یہود مسلم تعلقات اور روایات

متشدد تنظیمیں  جن کے خیال میں اس صدی میں قیامت آ جائے گی اور دجال اور عیسی کا معرکہ بھی ہو جائے گا انہوں نے کتب ستہ اور اس سے باہر کی کتب کو کھنگال کر وہ تمام روایات جو بین المذاھب شدت پسندی پر اکساتی ہوں ان کو جمع کر دیا ہے –اس قسم کی کتب ایک منیول کی طرح تشدد پر اکسا رہی ہیں اور   عصر حاضر میں مسلمانوں میں تشدد کی جو لہر چلی ہے اس کو روکنے کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں –  متشدد عناصر عرب علماء سے درس لے کر خود کش حملے کر رہے ہیں اور دنیا کے مسائل کا کوئی حل ان کے مطابق ڈائلاگ سے ممکن نہیں بلکہ تمام فساد کی جڑ غیر مسلم اقوام خاص کر یہود کو قرار دینا ایک معمول بن چکا ہے

ضروری ہے کہ یہود مسلم تعلقات پر بحث کی جائے تاکہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور اصحاب رسول کا منہج سمجھا جا سکے اور صحیح و ضعیف کو پرکھا جائے – یہود اپنے آپ کو دور نبوی میں بڑے شوق سے عیسیٰ کا قاتل کہتے تھے اور عیسائیوں سے ان کی بنتی نہ تھی- اس دور میں  یہ قرآن تھا جس نے ان سے اس بات کو اٹھایا کہ یہود نے عیسیٰ علیہ السلام کا قتل  نہیں کیا – لیکن افسوس وہ اس بات کو سمجھ نہ سکے یہاں تک کہ آج یہودی کتابوں میں لکھ رہے ہیں کہ ہم نے نہیں بلکہ رومیوں نے عیسیٰ کا قتل کیا

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے وعظ  و نصیحت کی دقت کو وہ سمجھ نہ سکے اور اپنے مولویوں کے چکر میں رہے یہاں تک کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر دس یہودی ایمان لے آئیں تو تمام یہودی ایمان لے آئیں گے

افسوس یہ موقعہ نہ آ سکا اور قرآن کہتا ہے کہ انہوں نے اپنے احبار کو رب بنا لیا

اس پس منظر کو متشدد یہودیوں نے خوب اچھالا کہ ہم سے مدینہ میں زبردستی غلط سلط عقائد منوائے جا نے کا مطالبہ تھا اور اہانت رسول کرنے میں  انہوں نے کوئی شرم محسوس نہ کی دوسری طرف ترکی بہ ترکی کی روایت پر بعض مسلمانوں نے بھی خود کش حملوں کا جواز پیدا کیا اور اسطرح پوری دنیا میں ایک بے کلی کی کیفیت نے جنم لیا – نصیحت تو اہل تقوی کو ہی کارگر ہوتی ہے اس بنیاد پر کچھ روایات کو سمجھنا ضروری ہے

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَيْمُونٍ، حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، قَالَ: آخِرُ مَا تَكَلَّمَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَخْرِجُوا يَهُودَ أَهْلِ الْحِجَازِ، وَأَهْلِ نَجْرَانَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَاعْلَمُوا أَنَّ شِرَارَ النَّاسِ الَّذِينَ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ

ابو عبيدة بن الجراح  کہتے ہیں کہ آخری کلام جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہا وہ یہ تھا کہ یہود کو حجاز میں سے نکال دو

اس کی سند میں سعد  بن سَمُرَة بن جُنْدَب الفَزَاري ہے – کتاب  الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة از ابن قُطْلُوْبَغَا السُّوْدُوْنِي   (المتوفى: 879هـ)  میں سعد  بن سَمُرَة بن جُنْدَب الفَزَاري کے لئے  کہتے ہیں

قلت: حديثه عن أبيه عن أبي عبيدة رَفَعَهُ: «أخرِجُوا اليهود من الحجاز

میں ابن قُطْلُوْبَغَا کہتا ہوں:  اس کی حدیث اپنے باپ سے ان کی ابو عبیدہ سے اس نے رفع کی ہے

ابن قُطْلُوْبَغَا  کا مطلب ہے کہ سند ابوعبیدہ رضی الله عنہ تک نہیں جاتی

مزید براں اس روایت کی تمام  اسناد میں إبراهيم بن ميمون الصائغ المروزي کا تفرد  ہے اس کو ابن معين  نے ثقه کہا  أبو زرعة نے کہا  لا بأس به کوئی برائی نہیں اور  أبو حاتم لا يحتج به ، نا قابل دلیل کہا ہے- لہذا یہ ضعیف روایت ہے

روایت سراسر غلط ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے آخری الفاظ ہم تک صحیح اسناد سے پہنچ چکے ہیں کہ انہوں نے قرآن کی آیت پڑھی اور کہا اے الله تو ہی رفیق الاعلی ہے

صحیح ابن حبان اور صحیح مسلم کی روایت ہے رسول الله  صلى الله عليه وسلم نے فرمایا

  لأخرجن اليهود والنصارى من جزيرة العرب حتى لا أدع إلا مسلماً” (رواه مسلم/كتاب الجهاد برقم (1767

میں  یہود و نصاری کو جزیرہ العرب سے نکال دوں گا یہاں تک کہ اس میں صرف مسلمان ہوں گے

اس کی سند میں مدلس أبو الزبير  محمد بن مسلم بن تُدرُس المكي ہے

كتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از  صلاح الدين   العلائي (المتوفى: 761هـ)   کے مطابق

محمد بن مسلم أبو الزبير المكي مشهور بالتدليس قال سعيد بن أبي مريم ثنا الليث بن سعد قال جئت أبا الزبير فدفع لي كتابين فانقلبت بهما ثم قلت في نفسي لو أني عاودته فسألته اسمع هذا كله من جابر قال سألته فقال منه ما سمعت ومنه ما حدثت عنه فقلت له اعلم لي على ما سمعت منه فاعلم لي على هذا الذي عندي ولهذا توقف جماعة من الأئمة عن الاحتجاج بما لم يروه الليث عن أبي الزبير عن جابر وفي صحيح مسلم عدة أحاديث مما قال فيه أبو الزبير عن جابر وليست من طريق الليث وكأن مسلما رحمه الله اطلع على أنها مما رواه الليث عنه وإن لم يروها من طريقه والله أعلم

محمد بن مسلم أبو الزبير المكي تدلیس کے لئے مشھور ہیں – سعيد بن أبي مريم نے لیث بن سعد سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا میں ابو الزبیر کے پاس گیا اس نے دو کتابیں دیں ان کو لے لر واپس آیا – پھر میں نے  دل میں کہا جب اس کے پاس جاؤں گا تو اس سے پوچھوں گا کہ کیا یہ سب اس نے جابر بن عبد الله رضی الله عنہ سے سنا بھی ہے ؟ لیث نے ابو الزبیر سے (واپس جا کر) سوال کیا تو اس نے جواب میں کہا:  اس میں ہے جو ان سے سنا اور وہ بھی جو میں نے  ان سے روایت کر دیا ہے- میں (لیث) نے اس سے کہا: مجھے اس کا علم دو جو تم نے سنا ہو-  پس اس نے صرف وہ بتایا اور یہ اب میرے پاس ہے-اس وجہ سے ائمہ (حدیث) کی جماعت نے اس (ابو الزبیر) سے دلیل نہیں لی سوائے اس کے کہ جو لیث کی سند سے ہو – اور صحیح مسلم  میں اس کی چند روایات ہیں جس میں ابو الزبیر عن جابر کہا ہے جو لیث کی سند سے نہیں اور امام مسلم اس بات سے واقف تھے کہ اس کی لیث کی سند والی روایات کون سی ہیں ، انہوں نے اس کو اس طرق سے روایت نہیں کیا الله آعلم

یعنی یہ امام مسلم کا مخصوص عمل ہے کہ انہوں نے ائمہ حدیث کے خلاف جا کر ابو الزبیر کی جابر سے وہ روایت بھی لے لی ہیں جو لیث کے طرق سے نہ تھیں- اس سے معلوم ہوا کہ یہ  مخصوص روایت تمام محدثین کے نزدیک صحیح نہیں تھی

مسند البزار کی سند ہے

وَحَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ قُمَيْرٍ قَالَ: نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْكَرِيمِ الصَّنْعَانِيُّ قَالَ: نا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَقِيلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ: أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَأُخْرِجَنَّ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ حَتَّى لَا أَدَعَ فِيهَا إِلَّا مُسْلِمًا» وَلَا نَعْلَمُ رَوَى وَهْبُ بْنُ مُنَبِّهٍ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ عُمَرَ. إِلَّا هَذَا الْحَدِيثَ وَقَدْ رَوَى وَهْبٌ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَادِيثَ صَالِحَةً

وھب بن منبہ کہتے ہیں کہ جابر رضی الله عنہ نے عمر رضی الله عنہ سے روایت کیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے … پھر یہ روایت بیان کی

جامع التحصيل في أحكام المراسيل از  صلاح الدين  العلائي (المتوفى: 761هـ) کہتے ہیں

وهب بن منبه قال بن معين لم يلق جابر بن عبد الله إنما هو كتاب وقال في موضع آخر هو صحيفة ليست بشيء

وھب بن منبہ : ابن معین کہتے ہیں اس کی جابر بن عبد الله سے ملاقات نہیں ہوئی – بلکہ ایک کتاب تھی اور ایک دوسرے مقام پر کہا یہ کتاب کوئی چیز نہیں

مسند البزار کی روایت بھی ضعیف ہے

المعجم الكبير طبراني کی روایت ہے

حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى السَّاجِيُّ، ثنا بُنْدَارٌ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ صَالِحٍ النَّرْسِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَا: ثنا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، ثنا أَبِي، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَخْرِجُوا الْيَهُودَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ

أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ کہتے ہیں کہ ام سلمہ رضی الله عنہا نے فرمایا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہود کو جزیرہ العرب سے نکال دو

اسکی سند میں يَحْيَى بنُ أَيُّوْبَ أَبُو العَبَّاسِ الغَافِقِيُّ ہے جن  کے لئے  ابو حاتم کہتے ہیں  أَبُو حَاتِمٍ: وَمَحَلُّهُ الصِّدْقُ، وَلاَ يُحْتَجُّ بِهِ ان کا مقام صدق ہے اور  ناقابل دلیل ہے – نسائی ان کو قوی نہیں کہتے ہیں الدارقطني کہتے ہیں  في بعض حديثه اضطراب سيء الحفظ ان کی بعض احادیث مضطرب ہیں اور خراب حافظہ کے حامل ہیں ابن سعد کہتے ہیں  منكر الحديث ہے

لہذا روایت ضعیف ہے

موطآ امام مالک کی روایت ہے

 وَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلى الله عَلَيه وَسَلم قَالَ لا يجتمع دينان في جزيرة العرب

امام الزہری نے کہا کہ  نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا عرب میں دو دین جمع نہ ہوں گے

اس کی سند منقطع ہے – امام الزہری سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم تک کی سند نہیں ہے

امام مالک اس کے ذیل میں کہتے ہیں

 قَالَ مَالِك: وَقَدْ أَجْلَى عُمَر بْنُ الخَطَّابِ يَهُودَ نَجْرَانَ وَفَدَكَ. اور عمر نے نجران اور فدک کے یہود کو جلا وطن کیا

امام مالک نے وضاحت کی کہ عمر نے (صرف) نجران اور فدک (خیبر)  کے یہود کو جلاوطن کیا نہ کہ تمام جزیرہ عرب کے یہود کو-  عرب میں یمن شامل ہے اس میں یہود آج تک رہ رہے ہیں

شرح صحیح المسلم میں النووی کہتے ہیں

وَالصَّحِيحُ الْمَعْرُوفُ عَنْ مَالِكٍ أَنَّهَا مَكَّةُ وَالْمَدِينَةُ واليمامة وَالْيَمَامَةُ وَالْيَمَنُ 

اور صحیح و معروف امام مالک سے ہے کہ جزیرہ العرب سے مراد مکہ مدینہ یمامہ اور یمن ہے

مصنف ابن ابی شیبه کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: «لَا يَتْرُكُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى بِالْمَدِينَةِ فَوْقَ ثَلَاثٍ قَدْرَ مَا يَبِيعُوا سِلْعَتَهُمْ»، وَقَالَ: «لَا يَجْتَمِعُ دِينَانِ فِي جَزِيرَةِ الْعَرَبِ»

عمر رضی الله عنہ نے کہا … عرب میں دو دین جمع نہ ہوں گے

کتاب الأموال لابن زنجويه کی روایت ہے کہ یہ عمر رضی الله کی رائے تھی نہ کہ حدیث رسول  ہے

أنا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ، أَخْرَجَ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى وَالْمَجُوسَ مِنَ الْمَدِينَةِ، وَضَرَبَ لِمَنْ قَدِمَهَا مِنْهُمْ أَجَلًا، إِقَامَةُ ثَلَاثِ لَيَالٍ قَدْرَ مَا يَبِيعُونَ سِلَعَهُمْ، وَلَمْ يَكُنْ يَدَعْ أَحَدًا مِنْهُمْ يُقِيمُ بَعْدَ ثَلَاثِ لَيَالٍ، وَكَانَ يَقُولُ: «لَا يَجْتَمِعُ دِينَانِ فِي جَزِيرَةِ الْعَرَبِ

ابن عمر کہتے ہیں عمر رضی اللہ نے یہود اور نصآری اور مجوس کو مدینہ سے نکال دیا اور ان کو پابند کیا کہ تین رات کی مقدار مدینہ میں بزنس کریں اور اس کے بعد تین دن سے زیادہ کوئی نہ رکے اور کہتے کہ عرب میں دو دین جمع نہ ہوں گے

طحآوی مشکل الاثآر میں کہتے ہیں

قَالَ: أَبُو عُبَيْدَةَ جَزِيرَةُ الْعَرَبِ بَيْنَ حَفْرِ أَبِي  مُوسَى إِلَى أَقْصَى الْيَمَنِ فِي الطُّولِ , وَأَمَّا الْعَرْضُ فَمَا بَيْنَ رَمْلِ يَبْرِينَ إِلَى مُنْقَطَعِ السَّمَاوَةِ قَالَ: وَقَالَ الْأَصْمَعِيُّ جَزِيرَةُ الْعَرَبِ مِنْ أَقْصَى عَدَنَ أَبْيَنَ إِلَى رِيفِ الْعِرَاقِ فِي الطُّولِ , وَأَمَّا الْعَرْضُ فَمِنْ جُدَّةَ وَمَا وَالِاهَا مِنْ سَاحِلِ الْبَحْرِ إِلَى أَطْرَارِ الشَّامِ

ابوعبیدہ نے کہا جزیرہ العرب حفر ابو موسی سے لے کر دور یمن تک طول میں ہے اور … الْأَصْمَعِيُّ نے کہا کہ عدن یمن سے لے کر عراق کے ملک تک ہے

سنن ابی داود کی روایت ہے

حدَّثنا محمودُ بن خالدٍ، حدَّثنا عمرُ – يعني ابنَ عبد الواحد قال: قال سعيدٌ -يعني ابنَ عبد العزيز-: جزيرةُ العرب ما بين الوادي إلى أقصى اليمن إلى تُخُومِ العِراق إلى البحر

سعيد بن عبد العزيز التّنوخي الدمشقى کہتے ہیں کہ جزیرہ العرب یمن سے لے کر عراق کی سرحد تک ہے سمندر تک

صحیح بخاری میں ہے

وَقَالَ يَعْقُوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ، سَأَلْتُ المُغِيرَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ جَزِيرَةِ العَرَبِ: فَقَالَ مَكَّةُ، وَالمَدِينَةُ، وَاليَمَامَةُ، وَاليَمَنُ، وَقَالَ يَعْقُوبُ وَالعَرْجُ أَوَّلُ تِهَامَةَ

يَعْقُوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ کہتے ہیں میں نے المُغِيرَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ سے جزیرہ العرب پر سوال کیا انہوں نے کہا مکہ مدینہ یمامہ یمن

یعنی یمن بھی جزیرہ العرب کا حصہ ہے اب یہ کیسے ممکن ہے کہ اگر یہود کو جزیرہ العرب سے نکالنے کا کوئی حکم نبوی تھا تو اس پر ابو بکر رضی الله عنہ کے دور میں عمل نہ ہوا بلکہ عمر رضی الله عنہ نے اس پر واجبی عمل کیا ؟ – اوپر عمر رضی الله عنہ کے اقوال دیے گئے ہیں کہ انہوں نے مدینہ میں یہود کے تین دن سے اوپر رہنے پر پابندی لگا دی تھی اور وہ شاید اس کو تمام عرب پر لگانا چاھتے تھے لیکن ایسا کر نہ سکے-

عثمان رضی الله عنہ نے بھی یمن کے یہود کو چھوڑ دیا بلکہ عبد الله ابن سبا جس نے عثمان رضی الله عنہ کے دور میں فتنہ پردازی کی وہ بھی یمن سے تھا

مسند احمد کی روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے علی رضی الله عنہ کو مرض وفات میں نصیحت کی کہ

جب تم خلیفہ بنو تو یہود کو یمن سے نکال دینا

 اس کی سند میں قيس ابن الربيع الأسدي الكوفي متکلم فیہ راوی ہے

وقال ابن هانىء: وسئل (يعني أبا عبد الله) عن قيس بن الربيع؟ فقال: ليس حديثه بشيء. «سؤالاته» (2267

ابن ہانی کہتے ہیں میں نے امام احمد سے قیس پر سوال کیا کہا اس کی حدیث کوئی چیز نہیں 

وقال المروذي: سألته (يعني أبا عبد الله) عن قيس بن الربيع، فلينه

مروزی کہتے ہیں امام احمد سے قیس پر سوال کیا تو انہوں نے کہا اس میں کمزوری ہے

  تاریخ کے مطابق علی رضی الله عنہ خود مدینہ چھوڑ کر کوفہ منتقل ہوئے یعنی جزیرہ العرب (جو بقول روایات  عمر نے یہود سے خالی کرا دیا تھا  )   اس کو چھوڑ کر یہود جہاں رہتے تھے (یعنی عراق و بابل) وہاں منتقل ہو گئے

یہ تاریخی شواہد ثابت کرتے ہیں کہ اس طرح کا کوئی حکم نبوی نہ تھا اگر ہوتا تو خلفا اربع سب سے پہلے اس پر عمل کرتے-

سوال ہے کیا کوئی وصیت رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے؟

صحیح بخاری کی روایت ہے

طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى – رضي الله عنهما -: هَلْ أَوْصَى رَسُولُ اللهِ – صلى الله عليه وسلم -؟ , فَقَالَ: لَا , قُلْتُ: كَيْفَ كُتِبَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ الْوَصِيَّةُ؟ , أَوْ فَلِمَ أُمِرُوا بِالْوَصِيَّةِ؟ , قَالَ: ” أَوْصَى بِكِتَابِ اللهِ – عزَّ وجل

طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ کہتے ہیں میں نے صحابی رسول عَبْدَ اللهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى رضی الله عنہ سے سوال کیا کہ کیا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے وصیت کی ؟ انہوں نے کہا نہیں میں نے کہا کیسے جبکہ مسلمانوں پر وصیت فرض ہے یا ان کو وصیت کا حکم ہے ؟ عبد الله نے کہا انہوں نے کتاب اللہ کی وصیت کی

صحیح مسلم کی روایت ہے

حدَّثنا مُسدَّدٌ ومحمدُ بن العلاءِ، قالا: حدَّثنا أبو معاويةَ، عن الأعمشِ، عن أبي وائلٍ، عن مسروقٍ عن عائشة، قالتْ: ما تركَ رسولُ الله – صلَّى الله عليه وسلم – ديناراً، ولا درهماً، ولا بعيراً، ولا شاةً، ولا أوصىَ بشيءٍ

عائشہ رضی الله عنہآ فرماتی ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے نہ دینار چھوڑا نہ درہم نہ بعیر نہ بکری اور نہ کسی چیز کی وصیت کی

مسند احمد کی روایت ہے

عَنِ الْأَرْقَمِ بْنِ شُرَحْبِيلَ قَالَ: سَافَرْتُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ – رضي الله عنهما – مِنَ الْمَدِينَةِ إِلَى الشَّامِ … فَمَاتَ رَسُولُ اللهِ – صلى الله عليه وسلم – وَلَمْ يُوصِ

الْأَرْقَمِ بْنِ شُرَحْبِيلَ روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی الله عنہ کے ساتھ مدینہ سے شام تک کا سفر کیا …. (اس دوران سوالات کیے).. ابن عباس رضی الله عنہ نے کہا – رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور انہوں نے کوئی وصیت نہ کی

شعيب الأرنؤوط اور احمد شاکر اس کو إسناده صحيح کہتے ہیں

یعنی عبد بن ابی اوفی رضی الله عنہ ، عائشہ رضی الله عنہا اور ابن عباس رضی الله عنہ سب بیان کر رہے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کوئی وصیت نہیں کی

اب ایک اور روایت صحیح بخاری میں ہے جو ان تمام اوپر والی روایات کی مخالف ہے

سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي مُسْلِمٍ الأَحْوَل کہتے ہیں انہوں نے  سَعِيدَ بْنَ جُبَيْر سے سنا انہوں نے َ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا سے سنا … ابن عباس کہتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے تین وصیتیں کیں

أَخْرِجُوا المُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ العَرَبِ

مشرکین کو جزیرہ العرب سے نکال دینا

وَأَجِيزُوا الوَفْدَ بِنَحْوِ مَا كُنْتُ أُجِيزُهُمْ

وفود کے ساتھ ایسا برتاؤ کرنا جیسا میں کرتا ہوں

تیسری وصیت راوی سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي مُسْلِمٍ الأَحْوَل  بھول گیا

عجیب بات ہے یہ اتنی اہم وصیت جو ابن عباس سے سعید بن جبیر نے سنی انہوں نے کسی اور کو نہ بتائی

 صحیح بخاری میں سفیان بن عینیہ کہتے ہیں سلیمان الأَحْوَل بھول گیا تھا  اور اگر سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي مُسْلِمٍ الأَحْوَل بھول گیا تو کوئی اور راوی  ہی بتا دیتا – سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي مُسْلِمٍ الأَحْوَل بصرہ کے ہیں اور  المدائن  میں قاضی تھے – تاریخ بغداد میں ہے

علي بْن عبد اللَّه ابْن المديني، قَالَ: سمعت يحيى بْن سعيد، وذكر عنده عاصم الأحول، فقال يحيى: لم يكن بالحافظ

علی المدینی کہتے ہیں انہوں نے یحیی بن سعید کو سنا اور ان کے سامنے عاصم الأحول کا ذکر ہوا انہوں نے کہا حافظ نہیں ہے

 اس کے برعکس  مصنف عبد الرزاق اور مسند الحمیدی کے مطابق سلیمان  الأحول خود کہتے

  فَإِمَّا أَنْ يَكُونَ سَعِيدٌ سَكَتَ عَنِ الثَّالِثَةِ عَمْدًا، وَإِمَّا أَنْ يَكُونَ قَالَهَا فَنَسِيتُهَا

پتا نہیں سعید بن جبیر اس تیسری وصیت پر عمدا خاموش رہے یا انہوں نے کہا بھول گئے

یعنی تیسری وصیت کو میں نے نہیں سعید بن جبیر بھولے یا چھپایا

واضح رہے کہ اس موقعہ پر ایک حدیث پیش کی جائے جس میں ہے کہ جس نے کوئی علمی بات جو اس کو پتا ہو چھپایا اس کو اگ کا طوق ڈالا جائے گا

یہ کیسے ممکن ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ایک وصیت جو امت میں صرف سعید بن جبیر کو پتا تھی اور انہوں نے بھی صرف سلیمان الأحول کو بتائی وہ خود یا سلیمان اس کو بھول گئے؟  دوم یہود نہیں بلکہ مشرکین کو نکالنے کا حکم دیا  سوم  قرآن  سوره النصر کے مطابق عرب میں وفات رسول تک مشرکین جوق در جوق اسلام قبول کر چکے تھے اور اسلام عرب کے تمام ادیان پر غالب تھا – -اس تناظر میں واضح ہے کہ ایسے کوئی مشرکین رہے ہی نہ تھے  جن کی کوئی اجتمآعیت ہو اور ان کو نکالنے کا کوئی حکم رہ گیا  اور مرض وفات میں اس کا حکم عام نہ کیا بلکہ صرف ابن عباس رضی الله عنہ کو دیا- یہی روایت  صحیح مسلم میں  طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ  ابن عباس رضی الله عنہ سے ایک دوسری سند سے مروی ہیں جن میں  ان تین وصیتوں کا ذکر نہیں ہے

شیعہ حضرات کو بخاری کی اس روایت سے ایک جواز مل گیا کہ وہ کہہ سکیں کہ صحابہ نے علی وصی الله کی بات چھپائی لیکن اصل میں یہ راوی کی غلطی ہے – خود ابن عباس رضی الله  عنہ کے مطابق  رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کوئی وصیت نہ کی

ہر راوی اپنے اپنے ذوق کے مطابق وصیت گنوا رہا تھا

بعض کہتے تھے علی کی خلافت کی وصیت کی

بعض کہتے یہود کو جزیرہ العرب سے نکالنے کی وصیت کی

بعض کہتے تھے مشرکین کو جزیرہ العرب سے نکالنے کی وصیت کی

انہی اقوال کو اب متشدد شیعہ تنظیمیں اور سنی جہادی تنظیمیں استمعال کر رہی ہیں تاکہ حکمرانوں پر جرح کر سکیں بلکہ خود شیعہ و سنی آپس میں انہی روایات کی وجہ سے الجھتے ہیں

رسول الله کی وصیت سے متعلق روایات میں جو اضطراب ہے وہ آپ نے دیکھ لیا الغرض یہود کو عرب سے نکالنا بھی ایک فرضی وصیت ہے

صحیح بخاری کی حدیث ہے  ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے یہود مدینہ کو کہا

اعْلَمُوا أَنَّمَا الْأَرْضُ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ، وَأَنِّي أُرِيدُ أَنْ أُجْلِيَكُمْ مِنْ هَذِهِ الْأَرْضِ، فَمَنْ وَجَدَ مِنْكُمْ بِمَالِهِ شَيْئًا فَلْيَبِعْهُ، وَإِلَّا فَاعْلَمُوا أَنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ

جان لو کہ زمین الله اور اسکے رسول کی ہے اور میرا ارادہ ہے کہ تم کو جلاوطن کر دوں اس زمین سے پس تم میں جو مال پائے وہ اسکو بیچ دے اور جان لو کہ زمین الله اور اس کے رسول کی ہے

شارحیں حدیث نے اس روایت  کی تاویل کی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے صرف مدینہ کے یہود کو نکالنے کا اردہ کیا تھا نہ کہ تمام عرب کے  اور جیسا کہ صحیح احادیث میں ہے  مرض وفات میں زرہ گروی رکھ کر انہی یہودیوں سے آپ نے جو ادھار لیا  – کتاب  إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري از القسطلاني(المتوفى: 923هـ ) میں الزركشي  نے رسول الله کے قول کی وضاحت میں کہا

إن اليهود هم بنو النضير والظاهر أنهم بقايا من اليهود تخلفوا بالمدينة بعد إجلاء بني قينقاع وقريظة والنضير والفراغ من أمرهم، لأن هذا كان قبل إسلام أبي هريرة لأنه إنما جاء بعد فتح خيبر كما هو معروف، وقد أقر -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يهود خيبر على أن يعملوا في الأرض واستمروا إلى أن أجلاهم عمر -رضي الله عنه-

یہ یہودی  بنو نضیر کے (باقی رہ جانے والے لوگ) تھے اور ظاہر ہے کہ یہ وہ باقی رہنے والے یہودی تھے جو بني قينقاع وقريظة والنضير کی جلا وطنی کے بعد رہ گئے تھے ( کیونکہ انکا جلاوطن کیا جانا ) ابو ہریرہ کے اسلام لانے سے قبل  ہوا اور ابو ہریرہ فتح خیبر کے بعد (ایمان) آئے اور رسول الله نے خیبر کے یہود کو (خیبر میں) ٹہرنے کی اجازت دی کہ اپنی زمین پر عمل داری کریں اور رکیں یہاں تک کہ عمر نے انکو جلا وطن کیا

کتاب  مصابيح الجامع از  ابن الدماميني  (المتوفى: 827 ھ)  میں  ابن المنیر کا قول ہے

قال ابن المنير: لا يُتصور أن يروي أبو هريرة حديثَ بني النضير وإجلائهم، ولا أن يقول: بينا نحن في المسجد خرج علينا رسولُ الله – صلى الله عليه وسلم -، ثم يقتص بإجلاء بني النضير، وذلك أن إجلاءهم في أول السنة الرابعة من الهجرة اتفاقاً، وإسلامُ أبي هريرة إنما كان بعدَ هذا بكثير، يقال: إنه أسلم في السنة السابعة، وحديثه صحيح، لكنه لم يكن في بني النضير، بل فيمن بقي من اليهود بعدهم كان – صلى الله عليه وسلم –  يتربص بجلائهم أن يوحى إليه،فتأخر ذلك إلى مرض [موته -عليه السلام-، فأُوحي إليه بإجلائهم، فأوصى أن لا يبقى دينان في جزيرة العرب] ، ثم تأخر الأمر إلى زمان عمر -رضي الله عنه

ابن المنیر کے کہا یہ متصور(ممکن) نہیں کہ اس روایت کو ابو ہریرہ رضی الله عنہ نے روایت کیا ہو بنی النضیر کی جلا وطنی کے لئے ، نہ وہ کہہ سکتے ہیں کہ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ نکلا اور پھر بنی النضیر کی جلا وطنی کا قصہ نقل کریں کیونکہ وہ تو چار ہجری کے شروع میں باتفاق ہوئی ہے اور ابو ہریرہ کے بارے میں بکثرت پتا ہے وہ سن سات میں اسلام لائے اور حدیث تو صحیح ہے لیکن یہ بنو النضیر سے متعلق نہیں ہو سکتی بلکہ ان کے بارے میں ہے جو یہودی (مدینہ میں) باقی رہ گئے تھے-  پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے وحی کا انتظار کیا  اس بارے میں اور ارادہ موخر کیا اپنے وفات تک اور پھر اسکی وصیت کی پھر اس میں دیر ہوئی اور عمر رضی الله عنہ کے دور میں اس کو کیا گیا

اس بات پر وہی اعترض اٹھتا ہے کہ ابو بکر رضی الله عنہ نے اس پر عمل کیوں نہ کیا ؟ 

ممکن ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس کا ارادہ کیا لیکن قرآن میں جزیہ لینے  کا حکم آ گیا

قرآن میں سوره التوبة، الآية: 29 میں ہے

 قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآَخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ

اور جو الله اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور اس کو حرام نہیں کرتے جس کو الله اور اس کا رسول حرام کر رہے ہیں اور نہ وہ جن کو ہم نے کتاب دی دین حق کو تسلیم کرتے ہیں، ان سے قتال کرو،   یہاں تک کہ جزیہ دیں اپنے باتھ سے اور کم تر ہو جائیں

قرآن کا حکم ہے کہ   اہل کتاب سے جزیہ لیا جائے اور جب وہ جزیہ دیں تو ان کے اموال کی حفاظت کی ذمہ داری مسلمانوں پر عائد ہو جاتی ہے لہذا یہ ممکن نہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس قرانی حکم کے خلاف تمام اہل کتاب کو جزیرہ العرب سے نکالنے کا حکم دیتے

بالفرض ان روایات کو تسلیم کر بھی لیں تو اس پر بھی غور کرنا چاہیے کہ اس سے کیا حاصل ہوا ؟

جزیرہ العرب سے یہود عراق و بابل میں اور مصر میں ان بستیوں میں جا کر ٹہرے ہوں گے جہاں ازمنہ قدیم سے بعثت رسول سے بھی پہلے سے رہ رہے تھے بلکہ وہ عباسی دور تک رہے – یہاں تک کہ ایک یمنی یہودی موسى بن ميمون (١)  مسلمانوں کے امیر صلاح الدین ایوبی کا سرکاری طبیب تھا  اور صلاح الدین ایوبی کی وفات کے بعد اپنی موت تک سرکاری طبیب رہا -یہ آج تک یہود کا ایک اہم حبر ہے

(١)Maimonides

بعض یہود رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے مخالف تھے لیکن رسول الله نے ان پر بالعموم کوئی زیادتی نہیں کی – ایک قبیلہ کو فتنہ پردازی پر جلا وطن کیا اور ایک کو عہد شکنی کی سزا دی لیکن ان کے علاوہ یہودی مدینہ میں رہتے رہے – صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ جب یہودی کا جنازہ گزرتا تو آپ صلی الله علیہ وسلم اس کے احترام میں کھڑے ہو جاتے –  احادیث کے مطابق یہودی عورتوں کا امہات المومنین کے پاس آنا جانا تھا اور وہ ان کے لئے اچھی دعآ بھی کرتیں مثلا دس ہجری میں عائشہ رضی الله عنہا کے پاس یہودی عورتیں آئیں اور واپس جاتے وقت انہوں نے عائشہ رضی الله عنہا کے لئے دعا کی کہ الله ان کو عذاب قبر سے بچائے – بلکہ خود رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مرض وفات سے پہلے ایک یہودی کے پاس اپنا جنگی سامان گروی رکھ کر جو لیا – حدیث کے مطابق ایک مسلمان اور یہودی میں موسی اور رسول الله صلی الله علیھما کی فضیلت پر جھگڑا ہوا کہ کون افضل ہے اس بحث میں مسلمان نے یہودی کو تھپڑ مار دیا اور یہودی روتا ہوا رسول الله کے پاس پہنچ گیا – نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا  کہ روز محشر جب میں اٹھوں گا تو مجھ سے پہلے موسی عرش الہی کے پاس ہوں گے یعنی آپ نے حتی المقدور کوشش کی کہ ابرآہیمی ادیان میں اصول میں  اختلاف ، ذاتی عناد میں اور ظلم میں تبدیل نہ ہو اور جس کو جو فضیلت ملی اس کو تسلیم کیا جائے

یاد رہے کہ قرآن کا حکم ہے

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ

اے ایمان والوں الله کے لئے عدل کے گواہ بن کر کھڑے ہو  اور ایسا نہ ہو کہ کسی قوم کی دشنمی تم کو اکسائے کہ عدل نہ کرو  عدل کرو یہ تقوی کے قریب ہے اور الله سے ڈرو بے شک الله جانتا ہے جو تم کرتے ہو

2 thoughts on “یہود مسلم تعلقات اور روایات

  1. Waheed

    Quran main hee hai keh yahood-o-nasara tumharay dost nahin ho saktay jb tak tum an jaisay na hoo jao. Phir an say dosti ka matlab.

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      woh aik alag behas hai- is blog mai is ka inkar nahi is ki hadod hain. un say dosti ka matlab hai rsol ki mukhalft mai dosti karna nah kah in ka social boycot karna

      Reply

Leave a Reply to Waheed Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *