Category Archives: علم الغیب – Unseen

ڈاکٹر عثمانی کی پریشانی اور امام النسفی کا جواب

قصہ مختصر
محدثین متاخرین جو تصوف کو پسند کرتے تھے ان کی ایک جماعت نے بلخی صوفی ابراھیم بن ادھم کا ذکر اپنی کتب میں کیا ہے – اس کے لئے رطب اللسان رہے – راقم سمجھتا ہے یہ کوئی فرضی کردار تھا جو اویس قرنی کی طرح متصوفین نے گھڑا – اس کردار یعنی ابراھیم بن ادھم کے حوالے سے لوگوں نے ذکر کیا کہ یہ کعبہ حج کرنے پہنچا تو کعبہ غائب تھا یہ کعبہ ڈھونڈتا ہوا عراق آیا تو وہاں کعبہ رابعہ بصری کا طواف کر رہا تھا – قصہ مشہور ہوا اور بعض علماء نے اس کو سنانے پر کفر کا فتوی دیا – یہ متکلم امام النسفی پر بھی پیش ہوا – امام النسفی نے اس کو کرامت بتایا – قصہ واپس مشہور ہوا متصوفین اس کو درج کرتے رہے کوئی نکیر نہ ہوئی یہاں تک کہ ڈاکٹر عثمانی نے صوفیوں پر کتاب ایمان خالص میں تنقید کی
اہل حدیث اور غیر مقلدوں میں سے بعض نے عثمانی کی تحسین کی اور بعض نے صوفیوں کی مدد کی مثلا خواجہ قاسم وغیرہ نے اور دعوی کیا کہ اس قسم کے قصوں کو اہل بدعت ( یعنی بریلویوں) نے گھڑا
راقم کو ملا کہ امام النسفی کا حوالہ لوگ بھلا بیٹھے ہیں – جس سے معلوم ہوا کہ یہ قصہ بریلویوں نے نہیں گھڑا بلکہ یہ ایک قدیم قصہ ہے

مشہور قصہ ہے کہ  ابراہیم بن ادھم ١٤ سال میں بلخ سے  مکہ پہنچے –   انیس الارواح  از عثمان ہارونی مرتبہ  معین الدین چشتی، ص ١٧، ١٨ پر حکایت لکھی ہے کہ عثمان ہارونی نے

ibraheemBinAdham

اس حکایت میں ضعیفہ ، رابعة العدوية (المتوفی ١٣٥ ھ یا ١٨٥ ھ) جن کا مکمل نام   رابعة بنت اسماعيل أم عمرو العدوية ہے. ان کو أم الخير بھی کہا جاتا ہے کا ذکر ہے جو  یہ دعوی کرتی تھیں کہ یہ الله کی عبادت جنّت حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ الله کی خوشنودی کے لئے کرتی ہیں (یعنی باقی صوفی ایسا کرتے تھے مثلا ابراہیم بن ادھم بلخی)

عثمانی صاحب نے اس قصہ پر جرح کی کہ اس میں صوفیوں کو علم غیب کی خبر دی  گئی ہے البتہ راقم کو ملا کہ امام نسفی نے اس قصہ کو قبول کیا

إبْرَاهِيمَ بْنِ أَدْهَمَ کے حوالے سے بیان کیا جاتا ہے کہ وہ بلخ سے مکہ پہنچے تو کعبہ وہاں نہ تھا رابعہ بصری کی زیارت کو گیا ہوا تھا – یہ قصہ عربوں میں مشہور ہوا اور بعض فقہاء نے ان پر کفر کا فتوی دیا جنہوں نے اس قصہ کو بیان کیا

الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار از الحصكفي الحنفي (المتوفى: 1088هـ) میں ہے
قُلْت: لَكِنْ فِي عَقَائِدِ التَّفْتَازَانِيُّ جَزَمَ بِالْأَوَّلِ تَبَعًا لِمُفْتِي الثَّقَلَيْنِ النَّسَفِيِّ، بَلْ سُئِلَ عَمَّا يُحْكَى أَنَّ الْكَعْبَةَ كَانَتْ تَزُورُ وَاحِدًا مِنْ الْأَوْلِيَاءِ هَلْ يَجُوزُ الْقَوْلُ بِهِ؟ فَقَالَ: خَرْقُ الْعَادَةِ عَلَى سَبِيلِ الْكَرَامَةِ لِأَهْلِ الْوِلَايَةِ جَائِزٌ عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ،
میں کہتا ہوں لیکن عقائد التَّفْتَازَانِيُّ ( شَرْحِهِ عَلَى الْعَقَائِدِ النَّسَفِيَّةِ) میں جزم سے ہے کہ مفتی ثقلین امام النَّسَفِيِّ سے سوال ہوا اس حکایت پر کہ کعبہ نے اولیاء الله میں سے ایک کی زیارت کی ، کہ کیا یہ کہنا جائز ہے ؟ پس امام نسفی نے جواب دیا اہل سنت میں اہل ولایت کی کرامت کے لئے خرق عادت جائز ہے

رد المحتار على الدر المختار از ابن عابدين، محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز عابدين الدمشقي الحنفي (المتوفى: 1252هـ) میں ہے کہ ابن عابدین نے کہا
قَالَ إنَّمَا الْعَجَبُ مِنْ بَعْضِ فُقَهَاءِ أَهْلِ السُّنَّةِ حَيْثُ حَكَمَ بِالْكُفْرِ عَلَى مُعْتَقِدِ مَا رُوِيَ عَنْ إبْرَاهِيمَ بْنِ أَدْهَمَ إلَخْ ثُمَّ قَالَ: وَالْإِنْصَافُ مَا ذَكَرَهُ الْإِمَامُ النَّسَفِيُّ حِينَ سُئِلَ عَنْ مَا يُحْكَى أَنَّ الْكَعْبَةَ كَانَتْ تَزُورُ وَاحِدًا مِنْ الْأَوْلِيَاءِ هَلْ يَجُوزُ الْقَوْلُ بِهِ؟ فَقَالَ: نَقْضُ الْعَادَةِ عَلَى سَبِيلِ الْكَرَامَةِ لِأَهْلِ الْوِلَايَةِ جَائِزٌ عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ. اه
اہل سنت کے بعض فقہاء پر حیرت ہوئی جنہوں نے ان لوگوں پر کفر کا فتوی دیا جو اعتقاد رکھ رہے تھے اس پر جو إبْرَاهِيمَ بْنِ أَدْهَمَ سے روایت کیا گیا ہے اور انصاف وہ ہے جو امام نسفی المتوفی ٥٣٧ ھ نے ذکر کیا

اس طرح اس قصہ کو کرامت ولی کے زمرے میں قبول کر لیا گیا

افسوس علم غیب کی نقاب کشائی  کا کسی متکلم  امام کو خیال تک نہ آیا

ابراھیم کی مقبولیت اہل حدیث میں بھی ہو چلی تھی اور امام الذھبی نے سیر الاعلام النبلاء میں ذکر کیا
عِصَامُ بنُ رَوَّادٍ: سَمِعْتُ عِيْسَى بنَ حَازِمٍ النَّيْسَابُوْرِيَّ يَقُوْلُ:
كُنَّا بِمَكَّةَ مَعَ إِبْرَاهِيْمَ بنِ أَدْهَمَ، فَنَظَرَ إِلَى أَبِي قُبَيْسٍ (2) ، فَقَالَ: لَوْ أَنَّ مُؤْمِناً، مُسْتكمِلَ الإِيْمَانِ، يَهزُّ الجَبَلَ لَتَحَرَكَ.
فَتَحَرَّكَ أَبُو قُبَيْسٍ، فَقَالَ: اسْكُنْ، لَيْسَ إِيَّاكَ أَرَدْتُ
عيْسَى بنَ حَازِمٍ نے ذکر کیا کہ ہم مکہ میں تھے إِبْرَاهِيْمَ بنِ أَدْهَمَ نے جبل ابو قُبَيْسٍ پر نظر ڈالی اور کہا اگر تو مومن ہے ایمان کامل ہے تو یہ پہاڑ سرک جائے – پس جبل ابو قُبَيْسٍ ہلنے لگا – ابراھیم نے کہا رک جا یہ ارادہ نہیں تھا

پھر اس حکایت کا دوسری سند سے ذکر کیا
عَنْ مَكِّيِّ بنِ إِبْرَاهِيْمَ، قَالَ: قِيْلَ لابْنِ أَدْهَم: مَا تَبلُغُ مِنْ كَرَامَةِ المُؤْمِنِ؟
قَالَ: أَنْ يَقُوْلَ لِلْجَبَلِ: تَحرَّكْ، فَيَتحَرَّكُ.
قَالَ: فَتَحَرَّكَ الجَبَلُ، فَقَالَ: مَا إِيَّاكَ عَنَيْتُ

اس طرح محدثین بھی مان رہے تھے کہ ابراھیم نام کا بلخی و سنٹرل ایشیا کا صوفی مکہ کے پہاڑوں کو ہلا  رہا تھا

 

https://www.islamic-belief.net/%D8%A7%D8%A8%D8%B1%D8%A7%DB%81%DB%8C%D9%85-%D8%A8%D9%86-%D8%A7%D8%AF%DA%BE%D9%85/

 

حوران بہشت کی غیب دانی

صحيح ابن ماجہ 2014 اور ترمذي 1174 میں ہے

حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ الحَضْرَمِيِّ، عَنْ [ص:469] مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لَا تُؤْذِي امْرَأَةٌ زَوْجَهَا فِي الدُّنْيَا، إِلَّا قَالَتْ زَوْجَتُهُ مِنَ الحُورِ العِينِ: لَا تُؤْذِيهِ، قَاتَلَكِ اللَّهُ، فَإِنَّمَا هُوَ عِنْدَكَ دَخِيلٌ يُوشِكُ أَنْ يُفَارِقَكِ إِلَيْنَا “: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الوَجْهِ»، «وَرِوَايَةُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَيَّاشٍ عَنِ الشَّامِيِّينَ أَصْلَحُ، وَلَهُ عَنْ أَهْلِ الحِجَازِ وَأَهْلِ العِرَاقِ مَنَاكِيرُ

مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئي عورت اپنے شوہر کو دنیا میں ايذا پہنچاتي ہے تو بڑی آنکھوں والی حوروں ميں سے اس کی بیوی اس پر کہتی ہے کہ اللہ کی مار تجھ پر (یعنی دنیاوی بیوی پر )، اس کو تنگ مت کر یہ تو ویسے بھی تیرے پاس بس مسافر ہے، قریب ہے کہ یہ تجھے چھوڑ کر ہمارے پاس آ جائے

امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن غریب ہے اس کو إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ نے روایت کیا جس کی شامیوں سے روایت اصلح ہے اور اہل حجاز اور اہل عراق سے اس کی منکر روایات ہیں

امام بخاری کا قول ہے
قال البخاري إذا حدث عن الشاميين فصحيح
جب یہ شامیوں سے روایت کرے تو حدیث صحیح ہے

راقم کہتا ہے کہ ترمذی و بخاری کے قول کے تحت یہاں سند میں إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ نے اس کو حمص شام کے بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ سے روایت کیا ہے لہذا اس روایت کا درجہ اصلح یا صحیح کا ہوا – اس روایت کو البانی نے صحیح قرار دیا ہے -شعيب الأرنؤوط نے حسن قرار دیا ہے اور امام الذھبی نے صحیح قرار دیا ہے

راقم کہتا ہے متن منکر ہے – حور کو کیا علم الغیب ہے ؟ کیا وہ جنت سے اپنے ہونے والے شوہر کو دیکھ رہی ہے یا اس پر عرض عمل ہو رہا ہے ؟ اس روایت کی نکارت پر حیرت ہے کہ کسی شارح یا محدث نے کلام نہیں کیا

إسماعيل بن عياش حمص کا رہنے والا ہے اور یہ مختلط بھی ہوا تھا لہذا یہاں اس روایت سے ثابت ہو رہا ہے کہ اس راوی کی وہ روایات جو اہل شام سے ہیں ان میں بھی مسائل ہیں اس کا دور اختلاط شروع ہو چکا تھا

عائشہ (رض) اور بنیادی عقائد

فرقوں کا دعوی ہے کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بنیادی عقائد سے لا علم تھیں اس سلسلے میں جو دلائل دیے جاتے ہیں ان میں قلیب بدر کا واقعہ پیش کیا جاتا ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس سے لا علم تھیں کہ مردے سنتے ہیں

وہابی عالم الشِّنقيطي سوال (هَل يسمع الْمَوْتَى؟) کیا مردے سنتے ہیں کے جواب میں کہتے ہیں

وَأَنَّ قَوْلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّه عَنْهَا وَمَنْ تَبِعَهَا: إِنَّهُمْ لَا يَسْمَعُونَ، اسْتِدْلَالًا بِقَوْلِهِ تَعَالَى: {إِنَّكَ لاَ تُسْمِعُ الْمَوْتَى} ، وَمَا جَاءَ بِمَعْنَاهَا مِنَ الْآيَاتِ غَلَطٌ مِنْهَا رَضِيَ اللَّه عَنْهَا، وَمِمَّنْ تبعها.

أور عائشة رضی الله عنہا اور ان کی اتباع کرنے والوں کا قول ہے (مردے) نہیں سنتے ہیں جو انہوں نے الله تعالی کے قول إِنَّكَ لاَ تُسْمِعُ الْمَوْتَى سے استدلال کیا ہے اور جو انہی معنوں پر آیات آئی ہیں یہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی غلطی ہے اور ان کی بھی جنہوں نے ان کی اتبآع کی ہے

الشِّنقيطي سے قبل کچھ یہی انداز ابن تیمیہ کتاب الانتصار للإمام أحمد میں اخیتار کیا لکھتے ہیں

إنكار عائشة سماع أهل القليب معذورة فيه لعدم بلوغها النص ، وغيرها لا يكون معذورا مثلها ، لأن هذه المسألة صارت معلومة من الدين بالضرورة

عائشہ کا قلیب بدر کے (مردوں کے ) سماع کا انکار کرنے میں معذور ہیں کیونکہ نص ان تک نہیں پہنچی اور دوسرے ان کی طرح معذور نہیں ہیں کیونکہ یہ مسئلہ ضرورت کے تحت دین کی معلومات کی طرح پھیل چکا ہے

وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ

دوسری طرف فرقے دعوی کرتے ہیں کہ قبرستان میں جو دعا کی جاتی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مردے سنتے ہیں اور یہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں – افسوس اس سے یہ لوگ  ثابت کرتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا عقیدہ اللہ کی قدرت پر بھی صحیح نہیں تھا ان کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اللہ تعالی وہ سب جانتا ہے جو لوگ چھپاتے ہیں – ان کی دلیل صحیح مسلم کی ایک منکر روایت ہے

حديث 2249
حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ کَثِيرِ بْنِ الْمُطَّلِبِ أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسٍ يَقُولُ سَمِعْتُ عَائِشَةَ تُحَدِّثُ فَقَالَتْ أَلَا أُحَدِّثُکُمْ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَنِّي قُلْنَا بَلَی ح و حَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ حَجَّاجًا الْأَعْوَرَ وَاللَّفْظُ لَهُ قَالَ حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ بْنِ الْمُطَّلِبِ أَنَّهُ قَالَ يَوْمًا أَلَا أُحَدِّثُکُمْ عَنِّي وَعَنْ أُمِّي قَالَ فَظَنَنَّا أَنَّهُ يُرِيدُ أُمَّهُ الَّتِي وَلَدَتْهُ قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ أَلَا أُحَدِّثُکُمْ عَنِّي وَعَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا بَلَی قَالَ قَالَتْ لَمَّا کَانَتْ لَيْلَتِي الَّتِي کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا عِنْدِي انْقَلَبَ فَوَضَعَ رِدَائَهُ وَخَلَعَ نَعْلَيْهِ فَوَضَعَهُمَا عِنْدَ رِجْلَيْهِ وَبَسَطَ طَرَفَ إِزَارِهِ عَلَی فِرَاشِهِ فَاضْطَجَعَ فَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا رَيْثَمَا ظَنَّ أَنْ قَدْ رَقَدْتُ فَأَخَذَ رِدَائَهُ رُوَيْدًا وَانْتَعَلَ رُوَيْدًا وَفَتَحَ الْبَابَ فَخَرَجَ ثُمَّ أَجَافَهُ رُوَيْدًا فَجَعَلْتُ دِرْعِي فِي رَأْسِي وَاخْتَمَرْتُ وَتَقَنَّعْتُ إِزَارِي ثُمَّ انْطَلَقْتُ عَلَی إِثْرِهِ حَتَّی جَائَ الْبَقِيعَ فَقَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ انْحَرَفَ فَانْحَرَفْتُ فَأَسْرَعَ فَأَسْرَعْتُ فَهَرْوَلَ فَهَرْوَلْتُ فَأَحْضَرَ فَأَحْضَرْتُ فَسَبَقْتُهُ فَدَخَلْتُ فَلَيْسَ إِلَّا أَنْ اضْطَجَعْتُ فَدَخَلَ فَقَالَ مَا لَکِ يَا عَائِشُ حَشْيَا رَابِيَةً قَالَتْ قُلْتُ لَا شَيْئَ قَالَ لَتُخْبِرِينِي أَوْ لَيُخْبِرَنِّي اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ قَالَتْ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي فَأَخْبَرْتُهُ قَالَ فَأَنْتِ السَّوَادُ الَّذِي رَأَيْتُ أَمَامِي قُلْتُ نَعَمْ فَلَهَدَنِي فِي صَدْرِي لَهْدَةً أَوْجَعَتْنِي ثُمَّ قَالَ أَظَنَنْتِ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْکِ وَرَسُولُهُ قَالَتْ مَهْمَا يَکْتُمِ النَّاسُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ نَعَمْ قَالَ فَإِنَّ جِبْرِيلَ أَتَانِي حِينَ رَأَيْتِ فَنَادَانِي فَأَخْفَاهُ مِنْکِ فَأَجَبْتُهُ فَأَخْفَيْتُهُ مِنْکِ وَلَمْ يَکُنْ يَدْخُلُ عَلَيْکِ وَقَدْ وَضَعْتِ ثِيَابَکِ وَظَنَنْتُ أَنْ قَدْ رَقَدْتِ فَکَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَکِ وَخَشِيتُ أَنْ تَسْتَوْحِشِي فَقَالَ إِنَّ رَبَّکَ يَأْمُرُکَ أَنْ تَأْتِيَ أَهْلَ الْبَقِيعِ فَتَسْتَغْفِرَ لَهُمْ قَالَتْ قُلْتُ کَيْفَ أَقُولُ لَهُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ قُولِي السَّلَامُ عَلَی أَهْلِ الدِّيَارِ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ وَيَرْحَمُ اللَّهُ الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِينَ وَإِنَّا إِنْ شَائَ اللَّهُ بِکُمْ لَلَاحِقُونَ
ترجمہ ہارون بن سعید ایلی، عبداللہ بن وہب، ابن جریج، عبداللہ بن کثیر بن مطلب، محمد بن قیس، حضرت محمد بن قیس (رض) بن مخرمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک دن کہا کیا میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی اور اپنی ماں کے ساتھ بیتی ہوئی بات نہ سناؤں ہم نے گمان کیا کہ وہ ماں سے اپنی جننے والی ماں مراد لے رہے ہیں ہم نے کہا کیوں نہیں فرمایا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس میری باری کی رات میں تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کروٹ لی اور اپنی چادر اوڑھ لی اور جوتے اتارے اور ان کو اپنے پاؤں کے پاس رکھ دیا اور اپنی چادر کا کنارہ اپنے بستر پر بچھایا اور لیٹ گئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اتنی ہی دیر ٹھہرے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گمان کرلیا کہ میں سو چکی ہوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آہستہ سے اپنی چادر لی اور آہستہ سے جوتا پہنا اور آہستہ سے دروازہ کھولا اور باہر نکلے پھر اس کو آہستہ سے بند کردیا میں نے اپنی چادر اپنے سر پر اوڑھی اور اپنا ازار پہنا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے پیچھے چلی یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بقیع میں پہنچے اور کھڑے ہوگئے اور کھڑے ہونے کو طویل کیا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دونوں ہاتھوں کو تین بار اٹھایا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس لوٹے اور میں بھی لوٹی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیز چلے تو میں بھی تیز چلنے لگی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دوڑے تو میں بھی دوڑی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہنچے تو میں بھی پہنچی میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سبقت لے گئی اور داخل ہوتے ہی لیٹ گئی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو فرمایا اے عائشہ تجھے کیا ہوگیا ہے کہ تمہارا سانس پھول رہا ہے میں نے کہا کچھ نہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم بتا دو رونہ مجھے باریک بین خبردار یعنی اللہ تعالیٰ خبر دے دے گا تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے ماں باپ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان پھر پورے قصہ کی خبر میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دے دی فرمایا میں اپنے آگے آگے جو سیاہ سی چیز دیکھ رہا تھا وہ تو تھی میں نے عرض کیا جی ہاں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے سینے پر مارا جس کی مجھے تکلیف ہوئی پھر فرمایا تو نے خیال کیا کہ اللہ اور اس کا رسول تیرا حق داب لے گا فرماتی ہیں: (کیا ) جب لوگ کوئی چیز چھپاتے ہیں اللہ تو اس کو خوب جانتا ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں –فرمایا کہ جبرائیل میرے پاس آئے جب تو نے دیکھا تو مجھے پکارا اور تجھ سے چھپایا تو میں نے بھی تم سے چھپانے ہی کو پسند کیا اور وہ تمہارے پاس اس لئے نہیں آئے کہ تو نے اپنے کپڑے اتار دیئے تھے اور میں نے گمان کیا کہ تو سو چکی ہے اور میں نے تجھے بیدار کرنا پسند نہ کیا میں نے یہ خوف کیا کہ تم گھبرا جاؤ گی جبرائیل نے کہا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بقیع تشریف لے جائیں اور ان کے لئے مغفرت مانگیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں کیسے کہوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (السَّلَامُ عَلَيْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ وَأَتَاکُمْ مَا تُوعَدُونَ غَدًا مُؤَجَّلُونَ وَإِنَّا إِنْ شَائَ اللَّهُ بِکُمْ لَاحِقُونَ) کہو سلام ہے ایماندار گھر والوں پر اور مسلمانوں پر اللہ ہم سے آگے جانے والوں پر رحمت فرمائے اور پیچھے جانے والوں پر ہم انشاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں۔

تبصرہ
فرقه پرست یہ دعوی کرتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا بنیادی عقائد سے لا علم تھیں کیونکہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا

قَالَتْ مَهْمَا يَکْتُمِ النَّاسُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ ؟ نَعَمْ
کیا جو بھی لوگ چھپاتے ہیں اللہ تعالی اسے جانتا ھے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا ہاں عائشہ۔

اس منکر روایت سے ان کے نزدیک ثابت ہوتا ہے کہ فقہائے مدینہ کی استاذ عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا یہ بات تک نہیں جانتی تھیں کہ اللہ تعالی ہر اس چیز کو جانتا ھے جو لوگ چھپاتے ہیں ۔ قابل غور ہے یہ ایمان کی بنیادی بات ہے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی تو خود قرآن کو شادی سے پہلے یاد کر رہی تھیں اور قرآن ان کے گھر سے متصل مسجد النبی میں دن و رات پڑھا جاتا تھا۔

یہ روایت آخری دور کی بتائی جاتی ہے جبکہ اس کا متن منکر ہے اس سے یہ تک نکلتا ہے کہ ام المومنین رضی اللہ عنہا نے نبی کی جاسوسی کی ان کا پیچھا رات کے اندھیرے میں کیا

سند میں عبد الله بن كثير بن المطلب بن أبى وداعة مجہول ہے اس کو امام مسلم نے قبول کیا ہے لہذا ابن حجر نے اس کومقبول کہا ہے۔

الذھبی نے میزان میں کہا
فعبد الله بن كثير السهمى لا يعرف إلا من رواية ابن جريج عنه، وما رأيت أحدا وثقه ففيه جهالة.
عبد الله نہیں جانا جاتا اس سے صرف ابن جریج نے روایت کیا ہے اور کسی اور ثقہ نے میرے خیال میں روایت نہیں کیا ہے اور اس میں جہالت ہے یعنی مجہول ہے۔

اور تاریخ اسلام میں کہا
، وهو فلا يكاد يُعْرَف إلا فِي حديثٍ واحد سَنَدُهُ مضطَّرب، وهو حديث عَائِشَةَ فِي استغفاره لأهل البَقيع
اس کی کوئی حدیث معلوم نہیں سوائے ایک مضطرب روایت کے جس میں عائشہ رضی الله عنہا سے اہل بقیع پر استغفار کا ذکر ہے۔

فرقے کہتے ہیں کہ صحیح مسلم کی شاہد حدیث سنن نسائی ٢٠٢٣٩ ہے

أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ،‏‏‏‏ يَقُولُ
پھر روایت دی جس کا ترجمہ ہے

محمد بن قیس بن مخرمہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو بیان کرتے ہوئے سنا وہ کہہ رہی تھیں کیا میں تمہیں اپنے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ہم نے کہا کیوں نہیں ضرور بتائیے، تو وہ کہنے لگیں، جب وہ رات آئی جس میں وہ یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تھے تو آپ(عشاء) سے پلٹے، اپنے جوتے اپنے پائتانے رکھے، اور اپنے تہبند کا کنارہ اپنے بستر پر بچھایا، آپ صرف اتنی ہی مقدار ٹھہرے جس میں آپ نے محسوس کیا کہ میں سو گئی ہوں، پھر آہستہ سے آپ نے جوتا پہنا اور آہستہ ہی سے اپنی چادر لی، پھر دھیرے سے دروازہ کھولا، اور دھیرے سے نکلے، میں نے بھی اپنا کرتا، اپنے سر میں ڈالا اور اپنی اوڑھنی اوڑھی، اور اپنی تہبند پہنی، اور آپ کے پیچھے چل پڑی، یہاں تک کہ آپ مقبرہ بقیع آئے، اور اپنے ہاتھوں کو تین بار اٹھایا، اور بڑی دیر تک اٹھائے رکھا، پھر آپ پلٹے تو میں بھی پلٹ پڑی، آپ تیز چلنے لگے تو میں بھی تیز چلنے لگی، پھر آپ دوڑنے لگے تو میں بھی دوڑنے لگی، پھر آپ اور تیز دوڑے تو میں بھی اور تیز دوڑی، اور میں آپ سے پہلے آ گئی، اور گھر میں داخل ہو گئی، اور ابھی لیٹی ہی تھی کہ آپ بھی اندر داخل ہو گئے، آپ نے پوچھا “عائشہ! تجھے کیا ہو گیا، یہ سانس اور پیٹ کیوں پھول رہے ہیں؟” میں نے کہا کچھ تو نہیں ہے، آپ نے فرمایا “تو مجھے بتا دے ورنہ وہ ذات جو باریک بین اور ہر چیز کی خبر رکھنے والی ہے مجھے ضرور بتا دے گی”، میں نے عرض کیا اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، پھر میں نے اصل بات بتا دی تو آپ نے فرمایا “وہ سایہ جو میں اپنے آگے دیکھ رہا تھا تو ہی تھی”، میں نے عرض کیا جی ہاں، میں ہی تھی، آپ نے میرے سینہ پر ایک مکا مارا جس سے مجھے تکلیف ہوئی، پھر آپ نے فرمایا “کیا تو یہ سمجھتی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تجھ پر ظلم کریں گے”، میں نے کہا جو بھی لوگ چھپائیں اللہ تعالیٰ تو اس سے واقف ہی ہے، (وہ آپ کو بتا دے گا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “جبرائیل میرے پاس آئے جس وقت تو نے دیکھا، مگر وہ میرے پاس اندر نہیں آئے کیونکہ تو اپنے کپڑے اتار چکی تھی، انہوں نے مجھے آواز دی اور انہوں نے تجھ سے چھپایا، میں نے انہیں جواب دیا، اور میں نے بھی اسے تجھ سے چھپایا، پھر میں نے سمجھا کہ تو سو گئی ہے، اور مجھے اچھا نہ لگا کہ میں تجھے جگاؤں، اور میں ڈرا کہ تو اکیلی پریشان نہ ہو، خیر انہوں نے مجھے حکم دیا کہ میں مقبرہ بقیع آؤں، اور وہاں کے لوگوں کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کروں”، میں نے پوچھا اللہ کے رسول! میں کیا کہوں (جب بقیع میں جاؤں)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہو «السلام على أهل الديار من المؤمنين والمسلمين يرحم اللہ المستقدمين منا والمستأخرين وإنا إن شاء اللہ بكم لاحقون» “سلامتی ہو ان گھروں کے مومنوں اور مسلمانوں پر، اللہ تعالیٰ ہم میں سے اگلے اور پچھلے(دونوں) پر رحم فرمائے، اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم تم سے ملنے (ہی) والے ہیں”

تبصرہ

سندا یہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ اس سند کو شعیب نے ضعیف کہا ہے

سنن نسائی جیسی سند سے یہ روایت مسند احمد 25855 موجود ہے
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللهِ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ بْنِ الْمُطَّلِبِ، أَنَّهُ قَالَ يَوْمًا أَلَا أُحَدِّثُكُمْ عَنِّي، وَعَنْ أُمِّي؟ – فَظَنَنَّا أَنَّهُ يُرِيدُ أُمَّهُ الَّتِي وَلَدَتْهُ – قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ

شعيب الأرنؤوط کا کہنا ہے إسناد ضعيف- اس کی اسناد ضعیف ہیں۔

شعیب کی تحقیق کے مطابق سنن نسائی کی سند میں عبد الله بن أبي مليكة کا نام غلطی ہے – صحیح ابن حبان ٧١١٠ میں اسی سند سے ہے
أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى بْنِ مُجَاشِعٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعَصَّارُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ كَثِيرٍ أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ

اور یہ اصلا عبد الله بن كثير ہی ہے جو ایک مجہول ہے۔

نسائی نے اس سند کو اس طرح بھی لکھا ہے
اخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ قَالَ أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَثِيرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسٍ يَقُولُ سَمِعْتُ عَائِشَةَ
اور اپنی دوسری کتاب سنن الکبری میں کہا
خَالَفَهُ حَجَّاجٌ فَقَالَ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَيْسٍ

حجاج نے ان کی مخالفت کی اور کہا بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ

یعنی نسائی کے نزدیک یہ غلطی حَجَّاجَ کی وجہ سے آئی ہے۔ – حجاج ثقہ ہیں لیکن عبد اللہ سند میں دیکھ کر ان کو مغالطہ ہوا کہ یہ عبد اللہ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ہیں جبکہ وہ عبد الله بن كثير بن المطلب بن أبى وداعة تھا

سنن نسائی کی اس روایت میں الٹا لکھا ہے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا
‏‏‏‏‏‏قُلْتُ ‏‏‏‏ مَهْمَا يَكْتُمُ النَّاسُ فَقَدْ عَلِمَهُ اللَّهُ
میں نے کہا جو بھی لوگ چھپائیں اللہ تعالیٰ تو اس سے واقف ہی ہے۔

عائشہ رضی اللہ عنہا پر جو الزام صحیح مسلم کی روایت کے تحت لگایا گیا ہے اس روایت میں اس کا رد ہے۔ یہاں عائشہ اپنے صحیح عقیدے کا اظہار کر رہی ہیں جبکہ صحیح مسلم میں وہ صحیح عقیدے سے ناواقف ہیں اور سوال کر رہی ہیں۔

قَالَتْ مَهْمَا يَکْتُمِ النَّاسُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ ؟ نَعَمْ
کیا جو بھی لوگ چھپاتے ہیں اللہ تعالی اسے جانتا ھے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا ہاں عائشہ۔

اس طرح یہ حدیث صحیح مسلم سے الگ ہے۔

سنن نسائی میں اس کے بعد کچھ اور روایات بھی ہیں مثلا

حدیث نمبر: 2040أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ، ‏‏‏‏‏‏قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ،‏‏‏‏ عَنِ ابْنِ الْقَاسِمِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مَالِكٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ أَبِي عَلْقَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهَا سَمِعَتْ عَائِشَةَ تَقُولُ:‏‏‏‏ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَلَبِسَ ثِيَابَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ خَرَجَ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ فَأَمَرْتُ جَارِيَتِي بَرِيرَةَ تَتْبَعُهُ فَتَبِعَتْهُ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى جَاءَ الْبَقِيعَ فَوَقَفَ فِي أَدْنَاهُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقِفَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ انْصَرَفَ فَسَبَقَتْهُ بَرِيرَةُ فَأَخْبَرَتْنِي، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ أَذْكُرْ لَهُ شَيْئًا حَتَّى أَصْبَحْتُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ “إِنِّي بُعِثْتُ إِلَى أَهْلِ الْبَقِيعِ لِأُصَلِّيَ عَلَيْهِمْ”.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، اپنا کپڑا پہنا پھر (باہر) نکل گئے، تو میں نے اپنی لونڈی بریرہ کو حکم دیا کہ وہ پیچھے پیچھے جائے، چنانچہ وہ آپ کے پیچھے پیچھے گئی یہاں تک کہ آپ مقبرہ بقیع پہنچے، تو اس کے قریب کھڑے رہے جتنی دیر اللہ تعالیٰ نے کھڑا رکھنا چاہا، پھر آپ پلٹے تو بریرہ آپ سے پہلے پلٹ کر آ گئی، اور اس نے مجھے بتایا، لیکن میں نے آپ سے اس کا کوئی ذکر نہیں کیا یہاں تک کہ صبح کیا، تو میں نے آپ کو ساری باتیں بتائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “مجھے اہل بقیع کی طرف بھیجا گیا تھا تاکہ میں ان کے حق میں دعا کروں”۔

تبصرہ
یہ متنا شاذ ہے کیونکہ اس میں ہے کہ رات کے وقت بھی لونڈی ام المومنین کے پاس تھی جبکہ یہ ممکن نہیں کہ آمد النبی کے بعد کوئی حجرہ عائشہ میں رہ جائے
یہ متن بھی صحیح مسلم کی حدیث کے خلاف ہے کیونکہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جاسوسی ایک لونڈی کر رہی ہے جس کو اپنی مالکہ کا خوف ہے لیکن اللہ کا خوف نہیں ہے

سنن نسائی کی ایک تیسری روایت میں ہے

حدیث نمبر: 2041أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ وَهُوَ ابْنُ أَبِي نَمِرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلَّمَا كَانَتْ لَيْلَتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَخْرُجُ فِي آخِرِ اللَّيْلِ إِلَى الْبَقِيعِ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ “السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّا وَإِيَّاكُمْ مُتَوَاعِدُونَ غَدًا أَوْ مُوَاكِلُونَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأَهْلِ بَقِيعِ الْغَرْقَدِ”
.ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں جب جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باری ان کے یہاں ہوتی تو رات کے آخری (حصے) میں مقبرہ بقیع کی طرف نکل جاتے، (اور) کہتے: «السلام عليكم دار قوم مؤمنين وإنا وإياكم متواعدون غدا أو مواكلون وإنا إن شاء اللہ بكم لاحقون اللہم اغفر لأهل بقيع الغرقد» “اے مومن گھر (قبرستان) والو! تم پر سلامتی ہو، ہم اور تم آپس میں ایک دوسرے سے کل کی حاضری کا وعدہ کرنے والے ہیں، اور آپس میں ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے والے ہیں، اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم تم سے ملنے والے ہیں، اے اللہ! بقیع غرقد والوں کی مغفرت فرما”۔

تبصرہ
یہ متن بھی غلط و شاذ ہے کیونکہ اس میں ہے کہ جب بھی عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری اتی تو اس رات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بقیع جاتے
ہر رات قبرستان جانا دیگر روایات سے معلوم ہے کہ نہیں تھا

لب لباب یہ ہوا کہ صحیح مسلم کی روایت منکر ہے اور اسی روایت کو شب برات میں قبرستان جانے کی دلیل پر پیش کیا جاتا ہے

محشر میں بعض علماء کی سخت پکڑ ہو گی  – ام المومنین رضی اللہ عنہا   پر الزام مہنگا پڑے گا

اللہ کا حکم یاد رہے

اِذْ تَلَقَّوْنَهٝ بِاَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِكُمْ مَّا لَيْسَ لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ وَّّتَحْسَبُوْنَهٝ هَيِّنًاۖ وَهُوَ عِنْدَ اللّـٰهِ عَظِيْـمٌ (15 

جب تم اسے اپنی زبانوں سے نکالنے لگے اور اپنے مونہوں سے وہ بات کہنی شروع کردی جس کا تمہیں علم بھی نہ تھا اور تم نے اسے ہلکی بات سمجھ لیا تھا، حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بڑی بات ہے۔

وہابی عالم لکھتے ہیں

یہ عائشہ ہیں رضی اللہ عنہا یہ اس سے لا علم ہیں کہ اللہ وہ جانتا ہے جو لوگ چھپاتے ہیں اور اس لا علمی پر یہ کافر نہیں ہوئیں شیخ اسلام ابن تیمیہ کہتے ہیں اس حدیث پر یہ عائشہ ہیں رضی اللہ عنہا یہ اس سے لا علم ہیں کہ اللہ وہ جانتا ہے جو لوگ چھپاتے ہیں ؟ پس اس کا سوال انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا ہاں اور یہ دلیل ہے ہے کہ وہ عائشہ اسکو نہیں جانتی تھیں اور ان کو معرفت نہیں تھی کہ اللہ ہر اس چیز کو جانتا ہے جو لوگ چھپاتے ہیں اس لئے کافر نہیں تھیں

ابن تیمیہ مجموع الفتاوى ج ١١ ص ٤١٢ پر بحث کی ہے اور سنن نسائی کی روایت کے الفاظ نقل کیے ہیں

أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَثِيرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ …. قَالَتْ: مَهْمَا يَكْتُمُ النَّاسُ فَقَدْ عَلِمَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ؟ قَالَ: «نَعَمْ»

اور یہ سند وہی ہے جو صحیح مسلم میں ہے

البتہ صحیح مسلم میں متن میں نعم کے لفظ کو ام المومنین کے الفاظ کے ساتھ مربوط رکھا گیا ہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ نعم کا لفظ ام المومنین کے جملے کا حصہ ہے – لیکن راوی کا مدعا اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کہنا ہے جیسا کہ مختلف کتب احادیث میں متن میں دیکھ کر جانا جا سکتا ہے مثلا سنن نسائی ، سنن الکبری ، مسند احمد وغیرہ

کتاب تاریخ مدینہ از ابن شبہ میں ہے

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ الْمُطَّلِبِ، أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ [ص:88] بْنَ قَيْسٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا تَقُولُ …. قَالَتْ: مَهْمَا يَكْتُمِ النَّاسُ فَقَدْ عَلِمَهُ اللَّهُ قَالَ: «نَعَمْ

یعنی اس جملے کو سوالیہ انداز میں کئی راویوں نے بیان کیا ہے 

راوی عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ الْمُطَّلِبِ کا سیاسی مدعا

راوی  کا مدعا یہ ہے کہ آخری دور نبوی تک ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو شک تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ضرور رات کے اندھیرے میں  ماریہ قبطیہ سے ملنے گئے ہوں گے اور اس نے سورہ التحریم کی آیت کو ملا کر ایک قصہ گھڑا ہے

سورہ التحریم میں موجود ہے دو امہات المومنین (حدیث کے مطابق عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہا) نے مل کر ایک  فیصلہ کیا ( حدیث کے مطابق ماریہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے جب بھی نبی آئین  آئیں تو بولیں گی کہ شہد کی بو  آ رہی ہے اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں جانا چھوڑ دیں گے) البتہ اس کی خبر نبی کو اللہ نے دے دی تو کوئی ایک ام المومنین بولیں کس نے خبر دی ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا 

وَاِذْ اَسَرَّ النَّبِىُّ اِلٰى بَعْضِ اَزْوَاجِهٖ حَدِيْثًاۚ فَلَمَّا نَبَّاَتْ بِهٖ وَاَظْهَرَهُ اللّـٰهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهٝ وَاَعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ ۖ فَلَمَّا نَبَّاَهَا بِهٖ قَالَتْ مَنْ اَنْبَاَكَ هٰذَا ۖ قَالَ نَبَّاَنِىَ الْعَلِـيْمُ الْخَبِيْـرُ (3)

اور جب نبی نے چھپا کر اپنی کسی بیوی سے ایک بات کہہ دی، اور پھر جب اس بیوی نے وہ بات بتا دی اور اللہ نے اس کو نبی پر ظاہر کر دیا تو نبی نے اس میں سے کچھ بات جتلا دی اور کچھ ٹال دی، پس جب پیغمبر نے اس کو وہ بات جتلا دی تو بولی آپ کو کس نے یہ بات بتا دی، آپ نے فرمایا مجھے خدائے علیم و خبیر نے یہ بات بتلائی۔

راوی نے اس آیت کا استعمال کر کے قصہ گھڑا کہ باوجود اس کے کہ نبی کو الله خبر کر دیتا ہے عائشہ رضی اللہ عنہا  پھر بھی   جاسوسی کرتی ہیں کہ ممکن ہے نبی ان کی باری کے دن ماریہ کے ہاں گئے ہوں اور پھر لا علمی کا اظہار کیا  کہ جو لوگ چھپاتے ہیں کیا اس کو اللہ جانتا ہے ؟ اس طرح یہ روایت  تنقیص عائشہ سے محمول ہے 

ماریہ والا واقعہ کب ہوا معلوم نہیں ہے جس میں شہد رسول اللہ نے اپنے اوپر حرام کیا  البتہ شہدائے احد کے لئے بقیع جانا بالکل آخری دور کی بات  ہے  – اس طرح راوی کا مقصد یہ ہے کہ بیان کیا جائے کہ آخری ایام تک ام المومنین عائشہ  اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے  شک و شبہ کا شکار رہیں

 

يا سارية الجبل روایت

 أبو القاسم هبة الله بن الحسن بن منصور الطبري الرازي اللالكائي (المتوفى: 418هـ) کی شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة  میں روایت کیا گیا ہے کہ

أنا الْحَسَنُ بْنُ عُثْمَانَ قَالَ: أنا أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ حَمْدَانَ، قَالَ: نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ، قَالَ: نا أَبُو عَمْرٍو الْحَارِثُ بْنُ  مِسْكِينٍ الْمِصْرِيُّ، قَالَ: أنا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ “، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ بَعَثَ جَيْشًا أَمَّرَ عَلَيْهِمْ رَجُلًا يُدْعَى سَارِيَةَ. قَالَ: فَبَيْنَا عُمَرُ يَخْطُبُ النَّاسَ يَوْمًا، قَالَ: فَجَعَلَ يَصِيحُ، وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ: «يَا سَارِيَ الْجَبَلَ، يَا سَارِيَ الْجَبَلَ» . قَالَ: فَقَدِمَ رَسُولُ الْجَيْشِ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: ” يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، لَقِينَا عَدُوَّنَا فَهَزَمْنَاهُمْ، فَإِذَا بِصَائِحٍ يَصِيحُ: «يَا سَارِيَ الْجَبَلَ، يَا سَارِيَ الْجَبَلَ» ، فَأَسْنَدْنَا ظُهُورَنَا بِالْجَبَلِ، فَهَزَمَهُمُ اللَّهُ “. فَقِيلَ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ: «إِنَّكَ كُنْتَ تَصِيحُ بِذَلِكَ» قَالَ ابْنُ عَجْلَانَ: وَحَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ بِذَلِكَ

يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ نے محمد بن عجلان سے روایت کیا  کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب نے ایک لشکر بھیجا اور اس کا سالار ایک مرد ساریہ کو بنایا۔ ایک دن  خطبہ کے دوران عمر  نے یکایک یہ پکارنا شروع کر دیا  اے ساریہ پہاڑ- پہاڑ- اس طرح تین مرتبہ کہا۔ پھر اس لشکر کا خبری  مدینہ آیا۔ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس لشکر کا حال دریافت کیا تو اس نے کہا کہ اے امیر المومنیین ہم لوگ شکست کھا گئے اور اس شکست کی حالت میں تھے کہ ہم نے یکایک ایک آواز سنی جس نے تین بار کہا کہ اے ساریہ پہاڑ کی طرف رخ کرو۔ ہم نے پشت پہاڑ سے لگا دی اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے دشمن کو شکست دیدی۔ لوگوں نے کہا کہ اے امیر المومنین آپ ہی تو تھے جو اس طرح چیخے تھے۔ ابن عجلان نے کہا ایسا ہی إِيَاسُ بْنُ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ نے بھی بیان کیا

تخریج روایت :   دلائل النبوة للبيهقي،حديث نمبر 2655  میں ، جامع الأحاديث للسيوطي،حرف الياء   فسم الافعال،مسند عمر بن الخطاب، حديث نمبر 28657  میں ،   الإصابة في معرفة الصحابة،لابن حجر العسقلاني،القسم الأول ،السين بعدها الألف ،   ابن الأعرابي في كرامات الأولياء والديرعاقولي في فوائده وأبو عبد الرحمن السلمي في الأربعين وأبو نعيم   في الدلائل واللالكائي في السنة ، قال الحافظ ابن حجر في الإصابة: إسناده حسن

 

محدثین متاخرین کی رائے

فتح الباری کے مولف ابن حجر نے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے

زرکشی لکھتے  ہیں
وَقد افرد الْحَافِظ قطب الدّين عبد الْكَرِيم الْحلَبِي لهَذَا الحَدِيث جُزْءا ووثق رجال هَذِه الطَّرِيق
حافظ قطب الدین حلبی نے اس اثر پر مستقل رسالہ تصنیف کیا ہے ، جس میں اس واقعہ کے سارے طرق جمع کیے ہیں ، اور اس طریق کے تمام رجال کو ثقہ قرار دیا ہے ۔
التذكرة في الأحاديث المشتهرة = اللآلئ المنثورة في الأحاديث المشهورة   میں  سیوطی کہتے  ہیں
وألف القطب الحلبي في صحته جزءاً.
قطب الحلبی نے مستقل رسالے میں اس کی صحت کو ثابت کیا ہے ۔

صوفیاء کی رائے

  یہ روایت پھیلی اور محدثین نے اس کو قبول کیا اور سند کو حسن جید سب کہہ ڈالا –  دوسری طرف اہل طریقت  جن کو  اہل معرفت بھی کہا جاتا ہے ان  متصوفین کے نزدیک  روحانی تصرف   ہر کسی کے   بس کی بات نہیں جب اللہ چاہتا تو اسباب پیدا فرماتا ہے –  جیسا کہ اس اثر سے وضاحت ہوتی ہے  – مزید براں اس اثر سے صوفیاء کے ہاں  ثابت ہوتا ہے  کہ بذریعہ کشف غائب سے رہنمائی مل  سکتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ صاحب کشف اپنے کشف سے اجتماعی طور پر دوسروں کی رہبری کر سکتا ہے

ابن تیمیہ کی رائے

اولیاء الله کو کشف ممکن ہے – آٹھویں صدی کے نام نہاد سلفی محقق ابن تیمیہ کتاب  مجموعة الرسائل والمسائل میں لکھتے ہیں

وأما المعجزات التي لغير الأنبياء من باب الكشف والعلم فمثل قول عمر في قصة سارية، وأخبار أبي بكر بأن ببطن زوجته أنثى، وأخبار عمر بمن يخرج من ولده فيكون عادلاً. وقصة صاحب موسى في علمه بحال الغلام، والقدرة مثل قصة الذي عنده علم من الكتاب. وقصة أهل الكهف، وقصة مريم، وقصة خالد بن الوليد وسفينة مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي مسلم الخولاني، وأشياء يطول شرحها. فإن تعداد هذا مثل المطر. وإنما الغرض التمثيل بالشيء الذي سمعه أكثر الناس. وأما القدرة التي لم تتعلق بفعله فمثل نصر الله لمن ينصره وإهلاكه لمن يشتمه.

اور جہاں تک معجزات غیر انبیاء کے علم و کشف کے باب میں ہے تو اس کی مثال ساریہ کا عمر والا قصہ ہے  — ان قصوں کی تعداد اس قدر ہے جیسے بارش

اپنی دوسری کتابوں النبوات، قاعدة عظيمة في الفرق بين عبادات أهل الإسلام والإيمان وعبادات أهل الشرك والنفاق، الفرقان بين أولياء الرحمن وأولياء الشيطان، منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية   میں ابن تیمیہ نے اس کا کئی بار اس قصہ کا  ذکر کشف کی دلیل کے طور پر   کیا

بلکہ دقائق التفسير الجامع لتفسير ابن تيمية میں وضاحت کرتے ہیں

وَعمر رَضِي لما نَادَى يَا سَارِيَة الْجَبَل قَالَ إِن لله جُنُودا يبلغون صوتي وجنود الله هم من الْمَلَائِكَة وَمن صالحي الْجِنّ فجنود الله بلغُوا صَوت عمر إِلَى سَارِيَة وَهُوَ أَنهم نادوه بِمثل صَوت عمر

اور عمر نے جب ساریہ کو پہاڑ کی ندا کی تو کہا الله کے  لشکر ہیں جو میری آواز لے کر جاتے ہیں اور الله کے لشکر فرشتے ہیں اور نیک جنات پس الله کے لشکروں نے عمر کی آواز ساریہ تک پہنچائی اور وہ ان کو آواز دیتے تھے عمر کی آواز کی طرح

ابن قیم کی رائے

ابن قیم کتاب میں مدارج السالکین میں لکھتے ہیں

 والكشف الرحماني من هذا النوع: هو مثل كشف أبي بكر لما قال لعائشة رضي الله عنهما: إن امرأته حامل بأنثى. وكشف عمر- رضي الله عنه- لما قال: يا سارية الجبل، وأضعاف هذا من كشف أولياء الرحمن

اور کشف رحمانی یہ ہے ، جس طرح کہ ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ کہا کہ ان کی بیوی کو بچی حمل ہے ، اور اسی طرح عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا کشف جب کہ انہیوں نے یا ساریـۃ الجبل کہا تھا یعنی اے ساریہ پہاڑ کی طرف دھیان دو ، تو یہ اللہ رحمن کے اولیاء کے کشف میں سے ہے۔

البانی کی رائے

محمد بن عجلان نے   یہ  روایت  یاس بن معاویہ بن قرۃ سے بھی سماعت کی ہے ۔  لالکائی کی شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة میں ایک مقام پر ہے قَالَ ابْنُ عَجْلَانَ: وَحَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ بِذَلِكَ – ابن عجلان نے کہا اس اثر کو إِيَاسُ بْنُ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ نے بھی ایسا ہی روایت کیا – اس بنا پر اس کو ابن عجلان کے طرق سے البانی نے صحیح قرار دیا –  البانی  نے  تحقيق الآيات البينات في عدم سماع الأموات (ص: 112) میں اس اثر کی سند کو جید حسن کہا  اور  سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها (3/ 101۔104)     میں اس پر طویل گفتگو کی ہے ، اور اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ یہ واقعہ صرف ابن عجلان کی سند سے صحیح ہے
 قلت: …. فتبين مما تقدم أنه لا يصح شيء من هذه الطرق إلا طريق ابن عجلان وليس فيه إلامناداة عمر ” يا سارية الجبل ” وسماع الجيش لندائه وانتصاره بسببه.ومما لا شك فيه أن النداء المذكور إنما كان إلهاما من الله تعالى لعمر وليس ذلك بغريب عنه، فأنه ” محدث ” كما ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم ولكن ليس فيه أن عمر كشف له حال الجيش، وأنه رآهم رأي العين

میں البانی کہتا ہوں : پس کے واضح ہوا کہ اس سلسلے میں ایک ہی طرق صحیح ہے جو ابن عجلان کی سند سے ہے اور اس میں عمر کی پکار کا ذکر ہے کہ يا سارية الجبل اور لشکر کا اس آواز کو سننا اور اس کے سبب مدد پانا تو اس میں شک نہیں کہ یہ الہام میں سے ہے جو الله تعالی نے عمر کو کیا اور اس میں کوئی عجیب بات بھی نہیں کیونکہ وہ محدث ہیں جیسا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے اور اس میں یہ نہیں ہے کہ  عمر پر لشکر کا حال کشف ہوا اور انہوں نے اس کو آنکھوں سے دیکھا

ڈاکٹر عثمانی کی رائے

سن ١٩٨٠کی  دہائی میں رجل مومن ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ نے ایک ضعیف روایت یا ساریہ کا  کتاب مزار یا میلے میں رد کیا-

زبیر علی زئی کی رائے

سن ١٩٩٠ کی دہائی میں اہل حدیث عالم زبیر علی زئی میں بھی ہمت پیدا ہوئی کہ اس اثر کا رد کر سکیں

وہابیوں کی رائے

تقریبا تمام  معروف  وہابی علماء اس اثر کو صحیح قرار دیتے ہیں

محمد بن صالح العثيمين  اس اثر کو مشھور قرار ہے اور اولیاء الله کی کرامت قرار دیا

https://www.youtube.com/watch?v=N6k1EtknPE0

 السؤال: ما حكم الشرع فيما يروى أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه رأى سارية , وهو يخطب على المنبر في المعركة في موقف حرج مع الأعداء, فقال له: يا سارية الجبل! هل هذه القصة حقيقة حدثت, أم من الخيال؟ الجواب: هذه القصة مشهورة عن أمير المؤمنين عمر رضي الله عنه أنه كان يخطب الناس يوم الجمعة على منبر النبي صلى الله عليه وسلم, وكان سارية بن زنيم رضي الله تعالى عنه قائداً لإحدى السرايا في العراق, فحصر الرجل, فأطلع الله تعالى أمير المؤمنين عمر على ما أصابه, فخاطبه عمر من المنبر, وقال له: يا سارية ! الجبل, يعني: اصعد الجبل أو لذ بالجبل أو ما أشبه ذلك من التقديرات, فسمعه سارية فاعتصم بالجبل فسلم, ومثل هذه الحادثة تعد من كرامات الأولياء, فإن للأولياء كرامات يجريها الله تعالى على أيديهم تثبيتاً لهم ونصرة للحق, وهي موجودة فيما سلف من الأمم وفي هذه الأمة, ولا تزال باقية إلى يوم القيامة, وهي أمر خارق للعادة يظهره الله تعالى على يد الولي تثبيتاً له وتأييداً للحق, ولكن يجب علينا الحذر من أن يلتبس علينا ذلك بالأحوال الشيطانية من السحر والشعوذة وما أشبهها؛ لأن هذه الكرامات لا تكون إلا على يد أولياء الله, وأولياء الله عز وجل هم المؤمنون المتقون؛ قال الله عز وجل: أَلا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [يونس:62] قال شيخ الإسلام رحمه الله أخذاً من هذه الآية: من كان مؤمناً تقياً كان لله ولياً, وليست الولاية بتطويل المسبحة, وتوسيع الكم, وتكبير العمامة, والنمنمة, والهمهمة, وإنما الولاية بالإيمان والتقوى, فيقاس المرء بإيمانه وتقواه لا بهمهمته ودعواه. بل إني أقول: إن من ادعى الولاية فقد خالف الولاية؛ لأن دعوى الولاية معناه تزكية النفس, وتزكية النفس معصية لله عز وجل, والمعصية تنافي التقوى؛ قال الله تعالى: هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنشَأَكُمْ مِنَ الأَرْضِ وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ فَلا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى [النجم:32]، ولا نعلم أحداً من أولياء الله المؤمنين المتقين قال للناس: إني أنا ولي, فاجتمعوا إلي, وخذوا من بركاتي ودعواتي وما أشبه ذلك, لا نعلم هذا إلا عن الدجالين الكذابين الذين يموهون على عباد الله ويستخدمون شياطين الجن للوصول إلى مآربهم. وإن نصيحتي لأمثال هؤلاء أن يتقوا الله عز وجل في أنفسهم وفي عباد الله, ونصيحتي لعباد الله أن لا يغتروا بهؤلاء وأمثالهم.

دائمی کمیٹی کا فتوی

سعودی دائمی کیمٹی کے پانچ علماء کا متفقہ فتوی ہے

فتاوى اللجنة الدائمة  الجزء رقم : 26، الصفحة رقم  41 پر

تصفح برقم المجلد > المجموعة الأولى > المجلد السادس والعشرون (كتاب الجامع 3) > السيرة > قول عمر رضي الله عنه يا سارية الجبل
الفتوى رقم ( 17021 )س: جاء محاضر إلى مدرستنا، وكانت المحاضرة عن كرامات الأولياء والصالحين ، وقال في محاضرته: كان عمر بن الخطاب يخطب على المنبر، فنادى السارية التي أرسلها للحرب، فقال: (يا سارية الجبل) فسمعت السارية كلامه فانزاحت إلى الجبل. علمًا بأن   بينهما مسافة بعيدة، هل هذه الرواية صحيحة أم خطأ، وهل هي من الكرامات؟
ج : هذا الأثر صحيح عن عمر رضي الله عنه، ولفظه: أن عمر رضي الله عنه، بعث سرية فاستعمل عليهم رجلاً يدعى سارية ، قال: فبينا عمر يخطب الناس يومًا قال: فجعل يصيح وهو على المنبر: يا سارية الجبل، يا سارية الجبل، قال فقدم رسول الجيش، فسأله فقال: يا أمير المؤمنين لقينا عدونا فهزمنا، فإذا بصائح يصيح: يا سارية الجبل، فأسندنا ظهورنا بالجبل فهزمهم الله.
رواه أحمد في (فضائل الصحابة)،  وأبو نعيم في (دلائل النبوة)  والضياء في (المنتقى من مسموعاته) وابن عساكر في (تاريخه) والبيهقي في (دلائل النبوة) وابن حجر في (الإصابة) وحسن إسناده،  ومن قبله ابن كـثير في (تاريخه) قال: إسناد جيد حسن، والهيثمي في (الصواعق المحرقـة) حسن إسناده أيضًا –  وهذا إلهام من الله سبحانه، وكرامة لعمر رضي الله عنه، وهـو المحدث الملهم، كما ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم، وليس في الأثر أنه رضي الله عنه كشف له عن الجيش وأنه رآه رأي العيـن إلى غير ذلك من الروايات الضعيفة التي يتعلق بها غلاة المتصوفة في الكشف، واطلاع المخلوقين على الغيب، وهذا باطل؛ لأن الاطلاع على الغيب من صفات الله سبحانه وتعالى، وما ذكر في السؤال أعلاه مـن أن عمر رضي الله عنه نادى السارية التي أرسلها للحرب فسمعت السـارية كلامه فانزاحت للجبل، فهذا جهل في معنى الحديث.وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء​

 عضوالرئيس : بكر أبو زيد –  عبد العزيز آل الشيخ –  صالح الفوزان –  عبد الله بن غديان –  عبد العزيز بن عبد الله بن باز

سوال: ہمارے مدرسے میں کرامت اولیاء پر تقریر ہوئی اس میں مقرر نے اثر بیان کیا کہ  عمر رضی الله عنہ کا قول یا ساریہ پہاڑ  جنگ کے دوران … اور عمر اور ساریہ میں مسافت بہت دور تھی تو کیا یہ روایت صحیح ہے یا غلطی ہوئی یا یہ کرامت ہے ؟

جواب : یہ اثر صحیح ہے عمر رضی الله عنہ کے حوالے سے  اور اس کے الفاظ ہیں کہ عمر رضی الله عنہ نے ایک سریہ بھیجا اس پر سالار ایک مرد کو کیا جس کا نام ساریہ تھا- اور عمر اس دوران کہ وہ خطبہ دے رہے تھے ایک دن وہ چیخے اور وہ منبر پر تھے اے ساریہ پہاڑ ، اے ساریہ پہاڑ – پس جب لشکر کا خبری آیا اس سے سوال ہوا – اس نے کہا امیر المومنین ہمارے دشمن نے ہم کو شکست دی یہاں تک کہ ہم نے ایک چیخ سنی کہ اے ساریہ پہاڑ پس ہم نے اپنی پیٹھ اس کے ساتھ کر دی اور الله نے دشمن کو شکست دی – اس کو احمد نے ، ابو نعیم نے الضیاء نے ابن عساکر نے بیہقی نے ابن حجر نے روایت کیا ہے –ابن حجر نے اس کو حسن قرار دیا ہے اور ان سے قبل ابن کثیر نے تاریخ میں اسکو اسناد جید حسن کہا ہے اور ہیثمی نے بھی اسناد حسن کہا ہے اور یہ الله تعالی کا الہام تھا اور عمر کی کرامت تھی اور وہ   الہام پانے  والوں میں  تھے  جیسا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے – اور اس اثر میں یہ نہیں ہے کہ لشکر کا کشف ان پر اس طرح ہوا کہ وہ آنکھ سے  دیکھ رہے  تھے جو ضعیف روایات میں ہے جو کشف کے سلسلے میں غالی صوفیوں نے اس میں متعلق کر دی ہیں- اور مخلوق کی خبر غیب میں سے ہے اور یہ باطل ہے کیونکہ غیب کی خبر پانا اللہ کی صفات میں سے ہے اور جو سوال میں ذکر ہوا کہ عمر نے ساریہ کو پکارا جس کو جنگ میں بھیجا تھا اور ساریہ نے اس کو سنا تو یہ حدیث کے معنوں میں جھل ہے  .وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم

وہابی عالم صالح المنجد بھی اس کو صحیح سمجھتے ہیں

https://islamqa.info/ur/12778

عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ جو واقعہ ہوا وہ ثابت اور صحیح ہے ، نافع بیان کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک لشکر پر ساریہ نامی شخص کو امیر بنایا ، عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہما خطبہ جعمہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اچانک کہنے لگے ” اے ساریہ پہاڑ ، اے ساریہ پہاڑ ” تو انہوں نے ایسا پایا کہ جمعہ کے دن اسی وقت ساریہ نے پہاڑ کی جانب حملہ کیا تھا حالانکہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہما اور ساریہ کے درمیان ایک مہینہ کی مسافت تھی ۔مسند احمد فضائل صحابہ ( 1/ 269 ) اور علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اسے سلسلہ الصحیحہ میں صحیح کہا ہے ( 1110 )

تویہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہما کی کرامت ہے یا تو الہام اور آواز کا پہنچنا – یہ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کی راۓ ہے – یا پھر کشف نفسانی اور آواز کا پہنچنا – اس پر شیخ البانی رحمہ اللہ کی کلام آگے آۓ گی – تو دونوں حالتوں میں بلا شک وشبہ یہ کرامت ہے ۔

اہل حدیث کی جدید رائے

عصر حاضر کے اہل حدیث   عالم  غلام مصطفی ظہیر اس روایت  کو صحیح قرار دیتے ہیں

https://www.facebook.com/muhammed.kashif.796/videos/794954507276957/

 فتاویٰ الدین الخالص، امین پشاوری (ج1ص212) میں ہے

راقم کہتا ہے ابن عجلان جس کے طرق سے اس روایت کو پیش و قبول کیا گیا ہے اس کے بارے میں امام مالک نے کہا تھا کہ  اس کو حدیث کا کوئی علم نہیں – کتاب  الضعفاء الكبير از امام  العقيلي المكي (المتوفى: 322هـ) کے مطابق

فَقَالَ: لَمْ يَكُنْ يَعْرِفُ ابْنُ عَجْلَانَ هَذِهِ الْأَشْيَاءَ، وَلَمْ يَكُنْ عَالِمًا، 

 امام مالک نے کہا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ کو ان چیزوں کا اتا پتا نہیں ہے اور نہ ہی کوئی عالم ہے

راقم اس سلسلے میں امام مالک  کی رائے سے اتفاق کرتا ہے کہ یہ اثر قابل قبول نہیں ہے

یہ بھی معلوم ہوا کہ غالی شیعوں کی طرح غالی اہل سنت کا ایک طبقہ موجود تھا جس کا ذکر کھل کر نہیں کیا گیا