فَإِنَّهُنَّ الْغَرَانِيقُ الْعُلَى؟

قرآن کہتا ہے

أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الأُخْرَى أَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الأُنْثَى تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيزَى إِنْ هِيَ إِلا أَسْمَاءٌ سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بهَا من سُلْطَان

کیا تم نے اللَّاتَ، َالْعُزَّى اور ایک اور تیسری مَنَاةَ کو دیکھا؟ کیا تمہارے لئے تو ہوں لڑکے اور اس کے لئے لڑکیاں؟ یہ تو بڑی غیر منصفانہ تقسیم ہوئی! یہ تو صرف چند نام ہیں، جو تم نے اور تمہارے اباؤ اجداد نے رکھ دیے ہیں، الله کی طرف سے ان پر کوئی سند نہیں اتری

اللات طائف میں، العُزَّى مکہ میں اور مَنَاة مدینہ میں عربوں کی خاص دیویاں تھیں

الكلبي (المتوفى: 204هـ) کی کتاب الاصنام میں ہے

عرب طواف میں پکارتے

وَاللاتِ وَالْعُزَّى وَمَنَاةَ الثَّالِثَةِ الأُخْرَى … فَإِنَّهُنَّ الْغَرَانِيقُ الْعُلَى وَإِنَّ شفاعتهن لَتُرْتَجَى

اور اللاتِ اور الْعُزَّى اور ایک اور تیسری مَنَاةَ

یہ تو بلند پرند نما حسین (دیویاں) ہیں اور بے شک ان کی شفاعت گونجتی ہے

کتاب غریب الحدیث از ابن الجوزی کے مطابق

تِلْكَ الغرانيق الْعلَا قَالَ ابْن الْأَعرَابِي الغرانيق الذُّكُور من الطير
وَاحِدهَا غرنوق وغرنيق وَكَانُوا يدعونَ أَن الْأَصْنَام تشفع لَهُم فشبهت بالطيور الَّتِي ترْتَفع إِلَى السَّمَاء وَيجوز أَن تكون الغرانيق جمع الغرانق وَهُوَ الْحسن

یہ تو بلند غرانیق ہیں – ابن الاعرابی کہتے ہیں غرانیق سے مراد نر پرندے ہیں جن کا واحد غرنوق ہے اور غرنيق ہے یہ مشرکین ان ( دیویوں) کو اس نام سے اس لئے پکارتے تھے کیونکہ یہ بت ان کے لئے شفاعت کرتے اور(نر) پرندے بن کر جاتے جو آسمان میں بلند ہوتے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد حسن ہو

تاج العروس اور غریب الحدیث از ابن قتیبہ میں کہا گیا ہے کہ غرانیق سے مراد

طيور الماء طويلة العنق

پانی کے پرندے ہیں جن کی طویل گردن ہوتی ہے

اردو میں ان کو بگلا کہتے ہیں مشرکین نے فرشتوں کو بگلے بنا دیا اور پھر ان کو دیوی کہا

تفسیر بغوی میں سوره الحج کی تفسیر میں لکھا ہے
[سورة الحج (22) : الآيات 52 الى 53] وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلا نَبِيٍّ إِلاَّ إِذا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنْسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آياتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (52) لِيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطانُ فِتْنَةً لِلَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ وَالْقاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَفِي شِقاقٍ بَعِيدٍ (53)
قَوْلُهُ تَعَالَى: وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلا نَبِيٍّ إِلَّا إِذا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ، الْآيَةَ.
«1467» قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ كَعْبٍ الْقُرَظِيُّ وَغَيْرُهُمَا مِنَ الْمُفَسِّرِينَ: لَمَّا رَأَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَلِّي قَوْمِهِ عَنْهُ وَشَقَّ عَلَيْهِ مَا رَأَى مِنْ مُبَاعَدَتِهِمْ عَمَّا جَاءَهُمْ بِهِ مِنَ اللَّهِ تَمَنَّى فِي نَفْسِهِ أَنْ يَأْتِيَهُ مِنَ اللَّهِ مَا يُقَارِبُ بَيْنَهُ
وَبَيْنَ قَوْمِهِ لِحِرْصِهِ عَلَى إِيمَانِهِمْ، فكان يوما في مجلس لقريش فأنزل الله تعالى سورة والنجم فَقَرَأَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَلَغَ قَوْلَهُ: أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى (19) وَمَناةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرى (20) [النجم: 19- 20] أَلْقَى الشَّيْطَانُ عَلَى لِسَانِهِ بِمَا كَانَ يُحَدِّثُ بِهِ نَفْسَهُ وَيَتَمَنَّاهُ: تِلْكَ الْغَرَانِيقُ الْعُلَى وَإِنَّ شَفَاعَتَهُنَّ لِتُرْتَجَى، فَلَمَّا سَمِعَتْ قُرَيْشٌ ذَلِكَ فَرِحُوا بِهِ وَمَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قِرَاءَتِهِ، فَقَرَأَ السُّورَةَ كُلَّهَا وَسَجَدَ فِي آخِرِ السُّورَةِ فَسَجَدَ الْمُسْلِمُونَ بِسُجُودِهِ وَسَجَدَ جَمِيعُ مَنْ فِي الْمَسْجِدِ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَلَمْ يَبْقَ فِي الْمَسْجِدِ مُؤْمِنٌ وَلَا كَافِرٌ إِلَّا سَجَدَ إِلَّا الْوَلِيدُ بْنُ الْمُغِيرَةِ وَأَبُو أُحَيْحَةَ سَعِيدُ بْنُ العاصِ فَإِنَّهُمَا أَخَذَا حَفْنَةً مِنَ الْبَطْحَاءِ وَرَفَعَاهَا إِلَى جَبْهَتَيْهِمَا وَسَجَدَا عَلَيْهَا لِأَنَّهُمَا كَانَا شَيْخَيْنِ كَبِيرَيْنِ فَلَمْ يَسْتَطِيعَا السُّجُودَ، وَتَفَرَّقَتْ قُرَيْشٌ وَقَدْ سَرَّهُمْ مَا سَمِعُوا مِنْ ذِكْرِ آلِهَتِهِمْ وَيَقُولُونَ قَدْ ذَكَرَ مُحَمَّدٌ آلِهَتَنَا بِأَحْسَنِ الذِّكْرِ، وَقَالُوا قَدْ عَرَفْنَا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَيَخْلُقُ وَيَرْزُقُ وَلَكِنَّ آلِهَتَنَا هذه تشفع لنا عنده، فإن جعل لها محمد نَصِيبًا فَنَحْنُ مَعَهُ، فَلَمَّا أَمْسَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَاهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ مَاذَا صَنَعْتَ لَقَدْ تَلَوْتَ عَلَى النَّاسِ مَا لَمْ آتِكَ بِهِ عَنِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَحَزِنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُزْنًا شَدِيدًا وَخَافَ من الله خوفا كبيرا [1] فَأَنْزَلَ اللَّهُ هَذِهِ الْآيَةَ يُعَزِّيهِ وَكَانَ بِهِ رَحِيمًا، وَسَمِعَ بِذَلِكَ مَنْ كَانَ بِأَرْضِ الْحَبَشَةِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَلَغَهُمْ سُجُودُ قُرَيْشٍ. وَقِيلَ: [قد] [2] أَسْلَمَتْ قُرَيْشٌ وَأَهْلُ مَكَّةَ فَرَجَعَ أَكْثَرُهُمْ إِلَى عَشَائِرِهِمْ، وَقَالُوا: هُمْ أَحَبُّ إِلَيْنَا حَتَّى إِذَا دَنَوْا مِنْ مَكَّةَ بَلَغَهُمْ أَنَّ الَّذِي كَانُوا تُحَدَّثُوا بِهِ [3] مِنْ إِسْلَامِ أَهْلِ مَكَّةَ كَانَ بَاطِلًا فَلَمْ يَدْخُلْ أَحَدٌ إِلَّا بِجِوَارٍ أَوْ مُسْتَخْفِيًا فَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ قَالَتْ قُرَيْشٌ: نَدِمَ مُحَمَّدٌ عَلَى مَا ذَكَرَ مِنْ مَنْزِلَةِ آلِهَتِنَا عِنْدَ اللَّهِ فَغَيَّرَ ذَلِكَ وَكَانَ الْحَرْفَانِ اللَّذَانِ أَلْقَى الشَّيْطَانُ عَلَى لِسَانُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ وَقَعَا فِي فَمِ كُلِّ مُشْرِكٍ فَازْدَادُوا شَرًّا إِلَى مَا كَانُوا عَلَيْهِ، وَشِدَّةً عَلَى مَنْ أَسْلَمَ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَهُوَ الَّذِي يَأْتِيهِ جِبْرِيلُ بِالْوَحْيِ عَيَانًا، وَلَا نَبِيٍّ، وَهُوَ الَّذِي تَكُونُ نُبُوَّتُهُ إِلْهَامًا أو مناما، فكل رَسُولٍ نَبِيٌّ، وَلَيْسَ كُلُّ نَبِيٍّ رَسُولًا. إِلَّا إِذَا تَمَنَّى، قَالَ بَعْضُهُمْ: أَيْ: أَحَبَّ شَيْئًا وَاشْتَهَاهُ وحدّث به نفسه مما لَمْ يُؤْمَرْ بِهِ أَلْقَى الشَّيْطَانُ في أمنيته يعني مُرَادِهِ. وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: إِذَا حَدَّثَ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي حديثه ما وجد إِلَيْهِ سَبِيلًا، وَمَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا تَمَنَّى أَنْ يُؤْمِنَ بِهِ قومه ولم يتمنى ذَلِكَ نَبِيٌّ إِلَّا أَلْقَى الشَّيْطَانُ عَلَيْهِ مَا يَرْضَى بِهِ قَوْمُهُ فَيَنْسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ.
عبداللہ بن عباس اور محمد بن کعب القرظی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم قریش کی اسلام سے بے رغبتی پر انتہائی افسردہ وغمگین تھے، اور قریش کے جانب سے دعوت اسلام کو پزیرائی حاصل نہ ہونے پر سخت مایوس تھے، ان کے دل میں شدت میں سے یہ چاہت تھی کہ اللہ کی جانب سے کوئی ایسا کلام نازل ہو جو موحدین اور مشرکین کے درمیان دوری کو قربت میں تبدیل کردے۔ ایک مرتبہ پیغمبر اسلام بیت اللہ میں قریش کی ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ پر اللہ کی جانب سے وحی کا نزول شروع ہو اور آپ نے سورة النجم کی قراءت شروع کی اور جب ان آیات تک پہنچے افراٴیتم اللات و العزیٰ و مناة الثالثة الاخریٰ تو شیطان نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی زبان سے یہ الفاظ جاری کرا دئیےتلک الغرانیق العلیٰ و ان شفاعتھن لترتجی ﴿یعنی یہ لات اور منات بہت بلند پایہ کے بت ہیں اور یقیناً ان کی شفاعت بھی اللہ کے ہاں قبول کی جائے گی﴾ مشرکین آپ کی زبان سے اپنے معبودین کے لئے یہ الفاظ سن کر انتہائی مسرور ہوئے پیغمبر اسلام نے اپنی تلاوت مکمل کرنے کے بعد سجدہ تلاوت کیا تو اس مجلس میں موجود تمام مشرکین بھی سجدہ ریز ہو گئے اور بیت اللہ میں موجود کوئی بھی مومن اور مشرک ایسا نہ بچا جو سجدہ ریز نہ ہوا ہو۔ اس مجلس میں موجود ولید بن مغیرہ اور ابواحیحہ سعید بن العاص جو دونوں انتہائی ضعیف تھے اور سجدہ کرنے پر قادر نہ تھے اس لئے دونوں نے زمین سےمشت بھر مٹی اٹھا کر پیشانی سےتک لے گئے اور اس پر سجدہ کیا۔ اس کے بعد مجلس برخاست ہوئی اور قریش کے لوگ بے حد خوش ہوئے کہ آج محمد نے پہلی دفعہ قریش کے معبودین کا ذکر اچھے الفاظ میں کیا اور انہوں نے کہا کہ آج ہمیں معلوم ہوگیا کہ اللہ ہی زندگی اور موت دیتا ہے وہی رزق دیتا ہے اور تخلیق کرتا ہے اور ہمارے یہ معبود یعنی لات و منات اللہ کے ہاں ہماری سفارش کریں گے، پس اگر محمد ہمارے معبودوں کو ایسے بہتر الفاظ کے ساتھ یاد کرے گا تو ہم بھی اس کے ساتھ ہیں۔ پھر شام کو جبرائیل پیغمبر محمد کے پاس آئے اور کہا کہ اے محمد آج تم نے کیا کیا؟ آج تم نے قریش کے سامنے وہ کلام تلاوت کیا جوتم پر اللہ کی طرف سے نازل نہیں ہوا تھا، یہ سن کر تو آپ صلی الله علیہ وسلم بے حد غمگین ہوگئے اور ان پر خشیت الہٰی کی کیفیت طاری ہو گئی۔ تو اللہ کو رحم آیا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی تسلی کیلئے یہ آیت نازل کی۔
وَمَا أَرْ‌سَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّ‌سُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّـهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّـهُ آيَاتِهِ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
ترجمہ: اور ہم نے آپ سے قبل بھی جتنے رسول اور پیغمبر بھیجے ان میں سے ہر ایک ﴿کے ساتھ یہ واقعہ ضرور پیش آیا کہ﴾ جب انہوں نے ﴿اللہ کے کلام کو﴾ پڑھا تو شیطان نے ان کے پڑھنے میں اپنی جانب سے الفاظ شامل کر دیئے، پھر اللہ شیطان کےشامل کئے ہوئے الفاظ کوتو ختم کر دیتا ہے اور آپنی آیات کوبرقرار رکھتا ہے اور اللہ تو بہت ہی خبر رکھنے والا اور سیانا ہے۔
جب یہ آیت نازل ہوئی تو مشرکین مکہ نے کہا محمد ہمارے معبودوں کا اچھے الفاط میں تذکرہ کرنے پر شرمندہ ہے اس لئے اس نے اپنا کلام بدل لیا۔﴿بحوالہ تفسیر بغوی در تفسیر سورة الحج آیت نمبر ۵۲﴾
لنک
http://library.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?flag=1&bk_no=51&surano=22&ayano=52

یہ واقعہ اپنے اضطراب کے ساتھ کئی اور تفاسیر میں بھی بیان ہوا ہے مثلا
تفسير مقاتل بن سليمان المتوفی ١٥٠ ھ
تفسير يحيى بن سلام المتوفی ٢٠٠ ھ
تفسیر الطبری ٣١٠ ھ
تفسیر ابن أبي زَمَنِين المتوفی ٣٩٩ ھ
تفسیر الثعلبي، أبو إسحاق المتوفى ٤٢٧ھ
تفسیر بغوی المتوفی ٥١٦ ھ

ان آیات کے الفاظ عربوں میں مشهور تھے اور یہ دیویوں کا بھجن تھے
فَإِنَّ شَفَاعَتَهَا هِيَ الْمُرْتَجَى وَإِنَّهَا لِمَنَ الْغَرَانِيقِ الْعُلَى
یہ تو بلند پرند نما حسین (دیویاں) ہیں اور بے شک ان کی شفاعت گونجتی ہے
لہذا یہ کوئی ایسی آیات نہ تھی جو مشرکین نہ سنتے ہوں

کیا واقعہ غرانیق ہوا ہے کہ معاذ اللہ ، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے غلط الفاظ ادا ہوئے

ابن كثير الدمشقي نے اور الألوسي اس واقعہ کا انکار کیا اور ابن حجر المصري نے اس کا استقرار کیا ہے کہ یہ ہوا ہے اور

ابن حجر عسقلانی نے کہا ہے کہ اس کا کوئی نہ کوئی اصل تھا جس پر البانی نے ابن حجر عسقلانی پر جرح کی ہے

ابن تیمیہ نے اس کی تاویل کی ہے اپنے فتاوی ج ١٠ ص ٢٩١ میں کہتے ہیں
قَالَ هَذَا أَلْقَاهُ الشَّيْطَانُ فِي مَسَامِعِهِمْ وَلَمْ يَلْفِظْ بِهِ الرَّسُولُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
یہ شیطان کا القا تھا مشرکین کے کانوں پر اور یہ رسول الله کے الفاظ نہ تھے

الذھبی نے سير أعلام النبلاء ج 1 ص 149 پر اس کا ذکر کیا ہے اور کوئی جرح نہیں کی ہے

الزمخشري معتزلی نے الکشاف میں اس کو بیان کیا ہے کوئی جرح نہیں کی

دكتور عمر عبد السلام التدمري تاريخ ألإسلام از الذھبی پر اپنی تعلیق میں لکھتے ہیں
وقال الحافظ البيهقي في دلائل النبوّة 2/ 62: هذه القصة غير ثابتة من جهة النقل. وبيّن جرح رواتها وطعن حملة العلم فيهم. وفي «البحر» أنّ هذه القصة سئل عنها محمد بن إسحاق صاحب «السيرة» فقال: هذا من وضع الزنادقة. وقال أبو منصور الماتريديّ: الصّواب أنّ قوله «تلك الغرانيق إلخ» من جملة إيحاء الشيطان إلى أوليائه من الزّنادقة، والرسالة بريئة من هذه الرواية.
وقال القاضي عياض في الشفاء 2/ 28: يكفيك أنّ هذا الحديث لم يخرجه أحد من أهل الصّحة، ولا رواه ثقة بسند سليم متصل، مع ضعف نقلته، واضطراب رواياته، وانقطاع إسناده، واختلاف كلماته.
وقد فصّل القاضي عياض عدم صحّة هذه الرواية من عدّة وجوه يحسن مراجعتها. في كتابه الشفاء 2/ 116- 123، وانظر تفسير القرطبي 12/ 82، والنويري في نهاية الأرب 16/ 235- 241.
بیہقی نے دلائل النبوه میں کہا ہے یہ قصہ غیر ثابت ہے نقلی لحاظ سے اور البحر از أبو حيان میں ہے کہ ابن اسحاق سے اس قصہ پر سوال ہوا تو کہا یہ زنادقه کا گھڑا ہوا ہے اور ابو منصور ماتریدی کہتے ہیں ٹھیک یہ قول ہے کہ تلک الغرانیق کا قول شیطان کی اپنے اولیاء پر وحی ہے اور قاضی عیاض کہتے ہیں یہی کافی ہے کہ اہل صحت میں سے کسی نے اس کی تخریج نہیں کی نہ اس کے راوی متصل سند ہیں ثقاہت کے ساتھ پھر انکا نقل میں کمزور ہونا ہے اور روایات کا اضطراب ہے اور اسناد میں انقطاع ہے اور کلمات کا اختلاف ہے انتھی

اس پورے قصے کو محمد بن قيس بن مخرمة اور محمد بن کعب سے محمد بن السائب بن بشر الکلبی المتوفی ١٤٦ ھ منسوب کرتا ہے اسی طرح أبي العالية البصرى المتوفی ٩٣ ھ، السدی کوفی مَولَى قَيس بْن مَخرَمَة المتوفی ١٢٧ ھ ، قتادہ بصری المتوفی ١١٨ ھ نے بھی اس پر تبصرے کیے ہیں اس کے علاوہ اس کو عثمان بن الأسود مکی المتوفی ١٥٠ھ ، عن سعيد بن جبير المتوفی ٩٥ ھ ، عن ابن عباس کی سند سے بھی بیان کیا گیا ہے مثلا اسباب النزول الواحدی میں اور ابن مردويه میں
اسی طرح أبي بشر جعفر بن إياس بصری المتوفی ١٢٦ ھ کی سند سے یہ سعید بن جبیر کا مرسل قول ہے
لہذا سب سے پہلے اس واقعہ کا ذکر بصریوں مثلا رفيع بْن مهران بصري المعروف بأبي العالية الرياحي المتوفی ٩٠ یا ٩٣ ھ نے مرسل روایت کیا ہے اور قتادہ البصری المتوفی ١١٨ھ نے روایت کیا ہے – قتادہ خود بھی أَبُو الْعَالِيَةِ البصری کے شاگرد ہیں دونوں مدلس ہیں -ایک طرف تو بصرہ میں اس کو قتادہ بیان کرتے ہیں دوسری طرف مکہ میں سعید بن جبیر المتوفی ٩٥ ھ بھی ابن عباس سے اس کو روایت کرتے ہیں- یعنی لگ بھگ سن ٨٠ ھ کے بعد اس قصہ کا دور شروع ہوا اور اس کا گڑھ بصرہ تھا وہاں سے یہ مکہ پہنچا اور اس کو ابن عباس رضی الله سے منسوب کیا گیا ہے

کتاب المعرفۃ والتاریخ: 2/148 از الفسوی کے مطابق شعبہ نے کہا
لم يسمع قتادة من أبي العالية إلا ثلاثة أشياء. قلت ليحيى عدها، قال قول على رضي الله عنه القضاه ثلاثة، وحديث: لا صلاه بعد العصر، وحديث يونس بن متى.
قتادہ نے ابی العالیہ سے صرف تین چیزیں سنیں میں نے یحیی سے کہا ان کو گن دیجیے کہا علی رضی الله عنہ کا قول فیصلوں کے بارے میں اور حدیث کہ عصر کے بعد نماز نہیں اور حدیث یونس بن متی
یعنی بصرہ میں اس روایت کا منبع قتادہ ہوئے جو اس کا ذکر کرتے ہیں یہ سخت مدلس تھے اور روایت جس سے سن لیں اس کا نام بعض اوقات نہیں لیتے
امام یحیی بن معین نے فرمایا: “لم يلق سَعِيد بن جبير، ولا مجاهدا ولا سُلَيْمان بن يسار” قتادہ نے سعید بن جبیر، مجاہد، اور سلیمان بن یسار میں سے کسی کو نہیں پایا۔ سوالات ابن الجنید: ص

یعنی سعید بن جبیر المتوفی ٩٥ ھ کو یہ روایت قتادہ سے نہیں ملی

اس کی دو سندیں ہیں
أَبِي بِشْرٍ بصری ( جعفر بن إياس، وهو ابن أبي وَحْشِيَّة المتوفی ١٢٤ ھ )، عَن سَعِيد بْنِ جُبَير، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ
المعجم الكبير از طبرانی اور مسند البزار
اور
عُثْمَانُ بْنُ الأَسْوَدِ المکی المتوفی ١٤٧ ھ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ
یعنی ایک بصری اور ایک مکی نے اس روایت کو سعید بن جبیر سے منسوب کیا ہے اس میں جعفر بن ایاس کو محدثین ثقہ کہتے ہیں اور عُثْمَانُ بْنُ الأَسْوَدِ کو بھی ثقہ کہتے ہیں
یعنی محدثین کے مطابق اس روایت کا بار سعید بن جبیر نے اٹھا لیا کیونکہ اس کی سند میں ثقات ہیں ابن عباس رضی الله عنہ کے شاگردوں میں اس کو صرف سعید بن جبیر ہی روایت کرتے ہیں
حجاج بن یوسف نے سعید بن جبیر کو قتل کیوں کیا؟ اس سوال کا جواب شاید یہ روایت ہے

روایت پسندی صحیح نہیں ہے سنن دارمی کی روایت ہے
أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ أَنَّهُ حَدَّثَ يَوْمًا بِحَدِيثٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَجُلٌ: فِي كِتَابِ اللَّهِ مَا يُخَالِفُ هَذَا، قَالَ: «لَا أُرَانِي أُحَدِّثُكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتُعَرِّضُ فِيهِ بِكِتَابِ اللَّهِ، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمَ بِكِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى مِنْكَ»
سعید بن جبیر نے ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بیان کی تو ایک شخص نے کہہ دیا : قرآن میں اس کےخلاف بات موجود ہے۔ اس پر انہوں نے فرمایا : میں تجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کر رہا ہوں اور تو اس کے خلاف اللہ کی کتاب پیش کر رہا ہے ! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی کتاب کے مندرجات کو تجھ سے بڑھ کر جانتے تھے۔

آج علماء یہی کہہ رہے ہیں کہ غرانیق والی روایت باوجود یہ کہ سعید بن جبیر سے ثقات نے روایت کی ہے یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ قرآن میں اس کے خلاف موجود ہے کہ رسول الله سے غلطی نہیں ہو سکتی لہٰذا راقم کہتا ہے اس قسم کی روایات کا بار راویوں پر ہے
– علماء جو اس روایت کے خلاف ہیں وہ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ قتادہ یا سعید بن جبیر نے اس قسم کی فضول روایت کیوں بیان کیں- سوره حج کی آیات مدنی ہیں اور سوره النجم مکی سوره ہے ظاہر ہے اتنے طویل عرصے کے بعد اس پر تبصرہ کوئی معنی نہیں رکھتا

وہابی اور غیر مقلد  علماء کی بدلتی آراء

البانی کی رائے

البانی نے نصب المجانيق لنسف قصة الغرانيق میں اس کی اسناد کو جمع کیا اور کہا ہے کہ تمام ضعیف ہیں بلکہ موضوع ہیں

محمد بن عبد الوہاب النجدی کی رائے
مختصر سيرة الرسول صلى الله عليه وسلم میں مؤلف: محمد بن عبد الوهاب بن سليمان التميمي النجدي (المتوفى: 1206هـ) لکھتے ہیں
قصته صلى الله عليه وسلم معهم – لما قرأ سورة النجم بحضرتهم – فلما وصل إلى قوله: {أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى – وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى} [النجم: 19 – 20] (1) ألقى الشيطان في تلاوته: تلك الغرانيق العلى، وإن شفاعتهن لترتجى.
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قصہ ہے کہ جب انہوں نے سورہ النجم کی قرات قریش کی موجودگی میں کی جب اس آیت پر آئے
أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى – وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى
تو شیطان نے تلاوت میں القا کیا
تلك الغرانيق العلى، وإن شفاعتهن لترتجى

محمد بن عبد الوھاب النجدی نے اس واقعہ کو درجہ قبولیت دیا

زهير الشاويش کی رائے

تيسير العزيز الحميد في شرح كتاب التوحيد الذى هو حق الله على العبيد از سليمان بن عبد الله بن محمد بن عبد الوهاب (المتوفى: 1233هـ) مع تحقیق زهير الشاويش میں بھی اس کا ذکر کیا
فلما أنزل الله سورة النجم قال: {أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى} [النجم] ألقى الشيطان عندها كلمات حين ذكر الطواغيت فقال: تلك الغرانيق العلا، وإن
شفاعتهن لترتجى ….. وهي قصة مشهورة صحيحة رويت عن ابن عباس من طرق بعضها صحيح. ورويت عن جماعة من التابعين بأسانيد صحيحة منهم عروة وسعيد بن جبير وأبو العالية وأبو بكر بن عبد الرحمن وعكرمة، والضحاك وقتادة، ومحمد بن كعب القرظي ومحمد بن قيس والسدي وغيرهم. وذكرها أيضًا أهل السير وغيرها وأصلها في “الصحيحين”.

پس جب اللہ تعالی نے سورہ نجم نازل کی فرمایا

أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى – وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى
تو شیطان نے کلمات تلاوت میں القا کیے جن میں طاغوتوں کا ذکر تھا کہا
تلك الغرانيق العلى، وإن شفاعتهن لترتجى
اور یہ قصہ صحیح و مشہور ہے ابن عباس سے روایت کیا گیا ہے جن میں سے بعض صحیح ہیں اور تابعین کی ایک جماعت نے صحیح اسناد کے ساتھ اس کو عروہ بن زبیر اور سعید بن جبیر اور ابو العالیہ اور ابو بکر بن عبد الرحمان اور عکرمہ اور ضحاک اور قتادہ سے محمد بن كعب القرظي ومحمد بن قيس والسدي سے روایت کیا ہے اور دیگر اہل سیرت نے بھی روایت کا ہے اس کی اصل صحیحین میں موجود ہے

أسامة بن عطايا العتيبي کی رائے

عصر حاضر کے ایک وہابی عالم أسامة بن عطايا العتيبي نے عبد الوہاب نجدی کا دفاع کیا اور کتاب تيسير العزيز الحميد میں مقدمة التحقيق میں الحاشية ص 30 پر لکھا

انْتَقَدَ بَعْضُ العُلَمَاءِ إِيْرَادَ شَيْخِ الإسْلامِ مُحَمَّدِ بنِ عَبْدِالوَهَّابِ لِقِصَّةِ الغَرَانِيقِ فِي مُخْتَصَرِهِ لِلسِّيْرَةِ، وَهَذَا فِي حَقِيْقَتِهِ انْتِقَادٌ غَيْرُ صَحِيْحٍ، فَقِصَّةُ الغَرَانِيقِ ثَابِتَةٌ، تَلَقَّتْهَا الأُمَّةُ بِالقَبُولِ، وَقَدْ صَحَّحَهَا جَمَاعَةٌ مِنْ الأَئِمَّةِ مِنْهُمُ: الضِّيَاءُ الْمَقْدِسِيُّ فِي الْمُخْتَارَةِ (10/ 234)، وَالْحَافِظُ ابنُ حَجَرٍ فِي تَخْرِيجِ أحَادِيْثِ الكَشَّافِ (4/ 114)، وَالسُّيُوطِيُّ، وَالشَّيْخُ سُلَيْمَانُ وَغَيْرُهُمْ، وَفَسَّرَهَا-أيْ قَولَهُ تَعَالَى: {ألْقَى الشَّيْطَانُ فِي أمْنِيَّتِهِ} بِهَا جَمَاعَةٌ مِنْ الأَئِمَّةِ كَابنِ جَرِيْرٍ (17/ 186)، والنَّحَّاسِ فِي مَعَانِي القُرْآنِ (4/ 426)، وَالبَغَوِيِّ (3/ 293 – 294)، والوَاحِدِيِّ فِي تَفْسِيْرِهِ (2/ 737)، وَأَبُو اللَّيثِ السَّمَرْقَنْدِيِّ (2/ 465)، وابنِ أَبِي زَمَنِيْنَ (3/ 186)، والسَّمْعَانِيِّ (3/ 448)، وابنِ جُزَيٍّ فِي التَّسْهِيْلِ (3/ 44)، وَشَيْخِ الإسْلامِ ابنِ تَيْمِيَّةَ فِي مَجْمُوعِ الفَتَاوَى (2/ 282)، وَقَالَ فِي مِنْهَاجِ السُّنَّةِ (2/ 409): «عَلَى الْمَشْهُورِ عِنْدَ السَّلَفِ والْخَلَفِ» وَالسَّعْدِيِّ (ص/ 542) وَغَيْرُهُمْ كَثِيْرٌ جِدًّا

بعض علماء نے شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب پر مختصر سیرہ میں قصہ غرانیق کا ذکر کرنے پر تنقید کی ہے اور حقیقت میں یہ تنقید صحیح نہیں ہے کیونکہ قصہ غرانیق ثابت ہے اس کو امت نے تلقیہا بالقبول کا درجہ دیا ہے اور ایک جماعت نے اس کو صحیح کہا ہے جن میں ہیں
الضِّيَاءُ الْمَقْدِسِيُّ فِي الْمُخْتَارَةِ (10/ 234)، وَالْحَافِظُ ابنُ حَجَرٍ فِي تَخْرِيجِ أحَادِيْثِ الكَشَّافِ (4/ 114)، وَالسُّيُوطِيُّ، وَالشَّيْخُ سُلَيْمَانُ وَغَيْرُهُمْ، وَفَسَّرَهَا-أيْ قَولَهُ تَعَالَى: {ألْقَى الشَّيْطَانُ فِي أمْنِيَّتِهِ} بِهَا جَمَاعَةٌ مِنْ الأَئِمَّةِ كَابنِ جَرِيْرٍ (17/ 186)، والنَّحَّاسِ فِي مَعَانِي القُرْآنِ (4/ 426)، وَالبَغَوِيِّ (3/ 293 – 294)، والوَاحِدِيِّ فِي تَفْسِيْرِهِ (2/ 737)، وَأَبُو اللَّيثِ السَّمَرْقَنْدِيِّ (2/ 465)، وابنِ أَبِي زَمَنِيْنَ (3/ 186)، والسَّمْعَانِيِّ (3/ 448)، وابنِ جُزَيٍّ فِي التَّسْهِيْلِ (3/ 44)، وَشَيْخِ الإسْلامِ ابنِ تَيْمِيَّةَ فِي مَجْمُوعِ الفَتَاوَى (2/ 282)، وَقَالَ فِي مِنْهَاجِ السُّنَّةِ (2/ 409): «عَلَى الْمَشْهُورِ عِنْدَ السَّلَفِ والْخَلَفِ» وَالسَّعْدِيِّ (ص/ 542) اور دیگر بہت سے

مفتی بن باز کی رائے

مجموع فتاوى العلامة عبد العزيز بن باز ج 8 ص 301  پر ایک سوال کے جواب میں فتوی میں عبد العزيز بن باز کہتے ہیں کہ قصہ غرانیق پر مرسل احادیث ہیں لیکن

إلقاء الشيطان في قراءته صلى الله عليه وسلم في آيات النجم وهي قوله: {أفرأيتم اللات والعزى} الآيات، شيء ثابت بنص الآية في سورة الحج

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سورہ نجم کی  قرات  میں  شیطان کا القا ہونا یہ سورہ حج کی آیت سے ثابت ہے

معلوم ہوا کہ  روایت پسند واپس اس قصہ کو صحیح کہہ رہے ہیں

شیعہ علماء کی آراء

تفسير مجمع البيان میں  أبي على الفضل بن الحسن الطبرسي المتوفی ٥٤٨ ھ  لکھتے ہیں

روي عن ابن عباس و غيره أن النبي (صلى الله عليهوآلهوسلّم) لما تلا سورة و النجم و بلغ إلى قوله أ فرأيتم اللات و العزى و منات الثالثة الأخرى ألقى الشيطان في تلاوته تلك الغرانيق العلى و إن شفاعتهن لترجى فسر بذلك المشركون فلما انتهى إلى السجدة سجد المسلمون و سجد أيضا المشركون لما سمعوا من ذكر آلهتهم بما أعجبهم فهذا الخبر أن صح محمول على أنه كان يتلو القرآن فلما بلغ إلى هذا الموضع و ذكر أسماء آلهتهم و قد علموا من عادته (صلى الله عليه وآله وسلّم) أنه كان يعيبها قال بعض الحاضرين من الكافرين تلك الغرانيق العلى و ألقى ذلك في تلاوته توهم أن ذلك من القرآن فأضافه الله سبحانه إلى الشيطان لأنه إنما حصل بإغوائه و وسوسته و هذا أورده المرتضى قدس الله روحه في كتاب التنزيه و هو قول الناصر للحق من أئمة الزيدية و هو وجه حسن في تأويله

اگر یہ خبر صحیح ہے تو یہ محمول ہے کہ اس مقام پر آ کر رسول اللہ  صلى الله عليه وآله وسلّم  حاضرین کفار میں سے بعض کو عیب دیا اور اس کو تلاوت میں بولا تو (لوگوں کو ) وہم ہو گیا کہ یہ قرآن میں اضافہ ہے

اسی بات کو تفسير نور الثقلين میں بیان کیا گیا ہے

مجلسی کی رائے

مجلسی نے بحار الأنوار میں  لکھا

كذب الله تعالى في الحال، و ذلك لا يقول به مسلم

یہ روایت  اس حال میں اللہ پر جھوٹ ہے اور ایسا مسلم نہیں کہہ سکتا

=====================================================

راقم کہتا ہے اس روایت کو شیعہ راوی الکلبی نے بھی روایت کیا ہے

تفسیر یحیی بن سلام میں ہے

وَفِي تَفْسِيرِ الْكَلْبِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ عَلَيْهِ السَّلامُ كَانَ يُصَلِّي عِنْدَ الْبَيْتِ وَالْمُشْرِكُونَ جُلُوسٌ فَقَرَأَ: {وَالنَّجْمِ} [النجم: 1] ، فَحَدَّثَ نَفْسَهُ حَتَّى إِذَا بَلَغَ: {أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى {19} وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الأُخْرَى {20} } [النجم: 19-20] أَلْقَى الشَّيْطَانُ عَلَى لِسَانِهِ: فَإِنَّهَا مَعَ الْغَرَانِيقِ الْعُلَى وَإِنَّ شَفَاعَتَهَا هِيَ الْمُرْتَجَى.

تفسیر کلبی میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں نماز پڑھتے تھے اور مشرک پیٹھے ہوئے تھے پس قرات کی و النجم انہوں نے اپنے آپ سے کہا جب یہاں پر پہنچے

أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى {19} وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الأُخْرَى

شیطان نے القا کر دیا ان کی زبان پر

فَإِنَّهَا مَعَ الْغَرَانِيقِ الْعُلَى وَإِنَّ شَفَاعَتَهَا هِيَ الْمُرْتَجَى.

معلوم ہوا کہ روافض شروع سے اس قصہ کو قبول کر رہے تھے  طبرسی کے دور یعنی چھٹی صدی  تک اس کی تاویل کرتے چلے آ رہے تھے

22 thoughts on “فَإِنَّهُنَّ الْغَرَانِيقُ الْعُلَى؟

  1. محمد شعیب احمد

    آپ کا اس معاملے پر ذاتی تبصرہ کیا ہے؟ اسے بھی کچھ رقم کردیں۔

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      سلام
      اس قصہ کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر انے والی قرانی الوحی میں شیطانی القا ممکن ہے

      میرے نزدیک پورا واقعہ جھوٹ کا پلندہ ہے – لیکن جو میں جان نہیں پا رہا وہ یہ ہے کہ اس کو کیوں گھڑا گیا
      اس واقعہ کو سب سے پہلے سعید بن جبیر نے بیان کیا ہے ان کا قتل حجاج بن یوسف نے بغاوت پر کیا ہے کیونکہ یہ باغی عبد الرحمن بن محمد بن الأشعث سے مل گئے تھے

      سعید بن جبیر نے الکلبی کی طرح اس قصہ کو اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے

      Reply
  2. Ibn Adam

    آپ کو اپنے سوالوں کا جواب اس آرٹیکل میں مل جائے گا. سوره حج کی آیت ٥٢ – ٥٥ تک کی تفسیر بھی انشااللہ جلد شائع کی جائے گی. امید ہے باقی سوالات کا جواب ان میں مل جائے گا.
    آپ کے آرٹیکل نے ہماری تحقیق میں بہت مدد کی. الله آپ کو جزائے خیر دے. آمین
    https://www.facebook.com/permalink.php?story_fbid=2555527788103841&id=100009399340911

    Reply
      1. Ibn Adam

        بہت شکریہ آپ کے جواب کا
        تعارف بس یہی ہے کہ جیسے آپ قرآن اور اسلام کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں ایسے ہی ہم بھی اس سعی میں مصروف عمل ہیں.
        ماشاء الله لگتا ہے کہ آپ نے بہت محنت اور وقت دیا ہے اس کام میں. الله آپ کو اس کی جزائے خیر دے. آمین.
        ہماری دو دوسری تحریریں بھی ہیں.
        ایک سوره تحریم اور اس سے منسلک روایات پر
        https://ia601605.us.archive.org/11/items/SurahTehreemTafsirComplete/Surah-Tehreem-Tafsir-Complete.pdf

        اور دوسری سوره مائدہ کے دور نزول پر
        https://ia800801.us.archive.org/3/items/SurahMaidaAll/Surah-Maida-All.pdf

        آپ کی قیمتی رائے کا انتظار رہے گا

        Reply
        1. Islamic-Belief Post author

          ویب سائٹ —- اللہ تعالی قبول کریں اور حق اور سچ کی طرف ہدایت دیں
          امین

          کل من علیھا فان کی عملی شکل میں یہ ویب سائٹ بھی کسی دن ختم ہو جائے گی

          ————–
          کتب کا شکریہ

          اس کو پڑھنے سمجھنے میں وقت لگے گا – میری اپنی تحقیق سورہ احزاب پر یہ ہے کہ یہ سن ٣ ہجری کی ہے اور ماریہ رضی اللہ عنہا کو لونڈی اس لئے رکھا کیونکہ وہ ان آیات کے نزول کے بعد تشریف لائیں جن میں تعداد ازواج مقید کرنے کا حکم آیا تھا اغلبا سن ٧ کے بعد مصر سے ائیں تھیں

          Reply
  3. Ibn Adam

    ہم سوره کو ایک دور کا مانتے ہیں اور یہ نہیں کہتے کہ سوره کا ایک حصہ ایک دور میں ائے اور ایک کسی اور دور میں. اس لئے ہم سوره احزاب کو غزوہ احزاب کے بعد کا ہی مانتے ہیں.
    سورتوں کو ایک دور کا ماننے کی وجہ یہ ہے کہ اگر سورتیں بکھر بکھر کر آ رہی ہوتیں تو پھر تو الله کافروں کو یہ چیلنج ہی نہ دیتے کہ اس جیسی ١٠ سورتیں بنا کر دکھاؤ. تو اگر کوئی سورت ٤ سالوں میں مکمل ہو رہی ہے اور کوئی ٨ سالوں میں تو پھر تو یہ چیلنج ہی غلط ہوا. اس میں اور بھی بہت سے پہلو ہیں. موقعہ ملا تو انشاللہ اس پر بھی لکھیں گے. باقی سوره احزاب پر حضرت زید (رض) اور حضرت زینب (رض) کے حوالے سے جو بات ہوئی ہے اس پر میری تحریر ہے. پوری سوره احزاب پر لکھنے کا موقعہ نہیں ملا.

    https://www.facebook.com/permalink.php?story_fbid=2023638627959429&id=100009399340911

    باقی تعداد ازواج مقید کرنے کا جو حکم آیا وہ نبی کریم (ص) کے لیے تھا ہی نہیں کیونکہ ان آیات کا آغاز یا ایھا الناس سے ہو رہا ہے
    https://www.facebook.com/permalink.php?story_fbid=1955699358086690&id=100009399340911

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      سورہ بنی اسرائیل

      وَقُرْاٰنًا فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَاَهٝ عَلَى النَّاسِ عَلٰى مُكْثٍ وَّنَزَّلْنَاهُ تَنْزِيْلًا (106)
      اور ہم نے قرآن کو تھوڑا تھوڑا کر کے اتارا تاکہ تو مہلت کے ساتھ اسے لوگوں کو پڑھ کر سنائے اور ہم نے اسے آہستہ آہستہ اتارا ہے۔

      =============

      سورہ بقرہ میں ہے
      وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ

      اور اگر تم اس ( قرآن) کے بارے میں ذرا بھی شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اتارا ہے تو اس جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا لاؤ۔ اور اگر سچے ہو تو اللہ کے سوا اپنے تمام مدد گاروں کو بلالو۔

      یہ چیلنج سورہ بقرہ میں ہے اور اس کا مقصد قرآن کی کوئی ایک چھوٹی سورت بنایا ہے جو آج تک نہیں کیا جا سکا
      اس سے یہ نہیں نکلتا کہ تمام سورتیں ایک ہی وقت میں مکمل آ گئیں –

      آوزاج نبی کی تعداد محدود کرنے والی آیات میں اے نبی سے خطاب کیا جا رہا ہے
      يَآ اَيُّـهَا النَّبِىُّ اِنَّـآ اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ اللَّاتِـىٓ اٰتَيْتَ اُجُوْرَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِيْنُكَ مِمَّآ اَفَـآءَ اللّـٰهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِىْ هَاجَرْنَ مَعَكَۖ وَامْرَاَةً مُّؤْمِنَةً اِنْ وَّّهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ اِنْ اَرَادَ النَّبِىُّ اَنْ يَّسْتَنْكِحَهَاۖ خَالِصَةً لَّكَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ ۗ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْـهِـمْ فِـىٓ اَزْوَاجِهِـمْ وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُـهُـمْ لِكَيْلَا يَكُـوْنَ عَلَيْكَ حَرَجٌ ۗ وَكَانَ اللّـٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا (50)
      اے نبی ہم نے آپ کے لیے آپ کی بیویاں حلال کر دیں جن کے آپ مہر ادا کر چکے ہیں اور وہ عورتیں جو آپ کی مملوکہ ہیں جو اللہ نے آپ کو غنیمت میں دلوا دی ہیں اور آپ کے چچا کی بیٹیاں اور آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں اور آپ کے ماموں کی بیٹیاں اور آپ کے خالاؤں کی بیٹیاں جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی، اور اس مسلمان عورت کو بھی جو بلا عوض اپنے کو پیغمبر کو دے دے بشرطیکہ پیغمبر اس کو نکاح میں لانا چاہے، یہ خالص آپ کے لیے ہے نہ کہ اور مسلمانوں کے لیے، ہمیں معلوم ہے جو کچھ ہم نے مسلمانوں پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں مقرر کیا ہے تاکہ آپ پر کوئی دقت نہ رہے، اور اللہ معاف کرنے والا مہربان ہے۔

      تُرْجِىْ مَنْ تَشَآءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِىٓ اِلَيْكَ مَنْ تَشَآءُ ۖ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ ۚ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ تَقَرَّ اَعْيُنُهُنَّ وَلَا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِمَآ اٰتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ ۚ وَاللّـٰهُ يَعْلَمُ مَا فِىْ قُلُوْبِكُمْ ۚ وَكَانَ اللّـٰهُ عَلِيْمًا حَلِيْمًا (51)
      آپ ان میں سے جسے چاہیں چھوڑ دیں اور جسے چاہیں اپنے پاس جگہ دیں، اور ان میں سے جسے آپ (پھر بلانا) چاہیں جنہیں آپ نے علیحدہ کر دیا تھا تو آپ پر کوئی گناہ نہیں، یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور غمزدہ نہ ہوں اور ان سب کو جو آپ دیں اس پر راضی ہوں، اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اللہ جانتا ہے، اور اللہ جاننے والا بردبار ہے۔
      لَّا يَحِلُّ لَكَ النِّسَآءُ مِنْ بَعْدُ وَلَآ اَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّلَوْ اَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ اِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِيْنُكَ ۗ وَكَانَ اللّـٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ رَّقِيْبًا (52)
      اس کے بعد آپ کے لیے عورتیں حلال نہیں اور نہ یہ کہ آپ ان سے اور عورتیں تبدیل کریں اگرچہ آپ کو ان کا حسن پسند آئے مگر جو آپ کی مملوکہ ہوں، اور اللہ ہر ایک چیز پر نگران ہے۔

      يه سورہ احزاب میں ہے ۔
      لَّا يَحِلُّ لَكَ النِّسَآءُ مِنْ بَعْدُ اور ماریہ قبطیہ کی آمد غزوہ خیبر کے بعد کی ہے جب مقوقس نے تحفتا ان کو مصر سے بھیجا تھا

      ============
      آپ نے جو تھیوری پیش کی ہے وہ یہ ہے کہ سورہ احزاب مکمل نازل ہوئی اور اس وجہ سے بہت سے مسائل کا جواب آپ نہیں دے سکیں گے
      مثلا تعداد امہات المومنین اس می آیات سے محدود کی گئی ہیں جبکہ اس سورت کے بعد ام المومنین صفیہ اور دیگر سے نکاح کیا ہے
      لا محالہ یہی ثابت ہوتا ہے کہ آیات تدریجا نازل ہوئی ہیں

      Reply
  4. Ibn Adam

    جہاں تک رہی بات کہ نبی کو چھوڑنے کی اجازت دی گئی تھی لیکن سوره احزاب میں وہ بھی لے لی گئی. اب اگر آپ سوره احزاب کو سوره تحریم سے بھی پہلے کا رکھ لیں گے تو پھر تو الله کے کلام میں اختلاف بھی آ جائے گا. کیونکہ سوره تحریم میں الله نے بیویوں کو تنبیہ کی کہ الله تمہاری جگہ دوسری بیویاں بھی دے سکتا ہے جبکہ اپ کہہ رہے ہیں کہ سوره احزاب تحریم سے بھی پہلے کی ہے.

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      سورہ احزاب کی قید وفات النبی صلی اللہ علیہ وسلم تک رہی کہ وہ مزید ازواج نہیں لے سکتے

      سورہ تحریم میں تنبیہ کے لئے اللہ تعالی نے امہات المومنین کو خبردار کیا کہ یہ قید اٹھائی جا سکتی ہے
      اس میں ہے کہ تعداد ازواج والی قید ختم کی جا سکتی ہے یہ نہیں ہے کہ کر دی گئی ہے

      تمام کلام عسی یعنی “اگر” ہے سے تبنیہ کے انداز میں شروع ہو رہا ہے

      عَسٰى رَبُّهٝٓ اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ يُّبْدِلَـهٝٓ اَزْوَاجًا خَيْـرًا مِّنْكُنَّ
      اگر نبی تمیں طلاق دے دے تو بہت جلد اس کا رب اس کے بدلے میں تم سے اچھی بیویاں دے دے گا

      یعنی تعداد ازواج والا حکم اللہ ختم کر سکتا ہے

      لیکن ہم کو معلوم ہے ایسا نہیں کیا گیا

      Reply
  5. Ibn Adam

    جہاں تک رہی بات تھوڑا تھوڑا کر کے نازل ہونے کی تو مطلب یہی ہے کہ ساری سورتیں ایک ساتھ نہیں آئیں. باقی ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ سورت ایک ساتھ نہیں ایک دور میں اترتی تھیں یعنی ایک سورت کا ایک مخصوص حالات جو چل رہے ہیں انہی میں مکمل ہو گا.
    باقی الله نے یہودیوں کو اسی بات کا مجرم ٹھہرایا کہ انھوں نے توریت کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے اس کا مطلب یہ تو نہیں تھا کہ انھوں نے اس پر کلہاڑی چلائی بلکہ یہ تھا کہ آیتوں کو اس کے CONTEXT سے نکال کر کچھ بھی مطلب نکال لیا.

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      اس تصور کو قبول کرنا ناممکن ہے

      سورتوں میں مضامین بہت الگ الگ ہیں – مثلا سورہ احزاب میں جنگ خندق، حجاب کی آیات ، زینب سے نکاح الگ الگ واقعات ہیں ان میں تسلسل بھی نہیں ہے
      اسی طرح اور بھی مدنی سورتوں میں ہے – مثلا جنگ بدر کا ذکر سورہ حج میں سورہ انفعال میں ہے
      ادوار الگ ہیں

      Reply
  6. Ibn Adam

    محترم
    کوئی ہفتہ پہلے ایک کمنٹ کیا تھا. وہ ابھی تک اس بلاگ پر نظر نہیں آ رہا. امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے. اور اللہ آپ کی زندگی کو خوشیوں اور آسانیوں سے بھر دے. آمین

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      سلام

      جی آپ کا کمنٹ مل گیا تھا اس کے مندرجات سے متفق نہیں تھا اس لئے اس کو جاری نہیں کیا
      مصروفیت کی وجہ سے آپ کی تفسیر کا مطالعہ نہیں کر سکا
      اللہ تعالی آپ کو بھی خوش رکھے
      امین

      Reply
  7. Ibn Adam

    جناب میری طرف سے معذرت، مجھے معلوم نہیں تھا کہ آپ اپنے بلاگ پر صرف اپنے نظریہ سے مطابقت والے کمنٹ کو ہی جگہ دیتے ہیں. معلوم ہوتا تو میں یقیناً وہ باتیں لکھنے کی جسارت نہ کرتا. خوش رہیں. واسلام

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      آپ کا مشورہ تھا کہ
      ///

      میری مودبانہ گزارش ہے کہ اگر آپ ہماری سوره تحریم یا سوره احزاب یا سوره مائدہ یا دیگر قرانی موضوعات کی تحریر پڑھ کر اس پر سوالات اٹھائیں تو زیادہ بہتر رہے گا
      //
      ابھی میں نے اس کو نہیں پڑھا ہے لہذا اس پر بحث ابھی نہیں کر سکتا اسی لئے آپ کے مراسلہ کو جاری نہیں کیا

      Reply
  8. Ibn Adam

    امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے اور یقیناً بہت مصروف بھی.
    ویسے معلوم نہیں کہ آپ وہ تفسیر کب پڑھیں تو سوچا کہ سوچنے کے لئے قرآن سے ایک چھوٹی سی دلیل دے دی جائے.
    سورہ محمد کی آیت ٢٠ میں الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ
    اور مومن لوگ کہتے ہیں کہ (جہاد کی) کوئی سورت کیوں نازل نہیں ہوتی؟… (٢٠)

    اس میں پہلا سوال تو یہ ہے کہ اگر قرآن آیتوں کی صورت میں اتر رہا تھا تو پھر تو مومنوں کو کہنا چاہیے تھا کہ جہاد کی آیتیں کیوں نازل نہیں ہوتیں؟
    اور آیت کے اگلے حصے میں ہی الله نے جواب دیتے ہوئے فرمایا
    …لیکن جب کوئی صاف معنوں کی سورت نازل ہو …..﴿۲۰﴾
    تو الله نے پھر سوره کے نزول کی بات کی نہ کہ آیت کے نزول . مزید یہ کہ آپ کو معلوم ہو گا کہ پورے قرآن میں جہاد کے نام سے کوئی سورت ہی موجود نہیں اور الله نے بھی آیت میں یہی فرمایا کہ صاف معنوں کی سورت نازل ہو جس کا مطلب یہی ہے کہ جو سورت نازل کی گئی اس میں جہاد کی آیتوں کے علاوہ دیگر موضوع کی آیات بھی تھیں.

    کہنے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن سورتوں کی صورت میں ہی نازل ہوا ہے جیسا اس آیت کے بیان سے واضح ہو رہا ہے. اور یہی چیز اس وقت کے مسلمان بھی مانتے تھے اسی لیے انھوں نے جہاد کی سورت کی بات کی نہ کہ جہاد کی آیتوں کی.

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      قرآن آیات میں بھی اترا ہے اور مکمل سورہ کی شکل میں بھی

      سورہ محمد آیت ٢٠ ہے
      وَيَقُولُ الَّذِينَ آمَنُوا لَوْلَا نُزِّلَتْ سُورَةٌ فَإِذَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ مُحْكَمَةٌ وَذُكِرَ فِيهَا الْقِتَالُ رَأَيْتَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ يَنْظُرُونَ إِلَيْكَ نَظَرَ الْمَغْشِيِّ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ فَأَوْلَى لَهُمْ

      اور کہتے ہیں وہ لوگ جو ایمان لائے کوئی سورت کیوں نہیں نازل ہوئی، سو جس وقت کوئی صاف (مضمون) کی سورت نازل ہوتی ہے اور اس میں جہاد کا بھی ذکر ہوتا ہے تو جن لوگوں کے دلوں میں بیماری (نفاق) ہے آپ ان لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ آپ کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے کسی پر موت کی بے ہوشی طاری ہو، پس ایسے لوگوں کے لیے تباہی ہے۔

      سُورَةٌ مُّحْكَمَةٌ سے مراد سورت ہے جس میں محکم یعنی حکم کی آیات ہوں

      سورہ توبہ میں ہے
      و إذا ما أنزلت سورة نظر بعضهم إلى بعض”: التوبة

      جہاد و قتال کا حکم سورہ حج میں موجود ہے

      یعنی سورہ حج نازل ہوئی اس میں قتال کا حکم آ گیا پھر سورہ محمد نازل ہوئی

      ممکن ہے سورت حج ایک مکمل سورت کے طور پر نازل ہوئی اس کے بعد جنگ بدر ہوئی پھر سورہ محمد نازل ہوئی
      یہ سب ممکن ہے
      لیکن سورہ محمد آیت ٢٠ سے یہ ثابت کیسے ہوا کہ آیات الگ الگ نازل نہیں ہوئیں ؟

      آپ کے نزدیک قتال کا حکم کس سورت میں سب سے پہلے آیا ؟

      Reply
  9. Ibn Adam

    جناب سوره محمد مدنی سورت ہے اس کا مطلب ہوا کہ تقریباً دو تہائی (٢/٣) قرآن نازل ہو چکا تھا. اور میں جس نقطۂ کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہ رہا ہوں کہ اگر اس وقت تک سورتیں بے ہنگم طریقہ سے اتر رہی ہوتیں اور بعد میں ان کو مختلف سورتوں میں ڈالا جا رہا ہوتا تو وہ لوگ الله سے یہ درخواست نہ کرتے کہ جہاد کی آیات والی کوئی سورت نازل کریں بلکہ یہ کہتے کہ جہاد کی آیات نازل فرمائیں.
    اسی طرح الله نے بھی جواب میں یہ کہا کہ وہ سورت نازل ہو گئی جس میں جہاد کا حکم تھا فرمایا. نہ کہ یہ کہا کہ جب جہاد کی آیات نازل ہو گئیں. اس کا مطلب یہی ہے الله نے قرآن کا جز سورت کو قرار دیا ہے. اور وحی کا نزول سورت میں ہو رہا تھا.

    اس سے پہلے بھی میں نے یہی بات کی تھی کہ قرآن میں جب مشرکین کو چیلنج دیا گیا ہے تو سورت بنا کر لانے کا چیلنج دیا ہے نہ کہ آیات بنا کر لانے کا. تو اگر سورتوں کا نزول سالوں پر محیط ہوتا تو مشرکین ضرور کہتے کہ آپ کی تو سورتیں خود مکمل سالوں میں ہوتی ہیں تو ہمیں کیسا چیلنج دے رہے ہو؟ پہلے ہمیں تو بتاؤ کہ تمھارے قرآن کی کونسی سورت مکمل ہو گئی ہے.

    ان دو مبین قرانی دلیلوں کے بعد مجھے ابھی تک کوئی ایسی دلیل ملی نہیں جس کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکوں کہ وحی کا نزول آیتوں میں ہوتا تھا اور پھر مختلف سورتوں میں ان کو ڈالا گیا.

    بہرحال سوچنے کے لئے ایک پہلو دیا تھا کیونکہ الحمد الله جب سے الله نے اس طرف توجہ مبذول کرائی ہے کہ سورت ایک دور کی نشاندھی کر رہی ہوتی ہے بہت سے مشکل سوالات کے جوابات مل گئے ہیں اور قرآن کو سمجھنے میں آسانی ہو گئی ہے. اور میرا اندازہ تو یہی ہے کہ باقی بھی اگر اس نظریہ پر آ جائیں گے تو قرآن سے ہدایت پانے میں آسانی پائیں گے اور آپ خود بھی ماشاء الله بہت سے موضوعات پر لکھ رہے ہوتے ہیں تو قرآن کو فرقان سمجھ کر مختلف تفرقات کو حل کرنے میں یہ نظریہ بہت مددگار ثابت ہوتا ہے. ایک روایت کو دوسری روایت سے رد کرنے میں تو ایک طرح سے ہمارا ایمان انسانوں پر چلا جاتا ہے جب کہ جب ہم قرآن کو فرقان بنا لیتے ہیں تو ہم اپنا ایمان الله پر رکھ دیتے ہیں

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      قرآن کی بہت سی سورتیں مکمل نازل ہوئیں ہیں جن کی ایک بڑی تعداد عم پارہ میں ہے اور انہی کا چیلنج مشرکین کو دیا گیا کہ ایک ہی سورت بنا لو
      تو ظاہر ہے یہ چھوٹی سورتیں ہیں

      ————-

      قرآن میں خود موجود ہے کہ آیات نازل ہوئیں ہیں ان کا مطلب جدا جدا آیات ہی لیا جاتا ہے
      سورہ احزاب کو ہی دیکھ لیں اس کے مضامین جدا ہیں نزول ایک ساتھ ممکن نہیں ہے

      سورہ بقرہ میں بھی ایسا ہی ہے

      مفسرین نے یہ دعوی کب کیا ہے کہ قرآن بے ترتیب حالت میں صرف آیات کی شکل میں نازل ہوا ہے ؟ مفسرین اور علماء کا کہنا ہے کہ مکمل سورتیں بھی نازل ہوئی ہیں اور الگ الگ آیات بھی نازل ہوئی ہیں

      ———-

      میں نے لکھا تھا ممکن ہے سورت حج ایک مکمل سورت کے طور پر نازل ہوئی اس کے بعد جنگ بدر ہوئی پھر سورہ محمد نازل ہوئی
      یہ سب ممکن ہے اور یہ بھی لگتا ہے کہ سورہ محمد جنگ بدر سے چند دن قبل کی ہے
      سورہ محمد میں ہے
      فَكَيْفَ إِذَا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ – سوره محمد ٢٧
      اور کیا ہو گا جب فرشتے ان کو قبض کریں گے ان کے چہروں کو ماریں گے اور کمر پر میں گے

      اس سے لگتا ہے کہ یہ سورت جنگ بدر سے قبل کی ہے کیونکہ اس میں فرشتوں کی مشرکوں سے قتال کی خبر دی گئی ہے

      Reply
  10. Ibn Adam

    الله آپ کو رمضان کی برکتیں اور سعادتیں عطا فرمائے. بس یہ پوچھنا تھا کہ کورونا اور رمضان کی برکتوں میں آپ کو تحریریں پڑھنے کا موقعہ ملا؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      جی میں نے سورہ تحریم پر آپ کی بحث کو پڑھا اور آپ کی تفسیر سے متفق نہیں ہو سکا کہ سورتیں مکمل حالت میں ایک ساتھ نازل ہوئی ہیں

      سورہ تحریم پر تھوڑی بات اس کتاب میں کی ہے
      https://www.islamic-belief.net/%D8%A7%D9%85-%D8%A7%D9%84%D9%85%D9%88%D9%85%D9%86%DB%8C%D9%86-%D8%B9%D8%A7%D8%A6%D8%B4%DB%81-%D8%B1%D8%B6%DB%8C-%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81-%D8%B9%D9%86%DB%81%D8%A7/

      Reply

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *