غور طلب

الله تعالی نے کتاب الله میں واضح کر دیا ہے کہ اس کے نزدیک کوئی قوم منتخب کردہ نہیں – امت الوسطی ہے جس پر ذمہ داری ہے کہ وہ الوسطی کا کردار ادا کریں کہ نہ یہود کی طرح رحمت الہی کو مقید کریں نہ نصاری کی طرح اس کو لام و عام  بلکہ افراط و تعصب  سے بچیں اور دین میں غلو نہ کریں

صحیح روایات میں ہے کہ  رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

اے اللہ! ہمارے شام میں برکت عطا فرما۔ اے اللہ ! ہمارے یمن میں برکت عطا فرما۔ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ! ہمارے نجد میں بھی۔ آپ نے فرمایا ہمارے شام میں برکت عطا فرما اور ہمارے یمن میں بھی۔ لوگوں نے پھر کہا ہمارے نجد میں بھی۔ راوی کا کہنا ہے کہ میرا خیال ہے کہ تیسری بار رسول اللہ نے فرمایا کہ وہاں پر زلزلے آئیں گے اور فتنے ہوں گے اور وہاں شیطان کا سینگ ظاہر ہوگا۔

ایسی روایات سے بعض لوگ یہ ثابت کرتے ہیں کہ مسلمان اگر رہ گئے ہیں تو وہ صرف شام اور یمن میں ہیں حالانکہ اس میں برکت کا ذکر ہے اور ایمان کا ذکر نہیں ہے – ایمان کا تعلق تو دل سے ہے اور اس کا کسی علاقے سے تعلق نہیں ہے – شام کی فضیلت کا ذکر صحیح احادیث میں ہے جن کو قرب قیامت کے حوالے سے پیش کیا جاتا ہے کہ اس میں عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہو گا لیکن اس کے علاوہ بعض دوسرے ، تیسرے اور چوتھے درجے کی کتب میں ایسی ضعیف روایات بھی ہیں جن میں ملک شام کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا ہے  اور بہت سے شام پسند اور اس میں سکونت اختیار کرنے والے علماء نے فضائل الشام پر کتب میں ان ضعیف روایات کو درجہ قبولیت دے دیا ہے – ایسی  کتب سے نوجوانوں کا ایک طبقہ متاثر ہوا جو علم حدیث اور علل حدیث کی پیچدگیوں سے نا واقف تھا اور پھر جو ہوا اور ہو رہا ہے وہ سب کےسامنے ہے

واضح رہے کہ دور نبوی میں شام سے مراد وہ علاقہ تھا جو آج ملک شام اردن اسرائیل پر مشتمل ہے

شام کی یہ اہمیت کہ اس پر کوئی غالب نہ ہو گا اور یہاں پر وقت فرشتے سایہ رکھتے ہیں اور یہاں ابدال رہتے ہیں قابل غور ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے جبکہ اس کو صلیبیوں نے قبضے میں کیا  –  پہلی صلیبی جنگ   ١٠٩٦ ع  میں شروع ہوئی اور نویں ١٢٧٢ ع میں ہوئی  یعنی ڈیڑھ سو سال سے اوپر شام کا با برکت علاقہ مسلمانوں کے پاس نہ تھا یہاں تک کہ شام میں ارض مقدس میں قبلہ اول بھی آج نہیں ہے

اس تاریخی تناظر میں اب یہاں   علماء کی صحیح قرار دی گئی روایات پر   نظر ڈالتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کیا یہ واقعی حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم ہو سکتی ہیں

مدینہ سے ایمان کا شام منتقل ہونا

حدثنا أحمدُ بن محمَّد بن يحيى بن حَمْزَة الدمشقي، ثنا يحيى بن صالح الوُحَاظِي، ثنا سعيدُ بن عبد العزيز، عن يونُس بن مَيْسَرة بن حَلْبَس، عن عبد الله بن عَمرو بن العاص، قال: قال رسولُ الله صلى الله عليه وسلم: «رَأَيْتُ عَمُودَ الكِتَابِ انْتُزِعَ مِنْ تَحْتِ وِسَادَتِي، فَأَتْبَعْتُهُ بَصَرِي، فَإِذَا هُو نُورٌ سَاطِعٌ إِلَى الشَّامِ

عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ  نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: “میں نے دیکھا کہ میرے تکیے کے نیچے سے کتاب (الله) کو مجھ سے واپس لیا جا رہا ہے۔ میری نظروں نے اس کا تعاقب کیا، ادھرشام  سے بہت نور پھوٹ رہا تھا۔

اس حدیث کو ابو نعیم نے الحلیۃ میں، ابن عساکر نے، الطبرانی نے الکبیر میں مسند الشاميين میں اور الاوسط میں روایت کیا ہے  الحاکم نے صحیح قرار دیا ہے

اس کی سند میں سعيدُ بن عبد العزيز ہیں جو مدلس تھے اور آخری عمر میں مختلط بھی ہوئے

افسوس روایت کے راوی يونس بن ميسرة بن حلبس  خود ایک فتنہ میں ہلاک ہوئے کتاب   الطبقات الكبرى   از  ابن سعدکے مطابق

لما دخل المسودة في أول سلطان بني هاشم دمشق دخلوا مسجدها فقتلوا من وجدوا فيه فقتل يومئذ يونس بن ميسرة بن حلبس

جب کالیے  (بنو ہاشم جنہوں نے کالے کپڑے پہن کر بنو امیہ کے خلاف خروج کیا) جو بنو ہاشم کے لیڈر تھے دمشق میں مسجد میں داخل ہوئے تو انہوں نے اس میں تمام (مسلمانوں) کو قتل کر دیا  پس اس روز  يونس بن ميسرة بن حلبس قتل ہوئے

معجم طبرانی کی اسی متن کی  روایت أَبِي أُمَامَةَ سے بھی  ہے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ الْبَاقِي الْمِصِّيصِيُّ، ثنا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ الْحِمْصِيُّ، ثنا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ عُفَيْرِ بْنِ مَعْدَانَ، أَنَّهُ سَمِعَ سُلَيْمَ بْنَ عَامِرٍ، يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمْ قَالَ: «رَأَيْتُ عَمُودَ الْكِتَابِ انْتُزِعَ مِنْ تَحْتِ وِسَادَتِي، فَأَتْبَعْتُهُ بَصَرِي، فَإِذَا هُوَ نُورٌ سَاطِعٌ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ قَدْ هَوَى بِهِ، فَعُمِدَ بِهِ إِلَى الشَّامِ، وَإِنِّي أَوَّلْتُ أَنَّ الْفِتَنَ إِذَا وَقَعَتْ أَنَّ الْإِيمَانَ بِالشَّامِ

 اسکی سند میں الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ جو مدلس ہیں اور عن سے روایت کرتے ہیں سند میں عفير بن معدان الحضرمى  ہے جو ضعیف ہے منکر الحدیث  ہے

ایک روایت مسند احمد میں ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قثنا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَاقِدٍ قَالَ: حَدَّثَنِي بُسْرُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ، إِذْ رَأَيْتُ عَمُودَ الْكِتَابِ احْتُمِلَ مِنْ تَحْتِ رَأْسِي، فَظَنَنْتُ أَنَّهُ مَذْهُوبٌ بِهِ، فَأَتْبَعْتُهُ بَصَرِي فَعُمِدَ بِهِ إِلَى الشَّامِ، أَلَا وَإِنَّ الْإِيمَانَ حِينَ تَقَعُ الْفِتَنُ بِالشَّامِ

أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں سویا ہوا تھا کہ کتاب میرے سر کے نیچے سے سیدھی اوپر گئی پھر میں نے گمان کیا کہ یہ جا رہی ہے پس میری نگاہ نے اس کا تعاقب کیا تو دیکھا یہ شام کی طرف جا رہی ہے خبر دار ایمان شام میں ہے جب فتنہ ہو

الغرض یہ روایت شاذ و منکر ہے- یہ روایت ایمان  کا مدینہ سے شام منتقل ہونا بتا رہی ہے  جبکہ صحیحین کے مطابق تو ایمان مدینہ میں سمٹے گا اور دجال کی آمد پر مدینہ تین بار لرز جانے گا اور مدینہ منافقین سے خالی ہو گا

 شام  پر فرشتوں کے پر

امام احمد اور امام ترمذی اپنی کتب میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی الله

علیہ وسلم نے فرمایا:

حَدَّثَنَا حَسَنٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ، عَنِ ابْنِ شِمَاسَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا حِينَ قَالَ: “طُوبَى لِلشَّامِ، طُوبَى لِلشَّامِ ” قُلْتُ: مَا بَالُ الشَّامِ؟ قَالَ: “الْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَجْنِحَتِهَا عَلَى الشَّامِ

“شام کتنی مبارک جگہ ہے!”، صحابہ رضوان اللہ اجمعین نے پوچھا: “اے اللہ کے رسول، ایسا کیوں ہے؟”، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے جواب دیا: “میں اللہ کے فرشتوں کو دیکھتا ہوں کہ انھوں نے شام کے اوپر اپنے پَر پھیلائے ہوئے ہیں۔”

اسکی سند میں ابْنُ لَهِيعَةَ   ہے  جو ضعیف ہے دوسری میں يحيى بن أيوب الغافقي  ہے وہ بھی ضعیف ہے

شام  میں ہر وقت جہاد

حَدَّثَنَا أَبُو طَالِبٍ عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ الْحِمْصِيُّ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبَّادٍ، عَنْ عَامِرٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا تَزَالُ عِصَابَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى أَبْوَابِ دِمَشْقَ، وَمَا حَوْلَهُ وَعَلَى أَبْوَابِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ وَمَا حَوْلَهُ، لَا يَضُرُّهُمْ خُذْلَانُ مَنْ خَذَلَهُمْ ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ إِلَى أَنْ تَقُومَ السَّاعَةُ

 مسند ابی یعلی ج۱۳ ص۱۸۱ رقم:۶۲۸۶۔ المعجم الکبیر للطبرانی ج ۱۹ص۹۸۔ مجمع الزوائد ج۱۰ص۶۰واسنادہ صحیح

  ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث مروی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

میری امت کا ایک گروہ لڑتا رہے گا دمشق کے دروازوں اور اس کے اطراف اور بیت المقدس کے دروازوں اور اس کے اطراف، ان کی مخالفت کرنے والا ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکے گا اور وہ حق پر قائم رہیں گے یہاں تک کہ قیامت آجائے۔

لوگوں نے اس روایت کو صحیح قرار دے دیا ہے جبکہ  میزان الآعتدل میں الذھبی سند کے راوی کے لئے کہتے ہیں الوليد بن عباد، شيخ.  حدث عنه إسماعيل بن عياش مجهول  ہے

مسند احمد، مسند ابو داود الطیالسی، مسند البزار  کی روایت ہے

ابو عبداللہ شامی  کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ  امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو دوران خطبہ یہ کہتے ہوئے سناکہ مجھے انصاری صحابی  زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بتایا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت میں ایک گروہ ہمیشہ حق پر غالب رہے گا اور مجھے امید ہے کہ اے ا ہل شام! یہ تم ہی ہو۔ (مسند احمد)

  اس کی سند میں ابو عبد الله الشامی کون ہے محققین پر واضح نہیں ہو سکا الشيخ مصطفى العدوي ، المنتخب من مسند عبد بن حميد پر اس روایت کی تعلیق پر لکھتے

أبو عبد الله لم نستطع تمييزه  ابو عبد الله ہم اس کی تمیز نہ کر سکے

مسند البزار میں امام البزار کہتے ہیں وَأبُو عَبد اللَّهِ الشَّامِيُّ فَلَمْ أَسْمَعْ أَحَدًا سَمَّاهُ، ولاَ نَعْلَمُ رَوَى عَنْهُ إلاَّ شُعْبَة

اور ابو عبد الله الشامی پس ایسا نام کسی کو نہ دیا گیا اور ہم  نہیں جانتے کہ شعبہ کے علاوہ اس سے کسی نے روایت کیا ہو

 شعیب  الآرنوط مسند احمد کی تعلیق میں  کہتے ہیں وهذا إسناد ضعيف لجهالة أبي عبد الله الشامي اور یہ روایت ابی عبد الله الشامی کی مجہولیت کی وجہ سے ضعیف ہے

لہذا روایت ضعیف ہے

اہل شام ……آخری دور میں فتنوں کی زمین

تاریخ الکبیر از امام بخاری کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الله بن يوسف أنا يحيى ابن حَمْزَةَ حَدَّثَنِي نَصْرُ بْنُ عَلْقَمَةَ أَنَّ عُمَيْرَ بْنَ الأَسْوَدِ وَكَثِيرَ بْنَ مُرَّةَ الْحَضْرَمِيَّ قَالا: إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ وَابْنَ السِّمْطِ قَالا: لا يَزَالُ الْمُسْلِمونَ فِي الأَرْضِ حَتَّي تَقُومَ السَّاعَةُ وَذَلِكَ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لا تَزَالُ

عِصَابَةٌ قَوَّامَةً، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هُمْ أَهْلُ الشَّامِ

ابو ہریرہ اور ابن السمط رضی الله عنہما نے کہا کہ مسلمان زمین پر نہیں جائیں گے یہاں تک کہ قیامت قائم ہی اور یہ اس وجہ سے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے ایک گروہ کو زوال نہ ہو گا جو قائم رہے گا اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا وہ اہل شام ہیں

کتاب  المعرفة والتاريخ  از  يعقوب بن سفيان بن جوان الفارسي الفسوي، أبو يوسف (المتوفى: 277هـ)  کے مطابق

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بن يوسف قال: حدثنا يحي بْنُ حَمْزَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو عَلْقَمَةَ نَصْرُ بْنُ عَلْقَمَةَ الْحَضْرَمِيُّ مِنْ أَهْلِ حِمْصَ أَنَّ عمير بن الْأَسْوَدِ وَكَثِيرَ بْنَ مُرَّةَ الْحَضْرَمِيَّ قَالا: إِنَّ أبا هُرَيْرَةَ وَابْنَ السِّمْطِ  كَانَا يَقُولَان

لا تزالُ من أمَّتي عِصابةٌ قوَّامةٌ على أمْرِ الله عزّ وجلّ، لا يضرُّها من خالفَها؛ تقاتلُ أعداءها، كلما ذهبَ حربٌ نشِبَ حربُ قومٍ آًخرين، يزيغُ اللهُ قلوب قوم ليرزقَهم منه، حتى تأتيهم الساعةُ، كأنّها قطعُ الليلِ المظلمِ، فيفزعونَ لذلك؛ حتّى يلبسُوا له أبدانَ الدُّروع، وقال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: همْ أهلُ الشّامِ، ونكَتَ رسولُ اللهِ – صلى الله عليه وسلم – بإصبعِه؛ يومئُ بها إلى الشّامِ حتّى أوجَعها

  ابو ھریرۃ  اور ابن السمط رضی اللہ عنہما  سے اسی سند سے طویل  حدیث مروی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

میری امت کا ایک گروہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم سے قتال کرتا رہے گا، ان کو ان کے مخالف نقصان نہ دےسکیں گے  اور وہ اپنے دشمنوں سے لڑتے رہیں گے جب بھی جنگ جائے گی ایک اور لڑنے والی جنگ ان سے الجھ جائے گی  اللہ ایک قوم کے دل ٹیڑھے کر دے گا کہ ان کو رزق دے  (کر آزمائش میں ڈالے گا) یہاں تک کہ قیامت  آئے جیسے کہ کالی رات –  پس وہ گھبراہٹ کا شکار ہوں گے اس پر یہاں تک کہ ان کے بدن  ڈھال بن جائیں گے  اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے کہا: ’ وہ اہل شام ہونگے‘ پھر نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنی   انگلی سے شام کی طرف اشارہ کیا، یہاں تک کہ انھیں افسوس ہوا ۔

البانی سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ میں لکھتے ہیں

قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات

میں کہتا ہوں اس کی اسناد صحیح ہیں اس کے رجال ثقہ ہیں

  لوگوں نے اس روایت سے اہل شام کی تعریف لی ہے حالانکہ اس میں ان کی برائی کی جا رہی ہے – شام میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ دور نبوی سے آج تک جنگ جدل کا بازار گرم رہا ہو جیسا کہ اس روایت میں ہے یہ ایک عظیم تاریخی غلطی ہے  ایسی روایت منکر  ہے بلکہ بنو امیہ کا ٩٠ سال کے دور میں یہ عموما پر امن رہا ہے

روئے زمین کے بہترین جنگجو

سنن ابو داود، مسند احمد ، مستدرک الحاکم کی روایت ہے

حدَّثنا حيوةُ بن شُريح الحضرمي، حدَّثنا بقيةُ، حدثني بَحيرٌ، عن خالدٍ – يعني ابنَ مَعدانَ – عن أبي قُتَيلةَ عن ابن حَوالةَ، قال: قال رسول الله -صلَّى الله عليه وسلم-: “سيصير الأمرُ إلى أن تكونوا جنُوداً مُجنَّدةً، جندٌ بالشام، وجندٌ باليمن، وجندٌ بالعراق” قال ابن حَوالة: خِرْ لي يا رسول الله إن أدركتُ ذلك، فقال: “عليك بالشامِ فإنها خِيَرةُ اللهِ من أرضِه، يجْتبي إليها خِيَرتَه من عبادِه، فأما إن أبيتُم فعليكم بيَمَنِكم، واسقُوا من غُدُرِكم، فإن الله تَوكّل لي بالشامِ وأهلِه

عبداللہ بن حَوالةَ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: “تم لوگ عنقریب کچھ فوجی دستے ترتیب دو گے؛ شام کی فوج، عراق کی فوج، اور یمن کی فوج۔”  تو عبداللہ ؓ نے کہا: “اے اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم میرے لئے ایک دستہ چن لیں!”  تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: “شام جاؤ، اور جو بھی ایسا نہیں کر سکے وہ یمن جائے، جیسے کہ اللّٰہ سبحانہ و تعالیٰ نے میرے لئے شام اور اس کے لوگوں کو پسند کیا ہے۔”

اسکی سند میں أبي قُتَيلةَ  ہے  جو مجھول ہے بعض محدثین نے اس سے صحابی  مَرثَد بْن وداعَة  رضی الله عنہ مراد لئے ہیں – لیکن کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل  از  العلائي (المتوفى: 761هـ)  کے مطابق قال أبو حاتم وغيره لا صحبة له  ابو حاتم اور دوسرے محدثین کہتے ہیں صحابی نہیں ہے – أبي قُتَيلةَ کے حالات  پر جرح و تعدیل کی کتب خاموش ہیں لہذا یہ مجھول ہے اور روایت ضعیف ہے

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ، مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، وَهَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ، حَدَّثَنَا مَكْحُولٌ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ حَوَالَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” سَيَكُونُ جُنْدٌ بِالشَّامِ، وَجُنْدٌ بِالْيَمَنِ “، فَقَالَ رَجُلٌ: فَخِرْ لِي يَا رَسُولَ اللهِ إِذَا كَانَ ذَلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” عَلَيْكَ بِالشَّامِ، عَلَيْكَ بِالشَّامِ   – ثَلَاثًا، عَلَيْكَ بِالشَّامِ   – فَمَنْ أَبَى فَلْيَلْحَقْ بِيَمَنِهِ، وَلْيَسْقِ مِنْ غُدُرِهِ، فَإِنَّ اللهَ قَدْ تَكَفَّلَ لِي بِالشَّامِ وَأَهْلِهِ “، قَالَ أَبُو النَّضْرِ مَرَّتَيْنِ: فَلْيَلْحَقْ بِيَمَنِهِ

عَبْدِ اللهِ بْنِ حَوَالَةَ  رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے لئے شام   میں  لشکر ہوں گے اور یمن میں لشکر ہوں گے ہے پس ایک آدمی نے کہا پس مجھے چن لیں کہ میں بھی وہاں ہوں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا  تمہارے لئے وہاں شام میں شام میں تین بار کہا

اس کی سند میں ہے  محمد بن راشد   المكحولي ہے جس کے لئے کہا جاتا ہے  کہ اس نے مکحول سے بہت ارسال کیا ہے ، وهو لم يسمع هذا الحديث من ابن حوالة اور یہ حدیث ابن حوالہ سے نہیں سنی.

لہذا یہ ضعیف روایت ہے

صحیح ابن حبان اور طبرانی الکبیر  میں اس کی سند میں سَعِيدَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ ہے جو مختلط اور مدلس تھے  دوم عبد الله بن العباس بن الوليد بن مزيد العذري البيروتي ہیں جن کے لئے  أبو الطيب نايف بن صلاح بن علي المنصوري  کتاب إرشاد القاصي والداني إلى تراجم شيوخ الطبراني میں  کہتے ہیں یہ مجھول ہے

شام و یمن کا محاذ

كتاب حلية الأولياء وطبقات الأصفياء    أز أبو نعيم  الأصبهاني (المتوفى: 430هـ)   كي روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ حَمْدَانَ، ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ، ثَنَا أَبُو عُمَيْرٍ النَّحَّاسُ، ثَنَا ضَمْرَةُ، عَنِ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللهِ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” إِنَّ اللهَ اسْتَقْبَلَ بِيَ الشَّامَ وَوَلَّى ظَهْرِي الْيَمَنَ، ثُمَّ قَالَ لِي: يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي قَدْ جَعَلْتُ لَكَ مَا تُجَاهَكَ غَنِيمَةً وَرِزْقًا، وَمَا خَلْفَ ظَهْرِكَ مَدَدًا وَلَا يَزَالُ اللهُ يَزِيدُ – أَوْ قَالَ -: يُعِزُّ الْإِسْلَامَ وَأَهْلَهُ وَيُنْقِصُ الشِّرْكَ وَأَهْلَهُ حَتَّى يَسِيرَ الرَّاكِبُ بَيْنَ كَذَا – يَعْنِي الْبَحْرَيْنِ – لَا يَخْشَى إِلَّا جَوْرًا، وَلَيَبْلُغَنَّ  هَذَا الْأَمْرَ مَبْلَغَ اللَّيْلِ ” غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ الشَّيْبَانِيِّ، تَفَرَّدَ بِهِ عَنْهُ ضَمْرَةُ بْنُ رَبِيعَةَ

ابو امامۃ الباھلی رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے کہا: اللہ نے میرا رخ شام کی طرف کیا ہے اور میری پیٹھ یمن کی طرف اور مجھے کہا ہے: اے محمد صلی الله علیہ وسلم! میں نے تمہارے سامنے غنیمتوں اور رزق کو رکھا ہے اور تمھارے پیچھے مدد رکھی ہے۔ … یہ حدیث غریب ہے …..اس میں ضَمْرَةُ بْنُ رَبِيعَةَ کا تفرد ہے

 راوی  ضَمْرَةُ بْنُ رَبِيعَةَ  کو صالح الحدیث کہا جاتا ہے الذھبی ، میزان الآعتدل میں کہتے ہیں مشهور ما فيه مغمز مشھور ہے ان میں غلطیاں  ہیں

بہترین زمین اور بہترین بندے

البانی نے صحیحہ میں ایک روایت لکھی ہے

وعن العرباض بن سارية رضي الله عنه عن النبيِّ – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -:  أنَّه قامَ يوماً في الناسِ فقال:  يا أيُّها الناسُ! توشِكونَ أنْ تكونوا أجْناداً مجنَّدَةً، جُنْدٌ بالشامِ، وجُنْدٌ بالعراقِ، وجندٌ باليَمنِ”.  فقال ابنُ حَوالةَ: يا رسول الله! إنْ أدْرَكني ذلك الزمانُ فاخْتَرْ لي قال: “إنِّي أختارُ لكَ الشامَ، فإنَّه خِيرَة المسْلمِينَ، وصَفْوَةُ الله مِنْ بلادِه، يَجْتَبي إليْها صَفْوَتَهُ مِنْ خَلْقِه. فَمَنْ أبى فَلْيَلْحَقْ بيَمَنِه،  ولَيَسْقِ مِنْ غُدُرِهِ، فإنَّ الله قد تكفَّل لي بالشامِ وأهْلِه”.رواه الطبراني، ورواته ثقات.

 عرباض بن سارية رضي الله عنه روایت کرتے ہیں کہ ایک روز رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور کہا اے لوگوں تم شک کرتے ہو کہ تم پر لشکر آئیں گے اور لشکر ہوں گے عراق میں اور یمن میں پس ابو حوالہ نے کہا اے رسول الله کیا میں یہ زمانہ پاؤں گا پس آپ نے فرمایا میں تیرے لئے شام منتخب کرتا ہوں کیونکہ اس میں مسلمانوں کے لئے خیر ہے اور الله کا پسندیدہ ہے ملکوں میں .. طبرانی کہتے ہیں اس کے راوی ثقہ ہیں

جبکہ اس کی سند میں فضالة بن شريك ہے جس کے لئے أبو حاتم کہتے ہیں لا أعرفه   ،میں اس کو نہیں جانتا

ضَعيفُ التَّرْغِيب وَالتَّرْهِيب  از البانی کی  عبد الله بن حوالہ رضی الله عنہ کی روایت ہے

يا رسول الله! خِر لي بلداً أكون فيه، فلو أعلم أنك تبقى لم أخْتَرْ عن قُرِبكَ شيئاً. فقال: “عليك بالشام”  فلما رأى كراهيتي للشام، قال:  “أتدري ما يقول الله في الشام؟ إن الله عز وجل يقول: يا شامُ! أنتِ صفوتي من بلادي، أدخل فيك خيرتي من عبادي،. . .”.

عبداللہ بن حوالۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے کہا: “اے اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم! آپ مجھے بتائیں کہ میں کس علاقے میں رہوں، اگر مجھے پتا ہو کہ آپ صلی الله علیہ وسلم ہمارے ساتھ لمبے عرصے تک رہیں گے، تو میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی رفاقت کے علاوہ کہیں اور رہنے کو ہرگز ترجیح نہیں دوں۔” رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: “شام کی طرف جاؤ، شام کی طرف جاؤ ، شام کی طرف جاؤ۔” پس جب آپ صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا کہ مجھے شام پسند نہیں ہے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے کہا: “کیا تم جانتے ہو کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ (اس کے بارے میں) کیا فرماتا ہے؟” پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے کہا: “شام میری زمینوں میں سے وہ منتخب کردہ زمین ہے جہاں میں اپنے بہترین عابدوں کو داخل کرتا ہوں۔

البانی کتاب  ضَعيفُ التَّرْغِيب وَالتَّرْهِيب میں کہتے ہیں یہ ضعیف ہے اور لکھتے ہیں رواه الطبراني من طريقين، إحداهما جيدة طبرانی نے اس کو دو سندوں سے روایت کیا ہے جس میں  ایک جید ہے

لیکن ان جید سندوں پر اوپر بلاگ میں بحث کی جا چکی ہے کہ وہ بھی ضیف سے خالی نہیں

ابو داود کی روایت ہے

حدثنا أحمد بن صالح حدثنا أسد بن موسى حدثنا معاوية بن صالح حدثني ضمرة أن ابن زغب الإيادي حدثه قال نزل علي عبد الله بن حوالة الأزدي فقال لي بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم لنغنم على أقدامنا فرجعنا فلم نغنم شيئا وعرف الجهد في وجوهنا فقام فينا فقال اللهم لا تكلهم إلي فأضعف عنهم ولا تكلهم إلى أنفسهم فيعجزوا عنها ولا تكلهم إلى الناس فيستأثروا عليهم ثم وضع يده على رأسي أو قال على هامتي ثم قال يا ابن حوالة إذا رأيت الخلافة قد نزلت أرض المقدسة فقد دنت الزلازل والبلابل والأمور العظام والساعة يومئذ أقرب من الناس من يدي هذه من رأسك قال أبو داود عبد الله بن حوالة حمصي.

ابن زغب الإيادي نے بیان کیا کہ ہم عبد اللہ بن حوالہ کے پاس پہنچے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ نے فرمایا … اے ابن حوالہ جب تو دیکھے کہ خلافت ارض مقدس (یعنی شام میں) نازل ہوئی ہے پس وہاں زلزلوں ، بلاوں اور بڑے کاموں اور قیامت کا  لوگوں پر آنا  اس دن اتنا قریب ہو گا جتنا تیرا ہاتھ تیرے سر کے قریب ہے

البانی اس روایت کو صحیح کہتے ہیں – ابن حوالہ کے دور میں قیامت نہیں آئی جبکہ رسول الله سے منسوب اس حدیث میں ہے کہ شام میں جب خلافت آئے گی تو قیامت قریب ہو گی

روایت منکر ہے

المعجم الكبير از طبرانی کی روایت ہے

حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ حَمَّادٍ الرَّمْلِيُّ، ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدِّمَشْقِيُّ، ثنا بِشْرُ بْنُ عَوْنٍ، ثنا بَكَّارُ بْنُ تَمِيمٍ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ لِحُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ: وَهُمَا يَسْتَشِيرَانِهِ فِي الْمَنْزِلِ فَأَوْمَى إِلَى الشَّامِ ثُمَّ سَأَلَاهُ، فَأَوْمَى إِلَى الشَّامِ، ثُمَّ سَأَلَاهُ فَأَوْمَى إِلَى الشَّامِ قَالَ: «عَلَيْكُمْ بِالشَّامِ، فَإِنَّهَا صَفْوَةُ بِلَادِ اللهِ يَسْكُنُهَا خِيرَتُهُ مِنْ خَلْقِهِ، فَمَنْ أَبَى فَلْيَلْحَقْ بِيَمَنِهِ، وَلْيَسْقِ مِنْ غُدُرِهِ، فَإِنَّ اللهَ تَكَفَّلَ لِي بِالشَّامِ وَأَهْلِهِ»

وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو ُحذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ اور َمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ کو کہتے سنا  اور وہ ان دونوں کو بشارت دے رہے تھے …. تمھارے لئے شام ہے ،  وہ اللہ کی زمینوں میں سے بہترین زمین ہے، اور وہ اُدھر اپنے بہترین مخلوق کو لے آتا ہے …

 البانی نے صحیح الجامع میں صحیح قرار دیا ہے

ميزان الاعتدال في نقد الرجال از الذھبی کے مطابق راوی بَكَّارُ بْنُ تَمِيمٍ مجھول ہے

ہجرت کے لئے بہترین جگہ

صَحِيحُ التَّرْغِيب وَالتَّرْهِيب از البانی کی روایت ہے

وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما قال: سمعت رسول الله – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يقول: “ستكونُ هجرةٌ بعدَ هجرةٍ، فخيارُ أهلِ الأرضِ ألزَمُهم مُهاجَر! إبراهيمَ، ويبقى في الأرض أشرارُ أهلِها تلفظُهم أَرَضُوهم، وتَقْذَرُهم نَفْسُ اللهِ، وتحشرهم النارُ مع القردة والخنازير”.

  عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی الله علیہ وسلم فرما رہے تھے:  ایک وقت آئے گا جب ہجرت پر ہجرت ہونگی، اور بہترین لوگ وہ ہونگے جو ابراہیم علیہ السلام کے (شام کی طرف) ہجرت کریں گے اور زمین پر بدترین لوگ وہ ہونگے، جن کو ان کی اپنی زمینیں نکال باہر کریں گیں اور اللہ ان سے بری ہوگا (یعنی اللہ کو انکا ہجرت کرنا پسند نہیں ہوگا اس لئے ان کو یہ توفیق ہی نہیں ملے گی- ابن کثیر)، اور آگ ان کو بندروں اور خنزیروں کے ساتھ جمع کرے گی

البانی اس کو صحیح الغیرہ کہتے ہیں اور الصحیحہ میں ٣٢٠٣ میں اس کو مکمل صحیح کر دیتے ہیں  وہاں بیہقی کی ایک روایت کو دلیل بنا کر لکھتے ہیں

قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات رجال البخاري، فهو صحيح؛ لولا الواسطة  بين الأوزاعي ونافع؛ فإنه لم يسم، مع أن رواية الأوزاعي عن نافع ثابتة في “صحيح البخاري “. وعلى كل حال؛ فهو شاهد صالح، وبه يرتقي الحديث إلى مرتبة الصحة إن شاء الله تعالى.

میں کہتا ہوں اس کی اسناد میں ثقہ رجال ہیں بخاری والے پس یہ صحیح ہے  چاہے اس میں نافع اور الأوزاعي کے بیچ کا واسطہ  (غیر واضح) ہو کہ اس کا نام نہیں لیا گیا پس الأوزاعي کی نافع سے روایت ثابت ہے جیسا صحیح بخاری میں ہے اور ہر حال میں یہ  کی روایت کی شاہد صآلح  ہے جو حدیث کو ترقی دے کر صحت کے مرتبے پر لے جاتی ہے ان شاء الله

بیہقی کی کتاب الأسماء والصفات للبيهقي کی روایت ہے

وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ الْفَضْلِ، أنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ، ثنا يَعْقُوبُ بْنُ  سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ يَزِيدَ وَهِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ الدِّمَشْقِيَّانِ، قَالَا: ثنا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، ثنا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ نَافِعٍ، وَقَالَ أَبُو النَّضْرِ، عَمَّنْ حَدَّثَهُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «سَيُهَاجِرُ أَهْلُ الْأَرْضِ هِجْرَةً بَعْدَ هِجْرَةٍ إِلَى مُهَاجِرِ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ، حَتَّى لَا يَبْقَى إِلَّا شِرَارُ أَهْلِهَا، تَلْفِظُهُمُ الْأَرَضُونَ وَتَقْذَرُهُمْ رُوحُ الرَّحْمَنِ، وَتَحْشُرُهُمُ النَّارُ مَعَ الْقِرَدَةِ وَالْخَنَازِيرُ، تَبِيتُ مَعَهُمْ حَيْثُ بَاتُوا، وَتَقِيلُ مَعَهُمْ حَيْثُ قَالُوا، وَلَهَا مَا يَسْقُطُ مِنْهُمْ» . وَظَاهَرُ هَذَا أَنَّهُ قَصَدَ بِهِ بَيَانَ نَتَنِ رِيحِهِمْ، وَأَنَّ الْأَرْوَاحَ الَّتِي خَلَقَهَا اللَّهُ تَعَالَى تَقْذَرُهُمْ. وَإِضَافَةُ الرُّوحِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى بِمَعْنَى الْمُلْكِ وَالْخَلْقِ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ “

نافع ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا زمین کے لوگ ہجرت پر ہجرت کریں گے جیسا ابراہیم علیہ السلام نے کیا یہاں تک کہ اس پر کوئی  نہ رہے گا سوائے شریروں کے  .اور… جن کا حشر بندروں اور سورروں کے ساتھ ہو گا

علل ابن ابی حاتم کے مطابق نافع اور الأوزاعي کے درمیان راوی ہیں مثلا  عبدِالواحد بْنِ قَيْسٍ  اور محمَّد بْنِ محمَّد  –  صحیح مسلم میں الأوزاعي  اور نافع کے بیچ الزُّهْرِيِّ ہیں البتہ امام بخاری نے الأوزاعي کی نافع سے دو روایات لی ہیں جن میں ایک شاہد ہے اس بنیاد پر مطلقآ نہیں کہا جا سکتا ہے یہ روایت صحیح ہے

روایت کے متن میں  الفاظ وَتَقْذَرُهُمْ رُوحُ الرَّحْمَنِ   انتہائی واہیات و عجیب ہیں جس کی البانی نے تاویل کی ہے لیکن بات واضح نہیں ہوتی

اہل شام زمین میں چابک ہیں

مسند احمد میں خُرَيْمَ بْنَ فَاتِكٍ الْأَسَدِيَّ  رضی الله عنہ کا قول ہے

حَدَّثَنَا هَيْثَمُ بْنُ خَارِجَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَيُّوبَ بْنِ مَيْسَرَةَ بْنِ حَلْبَسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، سَمِعَ خُرَيْمَ بْنَ فَاتِكٍ الْأَسَدِيَّ، يَقُولُ: «أَهْلُ الشَّامِ سَوْطُ اللَّهِ فِي الْأَرْضِ، يَنْتَقِمُ بِهِمْ مِمَّنْ يَشَاءُ، كَيْفَ يَشَاءُ، وَحَرَامٌ عَلَى مُنَافِقِيهِمْ أَنْ يَظْهَرُوا عَلَى مُؤْمِنِيهِمْ، وَلَنْ يَمُوتُوا إِلَّا هَمًّا أَوْ غَيْظًا أَوْ حُزْنًا

 خریم بن فاتک  رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ: اہل شام زمین میں  چابک (کوڑا)  ہیں اللہ ان کے ذریعے جس سے چاہتا ہے انتقام لے لیتا ہے اور ان کے منافقین کے لیے ان کے مومنین پر غالب آنا حرام کردیا گیا ہے وہ جب بھی  مریں گے توغم غصے کی اور پریشانی کی حالت ہی میں مریں گے۔

اس کی سند میں أيوب بن ميسرة بن حلبس  ہے جنہوں نے خُرَيْمَ بْنَ فَاتِكٍ الْأَسَدِيَّ کا قول بیان کیا ہے  ابن حجر لسان المیزان میں کہتے ہیں رأيت له ما ينكر میں دیکھتا ہوں یہ منکر بیان کرتے ہیں – ابن حجر کہتے ہیں

رواية عن خريم بن فاتك، وَغيره ولم يذكر فيه ابن أبي حاتم جرحًا.

ان کی روایت خريم بن فاتك  اور دیگر سے ہے اور ابن ابی حاتم نے ان پر جرح نہ کی

معلوم ہوا یہ مجھول ہے کیونکہ أيوب بن ميسرة بن حلبس کی توثیق بھی کسی نے نہیں کی

المروزي نے ان کا ذکر امام احمد سے کیا اور انہوں نے اشارہ دیا کہ : كأنه (يعني أبا عبد الله) لم یعرف هؤلاء  گویا امام احمد ان کو نہیں جانتے

 

اہل شام کا فساد

ابو داود میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ قُرَّةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا فَسَدَ أَهْلُ الشَّامِ فَلَا خَيْرَ فِيكُمْ، لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي مَنْصُورِينَ لَا يَضُرُّهُمُ مَنْ خَذَلَهُمْ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ

ترمذی میں اس کی سند ہے

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا فَسَدَ أَهْلُ الشَّامِ فَلاَ خَيْرَ فِيكُمْ، لاَ تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي مَنْصُورِينَ لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب اہل شام میں فساد پھیل جائے تو تم میں کوئی خیر نہ رہے گی اور میری (امت میں سے) ایک گروہ  کی مدد کی جاتی رہے گی اور انہیں  کسی کی مخالفت کا کوئی نقصان نہ ہو گا یہاں تک کہ قیامت آجائے۔

اس کی تمام اسناد میں قرہ بن آیاس ہیں-  کتاب جامع التحصیل از العلائی کے مطابق

 قرة بن إياس والد معاوية بن قرة أنكر شعبة أن يكون له صحبة والجمهور أثبتوا له الصحبة والرواية

 قرة بن إياس …..   شعبہ نے انکار کیا ہے کہ یہ صحابی تھے اور جمہور کہتے ہیں کہ ثابت ہے کہ صحابی ہیں

امام شعبہ کی اس رائے کی وجہ احمد العلل میں بتاتے ہیں

قال عبد الله بن أحمد: حدثني أبي. قال: حدَّثنا سليمان ابو داود، عن شعبة، عن معاوية -يعني ابن قرة – قال: كان أبي يحدثنا عن النبي – صلى الله عليه وسلم -، فلا أدري سمع منه، أو حدث عنه

عبد الله بن احمد اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ سلیمان نے شعبہ ہے انہوں نے معاویہ سے روایت کیا کہ

میرے باپ قرہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے تھے پس میں نہیں جانتا کہ انہوں نے سنا تھا یا صرف ان

کی بات بیان کرتے تھے

جب معاویہ بن قرہ کو خود ہی شک ہو کہ باپ نے واقعی رسول الله سے سنا بھی تھا یا نہیں تو آج ہم اس کو کیسے قبول کر لیں؟

لہذا روایت ضعیف  ہے

قارئیں آپ کے سامنے ان روایات کی اسنادی حیثیت ہے  آپ خود فیصلہ کریں کیا یہ روایات اس قابل ہیں کہ ان کو صحیح کہا جائے

3 thoughts on “غور طلب

  1. وجاہت

    تحقیق چاہیے

    رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ إِنَّ فُسْطَاطَ الْمُسْلِمِينَ يَوْمَ الْمَلْحَمَةِ بِالْغُوطَةِ إِلَى جَانِبِ مَدِينَةٍ يُقَالُ لَهَا دِمَشْقُ مِنْ خَيْرِ مَدَائِنِ الشَّامِ ‏”

    اب فِي الْمَعْقِلِ مِنَ الْمَلاَحِمِ، سنن ابي داؤد

    4298

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      اس کی سند میں کوئی علت ہے امام ابن معین کے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے ذکر نیچے آ رہا ہے

      فضائل صحابہ از احمد کے مطابق یہ قول تابعی تھا
      حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قثنا أَبُو سَعِيدٍ قثنا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ قَالَ: نا مَكْحُولٌ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «فُسْطَاطُ الْمُؤْمِنِينَ فِي الْمَلْحَمَةِ، الْغُوطَةُ مَدِينَةٌ يُقَالُ لَهَا دِمَشْقُ هِيَ خَيْرُ مَدَائِنِ الشَّامِ» .

      مسند احمد میں بھی ہے
      حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «سَيُفْتَحُ عَلَيْكُمُ الشَّامُ وَإِنَّ بِهَا مَكَانًا يُقَالُ لَهُ الْغُوطَةُ، يَعْنِي دِمَشْقَ، مِنْ خَيْرِ مَنَازِلِ الْمُسْلِمِينَ فِي الْمَلَاحِمِ
      اس میں رجل من اصحاب النبی کہا ہے نام نہیں لیا – بہت سے محدثین کے نزدیک یہ سند قابل قبول نہیں ہے

      : مختصر سنن أبي داود از المؤلف: الحافظ عبد العظيم بن عبد القوي المنذري (المتوفى: 656 هـ) میں ہے
      وقال يحيى بن معين -وقد ذكروا عنده أحاديث من ملاحم الروم- فقال يحيى: ليس من حديث الشاميين شيء أصح من حديث صدقةَ بن خالد عن النبي -صلى اللَّه عليه وسلم-: “معقل المسلمين أيام الملاحم: دمشق”.
      ابن معین نے کہا اور ملاحم روم کے بارے میں حدیث ذکر کیں پھر ابن معین نے کہا شامییوں کی احادیث میں اس سے زیادہ کوئی اصح حدیث نہیں جو صدقةَ بن خالد (تبع تابعی) نے نبی صلى اللَّه عليه وسلم سے روایت کی ہے کہ ملاحم کے دنوں میں مسلمانوں کا قلعہ دمشق ہو گا

      یعنی ابن معین کے نزدیک یہ روایت صحیح نہیں جیسا کہ انہوں نے ابو درداء کی روایت کا ذکر نہیں کیا
      تاريخ ابن معين (رواية الدوري) میں ہے

      قَالَ يحيى وَكَانَ صَدَقَة بن خَالِد يكْتب عِنْد الْمُحدثين فِي أَلْوَاح وَأهل الشَّام لَا يَكْتُبُونَ عِنْد الْمُحدثين يسمعُونَ ثمَّ يجيئون إِلَى الْمُحدث فَيَأْخُذُونَ سماعهم مِنْهُ
      ابن معین نے کہا کہ صدقه بن خالد محدثین سے لکھتے تھے الواح پر اور اہل شام محدثین سے نہیں لکھتے تھے وہ بس سنتے تھے پھر محدث کے پاس جاتے اور انسے سماع کرتے

      معلوم ہوا کہ صدقه بن خالد کے لکھنے کی وجہ سے ابن معین کے نزدیک ان کی سند صحیح تھی جبکہ باقی اہل شام کی روایات پر ان کو شک تھا

      ====
      ابو داود میں ہے
      حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا بُرْدٌ أَبُو الْعَلَاءِ، عَنْ مَكْحُولٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: “مَوْضِعُ فُسْطَاطِ الْمُسْلِمِينَ فِي الْمَلَاحِمِ أَرْضٌ يُقَالُ لَهَا الْغُوطَةُ

      اس میں مکحول کوئی صحابی نہیں لیکن لوگوں نے اس سند کو بھی صحیح کہہ دیا ہے
      ——–

      میری تحقیق ہے کہ ہر وہ روایت جس میں قرب قیامت میں الْمَلْحَمَةِ کا ذکر ہو منکر ہے

      Reply

Leave a Reply to عبداللہ Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *