Category Archives: فقہاء – Jurist

فقہی مسالک  ممنوع  ہیں ؟

عام  بول چال   میں مذھب  کا  مطلب دین  لیا  جاتا ہے  لیکن   فقہ کی کتب  میں مذھب  کا  مطلب  فقہ  کے چار اماموں  میں سے کسی  ایک امام کی اتباع  کرنا  ہے – یعنی اس امام سے منسوب  فقہ پر منبی طریقے  سے  نماز  پڑھنا ، طلاق  و  وراثت وغیرہ  کا فیصلہ  کرنا –  اس طرح  الگ  الگ  منہج  پر  لوگ ایک ہی امام کے متبع  یا ایک ہی  مذھب  پر ہو سکتے ہیں

عملی مسائل  میں اختلاف  رائے  کی دین  میں اجازت ہے – فقہی مسائل  میں اصحاب  رسول تک  میں اختلاف  موجود تھا – اس کو غیر شرعی  کہنے والا  جاہل  ہے – یہ معلوم تھا کہ رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع الیدین کیا  ہے  اور یہ بھی معلوم  تھا کہ  مسلسل نہیں کیا ہے –    لہذا بعض  شہروں  میں فقہ صحابہ کی وجہ سے سجدوں  تک میں رفع الیدین  کیا جاتا تھا  اور بعض شہروں  میں سرے سے ہی نہیں  کیا جاتا تھا – اصحاب رسول  میں کوئی کسی کو اس پر  نہیں روکتا ٹوکتا  تھا

قرن  دوم  میں  البتہ  اس پر محدثین  کا  اختلاف  واقع  ہو چکا  تھا – امام ترمذی  کے نزدیک  کوفہ   میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے   طریقہ  کے تحت نماز  پڑھنا    “بھی ” درست  تھا کہ رفع الیدین نہیں کیا  جاتا تھا  –  امام  بخاری  سختی سے رفع الیدین  کے قائل تھے  اور  اس کا پر چار کرتے تھے –  راقم  نے جب  بھی ڈاکٹر عثمانی کے پیچھے نماز پڑھی  انہوں نے وہ    امام بخاری  کی طرح  نہیں بلکہ  کوفہ کے مذھب کے تحت پڑھی جبکہ وہ صحیح بخاری  کا درس دینے والے تھے –  کہنے کا مقصد ہے کہ فقہ  میں اختلاف  موجب عذاب نہیں ہے ، یہ مسلمانوں  پر سہولت  ہے  جو عمل پسند ہو کر سکتے ہیں

فقہی مذہب یا عملی مسائل   میں  حنبلی ، شافعی ، مالکی ،  حنفی   ان  میں کسی ایک کو اختیار کرنا  شرعا  ممنوع  نہیں ہے –  جو امر  ضروری ہے   وہ یہ کہ اس کو دیکھا جائے کہ کہیں  ایسا  نہ ہو  کہ ایک آدمی دین  میں سہولت  کے نام پر  جب چاہے  آسانی والا راستہ لے – مثلا کوئی اپنی بیوی کی تین طلاق ایک ہی وقت میں دے اور پھر غیر مقلدوں کی طرح کہے کہ وہ صحیح مسلم کی  (منکر ) روایت پر عمل  پیرا  ہے، تین طلاق  نہیں ہوئیں اور  بعد  میں یہی شخص  حنفی طریقہ  پر  کوئی عمل کرے تو  تو ایسا شخص  مضل ہے،  یہ شریعت سے  کھلواڑ کر رہا   ہے – اس  کا دعوی  غیر  تقلیدی  محض  ایک دھوکہ ہے

معلوم  ہوا کہ نہ تو منہج  بری  چیز  ہے نہ  فقہی مذھب  بری  چیز  ہے –  جو  بات  نا پسندیدہ  ہے وہ اعتقادی  اختلاف  ہے – اسی سے فرقہ  بنتا ہے –  اعتقاد  میں اختلاف  کرنے کی صورت  میں فرقہ  آٹومیٹک  بن جاتا ہے – ظاہر  ہے  الگ الگ عقیدہ پر قائم  لوگوں کو  ایک گروہ  نہیں قرار دیا جا سکتا – البتہ ان  گروہوں کے  مجموعہ کو  اسلامی  کتب  میں اکثر اوقات  ایک لیا جاتا ہے – مثلا  اہل سنت  کے متعدد فرقے ہیں – متکلمین  ان کو ایک ہی چھت  کے تحت ذکر  کرتے ہیں – امام  ابو حسن اشعری کی مقالات الاسلامیین  دیکھی  جا سکتی ہے ، جس  میں وہ  اہل سنت ، روافض  اور خوارج   کا عقائد میں تقابل کرتے ہیں  – رافضیوں  کے آپس  میں بہت سے اعتقادی  اختلاف ہیں لیکن  ان سب کو  کتب  اہل سنت  میں  محض شیعہ کہہ دیا   جاتا ہے – یہی انداز  کتب اہل سنت  میں خوارج کے فرقوں  کے حوالے سے ہے – ان فرقوں  کی تحلیل نفسی  بر  جگہ نہیں کی جاتی کہ  لوگوں کو الگ الگ کر کے سمجھایا جائے کہ یہ راوی یا شخص  شیعہ  ہے تو کون سا شیعہ ہے –

اہل سنت سے  مراد  وہ  فرقے ہیں جو دینی مسائل میں   ابو  بکر  و عمر و عثمان  رضی اللہ عنہم  کی سنت کو درست سمجھتے ہیں   یعنی   ابو  بکر  ، عمر  ،  عثمان کے کیے گئے  فیصلے ان کی نگاہ میں درست ہیں – خوارج و شیعہ  ان کو قابل قبول نہیں جانتے

اس طرح  کسی فرقہ کو محض  اہل سنت  میں سے قرار دینے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ صحیح عقیدے پر بھی ہے – آج صوفی فرقے ہوں یا  غیر  صوفی فرقے ہوں  دونوں اپنے آپ کو اہل سنت  میں سے قرار دیتے ہیں کیونکہ یہ  نہ شیعہ ہیں نہ خارجی ہیں  – اس  حد  تو ان کی بات قابل قبول  ہے  –  لیکن  تفصیل  میں جانے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اہل سنت  میں اعتقادی  اختلافات بہت  شدید نوعیت  کے ہیں – اسی وجہ سے آج ان کی درسگاہیں ، مساجد  الگ کی گئی ہیں

ڈاکٹر  عثمانی  رحمہ اللہ علیہ   آخری  عمر  تک   فقہ  حنفی  کے طریقہ  پر  نمازیں پڑھاتے  تھے  اور اسی فقہ کے تحت  فروع میں  حکم کرتے تھے  مثلا یہ فاتحہ  خلف الامام  کے  خلاف فتوی دیتے   تھے   جبکہ امام  بخاری  کا مذھب امام  کے پیچھے  مقتدی کا   فاتحہ پڑھنے  پر ہے –  ڈاکٹر  عثمانی  رحمہ اللہ علیہ  علمی  حلقوں  میں  حنفی  مذھب  پر  جانے جاتے  تھے  – امام ابو  حنیفہ کی اتباع   مذھب و عقیدے  دونوں  میں  کرتے  تھے – کتاب  ایمان  خالص قسط دوم  میں  انہوں نے کئی  مرتبہ اپنے آپ کو فخر  سے امام  ابو حنیفہ  کے عقیدے  پر بتایا ہے –   راقم ان کی نماز  و فتووں سے واقف  ہے کہ وہ بھی  فقہ  حنفی  کے تحت  دیے گئے ہیں – فروعی مسائل  میں عثمانی صاحب  نہ تو  امام شافعی کی پیروی  کرتے تھے نہ امام مالک کی نہ امام  بخاری کی  – اس کی وجہ یہ تھی  کہ وہ خود ملتان  کے   حنفی  مدرسہ سے فارغ التحصیل  تھے  اور  فروع  میں ان کا  حنفی فرقوں  سے کوئی اختلاف نہ تھا

ان کی وفات کے بعد  بعض  غیر سنجیدہ مقرروں  نے جو غیر مقلدین کی  سوچ سے متاثر  ہوئے انہوں  بیان کرنا شروع کیا کہ  اسلام میں نہ کوئی حنفی ہوتا ہے،  نہ مالکی ہوتا ہے، نہ شافعی  ہوتا ہے ، نہ جنبلی ہوتا ہے   بلکہ صرف مسلم  ہوتا ہے – یہ قول  سطحیت پر ،   نا  سمجھی پر  منبی  تھا –  مذھب اربعہ  کو  خلاف اسلام کسی نے قرار نہیں دیا  – نہ ڈاکٹر عثمانی نے کہیں  لکھا  ہے کہ  وہ ان  فقہی  آراء یا  تقلید امام ابو حنیفہ   کے خلاف ہیں

 

فقہ میں امام مالک کے اقوال

125 Downloads

أبو عبد الله مالك بن أنس بن مالك بن أبي عامر الأصبحي الحميري المدني (93ھ – 179ھ) أمت کے جلیل القدر فقیہ و محدث ہیں – آپ اہل رائے و اہل حدیث دونوں حلقوں میں محترم ہیں- امام مالک کے دادا صحابی جلیل القدر تھے جو سوائے جنگ بدر کے باقی تمام غزوات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شریک تھے۔
امام مالک اہل رائے میں سے بھی ہیں – امام محمد ، امام مالک کے شاگردوں میں سے ہیں اور ان کی موطا کے راوی بھی ہیں – امام مالک کے اساتذہ میں إمام ربيعة بن أبي عبد الرحمن فرّوخ التيمى المدني، المعروف بـ ربيعة الرأي (المتوفي 136 هـ ) مشہور ہیں جو أهل رائے میں سے تھے –
امام شافعی کو بعض لوگوں نے امام مالک کے شاگردوں میں شمار کیا ہے دوسری طرف بعض أهل التراجم والسير کا قول ہے کہ امام شافعی فقط تیرہ سال کے تھے جب امام مالک سے ملے اور اسی دور میں مالک کی وفات ہوئی یعنی شافعی کا امام مالک سے اکتساب علم اتنا نہیں ہوا – کتاب الام میں شافعی نے بہت سے مسائل میں امام مالک سے اختلاف کیا ہے بس نام نہیں لیا وہ کہتا ہے کہہ کر مخاطب کیا ہے- مالکیہ کا خیال ہے کہ یہ شافعی نے مالک کا ذکر کیا ہے-
امام مالک کے خلاف بھی لوگ رہے ہیں مثلا سیر الاعلام النبلاء میں امام الشافعی کے ترجمہ میں الذھبی لکھتے ہیں
زكَرِيَّا بنُ أَحْمَدَ البَلْخِيُّ القَاضِي: سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ مُحَمَّدَ بنَ أَحْمَدَ بنِ نَصْرٍ التِّرْمِذِيَّ يَقُوْلُ: رَأَيْتُ فِي المَنَامِ النَّبِيَّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فِي مَسْجِدِه بِالمَدِيْنَةِ، فَكَأَنِّيْ جِئْتُ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، وَقُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ! أَكْتُبُ رَأْيَ مَالِكٍ؟ قَالَ: (لاَ) . قُلْتُ: أَكْتُبُ رَأْيَ أَبِي حَنِيْفَةَ؟ قَالَ: (لاَ) . قُلْتُ: أَكْتُبُ رَأْيَ الشَّافِعِيِّ؟ فَقَالَ بِيَدِهِ هَكَذَا، كَأَنَّهُ انْتَهَرَنِي، وَقَالَ: (تَقُوْلُ رَأْيَ الشَّافِعِيِّ! إِنَّهُ لَيْسَ بِرَأْيٍ، وَلَكِنَّهُ رَدٌّ عَلَى مَنْ خَالَفَ سُنَّتِي) .
زكَرِيَّا بنُ أَحْمَدَ البَلْخِيُّ القَاضِي کہتے ہیں میں نے أَبَا جَعْفَرٍ مُحَمَّدَ بنَ أَحْمَدَ بنِ نَصْرٍ التِّرْمِذِيَّ کو سنا کہا میں نے نیند میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا آپ مسجد النبی میں تھے پس میں ان تک پہنچا اور سلام کیا اور کہا اے رسول الله کیا مالک کی رائے لکھوں؟ فرمایا نہیں – میں نے پوچھا کیا ابو حنیفہ کی رائے لکھوں ؟ فرمایا نہیں – پوچھا کیا شافعی کی رائے لکھوں ؟ باتھ کو اس طرح کیا کہ گویا منع کر رہے ہوں اور کہا تو شافعی کی رائے کا کہتا ہے وہ میری رائے نہیں ہے بلکہ میری سنت کی مخالف ہے
اسی طرح ایک خواب کا ذکر امام الذھبی نے کیا ہے جس میں امام مالک کی رائے کو رد کرنے کا حکم دیا گیا
عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ أَبِي حَاتِمٍ: حَدَّثَنِي أَبُو عُثْمَانَ الخُوَارِزْمِيُّ نَزِيْلُ مَكَّةَ – فِيْمَا كَتَبَ إِلَيَّ – حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ رَشِيْقٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ حَسَنٍ البَلْخِيُّ، قَالَ: قُلْتُ فِي المَنَامِ: يَا رَسُوْلَ اللهِ! مَا تَقُوْلُ فِي قَوْلِ أَبِي حَنِيْفَةَ، وَالشَّافِعِيَّ، وَمَالِكٍ؟ فَقَالَ: (لاَ قَوْلَ إِلاَّ قَوْلِي، لَكِنَّ قَوْلَ الشَّافِعِيِّ ضِدُّ قَوْلِ أَهْلِ البِدَعِ
عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ أَبِي حَاتِمٍ کہتے ہیں مکہ والے أَبُو عُثْمَانَ الخُوَارِزْمِيُّ نے روایت کیا اس خط میں جو لکھا کہ مُحَمَّدُ بنُ رَشِيْقٍ، نے کہ مُحَمَّدُ بنُ حَسَنٍ البَلْخِيّ نے روایت کیا کہا میں نے خواب میں رسول الله سے پوچھا : اے رسول الله آپ مالک شافعی اور ابو حنیفہ کی رائے پر کیا کہتے ہیں ؟ فرمایا ان کا قول وہ نہیں جو میرا ہے اور شافعی کا قول اہل بدعت کی ضد ہے

امام مالک محدث بھی ہیں – امام مالک کی موطا حدیث کی صنف میں سب سے پہلی کتاب ہے جو باقی رہی ہے – اس سے قبل کی کتب معدوم ہو گئیں – امام مالک نے امام زہری سے بہت سی روایات لی ہیں –
ایک دور تک صحاح ستہ یا الكتب الستة میں موطا امام مالک کو لیا جاتا تھا – زرین بن معاویہ المتوفی ٥٣٥ ھ کے مطابق اس میں ابن ماجہ کی بجائے موطا ہے- ابن اثیر کے مطابق چھٹی کتاب موطا ہے- ابن صلاح النكت مين لکھتے ہیں کہ کافی عرصہ مغرب میں یعنی اندلس اور شمالی افریقہ میں موطا چھٹی کتاب رہی حتی کہ وہ ابن ماجہ پر متفق ہوئے
وعند المغاربة موطأ مالك عوضا عن سنن ابن ماجه قبل أن يقفوا عليه
چار فقہاء یعنی امام مالک، امام الشافعی ، امام ابو حنیفہ اور امام احمد بن حنبل میں سے امام بخاری نے سب سے زیادہ امام مالک کی سند سے روایت نقل کی ہیں –
اس کتاب میں امام مالک اور ان کے فقہی منہج پر مختصرا ً بات کی گئی ہے
ابو شہریار
٢٠١٩

فقہ میں امام ابو حنیفہ کا مقام

[wpdm_package id=’8866′]

امام ابو حنیفہ    رحمہ اللہ   تعالی    کا اسلامی  فقہ میں ایک عظیم نام ہے- آنجناب  کی اس حوالے سے کاوش و فہم کا ایک عالم معترف ہے – یہ انسانی  کمزوریوں میں سے ہے کہ جب اللہ  تعالی کسی کو عزت دیتا  ہے تو   آزمائش کے لئے   بعض   انسانوں   کے  دلوں میں حسد  پیدا کرتا ہے – اس حسد کی  آگ میں  حاسد  جھوٹ بولتا ہے ، فریب گھڑتا ہے یہاں تک کہ جادو   بھی کرنے پر  آمادہ   ہو  جاتا ہے-  اسی لئے     حاسد  کے شر سے پناہ مانگی جاتی ہے  –  افسوس       حاسدوں  کا     وقت     پھر کسی تعمیری و تحقیقی سرگرمی میں کم اور جدل کی نذر ہو جاتا ہے-

  ابو حنیفہ سے  بعض     اہل روایت    کا بہت خنس تھی کیونکہ وہ اہل رائے و اجتہاد تھے اور اس امت میں ان کے مقام کے لوگ پیدا نہیں ہوئے –  روایت پسندوں نے ان کے خلاف محاذ بنائے رکھا اور ان کو حدیث کا مخالف بنا پر پیش کیا جبکہ   امام صاحب مشکل حدیث کی صنف میں اور ناسخ و منسوخ فی الحدیث کا   بہت  علم رکھتے تھے-  ابو حنیفہ   کہتے تھے کہ   ایک عمل  دور نبوی میں اگر    مجمع میں  کیا گیا ہو تو وہ حدیث مشہور ہونی چاہیے   کہ ایک گروہ اس کو بیان کرے – اس کے برعکس  محدثین  کا ایک گروہ  ایسا پیدا ہو گیا تھا  جس کو اگر      ایک ہی روایت مل جاتی     جو   خود ان کے اصولوں پر ضعیف ہی کیوں نہ ہوتی   تو    وہ اس پر عمل کرنے لگ جاتے تھے –   اس طرح ایک طرف ضعیف  روایات پر عمل پیرا   محدثین تھے  اور دوسری طرف  اہل ورع  و احتیاط والے  اہل رائے تھے –   یہاں تک کہ  امام  بخاری و مسلم  آئے  اور انہوں نے  صحیحین کو  مرتب کر کے  اس  رجحان کو ختم کرنے کی کوشش کی کہ ضعیف یا حسن کو  عمل میں بھی نہ  لیا جائے ،  اگرچہ یہ  کاوش  کامیاب نہ ہو سکی اور  امت میں صحاح الستہ   کی غلط  اصطلاح  کو جاری  کر دیا گیا –  واضح رہے کہ مولفین  سنن  اربع   امام نسائی  ، ابو داود ، ترمذی ، ابن ماجہ نے یہ دعوی کہیں نہیں کیا کہ ہماری کتب صحیح  روایات  کا مجموعہ ہیں –  یہ رجحان  بھی  کافی صدیوں  تک چلتا رہا  یہاں تک کہ عصر  قریب میں  البانی نے    چار کو  اٹھ  کتب میں بدل دیا یعنی  ضعیف و صحیح   ابو داود  وغیرہ

امام ابن ابی شیبہ نے امام ابو حنیفہ کے رد میں ایک رسالہ تصنیف کیا جس میں بلا سند اقوال کو جمع کر کے خود ابن ابی شیبہ نے  اپنے اوپر تنقید کی راہ پیدا کی –    دوسری طرف    امام ابو حنیفہ پر بہت سے جھوٹ بولے گئے ہیں اور اس قدر بولے گئے ہیں کہ ان میں آپس میں تضادات   ہر   صاحب عقل پر آشکار ہو جاتے ہیں –  راقم  کا      مقصد   انہی ظلمات  کے پردوں  کو چاک   کر کے    حقیقت تک جانا ہے-

 یہ کتاب   ویب سائٹ   پر موجود  سوالات  و تحقیق   کو یکجا   کر کے مرتب کی  گئی  ہے  جس کے لئے    احباب  کا مشکور ہے –  اللہ تعالی ہم سب کو   مسلک پرستی  اور تقلید  شخصی  سے آزاد  کرے  اور     جو سچ ہے اس کو بیان کرنے کی توفیق دے

ابو شہر یار

٢٠١٩