، بیماری یا درد زہ کے لئے – خاندان والوں اور رشتہ داروں کے لئے اور ان عورتوں کے لئے جن کو جننے میں دشواری ہو ان کے لئے وہ ایک برتن یا باریک کپڑے پر ابن عبّاس کی روایت لکھتے تھے

شریعت کا یہ حکم  کوئی بتائے جس میں ہو کہ  سرعت ولادت کے لئے  باریک کپڑے پر تعویذ لکھنا جائزہے اور یہ بھی جائز ہے کہ اس تعویذ کو  گھول کر پیا جائے یا جسم پر باندھا جائے –  اسی طرح کے سلف کے فتووں کی وجہ سے   بعض علماء نے  قرآن لکھ کر عورت کے جسم پر باندھنے کا بھی فتوی دیا ہے مثلا   اشرف علی تھانوی  اعمال قرآن حصہ اول صفحہ ۲۴,۲۵ میں اسی طرح لکھتے ہیں

 سہولت ولادت
إِذَا السَّمَاء انشَقَّتْ (1) وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ (2) وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ (3) وَأَلْقَتْ مَا فِيهَا وَتَخَلَّتْ (4)
ان آیتوں کو لکھ کر ولادت کی آسانی کے لیے بائیں ران میں باندھ دے ان شاء اللہ تعالى بہت آسانی سے ولادت ہوگی , مگر بعد ولادت تعویذ کو فورا کھول دینا چاہیے اور اسی عورت کے سر کے بالوں کی دھونی مقام خاص پر دینا مفید ولادت ہے

نہ صرف سرعت ولادت بلکہ عام حالات میں تعویذ کے جواز کا فتوی سلف سے منقول  ہے – كتاب الفروع  از ابن مفلح الحنبلي (المتوفى: 763هـ ) میں امام احمد کے فتووں میں ارتقاء کا ذکر  ہے

وَقَالَ ابْنُ مَنْصُورٍ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: هَلْ يُعَلِّقُ شَيْئًا مِنْ الْقُرْآنِ؟ قَالَ: التَّعْلِيقُ كُلُّهُ مَكْرُوهٌ، وَكَذَا قَالَ فِي رِوَايَةِ صَالِحٍ. وَقَالَ الْمَيْمُونِيُّ: سَمِعْت مَنْ سَأَلَ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عَنْ التَّمَائِمِ تُعَلَّقُ بَعْدَ نُزُولِ الْبَلَاءِ فَقَالَ: أَرْجُو أَنْ لَا يَكُونَ بِهِ بَأْسٌ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَقَدْ رَأَيْت عَلَى ابْنٍ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ وَهُوَ صَغِيرٌ تَمِيمَةً فِي رَقَبَتِهِ فِي أُدُمٍ، قَالَ الْخَلَّالُ: قَدْ كَتَبَ هُوَ مِنْ الْحُمَّى بَعْدَ نُزُولِ الْبَلَاءِ، وَالْكَرَاهَةُ مِنْ تَعْلِيقِ ذَلِكَ قَبْلَ نُزُولِ الْبَلَاءِ هُوَ الَّذِي عَلَيْهِ الْعَمَلُ، انْتَهَى

المروزی نے امام احمد سے پوچھا کیا قرآن میں سے کچھ لٹکایا جائے ؟ امام احمد نے کہا ہر لٹکانے والی چیز مکروہ ہے اور ایسا ہی  صالح نے روایت کیا ہے اور میمونی نے کہا میں نے امام احمد سے تعویذ پر سوال کیا کہ آفت نازل ہونے کے بعد لٹکا لیا جائے انہوں نے کہا اس میں امید ہے کوئی برائی نہیں اور امام ابو داود کہتے ہیں انہوں نے احمد کے چھوٹے بیٹے کے گلے میں چمڑے کا تمیمہ دیکھا  الخلال کہتے ہیں اور امام احمد  تمیمہ لکھتے بخآر کے لئے آفت کے نزول کے بعد اور اس سے کراہت کرتے کہ اس کو نزول بلا سے پہلے لٹکایا جائے اور اسی پر (حنابلہ کا) عمل ہے انتھی

المروزی کی وفات ٢٥١ ھ میں ہوئی اور ان کے مطابق امام احمد قرانی تعویذ نہیں کرتے تھے- أبو داود   المتوفی ٢٧٥ ھ  کہتے ہیں امام احمد کے بیٹے کے گلے میں ایک تمیمہ ہوتا تھا- یعنی مرزوی کے انتقال کے بعد احمد کا نقطہ نظر تعویذ پر بدل  گیا تھا – مزید  سوال ہے کہ تمیمہ تھا تو کس نوعیت کا تھا؟

ایک اہل  حدیث عالم   تمیمہ کی وضاحت اس طرح  کرتے ہیں

مشہور و معروف لغت دان مجد الدین فیرزآبادی القاموس المحیط میں لکھتے ہیں

والتمیم التام الخلق ، والشدید ، وجمع تمیمة کا لتمائم لخرزة رقطاء تنظم فی السیر ، ثم یعقد فی العنق

تمیمہ کا لفظ دھاری دار کرزہ ومنکہ جو چمڑے کی تندی میں پرولیا جاتا، پھر گردن میں باندھ دیا جاتا ہے پر بولا جاتا ہے تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اس قسم کے خرزات و منکوں ، کوڈوں اور گھک منکوں کے لٹکانے کو شرک قرار دے رہے ہیں نہ کہ کاغذوں یا چمڑوں میں لکھے ہوئے کتاب و سنت کے کلمات لٹکانے کو۔

http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/2368/0/

ابن قیم نے کتاب زاد المعاد في هدي خير العباد میں واضح اقرار کیا ہے کہ امام احمد تعویذ کرتے تھے
قَالَ حرب: وَلَمْ يُشَدِّدْ فِيهِ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، قَالَ أحمد: وَكَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ يَكْرَهُهُ كَرَاهَةً شَدِيدَةً جِدًّا. وَقَالَ أحمد وَقَدْ سُئِلَ عَنِ التَّمَائِمِ تُعَلَّقُ بَعْدَ نُزُولِ الْبَلَاءِ؟ قَالَ: أَرْجُو أَنْ لَا يَكُونَ بِهِ بَأْسٌ.

حرب کرمانی نے کہا امام احمد تعویذ میں شدت نہیں کرتے تھے اور احمد نے کہا ابن مسعود کو اس سے سخت کراہت تھی اور کہا احمد سے تمائم پر سوال ہوا کہ آفت کے بعد لٹکایا جائے تو فرمایا امید ہے اس میں برائی نہیں ہے

امام احمد سے متاثر ابن تیمیہ  کا بھی تاریخ میں ذکر ہے –   البدایہ و النہایہ میں ابن تیمیہ المتوفی ٧٢٨ ھ کی موت پر جو ازدہام ہوا اس کے ذکر میں ابن کثیر  (المتوفى: 774هـ) نے یہ   نقل کیا ہے

 وَشَرِبَ جَمَاعَةٌ الْمَاءَ الَّذِي فَضَلَ مِنْ غُسْلِهِ، وَاقْتَسَمَ جَمَاعَةٌ بَقِيَّةَ السِّدْرِ الّذي غسل به، ودفع في الْخَيْطَ الَّذِي كَانَ فِيهِ الزِّئْبَقُ الَّذِي كَانَ في عنقه بسبب القمل مائة وخمسون درهما
ایک جماعت نے اس پانی کو پیا جو ان کے غسل (میت) میں زائد تھا اور جو بیری غسل کے بعد بچی اس کو بانٹ دیا گا اور ان کے گلے میں جوؤں کے سبب جو مرکری کا دھاگہ تھا اس کو ١٥٠ درہم میں دور کیا گیا

https://www.youtube.com/watch?v=Pa7Q2_j7VLE

 

اس کے برعکس مسند احمد کی حدیث ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي [ص:652] شُرَحْبِيلُ بْنُ شَرِيكٍ الْمَعَافِرِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ رَافِعٍ التَّنُوخِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَا أُبَالِي مَا أَتَيْتُ أَوْ مَا رَكِبْتُ، إِذَا أَنَا شَرِبْتُ تِرْيَاقًا، أَوْ تَعَلَّقْتُ تَمِيمَةً، أَوْ قُلْتُ الشِّعْرَ مِنْ قِبَلِ نَفْسِي»
عبد الله رضی الله عنہ  نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں بے پرواہ ہوا اس سے جو مجھے ملا .. کہ اگر میں تریاق پی لوں یا تعویذ لٹکا لوں یا اشعار کہوں

حیرت ہے کہ ابن تیمیہ فتوی میں اس روایت کا متن  تک تبدیل کرتے  ہیں
مَا رُوِيَ أَيْضًا فِي سُنَنِهِ: «أَنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – نَهَى عَنْ الدَّوَاءِ الْخَبِيثِ» وَهُوَ نَصٌّ جَامِعٌ مَانِعٌ، وَهُوَ صُورَةُ الْفَتْوَى فِي الْمَسْأَلَةِ. الْوَجْهُ السَّادِسُ: الْحَدِيثُ الْمَرْفُوعُ: «مَا أُبَالِي مَا أُتِيت أَوْ مَا رَكِبْت – إذَا شَرِبْت تِرْيَاقًا، أَوْ نَطَقْت تَمِيمَةً، أَوْ قُلْت الشِّعْرَ مِنْ نَفْسِي

اس میں  ابن تیمیہ نے تعویذ لٹکانے کو  نَطَقْت تَمِيمَةً یعنی تَمِيمَةً بولوں کر دیا ہے  – یہ الفاظ مجموعہ کتب احادیث میں نہیں ہیں

دوم کتب ابن تیمیہ میں تعویذ کی ممانعت والی احادیث   نہیں ملیں  اسی طرح  ممکن ہے یہ دم شدہ دھاگہ ہو جس میں مرکری پر دم کیا گیا ہو – مرکری ایک زہریلا مادہ ہے ممکن ہے ابن تیمیہ کی ہلاکت اسی دھاگہ کے سبب ہوئی ہو کیونکہ ابن تیمیہ سائنس  سے نا بلد تھے

جن اتارنے کا علاج بتاتے ہوئے ابن تیمیہ نے فتوی لکھا ہے جب سوال ہوا کہ شرع میں جن اتارنے کا علاج تمیمہ سے کیا جائے؟

هَلْ الشَّرْعُ الْمُطَهَّرُ يُنْكِرُ مَا تَفْعَلُهُ الشَّيَاطِينُ الجانة مِنْ مَسِّهَا وتخبيطها وَجَوَلَانِ بَوَارِقِهَا عَلَى بَنِي آدَمَ وَاعْتِرَاضِهَا؟ فَهَلْ لِذَلِكَ مُعَالَجَةٌ بِالْمُخَرَّقَاتِ وَالْأَحْرَازِ وَالْعَزَائِمِ وَالْأَقْسَامِ وَالرُّقَى وَالتَّعَوُّذَاتِ وَالتَّمَائِمِ؟

جواب دیا
وَأَمَّا مُعَالَجَةُ الْمَصْرُوعِ بِالرُّقَى، وَالتَّعَوُّذَاتِ. فَهَذَا عَلَى وَجْهَيْنِ: فَإِنْ كَانَتْ الرُّقَى وَالتَّعَاوِيذُ مِمَّا يُعْرَفُ مَعْنَاهَا، وَمِمَّا يَجُوزُ فِي دِينِ الْإِسْلَامِ أَنْ يَتَكَلَّمَ بِهَا الرَّجُلُ، دَاعِيًا لِلَّهِ، ذَاكِرًا لَهُ، وَمُخَاطِبًا لِخَلْقِهِ، وَنَحْوُ ذَلِكَ، فَإِنَّهُ يَجُوزُ أَنْ يُرْقَى بِهَا الْمَصْرُوعُ، وَيُعَوَّذَ
اور جس پر جن چڑھا ہو اس کا علاج دم سے یا تعویذ سے کرنا اس میں دو رخ ہیں کہ اگر ان کا مطلب معروف ہے اور دین اسلام میں جائز ہو تو الله کو پکارا گیا ہو اس کا ذکر ہو اور … تو اس سے دم جائز ہے اس سے پناہ لی جا سکتی ہے

 اپ دیکھ سکتے ہیں ابن تیمیہ نے تعویذ پر سوال ہوا لیکن اس کا رد نہیں کیا کہ اس کو لٹکانا شرک ہے بلکہ دم و تعویذ کو ملا کر ان کو جائز کہا ہے – جبکہ اگر کوئی سائل شرک پر سوال کرے تو لازم اتا ہے کہ سب سے پہلے اس شرک کا رد کیا جائے

زاد المعاد میں ابن قیم نے اپنے شیخ ابن تیمیہ کا ذکر کیا
كِتَابٌ للرّعاف: كَانَ شَيْخُ الْإِسْلَامِ ابْنُ تَيْمِيَّةَ رَحِمَهُ اللَّهُ يكتب على جبهته:
وَقِيلَ يا أَرْضُ ابْلَعِي ماءَكِ، وَيا سَماءُ أَقْلِعِي وَغِيضَ الْماءُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ «2» .
وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: كَتَبْتُهَا لِغَيْرِ وَاحِدٍ فَبَرَأَ،

نکسیر پھوٹنے پر لکھنا- شیخ اسلام ابن تیمیہ … پیشانی پر لکھا کرتے
وَقِيلَ يا أَرْضُ ابْلَعِي ماءَكِ، وَيا سَماءُ أَقْلِعِي وَغِيضَ الْماءُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ
اور میں نے ان کو کہتے سنا کہ ایک سے زائد کے لئے لکھا وہ اس سے صحت یاب ہوئے

آیات کو جسم پر ٹیٹو کی طرح لکھنا کس سنت سے معلوم ہے ؟   ابن تیمیہ  نے آیات سے تجربات کر کے یہ جانا کہ کون سی آیات کس مرض میں افاقہ دے سکتی ہیں ان کو جسم پر مقام مرض کے پاس لکھا جائے – اس طرح قرآن عظیم پر ان کے تجربات جاری تھے کہ موصوف کا انتقال اس حال میں  ہوا کہ گلے میں مرکری میں آلودہ  تار پڑا تھا

اہل بیت کی انگوٹھیاں

انگوٹھی پر آیات یا اسماء الحسنی کندہ کروانا

صحیح احادیث کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ایک انگوٹھی تھی جس پر محمد رسول الله کندہ تھا -اس کو اپ صلی الله علیہ وسلم  بطور مہر استعمال کرتے تھے- لیکن بعد میں یہ انگوٹھی   عثمان رضی الله عنہ سے مدینہ میں  اریس نامی ایک کنواں میں گر گئی اور ملی نہیں

کتب اہل سنت

طبقات الکبری از ابن سعد  کی روایت ہے

قَالَ: أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ الْكِلابِيُّ قَالَ: أَخْبَرَنَا مُعْتَمِرٌ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الشَّيْبَانِيِّ قَالَ: قَرَأْتُ نَقْشَ خَاتَمِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ فِي صُلْحِ أَهْلِ الشَّامِ: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ.

ابی اسحٰق الشیبانی نے کہا میں نے علی کی انگوٹھی پر نقش اہل شام سے صلح کے وقت دیکھا اس پر لکھا تھا محمد رسول الله

سند میں أَبُو إِسْحَاقَ الشَّيْبَانِيُّ  الكوفي ہے جس کو سُلَيْمَانُ بْنُ فَيْرُوزَ یا  سُلَيْمَانُ ابْنُ خَاقَانَ یا سلَيْمَان بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ بھی کہا جاتا ہے  – اس نے علی کو نہیں پایا اور  اس طرح کی انگوٹھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تھی جو معدوم ہوئی- کتاب  إمتاع الأسماع بما للنبي من الأحوال والأموال والحفدة والمتاع از  المقريزي (المتوفى: 845هـ) کے محقق   محمد عبد الحميد النميسي کہتے ہیں

 قال أحمد بن يحى بن جابر: نسبت إلى أريس رجل من المدينة من اليهود، عليها مال لعثمان بن عفان رضى اللَّه عنه، وفيها سقط خاتم النبي صلّى اللَّه عليه وسلّم من يد عثمان، في السنة السادسة من خلافته، واجتهد في استخراجه بكل ما وجد إليه سبيلا، فلم يوجد إلى هذه الغاية، فاستدلوا بعد به على حادث في الإسلام عظيم

احمد بن یحیی بن جابر نے کہا : اس کنواں کی نسبت اریس کی طرف ہے جو مدینہ کا ایک یہودی تھا اور اس پر عثمان کا مال لگا اور کنواں میں رسول الله صلّى اللَّه عليه وسلّم  کی مہر عثمان کے ہاتھ سے گری ان کی خلافت کے چھٹے سال اور انہوں نے اس کو نکلالنے کا اجتہاد کیا لیکن کوئی سبیل نہ پائی اس میں کامیاب نہ ہوئے اور اس پر استدلال کیا گیا کہ یہ  اسلام کا ایک عظیم حادثہ ہے

یعنی محمد رسول الله کے الفاظ سے کندہ کرائی انگوٹھی کھو گئی تھی- رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بعد کسی کے لئے یہ جائز  نہیں تھا کہ وہ اس طرح کی انگوٹھی اپنے لئے  بناتا

سنن ترمذی میں ہے

حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الخَلَّالُ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، “أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَنَعَ خَاتَمًا مِنْ وَرِقٍ، فَنَقَشَ فِيهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ”، ثُمَّ قَالَ: “لَا تَنْقُشُوا عَلَيْهِ”: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَمَعْنَى قَوْلِهِ: “لَا تَنْقُشُوا عَلَيْهِ”، نَهَى أَنْ يَنْقُشَ أَحَدٌ عَلَى خَاتَمِهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ

رسول الله نے حکم دیا اس نقش (محمد رسول الله) کو  کوئی اور کندہ نہ کروائے

طبقات الکبری از ابن سعد  کی روایت ہے

قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبَانُ بْنُ قَطَنٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ أَبِيهِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى: أَنَّ

عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ تَخَتَّمَ فِي يَسَارِهِ

عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى  نے کہا علی سیدھے ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے

اس کی سند میں محمد بن عبد الرحمن بن أبي ليلى ہے جس کو امام احمد نے  مضطرب الحديث قرار دیا ہے

قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أُوَيْسٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلالٍ عَنْ جعفر بن محمد عَنْ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيهِ: أَنَّ عَلِيًّا تَخَتَّمَ فِي الْيَسَارِ.

جعفر بن محمد نے علی سے انہوں نے باپ سے روایت کیا کہ علی سیدھے ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے

معجم ابن الأعرابي از أبو سعيد بن الأعرابي أحمد بن محمد بن زياد بن بشر بن درهم البصري الصوفي (340هـ) کی روایت ہے

نا مُحَمَّدٌ الْغَلَابِيُّ، نا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى بْنِ زَيْدٍ قَالَ: حَدَّثَنِي عَمِّي الْحُسَيْنُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَ نَقْشُ خَاتَمِ عَلِيٍّ «الْمُلْكُ لِلَّهِ، عَلِيٌّ عَبْدُهُ»

جعفر بن محمد نے علی سے انہوں نے باپ سے روایت کیا کہ علی   انگوٹھی پہنتے تھے جس پر نقش تھا الله  کے لئے بادشاہت ہے علی اس کا بندہ ہے

سند میں امام جعفر ہیں جو   روایت حدیث میں مضطرب ہیں

طبقات الکبری از ابن سعد  کی روایت ہے

[قَالَ: أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى الأَشْيَبُ وَعَمْرُو بْنُ خَالِدٍ الْمِصْرِيُّ قَالا: أَخْبَرَنَا زُهَيْرٌ عَنْ جَابِرٍ الْجُعْفِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ: كَانَ نَقْشُ خَاتَمِ عَلِيٍّ: اللَّهُ الْمَلِكُ] . [قَالَ: أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى قَالَ: أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ جَابِرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ: كَانَ نَقْشُ خَاتَمِ عَلِيٍّ: اللَّهُ الْمَلِكُ] .

جابر جعفی نے  ابن حنفیہ سے روایت کیا کہ علی کی انگوٹھی پر لکھا تھا الله الملک

اس کی سند میں جابر جعفی سخت ضعیف ہے

کتب اہل تشیع

مستدرك سفينة البحار از   علي النمازي میں ہے

عن الصّادق، عن أبيه(عليهما السلام): إنّ خاتم رسول الله(صلى الله عليه وآله) كان من فضّة ونقشه «محمّد رسول الله». قال: وكان نقش خاتم عليّ(عليه السلام): الله الملك. وكان نقش خاتم والدي رضي الله عنه: العزّة لله

امام جعفر صادق  نے باپ سے روایت کیا کہ رسول الله صلى الله عليه وآله کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس پر نقش تھا محمد رسول الله اور علی کی انگوٹھی پر نقش تھا الله الملک اور  امام جعفر کے باپ کی انگوٹھی پر نقش تھا عزت الله کی ہے

مستدرك سفينة البحار از   علي النمازي میں ہے

الكافي: عن أبي عبدالله(عليه السلام) قال: في خاتم الحسن والحسين الحمدلله(3).

وعن الرّضا(عليه السلام): كان نقش خاتم الحسن: العزّةلله، وخاتم الحسين: إنّ الله بالغ أمره(4).

الکافی از کلینی میں ہے ابو عبد الله سے روایت ہے کہ امام حسن و حسین کی انگوٹھی پر کندہ تھا الحمد للہ اور امام رضا سے روایت ہے حسن کی انگوٹھی پر لکھا تھا العزّةلله، اور حسین کی انگوٹھی پر لکھا تھا إنّ الله بالغ أمره

قرآن کی آیت إنّ الله بالغ أمره سورہ طلاق میں ہے

مستدرك سفينة البحار از   علي النمازي میں ہے

أمالي الصدوق: عن الباقر(عليه السلام): كان للحسين بن عليّ(عليه السلام) خاتمان نقش أحدهما: لا إله إلاّ الله عدّة للقاء الله، ونقش الآخر: إنّ الله بالغ أمره. وكان نقش خاتم عليّ بن الحسين(عليه السلام): خزي وشقي قاتل الحسين بن عليّ(عليه السلام)(5). في أنّ الحسين(عليه السلام) أوصى إلى ابنه عليّ بن الحسين(عليه السلام) وجعل خاتمه في إصبعه وفوّض أمره إليه، ثمّ صار الخاتم إلى محمّد بن عليّ، ثمّ إلى جعفر بن محمّد وكان يلبسه كلّ جمعة ويصلّي فيه، فرآه محمّد بن مسلم في إصبعه وكان نقشه: لا إله إلاّ الله عدّة للقاء الله(6).

أمالي  از  الصدوق میں امام   الباقر(عليه السلام) سے روایت ہے کہ حسین بن علی علیہ السلام کی انگوٹھیاں تھیں- ان میں سے  ایک پر لکھا تھا لا إله إلاّ الله عدّة للقاء الله اور دوسری پر لکھا تھا  إنّ الله بالغ أمره اور علی بن حسین علیہ السلام کی انگوٹھی پر کندہ تھا  ذلیل و رسوا ہوں حسین بن علی کے قاتل کیونکہ حسین نے اپنے بیٹے علی بن حسین کو امر سونپ دیا تھا پھر یہ انگوٹھی گئی محمد بن علی کے پاس وہ اس کو ہر جمعہ پہنتے اور اسی میں نماز پڑھتے  اس کو محمد بن مسلم نے ان کی انگلی میں  دیکھا کہ اس پر کندہ تھا   لا إله إلاّ الله عدّة للقاء الله

بحار الأنوار از   محمد باقر المجلسيى  کی کتاب میں ہے

عن سعد: عن ابن عيسى، عن ابن فضال، عن ابن بكير، عن محمد بن مسلم، عن أبي جعفر عليه  السلام قال: إن لرسول الله صلى الله عليه واله عشرة أسماء: خمسة منها في القرآن،  وخمسة ليست في القرآن، فأما التي في القرآن: فمحمد، وأحمد، وعبد الله، ويس، ون، وأما التي ليست في القرآن: فالفاتح، والخاتم، والكاف، والمقفي، والحاشر

محمد بن مسلم نے أبي جعفر عليه  السلام سے روایت کیا کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پانچ نام قرآن میں ہیں اور پانچ اس میں نہیں ہیں – جو پانچ قرآن میں ہیں وہ ہیں محمد ، احمد ، عبد الله ، یس، ن اور جو نہیں ہیں وہ ہیں فاتح ،  خاتم، کاف اور مقفی اور حاشر

یہ نام بھی تعویذات میں لکھے جاتے ہیں

انگوٹھیوں پر  اسماء الحسنی اور آیات قرانی کندہ کروانا دونوں  اہل سنت  اور اہل تشیع نے اہل بیت النبی سے منسوب کیا ہے – اس کا مقصد کیا تھا مہر تھی یا تعویذ یہ واضح نہیں ہوا

انگوٹھیوں میں پتھر پہنا

کتب اہل سنت

صحیح مسلم  اور مسند ابو یعلی  میں ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ وَهْبٍ الْمِصْرِيُّ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ: «كَانَ خَاتَمُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ وَرِقٍ، وَكَانَ فَصُّهُ حَبَشِيًّا»

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ أَيُّوبَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ الْمِصْرِيُّ أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ قَالَ کَانَ خَاتَمُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ وَرِقٍ وَکَانَ فَصُّهُ حَبَشِيًّا

ترجمہ :  یحیی بن ایوب، عبداللہ بن وہب، مصری یونس بن یزید ابن شہاب، حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس کا نگینہ حبش کا تھا۔

حديث:990

و حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَبَّادُ بْنُ مُوسَی قَالَا حَدَّثَنَا طَلْحَةُ بْنُ يَحْيَی وَهُوَ الْأَنْصَارِيُّ ثُمَّ الزُّرَقِيُّ عَنْ يُونُسَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَبِسَ خَاتَمَ فِضَّةٍ فِي يَمِينِهِ فِيهِ فَصٌّ حَبَشِيٌّ کَانَ يَجْعَلُ فَصَّهُ مِمَّا يَلِي کَفَّهُ

عثمان بن ابی شیبہ، عباد بن موسی، طلحہ بن یحیی، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چاندی کی انگوٹھی اپنے دائیں ہاتھ میں پہنی تھی جس میں حبشہ کا نگینہ تھا انگوٹھی پہنتے وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کا نگینہ اپنی ہتھیلی کی رخ کی طرف کرلیتے تھے۔

محمد فؤاد عبد الباقي شرح میں لکھتے ہوں

  (حبشيا) قال العلماء يعني حجرا حبشيا أي فصا من جزع أو عقيق فإن معدنهما بالحبشة واليمن وقيل لونه حبشي أي أسود

علماء کہتے  ہیں حبشی پتھر تھا یعنی نگ سنگ مرمر کا یا عقیق کا تھا اور کہا جاتا ہے کالا تھا جیسے حبشی ہوتے ہیں

بیہقی شعب الایمان میں اس روایت پر کہتے ہیں

وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ دَلَالَةٌ عَلَى أَنَّهُ كَانَ خَاتَمَانِ أَحَدُهُمَا فَصُّهُ حَبَشِيًّا،

یہ روایت دلالت کرتی ہے کہ رسول الله کے پاس انگوٹھیاں تھیں جن میں ایک میں حبشہ کا نگ لگا تھا

صحیح مسلم کی اس روایت میں يونس بن يزيد  الايلى، صاحب الزهري  کا تفرد ہے- یہ مختلف فیہ ہے ابن سعد نے کہا   ليس بحجة  حجت نہیں ہے اور امام وكيع نے کہا  سيئ الحفظ  اس کا حافظہ خراب ہے اور امام احمد نے اس کی بعض احادیث کو منکر قرار دیا

  وقال الاثرم: ضعف أحمد أمر يونس.

الاثرم نے کہا احمد نے يونس بن يزيد  الايلى، صاحب الزهري کے کام کو ضعیف کہا

علمائے اہل سنت میں سے بعض مثلا اہل حدیث اور وہابیوں کے نزدیک یہ پتھر بطور زینت رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے  پہنا

یہ قول قابل غور ہے کہ ائمہ شیعہ عقیق نماز کے وقت پہنتے  کیونکہ قرآن میں ہے

يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ

اے بنی آدم  ہر سجدے پر اپنی زینت  لو

کتب اہل تشیع

کتاب بشارة المصطفى ( صلى الله عليه وآله ) لشيعة المرتضى ( عليه السلام ) کے مطابق

حدثنا عبد الرزاق ، عن معمر ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة : قالت :« دخلت على رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) وفي يده خاتم فضة عقيق فقلت : يارسول الله ما هذا الفص ؟ فقال لي : من جبل أقر لله بالربوبية ولعلي بالولاية ولولده بالامامة ولشيعته بالجنة

عائشہ سے روایت ہے کہ میں رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) کے پاس داخل ہوئی دیکھا ان کے ہاتھ میں عقیق کی چاندی کی انگوٹھی ہے پوچھا یہ نگ کس لئے؟ فرمایا : یہ پہاڑ ہے جو الله کی ربوبیت کا اقراری ہے اور علی کی ولایت کا اور ان کی اولاد کی امامت جا اور ان کے شیعوں کے لئے جنت کا

یہ روایت عبد الرزاق سے صحیح سند سے ہے لیکن کتب اہل سنت میں نہیں ملی

مسند امام الرضا میں ہے

عنه عن علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن على بن معبد، عن الحسين بن خالد عن الرضا عليه السلام، قال: كان أبو عبد الله عليه السلام يقول: من اتخذ خاتما فصه عقيق لم يفتقر ولم يقض له إلا بالتى هي أحسن

الحسين بن خالد نے امام الرضا سے روایت کیا کہ أبو عبد الله عليه السلام نے کہا جس نے عقیق کو انگوٹھی چاندی کے ساتھ لی وہ فقیر نہ ہو گا  اس کا کوئی کام پورا نہ ہو گا لیکن احسن انداز سے

اہل تشیع کی بعض روایات میں ہے عقيق أصفر پہنو یا عقيق احمر پہنو

الکافی از کلینی میں ہے

عنه، عن بعض أصحابه، عن صالح بن عقبة، عن فضيل بن عثمان، عن ربيعة الرأي قال: رأيت في يدعلي بن الحسين عليه السلام فص عقيق فقلت: ماهذا الفص؟ فقال: عقيق رومي، وقال رسول الله صلى الله عليه وآله: من تختم بالعقيق قضيت حوائجه.

(12631 5) عنه، عن بعض أصحابه رفعه قال: قال أبوعبدالله عليه السلام: العقيق أمان في السفر.

ربيعة الرأي نے کہا میں نے علی بن حسین کے ہاتھ میں عقیق کا نگ دیکھا پوچھا یہ کیسا نگ ہے ؟ کہا یہ رومی عقیق ہے اور رسول الله صلى الله عليه وآله نے فرمایا  جس نے عقیق کی انگوٹھی پہنی اس کی حاجات پوری ہوئیں- اور … ابو عبد اللہ سے روایت ہے عقیق سے سفر میں امان ملتی  ہے

فیروزہ پہنے پر روایات

وسائل الشيعة   باب استحباب لبس الداعي خاتم فيروزج وخاتم عقيق

أحمد بن فهد في ( عدة الداعي ) عن أبي عبدالله ( عليه السلام ) قال : قال رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) : قال الله عز وجل : إني لأستحيي من عبدي يرفع يده وفيها خاتم فيروزج فأردها خائبة

بحار الأنوار از   محمد باقر المجلسيى  کی کتاب میں ہے

الصادق عليه السلام قال: قال رسول الله صلى الله عليه واله: قال الله سبحانه:

إني لاستحيي من عبد يرفع يده وفيها خاتم فيروزج فأردها خائبة.

حدیث قدسی ہے کہ میں اس سے حیا کرتا ہوں کہ بندہ ہاتھ دعا کے لئے بلند کرے اور اس میں فیروزہ ہو اور میں اس کو قبول نہ کروں

ابن سبا کا فلسفہ

یہود کے مطابق عقیق اور فیروزہ ان دو پتھروں کا تعلق  یہود کے ١٢ میں سے دو قبیلوں سے تھا جن کے نام دان اور نفتالی ہیں – یہ یہود کے کھو جانے والے قبائل ہیں –

ہیکل سلیمانی کے امام کے گلے کے ہار میں ١٢ نگ ہونے چاہیے ہیں جو ١٢ قبائل سے منسوب ہیں  – توریت کتاب خروج میں ہے

Exodus 28:18 the second row shall be turquoise, lapis lazuli and emerald;
Exodus 28:19 the third row shall be jacinth, agate and amethyst;

دوسری رو میں فیروزہ  … ہو گا

تیسری میں … عقیق ہو گا

یہود کی کتاب ترجم میں ہے

Targum, Jewish Magic and Superstition, by Joshua Trachtenberg, 1939

Shebo [agate] is the stone of Naphtali
Turquoise is the stone of Dan

شیبو یا عقیق یہ نفتالی کا پتھر ہے

فیروزہ یہ دان کا نگ ہے

یہودی محقق ٹیوڈر پارفٹ لکھتے ہیں

The Road to Redemption: The Jews of the Yemen, 1900 – 1950 by Tudor Parfitt, 1996, Brill  Publisher, Netherland

In the nineteenth century even the Jewish world knew relatively little of  the Jews of South Arabia. In 1831 Rabbi Yisrael of Shklov sent an emissary to Yemen … emissaries who had visited Yemen some years before and who had claimed to have met members of the tribe of Dan in the deserts of  Yemen..

انیسویں صدی میں دنیائے یہود کو جزیرہ العرب کے جنوب میں یہود کے بارے میں  بہت کم معلومات تھیں – سن ١٨٣١ میں ربی اسرائیل جو شخلو کے تھے انہوں نے ایک سفارتی وفد یمن بھیجا جہاں ان کی ملاقات یہودی قبیلہ دان کے لوگوں سے ہوئی جو یمن کے صحراء میں ٹہرے

 

The conviction that the lost tribes were to be found in the more remote areas of the Yemen was one which was shared by the Yemenite Jews themselves. Over the centuries they had elaborated numerous legends about the tribes, and particularly about the supposed valour of the Tribe of Dan

یہ یقین کہ کھوئے ہوئے قبیلے یمن کے دور افتادہ علاقوں میں ملیں گے یہ یقین یمنی یہودیوں کو بھی ہے – صدیوں سے ان کے قبائل کے  بارے میں بہت سی حکایتیں جمع ہیں جن میں قبیلہ دان کی بہادری کے تزکرے ہیں

 راقم کہتا ہے ابن سبا بہت ممکن ہے دان یا نفتالی قبیلہ کا تھا جو یمن میں آباد تھے اور لشکر علی میں شامل ہو کر کوفہ پہنچے اور شیعوں میں مل گئے لیکن قبائلی عصبیت باقی رہی اور اپنے قبیلوں سے منسوب نگوں کو اہل بیت کی انگوٹھیوں میں لگوا دیا یعنی ان سے منسوب کیا

دان نفتالی ابن سبا اور آصف بن برخیاہ پر مزید دیکھیں

اصف بن بر خیا کا راز

اذکار و تعویذ

عن عایشه ما جلس رسول الله مجلسا قط ولا تلا قرانا ولا صلی صلاة الا ختم ذالک بکلمات
فقلت یا رسول الله اراک ما تجلس مجلسا و لا تتلو قرانا و لا لصلی صلاة الا حتمتت بهولاءالکلمات؟
قال نعم من قال خیرا ختم له طابع علی ذالک الخیر و من قال شرا له کفارة
سبحانک الللهم و بحمدک اشهد ان لا اله إلا انت و اسغفروک و اتوب الیک
النسایی فی السنن الکبرا و قال ابن حجر و البانی اسناده صحیح
کیا یہ روایت صحیح ہے؟

جواب

کتاب عمل میں نسائی نے اس کو روایت کیا ہے
أخبرنَا مُحَمَّد بن سهل بن عَسْكَر قَالَ حَدثنَا ابْن أبي مَرْيَم قَالَ أخبرنَا خَلاد بن سُلَيْمَان أَبُو سُلَيْمَان قَالَ حَدثنِي خَالِد بن أبي عمرَان عَن عُرْوَة بن الزبير عَن عَائِشَة قَالَت
مَا جلس رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم مَجْلِسا قطّ وَلَا تلى قُرْآنًا وَلَا صلى صَلَاة إلاّ ختم ذَلِك بِكَلِمَات قَالَت فَقلت يَا رَسُول الله أَرَاك مَا تجْلِس (مَجْلِسا) آح وَلَا تتلو قُرْآنًا وَلَا تصلى صَلَاة إلاّ ختمت بهؤلاء الْكَلِمَات قَالَ
نعم من قَالَ خيرا ختم لَهُ طَابع على ذَلِك الْخَيْر وَمن قَالَ شرا كنَّ لَهُ كَفَّارَة سُبْحَانَكَ وَبِحَمْدِك لَا إِلَه إِلَّا أَنْت أستغفرك وَأَتُوب إِلَيْك

اس روایت کو البانی نے حسن کہا ہے

خالد بن ابی عمران کی عروہ بن زبیر سے یہ واحد روایت ہے
جو ایک عجیب بات ہے کہ عروہ بن زبیر جن کے پاس کثیر معلومات تھیں انہوں نے ان کو عروہ سے نہیں لیا اور یہ دعا ملی جس کو صرف یہ روایت کرتے ہیں
کوئی اور روایت نہیں کرتا

پھر یہ دعا روایت کے مطابق ہر مجلس میں رسول الله پڑھتے تھے تو کوئی صحابی اس کو روایت نہیں کرتا

راقم کہتا ہے یہ شواہد ثابت کرتے ہیں کہ یہ روایت مظبوط نہیں ہے

جواب

صدق اللہ العظیم کہنا بدعت ہے کیونکہ یہ کسی روایت میں نہیں ملا صرف ایک روایت میں قرآن ایک صحابی کے پڑھنے پر نبی صلی الله علیہ وسلم کا (حسبک ) کافی ہے کہنا ملتا ہے

ہاتھ پر تسبیح پڑھنے والی روایت صلوت کے بعد حدیث کی کس بک.میں یے اور وہ روایت جس سے تسبیح یا دانوں پت ہڑھنے کی دلیل دیتے ہیں وہ بھی پلیز بیان کر دیجیے

جواب

سنن ابو داود میں ہے
حدَّثنا عُبيدُ الله بنُ عمر بن ميسرة ومحمد بن قُدامة في آخرين، قالوا: حدَّثنا عثَّامٌ، عن الأعمش، عن عطاء بن السائب، عن أبيه
عن عبد الله بن عمرو، قال: رأيتُ رسولَ الله – صلَّى الله عليه وسلم – يعقِدُ التسبيحَ. قال ابنُ قدامة: بيمينه
ابن عمر سے مروی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے تسبیح گنی اور ابن قدامہ نے کہا سیدھے ہاتھ پر

ابن قدامہ کی تشریح ان کی ذاتی رائے ہے کیونکہ اس کے باقی طرق میں ایسا کہیں نہیں کہ یہ تسبیح کس طرح گنی گئی
ابن قدامہ نسائی اور ابو داود کے شیخ ہیں

ہاتھ پر تسبیح کی کوئی صریح دلیل نہیں ہے

البتہ مروجہ تسبیح جو دانوں کی مالا پر ہوتی ہے یہ ایک نصرانی روایت ہے لہذا اس کو استمعال نہ کرنا بہتر ہے

سنن ترمذی میں ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الوَارِثِ قَالَ: حَدَّثَنَا هَاشِمٌ وَهُوَ ابْنُ سَعِيدٍ الكُوفِيُّ قَالَ: حَدَّثَنِي كِنَانَةُ، مَوْلَى صَفِيَّةَ قَالَ: سَمِعْتُ صَفِيَّةَ، تَقُولُ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ يَدَيَّ أَرْبَعَةُ آلَافِ نَوَاةٍ أُسَبِّحُ بِهَا، قَالَ: «لَقَدْ سَبَّحْتِ بِهَذِهِ، أَلَا أُعَلِّمُكِ بِأَكْثَرَ مِمَّا سَبَّحْتِ؟» فَقُلْتُ: بَلَى عَلِّمْنِي. فَقَالَ: ” قُولِي: سُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ خَلْقِهِ “: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ صَفِيَّةَ [ص:556] إِلَّا مِنْ هَذَا الوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ هَاشِمِ بْنِ سَعِيدٍ الكُوفِيِّ، وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمَعْرُوفٍ وَفِي البَابِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ

ام المؤمنین صفیہ بنت حییؓ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے ، میرے پاس چار ہزار کھجور کی گٹھلیاں رکھی ہوئی تھیں جن پر میں تسبیح پڑھا کرتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حیی کی بیٹی! یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: ان گٹھلیوں پر میں تسبیح پڑھ رہی ہوں۔
البانی نے اس کو منکر قرار دیا ہے

ترمذی میں ہے
– حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الحَسَنِ قَالَ: حَدَّثَنَا أَصْبَغُ بْنُ الفَرَجِ قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الحَارِثِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ خُزَيْمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهَا، أَنَّهُ دَخَلَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى امْرَأَةٍ وَبَيْنَ يَدَيْهَا نَوَاةٌ، أَوْ قَالَ: حَصَاةٌ تُسَبِّحُ بِهَا، فَقَالَ: «أَلَا أُخْبِرُكِ بِمَا هُوَ أَيْسَرُ عَلَيْكِ مِنْ هَذَا [ص:563] أَوْ أَفْضَلُ؟ سُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ فِي السَّمَاءِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ فِي الأَرْضِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا بَيْنَ ذَلِكَ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا هُوَ خَالِقٌ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ مِثْلَ ذَلِكَ، وَالحَمْدُ لِلَّهِ مِثْلَ ذَلِكَ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ مِثْلَ ذَلِكَ».
سعد بن ابی وقاص ؓ فرماتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک صحابیہ کے پاس گیا جن کے سامنے گٹھلیاں یا کنکریاں رکھی ہوئی تھیں جن پر وہ تسبیح پڑھا کرتی تھیں

البانی نے اس کو منکر قرار دیا ہے

ترمذی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے یعنی ان کے دور میں اس سے دلیل لی گئی

وہ روایات جن میں عمر رضی اللہ عنہ کا سر درد میں بسم اللہ. … کا تعویز ٹوپی میں رکھنے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا دریائے نیل میں تعویز ڈالنے عائشہ رضی اللہ عنھا کا تعویز کو جائز سمجھنے والی روایت پلیز حوالے کے ساتھ تحقیق چاہیے

جواب

فخر الدین رازی (المتوفى: 606هـ) نے اپنی تفسیر مفاتیح الغیب ایک واقعہ لکھا

كتب قيصر إلى عمر رضي الله عنه أن بي صداعا لا يسكن فابعث لي دواء، فبعث إليه عمر قلنسوة فكان إذا وضعها على رأسه يسكن صداعه، وإذا رفعها عن رأسه عاوده الصداع، فعجب منه ففتش القلنسوة فإذا فيها كاغد مكتوب فيه: بسم الله الرحمن الرحيم.
کہ روم کے بادشاہ قیصر نے جناب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ،میرے سر میں درد رہتا ہے ،اس کیلئے کوئی دوا بھیجئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ٹوپی اس کو بھیجی قیصر جب وہ ٹوپی اپنے سر پر رکھتا ،اس کے سر کا درد ٹھیک ہو جاتا ،،جب ٹوپی اتارتا درد پھر شروع ہوجاتا ،،اس کو بڑا تعجب ہوا ،اس نے ٹوپی کو کھنگالا ،تو اس میں ایک کاغذ ملا جس پر ۔۔بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ۔ لکھی تھی ۔

اس کا ذکر روح البيان المؤلف: إسماعيل حقي بن مصطفى الإستانبولي الحنفي الخلوتي , المولى أبو الفداء (المتوفى: 1127هـ) میں بھی ہے
وكتب قيصر ملك الروم الى عمر رضى الله عنه ان بي صداعا لا يسكن فابعث الى دواء ان كان عندك فان الأطباء عجزوا عن المعالجة فبعث عمر رضى الله عنه قلنسوة فكان إذا وضعها على رأسه سكن صداعه وإذا رفعها عن رأسه عاد صداعه فتعجب منه ففتش في القلنسوة فاذا فيها كاغد مكتوب عليه بسم الله الرّحمن الرّحيم

اللباب في علوم الكتاب المؤلف: أبو حفص سراج الدين عمر بن علي بن عادل الحنبلي الدمشقي النعماني (المتوفى: 775هـ) میں بھی ہے
كتب قَيْصر إِلَى عمر – رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ – أَن بِي صداعا لَا يسكن، فَابْعَثْ لي دَوَاء، فَبعث إِلَيْهِ عمر قلنسوة، فَكَانَ إِذا وَضعهَا على رَأسه سكن صداعه، وَإِذا رَفعهَا عَن رَأسه عَاد الصداع، فتعجب مِنْهُ ففتش القلنسوة، فَإِذا فِيهَا مَكْتُوب ” بِسم الله الرَّحْمَن الرَّحِيم ” [قَالَ عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام: ” من تَوَضَّأ وَلم يذكر اسْم الله تَعَالَى كَانَ طهُورا لتِلْك الْأَعْضَاء، وَمن تَوَضَّأ وَذكر اسْم الله تَعَالَى كَانَ طهُورا لجَمِيع بدنه

اس کی سند نہیں ہے
————-

نیل میں عمر رضی اللہ عنہ کے لکھے ہوئے پرزہ یا بطاقہ ڈالنے کا واقعہ کتاب العظمة از أبو محمد عبد الله بن محمد بن جعفر بن حيان الأنصاري المعروف بأبِي الشيخ الأصبهاني (المتوفى: 369هـ) مذکور ہے کہ مصریوں نے عمرو بن العاص سے کہا کہ آج ٢١ کی رات ہے شہر خالی ہو گا ایک کنواری کو نیل کی بھینٹ چڑھا یا جائے گا عمرو نے عمر کو لکھ بھیجا جواب آیا ہے قرہ نیل میں ڈال دو

حَدَّثَنَا أَبُو الطَّيِّبِ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ قَيْسِ بْنِ الْحَجَّاجِ، عَمَّنْ حَدَّثَهُ قَالَ: لَمَّا فُتِحَتْ مِصْرُ أُتِيَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ حِينَ دَخَلَ يَوْمٌ مِنْ أَشْهُرِ الْعَجَمِ فَقَالُوا: أَيُّهَا الْأَمِيرُ، إِنَّ لِنِيلِنَا هَذَا سُنَّةٌ لَا يَجْرِي إِلَّا بِهَا، فَقَالَ [ص:1425] لَهُمْ: «وَمَا ذَاكَ؟» قَالُوا: إِذَا كَانَ إِحْدَى عَشْرَةَ لَيْلَةً تَخْلُو مِنْ هَذَا الشَّهْرِ، عَمَدْنَا إِلَى جَارِيَةٍ بِكْرٍ بَيْنَ أَبَوَيْهَا، فَأَرْضَينَا أَبَوَيْهَا، وَجَعَلْنَا عَلَيْهَا مِنَ الثِّيَابِ أَفْضَلَ مَا يَكُونُ، ثُمَّ أَلْقَيْنَاهَا فِي هَذَا النِّيلِ. فَقَالَ لَهُ عَمْرُو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: ” إِنَّ هَذَا لَا يَكُونُ أَبَدًا فِي الْإِسْلَامِ، وَإِنَّ الْإِسْلَامَ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ، فَأَقَامُوا يَوْمَهُمْ، وَالنِّيلُ لَا يَجْرِي قَلِيلًا وَلَا كَثِيرًا، حَتَّى هَمُّوا بِالْجِلَاءِ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ عَمْرٌو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، كَتَبَ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِذَلِكَ، فَكَتَبَ أَنْ قَدْ أَصَبْتَ بِالَّذِي فَعَلْتَ، وَإِنَّ الْإِسْلَامَ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ، وَبَعَثَ بِطَاقَةً فِي دَاخِلِ كِتَابِهِ، وَكَتَبَ إِلَى عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: «إِنِّي قَدْ بَعَثْتُ إِلَيْكَ بِطَاقَةً فِي دَاخِلِ كِتَابِي إِلَيْكَ، فَأَلْقِهَا فِي النِّيلِ» ، فَلَمَّا قَدِمَ كِتَابُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَخَذَ الْبِطَاقَةَ فَفَتَحَهَا، فَإِذَا فِيهَا: مِنْ عَبْدِ اللَّهِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ، إِلَى نِيلِ أَهْلِ مِصْرَ، أَمَّا بَعْدُ، ” فَإِنْ كُنْتَ تَجْرِي مِنْ قِبَلِكَ فَلَا تَجْرِ، وَإِنْ كَانَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يُجْرِيكَ، فَأَسْأَلُ اللَّهَ الْوَاحِدَ الْقَهَّارَ أَنْ يُجْرِيَكَ، قَالَ: فَأَلْقَى الْبِطَاقَةَ فِي النِّيلِ قَبْلَ الصَّلِيبِ بِيَوْمٍ، وَقَدْ تَهَيَّأَ أَهْلُ مِصْرَ لِلْجَلَاءِ مِنْهَا، لِأَنَّهُ لَا تَقُومُ مَصْلَحَتُهُمْ فِيهَا إِلَّا بِالنِّيلِ، فَلَمَّا أَلْقَى الْبِطَاقَةَ أَصْبَحُوا يَوْمَ الصَّلِيبِ، وَقَدْ أَجْرَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ سِتَّةَ عَشَرَ ذِرَاعًا فِي لَيْلَةٍ وَاحِدَةٍ، وَقَطَعَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ تِلْكَ السُّنَّةَ السُّوءَ عَنْ أَهْلِ مِصْرَ إِلَى الْيَوْمِ

اس کی سند میں عَبْدُ اللهِ بنُ صَالِحِ بنِ مُحَمَّدِ بنِ مُسْلِمٍ الجُهَنِيُّ ہے جس کا الذہبی نے دفاع کیا ہے اور ان کے شیخ ابن لھیعہ سے بھی محدثین نے روایت لی ہے
وَبِكُلِّ حَالٍ، فَكَانَ صَدُوْقاً فِي نَفْسِهِ، مِنْ أَوْعِيَةِ العِلْمِ، أَصَابَهُ دَاءُ شَيْخِهِ ابْنِ لَهِيْعَةَ، وَتَهَاوَنَ بِنَفْسِهِ حَتَّى ضَعُفَ حَدِيْثُهُ، وَلَمْ يُتْرَكْ بِحَمْدِ اللهِ، وَالأَحَادِيْثُ الَّتِي نَقَمُوهَا عَلَيْهِ مَعْدُوْدَةٌ فِي سَعَةِ مَا رَوَى
امام احمد نے کہا عبد الله بن صالح فسد بأخرة، وليس هو بشيء آخری عمر میں اس کی عقل میں فساد ہوا کوئی چیز نہیں
سند میں ایک مجہول عَمَّنْ حَدَّثَهُ ہے
لہذا سند ضعیف ہے

اس کی ایک اور سند کتاب الطيوريات صدر الدين، أبو طاهر السِّلَفي أحمد بن محمد بن أحمد بن محمد بن إبراهيم سِلَفَه الأصبهاني (المتوفى: 576هـ) میں ہے
أخبرنا محمد، أخبرنا أبو محمد (1) ، أخبرنا أبو العباس محمد بن جعفر بن محمد ابن كامل الحضرمي، سنة ثمان وثلاثين وثلاثمائة، حدثنا خير بن عرفة الأنصاري، حدثنا هانِئُ بن المتوكِّل الإسكندراني (2) ، حدثنا ابنُ لَهِيعَة، عن قيس بن الحجَّاج (3) ، قال: ((لَمَّا فُتِحَتْ مِصْرُ، أَتَى أهلُهَا إلَى عَمْرُو بن العاص حِينَ دَخَلَ بُؤْنَة (4) مِنْ أَشْهُرِ الْعَجَمِ، فقالُوا لَهُ: أَيُّها اْلأَمِيرُ، إِنَّ لِنِيلِنَا هَذَا سُنَّةً لاَ يجْرِي إِلاَّ بِهَا، فقالَ لَهُمْ: وَما ذَلِكَ؟، فقالُوا: إِذَا كانَ ثِنْتَيْ عَشرةَ لَيْلَةً تَخْلُوا مِنْ هذَا الشَّهْرِ عَمَدْنَا إِلىَ جَارِيَةٍ بِكْرٍ بَيْنَ أَبَوَيْهَا (5) ، فَأَرْضَيْنَا أبوَيْهَا وَحَمَلْنَا عَلَيْهَا مِنَ الْحُلِيِّ وَالثِّيَابِ أَفْضَلَ ما يَكُونُ، ثُمَّ أَلْقَيْنَاهَا في النِّيلِ، فقال لَهُمْ (6)
عمرُو: إنَّ هَذَا لاَ يَكُونُ في [ل 214/ب] الإِسْلاَمِ، وَإِنَّ الإِسْلاَمَ يَهْدِمُ مَا كانَ قَبْلَهُ، فأَقَامُوا بُؤْنَة

لیکن وہ منقطع ہے
وفيه انقطاع أيضا لأن قيسا لم يسمع عن عمرو بن العاص.

—————-

عائشہ رضی الله عنہا سے منسوب ایک روایت ہے لیکن اس میں متن میں اضطراب ہے

بیہقی سنن الکبریٰ میں عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا سے روایت بیان کرتے ہیں کہ

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، وَأَبُو سَعِيدِ بْنُ أَبِي عَمْرٍو قَالَا: ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ , ثنا هَارُونُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ثنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ:

لَيْسَتْ التَّمِيمَةُ مَا يُعَلَّقُ قَبْلَ الْبَلَاءِ إنَّمَا التَّمِيمَةُ مَا يُعَلَّقُ بَعْدَ الْبَلَاءِ لِتَدْفَعَ بِهِ الْمَقَادِيرَ
تعویذ وہ نہیں جو آفت سے پہلے لٹکایا جائے بلکہ تعویذ تو وہ ہے جو آفت کے بعد دفع کے لئے لٹکایا جائے

اس کے برعکس حاکم مستدرک میں روایت بیان کرتے ہیں

وَحَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ، ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: «لَيْسَتِ التَّمِيمَةُ مَا تَعَلَّقَ بِهِ بَعْدَ الْبَلَاءِ، إِنَّمَا التَّمِيمةُ مَا تَعَلَّقَ بِهِ قَبْلَ الْبَلَاءِ
عائشہ رضی الله روایت کرتی ہیں کہ تعویذ نہیں جو آفت کے بعد لٹکایا جائے بلکہ تعویذ تو وہ ہے جو آفت سے پہلے لٹکایا جائے

مضطرب المتن روایت بھی قابل رد ہوتی ہے کیونکہ یہ واضح نہیں رہا کہ کیا کہا گیا تھا

مسنون دعائیں صحیحن میں جو بھی میں ہیں وہ دعائیں نماز والے سجدوں میں عربی میں مانگ سکتے ہیں یا نہیں؟؟

رسول صلی.اللہ علیہ.وسلم نے دو مینڈھےلیکر ایک اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے قربان کیا اور دوسرا اپنی امت کی طرف سے یہ حدیث کونسی حدیث کی بک میں ہے؟؟ اور اس حدیث سے ایصال ثواب کا جواز نکالا جاتا ہے
اور ایصال ثواب کے حوالے سے جو روایات بیان کی جاتی ہیں پلیز وہ بھی بیان کر دیجیے؟ ؟

جواب

جی نماز کے علاوہ اگر سجدہ کر رہے ہیں تو اردو میں دعا مانگ سکتے ہیں
——-
صحیحین کی دعائیں نماز کے سجدوں میں مانگ سکتے ہوں
——–
حدَّثنا عثمانُ بن أبي شَيبةَ، حدَّثنا شَريك، عن أبي الحَسناء عن الحَكَم، عن حَنَش، قال:
رأيت علياً يضحِّي بكبشَين، فقلتُ له: ما هذا؟ فقال: إن رسولَ اللهِ -صلَّى الله عليه وسلم- أوصاني أن أُضحِّي عنه، فأنا أُضحِّي عنه

حنش نے روایت کیا کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو دو مینڈھے قربان کرتے ہوئے دیکھا تو میں نے کہا : یہ کیا ہے؟ (آپ دو مینڈھے کیوں قربان کر رہے ہیں) انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے وصیت کی تھی کہ میں ان کی طرف سے قربانی کیا کرو ں پس میں ان کی طرف سے ایک قربانی کرتا ہوں۔

(سنن ابی داوُد، جلد دوم ،کتاب قربانی کے مسائل(2790
شعَيب الأرنؤوط کہتے ہیں کہ اس میں أبي الحسناء مجھول راوی ہے لہذا سند ضعیف ہے
دوم شريك النخعي کا حافظہ خراب ہے
سوم اس میں وحنش بن المعتمر الكوفي ہے جس پر ایک سے زائد کی جرح ہے

میت نے اگر کوئی قربانی کی منت مانی ہو تو اس کے ورثا کے لئے ہے کہ وہ میت کی جانب سے قربانی کر سکتے ہیں

کیا چھ اذکار غم ،پریشانی ، دکھ ، تکلیف ، بیماریوں اور گناہوں کے خلاف ایک بہترین اور کارگر ہتھیار ہیں؟؟

جواب

ذکر الله کی عبادت ہے اور کسی بھی الفاظ میں کیا جا سکتا ہے

راقم اللہ کی عبادت سے نہیں روک سکتا
لیکن ان  اذکار کا مقصد دنیا کا فائدہ نہیں ہے نہ انبیاء نے ان کو اس مقصد کے تحت کیا ہے

السلام علیکم
اگر قرآن صرف دل کی بیماریوں یعنی شرک منافقت بغض حسد کیلیے شفا ہے جیسا کا مالک کا فرمان ہے

یایھا الناس قد جاءتکم موعظة من ربکم و شفاء لما فی الصدور و ھدی و رحمة للمومنین
لیکن نبی ص.ع نے ہمیں بخار کیلیے موذتین پڑھنے کا کہا تو اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن جسمانی بیماریوں کیلے بھی شفا ہے ؟؟
اور مسلم.کی حدیث میں ہے کہ.جس گھر میں سورت البقرہ پڑھی جاتی ہے وہاں شیطان نہیں آتا اس بات کو وضاحت سے سمجھا دیجیے جزاک اللہ

جواب

جو قرآن کو جسمانی بیماریوں کے لئے شفا قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک اس کی ایک ایک آیت سے فلاں فلان بیماری میں شفا لی جا سکتی ہے – وہ اس سے تعویذ بناتے ہیں جو شرک ہے – وہ اس کو برتن پر لکھ کر پیتے ہیں جو بدعت ہے
————-
دم کرنا حدیث سے ثابت ہے اور یہ دعا ہے
‌صحيح البخاري: كِتَابُ المَغَازِي (بَابُ مَرَضِ النَّبِيِّ ﷺ وَوَفَاتِهِ)
4439.
حَدَّثَنِي حِبَّانُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا اشْتَكَى نَفَثَ عَلَى نَفْسِهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ وَمَسَحَ عَنْهُ بِيَدِهِ فَلَمَّا اشْتَكَى وَجَعَهُ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ طَفِقْتُ أَنْفِثُ عَلَى نَفْسِهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ الَّتِي كَانَ يَنْفِثُ وَأَمْسَحُ بِيَدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُ…
صحیح بخاری: کتاب: غزوات کے بیان میں (باب: نبی کریم کی بیماری اور آپ کی وفات)
4439.
مجھ سے حبان بن موسیٰ مروزی نے بیان کیا ، کہاہم کو عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی ، انہیں یونس نے خبر دی ، انہیں ابن شہاب نے کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار پڑتے تو اپنے اوپر معوذتین ( سورۃ فلق اور سورۃ الناس ) پڑھ کردم کر لیا کرتے تھے ا وراپنے جسم پراپنے ہاتھ پھیر لیا کرتے تھے ، پھر جب وہ مرض آپ کو لاحق ہوا جس میں آپ کی وفات ہوئی تو میں معو ذتین پڑھ کر آپ پر دم کیا کرتی تھی اور ہاتھ پر دم کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر پھیرا کر تی تھی ۔…

قرآن کی متعدد آیات میں سے صرف انہی سے نبی صلی الله علیہ وسلم نے دم کیا ہے –
معوذتین میں الله سے پناہ مانگی گئی ہے جس میں بعض چیزیں جسم پر اثر کرتی ہیں مثلا نظر بد – اور جادو اور حسد اور وسوسہ اندازی سے ڈپریشن ہوتا ہے
لہذا ہم بھی ان سے دم کریں گے لیکن بس انہی سے کسی اور سورت سے نہیں
——-

سوره بقرہ سے شیطان کا بھاگنا اس کے دلائل ہیں کہ ان کی وجہ سے شیطانی شبھات کا خاتمہ ہوتا ہے – سوره بقرہ میں یہود و نصرانی کے خلاف دلائل دیے گئے ہیں اور پھر احکام کی فہرست ہے پھر بنی اسرائیل کے قصے اور پھر آخر میں آیت الکرسی ہے پھر احکام ہیں پھر آخر میں الله کی حمد ہے
اس میں جسم کا کوئی ذکر نہیں ہے

معوذتین کی خبر کا ملنا ایک بات ہے اور پھر اس میں
OVER-STRETCHING
کر کے اس سے اپنا مطلب کشید کرنا صحیح نہیں

یعنی ہمیں جنتا علم ہوا ہم اتنا ہی کریں گے اس عمل کو خاص معوذتین کے لیے مانتے ہوئے

اصل میں وظیفہ کہتے کس کو ہیں؟

دَم ، دعا ، ذکروازکار کا ورد اور وظائف کے ورد مین کیا فرق ہے

اک عام انسان کس اصول کے تحت کس کسوٹی پر پَرکھے کہ صحیح وظائف کون سے ہیں اور کون سے درست نہیں ہیں؟ یہ فیصلہ کون کرے گا؟

مثلاََ علماء نے جو مختلف بیماریوں اور مشکلات و مصائیب کے حل کے لیئے جو وظائف بتائے ہیں کہ ان کا ورد کرنا اگر صحیح نہیں ہے تو کیوں کس دلیل کی بنا پر ان کو جھٹلا دیا جائے ؟؟

صحیح وظائف اور غلط وظائف میں کیسے فرق کیا جائے؟

کیا ان وظائف کا تعلق بھی عملیات اور جنات وغیرہ سے ہے ؟

جواب

اصل میں وظیفہ کہتے کس کو ہیں؟
وظیفہ یعنی کسی عبارت کو بار بار پڑھنا – مخصوص تعداد ، یا اوقات میں پڑھنا
————-
دَم ، دعا ، ذکروازکار کا ورد اور وظائف کے ورد مین کیا فرق ہے ،
حدیث میں دم کا ذکر ہے جس میں دعا پڑھ کر ہاتھوں کو جسم پر پھیرا جاتا ہے
دعا اپ کو معلوم ہے
ذکر کرنا جس میں الله کی تسبیح ہو یہ بھی حدیث میں اتا ہے مثلا سبحان الله یا الحمدللہ کہنا وغیرہ
اس کے بعد لوگوں نے خود وظائف ایجاد کیے ہیں کہ فلاں وقت اس کو پڑھا جائے اس ساعت میں ایسا کیا جائے یہ بدعات ہیں

کیا ذکر و ازکار اور دم اور وظئف اک ہی چیز کے مختلف نام ہین؟
نہیں ایک نہیں جیسا وضاحت کی الگ ہیں
—————-

اک عام انسان کس اصول کے تحت کس کسوٹی پر پَرکھے کہ صحیح وظائف کون سے ہیں اور کون سے درست نہیں ہیں؟ یہ فیصلہ کون کرے گا؟
ایک عام آدمی کو چاہیے کہ صحیح بخاری و مسلم میں دیکھے کہ کیا احادیث ہیں ان پر عمل کرے
————
مثلاََ علماء نے جو مختلف بیماریوں اور مشکلات و مصائیب کے حل کے لیئے جو وظائف بتائے ہیں کہ ان کا ورد کرنا اگر صحیح نہیں ہے تو کیوں کس دلیل کی بنا پر ان کو جھٹلا دیا جائے ؟؟
علماء کے پاس خود کوئی دلیل نہیں کہ یہ واقعی ان بیماریوں کا علاج ہیں کیونکہ یہ ان کی اپنی ایجادات ہیں- اس میں وہ تجربہ کرتے ہیں کہ فلاں کو یہ بتایا تھا اس نے پڑھا افاقہ ہوا
———–
صحیح وظائف اور غلط وظائف میں کیسے فرق کیا جائے؟
صحیح احادیث کو دیکھا جائے – کسی بیماری پر کوئی وظیفہ پڑھنے کا کسی حدیث میں ذکر نہیں
———–
کیا ان وظائف کا تعلق بھی عملیات اور جنات وغیرہ سے ہے ؟
بعض کا ہے – اس میں تعویذ سر فہرست ہیں جن کو بنانے کا ایک خاص عمل ہے
اس پر کتابیں موجود ہیں جو جادو پر مبنی ہیں

وظائف کی کیا حقیقت ہے کیا دلیل ہے کیا بیک گراؤنڈ ہے یہ کہاں سے آئے اور کیسے آئے اس امت میں ان کی کیا تاریخ ہے

جواب

احادیث میں مختلف دعائیں ہیں جو عبادت سے تعلق رکھتی ہیں ان میں الله تعالی کی تعریف ہے اور اسماء کو پکارا جاتا ہے
حدیث میں اتا ہے کہ مرض وفات میں عائشہ رضی الله عنہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے ہاتھ سے ہی ان پر دم کر رہی تھیں

یہ بات کہ فلاں صورت سے یہ فائدہ ہو گا بعض روایات میں ہے مثلا سوره کہف پڑھنا کہ یہ دجال کے فتنہ سے بچائے گی لیکن راقم اس کو کعب الاحبار کا قول کہتا ہے

اسی طرح سوره الملک پڑھنا کہ یہ عذاب قبر سے بچائے گی یہ روایت میں ہے جو ضعیف ہے

اسی طرح ضعیف روایت میں ہے سوره یسں مرتے لوگوں پر پڑھو

اس طرح کی تمام روایات شامی اور بصریوں کی روایت کردہ ہیں جو قرن اول میں اسلام کے تصوف کے مراکز تھے بصرہ کے پاس ایک شہر عبدان تھا جہاں یہود رہتے تھے اور شام میں نصرانییوں کا زور تھا – یہود کے نزدیک اسماء الحسنی میں قوت بذات خود ہے

مثلا کلام الله پر عراق میں کہا جاتا تھا کہ اس کو اگ میں ڈالو تو جلے گا نہیں اور قرآن کو تعویذ بنا کر استعمال کرنا محدثین نے شروع کر دیا وہ زعفران سے قرآن کی آیات پرتن کے اندر کناروں پر لکھتے اور پھر اس کو پیتے تھے
اس کو آج
Bowl Spell
کہا جاتا ہے

Aramaic Bowl Spells: Jewish Babylonian Aramaic Bowls Volume One
Book by James Nathan Ford, S Bhayro, and Shaul Shaked

اور اس پر امام احمد کا عمل تھا

⇑ کیا زعفران سے برتن پر قرانی آیات لکھ کر پینا صحیح ہے ؟
https://www.islamic-belief.net/q-a/عقائد/دم-اور-تعویذ/

امام احمد کے بیٹے کے مطابق
خاندان والوں اور رشتہ داروں کے لئے اور ان عورتوں کے لئے جن کو جننے میں دشواری ہو ان کے لئے امام احمد ایک برتن یا باریک کپڑے پر ابن عبّاس کی کوئی روایت لکھتے تھے

اس طرح محدثین اور متصوفین دونوں اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے تھے اور اسلام میں بدعات ایجاد کر رہے تھے

دم کرنا دعا ہے لیکن اس کو برتن پر پھونکنا اس کو لکھ کر دھو کر پینا کسی حدیث میں نہیں ملتا

اس کے بعد فضائل کے نام پر اس قسم کی روایات لکھی گئیں جن میں سورتوں کی فضیلت کا ذکر ہوتا تھا اس طرح قرآن کو فضیلت اور غیر فضیلت میں بانٹ دیا گیا – جو چیز عرش سے آئی ہو اس میں سے بعض کو فضیلت والا کہنا کیا ثابت کرتا ہے ؟ اپ خود سوچیں کہ اس کا انجام کیا ہے کہ الله تعالی کے بعض کلام میں کوئی فضیلت نہیں اور بعض میں ہے ؟ راقم کہتا ہے یہ سوچ ہی غلط ہے –

پھر ان آیات کو جسمانی بیماریوں کے لئے استمعال کرنے پر دلائل لائے جاتے ہیں کہ
ایک روایت میں ہے کہ صحابہ ایک سفر میں تھے اور انہوں نے ایک مقام پر پڑاؤ کیا اور قبیلہ والوں سے کھانے پینے کو مانگا جس کا انہوں نے انکار کر دیا اتفاق سے ان کے سردار کو بچھو نے کاٹا اور وہ علاج یا ٹوٹکا پوچھنے صحابہ کے پاس بھی آئے جس پر ایک صحابی نے (اپنی طرف سے) سوره الفاتحہ سے دم کر دیا اور وہ سردار ٹھیک کو گیا واپس آ کر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو سب بتایا گیا تو آپ نے کہا تم کو کیسے پتا کہ سوره الفاتحہ دم ہے؟

یعنی اپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا یہ تو میرا حکم نہیں ہے کہ فاتحہ سے دم کرو تم کو کس نے یہ کہا ؟ اور اس وجہ سے کہیں نہیں ملتا کہ سوره فاتحہ سے دم کیا جاتا ہو یا اصحاب رسول نے کیا ہو صرف یہ ایک روایت ہے جو خاص واقعہ ہے اس کا تعلق حق ضیافت لینے سے ہے

لیکن اپ کو معلوم ہے نصوص کو مسخ کر کے اپنا مدعا نکالنا مولویوں کو اتا ہے لہذا انہوں نے دم درود پر لوگوں کو لگا دیا ہے ان کے ذریعہ اپنی دکان چمکا رہے ہیں، کوئی تعویذ لکھ رہا ہے تو کوئی جن نکال رہا ہے اور
وترى كثيرا منهم يسارعون في الإثم والعدوان وأكلهم السحت لبئس ما كانوا يعملون لولا ينهاهم الربانيون والأحبار عن قولهم الإثم وأكلهم السحت لبئس ما كانوا يصنعون
سوره المائده

لہذا اہل حدیث مولوی ہو وہابی ہو یا بریلوی دیوبندی شیعہ یہ سب جن نکالتے ہیں – جنات سے لوگوں کو ڈراتے رہتے ہیں لوگوں کو سکھاتے ہیں کہ جن انسان میں حلول کر جاتے ہیں اور پھر غریب لوگوں پر تشدد کرتے ہیں
مثلا امام ابن تیمیہ خود جن نکالنے میں تشدد کرتے تھے

⇑ امام ابن تیمیہ اور جنات کی دنیا
https://www.islamic-belief.net/masalik/غیر-مقلدین/

پھر علماء دینا میں بد روحوں کے بھی قائل ہیں اس مکروہ عقیدے کو کتابوں سے پھیلاتے ہیں مثلا
عبد الرحمان کیلانی صاحب روح عذاب قبر اور سماع موتی میں اس کو بیان کرتے ہیں

اب یہ تو حال ہے قرآن و حدیث پڑھنے والوں کا – وہ جو تصوف والے ہیں ان کا کیا ذکر کریں وہ تو نا معلوم کیا کیا کر رہے ہیں
مثلا اعمال قرانی اشرف علی تھانوی کی کتاب یا بہشتی زیور جیسی کتابوں میں علماء نے ہی عجیب عجیب باتوں کے لئے آیات کا استعمال بیان کیا ہے

جواب

وظيفة عربی کا لفظ ہے اس کا مطلب
assignment
function
http://www.almaany.com/en/dict/ar-en/وظيفة/

ہے

یعنی اس کو پڑھنے سے کوئی کام ممکن ہو – اس میں وہ مسائل ہیں جیسے اولاد نہ ہو رہی ہو تو پڑھنا وغیرہ

محدثین نے صرف اذکار کا لفظ استمعال کیا ہے – وظیفہ کا لفظ صوفیاء کا ہے
یہ الگ الگ مقصد ہے
ذکر تو عبادت ہے
اور وظیفہ کا مقصد کوئی دنیا کا فائدہ حاصل کرنا ہوتا ہے مثلا شادی ، محبوب، اولاد

جواب

سنن ابو داود میں ہے
حدَّثنا عُبيدُ الله بنُ عمر بن ميسرة ومحمد بن قُدامة في آخرين، قالوا: حدَّثنا عثَّامٌ، عن الأعمش، عن عطاء بن السائب، عن أبيه
عن عبد الله بن عمرو، قال: رأيتُ رسولَ الله – صلَّى الله عليه وسلم – يعقِدُ التسبيحَ. قال ابنُ قدامة: بيمينه
ابن عمر سے مروی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے تسبیح گنی اور ابن قدامہ نے کہا سیدھے ہاتھ پر

ابن قدامہ کی تشریح ان کی ذاتی رائے ہے کیونکہ اس کے باقی طرق میں ایسا کہیں نہیں کہ یہ تسبیح کس طرح گنی گئی
ابن قدامہ نسائی اور ابو داود کے شیخ ہیں

ہاتھ پر تسبیح کی کوئی صریح دلیل نہیں ہے

البتہ مروجہ تسبیح جو دانوں کی مالا پر ہوتی ہے یہ ایک نصرانی روایت ہے لہذا اس کو استمعال نہ کرنا بہتر ہے

سنن ترمذی میں ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الوَارِثِ قَالَ: حَدَّثَنَا هَاشِمٌ وَهُوَ ابْنُ سَعِيدٍ الكُوفِيُّ قَالَ: حَدَّثَنِي كِنَانَةُ، مَوْلَى صَفِيَّةَ قَالَ: سَمِعْتُ صَفِيَّةَ، تَقُولُ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ يَدَيَّ أَرْبَعَةُ آلَافِ نَوَاةٍ أُسَبِّحُ بِهَا، قَالَ: «لَقَدْ سَبَّحْتِ بِهَذِهِ، أَلَا أُعَلِّمُكِ بِأَكْثَرَ مِمَّا سَبَّحْتِ؟» فَقُلْتُ: بَلَى عَلِّمْنِي. فَقَالَ: ” قُولِي: سُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ خَلْقِهِ “: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ صَفِيَّةَ [ص:556] إِلَّا مِنْ هَذَا الوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ هَاشِمِ بْنِ سَعِيدٍ الكُوفِيِّ، وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمَعْرُوفٍ وَفِي البَابِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ

ام المؤمنین صفیہ بنت حییؓ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے ، میرے پاس چار ہزار کھجور کی گٹھلیاں رکھی ہوئی تھیں جن پر میں تسبیح پڑھا کرتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حیی کی بیٹی! یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: ان گٹھلیوں پر میں تسبیح پڑھ رہی ہوں۔
البانی نے اس کو منکر قرار دیا ہے

ترمذی میں ہے
– حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الحَسَنِ قَالَ: حَدَّثَنَا أَصْبَغُ بْنُ الفَرَجِ قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الحَارِثِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ خُزَيْمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهَا، أَنَّهُ دَخَلَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى امْرَأَةٍ وَبَيْنَ يَدَيْهَا نَوَاةٌ، أَوْ قَالَ: حَصَاةٌ تُسَبِّحُ بِهَا، فَقَالَ: «أَلَا أُخْبِرُكِ بِمَا هُوَ أَيْسَرُ عَلَيْكِ مِنْ هَذَا [ص:563] أَوْ أَفْضَلُ؟ سُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ فِي السَّمَاءِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ فِي الأَرْضِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا بَيْنَ ذَلِكَ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا هُوَ خَالِقٌ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ مِثْلَ ذَلِكَ، وَالحَمْدُ لِلَّهِ مِثْلَ ذَلِكَ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ مِثْلَ ذَلِكَ».
سعد بن ابی وقاص ؓ فرماتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک صحابیہ کے پاس گیا جن کے سامنے گٹھلیاں یا کنکریاں رکھی ہوئی تھیں جن پر وہ تسبیح پڑھا کرتی تھیں

البانی نے اس کو منکر قرار دیا ہے

ترمذی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے یعنی ان کے دور میں اس سے دلیل لی گئی

جواب

إِنَّ الدُّعَاءَ مَوْقُوفٌ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ ، لا يَصْعَدُ مِنْهُ شَيْءٌ حَتَّى تُصَلِّيَ عَلَى نَبِيِّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

یہ عمر بن خطاب رضی الله عنہ سے منسوب قول ہے حدیث نبوی نہیں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ سُلَيْمَانُ بْنُ سَلْمٍ الْمَصَاحِفِيُّ البَلْخِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، عَنْ أَبِي قُرَّةَ الأَسَدِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ، قَالَ: إِنَّ الدُّعَاءَ مَوْقُوفٌ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ لاَ يَصْعَدُ مِنْهُ شَيْءٌ، حَتَّى تُصَلِّيَ عَلَى نَبِيِّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ نے اس کو عمر کا قول کہا ہے

سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ کا کسی بدری صحابی سے سماع نہیں ہے سند منقطع ہے

صحیح مسلم میں ہے

فَوَاللهِ مَا حَدَّثَنَا الْحَسَنُ عَنْ بَدْرِيٍّ مُشَافَهَةً، وَلَا حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ عَنْ بَدْرِيٍّ مُشَافَهَةً، إِلَّا عَنْ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ»
الله کی قسم نہ حسن (بصری) نے (کبھی) کسی بدری سے بلاواسطہ حدیث ہمیں سنائی نہ سعید بن مسیب نے ایک سعد بن مالک کے سوا کسی اور بدری سے براہ راست سنی ہوئی کوئی حدیث سنائی

حدیث نہ سنانا ثابت کرتا ہے سعید کا سماع عمر سے نہیں ہے

جامع التحصيل في أحكام المراسيل
المؤلف: صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ)

قال يحيى القطان سعيد بن المسيب عن عمر رضي الله عنه مرسل
سعید کی عمر سے روایت مرسل ہے

جواب
مستدرک الحاکم میں دو روایات ہیں
حَدَّثَنَاهُ أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعُمَانِيُّ، ثنا مَسْعُودُ بْنُ زَكَرِيَّا التُّسْتَرِيُّ، ثنا كَامِلُ بْنُ طَلْحَةَ، ثنا فَضَالُ بْنُ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ لِلَّهِ مَلَكًا مُوَكَّلًا بِمَنْ يَقُولُ: يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ، فَمَنْ قَالَهَا ثَلَاثًا قَالَ الْمَلَكُ: إِنَّ أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ قَدْ أَقْبَلَ عَلَيْكَ فَاسْأَلْ ”أَبِي أُمَامَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، نے کہا کہ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا الله کا ایک موکل فرشتہ ہے جو بھی يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ کہتا ہے تو یہ فرشتہ اس پر کہتا ہے أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ نے تجھ کو قبول کیا اب سوال کر
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الصَّفَّارُ، ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي الدُّنْيَا، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَهْلِ بْنِ عَسْكَرٍ، ثنا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَنْبَأَ نَافِعُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي أُسَيْدٍ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ عِيسَى، عَنْ عَمِّهِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ وَهُوَ يَقُولُ: يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «سَلْ فَقَدْ نَظَرَ اللَّهُ إِلَيْكَ» الْفَضْلُ بْنُ عِيسَى هُوَ الرَّقَاشِيُّ، وَأَخْشَى أَنْ يَكُونَ عَمُّهُ يَزِيدَ بْنَ أَبَانَ إِلَّا أَنِّي قَدْ وَجَدْتُ لَهُ شَاهِدًا مِنْ حَدِيثِ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ ”
حاکم نے کہا خدشہ ہے اس میں يزيد بن أبان الرقاشي ہے لیکن یہ انس رضی الله عنہ کی روایت أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ رضی الله عنہ کی روایت پر شاہد ہے
========
الذھبی نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہےلیکن میزان میں فضال بن جبير کا ذکر کر کے اس کو ضعیف قرار دیا ہے
المعلمي نے النكت الجياد میں کہافضّال بن جبير أبو المهند الغداني:“الفوائد” (ص 302): “تالف زعم أنه سمع أبا أمامة وروى عنه ما ليس من حديثه”.فضّال بن جبير بے کار ہے اس کا دعوی ہے اس نے ابو امامہ سے سنا جبکہ وہ ان کی احادیث نہیں ہیں
شاہد حدیث میں يزيد بن أبان الرقاشي جو ضعیف ہے

دم اور تعویذ

ایک صاحب کہتے ہیں

پہلی بات تو یہ ہے کہ دنیا کے بے شمار علوم ایسے ہیں جو انسان کے نفع کے لئے بنائے گئے ہیں ۔ انسان ان سے حسب ضرورت استفادہ کرسکتا ہے۔ دین اس وقت ان علوم میں مداخلت کرتا ہے جب ان میں کوئی اخلاقی یا شرعی قباحت پائی جائے۔ جیسے میڈیا سائنسز ایک نیوٹرل علم ہے جس کے پڑھنے یا نہ پڑھنے پر مذہب کا کوئی مقدمہ نہیں۔ اگر یہ علم انسانوں کو نقصان پہنچانے میں استعمال ہو اور اس سے محض فحاشی و عریانیت اور مادہ پرستی ہی کو فروغ مل رہا ہو تو مذہب مداخلت کرکے اس کے استعمال پر قدغن لگاسکتا اور اسے جزوی طور پر ممنوع کرسکتا ہے۔
میرے فہم کے مطابق کچھ ایسا ہی معاملہ نفسی علوم کا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یہ علم سحر کی حیثیت سےیہود اور کچھ مشرکین کے پاس تھا ۔ چونکہ کسی پیغمبر کی بعثت کو ایک طویل عرصہ گذرچکا تھا اس لئے ان علوم پر بھی شیاطین کا قبضہ تھا ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اصلاح معاشرہ اور تطہیر کا کام کیا تو اس علم پر بھی خاص طور پر توجہ دی۔ اس زمانے میں تعویذ ، گنڈے اور دیگر چیزیں مشرکانہ نجاست رکھتی تھیں اس لئے انہیں ممنوع اور حرام قرار دے دیا گیا۔ اصل علت یا وجہ جادو یا شرک تھا تعویذ کا استعمال نہ تھا۔
اس کی بہترین مثال تصویر ہے۔ تصویریں اس زمانے میں بنائی ہی شرک کی نیت سے جاتی تھیں اس لئے جاندار کی تصویر بنانا ممنوع کردیا گیا۔ لیکن بعد میں جب تصویروں میں علت نہیں رہی تو علما نے اسے جائز قرار دے دیا۔ یہی معاملہ تعویذ گنڈوں کےساتھ بھی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ تعویذ وغیرہ کا براہ راست دین سے کوئی تعلق نہیں اور یہ نفسی علوم کا ایک طریقہ اور ٹول ہے۔ چنانچہ اگر کوئی تعویذ شرکیہ نجاستوں سے پاک ہے تو اس پر وہی حکم لگے گا جو دم درود یا دیگر روحانی علوم پر لگتا ہے۔

جواب

ہمارے علماء کے نزدیک وہ کیا ذرائع ہیں جن سے وہ اہل کتاب یا یہود کے بارے میں معلومات لیتے ہیں اگر آپ تحقیق کریں تو معلوم ہو گا کہ کتب حدیث اور ابن اسحاق کی کتب یا واقدی کی کتب ہیں جو اسلامی نقطہ نگاہ سے لکھی گئی ہیں اور بسا اوقات ان کتابوں کو پڑھتے ہوئے مفروضے بھی قائم کر لئے جاتے ہیں مثلا یہ کہ یہود عزیر کو الله کا بیٹا کہتے تھے تو یقینا عزیر الله کا کوئی نبی ہو گا اور پھر عزیر علیہ السلام لکھنا بھی شروع کر دیا اور اس کے نام پر اپنے بچوں کے نام بھی رکھنے شروع کر دے – اس کے بر عکس ابی داود کی صحیح حدیث میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ عزیر نبی تھا یا نہیں – اسی طرح جب تعویذ کی بات ہوتی ہے تو اس کو جادو شرک سے ملا دیتے ہیں جبکہ اس پر کوئی دلیل نہیں دوم اہل کتاب یہود کو مسلسل شرک کرنے والا کہتے ہیں – یہ علماء کی آراء اب اس قدر جڑ پکڑ چکی ہیں کہ ان کو ہی حقیقت سمجھا جاتا ہے اور آزادنہ تحقیق مفقود ہے-
یہود کو جاننے کے لئے علماء میں یہود کی کتب پڑھنے کا کوئی رجحان نہیں اور چونکہ ان کے بارے میں معلومات ناقص ہیں لہذا مفروضوں پر عمارت قائم کر لیتے ہیں –تعویذ کے سسلے میں تلمود کو دیکھا جائے جو رسول الله کے دور میں اور ان کے بعد تک مرتب ہوئی ہے اور اس میں علمائے یہود کے فتوی جمع ہیں اس کو آپ فتاوی علمائے یہود کہہ سکتے ہیں – تلمود ظاہر ہے ایک وسیع کام ہے اور اپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ اس میں تعویز پر بھی بحث ہے
یہود کا تعویذ کلام الہی پر مبنی ہوتا ہے جو ہو سکتا ہے شرک سے پاک ہو اور تلمود میں ایسے تعویذ بتائے گئے ہیں جن میں توریت کی آیات ہیں اور شرک سے پاک ہیں – بعض یہودی علم اعداد بھی استعمال کرتے ہیں جو جادو کی ایک قسم ہے جو بابل سے آئی ہے لہذا یہ ممکن ہے کہ شرکیہ تعویذ بھی ہوں – الغرض دونوں طرح کے تعویذ یہودی استعمال کرتے تھے- رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے تعویذ کو مطلقا منع کیا اس میں کلام الہی والے کا استثنا نہیں ہے
اس پر بات کو گھمایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ جس طرح شرکیہ دم منع ہیں اور بعد میں دم کی اجازت دی گئی اسی طرح غیر شرکیہ تعویذ کر سکتے ہیں- لیکن دم دعا ہے اور تعویذ ایک عمل ہے دونوں میں فرق ہے جس میں اس کو لٹکایا جاتا ہے- کلام الہی صرف جہنم کی اگ سے بچانے کے لئے اترا ہے کسی دنیاوی ضرر سے بچانے کے لئے نہیں- ورنہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی انگلی زخمی نہ ہوئی دانت پر احد کے دن ضرب نہ لگتی-

جواب نہیں سوره الفاتحہ دم نہیں

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سوره الفاتحہ سے دم نہیں کیا- آخری وقت تک آپ صلی الله علیہ وسلم معوذتین  سے دم کرتے رہے اور یہی عائشہ رضی الله عنہا نے مرض وفات میں کیا

ایک روایت میں ہے کہ صحابہ ایک سفر میں تھے اور انہوں نے ایک مقام پر پڑاؤ کیا اور قبیلہ والوں سے کھانے پینے کو مانگا جس کا انہوں نے انکار کر دیا اتفاق سے ان کے سردار کو بچھو نے کاٹا اور وہ علاج یا ٹوٹکا پوچھنے صحابہ کے پاس بھی آئے جس پر ایک صحابی نے  (اپنی طرف سے) سوره الفاتحہ سے دم کر دیا اور وہ سردار ٹھیک کو گیا واپس آ کر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو سب بتایا گیا تو آپ نے کہا تم کو کیسے پتا کہ سوره الفاتحہ دم ہے؟

یعنی یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا حکم نہ تھا – مزید یہ کہ نہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے، نہ صحابہ نے، سوره الفاتحہ سے  بعد میں دم  کیا

خارجہ بن صلت تمیمی رضی اللہ عنہ کے چچا سے مروی ہے : وہ نبی ﷺ کے پاس آئے اور اسلام قبول کیا ۔ پھر

آپ ﷺ کے پاس سے واپس لوٹ گئے ۔ ان کا گذر ایک قوم کے پاس سے ہوا جن کے پاس ایک آدمی جنوں کی وجہ سے لوہے سے بندھا تھا۔ ان لوگوں نے کہا کہ بتلایا گیا ہے کہ تمہارے ساتھی (نبی ﷺ) نے بھلائی لایاہے ۔ تو کیا آپ کے پاس کچھ ہے جس کے ذریعہ آپ اس کا علاج کرسکیں ؟ تو میں نے اس پرسورہ فاتحہ کے ذریعہ دم کردیا ۔ پس ٹھیک ہوگیاتو انہوں نے مجھے ایک سو بکریاں دی ۔ میں نبی ﷺ کے پاس آیا اور آپ کو خبر دی ۔ پس آپ نے کہا: کیا یہی تھا۔ مسدد نے کہا دوسری جگہ ہے : کیا اس کے علاوہ بھی پڑھا تھا؟ تو میں نے کہا : نہیں ، آپ نے فرمایا: اسے لے لو۔ میری عمر کی قسم ! جس نے باطل دم کے ذریعہ کھایا(اس کا بوجھ اور گناہ اس پر ہے)، تو نے تو صحیح دم کے ذریعہ کھایا(تم پر کوئی گناہ نہیں)۔

جواب

اس روایت میں خارجہ بن صلت کے چچا کا صحابی ہونا ثابت نہیں کیونکہ یہ واحد روایت ہے جس سے اس کے بارے میں پتا چلا کہ خارجہ کا چچا صحابی تھا علم حدیث کا اصول ہے کہ صحابی مجھول الاسم نہیں ہونا چاہئے اور معروف ہونا چاہیے
بہت سے لوگوں کی روایات اس بنیاد پر مرسل قرار دی گئیں ہیں کہ انہوں نے رسول الله کو دیکھا کچھ سنا نہیں

ایک اور مسئلہ اس میں یہ ہے کہ مسند احمد میں اس کی سند
خَارِجَةَ بْنِ الصَّلْتِ، قَالَ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ: عَنْ عَمِّهِ
کے مطابق خارجہ بن صلت نے ایک مجہول الحال یحیی التمیمی سے اس نے ان کے چچا سے سنا تھا

لہذا ابو داود کی سند منقطع بھی ہے

سوم آپ نے خارجہ کو رضی الله عنہ لکھا ہے یعنی آپ نے اس کو صحابی کر دیا
ابو نعیم معرفہ الصحابہ میں کہتے ہیں
خَارِجَةُ بْنُ الصَّلْتِ عِدَادُهُ فِي الْكُوفِيِّينَ زَعَمَ بَعْضُ الْمُتَأَخِّرِينَ أَنَّهُ أَدْرَكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَرَهُ , حَدِيثُهُ عِنْدَ الشَّعْبِيِّ
خارجہ بن صلت کا شمار کوفیوں میں ہوتا ہے بعض متاخرین کا دعوی ہے کہ اس نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو پایا لیکن دیکھا نہیں اور اس کی حدیث شعبی سے ہے

یعنی یہ صحابی کب سے ہو گئے بہت سے بہت تابعی ہیں

لہذا یہ ضعیف روایت ہے

جواب

صحیح بخاری کی حدیث ہے

عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ كَانَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم نَاقَةٌ‏.‏ قَالَ وَحَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا الْفَزَارِيُّ وَأَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ عَنْ أَنَسٍ قَالَ كَانَتْ نَاقَةٌ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم تُسَمَّى الْعَضْبَاءَ، وَكَانَتْ لاَ تُسْبَقُ، فَجَاءَ أَعْرَابِيٌّ عَلَى قَعُودٍ لَهُ فَسَبَقَهَا، فَاشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ وَقَالُوا سُبِقَتِ الْعَضْبَاءُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ إِنَّ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ لاَ يَرْفَعَ شَيْئًا مِنَ الدُّنْيَا إِلاَّ وَضَعَهُ

انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اونٹنی تھی جس کا نام ” عضباء “ تھا ( کوئی جانور دوڑ میں ) اس سے آگے نہیں بڑھ پاتا تھا ۔ پھر ایک اعرابی اپنے اونٹ پر سوار ہو کر آیا اور وہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی سے آگے بڑھ گیا ۔ مسلمانوں پر یہ معاملہ بڑا شاق گزرا اور کہنے لگے کہ افسوس عضباء پیچھے رہ گئی ۔ رسول الله  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر یہ لازم کر لیا ہے کہ جب دنیا میں وہ کسی چیز کو بڑھاتا ہے تو اسے وہ گھٹاتا بھی ہے ۔

آپ دیکھیں اس میں نظر لگنے کا عمل ہے- صحابہ کی نظر، رسول الله کی اونٹنی، کو لگ گئی کہ اتنی بہتر تھی لیکن وہ رفتار میں  کم پڑ گئی- یہی عرف عام میں نظر لگنا ہے کہ ہر وہ چیز جس پر انسانوں کا تصور ہو جائے کہ بہت خوبی والی ہے اس میں عیب آ جاتا ہے کیوں کہ  کسی بھی عیب سے پاک صرف الله کی ذات ہے

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا
نظر بد حق ہے
(بخاری/5740, مسلم/2188)

جواب

یہ بدعت ہے

لیکن بعض علماء ایسا کرتے تھے مثلا امام ابن تیمیہ کتاب إيضاح الدلالة في عموم الرسالة میں لکھتے ہیں

ibn-temiah-zafran

قال عبد الله بن أحمد بن حنبل – قال أبي : حدثنا أسود بن عامر بإسناده بمعناه وقال يكتب في إناء نظيف

فيسقى … قال عبد الله رأيت أبي يكتب للمرأة في حام أو شئ نظيف

عبد الله بن احمد کہتے ہیں میرے باپ نے کہا ہم سے اسود نے روایت کیا….. اور کہا اور وہ صاف برتن پر لکھتے اور پھر پیتے عبد الله کہتے ہیں میرے باپ بارک چیز یا صاف چیز پر لکھتے

ابن تیمیہ اس کی تائید میں کہتے ہیں

يجوز أن يكتب للمصاب وغيره شئ من كتاب الله وذكره بالمداد المباح – ويسقى

اور یہ جائز ہے کہ مصیبت زدہ کے لئے کتاب الله اور ذکر کو مباح روشنائی سے لکھے اور پی لے

اس کو ابن قیم نے بھی کتاب  زاد المعاد میں جائز کہا ہے

بن باز فتوی میں کہتے ہیں

http://aliftaweb.org/Urdo/Pages/PermanentCommittee.aspx?languagename=ur&View=Page&PageID=130&PageNo=1&BookID=3

اور جہاں تک کاغذ یا تختی یا پلیٹ پر قرآنی آیات یا مکمل سورت لکھنے، اور پھر اس کو زعفران یا پانی سے دھو کر برکت، یا علم سے استفادہ یا آمدنی کے وسائل کی فراوانی، یا صحت وعافیت وغیرہ کی امید اس دھلے پانی کو پینے کا سوال ہے، تو اس بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ نے اس طرح اپنے لئے یا کسی اور کے لئے کیا ہو، اور نہ آپ نے اپنے صحابہ میں کسی کو اس طرح کرنے کی اجازت دی ہے، اور نہ آپ نے اپنی امت کو اس میں چھوٹ دی ہے، جب کہ اس طرح کئے جانے کے بہت سے اسباب موجود تھے، نیز ہمارے علم کے مطابق صحابہ رضی الله عنهم سے منقول صحیح اقوال میں کسی سے یہ ثابت ہے کہ انہوں نے اس طرح کیا ہے اور کسی کو اس کی چھوٹ دی ہے، اس مذکورہ تفصیل کی روشنی میں اس کام کو چھوڑنا ہی بہتر ہے،

ہمارے نزدیک بن باز کی بات درست ہے کہ یہ بدعت ہے اور اس میں امام احمد اور ابن تیمیہ مبتلا رہے ہیں

جواب

حدیث میں آتا ہے کہ

«نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم  أَنْ یُّتَنَفَّسَ فِي الْإِنَاء أَوْ یُنْفَخَ فِیْهِ  “صحيح الجامع ” (6820

نبی صلی الله علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ پانی میں سانس لیا جائے یا اس میں پھونک ماری جائے۔

کہا جاتا ہے کہ عام پینے والے پانی میں سانس لینا یا اس میں پھونک مارنے کی ممانعت ہے لیکن جس پانی پر دم کرنا ہو وہ مستثنی ہے ، یعنی دم کرتے وقت پانی پر پھونک مار سکتے ہیں۔ لیکن اس حدیث میں اس میں کوئی تخصیص بیان  نہیں ہوئی لہذا حکم  ممانعت عام ہے – پانی پر پھونکنا یا عرف عام میں دم کرنا منع ہے

بعض کا اصرار ہے کہ جائز ہے ان کی دلیل ہے کہ  سنن ابی داود  باب ما جاء في الرقى  کی حدیث ہے

حدَّثنا أحمدُ بنُ صالح وابنُ السرحِ -قال أحمدُ: حدَّثنا ابن وهب، وقال ابن السرح: أخبرنا ابنُ وهب- حدَّثنا داودُ بنُ عبدِ الرحمن، عن عمرو ابنِ يحيى، عن يوسفَ بنِ محمد -وقال ابن صالح: محمدُ بنُ يوسف بن ثابت ابنِ قيس بنِ شماس- عن أبيهِ عن جَدِّه، عن رسولِ الله – صلَّى الله عليه وسلم – أنه دخلَ على ثابتِ بنِ قيس -قال أحمدُ: وهو مريض- فقالَ: “اكْشِفِ البَاْسَ ربَّ النَّاسِ، عن ثابت بنِ قيس بنِ شمَّاس” ثم أخذ تراباً من بُطحانَ فجعله في قَدَحٍ، ثم نَفَثَ عليه بماءِ، ثم صبَّه عليهِ

احمد بن صالح نے اور ابن السرح نے روایت کیا کہا احمد نے کہا حدثنا ابن وھب اور ابن   السرح نے کہا اخبرنا ابن وھب- داود بن عبد الرحمان نے عمرو بن یحیی سے روایت کیا انہوں نے یوسف بن محمد سے روایت  کیا ، اور ابن صالح نے کہا انہوں نے محمد بن یوسف بن قیس بن شماس سے انہوں نے  اپنے باپ سے ، اپنے دادا سے روایت کیا  کہ نبی صلی الله علیہ وسلم، ثابتِ بنِ قيس کے پاس داخل ہوئے-  احمد کہتے ہیں: وہ مریض تھے، پس اپ صلی الله علیہ وسلم نے کہا: اے انسانوں کے رب ! تکلیف کو دور کر، ثابت بن قیس پر سے،  پھر بُطحانَ کی مٹی لی اس کو ایک  قدح میں ڈالا، پھر اس میں پانی پر پھونکا ، پھر اس کو ان کے سر پر انڈیلا

اس روایت کو پانی پر دم کرنے کی دلیل پر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ اس کی سند ضعیف ہے اس روایت  پر تعلیق میں شعَيب الأرنؤوط اور محَمَّد كامِل قره بللي  لکھتے ہیں

إسناده ضعيف لجهالة يوسف بن محمد بن ثابت بن قيس بن شماس

اس کی اسناد يوسف بن محمد بن ثابت بن قيس بن شماس کے مجھول ہونے کی وجہ سے ضعیف ہیں

البانی اس کو ضعیف الاسناد کہتے ہیں اور ابن حجر فتح الباری میں اس روایت کو حسن کہتے ہیں جو ان کی ناقص تحقیق ہے

ابو داود سنن  میں کہتے ہیں  قَالَ أَبُو دَاوُدَ: «قَالَ ابْنُ السَّرْحِ يُوسُفُ بْنُ مُحَمَّدٍ وَهُوَ الصَّوَابُ

 ابن السرح نے یوسف  بن محمّد  کہا ہے جو صواب ہے

یہ واحد روایت ہے جس میں پانی پر دم کا ذکر ہے لیکن جب راوی ہی مجھول ہے تو دلیل نہیں بن سکتی

وہابی مفتی  عبدالعزیز بن باز  اسی حدیث کی بنیاد پر کہتے  ہیں

لا حرج في الرقية بالماء ثم يشرب منه المريض أو يغتسل به، كل هذا لا بأس به، الرقى تكون على المريض بالنفث عليه، وتكون في ماء يشربه المريض أو يتروَّش به، كل هذا لا بأس به، فقد ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه رقى ثابت بن قيس بن شماس في ماء ثم صبه عليه، فإذا رقى الإنسان أخاه في ماء ثم شرب منه أو صبه عليه يرجى فيه العافية والشفاء، وإذا قرأ على نفسه على العضو المريض في يده أو رجله أو صدره ونفث عليه ودعا له بالشفاء هذا كله حسن.
http://www.binbaz.org.sa/noor/8858

پانی سے دم میں حرج نہیں ہے جب یہ پانی مریض کو  پلایا جائے یا اس پانی سے غسل دیا جائے اس سب میں کوئی برائی نہیں ہے –  دم مریض پر پھونکنے سے بھی ہوتا ہے اور پانی پر بھی جس کو مریض کو پلایا جاتا ہے یا اس پر بہایا جاتا ہے اس سب میں کوئی برائی نہیں ہے – پس یہ ثابت ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے آپ (صلی الله علیہ وسلم)  نے قیس بن ثابت (رضی الله عنہ ) پر پانی سے دم کیا   پھر ان پر انڈیلا –  پس اگر انسان پر اس کے بھائی  پینے کے پانی پر دم کریں یا  پانی پر دم کریں جس کو انڈیلا جائے تو اس میں عافیت و شفا کی امید ہے اور اگروہ خود پڑھیں  یا مریض کے عضو پر  جیسے ہاتھ ، پیر یا سینہ اور اس پر پھونک دیں  اور شفا کی دعا کریں تو یہ سب اچھا ہے

راقم کہتا ہے ابن باز نے ضعیف حدیث سے دلیل لی ہے

بخاری نے تاریخ الکبیر میں اس روایت کو نقل کیا ہے اور اس میں پانی پر دم کرنے کے الفاظ نہیں ہیں

ایک دوسری روایت بھی پانی پر دم کرنے کے لئے پیش کی جاتی ہے جس کو البانی صحیحہ میں نقل کرتے ہیں

علی ؓسے مروی ہے انہوں نے کہاکہ نبی صلی الله علیہ وسلم  نماز ادا فرمارہے تھے ایک بچھو نے آپکو ڈنک لگا دیا‘ آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بچھو پر لعنت کرے جو نہ نبی کو نہ کسی دوسرے کو چھوڑتا ہے‘ پھر آپ نے پانی سے بھرا ہوا ایک برتن طلب فرمایا جس میں نمک آمیز کیا ہوا تھا اور آپ اس ڈنک زدہ جگہ کو نمک آمیز پانی میں برابر ڈبوتے رہے اور قل ھو اللہ احد اور معوذ تین پڑھ کر اس پر دم کرتے رہے یہاں تک کہ بالکل سکون ہوگیا

معجم الصغير الطبرانی میں اس کی سند ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ الْأَشْنَانِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ يَعْقُوبَ الْأَسَدِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ طَرِيفٍ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْروٍ، عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ، عَنْ عَلِيٍّ

اول اس کی سند میں المنھال بن عمرو ہے جو امام  شعبہ کے نزدیک متروک  ہے- بعض کے نزدیک ثقہ ہے لیکن المنھال،  محمّد بن الحنفیہ سے کتاب الدعا از الطبرانی میں ایک روایت  نقل کرتا ہے

 حَدَّثَنَا الْمِقْدَامُ بْنُ دَاوُدَ الْمِصْرِيُّ، ثنا أَسَدُ بْنُ مُوسَى، ثنا فُضَيْلُ بْنُ مَرْزُوقٍ، عَنْ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُوعَكُ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَلَا أُعَلِّمُكَ رُقْيَةً رَقَانِي بِهَا جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ» قَالَ: بَلَى، يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَعَلَّمَهُ بِسْمِ اللَّهِ أَرْقِيكَ، وَاللَّهُ يَشْفِيكَ مِنْ كُلِّ دَاءٍ يُؤْذِيكَ، خُذْهَا فَلْتُهْنِيكَ “

منہال بن عمرو، محمّد بن الحنفیہ سے  روایت کرتا ہے وہ عمار رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم ان کے پاس آئے اور وہ بیمار تھے پس ان سے رسول الله نے کہا کہ میں تم کو ایک دم سکھاؤں جس سے جبریل نے مجھے دم کیا کہا ضرور یا رسول الله پس آپ صلی الله علیہ وسلم نے سکھایا الله کے نام سے تم کو دم کرتا ہوں اور الله ہی تم کو ہر ایذا سے شفا دیتا  ہے اس کویاد کر لو اور اپنے اوپر جھاڑو

نبی صلی الله علیہ وسلم تو دم  دعا سے کر رہے ہیں اور اس میں پانی کا ذکر بھی نہیں

دوم مُطَرِّفُ بنُ طَرِيْفٍ الكُوْفِيُّ المتوفی ١٤١ ھ  ہے جو مدلس ہے اور عن سے روایت کرتا ہے

اس میں بھی پانی پر براہ راست دم نہیں کیا گیا بلکہ دم ڈنک کی جگہ کو کیا جا رہا ہے

پانی پر دم کی دلیل میں یہ احادیث بھی پیش کی جاتی ہیں

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے بستر پر تشریف لے جاتے تو اپنے دونوں ہاتھوں پر پھونکتے اور معوذات پڑھ کر اپنے جسم پر دونوں ہاتھوں کو مل لیتے۔ صحیح بخاری حدیث نمبر 1269

رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ دم کرنے میں کوئی حرج نہیں جبتک اس میں کوئی شرک نہ ہو ۔ صحیح مسلم : ۲۲۰

حالانکہ یہ بھی ہاتھوں سے دم کرنا ہے نہ کہ کسی پینے والی چیز پر دم کرنا لہذا پانی پر دم کرنے کی دلیل نہیں ہے

الغرض پانی پر دم کرنا حدیث سے  ثابت نہیں لہذا ایک بدعت ہے جو نصاری کے ہاں رائج ہے جس کو ہولی واٹر کہا جاتا ہے-  سن ٤٠٠ ب م میں اس کی نصرانی کتب میں حوالہ ملتا ہے

http://en.wikipedia.org/wiki/Holy_water

گویا یہ عمل نصاری کے ہاں نبی صلی الله علیہ وسلم سے پہلے سے معروف و مشھور چلا آ رہا ہے

عجب تماشہ ہے کہ دیوبندی اور بریلوی پانی پر دم کرنے کی اجرت لیتے ہیں اور اہل حدیث اس کو رد کرتے ہیں لیکن یہ تضاد ہے کیونکہ دینی امور پر اجرت کی دلیل ایک دم والے واقعہ سے ہی لی جاتی ہے

امام بخاری الصحيح  میں ابُ الشَّرْطِ فِي الرُّقْيَةِ بِقَطِيعٍ مِنَ الغَنَمِ روایت کرتے ہیں کہ

ابن عباس اور ابو سعید الخدری رضی الله تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ  نبی الله علیہ وسلم کے کچھ اصحاب سفر میں تھے – دوران سفر انہوں نے اک قبیلے کے پاس پڑاؤ کیا – صحابہ نے چاہا کہ قبیلہ والے ان کو مہمان تسلیم کریں  لیکن قبیلہ والوں نے صاف انکار کر دیا – ان کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا

قبیلہ والوں نے اصحاب رسول سے  ہی علاج کے لئے مدد طلب کی جس پر ایک صحابی نے سوره الفاتحہ  پڑھ کر سردار کو دم کیا اور وہ اچھا بھی ہو گیا – انہوں نے تیس بکریاں بھی لے لیں – صحابہ نے اس پر کراہت کا اظہا ر کیا اور مدینہ پہنچ کر آپ صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا آپ نے قصہ سننے کے بعد کہا  

إِنَّ أَحَقَّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا كِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ

جواب

النووی  ’’ المجموع شرح المہذب ‘‘ میں لکھتے ہیں
 وروى البيهقي بإسناد صحيح عن سعيد بن المسيب أنه كان يأمر بتعليق القرآن وقال لا بأس به قال البيهقي هذا كله راجع إلى ما قلنا إنه إن رقى بما لا يعرف أو على ما كانت عليه الجاهلية من إضافة العافية إلى الرقى لم يجز وإن رقى بكتاب الله أو بما يعرف من ذكر الله تعالى متبركا به وهو يرى نزول الشفاء من الله تعالى فلا بأس به‘‘۔

اور بیہقی نے صحیح اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے سعيد بن المسيب سے کہ وہ قرآن کو لٹکانے کا حکم کرتے تھے اور کہا اس میں کوئی برائی نہیں ہے بیہقی نے کہا یہ سب جاتا ہے اس بات پر جو ہم نے کی کہ جب دم کیا جائے اس سے جس کا پتا نہ ہو یا ان سے جن سے جاہلیت میں عافیت لی جاتی تھی تو وہ جائز نہیں ہے لیکن اگر دم کیا جائے کتاب الله سے اس ذکر الہی سے جس کو جانتے ہوں تو وہ متبرک ہے اور وہ اس میں شفا کا نزول دیکھتے ہیں، الله کی طرف سے، پس اس میں کوئی برائی نہیں

سنن الکبری البیہقی میں ہے

 أَخْبَرَنَا أَبُو زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ الْحَسَنِ قَالَا: ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ الْأَصَمُّ، ثنا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ، ثنا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي نَافِعُ بْنُ يَزِيدَ، أَنَّهُ سَأَلَ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ عَنِ الرُّقَى وَتَعْلِيقِ الْكُتُبِ، فَقَالَ: كَانَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ يَأْمُرُ بِتَعْلِيقِ الْقُرْآنِ وَقَالَ: لَا بَأْسَ بِهِ. قَالَ الشَّيْخُ رَحِمَهُ اللهُ: وَهَذَا كُلُّهُ يَرْجِعُ إِلَى مَا قُلْنَا مِنْ أَنَّهُ إِنْ رَقَى بِمَا لَا يُعْرَفُ أَوْ عَلَى مَا كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ مِنْ إِضَافَةِ الْعَافِيَةِ إِلَى الرُّقَى لَمْ يَجُزْ , وَإِنْ رَقَى بِكِتَابِ اللهِ أَوْ بِمَا يَعْرِفُ مِنْ ذِكْرِ اللهِ مُتَبَرِّكًا بِهِ وَهُوَ يَرَى نُزُولَ الشِّفَاءِ مِنَ اللهِ تَعَالَى فَلَا بَأْسَ بِهِ، وَبِاللهِ التَّوْفِيقُ

نافع بن یزید ( الكلاعي أبو يزيد المصري المتوفی ١٦٨ ھ یا کوئی مجھول)  نے یحیی بن سعید المتوفی ١٩٨ ھ  سے دم اور تعویذ پر سوال کیا انہوں نے کہا کہ سعید بن المسیب قرآن لٹکانے کا حکم کرتے تھے – یہ روایت ہی منقطع ہے کیونکہ یحیی بن سعید سے ابن مسیب تک کی سند نہیں ہے اس کے علاوہ نافع بن یزید خود یحیی سے کافی بڑے ہیں ان کا سوال کرنا بھی عجیب لگ رہا ہے

بیہقی نے جس روایت کو صحیح کہہ دیا ہے وہ اصل  میں مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي عِصْمَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ عَنِ التَّعْوِيذِ، فَقَالَ: «لَا بَأْسَ إِذَا كَانَ فِي أَدِيمٍ»

ابو بکر کہتے ہیں ہم سے عقبہ بن خالد نے روایت کیا انہوں سے شعبہ سے انہوں نے أَبِي عِصْمَةَ  سے کہا میں نے سعید بن المسیب سے تعویذ کے بارے میں پوچھا  پس کہا اگر چمڑے میں ہو تو کوئی برائی نہیں ہے

اس کی سند میں ابو عصمہ راوی ہیں  احمد العلل میں کہتے ہیں

 وقد روى شعبة، عن أبي عصمة، عن رجل، عن ابن المسيب، في التعويذ. «العلل» (1460) .

اور بے شک شعبہ نے ابی عصمہ سے انہوں کسی آدمی سے اس نے ابن مسیب سے تعویذ پر روایت کیا ہے

 ابو عصمہ عن رجل عن ابن المسیب سے تعویذ کی روایت کرتے ہیں

معلوم ہوا کہ اس روایت میں مجھول راوی ہے لہذا ابن مسیب سے منسوب یہ قول ثابت نہیں ہے

نوح بن أبي مريم، أبو عصمة المروزي، القرشي مولاهم ایک ضعیف راوی ہے جو مناکیر بیان کرنے کے لئے مشھور ہے

جواب

 كتاب الفروع  از ابن مفلح الحنبلي (المتوفى: 763هـ ) میں ہے

وَقَالَ ابْنُ مَنْصُورٍ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: هَلْ يُعَلِّقُ شَيْئًا مِنْ الْقُرْآنِ؟ قَالَ: التَّعْلِيقُ كُلُّهُ مَكْرُوهٌ، وَكَذَا قَالَ فِي رِوَايَةِ صَالِحٍ. وَقَالَ الْمَيْمُونِيُّ: سَمِعْت مَنْ سَأَلَ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عَنْ التَّمَائِمِ تُعَلَّقُ بَعْدَ نُزُولِ الْبَلَاءِ فَقَالَ: أَرْجُو أَنْ لَا يَكُونَ بِهِ بَأْسٌ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَقَدْ رَأَيْت عَلَى ابْنٍ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ وَهُوَ صَغِيرٌ تَمِيمَةً فِي رَقَبَتِهِ فِي أُدُمٍ، قَالَ الْخَلَّالُ: قَدْ كَتَبَ هُوَ مِنْ الْحُمَّى بَعْدَ نُزُولِ الْبَلَاءِ، وَالْكَرَاهَةُ مِنْ تَعْلِيقِ ذَلِكَ قَبْلَ نُزُولِ الْبَلَاءِ هُوَ الَّذِي عَلَيْهِ الْعَمَلُ، انْتَهَى

المروزی نے امام احمد سے پوچھا کیا قرآن میں سے کچھ لٹکایا جائے ؟ امام احمد نے کہا ہر لٹکانے والی چیز مکروہ ہے اور ایسا ہی  صالح نے روایت کیا ہے اور میمونی نے کہا میں نے امام احمد سے تعویذ پر سوال کیا کہ آفت نازل ہونے کے بعد لٹکا لیا جائے انہوں نے کہا اس میں امید ہے کوئی برائی نہیں اور امام ابو داود کہتے ہیں انہوں نے احمد کے چھوٹے بیٹے کے گلے میں چمڑے کا تمیمہ دیکھا  الخلال کہتے ہیں اور امام احمد  تمیمہ لکھتے بخآر کے لئے آفت کے نزول کے بعد اور اس سے کراہت کرتے کہ اس کو نزول بلا سے پہلے لٹکایا جائے اور اسی پر (حنابلہ کا) عمل ہے انتھی

إسحاق بن منصور بن بهرام أبو يعقوب الكوسج کی وفات ٢٥١ ھ میں ہوئی اور ان کے مطابق امام احمد قرانی تعویذ نہیں کرتے تھے

أبو داود سليمان بن الأشعث بن إسحاق المتوفی ٢٧٥ ھ  کہتے ہیں امام احمد کے بیٹے کے گلے میں ایک تمیمہ ہوتا تھا

سوال ہے کہ اگر قرانی تعویذ نہیں تھا تمیمہ تھا تو کس نوعیت کا تھا؟

ایک اہل  حدیث عالم تمیمہ کی وضاحت کرتے ہیں

مشہور و معروف لغت دان مجد الدین فیرزآبادی القاموس المحیط میں لکھتے ہیں

والتمیم التام الخلق ، والشدید ، وجمع تمیمة کا لتمائم لخرزة رقطاء تنظم فی السیر ، ثم یعقد فی العنق

تمیمہ کا لفظ دھاری دار کرزہ ومنکہ جو چمڑے کی تندی میں پرولیا جاتا، پھر گردن میں باندھ دیا جاتا ہے پر بولا جاتا ہے تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اس قسم کے خرزات و منکوں ، کوڈوں اور گھک منکوں کے لٹکانے کو شرک قرار دے رہے ہیں نہ کہ کاغذوں یا چمڑوں میں لکھے ہوئے کتاب و سنت کے کلمات لٹکانے کو۔

http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/2368/0/

  امام احمد ہی کے  فرزند نے اپنے باپ سے پوچھے گئے فتووں  پر کتاب تالیف کی،  جس کا نام المسائل امام احمد بن حنبل ہے – اس میں امام احمد نے با قاعدہ تعویذ بتایا کہ

كِتَابَةالتعويذة للقرع والحمى وللمراة اذا عسر عَلَيْهَا الْولادَة

حَدثنَا قَالَ رَأَيْت ابي يكْتب التعاويذ للَّذي يقرع وللحمى لاهله وقراباته وَيكْتب للمراة اذا عسر عَلَيْهَا الْولادَة فِي جَام اَوْ شَيْء لطيف وَيكْتب حَدِيث ابْن عَبَّاس

کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ کو تعویذ لکھتے دیکھا گنج پن ، بیماری یا درد زہ کے لئے – خاندان والو اور رشتہ داروں کے لئے اور ان عورتوں کے لئے جن کو جننے میں دشواری ہو ان کے لئے وہ ایک برتن یا باریک کپڑے پر ابن عبّاس کی روایت لکھتے تھے

امام احمد کا نقطہ نظر وقت کے ساتھ تبدیل ہوتا گیا اور وہ تعویذ لکھنے لگے گھر والوں یا اہل بیت کی گواہی سب سے بڑھ کر ہے

جواب

ایک وقت تھا جب اس امّت کا چار دانگ عالم میں رعب تھا – ایمان کا نور تھا – علماء نفس پرست اور شکم پرور نہ تھے – اگر کسی کا خوف تھا تو وہ صرف الہ واحد کا تھا – کسی بھی نقصان اور تکلیف کو با ذن الله سمجھا جاتا تھا – آج جو اس امت کا حال ہے وہ سب کے سامنے ہے – ایک مشکل اور پریشان حال کیفیت ہے – اغیار تو اغیار خود ہم مذہب بھی مارتے ہیں – الغرض ہر طرف ایک بے کلی و بے بسی کی سی کیفیت ہے-  سب سے افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ  ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ  یہ امّت قوم یونس کی طرح الله کی طرف پلٹی اور اس سے لو لگاتی ، اس امّت کے سواد ا عظم نے یہ مان لیا ہے کہ  مصیبت  میں الله کے بجاے دوسروں کو پکارا جائے الله کے علاوہ غیر الله کی خوشنودی حاصل کی جائے اور الله  کے کلام اور اسما الحسنیٰ  کو گلے میں لٹکایا جائے – الله کے کلام کو پانی پر پھونکا جائے – امّت کے ان عجیب و غریب  اعمال کی اصلاح کی ذمہ داری علماء کی تھی – شومئی  قسمت  علماء نے تو خود اس گمراہی کو بڑوھتی  دی ہے اور اس امّت کی قد آور شخصیات نے نہ صرف تعویذ سے متعلق عقائد کو محراب و منبر سے بیان کیا ہے بلکہ اس کے جائز ہونے پر فتوے اور کتابیں لکھیں ہیں-

تعویذ

تعویذ کا مطلب ہے جس کے ذریعے پناہ لی جائے – عرف عام میں اس سے مراد ہوتا ہے کہ قرآنی یا غیر قرآنی آیات پر مشتمل ورق کو چمڑے میں سی کر گلے یا جسم کے کسی اور جز میں باندھا جائے -تعویذ کسی صورت جسم سے علیحدہ نہیں کیا جاتا حتیٰ کہ اسی حالت میں بیت الخلا ء بھی جاتے ہیں – نا پاکی کی حالت میں بھی یہ جسم پر لٹکا ہوتا ہے

گنڈا 

دھاگے پر کلمات پڑھنے کے بعد جسم سے باندھا جاتا ہے – یہ طریقہ ہندووں کے ہاں مروج ہے اور بر صغیر میں معروف ہے

حالانکہ سوره الفلق میں گرہ لگا کر پھونکنے والیوں کے شر سے پناہ مانگی گئی ہے

تولہ

محبت کا تعویذ جو سحر کی ایک قسم ہے

واضح رہے کہ الله کے نبی کا واضح حکم ہے کہ

إِنَّ الرُّقَى وَالتَّمَائِمَ وَالتِّوَلَةَ شِرْكٌ  سنن ابی داود

بے شک منتر اور  تعویذ اور توله شرک ہیں

ابن قتیبہ کہتے ہیں  کہ محدث   أبي عبيد جنہوں نے احادیث کے مشکل الفاظ پر کتاب لکھی ہے ان کے مطابق  حدیث کے لفظ  التَّمَائِمَ سے مراد  تعویذ ہے جو گلے میں لٹکایا جائے

قال أبو محمد ابن قتيبة في إصلاح الغلط ص 54: وهذا يدل أن التمائم عند أبي عبيد المعاذات التي يكتب فيها وتعلق

یہی نقطۂ نظر عربی زبان کے معروف محقق الخليل الفراهيدي  کا ہے جو اپنی کتاب کتاب العین میں لکھتے ہیں

التميمة: قلادة من سيور، وربما جعلت العوذة التي تعلق في أعناق الصبيان

التميمة: کانٹوں کا قلادہ ، اورہو سکتا ہے کہ بنایا جائے ایک بچانے والی شے جس کو بچوں کے گلے میں لٹکایا جائے

عصر حاضر کے اک محقق ناصر الدین  البانی اپنی تالیف الصحیحہ میں تبصرہ کرتے ہیں کہ

التمائم : جمع تميمة واصلها خرزات تعلقها العرب على رأس الولد لدفع العين ثم توسعوا فيها فسموا بها كل عوذة . ومن ذلك تعليق نعل الفرس أو الخرز الأزرق وغيره . والأرجح أنه يدخل في المنع أيضا الحجب إذا كانت من القرآن أو الأدعية الثابت

التمائم : تميمة کی جمع ہے اور اصلاً گھونگھے ہیں جو عرب اپنے اولاد کے سروں پر دفع نظر بد کے لیے لٹکاتے تھے پھر اس میں وسعت ہوئی اور یہ نام ہوا ہر اس چیز کا جس کے ذریعے پناہ لی جائے – اور اس میں شامل ہے گھوڑے کی نعل اور نیلے گھونگھے اور راجح ہے کہ منع میں شامل ہے حفاظت چاہے قرآن سے ہو یا ثابت دعاؤں سے

معلوم ہوا کہ قدیم محدثین اور موجودہ محققین سب اس پر متفق ہیں کہ تعویذ سے مراد قرآنی تعویذ بھی ہیں – ان واضح نصوص کے باوجود کچھ حضرات کا اصرار ہے کہ تميمة  کے مفہوم  کو صرف گھونگوں اور کانٹوں تک ہی محدود کر دیا جائے -حالانکہ ان کے پاس اس محدودیت کی نہ کوئی دلیل ہے نہ کوئی برہان – حقیقت میں یہ مطالبہ محبوب شخصیا ت کے دفاع کے لیے کیا جاتا ہے-

امام احمد بن حنبل امّت کی مشہور شخصیت ہیں – معتزلہ کی فلسفیا نہ  موشگافیوں کے خلاف تقریباً تمام محدثین تھے لیکن ساکن بغداد ہونے کی وجہ سے عباسی خلفاء کی خاص توجہ ان پر مذکور رہی – امام احمد اپنے موقف پر ڈٹے رہے – اس بنا پر اپنے زمانے میں بہت  مشہور ہوۓ اور  پھر  اسی شہرت کے  سحر کے زیر اثر امام بخاری کو بد عقیده تک قرار دیا-

امّت کو امام احمد کی شحصیت پرستی سے نکلنے  کے لئے امام بخاری نے کتاب  خلق أفعال العباد لکھی جس   میں     نہ  صرف  معتزلہ  بلکہ  امام  احمد  کے  موقف  سے  ہٹ  کر  وضاحت  کی گئی

امام بخاری نے امام احمد کا نام   صرف  چار مقام پر صحیح بخاری میں لکھا اور وہ بھی امام احمد کی  سطحی  علمیت کو ظاہر کرنے کے لئے – گھر کے بھیدی امام احمد کے اپنے بیٹے عبدللہ بن احمد اپنی کتاب السنة  میں لکھتے ہیں

سألت أبي رحمه الله قلت : ما تقول في رجل قال : التلاوة مخلوقة وألفاظنا بالقرآن مخلوقة والقرآن كلام الله عز وجل وليس بمخلوق ؟ وما ترى في مجانبته ؟ وهل يسمى مبتدعا ؟ فقال : » هذا يجانب وهو قول المبتدع ، وهذا كلام الجهمية ليس القرآن بمخلوق

میں نے اپنے باپ احمد سے پوچھا : آپ کیا کہتے ہیں اس شخص کے بارے میں جو کہتا ہے کہ قرآن کی تلاوت اور الفاظ مخلوق ہیں اور قرآن الله عز وجل کا کلام غیر مخلوق ہے – اس کے قریب جانے پر آپ کیا کہتے ہیں اور کیا اس کو بدعتی کہا جائے گا ؟ امام احمد نے جواب میں کہا اس سے دور رہا جائے اور یہ بد عت والوں کا قول ہے اور الجهمية کا قول ہے- قرآن مخلوق نہیں

یہاں شخص سے مراد امام بخاری میں کیونکہ یہ ان ہی کا موقف تھا کا الفاظ قرآن مخلوق ہیں لیکن قرآن الله کا کلام غیر مخلوق ہے

    امام احمد نے خلق القرآن کے اپنے موقف میں وسعت پیدا کی اور بات یہاں تک پہنچی  کہ قرآن کی آیات کودھو دھو کر پیا جائے اور با وجود یہ کہ یہ ایک بدعت تھی انہوں نے ہی اس شجر کی آبیاری کی-  امام احمد ہی کے  فرزند نے اپنے باپ سے پوچھے گئے فتووں  پر کتاب تالیف کی،  جس کا نام المسائل امام احمد بن حنبل ہے – اس میں امام احمد نے با قاعدہ تعویذ بتایا کہ

كِتَابَةالتعويذة للقرع والحمى وللمراة اذا عسر عَلَيْهَا الْولادَة

حَدثنَا قَالَ رَأَيْت ابي يكْتب التعاويذ للَّذي يقرع وللحمى لاهله وقراباته وَيكْتب للمراة اذا عسر عَلَيْهَا الْولادَة فِي جَام اَوْ شَيْء لطيف وَيكْتب حَدِيث ابْن عَبَّاس

کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ کو تعویذ لکھتے دیکھا گنج پن ، بیماری یا درد زہ کے لئے – خاندان والو اور رشتہ داروں کے لئے اور ان عورتوں کے لئے جن کو جننے میں دشواری ہو ان کے لئے وہ ایک برتن یا باریک کپڑے پر ابن عبّاس کی روایت لکھتے تھے

امام احمد کا دفاع کرنے والوں نے ایک عجیب و غریب موقف اختیار کیا ہوا ہے کہ امام احمد تعویذ نہیں  بتا سکتے ہیں کیونکہ  اپنی مسند احمد میں وہ خود تعویذ کے رد میں روایات بیان کرتے ہیں – شخصیت پرستی بھی بری شے ہے جو عقل سلب کر لیتی ہے . امام احمد نے مسند کو ہر طرح کے رطب و یابس سے بھر دیا ہے-  ان کا سارا زور ایک ضخیم مسند لکھنے پر ہی رہا  ہے جس میں ہر طرح کی روایات ہیں – دیکھا یہ جاتا ہے کہ آیا محدث نے اس پر عقیدہ بنایا ہے یا نہیں

ابی داوود مسائل الإمام أحمد رواية أبي داود السجستاني میں کہتے ہیں کہ میں نے

رَأَيْتُ عَلَى ابْنٍ لِأَحْمَدَ، وَهُوَ صَغِيرٌ تَمِيمَةً فِي رَقَبَتِهِ فِي أَدِيم

میں نے احمد کے بیٹے جبکہ وہ چھوٹے تھے ایک    چمڑے کا  تَمِيمَةً  (تعویذ ) گلے میں دیکھا

كتاب الفروع ومعه تصحيح الفروع لعلاء الدين علي بن سليمان المرداوي میں صاحب کتاب بتاتے ہیں کہ
وَقَالَ الْمَيْمُونِيُّ: سَمِعْت مَنْ سَأَلَ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عَنْ التَّمَائِمِ تُعَلَّقُ بَعْدَ نُزُولِ الْبَلَاءِ فَقَالَ: أَرْجُو أَنْ لَا يَكُونَ بِهِ بَأْسٌ

میمونی کہتے ہیں کہ میں نے سنا جس نے احمد سے تعویذ کے بارے میں سوال کیا   آفت نازل ہونے کے بعد

پس انہوں نے کہا : امید ہے کہ اس میں کوئی برائی نہیں

قَالَ الْخَلَّالُ: قَدْ كَتَبَ هُوَ مِنْ الْحُمَّى بَعْدَ نُزُولِ الْبَلَاءِ، وَالْكَرَاهَةُ مِنْ تَعْلِيقِ ذَلِكَ قَبْلَ نُزُولِ الْبَلَاءِ
الخلال کہتے ہیں: احمد بخار کے لئے تعویذ  لکھتے تھے آفت آنے کے بعد،        اور کراہت کرتے تھے  آفت آنے سے پہلے  تعویذ     لٹکانے پر

بیہقی سنن الکبریٰ میں عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا سے روایت بیان کرتے ہیں کہ

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، وَأَبُو سَعِيدِ بْنُ أَبِي عَمْرٍو قَالَا: ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ , ثنا هَارُونُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ثنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ:

لَيْسَتْ التَّمِيمَةُ مَا يُعَلَّقُ قَبْلَ الْبَلَاءِ إنَّمَا التَّمِيمَةُ مَا يُعَلَّقُ بَعْدَ الْبَلَاءِ لِتَدْفَعَ بِهِ الْمَقَادِيرَ

تعویذ نہیں جو آفت سے پہلے لٹکایا جائے بلکہ تعویذ تو وہ ہے جو آفت کے بعد دفع کے لئے لٹکایا جائے

اس کے برعکس حاکم مستدرک میں روایت بیان کرتے ہیں

وَحَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ، ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: «لَيْسَتِ التَّمِيمَةُ مَا تَعَلَّقَ بِهِ بَعْدَ الْبَلَاءِ، إِنَّمَا التَّمِيمةُ مَا تَعَلَّقَ بِهِ قَبْلَ الْبَلَاءِ

عائشہ رضی الله روایت کرتی ہیں کہ تعویذ نہیں جو آفت کے بعد  لٹکایا جائے بلکہ تعویذ تو وہ ہے جو آفت سے پہلے  لٹکایا جائے

اس روایت کی صحت کی بحث سے قطع نظر جو چیز واضح ہے وہ یہ کہ امام احمد کا عمل   کسی بھی طرح  درست نہیں   تھا-  امام احمد کی دیکھا دیکھی    

امام ابن تیمیہ نے فتویٰ دیا کہ تعویذ جائز ہے  فتاویٰ ابن تیمیہ جلد ١٩ ص ٦٤ -٦٥

عبد القادر جیلانی نے غنیہ الطالبین میں امام احمد کے حوالے سے بخار کا تعویذ لکھا

شاہ ولی الله نے قول الجمیل میں میں اصحاب کہف کے  ناموں پر مبنی تعویذ پیش کیا

امّت کی ان جیسی  قد آور شخصیات نے جب تعویذ لکھے تو پھر کوئی اور کیوں نہ لکھے؟ – لہذا اہل حدیث حضرت نے  بھی اس گمراہی کو  پھیلانے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا –    سوال یہ ہے کہ کس صحابی نے گلے میں تعویذ  لٹکاے ؟ کس نبی نے تعویذ پہنا ؟    اور جس نبی پر قرآن نازل ہوا کیا اس کے دانت شہید نہ ہوۓ ؟

واضح رہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے دم کرنے کی اجازت دی تھی کیونکہ دم دعا کے مترادف ہے  لہذا وہ دم جن میں شرکیہ الفاظ نہ ہوں ان کی اجازت دی گئی ہے-    اس کے برعکس تعویذ ایک شے ہے جو لٹکائی جاتی ہے-   تعویذ اگر اسی ہی کارگر شے ہوتا تو الله کے نبی نے بتایا بھی ہوتا  جبکہ  اس کے برعکس نبی صلی الله علیہ وسلم سے قولی حدیث میں اس کی ممانعت آ رہی ہے-

جواب

اس روایت میں دو صحابیوں کا ذکر ہے عامر بن ربیعہ اور سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ  رضی الله عنہم کا

قصہ  کے دو ورژن ہیں

عامر بن ربیعہ کے خاندان کا ورژن

مسند ابو یعلی میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ رُزَيْقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِيسَى، عَنْ أُمَيَّةَ بْنِ هِنْدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: انْطَلَقْتُ أَنَا وَسَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ نَلْتَمِسُ الْخَمْرَ، فَوَجَدْنَا خَمْرًا وَغَدِيرًا، وَكَانَ أَحَدُنَا يَسْتَحْيِي أَنْ يَغْتَسِلَ وَأَحَدٌ يَرَاهُ [ص:153]، فَاسْتَتَرَ مِنِّي، فَنَزَعَ جُبَّةً عَلَيْهِ، ثُمَّ دَخَلَ الْمَاءَ، فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ , فَأَصَبْتُهُ مِنْهَا بِعَيْنٍ، فَدَعَوْتُهُ، فَلَمْ يُجِبْنِي، فَأَخْبَرْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَاهُ فَضَرَبَ صَدْرَهُ، ثُمَّ قَالَ: «اللَّهُمَّ أَذْهِبْ حَرَّهَا وَبَرْدَهَا، وَوَصَبَهَا»، ثُمَّ قَالَ: «قُمْ»، فَقَامَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ مِنْ نَفْسِهِ أَوْ مَالِهِ أَوْ أَخِيهِ مَا يُعْجِبُهُ فَلْيَدْعُ بِالْبَرَكَةِ، فَإِنَّ الْعَيْنَ حَقٌّ»

مسند احمد میں ہے

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِيسَى، عَنْ أُمَيَّةَ بْنِ هِنْدِ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: انْطَلَقَ عَامِرُ بْنُ رَبِيعَةَ وَسَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ يُرِيدَانِ الْغُسْلَ، قَالَ: فَانْطَلَقَا يَلْتَمِسَانِ الْخَمَرَ، قَالَ: فَوَضَعَ عَامِرٌ جُبَّةً كَانَتْ عَلَيْهِ مِنْ [ص:466] صُوفٍ، فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ، فَأَصَبْتُهُ بِعَيْنِي، فَنَزَلَ الْمَاءَ يَغْتَسِلُ، قَالَ: فَسَمِعْتُ لَهُ فِي الْمَاءِ فَرْقَعَةً فَأَتَيْتُهُ، فَنَادَيْتُهُ ثَلَاثًا فَلَمْ يُجِبْنِي، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ قَالَ: فَجَاءَ يَمْشِي فَخَاضَ الْمَاءَ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى بَيَاضِ سَاقَيْهِ، قَالَ: فَضَرَبَ صَدْرَهُ بِيَدِهِ ثُمَّ قَالَ: «اللَّهُمَّ أَذْهِبْ عَنْهُ حَرَّهَا، وَبَرْدَهَا، وَوَصَبَهَا» قَالَ: فَقَامَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ مِنْ أَخِيهِ، أَوْ مِنْ نَفْسِهِ، أَوْ مِنْ مَالِهِ مَا يُعْجِبُهُ، فَلْيُبَرِّكْهُ فَإِنَّ الْعَيْنَ حَقٌّ

اس میں دھون کا ذکر نہیں ہے صرف دعا کا ذکر ہے

سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ کے خاندان کا ورژن

یہ موطآ  تحقیق محمد مصطفى الأعظمي میں ہے

مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ؛ [ق: 170 – ب] أَنَّهُ قَالَ: رَأَى عَامِرُ بْنُ رَبِيعَةَ، سَهْلَ بْنَ حُنَيْفٍ يَغْتَسِلُ. فَقَالَ: مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ وَلاَ جِلْدَ مُخَبَّأَةٍ. فَلُبِطَ بِسَهْلٍ. [ص: 58 – ب] فَأُتِيَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ. هَلْ لَكَ فِي سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ؟ وَاللهِ مَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ. فَقَالَ: «هَلْ تَتَّهِمُونَ بِهِ (1) أَحَداً؟» قَالُوا: نَتَّهِمُ عَامِرَ بْنَ رَبِيعَةَ. قَالَ: فَدَعَا رَسُولُ اللهِ (2) صلى الله عليه وسلم عَامِراً، فَتَغَيَّظَ عَلَيْهِ. وَقَالَ: «عَلاَمَ يَقْتُلُ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ؟ أَلاَّ بَرَّكْتَ. اغْتَسِلْ لَهُ». فَغَسَلَ عَامِرٌ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ (3)، وَمِرْفَقَيْهِ وَرُكْبَتَيْهِ، وَأَطْرَافَ رِجْلَيْهِ، وَدَاخِلَةَ إِزَارِهِ، فِي قَدَحٍ. ثُمَّ صُبَّ عَلَيْهِ. فَرَاحَ سَهْلٌ مَعَ النَّاسِ، لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ.

موطآ میں دھون کا ذکر  ابو مصعب الزہری کی سند سے  ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو مُصْعَبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ بن أنس، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَاهُ أبا أمامة، يَقُولُ: اغْتَسَلَ أَبِي، سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ، بِالْخَرَّارِ فَنَزَعَ جُبَّةً كَانَتْ عَلَيْهِ، وَعَامِرُ بْنُ رَبِيعَةَ يَنْظُرُ، قَالَ: وَكَانَ سَهْلٌ رَجُلًا أَبْيَضَ حَسَنَ الْجِلْدِ، قَالَ: فَقَالَ عَامِرُ: مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ وَلاَ جِلْدَ عَذْرَاءَ، فَوُعِكَ سَهْلٌ مَكَانَهُ، وَاشْتَدَّ وَعْكُهُ، فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلى الله عَلَيه وَسَلم فَأُخْبِرَ أَنَّ سَهْلًا وُعِكَ، وَأَنَّهُ غَيْرُ رَائِحٍ مَعَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَتَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلى الله عَلَيه وَسَلم فَأَخْبَرَهُ سَهْلٌ بِالَّذِي كَانَ مِنْ شأن عَامِرٍ بن ربيعة، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلى الله عَلَيه وَسَلم: عَلاَمَ يَقْتُلُ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ؟ أَلَّا بَرَّكْتَ إِنَّ الْعَيْنَ حَقٌّ، تَوَضَّأْ لَهُ، فَتَوَضَّأَ لَهُ، فَرَاحَ سَهْلٌ بن حنيف مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلى الله عَلَيه وَسَلم لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ.

طحاوی نے مشکل الآثار میں دونوں ورژن ملا کر دو الگ واقعات کہا ہے اور دھون کو منسوخ عمل کہا ہے

قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: فَفِي هَذَا الْحَدِيثِ اكْتَفَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِسَهْلٍ بِالدُّعَاءِ وَفِي حَدِيثِ أَبِي أُمَامَةَ أَمْرُهُ عَامِرًا بِالِاغْتِسَالِ لَهُ , وَقَدْ يَحْتَمِلُ أَنْ يَكُونَ جَمَعَهُمَا لَهُ جَمِيعًا , وَقَدْ يَحْتَمِلُ أَنْ يَكُونَ كَانَ ذَلِكَ مَرَّتَيْنِ أَدْرَكَ سَهْلًا فِي كُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا مِنْ عَامِرٍ مَا أَدْرَكَهُ مِنْهُ , فَفَعَلَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي كُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا مَا فَعَلَ فِيهَا مِنْ دُعَاءٍ , وَمِنْ أَمْرٍ بِاغْتِسَالٍ , وَيَحْتَمِلُ أَنْ يَكُونَ الِاغْتِسَالُ كَانَ , ثُمَّ نُسِخَ بِغَيْرِهِ

اغلبا یہ عمل منسوخ ہے و الله اعلم

Taweez or Amultes

Amulets and Protection of Allah?

بسم الله الرحمن الرحيم

Priestly service charge was an idea alien in Islam. The priests in Muslim Ummah now not only sell their religious decrees (Fatwa) but also ask for money on all kind of religious service. A vicious circle of wealth and greed is created. Strangely so-called scholars are behind its support. These people would ask money for the performance of rituals from birth to burial. In this respect Allah has revealed in Quran (9: 34) about the Jewish and Christians scholars of Arabia during the life time of Prophet peace be upon him:

[note color=”#BEF781″]

O you who believe! Verily, there are many of the Ahbar and Ruhban  who devour the wealth of mankind in falsehood, and hinder (them) from the Way of Allah.  And those who hoard up gold and silver and spend it not in the Way of Allah, – announce unto them a painful torment.

[/note]

Some Muslims have developed whole bunch of activities related to Amulets or Taweez.  If we search out the necks of Muslims we would find that there are Taweez hanging, some times coral, shells, sometimes knives and sometimes Quranic verses.  These so-called Muslims believe that these amulets and talismans protect them from evils, diseases and calamities. Allah said in Quran

And when there came to them a Messenger from Allah (i.e. Muhammad Peace be upon him ) confirming what was with them, a party of those who were given the Scripture threw away the Book of Allah behind their backs as if they did not know!  They followed what the Shayatin (devils) speak about the kingdom of Sulaiman (Solomon)… (2: 101-102)

It is reported in Sunnan Abi Dawood on the authority of companion of Prophet, Abdullah ibn Masood that He heard Messenger of Allah peace be upon him  saying:

[note color=”#CEECF5″]

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ عَنِ ابْنِ أَخِى زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ إِنَّ الرُّقَى وَالتَّمَائِمَ وَالتِّوَلَةَ شِرْكٌ

 “ Charms, amulets, amulet of love is polytheism”

[/note]

Tamimah  (amulet) means any thing which is used for the protection (from evil).  In Jahalliah  the concept of Tamimah is criticized as the poet Abu Duhayb أَبُو ذُؤَيْبٍ said:

وَإِذَا الْمَنِيَّةُ أَنْشَبَتْ أَظْفَارَهَا

 أَلْفَيْتَ كُلَّ تَمِيمَةٍ لَا تَنْفَعُ

And when the death engraved her nails

I found all (kind of)  Tamimah non-beneficial

It is explained in Kitab Al Ain  by   الخليل الفراهيدي      Juz 8 pg111  that:

والتميمة: قلادة من سيور، وربما جعلت العوذة التي تعلق في أعناق الصبيان، قال: وكيف يضل العنبري ببلدة  بها قطعت عنه سيور التمائم  وفي حديث ابن مسعود: ان التمائم والرقى والتولة من الشرك

And Tamimah: Necklace of thongs, and perhaps made a protection that attached to the necks of the boys, ….  (In report from  Ibn Mas’ud: (amulets and spells and Tiwalah are polytheism)

It is claimed by some ignorant people that the amulets includes things which people hang for protection and  Quranic- Tamimah is allowed. However, Tamimah according to scholars also include the Quranic inscriptions as it is written and hanged for the sake of protection from evil and disease. The following statements are enough to prove that amulets include not only the shell and beads but also include all kinds of hangings used for protection including Quranic amulets.

1. Ibn Ubaid has written a book on  Gharib ul Hadith. Ibn Qutabah has written notes over it. On one of the comments of Ibn-Ubaid, Ibn Qutabah said:

قال أبو محمد ابن قتيبة في إصلاح الغلط ص 54: وهذا يدل أن التمائم عند أبي عبيد المعاذات التي يكتب فيها وتعلق

Ibn Qutabah says: it shows that Tamaim (amulets) to Abi Ubaid means all (kinds of) protections amulets  which are written and hanged. ( Islah Al Ghalat pg 54)

Ibn Qutabah further said: قال أبو محمد: وليست التمائم إلا الخرز Tamaim (amulets) are not only shells (or beads).

2. Qazi Abu Bakr Al Arbi says (in Sharah Al- Tirmidhi )

وَقَالَ الْقَاضِي أَبُو بَكْر الْعَرَبِيّ فِي شَرْح التِّرْمِذِيّ : تَعْلِيق الْقُرْآن لَيْسَ مِنْ طَرِيق السُّنَّة وَإِنَّمَا السُّنَّة فِيهِ الذِّكْر دُون التَّعْلِيق

The hanging of Quranic verses is not the way of Prophet and indeed his way is to read it instead of hanging it.

It is important to understand that all kinds of Taweez are impermissible where as the blessing spells which do not contain Sheerk  were allowed.  Some of the blessings spells which did not contain any polytheism were allowed by the Prophet peace be upon him . Any association with an object with the underlying belief that it can protect, is falsehood.  It is reported by Bukhari in Adab- Al Mufrad that

[note color=”#CEECF5″]

– حدثنا إسماعيل قال : حدثني ابن أبي الزناد ، عن علقمة ، عن أمه ، عن عائشة ، أنها كانت تؤتى بالصبيان إذا ولدوا ، فتدعو لهم بالبركة ، فأتيت بصبي ، فذهبت تضع وسادته ، فإذا تحت رأسه موسى  ، فسألتهم عن الموسى ، فقالوا : نجعلها من الجن ، فأخذت الموسى فرمت بها ، ونهتهم عنها وقالت : إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يكره الطيرة  ويبغضها ، وكانت عائشة تنهى عنها

Newborn children were brought to Aisha may Allah be pleased with her, and she would pray Allah for the blessing. Once, a child was brought to her, as she was setting pillow underneath his head she saw a razor. So She asked about it. People said: We take this for (protection from) Jinn. So Aisha took the razor and threw away it. And prevented them from this and said Indeed the Prophet disliked Tira  (prediction from bird flights) and angered over it (when practiced) and Aisha prevented that.

[/note]

Aisah, Mother of Believers, may Allah pleased with her, totally rejected the idea of placing something under pillow based on the Tira hadith she heard from Prophet thus she implied that in Islam there is no concept of Protection from things other than Allah.

There is a narration reported in Musnad Ahmed according to which:

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا عبد الصمد بن عبد الوارث ثنا عبد العزيز بن مسلم ثنا يزيد بن أبي منصور عن دخين الحجري عن عقبة بن عامر الجهني : ان رسول الله صلى الله عليه و سلم أقبل إليه رهط فبايع تسعة وامسك عن واحد فقالوا يا رسول الله بايعت تسعة وتركت هذاقال ان عليه تميمة فادخل يده فقطعها فبايعه وقال من علق تميمة فقد اشرك

Uqbah bin Aamir   Juhni relates that there came a group to the Prophet peace be upon him. He took oath of allegiance from nine of them and left the one remaining. (People) said O Prophet why did you have left one. (The Prophet) said: “ An amulet is over him”. (Hearing that the man) put his hand inside (his shirt) and broke the amulet. Then (the Prophet) took the oath of allegiance from him also and said “whosoever hung an amulet, committed polytheism” (Musnad Ahmed, Juz 4, page 156)

[/note]

This hadith reveals that amulets of all kinds are impermissible. Prophet could have asked whether the amulet contains holy verses (of Torah or Injil). It is reported in Tirmidhi, Juz 8,pg 145

[note color=”#CEECF5″]

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَدُّويَهْ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِى لَيْلَى عَنْ عِيسَى أَخِيهِ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُكَيْمٍ أَبِى مَعْبَدٍ الْجُهَنِىِّ أَعُودُهُ وَبِهِ حُمْرَةٌ فَقُلْنَا أَلاَ تُعَلِّقُ شَيْئًا قَالَ الْمَوْتُ أَقْرَبُ مِنْ ذَلِكَ قَالَ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- « مَنْ تَعَلَّقَ شَيْئًا وُكِلَ إِلَيْهِ »

… Issa said  that he went to visit Abdullah bin Ukeem Abi Mabid Al-juhni and he was suffering from Humra ( disease), so we said why don’t you hang some thing against it. He said Death is closer than that and Prophet said whoever hung anything would be assigned to that.

[/note]

The supporters of Taweez present one narration for the endorsement of their believes

[note color=”#CEECF5″]

 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- كَانَ يُعَلِّمُهُمْ مِنَ الْفَزَعِ كَلِمَاتٍ « أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ غَضَبِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ ». وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو يُعَلِّمُهُنَّ مَنْ عَقَلَ مِنْ بَنِيهِ وَمَنْ لَمْ يَعْقِلْ كَتَبَهُ فَأَعْلَقَهُ عَلَيْهِ.

Muhammad bin Ishaq reports that Amr bin  Shoaib, he from his father and he from his grand father reports that Prophet used to teach the prayer to those who would become frightened during sleep: “ I seek refuge in Allah through His perfect words from His fury and  (seek refuge) from evils of His slaves and from evil whispers of demons and their presence ”( Abi Dawood )

[/note]

There are several flaws in this narration. First it is reported

1. The narrator has further added a statement of reporter as a comment which is not the saying of Prophet peace be upon him  (Tirmidhi juz 13, pg 34):

قَالَ وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو يُلَقِّنُهَا مَنْ بَلَغَ مِنْ وَلَدِهِ وَمَنْ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهُمْ كَتَبَهَا فِى صَكٍّ ثُمَّ عَلَّقَهَا فِى عُنُقِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

Abdullah bin Amir used to hang this prayer in the necks of minor children.

2. Tirmidhi added that this hadith is Hasan Gharib (Unique and at the level less than Sahih) .

3. One of the narrators of this report is Amr bin Shoaib . His narrations from his father and then from his grandfather are (Tirmidhi, Juz 2, pg 65)

Tirmidhi says:

قَالَ عَلِىُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَذُكِرَ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ أَنَّهُ قَالَ حَدِيثُ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عِنْدَنَا وَاهِى

Ali bin Abdullah said that and reported from Yahah bin Saeed that Indeed the reports of Amr bin Shoaib to us are useless.

4. Narrator: Muhammad bin Ishaq: The fourth  flaw in this narration is that  it contains Muhammad bin Ishaq.  In Jarah-wal-Tadeel literature one would find both positive and negative statements for Mr. Muhammad bin Ishaq, ranging from Siqah (authentic) to Dajjal (Fradulent Person).  Ibn Ishaq is a controversial narrator. It is better not to take his narrations in Halal and Haram.   Imam Malik talks about Muhammad bin Ishaq and said (Tahzeeb ul Kamal, Tarjumah Muhammad bin Ishaq):

قال مالك وذكره، فقال: دجال من الدجاجلة

Dajjal in one of the Dajjals (Most deceptive and Fradulent Person)

Imam Malik used a technical term Dajjal min Dajjajlah i.e. Dajjal in one of the Dajjals

It is reported in Musannif Ibn Abi Sheebah that

حدثنا أبو بكر قال حدثنا هشام عن مغيرة عن إبراهيم قال : كانوا يكرهون التمائم كلها ، من القرآن وغير القرآن

It is reported that Ibrahim ( Al –Nakhai) They (Companions) abhor all kinds of Taweez irrespective of Quranic or non-Quranic  ( Musanif Ibn Abi Shibah , juz 5, pg 428)

It is reported in Sharh Maani  Al-Aathar juz 5, pg 489 that

 وَقَدْ جَاءَتْ  عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آثَارٌ تَنْهَى عَنْ التَّمَائِمِ

 And it comes from  Prophet the deterrence for Tamaim

Reader now is well aware that Tamaim (amulets) or Taweez are not permissible in Islam whether based on Quranic  verses or containing the names of Holy One.

Dear Muslim, just think about what sin you are committing when you take the taweez consisting of holy verse of Quran to the toilet!  We know that Humans are sometimes not clean and they need ritual bath for performance of Salat, even in that state the hanging of Taweez comprising of Holy verses in the neck make no sense. Further Allah has bestowed Shifa (cure) for diseases in honey as we know it from Quran. Now if you hang the jar of honey in your neck will you feel better if you never eat it? You won’t. Likewise Quran is sent by Allah to be read and understood. It is not meant to be hanged in Taweez.  You would get blessings of Allah only if you read it. May Allah save us from Kufr and Sheerk. Amen

[1] Sunan Abi Dawood, Chapter باب فِى تَعْلِيقِ التَّمَائِمِ Juz 11, pg 384

[2] Pre-Islam Era

[3] Sheerk is Polytheism

[4] Nasiruddin Al-Bani said in his noting on Al-Sahihah:

التمائم : جمع تميمة واصلها خرزات تعلقها العرب على رأس الولد لدفع العين ثم توسعوا فيها فسموا بها كل عوذة . ومن ذلك تعليق نعل الفرس أو الخرز الأزرق وغيره . والأرجح أنه يدخل في المنع أيضا الحجب إذا كانت من القرآن أو الأدعية الثابتة .

Al-Tamaim: Plural Tamima and originally are beads which Arabs attach to heads of boys to prevent (evil) eye… also includes the horse shoe or blue shells. And it is likely that the ban also includes the Quran and the proven prayers

Further said ( Al-Sahihah juz 1, pg 491)

” التمائم جمع تميمة و هي الورقة التي يكتب فيها شيء من الأسماء أو الآيات و تعلق على الرأس مثلا للتبرك ” . فما لا يصح لأن التمائم عند الإطلاق إنما هي الخرزات كما سبق عن ابن الأثير ، على أنه لو سلم بهذا التأويل فلا دليل في الشرع على أن التميمة بهذا المعنى تنفع ، و لذلك جاء عن بعض السلف كراهة ذلك كما بينته في تعليقي على ” الكلم الطيب ” ( ص 44 – 45 طبع المكتب الإسلامي

” Al-Tammaim (Amulets): Plural of Tamima (amulet) collection and is the paper on which something is written. It includes the names or verses and attached to the head, for example, to seek blessing. It is not valid that the Tamimah is only beads (or shells) as previously discussed by Ibn al-Athir, ……so as shown in my comment on Al-Kalam Al-Tayyab pg 44-45”

[5] The scholars who defend this narration and argue that Tirmidhi has called this narration Hasan. Tirmidhi has introduced the term Hasan in hadith which does not mean that it is Sahih narration. Dahabi said in Meezan Al-Ateedal juz 3 pg 407

لا يعتمد العلماء على تصحيح الترمذي

Scholars do not rely on the authentication of Tirmidhi

Dahabi also said (Meezan, juz 4 pg 416 ) فلا يغتر بتحسين الترمذي، فعند المحاققة غالبها ضعاف

Not deceived by saying of Hasan by Al Tirmidhi, by us in reality most are weak

[6] Bukhari says (تاريخه الكبير: 6 / الترجمة 2578.):

وقال البخاري: رأيت أحمد بن حنبل، وعلي بن المديني، وإسحاق بن راهويه، وأبا عبيد، وعامة أصحابنا يحتجون بحديث عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، ما تركه أحد من المسلمين

Bukhari says “I have seen Ahmed bin Hambal and Ali bin Al-Madini and Ishaq bin Rahweeh and Abi Ubaid and all our people (scholars of hadith) take the hadith of Amr bin Shoaib from his father from his grandfather and no one in Muslims had left him”

In spite of these words of Bukhari in his Tareekh Al-Kabeer, Imam Bukhari has not taken any narration from Amr bin Shoaib from his father from his grand-father in his Sahih. Dahabi showed surprise in Meezan al- Atedal after this statement of Bukhari that

ومع هذا القول فما احتج به البخاري في جامعه -3 / الترجمة 6383

… and with this statement (of Bukhari) why not Bukhari has taken his narrations in Jamah (al- Sahih)?

[7] Ibn Haban explains this term is his book on Majroheen as:

وقال ابن حبان: ” دجال من الدجاجلة كان يضع الحديث على رسول الله صلى الله عليه وسلم صراحا -المجروحين: 1 / 134

Ibn Haban says: A Dajjal from dajjals is one who concocts hadith intentionally.