Category Archives: انبیاء کی جنت – Prophet’s Jannah

ڈاکٹر عثمانی اور ایک خبر منکر

ڈاکٹر عثمانی سے قبل پتا نہیں کتنی صدیوں تک عوام میں یہ خبر پھیلائی جاتی رہی کہ انبیاء قبروں میں زندہ ہیں ، قرآن کا ترجمہ نہ کیا گیا ، اس کو چھت کے قریب  طاق پر رکھ دیا گیا ، لوگ قبروں پر معتکف رہے لیکن جان نہ پائے  کہ انبیاء قبروں میں زندہ ہیں محدثین کے نزدیک ایک خبر منکر ہے
اس منکر روایت کے دفاع میں فرقوں کی جانب سے ہر سال نیا مواد شائع ہوتا رہتا ہے – مسند البزار المنشور باسم البحر الزخار از أبو بكر أحمد بن عمرو بن عبد الخالق بن خلاد بن عبيد الله العتكي المعروف بالبزار (المتوفى: 292هـ) میں ہے
حَدَّثنا رزق الله بن موسى، حَدَّثنا الحسن بن قتيبة، حَدَّثنا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ، عَن الحَجَّاج، يَعْنِي: الصَّوَّافَ، عَنْ ثابتٍ، عَن أَنَس؛ أَن رَسولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم قَالَ: الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ.
أَنَس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انبیاء زندہ ہیں اپنی قبروں میں ، نماز پڑھتے ہیں

– اس روایت کو امام الذھبی نے منکر قرار دیا ہے جنہوں نے جرح و تعدیل پر کتب لکھی ہیں – البتہ فرقوں میں اس بات کو چھپایا جاتا ہے – ميزان الاعتدال في نقد الرجال
شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) لکھتے ہیں
حجاج بن الأسود.
عن ثابت البناني.
نكرة.
ما روى عنه فيما أعلم سوى مستلم بن سعيد، فأتى بخبر منكر، عنه، عن أنس في أن الانبياء أحياء في قبورهم يصلون.
حجاج بن الأسود یہ ثابت سے روایت کرتا ہے ، منکر روایتیں اور جو روایت کیا  اس سے صرف مستلم بن سعيد  نے کہ  پس ایک منکر خبر لایا ہے جو انس سے مروی ہے کہ انبیاء زندہ ہیں اپنی قبروں میں ، نماز پڑھتے ہیں

خالد الملیزی نام کے ایک صاحب نے ڈاکٹر صاحب کے حوالے سے لکھا
اپ نے ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی صاحب کی کتاب یہ مزار یہ میلے ص 24 سے 25 کی جو عبارت پیش کی ہے جس میں انہوں نے مستلم بن سعید کو ضعیف کہا ہے اس بارے میں عرض ہے
الجواب: مستلم بن سعید صدوق و حسن الحدیث تھے اور ان کو ضعیف الحدیث گرداننا جھوٹ یا جھل ہے
جہاں تک مستلم سے متعلق حافظ ابن حجر عسقلانی کی بات ہے تو ان کی آدھی گواہی پیش کرنا اور آدھی چھپالینا یقینا خیانت اور کتمان ہے
ابن حجر عسقلانی نے مستلم بن سعید کے بارے میں فرمایا ہے
صدوق عابد ربما وھم (تقریب التھذیب ص 934،تھذیب التھذیب 56/4)
صدوق،عابد تھے اور کھبی کھبی وھم کرتے تھے
یہاں پر حافظ ابن حجر عسقلانی نے توثیق کی ہے جبکہ ربما وھم کوئی جرح نہیں ہے
لیکن ابن حجر کے الفاظ ربما وھم کا اظہار کرنا اور صدوق عابد چھپالینا فریب ہے
المزید: مستلم بن سعید کے بارے میں
امام الجرح والتعدیل یحی ابن معین نے فرمایا ہے صویلح (تاریخ ابن معین بروایة الدوری 161/4)
یاد رہے صویلح دراصل تعدیل برائے احساس جرح ہے عند بعض الناس اسلئے اس کو صرف جرح پر محمول کرنا درست نہیں ہے
احمد ابن حنبل نے فرمایا شیخ ثقة من اھل واسط قلیل الحدیث (سوالات ابی داود ص 321)
امام ابوداود نے خود ثقہ کہا ہے(سوالات ابی داود ص 321)
امام نسائی نے فرمایا لیس به بأس (الجرح والتعدیل 438/8)
امام حبان نے ثقات میں ذکر کیا ہے(الثقات لابن حبان 520/7) جبکہ ربما خالف کوئی چیز نہیں ہے
امام ذھبی نے صدوق کہا ہے(الکاشف 255/2)
معلوم ہوا کہ مستلم بن سعید صدوق و حسن الحدیث تھے اور ان کے متعلق حافظ ابن حجر عسقلانی کی رائے میں صدوق عابد کے مقابلے میں ربما وھم کا ہونا اور نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا جبکہ صدوق عابد کو چھپا کر ربما وھم کے تحت فتوی دینا کتمان مبین ہے

راقم اس سب پر کہتا ہے کہ یہ درست ہے کہ مستلم بن سعید کو ثقہ کہا گیا ہے لیکن ثقہ کہہ کر محدث یہ نہیں کہتا کہ جو بھی  اس کی سند سے آئے اس کو قبول کر لیا جائے بلکہ متعدد ثقات کی منکر روایات کا علل کی کتب میں ذکر ہے

تهذيب الكمال في أسماء الرجال میں ہے
قال عبّاس: وسمعت يزيد بن هارون يقول: كان مستلم عندنا ها هنا بواسط، وكان لا يشرب إلا في كلّ جمعة
يزيد بن هارون کہتے تھے یہ مستلم واسط میں ہمارے ساتھ تھا اور صرف جمعہ کے دن پانی پیتا تھا

وقال الحسن بن عليّ، عن يزيد بن هارون: مكث المستلم أربعين سنة لا يضع جنبه على الأرض
يزيد بن هارون نے کہا : چالیس سال تک اس نے پہلو زمین سے نہ لگایا
تالي تلخيص المتشابه از أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي الخطيب البغدادي (المتوفى: 463هـ) میں ہے
الْحسن بن الْخلال حَدثنَا يزِيد بن هَارُون قَالَ مكث المستلم بن سعيد أَرْبَعِينَ سنة لَا يضع جنبه إِلَى الأَرْض قَالَ وسمعته يَقُول لم أشْرب المَاء مُنْذُ خَمْسَة وَأَرْبَعين يَوْمًا
يزِيد بن هَارُون کہتے ہیں میں نے المستلم بن سعيد کو کہتے سنا کہ میں نے ٤٥دن سے پانی نہیں پیا

اب جب یہ حال ہو تو اس کی روایت جائز نہیں ہے کیونکہ یہ سنت النبی پر عمل نہ کرتا تھا – انبیاء نے زمین پر آرام کیا ہے اور پانی پیا ہے
ایسا نہیں کہ صرف جمعہ کے دن پانی پیتے ہوں یا چالیس سال تک لیٹے نہ ہوں
اس قسم کے بدعتی اور حواس باختہ راویوں کا دفاع فرقوں کی جانب سے کیا جانا آنکھوں دیکھی مکھی کھانے کے ساتھ ساتھ اس مکھی کو لذیذ قرار دینے کے بھی مترادف ہے

مستلم کی اس حالت کو دیکھ کر سلیم الفطرت مسلمانوں کے ذہن میں جو مستلم کی شکل بنتی ہے وہ ایک ہندو سادھو والی ہے نہ کہ متقن راوی کی

امام شعبہ ، المستلم کے بارے میں کہتے تھے
ما كنت أظن ذاك يحفظ حديثين
یہ اس قابل بھی نہیں کہ دو حدیثین یاد رکھ سکے

امام ابن معین نے مستلم کوصویلح  قرار دیا ہے

تاريخ ابن معين (رواية عثمان الدارمي) ، المحقق: د. أحمد محمد نور سيف ، الناشر: دار المأمون للتراث – دمشق میں ہے
امام ابن معین کے شاگرد عثمان الدارمي راوی محمد بن أبي حَفْصَة پر سوال کرتے ہیں تو امام ابن معین کہتے ہیں
قَالَ صُوَيْلِح لَيْسَ بِالْقَوِيّ
صُوَيْلِح ہے قوی نہیں ہے
اس سے معلوم ہوا کہ ابن معین کے نزدیک صُوَيْلِح وہ راوی ہے جو قوی نہیں ہے – اور ظاہر ہے غیر قوی راوی سے دلیل نہیں لی جا سکتی

سير أعلام النبلاء میں المُسْتَلِم بن سَعِيْدٍ کی ایک اور روایت کو بھی الذھبی نے منکر کہا ہے
قَرَأْنَا عَلَى عِيْسَى بنِ يَحْيَى، أَخبركُم مَنْصُوْرُ بنُ سَنَد، أَخْبَرَنَا أَبُو طَاهِرٍ السِّلَفِيُّ، أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ أَحْمَدَ الحَافِظ، أَخْبَرَنَا عُمَرُ بنُ عَبْدِ اللهِ بن عُمَرَ الوَاعِظ، أَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ العَسَّال، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ عَبْدِ اللهِ بنِ رُسْتَه، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا زَافِرُ بنُ سُلَيْمَانَ، عَنِ المُسْتَلِم بن سَعِيْدٍ، عَنِ الحَكَمِ بنِ أَبَانٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ:
أَنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَالَ: (مَا مِنْ وَلَدٍ بَارٍّ يَنْظُرُ إِلَى وَالِدِهِ نَظْرَةَ رَحْمَةٍ إِلاَّ كَانَتْ لَهُ بِكُلِّ رَحْمَةٍ حَجَّةٌ مَبْرُوْرَةٌ) ، قِيْلَ: وَإِنْ نَظَرَ إِلَيْهِ فِي كُلِّ يَوْمٍ مائَةُ رَحمَةٍ (1) ؟ قَالَ: (نَعَمْ، إِنَّ اللهَ أَطْيَبُ وَأَكْثَرُ (2)) .
هَذَا مُنْكَرٌ.

امام الذھبی اس کی منکر روایات کا مسلسل ذکر رہے ہیں – ان کا مدعا یہ رہا ہے کہ محض راوی کو ثقہ کہہ دینے سے اس کی تمام روایات قابل قبول نہیں ہیں اور جیسا ہم نے دیکھا کہ اس نے پانی تک نہیں پیا – اب جو پانی نہ پئے اس کی دماغی حالت کیا ہو گی – اس قسم کے جوگی کی روایت سن کر وجد میں آ جانے والے ملا قبروں پر دھمال ڈال رہے ہیں ، ہو ھا کی ضربیں لگا رہے ہیں لیکن ہم ان کے اس رقص قبور میں شامل نہ ہوں گے

کیا انسانی عدالتوں میں اس شخص کی گواہی معتبر ہے جس نے چالیس دن پانی نہ پیا ہو ، ہوش و حواس میں نہ ہو ؟ ظاہر ہے نہیں – جب ہم انسانی جھگڑوں کا فیصلہ اس قسم کے گواہ سے نہیں لیں گے تو پھر ایک مجذوب کے قول کو کیوں حدیث نبوی سمجھیں جس نے پانی کو چھ دن حرام کر لیا ہو اور ٤٠ سال لیٹ کر سویا   نہ ہو ؟

حیات النبي في القبر جو مسئلو

139 Downloads

اُمت جا ولي ابوبڪر رضي الله عنه چون ٿا ته

 ألامن کان یعبد محمدا فإن محمدا  قد مات…     صحیح بخاری

ٻُڌي وٺو! جيڪو شخص محمد صلي الله عليه وسلم جي عبادت ڪندؤ ھو ته(ھو ڄاڻي وٺي ته )  بيشڪ محمد فوت ٿي وياـ

عائيشہ رضي الله عنها جو فرمان آھي ته

 لقد مات رسول الله…    صحیح مسلم

يقيناً رسول الله فوت ٿي وياـ

کیا وفات النبی پر اجماع امت ہے ؟

دین میں اصحاب رسول کے متفقہ موقف کی اہمیت ہے – سورہ النساء کی آیت ہے

ومن يشاقق الرسول من بعد ما تبين له الهدى ويتبع غير سبيل المؤمنين نوله ما تولى ونصله جهنم وساءت مصيرا

اور جو کوئی رسول کی مخالفت کرے،  بعد اس کے کہ اس پر سیدھی راہ کھل چکی ہو اور مسلمانوں کے راستہ کے خلاف چلے، تو ہم اسے اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا ہے اور اسے جهنم میں ڈالیں گے، اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے

یقینا مسلمانوں کی راہ چھوڑنا گمراہی ہے لیکن یہ آیت  اصل صحیح العقیدہ مسلمان یعنی  اصحاب رسول  کی بات ہے-  آج جس قسم کے قبر پرست، پیر پرست مسلمان ہیں کیا ان کا اجماع حجت ہے؟ یقینا یہ بات غلط ہے-  اس لئے اگر کوئی اجماع ، امت میں حجت ہے ، تو وہ صرف اجماع صحابہ ہے

اس امت کا سب سے اہم اجماع تھا جب وفات النبی پر اختلاف ہوا اور عمر رضی الله عنہ نے اس کا انکار کیا پھر ابو بکر صدیق رضی الله عنہ نے اس پر خطبہ دیا اور تمام صحابہ نے وفات النبی صلی الله علیہ وسلم کا عقیدہ قبول کیا

اسی اجماع صحابہ کا ذکر عثمانی صاحب نے اس طرح کیا

افسوس امت میں اس کا بھی صریح انکار کر کے رسول الله کو قبر النبی میں زندہ کی صفت دی گئی ہے لہذا ایک اہل حدیث عالم کہتے ہیں[1]

[1] http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/2368/0/

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع والی بات تو …..اس وقت ابھی رسول اللہ ﷺ قبر میں داخل ہی نہیں کیے گئے تھے، پھر وہ اجماع رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی موت اور دنیاوی زندگی کے ختم ہونے پر تھا

یعنی ان عالم کے مطابق اجماع تو تدفین سے پہلے ہوا اس کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم قبر میں زندہ ہو گئے

دیوبندی کہتے ہیں کہ روح نبوی جسد مبارک سے نکلی ہی نہیں بلکہ قلب میں سمٹ گئی

گویا فرشتے خالی لوٹ گئے

امام بیہقی کتاب الاعتقاد والهداية إلى سبيل الرشاد على مذهب السلف وأصحاب الحديث  میں لکھتے ہیں

 وَالْأَنْبِيَاءُ عَلَيْهِمُ السَّلَامُ بَعْدَمَا قُبِضُوا رُدَّتْ إِلَيْهِمْ أَرْوَاحُهُمْ فَهُمْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ كَالشُّهَدَاءِ

اور انبیاء علیھم السلام کی روحیں قبض ہونے کے بعد واپس لوٹا دی گئیں اور اب وہ شہید کی طرح اپنے رب کے ہاں زندہ ہیں

بیہقی کیا  کہہ رہے ہیں؟ اس کی کوئی دلیل نہیں شاید ان کے نزدیک روحیں قبض ہونے کے بعد فرشتے زمیں و آسمان میں بھٹکتے رہے پتا نہ کر پائے کہ ان کو کہاں رکھیں لہذا واپس قبروں میں انبیاء کے جسد میں ہی روحیں   لوٹا    دی گئیں-

ایک مومن کے نزدیک صرف اصحاب رسول کی اہمیت ہے – متاخرین کے متجدد عقائد اور صوفی صفت محدثین کے عقائد کی کوئی اہمیت نہیں ہے

البانی کے مطابق  انبیاء قبروں میں نماز پڑھ رہے ہیں-  الصحیحہ (2/ 190،178) میں اس پر کہتے ہیں
اعلم أن الحياة التي أثبتها هذا الحديث للأنبياء عليهم الصلاة والسلام، إنما هي حياة برزخية، ليست من حياة الدنيا في شيء،
جان لو اس روایت میں انبیاء کی جس زندگی کا اثبات کیا گیا ہے یہ برزخی زندگی ہے جس میں دنیا کی زندگی کی کوئی چیز نہیں

قاعدہ جلیلہ فی التوسل و الوسیلہ میں ابن تیمیہ لکھتے ہیں

وكذلك الأنبياء والصالحون ، وإن كانوا أحياء في قبورهم ، وإن قدر أنهم يدعون للأحياء وإن وردت به آثار فليس لأحد أن يطلب منهم ذلك ، ولم يفعل ذلك أحد من السلف
اور اسی طرح (فرشتوں کی طرح) انبیاء اور صالحین کا معاملہ ہے ہر چند کہ وہ اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور یہ بھی مقدر کر دیا گیا ہے کہ وہ زندوں کے لئے دعائیں کریں اور اس بات کی تصدیق میں روایتیں بھی آئی ہیں مگر کسی کے لئے اس کی اجازت نہیں ہے کہ وہ ان سے کچھ طلب کرے اور سلف میں سے کسی ایک نے بھی ان سے کچھ طلب نہیں کیا

دیو بندیوں کے ایک  محقق نے تقریر میں کہا

مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں امتی فوت ہوا ہے اس کی روح کو پورے بدن سے نکال لیا گیا ہے۔ نبی فوت ہوا ہے اس کی روح کو پورے بدن سے دل میں سمیٹ دیا گیا ہے۔ ارے اگرچہ موت آگئی ہے لیکن دل پہ وفات نہیں آئی اگر نبی ہے تو روح کو سمیٹ کے دل میں رکھ دیا گیا اور اگر امتی ہے تو بدن سے روح کو نکال لیا گیا لیکن نبی کو جو حیات ملتی ہے اسی روح کو پھیلا دیا جاتا ہے اور جب امتی کو حیات ملتی ہے۔امتی کی روح کو لوٹا دیا جاتا ہے “

راقم  کہتا ہے
یہ تو انبیاء کی نشانی ہے کہ زندگی میں ان کا دل سونے کی حالت میں بھی الله کے کنٹرول میں ہوتا ہے    اس میں ان پر شیطان کا القا نہیں ہو سکتا  – اس لئے ا  ن   کے دل کی  بھی حفاظت کی گئی   کیونکہ قرآن کا   یا الوحی نزول دل پر ہوتا ہے-

سورہ بقرہ  :

قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَىٰ قَلْبِكَ

کہو (اس سے ) جو جبریل کا دشمن  ہو کہ اسی  (جبریل) نے اس قرآن کو میرے دل پر اتارا ہے

 اللہ تعالی نے  قرآن  میں   انبیاء پر لفظ موت کا اطلاق کیا ہے –  آنکھ کا سونا یعنی دماغ پر سونے کی کیفیت کا ظہور ہونا ہے   اور قلب کا جاگنا اس کا کسی بھی شیطانی القا سے دور رہنا ہے –  یہی وجہ ہے کہ مومن کو برا خواب  آتا ہے انبیاء کو نہیں آتا-     عمر رضی الله عنہ اگر   نبی صلی الله علیہ وسلم کی زندگی کے حوالے سے صحیح تھے ان کی بات کے پیچھے یہ فلسفہ تھا  کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر موت واقع نہیں ہوئی  تو ابو بکر  رضی الله عنہ  کی تقریر پر وہ  چپ نہ رہتے اور تمام اصحاب رسول کا وفات النبی پر اجماع بھی نہ ہونے پاتا-   ابو بکر رضی الله عنہ نے صحیح کہا تھا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور عمر رضی اللہ عنہ کا رد کیا کہ اب رسول پر دو موتیں جمع نہ ہوں گی جیسا تم کہہ رہے ہو کہ وہ زندہ ہو جائیں گے –

معلوم ہوا کہ ان فرقوں کا اجماع ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح ان کے جسد سے الگ نہیں ہے وہ قبر میں زندہ ہیں جبکہ اصحاب رسول کا اجماع وفات النبی پر ہے روح النبی کے جسم اطہر سے الگ ہونے پر اجماع ہے

حدیث میں ہے

سنن ترمذی میں ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الجَعْدِ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ  صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَنْ فَارَقَ الرُّوحُ الجَسَدَ وَهُوَ بَرِيءٌ [ص:139] مِنْ ثَلَاثٍ: الكَنْزِ، وَالغُلُولِ، وَالدَّيْنِ دَخَلَ الجَنَّةَ ” هَكَذَا قَالَ سَعِيدٌ: الكَنْزُ، وَقَالَ أَبُو 
عَوَانَةَ فِي حَدِيثِهِ: الكِبْرُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ مَعْدَانَ وَرِوَايَةُ سَعِيدٍ أَصَحُّ

ثَوْبَانَ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جس کی روح جسم سے الگ ہوئی اور وہ تین چیزوں سے  بَرِيءٌ تھا خزانہ ، غنیمت میں خیانت، اور قرض سے تو وہ جنت میں داخل ہوا – ترمذی نے کہا سعید نے روایت میں خزانہ بولا ہے اور … سعید  کی سند سے روایت اصح ہے

کیا یہ انصاف  ہے امتی تو جنتوں کے مزے لیں اور انبیاء کو اس فانی زمین میں رکھا جائے ؟

ایک طرف تو ہمارے ساتھ رہنے والے یہ فرقے ہیں اور دوسری طرف اصحاب رسول ہیں

فاطمہ رضی اللہ عنہا کا عقیدہ ہے کہ نبی جنت الفردوس میں ہیں

عائشہ رضی اللہ عنہا کا عقیدہ ہے کہ نبی نے آخرت کی زندگی کو پسند کیا نہ کہ دنیا کی

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے نکل گئے

یہ عقائد صحیح بخاری میں درج ہیں اور فرقوں کو معلوم ہیں لیکن ان فرقوں نے قبوری زندگی کا عقیدہ عوام میں پھیلا دیا  ہے اور معاشرہ میں قبوری کلچر انہی مولویوں کی وجہ سے پنپ رہا ہے

اللہ آپ کو دو موتيں نہ چکھائے گا

صحيح بخاري ميں ہے وفات النبي پر عمر رضي اللہ عنہ جذباتي ہو گئے اور کہنے لگے کہ اللہ کے نبي زندہ ہيں صريح الفاظ ميں انہوں
نے کہا

وَاللَّهِ مَا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
اللہ کي قسم رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم مرے نہيں ہيں

يہ قول حياتي ديوبنديوں جيسا تھا جن کا قول ہے کہ وفات النبي ميں روح جسم سے نہيں نکالي گئي بلکہ روح النبي قلب اطہر ميں سمٹ گئي
– اس عقيدے کا ذکر قاسم نانوتوي صاحب نے کتاب آب حيات ميں کيا ہے

اس کے بعد ابو بکر رضي اللہ عنہ تشريف لائے اور فرمايا

لا يُذِيقُكَ اللهُ المَوْتَتَيْنِ أبداً، أما المَوتَةُ التي كُتِبَتْ عليك؛ فقد مُتَّها
اللہ کبھي بھي آپ کو دو موتيں نہ چکھائے گا – جہاں تک وہ موت ہے جو لکھي تھي بلاشبہ وہ ہو گئي

صحيح ابن حبان اور مسند احمد ميں ہے

لَقَدْ مُتَّ الْمَوْتَةَ الَّتِي لا تَمُوتُ بَعْدَهَا
بے شک ان کي موت نے ان کو مار ديا اب اس کے بعد موت نہيں

اللہ کا شکر ہے کہ ہم تک ابو بکر رضي اللہ عنہ کا قول پہنچ گيا  – ابو بکر رضي اللہ کے الفاظ ضرب کاري تھے ان تمام آنے والے فرقوں کے لئے جو آخري نبي و رسول کو قبر ميں زندہ کہتے ہيں – ابو بکر کا قول ان فرقوں کے گلے ميں زقوم کي طرح اٹک گيا
ابن حجر فتح الباري ميں ابو بکر رضي اللہ عنہ کے قول پر تبصرہ کرتے ہيں

وَأَشَدُّ مَا فِيهِ إِشْكَالًا قَوْلُ أَبِي بَكْرٍ لَا يَجْمَعُ اللَّهُ عَلَيْكَ مَوْتَتَيْنِ وَعَنْهُ أَجْوِبَةٌ فَقِيلَ هُوَ عَلَى حَقِيقَتِهِ وَأَشَارَ بِذَلِكَ إِلَى الرَّدِّ عَلَى مَنْ زَعَمَ أَنَّهُ سَيَحْيَا فَيَقْطَعُ أَيْدِي رِجَالٍ لِأَنَّهُ لَوْ صَحَّ ذَلِكَ لَلَزِمَ أَنْ يَمُوتَ مَوْتَةً أُخْرَى فَأَخْبَرَ أَنَّهُ أَكْرَمُ عَلَى اللَّهِ مِنْ أَنْ يَجْمَعَ عَلَيْهِ مَوْتَتَيْنِ كَمَا جَمَعَهُمَا عَلَى غَيْرِهِ كَالَّذِينَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ وَكَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهَذَا أَوْضَحُ الْأَجْوِبَةِ وَأَسْلَمُهَا وَقِيلَ أَرَادَ لَا يَمُوتُ مَوْتَةً أُخْرَى فِي الْقَبْرِ كَغَيْرِهِ إِذْ يحيا ليسئل ثُمَّ يَمُوتُ وَهَذَا جَوَابُ الدَّاوُدِيِّوَقِيلَ لَا يَجْمَعُ اللَّهُ مَوْتَ نَفْسِكَ وَمَوْتَ شَرِيعَتِكَ وَقِيلَ كَنَّى بِالْمَوْتِ الثَّانِي عَنِ الْكَرْبِ أَيْ لَا تَلْقَى بَعْدَ كَرْبِ هَذَا الْمَوْتِ كَرْبًا آخَرَ ثَانِيهَا

اور سب سے شديد اشکال ابو بکر کے قول ميں ہے کہ اللہ آپ پر دو موتوں کو جمع نہ کرے گا اور اس اشکال کا جواب ہے کہ کہا گيا ہے يہ جمع موت نہ ہونا حقيقت کے بارے ميں ہے اور اس کي طرف اشارہ ہے کہ اس ميں رد ہے اس کا جو يہ دعوي کرے کہ نبي زندہ ہو کر ہاتھ کاٹيں گے کيونکہ اگر يہ صحيح ہو تو لازم ہو گا کہ ان کو پھر ايک موت اور آئے گي پس خبر دي کہ اللہ نے ان کي تکريم کي کہ ان پر دو موتوں کو جمع نہ کرے گا جيسا اوروں پر کيا (قرآن ميں ہے ) وہ جو گھروں سے نکلے اور وہ ڈر ميں تھے .. اور وہ جو ايک قريہ پر سے گزرا اور يہ سب سے واضح جواب ہے

اور کہا گيا ہے ابو بکر کا اردہ و مقصد تھا کہ ان کو اور موت نہ ہو گي قبر ميں اوروں کي طرح کہ جب ان کو سوال کے لئے زندہ کيا جاتا ہے اور پھر موت دي جاتي ہے اور يہ جواب أَحْمَدُ بْنُ نَصْرٍ الدَّاوُدِيُّ المالكي (المتوفي 402 ھ ) نے ديا ہے

اور کہا جاتا ہے اللہ تعالي آپ کے نفس کي موت کو اور آپ کي شَرِيعَتِ کي موت کو جمع نہ کرے گا

اور کہا جاتا ہے يہ موت کنايہ ہے دوسري موت سے کرب پر يعني اب اس کرب کے بعد کوئي اور کرب نہ ہو گا

عمدة القاري شرح صحيح البخاري میں بدر الدين العينى (المتوفى: 855هـ) نے شرح کی

قَوْله: (لَا يذيقك الله الموتتين) ، بِضَم الْيَاء من الإذاقة، وَأَرَادَ بالموتتين: الْمَوْت فِي الدُّنْيَا وَالْمَوْت فِي الْقَبْر وهما الموتتان المعروفتان المشهورتان، فَلذَلِك ذكرهمَا بالتعريف، وهما الموتتان الواقعتان لكل أحد غير الْأَنْبِيَاء، عَلَيْهِم الصَّلَاة وَالسَّلَام، فَإِنَّهُم لَا يموتون فِي قُبُورهم، بل هم أَحيَاء
ابو بکر کا قول اللہ آپ پی دو موتوں کو جمع نہ کرے گا … یہ موت دنیا کی ہے اور قبر میں ہے یہ دو معروف موتیں ہیں جو سوائے انبیاء سب کو اتی ہیں – انبیاء اپنی قبروں میں نہیں مرتے بلکہ زندہ ہیں

حياتي ديوبندي متکلم الياس گھمن کہتے ہيں کہ (منٹ 4 ) ابو بکر رضي اللہ عنہ کے قول کا مقصد ہے کہ ايک موت جو اني تھي وہ آ گئي اور اب قبر ميں دوسري موت نہيں آئے گي جو نيند ہے – ايک عام امتي سے قبر ميں کہا جاتا ہے
نم صالحا
اچھي نيند سو جا
ليکن نبي کو قبر ميں جو حيات ملتي ہے وہ مسلسل ہے (منٹ 4: 55) اس ميں نيند بھي نہيں ہے

الشريعہ از الاجري ميں ہے کہ ابو بکر رضي اللہ عنہ نے حکم ديا کہ قبر النبي سے اجازت طلب کرو کہ پہلو النبي ميں دفن کيا جا سکتا ہے يا نہيں ؟

قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ رَحِمَهُ اللَّهُ: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ لَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ , قَالَ لَهُمْ: إِذَا مِتُّ وَفَرَغْتُمْ مِنْ جَهَازِي فَاحْمِلُونِي حَتَّى تَقِفُوا بِبَابِ الْبَيْتِ الَّذِي فِيهِ قَبْرُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقِفُوا بِالْبَابِ وَقُولُوا: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , هَذَا أَبُو بَكْرٍ يَسْتَأْذِنُ فَإِنْ أُذِنَ لَكُمْ وَفُتِحَ  الْبَابُ , وَكَانَ الْبَابُ مُغْلَقًا , فَأَدْخِلُونِي فَادْفِنُونِي , وَإِنْ لَمْ يُؤْذَنْ لَكُمْ فَأَخْرِجُونِي إِلَى الْبَقِيعِ وَادْفِنُونِي. فَفَعَلُوا فَلَمَّا وَقَفُوا بِالْبَابِ وَقَالُوا هَذَا: سَقَطَ الْقُفْلُ وَانْفَتَحَ  الْبَابُ , وَسُمِعَ هَاتِفٌ مِنْ دَاخِلِ الْبَيْتِ: أَدْخِلُوا الْحَبِيبَ إِلَى الْحَبِيبِ فَإِنَّ الْحَبِيبَ إِلَى الْحَبِيبِ مُشْتَاقٌ

أبو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) نے کہا روايت کيا جاتا ہے کہ ابو بکر رضي اللہ عنہ کي وفات کا وقت   جب آيا انہوں نے کہا جب ميں مر جاؤں اور تم ميري تجہيز سے فارغ ہو تو مجھے اٹھا کر اس گھر کے باب تک لانا جس ميں قبر النبي صلي اللہ  عليہ وسلم ہے اور وہاں رکنا اور کہنا
السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ
يہ ابو بکر آيا ہے اجازت ليتا ہے کہ آپ اذن کريں اور اگر مقفل دروازہ کھل جائے تو مجھ کو اس ميں داخل کر کے دفن کرنا
اور اگر اجازت نہ ملے تو الْبَقِيعِ لانا وہاں دفن کرنا
پس ايسا کيا گيا … دروازہ کھل گيا اور ھاتف نے آواز دي ان کو گھر ميں داخل کرو
داخل ہوں اے حبيب، حبيب کي طرف کہ حبيب (رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم ) آپ سے ملنے کو مشتاق ہے

راقم کہتا ہے کہ يہ روايت گھڑي گئي جو ابن عساکر (المتوفى571) نے سندا تاريخ دمشق ميں لکھي ہے
اس روايت کو نقل کرنے کے بعد خود ابن عساکر نے اس پر جرح کرتے ہوئے کہا
هذا منكر وراويه أبو الطاهر موسى بن محمد بن عطاء المقدسي وعبد الجليل مجهول والمحفوظ أن الذي غسل أبا بكر امرأته أسماء بنت عميس [تاريخ دمشق لابن عساكر: 30/ 437]
يہ منکر ہے اس ميں أبو الطاهر موسى بن محمد بن عطاء المقدسي [الوفاة: 221 – 230 ه] اور عبد الجليل مجہول ہيں اور محفوظ ہے کہ ابو بکر کو ان کي بيوي اسماء بنت عميس نے غسل ديا
بعض محدثين نے موسى بن محمد بن عطاء بن طاهر البَلْقاويّ المقدسيّ کو کذاب بھي کہا ہے
ورماه بالكذب أبو زرعة وأبو حاتم .
وقال الدَّارَقُطْنيّ: متروك.
قال العُقَيْلي: يُحَدِّث عن الثقات بالبواطيل والموضوعات.
وقال ابن حبان: كان يضع الحديث على الثقات، لا تحل الرواية عنه – يہ حديث گھڑتا تھا اس سے روايت کرنا حلال نہيں .
وقال ابن عدي: منكر الحديث، يسرق الحديث منکر حديث ہے – حديث چور ہے .

افسوس ابو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) نے ايک کذاب کے قول پر عقيدہ لے ليا

تفسير مفاتيح الغيب المعروف تفسير کبير ج21 ص433 ميں سوره کہف کي آيت فَضَرَبْنَا عَلَى آذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَدًا ميں فخر الدين الرازي خطيب الري (المتوفى: 606هـ) نے کرامت اولياء کي مثال کے طور پر اس کا ذکر کيا
أَمَّا الْآثَارُ» فَلْنَبْدَأْ بِمَا نُقِلَ أَنَّهُ ظَهَرَ عَنِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ مِنَ الْكَرَامَاتِ ثُمَّ بِمَا ظَهَرَ عَنْ سَائِرِ الصَّحَابَةِ، أَمَّا أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَمِنْ كَرَامَاتِهِ أَنَّهُ لَمَّا حُمِلَتْ جِنَازَتُهُ إِلَى بَابِ قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنُودِيَ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا أَبُو بَكْرٍ بِالْبَابِ فَإِذَا الْبَابُ قَدِ انْفَتَحَ وَإِذَا بِهَاتِفٍ يَهْتِفُ مِنَ الْقَبْرِ أَدْخِلُوا الْحَبِيبَ إِلَى الْحَبِيبِ

اس قول سے الياس گھمن صاحب نے بھي دليل لے لي کہ صديق اکبر قبر ميں حيات النبي کا عقيدہ رکھتے تھے نعوذ باللہ
جبکہ يہ روايت بقول ابن عساکر منکر ہے ليکن الياس گھمن صاحب نے دليل لي کہ خليفہ راشد نے فيصلہ کر ديا کہ نبي قبر ميں زندہ ہيں

غور کريں روايت منکر ، راوي حديث چور مشہور اس کي بات سے فيصلہ ہوا کہ ابو بکر قبر ميں زندگي مانتے تھے

اب واپس ابو بکر رضي اللہ عنہ کے قول پر غور کريں

لا يُذِيقُكَ اللهُ المَوْتَتَيْنِ أبداً، أما المَوتَةُ التي كُتِبَتْ عليك؛ فقد مُتَّها
اللہ کبھي بھي آپ کو دو موتيں نہ چکھائے گا – جہاں تک وہ موت ہے جو لکھي تھي بلاشبہ وہ ہو گئي

ابو بکر نے اس موت کی تصدیق کی اور فرمایا کہ یہ اب دوسری بار ممکن نہیں ہے کہ نبی زندہ ہوں پھر وفات ہو

ثَوْبَانَ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جس کی روح جسم سے الگ ہوئی

جسم سے روح کا الگ ہونا  موت ہے – ظاہر ہے اس روح کو جنت من لے جایا گیا جہاں معراج کے موقعہ پر دیگر انبیاء کو دیکھا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  اے اللہ تو سب سے بڑھ کر رفیق ہے

وفات کے وقت انبیاء کو آپشن  دیا جاتا ہے کہ وہ دنیاوی زندگی واپس  چاہتے ہیں یا اللہ سے ملاقات کو پسند فرماتے ہیں –  عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا جب   نبی نے یہ الفاظ  اے اللہ تو سب سے بڑھ کر رفیق ہے  ادا کیے میں سمجھ گئی کہ آپشن دے دیا گیا ہے اور آپ کی  اب (واپس دنیا  میں زندہ ہو کر )  دنیا کے رفقاء سے ملنے کی تمنا نہیں ہے صرف اللہ تعالی سے ملاقات  و لقاء  کی تمنا ہے

قاسم نانوتوی کا فلسفہ

اللہ روحوں کو قبض کرتا ہے یعنی ان کو قبضہ میں لیتا ہے اور قبض روح انبیاء کا ہو یا عام آدمی کا ایک ہی ہے لیکن الیاس گھمن اس میں التباس پیدا کرتے ہیں

کہتے ہیں (منٹ ٧ پر ) ہم قبض روح کے دو معنی کریں گے – خروج روح اور حبس (قید ) روح – حبس روح کا معنی روح کا جسم میں سمٹ جانا- الیاس گھمن نے کہا قبضت یدی (میں نے مٹھی بنا لی ) کا معنی بسط یدی (میں نے ہاتھ پھیلا دیا ) کی مخالفت میں لیا جائے گا کہ قبض کا مطلب سمیٹنا – اس کے بعد کہا یہ خروج بھی ہے – قبض کے اس طرح دو معنی کیے کہ روح قید کی گئی یا نکل گئی – قاسم نانوتوی قبض کا معنی کبھی خروج کرتے ہیں اور کبھی حبس کرتے ہیں کیونکہ ہم کو اس کا معنی پورا آتا ہے – قاسم نانوتوی کہتے ہیں کہ موت امتی پر آئے تو معنی ہوا قبض روح اور موت نبی پر آئے تو معنی ہوا حبس (قید ) روح – امتی پر موت آئے تو مطلب ہو گا کہ روح جسم سے نکل گئی ہے پیغمبر کو موت آئے تو معنی ہو گا روح قلب اطہر میں سمٹ گئی ہے

راقم کہتا ہے یہ قول بلا دلیل و منکر ہے موت کا مطلب تمام بشر پر ایک ہی ہےکہ روح کا جسم سے مکمل خارج ہو جانا – اگر پیغمبروں کی روحیں ان کے قلوب میں ہیں تو یہ روحین ان کے اعضا میں نہ ہوئیں – پھر تو وہ نہ سن سکتے ہیں نہ جواب دے سکتے ہیں جبکہ یہ فرقے انبیاء کے جواب و کلام و سماع فی القبر کے قائل ہیں- راقم کہتا ہے کہ نیند میں روح کو جسم میں قید کیا جاتا ہے اور موت پر نکال لیا جاتا ہے – یہ عمل ہر انسان کے ساتھ ہوتا ہے چاہے نبی ہو یا ولی

لہذا راقم کے نزدیک  موت پر ہر انسان کا  خروج روح ہو رہا ہے اور نیند میں حبس روح (جسم میں روح  کا قید ہونا ) ہو رہا ہے  اس میں انبیاء و عام بشر میں کوئی فرق نہیں ہے سوائے اس کے کہ انسان کا  شعور  نیند میں ختم ہو جاتا ہے جبکہ انبیاء کا قلب  جاگتا رہتا ہے کیونکہ ان کو نیند میں الوحی آ تی ہے

حجرات النبی جنت کا حصہ ہیں ؟

ایک وقت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نو ازواج تھیں  اور ان کے گھر مسجد النبی کے پاس تھے – انہی  کو حجرات  قرآن میں کہا گیا ہے اور ایک سورہ  کا نام بھی اسی پر ہے – ان تمام حجرات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  جنت قرار نہیں دیا – البتہ ایک حدیث ہے

صحیح بخاری کی حدیث   ١١٩٥    بَابُ فَضْلِ مَا بَيْنَ القَبْرِ وَالمِنْبَرِ   میں ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ المَازِنِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الجَنَّةِ»

میرے گھر اور منبر کے درمیان، جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے

گھر سے مراد حجرہ عائشہ رضی الله عنہا ہے لہذا اگر آپ دیکھیں تو گھر اور منبر کے درمیان جنت اصل میں مسجد النبی ہے اور مسجد کو جنت کے باغوں میں سے ایک کہا جا رہا ہے –  جب بھی دو چیزوں کے درمیان کی بات ہوتی ہے تو اس میں وہ دو چیزیں شامل نہیں ہوتیں ورنہ یہ کہنا آسان ہے کہ میری قبر جنت کا حصہ ہے نہ کہ یہ کہ میری قبر اور منبر کے درمیان جنت کا باغ ہے-

قبر و منبر کے درمیان – معلول اسناد 

ایک روایت  میں قبر اور منبر کے درمیان کا لفظ ہے  – طبرانی اوسط کی روایت ہے
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ قَالَ: نا أَبُو حَصِينٍ الرَّازِيُّ قَالَ: نا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا بَيْنَ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ، وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي»
لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ ابْنِ خُثَيْمٍ إِلَّا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، تَفَرَّدَ بِهِ: أَبُو حَصِينٍ

ابن عمر رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میری قبر اور منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہے
اس روایت کو عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ سے سوائے يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ کے کوئی روایت نہیں کرتا اور اس میں أَبُو حَصِينٍ الرَّازِيُّ کا تفرد ہے- عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ کو دارقطنی ضعیف کہتے ہیں ابن معین کہتے ہیں اس کی احادیث قوی نہیں

رسول الله کی روح جنت میں ہے اور وہ مقام الوسیلہ ہے –    وفات کے وقت عائشہ رضی الله عنہا کا قول ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا الله سب سے اعلیٰ دوست ہے،    اس وقت میں جان گئی کہ آپ نے دنیا کو چھوڑنے کا ارادہ کر لیا

ایک روایت مسند احمد   ١١٦١٠  میں ہے

حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ يَعْنِي ابْنَ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ شَرْفَيْ، مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ   عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا بَيْنَ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ» ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: قَالَ أَبِي: إِسْحَاقُ بْنُ شَرْفَيْ حَدَّثَنَا عَنْهُ مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَقَالَ عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ: إِسْحَاقُ بْنُ شَرْفَيْ

شعیب کہتے ہیں یہ منقطع ہے

أبو بكر بن عبد الرحمن بن عبد الله بن عمر، هو أبو بكر بن عمر بن عبد الرحمن بن عبد الله بن عمر، روايته عن جد أبيه منقطعة

حلية الأولياء وطبقات الأصفياء از  أبو نعيم  الأصبهاني (المتوفى: 430هـ) اور صحیح ابن حبان میں ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُظَفَّرِ، ثنا أَبُو بِشْرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُصْعَبٍ , ثنا مَحْمُودُ بْنُ آدَمَ، ثنا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، ثنا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ عَمَّارٍ الدُّهْنِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: ” قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قَوَائِمُ مِنْبَرِي رَوَاتِبٌ فِي الْجَنَّةِ , وَمَا بَيْنَ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ» تَفَرَّدَ بِهِ الْفَضْلُ عَنْ سُفْيَانَ

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میرے منبر کے پائے  جنت کے رَوَاتِبُ ہیں اور میری قبر اور منبر کے درمیان جنت ہے

اس کی سند میں  عمار بن معاوية الدهني    جس نے أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ سے روایت کیا    ہے – عَمَّارٍ الدُّهْنِيِّ کے لئے ابو حاتم کہتے ہیں اس سے دلیل مت لو-

شعب الإيمان از بیہقی میں ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيُّ، أَخْبَرَنَا حَامِدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الْهَرَوِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُونُسَ الْقُرَشِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، قَالَ: رَأَيْتُ جَابِرًا، وَهُوَ يَبْكِي عِنْدَ قَبْرِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يَقُولُ: هَهُنَا تُسْكَبُ الْعَبَرَاتُ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” مَا بَيْنَ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ “

سند میں   عَبْدُ اللهِ بْنُ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ   ہے جو مجہول ہے

السنة از  أبو بكر بن أبي عاصم  (المتوفى: 287هـ) میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، وابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا بَيْنَ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ، وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي»

ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی     ہے  میری قبر اور منبر کے  درمیان جنت ہے

اس کی سند  بظاہر صحیح ہے    لیکن یہ متن معلول   ہے –  دوم   اس میں قبر کو جنت کا باغ قرار نہیں دیا گیا ہے  جیسا لوگوں کا دعوی ہے

صحیح بخاری  میں اسی سند سے ہے

ح  ١٨٨٨  اور ١١٩٦ : حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنِي خُبَيْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الجَنَّةِ، وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي»

یعنی راوی نے خود کبھی    بَيْتِي میرا گھر بولا اور کبھی  قَبْرِي میری قبر بول دیا ہے –

مسند احمد میں ہے

حَدَّثَنَا يُونُسُ، قَالَ: حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، عَنْ عَمِّهِ عَبْدِ اللهِ بْنِ زَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” مَا بَيْنَ هَذِهِ الْبُيُوتِ ـ يَعْنِي: بُيُوتَهُ ـ إِلَى مِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ، وَالْمِنْبَرُ عَلَى تُرْعَةٍ مِنْ تُرَعِ الْجَنَّةِ
عَبْدِ اللهِ بْنِ زَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ، رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان گھروں اور میرے منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے باغ ہے اور منبر جنت کے ٹیلے پر ہے

شعيب الأرنؤوط کا کہنا ہے کہ
حديث صحيح دون قوله: “ما بين هذه البيوت ” بصيغة الجمع، فقد خالف فيها فليحٌ – وهو ابن سليمان
حدیث ان گھروں کے درمیان کے الفاظ یعنی جمع کے ساتھ ضعیف ہے اس متن پر فلیح بن سلیمان نے مخالفت کی ہے

بعض کا قول ہے کہ یہ قبری کا لفظ صحیح سند سے بھی ہے

قبری کے لفظ پر متضاد آراء 

بدر الدين العيني عمدة القاري 10 /248 میں لکھتے ہیں
وكذا وقع في حديث سعد بن أبي وقاص أخرجه البزار بسند صحيح،
قبری کے الفاظ صحیح سند سے مسند البزار میں سعد بن أبي وقاص کی سند سے آئے ہیں

راقم کو مسند البزار میں یہ سند ملی

وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، قَالَ: نَا إِسْحَاقُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي عُبَيْدَةُ بِنْتُ نَابِلٍ، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهَا: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي، أَوْ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ» وَهَذَا الْحَدِيثُ قَدْ رَوَتْهُ عُبَيْدَةُ، وَرَوَاهُ جُنَاحٌ مَوْلَى لَيْلَى، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهَا

اس سند میں عُبَيدة بنت نابل، حجازية. مجہول ہے

شعيب الأرنؤوط نے مسند احمد کی تعلیق میں اس سند کا ذکر کر کے کہا
قال الهيثمي في “المجمع” 4/9: ورجاله ثقات، فتعقبه الشيخ حبيب الرحمن الأعظمي بقوله: قلت: كلا، بل فيه إسحاق بن محمد الفروي، وليس بثقة،

حبيب الرحمن الأعظمي کا کہنا ہے اس سند میں بل فيه إسحاق بن محمد الفروي، وليس بثقة، ہے

بعض کا قول ہے کہ قبری کہنا اصل میں روایت بالمعنی ہے مثلا ابن تیمیہ کا القاعدة الجليلة میں قول ہے

ولكن بعضهم رواه بالمعنى، فقال: قبري
لیکن بعض نے کو قبری کے لفظ کے ساتھ روایت بالمعنی کیا ہے

بعض کا قول ہے قبری کا لفظ بے اصل ہے – التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد میں قرطبی کا کہنا ہے

وَقَدْ رَوَاهُ أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى الْكُوفِيُّ قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِكِ بْنُ أَنَسٍ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَيْنَ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ وَهَذَا أَيْضًا إِسْنَادٌ خَطَأٌ لَمْ يُتَابَعْ عَلَيْهِ وَلَا أَصْلَ لَهُ

ابن عمر نے روایت کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری قبر اور منبر کے درمیان جو ہے وہ جنت کا ٹکڑا ہے – ان اسناد میں غلطی ہے – اس کی متابعت نہیں ہے نہ اصل ہے

الرَّوضُ البَّسَام بتَرتيْبِ وَتخْريج فَوَائِدِ تَمَّام کے مؤلف أبو سليمان جاسم بن سليمان حمد الفهيد الدوسري کا کہنا ہے

تنبيه: الحديث بلفظ: “ما بين قبري ومنبري … ” عزاه النووي في “المجموع” (8/ 272) والعراقي في “تخريج الإِحياء” (1/ 260) إلى الصحيحين، وهو وهم، وقد علمت أن روايتهما بلفظ:”بيتي”.

تنبیہ حدیث الفاظ ما بين قبري ومنبري . کو نووی نے لیا ہے … اور یہ وہم ہے اور جان لو کہ روایت ہے بیتی کے الفاظ سے

أسنى المطالب في أحاديث مختلفة المراتب از محمد بن محمد درويش، أبو عبد الرحمن الحوت الشافعي (المتوفى: 1277هـ) میں ہے

حَدِيث: ” مَا بَين بَيْتِي ومنبري رَوْضَة من رياض الْجنَّة “. مُتَّفق عَلَيْهِ، وَمن يذكرهُ بِلَفْظ قَبْرِي فَهُوَ غلط.
حدیث ہے مَا بَين بَيْتِي ومنبري رَوْضَة من رياض الْجنَّة یہ متفق علیہ ہے اور جس نے اس کو قبری کے لفظ سے ذکر کر دیا ہے اس نے غلطی کی ہے

امام بخاری کا اہتمام : صرف بیت و منبر  والی روایات کی تصحیح کی 

امام بخاری نے  خاص وہ اسناد لی ہیں جن میں بیتی  کے الفاظ ہیں

ح  ٦٥٨٨  :  حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ المُنْذِرِ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الجَنَّةِ، وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي»

ح ٧٣٣٥  : حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الجَنَّةِ، وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي»

امام بخاری نے اس طرح خاص اہتمام کیا  ہے کہ صرف وہ متن لکھیں جس میں بیتی  گھر کے الفاظ ہوں نہ کہ قبر کے-

باب پر اشکال 

اب بحث اس میں ہے کہ اگر یہ ہی متن امام صاحب کے نزدیک صحیح تھا تو اس پر باب       بَابُ فَضْلِ مَا بَيْنَ القَبْرِ وَالمِنْبَرِ   قائم کیوں کیا؟

ابواب بخاری کے حوالے سے راقم کی رائے ہے کہ یہ تمام کے تمام امام بخاری کے قائم کردہ نہیں ہیں – کتاب    التعديل والتجريح , لمن خرج له البخاري في الجامع الصحيح  از  أبو الوليد سليمان بن خلف بن سعد بن أيوب بن وارث التجيبي القرطبي الباجي الأندلسي (المتوفى: 474هـ) کے مطابق

وَقد أخبرنَا أَبُو ذَر عبد بن أَحْمد الْهَرَوِيّ الْحَافِظ رَحمَه الله ثَنَا أَبُو إِسْحَاق الْمُسْتَمْلِي إِبْرَاهِيم بن أَحْمد قَالَ انتسخت كتاب البُخَارِيّ من أَصله كَانَ عِنْد مُحَمَّد بن يُوسُف الْفربرِي فرأيته لم يتم بعد وَقد بقيت عَلَيْهِ مَوَاضِع مبيضة كَثِيرَة مِنْهَا تراجم لم يثبت بعْدهَا شَيْئا وَمِنْهَا أَحَادِيث لم يترجم عَلَيْهَا فأضفنا بعض ذَلِك إِلَى بعض وَمِمَّا يدل على صِحَة هَذَا القَوْل أَن رِوَايَة أبي إِسْحَاق الْمُسْتَمْلِي وَرِوَايَة أبي مُحَمَّد السَّرخسِيّ وَرِوَايَة أبي الْهَيْثَم الْكشميهني وَرِوَايَة أبي زيد الْمروزِي وَقد نسخوا من أصل وَاحِد فِيهَا التَّقْدِيم وَالتَّأْخِير وَإِنَّمَا ذَلِك بِحَسب مَا قدر كل وَاحِد مِنْهُم فِي مَا كَانَ فِي طرة أَو رقْعَة مُضَافَة أَنه من مَوضِع مَا فأضافه إِلَيْهِ وَيبين ذَلِك أَنَّك تَجِد ترجمتين وَأكْثر من ذَلِك مُتَّصِلَة لَيْسَ بَينهمَا أَحَادِيث وَإِنَّمَا أوردت هَذَا لما عني بِهِ أهل بلدنا من طلب معنى يجمع بَين التَّرْجَمَة والْحَدِيث الَّذِي يَليهَا وتكلفهم فِي تعسف التَّأْوِيل مَا لَا يسوغ وَمُحَمّد بن إِسْمَاعِيل البُخَارِيّ رَحمَه الله وَإِن كَانَ من أعلم النَّاس بِصَحِيح الحَدِيث وسقيمه فَلَيْسَ ذَلِك من علم الْمعَانِي وَتَحْقِيق الْأَلْفَاظ وتمييزها بسبيل فَكيف وَقد روى أَبُو إِسْحَاق الْمُسْتَمْلِي الْعلَّة فِي ذَلِك وَبَينهَا إِن الحَدِيث الَّذِي يَلِي التَّرْجَمَة لَيْسَ بموضوع لَهَا ليَأْتِي قبل ذَلِك بترجمته وَيَأْتِي بالترجمة الَّتِي قبله من الحَدِيث بِمَا يَلِيق بهَا

أَبُو ذَر عبد بن أَحْمد الْهَرَوِيّ نے خبر دی الْمُسْتَمْلِي نے کہا میں نے  وہ نسخہ نقل کیا جو الْفربرِي کے پاس تھا پس میں نے دیکھا یہ ختم نہیں ہوا تھا اور اس میں بہت سے مقامات پر ترجمہ یا باب قائم کیے ہوئے تھے جس میں وہ چیزیں تھیں جو اس باب کے تحت ثابت نہیں تھیں اور احادیث تھیں جن کے تراجم (یا ابواب) نہ تھے پس ہم نے ان میں اضافہ کیا بعض کا بعض میں اور اس قول کی صحت پر دلالت کرتا ہے کہ الْمُسْتَمْلِي اور السَّرخسِيّ اور  الْكشميهني اور أبي زيد الْمروزِي نے سب  نے ایک ہی نسخہ سے نقل کیا ہے جس میں تقدیم و تاخیر تھی اور یہ اس وجہ سے تھا کہ ان سب کی حسب مقدار جو طرة میں تھا یہ  اضافی رقْعَة پر موجود تھا جو اس مقام پر لگا تھا اس کا اضافہ کیا گیا اور اس کی تبین ہوتی ہے کہ دو ابواب ایک سے زیادہ  مقام پر ہیں اور ابواب ملے ہیں حدیث نہیں ہے اور ایسا ہی مجھ کو ملا جب اہل شہر نے مدد کی کہ ابواب کو حدیث سے ملا دیں اور تاویل کی مشکل جھیلی جو امام بخاری کے نزدیک تھی اور اگرچہ وہ لوگوں میں حدیث کے صحیح و سقم کو سب سے زیادہ جانتے تھے لیکن علم معنی اور تحقیق الفاظ اور تمیز میں ایسے عالم نہیں تھے تو کیسے (ابواب کی تطبیق حدیث سے ) کرتے – اور الْمُسْتَمْلِي نے اس کی علت بیان کی کہ ایک حدیث اور اس سے ملحق باب میں حدیث ہوتی ہے جو موضوع سے مناسبت نہیں رکھتی

 الباجی    نے جو معلومات دی ہیں ان سے معلوم ہوا کہ یہ باب کہا جا سکتا ہے کہ امام بخاری کا قائم کردہ نہیں ہے کیونکہ انہوں نے اس روایت کے متن میں خاص احتیاط برتی ہے کہ صرف وہ لیں جس میں بیتی  کے الفاظ ہوں نہ کہ قبری  کے

امام بخاری کا عقیدہ 

امام بخاری نے اپنا عقیدہ   ان احادیث پر اس طرح بیان کیا ہے

انس ؓ سے روایت کہ حارثہ بن سراقہ انصاری ؓ جو ابھی نوعمر لڑکے تھے ‘ بدر کے دن شہید ہو گئے تھے ( پانی پینے کے لیے حوض پر آئے تھے کہ ایک تیر نے شہید کر دیا ) پھر ان کی والدہ ( ربیع بنت النصر ‘ انس ؓ کی پھو پھی ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ ، آپ کو معلوم ہے کہ مجھے حارثہ سے کتنا پیار تھا ، اگر وہ اب جنت میں ہے تو میں اس پر صبر کروں گی اور اللہ تعالیٰ کی امید رکھوں گی اور اگر کہیں دوسری جگہ ہے تو آپ دیکھ رہے ہیں کہ میں کس حال میں ہوں ۔ نبی صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اللہ تم پر رحم کرے ، کیا دیوانی ہو رہی ہو ، کیا وہاں   ایک جنت ہے ؟ بہت سی جنتیں ہیں اور تمہارا بیٹا جنت الفردوس میں ہے ۔   صحیح بخاری ، کتاب المغازی​

صحیح بخاری میں ہے

براء بن عازب ؓ سے سنا ‘ انہوں نے فرمایا کہ جب حضرت ابراہیم ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ) کی وفات ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں ان کے لیے ایک دودھ پلانے والی ہے ۔

امام مسلم کا اہتمام : صرف بیتی والی روایت کی تصحیح

امام مسلم نے بھی امام بخاری کی طرح صرف ان روایات کی تصحیح کی ہے جن میں بیتی کے الفاظ ہوں- امام صاحب دو اسناد دیتے ہیں

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ زَيْدٍ الْمَازِنيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ»

حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ، ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ، وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي»

اب اشکال یہ ہے کہ اگر امام مسلم سے نزدیک یہ متن صحیح تھا تو اس پر باب بَابُ مَا بَيْنَ الْقَبْرِ وَالْمِنْبَرِ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ کیوں قائم کیا ہے

صيانة صحيح مسلم من الإخلال والغلط وحمايته من الإسقاط والسقط میں محدث ابن الصلاح (المتوفى: 643هـ) کہتے ہیں

أَن مُسلما رَحمَه الله وإيانا رتب كِتَابه على الْأَبْوَاب فَهُوَ مبوب فِي الْحَقِيقَة وَلكنه لم يذكر فِيهِ تراجم الْأَبْوَاب لِئَلَّا يزْدَاد بهَا حجم الْكتاب أَو لغير ذَلِك
اللہ رحم کرے امام مسلم پر انہوں نے کتاب مرتب کی ابواب کے مطابق لیکن اس پر ابواب قائم نہ کیے کیونکہ اس سے کتاب کا حجم بڑھ جاتا یا کوئی اور وجہ تھی

لب لباب 

صحیح اسناد سے وہ حدیث ہے جس میں گھر اور منبر کے درمیان کو جنت کہا گیا ہے

ضعیف و معلول اسناد سے وہ روایات ہیں جن میں قبر اور منبر کو جنت کہا گیا ہے

اگر یہ تسلیم کریں کہ متن میری قبر اور منبر کے درمیان کے الفاظ کے ساتھ صحیح تھا تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایک حصہ یا تمام جنت میں سے تھا اور جو لوگ اس میں زندگی میں داخل ہوئے وہ جنت میں چلے گئے – ایسا دعوی ہم دیکھتے ہیں کسی نے نہیں کیا

انبیاء کی جنت آسمانوں میں ہے – زمین جیسی فانی چیزوں میں نہیں جس پر عظیم پہاڑوں کو چلایا جائے گا حتی کہ زمین چپٹی کر دی جائے گی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے گھر اور منبر کے درمیان، جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے

یعنی بعد حشر اس مسجد النبی کو جنت کا حصہ بنا دیا جائے گا – جنت مشرک پر حرام ہے اور مسجد النبی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے نصرانیوں سے کلام کیا ہے – یہود بھی اپنے مقدمات کو لے کر اسی مسجد میں آتے تھے – ظاہر ہے یہود و نصرانی جنت میں نہیں جا سکتے – اس حدیث کا ظاہر پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ یہ بات حشر کے بعد واقع ہو گی نہ کہ دنیا میں جب اس زمین کے مسجد النبی کے مقام کو باقی زمین سے الگ کر کے جنت کا حصہ بنایا جائے گا اور منبر پر حوض  کوثر ہو گا

واللہ اعلم

وفات النبی پر کتاب

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

فہرست

مبحث الاول :  واقعات و کلام

مرض وفات  النبی

واقعہ قرطاس

دوا  پلانے والا واقعہ

رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے منسوب وصیتیں

وفات اور آخری کلام

مبحث الثانی:  وفات   النبی پر  اجماع ، جنازہ ، تدفین

ابوبکر رضی الله عنہ کی تقریر اور اجماع صحابہ

نماز جنازہ؟

تدفین اور چادر کا ڈالا جانا

کیا  انبیاء وہاں دفن ہوتے ہیں جہاں وفات ہوتی ہے ؟

اہل تشیع  کی متفرق آراء

چادر کا ڈالا جانا

حجرہ عائشہ رضی الله عنہا میں تین چاند والی ضعیف روایت

عائشہ رضی الله عنہا کا ماتم کرنا اور قرآن کی آیات کا بکری کا کھا جانا

تبرکات سے نفع لینا

مبحث الثالث: حیات الانبیاء  فی القبر کا مسئلہ

رسول الله  صلی الله علیہ وسلم   کی قبر  مطہر  جنت کا باغ ہے؟

رسول الله  صلی الله علیہ وسلم    کی روح کا قبر میں واپس آنا یا   حیات النبی فی القبر کا  عقیدہ

رسول الله  صلی الله علیہ وسلم      پر امت کا عمل پیش ہونے کا عقیدہ

انبیاء کے اجسام کا باقی رہنے کا عقیدہ

تمام  انبیاء علیھم  السلام  کا اپنی  قبروں  میں نماز پڑھنا

الله کا نبی زندہ ہے اس کو رزق دیا جاتا ہے

موسی علیہ السلام  کے لئے قبر میں نماز پڑھتے رہنے کا عقیدہ

بعد وفات انبیاء کا    حج کرنا   اور بیداری میں امتیوں سے ملاقات کرنا

عیسیٰ علیہ السلام کی قبر النبی پر آمد اور شریعت کی تعلیم حاصل کرنا

رسول الله صلی الله علیہ وسلم  پر ازواج مطہرات پیش ہونے کا عقیدہ

عائشہ رضی الله عنہا کا عقیدہ

واقعہ حرہ میں قبر النبی سے اذان کی آواز آنا

علماء کا رسول الله صلی الله علیہ وسلم   کے جسد مطہر کا عرش عظیم سے   تقابل کرنا

حیات برزخی کی ایجاد

مبحث الرابع: قبر نبوی پر تعمیرات کا شرعی پہلو

اے الله میری قبر کو بت نہ   بننے  دیجئے گا

 گنبد کی تعمیر اور اس کا مقصد اور اس پر اختلاف امت

حجرہ عائشہ( رضی الله عنہا ) کو مزار کہنے کا رواج

قبور انبیاء پر مسجدوں کی تعمیر

زیارت قبور پر روایات

قبر نبوی کے حوالے سے غلط عقائد و اعمال

خاتمہ

پیش لفظ

قرآن ایک مسلمان کے لئے عقائد کی اساس ہے – کتاب الله  میں وہ تمام عقائد موجود ہیں جو اخروی فلاح کے لئے ضروری ہیں-  الله تعالی نے خبر دی ہے کہ صرف اس   كي  ذات ابدی ہے ،   جو الاول ہے اور الحیی القیوم   ہے –  انبیاء  علیہم السلام اس دنیا میں پیدا ہوئے ان کو الله نے اپنی دعوت کے لئے منتخب کیا    اور جب وہ اس    كام کو پورا کر گئے تو وہ بھی  موت سے ہمکنار ہوئے –

یہ کتاب مختلف  مباحث  پر مشتمل ہے چونکہ تمام کا تعلق حیات الانبیاء فی القبر سے ہے اس لئے اس کتاب کا نام وفات النبی رکھا گیا ہے جس میں مرض وفات کے  واقعات کا بھی    تذکرہ ہے اور تدفین نبوی صلی الله علیہ وسلم کا بھی-

فرقے سمجھتے ہیں  کہ  الله تعالی  نے جب فرمایا کہ شہید زندہ ہیں ان کو مردہ مت کہو تو اس سے مراد ان کی قبر میں زندگی ہے جبکہ اس کی کوئی دلیل ان کے پاس  نہیں – ایسا ممکن نہیں کیونکہ     حدیث  نبوی  میں ہے کہ  شہید  چاہتا ہے کہ اس کو واپس   دنیا میں  بھیجا  جائے تاکہ وہ پھر جہاد کرے   لیکن  الله اپنی سنت کو نہیں بدلتا ،ان کو اس دنیا میں نہیں لوٹایا جاتا –  فرقے پہلے شہید کو زندہ کرتے ہیں پھر   کہتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا درجہ  شہید سے بلند ہے لہذا وہ  بھی زندہ   ہیں – یہ ان کی قیاسی  دلیل ہے جس کا رد ابو بکر رضی الله عنہ نے اپنی تقریر میں یہ کہہ کر کر دیا کہ محمد کو موت آ چکی-   فرقوں کے نزدیک انبیاء کے لئے موت کا لفظ ادا کرنا ان کی توہین ہے –  ان کا یہ فتوی سب سے پہلے   ابو بکر رضی الله عنہ پر  لگتا ہے-

   اسلامی فرقوں کا  عقیدہ ہے کہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تھی آپ کو دفن کیا گیا اور آپ کی قبر مدینہ منورہ میں ہے ۔ لیکن  ان کا آپس کا جزوی اختلاف اس پر ہے کہ  بعد از وفات آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا جسم قبر میں  میت یا مردہ نہیں ہے  بلکہ اللہ نے آپ کو حیات عطا فرما دی ہے ۔    اس کی صریح دلیل ان کے نزدیک    اعادہ روح  النبی والی روایت    ہے جو ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے منسوب ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا  جب کوئی سلام کہتا ہے تو روح النبی   جسم میں لوٹ آتی ہے یہاں تک کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سلام کا جواب دیتے ہیں  – یہ   روایت  دور عباسی میں مشہور ہوئی ہے   اور  یہ واحد روایت ہے جس میں صریحا روح واپس آنے کا ذکر ہے

 دیو بندی کہتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کی روح  جسم میں سے نہیں نکلی بلکہ قلب  میں سمٹ گئی –   رسول الله صلی الله علیہ وسلم    اپنی قبر میں حیات سے متصف ہیں   اور نماز پڑھتے ہیں – نماز وہی قبول ہوتی ہے جس میں اذان ہو لہذا یہ کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم  قبر میں ہی اذان دیتے ہیں پھر نماز پڑھتے ہیں –   خیال رہے کہ ان کے نزدیک  نماز پڑھنے کا مطلب ہے کہ قیام  و رکوع  و سجدہ و قعدہ    یعنی مکمل نماز جو  ایک صحت یاب مسلم پڑھتا ہے

بریلوی  کہتے ہیں   کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم    اپنی قبر میں حیات سے متصف ہیں  ان کی ازواج   بھی زندہ ہیں اور ان سب کی قبر میں ملاقات ہوتی ہے –   اور قبر میں    آپ   صلی الله علیہ وسلم  کو رزق دیا جاتا ہے- آپ   صلی الله علیہ وسلم قبر میں نماز بھی پڑھتے ہیں

اہل حدیث کہتے ہیں   رسول الله صلی الله علیہ وسلم    اپنی قبر میں حیات سے متصف ہیں   – اپ سلام کا جواب دیتے ہیں – ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ آپ سنتے ہیں  مثلا ابن تیمیہ و ابن قیم – بعض کہتے ہیں کہ  سنتے نہیں صرف جواب دیتے ہیں مثلا البانی –  بعض  اس حوالے سے مجہول الکیفیت کا قول کہتے ہیں کہ الله کو پتا ہے  لیکن نبی قبر میں ہی زندہ ہیں  اس کیفیت کا نام انہوں نے حیات برزخی رکھا ہوا ہے –

وہابی کہتے ہیں روح جنت میں ہے لیکن  قبر میں اس کا تعلق ہوتا ہے  مثلا   بن باز  وغیرہ-  اور  بعض کہتے ہیں   روح جسم میں آتی ہے جیسے صالح المنجد  اور بعض  کہتے ہیں انبیاء آج تک حج کر رہے ہیں جیسے    المشھور حسن سلمان-

اس طرح بریلوی اور دیو بندی کہتے ہیں  کہ قبر میں  رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی زندگی دنیا جیسی زندگی ہے اور اہل حدیث اور سلفی فرقے کہتے ہیں یہ زندگی معلوم نہیں کیسی ہے  لیکن  ان کو اس میں شک نہیں کہ روح النبی قبر میں جب چاہے  آ سکتی ہے –  اہل سنت کے ان فرقوں کے نزدیک حیات النبی فی القبر ایک اتفاقی و  اجماعی  عقیدہ  ہے    ان میں   اختلاف اعادہ روح  النبی کا ہے –

راقم کہتا ہے یہ عقیدہ ابو بکر رضی الله عنہ کا نہیں  تھا  جو آج ان فرقوں کا ہے  اور اصحاب رسول کا اجماع  وفات اور موت النبی پر ہے-

  اس کتاب میں ان فرقوں کے  علماء  اقوال جمع کیے گئے ہیں تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ کس کا موقف قرآن کے قریب ہے- اللہ ہم کو حق کی طرف ہدایت دے بے شک انسان کو اندھیرے سے اجالنے میں لانا صرف اسی کے بس میں ہے

ابو شہریار

٢٠١٨

حیات النبی فی القبر کا مسئلہ

مکمل کتاب لٹریچر/ کتب ابو شہریار میں ملاحظہ کریں

امت کے ولی ابو بکر رضی الله عنہ کہتے ہیں

 ألامن کان یعبد محمدا فإن محمدا  قد مات  -صحیح بخاری

 سن لو! جو شخص محمد  (صلی الله علیہ وسلم) کی عبادت کرتا تھا تو (جان لے کہ) بلا شبہ محمد  فوت ہو گئے

عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک   روایت میں مروی ہے کہ

لقد مات رسول اللہ ۔صحیح مسلم

 یقیناً رسول اللہ فوت ہو گئے

انبیاء ، شہداء سے افضل ہیں اور جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ انبیاء جنت میں ہیں شہداء بھی جنت میں ہی ہیں کیونکہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے وفات سے چند لمحہ قبل قرآن کی آیت پڑھی

ان لوگوں کے ساتھ جن پر انعام ہوا- انبیاء ، صدیقین اور شہداء

بعض علماء  اشکال پیش کرتے ہیں کہ انبیاء و شہداء جنت میں کیسے ہو سکتے ہیں حتی کہ ان میں سے بعض کے نزدیک رسول الله صلی الله علیہ وسلم بھی اسی مدینہ والی قبر میں ہیں

قبر میں حیات النبی کے قائلین کچھ روایات پیش کرتے ہیں

امام ابویعلی فرماتے ہیں کہ ہم سے ابو الجہم الا زرق بن علی نے بیان کیا ۔ وہ فرماتے ہیں ہم سے یحییٰ بن ابی بکیر نے بیان کیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے مستلم بن سعید نے بیان کیا۔ وہ حجاج سے اور وہ ثابت بنانی سے اور وہ حضرت انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا الانبیاء قبروں میں زندہ ہیں نماز پڑھتے ہیں

 ( شفاالسقام ص134) حیات الانبیاء للبیہقی، خصائص الکبری جلد 2ص281، فتح الباری جلد6ص352، فتح الملہم جلد1ص349،۔  ابن حجر عسقلانی کہتے  ہیں و صححہ البیہقی امام بیہقی نے اس کی تصدیق کی ہے۔ فتح الباری جلد ۶ ص352علامہ ہیثمی فرماتے ہیں ابویعلی کی سند کے سب راوی ثقہ ہیں۔ علامہ عزیزی لکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ ملا علی قاری  لکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی کہتے ہیں امام ابو یعلی ثقہ راویوں سے  انس بن مالک  رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ مدراج النبوة جلد2ص440، جذب القلوب ص180۔

اصلا روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کا راوی حجاج غیر واضح ہے انہی میں سے بعض لوگوں نے جن کے نام اوپر لکھے ہیں اس کو اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے مثلا لسان المیزان از ابن حجر میں راوی کا نام الگ ہے اور فتح الباری میں الگ ان سب کے نزدیک اس راوی کا نام الگ الگ ہے اور اس کا سماع واقعی ثابت البنانی سے ہے ثابت نہیں ہے- سب سے پہلے اسکی تصحیح امام البیہقی نے کی ہے اس پر تفصیلا بحث سوالات کے سیکشن میں ہے

دیکھئے

کہا جاتا ہے انبیاء قبروں میں زندہ ہیں اس کی کوئی صحیح حدیث ہے ؟

یہ روایت نماز کی اہمیت پر بصرہ میں گھڑی گئی اس کی سند کا راوی حجاج مجھول ہے جس کو بصرہ کا بتایا جاتا ہے اور اس سے نیچے ثابت البنانی بھی بصرہ کے ہیں

قبرستان میں نماز حرام ہے اور یہ فقہ میں موجود ہے تو اس میں پڑھی گئی نماز کیسے  قبول ہو گی ایسی نماز شریعت میں حرام ہے اور طریقت میں عین دین ہے لہذا صوفی منش بیہقی کی پسندیدہ بنی

یہ دور تھا جب تصوف اور حدیث اپس میں مل رہے تھے اس کا روی مستلم بن سعید ہے اس کے لئے تہذیب الکمال میں ہے

وَقَال الْحَسَن بْن علي الخلال عَنْ يزيد بْن هارون، مكث المستلم بْن سَعِيد أربعين سنة لا يضع جنبه إلى الأرض. قال: وسمعته يقول: لم أشرب الماء منذ خمسة وأربعين يوما.

اور الحسن بن علی الخلال نےیزید بن ہارون سے روایت کیا کہ یزید کہتے ہیں مستلم نے چالیس سال تک زمین پر پہلو نہیں لگایا اور میں نے ان سے سنا کہتے تھے میں نے ٤٥ دن سے پانی نہیں پیا

یعنی مستلم ایک سادھو اور جوگی تھی سخت مشقتیں کرتے اور بصرہ کے جملہ محدثین ان کی روایات نقل کر کے اپنے تئیں دین کی خدمت کر رہے تھے

یہ لوگ مندرجہ ذیل روایت بھی پیش کرتے ہیں

امام ابن ماجہ فرماتے ہیں کہ ہم سے عمروبن سواد المصری نے بیان کیا ۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے عبد اﷲ بن وہب  نے بیان کیا اور وہ عمر بن حارث سے اور وہ سید بن ابی ہلال سے۔ وہ یزید بن ایمن سے اور وہ عبادة بن نسی سے اور وہ ابوالدراد  رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ  نے ارشاد فر مایا کہ جمعہ کہ دن مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو کیونکہ وہ دن حاضری کا ہے۔ اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ مجھ پر جو کوئی شخص دورد پڑھتا ہے اس کا ددور مجھ پر پیش کیا جاتا ہے حتی کہ وہ اس سے فارغ ہو۔ میں نے کہا یا رسول اﷲ آپ کی موت کے بعد ؟ آپ نے فرمایا الله نے حرام کر دیا ہے کہ زمین انبیاء کے جسموں کو کھائے پس نبی الله کو رزق دیا جاتا ہے

ابن ماجہ 119)  ابن حجر لکھتے ہیں قلت رجال ثقات، التہذیب التہذیب جلد 3ص398)۔ حافظ منذری   الترغيب والترهيب لکھتے ہیں اسنادہ جید ترجمان السنہ جلد 3ص297 علامہ عزیزی لکھتے ہیں۔ رجال الثقات، السراج المنیر جلد1ص290۔ علامہ مناوی لکھتے ہیں، قال الدمیری رجال ثقات، فیض القدیر جلد4ص87،۔ اسی طرح زرقانی ، سمہووی، ملاعلی قاری، شمس الحق علیم آبادی، قاضی شوکانی نے بھی اس حدیث کا صحیح اور جید کہا ہے۔زرقانی شارح مواحد جلد 5ص436،خلاصة الوفا ص48، مرقات جلد2ص112، نیل الاوطار جلد5ص 264، عون المعبود جلد ۱ص405۔

عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ  کا سماع ابو الدرداء سے نہیں ہے اور اس کو مرسل کہا جاتا ہے

راوی ثقہ ہوں لیکن ان کا سماع نہ ہو تو روایت ضعیف ہی ہوتی ہے یہ سادہ اصول علم حدیث کی تمام کتب میں ہےابن حجر خود تہذیب التہذیب میں لکھتے ہیں

زيد بن أيمن. روى عن عبادة بن نسي. وعنه سعيد بن أبي هلال وذكره ابن حبان في الثقات روى له ابن ماجة حديثا واحدا في فضل الصلاة على النبي صلى الله عليه وآله وسلم1. قلت رجاله ثقات لكن قال البخاري زيد بن أيمن عن عبادة بن نسي مرسل.

زید بن ایمن جو سے روایت کرتا ہے اور ان سے سعید بن ابی ہلال اس کا ذکر ابن حبان نے ثقات میں کیا ہے ابن ماجہ نے ان سے روایت کی ہے ایک حدیث جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر درود سے متعلق ہے میں کہتا ہوں اس کے راوی ثقہ ہیں لیکن امام بخاری کہتے ہیں زید بن ایمان اور وہ عبادہ سے مرسل ہے

الذھبی میزان میں لکھتے ہیں

زيد بن أيمن [ق .
عن عبادة بن نسى.
عن أبي الدرداء، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الانبياء، فنبي الله حى يرزق.
روى عنه سعيد بن أبي هلال فقط، لكن ذكره ابن حبان في الثقات على قاعدته

زید بن ایمان ان سے عبادہ کی روایت اور ان سے ابو درداء کی کہ  رسول الله نے فرمایا کہ الله نے حرام کر دیا ہے زمیں پر کہ انبیاء کے جسموں کو کہئے پس نبی الله کو رزق دیا جاتا ہے ان سے اس کو فقط سعید نے روایت کیا ہے لیکن ابن حبان نے اپنے قاعدے کے مطابق اس کو ثقات میں شمار کر دیا ہے

ابن حبان پر تساہل کا زور تھا اس کی طرف الذھبی نے اشارہ دیا ہے

. البوصيري “مصباح الزجاجة” میں کہتے ہیں

هذا إسناد رجاله ثقات إلا أنه منقطع في موضعين: عبادة بن نسي روايته عن أبي الدرداء مرسلة؛

اس روایت کی اسناد میں ثقہ رجال ہیں لیکن یہ دو مقام پر منقطع ہے عبادہ بن نسی کی ابو درداء سے روایت مرسل ہے

ابن کثیر تفسیر  میں سوره الاحزاب پر بحث میں  اس روایت کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں

هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَفِيهِ انْقِطَاعٌ بَيْنَ عُبَادَةَ بْنِ نُسِيٍّ وَأَبِي الدَّرْدَاءِ فَإِنَّهُ لَمْ يُدْرِكْهُ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ.

یہ حدیث غریب ہے اس سند سے اس میں انقطاع ہے عبادہ اور ابی الدرداء کے درمیان کیونکہ انکی ملاقات نہ ہوئی

یہ اقوال بھی ہیں جو واضح کرتے ہیں روایت منقطع ہے

اسی سند سے تفسیر الطبری کی ایک اور روایت ہے

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: ثني عَمِّي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَيْمَنَ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَكْثِرُوا عَلَيَّ الصَّلَاةَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَإِنَّهُ يَوْمٌ مَشْهُودٌ تَشْهَدُهُ الْمَلَائِكَةُ

ابو الدردا رضی الله عنہ کہتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا مجھ پر کثرت سے جمعہ کے دن درود پڑھو کیونکہ یہ وہ دن ہے جو یوم مشہود ہے فرشتے دیکھتے ہیں

یہ روایت بھی مرسل ہے ضعیف ہے اور کیا فرشتے عام دنوں میں نہیں ریکارڈ کرتے

قائلین حیات النبی صحیح مسلم کی حدیث پیش کرتے ہیں کہ

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : أَنَا أَکْثَرُ الْأَنْبِيَاءِ تَبَعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ يَقْرَعُ بَابَ الْجَنَّةِ   رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ حِبَّانَ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن تمام انبیاء سے زیادہ میرے پیروکار ہوں گے اور سب سے پہلے میں جنت کا دروازہ کھٹکھٹائوں گا۔

 اِسے امام مسلم، ابن ابی شیبہ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

  عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : أتِي بَابَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَسْتَفْتِحُ فَيَقُوْلُ الْخَازِنُ: مَنْ أَنْتَ؟ فَأَقُوْلُ: مُحَمَّدٌ، فَيَقُوْلُ: بِکَ أُمِرْتُ لَا أَفْتَحُ لِأَحَدٍ قَبْلَکَ  رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ عَوَانَةَ وَابْنُ حُمَيْدٍ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب في قول النبي صلی الله عليه واله وسلم : أنا أوّل النّاس يشفع في الجنّة

انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ  نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: روزِ محشر میں جنت کے دروازے پر آ کر دستک دوں گا، دربانِ جنت دریافت کرے گا: آپ کون ہیں؟ تو میں کہوں گا: میں محمد ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) ہوں، وہ کہے گا: مجھے یہی حکم دیا گیا ہے کہ آپ سے پہلے جنت کا دروازہ کسی اور کے لیے نہ کھولوں۔

اِس حدیث کو امام مسلم، احمد، ابو عوانہ اور ابن حمید نے روایت کیا ہے۔.

جو غیر مقلدین اس حدیث کو پیش کرتے ہیں ان کے نزدیک یہ حدیث دال ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ابھی بھی مدینہ والی قبر میں ہی ہیں اور ان کی قبر جنت کے باغ میں سے ایک ہے- یہی بعض  وہابی علماء کا نظریہ ہے جو قرآن و احادیث صحیحہ کے یکسر خلاف ہے یہی وجہ ہے کہ وہابی و سلفی علماء ابن تیمیہ کی تقلید میں سماع الموتی کے قائل ہیں (بشمول ابن کثیر، ابن حجرو غیرھم ) جبکہ غیر مقلدین کے مطابق یہ گمراہی ہے

البانی سماع الموتی کے انکاری لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم میں روح لوٹائے جانے کے قائل ہیں

کتاب  موسوعة العلامة الإمام مجدد العصر محمد ناصر الدين الألباني «موسوعة تحتوي على أكثر من  عملاً ودراسة حول العلامة الألباني وتراثه الخالد  از مركز النعمان للبحوث والدراسات الإسلامية وتحقيق التراث والترجمة، صنعاء – اليمن کے مطابق البانی سے سوال ہوا کہ کیا رسول الله زندہ ہیں- البانی کہتے ہیں ان کا جسم قائم ہے اور

al-bani-1546-front

قال: «إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء» ,أي: أنا كسائر الأنبياء جسدي في القبر حي طري, ولكن اصطفاني ربي عز وجل بخصلة أخرى أنه كلما سلم علي مسلمون رد الله إلي روحي فأرد عليه السلام, وهذا الحديث وهو ثابت فيه دلاله على أن الرسول عليه السلام خلاف ما يتوهم كثير من العامة, بل وفيهم بعض الخاصة وهي أن النبي – صلى الله عليه وآله وسلم – لا يسمع سلام المسلمين عليه, وإنما كما جاء في الحديث الصحيح: «إن لله ملائكة سياحين, يبلغوني عن أمتي السلام» , إن لله ملائكة سياحين: يعني طوافين على المسلمين, فكلما سمعوا مسلماً يصلي على النبي – صلى الله عليه وآله وسلم – بلغوه بذلك وهو لا يسمع؛ لأن الميت لا يسمع, انفصل عن هذه الحياة الدنيا ومتعلقاتها كلها, ولكن الله عز وجل اصطفى نبيه عليه السلام فيما ذكرنا من الحياة ومن تمكينه بإعادة روحه إلى جسده, ورد السلام على المسلمين عليه, ومن ذلك أيضاً أن هناك ملائكةً يبلغونه السلام فكلما سلموا عليه من فلان هو رد عليهم السلام.  الهدى والنور” (268/ 08: 22: 00)

al-bani-1546

رسول  الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بے شک الله نے حرام کر دیا ہے کہ زمین انبیاء کے اجسام کو کھائے – یعنی کہ میں تمام انبیاء  کے جسموں کی طرح قبر میں تازہ رہوں گا – لیکن الله نے مجھے چن لیا ایک دوسری خصوصیت کے لئے کہ جب مسلمان مجھ پر سلام کہیں گے تو الله میری روح کو لوٹا دے گا اور میں جواب دوں گا اور یہ حدیث ثابت ہے دلیل ہے کہ اس کے خلاف جس پر بہت سوں کو وہم ہے – بلکہ اس میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خصوصیت ہے وہ یہ کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم مسلمانوں کا سلام نہیں سنتے اور صحیح حدیث میں آیا ہے کہ الله کے فرشتے ہیں جو  سلام لاتے ہیں یعنی الله کے سیاح فرشتے ہیں جو مسلمانوں میں پھرتے رہتے ہیں پس جب وہ کسی کو سلام کہتے سنتے ہیں وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم تک لاتے ہیں اور رسول الله اس کو خود سن نہیں پاتے – کیونکہ میت نہیں سنتی – وہ دنیا اور اس کے متعلقات سے کٹی ہوتی ہے لیکن الله نے اپنے نبی کو چنا جس کا ہم نے ذکر کیا کہ روح کو جسم میں جگہ ملتی ہے روح لوٹانے جانے پر اور مسلمانوں کے  سلام کا جواب دینے کے لئے  اور ساتھ ہی فرشتے ہیں جو سلام پہنچاتے ہیں پس جب فلاں سلام کہتا ہے اس روح کو لوٹا دیا جاتا ہے

البانی کی احمقانہ منطق دیکھیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم روح لوٹانے پر سن نہیں سکتے لیکن بول سکتے ہیں

 بقول سراج اورنگ آبادی

وہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی لیا درس نسخۂ عشق کا
کہ کتاب عقل کی طاق پر جو دھری تھی سو وہ دھری رہی

علم حدیث عقل سے عاری ہو تو یہ نتیجہ نکلتا ہے

المناوي  المتوفی ١٠٣١ ھ اس کے خلاف کہتے ہیں

 يعني ردّ علىَّ نطقي، لأنه – صلَّى الله عليه وسلم – حي على الدوام، وروحه لا تفارقه أبداً

 المناوي کہتے ہیں : یعنی بولنے کی صلاحیت  لوٹائی جاتی ہے ، بے شک آپ صلی الله علیہ وسلم مسلسل 

 زندہ ہیں اور روح جسد سے الگ نہیں

المناوی نے امام سیوطی  (المتوفى: 911هـ) کا قول نقل کیا ہےسیوطی الحاوی للفتاوی میں کہتے روح لوٹانے والی حدیث سے

حاوی الفتاوی فرنٹ

حاوی الفتاوی ١٥١png

 يُؤْخَذُ مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيٌّ عَلَى الدَّوَامِ

اخذ کیا گیا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم دائمی زندہ ہیں

وہابی عالم ابی بطين  کتاب  رسائل وفتاوى العلامة عبد الله بن عبد الرحمن أبي بطين  کہتے ہیں

الحديث المشهور: “ما من مسلم يسلم علي إلا رد الله علي روحي حتى أرد عليه السلام” 1؛ فهذا يدل على أن روحه صلى الله عليه وسلم ليست دائمة في قبره.
ومعرفة الميت زائره ليس مختصا به صلى الله عليه وسلم

حدیث مشھور ہے کہ کوئی ایسا نہیں جو مجھ پر سلام کہے اور اس کا جواب دینے کے لئے الله میری روح نہ لوٹا دے پس یہ دلیل  ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی روح مسلسل قبر میں نہیں اور میت کا زائر کو جاننا رسول الله کے لئے خاص نہیں

وہابی عالم ابی بطين  کتاب تأسيس التقديس في كشف تلبيس داود بن جرجيس  کہتے ہیں

تأسيس التقديس في كشف تلبيس داود بن جرجيس front

تأسيس التقديس في كشف تلبيس داود بن جرجيس 119

 جیسا ابو داود نے روایت کیا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ایسا کوئی مسلم نہیں جو مجھ کو سلام کرے اور اللہ میری روح نہ لوٹا دے جواب پلٹنے کے لئے پس یہ دلیل ہے کہ روح شریف ان کے بدن میں دائما نہیں ہے بلکہ اعلیٰ علیین میں ہے اور اس کا بدن سے کنکشن ہے جس کی حقیقت الله کو پتا ہے نہ اس میں حس سے نہ عقل اور نہ یہ ان کے لئے خاص ہے

یعنی  ہر میت زائر کو جانتی ہے یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خصوصیت نہیں ہے

ابن حجر فتح الباری ج ٧ ص ٢٩ میں لکھتے ہیں

فتح الباري ج ٧ فرونت

فتح الباري ج ٧ ص ٣٦

 إِنَّ حَيَاتَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقَبْر لايعقبها مَوْتٌ بَلْ يَسْتَمِرُّ حَيًّا وَالْأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ 

بے شک آپ صلی الله علیہ وسلم کی قبر میں زندگی پر موت نہیں اتی، بلکہ آپ مسلسل زندہ ہیں اور(تمام) انبیاء زندہ ہیں اپنی قبروں میں نماز پڑھتے ہیں

ان کے شاگرد السخاوی کتاب القول البديع في الصَّلاةِ عَلَى الحَبِيبِ الشَّفِيعِ  ص : 172 ,طبعة دار الكتب العربي  میں کہتے ہیں

ساخاوي 1

يؤخذ من هذه الأحاديث أنه – صلى الله عليه وسلم – حي على الدوام وذلك أنه
محال عادة أن يخلو الوجود كله من واحد يسلم عليه في ليل ونهار

نحن نؤمن ونصدق بأنه – صلى الله عليه وسلم – حي يرزق في قبره وان جسده الشريف لا تأكله الأرض والإجماع على هذا

ساخاوي ٢

ان احادیث سے اخذ کیا جاتا ہے آپ صلی الله علیہ وسلم مسلسل زندہ ہیں اور یہ دن و رات  ہر ایک آن پر  سلام کہہ رہا ہے لہذا ان کا وجود روح سے  خالی نہیں – ہم ایمان رکھتے ہیں اور ہم تصدیق کرتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم زندہ ہیں، قبر میں رزق دیا جاتا ہے اور ان کے جسد شریف کو زمیں نہیں کھاتی اور اس پر اجماع ہے

رزق کا قبر میں دیا جانا دنیاوی حیات جیسا ہے جس کے دیوبندی قائل ہیں اور غیر مقلدین انکار کرتے ہیں

مفتی بن باز کہتے ہیں

https://binbaz.org.sa/fatwas/49/هل-الرسول-ﷺ-حي-في-قبره-ام-لا

قد صرح الكثيرون من أهل السنة بأن النبي صلى الله عليه وسلم حي في قبره حياة برزخية لا يعلم كنهها وكيفيتها إلا الله سبحانه، وليست من جنس حياة أهل الدنيا بل هي نوع آخر يحصل بها له صلى الله عليه وسلم الإحساس بالنعيم، ويسمع بها سلام المسلم عليه عندما يرد الله عليه روحه ذلك الوقت

اکثر اہل سنت نے تصریح کی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم قبر میں زندہ ہیں برزخی زندگی کے ساتھ جس کی کیفیت صرف الله ہی جانتا ہے اور یہ دنیا کی زندگی جیسی نہیں ہے بلکہ کوئی اور ہی طرح کی ہے جس سے صلی الله علیہ وسلم کو راحت کا احساس ہوتا ہے اور اس سے سلام سنتے ہیں اور اس وقت الله اپ کی روح لوٹا دیتا ہے

كتاب  الدرر السنية في الأجوبة النجدية از   عبد الرحمن بن محمد بن قاسم کے مطابق محمد بن الشيخ عبد اللطيف بن الشيخ عبد الرحمن کہتے ہیں

الشيخ عبد اللطيف بن الشيخ j1front

ونعتقد أن رتبته صلى الله عليه وسلم أعلى رتب المخلوقين على الإطلاق، وأنه حي في قبره حياة برزخية، أبلغ من حياة الشهداء المنصوص عليها في التنْزيل، إذ هو أفضل منهم بلا ريب، وأنه يسمع سلام المسلم عليه،

الشيخ عبد اللطيف بن الشيخ

اور ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا رتبہ مخلوق میں  علی اطلاق سب سے اعلی ہے اور بے شک وہ قبر میں زندہ ہیں برزخی زندگی کے ساتھ , جو شہداء کی زندگی سے بلند ہے جس پر نصوص ہیں تنزیل میں (یعنی  قرآن میں ) کہ جب وہ (رسول الله ) افضل ہیں (شہداء سے) بلا شک تو،  بے شک وہ  سلام سنتے ہیں جب کوئی مسلم سلام کہتا ہے ان پر اور ایسی زندگی جو علم کی متقاضی ہو، تصرف چاہتی ہو، تدبیر کے حرکت چاہتی ہو، تو وہ ان صلی الله علیہ وسلم میں نہیں ہے

خوب ایک کہتا ہے نبی سلام نہیں سنتے دوسرا کہتا ہے سنتے ہیں

اس کتاب ج ١٢ ص  ١٧٨ کے مطابق نجدی علماء مانتے ہیں

الشيخ عبد اللطيف بن الشيخ j12-front

ولم يرد حديث صحيح بأنه صلى الله عليه وسلم حي في قبره

الشيخ عبد اللطيف بن الشيخ٢

کسی صحیح حدیث میں نہیں آیا کہ آپ’ صلی الله علیہ وسلم قبر میں زندہ ہیں

لیکن شہید سے تقابل کرکے یہ استخراج کیا گیا

اس کا استخرآج شہداء کی زندگی سے کیا جاتا ہے کہ وہ زندہ ہیں اور انبیاء سے کم تر ہیں لہذا انبیاء قبروں میں  زندہ ہونے چاہییں

أصول الإيمان از المؤلف: محمد بن عبد الوهاب بن سليمان التميمي النجدي (المتوفى: 1206هـ) تحقيق: باسم فيصل الجوابرة لناشر: وزارة الشؤون الإسلامية والأوقاف والدعوة والإرشاد – المملكة العربية السعودية الطبعة: الخامسة، 1420هـ میں ہے

والذي نعتقده أن مرتبَة نبينا محمد صَلَّى اللَّه عليه وسَلَّم أعلى مراتب المخلوقين على الإطلاق، وأنه حي في قبره حياة برزخية أبلغ من حياة الشهداء المنصوص عليها في التنزيل، إذ هو أفضل منهم بلا ريب، وأنه يسمع سلام المسلم عليه

ہم یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتبہ مخلوق میں على الإطلاق سب سے اعلی ہے
اور وہ قبر میں زندہ ہیں حیات برزخی کے ساتھ جو حیات شہداء سے بلند ہے اس پر قرآن میں نصوص ہیں پس جب وہ افضل ہیں جس میں کوئی شک نہیں تو بلاشبہ وہ سلام سنتے ہیں جب کوئی سلام کہے

 کتاب  تأسيس التقديس في كشف تلبيس داود بن جرجيس میں نجدی عالم أبابطين کہتے ہیں

تأسيس التقديس في كشف تلبيس داود بن جرجيس front

تأسيس التقديس في كشف تلبيس داود بن جرجيس 118

قال ابن القيم: لم يرد حديث صحيح أنه صلى الله عليه وسلم حي في قبره

ابن قیم کہتے ہیں کسی صحیح حدیث میں نہیں کہ رسول الله قبر میں زندہ ہوں

یہ الفاظ ابن قیم کی کسی کتاب میں نہیں ملے اگرچہ ان کے استاد موسی علیہ السلام کے لئے لکھتے ہیں

وَأَمَّا كَوْنُهُ رَأَى مُوسَى قَائِمًا يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ وَرَآهُ فِي السَّمَاءِ أَيْضًا فَهَذَا لَا مُنَافَاةَ بَيْنَهُمَا فَإِنَّ أَمْرَ الْأَرْوَاحِ مِنْ جِنْس أَمْرِ الْمَلَائِكَةِ. فِي اللَّحْظَةِ الْوَاحِدَةِ تَصْعَدُ وَتَهْبِطُ كَالْمَلَكِ لَيْسَتْ فِي ذَلِكَ كَالْبَدَنِ

مجموع الفتاوی از ابن تیمیہ ج ٤ ص ٣٢٩ پر

اور جہاں تک اس کا تعلق ہے کہ رسول الله نے موسی کو قبر میں نماز پڑھتے دیکھا اور ان کو آسمان پر بھی دیکھا تو اس میں کوئی فرق نہیں کیونکہ روحیں فرشتوں کے امر کی جنس سے ہیں ایک لحظہ میں چڑھتی اترتی ہیں جیسا کہ فرشتہ اور بدن ایسا نہیں ہے

یعنی انبیاء جنت میں بھی ہیں اور دنیا کی قبروں میں بھی ان کی روحیں فرشتوں کی طرح آنا فانا اترتی چڑھتی ہیں اور ان کی روحیں بدن میں جاتی نکلتی ہیں

ابن تیمیہ زیارت قبر نبی کے لئے سفر کو بدعت کہتے تھے لیکن یہ مانتے تھے کہ قبر پر پڑھا جانے والا سلام نبی صلی الله علیہ وسلم سنتے ہیں لہذا وہ  کتاب  قاعدة عظيمة في الفرق بين عبادات أهل الإسلام والإيمان وعبادات أهل الشرك والنفاق میں کہتے تھے

qaida- alazemah -ibn temiah front

qaida- alazemah -ibn temiah 57

فمقصودُهُ صلى الله عليه وسلم بقوله: «مَا مِنْ رَجُلٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ إِلَّا رَدَّ اللَّهُ عَلَيَّ رُوحِي حَتَّى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ (4) » بيان حياتِه، وأنه  يَسمع السلام من القريب، ويبلَّغ السلامَ من البعيد، ليس مقصودُهُ أمر الأمة بأن يأتوا إلى القبر ليسلموا عليه عند قبره

پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا قول کوئی ایسا نہیں جو مجھ پر سلام کہے اور اس پر الله میری روح اس کو جواب دینے کے لئے لوٹا نہ دے ،  یہ کہنے کا مقصد ان کی زندگی تھا اور بے شک وہ قریب کہا جانے والا سلام سنتے ہیں اور دور والا ان کو پہنچایا جاتا ہے اس کو کہتے کا مقصد یہ نہ تھا کہ امت کو حکم دیں کہ وہ قبر پر آ کر ہی سلام کہے

اسی روایت کا کتاب قاعدة جليلة في التوسل والوسيلة میں ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں

وعلى هذا الحديث اعتمد الأئمة في السلام عليه عند قبره، صلوات الله وسلامه عليه.

اور اس حدیث پر ائمہ اسلام نے اعتماد کیا ہے کہ سلام قبر پر کہا جائے 

ابن تیمیہ کے مخالفین مثلا السبکی اپنی کتاب  شفاء السقام میں آیت پیش کرتے   ہیں

یا ایھا الذین امنو لا ترفعو اصواتکم فوق صوت النبی…….. الخ (پارہ26 ۔الحجرة

اے ایمان والوں اپنی آواز کو رسول اللہ کی آواز سے بلند نہ کرو 

السبکی کے مطابق وفات کے بعد بھی حکم قرآنی روضہ اطہر کے پاس قابل ادب و احترام ملحوظ رکھنے کا متقاضی ہے کیونکہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس میں زندہ ہیں

شفا السقام ١

۔  ابوبکر الصدیق سے روایت کیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم  کے سامنے بلند آواز کرنا جائز نہیں نہ زندگی میں نہ حالت میت میں  اور عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا جب کبھی ان گھروں میں جو مسجد نبوی سے متصل تھے ۔ کسی میخ لگنے یا کیل لگانے کی آواز سنتی تھیں تو یہ حکم بھیجتیں کہ  خبردار رسول الله کو تکلیف نہ دو اور  علی بن ابی طالب رضی الله عنہ  نے اسی سے بچنے کےلئے اپنے گھر کے کواڑ باہر جا کربنوائے تھے ایسا الحسینی نے روایت کیا اخبار مدینہ میں اور تمام دلیلیں ہیں کہ وہ رسول الله کو زندہ دیکھتے تھے

  کتاب  الدرة الثمينة في أخبار المدينة از  محب الدين أبو عبد الله محمد بن محمود بن الحسن المعروف بابن النجار (المتوفى: 643هـ) میں عائشہ  اور علی رضی الله عنہما کی روایت کی سند ہے

أنبأنا يحيى بن أسعد بن بوش، عن أبي علي الحداد، عن أبي نعيم الحافظ، عن جعفر الخلدي، أنبأنا أبو يزيد المخزومي، حدثنا الزبير بن بكار، حدثنا محمد بن الحسن قال: حدثني غير واحد، منهم عبد العزيز بن أبي حازم، ونوفل بن عمارة قالوا: إن عائشة رضي الله عنها كانت تسمع صوت الوتد والمسمار يضرب في بعض الدور المطنبة بمسجدالنبي صلى الله عليه وسلم، فترسل إليهم: أن لا تؤذوا رسول الله صلى الله عليه وسلم، وما عمل علي بن أبي طالب رضي الله عنه مصراعي داره إلا بالمناصع توقياً لذلك.

اس کی سند منقطع ہے ایک سے زائد نے روایت کیا کون ہیں پتا نہیں ہے لہذا السبکی کی دونوں روایات ضعیف ہیں

نبی صلی الله علیہ وسلم نے خدیجہ رضی الله عنہا کو خبر دی کہ ان کے لئے جنت میں گھر ہے جس میں شور نہ ہو گا

اب یہ کیسے ممکن ہے کہ امہات المومنین جو دنیا و آخرت میں رسول الله کی ازواج ہیں وہ جنت میں ہوں اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس دنیا میں جہاں پر وقت شور ہی شور ہے اور مومن کا قید خانہ ہے اس میں رسول الله ابھی تک ہوں

اصل میں یہ امت کا غلو ہے اور  غم کی  نفسیاتی کیفیت ہے کہ اپنے نبی کی وفات اس کو قبول نہیں ہو رہی ایسی کیفیت عمر رضی الله عنہ پر بھی چند گھنٹوں رہی لیکن زائل ہو گئی تھی

اب صورت حال یہ ہوئی

رسول الله صلی الله علیہ وسلم قبر میں مسلسل زندہ ہیں روح جسد سے الگ نہیں محدث  ابن حجراور السبکی

رسول الله صلی الله  علیہ وسلم کو قبر میں رزق دیا جاتا ہے محدث  السخاوی

رسول الله صلی الله  علیہ وسلم کی روح ہر وقت قبر میں نہیں  نجدی مفتی ابا بطین

 رسول الله  صلی اللہ علیہ وسلم  قبر میں سنتے بھی ہیں سعودی مفتی بن باز، محمد بن عبد الوهاب بن سليمان التميمي النجدي

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی روح جسد میں اتی ہے لیکن سنتے نہیں بولتے ہیں البانی

رسول الله صلی الله علیہ وسلم مسلسل زندہ ہیں قوت نطق دی جاتی ہے المناوی

رسول اللہ کی قبر میں زندگی پر کوئی صحیح حدیث نہیں  ابا بطین

رسول الله صلی الله علیہ وسلم (اور دیگر انبیاء ) کی روح قبر میں بدن میں آنا فانا اتی جاتی رہتی ہیں ابن تیمیہ

یعنی  ایک طرف تو کہا جا رہا ہے کہ رسول الله کی وفات ہوئی دوسری طرف ان میں عود روح بھی کرایا جا رہا ہے اس طرح متضاد روایات میں ایک نرالی تطبیق پیدا کی جاتی ہے جو  التَّنَاوُشُ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ   یا دور کی کوڑی کی شکل ہے

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ   فرماتے ہیں کہ  خرج رسول اللہ من الدنیا صحیح بخاری

    رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم  دنیا سے نکل  گئے 

واضح رہے کہ سلام کہنے پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی روح لوٹائے جانے والی روایت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے منسوب کی جاتی ہے جبکہ وہ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق ابو ہریرہ خود رسول الله کی روح دنیا سے نکل جانے کے قائل ہیں

ایک طرف تو علماء کہتے ہیں کہ رسول الله کی قبر میں زندگی برزخی ہے دوسری طرف ان کو قبر میں نماز بھی پڑھواتے ہیں

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی متعدد احادیث میں ہے کہ انبیاء جنتوں میں ہیں- شب معراج وہیں ملاقات ہوئی اور جنت میں موسی و آدم کے کلام کا ذکر بھی احادیث میں ہے خود زندہ نبی عیسیٰ علیہ السلام بھی جنت میں ہیں – مسلم کی اوپر والی جنت کا دروازہ کھولنے والی حدیث رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر روز محشر الله کا خاص انعام ہے جہاں تمام بنی نوع آدم کے سامنے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے- صلی الله علیہ وسلم

musalmano-ka-aqdiah

Demise of Prophet

39-30

Wafat-un-Nabi

بسم الله الرحمن الرحيم

Alas, some people in this Ummah  have transgressed and deceived by the great deceiver. They claim that the attribute of Al-Hayee (which is only deserved to Allah Almighty) can now be extended to Prophets as well. Unfortunately, they present Quranic verses in support of their claim. They put forth their argument that the Quran commands us that we should not call  a  Martyr, dead.  Therefore, as Prophets are superior is status than martyrs so they must also be living and should not be pronounced dead [*].

Against this the other group of scholars say that Allah Almighty is the only being which is Al-Hayee i.e. The ever Living. Allah informed us through his book that he created Adam from dust and created prophet bodies’ which would not last forever. Allah says:

[note color=”#BEF781″]

وَمَا جَعَلْنَاهُمْ جَسَدًا لَا يَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوا خَالِدِينَ

And We did not create them (the Messengers, with) bodies that ate not food, nor were they last  forever

[/note]

Allah All Mighty told Messenger peace be upon him that:

[note color=”#BEF781″]

ثُمَّ إِنَّكُمْ بَعْدَ ذَلِكَ لَمَيِّتُونَ (15) ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُبْعَثُونَ (16 

After that, surely, you will die.   Then (again), surely, you will be resurrected on the Day of Resurrection (23: 15-16)

[/note]

Also,

[note color=”#BEF781″]

إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ (30) ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُونَ (31 

Verily, you (O Muhammad ) will die and verily, they (too) will die.  Then, on the Day of Resurrection, you will be disputing before your Lord. (39:30-31)

 

[/note]

———–

Footnotes:

 [*] See طبقات الشافعية الكبرى, juz 3 , pg 264, by Taqiuddin Al-Subuki also

by Al-Samhodiخلاصة الوفا بأخبار دار المصطفىsee

It is reported in Bukhari  باب ما قيل في أولاد المشركين: juz 1/pg 465

 

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا موسى بن إسماعيل حدثنا جرير بن حازم حدثنا أبو رجاء عن سمرة بن جندب قال  : كان النبي صلى الله عليه و سلم إذا صلى صلاة اقبل علينا بوجهه فقال ( من رأى منكم الليلة رؤيا ) . قال فإن رأى أحد قصها فيقول ( ما شاء الله ) . فسألنا يوما فقال ( هل رأى أحد منكم رؤيا ) . قلنا لا قال ( لكني رأيت الليلة رجلين أتياني فأخذا بيدي فأخرجاني إلى الأرض المقدسة فإذا ردل جالس ورجل قائم بيده كلوب من حديد ) قال بعض أصحابنا عن موسى ( إنه يدخل ذلك الكوب في شدقه حتى يبلغ قفاه ثم يفعل بشدقه الآخر مثل ذلك ويلتئم شدقه هذا فيعود فيصنع مثله . قلت ما هذا ؟ قالا انطلق فانطلقنا حتى أتينا على رجل مضطجع على قفاه ورجل قائم على رأسه بفهر أو صخرة فيشدخ بها رأسه فإذا ضربه تدهده الحجر فانطلق إليه ليأخذه فلا يرجع إلى هذا حتى يلتئم رأسه وعاد رأسه كما هو فعاد إليه فضربه قلت من هذا ؟ قالا انطلق فانطلقنا إلى ثقب مثل التنور أعلاه ضيق وأسفله واسع يتوقد تحته نارا فإذا اقترب ارتفعوا حتى كادوا أن يخرجوا فإذا خمدت رجعوا فيها وفيها رجال ونساء عراة فقلت من هذا ؟ قالا انطلق فانطلقنا حتى أتينا على نهر من دم فيه رجل قائم وعلى وسط النهر – قال يزيد ووهب ابن جرير عن جرير بن حازم – وعلى شط النهر رجل بين يديه حجارة فأقبل الرجل الذي في النهر فإذا أراد أن يخرج رمى الرجل بحجر في فيه فرده حيث كان فجعل كلما جاء ليخرج رمى في فيه بحجر فيرجع كما كان فقلت من هذا ؟ قالا انطلق فانطلقنا حتى انتهيا إلى روضة خضراء فيها شجرة عظيمة وفي أصلها شيخ وصبيان وإذا رجل قريب من الشجرة بين يديه نار يوقدها فصعدا بي في الشجرة وأدخلاني دارا لم أر قط أحسن منها فيها رجال شيوخ وشباب ونساء وصبيان ثم أخرجاني منها فصعدا بي الشجرة فأدخلاني دارا هي أحسن وأفضل فيها شيوخ وشباب قلت طوفتماني الليلة فأخبراني عما رأيت . قالا نعم أما الذي رايته يشق شدقه فكذاب يحدث بالكذبة فتحمل عنه حتى تبلغ الآفاق فيصنع به إلى يوم القيامة والذي رأيته يشدخ رأسه فرجل علمه الله القرآن فنام عنه بالليل ولم يعمل فيه بالنهار يفعل به إلى يوم القيامة والذي رأيته في الثقب فهم الزناة والذي رأيته في النهر آكلوا الربا والشيخ في أصل الشجرة إبراهيم عليه السلام والصبيان حوله فأولاد الناس والذي يوقد النار مالك خازن النار والدار الأولى التي دخلت دار عامة المؤمنين وأما هذه الدار فدار الشهداء وأنا جبريل وهذا مكيائيل فارفع رأسك فرفعت رأسي فإذا فوقي مثل السحاب قالا ذاك منزلك قلت دعاني أدخل منزلي قالا إنه بقي لك عمر لم تستكمله فلو استكملت أتيت منزلك )

 

Narrated Samura bin Jundab: Whenever the Prophet finished the (morning) prayer, he would face us and ask, “Who amongst you had a dream last night?” So if anyone had seen a dream he would narrate it. The Prophet would say: “Ma sha’a-llah” (An Arabic maxim meaning literally, ‘What Allah wished,’ and it indicates a good omen.) One day, he asked us whether anyone of us had seen a dream. We replied in the negative. The Prophet said, “But I had seen (a dream) last night that two men came to me, caught hold of my hands, and took me to the Sacred Land [*]. There, I saw a person sitting and another standing with an iron hook in his hand pushing it inside the mouth of the former till it reached the jaw-bone, and then tore off one side of his cheek, and then did the same with the other side; in the mean-time the first side of his cheek became normal again and then he repeated the same operation again. I said, ‘What is this?’ They told me to proceed on and we went on till we came to a man Lying flat on his back, and another man standing at his head carrying a stone or a piece of rock, and crushing the head of the Lying man, with that stone. Whenever he struck him, the stone rolled away. The man went to pick it up and by the time he returned to him, the crushed head had returned to its normal state and the man came back and struck him again (and so on). I said, ‘Who is this?’ They told me to proceed on; so we proceeded on and passed by a hole like an oven; with a narrow top and wide bottom, and the fire was kindling underneath that hole. Whenever the fire-flame went up, the people were lifted up to such an extent that they about to get out of it, and whenever the fire got quieter, the people went down into it, and there were naked men and women in it. I said, ‘Who is this?’ They told me to proceed on. So we proceeded on till we reached a river of blood and a man was in it, and another man was standing at its bank with stones in front of him, facing the man standing in the river. Whenever the man in the river wanted to come out, the other one threw a stone in his mouth and caused him to retreat to his original position; and so whenever he wanted to come out the other would throw a stone in his mouth, and he would retreat to his original position. I asked, ‘What is this?’ They told me to proceed on and we did so till we reached a well-flourished green garden having a huge tree and near its root was sitting an old man with some children. (I saw) Another man near the tree with fire in front of him and he was kindling it up. Then they (i.e. my two companions) made me climb up the tree and made me enter a house, better than which I have ever seen. In it were some old men and young men, women and children. Then they took me out of this house and made me climb up the tree and made me enter another house that was better and superior (to the first) containing old and young people. I said to them (i.e. my two companions), ‘You have made me ramble all the night. Tell me all about that I have seen.’ They said, ‘Yes. As for the one whose cheek you saw being torn away, he was a liar and he used to tell lies, and the people would report those lies on his authority till they spread all over the world. So, he will be punished like that till the Day of Resurrection. The one whose head you saw being crushed is the one whom Allah had given the knowledge of Quran (i.e. knowing it by heart) but he used to sleep at night (i.e. he did not recite it then) and did not use to act upon it (i.e. upon its orders etc.) by day; and so this punishment will go on till the Day of Resurrection. And those you saw in the hole (like oven) were adulterers (those men and women who commit illegal sexual intercourse). And those you saw in the river of blood were those dealing in Riba (usury). And the old man who was sitting at the base of the tree was Abraham and the little children around him were the offspring of the people. And the one who was kindling the fire was Malik, the gate-keeper of the Hell-fire. And the first house in which you have gone was the house of the common believers, and the second house was of the martyrs. I am Gabriel and this is Michael. Raise your head.’ I raised my head and saw a thing like a cloud over me. They said, ‘That is your place.’ I said, ‘Let me enter my place.’ They said, ‘You still have some life which you have not yet completed, and when you complete (that remaining portion of your life) you will then enter your place.’ “

[/note]

The last words of hadith clearly indicate that the Prophet is now in a dwelling in heaven. Muslim has also informed about the name of this place.

Muslim reported in chapter :

( باب استحباب القول مثل قول المؤذن لمن سمعه ثم يصلي على النبي صلى الله عليه و سلم ثم يسأل الله له الوسيلة)

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا محمد بن سلمة المرادي حدثنا عبدالله بن وهب عن حيوة وسعيد بن أبي أيوب وغيرهما عن كعب بن علقمة عن عبدالرحمن بن جبير عن عبدالله بن عمرو بن العاص أنه سمع النبي صلى الله عليه و سلم يقول  : إذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما يقول ثم صلوا علي فإنه من صلى علي صلاة صلى الله عليه بها عشرا ثم سلوا الله لي الوسيلة فإنها منزلة في الجنة لا تنبغي إلا لعبد من عباد الله وأرجو أن أكون أنا هو فمن سأل لي الوسيلة حلت له الشفاعة

Abdullah bin Amr bin al-Aa’s said that he heard the Prophet (PBUH) saying: If you hear the Muezzin, say like what he says and then pray for blessings on me, because whoever prays for blessings of Allah on me, Allah would send ten (blessings) on him,  and then ask Allah Al-Wasilah, the (lofty) place in Paradise  which no one deserves except one slave of Allah and I hope that I am that person, so whoever asked Al-Wasilah for me I would do Intercession for him

[/note]
—————-
Footnotes:
[*]The words  الأرض المقدسةdoes not mean Jerusalem. Term Bayt Al-Maqdas is used for jerusalem. Here the words are different.

Prophet has informed his companions about his demise in a khutbah and told his Ummah that he has opted for the nearness of Allah instead of this material World.  It is reported in Bukhari  chapter  (باب هِجْرَةُ النَّبِىِّ – صلى الله عليه وسلم – وَأَصْحَابِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ) that:

 

[note color=”#CEECF5″]

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِى مَالِكٌ عَنْ أَبِى النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ عُبَيْدٍ – يَعْنِى ابْنَ حُنَيْنٍ – عَنْ أَبِى سَعِيدٍ الْخُدْرِىِّ رضى الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ – صلى الله عليه وسلم – جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ « إِنَّ عَبْدًا خَيَّرَهُ اللَّهُ بَيْنَ أَنْ يُؤْتِيَهُ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا مَا شَاءَ ، وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ ، فَاخْتَارَ مَا عِنْدَهُ » . فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ وَقَالَ فَدَيْنَاكَ بِآبَائِنَا وَأُمَّهَاتِنَا . فَعَجِبْنَا لَهُ ، وَقَالَ النَّاسُ انْظُرُوا إِلَى هَذَا الشَّيْخِ ، يُخْبِرُ رَسُولُ اللَّهِ – صلى الله عليه وسلم – عَنْ عَبْدٍ خَيَّرَهُ اللَّهُ بَيْنَ أَنْ يُؤْتِيَهُ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ وَهْوَ يَقُولُ فَدَيْنَاكَ بِآبَائِنَا وَأُمَّهَاتِنَا . فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ – صلى الله عليه وسلم – هُوَ الْمُخَيَّرَ ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ هُوَ أَعْلَمَنَا بِهِ . وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صلى الله عليه وسلم – « إِنَّ مِنْ أَمَنِّ النَّاسِ عَلَىَّ فِى صُحْبَتِهِ وَمَالِهِ أَبَا بَكْرٍ ، وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلاً مِنْ أُمَّتِى لاَتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ ، إِلاَّ خُلَّةَ الإِسْلاَمِ ، لاَ يَبْقَيَنَّ فِى الْمَسْجِدِ خَوْخَةٌ إِلاَّ خَوْخَةُ أَبِى بَكْرٍ »

Narrated Abu Said Al-Khudri: Allah’s Apostle sat on the pulpit and said, “Allah has given one of His Slaves the choice of receiving the splendour and luxury of the worldly life whatever he likes or to accept the good (of the Hereafter) which is with Allah. So he has chosen that good which is with Allah.” On that Abu Bakr wept and said, “Our fathers and mothers be sacrificed for you.” We became astonished at this. The people said, “Look at this old man! Allah’s Apostle talks about a Slave of Allah to whom He has given the option to choose either the splendour of this worldly life or the good which is with Him, while he says. ‘our fathers and mothers be sacrifice(i for you.” But it was Allah’s Apostle who had been given option, and Abu Bakr knew it better than we. Allah’s Apostle added, “No doubt, I am indebted to Abu Bakr more than to anybody else regarding both his companionship and his wealth. And if I had to take a Khalil from my followers, I would certainly have taken Abu Bakr, but the fraternity of Islam is. sufficient. Let no door  of the Mosque remain open, except the door of Abu Bakr.”

 [/note]

Bukhari informed us that an issue had occurred on the day when Messenger of Allah, peace be upon him died.  Bukhari  has reported several narrations on this topic which indicate the belief of companions of Messenger of Allah on this issue. Also reported in Bukhari (Volume 5, Book 57, Number 19:) that:

[note color=”#CEECF5″]

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ – رضى الله عنها – زَوْجِ النَّبِىِّ – صلى الله عليه وسلم – أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ – صلى الله عليه وسلم – مَاتَ وَأَبُو بَكْرٍ بِالسُّنْحِ – قَالَ إِسْمَاعِيلُ يَعْنِى بِالْعَالِيَةِ – فَقَامَ عُمَرُ يَقُولُ وَاللَّهِ مَا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ – صلى الله عليه وسلم – . قَالَتْ وَقَالَ عُمَرُ وَاللَّهِ مَا كَانَ يَقَعُ فِى نَفْسِى إِلاَّ ذَاكَ وَلَيَبْعَثَنَّهُ اللَّهُ فَلَيَقْطَعَنَّ أَيْدِىَ رِجَالٍ وَأَرْجُلَهُمْ . فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ فَكَشَفَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ – صلى الله عليه وسلم – فَقَبَّلَهُ قَالَ بِأَبِى أَنْتَ وَأُمِّى طِبْتَ حَيًّا وَمَيِّتًا ، وَالَّذِى نَفْسِى بِيَدِهِ لاَ يُذِيقُكَ اللَّهُ الْمَوْتَتَيْنِ أَبَدًا . ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ أَيُّهَا الْحَالِفُ عَلَى رِسْلِكَ . فَلَمَّا تَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ جَلَسَ عُمَرُفَحَمِدَ اللَّهَ أَبُو بَكْرٍ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَقَالَ أَلاَ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا – صلى الله عليه وسلم – فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ ، وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَىٌّ لاَ يَمُوتُ . وَقَالَ ( إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ ) وَقَالَ ( وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِى اللَّهُ الشَّاكِرِينَ

Narrated ‘Aisha: (the wife of the Prophet) Allah’s Apostle died while Abu Bakr was at a place called As-Sunah (Al-‘Aliya) ‘Umar stood up and said, “By Allah! Allah’s Apostle is not dead!” ‘Umar (later on) said, “By Allah! Nothing occurred to my mind except that.” He said, “Verily! Allah will resurrect him and he will cut the hands and legs of some men.” Then Abu Bakr came and uncovered the face of Allah’s Apostle, kissed him and said, “Let my mother and father be sacrificed for you, (O Allah’s Apostle), you are good in life and in death. By Allah in Whose Hands my life is, Allah will never make you taste death twice.” Then he went out and said, “O oath-taker! Don’t be hasty.” When Abu Bakr spoke, ‘Umar sat down. Abu Bakr praised and glorified Allah and said,

No doubt! Whoever worshipped Muhammad, then Muhammad is dead, but whoever worshipped Allah, then Allah is Alive and shall never die.”

Then he recited Allah’s Statement.:– “(O Muhammad) Verily you will die, and they also will die.” (39.30) He also recited:–

“Muhammad is no more than an Apostle; and indeed many Apostles have passed away, before him, If he dies Or is killed, will you then Turn back on your heels? And he who turns back On his heels, not the least Harm will he do to Allah And Allah will give reward to those Who are grateful.” (3.144)

[/note]

The words of Abu Bakr will resound till hereafter and his verdict on this issue is: Prophet has died. This is the first consensus after the death of Prophet. Unfortunately the very consensus is now declared controversial.

The close relative to Prophet was his daughter Fatimah, may Allah be pleased with her.

 

[note color=”#CEECF5″]

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ لَمَّا ثَقُلَ النَّبِىُّ – صلى الله عليه وسلم – جَعَلَ يَتَغَشَّاهُ ، فَقَالَتْ فَاطِمَةُ – عَلَيْهَا السَّلاَمُ – وَاكَرْبَ أَبَاهُ . فَقَالَ لَهَا « لَيْسَ عَلَى أَبِيكِ كَرْبٌ بَعْدَ الْيَوْمِ » . فَلَمَّا مَاتَ قَالَتْ يَا أَبَتَاهْ أَجَابَ رَبًّا دَعَاهُ ، يَا أَبَتَاهْ مَنْ جَنَّةُ الْفِرْدَوْسِ مَأْوَاهُ ، يَا أَبَتَاهْ إِلَى جِبْرِيلَ نَنْعَاهْ . فَلَمَّا دُفِنَ قَالَتْ فَاطِمَةُ – عَلَيْهَا السَّلاَمُ – يَا أَنَسُ ، أَطَابَتْ أَنْفُسُكُمْ أَنْ تَحْثُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ – صلى الله عليه وسلم

 

Narrated Anas: When Prophet was leaving (this World) he got unconscious – Fatmiah (saw that and ) said Father is suffering. He said to her Your father won’t suffer after this day.  When Prophet  died, she said: O’ my father,  Your  Lord  has replied to your call , O my  father you made Paradise your shelter, O  father we announce your  death to Gabriel. When Prophet was buried she – peace be on her- said   O Anas how you urged yourselves to hid or bury the Messenger of Allah peace be upon him.

[/note]

Fatimah may Allah pleased with her has expressed her belief after the death of Prophet that he has gone to Paradise.

Bukhari reported that ( Volume 4, Book 56, Number 820)

[note color=”#CEECF5″]

Narrated ‘Aisha: The Prophet in his fatal illness, called his daughter Fatima and told her a secret because of which she started weeping. Then he called her and told her another secret, and she started laughing. When I asked her about that, she replied, The Prophet told me that he would die in his fatal illness, and so I wept, but then he secretly told me that from amongst his family, I would be the first to join him, and so I laughed.”

[/note]

It is reported that Fatimah  may Allah be pleased with her died after six months. As Prophet peace be upon him told her she would be the first person in his family to meet her. Obviously she met her in Paradise.

Bukhari ( juz 21  pg 402, chapter باب  مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ) reported that:

 

[note color=”#CEECF5″]

حَدَّثَنِى يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ أَخْبَرَنِى سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ وَعُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ فِى رِجَالٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِىِّ – صلى الله عليه وسلم – قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ – صلى الله عليه وسلم – يَقُولُ وَهْوَ صَحِيحٌ « إِنَّهُ لَمْ يُقْبَضْ نَبِىٌّ قَطُّ حَتَّى يَرَى مَقْعَدَهُ مِنَ الْجَنَّةِ ثُمَّ يُخَيَّرُ » . فَلَمَّا نَزَلَ بِهِ ، وَرَأْسُهُ عَلَى فَخِذِى ، غُشِىَ عَلَيْهِ سَاعَةً ، ثُمَّ أَفَاقَ ، فَأَشْخَصَ بَصَرَهُ إِلَى السَّقْفِ ثُمَّ قَالَ « اللَّهُمَّ الرَّفِيقَ الأَعْلَى » . قُلْتُ إِذًا لاَ يَخْتَارُنَا ، وَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَدِيثُ الَّذِى كَانَ يُحَدِّثُنَا بِهِ – قَالَتْ – فَكَانَتْ تِلْكَ آخِرَ كَلِمَةٍ تَكَلَّمَ بِهَا النَّبِىُّ – صلى الله عليه وسلم – قَوْلُهُ « اللَّهُمَّ الرَّفِيقَ الأَعْلَى »

 

Bukhari reported that

Narrated ‘Aisha: When Allah’s Apostle was healthy, he used to say, “No prophet dies till he is shown his place in Paradise, and then he is given the option (to live or die).” So when death approached him(during his illness), and while his head was on my thigh, he became unconscious for a while, and when he recovered, he fixed his eyes on the ceiling and said, “O Allah! (Let me join) the Highest Companions (see Qur’an 4:69),” I said, “So, he does not choose us.” Then I realized that it was the application of the statement he used to relate to us when he was healthy. So that was his last utterance (before he died), i.e. “O Allah! (Let me join) the Highest Companions.”

[/note]

The words of Aisha Mother of Believers  (إِذًا لاَ يَخْتَارُنَا)  are enough to indicate that the Prophet has died and opted to go to Heavens instead of this World.

It is reported in Sahih Muslim  chapter باب بيان أن أرواح الشهداء في الجنة وأنهم أحياء عند ربهم يرزقونjuz 3, pg 1502

 

[note color=”#CEECF5″]

  حدثنا يحيى بن يحيى وأبو بكر بن أبي شيبة كلاهما عن أبي معاوية ح وحدثنا إسحاق بن إبراهيم أخبرنا جرير وعيسى بن يونس جميعا عن الأعمش ح وحدثنا محمد بن عبدالله بن نمير ( واللفظ له ) حدثنا أسباط وأبو معاوية قالا حدثنا الأعمش عن عبدالله بن مرة عن مسروق قال سألنا عبدالله ( هو ابن مسعود ) عن هذه الآية { ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا بل أحياء عند ربهم يرزقون } [ 3 / آل عمران / 169 ] قال أما إنا سألنا عن ذلك فقال ( أرواحهم في جوف طير خضر لها قناديل معلقة بالعرش تسرح من الجنة حيث شاءت ثم تأوي إلى تلك القناديل فاطلع إليهم ربهم اطلاعة فقال هل تشتهون شيئا ؟ قالوا أي شيء نشتهي ؟ ونحن نسرح من الجنة حيث شئنا ففعل ذلك بهم ثلاث مرات فلما رأوا أنهم لن يتركوا من أن يسألوا قالوا يا رب نريد أن ترد أرواحنا في أجسادنا حتى نقتل في سبيلك مرة أخرى فلما رأى أن ليس لهم حاجة تركوا )

Masrooq said: We asked Abdullah (ibn Masood) about the verse Think not of those who are killed in the Way of Allah as dead. Nay, they are alive, with their Lord, and they have provision. He said  Indeed we asked Prophet about this he said: Souls are in Green bird, they have chandeliers hanging to the Holy Throne.  They go where they wants in Paradise and then return  to the chandeliers, …. Their Lord asked them and  said: Do ye desire anything? They replied (O Lord) anything we need! we go out in paradise wherever we want. Their Lord asked them same  three times.  When they  saw that Lord  would not leave asking them,  they said, Lord, we want that our souls be returned  in our bodies until we kill for the Way again. When he saw that they need nothing. He stopped asking them.

[/note]

It is reported in Bukhari باب مناقب جعفر بن أبي طالب الهاشمي رضي الله عنه juz 3, pg 1360

[note color=”#CEECF5″]

حدثني عمرو بن علي حدثنا يزيد بن هارون أخبرنا إسماعيل ابن أبي خالد عن الشعبي  : أن ابن عمر رضي الله عنهما كان إذا سلم على ابن جعفر قال السلام عليك يا ابن ذي الجناحين

 

Narrated Ash-Sha’bi: Whenever Ibn ‘Umar greeted Ibn Jafar, he used to say: “As-salamu-‘Alaika (i.e. Peace be on you) O son of Dhul-Janahain (son of the two-winged person).”

[/note]

From these narrations it quite clear that Matyrs are alive but in Heavens where they are free to fly and enjoy. The asked their Lord to allow them to return to earth, but that request will never heard.

The belief that Martyrs are alive in their very graves was a Christian belief. One Christian scholar Robert G. Hoyland writes in this book Seeing Islam as other saw it as:

One of the most significant development in late antique Christianity was the breaking down of barrier between heaven and earth, between the divine and corporeal. And the best evidence for this conjunction was to be found at the spot where rested the body of a martyr. As the inscription stated on the grave of Saint Martin at Tours: “He is fully here, present and made plain in miracles of every kind”.  The belief in the intercessionary power of a saint’s relic gave rise to an architecture of the dead, for Christians “filled the whole earth with tombs and sepulchres,”  and also to a literature of dead, as stories circulating  about posthumous wonders worked at the shrine ot its holy occupant were gathered and set down. 

It is reported in Musnad Ahmed, juz  4, pg 8, Sunan Abi Dawood juz 3, pg 404, Sunnan Nisai juz 1, pg 101,  sunnan Ibn- Maja juz 3, pg 447 that:

 

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا حسين بن على الجعفي عن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر عن أبي الأشعث الصنعاني عن أوس بن أبي أوس قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من أفضل أيامكم يوم الجمعة فيه خلق آدم وفيه قبض وفيه النفخة وفيه الصعقة فاكثروا على من الصلاة فيه فان صلاتكم معروضة على فقالوا يا رسول الله وكيف تعرض عليك صلاتنا وقد أرمت يعنى وقد بليت قال إن الله عز و جل حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء صلوات الله عليهم

Narrated Aus bin Abi Aus that Messenger of Allah peace be upon him said  Best of your days is Friday, on this day Adam is created and on this (day) he died and on this (day) there will  be Blowing (for day of Judgement)  and on this (day) their will be Shocks (due to day of Judgement)    so increase your prays of blessing on me on this day, as it is presented on me. We said O Messenger of Allah but how it will be presented on you when you would become dust  means you disintegrate, said: Indeed Allah has forbidden Earth to eat the bodies of prophets peace be upon them.

[/note]

The sanad (chain of narrators) is.

حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا حسين بن على الجعفي عن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر

 

The two important narrators are Hussain bin Ali Al-Jofi and Abdur Rehman bin Yazeed bin Tammem.

Imam Bukhari has tracked this narration and state that this narration is not authentic. He said is in his work Tahreekh al-Saghir, juz 2 , pg 109

قال الوليد كان لعبد الرحمن كتاب سمعه وكتاب آخر لم يسمعه وأما أهل الكوفة فرووا عن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر وهو بن يزيد بن تميم ليس بابن جابر وابن تميم منكر الحديث

 Al-Waleed said that Adbur-Rehaman had a book which he heard and a book which which he had not heard and people of Kufa have narrated from Abdur-Rehamn bin Yazeed bin Jabir but he is (actually Abur Rehaman)  bin Yazeed bin Tameem and not the Ibn-Jabir and (Abdur Rehman bin Yazeed ) Ibn Tameem is Munkar-ul-hadith.

Imam Bukhari also said is in his work Tahreekh al-Kabeer juz 5 pg 365

قال الوليد: كان عند عبد الرحمن كتاب سمعه  وكتاب آخر لم يسمعه

Al-Waleed said: Abdur Rehaman (bin Yazeed bin Tammem) had a book which he heard and another book which he had not heard

Imam Darqutini said in his book Al-Illal juz 10  pg 220

ورواه أبو أسامة  فقال: عن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر  ووهم في نسبه، وإنما هو عبد الرحمن بن يزيد بن تميم

and narrated Abu Usama and he said: from Abdur Rehamn bin Yazeed bin Jabir and it is an illusion in lineage, and in fact he is Abdur Rehman bin Yazeed bin Tameem.

Imam Abi Dawood said in Sawalat Al-Ajari juz 1 pg 242

سئل أبو داود عن عبد الرحمن بن يزيد بن تميم فقال : هو السلمي متروك الحديث ، حدث عنه أبو أسامة وغلط في اسمه فقال : ” انا عبد الرحمن بن يزيد بن جابر السلمي ” ، وكلما جاء عن أبي أسامة ” حدثنا عبد الرحمن بن يزيد ” فهو ابن تميم.

(Al-Ajari said )I  asked Abu Dawood about Abdur Rehman bin Yazeed bin Tammem and he said he is Al-sulami Matrook ul-hadith, narrated from him Abu Usama and committed a mistake in name and (Abu Usama had) said narrated Abdur Rehman bin Yazeed bin jabir Al-Sulami, and where ever comes from Abi Usama narrated from Abdur Rehamn bin Yazeed, that is Ibn-Tammem.

Imam Ibn-Abi Hatim said in his work Illal al-hadith juz 1, pg 19

وأمّا حُسينٌ الجُعفِيُّ : فإِنّهُ روى عن عَبدِ الرّحمنِ بنِ يزِيد بنِ جابِرٍ ، عن أبِي الأشعثِ ، عن أوسِ بنِ أوسٍ ، عنِ النّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فِي يومِ الجُمُعةِ ، أنّهُ قال : أفضلُ الأيّامِ : يومُ الجُمُعةِ ، فِيهِ الصّعقةُ ، وفِيهِ النّفخةُ وفِيهِ كذا وهُو حدِيثٌ مُنكرٌ ، لا أعلمُ أحدًا رواهُ غير حُسينٍ الجُعفِيِّ وأمّا عبدُ الرّحمنِ بنُ يزِيد بنِ تمِيمٍ فهُو ضعِيفُ الحدِيثِ ، وعبدُ الرّحمن بنُ يزِيد بنِ جابِرٍ ثِقةٌ.

And Hussain Al-Jofai: he narrated from Abdur Rehman bin Yazeed bin Jabir, from Abi Al-Ashath from Aus bin Aus from Messanger of Allah peace be upon him about the Friday and   repoted that  best of days is Friday, in it will be Shocks and Blowing and that and that is hadith Munkar, I know no one report it except Hussain Al-Jofai and as far as Abdur Rehman bin Yazeed bin Tameem is concerned, he is Daif-ul-hadith whereas Abdur Rehman bin Yazeed bin Jabir is trustworthy narrator.

The conclusion is that the narrator Hussain bin Ali al-Jofai has intentionally changed the name of narrator to Abdur Rehman bin Yazeed bin Jair. This slight twist in the name of narrator is done to misguide people. In fact the narrator is different and both Hussain al-Jofai and Ibn-Tameem are weak narrators. Imam Ibn Abi Hatim had even called it Munkar narration i.e. one which is against Sahih ahadith.

A narration is reported in Musnad Bazzaz, Al.Fuwaid Tamam Ar-Razi, Hayat Anbiya , Tarikh Damishque etc.

In Fawaid Tamam (فوائد تمام) by ar-Razi  it is reported with sanad

[note color=”#CEECF5″]

عن حجاج بن الأسود ، عن ثابت ، عن أنس ، قال : قال النبي صلى الله عليه وسلم : « الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون » ..

from Hajjaj bin Al-Aswad from thabit from Annas said, Prophet peace be upon him said: Prophets are alive in their graves, they pray

[/note]

In Hayat-ul-Anbiya fi Quborihim (حياة الأنبياء في قبورهم للبيهقي) it is reported with sanad

ثنا المستلم بن سعيد ، عن الحجاج ، عن ثابت ، عن أنس بن مالك ، رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : « الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون »

..told us Al-Mustalim bin Saeed  from Hajjaj  from thabit from Annas said, Prophet peace be upon him said prophets are alive in their graves, they pray

 Ibn-Hajar said in Fath-u-Bari (juz 10, pg 243) that:

 

وَأَخْرَجَهُ الْبَزَّار لَكِنْ وَقَعَ عِنْده عَنْ حَجَّاج الصَّوَّاف وَهُوَ وَهْم وَالصَّوَاب الْحَجَّاج الْأَسْوَد كَمَا وَقَعَ التَّصْرِيح بِهِ فِي رِوَايَة الْبَيْهَقِيِّ وَصَحَّحَهُ الْبَيْهَقِيُّ

And Al-Bazzaz had reported it but there (in sanad) occurred (an error that) from Hajjaj As-Sawwaf and that is illusion and correct is Hujjaj Al-Aswad as occurred in narration reported by Al-Baihaqui and Al-Baihaqui has endorsed it.

Al- Dahabi said in Meezan al-Atedal (juz 1, pg 460) also Ibn-Hajar repeated it in  Lisan-ul-Meezan (juz 1, pg 276)

حجاج بن الأسود: عن ثابت البناني نكرة. ما روى عنه فيما أعلم سوى مستلم بن سعيد فأتى بخبر منكر عنه عن أنس: في ” إن الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون ” رواه البيهقي.

Hujjaj bin Al.Aswad: from Thabit Al-Bunani unknown. No one has reported from him which I know except Mustalim bin Saeed and reported a Munkar narration from Annas that Indeed Prophets are alive in their graves, they pray, reported by Al- Baihaqui

There is a lot of confusion on which Hujjaj is he? Conclusion is following:

Compiler                                      Which Hajjaj

Al-Bazzaz (292 A.H.)                   Hajjaj As-Sawwaf

Al-Baihaqui (458 A.H.)                Hajjaj bin Al-Aswad

Ibn-Hajar (852 A.H.)                    Hajjaj Al-Aswad

Al-Dahabi  (748 A.H.)                  Hajjaj bin  Al-Aswad

Therefore, most likely narrator name is  Hujjaj bin Al-Aswad and he is unknown. Apparently they are unknown narrators i.e. scholars of hadith have no data on these narrators.

In Hayat-ul-Anbiya fi Quborihim by Al-Baihaqui  (حياة الأنبياء في قبورهم للبيهقي) it is reported with another sanad as well.

[note color=”#CEECF5″]

أخبرناه أبو عثمان الإمام ، رحمه الله أنبأ زاهر بن أحمد ، ثنا أبو جعفر محمد بن معاذ الماليني ، ثنا الحسين بن الحسن ، ثنا مؤمل ، ثنا عبيد الله بن أبي حميد الهذلي ، عن أبي المليح ، عن أنس بن مالك، قال : « الأنبياء في قبورهم أحياء يصلون

[/note]

For one of the narrator (عبيد الله بن أبي حميد الهذلي) scholar say:

Al-Uqali said in his book, Duafa Al-Uqaili, juz 3, pg 118

عبيد الله بن أبي حميد الهذلي أبو الخطاب عن أبي المليح قال يحيى هو كوفي ضعيف الحديث

Abu Nuaim Al-Isbahani said  in Kitab al-Dofa juz 1 pg 103

عبيد الله بن أبي حميد الهذلي يحدث عنه مكي بن إبراهيم يروي عن أبي المليح وعطاء بالمناكير لا شئ

Ubaid ullah bin Abi Hameed Al-Huzli … reported from Abi Al-Malih and Atta with Munkir narration, he is nothing

وقال البخاري: منكر الحديث وقال: يروى عن أبى المليح عجائب وقال النسائي: متروك

Bukhari said: Munkar-ul-Hadith and said narrates from Abi-Al-Malih strange reports, and

Nisai said: Matrook.

Hence this narration has no basis then how could we establish our faith on it? How could Prophet peace be upon him  teach his Ummah such doctrine while he himself said the following

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا مسدد قال حدثنا يحيى عن عبيد الله قال أخبرني نافع عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه و سلم قال  :  اجعلوا في بيوتكم من صلاتكم ولا تتخذوها قبورا 

Narrated Ibn ‘Umar: The Prophet had said, “Offer some of your prayers (Nawafil) at home, and do not take your houses as graves.”

[/note]

The Prophet informed his Ummah that there are no prayers in grave.

Muslim reported in chapter باب من فضائل موسى صلى الله عليه و سلم:

 

حدثنا هداب بن خالد وشيبان بن فروخ قالا حدثنا حماد بن سلمة عن ثابت البناني وسليمان التيمي عن أنس بن مالك : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال أتيت – وفي رواية هداب مررت – على موسى ليلة أسري بي عند الكثيب الأحمر وهو قائم يصلي في قبره

Narrated Aans that Messenger of Allah peace be upon him arrived at – and in narration of Haddam passed by- the grave of Moses near a red dune, on night of journey, and he    was standing and praying in his grave 

:Allah informed us in Quran in surah Al-Isra that

[note color=”#BEF781″]

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ

لِنُرِيَهُ مِنْ آَيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ 

Glorified (and Exalted) be He (Allah Who took His slave (Muhammad ) for a journey by night from Al-Masjid-al-Haram (at Makkah) to the farthest mosque (in Jerusalem), the neighbourhood whereof We have blessed, in order that We might show him (Muhammad ) of Our Ayat (proofs, evidences, lessons, signs, etc.). Verily, He is the All-Hearer, the All-Seer.

[/note]

The purpose of this night journey was to show to Prophet different Signs. During this journey Messenger of Allah peace be upon him  went to Heavens and moved from one Heaven to another until he reached Sidra-tul-Muntah (Lote Tree at utmost boundary). Allah says in Quran  (53: 13-16)

[note color=”#BEF781″]

And indeed he (Muhammad ) saw him [Jibrael (Gabriel)] at a second descent (i.e. another time).  Near Sidrat-ul-Muntaha [lote-tree of the utmost boundary (beyond which none can pass)],  Near it is the Paradise of Abode. When that covered the lote-tree which did cover it!

[/note]

Hence that was an incident of one special night. Messenger of Allah met Adam,  Jesus, John, Moses, Aaron, Joseph at different Heavens.  He even had a conversation with Moses on the number of prayers and on his advice asked Allah Almighty to ordain for a Muslim five daily prayers instead of forty.

In hadith of Muslim it is informed that Messenger of Allah peace be upon him saw Moses standing and praying in his grave. Actually that was one special event in which Messenger of Allah peace be upon him witnessed other Prophets. Muslim also reported that Messenger of Allah peace be upon him led other Prophets in pray in Jerusalem.

It is therefore an unusual event and cannot be taken as a norm. Otherwise we must also believe in the descending of Prophets from Heavens on every night and their praying in Jerusalem. Further as quoted in previous section Prophet informed his Ummah that there are no prayers in graves then how could he said a conflicting statement. Naturally the Moses act was not a norm.

It is reported in Musnad Ahmed juz 56 pg 17 that:

 

[note color=”#CEECF5″]

حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا حماد بن أسامة قال أنا هشام عن أبيه عن عائشة قالت : كنت أدخل بيتي الذي دفن فيه رسول الله صلى الله عليه و سلم وأبي فاضع ثوبي فأقول إنما هو زوجي وأبي فلما دفن عمر معهم فوالله ما دخلت إلا وأنا مشدودة على ثيابي حياء من عمر

Aisah said: I used to enter my house, in which Messenger of Allah peace be upon him and my father are  buried,  I put the dress (on only) and I say that they are my husband and father (but now) By Allah I do not enter (in my house) but I stick to my clothes (i.e. cover myself completely) due to shyness from Umer (i.e. cover herself all time)

[/note]

One of the narrators is حماد بن أسامة which had been mentioned earlier in this treatise that he had committed a mistake in name of narrator Abdur Rehman bin Yazeed bin Tameem.  Yaqoob bin Suffian writes in his famous work Marifa wal Tareekh (juz1 , pg 372):

قال عمر: سمعت أبي يقول: كان أبو أسامة: إذا رأى عائشة في الكتاب حكها فليته لا يكون افراط في الوجه الآخر… قال ابن نمير: وهو الذي يروي عن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر ونرى إنه ليس بابن جابر المعروف، ذكر لي أنه رجل يسمى بابن جابر، فدخل فيه، وإنما هو انسان يسمى بابن جابر. قال أبو يوسف: وكأني رأيت ابن نمير يتهم أبا أسامة إنه علم ذلك وعرف ولكن تغافل عن ذلك

Umer (bin Hafs bin Ghiyyas) said I heard my father said: Whenever Abu Usama saw Aisha in a book he rubbed it (i.e. distorted the narration) and then occurred an exaggeration which may not happen from any another way.. and Ibn-Numair said: he is the person who has reported from Abdur Rehman bin Yazeed bin Jabir and we see that he is not Ibn Jabir the well known. It is reported to me that  there was a man called Ibn Jabir, and he met him , but  (in fact that is ) a person he named  himself  Ibn Jabir. Abu Yousuf said: and I saw Ibn-Numair charged Abu Usama that has the knowledge  of it and he knew about it but even than he exhibited  his unawareness intentionally.

This is a very serious charge that Abu Usama (Hammad bin Usama) had committed the name changing in sanad intentionally. The narration under consideration is also reported by Hammad bin Usamah with excessive exaggeration. The  narration is strange report about  Aisah – Mother of believers- may Allah be pleased with her.   Abu Usama is unique is reporting this narration as well.  The narration lacks logic because if the layers of dust are not enough to prevent Umer (may Allah be pleased with him) to look  people outside of his grave then where stands a piece  of cloth?

It is reported  Abi Dawood juz 6, pg 214;  in chapter باب زِيَارَةِ الْقُبُورِ  that :

 

[note color=”#CEECF5″]

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ حَدَّثَنَا الْمُقْرِئُ حَدَّثَنَا حَيْوَةُ عَنْ أَبِى صَخْرٍ حُمَيْدِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « مَا مِنْ أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَىَّ إِلاَّ رَدَّ اللَّهُ عَلَىَّ رُوحِى حَتَّى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلاَمَ »

Narrated Abi Hurraira:  Messanger of Allah peace be upon him said: No one among you says prayer of blessings for me but Allah returns my soul till I reply to it, by  (my) blessing prayer (for that person).

[/note]

This narration is reported by   أَبِى صَخْرٍ حُمَيْدِ بْنِ زِيَادٍ who is a controversial narrator, some  hadith scholars have endorsed his narration but others have rejected him as well.

Ibn- Moin and Ibn- Addi called him ضعيف (Mezal al-Ateedal, juz 1, pg 612)

Ibn- Shaheen called him ضعيف – تاريخ أسماء الضعفاء والكذابين, juz 1, pg 75)

Strangely, the group of scholars who believe in life of Prophets in graves also endorse this narration.  Now question arises that if this narration is correct then it talks about the returning of the soul momentarily only and soul is returned till Prophet Peace be upon him gives his reply by prayer of blessings. Scholars, who believe in the life of Prophets in graves,  defend this narration and argue that in this world at any moment in time, someone might be saying the prayer of blessing for Prophet, so in a way he has a continues life in a grave. However this response is not useful as it is reported in narration that the soul is returned!   The word رَدَّ (return) in the narration then become totally meaningless.

It is reported in Musnad Abi-Yalah (juz 6 , pg 84) that

[note color=”#CEECF5″]

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، عَنْ أَبِي صَخْرٍ ، أَنَّ سَعِيدًا الْمَقْبُرِيَّ أَخْبَرَهُ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ، يَقُولُ : وَالَّذِي نَفْسُ أَبِي الْقَاسِمِ بِيَدِهِ ، لَيَنْزِلَنَّ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ إِمَامًا مُقْسِطًا وَحَكَمًا عَدْلا ، فَلَيَكْسِرَنَّ الصَّلِيبَ ، وَلَيَقْتُلَنَّ الْخِنْزِيرَ ، وَلَيُصْلِحَنَّ ذَاتَ الْبَيْنِ ، وَلَيُذْهِبَنَّ الشَّحْنَاءَ ، وَلَيُعْرَضَنَّ عَلَيْهِ الْمَالُ فَلا يَقْبَلُهُ ، ثُمَّ لَئِنْ قَامَ عَلَى قَبْرِي ، فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ لأُجِيبَنَّهُ

Abu Hurrairah said that I heard Messenger of Allah peace be upon him said: By Being (Allah) in whose hands the life of Abi Qasim (Prophet himself) is Indeed Jesus son of Mary would descend (from sky) as a  fair and a just Imam. He would  break the Cross and kill the pig, and rectify the relations  and hostility would vanish and money would be offered to him but he would not accept it and then when he stands on my grave (for prayer of blessing he would ) say O Muhammad  (and) I would reply (to him)!

[/note]

This narration is  also reported by narrator  أَبِى صَخْرٍ حُمَيْدِ بْنِ زِيَادٍ, which as explained  previously is a weak narrator.  A similar kind of  hadith is also reported by Imam Muslim in his Sahih with chain أَنَّ سَعِيدًا الْمَقْبُرِيَّ أَخْبَرَهُ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ where it does not contains the addition (i.e. he stands on my grave and say O Muhammad I would reply). It is therefore an addition done by narrator  أَبِي صَخْرٍ .

Prophet reply to all from grave It is reported by Dahabi in Mezan al-Atedal in discussion on narrator Muhammad bin Marwan:

[note color=”#CEECF5″]

العلاء بن عمرو الحنفي، حدثنا محمد بن مروان، عن الاعمش، عن أبى صالح، عن أبى هريرة – مرفوعا: من صلى على عند قبري سمعته، ومن صلى على نائيا بلغته.

Narrated Abu Hurraira: I hear the one who say Salam to me near my grave, and who say it far from me, his Salam is conveyed to me.

[/note]

The narrator محمد بن مروان is a liar. Dahabi says تركوه واتهمه بعضهم بالكذب. Narrations are not taken and some (scholars ) have blamed him for lies.

Uqaili said in Doafa Uqaili, juz 4 pg 136 after quoting this narration,

لا أصل له من حديث الأعمش وليس بمحفوظ ولا يتابعه إلا من هو دونه

 It has no source from Aamash and not saved narration and no one else followed except those who are of similar kind

Ibn-Tammiyah said in his book Aulliah ar Rehamn wa Aullia al-Shaitan, pg 123 and also in (اقتضاء الصراط المستقيم مخالفة أصحاب الجحيم) pg 373, that

وكان سعيد ين المسيب في أيام الحرة يسمع الأذان من قبر رسول الله صلى الله عليه و سلم في أوقات الصلوات وكان المسجد قد خلا فلم يبقى غيره   

And Saeed bin al-Musayyab used to hear Adhan from the grave of Messenger of Allah at the prayer times and the mosque (of Prophet) was empty 

This is a baseless narration and there is no authentic report of such kind.  Dahabi has quoted this narration in Tahrikh Al-Islam juz 2, pg 253, where he informed that this narration is reported by Ibn- Al Khaithama in his Tahrik as

قال ابن خيثمة في تاريخه: ثنا لوين، ثنا عبد الحميد بن سليمان، عن أبي حازم، عن ابن المسيب قال: لو رأيتني لبالي الحرة، وما في المسجد غيري، ما يأتي وقت صلاة إلا سمعت الأذان من القبر، ثم أقيم فأصلي، وإن أهل الشام ليدخلوا المسجد زمراً فيقولون: انظروا إلى هذا الشيخ المجنون. قلت: عبد الحميد ليس بثقة.

(Saeed) Ibn Mussayab said: If you have seen me in the nights of Hirra then (you would see that) there was no one at (Prophet’s) Mosque and I came to know about the prayers time only through the Adhan call from the grave (of Prophet), then I stood and prayed and the people of Syria entered in Mosque in groups (and they saw me) and said Look at this nonsense old fellow! (Dahabi wrote ) I say: (The narrator) Adbul Hameed is not trustworthy.

Ibn-Tammiyah was the stalwart supporter of life in grave and hearing of the dead. Because of his political stances he got fame in Damascus and suburbs and he used all his influence to spread his believes and that he did through his books religious decrees and students like Ibn- Qayyam.

Allah save us from this kind of belief that his Prophet is alive in grave. This treatise showed that people have moved up on Sheerk ladder. First they believed that the bodies do not annihilate then they said that soul is returned on saying of salam and now they are saying that Prophet peace be upon him even said call of prayers not once but for many nights during fitnah of Hirra!

Lastly, this short treatise is an effort to show to Ummah the fallacies of the belief of life of Prophets in graves. This belief is a major stimulus for ignorant people to call Prophets instead of Allah for help and supplication. Hence,  some Muslims commit the deadly sin of Sheerk, for which Allah Almighty  informed us in his glorious book that it will not be forgiven.

As a Muslim it is important that we bring our believes in accordance with Holy Quran. May Allah send his blessings on our last Prophet Muhammad peace be upon him and guide us towards his mercy and Heavens and save us from Azab al-Qabr and Hell  Fire. Amen