Category Archives: جنات – Jinn (Unseen creatures)

کتاب جنات 

[wpdm_package id=’8964′]

[wpdm_package id=’8852′]

اس کتاب  میں جنات  و شیاطین  سے متعلق  روایات  کو یکجا  کیا گیا ہے – عوام  الناس    میں  جنات ، قرین ، ہمزاد    وغیرہ   کے نام سے ان کو    جانا جاتا ہے –   جنات کو قبضہ  میں کرنے  کا پیر   و فقیر    دعوی  بھی  کرتے ہیں –

جن    ایک  وقت   تھا   ،    جب  زمین سے جنت         تک  چلے جاتے تھے   جیسا  قرآن میں ہے   کہ سرکشی  پر ابلیس  کو  حکم  دیا گیا     اخرج  منها    یعنی   نکل   یہاں سے –   مہلت  ملنے   کے بعد   بھی     ابلیس   کو      واپس جنت  میں داخل   ہونے دیا گیا  تاکہ آدم و حوا علیھما السلام  کو بہکا سکے   کیونکہ یہ وعدہ الہی کی عملی شکل تھا –   اس کے بعد  جب آدم ، حوا  اور ابلیس   کو زمین پر بھیج دیا گیا   تو   اب  شیاطین   پر پابندی  ہے کہ وہ آسمان  اول  تک  بھی جا سکیں –  اب یہ  شیاطین  ،       کاہنوں کی مدد کرنے   آسمان پر جاتے   ضرور   ہیں  تاکہ  کچھ سن لیں   لیکن  یہ   رسائی    آسمان  اول  نہیں ہوتی     بلکہ اس سے بہت نیچے کا کوئی مقام ہوتا ہے   –  سورہ الرحمن  آیت  ٣٣ میں ذکر ہے کہ  زمین کے گرد  ا قطار  الارض  ہے  جس کو پار کرنا  جنات  کے بس و قوت میں نہیں     –    لہذا  جب  جنات   ان   ا قطار  الارض   کے پاس پھٹکتے   ہیں تو     فرشتے  ان کو     دیکھ  کر  ان  پر     شہاب  ثاقب       پھینکتے   ہیں –   دور نبوی  میں   اس  پہرہ  کو   شدید  سخت کر دیا گیا   تاکہ  جنات،   فرشتوں کی  کوئی سن گن نہ  لے سکیں – کاہنوں   کا دھندہ  ٹھپ  ہو گیا  اور   جنات  میں سراسیمگی  پھیل  گئی کہ زمین  پر  شاید   کوئی   بڑا عذاب  آنے  والا ہے   یہاں تک کہ سورہ الجن میں خبر ہے کہ جنوں نے قرآن سنا تو ان کو معاملہ سمجھ آیا –

اس کتاب  میں آپ کو   جنات  پر      بعض     عجیب و غریب روایات  پڑھنے کو ملیں گی  جن کو علماء  کتب میں لکھ  کر سند جواز  دے دیتے ہیں  یا تصحیح  کر بیٹھے  ہیں  –قرآن و  حدیث سے سحر  اور کہانت  کا وجود  ثابت  ہے   ، جس میں شیاطین  کے ذریعہ   اس  ممنوعہ  عمل کو کیا جاتا ہے –     لیکن  جہاں تک ان  باتوں   کا تعلق  ہے کہ جنات   انسان کو اغوا  کرتے ہیں ، قتل  کرتے ہیں ، شکل و ہیت بدلتے   ہیں    ،  انسان پر بیماری  نازل    کرتے ہیں، چوریاں  کرتے ہیں ، انسان سے زنا کرتے ہیں ،    تو    ان   کے دلائل   بہت بودے   ہیں-

   یہودی و نصرانی       ادیان  میں ابلیس کو سانپ     بھی  کہا   گیا ہے-  یہود   کا قول ہے کہ   شیطان   ایک فرشتہ  ہے –  نصرانییوں    کا قول  ہے کہ  شیطان  انسانی و حیوانی جسم میں چلا جاتا ہے   –  البتہ   اسلام   میں ان مفروضات کی کوئی گنجائش  نہیں ہے  –  راقم  کی ایک تصنیف     بعنوان   آسیب   چڑھنا    اس  ویب  پر موجود ہے – ڈریگن    (یعنی    اڑتے  سانپ )  کو دنیا  میں بہت سے مقام پر پوجا جاتا تھا   اور اس کو   مثبت    انداز  میں    فلموں میں  دکھایا   جاتا ہے – آج   بھی     مشرک  قوموں میں سانپوں  کی پوجا   ہوتی   ہے   – یہاں تک کہ ازمنہ  قدیم   میں      فراعنہ  مصر   کے سر   پر تاج  میں بھی سانپ   کی شکل موجود  تھی -قابل  غور ہے کہ موسی  علیہ  السلام   کا عصا    بھی  ایک سانپ   کی صورت لیتا تھا    اور   اللہ   کی نشانی  تھا   -یعنی   اللہ تعالی   نے ظاہر   کیا کہ  اس کی   مخلوقات    ،    اس کی ہی  مطیع   ہیں – تفسیری  کتب  میں اسرائیلات   کی وجہ سے  یہ بات مشہور ہو  گئی   ہے کہ   آدم علیہ  السلام کو  ایک سانپ  نے  بہکایا  اور ابلیس   ، سانپ کی شکل میں ان کے پاس  آیا – یہ  خبر  منکر ہے   –

بہت سے علماء  بد روحوں کے قائل  ہیں  مثلا سلفی  عالم   عبد الرحمان  کیلانی-  اسی طرح ایک کثیر   تعداد  آسیب چڑھنے اور جنات  سوار  ہو جانے کا عقیدہ رکھتی ہے – یہ سب  منکرات   عقائد  ہیں  – راقم کی ایک مکمل  تصنیف   اس عقیدہ کے رد  میں پہلے سے موجود ہے

اللہ  ہم سب کو ہدایت دے امین

ابو   شہر یار

٢٠١٩

عقیدہ آسیب چڑھنا

 

[wpdm_package id=’8852′]

معاشرے میں پھیلے ہوئے توہمات کی وجہ سے جرائم پیشہ افراد اس مقام تک آ چکے ہیں کہ اپنے جرائم  کو جنات کے زیر اثر قرار دے رہے ہیں –   افسوس کہ بعض   علماء اس میں ان  مجرمین کے ہمنوا بن گئے کہ ہاں واقعی جن چڑھتا ہے  جرائم کراتا ہے اور  یہ شریعت میں  ممکن ہے- واضح رہے کہ شیطان کا ورغلانا تو قرآن میں بیان ہوا ہے لیکن اس کا جسم میں داخل ہو نا یہاں تک کہ عدالت میں   مجرم کو قابل  سزا  نہ گردانا جائے   بلکہ جن کو سزا وار قرار دیا جائے  یہ قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہے  –  ان علماء کی تفسیری موشگافیوں کی وجہ سے قرآن کی واضح آیات میں التباس پیدا ہو جاتا ہے جس کی طرف اس مضمون میں نشاندہی کی  گئی ہے – زیر نظر مضمون انہی توہمات کے خاتمہ کی طرف ایک ادنی سی کوشش ہے جس میں عقیدہ آسیب یا جن چڑھنا پر بحث کی گئی ہے –

جنات

جواب

قرآن كا فیصلہ ہےإنه يراكم هو وقبيله من حيث لا ترونهم إنا جعلنا الشياطين أولياء للذين لا يؤمنون ( 27

بے شک یہ (ابلیس) اور اس کا گروہ تمہیں دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے

اس کے برعکس ابن تیمیہ فتاوی میں کہتے ہیں

إذْ وُجُودُهُمْ ثَابِتٌ بِطُرُقِ كَثِيرَةٍ غَيْرِ دَلَالَةِ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ فَإِنَّ مِنْ النَّاسِ مَنْ رَآهُمْ وَفِيهِمْ مَنْ رَأَى مَنْ رَآهُمْ وَثَبَتَ ذَلِكَ عِنْدَهُ بِالْخَبَرِ وَالْيَقِينِ. وَمِنْ النَّاسِ مَنْ كَلَّمَهُمْ وَكَلَّمُوهُ وَمِنْ النَّاسِ مَنْ يَأْمُرُهُمْ وَيَنْهَاهُمْ وَيَتَصَرَّفُ فِيهِمْ: وَهَذَا يَكُونُ لِلصَّالِحِينَ وَغَيْرِ الصَّالِحِينَ

ان  (جنات) کا وجود کتاب سنت کے علاوہ بھی بہت سے طرق سے ثابت ہے کیونکہ لوگوں میں سے کچھ نے ان کو دیکھا ہے — کچھ نے کلام کیا ہے

اس کے برعکس امام الشافعی کا قول ہے

من زعم من أهل العدالة أنّه يرى الـجن ردّت شهادته

جس نے اہل عدالت میں سے یہ دعوی کیا کہ اس نے جن دیکھا تو اس کی شہادت رد کر دو

بحوالہ مناقب امام الشافعی

حدیث میں ہے کہ ابو ہریرہ نے شیطان کو انسانی چور کی صورت دیکھا نہ کہ اس کی اصلی شکل میں – آیت الکرسی کی فضلت کے حوالے سے یہ مخصوص حدیث متنا منکر ہے – اس کی سند ہے عُثْمَانُ بْنُ الهَيْثَمِ أَبُو عَمْرٍو، حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

اور اس میں عُثْمَانُ بْنُ الهَيْثَمِ أَبُو عَمْرٍو کا تفرد ہے  جو بصری ہے

قال الساجي: صدوق، ذكر عند أحمد بن حنبل، فأومأ إلى أنه ليس بثبت، وهو من الأصاغر الذين حدثوا عن ابن جريج وعوف، ولم يحدث عنه. «تهذيب التهذيب» 7/ (312) .

الساجی نے کہا  .. میں نے امام احمد سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے اس کو غیر مضبوط قرار دیا اور کہا یہ الأصاغر میں سے ہے جو عوف سے روایت کرتا ہے

دارقطنی نے اس کو كثير الخطأ قرار دیا ہے اور بندار اس کی حدیث نہیں لکھتے تھے    الكواكب النيرات في معرفة من الرواة الثقات از ابن  الكيال (المتوفى: 929هـ) کے مطابق آخری عمر میں یہ مختلط بھی تھا

قال أبو حاتم: صدوق غير انه بأخرة كان يتلقن ما يلقن

ابو حاتم نے کہا صدوق ہے لیکن آخر میں جو بھی ملتا اس کو بیان کر دیتا

اسی طرح  الاغتباط بمن رمي من الرواة بالاختلاط از  المؤلف: برهان الدين الحلبي أبو الوفا   (المتوفى: 841هـ) میں بھی اس کو مختلط لکھا گیا ہے

آیت الکرسی کی فضیلت  کے حوالے سے حدیث بیان کرنے میں اس کا تفرد ہے اور اس کا متن منکر ہے

قابل غور ہے کہ امام بخاری نے حدثنا یا اخبرنا سے یہ روایت نہیں لی بلکہ  وَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ الهَيْثَمِ أَبُو عَمْرٍو سے لی  ہے اور محدثین کا کہنا یہ اس وجہ سے ہے جب ان کو سند پر کچھ احتمال ہو تو ایسا کرتے ہیں – راقم کے نزدیک یہ مذاکرے کی بات ہے اس لئے قال لنا ہے اور ممکن ہے امام بخاری نے شاگرد کو سنائی ہو اور صحیح الجامع کے متن میں سے ہے یہ امام کی مراد نہ ہو – صحیح میں ایک روایت پر امام بخاری نے کہا  وقال لي علي بن عبد اللَّه –  جب امام بخاری و قال لنا یا قال لی کہتے ہیں تو اس کی یہ وجہ بیان کی گئی ہے
منذری کا کہنا ہے
فقال: وقال لي علي بن عبد اللَّه -يعني ابن المديني- فذكره- وهذه عادته فيما لم يكن على شرطه،

امام بخاری نے کہا ہے : مجھ سے کہا امام علی یعنی ابن المدینی نے اور ذکر کیا اور یہ ان کی عادت ہے کہ جب روایت ان کی شرط پر نہیں ہوتی

یعنی یہ آیت الکرسی والی روایت جامع الصحیح کی وہ روایت نہیں جو امام بخاری کی شرط پر صحیح ہے – البتہ لوگوں نے اس کو ایسی صحیح سمجھ لیا ہے کہ گویا اس میں سب ثابت ہے

اس کی سند میں  عوف بن أبى جميلة  بھی ہے جو بصری ہے لیکن

قال بندار كان قدريا رافضيا شيطانا

بندار کہتے قدری رافضی شیطان ہے

محمد بن بشار بن عثمان  أبو بكر العبدي البصري بندار المتوفی ٢٥٢ ھ کے نزدیک اس کی سند میں دونوں بصری متروک ہیں  – بندار خود بھی بصری ہیں اور اہل شہر  بصرہ کی اس منفرد روایت کو رد کرتے تھے

باقی بعض لوگوں کا انبیاء کے دیکھنے سے دلیل لینا صحیح نہیں کیونکہ ان کو جو دکھایا جاتا ہے وہ ان کے لئے خاص ہے

وَخْزُ أَعْدَائِكُمْ مِنَ الْجِنِّ

طاعون  دشمن جنوں کی سوئی ہے

 الجامع الصغیر و قال البانی صحیح

جواب
منکر ہے
طبرانی کبیر میں ہے
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بن إِبْرَاهِيمَ بن يَزْدَادَ الطَّبَرَانِيُّ الْخَطِيبُ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بن أَيُّوبَ النَّصِيبِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بن عِصْمَةَ النَّصِيبِيُّ ، عَنْ بِشْرِ بن حَكَمٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بن أَبِي حُرَّةَ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ : فَنَاءُ أُمَّتِي فِي الطَّعْنِ وَالطَّاعُونِ ، قُلْنَا : قَدْ عَرَفْنَا الطَّعْنَ فَمَا الطَّاعُونُ ؟ ، قَالَ : وَخْزُ أَعْدَائِكُمْ مِنَ الْجِنِّ ، وَفِي كُلٍّ شَهَادَةٌ ، لَمْ يَرْوِهِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بن أَبِي حُرَّةَ ، إِلا بِشْرٌ ، وَلا عَنْ بِشْرٍ ، إِلا عَبْدُ اللَّهِ بن عِصْمَةَ
سند میں إِبْرَاهِيمَ بن أَبِي حُرَّةَ ضعیف ہے
——مسند احمد میں اور دیگر کتاب میں ابو موسی رضی الله عنہ سے منسوب ہےدارقطنی نے علل میں بحث کی ہے
وسئل عن حديث كردوس عن المغيرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال قال فناء أمتي بالطاعون والطعن فقال يرويه زياد بن علاقة واختلف عنه
فرواه أبو أحمد الزبيري عن الثوري عن زياد بن علاقة عن كردوس عن المغيرةورواه إسماعيل بن زكريا عن مسعر والثوري عن زياد بن علاقة عن كردوس عن أبي موسىورواه وكيع عن الثوري ورواه أبو بكر النهشلي عن زياد بن علاقة عن أسامة بن شريك عن أبي موسىورواه أبو حنيفة عن زياد بن علاقة عن عبد الله بن الحارث عن أبي موسىورواه سعاد بن سليمان عن زياد بن علاقة عن يزيد بن الحارث عن أبي موسىورواه أبو شيبة إبراهيم بن عثمان عن زياد بن علاقة عن اثنى عشر رجلا من بني ثعلبة عن أبي موسىورواه الحكم بن عتيبة عن زياد بن علاقة عن رجل من قومه لم يسمه عن أبي موسى
زياد بن علاقة نے اس کو چھ لوگوں سے سنا ہے اور سند بدلتا رہا ہے اور یہ بھی کہا بني ثعلبة کے ١٢ لوگوں سے سنا

ثم قال الدارقطني: والاختلافُ فيه من قِبَلِ زياد بن علاقة، ويُشبه أن يكون حَفِظَهُ عن جماعة، فمرةً يرويه عن ذا، ومرة يرويه عن ذا.
دارقطنی نے کہا اس میں اختلاف زياد بن علاقة کی وجہ سے ہے اور لگتا ہے کہ اس نے اس کو ایک جماعت سے حفظ کیا ہے تو کبھی کچھ نام لیا کبھی کچھ لیا

 شعيب الأرنؤوط نے مسند احمد میں اس کو کوئی حکم نہیں لگایا
لیکن حسين سليم أسد نے مسند ابو یعلی میں اس کو ضعیف کہا ہے

زياد بن علاقة بن مالك الثعلبي کو ثقہ کہا گیا ہے لیکن بد مذھب بھی کہا گیا ہےقال أبو الفتح الأزدي: سيئ المذهب
شیطان کا کام بیماری نازل کرنا نہیں ہے – اہل کتاب کو اس طرح کا ابہام ہے کہ بیماری شیطان کی طرف سے ہوتی ہے لہذا وہ شیطان کے نام پر ایک بھیڑ جبل المنتر سے نیچے پھینکتے تھے اس کو

Goat of Atonement

کہا جاتا ہے
جنات اگر بیماری نازل کرتے ہیں تو ظاہر ہے لوگ ان کے نام نذر بھی کریں گےراقم کو علم ہے کہ مسلمان بھی جنات کو خوش کرنے کے لئے بعض علاقوں میں ایسا کرتے ہیں

جواب اس پر کوئی واضح دلیل نہیں ایک روایت پیش کی جاتی ہے
اَلْجِنُّ ثَلَاثَۃُاَصْنَافٍ: صِنْفٌ یَطِیْرُفِیْ الْھَوَآءِ وَصِنْفٌ حَیَّاتٌ وَّکِلَابٌ وَصِنْفٌ یَحُلُّوْنَ وَیَظْعَنُوْنَ۔
جنات تین قسم کے ہوتے ہیں۔  ایک قسم وہ ہے جو ہوا میں اڑتے ہیں ایک وہ ہے جو سانپوں اور کتوں کی شکل میں ظاہرہوتے ہیں   اور ایک قسم وہ ہے جو  ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے ہیں

 (طبرانی ،حاکم ، بیھقی : باب الا سماء والصفات)

میزان الاعتدال از الذھبی کے مطابق

اس کی سند میں معاوية بن صالح   ہیں امام یحیی القطان اس سے خوش نہ تھے الذھبی کہتے ہیں وكان يحيى القطان يتعنت  -ولا يرضاه.  وقال أبو حاتم: لا يحتج به اور ابو حاتم اس کو ناقابل دلیل کہتے ہیں

اس کے علاوہ ایک روایت پیش کی جاتی ہے

ابوسعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم  فرمایا : اِنَّ بِالْمَدِیْنَۃِجِنًّا قَدْاَسْلَمُوْافَاِذَارَاَیْتُمْ مِّنْ ھٰذِہِ الْھَوَامِّ شَیْءًا فَأْذَنُوْہُ ثَلَاثًافَاِنْ بَدَالَکُمْ فَاقْتُلُوْہُ
مدینہ منورہ میں کچھ جنات مسلمان ہوگئے ہیں۔ لہذاتم اگر گھر میں کوئی سانپ دیکھوتو اسے تین بارمتنبہ  کرو اگر پھر بھی ظاہر ہوتو اسے مارڈالو۔(مسلم شریف : کتاب السلام ،سنن ابی داود ۔کتاب الادب ، موطأ امام مالک : کتاب الاستیذان )۔

روایت میں جنا کا لفظ ہے جس سے مراد سانپ ہیں نہ کہ جنات

صحیح مسلم کی روایت میں ہے

إن لهذه البيوت عوامر فإذا رأيتم شيئا منها فحرجوا عليها ثلاثا فإن ذهب وإلا فاقتلوه فإنه كافر

ان گھروں میں سانپ ہیں لہذا جب تم دیکھو تو ان کو تین دن دو اگر نہیں جائیں تو قتل کر دو کیونکہ یہ کافر ہیں

ابن منظور لسان العرب میں کہتے ہیں کہ عوامر  سے مراد ہے العَوامِرُ الحيّات التي تكون في البيوت  یعنی وہ سانپ جو گھروں میں ہوتے ہیں اسی طرح جنا سے مراد بھی سانپ ہیں مثلا قرآن میں ہے کہ موسی کا عصآ تَهْتَزُّ كأَنها جانٌّ ایک سانپ کی طرح ہلنے لگا

اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ جنات سانپ بن جاتے ہیں صحیح نہیں ابن حبان صحیح میں اس روایت پر باپ قائم کرتے ہیں

ذكر الأمر بقتل المرء الحيه إذا راها في داره بعد إعلامه إياها ثلاثة أيام

ذکر کہ آدمی سانپ کو قتل کر دے جب اس کو خبردار کرنے کے تین دن بعد گھر میں دیکھے

ایک اور روایت پیش کی جاتی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

اَلْکَلْبُ الْاَسْوَدُشَیْطَانٌ کالا کتا شیطان ہوتاہے۔

صحیح مسلم : کتاب الصلوۃ ، سنن ابی داود : کتاب الصلوہ ، سنن الترمذی : کتاب الصید ، سنن نسائی : کتاب القبلۃ ، سنن ابن ماجۃ : کتاب الاقامۃ ، مسند احمد

ابو الوفا ابن عقیل کتاب الفنون میں اس پر کہتے ہیں

 هذا على طريق التشبيه لها بالشياطين، لأن الكلب الأسود أشرّ الكلاب وأقلعها نفعاً، والإبل تشبه الجن في صعوبتها وصولتها، كما يقال: فلان شيطان ؛ إذا كان صعباً شريراً

اس کا مقصد شیاطین سے  تشبیہ ہے کہ کالا کتا کتوں میں سب سے برا ہوتا ہے اور اس کافائدہ کم ہے اور اسی طرح اونٹ کو تشبیہ دی جاتی ہے کہ جن کی طرح مشقت اٹھا سکتا ہے جیسے کہ کوئی کہے یہ تو شیطان ہے

صحیح مسلم میں ہے

حَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدَةَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللهِ: ” إِنَّ الشَّيْطَانَ لِيَتَمَثَّلُ فِي صُورَةِ الرَّجُلِ، فَيَأْتِي الْقَوْمَ، فَيُحَدِّثُهُمْ بِالْحَدِيثِ مِنَ الْكَذِبِ، فَيَتَفَرَّقُونَ، فَيَقُولُ الرَّجُلُ مِنْهُمْ: سَمِعْتُ رَجُلًا أَعْرِفُ وَجْهَهُ، وَلَا أَدْرِي مَا اسْمُهُ يُحَدِّثُ “

عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے فرمایا : بلاشبہ شیطان کسی آدمی کی شکل اختیار کرتا ہے ، پھر لوگوں کے پاس آتا ہے اور انہیں جھوٹ ( پر مبنی ) کوئی حدیث سناتا ہے ، پھر وہ بکھر جاتے ہیں ، ان میں سے کوئی آدمی کہتا ہے : میں نے ایک آدمی سے ( حدیث ) سنی ہے ، میں اس کا چہرہ تو پہنچانتا ہوں پر اس کا نام نہیں جانتا ، وہ حدیث سنا رہا تھا ۔

میزان الاعتدال از الذھبی میں ہے
عامر بن عبدة [م، ق] البجلي. عداده في التابعين. فيه جهالة. له عن ابن مسعود. تفرد عنه المسيب بن رافع.
سند میں عامر بن عبدة مجہول ہے

مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنِي عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ مُحَمَّدٍ يَعْنِي الْخَطَّابِيَّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ رَجُلًا خَرَجَ فَتَبِعَهُ رَجُلانِ، وَرَجُلٌ يَتْلُوهُمَا، يَقُولُ: ارْجِعَا، قَالَ: فَرَجَعَا، قَالَ: فَقَالَ لَهُ: إِنَّ هَذَيْنِ شَيْطَانَانِ، وَإِنِّي لَمْ أَزَلْ بِهِمَا حَتَّى رَدَدْتُهُمَا، فَإِذَا أَتَيْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقْرِئْهُ السَّلامَ، وَأَعْلِمْهُ أَنَّا فِي جَمْعِ صَدَقَاتِنَا، وَلَوْ كَانَتْ تَصْلُحُ لَهُ، لَأَرْسَلْنَا بِهَا إِلَيْهِ، قَالَ: ” فَنَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عِنْدَ ذَلِكَ عَنِ الْخَلْوَةِ “

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی خیبر سے نکلا، دو آدمی اس کے پیچھے چل پڑے اور ایک ان دونوں کے پیچھے۔ (آخری آدمی) ان دو سے کہتا رہا: لوٹ آؤ،لوٹ آؤ۔ (یہاں تک کہ) انہیں لوٹا دیا، پھر وہ پہلے آدمی کو جا ملا اور اسے کہا: یہ دو شیطان تھے، میں ان کو پھسلاتا رہا، حتیٰ کہ ان کو واپس کر دیا۔ جب تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہنچے تو آپ کو میرا سلام دینا اور بتلانا کہ میں ادھر زکوۃ جمع کر رہا ہوں، اگر وہ آپ کے لیے مناسب ہوں تو ہم بھیج دیں گے۔ جب وہ آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو سارا واقعہ بیان کیا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلوت سے منع کر دیا۔

أخرجه الحاكم (2 / 102) والبيهقي في ” الدلائل ” (2 / 2 / 229 / 2) وكذا
البزار في ” مسنده ” (رقم 2022 – كشف الأستار) من طريقين عن عبيد الله بن
عمرو الرقي عن عبد الكريم عن عكرمة عن ابن عباس رضي الله عنهما

اس کی سند میں عبد الكريم بن مالك الجزري. جس کی توثیق کرنے میں ابن حبان کو تردد تھا
الذھبی کہتے ہیں ابن حبان نے اس سے دلیل لینے میں توقف کیا ہے
.
توقف في الاحتجاج به ابن حبان،

دوسری طرف عالم یہ ہے کہ ابن حبان مجہول تک کو ثقہ کہتے ہیں
قال أبو أحمد الحاكم: ليس بالحافظ عندهم.
وفي ” كتاب الساجي ” عن يحيى بن معين: ضعيف

وَعَنْ أَسْلَمَ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ – رضي الله عنه – قَالَ: كَانَ عُمَرُ – رضي الله عنه – يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَصْلِحُوا عَلَيْكُمْ مَثَاوِيكُمْ (1) وَأَخِيفُوا هَذِهِ الْجِنَّانَ (2) قَبْلَ أَنْ تُخِيفَكُمْ، فَإِنَّهُ لَنْ يَبْدُوَ لَكُمْ مُسْلِمُوهَا، وَإِنَّا وَاللهِ مَا سَالَمْنَاهُنَّ مُنْذُ عَادَيْنَاهُنَّ.
صَحْيح الْأَدَبِ الْمُفْرَد

اس کی سند میں زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، ہے جو اپنے باپ سے منکرات نقل کرتا ہے

سیرت  اور  کتب  تفسیر میں ایک روایت ہے کہ  غزوۂ بدر کے موقعہ پر شیطان ایک عرب سردار سراقۃ بن مالک کی شکل میں مشرکینِ مکہ کے پاس آیا اس کو سوره انفعال کی آیت کے سلسلے میں پیش کیا جاتا ہے

اور یاد کرو جب شیطان نے ان (مشرکین مکہ ) کے لئے ان کے (برے ) اعمال کو خوبصورت بناکر پیش کیا اور کہا : آج تم پر کوئی غالب نہیں آسکتااور یہ کہ میں بھی تمہارے ساتھ ہوں ۔(الانفال : ۴۸)۔

اور دوسری آیات ہیں

جب دونوں فوجیں آمنے سامنے صف آراء ہوئیں تووہ (شیطان ) الٹے پاؤں بھاگ کھڑا ہوا اور کہنے لگا میرا تمہارے ساتھ کوئی تعلق نہیں ، میں وہ دیکھ رہا ہوں جوتم نہیں دیکھ رہے اور میں اللہ سے ڈررہا ہوں۔

شیطان انسان کو اکساہٹ اور وسوسہ سے گمراہ کرتا ہے

لیکن سندآ یہ قصہ ثابت نہیں ہے

تفسير طبری میں اسکی سند ہے

حدثني المثنى قال، حدثنا عبد الله بن صالح قال، حدثني معاوية، عن علي بن أبي طلحة، عن ابن عباس

 جبکہ علی بن ابی طلحہ کا ابن عباس سے سماع ثابت نہیں دیکھئے جامع التحصیل اور میزان الاعتدال

کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از  العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق

علي بن أبي طلحة قال دحيم لم يسمع التفسير من بن عباس وقال أبو حاتم علي بن أبي طلحة عن بن عباس مرسل

علی بن ابی طلحہ  –  دحیم کہتے ہیں اس نے ابن عباس سے تفسیر نہیں سنی اور ابو حاتم کہتے ہیں علی بن ابی طلحہ ابن عبّاس سے مرسل ہے

معلوم ہوا روایت ضعیف ہے

کہا جاتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے قتل پر اکسانے کے لئے شیطان فَلَمَّا دَخَلُوا الدَّارَ اعْتَرَضَهُمُ الشَّيْطَانُ فِي صُورَةِ رَجُلٍ جَمِيلٍ ایک خوبصورت مرد کی صورت بن کر آیا بعض نے لکھا ہے نجدی شیخ کی صورت آیا اس کو البیہقی نے سندآ دلائل النبوه میں نقل کیا ہے جہاں اس کی سند ہے

حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدِ بْنِ جَبْرٍ الْمَكِّيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ

کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق

 عبد الله بن أبي نجيح يسار المكي ذكره بن المديني فيمن لم يلق أحدا من الصحابة رضي الله عنهم وقال إبراهيم بن الجنيد قلت ليحيى بن معين أن يحيى بن سعيد يعني القطان يزعم أن بن أبي نجيح لم يسمع التفسير من مجاهد

 عبد الله بن أبي نجيح يسار المكي علی  بن المديني  نے ان کا ذکر کیا ہے کہ ان کی کسی بھی صحابی رضي الله عنهم سے ملاقات نہیں ہوئی اور  إبراهيم بن الجنيد کہتے ہیں میں نے يحيى بن معين سے کہا کہ  يحيى بن سعيد يعني القطان دعوی کرتے تھے ابن أبي نجيح نے مجاہد سے تفسیر نہیں سنی  ..

یہ بھی ضعیف ہے

الغرض شیطان یا جنات کا کسی مرئی صورت میں آنا صحیح ثابت نہیں ہے

عمر رضی الله عنہ کو ایک کاہن نے بتایا کہ اس پر جنیہ آئی اور وہ بہت گھبرائی ہوئی تھی  لیکن اس روایت میں یہ نہیں کہ کاہن نے اس کو دیکھا بھی تھا بلکہ آواز سے بھی گھبراہٹ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے

صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ ابو ہریرہ رضی الله عنہ نے شیطان کو چور کی صورت دیکھا جو ایک مخصوص واقعہ ہے

یہ حدیث کتب ستہ میں صرف صحیح بخاری میں ہے اور اس کی سند میں عوف بن ابی جمیلہ الاعرابی کا تفرد ہے جو مختلف فیہ ہے اور امام بخاری نے اس کو صحیح میں تین مقام پر نقل کیا ہے

جواب اس کی کوئی دلیل نہیں بلکہ کچھ ضعیف روایات سے یہ استنباط کیا گیا ہے

مسند احمد اور مسند ابی یعلی کی روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے خالد بن الولید کو بھیجا کہ جا کر عزی کا مندر ڈھا دیں وہاں سے ایک برہنہ عورت نکلی رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تِلْكَ الْعُزَّى یہ عزی تھی

اس کی سند میں ابو طفیل  عَامِرُ بنُ وَاثِلَةَ الكِنَانِيُّ ہے جن کا سماع رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے ثابت  نہیں ہے اور صحابی ہونے میں بھی بعض کو اختلاف ہے

امام احمد کے مطابق

وقال عبد الله: حدثني أبي. قال: حدثنا أبو سعيد مولى بني هاشم. قال: حدثني مهدي بن عمران المازني. قال: سمعت أبا الطفيل، وسئل هل رأيت رسول الله – صلى الله عليه وسلم -؟ قال: نعم، قيل: فهل كلمته؟ قال: لا. «العلل» (5822) .

ابو طفیل  عَامِرُ بنُ وَاثِلَةَ الكِنَانِيُّ نے صرف رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا کوئی بات چیت نہیں ہوئی

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے وقت  عَامِرُ بنُ وَاثِلَةَ  آٹھ سال کے تھے تاریخ الکبیر از بخاری کے مطابق

 أدركتُ ثمان سنين من حياة رَسُول اللهِ صَلى اللَّهُ عَلَيه وسَلم،

کتاب الأعلام از الزركلي  کے مطابق یہ مختار ثقفی کذآب (جس کو مصعب بن زبیر نے جہنم واصل کیا) کے ساتھ بھی مل گئے تھے

 ثم خرج على بني أمية مع المختار الثقفي

دارقطنی العل میں کہتے ہیں قال الدَّارَقُطْنِيّ: أبو الطفيل رأى النبي – صلى الله عليه وسلم – وصحبه، فأما السماع فالله أعلم

أبو الطفيل نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا تھا اور اور ان کی صحبت میں رہے لیکن جہاں تک سماع کا تعلق ہے تو وہ الله کو پتا ہے

ابو طفیل سے سننے والے  الوليد بن جميع ابن عبد الله بن جميع الزهري الكوفي ہیں جو مختلف فیہ ہیں بعض نے ثقہ کہا ہے لیکن ابن حبان جو خود متساہل ہیں ان کو کہتے ہیں

 فحش تفرده فبطل الاحتجاج به.

اس کا تفرد فحش ہے اس سے دلیل باطل ہے

یہاں عزی ایک عورت ہونے  والی روایت میں اس کا تفرد ہے  ان وجوہات کی بنا پر یہ حدیث صحیح ثابت نہیں ہے

دوسری حدیث ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے نائلہ جو عربوں کی دیوی تھی اس کو بھی ایک عورت کہا

کتاب أخبار مكة وما جاء فيها من الأثار از الأزرقي  کے مطابق رسول الله نے فرمایا

تِلْكَ نَائِلَةُ، قَدْ أَيِسَتْ أَنْ تُعْبَدَ بِبِلَادِكُمْ أَبَدًا

یہ نائلہ اس سے مایوس ہے کہ اس شہر میں واپس اس کی پوجا ہو

گویا نائلہ کوئی زندہ جن  ہے اس کی سند میں مجھول راوی ہیں سند ہے حَدَّثَنِي جَدِّي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِدْرِيسَ، عَنِ الْوَاقِدِيِّ، عَنْ أَشْيَاخِهِ  یعنی واقدی اپنے بعض شیوخ سے روایت کرتے ہیں الذھبی کتاب تاریخ الاسلام میں اس روایت کو کہتے ہیں  مُنْقَطِعٌ

ج  ٢ ص٥٥٤  پر

لہذا یہ بات صحیح نہیں کہ جنات عورتوں کی صورت میں مشرکین کو گمراہ کرتے تھے

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

علامہ كمال الدين الدميري (المتوفى: 808هـ) اپنی کتاب حياة الحيوان الكبرى میں أسد الغابة کے حوالے سے لکھتے ہیں:

عن أنس بن مالك رضي الله تعالى عنه قال: «كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم خارجا من جبال مكة، إذ أقبل شيخ يتوكأ على عكازه فقال النبي صلى الله عليه وسلم مشية جني ونغمته، قال: أجل فقال النبي صلى الله عليه وسلم: من أي الجن؟
قال أنا هامة بن الهيم أو ابن هيم بن لاقيس بن ابليس. فقال: لا أرى بينك وبينه إلا أبوين قال: أجل. قال كم أتى عليك؟ قال أكلت الدنيا إلا أقلها، كنت ليالي قتل قابيل هابيل غلاما ابن أعوام، فكنت أتشوف على الآكام وأورش بين الأنام. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: بئس العمل؟ فقال يا رسول الله دعني من العتب فإني ممن آمن بنوح وتبت على يديه وإني عاتبته في دعوته فبكى وأبكاني وقال: إني والله لمن النادمين وأعوذ بالله أن أكون من الجاهلين ولقيت هودا وآمنت به، ولقيت ابراهيم وكنت معه في النار إذ ألقي فيها، وكنت مع يوسف إذ ألقي في الجب، فسبقته إلى قعره ولقيت شعيبا وموسى، ولقيت عيسى بن مريم، فقال لي: إن لقيت محمدا فاقرئه مني السلام وقد بلغت رسالته، وآمنت بك فقال النبي صلى الله عليه وسلم: على عيسى وعليك السلام، ما حاجتك يا هامة قال: إن موسى علمني التوراة، وعيسى علمني الإنجيل، فعلمني القرآن. فعلمه». وفي رواية أنه صلى الله عليه وسلم علمه عشر سور من القرآن وقبض رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم ينعه إلينا فلا نراه، والله أعلم، إلا حيا
(حیوۃ الحيوان، باب الجيم: الجن)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں مکہ مکرمہ کے پہاڑوں سے باہر (دور) نکلا۔ یکایک ایک بوڑھے شخص سے سامنا ہوا جس نے اپنی لاٹھی پر ٹیک لگا رکھا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسکی چال ڈھال اور آواز جنوں کی سی ہے۔ اس نے کہا ہاں! (آپ کا اندازہ صحیح ہے). تو نبی اکرم صلی علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ تم جنوں کے کس گروہ سے ہو. اس نے کہا: میرا نام ہامہ بن ہیم بن لاقیس بن ابلیس ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تیرے اور ابلیس کے درمیان صرف دو پشتوں کا فاصلہ دیکھ رہا ہوں. اس نے کہا: ہاں! (آپ کی بات درست ہے). پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ تیری عمر کتنی ہے؟ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میری عمر دنیا کی عمر سے کچھ سال ہی کم ہوگی۔ جس رات قابیل نے ہابیل کو قتل کیا تھا ان دنوں میری عمر چند برس کی تھی۔ میں پہاڑوں میں دوڑتا پھرتا تھا اور لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈال دیا کرتا تھا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تو بہت برا عمل تھا۔ اس جن نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا مجھے ملامت نہ فرمائیے کیونکہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو حضرت نوح علیہ السلام پر ایمان لائے تھے اور انکے ہاتھوں توبہ کرلی تھی۔ اور دعوت (دین) کے کام میں ان کے ساتھ تعاون کیا تھا۔ اس کے بعد وہ جن خود بھی رویا اور ہمیں بھی رلایا۔ اس جن نے کہا اللہ کی قسم میں بہت شرمندہ ہوں اور میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں جاہلوں میں سے ہو جاؤں۔ اور میں نے حضرت ہود علیہ السلام سے ملاقات کی اور ان پر ایمان لایا۔ اور (اسی طرح) میں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بھی ملاقات کی اور جس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا جا رہا تھا میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ اور جب حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں ڈالا گیا تو میں بھی ان کے ساتھ تھا اور حضرت یوسف علیہ السلام سے پہلے اس کنویں میں پہنچ گیا تھا۔ (اسی طرح) میں نے حضرت شعیب علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بھی ملاقات کی تھی. اور (اسی طرح) میں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بھی ملاقات کی. اور حضرت عیسی علیہ السلام نے مجھ سے کہا تھا کہ اگر تمہاری ملاقات محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو تو ان کو میری طرف سے سلام کہنا۔ چنانچہ میں نے انکا پیغام پہنچا دیا اور میں آپ پر ایمان لایا.
پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عیسیٰ علیہ السلام پر سلام ہو اور تجھ پر بھی سلام ہو۔ اے ہامہ تیری کیا حاجت ہے؟ اس جن نے عرض کہا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مجھے تورات سکھائی تھی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مجھے انجیل سکھائی تھی۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) مجھے قرآن سکھا دیجئے۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جن کو قران مجید کی تعلیم دی.
اور ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جن کو قرآن کی دس سورتیں سکھائی تھیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئ۔ لیکن (اس واقعہ کے بعد) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہامہ کے بارے میں پھر کچھ نہیں فرمایا۔ ہم سمجھتے ہیں -واللہ اعلم- وہ زندہ ہے.

جواب

ابن ابی الدنیا پہلے شخص ہیں جو اس کو هواتف الجنان میں بیان کرتے ہیں
وہاں سند محمد بن عبد الله بن المثنى الأنصاري جن کو ابو داود کہتے ہیں تغير تغيرا شديدا بہت تغیر کا شکار تھے
ان صاحب کو جنات سے کچھ زیادہ ہی لگاؤ تھا لہذا ان کی ایک اور روایت بھی ہے جس میں یہ جن چڑھنے کا ذکر کرتے ہیں

سنن ابن ماجہ کی روایت ہے

حدثنا محمد بن بشار . حدثنا محمد بن عبد الله الأنصاري . حدثني عيينة بن عبد الرحمن . حدثني أبي عن عثمان بن أبي العاص قال لما استعملني رسول الله صلى الله عليه و سلم على الطائف جعل يعرض لي شيء في صلاتي حتى ما أدري ما أصلي . فلما رأيت ذلك رحلت إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم . فقال : ( ابن أبي العاص ؟ ) قلت نعم يا رسول الله قال ( ماجاء بك ؟ ) قلت يا رسول الله عرض لي شيء في صلواتي حتى ما أدري ما أصلي . قال ( ذاك الشيطان . ادنه ) فدنوت منه . فجلست على صدور قدمي . قال فضرب صدري بيده وتفل في فمي وقال ( اخرج . عدو الله ) ففعل ذلك ثلاث مرات . ثم قال ( الحق بعملك ) قال فقال عثمان فلعمري ما أحسبه خالطني بعد

عثمان بن ابی العاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھ کو نماز پڑھنے میں مشکل ہوتی اس کا ذکر نبی صلی الله وسلم سے کیا تو اپ میرے سینے ضرب لگائی اور کہا نکل اے الله کے دشمن ! ایسا تین دفعہ کیا … اس کے بعد نماز میں کوئی مشکل نہ ہوئی

ان دونوں کی سند میں مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ ہے جو کسی ذہنی بیماری کا شکار ہوئے
جنات سے خوف زدہ عصر حاضر کے علماء نے ان روایات کو صحیح قرار دے دیا ہے

————-

بحر کیف ابلیس کے رشتہ دار والی یہ روایت ابن عمر رضی الله عنہ سے بھی مروی ہے جس کا ذکر گھڑی ہوئی روایت کی حیثیت سے کیا جاتا ہے

امام عقیلی اس راوی کا ذکر منکر الحدیث کے طور پر کرتے ہیں
قَالَ ابْن حبَان: الْأنْصَارِيّ يروي عَن الثِّقَات مَا لَيْسَ من حَدِيثهمْ.
ابن حبان کہتے ہیں یہ ثقات سے وہ روایت کرتے ہیں جو انکی حدیث میں نہیں ہوتا

اگرچہ سو سال پہلے امام عقیلی اس روایت کوالضعفاء میں رد کر چکے ہیں اس روایت کا دور دورہ پھر شروع ہوتا ہے
سن ٤٠٠ ہجری کے بعد مسلمانوں کو یہ مرض لاحق ہوا کہ کسی بھی طرح اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم کو تمام انبیاء سے افضل بنایا جائے
چنانچہ دلائل النبوه نام سے لأبي نعيم الأصبهاني اور البیہقی نے کتب لکھیں ان میں ضعیف و موضوع روایات کی بھر مار کر دی
ان کو صوفیاء نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور ایسی دو نمبر کتابوں کا بڑا چرچا ہوا
لأبي نعيم الأصبهاني اپنی کتاب میں باب باندھتا ہے
الْقَوْلُ فِيمَا أُوتِيَ سُلَيْمَانُ عَلَيْهِ السَّلَامُ فَإِنْ قِيلَ: فَإِنَّ سُلَيْمَانَ قَدْ أُعْطِيَ مُلْكًا لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِهِ. قُلْنَا: إِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُعْطِيَ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ فَأَبَاهَا وَرَدَّهَا اخْتِيَارًا لِلتَّقَلُّلِ وَالرِّضَا بِالْقُوتِ وَاسْتِصْغَارًا لَهَا بِحَذَافِيرِهَا وَإِيثَارًا لِمَرْتَبَتِهِ وَرِفْعَتِهِ عِنْدَ اللَّهِ تَعَالَى
اگر کوئی کہے کہ سلیمان کو ایسی بادشاہت ملی جو کسی کو نہ ملی ان کے بعد تو ہم کہیں گے کہ بے شک محمد صلی الله علیہ وسلم کو زمیں کے خزانوں کی چابیاں دی گئیں لیکن انہوں نے وہ رد کیں اختیارا
اس کے بعد موصوف جنات کے قصے بیان کرتے ہیں جن میں سے ایک یہ ابلیس کی اولاد کا بھی ہے

یہ صرف غلو ہے اور داد ملنی چاہیے محدثین کی کھال میں ان صوفیوں کو یعنی ابو نعیم کو جنہوں نے یہ رطب و یابس جمع کیا
وہاں اسناد میں أَبُو مَعْشَرٍ الْمَدَنِيُّ ہے جو نافع سے اور وہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں
اسی طرح یہ سعید المقبری سے بھی روایت کرتا ہے

العلل ومعرفة الرجال از احمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ) کے مطابق
سَأَلت يحيى بن معِين عَن أبي معشر الْمَدِينِيّ الَّذِي يحدث عَن سعيد المَقْبُري وَمُحَمّد بن كَعْب فَقَالَ لَيْسَ بِقَوي فِي الحَدِيث

الموضوعات میں ڈیڑھ سو سال بعد ابن جوزی اس کو گھڑی ہوئی کہتے ہیں

ابن جوزی کے ٧٠ سال بعد تفسير القرطبي ج ١٦ ص ٢١٥ میں امام قرطبی نے اس روایت سے دلیل لی کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے ابلیس کے پڑ پوتے کو قرآن کی سورتیں سکھائیں
وعلمه سورة” إِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ” [الواقعة: 1] و” الْمُرْسَلاتِ” [المرسلات: 1] و” عَمَّ يَتَساءَلُونَ” [النبأ: 1] و” إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ” [التكوير: 1] و” الْحَمْدُ” [الفاتحة: 1] و” المعوذتين” [الفلق: 1 – والناس: 1]

اسلام علیکم
(ان الشيطن يجرى من الانسان مجرى الدم.. بخارى و مسلم)
كيا اے روایت اس بات کا دلیل ہے کہ جن انسان کے جسم مے داخل ہو سکتا ہے؟

جواب

و علیکم السلام

بہت سے علماء کے نزدیک یہ دلیل ہے کہ جن انسان میں داخل ہو جاتا ہے – راقم کی رائے میں ایسا نہیں ہے – اس حدیث کے سیاق و سباق میں ہے کہ ایک رات نبی صلی الله علیہ وسلم اپنی بیوی صفية بنت حيي رضي الله عنها کے ساتھ نکلے جبکہ اپ معتكف بھی تھے اور کچھ انصاری صحابہ نے ان کو دیکھا اور تیزی سے جانے لگے- تو آپ نے کہا یہ میری بیوی ہیں اور کہا کہ شیطان انسان میں ایسے دوڑتا ہے (یعنی انسان کو ایسے بہکآتا ہے) کہ اس کے خوں میں ہوں

تفصیل کے لئے دیکھیے
⇑ آسیب چڑھنا
https://www.islamic-belief.net/masalik/غیر-مقلدین/

کتاب العرف الشذي شرح سنن الترمذي از محمد أنور شاه بن معظم شاه الكشميري الهندي (المتوفى: 1353هـ) کے مطابق
قال الغزالي: إن الشيطان يدخل في جوف الإنسان، وقال ابن حزم: إنه لا يدخل
غزالی نے کہا شیطان انسان کے پیٹ میں داخل ہو جاتا ہے اور ابن حزم نے کہا نہیں ہوتا
محمد أنور شاه بن معظم شاه الكشميري الهندي کے مطابق غزالی کی رائے صحیح ہے

کتاب التَّنويرُ شَرْحُ الجَامِع الصَّغِيرِ از محمد بن إسماعيل بن صلاح بن محمد الحسني، الكحلاني کے مطابق
(إن الشيطان يجري من ابن آدم مجرى الدم) هو على ظاهره وإن الله تعالى جعل له قدرة ولطافة جسم يلج بواطن ابن آدم، وقيل: أنه مجاز عن كثرة إغوائه ووسوسته فكأنه لا يفارق الإنسان كما لا يفارقه دمه، وقيل: إنه يلقي وسوسته في المسام فتصل الوسوسة إلى القلب،
شیطان انسان میں ایسا دوڑتا ہے جیسے خون اور یہ ظاہر پر ہے کہ الله نے اس میں قدرت کی ہے اس کے جسم کی لطافت کی بنا پر ابن آدم کے پیٹ میں گزر جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ مجاز ہے اس کی کثرت وسوسہ کی وجہ سے کہ انسان کو جس طرح خون سے الگ نہیں کیا جا سکتا اسی طرح شیطان کو بھی

کتاب شرح الطيبي على مشكاة المصابيح از شرف الدين الحسين بن عبد الله الطيبي (743هـ) کے مطابق
والمعنى: أن الشيطان يتمكن في إغواء الإنسان وإضلاله تمكنا تاما، ويتصرف فيه تصرفا لا مزيد فيه.
وعلى الثاني: يجوز أن يكون حقيقة، فإنا لا ننكر أن الله قادر على أن يخلق أجساما لطيفة يسري في بدن الإنسان سريان الدم فيه
اس کا معنی ہے کہ شیطان تمکن پاتا ہے انسان کے اغوا پر اور اس کی مکمل گمراہی پر … اور دوسرا کہنا ہے کہ جائز ہے کہ یہ حقیقت ہو

کتاب مطالع الأنوار على صحاح الآثار از ابن قرقول (المتوفى: 569هـ) کے مطابق
قوله: “الشَّيْطَانُ يَجْرِي مِنَ ابن آدمَ مَجْرى الدَّمِ” (1) قيل: علي ظاهره.
وقيل: بل هو مثل (2) لتسلطه وغلبته لا أنه يتخلل جسمه، والله أعلم.
قول کہ شیطان انسان میں خون کی طرح دوڑتا ہے کہا جاتا ہے ظاہر (مفہوم) ہے اور کہا جاتا ہے کہ بلکہ مثال ہے کہ اس پر تسلط اور غلبہ پاتا ہے نہ کہ جسم میں خلل کرتا ہے و اللہ اعلم

کتاب إِكمَالُ المُعْلِمِ بفَوَائِدِ مُسْلِم از قاضی عياض بن موسى بن عياض بن عمرون اليحصبي السبتي، أبو الفضل (المتوفى: 544هـ) کے مطابق
قيل: هو على ظاهره، فإن الله جعل له قوة وقدرة فى الجرى فى باطن الإنسان فى مجارى دمه، وقيل: هذا على الاستعارة لكثرة إغوائه ووسوسته، فكأنه لا يفارق الإنسان كما لا يفارقه دمه.
کہا جاتا ہے یہ ظاہر پر ہے کیونکہ اللہ نے اس کے قدرت کی ہے کہ انسان بطن میں دوڑے …. اور کہا جاتا ہے یہ الاستعارة ہے کہ وہ انسان سے الگ نہیں ہوتا جیسے خون

البانی  کی ناقص تحقیق ہے    کبھی شیطان انسان کی شکل اختیار کرتا ہے اور اس میں داخل ہوجاتا ہے ، گرچہ مومن اور صالح آدمی ہی کیوں نہ ہو۔ (دیکھیں : سلسلہ الاحادیث الصحیحہ 2918)

الغرض اس میں دو آراء چلی ا رہی ہیں
راقم اس کو مثال اور الاستعارة کہتا ہے ظاہر نہیں مانتا

جواب

بعض احادیث میں انسانوں کو شیطان کہا گیا ہے مثلا

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم میں سے کوئی شخص سترہ کی جانب نماز پڑھ رہا ہو اور کوئی بندہ تمھارے اور سترہ کے درمیان سے گزرنا چاہے تو تم اس کو روکو، اگر وہ نہ رکے تو اس سے لڑائی کرو کیونکہ وہ شیطان ہے
[بخاری، کتاب الصلاۃ، باب یردالمصلی من مر بین یدیہ، حدیث: ۵۰۹]

یہ حدیث صحیح مفھوم سے نقل نہیں ہوئی اس کو سن کر ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا نے بتایا کہ

لقد رأيت النبي عليه السلام يصلي وإني لبينه وبين القبلة

میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا وہ نماز پڑھتے تھے اور میں ان کے اور قبلے کے درمیان ہوتی تھی

اسی  طرح بعض روایات میں ہے کہ کالا کتا یا اونٹ  شیطان ہے

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کالا کتا “شیطان ” ہے۔
[صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب قدر ما یستر المصلی، حدیث: ۵۱۰]

قال أبو الوفاء ابن عقيل  هذا على طريق التشبيه لها بالشياطين، لأن الكلب الأسود أشرّ الكلاب وأقلعها نفعاً، والإبل تشبه الجن في صعوبتها وصولتها، كما يقال: فلان شيطان ؛ إذا كان صعباً شريراً

ابن عقیل کہتے ہیں یہ تشبیہ ہے شیطان سے کیونکہ کالا کتا کتوں میں سب سے شری ہوتا ہے اس کا فائدہ کم ہے اور اونٹ کو جن سے تشبیہ دی گئی ہے کہ وہ مشقت اٹھاتا ہے

ابن حبان صحیح  میں کہتے ہیں

قال أبو حاتم قوله صلى الله عليه وسلم فإنها خلقت من الشياطين أراد به أن معها الشياطين وهكذا قوله صلى الله عليه وسلم فليدرأه ما استطاع فإن أبى فليقاتله فإنه شيطان ثم قال في خبر صدقة بن يسار عن بن عمر فليقاتله فإن معه القرين ذكر البيان بأن قوله صلى الله عليه وسلم فإنها خلقت من الشياطين لفظة أطلقها على المجاورة لا على الحقيقة

نبی صلی الله علیہ وسلم کا قول کہ اونٹ کو شیاطین سے خلق کیا گیا ہے تو ان کا مقصد ہے وہ شیطان کے ساتھ ہے (یعنی شیطان اونٹوں کے بیچ چھپتے ہیں) اور اسی طرح کا قول ہے کہ ( نماز میں آگے سے گزرنے والے کو) ہاتھ سے روکے اگر نہ رکے تو لڑے کیونکہ وہ شیطان ہے پھر کہا اس خبر میں جو صدقه بن یسار سے ان کی ابن عمر سے روایت ہے  … پس یہ الفاظ مجاز ہیں نہ کہ حقیقت

صحيح مسلم كي روایت ہے

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ أَبِي عَبْدِ اللهِ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى امْرَأَةً، فَأَتَى امْرَأَتَهُ زَيْنَبَ، وَهِيَ تَمْعَسُ مَنِيئَةً لَهَا، فَقَضَى حَاجَتَهُ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: «إِنَّ الْمَرْأَةَ تُقْبِلُ فِي صُورَةِ شَيْطَانٍ، وَتُدْبِرُ فِي صُورَةِ شَيْطَانٍ، فَإِذَا أَبْصَرَ أَحَدُكُمُ امْرَأَةً فَلْيَأْتِ أَهْلَهُ، فَإِنَّ ذَلِكَ يَرُدُّ مَا فِي نَفْسِهِ»،

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عورت شیطان کی صورت میں آتی جاتی ہے، جب تم میں سے کوئی ایک کسی عورت کو دیکھے تو وہ اپنے اہل کو آئے ۔ یہ عمل اس کے دل میں داخل شدہ خیالات کو ختم کردے گا۔
[صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب ندب من رأی امراۃ فوقعت فی نفسہ أن یأتی أھلہ، حدیث: ۱۴۰۳]

یہ روایت صحیح نہیں ہے یہ ابوزبیر مدلس کی سند سے ہے اور محدثین کہتے ہیں کہ ان کی لیث بن سعد کی سند سے ہی روایت لی جائے امام مسلم نے اس اصول کو نہیں مانا جس کی وجہ سے صحیح مسلم میں اس قسم کی بعض عجوبہ روایات ہیں

صحیح مسلم میں ہے

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ يُحَنِّسَ، مَوْلَى مُصْعَبِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ نَسِيرُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْعَرْجِ إِذْ عَرَضَ شَاعِرٌ يُنْشِدُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خُذُوا الشَّيْطَانَ، أَوْ أَمْسِكُوا الشَّيْطَانَ لَأَنْ يَمْتَلِئَ جَوْفُ رَجُلٍ قَيْحًا خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَمْتَلِئَ شِعْرًا»

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول الہ ﷺ کے ساتھ “عرج” نامی جگہ سے گزر رہے تھے کہ اچانک ایک شاعر سامنے آیا۔ وہ شعر گوئی کررہا تھا، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: شیطان کو پکڑ یا اس شیطان کو روکو، تم میں سے اگر کوئی شخص اپنے پیٹ کو پیپ کے ساتھ بھر لے جو اس کی آنتوں کو کاٹ کے رکھ دے ، یہ اس کے لیے اشعار یاد کرنے سے بہتر ہے۔
[مسلم ، کتاب الشعر، بابٌ، حدیث: ۲۲۵۹]

اس روایت میں بھی شیطان کا لفظ مجاز پر ہے

سنن ابو داود اور صحیح ابن حبان کی ایک روایت میں کبوتر سے کھیلنے پر شیطان کہا گیا ہے

حدَّثنا موسى بنُ إسماعيل، حدَّثنا حماد، عن محمَّد بن عمرو، عن أبي سلمة عن أبي هريرة، أن رسولَ الله -صلى الله عليه وسلم – رأى رجلاً يَتبَعُ حمامةً، فقال: “شيطان يَتبَعُ شيطانةً”

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک آدمی کبوتری کے پیچھے بھاگتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: شیطان ، شیطانہ (یعنی کبوتری) کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔
[ابوداؤد، کتاب الأدب، باب فی اللعب بالحمام، حدیث: ۴۹۴۰]

اس کی سند میں  محمَّد بن عمرو ابن علقمة بن وقاص ہے جو حسن الحدیث ہے اس کی روایت اگر منفرد ہو تو رد کی جائے گی –  کسی پاک جانور کو شیطان کہنا منکر روایت ہے نبی صلی الله علیہ وسلم نے چیزوں کا عیب دار نام رکھنے سے منع کیا ہے

ابن حبان صحیح میں  کہتے ہیں

 وَإِطْلَاقُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْمَ الشَّيْطَانِ عَلَى الْحَمَامَةِ لِلْمُجَاوَرَةِ، وَلِأَنَّ الْفِعْلَ مِنَ الْعَاصِي بِلَعِبِهَا تَعَدَّاهُ إِلَيْهَا

اور کبوتری پر شیطان کا نام کا اطلاق قربت کے طور ہے کہ اس سے  بہت کھیلنے  والا  فعلا گناہ گار  ہے

الذھبی  کتاب سیر الاعلام النبلاء ج ٣ ص ١٤١ میں مُحَمَّدُ بنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ  کی سند سے ایک روایت نقل کرتے ہیں اور لکھتے ہیں

فِي إِسْنَادِهِ مُحَمَّدٌ لاَ يُحْتَجُّ بِهِ وَفِي بَعْضِهِ نَكَارَةٌ بَيِّنَةٌ

اس کی سند میں محمد ہے جو  نہ قابل احتجاج   اور اس میں بعض جگہ واضح نکارت ہے

لہذا یہ کبوتری والی روایت منکر ہے

مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ہے

حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنِ الطُّفَاوِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَحَدُكُمْ يُخْبِرُ بِمَا صَنَعَ بِأَهْلِهِ؟ وَعَسَى إِحْدَاكُنَّ أَنْ تُخْبِرَ بِمَا صَنَعَ بِهَا زَوْجُهَا» فَقَامَتِ امْرَأَةٌ سَوْدَاءُ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُمْ لَيَفْعَلُونَ، وَإِنَّهُنَّ لَيَفْعَلْنَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِمَثَلِ ذَلِكَ؟ مَثَلُ ذَلِكَ كَمَثَلِ الشَّيْطَانِ لَقِيَ شَيْطَانَةً، فَوَقَعَ عَلَيْهَا فِي الطَّرِيقِ، وَالنَّاسُ يَنْظُرُونَ فَقَضَى حَاجَتَهُ مِنْهَا، وَالنَّاسُ يَنْظُرُونَ

سول اللہ ﷺ نے فرمایا: “شاید کہ تم میں سے کوئی ایک اس کو لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہو جو اس نے اپنی بیوی کے ساتھ کیا ہوتا ہے اور شایدکہ تم (عورتوں )میں سے کوئی ایک بھی ایسا کرتی ہے۔ تو ایک سیاہ رنگ کی عورت کھڑی ہوئی اور کہنے لگی: “اے اللہ کے رسول ﷺ! مرد بھی اور عورتیں بھی ایسا کرتی ہیں ۔” تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “ان کی مثال اس شیطان کی طرح ہے جو شیطانہ سے راستہ میں اپنی حاجت کو پورا کرے اور لوگ دیکھ رہے ہوں۔

الطُّفَاوِيِّ صحابی ہیں یا نہیں اس میں اختلاف ہے

 المنذر بن مالك أبو نضرة العبدي  کا سماع بھی تمام اصحاب رسول سے نہیں جن سے یہ روایت کرتے ہیں لہذا یہ تدلیس کرتے ہیں الجریری آخری عمر میں اختلاط کا شکار تھے ان علتوں کی بنا پر یہ روایت صحیح نہیں ہے

مسند احمد میں اس کی سند ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَفْصٌ السَّرَّاجُ، قَالَ: سَمِعْتُ شَهْرًا، يَقُولُ: حَدَّثَتْنِي أَسْمَاءُ بِنْتُ يَزِيدَ، أَنَّهَا كَانَتْ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ قُعُودٌ عِنْدَهُ فَقَالَ: ” لَعَلَّ رَجُلًا يَقُولُ: مَا يَفْعَلُ بِأَهْلِهِ، وَلَعَلَّ امْرَأَةً تُخْبِرُ بِمَا فَعَلَتْ مَعَ زَوْجِهَا فَأَرَمَّ الْقَوْمُ ” فَقُلْتُ: إِي وَاللهِ يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّهُنَّ لَيَقُلْنَ وَإِنَّهُمْ لَيَفْعَلُونَقَالَ: ” فَلَا تَفْعَلُوا فَإِنَّمَا مِثْلُ ذَلِكَ مِثْلُ الشَّيْطَانُ  لَقِيَ شَيْطَانَةً فِي طَرِيقٍ فَغَشِيَهَا وَالنَّاسُ يَنْظُرُونَ

شعيب الأرنؤوط – عادل مرشد، وآخرون کہتے ہیں سند ضعیف ہے

مسند احمد کی حدیث ہے

حَدَّثَنَا سَيَّارُ بْنُ حَاتِمٍ أَبُو سَلَمَةَ الْعَنَزِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ يَعْنِي ابْنَ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو التَّيَّاحِ، قَالَ: قُلْتُ: لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ خَنْبَشٍ التَّمِيمِيِّ، وَكَانَ كَبِيرًا، أَدْرَكْتَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: قُلْتُ: كَيْفَ صَنَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ كَادَتْهُ الشَّيَاطِينُ، فَقَالَ: إِنَّ الشَّيَاطِينَ تَحَدَّرَتْ تِلْكَ اللَّيْلَةَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْأَوْدِيَةِ، وَالشِّعَابِ، وَفِيهِمْ شَيْطَانٌ بِيَدِهِ شُعْلَةُ نَارٍ، يُرِيدُ أَنْ يُحْرِقَ بِهَا وَجْهَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَهَبَطَ إِلَيْهِ جِبْرِيلُ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ قُلْ، قَالَ: ” مَا أَقُولُ؟ ” قَالَ: ” قُلْ: أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّةِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ، وَذَرَأَ وَبَرَأَ، وَمِنْ شَرِّ مَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ، وَمِنْ شَرِّ مَا يَعْرُجُ فِيهَا، وَمِنْ شَرِّ فِتَنِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ، وَمِنْ شَرِّ كُلِّ طَارِقٍ إِلَّا طَارِقًا يَطْرُقُ بِخَيْرٍ، يَا رَحْمَنُ “، قَالَ: فَطَفِئَتْ نَارُهُمْ، وَهَزَمَهُمُ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى

أَبُو التَّيَّاحِ کہتے  ہیں میں نے  عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ خَنْبَشٍ  سے  کہا  اور وہ بوڑھے تھے کہ اپ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو پایا ؟ انہوں نے کہا ہاں – میں نے پوچھا کہ اس رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کیا تھا جس میں شیاطین نے کروائی   کی ؟ انہوں نے کہا  اس رات …. شیطانوں نے حملہ کیا … اور ان میں ابلیس بھی تھا جس کے ہاتھ میں اگ تھی وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے چہرے کو جلانا چاہتا تھا پس جبریل نازل ہوئے اور کہا اے محمد کہو  رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا کیا؟ جبریل علیہ السلام نے کہا بولو ….

اس کی سند میں  جعفر بن سليمان: وهو الضبعي کا تفرد ہے جو مظبوط نہیں ہے

بخاری کہتے ہیں اس کی روایت پر نظر ہے

 شعيب الأرنؤوط کہتے ہیں یہ   إسناده ضعيف سند ضعیف ہے

حدیث کی بعض کتب میں یہ روایت  المسيب بن واضح اور  مصعب بن شيبة بن جبير بن شيبة  کی سند سے بھی ہے جو  دونوں ضعیف ہیں

جواب

کتاب المعجم الأوسط اور المعجم الكبير  از الطبراني  کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَجَّاجِ السَّامِيُّ قَالَ: نا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الْحَيَّاتُ مَسْخُ الْجِنِّ، كَمَا مُسِخَتِ الْقِرَدَةُ وَالْخَنَازِيرُ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ»

عکرمہ نے کہا کہ ابن عباس نے کہا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا سانپ مسخ جن ہیں جیسے سور و بندر مسخ شدہ بنی اسرائیل ہیں

صحیح ابن حبان میں ہے

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُوسَى بعسكر مكرم حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بن الْمُخْتَار حَدَّثَنَا خَالِدٍ الْحَذَّاءِ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: “الْحَيَّات مسخ الْجِنّ كَمَا مسخت الْخَنَازِير والقردة” قلت وَقد تقدم الْأَمر بقتل الْحَيَّة وَالْعَقْرَب فِي الصَّلَاة

عکرمہ نے کہا کہ ابن عباس نے کہا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا سانپ مسخ جن ہیں جیسے سور و بندر مسخ شدہ ہیں

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الله حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَجَّاجِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْحَيَّاتُ مَسْخُ الْجِنِّ»

عکرمہ نے کہا کہ ابن عباس نے کہا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا سانپ مسخ جن ہیں

 شعيب الأرنؤوط  کہتے ہیں موقوف صحیح ہے

العلل میں ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ ابو زرعة نے کہا

قال ابن أبي حاتم: سمعت أبا زرعة يقول: هذا الحديث هو موقوف، لا يرفعه إلا عبدُ العزيز بن المختار، ولا بأس بحديثه.

یہ حدیث موقوف ہے اس کو مرفوع صرف عبدُ العزيز بن المختار نے کیا ہے جس کی حدیث میں برائی نہیں ہے

البانی نے اس کو صحیحہ میں نقل کیا ہے کہتے ہیں

واعلم أن الحديث لَا يعني أن الحيات الموجودة الآن هي من الجن الممسوخ، وإنما يعني أن الجن وقع فيهم مسخٌ إلى الحيات , كما وقع في اليهود مسْخُهُم قردة وخنازير، ولكنهم لم ينسلوا كما في الحديث الصحيح: ” إن الله لم يجعل لمسخ نسلا ولا عقبا، وقد كانت القردة والخنازير قبل ذلك

اور جان لو کہ اس حدیث میں وہ سانپ مراد نہیں ہیں جو ابھی ہیں کہ وہ مسخ شدہ جن ہیں بلکہ مطلب ہے کہ یہ جن تھے جن کو مسخ کر کے سانپ کر دیا گیا جیسا یہود کو مسخ کر کے بندر و سور بنا دیا گیا تھا لیکن ان کی نسل نہ چلی جیسا صحیح حدیث میں ہے کہ بے شک الله نے ان کی نسل نہ کی نہ کوئی ان میں چھوڑا اور بندر و سور تو ان سے پہلے بھی تھے

راقم کہتا ہے یہ روایت سرے سے صحیح ہے ہی نہیں اور البانی کی تشریح روایت کے الفاظ کے خلاف ہے کیونکہ اس میں یہ نہیں ہے کہ آج جو سانپ ہیں وہ الگ ہیں بلکہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ آج بھی جو سانپ ہیں وہ جن تھے

روایت خالد الْحَذَّاءِ کی غلط سلط روایات میں سے ہے

خالد بن مهران الحذاء بصری مدلس ہے اور آخری عمر میں اختلاط کا شکار تھے
یہ مختلف فیہ ہے میزان الاعتدال کے مطابق
قال أحمد: ثبت.
وقال ابن معين والنسائي: ثقة.
وأما أبو حاتم فقال: لا يحتج به.
احمداور ابن معین اور نسائی نے ثقہ کہا ہے جبکہ ابی حاتم کہتے کہ یہ نہ قابل دلیل ہے
یعنی بغداد والوں نے ثقہ کہا ہے

اس کے شہر کے لوگ یعنی بصریوں  میں حماد بن زید ،  ابن علية اور شعبہ نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے اسی طرح نیشاپور والوں نے بھی اس کو ضعیف قرار دیا ہے

وقال يحيى بن آدم: قُلْتُ لِحَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ: مَا لِخَالِدٍ الْحَذَّاءِ فِي حَدِيثِهِ؟ قَالَ: قَدِمَ عَلَيْنَا قَدْمَةً مِنَ الشَّامِ، فَكَأَنَّا أَنْكَرْنَا حِفْظَهُ.
بصرہ کے حماد بن زید کہتے کہ خالد جب شام سے آیا تو ہم نے اس کے حافظہ کا انکار کیا

کتاب إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي کے مطابق
قال شعبة: خالد يشك في حديث عكرمة عن ابن عباس
شعبہ نے کہا کہ خالد کو عکرمہ کی ان کی ابن عباس سے حدیث پر شک رہتا تھا

جواب

بعض لوگ یہ موقف رکھتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کلام میں مجاز کا استعارہ کا استعمال نہیں کرتے تھے لہذا انہوں نے بہت سی احادیث کو ظاہر پر لیا ہے مثلا
نماز میں شیطان کا صف میں بکری کی طرح گھسنا
اذان پر شیطان کا گوز مار کر بھاگنا
جمائی پر شیطان کا منہ میں گھسنا
شیطان کا انسان کے ساتھ کھانا
شیطان کا کان میں پیشاب کرنا
شیطان کا گرہ لگانا
وغیرہ

اسی طرح اسماء و صفات میں الله تعالی سے متعلق جو بھی حدیث میں ہے اس کو بھی ظاہر پر لیتے ہیں
اس طرح ان میں اور ہم میں فرق اتا ہے ہم انہی کو کلام کا انداز، مجاز اور استعارہ قرار دیتے ہیں

اب یہ کیسے ممکن ہے کہ رسول الله وہ عربی بولتے تھے جو ان کے ماحول کے لوگ نہیں بولتے تھے یعنی اصحاب رسول تو کلام میں مجاز و استعارہ استعمال کریں لیکن رسول الله نہ کریں؟

ان لوگوں نے جب شروحات لکھیں تو ہر چیز اصل بن گئی کوئی چیز مجاز نہ رہی
یہاں تک کہ یہ لوگ اس کے بھی قائل ہوئے کہ شیطان اور عورت اپس میں زنا کرتے ہیں ان سے بچے بھی ہوتے ہیں مثلا امام ابن تیمیہ اس کے قائل ہیں

⇑ امام ابن تیمیہ اور جنات کی دنیا
https://www.islamic-belief.net/masalik/غیر-مقلدین/

[EXPAND  کیا جنات کے جانور ہیں ؟ روایت میں ہے ]

Sahih Muslim Hadees # 1007

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى عَنْ دَاوُدَ، عَنْ عَامِرٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَلْقَمَةَ هَلْ كَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ شَهِدَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْجِنِّ؟ قَالَ: فَقَالَ عَلْقَمَةُ، أَنَا سَأَلْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ فَقُلْتُ: هَلْ شَهِدَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْجِنِّ؟ قَالَ: لَا وَلَكِنَّا كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَفَقَدْنَاهُ فَالْتَمَسْنَاهُ فِي الْأَوْدِيَةِ وَالشِّعَابِ. فَقُلْنَا: اسْتُطِيرَ أَوِ اغْتِيلَ. قَالَ: فَبِتْنَا بِشَرِّ لَيْلَةٍ بَاتَ بِهَا قَوْمٌ فَلَمَّا أَصْبَحْنَا إِذَا هُوَ جَاءٍ مِنْ قِبَلَ حِرَاءٍ. قَالَ: فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللهِ فَقَدْنَاكَ فَطَلَبْنَاكَ فَلَمْ نَجِدْكَ فَبِتْنَا بِشَرِّ لَيْلَةٍ بَاتَ بِهَا قَوْمٌ. فَقَالَ: «أَتَانِي دَاعِي الْجِنِّ فَذَهَبْتُ مَعَهُ فَقَرَأْتُ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنَ» قَالَ: فَانْطَلَقَ بِنَا فَأَرَانَا آثَارَهُمْ وَآثَارَ نِيرَانِهِمْ وَسَأَلُوهُ الزَّادَ فَقَالَ: لَكُمْ كُلُّ عَظْمٍ ذُكِرَ اسْمُ اللهِ عَلَيْهِ يَقَعُ فِي أَيْدِيكُمْ أَوْفَرَ مَا يَكُونُ لَحْمًا وَكُلُّ بَعْرَةٍ عَلَفٌ لِدَوَابِّكُمْ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَلَا تَسْتَنْجُوا بِهِمَا فَإِنَّهُمَا طَعَامُ إِخْوَانِكُمْ»

۔ عبد الاعلیٰ نے داؤد سے اور انہوں نے عامر ( بن شراحیل ) سے روایت کی ، کہا : میں نے علقمہ سے پوچھا : کیا جنوں ( سے ملاقات ) کی رات عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ رسول اللہ کے ساتھ تھے؟ کہا : علقمہ نے جواب دیا : میں نے خود ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے پوچھا : کیا آپ لوگوں میں سے کوئی لیلۃ الجن میں رسول اللہﷺ کے ساتھ موجود تھا؟ انہوں نے کہا : نہیں ، لیکن ایک رات ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے تو ہم نے آپ کو گم پایا ، ہم نے آپ کو وادیوں اور گھاٹیوں میں تلاش کیا ، ( آپ نہ ملے ) تو ہم نے کہا کہ آپ کو اڑا لیا گیا ہے یا آپ کو بے خبری میں قتل کر دیا گیا ہے ، کہا : ہم نے بدترین رات گزاری جو کسی قوم نے ( کبھی ) گزاری ہو گی ۔ جب ہم نے صبح کی تو اچانک دیکھا کہ آپ حراء کی طرف سے تشریف لا رہے ہیں ، انہوں نے کہا کہ ہم نے عرض کی : اے اللہ کے رسول! ہم نے آپ کوگم پایا تو آپ کی تلاش شروع کر دی لیکن آپ نہ ملے ، اس لیے ہم نے وہ بدترین رات گزاری جو کوئی قوم ( کبھی ) گزار سکتی ہے ۔ اس پر آپ نے فرمایا : میرے پاس جنوں کی طرف سے دعوت دینے والا آیا تو میں اس کے ساتھ گیا اور میں نے ان کے سامنت قرآن کی قراءت کی ۔ انہوں نے کہا : پھر آپ ( ﷺ ) ہمیں لے کر گئے اور ہمیں ان کے نقوش قدم اور ان کی آگ کے نشانات دکھائے ۔ جنوں نے آپ سے زاد ( خوراک ) کا سوال کیا تو آپ نے فرمایا : تمہارے لیے ہر وہ ہڈی ہے جس ( کے جانور ) پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اور تمہارے ہاتھ لگ جائے ، ( اس پر لگا ہوا ) گوشت جتنا زیادہ سے زیادہ ہو اور ( ہر نرم قدموں والے اونٹ اور کٹے سموں والے ) جانور کی لید تمہارے جانوروں کا چارہ ہے ۔
پھر رسول اللہﷺ نے ( انسانوں سے ) فرمایا : تم ان دونوں چیزوں سے استنجا نہ کیا کرو کیونکہ یہ دونوں ( دین میں ) تمہارے بھائیوں ( جنوں اور ان کے جانوروں ) کا کھانا ہیں ۔ ‘

جواب
یہ روایت مضطرب ہے اور البانی نے اس کا شمار الضعیفہ میں کیا ہے

قال الألباني في الضعيفة (3/ 133) ح1038: حديث: ” لَكُمْ (يعني الجن) كُلُّ عَظْمٍ ذُكِرَ اسْمُ اللهِ عَلَيْهِ يَقَعُ فِي أَيْدِيكُمْ أَوْفَرَ مَا يَكُونُ لَحْمًا , وَكُلُّ بَعْرَةٍ عَلَفٌ لِدَوَابِّكُمْ “. أخرجه مسلم 150 – (450) (2/ 36) , وابن خزيمة في ” صحيحه ” (رقم 82) , والبيهقي (1/ 108 – 109) , ضعيف

قلت: ووجه المخالفة أن ظاهره أن العظم والروثة زاد وطعام للجن أنفسهم، وليس شيء من ذلك لدوابهم

البانی نے کہا یہ جن کے کھانے ہیں ان کے جانور کے نہیں ہیں

[/EXPAND]

ابراہیمی ادیان میں شیطان کا تصور

یہودیوں کی کتب میں شیطان کا تصور محدود ہے – اس کو ایک فرشتہ سمجھا جاتا ہے – لفظ شیطان  توریت میں نہیں ہے – موجودہ یہود کے بعض فرقوں کے نزدیک  نفس امارہ کو ہی شیطان سے ملا دیا گیا ہے اور شیطان بطور ایک الگ ذات کوئی وجود نہیں رکھتا- یہود کے دیگر  فرقوں کے نزدیک شیطان  فرشتہ ہے اور یہود کے نزدیک الله کا دشمن نہیں بلکہ الله کا مدد گار ہے

اگر آپ توریت کا تقابل قرآن سے کریں تو انکشاف ہو گا کہ آدم علیہ السلام  کو فرشتوں کا سجدہ، توریت میں موجود نہیں بلکہ ایک سانپ کو مثبت شخصیت کے طور پر دکھایا گیا ہے الله تعالی نے انسان کو تخلیق کیا اس کو شجر علم سے —   دور رکھا لیکن سانپ  چاہتا تھا کہ انسان علم  حاصل کرے لہذا اس کو شجر علم کی حقیقت بتا دی

گویا الله علم نہیں دینا چاہتا تھا شیطان یا سانپ  نے انسان کی علم حاصل کرنے میں مدد کی اور اس کو شجر ممنوعہ کی حقیقت بتا دی اس کے بر خلاف قرآن میں ہے کہ الله تعالی نے تخلیق آدم کے بعد ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور ان کو اسماء  کا علم فرشتوں سے زیادہ تھا

یعنی توریت میں  شیطان کو سانپ کر دیا اور شجر ممنوعہ کو شجر علم کر دیا اور اسی سانپ کو جنت میں بھی پہنچا دیا

تصویروں میں اس علم کو سیب کی صورت دکھایا جاتا ہے  جو سانپ نے حوا علیہ السلام کو دیا اور انہوں نے آدم علیہ السلام کو- زمانہ حال ہی میں ایک مشھور کمپنی نے اس سیب کواپنا لوگو بھی بنا لیا ہے

شیطان سانپ

Apple-logo1

توریت کی  کتاب الاستثنا کے باب ١٦ کی آیات ہیں

ہارون کو بنی اسرائیلیوں کے لئے دو بکرے گناہ کی قربانی کے طور پر اور ایک مینڈھا جلانے کی قربانی کے لئے لینا چاہئے ۔

٦

اس لئے ہارون ایک بیل کو اپنے گناہ کی قربانی کے لئے اپنے اور اپنے خاندان کے کفّارے کے لئے قربانی کے طور پر پیش کرے گا ۔

٧

” اُس کے بعد ہارون دو بکرے کو لیگا اور اسے خیمہٴ اجتماع کے دروازے پر خدا وند کے سامنے لائے گا ۔

٨

پھر ہارون دونوں بکروں کے لئے قرعہ ~ ڈ الے گا ۔ ایک خدا وند کے لئے اور دوسرے عزازیل کے لئے

٩

” تب ہارون قرعہ ڈال کر چُنے گئے بکرے کو خدا وند کے لئے گناہ کی قربانی کے طور پر قربانی دیگا ۔

١٠

لیکن قرعہ ڈال کر عزازیل کے لئے چُنا گیا بکرا خدا وند کے سامنے زندہ لایا جانا چاہئے ۔ تب یہ بکرا ریگستان میں عزازیل کے پاس کفّارہ دینے کے لئے بھیجا جائے گا ۔

١١

تب ہارون اپنے لائے ہوئے بیل کو گناہ کی قربانی کے طور سے چڑھا ئے گا ۔ اس طرح سے ہارون اپنے اور اپنے خاندان کے لئے کفّارہ ادا کریگا ۔ ہارون بیل کو اپنے لئے گناہ کی قربانی کے طور پر ذبح کرے گا ۔

عزازیل کے لئے بیابان میں بکرا چھوڑا جائے گا  جو  غیر الله کی نذر ہے اور اس کی تہمت ہارون علیہ السلام پر لگائی جا رہی ہے

بعض اہل کتاب عزازیل کا ترجمہ کر دیتے ہیں اور اس کو کفارہ کا بکرا کہتے ہیں – اس بکرے کا انتخاب دوسرے ہیکل کے دور میں  اقلام پھینک کر کیا جاتا تھا – تلمود کے مطابق اس بکرے کو پہاڑ پر لے جایا جاتا اور پھر کھائی میں دھکیل دیا جاتا تھا

اس طرح یہ عزازیل کی عبادت ہوئی- یہاں اس مقام پر یہ وضاحت نہیں کہ عزازیل سے  شیطان ہی مراد ہے

اس کی بنیاد پرشیطان کی منظر کشی ایسے پیروں سے کی جاتی جس میں بکرے کے پیر دکھائے جاتے ہیں

بعض دیگر یہودی کتب میں شیطان کا لفظ موجود ہے

کتاب زکریا  باب ٣ میں ہے کہ شیطان نے امام القدس کی مخالفت کی – یہ زکریا جن کو نبی کہا جاتا ہے ، دوسرے ہیکل کے دور کے ہیں اور عزیر مخالف ہیں ان کا ہی قتل مقدس اور قربان گاہ کے درمیان ہوا جن کا  ذکر انجیل متی میں ہے- یہ قرآن کے زکریا علیہ السلام نہیں جو مریم علیہ السلام کے کفیل تھے

آیات ہیں

اِس کے بعد رب نے مجھے رویا میں امامِ اعظم یشوع کو دکھایا۔ وہ رب کے فرشتے کے سامنے کھڑے تھے ، اور شیطان ان پر الزام لگانے کے لئے اُس کے دائیں ہاتھ کھڑا ہو گیا تھا۔

رب نے شیطان سے فرمایا، ”اے شیطان، رب تجھے ملامت کرتا ہے! رب جس نے یروشلم کو چن لیا وہ تجھے ڈانٹتا ہے! یہ آدمی تو بال بال بچ گیا ہے، اُس لکڑی کی طرح جو بھڑکتی آگ میں سے چھین لی گئی ہے۔“

ایک کتاب جو ایوب علیہ السلام سے منسوب ہے اس کی آیت ہے

الله نے شیطان سے پوچھا تو کہاں سے آ رہا ہے ؟ شیطان نے کہا زمین کی سیر سے ہر کام جو اس میں ہو اس کو دیکھتا ہوں

یہود کے نزدیک شیطان کا مقصد یہود کی آزمائش ہے لیکن اس کا نتیجہ ان کے حق میں ہوتا ہے یعنی یہود الله کی نگاہ میں سر خرو ہوتے ہیں

یسعیاہ نبی  (جن کا دور پہلے ہیکل کا کہا جاتا ہے اور عیسیٰ سے  ٨ صدیاں قبل گزرے ہیں ) کی کتاب میں ہے

یسعیاہ ٤٥  باب ٧ کی آیت ہے

میں ہی خالق نور و ظلمات ہوں اور میں ہی وہ ذات  ہوں جو برباد کرتی ہے

اس آیت سے بعض نصرانی علماء استخراج کرتے ہیں کہ اس میں ظلمت سے مراد شیطان ہے

موجودہ علماء یہود و نصاری کہتے ہیں کہ یسعیاہ کی کتاب تین حصوں میں لکھی گئی ہے پہلے ہیکل کی تباہی سے پہلے اوربعد تک اس پر کام ہوا ہے

اب  سوال پیدا ہوتا ہے کہ شیطان  کا وہ تصور جو قرآن میں ہے اور وہی حق ہے تو اس کو توریت میں کیوں تبدیل کیوں کیا گیا اور لفظ شیطان سرے سے توریت  موجود ہی نہیں؟

اس کی وجہ یہ تھی کہ بنی اسرائیل کو فارس کے لوگوں نے واپس یروشلم بھیجا تھا تاکہ وہ واپس  مسجد سلیمان بنا لیں- فارس کے مذھب میں اہرمن و یزداں کا تصور تھا- جس میں اہرمن کو خدائے شر کہا جاتا تھا لہٰذا اگر توریت جیسی اہم کتاب ، جس کو عزیر اور نحمیاہ لکھوا رہے تھے، میں سے شیطان کا ذکر ہوتا تو اس کو اہرمن سمجھا جاتا لہذا شیطان کا لفظ ہی نکال دیا گیا اور شیطان سانپ بن گیا

اس کے اثرات اردو زبان میں بھی ہیں آج بھی مشیت یزدانی کا لفظ بولا جاتا ہے- یزداں جو آتش پرستوں کا خدائے خیر تھا

دوسرے ہیکل کے دور میں یہود کا اختلاف بڑھا اور ان میں سامرہ کا فرقہ نکلا اور شیطان کے تصور میں تبدیلی آئی

نصرانی مذھب میں  شیطان کا تصور بہت بڑا ہے لوگوں کو دنیا میں بادشاہ بنواتا ہے ( انجیل لوقا)  انسان میں جانور میں حلول کر جاتا ہے (انجیل متی، لوقا ، مرقس)- انجیل یوحنا میں  شیطان کا جسد میں داخل ہونا نہیں بیان کیا گیا – شیطان ایک فرشتہ ہی ہے  جو جنت کا سانپ تھا –

بہرحال اناجیل اربع اور پال کی کتب میں شیطان کا تصور موجود ہے اور اس کو ایک طاقت ور کردار دیا گیا ہے

اسلام کا تصور ہے کہ شیطان جن ہے جو الله کا باغی ہے اور وہ نفس امارہ نہیں اور فرشتہ بھی نہیں- اس کا مقصد انسان کو گمراہ کرنا ہے اور علم دینا اس کا کام نہیں الله کا ہے- لہذا ہر طرح کا علم چاہے خیر کا ہو یا شر کا الله ہی کی جانب سے ہے لیکن اس کا مقصد انسان کی آزمائش ہے

قرآن کہتا ہے کہ بابل میں یہود سحر کا علم حاصل کرتے تھے جو ان کی آزمائش تھا آیات ہیں

واتبعوا ما تتلو الشياطين على ملك سليمان وما كفر سليمان ولكن الشياطين كفروا يعلمون الناس السحر وما أنزل على الملكين ببابل هاروت وماروت وما يعلمان من أحد حتى يقولا إنما نحن فتنة فلا تكفر فيتعلمون منهما ما يفرقون به بين المرء وزوجه وما هم بضارين به من أحد إلا بإذن الله ويتعلمون ما يضرهم ولا ينفعهم ولقد علموا لمن اشتراه ما له في الآخرة من خلاق ولبئس ما شروابه أنفسهم لو كانوا يعلمون

اور  (یہود) لگے اس  (علم) کے پیچھے جو شیطان مملکت سلیمان کے حوالے سے پڑھتے تھے اور سلیمان  نے تو کفر نہیں کیا، بلکہ شیاطین نے کفر کیا جو لوگوں کو سحر سکھاتے تھے اور جو بابل میں فرشتوں هاروت وماروت پر نازل ہوا تھا تو (وہ بھی) اس میں سے کسی کو نہ سکھاتے تھے حتی کہ کہتے ہم فتنہ ہیں، کفر مت کر!  لیکن وہ (یہودی) پھر بھی سیکھتے، تاکہ مرد و عورت میں علیحدگی کرائیں اور وہ کوئی نقصان نہیں کر سکتے تھے الا یہ کہ الله کا اذن ہو-  اور وہ ان سے (سحر) سیکھتے جو نہ فائدہ دے سکتا تھا نہ نقصان- اوروہ جانتے تھے کہ وہ کیا خرید رہے ہیں،  آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہ ہو گا اور بہت برا سودا کیا اگر ان کو پتا ہوتا

سحر کا علم ان کو فرشتوں هاروت وماروت  سے ملا  تھا لیکن ان کو پتا تھا کہ یہ فتنہ ہے لیکن اپنی سابقہ حرکتوں کو توجیہ دینے کے لئے انہوں نے تمام علوم کا مخزن چاہے ( شرک و سحر ہی کیوں نہ ہو ) سانپ کو قراردیا کیونکہ یہ سب اس شجر علم میں چھپا تھا جو جنت عدن کے بیچوں بیچ تھا

لہذا اہل کتاب میں الجھاؤ پیدا ہو گیا کہ ایک طرف تو سانپ  توریت کے مطابق علم دے رہا ہے دوسری طرف انجیل میں یہی سانپ شیطان بن کر لوگوں کو گمراہ کر رہا  ہے ان میں حلول کر رہا ہے

سانپ سے یہود کی محبت بھی عجیب رہی کتاب گنتی باب ٢١ کے مطابق الله تعالی بنی اسرائیل پر ناراض ہوا جبکہ وہ مصر سے باہر دشت میں تھے

snake-number-21موسی علیہ السلام پر بت بنانے کی یہ تہمت تو لگی ہی سانپ میں کوئی نہ کوئی چکر ضرور ہے یہ بات بھی دماغ میں ڈال دی گئی

اس مورت کی پوجا بھی ہونے لگی کتاب سلاطین دوم باب ١٨ میں ہے

snake-2kings18

اسی سانپ کو عیسی کی تاثر مسیحائی سے بھی ملا دیا  گیا اور طب کا نشان سمجھا جاتا ہے

serpent

اسکلپئوس ایک یونانی خدا تھا جس کے ہاتھ میں ایک لاٹھی پر سانپ لپٹا ہوا تھا اس کو طب کا خدا سمجھا جاتا تھا اسی نشان کو

اپنایا گیا ہے

ascilepius

دو سانپ ایک لاٹھی پر اور اپس میں لپٹے ہوئے یونانی دیوتا ہرمس کا نشان ہے اس کو آج کل لیں دیں یا بزنس کا نشان کہا جاتا

ہے جس کو ایک بینک نے بھی پسند کیا

standard-chartred

اسی طرح ایک آرڈر آف ڈریگن بھی بنا جو ترکوں کی یورپ کی طرف پیش قدمی کو روک رہا تھا

Order of the Dragon

dragon1

ڈریگن بھی ایک تخیلاتی مخلوق ہے جو زمیں اور اگ سے نکلا ہے یہ  کچھ اور نہیں اڑنے والا  اژدھا یا سانپ ہے کیونکہ ابلیس اڑتا ہے اور اس کو سانپ بھی کہا

جاتا  ہے اور تقریبا ساری دنیا میں اس کو ایک زمانے میں کسی نہ کسی مقام پر پوجا جاتا تھا

کہا جاتا ہے کہ یہ مخلوق معدوم ہے لیکن آج تک ڈراموں اور فلموں میں اس کو مثبت انداز میں دکھایا جاتا ہے

ڈریگن اصل میں ابلیس ہی کی شکل ہے جس کو  اس کے شائقین مثبت انداز میں پیش کرتے ہیں

اب  اس تصور کا اختتام بہت ممکن ہے ایسے ہو کہ ایک دابّه الارض زمیں کا جانور نکلے اور شرک کی بجائے الوہیت کا علم دے

وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآَيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ

پس جب ان پر ہمارا قول واقع ہو گا ہم ان کے لئے زمین سے جانور نکالیں گے جو کلام کرے گا کہ لوگ ہماری آیات پرایمان نہیں لاتے

شوکانی اور قرطبی ابن عبّاس سے منسوب ایک قول نقل کرتے ہیں کہ  دَابَّةً مِنَ الْأَرْضِ سے مراد

أنها الثعبان المشرف على جدار الكعبة

ایک عظیم اژدھا ہو گا جو کعبہ کی دیوار سے نکلے گا

لیکن یہ آخری وقت ہو گا

اب اس کے بعد کوئی نیکی نیکی نہ رہے گی اور کوئی ایمان قبول نہ ہو گا

Shiyateen – Extents & Limits

moinoon-97

Extents and Limits of Shiyateen

بسم الله الرحمن الرحيم

Pagans of Arabia used to worship Jinns[1] along with many deities. They had the belief that Jinns are the wives of Almighty and angels are His daughters.  Allah said is Quran  in surah As-Saffat:

وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ (158) سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ 159

And they have invented a kinship between Him and the jinns, but the jinns know well that they have indeed to appear (before Him) (i.e. they will be brought for accounts). Glorified is Allah! (He is Free) from what they attribute unto Him!

They were so afraid of these unseen creatures that they seek the protection from Jinns whenever they pass through a deserted valley.  The degradation of humans had made Jinns arrogant. In surah Al-Jinn it is informed that Jinn themselves were disturbed by this human act.

وَأَنَّهُ كَانَ رِجَالٌ مِنَ الْإِنْسِ يَعُوذُونَ بِرِجَالٍ مِنَ الْجِنِّ فَزَادُوهُمْ رَهَقًا (6)

And verily, there were men among mankind who took shelter with the masculine among the jinns, but they (jinns) increased them (mankind) in sin and disbelief.

 

Satans were inspiring the pagans against Prophet peace be upon him

وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ (112

And so We have appointed for every Prophet enemies – Shayatin (devils) among mankind and jinns, inspiring one another with adorned speech as a delusion (or by way of deception). If your Lord had so willed, they would not have done it, so leave them alone with their fabrications.

Quran informs us that at the time of creation of Adam, Allah instructed Angels of Most High to prostrate to Adam. The purpose was to pass on the message of superiority of Bani Adam on His creations. Allah informed us (surah Saad 72- 85):

 (Remember) when your Lord said to the angels: “Truly, I am going to create man from clay”.  So when I have fashioned him and breathed into him (his) soul created by Me, then you fall down prostrate to him.”  So the angels prostrated themselves, all of them. Except Iblis (Satan) he was proud and was one of the disbelievers.  (Allah) said: “O Iblis (Satan)! What prevents you from prostrating yourself to one whom I have created with Both My Hands. Are you too proud (to fall prostrate to Adam) or are you one of the high exalted?” [Iblis (Satan)] said: “I am better than he, You created me from fire, and You created him from clay.” (Allah) said: “Then get out from here, for verily, you are outcast.   “And verily!, My Curse is on you till the Day of Recompense.”  [Iblis (Satan)] said: “My Lord! Give me then respite till the Day the (dead) are resurrected.”  (Allah) said: “Verily! You are of those allowed respite. “Till the Day of the time appointed.”  [Iblis (Satan)] said: “By Your Might, then I will surely mislead them all,  “Except Your chosen slaves amongst them (faithful, obedient, true believers of Islamic Monotheism).”  (Allah) said: “The Truth is, and the Truth I say, That I will fill Hell with you [Iblis (Satan)] and those of them (mankind) that follow you, together.”

Allah said (surah Al-isra 64-65)

And befool them gradually those whom you can among them with your voice and make assaults on them with your cavalry and your infantry, mutually share with them wealth and children and make promises to them.” But Satan promises them nothing but deceit. “Verily! My slaves, you have no authority over them. And All-Sufficient is your Lord as a Guardian

Allah informed us that Satan got the respite from Him until the Day of Judgement.  On that day Allah would address both humans and jinns ( surah Al-Anam 128)

And on the Day when He will gather them (all) together (and say): “O you assembly of jinns! Many did you mislead of men,” and their Auliya’ (friends and helpers, etc.) amongst men will say: “Our Lord! We benefited one from the other, but now we have reached our appointed term which You did appoint for us.” He will say: “The Fire be your dwelling-place, you will dwell therein forever, except as Allah may will. Certainly your Lord is All-Wise, All-Knowing.”

Allah informed us that we cannot see Jinns (Al-Araf 27)

إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ

Verily, he and Qabiluhu (his soldiers from the jinns or his tribe) see you from where you cannot see them

[1] Jinns are the beings created by Allah before the creation of humans. Like humans there are believers and non-believers among them.  According to Quran we cannot see Jinns. (literally means hidden). They were created by Allah with fire before the creation of Human race (Quran). They eat bones and dried dong (Sahih Bukhari).

 

Now we discuss the extents of satanic influences on humans.

Mind distraction from remembrance of Allah    

In surah Al-Mujadilah Allah informed us

Shaitan (Satan) has overtaken them. So he has made them forget the remembrance of Allah. They are the party of Shaitan (Satan). Verily, it is the party of Shaitan (Satan) that will be the losers!

In surah Al-Anam -68 Allah said

And when you (Muhammad ) see those who engage in a false conversation about Our Verses (of the Qur’an) by mocking at them, stay away from them till they turn to another topic. And if Shaitan (Satan) causes you to forget, then after the remembrance sit not you in the company of those people who are the Zalimun (polytheists and wrong-doers, etc.).

In surah Kahf  63 we were informed:

He said:”Do you remember when we betook ourselves to the rock? I indeed forgot the fish, none but Shaitan (Satan) made me forget to remember it. It took its course into the sea in a strange (way)!”

It is reported in Bukhari (Volume 4, Book 54, Number 498)

Narrated Ubai bin Kab:

That he heard Allah’s Apostle saying, “(The prophet) Moses said to his attendant, “Bring us our early meal’ (18.62). The latter said, ‘Did you remember when we betook ourselves to the rock? I indeed forgot the fish and none but Satan made me forget to remember it.” (18.63) Moses did not feel tired till he had crossed the place which Allah ordered him to go to.”

It is reported in Bukhari (Volume 2, Book 22, Number 324)

Narrated Abu Huraira: Allah’s Apostle said, “When anyone of you stands for the prayers, Satan comes and puts him in doubts till he forgets how many Rakat he has prayed. So if this happens to anyone of you, he should perform two prostrations of Sahu while sitting.

It is reported in Bukhari (Volume 4, Book 54, Number 509)

Narrated Abu Huraira: The Prophet said, “Yawning is from Satan and if anyone of you yawns, he should check his yawning as much as possible, for if anyone of you (during the act of yawning) should say: ‘Ha’, Satan will laugh at him.”

 Enticement and Provocation

 In surah Maryam 82 it is said:

See you not that We have sent the Shayatin (devils) against the disbelievers to push them to do evil.

In Surah al-Isra 53 Allah said

And say to My slaves (i.e. the true believers of Islamic Monotheism) that they should (only) say those words that are the best. (Because) Shaitan (Satan) verily, sows disagreements among them. Surely, Shaitan (Satan) is to man a plain enemy.

In Surah Qasas 15 Allah said

And he entered the city at a time of unawareness of its people, and he found there two men fighting, – one of his party (his religion – from the Children of Israel), and the other of his foes. The man of his (own) party asked him for help against his foe, so Musa (Moses) struck him with his fist and killed him. He said: “This is of Shaitan’s (Satan) doing, verily, he is a plain misleading enemy.”

It is reported in Bukhari (Volume 7, Book 62, Number 76)

Narrated Ibn ‘Umar:

Two men came from the east and delivered speeches, and the Prophet said, “Some eloquent speech has the in fluency of magic

It is reported in Bukhari (Volume 4, Book 54, Number 502)

Narrated Sulaiman bin Surd:

While I was sitting in the company of the Prophet, two men abused each other and the face of one of them became red with anger, and his jugular veins swelled (i.e. he became furious). On that the Prophet said, “I know a word, the saying of which will cause him to relax, if he does say it. If he says: ‘I seek Refuge with Allah from Satan.’ then all is anger will go away.” Some body said to him, “The Prophet has said, ‘Seek refuge with Allah from Satan.”‘ The angry man said, “Am I mad?”

It is reported in Bukhari (Volume 8, Book 81, Number 768)

Narrated Abu Salama:

Abu Huraira said, “A man who drank wine was brought to the Prophet. The Prophet said, ‘Beat him!” Abu Huraira added, “So some of us beat him with our hands, and some with their shoes, and some with their garments (by twisting it) like a lash, and then when we finished, someone said to him, ‘May Allah disgrace you!’ On that the Prophet said, ‘Do not say so, for you are helping Satan to overpower him.’

It is reported in Bukhari (Volume 9, Book 88, Number 193)

Narrated Abu Huraira:  The Prophet said, “None of you should point out towards his Muslim brother with a weapon, for he does not know, Satan may tempt him to hit him and thus he would fall into a pit of fire (Hell)”

Devil’s intrusion in the desire of Prophet

In surah Haj 52-53

وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنْسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آَيَاتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (52) لِيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ فِتْنَةً لِلَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ وَالْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ (53)

Never sent We a messenger or a prophet before thee but when He recited (the message) Satan proposed (opposition) in respect of that which he recited thereof. But Allah abolished that which Satan proposed. Then Allah established His revelations. Allah is Knower, Wise; That He may make that which the devil proposed a temptation for those in whose hearts is a disease, and those whose hearts are hardened – Lo! the evil-doers are in open schism

Some people quote the weak narration that Prophet had included the praise of goddesses of pagans[1]. The verses only say that Prophet had recited the message of Allah but Satan tried to twist the message and Allah abolished what Satan proposed.

Satan induces confusions in mind

It is reported in Bukhari (Volume 4, Book 54, Number 496:

Narrated Abu Huraira: Allah’s Apostle said, “Satan comes to one of you and says, ‘Who created so-and-so? ’till he says, ‘Who has created your Lord?’ So, when he inspires such a question, one should seek refuge with Allah and give up such thoughts.”

It is reported in Bukhari (Volume 3, Book 33, Number 251:

Narrated Ali bin Al-Husain: Safiya, the wife of the Prophet told me that she went to Allah’s Apostle to visit him in the mosque while he was in Itikaf in the last ten days of Ramadan. She had a talk with him for a while, then she got up in order to return home. The Prophet accompanied her. When they reached the gate of the mosque, opposite the door of Um-Salama, two Ansari men were passing by and they greeted Allah’s Apostle . He told them: Do not run away! And said, “She is (my wife) Safiya bint Huyai.” Both of them said, “Subhan Allah, (How dare we think of any evil) O Allah’s Apostle!” And they felt it. The Prophet said (to them), “Satan reaches everywhere in the human body as blood reaches in it, (everywhere in one’s body). I was afraid lest Satan might insert an evil thought in your minds

It is reported in Bukhari (Volume 4, Book 54, Number 510:

Narrated ‘Aisha: On the day (of the battle) of Uhud when the pagans were defeated, Satan shouted, “O slaves of Allah! Beware of the forces at your back,” and on that the Muslims of the front files fought with the Muslims of the back files (thinking they were pagans). Hudhaifa looked back to see his father “Al-Yaman,” (being attacked by the Muslims). He shouted, “O Allah’s Slaves! My father! My father!” By Allah, they did not stop till they killed him. Hudhaifa said, “May Allah forgive you.” ‘Urwa said that Hudhaifa continued to do good (invoking Allah to forgive the killer of his father till he met Allah (i.e. died).

Satan induces fear via dreams

It is reported in Bukhari (Volume 4, Book 54, Number 513:

Narrated Abu Qatada:  The Prophet said, “A good dream is from Allah, and a bad or evil dream is from Satan; so if anyone of you has a bad dream of which he gets afraid, he should spit on his left side and should seek Refuge with Allah from its evil, for then it will not harm him.”

Satan sometimes utters the truth

Allah informed us in Quran (8:48)

And (remember) when Shaitan (Satan) made their (evil) deeds seem fair to them and said, “No one of mankind can overcome you this Day (of the battle of Badr) and verily, I am your neighbour (for each and every help).” But when the two forces came in sight of each other, he ran away and said “Verily, I have nothing to do with you. Verily! I see what you see not. Verily! I fear Allah for Allah is Severe in punishment.”

It is reported in Bukhari (Volume 3, Book 38, Number 505t:

Narrated Abu Huraira: Allah’s Apostle deputed me to keep Sadaqat (al-Fitr) of Ramadan. A comer came and started taking handfuls of the foodstuff (of the Sadaqa) (stealthily). I took hold of him and said, “By Allah, I will take you to Allah’s Apostle .” He said, “I am needy and have many dependents, and I am in great need.” I released him, and in the morning Allah’s Apostle asked me, “What did your prisoner do yesterday?” I said, “O Allah’s Apostle! The person complained of being needy and of having many dependents, so, I pitied him and let him go.” Allah’s Apostle said, “Indeed, he told you a lie and he will be coming again.” I believed that he would show up again as Allah’s Apostle had told me that he would return. So, I waited for him watchfully. When he (showed up and) started stealing handfuls of foodstuff, I caught hold of him again and said, “I will definitely take you to Allah’s Apostle. He said, “Leave me, for I am very needy and have many dependents. I promise I will not come back again.” I pitied him and let him go.  In the morning Allah’s Apostle asked me, “What did your prisoner do.” I replied, “O Allah’s Apostle! He complained of his great need and of too many dependents, so I took pity on him and set him free.” Allah’s Apostle said, “Verily, he told you a lie and he will return.” I waited for him attentively for the third time, and when he (came and) started stealing handfuls of the foodstuff, I caught hold of him and said, “I will surely take you to Allah’s Apostle as it is the third time you promise not to return, yet you break your promise and come.” He said, “(Forgive me and) I will teach you some words with which Allah will benefit you.” I asked, “What are they?” He replied, “Whenever you go to bed, recite “Ayat-al-Kursi”– ‘Allahu la ilaha illa huwa-l-Haiy-ul Qaiyum’ till you finish the whole verse. (If you do so), Allah will appoint a guard for you who will stay with you and no satan will come near you till morning. ” So, I released him. In the morning, Allah’s Apostle asked, “What did your prisoner do yesterday?” I replied, “He claimed that he would teach me some words by which Allah will benefit me, so I let him go.” Allah’s Apostle asked, “What are they?” I replied, “He said to me, ‘Whenever you go to bed, recite Ayat-al-Kursi from the beginning to the end —- Allahu la ilaha illa huwa- Al Haiy-ul-Qaiyum—-.’ He further said to me, ‘(If you do so), Allah will appoint a guard for you who will stay with you, and no satan will come near you till morning.’ (Abu Huraira or another sub-narrator) added that they (the companions) were very keen to do good deeds. The Prophet said, “He really spoke the truth, although he is an absolute liar. Do you know whom you were talking to, these three nights, O Abu Huraira?” Abu Huraira said, “No.” He said, “It was Satan.”

 This was a special incident and in his later life Abu Hurrairah (d. 59 AH) may Allah pleased with him had never encountered Satan in physical form. Also no other companion of Prophet had seen Satan in physical form.  Abu Hurrairah may Allah pleased with him accepted Islam when Prophet peace be upon him migrated to Medinah and he stayed in the company of Prophet for three years.

 Soothsaying

Also Allah informed us that jinn are the complete different creation which can move from Earth to skies. Allah informed us surah Jinn 8-9:

And we have sought to reach the heaven; but found it filled with stern guards and flaming fires.  ‘And verily, we used to sit there in stations, to (steal) a hearing, but any who listens now will find a flaming fire watching him in ambush.

It is reported in Bukhari (Volume 2, Book 21, Number 225) in early years of Prophethood  pagans thought that Prophet is also a Soothsayer (Nazobillah)

Narrated Jundab bin ‘Abdullah :  Gabriel did not come to the Prophet (for some time) and so one of the Quraish women said, “His Satan has deserted him.” So came the Divine Revelation: “By the forenoon And by the night When it is still! Your Lord (O Muhammad) has neither Forsaken you Nor hated you.” (93.1-3)

Jinns are in close connection with soothsayers. In surah Yaseen (221-222) Allah said:

Shall I inform you (O people!) upon whom the Shayatin (devils) descend?  They descend on every lying (one who tells lies), sinful person.

 It is reported in Bukhari (In Bukhari Volume 3, Book 34, Number 439:

Narrated Abu Mas’ud Al-Ansari:  Allah’s Apostle forbade taking the price of a dog, money earned by prostitution and the earnings of a soothsayer

It is reported in Bukhari (Volume 4, Book 54, Number 432:

Narrated ‘Aisha:  I heard Allah’s Apostle saying, “The angels descend, the clouds and mention this or that matter decreed in the Heaven. The devils listen stealthily to such a matter, come down to inspire the soothsayers with it, and the latter would add to it one-hundred lies of their own.

It is reported in Bukhari (Volume 9, Book 93, Number 650:

Narrated ‘Aisha:  Some people asked the Prophet regarding the soothsayers. He said, “They are nothing.” They said, “O Allah’s Apostle! Some of their talks come true.” The Prophet said, “That word which happens to be true is what a Jinn snatches away by stealth (from the Heaven) and pours it in the ears of his friend (the foreteller) with a sound like the cackling of a hen. The soothsayers then mix with that word, one hundred lies.”

Thus it is informed in both Quran and Hadith that soothsayers have close connections with Shayateen or devils.

Magic

Magic is a phenomenon in which Magician symbolically passes on the message to devils to affect the people minds and cause hallucinations or illusions momentarily.

Magicians against Moses

It is reported in Quran (surah Taha 65-70):

قَالُوا يَا مُوسَى إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَلْقَى (65) قَالَ بَلْ أَلْقُوا فَإِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَى (66)فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً مُوسَى (67) قُلْنَا لَا تَخَفْ إِنَّكَ أَنْتَ الْأَعْلَى (68) وَأَلْقِ مَا فِي يَمِينِكَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوا إِنَّمَا صَنَعُوا كَيْدُ سَاحِرٍ وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ أَتَى (69) فَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سُجَّدًا قَالُوا آَمَنَّا بِرَبِّ هَارُونَ وَمُوسَى70

They said:”O Musa (Moses)! Either you throw first or we be the first to throw?”  [Musa (Moses)] said: “Nay, throw you (first)!” Then behold, their ropes and their sticks, by their magic, appeared to him as though they moved fast.  So Musa (Moses) conceived a fear in himself. We (Allah) said: “Fear not! Surely, you will have the upper hand. “And throw that which is in your right hand! It will swallow up that which they have made. That which they have made is only a magician’s trick, and the magician will never be successful, no matter whatever amount (of skill) he may attain.”  So the magicians fell down prostrate. They said: “We believe in the Lord of Harun (Aaron) and Musa (Moses).”

قَالُوا يَا مُوسَى إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ (115)قَالَ أَلْقُوا فَلَمَّا أَلْقَوْا سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ وَجَاءُوا بِسِحْرٍ عَظِيمٍ (116) وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى أَنْ أَلْقِ عَصَاكَ فَإِذَا هِيَ تَلْقَفُ مَا يَأْفِكُونَ (117) فَوَقَعَ الْحَقُّ وَبَطَلَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (118)

Al-Araf 115-118

They said: “O Musa (Moses)! Either you throw (first), or shall we have the (first) throw?”  He [Musa (Moses)] said: “Throw you (first).” So when they threw, they bewitched the eyes of the people, and struck terror into them, and they displayed a great magic.  And We inspired Musa (Moses) (saying): “Throw your stick,” and behold! It swallowed up straight away all the falsehoods which they showed.  Thus truth was confirmed, and all that they did was made of no effect.

 

It is therefore revealed that the magic caused the illusion on the mind and inculcates fear in hearts but Allah destroyed the magic and made his Prophet successful.  When magicians saw the destruction of their great magic they become shameful and prostrated to Allah Almighty.

 

Harut and Marut

In 586 BC the Babylonian king Nebuchadnezzar destroyed the Solomon’s mosque in Jerusalem and enslaved the Jews. While Jews were in Babylon they were indulged in the esoteric sciences and learned magic to separate husband and his wife. To put them in trial, Allah sent two angels Harut and Marut in Babylon to entice Bani Israel in sorcery[2].  In Surah Al-Baqarah 102-103 it is informed that:

 

وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ وَمَا هُمْ بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الْآَخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنْفُسَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ (102) وَلَوْ أَنَّهُمْ آَمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ خَيْرٌ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ

They followed what the Shayatin  read out  about the Kingdom  of  Solomon. Solomon did not disbelieve, but the Shayatin disbelieved, teaching men magic and such things that came down at Babylon to the two angels, Harut and Marut, but neither of these two (angels) taught anyone (such things) till they had said, “We are only for trial, so disbelieve not (by learning this magic from us).” And from these (angels) people learn that by which they cause separation between man and his wife, but they could not thus harm anyone except by Allah’s Leave. And they learn that which harms them and profits them not. And indeed they knew that the buyers of it (magic) would have no share in the Hereafter. And how bad indeed was that for which they sold their ownselves, if they but knew.

 Allah has informed us that he has given Prophet Sulaiman (Solomon) a kingdom which has not given to any one after him. Allah told us in Quran surah Saad

 قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ (35) فَسَخَّرْنَا لَهُ الرِّيحَ تَجْرِي بِأَمْرِهِ رُخَاءً حَيْثُ أَصَابَ (36) وَالشَّيَاطِينَ كُلَّ بَنَّاءٍ وَغَوَّاصٍ (37) وَآَخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفَادِ (38) هَذَا عَطَاؤُنَا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسَابٍ (39) وَإِنَّ لَهُ عِنْدَنَا لَزُلْفَى وَحُسْنَ مَآَبٍ 40

He said: “My Lord! Forgive me, and bestow upon me a kingdom such as shall not belong to any other after me: Verily, You are the Bestower.”  So, We subjected to him the wind, it blew gently to his order whithersoever he willed, And also the Shayatin (devils) from the jinns (including) every kind of builder and diver,  And also others bound in fetters. [Saying of Allah to Sulaiman (Solomon)]: “This is Our gift, so spend you or withhold, no account will be asked.”  And verily, he enjoyed a near access to Us, and a good final return (Paradise).

After this prayer Allah bestowed on Solomon a kingdom in which Wind and brass were following on the orders of Prophet Solomon peace be upon him. Also he has been gifted with the powers to control demons to fulfil his needs.  In surah Saba 12-14 allah informed us:

 وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَرَوَاحُهَا شَهْرٌ وَأَسَلْنَا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ يَعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَمَنْ يَزِغْ مِنْهُمْ عَنْ أَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِيرِ (12) يَعْمَلُونَ لَهُ مَا يَشَاءُ مِنْ مَحَارِيبَ وَتَمَاثِيلَ وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ وَقُدُورٍ رَاسِيَاتٍ اعْمَلُوا آَلَ دَاوُودَ شُكْرًا وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ (13) فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنْسَأَتَهُ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَنْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ 14 

And to Solomon (We subjected) the wind, its morning (stride from sunrise till midnoon) was a month’s (journey), and its afternoon (stride from the midday decline of the sun to sunset) was a month’s (journey i.e. in one day he could travel two months’ journey). And We caused a fount of (molten) brass to flow for him, and there were jinns that worked in front of him, by the Leave of his Lord, and whosoever of them turned aside from Our Command, We shall cause him to taste of the torment of the blazing Fire.  They worked for him what he desired, (making) high rooms, images, basins as large as reservoirs, and (cooking) cauldrons fixed (in their places). “Work you, O family of Dawud (David), with thanks!” But few of My slaves are grateful. Then when We decreed death for him [Sulaiman (Solomon)], nothing informed them (jinns) of his death except a little worm of the earth, which kept (slowly) gnawing away at his stick, so when he fell down, the jinns saw clearly that if they had known the unseen, they would not have stayed in the humiliating torment.

Also one time Solomon asked his courtiers Who would bring the throne of Queen of Saba from Yemen to Jerusalem? And according to  surah AnNamal 38-39 a Jinn offered his services:

 قَالَ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَنْ يَأْتُونِي مُسْلِمِينَ (38) قَالَ عِفْريتٌ مِنَ الْجِنِّ أَنَا آَتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقَامِكَ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌ 39

He said: “O chiefs! Which of you can bring me her throne before they come to me surrendering themselves in obedience?”  An Ifrit (strong) from the jinns said: “I will bring it to you before you rise from your place (council). And verily, I am indeed strong, and trustworthy for such work.”

After Solomon’s death the sorcerers and magicians in Bani Israel claimed that the magnificent kingdom of Solomon was due to magic and sorcery.  (Naodubillah)

Lubaid bin Al-A’sam’s Magic

In the following narrations it is informed that Prophet was affected by the magic done by a Jew ‘Lubaid bin Asam.  The affect was temporary  that he began to fancy that he was doing a thing which he was not actually doing or he thought some times that he had already gone to his wives but he wasn’t.

 It is reported in Bukhari (Volume 4, Book 54, Number 490:

Narrated ‘Aisha:  Magic was worked on the Prophet so that he began to fancy that he was doing a thing which he was not actually doing. One day he invoked (Allah) for a long period and then said, “I feel that Allah has inspired me as how to cure myself. Two persons came to me (in my dream) and sat, one by my head and the other by my feet. One of them asked the other, “What is the ailment of this man?” The other replied, ‘He has been bewitched” The first asked, ‘Who has bewitched him?’ The other replied, ‘Lubaid bin Al-A’sam.’ The first one asked, ‘What material has he used?’ The other replied, ‘A comb, the hair gathered on it, and the outer skin of the pollen of the male date-palm.’ The first asked, ‘Where is that?’ The other replied, ‘It is in the well of Dharwan.’ ” So, the Prophet went out towards the well and then returned and said to me on his return, “Its date-palms (the date-palms near the well) are like the heads of the devils.” I asked, “Did you take out those things with which the magic was worked?” He said, “No, for I have been cured by Allah and I am afraid that this action may spread evil amongst the people.” Later on the well was filled up with earth.

 It is reported in Bukhari (Volume 7, Book 71, Number 658:

Narrated ‘Aisha:  A man called Labid bin al-A’sam from the tribe of Bani Zaraiq worked magic on Allah’s Apostle till Allah’s Apostle started imagining that he had done a thing that he had not really done. One day or one night he was with us, he invoked Allah and invoked for a long period, and then said, “O ‘Aisha! Do you know that Allah has instructed me concerning the matter I have asked him about? Two men came to me and one of them sat near my head and the other near my feet. One of them said to his companion, “What is the disease of this man?” The other replied, “He is under the effect of magic.’ The first one asked, ‘Who has worked the magic on him?’ The other replied, “Labid bin Al-A’sam.’ The first one asked, ‘What material did he use?’ The other replied, ‘A comb and the hairs stuck to it and the skin of pollen of a male date palm.’ The first one asked, ‘Where is that?’ The other replied, ‘(That is) in the well of Dharwan;’ ” So Allah’s Apostle along with some of his companions went there and came back saying, “O ‘Aisha, the color of its water is like the infusion of Henna leaves. The tops of the date-palm trees near it are like the heads of the devils.” I asked. “O Allah’s Apostle? Why did you not show it (to the people)?” He said, “Since Allah cured me, I disliked to let evil spread among the people.” Then he ordered that the well be filled up with earth.

 It is reported in Bukhari (Volume 8, Book 73, Number 89:

Narrated ‘Aisha:  The Prophet continued for such-and-such period imagining that he has slept (had sexual relations) with his wives, and in fact he did not. One day he said, to me, “O ‘Aisha! Allah has instructed me regarding a matter about which I had asked Him. There came to me two men, one of them sat near my feet and the other near my head. The one near my feet, asked the one near my head (pointing at me), ‘What is wrong with this man? The latter replied, ‘He is under the effect of magic.’ The first one asked, ‘Who had worked magic on him?’ The other replied, ‘Lubaid bin Asam.’ The first one asked, ‘What material (did he use)?’ The other replied, ‘The skin of the pollen of a male date tree with a comb and the hair stuck to it, kept under a stone in the well of Dharwan.”‘ Then the Prophet went to that well and said, “This is the same well which was shown to me in the dream. The tops of its date-palm trees look like the heads of the devils, and its water looks like the Henna infusion.” Then the Prophet ordered that those things be taken out. I said, “O Allah’s Apostle! Won’t you disclose (the magic object)?” The Prophet said, “Allah has cured me and I hate to circulate the evil among the people.” ‘Aisha added, “(The magician) Lubaid bin Asam was a man from Bani Zuraiq, an ally of the Jews.”

Some people argue that these narrations could not be authentic as we are informed in Quran that our Prophet peace be upon him was not Mas-hura i.e. under influence of magic. However they failed to realise that this was the propaganda by  the pagans who claim that the Prophet has  uttered the verses against the established Arabian religion so he must be under spell  of some kind. To degrade him pagans also called him soothsayer or poet. But this was the strategy adopted by pagans of Arabia to distract the people from Messenger of Allah. Later when Prophet migrated to Medina he was not declared under the spell by his opponents rather they knew that he was sane person and to disturb the prophetic mission they acquired the help of a Jewish sorcerer. Bukhari’s narrations inform that they failed to affect the prophetic mission and only affect they inflicted via magic is that Prophet sometimes forgot to go to his wives. From the life style of the Prophet we know that he used to go to his wives and that affect of magic must be very short otherwise his wives would have indicated that to him. In the narrations it is informed that Prophet had the self realised this matter and Allah informed him about the reality of matter through vision.

 


[1] The story of Gharaneeque is baseless. Many researchers are unanimous on this including Abu Bakr bin al-Arbi Al-Maliki in Ahkam Al-Quran and Qadhi Ayyadh in Al-Shifa and Fakaruddin Al-Radhi in Mafateeh al-Ghayb 6/193 and Al-Qurtabi in his Tafseer 12/80 and Al-Aini in Ummah-tul-Qari 9/47 and Al-Shokani in Fatah Al-Qadeer 3/247 and Al-Allosi in Rooh Al-Maani 17/160

 

[2] Some people object that how could Allah sent angels to teach something which is Sheerk, but they failed to realise that Allah is the Lord He can do what ever He likes. He sent the angels to sodomites in form of young boys to entice them.

Satan’s deception in dream and Prophetic image

It is reported in Bukhari (Volume 8, Book 73, Number 217:

Narrated Abu Huraira:  The Prophet said, “Name yourselves after me (by my name), but do not call yourselves by my Kuniya, and whoever sees me in a dream, he surely sees me, for Satan cannot impersonate me (appear in my figure). And whoever intentionally ascribes something to me falsely, he will surely take his place in the (Hell) Fire

It is reported in Bukhari (Volume 9, Book 87, Number 122:

Narrated Abu Huraira:  I heard the Prophet saying, “Whoever sees me in a dream will see me in his wakefulness, and Satan cannot imitate me in shape.” Abu ‘Abdullah said, “Ibn Sirin said, ‘Only if he sees the Prophet in his (real) shape.'”

These ahadith are only for the lifetime of Prophet, as Prophet said whoever sees me in a dream will see me in his wakefulness. Now Prophet is not among us, this is not possible. It was mainly told for the Muslims, who do not live in Medinah and have converted to Islam (in the Prophet’s life time) by the preaching of some fellow Muslim brothers. So it is informed that if they see Prophet in dream then the dream is from Allah and it would fulfil and the dreamer would visit Prophet soon.

After the demise of Prophet seeing Prophet in dream is not possible and we cannot stop Satan to appear in our dream in whatever appearance and say I am Messenger of Allah who was sent in Makkah!  How do we make sure that the person is in reality is our beloved Prophet peace be upon him? Some people say that dreamer must be very pious person  and if the Person (whom we saw in dream as a Prophet) tells us a thing of virtue than surely he must be a Messenger of Allah. On the contrary Bukhari has reported a narration that even Satan may utter truth some times.

Exorcism and Demonic Possessions?

Ibn Tammiyah[1] said in Majmoo al Fatawah juz 24, pg 276 when an inquirer asked about the demonic possessions:

فَأَجَابَ :الْحَمْدُ لِلَّهِ ، وُجُودُ الْجِنِّ ثَابِتٌ بِكِتَابِ اللَّهِ وَسُنَّةِ رَسُولِهِ وَاتِّفَاقِ سَلَفِ الْأُمَّةِ وَأَئِمَّتِهَا . وَكَذَلِكَ دُخُولُ الْجِنِّيِّ فِي بَدَنِ الْإِنْسَانِ ثَابِتٌ بِاتِّفَاقِ أَئِمَّةِ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى : { الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ } وَفِي الصَّحِيحِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ { إنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنْ ابْنِ آدَمَ مَجْرَى الدَّمِ } . وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنِ الْإِمَامِ أَحْمَد بْنِ حَنْبَلٍ قُلْت لِأَبِي : إنَّ أَقْوَامًا يَقُولُونَ : إنَّ الْجِنِّيَّ لَا يَدْخُلُ فِي بَدَنِ الْمَصْرُوعِ فَقَالَ : يَا بُنَيَّ يَكْذِبُونَ هَذَا يَتَكَلَّمُ عَلَى لِسَانِهِ ..

Answered:  Praise be to  Allah, the existence of Jinn is proved from Book of Allah and Sunnah of messenger of Allah peace be upon him and the consensus of Salaf of Ummah and  scholars. And likewise entering of  the Jinn in the body of human is proved with the consensus of Ahllul sunnah wal-Jamah, Allah said Those who eat Riba (usury) will not stand except like the standing of a person beaten by Shaitan (Satan) and in Sahih (hadith) from messenger of Allah peace be upon him Satan moves everywhere in the human body as blood moves in it. And Abdullah bin Imam Ahmed bin Hambal said I asked My father that some say that the Jinn cannot enter the body of possessed person He replied O son they lied it (Jinn) speaks in their language …

The verse to which Ibn-Tammiyiah has referred is in Surah Al-Baqarah 275:

الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ 

Those who eat Riba (usury) will not stand  except like the standing of a person beaten by Shaitan (Satan) leading him to insanity. That is because they say: “Trading is only like Riba (usury),” whereas Allah has permitted trading and forbidden Riba (usury). So whosoever receives an admonition from his Lord and stops eating Riba (usury) shall not be punished for the past; his case is for Allah (to judge); but whoever returns [to Riba (usury)], such are the dwellers of the Fire – they will abide therein.

The verse was revealed in Medinah, where in the early days Jewish tribes were also settled. They were the stalwart supporters of usury. It is informed that those who eat usury are so obsessed with it that they would rise against the command like as if they are possessed. It is further stated what these people would say in favour of usury as sated in verse Trading is only like Riba which also indicate that the verses are about the sane people who still like to eat usury and do argumentation.

Some people tried to extract from these verses the unlimited demonic power that the Satan can hulool (dissolve) inside human body which is totally an erroneous conclusion. For proof, they present the verses of Quran in which Allah informed us about the trial of Prophet Ayub.

In Surah Saad 41-42 Allah informed about the Prophet Ayub peace be upon him that

وَاذْكُرْ عَبْدَنَا أَيُّوبَ إِذْ نَادَى رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الشَّيْطَانُ بِنُصْبٍ وَعَذَابٍ (41) ارْكُضْ بِرِجْلِكَ هَذَا مُغْتَسَلٌ بَارِدٌ وَشَرَابٌ 42

And remember Our slave Ayub (Job), when he invoked his Lord (saying): “Verily! Shaitan (Satan) has touched me with distress (by losing my health) and torment (by losing my wealth)!  (Allah said to him): “Strike the ground with your foot: This is a spring of water to wash in, cool and a (refreshing) drink.”

Here the touch of devil[2] does not means that Satan can inflict Prophets by only one single touch. The touch here means the affect on the mind momentarily as like anger etc. In state of anger Prophet Ayub took an oath in name of Allah which he later realised, is wrong. Allah Almighty instructed him to complete his oath and a way of fulfilling the oath is told.

In surah Alaaraf 201 Allah informed about the demonic touch as an evil thought sweeping in mind.

إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُمْ مُبْصِرُونَ (201)

Verily, those who are Al-Muttaqun (the pious – see V.2:2), when an evil thought comes to them from Shaitan (Satan), they remember (Allah), and (indeed) they then see (aright).

They also present the narration in Nisai juz 8 pg 677 which report that

أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ صَيْفِيٍّ مَوْلَى أَبِي أَيُّوبَ عَنْ أَبِي الْيَسَرِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ التَّرَدِّي وَالْهَدْمِ وَالْغَرَقِ وَالْحَرِيقِ وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ يَتَخَبَّطَنِي الشَّيْطَانُ عِنْدَ الْمَوْتِ وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أَمُوتَ فِي سَبِيلِكَ مُدْبِرًا وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أَمُوتَ لَدِيغًا

Abi Al-Yassr said Messenger of Allah peace be upon him said: O Allah, I seek refuge from degradation and destruction, drowning, fire and seek refuge  that flounder me Devil at the death and seek refuge to die when ran away from your way and seek refuge   to die from snake bite.

 On the words يَتَخَبَّطنِي الشَّيْطَان عِنْد الْمَوْت  Suyuti  quoted the Al-Khattabi’s opinion in Sharah Nisai that

حَاشِيَةُ السِّيُوطِيِّ : ( وَأَعُوذ بِك أَنْ يَتَخَبَّطنِي الشَّيْطَان عِنْد الْمَوْت ) قَالَ الْخَطَّابِيُّ هُوَ أَنْ يَسْتَوْلِي عَلَيْهِ عِنْد مُفَارَقَة الدُّنْيَا فَيُضِلّهُ وَيَحُول بَيْنه وَبَيْن التَّوْبَة

Khattabi said: That is  (Satan) captures one, when one is leaving the world,  so it misleads one and stands between  him and  the repentance

Scholars who believe in demonic possessions then present the following narrations.

Narration of Uthman bin Abi Aas

It is reported in Ibn Majah, juz 2, pg 1174

حدثنا محمد بن بشار . حدثنا محمد بن عبد الله الأنصاري . حدثني عيينة بن عبد الرحمن . حدثني أبي عن عثمان بن أبي العاص قال لما استعملني رسول الله صلى الله عليه و سلم على الطائف جعل يعرض لي شيء في صلاتي حتى ما أدري ما أصلي . فلما رأيت ذلك رحلت إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم . فقال  : ( ابن أبي العاص ؟ ) قلت نعم يا رسول الله قال ( ماجاء بك ؟ ) قلت يا رسول الله عرض لي شيء في صلواتي حتى ما أدري ما أصلي . قال ( ذاك الشيطان . ادنه ) فدنوت منه . فجلست على صدور قدمي . قال فضرب صدري بيده وتفل في فمي وقال ( اخرج . عدو الله ) ففعل ذلك ثلاث مرات . ثم قال ( الحق بعملك )  قال فقال عثمان فلعمري ما أحسبه خالطني بعد

Uthman bin Abi Al-Aas  said that When Messenger of Allah peace be upon him appointed him on Taif , it (Satan)  made displays for me during prayer until I don’t know what I have prayed. When I saw this I travelled to visit Messenger of Allah peace be upon him. He (Prophet)  said (astonishingly) Ibn Abi Al-Aas? I said Yes O Messenger of Allah He asked What happened? I said O Messenger of Allah there is display of things in my prayer until I do not know what I prayed. He said that is Satan and then I came close to him (Prophet). He sat on my breasts and then  hit my chest with his hand and spit in my mouth  and said Exit, enemy of Allah. He  did it three times.  Then he said truth lies in your deed. Uthman informed: he never had the illusions afterwards.

The narrator  محمد بن عبد الله بن المثنى بن عبد الله بن أنس بن مالك الأنصاري of above narration is although generally  considered as authentic. But in Tahzeeb ul Kamal, juz 25 , pg 542

وقال أبو داود تغير تغيرا شديدا

Abi Daood informed that He has phenomenally changed

The change probably happened at an old age. As the above narration is Shaz (i.e. against a Sahih narration reported in Sahih Muslim)

It is reported in Sahih Muslim, juz 4, pg 1728

حدثنا يحيى بن خلف الباهلي حدثنا عبدالأعلى عن سعيد الجريري عن أبي العلاء  : أن عثمان بن أبي العاص أتى النبي صلى الله عليه و سلم فقال يا رسول الله إن الشيطان قد حال بيني وبين صلاتي وقراءتي يلبسها علي فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم ذاك شيطان يقال له خنزب فإذا أحسسته فتعوذ بالله منه واتفل على يسارك ثلاثا فقال ففعلت ذلك فأذهبه الله عني

Abi Alla narrated that Uthman bin Abi Al-Aas came to Messenger of Allah peace be upon him and said O Messenger of Allah Indeed the Satan indulge between me and  prayer and my recitation is affected. So Messenger of Allah peace be upon him said this (is due to ) satan, called Khanzab so when you feel his presence then seek refuse of Allah from him and spit on your left thrice. He (Uthman) said I did that and Allah removed him from (disturbing) me.

The hadith of Muslim informed that on that day Uthman met Messenger of Allah peace be upon him but there was no exorcism done. Therefore Ibn-Majah narration is Shaaz and cannot be considered  authentic.

Narration of Yala bin Murrah

It is reported Musnad Ahmed, juz 4, pg 170

حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا عبد الله بن نمير عن عثمان بن حكيم قال أخبرني عبد الرحمن بن عبد العزيز عن يعلى بن مرة قال : لقد رأيت من رسول الله صلى الله عليه و سلم ثلاثا ما رآها أحد قبلي ولا يراها أحد بعدي لقد خرجت معه في سفر حتى إذا كنا ببعض الطريق مررنا بامرأة جالسة معها صبي لها فقالت يا رسول الله هذا صبي أصابه بلاء وأصابنا منه بلاء يؤخذ في اليوم ما أدري كم مرة قال ناولينيه فرفعته إليه فجعلته بينه وبين واسطة الرحل ثم فغرفاه فنفث فيه ثلاثا وقال بسم الله أنا عبد الله اخسأ عدو الله ثم ناولها إياه فقال القينا في الرجعة في هذا المكان فأخبرينا ما فعل قال فذهبنا ورجعنا فوجدناها في ذلك المكان معها شياه ثلاث فقال ما فعل صبيك فقالت والذي بعثك بالحق ما حسسنا منه شيئا حتى الساعة …..

تعليق شعيب الأرنؤوط : إسناده ضعيف لجهالة عبد الرحمن بن عبد العزيز

Yalla bin Murrah said: I saw Allah’s Messenger peace be upon him do three things which no one before or after me saw. I went with him on a trip. On the way we passed by a woman sitting at the roadside with a young boy. She called out O Messenger of Allah this boy is afflicted with a trial, and from him we have also been afflicted with a trial. I do not know how many times in a day he has seizures or fits Prophet said hand him over to me so she lifted him up to the prophet and he placed him between himself and the middle of the saddle. He (Prophet) opened the boy’s mouth and blew in it three times saying in the name of Allah I am the slave of Allah get out O enemy of Allah then he hand over the boy back to her and said: Meet us on our return at the same place and tell us how he has faired. We then went on and on our return we found her at the same place with three sheeps. He (Prophet) said to her: How is your son? She replied by the one who has sent  you with truth we have not detected anything unusual.

The narrator عبد الرحمن بن عبد العزيز is unknown. There is another narrator with the same name but he too is very much criticised.  In his noting Shoaib Al.Arnawat has also indicated that he is unknown narrator.

Narration of Jabir

It is reported in Masnad Darmi  juz 1, pg 22

أخبرنا عبيد الله بن موسى عن إسماعيل بن عبد الملك عن أبي الزبير عن جابر قال : خرجت مع النبي صلى الله عليه و سلم في سفر وكان لا يأتي البراز حتى يتغيب فلا يرى فنزلنا بفلاة من الأرض ليس فيها شجر ولا علم فقال يا جابر اجعل في إداوتك ماء ثم انطلق بنا قال فانطلقنا حتى لا نرى فإذا هو بشجرتين بينهما أربع أذرع فقال يا جابر انطلق إلى هذه الشجرة …………. فعرضت له امرأة معها صبي لها فقالت يا رسول الله إن ابني هذا يأخذه الشيطان كل يوم ثلاث مرار قال فتناول الصبي فجعله بينه وبين مقدم الرحل ثم قال اخسأ عدو الله أنا رسول الله صلى الله عليه و سلم اخسأ عدو الله انا رسول الله صلى الله عليه و سلم ثلاثا ثم دفعه إليها فلما قضينا سفرنا مررنا بذلك المكان فعرضت لنا المرأة معها صبيها ومعها كبشان تسوقهما فقالت يا رسول الله اقبل مني هديتي فوالذي بعثك بالحق ما عاد إليه بعد فقال خذوا منها واحدا وردوا عليها الآخر …..

 I went out with Prophet in a trip (and we were so involved that) we passed no stool and we see no ground until we descend on a plain without trees and indications. He (Prophet) said:  O Jabir, mark  the water and quickly inform us. We set out to search until we see as if it is two trees between four arms. He said O Jabir lets go to that tree. … then came a woman with a boy and she said, ‘O Messenger of Allah, My son takes the devil every day,  three times per day. (Narrator) Said He (Prophet) took the boy and placed the boy between him and the  Rahil  and then said: Go away you O enemy of Allah, I am the Messenger of Allah (may Allah bless him and grant him peace) Go away enemy of God I am the Messenger of Allah and He (Prophet) said this  three times and then returned the boy. When we spent our journey and we passed  by the same  place came to us the same  women with her boy and with two rams and she  said, O Messenger of Allah Accept gift from me, By Allah the one who sent you with truth , he (devil) has not returned to him after  this. Prophet said, Take one of them (rams) and returned others…..

It is reported that the narrator إسماعيل بن عبد الملك  is very weak. Ibn- Addi wrote in Al-Kamil, juz 1, pg 279

علي قال سمعت يحيى بن سعيد يقول تركت إسماعيل بن عبد الملك

Ali (Al-Madini) said I heard Yahyah bin Saeed said I rejected Ismaeel bin Abdul-Malik

Therefore the narrator is Matrook and his narrations should not be considered as authentic.

It is reported in Tabarai Al-Awsat, juz 9, pg 52

– حدثنا مسعدة بن سعد ثنا إبراهيم بن المنذر نا محمد بن طلحة التيمي ثنا عبد الحكيم بن سفيان بن أبي نمر عن شريك بن عبد الله بن أبي نمر عن جابر بن عبد الله قال خرجنا في غزوة ذات الرقاع حتى إذا كنا بحرة واقم عرضت امرأة بدوية بابن لها فجاءت إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فقالت يا رسول الله هذا ابني قد غلبني عليه الشيطان فقال ادنيه مني فأدنته منه فقال افتحي فمه ففتحته فبصق فيه رسول الله صلى الله عليه و سلم ثم قال اخسأ عدو الله وأنا رسول الله قالها ثلاث ….

The contents are similar to above narration. Tabarani said

لم يرو هذا الحديث عن شريك بن عبد الله إلا عبد الحكيم بن سفيان ، ولا عن عبد الحكيم إلا محمد بن طلحة ، تفرد به إبراهيم بن المنذر

No one reports this hadith from Shareek bin Abdullah except Abdul-Hakeem bin Sufyan and from Abdul Hakim no one except Muhammad bin Talha, Ibrahim bin Al-Mundir has Taffarud in this narration.

 The narrator Abdul Hakeem bin Sufyan is unknown. Ibn Abi Hatim has repoted in Al-Jarah wa Tadeel that this narrator reports from his father but stated nothing for the trustworthiness of him.

In  سؤالات الآجري when Al-Ajari asked Abi Dawood about the narrator Muhammad bin Talha he said

سئل أبو داود عن محمد بن طلحة فقال : يخطئ.

Asked Abu Dawood about Muhammad bin Talha said: did mistakes

This narration is weak as well.

Narration of Ume Aban

It is reported in Muajam Al-Kabeer by Tabarani juz 5 pg 275

حدثنا العباس بن الفضل الأسفاطي ثنا موسى بن إسماعيل ثنا مطر بن عبد الرحمن الأعنق حدثتني أم بان بنت الوازع عن أبيها : أن جدها الزارع انطلق إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فانطلق معه بابن له مجنون أو ابن أخت له قال جدي : فلما قدمنا على رسول الله صلى الله عليه و سلم المدينة قلت : يارسول الله إن معي ابن لي أو ابن أخت لي مجنون أتيتك به تدعو الله عز و جل له فقال : ائتني به فانطلقت به إليه وهو في الركاب فأطلقت عنه وألقيت عنه ثياب السفر وألبسته ثوبين حسنين وأخذت بيده حتى انتهيت به إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : ادنه مني اجعل ظهره مما يليني قال : فأخذ بمجامع ثوبه من أعلاه وأسفله فجعل يضرب ظهره حتى رأيت بياض إبطيه وهو يقول : اخرج عدو الله اخرج عدو الله فأقبل ينظر نظر الصحيح ليس بنظره الأول ثم أقعده رسول الله صلى الله عليه و سلم بين يديه فدعا له بماء فمسح وجهه ودعا له فلم يكن في الوفد أحد بعد دعوة رسول الله صلى الله عليه و سلم يفضل عليه

Narrated Umme Aban Al-Wazay from her father that her grandfather Al-Zari Went to the Messenger of Allah peace be upon him, and also went with him his possessed son or nephew of his grandfather. Her grandfather said: when we reach Messenger of Allah peace be upon him at Medinah and said: O Messenger of Allah I have my  possessed son or nephew  with me and we arrived here so that you pray Allah Almighty for them.  Prophet said … (took the boy and said ).. Exit O enemy of Allah,  Exit O enemy of Allah, ….

The narrator مطر بن عبد الرحمن الأعنق  is the only one narrating from Umme Abban. Dr. Bashshar Awwad wrote in his noting on Tahzeeb Al-Kamal

ذكرها الذهبي في المجهولات من ” الميزان ” بسبب تفرد مطر بالرواية عنها (4 / الترجمة 11004)، وقال ابن حجرفي ” التقريب “: مقبولة.

Dahabi has discussed her in Al-Majhoolat (unknown) narrators in Al-Meezan due to the uniqueness of reporting of Matar from her (4/ discussion 11004) and Ibn Hajar said in Taqreeb Maqbool

None of the above narrations is strong enough to be taken as Sahih.

Cohabitation

Some scholars also believe in the possibility of marriage of Jinns with humans. They present the following verse from Quran for their claim.  In surah Al-Isra 64 Allah informed that Allah had given Satan respite

اسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَأَجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ وَعِدْهُمْ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا (64)

 “And Istafziz [literally means: befool them gradually] those whom you can among them with your voice , make assaults on them with your cavalry and your infantry, mutually share with them wealth and children and make promises to them.” But Satan promises them nothing but deceit.

The correct meaning of the words وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ is not that humans can marry Jinns but refers to  adultery. There is no evidence of the marriage between Jinn and Humans, there is not a single authentic hadith on marriage between Jinn and humans and also human experience denies this. However one cannot stop the wild imagination of some people and they claim that demons can posses humans and cohabit with them (Naodubillah)

Ibn-Tammiyah said in Fatwah (Fatawah al-Kubra, juz 19 pg 40 )

وصرعهم للإنس قد يكون عن شهوة وهوى وعشق كما يتفق للإنس مع الإنس وقد يتناكح الإنس والجن ويولد بينهما ولد وهذا كثير معروف وقد ذكر العلماء ذلك وتكلموا عليه وكره أكثر العلماء مناكحة الجن وقد يكون وهو كثير أو الأكثر عن بغض ومجازاة مثل أن يؤذيهم بعض الإنس أو يظنوا أنهم يتعمدو أذاهم إما ببول على بعضهم وإما بصب ماء حار وإما بقتل بعضهم وإن كان الإنسي لا يعرف ذلك وفى الجن جهل وظلم فيعاقبونه بأكثر مما يستحقه وقد يكون عن عبث منهم وشر بمثل سفهاء الإنس 

 And the demonic possession of the human may happen due to lust, desire and love, as one human  do with other humans and Jinn and Human can marry and bear children and it is well known and many scholars discussed this and spoke about this. And abhor many scholars the marriage with Jinn. And it  (demonic possession) may happen and that is many times the reason is that they want to retaliate like if some of the  humans  have inflicted pain to them (Jinn) or they (Jinn) thought in this manner (that human hurt them intentionally) like urination (by humans) on them  or throwing hot water or have killed some of them (Jinn) even though humans did that unintentionally and Jinns are ignorant so they afflict suffering on humans more than what humans deserve and it (demonic possession) may also happen due to futility by Jinns like stupid humans do with each other….

This shows that by 700 AH, the Muslim societies were so obsessed with the spiritual world that they lack realism. Scholars who depict hidden world as mysterious were famous.

Diseases from Satan

Some scholars even believe that Satan can inflict diseases on humans!

Mensuration

It is narrated in Musnad Ahmed , juz 6, pg 439

حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا عبد الملك بن عمرو قال ثنا زهير يعنى بن محمد الخرساني عن عبد الله بن محمد يعنى بن عقيل بن أبي طالب عن إبراهيم بن محمد بن طلحة عن عمه عمران بن طلحة عن أمه حمنة بنت جحش قالت ….

إنما هذه ركضة من ركضات الشيطان

Indeed this (blood of menstruation) is dripping from the drippings of Satan

 

In book تعليقة على العلل لابن أبي حاتم , Abdul Haddi wrote (juz 1, pg 63-64):

وقال ابن أبي حاتم سألت أبي عن حديث رواه ابن عقيل عن إبراهيم ابن محمد عن عمران بن طلحة عن أمه حمنة بنت جحش في الحيض فوهنه ولم يقوي إسناده

Ibn Abi Hatim said I asked my father about the hadith narrated by Ibn Aqeel from Ibrahim bin Muhammad from Imran bin Talha from his mother Hamnata bint Jahash on the mensuration, he declared it weak and said sanad is not strong.

 وبلغني عن أبي عيسى الترمذي أنه سمع محمد بن إسماعيل البخاري يقول حديث حمنة بنت جحش في المستحاضة هو حديث حسن إلا أن إبراهيم بن محمد بن طلحة هو قديم لا أدري سمع منه عبد الله بن محمد بن عقيل أم لا

It reached me from Abi Isa al-Tirmidhi that he heard from Muhammad bin Ismail Al-Bukhari that he said Hadith Hamnata bint Jahash on the menstruating woman is hadith hasan indeed Ibrahim bin Muhamad bin Talha is from earliest era,  don’t know whether he heard from Abdullah bin Muhammad bin Aqeel or not.

Therefore according to Bukhari  this narration is most likely broken. Ibn Abi Hatim has completely rejected it.

Plague

It is also claimed that plague is due to Jinns!  It is reported in Musnad Ahmed juz 4, pg 413

حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا بكر بن عيسى قال ثنا أبو عوانة عن أبي بلج قال حدثناه أبو بكر بن أبي موسى الأشعري عن أبيه عبد الله بن قيس : ان النبي صلى الله عليه و سلم ذكر الطاعون فقال وخز من أعدائكم من الجن وهى شهادة المسلم

Abullah bin Qais narrated that Messenger of Allah peace be upon him talked about  plague and he said the tingling of your enemies from the Jinn and it is martyrdom for a  Muslim

It contains narrator  أبو بلج وهو الفزاري الواسطي الكبير and he is a weak narrator Bukhari called him  فيه نظر which indicate that he is a weak narrator.  So this narration is weak.

There is another narration in Musnad Ahmed juz 4, pg 395

حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا عبد الرحمن ثنا سفيان عن زياد بن علاقة عن رجل عن أبي موسى قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : فناء أمتي بالطعن والطاعون فقيل يا رسول الله هذا الطعن قد عرفناه فما الطاعون قال وخز أعدائكم من الجن وفي كل شهداء

Abi Musa narrated that Messenger of Allah peace be upon him said the destruction of my Ummah will be by stabbing and plague,  asked O Messenger of Allah stabbing we understood (but) what is this plague? Said it is tingling from your enemies in Jinn, and those who suffer from this are martyrs.

This narration is weak as it  contains unknown  narrator. Also narrator Zyad bin Illaqah has heard this narration from whom?  In another narration Zyad informed that unknown narrator is أُسَامَةَ بْنِ شَرِيكٍ  then in Muajjam Tabarani Alawsat (juz 2, pg 105), Zyad informed that person was يزيد بن الحارث. In Musnad al-Bazzaz (juz 4, pg 402) Zyad informed that he heard from قُطْبَةَ بْنِ مَالِكٍ  and in same Musnad he said he heard from كُرْدُوسٍ?

Darqutini said in Illal juz 7 pg 136

وسئل عن حديث كردوس عن المغيرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال قال فناء أمتي بالطاعون والطعن فقال يرويه زياد بن علاقة واختلف عنه فرواه أبو أحمد الزبيري عن الثوري عن زياد بن علاقة عن كردوس عن المغيرة ورواه إسماعيل بن زكريا عن مسعر والثوري عن زياد بن علاقة عن كردوس عن أبي موسى ورواه وكيع عن الثوري ورواه أبو بكر النهشلي عن زياد بن علاقة عن أسامة بن شريك عن أبي موسى ورواه أبو حنيفة عن زياد بن علاقة عن عبد الله بن الحارث عن أبي موسى ورواه سعاد بن سليمان عن زياد بن علاقة عن يزيد بن الحارث عن أبي موسى ورواه أبو شيبة إبراهيم بن عثمان عن زياد بن علاقة عن اثنى عشر رجلا من بني ثعلبة عن أبي موسى ورواه الحكم بن عتيبة عن زياد بن علاقة عن رجل من قومه لم يسمه عن أبي موسى

And asked about the narration of Kurdos from Al-Mughaira from Messenger of Allah said that destruction of my ummah is due to stabbing and plague  ?  Darqutini said Zyad bin Illaqah narrates and there are differences so

  • narrated Abu Ahmed Al-Zubairi from Thori from Zyad bin Illaqah from Kurdos from Mughaira and
  • narrated Ismael bin Zakarya from Massar and Thoei from Zyad bin Illaqah from Kurdos from Abi Musa and
  • narrated Abu bakr Al-Nahshali from Zyad bin Illaqah from Usama bin Shareek from Abi Musa  and
  • narrated Abu Hanifa from Zyad bin Illaqah from Abdullah bin Harith from Abi Musa and
  • narrated Saad bin Salman from Zyad bin Illaqah from Yazid bin Al-Harith from Abi Musa and
  • narrated Abu sheeba Ibrahim bin uthman from Zyad bin Illaqah from tweleve men from Bani Thalaba from Abi Nusa
  • narrated Al-Kakm bin Utbah from Zyad bin Illaqah from a man not named from Abi Musa

There are six different names and 12 people of Bani Thalabah  in the narration for the person from whom Zyad heard this narration!  How could this narration be correct with this much confusion.

In Tabarani Muajjam Kabeer, juz 11, pg 93 there is another narration

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بن إِبْرَاهِيمَ بن يَزْدَادَ الطَّبَرَانِيُّ الْخَطِيبُ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بن أَيُّوبَ النَّصِيبِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بن عِصْمَةَ النَّصِيبِيُّ ، عَنْ بِشْرِ بن حَكَمٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بن أَبِي حُرَّةَ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ : فَنَاءُ أُمَّتِي فِي الطَّعْنِ وَالطَّاعُونِ ، قُلْنَا : قَدْ عَرَفْنَا الطَّعْنَ فَمَا الطَّاعُونُ ؟ ، قَالَ : وَخْزُ أَعْدَائِكُمْ مِنَ الْجِنِّ ، وَفِي كُلٍّ شَهَادَةٌ ، لَمْ يَرْوِهِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بن أَبِي حُرَّةَ ، إِلا بِشْرٌ ، وَلا عَنْ بِشْرٍ ، إِلا عَبْدُ اللَّهِ بن عِصْمَةَ

The narrator إِبْرَاهِيمَ بن أَبِي حُرَّةَ is weak as Ibn Addi and Al-Sajji called him weak (Lisan ul Meezan, juz 1, pg 20)

The conclusion is that the Jinns cannot inflict diseases on humans.

Abduction by Demons

It is reported in Sunnan Al-Kubra Baihaqui juz 7, pg 445

انا عبد الوهاب بن عطاء نا سعيد عن قتادة عن أبى نضرة عن عبد الرحمن بن أبى ليلى ان رجلا من قومه من الانصار خرج يصلى مع قومه العشاء فسبته الجن ففقد فانطلقت امرأته إلى عمر بن الخطاب رضى الله عنه فقصت عليه القصة ….

It is reported by Al-Baihaqui that in the era of Umar bin Khattab a person from Ansar is abducted by demons and for eight years he remained in custody of Jinns and finally Muslim Jinns helped in his release! The sanad contains narrator عبد الرحمن بن أبى ليلى who had never seen Umer bin Khattab then how could be he narrate an event which spans over eight years in the era of Umer bin Khattab?

It is reported in  Tahzeen ul-Kamal juz 17, pg 372  that

وقال عباس الدوري: سئل يحيى بن معين عن عبد الرحمان بن أبي ليلى عن عمر، فقال: لم يره

And Abbas al-Dauri asked Yahyah bin Moin about Abdur Rehman bin Abi Laila from Umer He said not seen him.

Therefore this is totally a baseless narration and cannot be declared as Sahih.

Satan in pysical forms

There are two views regarding the appearance of Satan in physical forms.

View 1: Jinns cannot appear in physical form

Allah informed us that we cannot see Jinns (Al-Araf 27)

إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ

Verily, he and Qabiluhu (his soldiers from the jinns or his tribe) see you from where you cannot see them

If we believe that we could see devils, demons or Satan then this would annul the meaning  of this verse completely.  Imam Shafee  have rejected  the possibility  that anyone could see the Satan[3].

Later, there are scholars who believe in the appearance of Jinns in physical forms. In the support  their claim they present narrations:

1. It is reported by Baihaqui and Hakim that

حدثنا بحر بن نصر قال ثنا ابن وهب قال ثنا معاوية بن صالح عن أبي الزاهرية عن جبير بن نفير عن أبي ثعلبة الخشني أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال الجن على ثلاثة أثلاث فثلث لهم أجنحة يطيرون في الهواء وثلث حيات وكلاب وثلث يحلون ويظعنون

Abu-Thaalba Al-Khashani said Prophet said Jinns are of three kinds one third of them fly with wings like birds, one third of them are snakes and dogs and one third of them are subject to wandering and roaming.

For the narrator معاوية بن صالح  , Muawiya bin Salah al-Hadrami (d 158 AH) Dahabi quoted in Meezan Al-Ateedal

وكان يحيى القطان يتعنت ولا يرضاه.

Yahyah Al-Qaatan  reaveled that he is not happy with him

وقال أبو حاتم: لا يحتج به

Abu hatim said: Do not take his narrations

Bukhari has not taken narrations from him.

Therefore this narration is weak and non authentic.

2. It is repoted in Sahih Bukhari, Volume 1, Book 9, Number 488:

Narrated Abu Salih As-Samman: I saw Abu Said Al-Khudri praying on a Friday, behind something which acted as a Sutra. A young man from Bani Abi Mu’ait, wanted to pass in front of him, but Abu Said repulsed him with a push on his chest. Finding no alternative he again tried to pass but Abu Said pushed him with a greater force. The young man abused Abu Said and went to Marwan and lodged a complaint against Abu Said and Abu Said followed the young man to Marwan who asked him, “O Abu Said! What has happened between you and the son of your brother?” Abu Sa’id said to him, “I heard the Prophet saying, ‘If anybody amongst you is praying behind something as a Sutra and somebody tries to pass in front of him, then he should repulse him and if he refuses, he should use force against him for he is a satan.’ ”

This above narration from Bukhari proves that calling some one Satan could be  a figurative speech as Abu Saeed called a young man Satan. The man who tried to pass in front of Abu Saeed was not the Satan personified nor Abu Saeed believed that otherwise he could said to Marwan that don’t listen to him  he is indeed devil personified. The prophetic words (use force against him for he is Satan) are used to indicate the person is actually enticed by the Satan.

Allah said in surah Al-Annam 112

شياطين الإنس والجن يوحي بعضهم إلى بعض زخرف القول غرورا

So word Satan is also used for humans who do mischievous acts. Ibn Habban said in his Sahih, juz 6, pg 128

قوله صلى الله عليه وسلم فإنما هو شيطان أراد به أن معه شيطانا يدله على ذلك الفعل لا أن المرء المسلم يكون شيطانا

The statement of (Messenger of Allah) peace be upon him that he is Satan, he meant that with that person (who tried to pass in front of praying peron) is Satan (i.e. guiding him) and  not that the  Muslim be a demon.

3. It is reported in Muslim that Messenger of Allah peace be upon him said that the prayer would be annulled if a donkey, women and black dog passed in front of praying person and Prophet said further black dog is Satan.

Scholar Ibn Aqeel said in his work Kitab Al-Funoon

قال أبو الوفاء ابن عقيل 

 هذا على طريق التشبيه لها بالشياطين، لأن الكلب الأسود أشرّ الكلاب وأقلعها نفعاً، والإبل تشبه الجن في صعوبتها وصولتها، كما يقال: فلان شيطان ؛ إذا كان صعباً شريراً

This is for sake of similitude as black dog is worst in all dogs and its benefit is low and similitude of camel with jinn is for sake of hard word and effort as said for someone that is Satan when he was mischievous

In Bukhari it is reported that Aisha, Mother of believers clarified this matter and said to the person who informed her about this hadith and she said you brought us (women) among dogs then she said :

لقد رأيت النبي عليه السلام يصلي وإني لبينه وبين القبلة

I saw the Prophet peace be upon him prayed  and I between him and the Qibla

This indicate that the listener has not understood completely what Prophet meant.  As stated in first narration that a person who tried to pass in front of a praying person is enticed by Satan similarly the donkey or black dog can be called Satan if pass in front of a praying person, figuratively not literally.

4. Similarly there is a narration which prohibits praying in camel pens reported by Ibn-Habban.  Ibn-Habban commented on this report in Sahih, juz 4 , pg 558 and clarified it.

قال أبو حاتم قوله صلى الله عليه وسلم فإنها خلقت من الشياطين أراد به أن معها الشياطين وهكذا قوله صلى الله عليه وسلم فليدرأه ما استطاع فإن أبى فليقاتله فإنه شيطان ثم قال في خبر صدقة بن يسار عن بن عمر فليقاتله فإن معه القرين ذكر البيان بأن قوله صلى الله عليه وسلم فإنها خلقت من الشياطين لفظة أطلقها على المجاورة لا على الحقيقة

Abu Hatim (Ibn-Habban) said: the statement of Messenger of Allah peace be upon him that they are created from Satans mean by that there stays Satan with them  and that’s the statement of Prophet…. The words they are created from Satan are the words applied figuratively and not a reality.

He further said in his Sahih, juz 4, pg 558

أعطان الإبل لأجل أنها خلقت من الشياطين لم يصل صلى الله عليه وسلم على البعير إذ محال أن لا تجوز الصلاة في المواضع التي قد يكون فيها الشيطان ثم تجوز الصلاة على الشيطان نفسه بل معنى قوله صلى الله عليه وسلم انها خلقت من الشياطين أراد به أن معها الشياطين على سبيل المجاورة والقرب

(If the discouragement from the formal prayer) in camel pens was actually due to camels being created from demons then Prophet would have not prayed on the back of a camel (while ridding it). It is impossible that a formal prayer not be allowed in areas where devil may be but allowed on devils themselves. But the words ((they are created from Satan)) mean that there are demons with them i.e. referring to  neighbouring and nearby.

In Arabic the word Satan is some times used figuratively.  In Quran Allah informed about the Tree of Zaqqom in Hell. It is said in surah As-Saffat

 

أَذَلِكَ خَيْرٌ نُزُلًا أَمْ شَجَرَةُ الزَّقُّومِ (62) إِنَّا جَعَلْنَاهَا فِتْنَةً لِلظَّالِمِينَ (63) إِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فِي أَصْلِ الْجَحِيمِ (64) طَلْعُهَا كَأَنَّهُ رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ (65) فَإِنَّهُمْ لَآَكِلُونَ مِنْهَا فَمَالِئُونَ مِنْهَا الْبُطُونَ (66)

 Is that (Paradise) better entertainment or the tree of Zaqqum (a horrible tree in Hell)?  Truly We have made it (as) a trail for the Zalimun (polytheists, disbelievers, wrong-doers, etc.). Verily, it is a tree that springs out of the bottom of Hell-fire, The shoots of its fruit-stalks are like the heads of Shayatin (devils);  Truly, they will eat thereof and fill their bellies therewith.

It is informed that fruits of Zaqqom would look so hideous like the heads of Shiyateen.

5. Scholar who believe in the appearance of Satan in visible form present the narration of  in Sahih Muslim, chapter killing of snakes, which report that a companion of Prophet has died due to snake bite.  Later Prophet instructed that

إن بالمدينة جنا قد أسلموا فإذا رأيتم منهم شيئا فآذنوه ثلاثة أيام فإن بدا لكم بعد ذلك فاقتلوه فإنما هو شيطان

In Medinah there are snakes who have submitted so if you see anyone from them then permit them for three days afterwards kill them as it is Satan.

This narration does not prove that جنا  were Jinns. The word جنا means snake, as snake moves and disappear quickly in bushes or stones. Also in Quran it is informed that Moses staff was

تَهْتَزُّ كأَنها جانٌّ

Slithering like a (Jann) snake

Further, calling snakes Satan is a figurative speech as in other narrations in Sahih Muslim about the same incident Prophet said kill them they are Kafir.

إن لهذه البيوت عوامر فإذا رأيتم شيئا منها فحرجوا عليها ثلاثا فإن ذهب وإلا فاقتلوه فإنه كافر

In these houses there are snakes so when you see them  then narrowed them (their stay in homes) to three day  if they go (then fine) else kill them as they are Kafir

In the narration, the word عوامر  is used. Ibn-Manzoor said in Lisan Al-Arab,juz 4, pg 601

العَوامِرُ الحيّات التي تكون في البيوت

Alawmer are snakes that are in homes

Snakes could be poisonous and harmful for humans so as a Muslim it is instructed that one allow them to leave if they don’t go then kill them because they could be harmful.  Imam Muslim has also brought these narrations in the chapter of killing of snakes. Ibn Haban has quoted the narration of snakes killing after three day under the chapter title

ذكر الأمر بقتل المرء الحيه إذا راها في داره بعد إعلامه إياها ثلاثة أيام

The discussion on the order of killing of snakes when seen at home after the announcement of three day period

 Even if we assume that Jinns were appearing as snakes in houses in Medinah then this was something special for Medinah only as Prophet said  إن بالمدينة جنا  Also It is reported in Sahih Muslim, chapter killing of snakes)

قال أبو لبابة الأنصاري إني سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم نهى عن قتل الجنان التي تكون في البيوت إلا الأبتر وذا الطفيتين فإنهما اللذان يخطفان البصر ويتتبعان ما في بطون النساء

Abu-Lubabah al-Ansari said that I heard Messenger of Allah peace be upon him and he Forbade the killing of snakes in the home except  the small, two spotted ones, as they cause the losing of the  sight and miscarriage (of fetus).

View 2: Jinns were appearing in physical form in life time of Prophet peace be upon him only

Tahavee has offered a different interpretation of killing of snakes hadith in Mushkil-ul-Athar. He commented on Abu Lubabah narration and also reported the narrated by Ibn Umer

نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن قتل الجنان في البيوت

Forbade Messenger of Allah peace be upon him on killing of snakes in houses

 Tahavee then said

قال ففي هذه الأحاديث نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن قتل ذوات البيوت بعد أن كان أمر بقتل الحيات كلها فكان ذلك أولى من الأحاديث الأول لأن فيها نسخ بعض ما في الأحاديث الأول ثم نظرنا في السبب الذي به كان ذلك النسخ ما هو فوجدنا

Tahavee said in these ahadith forbade the Messenger of Allah peace be upon him  from killing of house snakes previously he ordered the killing of all kinds of  snakes, if this is the earliest of ahadith then they are Naskh[4] of some of the hadiths and  then I looked for the reason of it being Naskh and  found the hadith… and then Tahavee quoted the narration of killing of snakes

 إن بالمدينة جنا قد أسلموا فإذا رأيتم منها شيئا فآذنوه ثلاثا فإن بدا لكم بعد ذلك فاقتلوه فإنما هو شيطان

Tahavee has thus declared this order of killing of all snakes as cancelled. Based on this conclusion it could be said that the appearance of Jinns in snake forms was probably for the lifetime of the Prophet and for people of Medinah only.

There are many events reported in Quran and hadith which were special and cannot be taken as norm.



[1] Ibn- Qayyam wrote that Ibn-Tammiyah also used to practice exorcism (see in Zad-Al-Maad, juz 4, pg 60).

 

[2] The word مَسَّ   touch does not necessarily means physical touch but could be affect on thought as well.

[3] We will invalidate the witness of anyone who claim to have seen  the jinn except Prophet peace be upon him (quoted by Al-Baihaqui in Manaqib AsShafaee)

[4] Naskh is a narration or verse which cancels out the earlier command called Mansookh

In surah Falaque 1-4 Allah taught us seek His protection:

Say: “I seek refuge with (Allah) the Lord of the daybreak,  “From the evil of what He has created;  “And from the evil of the darkening (night) as it comes with its darkness; (or the moon as it sets or goes away). “And from the evil of the witchcrafts when they blow in the knots,

Also in surah Nas another supplication is taught:

Say: “I seek refuge with (Allah) the Lord of mankind,  “The King of mankind, “The Ilah (God) of mankind, “From the evil of the whisperer (devil who whispers evil in the hearts of men) who withdraws (from his whispering in one’s heart after one remembers Allah) , “Who whispers in the breasts of mankind,  “Of jinns and men.”

In surah Mominoon 97-98 it is taught

And say: “My Lord! I seek refuge with You from the whisperings (suggestions) of the Shayatin (devils).  “And I seek refuge with You, My Lord! lest they may attend (or come near) me.”

It is reported in Bukhari (Volume 4, Book 54, Number 493:

Narrated Ibn ‘Abbas:  The Prophet said, “If anyone of you, when having sexual relation with his wife, say: ‘In the name of Allah. O Allah! Protect us from Satan and prevent Satan from approaching our offspring you are going to give us,’ and if he begets a child (as a result of that relation) Satan will not harm it.

It is reported in Bukhari (Volume 7, Book 69, Number 527: Narrated Jabir bin ‘Abdullah: Allah’s Apostle said, “When night falls (or when it is evening), stop your children from going out, for the devils spread out at that time. But when an hour of the night has passed, release them and close the doors and mention Allah’s Name, for Satan does not open a closed door. Tie the mouth of your water-skin and mention Allah’s Name; cover your containers and utensils and mention Allah’s Name. Cover them even by placing something across it, and extinguish your lamps. ”

It is reported in Bukhari (Volume 8, Book 75, Number 412:

Narrated Abu Huraira: Allah’s Apostle said,” Whoever says: “La ilaha illal-lah wahdahu la sharika lahu, lahu-l-mulk wa lahu-l-hamd wa huwa ‘ala kulli shai’in qadir,” one hundred times will get the same reward as given for manumitting ten slaves; and one hundred good deeds will be written in his accounts, and one hundred sins will be deducted from his accounts, and it (his saying) will be a shield for him from Satan on that day till night, and nobody will be able to do a better deed except the one who does more than he.”

It is reported in Bukhari (Volume 7, Book 65, Number 356:

Narrated Sad:  Allah’s Apostle said, “He who eats seven ‘Ajwa dates every morning, will not be affected by poison or magic on the day he eats them.”

On the day of Judgement Iblis would state his extents and limits as  (surah Ibrahim)

وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُمْ مِنْ سُلْطَانٍ إِلَّا أَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنْفُسَكُمْ مَا أَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَا أَنْتُمْ بِمُصْرِخِيَّ إِنِّي كَفَرْتُ بِمَا أَشْرَكْتُمُونِ مِنْ قَبْلُ إِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ 22

And Shaitan (Satan) will say when the matter has been decided: “Verily, Allah promised you a promise of truth. And I too promised you, but I betrayed you. I had no authority over you except that I called you, so you responded to me. So blame me not, but blame yourselves. I cannot help you, nor can you help me. I deny your former act in associating me (Satan) as a partner with Allah (by obeying me in the life of the world). Verily, there is a painful torment for the Zalimun (polytheists and wrong-doers, etc.).”

The demons have no such powers that they cause afflictions on humans or cause convulsions or cause insanity or cause diseases rather they act in sublime way by affecting the human’s thoughts by inducing  fear, anger, enticement, desires, mind illusions and confusions.