عرض عمل کے دلائل کا جائزہ

مشہور مدرسہ دیوبند والوں کے فتوی ( جو یہاں پر موجود ہے) پر تبصرہ طلب کیا گیا ہے

اس بلاگ میں  ان لوگوں   نے جو دلائل  جمع کیے ہیں اور ان کو صحیح قرار دینے کا جو پروپیگنڈا   کیا ہے اس کو دیکھا جائے گا – راقم  کا تبصرہ جوابات کی صورت نیچے  متن میں دیکھا جا سکتا

فتوی نویس علمائے دیو بند  عقیدہ عرض عمل کے دلائل جمع کرتے ہوئے  فرماتے ہیں

پہلی دلیل

    حا فظ نورالدین علی بن ابی بکر الہیثمی   المتوفی ۸۰۷ھ نے مجمع الزوائد ومنبع الفوائد میں عرضِ اعمال علی الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اثبات میں مسند بزارکے حوالہ سے ایک صحیح حدیث نقل فرمائی ہے

باب مایحصل لأمّته صلی اللہ علیہ وسلم من استغفاره بعدوفاته صلی اللہ علیہ وسلم

عن عبداﷲ بن مسعود… قال وقال رسول اﷲ حیاتي خیرلکم تحدثون وتحدث لکم، ووفاتي خیرلکم، تعرض عليّ أعمالکم، فمارأیت من خیرحمدت اﷲعلیه، ومارأیت من شرّ استغفرت اﷲ لکم  رواه البزّار، ورجاله رجال الصحیح  ( مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، کتاب علامات النبوّة، مایحصل لأمّتها من استغفاره بعد وفاته، (۹/۲۴) ط دار الکتاب بیروت، ۱۹۷۸م)

مذکورہ حدیث کی سندکے رجال صحیحین کے رجال ہیں اورحدیث بالکل صحیح ہے۔

جواب

مسند البزار کی سند ہے

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: نا عَبْدُ الْمَجِيدِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رَوَّادَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ زَاذَانَ

اس کی سند میں زاذان ہے جس پر محدثین کا کلام ہے کہ اس کو وہم ہوتا ہے غلطییاں کرتا ہے – اس کے علاوہ عَبْدُ الْمَجِيدِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رَوَّادَ ہے جس کو أبو حاتم کہتے ہیں : ليس بالقوي يكتب حديث. قوی نہیں حدیث لکھ لو.  الدارقطنيُّ کہتے ہیں لا يحتج به، نا قابل احتجاج ہے . أبو زرعة ،ابن سعد ان کو ضعیف گردانتے ہیں-  اس کو ضعیف کہنے کی ایک وجہ  مرجیہ ہونا تھا

راقم کہتا ہے یہ لوگ اس سند کو صحیح  کہہ رہے ہیں جبکہ اس کی سند میں    عَبْدُ الْمَجِيدِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رَوَّادَ     پر سخت جرح ہے – عجيب بات ہے کہ تخريج أحاديث إحياء علوم الدين میں  العِراقي (806 هـ)  اس روایت پر یہ تبصرہ کرتے ہیں

قال العراقي: رواه البزار من حديث ابن مسعود ورجاله رجال الصحيح إلا أن عبد المجيد بن عبد العزيز بن رواد وان أخرج له مسلم ووثقه ابن معين والنسائي فقد ضعفه كثيرون

عراقی نے کہا اس حدیث کو البزار نے ابن مسعود سے روایت کیا ہے اس کے رجال صحیح کے ہیں  – بے شک عبد المجید بن عبد العزیز  اگرچہ اس سے امام مسلم نے روایت لی ہے اس کی توثیق ابن معین   اور نسائی نے کی ہے  اس کی  کثیر نے تضعیف بھی کی ہے

دوسری دلیل

                  علامہ سیوطی نے الجامع الصغیرفي أحادیث البشیروالنذیر میں ایک صحیح روایت نقل کی ہے

تُعْرَضُ الأَعْمالُ يَوْمَ الاثْنَيْنِ والخَمِيسِ على الله تَعَالَى وتُعْرَضُ على الأنْبِياءِ وعَلى الآباءِ والأُمَّهاتِ يَوْمَ الجُمُعَةِ فَيَفْرَحُونَ بِحَسَناتِهِمْ وَتَزْدادُ وُجُوهُهُمْ بَياضاً وإِشْراقاً فاتَّقُوا الله وَلَا تؤذُوا مَوْتاكُمْ (الْحَكِيم) عن والد عبد العزيز.

جواب

اس کا ترجمہ ہے

اللہ تعالی پر اعمال پیر و جمعرات کو پیش ہوتے ہیں اور انبیاء پر اور ماں باپ پر جمعہ کے روز – پس یہ نیکیوں پر خوش ہوتے ہیں … پس اللہ سے ڈرو اور اپنے مردوں کو تکلیف مت دو

البانی نے اس حدیث پر موضوع  کا حکم لگایا ہے حديث رقم: 2446 في ضعيف الجامع

تیسری دلیل

                      علامہ مناوی اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے رقم طرازہیں

وفائدة العرض علیهم إظهار اﷲ للأموات عذره في مایعامل به أحیاء هم من عاجل العقوبات وأنواع البلیّات في الدنیا، فلوبلغهم ذٰلك من غیرعرض أعمالهم علیهم لکان وجدهم أشدّ  قال القرطبي یجوز أن یکون المیّت یبلغ من أفعال الأحیاء وأقوالهم بمایؤذیه أویسرّه بلطیفة یحدثها اﷲ لهم من ملك یبلغ أوعلامة أودلیل أوماشاء اﷲ وهو القاهر فوق عباده وعلی من یشاء  وفیه زجرعن سوء القول في الأموات، وفعل ماکان یسرّهم في حیاتهم وزجر عن عقوق الأصول والفروع بعد موتهم بمایسوء هم من قول أوفعل، قال وإذاکان الفعل صلة وبرًّا کان ضدّه قطیعة وعقوقًا  (فیض القدیر، شرح الجامع الصغیر للعلامة المناوي، حرف التاء،   رقم الحدیث۳۳۱۶  تعرض الأعمال یوم الإثنین،(۳/۲۵۱) طمطبعۃ مصطفٰی محمّد مصر،۱۳۵۶ھ/ ۱۹۳۸م)

جواب

المناوی   نے اس موضوع  یا گھڑی  ہوئی  روایت پر لکھا ہے

اور عرض عمل کا فائدہ یہ ہے کہ اللہ مردوں پر ظاہر کرتا ہے کہ جو دنیا میں ہیں ابھی زندہ ہیں وہ کیوں عقوبت و آزمائش میں جاتے ہیں پس ان تک پہنچایا جاتا ہے … قرطبی نے کہا یہ جائز ہے کہ میت پر زندہ کے اعمال پیش ہوں  اور ان کے اقوال بھی یہ اس سے ان کو تکلیف و خوشی ہو  پس اللہ تعالی کے لطف سے یہ فرشتہ پہنچاتا ہے یا علامت یا دلیل یا جو اللہ چاہے اور وہ اپنے بندوں پر قاہر ہے

راقم  کہتا ہے یہ تبصرہ بے کار ہے کیونکہ جب تک دلیل ثابت نہ ہو گھڑی ہوئی روایت پر تبصرہ کوئی درجہ نہیں رکھتا

راقم کہتا ہے یہ روایت حدیث حوض سے متعارض ہے

صحیح بخاری حدیث نمبر: 7048
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ قَالَتْ أَسْمَاءُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَنَا عَلَى حَوْضِي أَنْتَظِرُ مَنْ يَرِدُ عَلَيَّ، فَيُؤْخَذُ بِنَاسٍ مِنْ دُونِي فَأَقُولُ أُمَّتِي. فَيَقُولُ لاَ تَدْرِي، مَشَوْا عَلَى الْقَهْقَرَى». قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ أَنْ نَرْجِعَ عَلَى أَعْقَابِنَا أَوْ نُفْتَنَ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر بن سری نے بیان کیا، کہا ہم سے نافع بن عمر نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (قیامت کے دن) میں حوض کوثر پر ہوں گا اور اپنے پاس آنے والوں کا انتظار کرتا رہوں گا پھر (حوض کوثر) پر کچھ لوگوں کو مجھ تک پہنچنے سے پہلے ہی گرفتار کر لیا جائے گا تو میں کہوں گا کہ یہ تو میری امت کے لوگ ہیں۔ جواب ملے گا کہ آپ کو معلوم نہیں یہ لوگ الٹے پاؤں پھر گئے تھے۔ ابن ابی ملیکہ اس حدیث کو روایت کرتے وقت دعا کرتے اے اللہ! ہم تیری پناہ مانگتے ہیں کہ ہم الٹے پاؤں پھر جائیں یا فتنہ میں پڑ جائیں۔

چوتھی دلیل

   زرقانی  میں ہے

(روی ابن المبارك) عبداﷲ الذي تستنزل الرحمة بذکره (عن سعیدبن المسیّب) التابعي الجلیل بن الصحابي (قال لیس من یوم إلّا وتعرض علی النبيّ صلی اللہ علیہ وسلم أعمال أمّته غدوةً وعشیاً، فیعرفهم بسیماهم وأعمالهم، فیحمد اﷲ و یستغفرلهم، فإذا علم المسيء ذلك قدیحمله الإقلاع، ولایعارضه قوله صلی اللہ علیہ وسلم تعرض الأعمال کلّ یوم الإثنین والخمیس علی اﷲ، وتعرض علی الأنبیاء والآباء والأمّهات یوم الجمعة … رواه الحکیم الترمذي؛ لجواز أنّ العرض علی النبيّ صلی اللہ علیہ وسلم کلّ یوم علی وجه التفصیل وعلی الأنبیاء  ومنهم نبیّنا  علی وجه الإجمال یوم الجمعة، فیمتاز صلی اللہ علیہ وسلم بعرض أعمال أمّته کلّ یوم تفصیلاً ویوم الجمعة إجمالاً  (شرح العلامة الزرقاني علی المواهب اللدنیة بالمنح المحمدیّة، المقصد الرابع، الفصل الرابع مااختصّ به صلی اللہ علیہ وسلم من الفضائل والکرامات، (۷/۳۷۳  ۳۷۴)طدارالکتب العلمیۃ بیروت، ۱۴۱۷ھ ۔

            مذکورہ حدیث مرسل ہے،امام شافعی  کے سوا باقی ائمہ اورمحدثین رحمہم ﷲکے ہاں مرسل حجت ہے۔

ولذا قال جمهورالعلماء إنّ المرسل حجّة مطلقًا بناءً علی الظاهرمن حاله … وقال الشافعي یقبل أي لامطلقاً، بل فیه تفصیل  (شرح شرح نخبة الفکر لعلي القاري الحنفي المرسل، (ص۴۰۳  ۴۰۷) طقدیمی کتب خانہ کراچی)

بالخصوص سعیدبن المسیب کی مرسل کوبعض ایسے حضرات بھی قبول کرتے ہیں جو حجیۃ المرسل کے قائل نہیں۔

والثاني قوله (وقال الشافعي یقبل المرسل ممّن عرف أنّه لایرسل إلّا عن ثقة، کابن المسیّب  (توضیح الأفکارلمعاني تنقیح الأنظار، للعلامة الصنعاني، مسألة في اختلاف العلماء في قبول المرسل، (۱/۲۸۷  ۲۸۸)طدارإحیاء التراث العربي،بیروت،۱۴۱۸ھ   ۱۹۹۸م

اشتهرعن الشافعي أنّه لایحتجّ بالمرسل، إلّا مراسیل سعید بن المسیب  (تدریب الراوي في شرح تقریب النواوي للسیوطي، المرسل، (ص۱۷۱) طقدیمی کتب خانہ کراچی)

جواب

زرقانی کے لکھے  شرح کے متن میں ہے

(روی ابن المبارك) عبداﷲ الذي تستنزل الرحمة بذکره (عن سعیدبن المسیّب) التابعي الجلیل بن الصحابي (قال لیس من یوم إلّا وتعرض علی النبيّ صلی اللہ علیہ وسلم أعمال أمّته غدوةً وعشیاً، فیعرفهم بسیماهم وأعمالهم، فیحمد اﷲ و یستغفرلهم، فإذا علم المسيء ذلك قدیحمله الإقلاع، ولایعارضه قوله صلی اللہ علیہ وسلم تعرض الأعمال کلّ یوم الإثنین والخمیس علی اﷲ، وتعرض علی الأنبیاء والآباء والأمّهات یوم الجمعة … رواه الحکیم الترمذي؛ لجواز أنّ العرض علی النبيّ صلی اللہ علیہ وسلم کلّ یوم علی وجه التفصیل وعلی الأنبیاء  ومنهم نبیّنا  علی وجه الإجمال یوم الجمعة، فیمتاز صلی اللہ علیہ وسلم بعرض أعمال أمّته کلّ یوم تفصیلاً ویوم الجمعة إجمالاً  (شرح العلامة الزرقاني علی المواهب اللدنیة بالمنح المحمدیّة، المقصد الرابع، الفصل الرابع مااختصّ به صلی اللہ علیہ وسلم من الفضائل والکرامات، (۷/۳۷۳  ۳۷۴)طدارالکتب العلمیۃ بیروت، ۱۴۱۷ھ ۔

 اور ابن مبارک نے روایت کیا عبد اللہ سے …. تابعی جلیل ابن المسیب سے روایت ہے سے فرمایا کوئی ایسا روز نہیں ہے جب صبح و شام  امت کا عمل  نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش  نہ ہوتا ہو پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو پیشانیوں  و عمل  سے پہچان نہ جائیں  پس آپ اللہ تعالی کی حمد کرتے ہیں  اور ان کے لئے استغفار کرتے ہیں … اور یہ نبی کے قول سے متعارض نہیں ہے کہ ہر پیر و جمعرات کو اللہ تعالی پر  عمل پیش ہوتا ہے اور انبیاء و ماں باپ پر جمعہ کے دن اس کو حکیم الترمذی نے روایت کیا ہے

راقم کہتا  ہے  الزهد والرقائق لابن المبارك (يليه «مَا رَوَاهُ نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ فِي نُسْخَتِهِ زَائِدًا عَلَى مَا رَوَاهُ الْمَرْوَزِيُّ عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ فِي كِتَابِ الزُّهْدِ» ) میں اس روایت کی سند ہے ابن مبارک نے کہا

أَنَا رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ يَقُولُ: ” لَيْسَ مِنْ يَوْمٍ إِلَّا يُعْرَضُ فِيهِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمَّتُهُ غُدْوَةً وَعَشِيَّةً، فَيَعْرِفُهُمْ بِسِيمَاهُمْ، لِيَشْهَدَ عَلَيْهِمْ، يَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: {فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا} [النساء: 41] “

انصار میں سے ایک شخص نے خبر دی اس نے المنھال بن عمرو سے روایت کیا کہ اس نے سعید بن المسیب سے سنا فرمایا کوئی ایسا روز نہیں ہے جب صبح و شام  امت کا عمل  نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش  نہ ہوتا ہو پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو  پیشانیوں  سے پہچان نہ جائیں تاکہ ان پر گواہ ہوں اللہ تبارک و تعالی کا قول ہے پس کیا (عالم ) ہو گا جب ہم ہر امت میں ایک گواہ لائیں گے اور ان سب پر آپ کو گواہ کریں گے

راقم کہتا ہے اس کی سند رجل میں انصار مجہول الحال ہے اور المنھال بن عمرو ہے جس پر بد مذھب کا جوزجانی کا فتوی ہے اور سعید بن المسیب سے اس کا سماع منقطع ہے – سرمایہ حدیث میں یہ واحد روایت ہے جس میں المنھال نے براہراست سعید بن المسیب سے روایت کیا ہے

پانچویں دلیل

                 علامہ آلوسی  علیہ سورۃ النحل کی  آیت ۸۹  {وَجِئْنَابِكَ شَھِیْداً عَلٰی هٰؤُلآءِ } کے تحت رقم طراز ہیں

المراد به ولآء أمّتها عند أکثرالمفسرین، فإنّ أعمال أمّته علیه الصلاة والسلام تعرض علیه بعدموته  فقد روي عنها أنّه قال حیاتي خیرلکم، تحدثون ویحدث لکم، ومماتي خیرلکم، تعرض عليّ أعمالکم، فمارأیت من خیر حمدت اﷲ تعالیٰ علیه ومارأیت من شرّ استغفرت اﷲ تعالیٰ لکم، بل جاء إنّ أعمال العبد تعرض علی أقاربه من الموتٰی

جواب

اس شرح کا دارومدار  بھی اوپر والی منکر و ضعیف روایت پر ہے

چھٹی دلیل

دیو بندی علماء نے دلیل دی

  فقدأ خرج ابن أبي ا لدنیا عن أبي هریرة أنّ النبيّ صلی اللہ علیہ وسلم قال لاتفضحوا أمواتکم بسیئات أعمالکم؛ فإنها تعرض علی أولیائکم من أهل القبور

جواب راقم کہتا ہے اس کا ترجمہ ہے

پس ابن ابی الدنیا نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  فرمایا اپنے مردوں کو ان کے گناہوں پر  برا مت کہو کہ (جو برا بھلا کہا ) وہ تمہارے (مردہ ) دوستوں پر قبروں میں پیش ہوتا  ہے

اور سند کتاب المنامات از ابن ابی الدنیا میں  ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، ثنا أَبُو سَعِيدٍ الْمَدِينِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَبِيبٍ، ثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ شَيْبَةَ الْحِزَامِيُّ، ثَنَا فُلَيْحُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، وَالْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَفْضَحُوا مَوْتَاكُمْ بِسَيِّئَاتِ أَعْمَالِكُمْ فَإِنَّهَا تُعْرَضُ عَلَى أَوْلِيَائِكُمْ  مِنْ أَهْلِ الْقُبُورِ»

سند میں أَبُو سَعِيدٍ الْمَدِينِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَبِيبٍ مجہول ہے – اور الحِزَامِيُّ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ عَبْدِ المَلِكِ بنِ شَيْبَةَ ہے جو ابْنُ أَبِي دَاوُدَ کے مطابق ضَعِيْفٌ ہے

ساتویں دلیل

وأخرج أحمد عن أنس مرفوعاً إنّ أعمالکم تعرض علی أقاربکم وعشائرکم من الأموات، فإن کان خیراً استبشروا، وإن کان غیرذٰلك قالوا اللّٰهمّ لاتمتهم حتّٰی تهدیهم  کما هدیتنا

جواب

راقم کہتا ہے یہ جملے الوسی کی تفسیر روح المعانی سے بلا تحقیق سند  نقل کیے گئے ہیں

راقم کہتا ہے مسند احمد میں اس کی سند ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَمَّنْ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ أَعْمَالَكُمْ تُعْرَضُ عَلَى أَقَارِبِكُمْ وَعَشَائِرِكُمْ مِنَ الْأَمْوَاتِ، فَإِنْ كَانَ خَيْرًا اسْتَبْشَرُوا بِهِ، وَإِنْ كَانَ غَيْرَ ذَلِكَ، قَالُوا: اللهُمَّ لَا تُمِتْهُمْ، حَتَّى تَهْدِيَهُمْ كَمَا هَدَيْتَنَا

شعيب الأرنؤوط – عادل مرشد، وآخرون کہتے ہیں

إسناده ضعيف لإبهام الواسطة بين سفيان وأنس. وهذا الحديث تفرد به الإمام أحمد.

وفي الباب عن أبي أيوب الأنصاري عند الطبراني في “الأوسط” (148) ، لكن إسناده ضعيف جداً، فيه مسلمة بن عُلَيّ الخشني، وهو متروك الحديث، فلا يفرح به.

آٹھویں دلیل

  وأخرجه أ بوداود من حدیث جابر بزیادة وأ لهمهم أن یعملوا بطاعتك

جواب

راقم کہتا ہے یہ جملے الوسی کی تفسیر روح المعانی سے بلا تحقیق سند  نقل کیے گئے ہیں

وأخرجه أبو داود من حديث جابر بزيادة «وألهمهم أن يعملوا بطاعتك» .

 ابو داود میں ہے حدیث جابر ہے جس میں اضافہ ہے کہ ان پر الہام ہو کہ اللہ کی اطاعت پر عمل کریں

راقم کہتا ہے یہ حدیث   ابو داود الطيالسي کی   مسند  ہے

حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ دِينَارٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ أَعْمَالَكُمْ تُعْرَضُ عَلَى عَشَائِرِكُمْ وَأَقْرِبَائِكُمْ فِي قُبُورِهِمْ، فَإِنْ كَانَ خَيْرًا اسْتَبْشَرُوا بِهِ، وَإِنْ كَانَ غَيْرَ ذَلِكَ قَالُوا: اللَّهُمَّ أَلْهِمْهُمْ أَنْ يَعْمَلُوا بِطَاعَتِكَ “

جابر نے روایت کیا رسول اللہ نے فرمایا تمھارے اعمال رشتہ داروں و آقارب پر قبروں میں پیش ہوتے ہیں اگر وہ اچھے ہوں تو وہ خوش ہوتے ہیں اور اگر ایسے نہ ہوں تو وہ کہتے ہیں اے آل پر الہام کر کہ تیری اطاعت کریں

سند میں الصَّلْتُ بْنُ دِينَارٍ  پر ابن سعد کا کہنا ہے  ضعيف ليس بشيء- احمد کا کہنا ہے ليس بثقة ثقہ نہیں ہے اور ابن حجر نے متروک قرار دیا ہے

نویں دلیل

   وأخرج ابن أبي الدنیاعن أبي الدرداء أنّه قال إنّ أعمالکم تعرض علی موتاکم، فیسرّون ویساؤون، فکان أبوالدرداء یقول عندذلك “اللّٰهم إنّي أعوذبك أن یمقتني خالي عبداﷲ بن رواحة إذا لقیته، یقول ذلك في سجوده، والنبيّ صلی اللہ علیہ وسلم لأمّته بمنزلة الوالد بل أولٰی  (روح المعاني، النحل۸۹ (۱۴/۲۱۳)طإدارۃ الطباعۃ المنیریۃ مصر۔)

            علامہ آلوسی  نے اس سلسلہ میں جن احادیث کونقل فرمایا ان پرکوئی اعتراض نہیں کیا، جب کہ ان کی عادت یہ ہے کہ وہ احادیثِ ضعیفہ یاموضوعہ کی نشان دہی کرتے ہیں اوران پرردفرماتے ہیں، جس سے معلوم ہواکہ یہ مذکورہ احادیث صحیح ہیں، ورنہ کم سے کم درجہ حسن کی ہیں۔

جواب

راقم کہتا ہے یہ جملے الوسی کی تفسیر روح المعانی سے بلا تحقیق سند  نقل کیے گئے ہیں – متن کا ترجمہ ہے

اور ابن ابی الدنیا نے ابو الدرداء سے تخریج کی ہے کہ انہوں نے فرمایا بلا شبہ اعمال مردوں پر پیش ہوتے ہیں ..

المنامات از ابن ابی الدنیا میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، ثني مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ، ثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، أَنَّ أَبَا الدَّرْدَاءِ، كَانَ يَقُولُ: «إِنَّ أَعْمَالَكُمْ تُعْرَضُ عَلَى مَوْتَاكُمْ فَيُسَرُّونَ وَيُسَاءُونَ»

الذهبی کتاب العبر في خبر من غبر میں لکھتے ہیں

 عبد الرحمن بن جبيْر بن نفَير الحضرمِي الحمصي. وهو مُكْثرٌ عن أبيه وغيره. ولا أعلمه روى عن الصحابة. وقد رأى جماعة من الصحابة

عبد الرحمن بن جبيْر بن نفَير الحضرمِي الحمصي ہیں اپنے باپ سے بہت سی روایات کی ہیں اور میں نہیں جانتا ان کی صحابہ سے کوئی روایت اور انہوں نے صحابہ کو دیکھا ہے

ابن ماكولا کتاب الإكمال میں لکھتے ہیں

جبير بن نفير من قدماء التابعين، روى عن أبيه وغيره. وابنه عبد الرحمن بن جبير بن نفير.

جبير بن نفير قدیم تابعين میں سے ہیں اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں اور ان کے بیٹے عبد الرحمن بن جبير بن نفير ہیں

معلوم ہوا کہ یہ روایت متصل نہیں- عبد الرحمن بن جبير بن نفير کا صحابہ سے سماع ثابت نہیں اور ان کے باپ خود تابعی ہیں

دسویں دلیل

     تفسیرمظہری میں ہے

{وَجِئْنَابِكَ عَلٰی هؤُلآءِ شَهِیْدًا} یشهد النبيّ صلی اللہ علیہ وسلم علی جمیع الأمّة من رآه ومن لم یره  أخرج ابن المبارك عن سعیدبن المسیّب قال لیس من یوم إلّا وتعرض علی النبيّ صلی اللہ علیہ وسلم أمّته غدوةً وعشیّةً، فیعرفهم بسیماهم وأعمالهم فلذلك یشهد علیهم   (التفسیرالمظهري،   النساء۴۱ (۲/۱۱۰)ط بلوچستان بک ڈپو، کوئٹہ)

جواب

اس تفسیر میں بھی ابن المسیب سے منسوب قول سے دلیل لی گئی ہے جس پر تبصرہ اوپر گزر چکا ہے

گیارہویں دلیل

               صاحب تفسیر ابن کثیر نے آیت کریمہ { وَجِئْنَابِكَ عَلٰی هؤُلآءِ شَهِیْداً }کی تفسیرمیں التذکرة للقرطبي کے حوالہ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ

وأمّا ما ذکره أبو عبد اﷲ القرطبي فيالتذکرةحیث قال باب ماجاء في شهادة النبي صلی اللہ علیہ وسلم علی أمّته، قالأنا ابن المبارك، قال أنارجل من الأنصارعن المنهال بن عمرو أنّه سمع سعید بن المسیّب یقول لیس من یوم إلّایعرض فیه علی النبيّ صلی اللہ علیہ وسلم أمّته غدوةً وعشیًّا، فیعرفهم بأسمائهم وأعمالهم، فلذلك یشهد علیهم، یقول اﷲتعالیٰ{فَکَیْفَ اِذَاجِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّةٍ بِشَهِیْدٍ وَّجِئْنَابِكَ عَلٰی هؤُلآءِ شَهیْدًا}؛ فإنّه أثر، وفیه انقطاع، فإنّ فیه رجلاً مبهمًا لم یسمّ، وهومن کلام سعید بن المسیّب،لم یرفعه، وقدقبله القرطبي، فقال بعد إیراده فقد تقدّم أنّ الأعمال تعرض علی اﷲ کلّ یوم اثنین وخمیس، وعلی الأنبیاء والآباء والأمّهات یوم الجمعة، قال ولاتعارض، فإنّه یحتمل أن یخصّ نبیّنا صلی اللہ علیہ وسلم بمایعرض علیه کلّ یوم، ویوم الجمعة مع الأنبیاء علیه وعلیهم أفضل الصلاة والسلام  ( تفسیرالقراٰن العظیم للحافظ ابن کثیر،  النساء۴۱ (۱/۴۹۸ ۴۹۹) طقدیمی کراچی)

            حافظ عمادالدین ابن کثیر نے بھی احادیثِ مذکورہ کے بارے میں کچھ نکیر نہیں کی، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عرضِ اعمال کی احادیث مجموعی اعتبار سے ان کے نزدیک صحیح ہیں۔

جواب

یہاں تفسیر ابن کثیر کا حوالہ دیا گیا ہے اور ابن کثیر کی بھی غلطی ہے کہ سعید بن المسیب سے منسوب قول کو دلیل بنایا ہے جس کا ذکر اوپر گذر چکا ہے

بارہویں دلیل

                  تفسیرمنار میں ہے

{ فَکَیْفَ اِذَاجِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّةٍ م بِشَهِیْدٍ…الآیة }، تعرض أعمال کلّ أمّة علی نبیّها   ( تفسیرالقراٰن الحکیم الشهیر بـ “تفسیرالمنار”، للسیّد محمدرشیدرضا، [ النساء ۴۱](۵/۱۰۹)ط مطبعۃ المنارمصر،۱۳۲۸ھ)

جواب

اس آیت کی یہ تفسیر کہ امت کا عمل نبی پر پیش ہو رہا ہے ورنہ گواہ نہ ہوں  گے نبی کو عالم الغیب قرار دینے کے مترادف ہے

تیرہویں دلیل

                      مسنداحمد میں ہے 

 عمّن سمع أنس بن مالك یقول  قال النبيّ   إنّ أعمالکم تعرض علی أقاربکم وعشائرکم من الأموات، فإن کان خیرًا استبشروا، وإن کان غیرذٰلك، قالوا  اللّٰهمّ لاتمتهم حتّٰی تهدیهم کماهد یتنا   ( المسند للإمام أحمدبن حنبل، مسندأنس بن مالك رضي اﷲ عنه، [ رقم الحدیث  ۱۲۶۱۹]  (۱۰/۵۳۲-۵۳۳) ط  دارالحدیث  القاهرة)

            واضح رہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ حدیث وفقہ کے امام ہیں، اور ناقد بھی، اور احادیث پر جرح بھی کرتے ہیں، جب کہ آپ نے اس حدیث پر کوئی جرح نہیں فرمائی، گویا آپ نے اس حدیث کی توثیق کی ہے۔

جواب

مسند احمد میں امام احمد نے سوائے ایک دو روایات کے کسی پر جرح نہیں کی  لیکن العلل میں انہی روایات پر جرح کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام روایات امام احمد کے نزدیک صحیح نہیں تھیں یہ صرف احادیث کا مجموعہ تھا – یہاں عمّن سمع جس نے سنا کون ہے ؟ کوئی نہیں جانتا اس کی سند کو سند کو درست کہنا آنکھوں میں دھول جھوکنا ہے

چودہویں دلیل

  شرح الصدور   میں ہے

          وأخرج الطیالسي في  مسنده عن جابر بن عبداﷲ قال  قال رسول اﷲ  صلی اللہ علیہ وسلم   إنّ أعمالکم تعرض علی عشائرکم وأقربائکم في قبورهم، فإن کان خیراً استبشروا، وإن کان غیر ذلك، قالوا  اللّٰهمّ ألهمهم أن یعملوا بطاعتك 

جواب

یہاں مسند ابو داود الطیالسي سے روایت لی گئی ہے

حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ دِينَارٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ أَعْمَالَكُمْ تُعْرَضُ عَلَى عَشَائِرِكُمْ وَأَقْرِبَائِكُمْ فِي قُبُورِهِمْ، فَإِنْ كَانَ خَيْرًا اسْتَبْشَرُوا بِهِ، وَإِنْ كَانَ غَيْرَ ذَلِكَ قَالُوا: اللَّهُمَّ أَلْهِمْهُمْ أَنْ يَعْمَلُوا بِطَاعَتِكَ

اس روایت پر تبصرہ اوپر کیا جا چکا ہے سند میں متروک راوی ہے

پندرہوین دلیل

         وأخرج ابن المبارك وابن أبي الدنیا عن أبي أیّوب، قال  تعرض أعمالکم علی الموتٰی، فإن رأواحسنًا فرحوا واستبشروا، وإن رأوا سوءً، قالوا  اللّٰهمّ راجع به 

جواب

المنامات از ابن ابی الدنیا میں اس کی سند ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، ثني مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ، ثني يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ، ثني عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي رُهْمٍ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، قَالَ: ” تُعْرَضُ أَعْمَالُكُمْ عَلَى الْمَوْتَى , فَإِنْ رَأَوْا حَسَنًا فَرِحُوا وَاسْتَبْشَرُوا وَقَالُوا: اللَّهُمَّ هَذِهِ نِعْمَتُكَ عَلَى عَبْدِكَ فَأَتِمَّهَا عَلَيْهِ , وَإِنْ رَأَوْا سُوءًا قَالُوا: اللَّهُمَّ رَاجِعْ بِهِ “

الزهد والرقائق لابن المبارك (يليه «مَا رَوَاهُ نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ فِي نُسْخَتِهِ زَائِدًا عَلَى مَا رَوَاهُ الْمَرْوَزِيُّ عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ فِي كِتَابِ الزُّهْدِ» ) میں ہے

أَخْبَرَكُمْ أَبُو عُمَرَ بْنُ حَيَوَيْهِ، وَأَبُو بَكْرٍ الْوَرَّاقُ قَالَا: أَخْبَرَنَا يَحْيَى قَالَ: حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ قَالَ: أَخْبَرَنَا ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي رُهْمٍ السَّمَاعِيِّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ: ” إِذَا قُبِضَتْ نَفْسُ الْعَبْدِ تَلَقَّاهُ أَهْلُ الرَّحْمَةِ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ كَمَا يَلْقَوْنَ الْبَشِيرَ فِي الدُّنْيَا، فَيُقْبِلُونَ عَلَيْهِ لِيَسْأَلُوهُ، فَيَقُولُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: أَنْظِرُوا أَخَاكُمْ حَتَّى يَسْتَرِيحَ، فَإِنَّهُ كَانَ فِي كَرْبٍ، فَيُقْبِلُونَ عَلَيْهِ فَيَسْأَلُونَهُ مَا فَعَلَ فُلَانٌ؟ مَا فَعَلَتْ فُلَانَةٌ؟ هَلْ تَزَوَّجَتْ؟ فَإِذَا سَأَلُوا عَنِ الرَّجُلِ قَدْ مَاتَ قَبْلَهُ، قَالَ لَهُمْ: إِنَّهُ قَدْ هَلَكَ، فَيَقُولُونَ: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ذُهِبَ بِهِ إِلَى أُمِّهِ الْهَاوِيَةِ، فَبِئْسَتِ الْأُمُّ، وَبِئْسَتِ الْمُرَبِيَّةُ، قَالَ: فَيُعْرَضُ عَلَيْهِمْ [ص:150] أَعْمَالُهُمْ، فَإِذَا رَأَوْا حَسَنًا فَرِحُوا وَاسْتَبْشَرُوا، وَقَالُوا: هَذِهِ نِعْمَتُكَ عَلَى عَبْدِكَ فَأَتِمَّهَا، وَإِنْ رَأَوْا سُوءًا قَالُوا: اللَّهُمَّ رَاجِعْ بِعَبْدِكِ

اس کے متن میں ہے کہ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ رضی اللہ عنہ نے کہا  جب کسی کی جان قبض ہوتی ہے اور وہ اہل رحمت سے جب ( عالم البرزخ ) میں ملتا ہے تو  یہ ارواح اپس  میں کلام کرتی ہیں  جاننا چاہتی ہیں کہ کون کس حال میں ہے  پھر دعا کرتی ہیں … ان کو ان کا عمل دکھایا جاتا ہے

اس سند میں أَبِي رُهْمٍ السَّمَاعِيِّ کا سماع  أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ رضی اللہ عنہ سے معلوم نہیں ہو سکا کہ تھا بھی یا نہیں

سولویں دلیل

          وأخرج ابن أبي شیبة في  المصنف والحکیم الترمذي وابن أبي الدنیاعن إبراهیم بن میسرة، قال غزٰی أبو أیّوب القسطنطینة فمرّ بقاصّ وهو یقول  إذاعمل العبد العمل في صدرالنهار عرض علی معارفه إذا أمسی من أهل الآخرة، وإذا عمل العمل في آخرالنهار عرض علی معارفه إذا أصبح من أهل الآخرة، فقال أبوأیّوب  انظر ما تقول! قال  واﷲ إنّه لکما أقول، فقال أبو أیوب  اللّٰهم إنّي أعوذبك أن تفضخي عند عبادة بن الصامت وسعد بن عبادة بما عملت بعدهم، فقال القاصّ  واﷲ لایکتب اﷲ ولایته لعبد إلّاسترعوراته وأثنی علیه بأحسن عمله 

 جواب

إبراهیم بن میسرة نے کہا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ  نے القسطنطینة   کا جہاد کیا کا گذر ایک قصہ گو پر ہوا جو کہہ رہا تھا …. ابو ایوب نے کہا دیکھو کیا بول رہے ہو ! پھر فرمایا  اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں کہ عبادة بن الصامت وسعد بن عبادة کے بعد جو عمل میں نے کیا اس پر میری فضاحت ہو

راقم کہتا ہے یہ قول کسی  عُبَيْدِ بْنِ سَعْدٍ کا ہے جو ابراہیم کو ملا – کتاب الأولياء از ابن ابی الدنیا میں ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، نا دَاوُدُ بْنُ عَمْرٍو الضَّبِّيُّ، نا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: ” غَزَوْنَا حَتَّى إِذَا انْتَهَيْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ مَدِينَةِ قُسْطَنْطِينِيَّةَ إِذَا قَاصٌّ يَقُولُ: مَنْ عَمِلَ عَمَلًا مِنْ أَوَّلِ النَّهَارِ عُرِضَ عَلَى مَعَارِفِهِ إِذَا أَمْسَى مِنْ أَهْلِ الْآخِرَةِ، وَمَنْ عَمِلَ عَمَلًا مِنْ آخِرِ النَّهَارِ عُرِضَ عَلَى مَعَارِفِهِ إِذَا أَصْبَحَ مِنْ أَهْلِ الْآخِرَةِ، فَقَالَ لَهُ أَبُو أَيُّوبَ: أَيُّهَا الْقَاصُّ، انْظُرْ مَا تَقُولُ، قَالَ: وَاللَّهِ إِنَّ ذَلِكَ لَكَذَلِكَ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ لَا تَفْضَحْنِي عِنْدَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ وَلَا عِنْدَ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ فِيمَا عَمِلْتُ بَعْدَهُمَا، فَقَالَ الْقَاصُّ: وَإِنَّهُ وَاللَّهُ مَا كَتَبَ اللَّهَ مَا كَتَبَ وِلَايَتَهُ لِعَبْدٍ إِلَّا سَتَرَ عَلَيْهِ عَوْرَتَهُ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ بِأَحْسَنِ عَمَلِهِ “

عُبَيْدِ بْنِ سَعْدٍ کی ثقاہت  کا حال معلوم  نہیں ہے

سترہویں  دلیل

       وأخرج الحکیم الترمذي وابن أبي الدنیا في کتاب المنامات والبیهقي في شعب الإیمان عن النعمان بن بشیر سمعت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یقول اﷲ اﷲ في إخوانکم من أهل القبور، وأنّ أعمالکم تعرض علیهم

جواب

المنامات از ابن ابی الدنیا میں ہے

حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ رِزْقِ اللَّهِ الْكَلْوَذَانِيُّ، وَهَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ   قَالَا: نا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ الْوُحَاظِيُّ، قَالَ: نا أَبُو إِسْمَاعِيلَ السَّكُونِيُّ، سَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ أُدَيٍّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ، وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «أَلَا إِنَّهُ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا مِثْلُ الذُّبَابِ تَمُورُ فِي جَوِّهَا , فَاللَّهَ اللَّهَ فِي إِخْوَانِكُمْ مِنْ أَهْلِ الْقُبُورِ , فَإِنَّ أَعْمَالَكُمْ تُعْرَضُ عَلَيْهِمْ»

میزان از الذھبی میں ہے  کہ یہ مجہول ہے اور قال الأزدي: لا يصح إسناده  اس کی اسناد صحیح نہیں ہیں

اس کی سند مستدرک حاکم میں بھی ہے

نعمان بن بشیر رضی الله تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا …. لوگوں اپنے مردہ بھائیوں کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو کیونکہ تمہارے اعمال ان پر پیش کیے جاتے ہیں

الذهبی کہتے ہیں       فيه مجهولان  اس میں مجھول راوی ہیں

اٹھارویں دلیل

        وأخرج ابن أبي الد نیا وابن منده وابن عساکر عن أحمد بن عبداﷲ بن أبي الحواری، قالحدّثني أخي محمّد بن عبداﷲ، قالدخل عبّاد الخواص علی إبراهیم بن صالح الهاشمي  وهو أمیر فلسطین  فقال له إبراهیم عظني! فقال قد بلغني إنّ أعمال الأحیاء تعرض علی أقاربهم من الموتٰی، فانظر ماتعرض علی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم من عملك  (  روایت نمبر۱۴  سے  روایت نمبر۱۸  تک دیکھیے شرح الصدوربشرح حال الموتیٰ والقبور، باب عرض أعمال الأحیاء علی الأموات،(ص۱۱۴ ۱۱۵) طمطابع الرشید بالمدینۃ المنورۃ۔)

جواب

اس میں حدیث سرے سے ہی نہیں ہے

کسی امیر فلسطین کے قول کا ذکر ہے

انیسویں دلیل

        أکثر وا من الصلاة عليّ في کلّ یوم جمعة؛ فإنّ صلاة أمّتي تعرض عليّ في کلّ یوم جمعة … (هب) عن أبي أمامة  (کنزالعمّال في سنن الأقوال والأفعال، الکتاب الثاني، الباب السادس في الصلاة علیه وآله علیه الصلاة والسلام، (۱/۴۸۸) ط مؤسّسة الرسالة، بیروت،۱۴۰۱ھ ۱۹۸۱م۔)

جواب

حياة الأنبياء میں بیہقی نے اس کو اس طرق سے روایت کیا ہے

   إبراهيم بن الحجاج السامي البصري ثنا حماد بن سلمة عن بُرد بن سنان عن مكحول الشامي عن أبي أمامة رفعه “أكثروا عليّ من الصلاة في كل يوم جمعة، فإنّ صلاة أمتي تعرض عليّ في كل يوم جمعة، فمن كان أكثرهم عليّ صلاة، كان أقربهم مني منزلة”.

سند میں انقطاع ہے

 المنذري اور الذهبي کا کہنا ہے کہ مكحول کا سماع أبي أمامة سے نہیں ہے

  المنذري نے الترغيب میں  کہا :  لم يسمع من أبي أمامة”

وقال الذهبي: قلت: مكحول قيل: لم يلق أبا أمامة” المهذب

بیسویں دلیل

                 بلوغ الأماني من أسرار الفتح الرباني میں ہے

عن أبي الدرداء رضي اﷲ عنه قالقال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم أکثروا من الصلاة عليّ یوم الجمعة، فإنّه مشهود تشهده الملائکة، وإنّ أحداً لن یصلي عليّ إلّا عرضت عليّ صلاته حتّٰی یفرغ منها، قال قلت وبعد الموت؟ قالإنّ اﷲ حرّم علی الأرض أن تاکل أجساد الأنبیاء علیهم الصلاة والسلام  رواه ابن ماجه بسند جیّد   (بلوغ الأماني من أسرارالفتح الرباني للإمام أحمدعبدالرحمٰن، أبواب صلاة الجمعة، فصل منه في الحثّ علی الإکثارمن الصلاة علی النبيّ صلی اللہ علیہ وسلم یوم الجمعة، (۶/۱۱) ط دارالشهاب، القاهرة)

جواب

روایت ہے

عن أبي الدرداء قال: قال رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “أكثروا الصلاة عليّ يوم الجمعة؛ فإنه مشهود تشهده الملائكة. وإن أحدا لا يصلي علي إلا عُرضت عَلَيّ صلاته حتى يفرغ منها”. قال: قلت: وبعد الموت؟ قال: ” [وبعد الموت]، إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء” [فنبي الله حي يرزق].

هذا حديث غريب من هذا الوجه، وفيه انقطاع بين عُبادة بن نَسي وأبي الدرداء، فإنه لم يدركه

اس کی سند میں بھی انقطاع ہے عُبادة بن نَسي  کی أبي الدرداء سے نہ ملاقات ہے نہ سماع ہے


دیوبندیوں کی طرح  سلفی علماء بھی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ میت کو اپنے ورثاء کی  حرکتوں کا علم ہوتا ہے – میت  کو علم ہوتا ہے کون اس پر رو رہا ہے جس سے میت کو دکھ ہوتا ہے

 ابن عثيمين  سے درج ذيل سوال كيا گيا

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان كا معنى كيا ہے ؟

” يقينا ميت كو اس كے گھر والوں كے رونے سے عذاب ہوتا ہے ”

ابن عثيمين   کا جواب تھا کہ اس کا مطلب ہے

جب ميت كے اہل و عيال ميت پر روتے ہيں تو اسے اس كا علم ہوتا اور اس سے اسے تكليف ہوتى ہے، اس كا معنى يہ نہيں كہ اللہ تعالى ميت كو اس كى سزا ديتا ہے، كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے: كوئى بھى جان كسى دوسرى جان كا بوجھ ( گناہ ) نہيں اٹھائيگى .عذاب سے يہ لازم نہيں آتا كہ اسے سزا ہوتى ہے، كيا آپ ديكھتے نہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:” سفر عذاب كا ايك ٹكڑا ہے “حالانكہ سفر كوئى سزا نہيں، ليكن اس سے انسان كو تكليف ہوتى ہے اور تھك جاتا ہے، تو اسى طرح جب ميت كے اہل و عيال ميت پر روتے ہيں اسے اس سے تكليف ہوتى ہے اور وہ تھك جاتا ہے، اگرچہ يہ اللہ تعالى كى جانب سے اسے سزا نہيں ہے.حديث كى يہ شرح واضح اور صريح ہے، اور اس پر كوئى اشكال وارد نہيں ہو سكتا، اور نہ ہى اس شرح ميں يہ ضرورت ہے كہ كہا جائے كہ يہ اس شخص كے متعلق ہے جو نوحہ كرنے كى وصيت كرے، يا پھر اس شخص كے متعلق ہے جن كى عادت نوحہ كرنا ہو، اور وہ مرتے وقت انہيں نوحہ كرنے سے منع نہ كرے، بلكہ ہم تو يہ كہتے ہيں: انسان كو كسى چيز كے ساتھ عذاب ہوتا ہے ليكن اسے اس سے كوئى ضرر بھى نہيں پہنچتا ” انتہى.

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 17 / 408 ).

راقم کہتا ہے یہ عقیدہ باطل ہے کہ میت کو ورثاء کے رونے کا  علم ہوتا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *