Category Archives: فتنہ اتباع الطاغوت

کتب عثمانی پر ایک تبصرہ

ڈاکٹر عثمانی رحمہ اللہ علیہ کی کتب پر اہل حدیث   ڈاکٹر  رانا محمد اسحاق  کی تعریفی آراء 

غیر مقلد ڈاکٹر رانا محمد اسحاق کتاب قبر اور عذاب قبر میں اقرار کرتے ہیں

فرقہ اہل حدیث کے ایک سرخیل صلاح الدین یوسف نے ہفت روزہ الاعتصام جلد ۲۸ ، ۲۲ اکتوبر ۱٩٨٤ میں ڈاکٹر عثمانی ؒکو مبارکباد پیش کی – یہ چیز حبل اللہ نمبر ٣ میں عبد القادر سومرو کے مضمون میں پیش کی جا چکی ہے کہ اہل حدیث ڈاکٹر صاحب کے لئے رطب اللسان تھے حتی کہ قبر کے حوالے سے خود فرقہ اہل حدیث کے فضل الرحمان کلیم  کاشمیری کہتے بنانگ دھل مضامین میں لکھتے تھے کہ قبر زمین کا کھڈا نہیں ہے

 

ڈاکٹر عثمانی رحمہ اللہ علیہ کی کتب پر  مخالفین کی عنادی آراء
بہت سے لوگ جو ڈاکٹر عثمانی کی توحید پسندی سے حقیقی طور پر لا علم تھے ان میں بد نام زمانہ کتاب کراچی کا عثمانی مذھب کے مصنف خواجہ  محمد قاسم  تھے – خواجہ قاسم کھلے بندوں جھوٹ گھڑتے اور تحاریر پڑھ کے سمجھنے کی بجائے سنی سنائی پر زیادہ یقین رکھتے تھے

خواجہ قاسم جھوٹ گھڑتے ہیں

امام اہل سنت احمد بن حنبل ، امام ابو داود ، امام نسائی .. ان سب پر فتوی لگایا ہے اس لئے کہ ان کی کتابوں میں حدیث بیان ہوئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے دنوں میں افضل دن جمعہ کا دن ہےکیونکہ اسی دن آدم علیہ السلام پیدا کیے گئے۔ ۔۔۔۔ ۔پس اس دن کثرت سے درود پڑھو حقیقی بات یہ ہے کہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔صحابہ رضی اللہ عنھم نے کہا کہ ہمارا درود اس وقت کیسے پیش  کیا جائے گا جب آپ کا جسم ریزہ ریزہ ہو گیا ہو گا یعنی وفات کے بعد بوسیدہ ہو چکا ہو گا۔فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ انبیاء کے جسموں کو کھائے۔

خواجہ قاسم کے افکار  پر مختصر  تبصرہ یہاں  ہے

سنجیدہ نظر انے والے   قلم کار عصر حاضر کے ڈاکٹر حافظ محمد زبیر بھی ہیں جنہوں خواجہ قاسم صاحب کا بیان کردہ چربہ ,   چربہ نقل کیا  ہے – موصوف لکھتے ہیں

عثمانی صاحب تابعین اور تبع تابعین کے بعد امت میں بس دو چار لوگوں کو ہی مسلمان سمجھتے ہیں جن میں ایک امام ابو حنیفہ ہیں اور دوسرے امام بخاری ہیں،  رحمہما اللہ۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو فتنے کی جڑ قرار دیتے ہیں کیونکہ ان کے بقول یہ امام احمد ہی ہے کہ جنہوں نے سب سے پہلے اپنی حدیث کی   کتاب “مسند احمد” میں یہ روایت نقل کی کہ قبر میں مردے کے جسم میں روح لوٹائی جاتی ہے۔ اسی طرح امام ابو داود، امام نسائی، امام ابن تیمیہ، امام ابن
قیم اور دیگر سلفی اور حنبلی علماء کو بھی اس حدیث کے صحیح ماننے کی وجہ سے گمراہ قرار دیتے ہیں۔

ایسا عثمانی صاحب نے کہیں نہیں لکھا کہ ان کے نزدیک امام ابو داود ، امام نسائی بھی اس وجہ سے گمراہ ہیں کہ انہوں نے حدیث عود روح کو نقل کیا  ہے – اسی قسم کا مغالطہ غیر مقلد شفیق الرحمان نے گھڑا تھا – اس پر عثمانی فرماتے ہیں

حوالہ دیکھیے حبل اللہ شمارہ 7 صفحہ 9 پر اسکرین شوٹ پوسٹ میں موجود ہے ملاحظہ فرمائیے۔

ڈاکٹر زبیر لکھتے ہیں کہ عثمانی صاحب نے مسند احمد کو کیوں کوٹ کیا اگر امام احمد کا عقیدہ درست نہیں تھا لہذا وہ لکھتے ہیں

۔ عجیب طرفہ تماشا یہ ہے کہ “عذاب قبر” کے مسئلے میں جن امام احمد کو ضال اور مضل قرار دیا، قرآن مجید پر اجرت نہ لینے کے مسئلے میں انہی کی مسند احمد کی روایتوں کو اپنا کل استدلال بنا لیا۔ کوئی اصول ضابطہ تو ہے نہیں، جہاں چاہتے ہیں کسی راوی کی بنیاد پر ایک روایت کو ضعیف قرار دیے دیتے ہیں اور دوسری جگہ اسی راوی کی روایت قبول کر لیتے ہیں۔

راقم کہتا ہے کیونکہ فرقوں میں یہ  عمل جاری و ساری ہے،  باوجود امام احمد کو مشرک بتانے کے  وہ ان کی باتوں کو قبول کرتے ہیں

اہل حدیث میں البانی اور متعدد اہل حدیث نے اقرار کیا ہے کہ امام احمد بیابان میں اللہ کو نہیں فرشتوں کو پکارتے تھے اس پر گواہ خود احمد کے بیٹے ہیں
یہ عمل خود ان فرقوں کے نزدیک شرک ہے

لنک 

عبد الوہاب النجدی نے بیان کیا کہ امام احمد وسیلہ کے قائل تھے – آج اہل حدیث کہتے ہیں یہ شرک ہے

امام احمد کے بیٹے گواہ ہیں کہ ان کے باپ تعویذ لکھتے تھے – یہ فرقوں کو معلوم ہے کہ شرک ہے

اب جب امام احمد شرک کرتے ہیں تو یہ ان کا ذکر کیوں نہیں کرتے ؟

علم حدیث اصولوں پر منبی ہے یا شخصیات پر ؟ خود فرقے کہیں گے اصولوں پر – تو پھر حدیث کسی کی کتاب سےنقل کرنا قابل جرم کب ہوا ؟ کیا  محدثین خود رافضیوں کی روایت نہیں لیتے تھے جن کے عقائد میں یہ خود کلام کرتے تھے ؟

ڈاکٹر زبیر لکھتے ہیں

ان کے افکار ونظریات پر بہت اچھا محاکمہ ڈاکٹر عبد اللہ دامانوی صاحب نے اپنی کتاب “عذاب قبر کی حقیقت” میں کیا ہے۔ اسی طرح مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب “عذاب قبر کا بیان” میں ان کا عمدہ تعاقب کیا ہے۔ مزید مولانا ارشد کمال صاحب کی “المسند فی عذاب القبر” بھی ان کے رد میں اچھی کتاب ہے۔ اچھا یہ فرقہ عذاب قبر کو مانتا ہے لیکن اس دنیاوی قبر میں عذاب کو نہیں مانتا بلکہ برزخی قبر میں عذاب کو مانتا ہے۔ ایک عامی جب ان کا لٹریچر پڑھتا ہے تو متاثر ہو جاتا ہے لیکن جب پڑھنے کے بعد دوسری طرف کے لٹریچر کا بھی مطالعہ کرے گا تو تحقیق کی سطحیت واضح ہو جائے گی۔

حقیقت میں ڈاکٹر عثمانی کے ناقدین میں جو اہل حدیث علماء ہیں وہ وہ ہیں جو بھانت بھانت کے عقیدے عذاب قبر کے باب میں رکھتے ہیں مثلا

١- عود روح بالکل نہیں ہو گا (قاری خلیل رحمان ، کتاب پہلا زینہ)
٢- روح جسم سے جڑے گی اور تعلق ہو گا جس میں روح جسم سے نکلے گی اور جب چاہے واپس بھی آئے گی ( فتاوی ابن تیمیہ، کتاب الروح از ابن قیم ، فتح الباری از ابن حجر، وہابی علماء، زبیر علی زئی بعض مواقع پر ) یعنی بار بار عود روح ممکن ہے
٣- روح ، جنت یا جہنم میں ہی رہے گی لیکن قبر میں جسد سے تعلق ہو گا ( نورپوری کا  مضمون ، مقالات از زبیر علی زئی )
٤- کچھ کہتے ہیں مردہ جسد کو عذاب ہو گا بلا روح اور عود روح صرف ایک دفعہ ہو گا (مثلا کتاب الدین الخالص از ابو جابر دامانوی اور کتاب المسند فی عذاب القبر از ارشد کمال )

جب ایک عامی ان تمام کی کتب پڑھتا ہے تو مزید کنفیوز ہو جاتا ہے – ان کی حقیقت کے لئے راقم کی کتاب اثبات عذاب قبر و رد عقیدہ عود روح بہت ہے  اس میں ان تمام مخالف  علماء کے عقائد حوالوں کے ساتھ درج ہیں اور قاری سمجھ سکتا ہے کون کیا فرما رہا ہے

لنک

ڈاکٹر زبیر لکھتے ہیں
عذاب قبر کے مسئلے کو اتنا بڑا اصولی اور عقیدے کا مسئلہ سمجھتے ہیں کہ صرف اس کی وجہ سے بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث تینوں کی تکفیر کرتے ہیں

راقم کہتا ہے اس جملے سے ظاہر ہے زبیر صاحب نے تفصیلی مطالعہ نہیں کیا ہے- عذاب قبر نہیں مسائل توحید  کی وجہ سے  اختلاف ہوا ہے  – تصوف کی بنیادوں میں اتحاد ثلاثہ موجود ہے یعنی حلول ، وحدت الوجود ، وحدت الشہود – مختصرا یہ جھمی عقائد ہیں جو محدثین میں امام احمد کے نزدیک بھی کفر ہے – یہ عقائد بریلوی، دیوبندی فرقوں میں تصوف کی وجہ سے موجود ہیں – اشعار میں منصور حلاج جو حلول کا قائل تھا  اس کی تعریف کرنا  اردو شاعری میں معروف ہے – جو چیز عراق میں کفر تھی وہ پاکستان میں آ کر خالص توحید کس طرح بن جاتی ہے یہ زبیر صاحب ہی بتا سکتے ہیں

اہل حدیث فرقے پر عثمانی صاحب کا رد بنیادی طور پر توحید کی وجہ سے ہے – توحید قرانی کے مطابق تمام معاملات و عمل مخلوق اللہ تعالی پر پیش ہوتا ہے – کسی اور پر عمل پیش ہونا غیر قرانی و توحید باری کے مخالف ہے اس وجہ سے عرض عمل کی روایات کو عثمانی صاحب نے رد کیا – لا محالہ ابن تیمیہ و اہل حدیث فرقے پر زد پڑی کیونکہ انہوں نے درود کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کرا کر علم غیب کا میں نقب لگا دی

ڈاکٹر زبیر لکھتے ہیں کہ

عثمانی صاحب کے نزدیک قبر سے مراد دنیاوی قبر نہیں بلکہ برزخی قبر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم یہ مان لیں کہ مردہ قدموں کی چاپ سنتا ہے، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس درود شریف پڑھا جائے تو آپ سنتے ہیں، یا مردے کے جسم میں سوال وجواب کے وقت روح اس میں لوٹائی جاتی ہے اور منکر نکیر اس دنیاوی قبر میں اس سے سوال پوچھتے ہیں تو اس سے قبر کی زندگی ثابت ہو جاتی ہے۔ اور قبر میں مردے کو زندہ مان لیا گیا تو کفر اور شرک ہو جائے گا۔

اس جملہ پر زبیر صاحب نے خود غور نہیں کیا – جب آپ نے مان لیا کہ دنیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم درود و سلام مسلسل پڑھا جا رہا ہے اور وہ ان پر مسلسل پپیش ہو رہا ہے تو اسی کی بنیاد پر علماء قبر میں رسول اللہ کی حیات دائمی کے قائل ہیں – لنک
عثمانی کہتے ہیں الحی تو صرف اللہ تعالی ہے – کوئی حیات دائمی کیسے حاصل کر سکتا ہے ؟ فرقوں میں دیگر نصوص سے یہ بھی کشید کیا جاتا ہے کہ تمام اولیاء قبروں میں زندہ ہیں – سنتے ہیں ، نماز پڑھتے ہیں ، یہاں تک کہ بریلوی کہتے

ہیں امہات المومنین قبر نبوی میں رسول اللہ تک جاتی ہیں -اس سب کو حیرت ہے کہ زبیر صاحب کیسے بھول گئے ؟

ڈاکٹر  زبیر  صاحب  لکھتے ہیں  کہ

ان کا نام “برزخی فرقہ” اس لیے پڑا کہ ان کے افکار ونظریات میں سے بنیادی ترین نظریہ یہی ہے 

زبیر صاحب نے علماء کی کتب کا مطالعہ نہیں  کیا  محض سنی سنائی  بیان کی ہے

تقسیم ہند سے قبل کے اہل حدیث مولانا ثناء الله امرتسری  فتاوی ثنائیہ صفحہ 292  میں جواب دیتے ہیں

 

فرقہ اہل حدیث کے عالم اسمعیل سلفی نے کتاب حیات النبی میں پاکستان میں  سب سے پہلے برزخی جسم کا ذکر کیا  ملاحضہ کریں

دوسرا مسلک یہ ہے کہ برزخ سے ان ارواح کو مماثل اجسام دیے گئے اور ان اجسام نے بیت المقدس میں شب اسراء میں ملاقات فرمائی

 

الوسی باقاعدہ برزخی جسم کا لفظ استمعال کرتے ہیں مولانا سلفی ترجمہ کرتے ہیں

 

اس وقت تک عثمانی صاحب  نے کوئی کتاب نہیں  لکھی تھی

سوال یہ ہے کہ  عثمانی صاحب جو  توحید پیش  کرتے ہیں اس   میں خامی  کیا  ہے ؟   اہل حدیث  اس کا جواب اس  طرح دیتے ہیں کہ  بلا شبہ یہ توحید قرآن سے اخذ  کردہ ہے کہ مزارت پر شرک ہو رہا ہے  لیکن اس کی جڑ نظریہ  حیات فی القبر صحیح نہیں  بلکہ مسئلہ  مردے کے سننے کا ہے – دوسری طرف  امام ابن تیمیہ کا   کہنا  ہے کہ مردہ  سنتا ہے اور امام عبد الوہاب النجدی  کا  فرمانا  ہے کہ مردہ  نہ صرف سنتا بلکہ  دیکھتا   بھی ہے

بعض اہل حدیث کہتے ہیں شرک،  مردہ کا سننا ہے- راقم کہتا ہے تو یہ فتوی تو امام ابن تیمیہ و ابن قیم و ابن کثیر و تمام وہابی علماء پر جاتا ہے عبد الرحمن کیلانی صاحب نے صاف لفظوں میں کتاب روح، عذاب قبر اور سماع موتیٰ صفحہ ۱۰۹ پر اقرار کیا کہ

اب دیکھئے جہاں تک شرک کی اصل بنیاد کے استیصال کا تعلق ہے ، ہم بدل و جان عثمانی صاحب کے ساتھ ہیں۔ اختلاف صرف یہ ہے کہ وہ شرک کی اصل بنیاد اس دنیاوی قبر میں عذاب ِقبر کا اثبات اور حیات فی القبر کو قرار دیتے ہیں جبکہ ہم شرک کی اصل بنیاد سماع موتیٰ کا علی الاطلاق وقوع کو قرار دیتے ہیں۔۔۔ لہٰذا ہماری گزارش ہے کہ آپ حضرات اپنی جملہ مساعی سماع موتیٰ کی تردید میں صرف کیجئے۔ 

قارئین  سمجھ سکتے ہیں کہ عقائد  پسند  نا  پسند  پر نہیں بلکہ نصوص قرانی  پر منبی ہوتے ہیں لہذا  قرآن سے تقابل کریں

اور سمجھیں کہ کون جق پر ہے  عثمانی   صاحب کی حق کی پکار  یا  فرقوں کی خاندانی نوعیت کی  پشت پناہیاں

 

کفر دون کفر – طاووس کا قول

اللہ تعالی کہتا ہے کہ وہ شخص کافر ، ظالم ، فاسق ہے جس نے وہ فیصلہ کیا جو اس نے نازل نہیں کیا (سورہ المائدہ )- ان آیات کا ظاہر بہت سخت ہے لہذا اقوال الرجال کی مدد سے ان کے مفہوم میں الٹ پھیر کی جاتی ہے

سوره المائدہ آیت ٥٠ میں ہے
آپ ان کے درمیان اس (فرمان) کے مطابق فیصلہ فرمائیں جو اﷲ نے نازل فرمایا ہے اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں اور آپ ان سے بچتے رہیں کہیں وہ آپ کو ان بعض (احکام) سے جو اللہ نے آپ کی طرف نازل فرمائے ہیں پھیر (نہ) دیں، پھر اگر وہ (آپ کے فیصلہ سے) روگردانی کریں تو آپ جان لیں کہ بس اﷲ ان کے بعض گناہوں کے باعث انہیں سزا دینا چاہتا ہے، اور لوگوں میں سے اکثر نافرمان (ہوتے) ہیں

یعنی اہل کتاب کی خواہش پر فیصلہ نہ کرو
اگر اپ ان آیات کا سیاق و سباق دیکھیں تو اس میں احکام توریت کا ذکر ہے کہ ان کو یہود و نصرانی نافذ نہیں کر رہے لہذا جو الله نے نازل کیا اس کے خلاف کرے تو کافر ہے فاسق ہے ظلم ہے- اس میں احکام بھی ہیں اور عقائد بھی ہیں

ان آیات کا سیاق و سباق اہل کتاب کے حوالے سے ہے کہ وہ عقیدہ وہ نہیں رکھتے جو توریت و انجیل کا ہے اس کا حکم بیان نہیں کرتے یعنی توحید کے معاملے میں
اور جو کتاب الله کے مطابق حکم نہ کرے یعنی عقیدہ نہ دے وہ کافر ہے
اسی طرح وہ حکم نہیں کرتے جو ان کی کتاب میں ہے کہ آنکھ کے بدلے آنکھ وغیرہ

یہ حکم عام ہے – مسلمانوں پر بھی ہے

ابن عباس سے  منسوب  قول    کفر دون  کفر     ثابت  نہیں ہے   

مستدرک الحاکم کی روایت ہے
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمَوْصِلِيُّ، ثنا عَلِيُّ بْنُ حَرْبٍ، ثنا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حُجَيْرٍ، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: إِنَّهُ ” لَيْسَ بِالْكُفْرِ الَّذِي يَذْهَبُونَ إِلَيْهِ إِنَّهُ لَيْسَ كُفْرًا يَنْقِلُ عَنِ الْمِلَّةِ {وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ} [المائدة: 44] كُفْرٌ دُونَ كُفْرٍ
ابن عباس رضی الله عنہ نے کہا : جو اس طرف گئے (اغلبا خوارج مراد ہیں) یہ کفر نہیں- یہ کفر نہیں جس پر ان کو ملت سے نکالا جائے
اور وہ جو الله کے نازل کردہ حکم کے مطابق حکم نہ کریں وہ کافر ہیں
کفر (امیر)، کفر(باللہ) سے الگ ہے

سفیان ثوری کی تفسیر کے مطابق ابن عباس اس آیت پر کہتے
قال: هي كفره، وليس كمن كفر بالله واليوم الآخر
یہ انکار تو ہے لیکن الله اور یوم آخرت کے انکار جیسا نہیں ہے

مستدرک کی روایت میں هشام بن حجير المكي ہے جو ابن جریج کے شیوخ میں سے ہے اس کو ابن معین اور احمد نے  ضعیف کہا  ہے  – اس قول  کی اور سندیں بھی ہیں جو صحیح ہیں مثلا  تفسیر عبد الرزاق والی  روایت ہے جس میں الفاظ ” لیکن الله اور اس کی کتابوں اور فرشتوں کا کفر کرنے جیسا نہیں ہے ” کو ابن طاوو س کا قول کہا گیا ہے نہ کہ ابن عباس رضی الله عنہ کا

تفسیر عبد الرزاق میں ہے
عبد الرزاق في “تفسيره” (1 / 191) عن معمر، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، قال: سئل ابن عباس عن قوله: {وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ الله فأولئك هم الكافرون} ، قال: هي كفر، قال ابن طاوس: وليس كمن كفر بالله وملائكته وكتبه ورسله.
ابن عباس سے اس آیت پر سوال ہوا – ابن عباس نے کہا یہ کفر  ہی ہے- ابن طاووس نے کہا لیکن الله اور اس کی کتابوں اور فرشتوں کا کفر کرنے جیسا نہیں ہے

ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نزدیک کوئی قاضی  احکام میں  ایسا حکم کرے جو اللہ نے نہ دیا ہو تو وہ کفر کا مرتکب ہے اور ان کے شاگرد   طاؤس نے اضافہ کیا کہ یہ کفر ، کفر اکبر نہیں ہے

ابن  عباس  سے جو  قول  ثابت  ہو رہا ہے وہ یہ ہے 

سنن  نسائی    بَابُ: تَأْوِيلِ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ {وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ}   کی حدیث   ہے  جس کو  ألباني،  صحيح الإسناد موقوف قرار دیتے ہیں

حدیث نمبر: 5402

أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ بْنِ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏  كَانَتْ مُلُوكٌ بَعْدَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَامُ بَدَّلُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ، ‏‏‏‏‏‏، وَكَانَ فِيهِمْ مُؤْمِنُونَ يَقْرَءُونَ التَّوْرَاةَ، ‏‏‏‏‏‏قِيلَ لِمُلُوكِهِمْ:‏‏‏‏ مَا نَجِدُ شَتْمًا أَشَدَّ مِنْ شَتْمٍ يَشْتِمُونَّا هَؤُلَاءِ،‏‏‏‏ إِنَّهُمْ يَقْرَءُونَ:‏‏‏‏ وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ سورة المائدة آية 44،‏‏‏‏ وَهَؤُلَاءِ الْآيَاتِ مَعَ مَا يَعِيبُونَّا بِهِ فِي أَعْمَالِنَا فِي قِرَاءَتِهِمْ،‏‏‏‏ فَادْعُهُمْ فَلْيَقْرَءُوا كَمَا نَقْرَأُ، ‏‏‏‏‏‏وَلْيُؤْمِنُوا كَمَا آمَنَّا، ‏‏‏‏‏‏فَدَعَاهُمْ فَجَمَعَهُمْ وَعَرَضَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلَ،‏‏‏‏ أَوْ يَتْرُكُوا قِرَاءَةَ التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ إِلَّا مَا بَدَّلُوا مِنْهَا،‏‏‏‏ فَقَالُوا:‏‏‏‏ مَا تُرِيدُونَ إِلَى ذَلِكَ دَعُونَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ:‏‏‏‏ ابْنُوا لَنَا أُسْطُوَانَةً، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ ارْفَعُونَا إِلَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ اعْطُونَا شَيْئًا نَرْفَعُ بِهِ طَعَامَنَا وَشَرَابَنَا فَلَا نَرِدُ عَلَيْكُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ:‏‏‏‏ دَعُونَا نَسِيحُ فِي الْأَرْضِ وَنَهِيمُ وَنَشْرَبُ كَمَا يَشْرَبُ الْوَحْشُ فَإِنْ قَدَرْتُمْ عَلَيْنَا فِي أَرْضِكُمْ فَاقْتُلُونَا، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ:‏‏‏‏ ابْنُوا لَنَا دُورًا فِي الْفَيَافِي وَنَحْتَفِرُ الْآبَارَ، ‏‏‏‏‏‏وَنَحْتَرِثُ الْبُقُولَ فَلَا نَرِدُ عَلَيْكُمْ وَلَا نَمُرُّ بِكُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَلَيْسَ أَحَدٌ مِنَ الْقَبَائِلِ إِلَّا وَلَهُ حَمِيمٌ فِيهِمْ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَفَعَلُوا ذَلِكَ،‏‏‏‏ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:‏‏‏‏ وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا سورة الحديد آية 27، ‏‏‏‏‏‏وَالْآخَرُونَ قَالُوا:‏‏‏‏ نَتَعَبَّدُ كَمَا تَعَبَّدَ فُلَانٌ، ‏‏‏‏‏‏وَنَسِيحُ كَمَا سَاحَ فُلَانٌ، ‏‏‏‏‏‏وَنَتَّخِذُ دُورًا كَمَا اتَّخَذَ فُلَانٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهُمْ عَلَى شِرْكِهِمْ لَا عِلْمَ لَهُمْ بِإِيمَانِ الَّذِينَ اقْتَدَوْا بِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا بَعَثَ اللَّهُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ وَلَمْ يَبْقَ مِنْهُمْ إِلَّا قَلِيلٌ، ‏‏‏‏‏‏انْحَطَّ رَجُلٌ مِنْ صَوْمَعَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَجَاءَ سَائِحٌ مِنْ سِيَاحَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَصَاحِبُ الدَّيْرِ مِنْ دَيْرِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَآمَنُوا بِهِ،‏‏‏‏ وَصَدَّقُوهُ،‏‏‏‏ فَقَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى:‏‏‏‏ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ سورة الحديد آية 28،‏‏‏‏ أَجْرَيْنِ بِإِيمَانِهِمْ بِعِيسَى،‏‏‏‏ وَبِالتَّوْرَاةِ،‏‏‏‏ وَالْإِنْجِيلِ،‏‏‏‏ وَبِإِيمَانِهِمْ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ وَتَصْدِيقِهِمْ قَالَ:‏‏‏‏ وَيَجْعَلْ لَكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ سورة الحديد آية 28 الْقُرْآنَ،‏‏‏‏ وَاتِّبَاعَهُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ لِئَلَّا يَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتَابِ سورة الحديد آية 29 يَتَشَبَّهُونَ بِكُمْ أَلا يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ سورة الحديد آية 29 الْآيَةَ .

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے بعد بادشاہ ہوئے جنہوں نے تورات اور انجیل کو بدل ڈالا، ان میں کچھ مومن تھے جو توراۃ پڑھتے تھے-  ان کے بادشاہوں سے (مصاحبین دربار کی جانب سے ) عرض کیا گیا: ہمیں اس سے زیادہ سخت گالی نہیں ملتی جو یہ (مومن ) ہمیں دیتے ہیں، یہ (مومن ) لوگ پڑھتے ہیں  جس نے اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کیا وہ کافر ہیں  یہ لوگ اس قسم کی آیات پڑھتے ہیں ور ساتھ ہی وہ چیزیں پڑھتے ہیں جس میں ہمارا عیب نکلتا ہے تو انہیں بلا کر کہو کہ وہ بھی ویسے ہی پڑھیں جیسے ہم پڑھتے ہیں اور اسی طرح کا ایمان لائیں جیسا ہم لائے ہیں، چنانچہ اس (بادشاہ) نے انہیں بلایا اور اکٹھا کیا اور کہا: قتل منظور کرو یا پھر توراۃ اور انجیل کو پڑھنا چھوڑ دو، البتہ وہ پڑھو جو بدل دیا گیا ہے۔

ان میں سے کچھ لوگوں نے کہا ہمیں چھوڑ دو: ہمارے لیے ایک مینار بنا دو اور ہمیں اس پر چڑھا دو پھر ہمیں کھانے پینے کی کچھ چیزیں دے دو، تو ہم تمہارے پاس کبھی لوٹ کر نہ آئیں گے۔

ان میں سے کچھ لوگوں نے کہا: ہمیں چھوڑ دو، ہم زمین میں گھومیں اور بھٹکتے پھریں اور جنگلی جانوروں کی طرح پئیں، پھر اگر تم ہمیں اپنی زمین میں دیکھ لو تو مار ڈالنا

 ان میں سے بعض لوگوں نے کہا: ہمارے لیے صحراء و بیابان میں گھر بنا دو، ہم خود کنویں کھود لیں گے اور سبزیاں بو  لیں گے، پھر پلٹ کر تمہارے پاس نہ آئیں گے اور نہ تمہارے پاس سے گزریں گے، اور کوئی قبیلہ ایسا نہ تھا جس کا دوست یا رشتہ دار اس میں نہ ہو۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، تو اللہ تعالیٰ نے آیت

 «ورهبانية ابتدعوها ما كتبناها عليهم إلا ابتغاء رضوان اللہ فما رعوها حق رعايتها (الحدید: ۲۷)

  اور جو درویشی انہوں نے خود نکالی تھی ہم نے انہیں اس کا حکم نہیں دیا تھا سوائے اللہ کی رضا جوئی کے، پھر انہوں نے اس کی بھی پوری رعایت نہیں کی

 نازل فرمائی

کچھ دوسرے لوگوں نے کہا: ہم بھی فلاں کی طرح عبادت کریں گے اور فلاں کی طرح گھومیں گے اور فلاں کی طرح گھر بنائیں گے حالانکہ وہ شرک میں مبتلا تھے، یہ ان لوگوں کے ایمان سے باخبر نہ تھے جن کی پیروی کا یہ دم بھر رہے تھے

 جب اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تو ان میں سے بہت تھوڑے سے لوگ بچے تھے- کوئی  شخص اپنے عبادت خانے سے اترا تو کوئی   اور جنگل میں گھومنے والا گھوم کر لوٹا اور کوئی   گرجا گھر میں رہنے والا گرجا گھر سے لوٹا اور یہ سب کے سب آپ پر ایمان لائے اور آپ کی تصدیق کی، تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا

 «يا أيها الذين آمنوا اتقوا اللہ وآمنوا برسوله يؤتكم كفلين من رحمته»

اے لوگو! جو ایمان رکھتے ہو، اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ وہ تمہیں اپنی رحمت کا دوگنا حصہ دے گا  (الحدید: ۲۹)

دوہرا اجر ان کے عیسیٰ، تورات اور انجیل پر ایمان کے بدلے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان اور تصدیق کے بدلے – پھر فرمایا:  وہ تمہارے چلنے کے لیے ایک روشنی دے گا  یعنی قرآن اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی  تاکہ اہل کتاب  یعنی وہ اہل کتاب جو تمہاری مشابہت کرتے ہیں  جان لیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنے کی قدرت نہیں رکھتے

کیا امت محمد شرک سے پاک ہے ؟

96 Downloads

 کیا    امت  محمد  شرک سے پاک ہے ؟

 بریلوی کہتے ہیں کہ امت محمد شرک کر ہی نہیں سکتی – لہذا امت اب جو بھی کرے وہ شرک نہیں –  بعض دوسرے  لوگ یہ کہتے ہیں کہ امت مسلمہ کے فرقے شرک کرنے سے امت مسلمہ  سے خارج ہیں-  ان کا یہ قول بریلویوں جیسا ہی  ہے کہ   امت محمد  شرک  نہیں  کر سکتی – دونوں  گروہوں  کا مقصد  یہی ہے کہ امت محمد شرک نہیں کر سکتی-  راقم  اس کو رد کرتا ہے

عرف عام میں امت محمد کو مسلمان کہا جاتا ہے ان میں شرک بھی ہو رہا ہے مثلا الله نے کہا قوم موسی نے بچھڑے کی پوجا کی – اب ہم بحث  کریں  کہ اس کو قوم موسی نہ کہا جائے یہودی کہا جائے تو یہ صرف لفظی نزاع ہے-حدیث میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے  فرمایا     قسم اللہ کی مجھے تمہارے بارے میں یہ خوف نہیں کہ تم شرک کرنے لگو گے    اور    اسی طرح حدیث    یہ بھی ہے کہ میری امت  فرقوں میں بٹ جائے گی یعنی آپ صلی الله علیہ وسلم نے کافر و گمراہ فرقوں کو امت میں شمار    کیا ہے    لہذا   وہ بنیادی چیزیں جن کا انکار کیا جائے تو اسلام سے خارج ہو جانا ہے ان میں ہے

توحید کا اقرار   کہ الله ایک ہے اس کی بیوی بیٹی اور بیٹا نہیں ہے – کوئی ہمسر نہیں ، کفو نہیں
نبی صلی الله علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں
قرآن جو ہاتھوں میں ہے آخری الہامی کتاب ہے

اسلام کے ارکان دین کا ظاہر ہیں ان کا مطلق  انکار بھی کفر  ہے –

اس بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ  فرقے امت محمد کا ہی حصہ ہیں-  اسلام سے خارج نہیں،    ایمان سے خارج     ہوئے  ہیں

ایک حدیث پیش کی جاتی ہے  جو سنن ترمذی میں ہے

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَعْقُوبَ الطَّالَقَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا عُتْبَةُ بْنُ أَبِي حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ جَارِيَةَ اللَّخْمِيُّ، عَنْ أَبِي أُمَيَّةَ الشَّعْبَانِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ أَتَيْتُ أَبَا ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيَّ،

ابو امیہ شعبانی کہتے ہیں کہ میں نے ابوثعلبہ خشنی رضی الله عنہ کے پاس آ کر پوچھا: اس آیت کے سلسلے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ انہوں نے کہا: کون سی آیت؟ میں نے کہا: آیت یہ ہے: «يا أيها الذين آمنوا عليكم أنفسكم لا يضركم من ضل إذا اهتديتم» انہوں نے کہا: آگاہ رہو! قسم اللہ کی تم نے اس کے متعلق ایک واقف کار سے پوچھا ہے، میں نے خود اس آیت کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا، آپ نے فرمایا: “بلکہ تم اچھی باتوں کا حکم کرتے رہو اور بری باتوں سے روکتے رہو، یہاں تک کہ جب تم دیکھو کہ لوگ بخالت کے راستے پر چل پڑے ہیں، خواہشات نفس کے پیرو ہو گئے ہیں، دنیا کو آخرت پر حاصل دی جا رہی ہے اور ہر عقل و رائے والا بس اپنی ہی عقل و رائے پر مست اور مگن ہے تو تم خود اپنی فکر میں لگ جاؤ، اپنے آپ کو سنبھالو، بچاؤ اور عوام کو چھوڑ دو، کیونکہ تمہارے پیچھے ایسے دن آنے والے ہیں کہ اس وقت صبر کرنا (کسی بات پر جمے رہنا) ایسا مشکل کام ہو گا جتنا کہ انگارے کو مٹھی میں پکڑے رہنا، اس زمانہ میں کتاب و سنت پر عمل کرنے والے کو تم جیسے پچاس کام کرنے والوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا۔ (اس حدیث کے راوی) عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: عتبہ کے سوا اور کئی راویوں نے مجھ سے اور زیادہ بیان کیا ہے۔ کہا گیا: اللہ کے رسول! (ابھی آپ نے جو بتایا ہے کہ پچاس عمل صالح کرنے والوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا تو) یہ پچاس عمل صالح کرنے والے ہم میں سے مراد ہیں یا اس زمانہ کے لوگوں میں سے مراد ہیں؟ آپ نے فرمایا: “نہیں، بلکہ اس زمانہ کے، تم میں سے”۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

 اس کی سند ضعیف ہے – سند میں  أبو أمية  الشَّعْبانيُّ الدِّمَشْقيُّ. ہے

 قال أبو حاتم: شاميٌّ جاهليّ ابو حاتم کہتے ہیں شامی  ہے پہلے ایام جاہلیت کو دیکھا   ہے

حدیث  حوض      

صحیح بخاری حدیث نمبر: 7048
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ قَالَتْ أَسْمَاءُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَنَا عَلَى حَوْضِي أَنْتَظِرُ مَنْ يَرِدُ عَلَيَّ، فَيُؤْخَذُ بِنَاسٍ مِنْ دُونِي فَأَقُولُ أُمَّتِي. فَيَقُولُ لاَ تَدْرِي، مَشَوْا عَلَى الْقَهْقَرَى». قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ أَنْ نَرْجِعَ عَلَى أَعْقَابِنَا أَوْ نُفْتَنَ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر بن سری نے بیان کیا، کہا ہم سے نافع بن عمر نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے کہ نبی   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (قیامت کے دن) میں حوض کوثر پر ہوں گا اور اپنے پاس آنے والوں کا انتظار کرتا رہوں گا پھر (حوض کوثر) پر کچھ لوگوں کو مجھ تک پہنچنے سے پہلے ہی گرفتار کر لیا جائے گا تو میں کہوں گا کہ یہ تو میری امت کے لوگ ہیں۔ جواب ملے گا کہ آپ کو معلوم نہیں یہ لوگ الٹے پاؤں پھر گئے تھے۔ ابن ابی ملیکہ اس حدیث کو روایت کرتے وقت دعا کرتے اے اللہ! ہم تیری پناہ مانگتے ہیں کہ ہم الٹے پاؤں پھر جائیں یا فتنہ میں پڑ جائیں۔

رسول اللہ کہیں گے یہ میری امت کے لوگ ہیں لیکن یہ نہیں کہا جائے گا کہ یہ امتی نہیں ہیں بلکہ ان کی بد عملی کا ذکر کیا جائے گا

Sahih Bukhari Hadees # 6576

وحَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْمُغِيرَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ “”أَنَا فَرَطُكُمْ عَلَى الْحَوْضِ وَلَيُرْفَعَنَّ مَعِي رِجَالٌ مِنْكُمْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ لَيُخْتَلَجُنَّ دُونِي، ‏‏‏‏‏‏فَأَقُولُ يَا رَبِّ:‏‏‏‏ أَصْحَابِي، ‏‏‏‏‏‏فَيُقَالُ:‏‏‏‏ إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ””، ‏‏‏‏‏‏تَابَعَهُ عَاصِمٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي وَائِلٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ حُصَيْنٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي وَائِلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حُذَيْفَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

نبی   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اپنے حوض پر تم سے پہلے ہی موجود رہوں گا اور تم میں سے کچھ لوگ میرے سامنے لائے جائیں گے پھر انہیں میرے سامنے سے ہٹا دیا جائے گا تو میں کہوں گا کہ اے میرے رب! یہ میرے ساتھی ہیں لیکن مجھ سے کہا جائے گا کہ آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد دین میں کیا کیا نئی چیزیں ایجاد کر لی تھیں۔ اس روایت کی متابعت عاصم نے ابووائل سے کی، ان سے حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا۔

اصحابی سے مراد منافق ہو سکتے ہیں کیونکہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو مدینہ کے تمام منافقین کا علم نہیں تھا  سوره توبہ میں اس کا ذکر آیا  ہے

امتی جنہوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے ملاقات نہیں کی وہ اصحاب رسول نہیں لہذا پہلا قول بھی ممکن ہے کہ حدیث میں اصحابی سے مراد غیر معروف اصحاب رسول ہیں

صحیح بخاری میں ہے نبی صلی الله علیہ وسلم کہیں گے

سُحْقًا سُحْقًا لِمَنْ بَدَّلَ بَعْدِي

دور دور ہو جس نے میرے بعد بدلا

صحیح بخاری میں ہے

إِنَّهُمْ لَمْ يَزَالُوا مُرْتَدِّينَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ مُنْذُ فَارَقْتَهُمْ

یہ اس سے نہیں ہٹے کہ مرتد ہوئے جب اپ نے ان کو چھوڑا

بغوی نے شرح السنہ میں کہا

وَلَمْ يرْتَد أحد بِحَمْد اللَّه من أَصْحَاب النَّبِيّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنَّمَا ارْتَدَّ قوم من جُفَاة الْعَرَب.

اور الحمد للہ اصحاب میں سے کوئی مرتد نہ ہوا سوائے عربوں کی ایک قوم کے

بخاری کے شاگرد فربری کا کہنا ہے

قال محمدُ بنُ يوسفَ الفِرَبرِيُّ: ذُكِرَ عن أبي عبدِ اللهِ عن قَبيصة قالَ: هُمُ المُرْتَدُّونَ الذين ارتدُّوا على عَهْدِ أبي بكرٍ، فقاتَلهُم أبو بكرٍ رضي الله عنه

میں نے عبد الله سے اس روایت کا ذکر کیا کہا یہ وہ مرتد ہیں جنہوں نے ابو بکر کے دور میں ارتاد کیا تو ابو بکر نے ان سے قتال کیا

مسند البزار میں ہے کہ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی الله عنہ نے اس کو روایت کیا پھر کہا

قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: ادْعُ اللَّهِ أَلا يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ  الله سے دعا کرو کہ مجھے ان میں سے نہ کرے

مسند الشامییں از طبرانی میں ہے

فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ أَنْ لَا يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ , قَالَ: «لَسْتَ مِنْهُمْ» , فَمَاتَ قَبْلَ عُثْمَانَ بِسَنَتَيْنِ

ابو درداء نے کہا دعا کرو الله ان میں سے نہ کرے – لوگوں نے کہا اپ ان میں سے نہیں پس ان کی وفات قتل عثمان سے دو سال پہلے ہوئی

اس روایت پر ایک تابعی نے کہا

قَالَ: فَكَانَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ أَنْ نَرْجِعَ عَلَى أَعْقَابِنَا أَوْ نُفْتَتَنَ عَنْ دِينِنَا

اے الله ہم پناہ مانگتے ہیں کہ اپنی گردنوں پر پلٹ جائیں اور دین میں فتنہ کا شکار ہوں

کتاب الشريعة از الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) میں ہے

قَالَ أَبُو بَكْرٍ النَّيْسَابُورِيُّ: ذَكَرْتُ هَذَا الْحَدِيثَ لِإِبْرَاهِيمَ الْأَصْبَهَانِيِّ فَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ , كَتَبَ بِهِ إِلَيْنَا يُونُسُ قَالَ أَبُو بَكْرٍ النَّيْسَابُورِيُّ: وَسَمِعْتُ أَبَا إِبْرَاهِيمَ الزُّهْرِيَّ وَذَكَرَ هَذَا الْحَدِيثَ فَقَالَ: هَذَا فِي أَهْلِ الرِّدَّةِ

ابو بکر نیشاپوری نے کہا ہم نے اس حدیث کا ابراہیم سے ذکر کیا تو کہا عجیب روایت ہے اور انہوں نے یہ یونس کو لکھ بھیجی اور ابو ابراہیم الزہری نے کہا یہ اہل الردہ یعنی مرتدوں کے حوالے سے ہے

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لَيَرِدَنَّ عَلَى الْحَوْضِ رِجَالٌ مِمَّنْ صَحِبَنِي وَرَآنِي حَتَّى إِذَا رُفِعُوا إِلَيَّ اخْتُلِجُوا دُونِي فَلَأَقُولَنَّ: رَبِّ , أَصْحَابِي , فَلَيُقَالَنَّ: إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ ”

میرے اصحاب میں سے مرد جنہوں نے مجھے دیکھا اور صحبت اختیار کی ہو گی میرے حوض پر لائے جائیں گے

راقم کے نزدیک سند منقطع ہے حسن نے ابی بکرہ سے سماع نہیں کیا  البتہ امام بخاری کے مطابق حسن بصری کا ابی بکرہ سے سماع ہے

بخاری و مسلم میں اسی حدیث میں الفاظ یہ بھی ہیں       إِنَّهُمْ مِنِّي یہ مجھ سے ہیں      یعنی میرے رشتہ دار ہیں

جن احادیث میں مجھ میں سے ہیں اتا ہے اس میں مراد خاندان نبوی کے افراد لئے جاتے ہیں-

روایت میں الفاظ امتی بھی ہیں یعنی تمام امت میں کوئی بھی ہو سکتا ہے- یعنی

اصحاب رسول اس روایت سے خوف کھاتے

محدثین کہتے یہ مرتدوں کے لئے ہے

مراد منافقین بھی ہو سکتے ہوں

خاندان نبوی کے افراد بھی لئے جا سکتے ہیں

یہ تمام احتمالات ممکن ہیں-  الله سے دعا کریں ہم ان میں سے نہ ہوں

طاغوت سے کیا مراد ہے

124 Downloads

اس  کتابچہ  میں  طاغوت   کے  کفر  پر  بات کی گئی  ہے  جو تمام  انبیاء کی دعوت کا  محور  ہے

طاغوت سے مراد
طاغوت سے مراد ہر وہ فرد بھی ہے جو اللہ تعالی کے کلام کے خلاف فتوی دے رہا ہو، چاہے وہ خود اس بات سے لا علم ہو کہ وہ اللہ کا دشمن بن چکا ہے –