Category Archives: مملکت اسلامیہ – Kingdom or Caliphate

جزیہ کا حکم

قرآن میں سورہ المائدہ میں اہل کتاب سے جزیہ لینے کا حکم ہے- یہ ایک مذہبی ٹیکس ہے جو اس مد میں لیا جاتا ہے کہ اسلام میں ان کو اپنے مذھب پر عمل کی آزادی ملے گی اور مسلمان اہل کتاب یہود کے سناگاگ اور نصرانیوں کے چرچ کی حفاظت کریں گے – ان کو مسمار نہ کریں گے – عبادت گاہ میں جانے کا رستہ نہیں روکیں گے اور اہل کتاب اندر عبادت گاہ میں اپنا کفر و شرک جاری رکھ سکتے ہیں ، وہ اپنے دین کو حق پر بتا سکتے ہیں – اس پر کوئی پابندی نہیں ہو گی – مسلمانوں کو ان کی عبادت گاہوں میں داخلے کی اجازت نہیں ہوتی تھی الا یہ کہ ان کو مدعو کیا جائے – اس کی مثال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی مدینہ کے  کسی یہودی سناگاگ  میں داخل نہ ہوئے بلکہ سڑک پر جا کر تبلیغ کی – اسی طرح فتح یروشلم پر عمر رضی اللہ عنہ کسی نصرانی  کلیسا میں داخل نہ ہوئے حتی کہ وہاں کے نصرانی علماء نے ہی ان کو مدعو کیا – مسلمان اس طرح ان عبادت گاہوں کے محافظ تھے

جزیہ کا حکم اس طرح اہل کتاب کو اپنے دین پر عمل کی اجازت دیتا تھا اور مسلمان دندناتے ہوئے ان کی عبادت گاہوں میں داخل نہیں ہوتے تھے

افسوس کہ یہ سمجھ بوجھ وقت کے ساتھ جا چکی ہے – آجکل مسلمان فرقے قبر پرستی کی اسی لعنت میں پڑے ہوئے ہیں جس میں اہل کتاب مبتلا تھے اور مرض وفات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی حکم تھا کہ نصرانی و یھودی کی طرح انبیاء سے منسوب مقابر سے دور رہنا ان کو مسجد نہ بنانا
دور نبوی اور اس کے بعد ایک طویل عرصے تک نصرانی چرچ ہمیشہ کسی قبر یا مدفون باقیات
Relics
پر بنایا جاتا تھا – اس طرح مشرق وسطی کے تمام چرچوں میں کیا جاتا تھا  اور یہی حال روم میں تھا

یہ سمجھنا کہ آیا صوفیہ کے نیچے کوئی قبر نہیں  احمقانہ بات ہو گی  کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ نصرانی کسی مقام کو چرچ بولیں ہے وہاں کچھ زمین میں دفن نہ ہو – مزید تفصیل راقم کی کتاب مجمع البحرین میں ہے

بنو امیہ کے دور میں الولید بن عبد الملک پہلا خلیفہ ہے جس نے ان مقابر یا چرچوں کو مسجدوں میں تبدیل کیا اور نصرانی راہبوں کو ان کے معبدوں سے بے دخل کیا گیا (مثلا مسجد دمشق جس میں یحیی علیہ السلام کا سر دفن تھا) – اس وقت اصحاب رسول میں سے کوئی حیات نہ تھا جو اس عمل شنیع سے منع کرتا

وقت کے ساتھ شام میں موجود انبیاء کی تمام معلوم قبروں پر مسلمانوں نے قبضہ کر لیا اور ارض مقدس آنے والے یورپی نصرانیوں کو مار بھگایا – اسی وجہ سے صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا اور نقطۂ عروج یہاں تک پہنچا کہ نصرانیوں کا مسجد القبلی (جس کو آجکل مسجد الاقصی کہا جاتا ہے ) پر قبضہ ہو گیا

یورپ کے نصرانی اب  اس قدر مذہبی نہیں کہ وہ مسلمانوں سے مذہبی مقامات کی وجہ سے جنگ کریں لیکن اپنے مذہبی مقامات یا چرچوں کو حاصل کرنا ان کے بعض مذہبی حلقوں میں ابھی بھی ایک مقبول خواہش ہے

آجکل نصرانی کلیسا آیا صوفیہ کا ذکر چل پڑا ہے جس کو قبل بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تعمیر کیا گیا اور  عثمانی خلفاء نے نصرانیت کو ملغوبیت کا نشان بنانے کے لئے مسجد میں بدلا اور کئی سو سال تک یہ مقام مسجد رہا – وہاں کی نصرانی عوام حکومتی دعوی کو رد کر رہی ہے کہ خلیفہ نے اس چرچ کو خرید لیا تھا یہاں تک کہ ایسٹرن آرتھوڈوکس چرچ نے بھی اس عمل  پر تنقید کی ہے – ترکی میں ہی مسلمانوں کا اس پر اختلاف ہو رہا ہے کہ کیا یہ عمل درست ہے یا نہیں ؟ اگر  کسی کام میں اختلاف ہو جاۓ تو اللہ کا حکم ہے کہ اس کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو یعنی دیکھو کہ قرآن میں اور سنت نبوی میں کیا حکم دیا گیا ہے

عمر رضی اللہ عنہ کی سنت ہمارے سامنے ہے – آپ رضی اللہ عنہ نے یروشلم میں موجود کلیساوں میں نماز پڑھنے سے انکار کر دیا – جزیہ لینے کے بعد کلیسا کو مسجد بنا دینا تعلیمات نبوی و سنت صحابہ میں معلوم نہیں ہے – اس مسجد آیا صوفیہ میں کی گئی عبادت قبول نہ ہوئی ہو گی کیونکہ کلیسا پر  قبضہ کرنا سنت نبوی نہیں لیکن آج اس عمل کو نیکی کی

طرح پیش کیا جا رہا ہے جبکہ یہ بدعت ہے اور بدعت دین میں گمراہی ہے قابل رد ہے

انبیاء نے عصا پکڑ کر خطبہ دیا ہے – موسی علیہ السلام کا عصا بکریاں چرانے کے دور سے اس کے ہاتھ میں تھا – بائبل میں موجود ہے کہ داود علیہ السلام کے والد یسی نے سموئیل نبی کو بتایا کہ داود بکریاں چرا رہا ہے – صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی مکہ میں بکریاں چراتے تھے – ریوڑ کو جمع کر کے رکھنا آسان کام نہیں ہے – ریوڑ آگے جاتا ہے چرواہا پیچھے سے ان کو ہانکتا ہے
اسی طرح ایک لیڈر کرتا ہے وہ لوگوں کو صحیح راستہ پر اپنے عصا سے لاتا ہے – عصا مار کر وہ دہشت قائم نہیں کرتا نہ خطبہ میں سنت میں مقرر کردہ عصا کو چھوڑ کر تلوار پکڑ کر قوم کو دھمکاتا ہے

ترکی نے اعلان کیا ہے کہ مسجد آیا صوفیہ   میں عیسیٰ اور فرشتوں کی تصویریں برقرار رکھی جائیں گی (ریسٹوریشن پر اقوام متحدہ   کی کثیر  رقوم لگ چکی ہے  ) لہذا عیسیٰ کی تصویر کے نیچے نماز جاری رکھی جائے گی اس طرح سے امدنی حاصل ہوتی رہے گی – اللہ بھی خوش دنیا والے بھی خوش

ذمی کی دیت

سورہ المائدہ  میں ہے  کہ یہود  دنیا میں فساد مچاتے تھے  اس وجہ سے اللہ نے ان پر حکم نازل کیا کہ

مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَتَبْنَا عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ بَعْدَ ذَلِكَ فِي الْأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ

اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو، قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا، اور جو شخص کسی ایک کی جان بچالے اس نے گویا تمام لوگوں کو زندہ کر دیا اور ان کے پاس ہمارے بہت سے رسول ظاہر دلیلیں لے کر آئے لیکن پھر اس کے بعد بھی ان میں کہ اکثر لوگ زمین میں ظلم و زیادتی اور زبردستی کرنے والے ہی رہے۔

 [سورہ المائدہ، آیت:۳۲]

اس آیت کے ذریعہ  یہود  کو  تنبیہہ کی گئی کہ وہ کسی معصوم  غیر  یہودی   کا قتل اس وجہ سے نہیں  کر سکتے کہ وہ   توریت  کو ماننے والا نہیں ہے  بلکہ ایک انسان  کا قتل تمام انسانیت کا قتل ہے

افسوس  جاہلوں  نے اس آیت  کو بدلا  اور نتیجہ اخذ  کیا کہ ایک  غیر  حربی یہودی  کا قتل  مسلمان  کے  لئے  جائز ہے اور مسلمان  کفار و مشرک کو جہاں دیکھیں قتل کر سکتے ہیں، ان   کا  کوئی پرسان  حال نہیں ہے – دوسری طرف شریعت  میں ذمی اہل کتاب کی دیت بھی   مقرر کی گئی ہے

داعش  کا لیڈر    أبو محمد العدناني (طه صبحي فلاحة)  کتاب “إن ربك لبالمرصاد” صفہ: ۱۵-۱٦  کہتا ہے

 ومَنْ سُمي كافراً فماله حلال على المسلم، ودمه مهدور مستباح، دمه دم كلب لا إثم فيه ولا دية عليه

 جس کو کافر کہا جائے تو اس کا مال مسلمان کے لیے حلال ہے اور اس کا خون ایسا جائز ہے کہ اس پر کوئی قصاص نہیں ہے کیوں کہ اس کا خون ایک کتے کا خون ہے، جس میں کوئی گناہ نہیں اور نہ ہی اس پر کوئی دیت ہے

  ذمی کی دیت کے متعلق احناف کا موقف ہے کہ   چونکہ النفس بالنفس کے تحت مسلمان کو کافر کے بدلہ میں قتل کیا جانا ہے تو ضروری ہے کہ وہ دیت میں بھی مساوی ہوں –   مسلمان کی دیت اور ذمی کی دیت اس طرح  برابر ہوگی۔ جب کہ حنابلہ کے دو موقف ہیں –  حنابلہ میں  قتل بصورت خطا  کے میں نصف دیت  ہو گی  اور بصورت عمد دیت  برابر ہو گی –  اس طرح حنابلہ اور احناف کے موقف میں بہت فرق نہیں ہے –  شوافع کے نزدیک ثلث دیت ہوگی یعنی  مسلم کی دیت کی تہائی ہو گی

مصنف عبد الرزاق  ح 18475  میں ہے

عَبْدُ الرَّزَّاقِ،  عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ , عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ,: «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَعَلَ عَقْلَ أَهْلِ الْكِتَابِ مِنَ الْيَهُودِ , وَالنَّصَارَى نِصْفَ عَقْلِ الْمُسْلِمِ

یعنی اہل کتاب کی دیت مسلمان کی دیت کا نصف ہے

اس کی سند  منقطع ہے – عمرو  صحابی نہیں اور اس سے لے  کر  رسول اللہ تک راوی غائب ہیں

سنن ابو داود  میں ہے

 حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ مَوْهَبٍ الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «دِيَةُ الْمُعَاهِدِ نِصْفُ دِيَةِ الْحُرِّ» قَالَ أَبُو دَاوُدَ: رَوَاهُ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ اللَّيْثِيُّ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، مِثْلَهُ

یہاں سند میں ابن اسحاق  ہے جو  دجال ہے امام مالک کے نزدیک  اور اس کے مطابق    ذمی کی دیت  آزاد مسلمان کی دیت کی ادھی ہے

لیکن یہ سند مرجوح  ہے

خطابی نے اس قول کو لے کر کہا

 قَالَ الْخَطَّابِيُّ لَيْسَ فِي دِيَةِ أَهْلِ الْكِتَابِ شَيْءٌ أَبْيَنَ مِنْ هَذَا وَإِلَيْهِ ذَهَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَعُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أنس وبن شُبْرُمَةَ وَأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ

(عون المعبود ج4 ص320)

ذمی کی دیت میں اس حدیث (مذکور) سے زیادہ واضح اور کوئی دلیل نہیں اور یہی  عمر بن عبدالعزیز، عروہ بن زبیر، مالک بن انس، ابن شبرمہ اورامام احمد کا   مذہب ہے

عمرو بن شعیب کی سند  بہت سے محدثین کے نزدیک قابل بحث  ہے . اس کو حسن کے درجہ میں لیا جاتا ہے نہ کہ احکام  کے فیصلے اس پر ہوں لہذا صحیح موقف یہی  ہے جو احناف  و حنابلہ  کا ہے کہ  قتل  عمد  میں  دیت   برابر ہے

مضامین برائے اسلامی نظام حکومت

سیاسی میدان میں اہل سنت میں عباسی خلافت کے بعد ، ترک سلجوقیوں کی خلافت قائم ہوئی پھر ایوبی سلطنت ، پھر عثمانی خلافت قائم ہوئی – انگریز نے عثمانی ترکوں کے خلاف عربوں کو کھڑا کیا – عربوں کو اس کا قلق تھا کہ خلافت ان کے ہاتھ سے کیوں نکل گئی – اس دبی خواہش کو برقی عروج دور فرنگ کے اختتام سے پہلے ملا ، جب عربوں نے نوٹ کیا کہ وہ ترک و منگول نسل سے جان چھڑا سکتے ہیں – اس کے نتیجے میں عالم عرب میں بغاوت ہوئی – ترکوں کا قتل عام کیا گیا، وہ عرب سے فرار پر مجبور ہوئے – عرب میں نجد سے وہابی فرقہ منصہ شہود پر آیا اور اس نے اپنی حکومت قائم کر لی – دوسری طرف عرب میں عمان میں خارجیوں کی حکومت قائم کی گئی- متحدہ امارات و بحرین و قطر میں بادشاہتیں قائم ہوئیں جو وہابی فرقے سے متاثر تھیں لیکن مکمل وہابی بھی نہیں تھیں – یمن میں جمہوری عرب حکومت قائم ہوئی – مشرق وسطی کو کئی عرب ممالک و بادشاہتوں میں تقسیم کیا گیا – عربوں کے لئے یہ سرور کا موقع تھا کہ کئی سو سال بعد انگریز ان کے نجات دھندہ بن کر نازل ہوئے البتہ بر صغیر کے مسلمان اپنے صوفی بھائیوں یعنی عثمانی ترکوں کے غم میں شریک رہے –
اس کتاب میں اسلامی نظام حکومت پر چند نگارشات مختصرا پیش کی گئی ہیں – ان مضامین کی تحریر کے وقت کئی کتب موجود تھیں مثلا اسلام کا شورائی نظام از جلال الدین انصر جس کا مقدمہ مودودی صاحب نے لکھا تھا – المادوری کی احکام السلطانیہ کو بھی دیکھا گیا ہے – البتہ راقم ان کے مندرجات و نتائج سے ہر مقام پر اتفاق نہیں کرتا لہذا ضرورت محسوس کی کہ اس اہم چیز پر اپنے خیالات و فہم کو یکجا کرے

منہج اصحاب رسول کا زوال

  بنو عباس کے بعد عالم اسلام کے  علاقوں پر چوتھی صدی ہجری میں رافضی اور باطنی ظلمت چھا چکی تھی – مراکش سے لے کر مصر تک  باطنی شیعہ  فاطمی ( عبیدی) خلافت (٢٦٩  ۔ ٥٦٦  ھ   = ٩٠٩  سے ١١٧١ ع ) قائم  ہو گئی تھی  جو ٢٦٢  سال رہی  ، یہاں تک کہ ملتان و سندھ  میں فاطمی خلیفہ المعز لدین اللہ معد بن اسماعیل (٣٤١  ۔ ٣٦٥ ھ) کا باقاعدہ خطبہ  پڑھا  جاتا تھا یعنی یہ علاقہ باطنی شیعوں کے کنٹرول  میں آ گیا تھا –  ملتان کے بہت سے مزار  اسی دور کے تعمیر کردہ  ہیں-  جزیرہ العرب کے مشرق  میں قرامطہ باطنی شیعوں  کا دوسرا گروہ پیدا ہوا  جن کا دور اقتدار  (۲۸۳ ۔ ۳۷۸ ھ) تک رہا  – عراق سے لے کر فارس، اصفہان، طبرستان اور جرجان تک رافضی ال بویہ  کی  امارت ٣٢٢ ھ  سے  ٤٥٤  ھ تک  قائم رہی-

یہاں تک کہ ملتان و سندھ میں فاطمی خلیفہ المعزلدین اللہ معد بن اسماعیل (٣٤١ ۔ ٣٦٥ ھ) کا باقاعدہ خطبہ پڑھا جاتا تھا یعنی یہ علاقہ باطنی شیعوں کے کنٹرول میں آ گیا تھا – ملتان کے بہت سے مزار اسی دور کے تعمیر کردہ ہیں
اس دوران اہل سنت جو عراق میں تھے ان میں حنابلہ میں پھوٹ پڑی رہتی تھی اور مسئلہ ایقاد النبی علی عرش پر قتل و غارت ہوتی – اس سے مراد ہے کہ روز محشر نبی کو عرش پر بٹھایا جائے گا یا نہیں اس میں حنابلہ  میں بحث چل رہی تھی
شمالی عراق اور جنوبِ شام پر بنو حمدان ٣٣٠ سے٤٠٤  ھ تک قابض رہے جو شیعی رجحان رکھتے تھے – اب چونکہ شیعہ یا رافضی ہونا فیشن کا حصہ بن چکا تھا ، امام حاکم نے محسوس کیا کہ صحیح بخاری و مسلم میں شیعی روایات درج نہیں کی گئیں – انہوں نے اپنے استدراک
Retractation

  A formal statement of disavowal: abjuration, palinode, recantation, retraction, withdrawal.

کو امت پر مستدرک الحاکم کے نام سے پیش کیا یعنی اپنا اجتجاج ریکارڈ کرایا کہ صحیح بخاری و مسلم میں جان بوجھ پر شیعہ منہج کی صحیح روایات درج نہیں کی گئیں
اس دوران اندلس میں حق کی آواز بلند ہوئی – امام ابن حزم نے ان عقائد پر سخت نکیر کی جو حنابلہ بغداد اور نیشاپوری امام حاکم پھیلا رہے تھے – ابن حزم نے حدیث عود روح کو ردی کی ٹوکری میں ڈالا اور صحیح ڈالا

چوتھی صدی کے اواخر میں سلطان محمود غزنوی کو جہانگیریت کا شوق ہوا اور تاریخ فرشتہ میں ذکر ہے ان کو بہت سی فتوحات ملیں لیکن ان کا لشکر بھی مشرف تصوف کے سحر سے آلودہ تھا
راہ میں انے والے مزارت و صوفیاء کی تعظیم کرتے کرتے چلا اب چاہے وہ باطنی شیعہ ہوں جو صوفی بن گئے ہوں یا خاص سنی ہوں

پانچویں صدی میں سلجوقیوں نے خلافت قائم کی جو ٤٢٩ سے ٧٠٠ ھ تک رہی – اس میں شیعہ و باطنی حکومتوں کو ختم کیا گیا – ساتھ ہی مشرق وسطی میں داخل ہونے والے صلیبی نائٹ ٹیمپلر لشکر سے بھی سلجوقی لشکر نبرد آزما رہا – اس دوران سلطان نور الدین زنگی (٥٢١ – ٥٧٤ ھ ) نے قبر نبوی کے حوالے سے خواب دیکھا ، قبر کے گرد سیسہ پلائی دیوار تعمیر کی – اس کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی  نے  مالکی فقہ کو مملکت میں رائج کر دیا – ان کے رشتہ دار گورنر اربل نے عراق میں عید میلاد النبی کا غاز کیا – صلاح الدین کے حکم پر اذان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاة و سلام کا آغاز کیا گیا – يه بدعات نصرانیوں کے اثر کے خلاف جاری کی گئیں تاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا اظہار کیا جا سکے
ابن جوزی نے اس دور میں حنابلہ بغداد کے اس گروہ کا سختی سے رد کیا جو تجسیم کی طرف مائل ہو چکا تھا یعنی قاضی ابو یعلی مصنف طبقات حنابلہ اور ابو بکر الخلال- ابن جوزی کا مخالف گروہ جو مجسمیہ ہو گیا تھا وہ متشابھات پر بحث کو عام کر رہا تھا

اس دور کے بعد  حاکموں کو قبر نبی پر گنبد بنانے کا خیال آیا – فصول من تاريخ المدينة المنورة جو علي حافظ کی کتاب ہے اور شركة المدينة للطباعة والنشر نے اس کو سن ١٤١٧ ھ میں چھاپا ہے اسکے مطابق

لم تكن على الحجرة المطهرة قبة، وكان في سطح المسجد على ما يوازي الحجرة حظير من الآجر بمقدار نصف قامة تمييزاً للحجرة عن بقية سطح المسجد. والسلطان قلاوون الصالحي هو أول من أحدث على الحجرة الشريفة قبة، فقد عملها سنَة 678 هـ، مربَّعة من أسفلها، مثمنة من أعلاها بأخشاب، أقيمت على رؤوس السواري المحيطة بالحجرة، وسمَّر عليها ألواحاً من الخشب، وصفَّحها بألواح الرصاص، وجعل محل حظير الآجر حظيراً من خشب. وجددت القبة زمن الناصر حسن بن محمد قلاوون، ثم اختلت ألواح الرصاص عن موضعها، وجددت، وأحكمت أيام الأشرف شعبان بن حسين بن محمد سنة 765 هـ، وحصل بها خلل، وأصلحت زمن السلطان قايتباي سنة 881هـ. وقد احترقت المقصورة والقبة في حريق المسجد النبوي الثاني سنة 886 هـ، وفي عهد السلطان قايتباي سنة 887هـ جددت القبة، وأسست لها دعائم عظيمة في أرض المسجد النبوي، وبنيت بالآجر بارتفاع متناه،….بعد ما تم بناء القبة بالصورة الموضحة: تشققت من أعاليها، ولما لم يُجدِ الترميم فيها: أمر السلطان قايتباي بهدم أعاليها، وأعيدت محكمة البناء بالجبس الأبيض، فتمت محكمةً، متقنةً سنة 892 هـ. وفي سنة 1253هـ صدر أمر السلطان عبد الحميد العثماني بصبغ القبة المذكورة باللون الأخضر، وهو أول من صبغ القبة بالأخضر، ثم لم يزل يجدد صبغها بالأخضر كلما احتاجت لذلك إلى يومنا هذا. وسميت بالقبة الخضراء بعد صبغها بالأخضر، وكانت تعرف بالبيضاء، والفيحاء، والزرقاء” انتهى.

حجرہ مطهرہ پر کوئی گنبد نہ تھا، اور حجرہ مطهرہ کو باقی مسجد سے علیحدہ کرنے کے لئے سطح مسجد سے آدھے قد کی مقدار تک ایک منڈھیر بنی ہوئی تھی. اور سلطان قلاوون الصالحي وہ پہلا شخص ہے جس نے حجرہ مطهرہ پر سن 678 هـ (بمطابق 1279ء )، میں گنبد بنایا، جو نیچے سے چکور تھا ، اوپر سے آٹھ حصوں میں تھا جو لکڑی کےتھے. … پھر اس کی الناصر حسن بن محمد قلاوون کے زمانے میں تجدید ہوئی. .. پھر سن 765 هـ، میں الأشرف شعبان بن حسين بن محمد کے زمانے میں پھر اس میں خرابی ہوئی اور السلطان قايتباي کے دور میں سن 881هـ میں اس کی اصلاح ہوئی. پھر سن 886 هـ میں اور السلطان قايتباي کے دور میں مسجد النبی میں آگ میں گنبد جل گیا. اور سن 887هـ میں اور السلطان قايتباي ہی کے دور میں اس کو دوبارہ بنایا گیا…. سن 892 ھ میں اس کو سفید رنگ کیا گیا … سن 1253هـ میں السلطان عبد الحميد العثماني نے حکم دیا اور اس کو موجودہ شکل میں سبز رنگ دیا گیا. … اور یہ گنبد البيضاء (سفید)، الفيحاء ، والزرقاء (نیلا) کے ناموں سے بھی مشھور رہا

سعودی عرب کے مفتی عبد العزيز بن عبد الله بن باز (المتوفى: 1420هـ) اپنے فتویٰ میں کہتے ہیں جو کتاب فتاوى اللجنة الدائمة – المجموعة الأولى میں چھپاہے اور اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء نے چھاپا ہے

لأن بناء أولئك الناس القبة على قبره صلى الله عليه وسلم حرام يأثم فاعله

ان لوگوں کا قبر نبی صلى الله عليه وسلم پر گنبد بنانا حرام کام تھا اس کا گناہ اس کے بنانے والوں کے سرہے

تعمیر گنبد کے اس زمانے میں امام ابن تیمیہ حیات تھے لیکن انہوں نے اس پر توقف کی راہ لی

اس طرح یہ تمام ادوار خیر القرون سے دور تھے – افسوس ابن تیمیہ وغیرہ نے بہت سی دمشقی عقائد اختیار کر لئے تھے مثلا شیطان و انسان کی اپس میں شادی ان کے نزدیک ممکن تھی – وہ سماع الموتی کا عقیدہ رکھتے اور فتووں میں وہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو ضروری علم سے لا علم بتاتے تھے – وہ قبر پر قرآن پڑھنے کے قائل تھے اور ساتھ ہی یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ نبی قبر میں اذان دیتے ہیں اور قبر پر کہا جانے والا درود سنتے ہیں – یہ اس دور کا فیشن تھا جس کو سلف کا مذھب کہہ کر اہل سنت میں پھیلایا جا رہا تھا

قبور سے مسلمانوں کا شغف بڑھ رہا تھا – قبوری کلچر کی جڑوں کی آبیاری وہ کر رہے تھے جو سلف کے متبع بنتے تھے –
امام نووی نے ساتویں صدی میں اور ابن حجر نے دسویں ہجری میں  اشاعرہ کے مھنج پر مسئلہ صفات کو بیان کیا

منہج اہل سنت میں بدعتی افکار داخل ہو چکے تھے – صوفی یا اپنے رب کو ہر مقام پر ماننے والے بھی سنی تھے – تجسیم الہی کے قائل بھی سنی تھے – حنبلیوں میں منہجِ اصحاب رسول کی بجائے منہج سلف مشہور ہو چلا تھا جس سے مراد ابن تیمیہ کا لٹریچر تھا –
اس طرح دو گروہ ہو چکے تھے ایک کشف و عرفان والے ہوئے اور ایک روایت پسند ہوئے – اگر کسی مسئلہ میں صحیح سند روایت نہ ہو تو پھر روایت پسندوں کے ہاں اکتساب علم و عقیدہ میں ضعیف حدیث کا بھی وہی درجہ تھا جو صحیح کا تھا – اس سے صحیح عقیدہ دھندلا گیا تھا اور باقی انسانوں کو شور ڈالنے کی عادت تو شروع سے ہے لہذا انہوں نے اپنے عقیدہ کو خوب منبروں سے پھیلایا

مومن حاکم کے خلاف خروج کا حکم نبوی

گناہ کے مرتکب ، مومن حاکم کے خلاف خروج پر روایات موجود ہیں جن کی علماء نے تصحیح کی ہے – راقم کے نزدیک یہ صحیح السند روایات نہیں ہیں التبہ انہی روایات کی بنیاد پر خوارج کہتے ہیں کہ عثمان کے خلاف خروج جائز تھا – اہل سنت کہتے ہیں بنو امیہ کے خلاف خروج جائز تھا اور آج حربی تنظیمین کہتیں ہیں حاکم کے خلاف خروج جائز ہے – روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ حاکم کے ساتھ نماز پڑھو یعنی اطاعت کرو – ان تمام متضاد روایات کو یہاں جمع کیا گیا ہے

لوگوں   نے  بیان  کیا کہ  امام ابو  حنیفہ  رحمہ اللہ علیہ  نے خروج کے حق  میں فتوی دیا تھا – راقم  نے ان خبروں  کا تعاقب  کیا ہے اور ظاہر  کیا ہے کہ تمام  بد گوئی  مخالفین  ابو  حنیفہ کی گھڑی ہوئی ہے 

َاُولِى الْاَمْرِ مِنْكُمْ

َاُولِى الْاَمْرِ مِنْكُمْ سے مراد
قرآن  میں  َاُولِى الْاَمْرِ  سے  مراد  عمال  (حکام و گورنر) ہیں 

قرآن  میں  َاُولِى الْاَمْرِ  سے  مراد  عمال  (حکام و گورنر) ہیں لیکن  علماء   نے  عوام  کو یہ باور  کرایا ہے کہ  َاُولِى الْاَمْرِ  سے مراد  علماء ہیں- راقم  کہتا ہے یہ اقوال درست سمت میں   نہیں  ہیں

مدینہ پہنچنے کے بعد نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے آپ کو حاکم یا منتظم اعلی قرار نہیں دیا بلکہ رسول الله کا درجہ کسی بھی دنیا کے درجہ سے بلند تھا – اسلام یمن تک پہنچنا پھر خیبر پھر  نجد پھر بحرین پھر عمان تک  آ گیا – اس طرح مسلمانوں کی ایک حکومت قائم ہوئی اور اس کے استحکام کے لئے سمع و اطاعت ضروری تھی – سورہ نساء میں حکم دیا گیا

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اَطِيْعُوا اللّـٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِى الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۖ فَاِنْ تَنَازَعْتُـمْ فِىْ شَىْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّـٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُـمْ تُؤْمِنُـوْنَ بِاللّـٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۚ ذٰلِكَ خَيْـرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا

اے ایمان والو، اللہ کی اطاعت کرو، اُس کے رسول کی اطاعت کرو، اور اپنوں میں سے اپنے صاحب حکم  کی اطاعت کرو۔ پھر اگر کسی معاملے میں تمہارے درمیان اختلافِ رائے ہو، تو اُسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو، اگر تم اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ اچھا طریقہ ہے، اور انجام کے لحاظ سے بھی یہی بہتر ہے

آیت میں  اُولِى الْاَمْرِ کے الفاظ ہیں یعنی وہ جس کے پاس حکم کرنے کا اختیار ہو یعنی لشکر کے امیر یا امیر  عسکر یا امیر سریہ یا کسی مقام پر گورنر-اس آیت کا تعلق اس تربیت سے تھا جس سے مستقبل میں   عظیم اسلامی خلافت قائم ہونے جا رہی تھی –  حکم نبوی تھا

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَارِثِ، عَنِ الجَعْدِ، عَنْ أَبِي رَجَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَنْ كَرِهَ مِنْ أَمِيرِهِ شَيْئًا فَلْيَصْبِرْ، فَإِنَّهُ مَنْ خَرَجَ مِنَ السُّلْطَانِ شِبْرًا مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً

جسے اپنے امیر کی کوئی بات ناگوار گزرے، اُس شخص کو صبر کرنا چاہیے، کیونکہ جو شخص ایک بالشت کے برابر بھی حکومت کی اطاعت سے نکلا، اور اسی حالت میں مر گیا، اُس کی موت جاہلیت پر ہوئی‘‘۔ (صحیح بخاری،حدیث نمبر7053)

اس حدیث کا تعلق اصحاب رسول کی جماعت سے ہے – مسلمانوں کی جماعت اس دور میں چند نفوس پر مشتمل نہیں تھی بلکہ اسلام مسلسل پھیل رہا تھا اور وفات النبی تک تمام عرب میں اسلام غالب آ چکا تھا- اس حدیث کا تعلق مستقبل کی کسی تنظیم  کے امیر یا پیر سے نہیں ہے

اسلام میں رابطہ و مدد کرنے کا حکم قیامت تک کے لئے ہے لیکن اپنے فرقے کو الناجیہ قرار دینے کے بعد اس کے امیر کی اطاعت کو فرض قرار دینا جہالت ہے – کیونکہ ان احکام کا تعلق حکومت سے ہے    دعوتی  و  تبلیغی   گروہوں سے نہیں ہے

  سور النساء ميں ہے

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ

إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا (59)

اور آيت 83 ميں ہے

وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ  لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا

تفسير طبري اور تفسير ابن ابي حاتم   ميں اُولِي الاَمرِ  پر اقوال ہيں-  مجاہد اور  ابن ابي نُجَيح سے منسوب شرح ہے

 قال، وأخبرنا عبد الرزاق، عن الثوري، عن ابن أبي نجيح، عن مجاهد قوله “وأولي الأمر  منكم”، قال  هم أهل الفقه والعلم.

سند ميں عبد الله بن أبي نجيح يسار المكي  ہے جس کا سماع مجاہد سے ثابت نہيں ہے

وقال إبراهيم بن الجنيد قلت ليحيى بن معين أن يحيى بن سعيد يعني القطان يزعم أن بن أبي نجيح لم يسمع التفسير من مجاهد

امام يحيي القطان نے دعوي کيا کہ ابن ابي نجيح نے مجاہد سے تفسير نہيں سني

يہ مدلس بھي ہے سند ميں عنعنہ بھي ہے

ابن عباس  سے منسوب ہے اُولِي الاَمرِ يعني  اھل الفقہ و الدين مراد ہے – سند ہے

حَدَّثَنَا أَبِي، ثنا أَبُو صَالِحٍ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ

قَوْلَهُ: وَأُولِي الأَمْرِ مِنْكُمْ يَعْنِي: أَهْلَ الْفِقْهِ وَالدِّينِ،

عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ کا سماع  ابن عباس سے نہيں ہے

أكرم بن محمد زيادة الفالوجي الأثري کتاب  المعجم الصغير لرواة الإمام ابن جرير الطبري      ميں کہتے ہيں

أرسل عن ابن عباس ولم يره

يہ ابن عبّاس سے ارسال کرتا ہے ان کو ديکھا بھي نہيں ہے

عطاء بن ابي رباح سے منسوب قول ہے  اُولِي الاَمرِ يعني  فقہاء و علماء – سند ہے

حدثني المثنى قال، حدثنا عمرو بن عون قال، حدثنا هشيم، عن عبد الملك، عن عطاء “وأولي الأمر منكم”، قال  الفقهاء والعلماء.

يہاں  هشيم بن بشير بن القاسم مدلس کا عنعنہ ہے

حسن بصري سے منسوب قول ہے اُولِي الاَمرِ يعني  علماء – سند ہے

حدثنا الحسن بن يحيى قال، أخبرنا عبد الرزاق قال، أخبرنا معمر، عن الحسن في قوله “

وأولي الأمر منكم”، قال  هم العلماء.

اس ميں معمر مدلس کا عنعنہ ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَجَّاجِ الْحَضْرَمِيُّ بِحَضْرَمَوْتَ، ثنا الْخَصِيبُ بْنُ نَاصِحٍ، ثنا الْمُبَارَكُ بْنُ

فَضَالَةَ، عَنِ الْحَسَنِ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَأُولِي الأَمْرِ مِنْكُمْ قَالَ: أُولِي الْعِلْمِ وَالْفِقْهِ وَالْعَقْلِ

وَالرَّأْيِ.

مبارک  مختلف فيہ ہے – جرح بھي ہے

ابو العالي سے منسوب قول ہے اُولِي الاَمرِ يعني  اھل العلم

حدثني المثنى قال، حدثنا إسحاق قال، حدثنا ابن أبي جعفر، عن أبيه، عن الربيع، عن أبي العالية في قوله “وأولي الأمر منكم”، قال  هم أهل العلم

ابو العاليہ  پر امام شافعي کي جرح ہے کہ  اس روایت مثل ریح (کا اخراج )  ہے

قتادہ سے منسوب ہے

 حدثنا بشر بن معاذ قال، حدثنا يزيد قال، حدثنا سعيد، عن قتادة:”ولو ردوه إلى الرسول وإلى أولي الأمر منهم”، يقول: إلى علمائهم

ابن جريج سے منسوب ہے

حدثنا القاسم قال، حدثنا الحسين قال، حدثني حجاج، عن ابن جريج:”ولو ردوه إلى الرسول  حتى يكون هو الذي يخبرهم =”وإلى أولي الأمر منهم”، الفقه في الدين والعقل.

قابل غور ہے کہ اصحاب رسول کي تعداد بہت  ہے ليکن ان ميں چند ہي رسول اللہ صلي  اللہ عليہ وسلم  اور خلفاء راشدين کے نزديک اس قابل تھے کہ ان کو امور   سلطانی      و  حکام         پر نافذ کيا جائے – اس طرح  فقيہ اصحاب رسول  چند   ہيں جن ميں ابن مسعود ، علي ،  اور ابن عباس   رضی اللہ عنہم   ہيں  -ان   میں    ابن مسعود  رضی اللہ عنہ    کو کسي بھي جگہ  اولي الامر  مقرر نہيں کيا گيا