Category Archives: دعوت و تبلیغ

اہل حدیث کی دوغلی پالیسی

فرقہ اہل حدیث کے نزدیک اولیاء اللہ قبروں میں زندہ رہتے ہیں بس اس سے باہر نہیں نکل سکتے – صحیح بات یہ ہے کہ اس کی قرآن و حدیث میں کوئی دلیل نہیں اور  اہل ایمان کے نزدیک یہ عقیدہ باطل ہے –  لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جیسے ہی  اگر کوئی بریلوی یہ   دعوی کرے کہ ولی اللہ  کی قبر شق ہوئی تو اس کا رد اہل حدیث پر  ضروری ہو جاتا ہے – ویڈیو دیکھیں

دوسری طرف قبروں سے  مردوں کا نکلنا، ان  کا سڑکوں پر بھاگنا  یہ اہل حدیث خود خطبات میں   بیان کرتے ہیں اور کتابوں میں لکھتے  ہیں

زبیر علی زئی  کے مطابق مردہ  قبر سے باہر بھی اتا ہے

قال الامام ابوبكر البيهقي
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، وأبو عبد الرحمن السلمي، وأبو سعيد بن أبي عمرو قالوا: ثنا أبو العباس محمد بن يعقوب، ثنا الحسن بن علي، يعني ابن عفان العامري، ثنا عباءة بن كليب الليثي، عن جويرية بن أسماء، عن نافع، عن ابن عمر قال: ” بينا أنا صادر عن غزوة الأبواء، إذ مررت بقبور فخرج علي رجل من قبر يلتهب نارا وفي عنقه سلسلة يجرها، وهو يقول يا عبد الله اسقني سقاك الله قال: فوالله ما أدري، باسمي يدعوني أو كما يقول الرجل للرجل: يا عبد الله، إذ خرج على أثره أسود بيده ضغث من شوك وهو يقول: يا عبد الله لا تسقه، فإنه كافر فأدركه فأخذ بطرف السلسلة، ثم ضربه بذلك الضغث ثم اقتحما في القبر، وأنا أنظر إليهما، حتى التأم عليهما وروي في ذلك قصة عن عمرو بن دينار قهرمان آل الزبير، عن سالم بن عبد الله بن عمر عن أبيه وفي الآثار الصحيحة غنية “

زبیر علی زئی  ان کے ہاں مردے قبروں سے باہر چھلانگ بھی لگاتے ہیں

زبیر صاحب کی تلبیسات

حافظ زبیر صاحب نے یو ٹیوب پر یہ بیان دیا ہے

 زبیر صاحب نے ذکر کیا کہ ڈاکٹر عثمانی متشدد تھے اور اہل حدیث غیر متشدد تھے  اور دو مسائل  پر توجہ دی  اول  برزخی زندگی پر کتاب اور دوم قرآن پر اجرت لینا   کو گمراہ کہنا – ساتھ ہی انہوں نے  واضح نہیں کیا کہ  امام احمد ، امام بخاری متشدد تھے یا غیر متشدد جو مسئلہ خلق قرآن میں اہل بیت میں سے  بنو عباس کی  تکفیر کرتے رہے

زبیر صاحب کے نزدیک عذاب قبر کا مسئلہ،   توحید کی وجہ سے الجھ  گیا تھا  اور پنج پیر والوں نے شرک کی تعریف کی کہ قبر میں مردہ زندہ ہے  لہذا اگر مردہ کو مردہ مان لیا جائے تو قبر پرستی کا انکار کرنا ہو گا

زبیر صاحب نے کہا کہ حدیث میں ہے کہ  شہداء کی روحیں سبز پرندوں میں ڈال دی جاتی ہیں – یہ جملہ نوٹ کریں کیونکہ بعد میں جن علماء کی کتب کا ذکر کیا گیا وہ اس کے انکاری ہیں

زبیر صاحب نے ذکر کیا کہ سلف میں صرف ابن حزم رہے ہیں جو صرف روح پر عذاب کے قائل ہیں – راقم کہتا ہے یہ غلط ہے امام اشعری نے   صرف روح پر عذاب کا ذکر کیا ہے پھر اسی بیان  میں آگے زبیر نے ذکر کیا روح پر عذاب کے قائل علماء آج بھی ہیں

زبیر صاحب نے لوجک یا تعقل کی بنیاد پر ذکر کیا کہ جسم کو عذاب ضروری ہے – زبیر صاحب نے یو ٹیوب میں جواب میں ذکر کیا
مادہ یعنی میٹر اپنی صورت یعنی فارم تبدیل کر لیتا ہے، ختم نہیں ہوتا ہے۔ یہ سائنس کا بنیادی ترین اصول ہے

مادہ کی بقا ہے یہ فزکس کا اصول ہے لیکن جب ہم دین کی بات کرتے ہیں تو اس مٹی سے کرتے ہیں جس سے آدم علیہ السلام کو خلق کیا گیا اور اسی طرح نسل آدم بھی مٹی بن رہی ہے
اسی طرح اس زمین میں شجر و بناتات بھی مٹی بن جاتے ہیں
گویا زمین کی اصل مٹی ہی ہے اسی کی طرف جانا ہے –
عذاب قبر میں اگر مٹی کو عذاب ہو رہا ہے تو یا عالم ارضی کو عذاب ہوا اور یہ فہم سراسر غلط ہے ورنہ زمین سب سے پہلے اس پر اللہ سے فریاد کرتی کہ گناہ انسان نے کیا میری مٹی نے تو نہیں کیا اس کو عذاب کیوں ہے -راقم کہتا ہے جسم مٹی ہو جانا قرآن میں موجود ہے اور   مٹی کو عذاب نہیں ہوتا  ورنہ یہ زمین کومسلسل  عذاب الہی  دینے کے مترادف ہے

عرب  میں  سلفی وہابی تنظیموں میں تکفیر کرنا  معروف ہے – زبیر صاحب نے مسئلہ اتباع  طاغوت کی  کھلی اڑاتے  ہوئے  سماع الموتی کے قائل   علماء کو حق پر قرار دے دیا ہے

امام  احمد جو فرشتوں کو پکارنے کے قائل تھے ان کو زبیر صاحب  نے توحید پر قائم  بتایا ہے  جبکہ  انڈیا  میں اسی بنا پر اہل حدیث ٹولوں میں  پھوٹ پڑی ہوئی ہے

ایک اہل حدیث عالم مقبول احمد  سلفی ، اہل حدیث  انڈیا  میں پھوٹ پڑنے پر لکھتے ہیں لنک 

آخر میں ایک بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں کہ کیرالہ اور کرناٹک وغیرہ میں مذکورہ بالا حدیث کو لیکر سلفیوں کے درمیان بھی یہ مسئلہ نزاع کا باعث بناہواہے جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا ۔ جب حدیث ہی سرے سے قابل استناد نہیں تو بات ہی ختم اور اگر اسلاف میں سے کسی نے اس حدیث پر عمل بھی کیا ہوتو انہوں نے نہ تو جن سے مدد طلب کی اور نہ ہی ولیوں اور قبر والوں کو پکارا بلکہ انہوں نے ویسے ہی پکارا جیسے پکارنے کا حدیث میں حکم ملا ہے اور وہ ہے فرشتوں کو پکارنا جیساکہ میں نے وہ حدیث بھی پیش کردی جس میں فرشتوں کی جماعت کا ذکر ہے

زبیر صاحب   کے بیان سے معلوم ہوا کہ  اہل حدیث فرقوں  میں اب فرشتوں کو پکارنا عین توحید سمجھا جانے لگا  ہے

راقم کہتا ہے یہ زوال امام احمد کو عقائد میں  لاحق  ہوا تھا  کہ تعویذ  کرنے لگے اور فرشتوں کو پکارنے لگے تھے اس کو توحید پر مبنی نہیں کہا جا سکتا

امام ابن تیمیہ جو سماع الموتی کے قائل تھے ان کا ذکر زبیر صاحب نے کیا کہ امام ابن تیمیہ کہتے تھے کہ  بعض  لوگ ایک نقطہ نظر بنا  لیتے ہیں پھر تاویل کرتے ہیں  دوسری طرف اہل حدیث کہتے ہیں سماع الموتی  گمراہی ہے گویا اہل حدیث کے نزدیک خود ابن تیمیہ کا عقیدہ صحیح  نہیں  ہے

قلیب بدر  کے خاص واقعہ کو زبیر نے   فروعی کہہ دیا جبکہ  معجزہ  پر ایمان لانا ضروری ہے یہ فروعی مسئلہ نہیں ہے عقیدہ کا ہے- اصحاب رسول کا اس کے خاص ہونے پر کوئی اختلاف نہ تھا- نہ کہیں لکھا ہے کہ ابن عمر سماع الموتی کے قائل تھے – صحیح بخاری میں ذکر ہے ابن عمر رضی اللہ عنہ ایک حدیث غلط سمجھے تھے جب ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس حدیث پر کلام ہوا تو انہوں نے  وضاحت کی کہ مردہ نہیں سنتا اور قلیب بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مردہ مشرکوں سے کلام  محض جذبات تھا  کیونکہ بدر میں   مشرکوں کو قتل کے بعد  علم ہو چکا تھا کہ حق کیا ہے  – راقم کہتا ہے ابراہیم علیہ السلام کا بتوں سے کلام قرآن میں موجود ہے کہ کھاتے کیوں   نہیں ؟ اس سے یہ نہیں سمجھا جائے کہ ابراہیم علیہ السلام  سماع الاصنام   یا   بتوں کے سننے کے قائل تھے

زبیر کے بقول جو قبرستان میں دعا کی جاتی ہے وہ مردے سنتے ہیں – راقم کہتا ہے یہ غلط موقف ہے – ہر مومن نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلامتی کی دعا کرتا ہے اوراس کا مقصد سنانا نہیں تھا

 زبیر صاحب اس طرح سماع الموتی کا عقیدہ بھی رکھ رہے ہیں – دوسری طرف اس وجہ سے وہ  اہل حدیث فرقہ  سے الگ عقیدے پر آ گئے ہیں جو سماع الموتی کے رد میں کتب لکھ رہے ہیں، قلیب بدر کو خاص ما نتے ہیں ، اس کو عام  کہہ کر اصحاب رسول کی صحیح و غلط عقائد میں تقسیم نہیں کرتے  ہیں

زبیر صاحب  کے بقول روح کا جسم سے نکلنا موت ہے -دوسری طرف اہل حدیث فرقوں میں اس  کا انکار ہے مثلا اہل حدیث  علماء میں ابو جابر دامانوی اور رفیق طاہر اس کے انکاری ہیں

 زبیر صاحب کا یہ جملہ قابل غور ہے کیونکہ چند منٹ بعد وہ خود اس کا رد کرتے ہیں  – راقم کہتا ہے  نیند میں روح، جسم سے نہیں نکلتی اور مردے میں روح واپس نہیں آتی  -قرآن میں موت کے حوالے سے  امسک روح کا لفظ ہے یعنی روح کو روک لیا جاتا ہے ظاہر  ہے جو چیز الگ ہے گئی ہو اسی کو روکا جاتا  ہے لہذا موت پر جسم میں روح پھر قیامت تک  نہیں آ سکتی – یہ قرآن سے واضح ہے

اہل سنت میں قبر کے لفظ پر موقف یہ بھی ہے کہ قبر وہ ہے جہاں روح  ہے جس پر تفصیلی بحث اس ویب سائٹ پر  موجود ہے

 زبیر صاحب کے بقول نیند  بھی موت ہے ، جبکہ نیند ، موت ، بے ہوشی سب الگ ہیں – اس پر راقم کی مکمل کتاب  ہے

برے خواب کو زبیر صاحب نے جسم  پر  عذاب قرار دے دیا – راقم کہتا ہے خواب تو مومن بھی دیکھتا ہے اور یہ عذاب جسم  قرار نہیں دیا گیا –  زبیر صاحب نے موت کے بعد عذاب کو بھی ڈروانے خواب پر قیاس کر لیا گیا  جو سراسر غلط سلط ہے

زبیر صاحب کے بقول انبیاء  کا  قبر  میں نماز پڑھنا  بھی ثابت ہے ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ  انبیاء کو زندہ بھی نہ کہا جائے- راقم کہتا ہے یہ  ریکوسٹ  قابل رد ہے – موسی علیہ السلام کا قبر میں نماز پڑھنا  سلف میں قابل بحث رہا ہے اور ابن حبان نے اس کو خاص صرف اس معراج کی  رات کا واقعہ کہا ہے – ابن حزم نے اس کو جنت میں ہی نماز  کہا ہے

سجین و علیین  ،زبیر صاحب کے بقول یہ مقام ہیں  جس کی ان کے پاس کوئی دلیل نہیں – راقم کہتا ہے سننے والے سن سکتے ہیں کہ زبیر صاحب نے  یہ واضح نہیں کیا کہ روح  کو سجین و علیین میں موجود ماننا کس قرآن کی آیت سے معلوم  ہے  – بقول زبیر صاحب ارواح اوپر جاتی ہیں  اور نیند میں بھی روح جسم سے نکل جاتی ہے -راقم کہتا ہے    زبیر صاحب  خود کنفیوز ہیں کیونکہ بقول زبیر  صاحب  روح کا جسم سے نکلنا ہی   موت ہے تو نیند بھی موت بن گئی  جبکہ قرآن میں نیند کو موت سے الگ کیا گیا ہے

زبیر صاحب نے سلف کے ان تمام علماء کو گمراہ قرار دے دیا جو برزخی جسم کا ذکر کرتے ہیں مثلا  ابن عقیل، ابن جوزی  وغیرہم

زبیر صاحب کے نزدیک انبیاء   درہم ،دینار نہیں  لیتے لیکن علماء جو اپنے آپ کو انبیاء کا وارث کہتے ہیں ان کا درہم لینا جائز ہے پھر زبیر صاحب نے چند مخصوص واقعات سے اجرت کے دلائل لئے ہیں جن کی وضاحت اس ویب سائٹ پر موجود ہے – قرآن میں ہے کہ ظالم کو قرآن سے شفاء نہیں ملے گی لیکن حدیث میں جب مشرک و کافر سردار کو سورہ فاتحہ سے دم کیا گیا تو شفاء ہوئی – ظاہر ہے یہ مخصوص ہے

  زبیر صاحب  نے عذاب قبر کی بحث میں  چند کتب کا ذکر کیا – راقم  کہتا ہے یہاں بھی   لوگوں کو مغالطہ دے  دیا گیا ہے – کیا اہل حدیث  کے نزدیک یہ  نیچے دیے گئے تمام متضاد عقائد صحیح ہیں

١- عود روح  بالکل نہیں ہو گا    (قاری خلیل رحمان     ، کتاب پہلا زینہ)

٢- روح جسم سے جڑے گی   اور تعلق ہو گا جس میں روح جسم سے نکلے گی اور جب چاہے  واپس بھی آئے گی  ( فتاوی ابن تیمیہ،  کتاب الروح از  ابن قیم، عبد الرحمان کیلانی  ، فتح الباری از  ابن حجر،  وہابی  علماء، زبیر علی زئی   بعض مواقع  پر )  یعنی بار بار عود روح ممکن ہے  

٣- روح   ، جنت  یا جہنم میں ہی  رہے گی  لیکن  قبر میں جسد سے تعلق ہو گا     (  نورپوری    کا  مضمون ،   مقالات از زبیر علی زئی    )

٤-  کچھ کہتے ہیں  مردہ جسد کو عذاب ہو گا بلا روح اور عود روح صرف ایک دفعہ ہو گا   (مثلا   کتاب الدین الخالص از    ابو جابر  دامانوی اور  کتاب المسند فی عذاب القبر از ارشد کمال

راقم کہتا ہے زبیر صاحب کی بات درست  ہے ان اہل حدیث علماء کی یہ تمام کتب ہر اس شخص کو پڑھنی چاہیے جو صحیح عقیدہ کا متلاشی ہو اور جاننا چاہتا ہو کہ فرقہ اہل حدیث کے اپنے تضادات کتنے ہیں

چھ ماہ قبل زبیر صاحب نے اپنے فیس بک پیج پر بھی تبصرہ جاری کیا تھا –  قارئین اس کو بھی دیکھ سکتے  ہیں   

کتب عثمانی پر ایک تبصرہ / Islamic-Belief.net (islamic-belief.net)    

کتب عثمانی پر ایک تبصرہ

ڈاکٹر عثمانی رحمہ اللہ علیہ کی کتب پر اہل حدیث   ڈاکٹر  رانا محمد اسحاق  کی تعریفی آراء 

غیر مقلد ڈاکٹر رانا محمد اسحاق کتاب قبر اور عذاب قبر میں اقرار کرتے ہیں

فرقہ اہل حدیث کے ایک سرخیل صلاح الدین یوسف نے ہفت روزہ الاعتصام جلد ۲۸ ، ۲۲ اکتوبر ۱٩٨٤ میں ڈاکٹر عثمانی ؒکو مبارکباد پیش کی – یہ چیز حبل اللہ نمبر ٣ میں عبد القادر سومرو کے مضمون میں پیش کی جا چکی ہے کہ اہل حدیث ڈاکٹر صاحب کے لئے رطب اللسان تھے حتی کہ قبر کے حوالے سے خود فرقہ اہل حدیث کے فضل الرحمان کلیم  کاشمیری کہتے بنانگ دھل مضامین میں لکھتے تھے کہ قبر زمین کا کھڈا نہیں ہے

 

ڈاکٹر عثمانی رحمہ اللہ علیہ کی کتب پر  مخالفین کی عنادی آراء
بہت سے لوگ جو ڈاکٹر عثمانی کی توحید پسندی سے حقیقی طور پر لا علم تھے ان میں بد نام زمانہ کتاب کراچی کا عثمانی مذھب کے مصنف خواجہ  محمد قاسم  تھے – خواجہ قاسم کھلے بندوں جھوٹ گھڑتے اور تحاریر پڑھ کے سمجھنے کی بجائے سنی سنائی پر زیادہ یقین رکھتے تھے

خواجہ قاسم جھوٹ گھڑتے ہیں

امام اہل سنت احمد بن حنبل ، امام ابو داود ، امام نسائی .. ان سب پر فتوی لگایا ہے اس لئے کہ ان کی کتابوں میں حدیث بیان ہوئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے دنوں میں افضل دن جمعہ کا دن ہےکیونکہ اسی دن آدم علیہ السلام پیدا کیے گئے۔ ۔۔۔۔ ۔پس اس دن کثرت سے درود پڑھو حقیقی بات یہ ہے کہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔صحابہ رضی اللہ عنھم نے کہا کہ ہمارا درود اس وقت کیسے پیش  کیا جائے گا جب آپ کا جسم ریزہ ریزہ ہو گیا ہو گا یعنی وفات کے بعد بوسیدہ ہو چکا ہو گا۔فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ انبیاء کے جسموں کو کھائے۔

خواجہ قاسم کے افکار  پر مختصر  تبصرہ یہاں  ہے

سنجیدہ نظر انے والے   قلم کار عصر حاضر کے ڈاکٹر حافظ محمد زبیر بھی ہیں جنہوں خواجہ قاسم صاحب کا بیان کردہ چربہ ,   چربہ نقل کیا  ہے – موصوف لکھتے ہیں

عثمانی صاحب تابعین اور تبع تابعین کے بعد امت میں بس دو چار لوگوں کو ہی مسلمان سمجھتے ہیں جن میں ایک امام ابو حنیفہ ہیں اور دوسرے امام بخاری ہیں،  رحمہما اللہ۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو فتنے کی جڑ قرار دیتے ہیں کیونکہ ان کے بقول یہ امام احمد ہی ہے کہ جنہوں نے سب سے پہلے اپنی حدیث کی   کتاب “مسند احمد” میں یہ روایت نقل کی کہ قبر میں مردے کے جسم میں روح لوٹائی جاتی ہے۔ اسی طرح امام ابو داود، امام نسائی، امام ابن تیمیہ، امام ابن
قیم اور دیگر سلفی اور حنبلی علماء کو بھی اس حدیث کے صحیح ماننے کی وجہ سے گمراہ قرار دیتے ہیں۔

ایسا عثمانی صاحب نے کہیں نہیں لکھا کہ ان کے نزدیک امام ابو داود ، امام نسائی بھی اس وجہ سے گمراہ ہیں کہ انہوں نے حدیث عود روح کو نقل کیا  ہے – اسی قسم کا مغالطہ غیر مقلد شفیق الرحمان نے گھڑا تھا – اس پر عثمانی فرماتے ہیں

حوالہ دیکھیے حبل اللہ شمارہ 7 صفحہ 9 پر اسکرین شوٹ پوسٹ میں موجود ہے ملاحظہ فرمائیے۔

ڈاکٹر زبیر لکھتے ہیں کہ عثمانی صاحب نے مسند احمد کو کیوں کوٹ کیا اگر امام احمد کا عقیدہ درست نہیں تھا لہذا وہ لکھتے ہیں

۔ عجیب طرفہ تماشا یہ ہے کہ “عذاب قبر” کے مسئلے میں جن امام احمد کو ضال اور مضل قرار دیا، قرآن مجید پر اجرت نہ لینے کے مسئلے میں انہی کی مسند احمد کی روایتوں کو اپنا کل استدلال بنا لیا۔ کوئی اصول ضابطہ تو ہے نہیں، جہاں چاہتے ہیں کسی راوی کی بنیاد پر ایک روایت کو ضعیف قرار دیے دیتے ہیں اور دوسری جگہ اسی راوی کی روایت قبول کر لیتے ہیں۔

راقم کہتا ہے کیونکہ فرقوں میں یہ  عمل جاری و ساری ہے،  باوجود امام احمد کو مشرک بتانے کے  وہ ان کی باتوں کو قبول کرتے ہیں

اہل حدیث میں البانی اور متعدد اہل حدیث نے اقرار کیا ہے کہ امام احمد بیابان میں اللہ کو نہیں فرشتوں کو پکارتے تھے اس پر گواہ خود احمد کے بیٹے ہیں
یہ عمل خود ان فرقوں کے نزدیک شرک ہے

لنک 

عبد الوہاب النجدی نے بیان کیا کہ امام احمد وسیلہ کے قائل تھے – آج اہل حدیث کہتے ہیں یہ شرک ہے

امام احمد کے بیٹے گواہ ہیں کہ ان کے باپ تعویذ لکھتے تھے – یہ فرقوں کو معلوم ہے کہ شرک ہے

اب جب امام احمد شرک کرتے ہیں تو یہ ان کا ذکر کیوں نہیں کرتے ؟

علم حدیث اصولوں پر منبی ہے یا شخصیات پر ؟ خود فرقے کہیں گے اصولوں پر – تو پھر حدیث کسی کی کتاب سےنقل کرنا قابل جرم کب ہوا ؟ کیا  محدثین خود رافضیوں کی روایت نہیں لیتے تھے جن کے عقائد میں یہ خود کلام کرتے تھے ؟

ڈاکٹر زبیر لکھتے ہیں

ان کے افکار ونظریات پر بہت اچھا محاکمہ ڈاکٹر عبد اللہ دامانوی صاحب نے اپنی کتاب “عذاب قبر کی حقیقت” میں کیا ہے۔ اسی طرح مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب “عذاب قبر کا بیان” میں ان کا عمدہ تعاقب کیا ہے۔ مزید مولانا ارشد کمال صاحب کی “المسند فی عذاب القبر” بھی ان کے رد میں اچھی کتاب ہے۔ اچھا یہ فرقہ عذاب قبر کو مانتا ہے لیکن اس دنیاوی قبر میں عذاب کو نہیں مانتا بلکہ برزخی قبر میں عذاب کو مانتا ہے۔ ایک عامی جب ان کا لٹریچر پڑھتا ہے تو متاثر ہو جاتا ہے لیکن جب پڑھنے کے بعد دوسری طرف کے لٹریچر کا بھی مطالعہ کرے گا تو تحقیق کی سطحیت واضح ہو جائے گی۔

حقیقت میں ڈاکٹر عثمانی کے ناقدین میں جو اہل حدیث علماء ہیں وہ وہ ہیں جو بھانت بھانت کے عقیدے عذاب قبر کے باب میں رکھتے ہیں مثلا

١- عود روح بالکل نہیں ہو گا (قاری خلیل رحمان ، کتاب پہلا زینہ)
٢- روح جسم سے جڑے گی اور تعلق ہو گا جس میں روح جسم سے نکلے گی اور جب چاہے واپس بھی آئے گی ( فتاوی ابن تیمیہ، کتاب الروح از ابن قیم ، فتح الباری از ابن حجر، وہابی علماء، زبیر علی زئی بعض مواقع پر ) یعنی بار بار عود روح ممکن ہے
٣- روح ، جنت یا جہنم میں ہی رہے گی لیکن قبر میں جسد سے تعلق ہو گا ( نورپوری کا  مضمون ، مقالات از زبیر علی زئی )
٤- کچھ کہتے ہیں مردہ جسد کو عذاب ہو گا بلا روح اور عود روح صرف ایک دفعہ ہو گا (مثلا کتاب الدین الخالص از ابو جابر دامانوی اور کتاب المسند فی عذاب القبر از ارشد کمال )

جب ایک عامی ان تمام کی کتب پڑھتا ہے تو مزید کنفیوز ہو جاتا ہے – ان کی حقیقت کے لئے راقم کی کتاب اثبات عذاب قبر و رد عقیدہ عود روح بہت ہے  اس میں ان تمام مخالف  علماء کے عقائد حوالوں کے ساتھ درج ہیں اور قاری سمجھ سکتا ہے کون کیا فرما رہا ہے

لنک

ڈاکٹر زبیر لکھتے ہیں
عذاب قبر کے مسئلے کو اتنا بڑا اصولی اور عقیدے کا مسئلہ سمجھتے ہیں کہ صرف اس کی وجہ سے بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث تینوں کی تکفیر کرتے ہیں

راقم کہتا ہے اس جملے سے ظاہر ہے زبیر صاحب نے تفصیلی مطالعہ نہیں کیا ہے- عذاب قبر نہیں مسائل توحید  کی وجہ سے  اختلاف ہوا ہے  – تصوف کی بنیادوں میں اتحاد ثلاثہ موجود ہے یعنی حلول ، وحدت الوجود ، وحدت الشہود – مختصرا یہ جھمی عقائد ہیں جو محدثین میں امام احمد کے نزدیک بھی کفر ہے – یہ عقائد بریلوی، دیوبندی فرقوں میں تصوف کی وجہ سے موجود ہیں – اشعار میں منصور حلاج جو حلول کا قائل تھا  اس کی تعریف کرنا  اردو شاعری میں معروف ہے – جو چیز عراق میں کفر تھی وہ پاکستان میں آ کر خالص توحید کس طرح بن جاتی ہے یہ زبیر صاحب ہی بتا سکتے ہیں

اہل حدیث فرقے پر عثمانی صاحب کا رد بنیادی طور پر توحید کی وجہ سے ہے – توحید قرانی کے مطابق تمام معاملات و عمل مخلوق اللہ تعالی پر پیش ہوتا ہے – کسی اور پر عمل پیش ہونا غیر قرانی و توحید باری کے مخالف ہے اس وجہ سے عرض عمل کی روایات کو عثمانی صاحب نے رد کیا – لا محالہ ابن تیمیہ و اہل حدیث فرقے پر زد پڑی کیونکہ انہوں نے درود کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کرا کر علم غیب کا میں نقب لگا دی

ڈاکٹر زبیر لکھتے ہیں کہ

عثمانی صاحب کے نزدیک قبر سے مراد دنیاوی قبر نہیں بلکہ برزخی قبر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم یہ مان لیں کہ مردہ قدموں کی چاپ سنتا ہے، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس درود شریف پڑھا جائے تو آپ سنتے ہیں، یا مردے کے جسم میں سوال وجواب کے وقت روح اس میں لوٹائی جاتی ہے اور منکر نکیر اس دنیاوی قبر میں اس سے سوال پوچھتے ہیں تو اس سے قبر کی زندگی ثابت ہو جاتی ہے۔ اور قبر میں مردے کو زندہ مان لیا گیا تو کفر اور شرک ہو جائے گا۔

اس جملہ پر زبیر صاحب نے خود غور نہیں کیا – جب آپ نے مان لیا کہ دنیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم درود و سلام مسلسل پڑھا جا رہا ہے اور وہ ان پر مسلسل پپیش ہو رہا ہے تو اسی کی بنیاد پر علماء قبر میں رسول اللہ کی حیات دائمی کے قائل ہیں – لنک
عثمانی کہتے ہیں الحی تو صرف اللہ تعالی ہے – کوئی حیات دائمی کیسے حاصل کر سکتا ہے ؟ فرقوں میں دیگر نصوص سے یہ بھی کشید کیا جاتا ہے کہ تمام اولیاء قبروں میں زندہ ہیں – سنتے ہیں ، نماز پڑھتے ہیں ، یہاں تک کہ بریلوی کہتے

ہیں امہات المومنین قبر نبوی میں رسول اللہ تک جاتی ہیں -اس سب کو حیرت ہے کہ زبیر صاحب کیسے بھول گئے ؟

ڈاکٹر  زبیر  صاحب  لکھتے ہیں  کہ

ان کا نام “برزخی فرقہ” اس لیے پڑا کہ ان کے افکار ونظریات میں سے بنیادی ترین نظریہ یہی ہے 

زبیر صاحب نے علماء کی کتب کا مطالعہ نہیں  کیا  محض سنی سنائی  بیان کی ہے

تقسیم ہند سے قبل کے اہل حدیث مولانا ثناء الله امرتسری  فتاوی ثنائیہ صفحہ 292  میں جواب دیتے ہیں

 

فرقہ اہل حدیث کے عالم اسمعیل سلفی نے کتاب حیات النبی میں پاکستان میں  سب سے پہلے برزخی جسم کا ذکر کیا  ملاحضہ کریں

دوسرا مسلک یہ ہے کہ برزخ سے ان ارواح کو مماثل اجسام دیے گئے اور ان اجسام نے بیت المقدس میں شب اسراء میں ملاقات فرمائی

 

الوسی باقاعدہ برزخی جسم کا لفظ استمعال کرتے ہیں مولانا سلفی ترجمہ کرتے ہیں

 

اس وقت تک عثمانی صاحب  نے کوئی کتاب نہیں  لکھی تھی

سوال یہ ہے کہ  عثمانی صاحب جو  توحید پیش  کرتے ہیں اس   میں خامی  کیا  ہے ؟   اہل حدیث  اس کا جواب اس  طرح دیتے ہیں کہ  بلا شبہ یہ توحید قرآن سے اخذ  کردہ ہے کہ مزارت پر شرک ہو رہا ہے  لیکن اس کی جڑ نظریہ  حیات فی القبر صحیح نہیں  بلکہ مسئلہ  مردے کے سننے کا ہے – دوسری طرف  امام ابن تیمیہ کا   کہنا  ہے کہ مردہ  سنتا ہے اور امام عبد الوہاب النجدی  کا  فرمانا  ہے کہ مردہ  نہ صرف سنتا بلکہ  دیکھتا   بھی ہے

بعض اہل حدیث کہتے ہیں شرک،  مردہ کا سننا ہے- راقم کہتا ہے تو یہ فتوی تو امام ابن تیمیہ و ابن قیم و ابن کثیر و تمام وہابی علماء پر جاتا ہے عبد الرحمن کیلانی صاحب نے صاف لفظوں میں کتاب روح، عذاب قبر اور سماع موتیٰ صفحہ ۱۰۹ پر اقرار کیا کہ

اب دیکھئے جہاں تک شرک کی اصل بنیاد کے استیصال کا تعلق ہے ، ہم بدل و جان عثمانی صاحب کے ساتھ ہیں۔ اختلاف صرف یہ ہے کہ وہ شرک کی اصل بنیاد اس دنیاوی قبر میں عذاب ِقبر کا اثبات اور حیات فی القبر کو قرار دیتے ہیں جبکہ ہم شرک کی اصل بنیاد سماع موتیٰ کا علی الاطلاق وقوع کو قرار دیتے ہیں۔۔۔ لہٰذا ہماری گزارش ہے کہ آپ حضرات اپنی جملہ مساعی سماع موتیٰ کی تردید میں صرف کیجئے۔ 

قارئین  سمجھ سکتے ہیں کہ عقائد  پسند  نا  پسند  پر نہیں بلکہ نصوص قرانی  پر منبی ہوتے ہیں لہذا  قرآن سے تقابل کریں

اور سمجھیں کہ کون جق پر ہے  عثمانی   صاحب کی حق کی پکار  یا  فرقوں کی خاندانی نوعیت کی  پشت پناہیاں

 

کسی خاص قبر پر جانا

عثماني صاحب نے کتاب مزار يہ ميلے ميں لکھا

کچھ دوسرے لوگ کہتے ہيں کہ ہم فلاں بزرگ کے مزار پر جاتے ہيں تو اس لئے جاتے ہيں کہ آپ کے مزار کي زيارت کي بڑي فضليت ہے – يہ بات بھي صحيح نہيں ہے کيونکہ عام قبروں کي زيارت مستحب ہے مگر کسي خاص قبر کي زيارت حتي کہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم کي قبر کي زيارت کے سلسلے کي جتني روايات ہيں وہ ضعيف ہيں – ان کے متعلق ائمہ حديث کا فيصلہ ہے کہ وہ موضوع يعني گھڑي ہوئي ہيں ايک حديث بھي صحيح نہيں … رہا قبر نبوي تک جانا تو يہ کام نہ صحابہ نے کيا ہے نہ تابعين نے

راقم کہتا ہے حج کے بعد زيارت قبر النبي سے متعلق تمام روايات پر ائمہ حديث کا جرح کا کلام ہے – ان روايات کو رد کيا گيا ہے ليکن جہاں تک عثماني صاحب کا يہ قول ہے کہ قبر نبي تک کوئي صحابي يا تابعي نہيں گيا تو يہ صحيح نہيں ہے کيونکہ متعدد تابعين نے حجرہ عائشہ تک کا قصد کيا ہے اور ام المومنين سے احاديث کو سنا ہے – قبر النبي حجرہ عائشہ رضي اللہ عنہا ميں ہي ہے – لہذا درست قول يوں ہوتا کہ صرف زيارت قبر النبي کے مقصد سے قبر نبوي تک جانا تو يہ کام نہ صحابہ نے کيا ہے نہ تابعين نے

بعض لوگوں نے موقف اختیار کیا کہ زیارت القبور فی المقابر جائز ہے یعنی اگر قبرین ، قبرستان میں ہوں تو صرف اس صورت میں ان کی زیارت کی جا  سکتی ہے – یہ محض گمان ہے

احناف میں الآثار لمحمد بن الحسن میں ہے
مُحَمَّدٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَةَ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَنْ رَأَى قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَبْرَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا مُسَنَّمَةً نَاشِزَةً مِنَ الْأَرْضِ عَلَيْهَا فَلَقٌ مِنْ مَدَرٍ أَبْيَضَ [ص:185]، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهِ نَأْخُذُ يُسَنَّمُ الْقَبْرُ تَسْنِيمًا، وَلَا يُرَبَّعُ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
امام محمد نے امام ابو حنیفہ سے روایت کیا انہوں نے حماد سے انہوں نے ابراہیم نخعی سے کہ ان کو اس نے خبر دی جس نے قبر النبی کو دیکھا اور ابو بکر و عمر کی قبر کو دیکھا

اس روایت کو امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام محمد نے بیان کیا ہے یعنی کوئی گیا اور اس نے جا کر قبر النبی کو دیکھا کہ کس طرح کی تھی – ظاہر ہے جب تک ان خاص قبروں کی زیارت نہ ہو تو معلوم ہی نہ ہو پائے گا کہ قبروں کی شکل کس نوعیت کی تھی

اسی کتاب میں امام محمد نے روایت کیا
مُحَمَّدٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَةَ، قَالَ حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ بْنُ مَرْثَدٍ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ الْأَسْلَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «نَهَيْنَاكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَزُورُوهَا، وَلَا تَقُولُوا هُجْرًا؛ فَقَدْ أُذِنَ لِمُحَمَّدٍ فِي زِيَارَةِ قَبْرِ أُمِّهِ، وَعَنْ لَحْمِ الْأَضَاحِيِّ أَنْ تُمْسِكُوهُ فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ، فَأَمْسِكُوهُ مَا بَدَا لَكُمْ، وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّا إِنَّمَا نَهَيْنَاكُمْ لِيَتَّسِعَ  مُوسِعُكُمْ عَلَى فَقِيرِكُمْ، وَعَنِ النَّبِيذِ فِي الدُّبَّاءِ وَالْحَنْتَمِ وَالْمُزَفَّتِ، فَانْتَبِذُوا فِي كُلِّ ظَرْفٍ فَإِنَّ ظَرْفًا لَا يُحِلُّ شَيْئًا وَلَا يُحَرِّمُهُ [ص:314]، وَلَا تَشْرَبُوا الْمُسْكِرَ» قَالَ مُحَمَّدٌ:  وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ، لَا بَأْسَ بِزِيَارَةِ الْقُبُورِ لِلدُّعَاءِ لِلْمَيِّتِ وَلِذِكْرِ الْآخِرَةِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
بُرَيْدَةَ الْأَسْلَمِيِّ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے تم کو قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا ، اب قبروں کی زیارت کرو اور هُجْر نہ بولو – کیونکہ محمد کو قبر ماں (آمنہ ) کی زیارت کی اجازت ملی – اور میں نے قربانی کے گوشت سے منع کیا تھا کہ اس کو رکھو، تو اب اس کو رکھو … امام محمد نے کہا ہم یہ سب کہتے ہیں کہ زیارت قبور میں کوئی برائی نہیں ہے میت پر دعا کے لئے اور آخرت کے ذکر کے لئے اور یہی امام ابو حنیفہ کا  قول ہے

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی ماں کی قبر پر جانا سلف امت امام محمد ، امام ابو حنیفہ ، کے لئے دلیل بنا کہ قبروں کی زیارت پر جا سکتے ہیں

اصحاب رسول رضي الله عنہم ميں کوئي بھي سماع النبي عند القبر کا قائل نہيں تھا – سب جانتے تھے کہ وفات النبي ہو چکي ہے – ابن عمر رضي اللہ  عنہ واقعہ حرہ کے وقت مدينہ ميں تھے ليکن مدينہ ميں حالات کي خرابي کي وجہ سے مکہ منتقل ہو گئے – وہاں ابن زبير خليفہ ہوئے اور ايک دور ميں ابن زبير کي حکومت حجاز ميں مکمل تھي – اس کے بعد ابن عمر رضي اللہ عنہ مدينہ بھي ذاتي کاموں کے مقصد سے جاتے تھے اور جب سفر کر کے وہاں پہنچتے تو قبر النبي صلي اللہ عليہ وسلم پر جا کر درود کہتے تھے

موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني ميں ہے
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ «كَانَ إِذَا أَرَادَ سَفَرًا، أَوْ قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ جَاءَ قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى عَلَيْهِ، وَدَعَا ثُمَّ انْصَرَفَ» . قَالَ مُحَمَّدٌ: هَكَذَا يَنْبَغِي أَنْ يَفْعَلَهُ إِذَا قَدِمَ الْمَدِينَةَ يَأْتِي قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
عبد الله بن دينار المتوفي 127 ھ نے کہا کہ ابن عمر جب سفر کا ارادہ کرتے اور سفر سے اتے تو قبر نبي صلي الله عليہ وسلم تک جاتے اور وہاں درود پڑھتے اور  دعا کرتے پھر جاتے
امام محمد نے کہا : يہ اس طرح ہونا چاہيے کہ جب وہ مدينہ (سفر کر کے ) جاتے ہوں تب قبر نبي صلي الله عليہ وسلم پر آتے ہوں

امام محمد نے ايسا کہا کيونکہ ابن عمر رضي الله عنہ مدينہ سے مکہ منتقل ہو گئے تھے – موطا کي اور اسناد عن: معن والقعنبي، وابن بكير، وأبي مصعب. وقال
ابن وهب ميں ہے ثم يدعو لأبي بكر وعمر
پھر ابن عمر رضي الله عنہ ، ابو بکر اور عمر کے لئے دعا کرتے

امام مالک اور ان کے شاگرد امام محمد جو امام ابو حنيفہ کے شاگرد بھي تھے – قبر النبي ، مسجد النبي کا حصہ نہيں بلکہ حجرہ عائشہ کا حصہ ہے  متعدد تابعين نے اس حجرہ کا قصد کيا اور ام المومنين عائشہ رضي اللہ عنہا سے اکتساب علم کيا ہے لہذا حجرہ عائشہ تک جانا بدعت و کفر قرار نہيں  ديا جا سکتا – اگر کوئي قبر النبي تک بلا کسي نيکي کے تصور سے جائے تو اس ميں کوئي قباحت نہيں ہے – جس طرح انسان کسي بھي قبر پر جا کر دعا  سلامتي کرتا ہے اسي طرح قبر النبي پر جا کر درود پڑھے گا کيونکہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کے امت کو دعا اسي انداز ميں سکھائي گئي ہے – واضح رہے کہ اس دعائے درود کو پڑھنا ، يہ ثابت نہيں کرتا کہ اس کو کہنے والا سماع کا عقيدہ رکھتا ہے – يہ ثابت ہے کہ ابن عمر رضي اللہ عنہ نے  اس درود کو پڑھا ہے اور وہ يقينا سماع الموتي کا عقيدہ نہيں رکھتے تھے

موطا کے بعض نسخوں ميں ہے
وحدثني عن مالك، عن عبد الله بن دينار، قال: رأيت عبد الله بن عمر «يقف على قبر النبي صلى الله عليه وسلم، فيصلي على النبي صلى الله عليه وسلم، وعلى  أبي بكر وعمر
عبد اللہ بن دينار نے کہا ميں نے ابن عمر کو ديکھا وہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم کي قبر پر رکتے پھر نبي صلي اللہ عليہ وسلم پر درود کہتے اور ابو بکر اور عمر پر بھي درود کہتے

اس روايت پر اختلاف الفاظ ہے کہ کيا عمر و ابو بکر رضي اللہ عنہما پر بھي درود کہتے تھے يا دعا کرتے تھے

عن: معن والقعنبي، وابن بكير، وأبي مصعب. وقال ابن وهب: ثم يدعو لأبي بكر وعمر.
موطا کے راوي معن اور القعنبي اور ابن بكير اور أبي مصعب. کہتے ہيں پھر ابو بکر و عمر کے لئے دعا کرتے

وقال روح بن عبادة: ثم يسلم على أبي بكر وعمر.
اور روح بن عبادة کي سند سے ہے کہ ابو بکر و عمر پر سلام کہتے

وقال أيوب بن صالح: يقف على قبر النبي ويدعو لأبي بكر وعمر.
اور أيوب بن صالح کي سند سے ہے کہ قبر نبوي پر رکتے اور ابو بکر و عمر کے لئے دعا کرتے

ابن عمر ارادہ سفر پر ايسا کرتے تھے اور سندوں سے بھي معلوم ہے مثلا موطا سے باہر کتب ميں بھي اس کو روايت کيا گيا ہے

حماد بن زيد، عن أيوب، عن نافع “أن ابن عمر كان إذا قدم من سفر دخل المسجد ثم أتى القبر فقال: السلام عليك يا رسول الله، السلام عليك يا أبا بكر، السلام عليك  يا أبتاه”.

ان الفاظ ميں اختلاف اس پر ہے کہ ابو بکر و عمر پر درود کہا جا سکتا ہے يا نہيں ؟

غير نبي کے لئے صلي اللہ کے الفاظ کہنا سنت النبي سے ثابت ہيں – حديث ابن ابي اوفي ميں ہے
اللهم صل على آل أبي أوفى
اے اللہ ال ابي اوفي پر درود بھيج

لہذا اگر وہ صلي علي ابو بکر و عمر کہتے تھے تو يہ سنت سے معلوم ہے – دوسرا مسئلہ جو امام مالک کے سامنے پيش ہوا وہ يہ تھا کہ کيا اہل مدينہ کا  آجکل کا عمل درست ہے جو سفر سے انے يا سفر پر جاتے وقت تو قبر النبي پر درود نہيں کہتے بلکہ جمعہ کے دن ميں وہاں جمع ہو جاتے ہيں

الصَّارِمُ المُنْكِي في الرَّدِّ عَلَى السُّبْكِي از شمس الدين محمد بن أحمد بن عبد الهادي الحنبلي (المتوفى: 744هـ) ميں ہے

وقال مالك في المبسوط أيضاً، ولا بأس لمن قدم من سفر أو خرج إلى سفر أن يقف على قبر النبي صلى الله عليه وسلم فيصلي عليه ويدعو له ولأبي بكر وعمر قيل  له: فإن ناساً من أهل المدينة يقدمون من سفر ولا يريدون يفعلون ذلك في اليوم مرة أو أكثر، وربما وقفوا في الجمعة أو الأيام المرة والمرتين أو أكثر عند القبر فيسلمون ويدعون ساعة، فقال: لم يبلغني هذا عن أهل الفقه ببلدنا وتركه واسع، ولن يصلح آخر هذه الأمة إلا ما أصلح أولها، ولم يبلغني عن أول هذه الأمة وصدرها أنهم كانوا  يفعلون ذلك، ويكره إلا لمن جاء من سفر أو أراده

امام مالک نے المبسوط ميں فرمايا کوئي برائي نہيں کہ کوئي جو سفر سے آيا ہو يا سفر پر نکل رہا ہو ہو قبر النبي صلي اللہ عليہ وسلم پر رکے اور درود کہے اور ابو بکر و عمر پر دعا کرے – ان سے کہا گيا اہل مدينہ ميں لوگ ہيں جو سفر سے اتے ہيں اور وہ يہ کام نہيں کرنا چاہتے اور کبھي کبھار وہ جمعہ ميں قبر پر رکتے ہيں اور بعض دنوں ميں ايک يا دو بار اور ايک ساعت تک قبر پر درود کہتے ہيں – امام مالک نے کہا اس امت کي اصلاح نہ ہو گي مگر جيسي پہلوں کي ہوئي اور اس امت کے پہلے والے اس کام (قبر النبي پر رکنا اور درود کہنا ) کو صرف سفر سے انے پر يا ارادہ سفر پر کرتے تھے

يعني جو (مدينہ کا باسي) مدينہ سے سفر کي غرض سے باہر نکل رہا ہو يا اس ميں سفر کر کے داخل ہوا ہو اس کے لئے يہ گناہ کي بات نہيں کہ قبر النبي تک جائے اور درود پڑھے ليکن خاص اسي مقصد کے لئے دور دراز سے مدينہ تک کا سفر کرنا سنت اصحاب رسول نہيں تھا

اسی طرح کسی خاص قبر کی زیارت کی دلیل میں جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی ہے کہ انہوں نے عبد اللہ بن عمرو بن حرام رضی اللہ عنہ کو ان کی  قبر سے نکالا اور دوسرے مقام پر قبر دی – ظاہر ہے یہ سب کرنا ممکن نہیں جب تک اس قبر تک نہ جایا جائے

آٹھويں صدي ہجري ميں امام ابن تيميہ نے اس پر فتوي ديا تھا کہ اہل شام کا سفر کر کے خاص مدينہ قبر النبي کو ديکھنے کي غرض سے جانا بدعت ہے   ليکن اس ميں دليل ابن تيميہ نے اس روايت کو بنايا کہ تمہارا درود مجھ تک پہنچتا ہے جبکہ يہ روايت ثابت نہيں تھي – اسي طرح ابن تيميہ نے اس روايت کو دليل بنايا کہ

حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لاَ تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلاَثَةِ مَسَاجِدَ: المَسْجِدِ الحَرَامِ، وَمَسْجِدِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَسْجِدِ الأَقْصَى
سواري نہ کسي جائے مگر تين مسجدوں کے لئے ايک مسجد الحرام دوسري مسجد النبي اور تيسري مسجد الاقصي

اس حديث کا متن بھي شاذ ہے کيونکہ مسجد الاقصي اصحاب رسول کو معلوم نہيں تھي کہ کہاں ہے ، کس مقام پر ہے؟ تو ظاہر ہے کوئي مسجد اقصي  کے سفر کا قصد کر ہي نہيں سکتا تھا – خود نبي صلي اللہ عليہ وسلم سواري پر مسجد قبا تک جاتے تھے جو اس دور ميں مدينہ کے مضافات ميں مدينہ  سے باہر کي مسجد سمجھي جاتي تھي اور وہاں امام بھي سالم رضي اللہ عنہ کو مقرر کيا گيا تھا

صحيح بخاري ميں ہے
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ، أَنَّ نَافِعًا، أَخْبَرَهُ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَخْبَرَهُ قَالَ: «كَانَ سَالِمٌ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ يَؤُمُّ المُهَاجِرِينَ الأَوَّلِينَ، وَأَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسْجِدِ قُبَاءٍ فِيهِمْ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَأَبُو سَلَمَةَ، وَزَيْدٌ، وَعَامِرُ بْنُ رَبِيعَةَ

موطا ميں ہے کہ دور نبوي ميں
كَانَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ يَؤُمُّهُمْ فِي مَسْجِدِ قُبَاءٍ
ايک انصاري مسجد قباء ميں امامت کرتے تھے

صحيح بخاري ميں ہے
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِي مَسْجِدَ قُبَاءٍ كُلَّ سَبْتٍ، مَاشِيًا وَرَاكِبًا
نبي صلي اللہ عليہ وسلم ہر ہفتہ کو سواري پر يا پيدل مسجد قبا جاتے تھے

اصحاب رسول بھي ايسا کرتے مثلا صحيح بخاري ميں ہے کہ ابن عمر رضي اللہ عنہ پر ہفتے مسجد قباء جاتے تھے
فَإِنَّهُ كَانَ يَأْتِيهِ كُلَّ سَبْتٍ

اس طرح معلوم ہوا کہ سواري کسي بھي مسجد کے لئے کسي جا سکتي ہے اور لا تشد الرحال والي روايت شاذہ پر خود نبي صلي اللہ عليہ وسلم کا اور  ان کے اصحاب کا عمل نہيں ہے

رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے اپني ماں کي قبر تک گئے اور امام نسائي اس پر زيارت قبر مشرک کا باب قائم کيا ہے -کسي بھي قبرستان ميں مسلمان موت کو ياد کرنے داخل ہو سکتے ہيں – اب بحث اس ميں ہے کہ کيا کوئي مومن اپنے ماں باپ کي قبر پر جا سکتا ہے تو شرع ميں اس پر کوئي قباحت نہيں ہے کہ اس کو کفر و شرک قرار ديا جائے

مزارات وہ عمارتین ہیں جو صوفیاء کے اولیاء سے منسوب ہیں – وہاں ان اولیاء کے حوالے سے غلو پر مبنی کلام ہوتا ہے جس کو قوالی کہتے ہیں – پرستش کے مماثل کلمات ادا کیے جاتے ہیں – شان میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں – شرع میں قبر دیکھنے جانے پر کوئی پابندی نہیں ہے لیکن مزارات کا ماحول ایمان کشا ہے – شرع میں خود اپنے آپ کو فتنہ میں ڈالنا منع ہے

مباہلہ کرنے کي بدعت

اہل سنت ميں المقريزي (المتوفى: 845هـ) کي کتاب إمتاع الأسماع بما للنبي من الأحوال والأموال والحفدة والمتاع کے مطابق رمضان سن 9 ہجري سے پہلے
اہل نجران کا نصراني وفد مدينہ آيا – السيرة النبوية لابن هشام يا سيرت ابن اسحق کے مطابق يہ وفد سن 9 ہجري ميں آيا – وفد نجران نصراني علماء پرمشتمل تھا جو رسول عربي محمد صلي اللہ عليہ وسلم سے ملنے آيا تھا اور الوہيت باري تعالي پر کلام کرنا چاہتا تھا اور جزيہ نہيں دينا چاہتا تھا جس کا حکم سورہ المائدہ ميں درج ہے

اس وقت تک سورہ ال عمران کي جنگ احد سے متعلق آيات نازل ہو چکي تھيں ليکن آيات مباہلہ ابھي تک اس ميں درج نہيں کي گئي تھي – نصراني وفد رسول اللہ پر جب ايمان نہ لايا تو ان کو آخري حد دي گئي کہ اگر وہ سمجھتے ہيں کہ وہ حق پر ہيں تو پھر بد دعا کريں اہل ايمان و رسول اللہ کے لئے اور رسول اللہ اور اہل ايمان بد دعا کريں گے نصرانيوں کے لئے – اس ميں دونوں جانب سے لوگ اپنے گھر والوں کے ساتھ آئيں گے ، ميدان ميں جمع ہوں گے اوربد دعا کي جائے گي

سورہ ال عمران کي آيات 59 تا 61 ہيں

اِنَّ مَثَلَ عِيسى عِنْدَ اللّـهِ كَمَثَلِ ادَمَ خَلَقَه مِنْ تُرَابٍ ثُـمَّ قَالَ لَـه كُنْ فَيَكُـوْنُ (59)
بے شک عيسي کي مثال اللہ کے نزديک آدم کي سي ہے، اسے مٹي سے بنايا پھر اسے کہا کہ ہو جا پھر ہو گيا

اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُنْ مِّنَ الْمُمْتَـرِيْنَ (60)
حق وہي ہے جو تيرا رب کہے پھر تو شک کرنے والوں ميں سے نہ ہو

فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ
اپنے بيٹوں کو لاو اور اپني عورتوں کو لاو

پھر جو کوئي تجھ سے اس واقعہ ميں جھگڑے بعد اس کے کہ تيرے پاس صحيح علم آچکا ہے تو کہہ دے کہ آؤ ہم اپنے بيٹے اور تمہارے بيٹے اور اپني عورتيں اورتمہاري عورتيں اور اپني جانيں اور تمہاري جانيں بلائيں، پھر سب التجا کريں اور اللہ کي لعنت ڈاليں ان پر جو جھوٹے ہوں

روايات ميں ہے کہ 60 مرد نجران سے آئے تھے ان ميں عورتيں نہ تھيں لہذا مباہلہ اسي صورت ہوتا کہ يہ واپس جا کر اپنے اہل و عيال کو لاتے لہذا جب يہ بات يہاں تک پہنچي تو نصراني ڈر گئے اور انہوں نے جزيہ دينا قبول کيا – صحيح بخاري 4380 ميں ہے

حَدَّثَنِي عَبَّاسُ بْنُ الْحُسَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِسْرَائِيلَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ صِلَةَ بْنِ زُفَرَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حُذَيْفَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ جَاءَ الْعَاقِبُ، ‏‏‏‏‏‏وَالسَّيِّدُ صَاحِبَا نَجْرَانَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدَانِ أَنْ يُلَاعِنَاهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ:‏‏‏‏ لَا تَفْعَلْ، ‏‏‏‏‏‏فَوَاللَّهِ لَئِنْ كَانَ نَبِيًّا فَلَاعَنَّا لَا نُفْلِحُ نَحْنُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا عَقِبُنَا مِنْ بَعْدِنَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ إِنَّا نُعْطِيكَ مَا سَأَلْتَنَا، ‏‏‏‏‏‏وَابْعَثْ مَعَنَا رَجُلًا أَمِينًا وَلَا تَبْعَثْ مَعَنَا إِلَّا أَمِينًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ “لَأَبْعَثَنَّ مَعَكُمْ رَجُلًا أَمِينًا حَقَّ أَمِينٍ”، ‏‏‏‏‏‏فَاسْتَشْرَفَ لَهُ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ “قُمْ يَا أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ”، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا قَامَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ “هَذَا أَمِينُ هَذِهِ الْأُمَّةِ”.

مجھ سے عباس بن حسين نے بيان کيا، کہا ہم سے يحيي بن آدم نے بيان کيا، ان سے اسرائيل نے، ان سے ابواسحاق نے، ان سے صلہ بن زفر نے اور ان سےحذيفہ رضي اللہ عنہ نے بيان کيا کہ نجران کے دو سردار عاقب اور سيد، رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم سے مباہلہ کرنے کے ليے آئے تھے ليکن ايک نے اپنے دوسرے ساتھي سے کہا کہ ايسا نہ کرو کيونکہ اللہ کي قسم! اگر يہ نبي ہوئے اور پھر بھي ہم نے ان سے مباہلہ کيا تو ہم پنپ نہيں سکتے اور نہ ہمارے بعد ہماري نسليں رہ سکيں گي- پھر ان دونوں نے نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم سے کہا کہ جو کچھ آپ مانگيں ہم جزيہ دينے کے ليے تيار ہيں- آپ ہمارے ساتھ کوئي
امين بھيج ديجئيے، جو بھي آدمي ہمارے ساتھ بھيجيں وہ امين ہونا ضروري ہے- نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا کہ ميں تمہارے ساتھ ايک ايسا آدمي بھيجوں گا جو امانت دار ہو گا بلکہ پورا پورا امانت دار ہو گا- صحابہ رضي اللہ عنہم نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم کے منتظر تھے، آپ نے فرمايا کہ ابوعبيدہ بن الجراح! اٹھو جب وہ کھڑے ہوئے تو نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا کہ يہ اس امت کے امين ہيں

دور نبوي کے بعد قرون ثلاثہ تک کسي موقعہ پر بھي اس کے بعد اہل کتاب يا مشرکوں سے مباہلہ نہ کيا گيا – اس طرح اس پر اجماع امت ہو گيا کہ يہ مباہلہ کرنا صرف نبي صلي اللہ عليہ وسلم کے لئے خاص تھا

ابن حجر کتاب فتح الباری میں لکھتے ہیں

وَفِيهَا مَشْرُوعِيَّةُ مُبَاهَلَةِ الْمُخَالِفِ إِذَا أصر بعد ظُهُور الْحجَّة وَقد دَعَا بن عَبَّاسٍ إِلَى ذَلِكَ ثُمَّ الْأَوْزَاعِيُّ وَوَقَعَ ذَلِكَ لِجَمَاعَةٍ مِنَ الْعُلَمَاءِ
اس میں مباھلہ کی مشروعیت ہے کہ جب مخالف حجت کے ظاہر ہو جانے کے بعد بھی اصرار کرے اور ابن عباس نے اس کو طرف بلایا ہے پھر الْأَوْزَاعِيُّ نے اورعلماء کی ایک جماعت نے

سنن الکبری از بیہقی، سنن دارقطنی میں ہے
وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيُّ، وَأَبُو بَكْرٍ قَالَا: أنا عَلِيٌّ، نا يُوسُفُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ بُهْلُولٍ، نا جَدِّي، نا أَبِي، نا أَبُو جُزَيٍّ نَصْرُ بْنُ طَرِيفٍ عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: ” مَنْ شَاءَ بَاهَلْتُهُ أَنَّهُ لَيْسَ لِلْأَمَةِ ظِهَارٌ وَاللهُ أَعْلَمُ
ابن عباس نے کہا جو چاہے اس پر مباہلہ کرے کہ لونڈی کے حوالے سے ظِهَار نہیں ہے

اس کی سند میں أَبُو جُزَيٍّ نَصْرُ بْنُ طَرِيف متروک ہے

تفاسیر میں عکرمہ کا قول ہے کہ آیت
وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِيمًا
پر جو چاہے مباہلہ کرے کہ یہ ازواج النبی کے بارے میں ہے

راقم کہتا ہے کہ اس قول کی سند نہیں ہے خود عکرمہ مجروح ہے

الْأَوْزَاعِيُّ سے منسوب قول معلوم نہیں کہ کون سا ہے

دیو بندی انور کاشمیری فیض الباری میں کہتے ہیں
واعلم أن المُبَاهَلَةَ تَجُوزُ في المضايق الآن أيضًا
جان لو کہ مباہلہ اب بھی دل تنگ کرنے والی باتوں میں جائز ہے

راقم کہتا ہے مباہلہ کرنا صرف رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کے لئے خاص تھا اور انہوں نے بھي مباہلہ نہيں کيا کيونکہ نصراني ڈر کر بھاگ گئے تھے – يہ شان صرف رسول اللہ کي ہے کہ ان کا مخالف تباہ و برباد کر ديا جائے گا – امت محمد کے فرقوں کا اپس ميں ايک دوسرے سے مباہلہ کرنا احقانہ عمل ہے کيونکہ 73 فرقوں والي حديث ميں موجود ہے کہ امت کے کے گمراہ فرقے اور فرقہ الناجيہ ايک ساتھ رہيں گے نہ کہ گمراہ فرقے مباہلہ پر معدوم ہو جائيں گے

آٹھویں صدی سے قبل کوئی حوالہ نہیں ملا جس میں ہو کہ فرقے ایک دوسرے کو مباہلہ کے چیلنج دے رہے ہوں

============================================================================

The innovation of Mubahilah

The provided link is an article in Urdu. Here’s the translated content:

According to the book “Imta’ al-Asma’ bima li al-Nabi min al-Ahwal wa al-Amwal wa al-Hafada wa al-Mata'” by Al-Maqrizi (died 845 AH), a Christian delegation from Najran arrived in Medina before Ramadan in 9 AH. According to the biography of the Prophet by Ibn Hisham or Ibn Ishaq, this delegation arrived in 9 AH. The delegation consisted of Christian scholars who wanted to meet the Arab Prophet Muhammad (peace be upon him), discuss the divinity of God, and did not want to pay Jizya, which is mentioned in Surah Al-Ma’idah.

By this time, the verses related to the Battle of Uhud in Surah Al-Imran had been revealed, but the verses of Mubahila had not yet been included. When the Christian delegation did not believe in the Prophet, they were given a final chance: if they believed they were right, they should curse the believers and the Prophet, and the Prophet and the believers would curse the Christians. Both parties would come with their families, gather in the field, and curse each other.

Verses 59 to 61 of Surah Al-Imran are:

“Indeed, the example of Jesus to Allah is like that of Adam. He created Him from dust; then He said to him, “Be,” and he was. (59)
The truth is from your Lord, so do not be among the doubters. (60)
Then whoever argues with you about it after [this] knowledge has come to you – say, “Come, let us call our sons and your sons, our women and your women, ourselves and yourselves, then supplicate earnestly [together] and invoke the curse of Allah upon the liars [among us].” (61)

It is narrated that 60 men came from Najran, but there were no women among them, so Mubahila would have happened if they had gone back and brought their families. Therefore, when the matter reached this point, the Christians were scared and agreed to pay Jizya – it is in Sahih Bukhari 4380.

After the time of the Prophet, Mubahila was not performed with the People of the Book or the polytheists on any occasion until the first three centuries, so there was a consensus of the Ummah that this Mubahila was specific to the Prophet.

Ibn Hajar writes in the book Fath al-Bari:

“And in it is the legality of Mubahila with the opponent if he persists after the evidence has appeared, and Ibn Abbas has called for this, then Al-Awza’i, and this has happened for a group of scholars.”

It is in Sunan al-Kubra by Bayhaqi and Sunan Darqutni:

Ibn Abbas said: “Whoever wishes, I will Mubahila him that there is no Zihar for the Ummah, and Allah knows best.”

The chain of this narration has Nasr bin Tarif Abu Juzay, who is Matruk (rejected).

It is attributed to Al-Awza’i in the Tafsirs, but it is not known which one it is.

Deobandi Anwar Kashmiri says in Faid al-Bari:

“Know that Mubahila is permissible in distressing matters now as well.”

Author says that Mubahila was specific to the Prophet (peace be upon him), and he did not even perform Mubahila because the Christians were scared and ran away. This honor is only for the Prophet that his opponent will be destroyed. The sect

The provided link is an article in Urdu. Here’s the translated content:

According to the book “Imta’ al-Asma’ bima li al-Nabi min al-Ahwal wa al-Amwal wa al-Hafada wa al-Mata'” by Al-Maqrizi (died 845 AH), a Christian delegation from Najran arrived in Medina before Ramadan in 9 AH. According to the biography of the Prophet by Ibn Hisham or Ibn Ishaq, this delegation arrived in 9 AH. The delegation consisted of Christian scholars who wanted to meet the Arab Prophet Muhammad (peace be upon him), discuss the divinity of God, and did not want to pay Jizya, which is mentioned in Surah Al-Ma’idah.

By this time, the verses related to the Battle of Uhud in Surah Al-Imran had been revealed, but the verses of Mubahila had not yet been included. When the Christian delegation did not believe in the Prophet, they were given a final chance: if they believed they were right, they should curse the believers and the Prophet, and the Prophet and the believers would curse the Christians. Both parties would come with their families, gather in the field, and curse each other.

Verses 59 to 61 of Surah Al-Imran are:

“Indeed, the example of Jesus to Allah is like that of Adam. He created Him from dust; then He said to him, “Be,” and he was. (59)
The truth is from your Lord, so do not be among the doubters. (60)
Then whoever argues with you about it after [this] knowledge has come to you – say, “Come, let us call our sons and your sons, our women and your women, ourselves and yourselves, then supplicate earnestly [together] and invoke the curse of Allah upon the liars [among us].” (61)

It is narrated that 60 men came from Najran, but there were no women among them, so Mubahila would have happened if they had gone back and brought their families. Therefore, when the matter reached this point, the Christians were scared and agreed to pay Jizya – it is in Sahih Bukhari 4380.

After the time of the Prophet, Mubahila was not performed with the People of the Book or the polytheists on any occasion until the first three centuries, so there was a consensus of the Ummah that this Mubahila was specific to the Prophet.

Ibn Hajar writes in the book Fath al-Bari:

“And in it is the legality of Mubahila with the opponent if he persists after the evidence has appeared, and Ibn Abbas has called for this, then Al-Awza’i, and this has happened for a group of scholars.”

It is in Sunan al-Kubra by Bayhaqi and Sunan Darqutni:

Ibn Abbas said: “Whoever wishes, I will Mubahila him that there is no Zihar for the Ummah, and Allah knows best.”

The chain of this narration has Nasr bin Tarif Abu Juzay, who is Matruk (rejected).

It is attributed to Al-Awza’i in the Tafsirs, but it is not known which one it is.

Deobandi Anwar Kashmiri says in Faid al-Bari:

“Know that Mubahila is permissible in distressing matters now as well.”

Author says that Mubahila was specific to the Prophet (peace be upon him), and he did not even perform Mubahila because the Christians were scared and ran away. This honor is only for the Prophet that his opponent will be destroyed.  The sects of the Ummah of Muhammad have been challenging each other to Mubahila, which is   not a legitimate act because it is mentioned in the Hadith about 73 sects that the misguided sects and the saved sect will live together, not that the misguided sects will be annihilated by Mubahila.

There is no reference found before the 8th century where sects are challenging each other to Mubahila.

 

الدين النصيحة قسط اول

135 Downloads

رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا

   بلاشبہ دین نصیحت ہے ، ہم نے عرض کیا: کس کے لیے،  اللہ کے رسول؟  آپ نے فرمایا:  اللہ کے لیے، اس کی کتاب (قرآن) کے لیے، اس کے رسول (محمد) کے لیے، مسلمانوں کے امیروں   اور عام مسلمانوں  کے لیے

یعنی   نصیحت   کی  جائے  گی    اللہ   تعالی    کا  خوف   پیدا  کرنے  کے  لئے –   اس  کے رسول   کی اتباع   کا   حکم  کیا  جائے  گا –   اللہ   تعالی  کی کتاب   کی طرف  بلایا  جائے گا  –    یہ    نصیحت       مسلمانوں   کے   امیروں    کو  کی   جائے  گی  اور  عام  مسلمان  کو  سمجھایا  جائے  گا –   یہ  دین   کا  مقصد  ہے –

دین     اسلام    دنیا  کے باقی  ادیان  سے الگ  ہے –  یہ نصرانیت  نہیں ہے    جس کو  اللہ  تعالی    نے  باوجود  ابراہیم    سے تعلق  کے   کفر  قرار  دیا  ہے –  اسلام  ،  یہودیت   بھی  نہیں ہے    جس  میں   توریت    پر   عمل  پیرا  یہود  کو   کہا   جاتا ہے کہ     انہوں  نے  کتاب  اللہ کو  پیٹھ  پیچھے  پھینک  دیا ہے-    اس  طرح    ابراہیم  علیہ  السلام  سے تعلق   کے باوجود  یہ  مذاھب   صحیح    راستے پر نہیں تھے –   متبعین       احبار  و  رہبان     جہنم  کی نذر   ہو رہے تھے  باوجود یہ کہ  سخت  ریاضت  کرنے  والے  اور     درس  کتاب  و سنت  موسی  و عیسیٰ  بیان  کرنے والے تھے

اس  کتاب  میں ان تلبسات  کا ذکر ہے جو   دعوت  الی اللہ  کے حوالے سے    اسلامی فرقوں  نے ایجاد کی ہیں –    فرقوں   کے نزدیک   مشرک     کی شفاعت  ممکن ہے  ،  لا علمی  میں   کفر  کرنے والا   کافر  نہیں ،    انسانیت  کے وہ لوگ   جو  عجمی  ہیں   ان  پر اتمام  حجت   نہیں ہوا  کیونکہ ان کو عربی  نہیں آتی  وغیرہ

ان تلبیسات    پر   بحث    اس کتاب    میں    کی  گئی ہے –

عثمانی صاحب کی کتب کے تراجم

ڈاکٹر عثمانی رحمہ اللہ علیہ کے ساتھ بہت سے نیک اور پر خلوص  مومن تھے  – سب اردو بولنے والے نہیں تھے  بعض گجراتی ، عربی، سندھی ، پشتو   و فارسی سے واقف تھے – ان  لوگوں نے ان کی کتب  کا ترجمہ  کیا اور وہ مسجد  میں اگرچہ رکھا ہوا تھا لیکن  گرد آلود ہو رہا تھا – راقم کے دوست غلام اللہ صاحب نے  یہ کتب راقم کو سن ٢٠١٣  میں مہیا کیں اور  راقم نے ان کو  سکین  کرا   کر محفوظ   کر لیا تھا  – سن ٢٠١٣  میں جب اس ویب سائٹ  کا اجراء ہوا تو مواد کم تھا – اردو  میں صرف عثمانی صاحب کی کتب تھیں – راقم  کا مقصد  دعوت کو  انگریزی  میں  بیان کرنا تھا   لہذا  پہلے ا  انگریزی  میں  کتب لکھیں –  پھر  سوالات ہوئے تو اردو میں مواد جمع ہوتا رہا جس کو  پھر کتابی شکلوں میں لایا گیا –  بہر حال    آج کمپیوٹر میں  خرقه کو دیکھا تو  عثمانی صاحب  کی  ان کتب تراجم   کو موجود پایا اور اب ان کو عثمانی صاحب کی کتب کے سیکشن میں شامل کر دیا ہے 

ان کتب کو یہ سوچ  کر نہیں رکھا تھا کہ ممکن ہے ترجمہ میں غلطی ہو تو پہلے تصحیح ہو گی پھر رکھا جائے گا لیکن یہ نوبت نہ آئی-  اب چونکہ موت  کا دور دورہ ہے علم ضائع ہونے کا  خطرہ ہے-  قارئین جو اہل زبان ہوں وہ غلطیوں سے اگاہ کریں اور اگر ترجمہ کی صلاحیت رکھتے  ہوں تو ترجمہ کریں 

اللہ تعالی   ترجمہ کرنے والوں کی محنت کو قبول فرمائے  اور حقیقی  توحید کی طرف ہم کو رستہ دکھائے  

آمین 

اتمام حجت کون کرے گا ؟

اتمام حجت کون کرے گا ؟

بعض لوگوں نے موقف اختیار کیا کہ وہ حق واضح کر کے اتمام حجت کر رہے ہیں – راقم کہتا ہے اتمام حجت قرآن سے ہو چکا ہے، قرآن کی دنیا میں موجودگی کی وجہ سے اتمام حجت مسلسل ہو رہا ہے – جس نے قرآن سے دلیل لی تو قرآن حجت ہے لیکن کسی فرد کا یہ دعوی کہ وہ اتمام حجت کر رہا ہے درست موقف نہیں ہے

اتمام حجت لغوی طور پر ہے دلیل مکمل ہونا ہے – اصطلاحا اس کا ذکر انبیاء و رسل کے حوالے سے ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی قوموں پر اتمام حجت کر دیا اور اس کے بعد ان کی قوم یا تو ایمان لائی یا فنا ہو گئی – یہ الله کی سنت ہے جس میں تبدیلی نہیں ہے اس کا ذکر قرآن میں کیا گیا ہے کہ عذاب کا عمل اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک انبیاء اپنی قوموں کے بیچ ہوتے ہیں اور اس میں آسمانی عذاب یا زمینی جنگ سب ہو سکتا ہے-
سوره فاطر میں ہے
وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِنْ جَاءَهُمْ نَذِيرٌ لَيَكُونُنَّ أَهْدَى مِنْ إِحْدَى الْأُمَمِ فَلَمَّا جَاءَهُمْ نَذِيرٌ مَا زَادَهُمْ إِلَّا نُفُورًا (42) اسْتِكْبَارًا فِي الْأَرْضِ وَمَكْرَ السَّيِّئِ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ فَهَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِيلًا وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا (43) أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَكَانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعْجِزَهُ مِنْ شَيْءٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ إِنَّهُ كَانَ عَلِيمًا قَدِيرًا
اب اس سے منسلک بعض اور مباحث بھی ہیں- ورہ الاسراء میں ہے
وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا
أور هم عذاب نہیں کرتے یہاں تک نہ رسول نہ بھیج دیں
اول: بعض انبیاء کی قوموں کو معدوم کر دیا گیا کہ ان کی خبر تک نہیں کیونکہ وہ بیشتر کافر تھیں – وہ قومیں جو مکمل معدوم هو گئیں وہ وہ تھیں جن میں ایمان والے صرف چند لوگ تھے مثلا قوم نوح یا قوم ثمود یا عاد مکمل تباہ ہو گئیں- ان پر عذاب شدید آیا جس نے ان کی نسل کاٹ دی – قرآن میں اس کو جڑ کاٹنا کہا گیا ہے – سوره الانعام میں ہے
فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
پس ہم نے اس ظالموں کی قوم کی جڑ کاٹ دی اور تمام تعریف عالموں کے رب کی ہے
دوم : بعض انبیاء کی قوموں کو باقی بھی رکھا گیا مثلا بنی اسرائیل انبیاء کا قتل کرتے رہے لیکن باقی رہے کیونکہ ان میں ربانیین موجود تھے جو اللہ کی مغفرت طلب کرتے رہے – بنی اسرائیل کو باقی رکھا گیا کیونکہ یہ حامل کتاب الله قومیں تھیں ان میں تمام کافر نہ تھے مومن بھی تھے- بنی اسرائیل معدوم نہ ہوئے لیکن اللہ کے عذاب سے نہ بچ سکے – ان پر عذاب ان پر آیا جس میں ان کو غلام بنا لیا گیا

بعض لوگوں نے تطبیق کے لئے یہ رائے اختیار کی کہ نبی اور رسول میں فرق ہے – لیکن راقم اس رائے سے متفق نہیں ہے

حجت کیا ہے؟

الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ (82) وَتِلْكَ حُجَّتُنا آتَيْناها إِبْراهِيمَ عَلى قَوْمِهِ نَرْفَعُ دَرَجاتٍ مَنْ نَشاءُ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ

جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان میں شرک نہیں ملایا انہیں کے لیے امن ہے اور وہی راہ راست پر ہیں۔
[سورة الأنعام (6) : آية ٨٢]
دعوت اس طرح دی جائے کہ صحیح و غلط عقائد کا فرق واضح ہو جائے اور مخالف کا عقیدہ مشرکانہ ثابت ہو جائے تو یہ حجت ہے – مثلا ظلم یا شرک ، مشرک قوموں نے کیا لیکن اس کو گناہ سمجھتے ہوئے نہیں بلکہ نیکی سمجھتے ہوئے – اس میں انبیاء و رسل اور فرشتوں کا وسیلہ لینے والے مشرکین مکہ ہوں یا کواکب پرست ابراہیم علیہ السلام کی قوم ہو- ان سب پر اتمام حجت ہوا اور دلیل سے ثابت کیا گیا کہ یہ شرک کر رہے ہیں جو قوم مان بھی گئی اس کے بعد انہوں نے اس کو چھوڑا نہیں بلکہ توجیہ کی – آپ نے پڑھا ہو گا جب ابراہیم عليه ألسلام نے تمام اصنام کو توڑ کر ایک صنم چھوڑ دیا اور قوم سے کہا اس سے کلام کرو تو اس وقت کا سورہ انبیاء میں اس طرح ذکر ہے
قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا فَاسْأَلُوهُمْ إِنْ كَانُوا يَنْطِقُونَ (63) فَرَجَعُوا إِلَى أَنْفُسِهِمْ فَقَالُوا إِنَّكُمْ أَنْتُمُ الظَّالِمُونَ
کہا یہ ان بتوں کے سب سے بڑے بت کا کام ہے ، اس سے پوچھو اگر یہ جواب دے ، پس وہ اپنے نفس کی طرف پلٹے اور (ایک دوسرے کو ) کہنے لگے تم لوگ ظالم ہو
قوم مان گئی کہ وہ مشرک ہے- یہ اتمام حجت ہوا – یہ ابراھیم علیہ السلام نے کیا
یہی اتمام حجت نبی صلی الله علیہ وسلم نے مکہ والوں پر کیا – مشرکین نے اقرار کیا (سورہ الزمر)
أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ۚ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَىٰ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ
ہم ان کی عبادت اس لئے کر رہے ہیں کہ قرب الہی حاصل ہو- یہ اتمام حجت ہوا- انبیاء نے مخالف کو مشرک ثابت کر دیا جس کا اقرار قوم نہیں کر رہی تھی
یہاں اصطلاحات کو سمجھنا ضروری ہے – انبیاء کو ان کو قوم کی طرف بھیجا جاتا ہے – قوم میں سب کافر ہوتے ہیں پھر کچھ ایمان لاتے ہیں جو ایمان لاتے ہیں وہ قوم نہیں امت کہلاتے ہیں-اتمام حجت قوم پر ہوتا ہے امت پر نہیں-
امت سے مراد اہل قبلہ ہیں جن میں مسلمانوں کے تمام فرقے آتے ہیں لیکن ان میں بھی وقت کے ساتھ شرک کی تحلیل ہو جاتی ہے لہذا امت موسی میں آج یہودی ہیں اور امت عیسیٰ میں آج نصرانی ہیں اور امت محمد میں اس کے تمام فرقے ہیں – اتمام حجت انبیاء کر چکے اپنی اپنی قوموں پر اور قرآن کتاب الله سے انسانیت پر اب قیامت تک کے لئے اتمام حجت ہو چکا- حق ہم تک آ گیا ہے لہذا اب ہم قرآن پڑھیں گے اور دیکھیں گے کہ صحیح عقیدہ کیا ہے -کیا کوئی غلط عقیدہ تو اختیار نہیں کر رکھا – یہ اتمام حجت نہیں اصلاح عقائد ہے
سورہ انبیاء میں ہے
قُلْ فَلِلّـٰهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ۚ فَلَوْ شَآءَ لَـهَدَاكُمْ اَجْـمَعِيْنَ (149)
کہہ دو پس اللہ کی حجت پوری ہو چکی، سو اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت کر دیتا۔

قرآن میں ربانی اہل کتاب کا ذکر ہے یہ انبیاء نہیں تھے – دور فترت میں جب کوئی نبی نہیں تھا یعنی عیسیٰ اور محمد صلی الله علیھما کے درمیان کا دور تھا – اس وقت لوگ توریت و انجیل اگرچہ تبدیل شدہ تھی لیکن غور سے پڑھنے کی وجہ سے وہ صحیح عقیدہ رکھتے تھے جان چکے تھے کہ دین حق کو کہاں تبدیل کر دیا گیا ہے
ایک روایت میں ہے کہ قرآن تیرے لئے حجت ہے
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ، حَدَّثَنَا أَبَانُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، أَنَّ زَيْدًا، حَدَّثَهُ أَنَّ أَبَا سَلَّامٍ، حَدَّثَهُ عَنْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْعَرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تَمْلَأُ الْمِيزَانَ، وَسُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تَمْلَآَنِ – أَوْ تَمْلَأُ – مَا بَيْنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَالصَّلَاةُ نُورٌ، وَالصَّدَقَةُ بُرْهَانٌ وَالصَّبْرُ ضِيَاءٌ، وَالْقُرْآنُ حُجَّةٌ لَكَ أَوْ عَلَيْكَ، كُلُّ النَّاسِ يَغْدُو فَبَايِعٌ نَفْسَهُ فَمُعْتِقُهَا أَوْ مُوبِقُهَا»
ابو مالک اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’پاکیزگی نصف ایمان ہے ۔ الحمد لله ترازو کو بھر دیتا ہے ۔ سبحان الله اور الحمد لله آسمانوں سے زمین تک کی وسعت کو بھر دیتے ہیں ۔ نماز نور ہے ۔ صدقہ دلیل ہے ۔ صبر روشنی ہے ۔ قرآن تمہارے حق میں یا تمہارے خلاف حجت ہے ہر انسان دن کا آغاز کرتا ہے تو ( کچھ اعمال کے عوض ) اپنا سودا کرتا ہے ، پھر یا تو خود آزاد کرنےوالا ہوتا ہے خود کو تباہ کرنے والا ۔
یہ روایت ضعیف ہے سند میں سلام بن أبى سلام : ممطور ، الحبشى الشامى ہے جس کو مجھول کہا جاتا ہے اور اسکا سماع ابی مالک رضی الله عنہ سے نہیں ہے – ممطور أبو سلام الحبشي روى عن حذيفة وأبي مالك الأشعري وذلك في صحيح مسلم وقال الدارقطني لم يسمع منهما
دارقطنی کہتے ہیں اس کا سماع نہیں ہے
البتہ یہ متنا صحیح ہے انسانیت پر کتاب الله کی بنا پر حجت تمام ہو چکی جو آخری نبی صلی الله علیہ وسلم نے کی ہے
افسوس مسلک پرستوں نے قرآن کے خلاف موقف گھڑ لیا ہے کہ اتمام حجت افراد کا کام ہے – صرف آسمان سے کتاب اللہ نازل ہونے پر اتمام حجت نہیں ہوا ہے

بعض روایات کی تفہیم

78 Downloads

بعض روایات میں معاشرتی اختلاف مثلا گالم گلوچ، لڑنا جھگڑنا پر کفر کا لفظ وارد ہوا ہے ان کی صحیح تفہیم پر شارحین نے بحث کی
ہے – چونکہ متن میں کفر کا لفظ آیا ہے ان پر بحث ضروری ہے

مسلمان سے لڑنا کفر ہے ؟
مسلمان کو گالی دینا فسق ہے ؟
کسی او ر کو باپ بنانے والا کافر ہے
یہ کہنے کی حرمت کہ الله تعالی فلاں کو معاف نہ کرے گا
ایک جاہل کی وصیت
ذات انواط
اگلے پچھلوں پر لعنت کریں گے؟
آنے والے غلط تکفیر کریں گے؟

بعض تلبیسات باطلہ کا رد

93 Downloads
بعض علماء کے نزدیک ام المومینن عائشہ رضی اللہ عنہا کو اللہ کے علم کے حوالے سے صحیح عقیدے کا معلوم نہیں تھا – معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ غیر اللہ کو سجدہ کرتے تھے اور بدری صحابی شراب پیتے  ہوئے بعد وفات النبی پکڑے گئے – ان کی تلبیسات باطلہ کا رد اس مضمون میں کیا گیا ہے

ان کا مدعا یہ ہے کہ  عقائد و فہم کی غلطی پر  فتوی  نہیں  لگتا  جبکہ  یہ قول  قرآن سے  مطابقت  نہیں  رکھتا 

فہم الحجہ کی شرط

81 Downloads

بعض  علماء  کا موقف ہے  کہ جس شخص کو مکمل  فہم نہیں مثلا عربی نہیں آتی اس پر  اتمام  حجت نہیں ہو سکتا   اور  وہ مومن ہے – راقم  اس موقف کو رد کرتا ہے –  یہاں ان کی پیش  کردہ تلبیسات کا جائزہ  لیا جائے گا

حكم أهل الفترة

91 Downloads

  أهل الفترة (وقفہ) سے  وہ  لوگ  مراد  ہیں  جن کی طرف  نہ کوئی نبی آیا  نہ رسول آیا  مثلا   عیسیٰ  علیہ  السلام   اور  رسول  اللہ صلی اللہ علیہ  وسلم  کے درمیان  والے  لوگ – آج   لوگوں  نے  ان کو بھی اہل فتره  کہنا شروع کر دیا ہے  جو  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور  سے  لے کر  آج  تک پیدا ہو رہے ہیں  مثلا  افریقہ  یا  ایمیزون  کے  جنگلوں ، ہمالیہ  کے پہاڑوں اور اسی طرح کے دور دراز  مقامات  پر  بسنے  والے – راقم  کہتا  ہے یہ  لوگ  اہل فتره  میں سے نہیں ہیں

کتب دکتور عثمانی

کتاب ڈونلوڈ کرنے کا طریقہ

آپ پہلے انگریزی میں تحریر کردہ جملہ
I am not Robot
میں روبوٹ نہیں

پر کلک کریں – اس پر چند تصاویر نمودار ہوں گی- ان میں جو چیز پوچھی جائے ان تصاویر پر کلک کریں

اس کے بعد نیچے کنڈیشنز کے بوکس پر کلک کریں

اس سے ڈونلوڈ کا بٹن واضح ہو جائے گا

 

تعویذات  کا شرک

208 Downloads
208 Downloads

ગુજરાતી

  عربی  التمائم و التوله

111 Downloads

====================================================================

عذاب برزخ

 
188 Downloads

====================================================================

وفات ختم الرسل

 
150 Downloads

ગુજરાતી

====================================================================

وسیلے کا شرک

131 Downloads

====================================================================

فلاح کا راستہ

152 Downloads

====================================================================

ایمان خالص قسط اول ١

164 Downloads

ایمان خالص قسط اول ٢

123 Downloads

ایمان خالص قسط اول ٣

116 Downloads

 ایمان خالص قسط اول ٤ 

150 Downloads

ایمان خالص قسط اول ٥

131 Downloads

====================================================================

ایمان خالص قسط دوم ١

131 Downloads

ایمان خالص قسط دوم ٢

140 Downloads

التوحید الخالص عربی

104 Downloads

====================================================================

موازنہ مسند احمد و صحیح البخاری

231 Downloads

===================================================================

دعوت الی اللہ

122 Downloads

=============================================================

(راہ نجات (فارسی

100 Downloads

======================================================

مزار یا میلے  

 

116 Downloads

هذ ہ المقابر و العتبا ت جز الاول

114 Downloads

هذ ہ المقابر و العتبا ت جز الثانی

112 Downloads

==================================================

ڈاکٹر عثمانی کے جوابات

Dr. Usmani QA

6 Downloads