صفات یزیدی پر روایات ‏

مجاہدوں کی لونڈیاں غصب کرنے والا


مستدرک حاکم کی روایت ہے‎ ‎
أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْمَحْبُوبِيُّ، ثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَسْعُودٍ، ثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَ ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ‏عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «الْآيَاتُ خَرَزَاتٌ مَنْظُومَاتٌ فِي سِلْكٍ، يُقْطَعُ السِّلْكُ فَيَتْبَعُ بَعْضُهَا بَعْضًا» قَالَ ‏خَالِدُ بْنُ الْحُوَيْرِثِ: كُنَّا نَادِينَ بِالصَّبَاحِ، وَهُنَاكَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، وَكَانَ هُنَاكَ امْرَأَةٌ مِنْ بَنِي الْمُغِيرَةِ يُقَالُ لَهَا: فَاطِمَةُ، فَسَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ ‏عَمْرٍو يَقُولُ: «ذَاكَ يَزِيدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ» ، فَقَالَتْ: أَكَذَاكَ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو تَجِدُهُ مَكْتُوبًا فِي الْكِتَابِ؟ قَالَ: «لَا أَجِدُهُ بِاسْمِهِ وَلَكِنْ أَجِدُ رَجُلًا ‏مِنْ شَجَرَةِ مُعَاوِيَةَ يَسْفِكُ الدِّمَاءَ، وَيُسْتَحَلُّ الْأَمْوَالَ، وَيَنْقُضُ هَذَا الْبَيْتَ حَجَرًا حَجَرًا، فَإِنْ كَانَ ذَلِكَ وَأَنَا حَيٌّ وَإِلَّا فَاذْكُرِينِي» ، قَالَ: ” وَكَانَ ‏مَنْزِلُهَا عَلَى أَبِي قُبَيْسٍ، فَلَمَّا كَانَ زَمَنُ الْحَجَّاجِ، وَابْنِ الزُّبَيْرِ وَرَأَتِ الْبَيْتَ يُنْقَضُ، قَالَتْ: رَحِمَ اللَّهُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو قَدْ كَانَ حَدَّثَنَا بِهَذَا‎ ‎
عبد اللہ بن عمرو نے کہا میں نے (اہل کتاب کی ) کتاب میں پڑھا ہے کہ معاویہ کی نسل سے کوئی شخص خون بہائے گا ، ‏مال حلال کرے گا اور بیت اللہ کو کم کر دے گا‎ ‎
اس کی سند ضعیف ہے – خالد بن الحويرث پر امام ابن معين کا قول ہے : لا أعرفه اس کو نہیں جانتا‎ ‎
ابن عدی نے بھی اس کو مجہول گردانا ہے
تاریخ دمشق کی روایت ہے‎ ‎
أخبرنا أبو سهل محمد بن إبراهيم أنا أبو الفضل الرازي أنا جعفر بن عبدالله نا محمد بن هارون نا محمد بن ‏بشار نا عبدالوهاب نا عوف ثنا مهاجر أبو مخلد حدثني أبو العالية حدثني أبو مسلم قال غزا يزيد بن أبي ‏سفيان بالناس فغنموا فوقعت جارية نفيسة في سهم رجل فاغتصبها يزيد فأتى الرجل أبا ذر فاستعان به عليه ‏فقال له رد على الرجل جاريته فتلكأ عليه ثلاثا فقال إني فعلت ذاك لقد سمعت رسول الله صلى الله عليه ‏وسلم يقول أول من يبدل سنتي رجل من بني أمية يقال له يزيد فقال له يزيد بن أبي سفيان نشدتك بالله أنا ‏منهم قال لا قال فرد على الرجل جاريته
‎ ‎أبو العالية نے روایت کیا کہ أبو مسلم نے کہا یزید بن ابو سفیان نے لوگوں کے ساتھ غزوہ کیا تو غنیمت میں ایک مجاہد ‏کو تیر چلانے پر نفیس لونڈی ملی ، یزید نے اس لونڈی کو غصب کر لیا پھر وہ شخص ابو ذر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ‏مدد مانگی تو انہوں نے کہا آدمی کو اس کی لونڈی لوٹا دو … میں نے رسول اللہ سے سنا تھا کہ سب سے پہلے میری سنت کو ‏بنو امیہ میں سے ایک شخص یزید بدلے گا اس پر یزید بن ابو سفیان نے کہا اللہ کو گواہ کریں کیا میں ان میں سے ہوں ؟ ‏ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں – پس اس شخص کی لونڈی اس کو لوٹا دی گئی‎ ‎
اس روایت میں بتایا گیا ہے کہ یزید بن سفیان نے دوسروں کی لونڈی اٹھا لی – سند میں أَبُو مسلم الجذمي کہا جاتا ہے کوئی ‏بصری ہے لیکن یہ مجہول الحال ہے – متساہل عجلی نے اس کو ثقہ قرار دیا ہے اور ابن حجر نے بھی مقبول بولا ہے اور ابن حجر ‏یہ ان راویوں پر بولتے ہیں جو مجہول ہوں لیکن کوئی ثقہ ان سے روایت کرے
امام بیہقی نے اس کو دلائل نبوت میں سے سمجھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بنو امیہ میں سے کسی یزید کی حرکتوں ‏کا معلوم تھا ‏
أخبرنا أبو الحسن علي بن أحمد بن عبدان، أخبرنا أحمد بن عبيد الصفار، حدثنا محمد بن العباس المؤدب، ‏حدثنا هوذة بن خليفة حدثنا عوف عن أبي خلدة عن أبي العالية قال لما كان يزيد بن أبي سفيان أميرا بالشام ‏غزا الناس فغنموا وسلموا فكان في غنيمتهم جارية نفيسة فصارت لرجل من المسلمين في سهمه فأرسل إليه ‏يزيد فانتزعها منه وأبو ذر يومئذ بالشام قال:فاستغاث الرجل بأبي ذر على يزيد فانطلق معه فقال ليزيد: رد ‏على الرجل جاريته- ثلاث مرات- قال أبو ذر: أما والله لئن فعلت، لقد سمعت رسول الله صلى الله عليه ‏وسلم يقول: إن أول من يبدل سنتي رجل من بني أمية ثم ولى عنه فلحقه يزيد فقال أذكرك بالله: أنا هو قال: ‏اللهم لا ورد على الرجل جاريته
اس کی سند منقطع ہے کیونکہ أبي العالية سے آگے سند نہیں ہے -بیہقی نے لکھا ہے ‏
وفي هذا الإسناد إرسال بين أبي العالية وأبي ذر – اس کی اسناد میں ابو عالیہ اور ابو ذر کے درمیان ارسال ہے ‏
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے ‏
حَدَّثَنَا هَوْذَةُ بْنُ خَلِيفَةَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ أَبِي خَلْدَةَ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةَ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ‏صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : أَوَّلُ مَنْ يُبَدِّلُ سُنَّتِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي أُمَيَّةَ
یہاں بھی سند منقطع ہے کیونکہ أبي العالية سے آگے سند نہیں ہے
‎ ‎أخبار أصبهان میں ہے‎ ‎
أَخْبَرَنِي الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ النَّيْسَابُورِيُّ فِي كِتَابِهِ إِلَيَّ، ثنا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ سَلْمٍ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ أَبَانَ الْأَصْبَهَانِيُّ، ‏ثنا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ خَالِدٍ أَبِي الْمُهَاجِرِ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، قَالَ: كُنَّا بِالشَّامِ مَعَ أَبِي ‏ذَرٍّ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «أَوَّلُ رَجُلٍ يُغَيِّرُ سُنَّتِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي فُلَانٍ» فَقَالَ ‏يَزِيدُ: أَنَا هُوَ؟ قَالَ:لا
یہاں بھی سند منقطع ہے – پہلی روایت کے مطابق أبي العالية کو یہ واقعہ ابو مسلم سے معلوم ہوا تھا لیکن یہاں ان ‏روایات میں ہے کہ أبي العالية نے کہنا شروع کر دیا تھا وہ خود اس جنگ میں موجود تھا – أبي العالية ایک نمبر کے ‏چھوڑو انسان تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر واقعہ غرانیق کی تہمت لگاتے تھے – امام شافعی صحیح کہتے تھے اس کی روایت ‏ریح (گیس)ہے – امام بخاری نے تاریخ اوسط میں اس روایت کا ذکر کر کے اس پر تبصرہ کر کے واضح کیا ہے کہ یہ روایت ‏صحیح نہیں – امام بخاری لکھتے ہیں ‏
حدثني محمد ، قال : حَدَّثَنَا عَبد الوهاب قال : حدثنا عوف عن المهاجر بن مخلد : ، قال : حَدَّثَنَا أبو ‏العالية , قال : وحدثني أبو مسلم قال : كان أبو ذر بالشام وعليها يزيد بن أبي سفيان فغزا الناس ‏فغنموا.والمعروف أن أبا ذر كان بالشام زمن عثمان وعليها معاوية ومات يزيد في زمن عُمَر ولا يعرف لأبي ذر ‏قدوم الشام زمن عُمَر رضي الله عنه
أبو العالية نے کہا ابو مسلم نے روایت کیا کہا ابو ذر تھے شام میں اور وہاں یزید بن ابو سفیان نے غزوہ کیا اور غنیمت دی – ‏معروف میں سے ہے کہ ابو ذر شام میں دور عثمان میں تھے اور وہاں گورنر معاویہ تھے اور یزید بن ابو سفیان کی وفات دور ‏عمر میں ہوئی اور یہ نہیں جانا جاتا کہ ابو ذر دور عمر میں شام گئے ہوں
‏ اس روایت میں بنو امیہ میں کسی یزید پر تنقید کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے وہ یزید بن ابو سفیان نہیں تھے کوئی اور تھا – ظاہر ‏ہے اشارہ یزید بن معاویہ کی طرف ہے- افسوس البانی نے سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ ح:۱۷۴۹ ان روایات کو حسن قرار دیا ‏ہے اور زبیر علی زئی دشمن یزید بن معاویہ نے روایت کو کتاب مقالات حدیث میں ثابت قرار دیا ہے

حافظ ابن کثیر ، ابن عساکر ، زبیر علی زئی نے یزید پر اس حدیث کو ثبت کیا ہے اور جہنمی قرار دیا ‏

زانی و سدومی ‏

‎ ‎یزید کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ ان لونڈیوں کو نکاح میں لے لیتا تھا جو معاویہ رضی اللہ عنہ کی لونڈیاں تھیں – ‏باپ کی لونڈی اولاد پر حرام ہو جاتی ہے لیکن یزید ان کو حلال کر رہا تھا – ‏
تاریخ دمشق از ابن عساکر میں ہے‎ ‎
‎ ‎أنبأنا أبو الفرج غيث بن علي نا أبو بكر الخطيب أنا أبو نعيم الحافظ نا سليمان بن أحمد نا محمد بن زكريا ‏الغلابي نا ابن عائشة عن أبيه قال كان يزيد بن معاوية في حداثته صاحب شراب يأخذ مآخذ الأحداث ‏فأحس معاوية بذلك فأحب أن يعظه في رفق فقال يا بني ما أقدرك على أن تصير إلى حاجتك من غير ‏تهتك يذهب بمروءك وقدرك ثم قال يا بني إني منشدك أبياتا فتأدب بها واحفظها فأنشده
‎ ‎انصب نهارا في طلاب العلا‎ ‎
‎ ‎واصبر على هجر الحبيب القريب
‎ ‎حتى إذا الليل أتى بالدجى
‎ ‎واكتحلت بالغمض عين الرقيب‎ ‎
فباشر الليل بما تشتهي‎ ‎
‎ ‎فإنما الليل نهار الأريب كم فاسق تحسبه ناسكا‎ ‎
‎ ‎قد باشر الليل بأمر عجيب غطى عليه الليل أستاره‎ ‎
‎ ‎فبات في أمن وعيش خصيب ولذة الأحمق مكشوفة‎ ‎
‎ ‎يشفي بها كل عدو غريب

سند میں محمد بن زكريا الغلابى البصري الاخباري، أبو جعفر ہے‎ ‎
‎ ‎الذھبی کہتے ہیں ضعیف ہے، ابن مندہ کا قول ہے کہ اس پر کلا م ہے، وقال الدارقطني: يضع الحديث. حدیث گھڑتا ہے- ‏ابن کثیر نے اس قول کو قبول کر کے تاویل کی ہے ‏

راقم کہتا ہے کہ حیرت ہے کہ اس روایت کو قبول کر کے ایک وضاع کو سپورٹ کیا گیا ہے ‏
یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ یزید لونڈے باز یا سدومیت پسند واقع ہوا تھا ‏
اب ان روایات کا جائزہ لیا جاتا ہے – تاریخ الطبری دار التراث – بيروت ج ٥ ص ٤٨٠ کے مطابق
قَالَ لوط: وَحَدَّثَنِي أَيْضًا مُحَمَّد بن عَبْدِ الْعَزِيزِ بن عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عوف ورجع المنذر من عِنْدَ يَزِيد بن مُعَاوِيَة، ‏فقدم عَلَى عُبَيْد اللَّهِ بن زياد الْبَصْرَة… فأتى أهل الْمَدِينَة، فكان فيمن يحرض الناس عَلَى يَزِيد، وَكَانَ من قوله ‏يَوْمَئِذٍ: إن يَزِيد وَاللَّهِ لقد أجازني بمائة ألف درهم، وإنه لا يمنعني مَا صنع إلي أن أخبركم خبره، وأصدقكم عنه، ‏وَاللَّهِ إنه ليشرب الخمر، وإنه ليسكر حَتَّى يدع الصَّلاة
منذربن الزبیر اہل مدینہ کے پاس آئے تو یہ ان لوگوں میں سے تھے جو لوگوں کو یزید بن معاویہ کے خلاف بھڑکا رہے ‏تھے۔ اور یہ اس دن کہتے تھے : اللہ کی قسم ! یزید نے مجھے ایک لاکھ درہم دئے، لیکن اس نے مجھ پر جو نوازش کی ہے وہ مجھے ‏اس چیز سے نہیں روک سکتی کہ میں تمہیں اس کی خبر بتلاؤں اور اس کے متعلق سچ بیان کردوں ۔ پھر انہوں نے کہا: اللہ ‏کی قسم ! یزید شرابی ہے اور شراب کے نشے میں نماز بھی چھوڑ دیتا ہے
أبو مخنف، لوط بن يحيى بن سعيد بن مخنف الكوفي ہے متروک راوی ہے
وقال الدارقطني: ضعيف
وقال يحيى بن معين: ((ليس بثقة)). وقال مرةً أخرى: ((ليس بشيء)). ثقه نہیں ، کوئی چیز نہیں
وقال ابن عدي: ((شيعي محترق، صاحب أخبارهم)) آ گ لگانے والا شیعہ ہے
الطبقات الكبرى ، دار الكتب العلمية – بيروت، ج ٥ ص ٤٩ میں ہے
خْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ الْمَخْزُومِيُّ عَنْ ‏أَبِيهِ قَالَ: وَأَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي حَسَّانَ قَالَ: وَحَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى عَنْ ‏عَبَّادِ بْنِ تَمِيم عَنْ عَمِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ وَعَنْ غَيْرِهِمْ أَيْضًا. كُلٌّ قَدْ حَدَّثَنِي. قَالُوا: لَمَّا وَثَبَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ لَيَالِيَ ‏الحرة فأخرجوا بَنِي أُمَيَّةَ عَنِ الْمَدِينَةِ وَأَظْهَرُوا عَيْبَ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ وَخِلافَهُ أَجْمَعُوا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْظَلَةَ ‏فَأَسْنَدُوا أَمْرَهُمْ إِلَيْهِ فَبَايَعَهُمْ عَلَى الْمَوْتِ وَقَالَ: يَا قَوْمُ اتَّقُوا اللَّهَ وَحْدَهُ لا شريك له. فو الله مَا خَرَجْنَا عَلَى ‏يَزِيدَ حَتَّى خِفْنَا أَنْ نُرْمَى بِالْحِجَارَةِ مِنَ السَّمَاءِ. إِنَّ رَجُلا يَنْكِحُ الأُمَّهَاتِ وَالْبَنَاتَ وَالأَخَوَاتِ وَيَشْرَبُ الْخَمْرَ ‏وَيَدَعُ الصَّلاةَ
جب اہل مدینہ نے حرہ کے موقع پر فساد کیا، بنوامیہ کو مدینہ سے نکال دیا گیا ، یزید کے عیوب کا پرچار اس کی مخالفت کی تو ‏لوگوں نے عبداللہ بن حنظلہ کے پاس آکر اپنے معاملات انہیں سونپ دئے ۔ عبداللہ بن حنظلہ نے ان سے موت پر ‏بیعت کی اور کہا: اے لوگو ! اللہ وحدہ لاشریک سے ڈرو ! اللہ کی قسم ہم نے یزید کے خلاف تبھی خروج کیا ہے جب ہمیں ‏یہ خوف لاحق ہوا کہ ہم پر کہیں آسمان سے پتھروں کی بارش نہ ہوجائے کہ ایک آدمی ماؤں ، بیٹیوں اور بہنوں سے نکاح ‏کرتا ہے ، شراب پیتا ہے اور نماز چھوڑتا ہے
اس کی سند میں إسماعيل بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عبد الله بن أبى ربيعة القرشى المخزومى المدنى ہے جو مجہول ‏ہے معلوم نہیں کس دور کا ہے -واقدی کا اس سے سماع ہے بھی یا نہیں
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ زِيَادٍ الأَشْجَعِيُّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَ مَعْقِلُ بْنُ ‏سِنَانٍ قَدْ صَحِبَ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ … أَنْ ذَكَرَ مَعْقِلُ بْنُ سِنَانٍ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ. ‏فَقَالَ: إِنِّي خَرَجْتُ كَرْهًا بِبَيْعَةِ هَذَا الرَّجُلِ. وَقَدْ كَانَ مِنَ الْقَضَاءِ وَالْقَدَرِ خُرُوجِي إِلَيْهِ. رَجُلٌ يَشْرَبُ الْخَمْرَ ‏وَيَنْكِحُ الْحُرُمَ
معقل بن سنان نے یزید بن معاویہ بن ابی سفیان کا ذکر کیا اور کہا: میں اس شخص کی بیعت سے کراہت کی وجہ سے نکلا ‏ہوں ، اور اس کی طرف جانا ،قضاو قدر میں تھا ۔یہ ایسا آدمی ہے جو شراب پیتا ہے ، محرمات سے نکاح کرتا ہے
اسکی سند میں عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ زِيَاد ہے جو مجھول ہے
تیسری صدی میں تاريخ خليفة بن خياط از أبو عمرو خليفة بن خياط بن خليفة الشيباني العصفري البصري (المتوفى: 240هـ) میں ‏ہے عبد الملک نے مکہ میں حج کے موقع پر سن ٧٥ ھ میں لوگوں کے لیے خطبہ پڑھا اور اس میں اس طرح کہا
قَالَ أَبُو عَاصِم عَن بْن جريج عَن أَبِيه قَالَ حج علينا عَبْد الْملك بْن مَرْوَان سنة خمس وَسبعين بعد مقتل ابْن ‏الزبير عَاميْنِ فَخَطَبنَا فَقَالَ أما بعد فَإِنَّهُ كَانَ من قبلي من الْخُلَفَاء يَأْكُلُون من هَذَا المَال ويؤكلون وَإِنِّي وَالله لَا ‏أداوي أدواء هَذِهِ الْأمة إِلَّا بِالسَّيْفِ وَلست بالخليفة المستضعف يعَني عُثْمَان وَلَا الْخَلِيفَة المداهن يعَني مُعَاوِيَة ‏أَيهَا النَّاس إِنَّا نَحْتَمِلُ لكم كل اللُّغَوِيَّة مَا لم يَك عقد راية أَو وثوب عَلَى مِنْبَر هَذَا عَمْرو بْن سعيد وحقة حَقه ‏وقرابته قرَابَته قَالَ بِرَأْسِهِ هَكَذَا فَقُلْنَا بسيفنا هَكَذَا
امّا بعد، اے لوگو ! مجھ سے پہلے جو خلیفہ اور حاکم گزرے ہیں انھوں نے مال کو خود کھایا اور دوسروں کو بھی دیا کہ وہ بھی ‏کھائیں۔ اللہ کی قسم میں شمشیر کے ذریعے سے اس امت کی مشکلات کو حل کروں گا۔ میں عثمان کی طرح کمزور خلیفہ ‏نہیں ہوں، میں معاویہ کی طرح نرمی و سستی کرنے والا بھی نہیں ہوں‎ ‎
چھٹی سے ساتویں صدی میں بعض مورخین مثلا ابن اثیر ، سبط ابن الجوزي المتوفی ٦٥٤ ھ نے کہا کہ عبد الملک نے یہ ‏کہا‎ ‎
فَإِنِّي لَسْتُ بِالْخَلِيفَةِ الْمُسْتَضْعَفِ، يَعْنِي عُثْمَانَ، وَلَا بِالْخَلِيفَةِ الْمُدَاهِنِ، يَعْنِي مُعَاوِيَةَ، وَلَا بِالْخَلِيفَةِ الْمَأْفُونِ، يَعْنِي ‏يَزِيدَ
میں ذہنی کم عقل خلیفہ یزید کی طرح بھی نہیں ہوں
‏ یہاں عربی لفظ الْمَأْفُونِ ہے جس کا مطلب لغات عربی کے مطابق کم عقل ہونا ہے – ارو میں اسی لفظ پر ماؤف ‏العقل بولا جاتا ہے – سیوطی نے بعد میں اسی لفظ کو تاریخ خلفاء میں لکھا ہے- ‏
آٹھویں صدی تک جا کر یہ لفظ کچھ سے کچھ بن چکا تھا – امام الذھبی نے تاریخ اسلام میں اور ابن کثیر نے البدایہ میں ‏لکھا‎ ‎
و لست بالخليفة المستضعف يعني عثمان و لا الخليفة المداهن يعني معاوية و لا الخليفة المأبون يعني يزيد‎ ‎
اور میں لواط کروانے خلیفہ یزید کی طرح بھی نہیں ہوں
یزید بن معاویہ پر الزامات کے حوالے سے ارتقاء دیکھا جا سکتا ہے
اب الفاظ کچھ بھی ہوں یہ تقریر سندا ثابت بھی نہیں ہے کیونکہ اس کی اسناد میں ابن جریج مدلس کا عنعنہ ہے – بنو ‏امیہ میں یزید بن معاویہ کی شخصیت اور فیصلوں پر کوئی اختلاف نہیں تھا – ان کو مثبت لیا جاتا تھا ‏
طبری کی تاریخ میں ابو مخنف متروک کی سند سے ہے عَبدُ الله بن حنظلة نے حرہ کے فتنہ کو پھیلاتے ہوئے کہا‎ ‎
وقالوا: إنا قدمْنا من عندِ رجل ليس له دين، يشرب الخمر، ويَعزِف بالطنابير، ويَضرِب عنده القيان، ويَلعَب ‏بالكلاب، ويسامر الخُرَّاب والفتيان،
ہم ایک آدمی کی طرف سے آ رہے ہیں جو شراب پیتا ہے اور ڈرم بجاتا ہے اور کتوں سے کھیلتا ہے اور لونڈے خراب کرتا ‏ہے‎ ‎
اس کی سند میں متروک ہے – عَبدُ الله بن حنظلة صحابی نہیں ہے اس نے صرف نبی کو دیکھا ہے جب یہ کم عمر تھا اور کوئی ‏حدیث یا علم حاصل کرنے کی اس کو توفیق نہیں ہوئی – إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي میں ہے‎ ‎
‎ ‎أبو عمر بن عبد البر: خيرا فاضلا مقدما في الأنصار وأحاديثه عندي مرسلة‎.‎
ابن عبد البر نے کہا اس کی حدیث نبی سے مرسل (سنی ہوئی نہیں ) ہے‎ ‎
وقال إبراهيم الحربي: ليست له صحبة
ابراہیم حربی نے کہا یہ صحابی نہیں ہے‎ ‎
عبد الرحمن بن يحي المعلمي اليماني کا قول ہے کہ عَبدُ الله بن حنظلة، في صحبته نظر اس کا صحابی ہونا محل نظر ہے

شرابی ‏

صحیح سند سے یہ خبر نہیں ملی کہ یزید شرابی تھا – حیرت ہے کہ سند ،سند کرنے والے لوگ بھی ‏یزید پر شراب پینے کی تہمت لگاتے رہے ہیں – تاریخ طبری ج ١٠ ص ٦٠ پر ہے معاویہ نے اپنے بیٹے ‏کی خلافت پر بلایا ‏
ودعاؤه عباد الله الى ابنه يزيد المتكبر الخمير، صاحب الديوك والفهود والقرود
جو متکبر شرابی تھا مرغوں، چیتوں اور بندروں والا
طبری نے اس قول کی کوئی سند نہیں دی – ‏
تاريخ يعقوبى، ج 2، ص 220 و تاريخ طبرى، ج 6، ص 170. ابن اثير در كامل (ج 3، ص 503-505) کے مطابق ‏یزید بندروں سے کھیلتا تھا- تاریخ یعقوبی میں بلا سند لکھا ہے‎ ‎
‎ ‎فما يقول الناس إذا دعوناهم إلى بيعة يزيد، وهو يلعب بالكلاب والقرود، ويلبس المصبغ، ويدمن الشراب
لوگ کیا بولیں گے جب معاویہ یزید کی بیعت کی دعوت دیں گے جو کتوں اور بندروں سے کھیلتا ہے اور ریشم پہنتا اور شراب ‏میں مست ہے
ابن اثیراور طبری نے لکھا کہ ابو مخنف نے روایت کیا حسن بصری نے کہا
قَالَ أَبُو مخنف: عن الصقعب بن زهير، عن الْحَسَن، قَالَ: أربع خصال كن فِي مُعَاوِيَة، لو لَمْ يَكُنْ فِيهِ منهن إلا ‏واحدة لكانت موبقة: انتزاؤه عَلَى هَذِهِ الأمة بالسفهاء حَتَّى ابتزها أمرها بغير مشورة مِنْهُمْ وفيهم بقايا ‏الصحابة وذو الفضيلة، واستخلافه ابنه بعده سكيرا خميرا، يلبس الحرير ويضرب بالطنابير،
حسن بصری نے کہا معاویہ کے چار عمل ایسے ہیں کہ اگر کوئی بھی ان کو کرے تو وہ اس کے لئے بربادی ہے اول امت پر ‏تلوار دراز کرنا اور مشورہ کے بغیر قبضے کرنا جبکہ اصحاب رسول موجود تھے – دوم اپنے شرابی بیٹے کو خلیفہ کرنا جو ریشم پہنتا ‏اور طنبورہ بجاتا تھا – سوم زیاد کو اپنے خاندان سے ملانا جبکہ حدیث ہے کہ اولاد اس کی ہے جس کا بستر ہے اور زانی کے لئے ‏پتھر ہے – چہارم حجر اور اس کے اصحاب کا قتل کرنا
‏ سند میں أبو مخنف، لوط بن يحيى بن سعيد بن مخنف الكوفي ہے متروک راوی ہے اس نے اپنے خالو الصقعب بن زهير ‏المتوفی ١٤٠ ہجری سے روایت کیا ہے‎ ‎‏ ‏‎ ‎
امام الذھبی نے زیاد حارثی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ
سقانى يزيد شراباً ما ذقت مثله، فقلت: يا أمير المؤمنين لم أُسلسل مثل هذا، قال: هذا رمّان حُلوان، بعسل ‏اصبهان، بسكّر الأهواز، بزبيب الطائف، بماء بَرَدى
‎ ‎زیاد نے کہا یزید نے مجھے (شربت) پلایا – اس کا سا ذائقہ میں نے پہلے نہ پیا تھا – پوچھا امیر المومنین میں نے ایسی ‏لذت اس سے قبل نہیں پائی- یزید نے کہا ٹھنڈے پانی کے ساتھ ، حُلْوَانَ کا انار ہے، أَصْبَهَانَ کا اس میں شہد ہے، ‏الأَهْوَازِ کی چینی ہے، الطَّائِفِ کا انگور ہے‎ ‎
اس کی سند کا علم نہیں ہے – اس قول کو خمر یعنی شراب قرار نہیں دیا جائے گا – شراب کا مطلب عربی میں پینا ہے چاہے ‏پانی ہو یا دودھ ہو یا شراب نشہ والی ہو- اس قسم کا قول روح افزا اور تھادل کے لئے بھی کہا جا سکتا ہے‎ ‎
تاریخ الاسلام میں الذھبی نے روایت دی ہے
وَقَالَ الْمَدَائِنِيُّ، عَنْ عَوَانَةَ، وَأَبِي زَكَرِيَّا الْعَجْلانِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ: إِنَّ مُسْلِمًا لَمَّا دَعَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ إِلَى ‏الْبَيْعَةِ، يَعْنِي بَعْدَ وَقْعَةِ الْحَرَّةِ، قَالَ …. الْفَاسِقَ يَشْرَبُ الْخَمْرَ
سند میں عوانة بن الحكم بن عوانة بن عياض الأخباري المتوفی ١٤٧ ھ ہے – اس نے كِتَابُ التَّارِيْخِ اور کِتَابُ سِيَرُ ‏مُعَاوِيَةَ، وَبَنِي أُمَيَّةَ لکھی تھیں – اس کا درجہ الذھبی کے نزدیک صدوق کا ہے اور ابن حجر نے اس کو وضاع یعنی روایت ‏گھڑنے والا لسان المیزان میں قرار دیا ہے يضع الأخبار لبني أمية بنو امیہ پر روایت گھڑتا تھا- سند میں أَبِي زَكَرِيَّا الْعَجْلانِيِّ ‏بھی مجہول ہے – المعجم الصغير لرواة الإمام ابن جرير الطبري کے مولف كرم بن محمد زيادة الفالوجي الأثري نے أبو زكريا العَجلانِي ‏پر ترجمہ قائم کیا اور لکھا ہے
أبو زكريا العَجلانِي، من السادسة فما دونها، لم أعرفه، ولم أجد له ترجمة
أبو زكريا العَجلانِي….. اس کو نہیں جانتا نہ اس کا ترجمہ ملا ہے‎ ‎
فتنة مقتل عثمان بن عفان رضي الله عنه کے مولف محمد بن عبد الله بن عبد القادر غبان الصبحي نے پر کہا ہے لم أجد له ‏‏ ترجمة اس کا احوال مجھ کو نہیں ملا پھر رائے ظاہر کی کہ ممکن ہے کہ یہ يحيى بن اليمان العجليّ الكوفي، أبو زكريا المتوفی ‏‏١٨٩ ھ ہو –راقم کہتا ہے يحيى بن اليمان اصل میں ابن الیمان کے نام سے مشہور ہے اور اس کو نسائی نے ليس بالقويّ ‏قرار دیا ہے- ابن معین نے ضَعِيفُ الْحَدِيثِ قرار دیا ہے – اگر اس بات کو تسلیم بھی کر لیں تو بھی اس کی سند میں ایک ‏مجہول ہے اور ایک ضعیف ہے لہذا یہ قول نہایت نا قابل اعتبار ہے

کتوں کا شوقین ‏

واقعہ حرہ میں تقریر میں کہا گیا کہ یزید کتوں سے کھیلتا ہے – المنتظم في تاريخ الأمم والملوك میں ابن جوزی نے لکھا ہے ‏عبد الله بن حنظلة ، والمنذر بن الزبير نے کہا ويلعب بالكلاب یہ کتوں سے کھیلتا ہے – راقم کہتا ہے اس قول کی سند میں ‏واقدی ہے- قابل غور ہے کہ کیا اصحاب کہف کا کتا نہیں تھا؟ شکار کے لئے کتوں کو پالنا جائز ہے اس کا ذکر احادیث میں ‏ہے- حسن و حسین رضی الله عنہما بھی کتوں سے کھیلتے تھے سنن ابو داود کی حسن حدیث ہے ‏
حدَّثنا أبو صالحٍ محبوبُ بنُ موسى، حدَّثنا أبو إسحاق الفزَاريُّ، عن يونَس بن أبي إسحاق، عن مجاهدٍ ‏حَدّثنا أبو هُريرة، قال: قال رسولُ الله – صلَّى الله عليه وسلم -: أتاني جبريلُ عليه السلام، فقال لي: أتيتُكَ ‏البارحَةَ فلم يمنعْني أن أكونَ دخلتُ إلا أنَّه كانَ على الباب تماثيلُ، وكان في البيت قِرَامُ سِتْرٍ فيه تماثيلُ، وكان ‏في البيت كلْبٌ، فَمُرْ برأسِ التِّمثَالِ الذي على بابِ البيت يقْطَعُ فيصيرُ كهيئةِ الشجرة، ومُرْ بالسِّترِ، فليُقْطَع، ‏فيُجعَلُ منه وسادَتَان مَنبوذتانِ تُوطآن، ومُرْ بالكلب فليُخرَج” ففعل رسولُ الله – صلَّى الله عليه وسلم -، ‏وإذا الكلبُ لحَسَنٍ أو حُسين كان تحتَ نَضَدٍ لهم، فأمر به فأخْرِجَ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “میرے پاس جبرائیل علیہ السلام نے آ کر کہا: ‏میں کل رات آپ کے پاس آیا تھا لیکن اندر نہ آنے کی وجہ صرف وہ تصویریں رہیں جو آپ کے دروازے پر تھیں اور آپ ‏کے گھر میں (دروازے پر)ایک منقش پردہ تھا جس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں، اور گھر میں کتا بھی تھا تو آپ کہہ دیں کہ ‏گھر میں جو تصویریں ہوں ان کا سر کاٹ دیں تاکہ وہ درخت کی شکل کی ہو جائیں، اور پردے کو پھاڑ کر اس کے دو غالیچے بنا ‏لیں تاکہ وہ بچھا کر پیروں سے روندے جائیں اور حکم دیں کہ کتے کو باہر نکال دیا جائے”، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‏نے ایسا ہی کیا، اسی دوران حسن یا حسین رضی اللہ عنہما کا کتا ان کے تخت کے نیچے بیٹھا نظر آیا، آپ نے حکم دیا تو وہ بھی ‏باہر نکال دیا گیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «نضد» چارپائی کی شکل کی ایک چیز ہے جس پر کپڑے رکھے جاتے ہیں۔ تخریج ‏دارالدعوہ: سنن الترمذی/الأدب ۴۴ (۲۸۰۶)، سنن النسائی/الزینة من المجتبی ۶۰‏‎ (‎‏۵۳۶۷‏‎)‎
البانی کہتے ہیں سند صحیح ہے
جدید معترضین نے اپنی طرف سے اضافہ کیا ہے کہ یزید آوارہ کتوں سے کھیلتا ہے جبکہ کسی روایت میں موجود نہیں ‏کہ یہ کتے آوارہ تھے – یہ اضافہ بالکل لغو ہے – ‏
بندر پسند ‏
البدایہ و النہایہ از ابن کثیر میں صغیہ تمریض سے ہے کہ یزید کی موت بندر کی وجہ سے ہوئی ‏
‏ وقيل: إن سبب موته أنه حمل قردة وجعل ينقزها فعضته وذكروا عنه غير ذلك والله أعلم بصحة ذلك ‏
کہا جاتا ہے یزید کی موت بندر سے ہوئی … اور دوسروں نے اس الگ ذکر کیا ہے الله کو اس کی صحت کا علم ہے
‎ ‎الکامل از ابن اثیر میں ہے : ‏
وَقِيلَ: إِنَّهُ مَاتَ مَسْمُومًا، وَصَلَّى عَلَيْهِ الْوَلِيدُ بْنُ عُتْبَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ
کہا جاتا ہے یزید کی موت زہر سے ہوئی ان کی نماز جنازہ الْوَلِيدُ بْنُ عُتْبَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ نے پڑھی
یہ اقوال گھڑے ہوئے ہیں – جب یزید بن معاویہ سے مخالف ناخوش ہوئے تو ان کی وفات سے متعلق افواہ سازی کی
‏ ‏

مدینہ میں لوٹ مار زنا بالجبر


شہادت حسین سن ٦١ ہجری محرم میں ہوئی اور اس کے بعد تقریبا تین سال تک مملکت اسلامیہ ‏میں سکون رہا اور کوئی اور شورش یا فتنہ رونما نہ ہوا – پھر سن ٦٣ ھ کے آخر میں واقعہ الحره ہوا ‏جس میں ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے حمایتیوں نے مدینہ میں فساد برپا کیا – تاریخ ابو زرعہ دمشقی ‏میں ہے
وَكَانَتِ الْحَرَّةُ يَوْمَ الْأَرْبَعَاءِ لِلَيْلَتَيْنِ بَقِيَتَا مِنْ ذِي الْحِجَّةِ سَنَةَ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ ‏
حرہ کا واقعہ بدھ ، سن ٦٣ ہجری میں ذو الحجہ کی آخری چند راتوں میں ہوا
شہادت حسین پر بات کرتے کرتے لوگ واقعہ حرہ کے حوالے سے بھی جھوٹے قصے سنانے لگ ‏جاتے ہیں مثلا البدایہ و النہایہ از ابن کثیر میں ہے‎ ‎
قَالَ ابْنُ جَرِيرٍ: وَقَدْ رُوِيَتْ قِصَّةُ الْحَرَّةِ عَلَى غَيْرِ مَا رَوَاهُ أَبُو مِخْنَفٍ، فَحَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ زُهَيْرٍ ‏ثَنَا أَبِي سَمِعْتُ وَهْبَ بْنَ جَرِيرٍ ثَنَا جُوَيْرِيَةُ بْنُ أَسْمَاءَ قَالَ: سَمِعْتُ أَشْيَاخَ أَهْلِ الْمَدِينَةِ يُحَدِّثُونَ ‏أَنَّ مُعَاوِيَةَ لَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ دَعَا ابْنَهُ يَزِيدَ فَقَالَ لَهُ: إِنْ لَكَ مِنْ أَهْلِ المدينة يوما، فان ‏فعلوا فارمهم بمسلم ابن عقبة فإنه رجل قد عرفت نصيحته لنا،
طبری نے ابو مخنف کی سند سے حرہ کا قصہ نقل کیا کہ … جویرہ نے مدینہ کے بوڑھوں سے سنا کہ وہ ‏کہا کرتے کہ معاویہ نے اپنی وفات کے وقت اپنے بیٹے یزید کو کہا کہ مدینہ کا صرف ایک دن ہے تم ‏کو ضرورت پڑے تو مسلم بن عقبہ کو ان پر بھیجنا
افسوس ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں ابو مخنف متروک کی روایات لکھ کر اس کی صحت کو ختم کر ‏دیا – صحیح بات یہ ہے کہ معاویہ نے اس قسم کی کوئی وصیت نہیں کی تھی اور تین سال تک یزید ‏کے دور میں سب سکون سے تھے لیکن ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے ارادہ کیا کہ وہ خروج کریں گے ‏اور حجاز میں اپنی خلافت قائم کریں گے ‏ ‏- لہذا ابن زبیر نے سیاسی چال چلی کہ بنو امیہ سے ‏منسلک خاندانوں کو مدینہ سے نکال دیا – مدینہ سے یہ بوڑھے ، بچے ، عورتیں کسمہ پرسی کے عالم ‏میں شام کی طرف انصاف کی دہائی مانگتے ہوئے جا رہے تھے – الذھبی تاریخ الاسلام میں لکھتے ہیں ‏ابن الزبیر نے حکم دیا کہ مدینہ و حجاز سے بنو امیہ کو نکال دیا جائے
‎ ‎وكان ابن الزبير أمر بإخراج بني أمية ومواليهم من مكة والمدينة إلى الشام،‏
اس پر چار ہزار مسلمانوں کو مدینہ سے نکال دیا گیا جب یہ لوگ وادی القری پر پہنچے تو مسلم بن عقبہ ‏سے ملے جس نے حکم دیا کہ نہیں واپس جاؤ
فخرج منهم أربعة آلاف فيما يزعمون، فلما صاروا بوادي القرى أمرهم مسلم بالرجوع معه‎ ‎
ابن زبیر اس سے پہلے مروان بن حکم کو بھی مدنیہ سے بیماری کی حالت میں نکلوا چکے تھے اور انہوں ‏نے یہ وطیرہ بنا لیا تھا کہ خاندان کی بنیاد پر مسلمانوں کو الگ کیا جائے
ابن حجر نے مروان بن الحكم کے ترجمہ میں لکھا ہے
ولم يزل بالمدينة حتى أخرجهم ابن الزبير منها، وكان ذلك من أسباب وقعة الحرة
مروان مدینہ سے نہ نکلے حتی کہ ابن زبیر نے ان کو نکالا اور یہ واقعہ حرہ کا سبب بنا
امام بیہقی نے دلائل نبوت میں ذکر کیا‎ ‎
أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ الْفَضْلِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا ‏يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، قَالَ: «أَنْهَبَ مُسْرِفُ بْنُ عُقْبَةَ الْمَدِينَةَ ثَلَاثَةَ ‏أَيَّامٍ , فَزَعَمَ الْمُغِيرَةُ أَنَّهُ افْتُضَّ فِيهَا أَلْفُ عَذْرَاءَ» . مُسْرِفُ بْنُ عُقْبَةَ هُوَ الَّذِي يُقَالُ لَهُ: ‏مُسْلِمُ بْنُ عُقْبَةَ الَّذِي جَاءَ فِي قِتَالِ أَهْلِ الْحَرَّةِ , وَإِنَّمَا سَمَّاهُ مُسْرِفًا لِإِسْرَافِهِ فِي الْقَتْلِ وَالظُّلْمِ
مغیرہ نے کہا مسرف بن عقبہ نے تین دن مدینہ میں لوٹ مار کی اور مغیرہ کا دعوی ہے کہ ایک ہزار ‏کنواریاں اس میں کنواری نہ رہیں( یعنی ان کے ساتھ زنا با لجبر کیا گیا)‏‎ ‎
سند منقطع ہے – سند میں المغيرة بن مقسم الضبى مولاهم ، أبو هشام الكوفى ، الفقيه ‏الأعمى المتوفی 133 ھ ہیں جو مدلس ہیں اور انہوں نے خبر نہیں دی کہ سن ٦٢ ھ کی خبر کس ‏سے ان کو ملی
المنتظم از ابن جوزی میں ہے‎ ‎
وعن المدائني، عن أبي قرة، قال: قال هشام بن حسان : ولدت ألف امرأة بعد الحرة من ‏غير زوج، ثم دعى مسلم بالناس إلى البيعة ليزيد، وقال: بايعوا على أنكم خول له، ‏وأموالكم له، فقال يزيد بن عبد الله بن ربيعة: نبايع على كتاب الله، فأمر به فضربت عنقه، ‏وبدأ بعمرو بن عثمان، فقال: هذا الخبيث ابن الطيب، فأمر به فنتفت لحيته‎.‎
ہشام بن حسان ( المتوفی ١٤٨ ھ نے سن ٦١ ھ کا بلا سند ذکر کیا )نے کہا حرہ کے بعد ایک ہزار عورتوں نے بچے جنے جن ‏کے باپ نہیں تھے ، پھر مسلم بن عقبہ نے لوگوں کو بیعت کے لئے طلب کیا ‏‎ ‎
لوگوں نے اس قول سے سمجھا ہے کہ ہشام کا مقصد کہنا ہے کہ زنا بالجبر ہوا – راقم کہتا ہے کہ ہشام بن حسان کا مقصد یہ ‏کہنا ہے کہ ہزار لوگ قتل ہو گئے جن کے گھر ولادت ہونے والی تھی یا جنگ کی وجہ سے عورتوں کا حمل نکلنا ہو گیا – بہر ‏حال یہ مبالغہ ہے اور سند منقطع ہے

ابن عمر نے اپنے گھر والوں کو حکم دیا کہ بیعت یزید سے نہ نکلنا- صحیح بخاری کی حدیث ہے
باب إِذَا قَالَ عِنْدَ قَوْمٍ شَيْئًا، ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ بِخِلاَفِهِ
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ قَالَ لَمَّا خَلَعَ ‏أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ جَمَعَ ابْنُ عُمَرَ حَشَمَهُ وَوَلَدَهُ فَقَالَ إِنِّى سَمِعْتُ النَّبِىَّ – صلى الله ‏عليه وسلم – يَقُولُ «يُنْصَبُ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ». وَإِنَّا قَدْ بَايَعْنَا هَذَا الرَّجُلَ عَلَى بَيْعِ ‏اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَإِنِّى لاَ أَعْلَمُ غَدْرًا أَعْظَمَ مِنْ أَنْ يُبَايَعَ رَجُلٌ عَلَى بَيْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، ثُمَّ يُنْصَبُ‏
نافع کہتے ہیں کہ جب مدینہ والوں نے يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ کی بیعت توڑی تو عبدللہ ابن عمر رضی الله تعالیٰ عنہ نے اپنے ‏خاندان والوں کو جمع کیا اور کہا کہ میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ہر دغا باز کے لئے قیامت کے دن اک ‏جھنڈا گاڑھا جائے گا – اور بے شک میں نے اس آدمی (یزید بن معاویہ) کی بیعت کی ہے الله اور اس کے رسول (کی اتبا ع ‏پر) اور میں کوئی ایسا بڑا عذر نہیں جانتا کہ کسی کی الله اور رسول کے لئے بیعت کی جائے اور پھر توڑی جائے

2 thoughts on “صفات یزیدی پر روایات ‏

  1. jawad

    السلام و علیکم و رحمت الله

    جزاک الله بھائی

    ویسے بھی یزید بن معاویہ کے خلاف ان کی مذکورہ صفات کو پیش کرنے والے اور ان کو افسانہ بنانے والے اور واقعہ کربلا کو حق و باطل کی جنگ قرار دینے والے نام نہاد علما و مشائخ اور عوام اس کا ثبوت کیوں نہیں پیش کرتے کہ اگر یزید بن معاویہ ایسے ہی تھے یعنی شرابی ، زانی، لونڈیاں غصب کرنے والے، کتوں کے شوقین تھے تو حضرت حسین نے یزید بن معاویہ کی خلافت کی بیعت سے پہلے ان کو ان کاموں سے منع کیوں نہ کیا ؟؟ امربلمعروف و نہی عن المنکر کیوں نا کیا ؟؟ کوئی ایک روایت ہی ایسی پیش کردیں جس سے ظاہر ہو کہ انہوں نے یزید بن معاویہ کے سامنے امربلمعروف و نہی عن المنکرکیا ہو ؟؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      و علیکم السلام

      تاریخ میں کوئی ایسی صحیح روایت نہیں جس میں حسین رضی اللہ عنہ نے کبھی شام کا سفر کیا ہو اور یزید سے ملاقات کی ہو
      پروپیگنڈا دور اصحاب رسول میں بھی ہوتا تھا اور اسی قسم کی یزید سے متعلق روایات ہیں

      Reply

Leave a Reply to jawad Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *