مومن حاکم کے خلاف خروج کا حکم نبوی

گناہ کے مرتکب ، مومن حاکم کے خلاف خروج پر روایات موجود ہیں جن کی علماء نے تصحیح کی ہے – راقم کے نزدیک یہ صحیح السند روایات نہیں ہیں التبہ انہی روایات کی بنیاد پر خوارج کہتے ہیں کہ عثمان کے خلاف خروج جائز تھا – اہل سنت کہتے ہیں بنو امیہ کے خلاف خروج جائز تھا اور آج حربی تنظیمین کہتیں ہیں حاکم کے خلاف خروج جائز ہے – روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ حاکم کے ساتھ نماز پڑھو یعنی اطاعت کرو – ان تمام متضاد روایات کو یہاں جمع کیا گیا ہے

لوگوں   نے  بیان  کیا کہ  امام ابو  حنیفہ  رحمہ اللہ علیہ  نے خروج کے حق  میں فتوی دیا تھا – راقم  نے ان خبروں  کا تعاقب  کیا ہے اور ظاہر  کیا ہے کہ تمام  بد گوئی  مخالفین  ابو  حنیفہ کی گھڑی ہوئی ہے 

12 thoughts on “مومن حاکم کے خلاف خروج کا حکم نبوی

    1. Islamic-Belief Post author

      و علیکم السلام

      مستدرک حاکم کی روایت ٣٩٩ امت گمراہی پر جمع نہ ہو گی ، ضعیف ہے

      مومن حاکم کے خلاف خروج جائز نہیں ہے اور اس کی وجہ کہیں بیان نہیں کی گئی کہ وہ قتل کر دے گا اس لئے خروج نہ کیا جائے –
      معاویہ رضی اللہ عنہ پر اللہ کی رحمت تھی ان کا لشکر وہ تھا جس کے لئے بشارت تھی کہ خلیفہ کے مخالف گروہ کو اوندھا گرا دیا جائے گا

      صحیح بخاری ٤١٠٨ روایت میں
      حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا هِشَامٌ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ وَأَخْبَرَنِي ابْنُ طَاوُسٍ عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ وَنَسْوَاتُهَا تَنْطُفُ قُلْتُ قَدْ كَانَ مِنْ أَمْرِ النَّاسِ مَا تَرَيْنَ فَلَمْ يُجْعَلْ لِي مِنْ الْأَمْرِ شَيْءٌ فَقَالَتْ الْحَقْ فَإِنَّهُمْ يَنْتَظِرُونَكَ وَأَخْشَى أَنْ يَكُونَ فِي احْتِبَاسِكَ عَنْهُمْ فُرْقَةٌ فَلَمْ تَدَعْهُ حَتَّى ذَهَبَ فَلَمَّا تَفَرَّقَ النَّاسُ خَطَبَ مُعَاوِيَةُ قَالَ مَنْ كَانَ يُرِيدُ أَنْ يَتَكَلَّمَ فِي هَذَا الْأَمْرِ فَلْيُطْلِعْ لَنَا قَرْنَهُ فَلَنَحْنُ أَحَقُّ بِهِ مِنْهُ وَمِنْ أَبِيهِ قَالَ حَبِيبُ بْنُ مَسْلَمَةَ فَهَلَّا أَجَبْتَهُ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ فَحَلَلْتُ حُبْوَتِي وَهَمَمْتُ أَنْ أَقُولَ أَحَقُّ بِهَذَا الْأَمْرِ مِنْكَ مَنْ قَاتَلَكَ وَأَبَاكَ عَلَى الْإِسْلَامِ فَخَشِيتُ أَنْ أَقُولَ كَلِمَةً تُفَرِّقُ بَيْنَ الْجَمْعِ وَتَسْفِكُ الدَّمَ وَيُحْمَلُ عَنِّي غَيْرُ ذَلِكَ فَذَكَرْتُ مَا أَعَدَّ اللَّهُ فِي الْجِنَانِ قَالَ حَبِيبٌ حُفِظْتَ وَعُصِمْتَ قَالَ مَحْمُودٌ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ وَنَوْسَاتُهَا

      ترجمہ: مجھ سے ابرا ہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو ہشام نے خبر دی ‘ انہیں معمر بن راشد نے ‘ انہیں زہری نے ‘ انہیں سالم بن عبد اللہ نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا اور معمر بن راشد نے بیان کیا کہ مجھے عبد اللہ بن طاؤس نے خبر دی ‘ ان سے عکرمہ بن خالد نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں حفصہ رضی اللہ عنہا کے یہاں گیا تو ان کے سر کے بالوں سے پانی کے قطرات ٹپک رہے تھے ۔ میں نے ان سے کہا کہ تم دیکھتی ہو لوگوں نے کیا کیا اور مجھے تو کچھ بھی حکومت نہیں ملی ۔ حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ مسلمانوں کے مجمع میں جاؤ ‘ لوگ تمہارا انتظار کررہے ہیں ۔ کہیں ایسا نہ کہ تمہارا موقع پر نہپہنچنا مزید پھوٹ کا سبب بن جائے ۔ آخر حفصہ رضی اللہ عنہا کے اصرار پر عبد اللہ رضی اللہ عنہ گئے ۔ پھر جب لوگ وہاں سے چلے گئے تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اور کہا کہ خلافت کے مسئلہ پر جسے گفتگو کرنی ہو وہ ذرا اپنا سر تو اٹھائے ۔ یقینا ہم اس سے ( اشارہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی طرف تھا ) زیادہ خلافت کے حقدار ہیں اور اس کے باپ سے بھی زیادہ ۔ حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اس پر کہا کہ آپ نے وہیں اس کا جواب کیوں نہیں دیا ؟ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے اسی وقت اپنے لنگی کھولی ( جواب دینے کو تیار ہوا ) اور ارادہ کرچکا تھا کہ ان سے کہوں کہ تم سے زیادہ خلافت کا حقدار وہ ہے جس نے تم سے اور تمہارے باپ سے اسلام کے لیے جنگ کی تھی ۔ لیکن پھر میں ڈرا کہ کہیں میری اس بات سے مسلمانوں میں اختلاف بڑھ نہ جائے اور خونریزی نہ ہو جائے اور میری بات کا مطلب میری منشا کے خلاف نہ لیا جانے لگے ۔ اس کے بجائے مجھے جنت کی وہ نعمتیں یاد آگئیں جو اللہ تعالیٰ نے ( صبر کر نے والوں کے لیے ) جنتوں میں تیار کر رکھی ہیں

      معاویہ نے مجمع میں یہ بات کی – ضروری نہیں کہ ان کو معلوم ہو کہ ابن عمر بھی یہاں ہیں

      بات یہ ہوئی تھی کہ ابن عمر وہاں جا کر اپنی خلافت کی طرف دعوت دیتے لیکن انہوں نے یہ نہیں کیا اور چپ رہے
      یہ اچھا ہوا یا برا ہوا ؟
      اچھا ہوا – کیونکہ خلیفہ وہی ہو سکتا ہے جس پر تمام امت مان جائے کہ یہ خلیفہ ہو
      اہل شام کس کو خلیفہ چاہتے ہیں یہ اس وقت بہت اہم تھا
      حجاز یا عراق پر دشمن کے حملے کا کوئی خطرہ نہ تھا – شام پر روم کے حملے کا خطرہ تھا
      اہل شام معاویہ کو پسند کرتے تھے اور انہی کے مقرر کردہ کو خلیفہ کرنا چاہتے تھے
      یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ سابقہ خلفاء کے بیٹوں یعنی حسین و ابن عمر و عبد الرحمان بن ابو بکر کو محض اس وجہ سے خلیفہ کر دیا جائے کہ یہ خلفاء کے بیٹے ہیں
      یزید کو اہل شام و حجاز ایک سپہ سالار کے طور پر جانتے تھے باقیوں کو نہیں

      اس لئے یہ محض بیٹے کا تقرر نہیں ہے اس میں حکمت کا دخل ہے
      ——— —-

      صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 279 حدیث مرفوع مکررات 6 متفق علیہ
      حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَإِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ إِسْحَقُ أَخْبَرَنَا و قَالَ زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّ الْکَعْبَةِ قَالَ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَإِذَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْکَعْبَةِ وَالنَّاسُ مُجْتَمِعُونَ عَلَيْهِ فَأَتَيْتُهُمْ فَجَلَسْتُ إِلَيْهِ فَقَالَ کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا فَمِنَّا مَنْ يُصْلِحُ خِبَائَهُ وَمِنَّا مَنْ يَنْتَضِلُ وَمِنَّا مَنْ هُوَ فِي جَشَرِهِ إِذْ نَادَی مُنَادِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ جَامِعَةً فَاجْتَمَعْنَا إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّهُ لَمْ يَکُنْ نَبِيٌّ قَبْلِي إِلَّا کَانَ حَقًّا عَلَيْهِ أَنْ يَدُلَّ أُمَّتَهُ عَلَی خَيْرِ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ وَيُنْذِرَهُمْ شَرَّ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ وَإِنَّ أُمَّتَکُمْ هَذِهِ جُعِلَ عَافِيَتُهَا فِي أَوَّلِهَا وَسَيُصِيبُ آخِرَهَا بَلَائٌ وَأُمُورٌ تُنْکِرُونَهَا وَتَجِيئُ فِتْنَةٌ فَيُرَقِّقُ بَعْضُهَا بَعْضًا وَتَجِيئُ الْفِتْنَةُ فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ هَذِهِ مُهْلِکَتِي ثُمَّ تَنْکَشِفُ وَتَجِيئُ الْفِتْنَةُ فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ هَذِهِ هَذِهِ فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُزَحْزَحَ عَنْ النَّارِ وَيُدْخَلَ الْجَنَّةَ فَلْتَأْتِهِ مَنِيَّتُهُ وَهُوَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَأْتِ إِلَی النَّاسِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُؤْتَی إِلَيْهِ وَمَنْ بَايَعَ إِمَامًا فَأَعْطَاهُ صَفْقَةَ يَدِهِ وَثَمَرَةَ قَلْبِهِ فَلْيُطِعْهُ إِنْ اسْتَطَاعَ فَإِنْ جَائَ آخَرُ يُنَازِعُهُ فَاضْرِبُوا عُنُقَ الْآخَرِ فَدَنَوْتُ مِنْهُ فَقُلْتُ لَهُ أَنْشُدُکَ اللَّهَ آنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَهْوَی إِلَی أُذُنَيْهِ وَقَلْبِهِ بِيَدَيْهِ وَقَالَ سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي فَقُلْتُ لَهُ هَذَا ابْنُ عَمِّکَ مُعَاوِيَةُ يَأْمُرُنَا أَنْ نَأْکُلَ أَمْوَالَنَا بَيْنَنَا بِالْبَاطِلِ وَنَقْتُلَ أَنْفُسَنَا وَاللَّهُ يَقُولُ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْکُلُوا أَمْوَالَکُمْ بَيْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَکُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْکُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَکُمْ إِنَّ اللَّهَ کَانَ بِکُمْ رَحِيمًا قَالَ فَسَکَتَ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ أَطِعْهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ وَاعْصِهِ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ
      زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم، اسحاق ، زہیر، جریر، اعمش، زید بن وہب، عبدالرحمن بن عبد رب کعبہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) کعبہ کے سایہ میں بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ ان کے ارد گرد جمع تھے میں ان کے پاس آیا اور ان کے پاس بیٹھ گیا تو عبداللہ نے کہا ہم ایک سفر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ تھے ہم ایک جگہ رکے ہم میں سے بعض نے اپنا خیمہ لگانا شروع کردیا اور بعض تیراندازی کرنے لگے اور بعض وہ تھے جو جانوروں میں ٹھہرے رہے اتنے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے منادی نے آواز دی الصلوہ جامعہ (یعنی نماز کا وقت ہوگیا ہے) تو ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس جمع ہو گئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا میرے سے قبل کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس کے ذمے اپنے علم کے مطابق اپنی امت کی بھلائی کی طرف راہنمائی لازم نہ ہو اور برائی سے اپنے علم کے مطابق انہیں ڈرانا لازم نہ ہو اور بےشک تمہاری اس امت کی عافیت ابتدائی حصہ میں ہے اور اس کا آخر ایسی مصیبتوں اور امور میں مبتلا ہوگا جسے تم ناپسند کرتے ہو اور ایسا فتنہ آئے گا کہ مومن کہے گا یہ میری ہلاکت ہے پھر وہ ختم ہو جائے گا اور دوسرا ظاہر ہوگا تو مومن کہے گا یہی میری ہلاکت کا ذریعہ ہوگا جس کو یہ بات پسند ہو کہ اسے جہنم سے دور رکھا جائے اور جنت میں داخل کیا جائے تو چاہیے کہ اس کی موت اس حال میں آئے کہ وہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اور لوگوں کے ساتھ اس معاملہ سے پیش آئے جس کے دیئے جانے کو اپنے لئے پسند کرے اور جس نے امام کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر دل کے اخلاص سے بیعت کی تو چاہیے کہ اپنی طاقت کے مطابق اس کی اطاعت کرے اور اگر دوسرا شخص اس سے جھگڑا کرے تو دوسرے کی گردن مار دو راوی کہتا ہے پھر میں عبداللہ کے قریب ہوگیا اور ان سے کہا میں تجھے اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کیا آپ نے یہ حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے سنی ہے تو عبداللہ نے اپنے کانوں اور دل کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے فرمایا میرے کانوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے سنا اور میرے دل نے اسے محفوظ رکھا تو میں نے ان سے کہا یہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے چچا زاد بھائی معاویہ ہمیں اپنے اموال کو ناجائز طریقے پر کھانے اور اپنی جانوں کو قتل کرنے کا حکم دیتے ہیں اور اللہ کا ارشاد ہے اے ایمان والو اپنے اموال کو ناجائز طریقے سے نہ کھاؤ سوائے اس کے کہ ایسی تجارت ہو جو باہمی رضا مندی سے کی جائے اور نہ اپنی جانوں کو قتل کرو بےشک اللہ تم پر رحم فرمانے والا ہے راوی نے کہا عبداللہ تھوڑی دیر خاموش رہے پھر کہا اللہ کی اطاعت میں ان کی اطاعت کرو اور اللہ کی نافرمانی میں ان کی نافرمانی کرو۔

      صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 280
      ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن نمیر، ابوسعید اشج، وکیع، ابوکریب، ابومعاویہ، یہ حدیث ان دو اسناد سے بھی اسی طرح روایت کی گئی ہے۔
      صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 281
      محمد بن رافع، ابومنذر، اسماعیل بن عمر، یونس بن ابواسحاق ہمدانی، عبداللہ بن ابی سفر، عامر، عبدالرحمن بن عبد رب کعبہ صاعدی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک جماعت کو کعبہ کے پاس دیکھا باقی حدیث اسی طرح بیان فرمائی۔
      سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 856
      حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّ الْکَعْبَةِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ بَايَعَ إِمَامًا فَأَعْطَاهُ صَفْقَةَ يَدِهِ وَثَمَرَةَ قَلْبِهِ فَلْيُطِعْهُ مَا اسْتَطَاعَ فَإِنْ جَائَ آخَرُ يُنَازِعُهُ فَاضْرِبُوا رَقَبَةَ الْآخَرِ قُلْتُ أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي قُلْتُ هَذَا ابْنُ عَمِّکَ مُعَاوِيَةُ يَأْمُرُنَا أَنْ نَفْعَلَ وَنَفْعَلَ قَالَ أَطِعْهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ وَاعْصِهِ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ
      مسدد، عیسیٰ بن یونس، اعمش، زید بن وہب، عبدالرحمن بن عبدرب الکعبہ، عبداللہ بن عمر (رض) بن العاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے امام کے ہاتھ پر بیعت کی اور اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیدیا اور اس سے قلبی معاہدہ اقرار کرلیا تو حتی الامکان اس کی اطاعت کرے پس اگر کوئی دوسرا اس سے جھگڑا کرتا ہوا آئے تو اس دوسرے کی گردن مار ڈالو عبدالرحمن بن عبدرب الکعبہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کیا آپ نے خود حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) سے یہ سنا ہے؟ فرمایا کہ میرے دونوں کانوں نے سنا ہے اور میرے دل نے اسے محفوظ کیا ہے میں نے کہا کہ یہ آپ کے چچا زاد بھائی معاویہ ہیں جو ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم یہ کام کریں وہ کام کریں فرمایا کہ اللہ کی اطاعت میں اس کی اطاعت کرو اور اللہ کی نافرمانی والے حکموں میں اس کی نافرمانی کرو۔
      راقم کہتا ہے یہ روایت ایک ہی سند سے کتابوں میں ہے
      عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّ الْكَعْبَةِ
      اس میں یہ الفاظ کہ
      فَإِنْ جَاءَ أَحَدٌ يُنَازِعُهُ فَاضْرِبُوا رَقَبَةَ الْآخَرِ
      پس کوئی آئے جو اس سے تنازع کرے تو اس کی گردن مار دو
      سن نسائی اور سنن ابو داود میں ہیں
      روایت صحیح نہیں ہے اس میں زید بن وھب الجھنی کا تفرد ہے جو علی رضی الله عنہ کے ساتھ تھا اور اس نے باقی اصحاب رسول کے خلاف منکرات نقل کی ہیں
      مثلا
      عثمان سے محبت کرنے والے دجال کے ساتھ ہیں
      عمر کہتے میں منافق ہوں
      اور اب یہاں کہہ رہا ہے کہ ( معاویہ چونکہ علی کی ) جو مخالفت کر رہے ہیں ان کی گردن مار دو
      خود اس کا کلیجہ ٹھنڈا نہیں ہوا تو علی کے خلاف بھی بھڑاس نکالی کہ ان کو مردانہ اور زنانہ چادروں کا فرق تک نہ پتا تھا یہاں تک کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک چادر عورتوں کے لئے علی کو دی تو انہوں نے خود اوڑھ لی اور رسول الله کو منہ دوسری طرف کرنا پڑا یہ صحیح مسلم کی روایت اسی زید الجھنی کی ہے
      اس قسم کے فضول آدمی کی روایت قابل رد ہے اور یہ امام الفسوی نے خبردار کیا تھا لیکن ان کے ہم عصر محدثین نے مثلا ابو داود اور مسلم نے اس کی رویات لکھ دی ہیں

      ===========

      اللہ کی نافرمانی میں امیر کی اطاعت نہیں ہے لیکن لشکر علی میں کئی بار لوگوں کو جلا کر قتل کیا گیا جبکہ جلا کر مارنا حرام ہے مثلا قوم زط کو جلا کر قتل کیا
      ابن ملجم کو جلا کر قتل کیا گیا
      یہاں تک کہ معاویہ کے ایک ساتھی عبداللہ ابنِ عامر حضرمی کو بھی جلا کر قتل کیا گیا

      ———-
      معاویہ رضی الله عنہ کے حوالے سے ایک روایت سنن ابی داود ٤١٣٢ میں ہے کہ
      حدَّثنا عَمرُو بنُ عُثمانَ، حدَّثنا بقيةُ، عن بَحِيْرٍ، عن خالد، قال: وفد المقدام بن مَعدِي كَرِبَ وعمرو بنُ الأسودِ، ورَجُلٌ من بني أسدِ من أهل قِنَّسرِينَ إلى معاويَة بن أبي سفيانَ، فقال معاويةُ لِلمقدام: أعَلِمْتَ أن الحسنَ بنَ علي تُوفِّي؟ فرجَّعَ المِقدَامُ، فقال له رجل: أترَاها مُصِيبَةً؟ قال له: ولم لا أراها مُصيبةً وقد وضعه رسولُ الله – صلَّى الله عليه وسلم – في حَجرِه، فقال: “هذا مِنِّي وحُسينٌ مِنْ علي”؟! فقال الأسَديُّ: جمرةٌ أطفأها اللهُ عزَّ وجلَّ، قال: فقال المقدامُ: أما أنا، فلا أبرحُ اليومَ حتى أُغيِّظَكَ وأُسمِعَكَ ما تَكرَه، ثم قال: يا معاويةُ، إن أنا صدقَتُ فصدِّقني، وإن أنا كذبتُ فكذِّبْني، قال: أفْعَلُ: قال: فأنشُدُكَ بالله، هلْ سمعتَ رسولَ الله – صلَّى الله عليه وسلم – ينهى عن لبسِ الذَّهَبِ؟ قال: نَعَمْ. قال: فأنشُدكَ باللهِ، هل تَعْلَمُ أن رسولَ الله – صلَّى الله عليه وسلم – نهى عن لبسِ الحريرِ؟ قال: نَعَمْ. قال: فأنشُدُكَ بالله، هل تَعْلَمُ أن رسولَ الله – صلَّى الله عليه وسلم – نهى عن لبسِ جلود السَّباع والرُّكوب عليها؟ قال: نَعَمْ. قال: فواللهِ لقد رأيتُ هذا كُلَّه في بيتِك يا معاويةُ، فقال معاويةُ: قد علِمتُ أني لن أنجوَ مِنْكَ يا مقدامُ، قال خالدٌ: فأمر له معاويةُ بما لم يأمُرْ لِصاحبَيه، وفَرَضَ لابنِه في المئتينِ، ففرَّقها المقدامُ على أصحابه قال: ولم يُعطِ الأسديُّ أحداً شيئاً مما أخذَ، فبلغ ذلك معاويةَ، فقال أما المقدامُ فرجلٌ كريمٌ بَسَطَ يدَه، وأما الأسديُّ فرجلٌ حسنُ الأمساكِ لشيئه
      بقية ابن الوليد الحمصي کہتے ہیں ہم سے بَحِيْرٍ بن سعد نے بیان کیا وہ کہتے ہیں ہم سے خالد ابن مَعدان نے بیان کیا کہا ایک وفد جس میں المقدام بن مَعدِي كَرِبَ اور عمرو بنُ الأسودِ اور ایک شخص بني أسدِ کا قِنَّسرِينَ والوں میں سے تھے معاويَة بن أبي سفيانَ کے پاس گئے پس معاويَة بن أبي سفيانَ نے المقدام سے کہا آپ کو پتا چلا حسن بن علی کی وفات ہو گئی؟ پس مقدام نے انا للہ و انا الیہ راجعون کہا اس پر ایک شخص نے کہا تو کیا تم اس[الحسن ابن علی]کے مرنے کو ایک مصیبت تصور کرتے ہیں ؟ اس پر مقدام نے جواب دیا: میں اسے مصیبت کیسے نہ سمجھوں جبکہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ، حسن کو اپنی گود میں لیتے تھے اور کہتے تھے کہ حسن مجھ سے ہے اور حسین علی سے ہیں- اس ہر بنی اسد کے شخص نے کہا: وہ [حسن] ایک جلتا ہوا انگارہ تھا جسے اللہ نے بجھا دیا۔
      مقدام نے کہا آج میں آپ کو ناپسندیدہ بات سنائے، اور ناراض کئے بغیر نہیں رہ سکتا، پھر انہوں نے کہا معاویہ اگر میں سچ کہوں تو میری تصدیق کریں، اور اگر میں جھوٹ کہوں تو جھٹلا دیں، معاویہ بولے میں ایسا ہی کروں گا۔ مقدام نے کہا میں اللہ کا واسطہ دے کر آپ سے پوچھتا ہوں کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونا پہننے سے منع فرمایا ہے؟ معاویہ نے کہا ہاں۔ پھر کہا میں اللہ کا واسطہ دے کر آپ سے پوچھتا ہوں کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشمی کپڑا پہننے سے منع فرمایا ہے؟ کہا ہاں معلوم ہے، پھر کہا میں اللہ کا واسطہ دے کر آپ سے پوچھتا ہوں کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درندوں کی کھال پہننے اور اس پر سوار ہونے سے منع فرمایا ہے؟ کہا ہاں معلوم ہے۔ تو انہوں نے کہا معاویہ قسم اللہ کی میں یہ ساری چیزیں آپ کے گھر میں دیکھ رہا ہوں؟ تو معاویہ نے کہا مقدام مجھے معلوم تھا کہ میں تمہاری نکتہ چینیوں سے بچ نہ سکوں گا۔ خالد کہتے ہیں پھر معاویہ نے مقدام کو اتنا مال دینے کا حکم دیا جتنا ان کے اور دونوں ساتھیوں کو نہیں دیا تھا اور ان کے بیٹے کا حصہ دو سو والوں میں مقرر کیا، مقدام نے وہ سارا مال اپنے ساتھیوں میں بانٹ دیا، اسدی نے اپنے مال میں سے کسی کو کچھ نہ دیا، یہ خبر معاویہ کو پہنچی تو انہوں نے کہا مقدام سخی آدمی ہیں جو اپنا ہاتھ کھلا رکھتے ہیں، اور اسدی اپنی چیزیں اچھی طرح روکنے والے آدمی ہیں۔
      اس روایت کو شعَيب الأرنؤوط – محَمَّد كامِل قره بللي نے سنن ابو داود کی تحقیق میں ضعیف قرار دیا ہے
      اس روایت کو اہل حدیث مولویوں مثلا زبیر علی زئی اور البانی نے صحیح قرار دیا ہے جبکہ یہ منکر ہے
      اس کی سند میں بقية ابن الوليد الحمصي المتوفی ١١٠ ھ ہے ان سے بخاری نے تعلیق میں روایت لی ہے اور صحیح روایت نہیں لی مسلم نے بھی شواہد میں حدیث لکھی ہے
      نسائی کہتے ہیں قال النسائى : إذا قال : حدثنا و أخبرنا فهو ثقة
      اگر یہ اخبرنا یا حدثنا کہے تو ثقہ ہے
      لیکن اس کی سند میں نہ اس نے اخبرنا کہا ہے نہ حدثنا، لہذا یہ روایت تدلیس کی وجہ سے قابل رد ہے
      سیر الاعلام از الذھبی کے مطابق
      ابْنِ عُيَيْنَةَ: لاَ تَسْمَعُوا مِنْ بَقِيَّةَ مَا كَانَ فِي سُنَّةٍ، وَاسْمَعُوا مِنْهُ مَا كَانَ فِي ثَوَابٍ وَغَيْرِه.
      سفیان ابْنِ عُيَيْنَةَ کہتے ہیں بَقِيَّةَ سے سنت پر کچھ نہ سنو البتہ ثواب کی روایت سنو
      تدلیس پر لکھی جانے والی کتابوں کے حساب سے ان کی تدلیس مجہولین اور ضعیف راویوں سے ہوتی ہے
      کتاب ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق از الذھبی کے مطابق
      مختلف في الحتجاج به
      ان سے دلیل لینا مختلف فیہ مسئلہ رہا ہے
      روایت امام احمد کے اصول پر قابل قبول ہے
      وقال عبد الله: قال أبي: بقية إذا حدث عن المعروفين مثل بحير بن سعد وغيره (قُبل) . «العلل» (3141) .
      جب بقیہ معروفین مثلا بحیر بن سعد سے روایت کرے تو قبول کر لو
      لیکن یہ بھی علم رجال میں موجود ہے
      وقال أحمد بن الحسن الترمذي: سمعت أحمد بن حنبل، رحمه الله، يقول: توهمت أن بقية لا يحدث المناكر إلا عن المجاهيل فإذا هو يحدث المناكير عن المشاهير، فعلمت من أين أتي. «المجروحون لابن حبان» 1/191.
      احمد بن حسن نے کہا میں نے احمد کو کہتے سنا مجھ کو وہم ہوا کہ بقیہ صرف مجھول راویوں سے مناکیر روایت کرتا ہے پس جب یہ ثقات سے بھی منکر روایت کرے تو جان لو کہ کہاں سے یہ آئی ہے
      یعنی بقیہ نے ثقات سے بھی منکر روایت بیان کی ہیں اور ایسا ہی اس روایت میں ہے کہ اس نے ایک منکر بات پیش کی ہے اس کا تفرد بھی ہے
      یہ روایت امام ابن ابی حاتم کے نزدیک بھی قابل قبول نہیں ہو سکتی
      کتاب الكامل في ضعفاء الرجال از ابن عدی کے مطابق
      حَدَّثني عَبد المؤمن بن أحمد بن حوثرة، حَدَّثَنا أَبُو حاتم الرازي، قالَ: سَألتُ أبا مسهر عَن حديث لبقية فَقَالَ احذر أحاديث بَقِيَّة وكن منها عَلَى تقية فإنها غير نقية.
      أَبُو حاتم الرازي نے کہا میں نے أبا مسهر سے بقیہ کی روایات کے بارے میں پوچھا کہا ان سے دور رہو ہو سکتا ہے اس میں تقیہ ہو کیونکہ یہ صاف (دل) نہ تھا
      ابن ابی حاتم نے علل الحدیث میں بقیہ بن الولید کی بحیر بن سعد سے ایک روایت کو منکر بھی قرار دیا ہے
      وسألتُ (2) أَبِي عَنْ حديثٍ رَوَاهُ بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ بَحِير (3) بْنِ سَعْدٍ (4) ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ كَثِير بْنِ مُرَّة، عن
      عائِشَة، عن النبيِّ (ص) أنه قال لها النبيُّ (ص) : أَطْعِمِينَا يَا عَائِشَةُ. قَالَتْ: مَا عِنْدَنَا شيءٌ، فَقَالَ أَبُو بكرٍ: إنَّ المرأةَ المؤمنةَ لا تَحلِفُ (1) أَنَّهُ لَيْسَ عِنْدَهَا شيءٌ وَهِيَ عندها، فقال النبيُّ (ص) : وَمَا يُدْرِيكَ أَمُؤْمِنَةٌ هِيَ أَمْ لاَ؛ إِنَّ (2) المَرْأَةَ المُؤْمِنَةَ فِي النِّسَاءِ كَالْغُرَابِ الأَبْقَعِ (3) فِي الغِرْبَان ِ؟
      قَالَ أَبِي: لَيْسَ هَذَا بشيءٍ
      اس روایت پر ابی حاتم نے کہا کوئی چیز نہیں
      روایت میں بقیہ نے حدثنا کہا ہے
      کتاب الكامل في ضعفاء الرجال از ابن عدی کے مطابق
      أَبَا التَّقِيِّ هِشَامُ بْنُ عَبد الْمَلِكِ يقُول: مَن، قَال: إِنَّ بَقِيَّةَ، قَال: حَدَّثَنا فَقَدْ كَذَبَ مَا قَالَ بَقِيَّةُ قَطُّ إِلا، حَدَّثني فلان
      أَبَا التَّقِيِّ هِشَامُ بْنُ عَبد الْمَلِكِ کہتے جو یہ کہے کہ بقیہ نے کہا حدثنا وہ جھوٹ ہے بقیہ نے کبھی بھی یہ نہیں بولا بلکہ کہتا حدثنی فلاں
      یعنی بقیہ اپنے اپ کو محدث کا خاص شاگرد باور کراتا کہ اس نے مجمع میں نہیں بلکہ خاص شیخ نے اس کو سنائی
      بقیہ کو ثقہ بھی کہا گیا اور بے کار شخص بھی کہا گیا ہے- عقیلی کہتے ہیں یہ کوئی چیز نہیں
      بیہقی کہتے ہیں وقد أجمعوا على أن بقية ليس بحجة وفيه نظر اس پر اجماع ہے کہ اس کی روایت حجت نہیں اور اس پر نظر ہے- ابن حزم: ضعيف کہا ہے- بہر حال اس راوی کی عدالت میں نقص ہے اور راقم اس پر مطمئن نہیں ہے کہ اس کو صحیح قرار دے-
      الجورقاني (المتوفى: 543هـ) الأباطيل والمناكير والصحاح والمشاهير میں کہتے ہیں
      بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ هُوَ ضَعِيفُ الْحَدِيثِ.
      وَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي حَاتِمٍ الرَّازِيُّ: سَمِعْتُ أَبِي، يَقُولُ: يُكْتَبُ حَدِيثُ بَقِيَّةَ، وَلَا يُحْتَجُّ بِهِ
      علل ابو حاتم میں بقیہ کی ایک روایت پر ہے
      وكان بَقِيَّةُ يدلِّسُ؛ فظنُّوا هؤلاءِ (4) أَنَّهُ يقولُ فِي كلِّ حديثٍ: حدَّثنا، ولا يَفْتَقِدُونَ الخبَرَ منه
      بقیہ نے ان تمام شاگردوں نے گمان کیا کہ وہ ہر حدیث پر حدثنا کہتا ہے اور انہوں نے سماع کی تحقیق نہیں کی

      —–
      علی کو گالی نہیں دی جاتی تھی – میری تحقیق میں اس کی تمام سندوں میں کلام ہے

      اس میں دیکھیں
      https://www.islamic-belief.net/wp-content/uploads/2020/10/سب-و-شتم.pdf

      علی نے حسن کو خلیفہ بنایا اس پر اہل تشیع کا اجماع ہے اور اہل سنت میں سے بعض کہتے ہیں حسن کو خلیفہ نہیں بنایا لیکن اس سند میں مجہول ہے – روایت ضعیف ہے
      لہذا جو بات صحیح ہے وہ یہ ہے کہ علی نے ہی حسن کو خلیفہ کیا

      ضروری ہے کہ اپ امیر المومنین معاویہ پر میری کتاب پڑھ لیں اور ساتھ ہی خروج حسین بھی

      Reply
  1. معاذ

    حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، يَقُولُ : رَأَى عُمَرُ حُلَّةَ سِيَرَاءَ تُبَاعُ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ابْتَعْ هَذِهِ وَالْبَسْهَا يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَإِذَا جَاءَكَ الْوُفُودُ قَالَ : إِنَّمَا يَلْبَسُ هَذِهِ مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ فَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا بِحُلَلٍ فَأَرْسَلَ إِلَى عُمَرَ بِحُلَّةٍ ، فَقَالَ : كَيْفَ أَلْبَسُهَا وَقَدْ قُلْتَ فِيهَا مَا قُلْتَ ، قَالَ : إِنِّي لَمْ أُعْطِكَهَا لِتَلْبَسَهَا وَلَكِنْ تَبِيعُهَا أَوْ تَكْسُوهَا فَأَرْسَلَ بِهَا عُمَرُ إِلَى أَخٍ لَهُ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ قَبْلَ أَنْ يُسْلِمَ .

    عمر رضی اللہ عنہ نے سیراء کا ( ایک ریشمی ) حلہ بکتے دیکھا تو عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ اسے خرید لیں اور جمعہ کے دن اور جب آپ کے پاس وفود آئیں تو اسے پہنا کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے تو وہی پہن سکتا ہے جس کا ( آخرت میں ) کوئی حصہ نہ ہو۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسی قسم کے کئی حلے آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے ایک حلہ عمر رضی اللہ عنہ کے لیے بھیجا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میں اسے کیسے پہن سکتا ہوں جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے متعلق پہلے ممانعت فرما چکے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اسے تمہیں پہننے کے لیے نہیں دیا بلکہ اس لیے دیا ہے کہ تم اسے بیچ دو یا کسی دوسرے کو پہنا دو چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے وہ حلہ اپنے ایک بھائی کو بھیج دیا جو مکہ مکرمہ میں تھے اور اسلام نہیں لائے تھے۔

    Sahih Bukhari#5981

    کہا جاتا ہے کہ جو چیز فی عینہ حرام نہ ہو جیسے شراب فی عینہ حرام ہے لیکن جو چیز فی عینہ حرام نہ ہو تو وہ غیر مسلم کو دے سکتے جیسے عمر نے ریشم کا جبہ اپنے غیر مسلم بھائی کو بھیجا اوپر والی حدیث میں ہے ۔آپ کیا کہے گے اس بارے میں؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      اس میں شراب کا ذکر نہیں ہے – ریشم مسلمان عورت پر حلال ہے
      عمر نے حرام سمجھ کر نہیں بھیجا ، ممکن ہے خاندان کی مشرک عورتوں کے لئے بھیجا ہو

      Reply
  2. معاذ

    امام بخاری نے باب باندھا ہے کہ

    باب صلۃ الاخ المشرک

    یعنی مشرک بھائی سے صلہ رحمی کرنا حدیث نمبر 5981
    عمر رضی اللہ عنہ کے سگے بھائی نہیں تھے رشتے میں بھائی تھے جن کو عمر نے ریشم کا حلۃ بھیجا۔مطلب یہ ہے مشرک بھائی سے بھی صلہ رحمی کرنی چاہیے ۔اور عمر کی صلۃ رحمی جبہ بھیجنا تھا

    سوال مومن مرد کے متعلق ہے کہ وہ خود حرام چیز جو پہن نہیں سکتا جیسے عمر رضی اللہ عنہ نے خود ریشم لباس نہیں پہنا کیونکہ نبیؐ نے منع فرمایا لیکن نبیؐ نے اس لیے دیا تاکہ اپنے غیر مسلم بھائی کو، دے دینگے ۔

    اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبیؐ نے مشرکوں سے ریشمی لباس لیا وہ الگ بات ہے کہ آپ نے پہنا نہیں لیکن لیا۔
    تو معلوم ہوا نون مسلم کا ناجائز گفٹ لے بھی سکتے ہیں اور پھر انکو دے بھی سکتے ہیں؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      اول تو یہ حدیث عجیب ہے – ریشم حرام نہیں ہے – عمر کو چاہیے تھا کہ اپنی بیوی یا بیٹی کو دے دیتے
      مومن عورت تو ریشم پہن سکتی ہے لہذا اس کو حرام کہنا غلط ہے
      اور اسے شراب پر قیاس کرنا اس سے بھی زیادہ غلط ہے

      ریشم مرد پر حرام ہے – یہ متعدد احادیث میں ہے لیکن پھر بھی پتا نہیں کیوں احادیث میں اتا ہے کہ اصحاب رسول مرد (زید بن ثابت ، علی وغیرہ ) اس کو پہن پہن کر رسول اللہ کے پاس جاتے تھے
      یہ جب گھر لاتے تھے تو کئی لوگ دیکھتے ہوں گے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا دیا
      پھر بھی کپڑا سلوایا جاتا تھا اور پہنا جاتا تھا
      میرے نزدیک اس قسم کی روایات شاذ ہیں
      یہ قرائن و شواہد پر پوری نہیں اترتیں

      Reply
  3. aysha butt

    hujar ibn e aadi ko zalimana marwaya mavia r. a ne q k wo Ali r
    a pr lant nae krty thy. imam hakim ne inki shahdt pr baab bnda hai
    kia haqiqt hai

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      اس کہانی کو میں نے سنا اور تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ایسا کہیں بھی نہیں لکھا
      یہ بے پر کی مودودی نے اڑا دی تھی جس کو آجکل لوگ بیان کر رہے ہیں
      اصلا حجر نے معاویہ کی بیعت نہیں کی تھی اور وہ قتل کی دھمکیاں دیتا تھا
      حسن و حسین بیعت کر چکے تھے یہ ان کا بھی مخالف تھا
      مزید تفصیل کتاب معاویہ اور خروج حسین میں ہے

      اپ نے ابھی تک نہیں پڑھی ، ورنہ اپ سوال نہ کرتیں

      Reply
  4. jawad

    السلام و علیکم و رحمت الله

    جنگ جمل میں علی رضی الله عنه کے سیاسی اجتہاد کو صحیح ثابت کرنے کے لئے اکثر سنی علماء عائشہ رضی الله عنه کی ندامت کی روایات پیش کرتے ہیں جو جنگ کے اختتام پر ان کو ہوئی – براہ کرم ان روایات کی حقیقت بتائیں ؟؟

    نَدَمُ أُمِّ الْمُؤْمِنِيْنَ عَائِشَةَ الصِّدِّيْقَةِ رضی اللہ عنہا
    (اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی واقعہ جمل پر افسردگی)

    وَثَبَتَ أَيْضًا نَدَمُ أُمِّ الْمُؤْمِنِيْنَ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا عَلَى مَا فَعَلَتْ، وَهُوَ أَنَّهَا مَكَثَتْ فِي الْعَسْكَرِ الَّذِي كَانَ ضِدَّ عَلِيٍّ مَعَ كَوْنِهَا لَمْ تَخْرُجْ بِنِيَّةِ قِتَالِهِ وَلَمْ تُقَاتِلْهُ.

    اُم المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کابھی اپنے اقدام پر افسردہ ہوناثابت ہے، وہ اُس لشکر میں آکرٹھہری تھیں جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں آیا تھا، حالانکہ وہ نہ تو قتال کی نیت سے نکلی تھیں اور نہ ہی اُن کے حکم سے قتال کیا گیا تھا۔

    قَالَ الْبَاقِلَّانِيُّ فِي كِتَابِهِ ‘تَمْهِيْدِ الْأَوَائِلِ’ مَا َنصُّهُ: وَمِنْهُمْ مَنْ يَّقُوْلُ: إِنَّهُمْ تَابُوْا مِنْ ذَلِكَ، وَيُسْتَدَلُّ بِرُجُوْعِ الزُّبَيْرِ وَنَدَمِ عَائِشَةَ إِذَا ذَكَرُوْا لَهَا يَوْمَ الْجَمَلِ وَبُكَاءِهَا حَتَّى تَبُلَّ خِمَارَهَا وَقَوْلِهَا: وَدِدْتُ أَنْ لَوْ كَانَ لِي عِشْرُوْنَ وَلَدًا مِنْ رَّسُوْلِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كُلُّهُمْ مِثْلُ عَبْدِ الرَّحْمَانِ بْنِ الْحَرِثِ بْنِ هِشَامٍ وَأَنِّيْ ثَكِلْتُهُمْ وَلَمْ يَكُنْ مَا كَانَ مِنِّيْ يَوْمَ الْجَمَلِ. وَقَوْلِهَا: لَقَدْ أَحْدَقَتْ بِي يَوْمَ الْجَمَلِ الأَسِنَّةُ حَتَّى صِرْتُ عَلَى الْبَعِيْرِ مِثْلَ اللُّجَّةِ. وَأَنَّ طَلْحَةَ قَالَ لِشَابٍّ مِنْ عَسْكَرِ عَلِيٍّ وَهُوَ يَجُوْدُ بِنَفْسِهِ: اُمْدُدْ يَدَكَ أُبَايِعْكَ لِأَمِيْرِ الْمُؤْمِنِيْنَ. وَمَا هَذَا نَحْوَهُ، وَالْمُعْتَمَدُ عِنْدَهُمْ فِي ذَلِكَ قَوْلُ النَّبِيِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: عَشْرَةٌ مِّنْ قُرَيْشٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعَدَّ فِيْهِمْ طَلْحَةَ وَالزُّبَيْرَ، قَالُوْا: وَلَمْ يَكُنْ لِيُخْبِرَ بِذَلِكَ إِلَّا عَنْ عِلْمٍ مِّنْهُ بِأَنَّهُمَا سَيَتُوْبَانِ مِمَّا أَحْدَثَاهُ وَيُوَافِيَانِ بِالنَّدَمِ وَالإِقْلَاعِ.

    امام باقلانی نے اپنی کتاب ’’ تمهید الأوائل‘‘ میں بیان کیا ہے: بعض علماء نے کہا ہے کہ اُن میں سے بعض نے توبہ کرلی تھی، اور اُنہوں نے حضرت زبیر کے پلٹ جانے اور ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی افسردگی سے اس امر پر دلیل اخذ کی ہے۔ جب بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے لوگ جنگ جمل کا تذکرہ کرتے تو آپ رو پڑتیں یہاں تک کہ آنسوؤں سے اپنی اوڑھنی تر کر دیتیں اور فرماتیں: کاش! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میرے بیس بیٹے ہوتے، جو سب کے سب عبد الرحمن بن حارث بن ہشام کی مانند ہوتے اور میں سب کو کھو کر اُن پر رو چکی ہوتی، پھر بھی وہ صدمہ مجھ پر جنگ جمل کے دن سے زیادہ بھاری نہ ہوتا۔ آپ رضی اللہ عنہا کا یہ قول کہ جنگ جمل کے دن نیزہ برادروں نے مجھے اس طرح حصار میں لے رکھا تھا کہ میں اونٹ پر سوار گرداب کی مانند ہو چکی تھی (گویا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں اور باغیوں نے آپ رضی اللہ عنہ کو اس طرح گھیر لیا تھا کہ آپ رضی اللہ عنہ کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملنا، تبادلۂ خیال کرنا اور صورتحال پر مشورہ کرنا بھی ناممکن بنا دیا گیا تھا)۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے جنگ جَمل کے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کے ایک نوجوان سے کہا جبکہ آپ جاں بلب تھے کہ ہاتھ آگے بڑھاؤ تاکہ میں تمہارے ہاتھ پر امیرالمومنین کی بیعت کر لوں۔ اس طرح کی متعدد روایات ہیں، اور علماء کرام کے نزدیک اس مسئلہ میں سب سے زیادہ معتمد بات یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریش کے دس افراد کو جنتی قرار دیا تھا، اور حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کو بھی اُن میں سے ذکر فرمایا تھا۔ علماء نے بیان کیا ہے: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ اس لیے فرمایا تھا کہ آپ کو علم تھا کہ وہ دونوں عنقریب اُس غلطی سے رجوع کر لیں گے جو اُن سے سرزد ہو گی، اور ندامت و افسردگی اور کنارہ کشی سے اپنے کیے کی تلافی کرلیں گے۔
    ذكره الباقلاني في تمهيد الأوائل وتلخيص الدلائل/552

    وَقاَلَ الْحَافِظُ الذَّهَبِيُّ فِي ‹‹سِيَرِ الْأَعْلَامِ النُّبَلَاءِ››: وَلَا رَيْبَ أَنَّ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا نَدَمَتْ نَدَامَةً كُلِّيَّةً عَلَى مَسِيْرِهَا إِلَى الْبَصْرَةِ وَحُضُوْرِهَا يَوْمَ الْجَمَلِ وَمَا ظَنَّتْ أَنَّ الأَمْرَ يَبْلُغُ مَا بَلغَ، فَعَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ عَمَّنْ سَمِعَ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا إِذَا قَرَأَتْ: ﴿وَقَرۡنَ فِي بُيُوتِكُنَّ﴾ [الأحزاب، 33/33]، بَكَتْ حَتَّى تَبُلَّ خِمَارَهَا.

    حافظ ذہبی ’’سیر أعلام النبلاء‘‘ میں فرماتے ہیں: اس میں کوئی شک نہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بصرہ کی طرف اپنے خروج اور جَمل میں اپنی موجودگی پر کلیتاً افسردہ ہوئی تھیں، کیونکہ اُنہیں یہ گمان نہیں تھا کہ معاملہ یہاں تک پہنچ جائے گا جہاں پہنچا تھا۔ حضرت عمارہ بن عمیراُس شخص سے روایت کرتے ہیں جس نے ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا تھاکہ جب وہ یہ آیت تلاوت فرماتیں: ﴿وَقَرۡنَ فِي بُيُوتِكُنَّ﴾ ’اور اپنے گھروں میں سکون سے قیام پذیر رہنا‘ تواس قدر روتی تھیں کہ دوپٹہ تر کر لیتی تھیں۔
    ذكره الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2/177

    3. وَذَكَرَ مِثْلَ ذَلِكَ الْقُرْطُبِيُّ فِي ‘الْجَامِعِ لِأَحْكَامِ الْقُرْآنِ’ وَأَبُوْ حَيَّانَ فِي تَفْسِيْرِهِ ‘اَلْبَحْرِ الْمُحِيْطِ’، قَالَ: وَكَانَتْ عَائِشَةُ رضی اللہ عنہا إِذَا قَرَأَتْ هَذِهِ الآيَةَ. يَعْنِي آيَةَ ﴿يَٰنِسَآءَ ٱلنَّبِيِّ﴾ ]الأحزاب، 33/32[ بَكَتْ حَتَّى تَبُلَّ خِمَارَهَا، تَتَذَكَّرُ خُرُوْجَهَا أَيَّامَ الْجَمَلِ تَطْلُبُ بِدَمِ عُثْمَانَ رضی اللہ عنہ.
    ایسا ہی امام قرطبی نے ’’الجامع لأحکام القرآن‘‘ اور ابو حیان نے ’’البحر المحیط‘‘ میں ذکر کیا ہے، اُنہوں نے کہا ہے کہ جب وہ یہ آیت ﴿يَٰنِسَآءَ ٱلنَّبِيِّ﴾ تلاوت فرماتیں تو اُنہیں جنگ جَمل کے ایام میں اپنا خروج اور قصاصِ عثمان کامطالبہ یاد آجاتا، پھر وہ اتنا روتیں کہ اپنی اوڑھنی کو تر کر دیتیں۔
    ذكره القرطبي في الجامع لأحكام القرآن، 14/180، وأبو حيان في البحر المحيط، 7/223

    وَفِي كِتَابِ دَلَائِلِ النُّبُوَّةِ لِلْبَيْهَقِيِّ مَا نَصُّهُ: عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ: ذَكَرَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خُرُوْجَ بَعْضِ نِسَائِهِ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِيْنَ فَضَحِكَتْ عَائِشَةُ رضی اللہ عنہا فَقَالَ: انْظُرِيْ يَا حُمَيْرَاء، أَنْ لَّا تَكُوْنِيْ أَنْتِ’ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ فَقَالَ: يَا عَلِيُّ، إِنَّ وُلِّيْتَ مِنْ أَمْرِهَا شَيْئًا فَارْفُقْ بِهَا.

    امام بیہقی دلائل النبوۃ میں لکھتے ہیں: اُم المومنین سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُمہات المومنین میں سے بعض کے خروج کا ذکر فرمایا تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہنس پڑیں۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے حمیراء! خیال کرنا کہیں وہ تم ہی نہ ہو۔ پھر آپ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اگر یہ معاملہ تمہارے ہاتھ میں آئے تو اس کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرنا۔
    أخرجه البيهقي في دلائل النبوة، 6/411

    وَفِيْهِ بِسَنَدِهِ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: ‹‹لَوَدِدْتُّ أَنِّي مُتُّ وَكُنْتُ نَسْيًا مَّنْسِيًا››.

    اور دلائل النبوۃ میں ہی امام بیہقی ہشام سے، وہ عروہ سے، اور وہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ اُم المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کاش اس واقعہ سے پہلے ہی میری وفات ہو چکی ہوتی اور میں بھولی بسری ہو چکی ہوتی۔
    أخرجه البيهقي في دلائل النبوة، 6/412

    6. وَرَوى ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ بِسَنَدِهِ، قَالَ: ‘أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، حَدَّثَنَا عِيْسَى بْنُ دِيْنَارٍ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا فَقَالَ: أَسْتَغْفِرُ اللهَ لَهَا، أَمَا عَلِمْتَ مَا كَانَتْ تَقُوْلُ: يَا لَيْتَنِيْ كُنْتُ شَجَرَةً، يَا لَيْتَنِي كُنْتُ حَجَرًا، يَا لَيْتَنِي كُنْتُ مَدَرَةً، قُلْتُ: وَمَا ذَاكَ مِنْهَا، قَالَ: تَوْبَةٌ.
    امام ابن سعدنے ’’الطبقات الکبری‘‘ میں اپنی سندکے ساتھ فضل بن دُکین سے روایت کیا ہے کہ اُنہوں نے کہا: ہمیں عیسیٰ بن دینار نے بیان کیا کہ میں نے امام ابو جعفر (محمد الباقر) سے اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے متعلق سوال کیا تو اُنہوں نے فرمایا: میں اُن کے لیے اللہ تعالیٰ سے رفعِ درجات کی دعا کرتا ہوں، تمہیں معلوم ہے وہ کیا فرمایا کرتی تھیں: اے کاش! میں ایک درخت ہوتی، اے کاش! میں ایک پتھرہوتی اور اے کاش! میں مٹی کا ایک ڈھیلا ہوتی۔ میں نے پوچھا: اس سے اُن کا کیا مطلب تھا؟ فرمایا: توبہ۔
    ذكره ابن سعد في الطبقات الكبرى، 8/74

    وَرَوَى ابْنُ أَبِيْ شَيْبَةَ فِي ‘مُصَنَّفِهِ’ بِإِسْنَادِهِ عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا أَنَّهَا قَالَتْ: ‹‹وَدِدْتُّ أَنِّيْ كُنْتُ غُصْنًا رُطَبًا، وَلَمْ أَسْرِ مَسِيْرِيْ هَذَا››.

    امام ابن ابی شیبہ نے ’’المصنَّف‘‘ میں اپنی سندکے ساتھ اُم المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیاہے کہ اُنہوں نے فرمایا: میری آرزو ہے، کاش! میں ایک تر ٹہنی ہوتی اور میں نے یہ قدم نہ اُٹھایا ہوتا۔
    أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 7/544، الرقم/37818

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      و علیکم السلام

      استغفر اللہ
      یہ متکلمین کا جاہلانہ کلام ہے

      حلیہ اولیاء از أبو نعيم الأصبهاني (المتوفى: 430هـ)میں ہے
      حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ مَالِكٍ، ثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، ثنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ‏بْنِ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، حَدَّثَنِي مَنْ، سَمِعَ عَائِشَةَ، ” ‏تَقْرَأُ فِي الصَّلَاةِ: {فَمَنَّ اللهُ عَلَيْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ} [الطور: 27] ” فَتَقُولُ: «مِنَّ ‏عَلَيَّ وَقِنِي عَذَابَ السَّمُومِ» قَالَ: وَحَدَّثَنِي مَنْ، سَمِعَ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللهُ تَعَالَى ‏‏[ص:49] عَنْهَا ” تَقْرَأُ {وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ} [الأحزاب: 33] فَتَبْكِي حَتَّى تَبُلَّ خِمَارَهَا
      أَبِي الضُّحَى نے روایت کیا اس سے جس نے عائشہ سےسنا وہ نماز میں آیت پڑھتیں … اور کہتیں مجھ پر علی نے احسان ‏کیا عذاب سموم سے بچایا اور روایت کیا اس نے جس نے سنا کہ عائشہ جب آیت {وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ} ‏‏[الأحزاب: 33] ( گھر میں بیٹھی رہو ) پڑھتیں تو خوب روتیں کہ دوپٹہ بھیگ جاتا
      سند میں مجہول راوی ہے وہ جس نے سنا کون ہے معلوم نہیں ہے ‏

      ‎ ‎اسی کتاب میں دوسری سند ہے
      حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ مَسْعُودٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، ثنا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنِ ‏الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي عَوْفُ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ الطُّفَيْلِ، وَهُوَ ابْنُ أَخِي عَائِشَةَ لِأُمِّهَا: أَنَّ ‏عَائِشَةَ، … قَالَ عَوْفٌ: ثُمَّ سُمِعَتْ بَعْدَ ذَلِكَ تَذْكُرُ نَذْرُوهَا ذَلِكَ فَتَبْكِي حَتَّى تَبُلَّ دُمُوعُهَا ‏خِمَارَهَا
      خوب روتیں کہ دوپٹہ بھیگ جاتا

      اس کی سند میں محمد بن كثير بن أبى عطاء الثقفى مولاهم ، أبو يوسف الصنعانى ضعیف ہے – یہ آخری عمر میں مختلط ہوا ‏تھا – احمد کہتے کہ یمن میں اس کے ہاتھ کوئی کتاب لگی اس سے اس نے روایت کرنا شروع کر دیا تھا‎ ‎

      مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے ‏ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کاش میں سفر نہ کرتی
      اس کی سند منقطع ہے – سند میں عبد الله بن عبيد بن عمير بن قتادة ہے ابن حزم کے نزدیک اس کا سماع ‏نہیں ہے
      ابن حزم: لم يسمع من عائشة رضي الله عنها.‏

      6. وَرَوى ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ بِسَنَدِهِ، قَالَ: ‘أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، حَدَّثَنَا عِيْسَى بْنُ دِيْنَارٍ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا فَقَالَ: أَسْتَغْفِرُ اللهَ لَهَا، أَمَا عَلِمْتَ مَا كَانَتْ تَقُوْلُ: يَا لَيْتَنِيْ كُنْتُ شَجَرَةً، يَا لَيْتَنِي كُنْتُ حَجَرًا، يَا لَيْتَنِي كُنْتُ مَدَرَةً، قُلْتُ: وَمَا ذَاكَ مِنْهَا، قَالَ: تَوْبَةٌ.
      امام ابن سعدنے ’’الطبقات الکبری‘‘ میں اپنی سندکے ساتھ فضل بن دُکین سے روایت کیا ہے کہ اُنہوں نے کہا: ہمیں عیسیٰ بن دینار نے بیان کیا کہ میں نے امام ابو جعفر (محمد الباقر) سے اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے متعلق سوال کیا تو اُنہوں نے فرمایا: میں اُن کے لیے اللہ تعالیٰ سے رفعِ درجات کی دعا کرتا ہوں، تمہیں معلوم ہے وہ کیا فرمایا کرتی تھیں: اے کاش! میں ایک درخت ہوتی، اے کاش! میں ایک پتھرہوتی اور اے کاش! میں مٹی کا ایک ڈھیلا ہوتی۔ میں نے پوچھا: اس سے اُن کا کیا مطلب تھا؟ فرمایا: توبہ۔
      ذكره ابن سعد في الطبقات الكبرى، 8/74
      سند منقطع ہے
      امام الباقر کا سماع ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے نہیں ہے

      وَفِي كِتَابِ دَلَائِلِ النُّبُوَّةِ لِلْبَيْهَقِيِّ مَا نَصُّهُ: عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ: ذَكَرَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خُرُوْجَ بَعْضِ نِسَائِهِ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِيْنَ فَضَحِكَتْ عَائِشَةُ رضی اللہ عنہا فَقَالَ: انْظُرِيْ يَا حُمَيْرَاء، أَنْ لَّا تَكُوْنِيْ أَنْتِ’ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ فَقَالَ: يَا عَلِيُّ، إِنَّ وُلِّيْتَ مِنْ أَمْرِهَا شَيْئًا فَارْفُقْ بِهَا.

      امام بیہقی دلائل النبوۃ میں لکھتے ہیں: اُم المومنین سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُمہات المومنین میں سے بعض کے خروج کا ذکر فرمایا تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہنس پڑیں۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے حمیراء! خیال کرنا کہیں وہ تم ہی نہ ہو۔ پھر آپ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اگر یہ معاملہ تمہارے ہاتھ میں آئے تو اس کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرنا۔
      سند منقطع ہے – جامع التحصیل از العلائی کے مطابق سالم کا سماع ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے نہیں ہے‏
      سالم کٹر شیعہ ہے اس کو اس قسم کی روایات بیان کرنے کی وجہ سے کوڑے بھی لگائے گئے تھے

      یہ اسناد ضعیف ہیں لیکن لفاظی کرنے والوں نے انہی روایات کو دلیل بنایا ہے
      ———

      الفاظ کاش میں بھولی بسری ہو چکی ہوتی۔
      یہ تو مریم علیہ السلام کا کلام بھی ہے – قرآن میں نقل ہوا ہے

      Reply
      1. jawad

        جزاک الله

        اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ تیسری یا چوتھی صدی ہجری اور اس کے بعد سے علی رضی الله عنہ کی ذات سے متعلق محدثین میں غلو در آیا اور ان سے متعلق معصوم عن الخطاء کے سبائی عقیدے کی دوبارہ تجدید شروع ہوگئی- اسی دور میں علی رضی الله عنہ کے سیاسی مخالفین کے خلاف جھوٹی او مردود روایات کو برسرعام قبول کیا جانے لگا- “حواب کے کتوں” والی روایت بھی ان میں سے ایک ہے جو ام المونین عائشہ صدیقہ رضی الله عنھما پر افک کی مثال ہے

        Reply
        1. Islamic-Belief Post author

          جی ہاں
          اپ نے بالکل بجا فرمایا
          تیسری صدی اختتام اور چوتھی صدی سے شیعیت اپنانا سنی عوام و علماء میں فیشن کا درجہ بن گیا – آپ کو
          cool
          سمجھا جانے لگا اگر اپ علی رضی اللہ عنہ کی محبت میں باقی اصحاب رسول پر تبرا کریں
          امام حاکم نے اسی دور میں مستدرک میں اس شیعہ پن کا اظہار کیا اور پانچویں صدی میں بیہقی و اصبہانی نے دلائل النبوه میں حواب کے کتوں والی روایت کا اندراج کر دیا
          تب سے یہ سلسلہ جاری ہے

          Reply

Leave a Reply to Islamic-Belief Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *