لا تنظر إلى من قال بل أنظر إلى ما قيل
یہ مت دیکھو کون کہہ رہا ہے یہ دیکھو کیا کہا جا رہا ہے
لا تنظروا الیٰ من قال، انظروا الیٰ ما قال
کہا جاتا ہے کہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ مت دیکھو کون کہہ رہا ہے – اس کی اسناد جمع کی جانی چاہیے تھیں کہ دیکھا جائے اس قول کا علی پر بہتان کس نے باندھا ہے، کیونکہ یہ قول علی ممکن نہیں ہے – یہ قرآن کے حکم خبر فاسق کی تحقیق کرو (سورہ الحجرات) سے براہ راست متصادم ہے
حیرت کی بات یہ ہے مصادر اہل تشیع میں یہ قول سندا کہیں بھی بیان نہیں ہوا – كتاب غُرر الحِكم ودُرر الكلم، للقاضي ناصح الدين أبي الفتح عبد الواحد بن محمَّد التميمي الآمدي (ت: 550 للهجرة)، میں اس کو بلا سند علی سے منسوب کیا گیا ہے
اور اہل سنت کی کتب میں کہا جاتا ہے ابن السمعاني نے اپنی کتاب الدلائل اور تاریخ میں اس کا ذکر کیا ہے البتہ یہ کتاب مفقود ہیں
کتاب الفوائد الموضوعة في الأحاديث الموضوعة المؤلف: مرعي بن يوسف بن أبى بكر بن أحمد الكرمى المقدسي الحنبلى (المتوفى: 1033هـ) کے مطابق یہ قول علی ہے لیکن اس میں بھی کوئی سند نہیں دی
سن چھ ہجری تک اہل تشیع میں مکمل جرح و تعدیل شروع نہیں ہو سکی تھی لہذا علم اسماء الرجال سے جان چھڑانے کے لئے یہ قول ایجاد کیا گیا کہ اہل بیت سے منسوب کچھ بھی مل جائے اس کو مستند مان لو – یہ مت دیکھو کون (کذاب یا جاہل) کہہ رہا ہے بلکہ صرف متن پسند آ جائے تو اس کو قبول کر لو
کسی کے پاس علی سے منسوب اس قول کی سند ہو تو برائے مہربانی یہاں پیش کرے
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کہ اس فرمان کی یہ وضاحت غلط ہے۔ اس فرمان کی درست وضاحت یہ ہے کہ کہنے والے کی شخصیت سے متعصب نہ ہوا جائے ۔اگر کہنے والے کی بات اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق ہے ،تو اب چاہے کہنے والا کوئی بھی ہے، اس بات کو مان لیا جانا چاہیے اور اگر کہنے والے کی بات اللہ اور اس کے رسول کے اور قران حکیم کے احکامات کے منافی ہے تو کہنے والا چاہے کوئی بھی ہو اسے تسلیم نہ کیا جائے۔ واللہ اعلم
علی رضی اللہ عنہ سے منسوب یہ قول ثابت نہیں ہے اور اس قول کے مثبت پہلو کا ذکر جو آپ نے کیا معلوم ہے لیکن اس قول کا منفی پہلو بھی ہے جس کی اس بلاگ میں وضاحت کی گئی ہے کہ یہ قول اصل میں گھڑا گیا ہے تاکہ علی سے منسوب مکذوب اقوال کو بلا توجہ قبول کر لیا جائے – کہنے والے کو کہنا چاہیے یہ دیکھو کہ اللہ اور اس کے رسول نے کیا کہا ہے یہ زیادہ واضح اور
مکمل ہے
قرآن میں حکم الہی ہے کہ خبر فاسق کی خبر کی تحقیق کرو یعنی یہ مت دیکھو کیا کہہ رہا ہے بلکہ یہ دیکھو کیوں کہہ رہا ہے
یہ حکم الہی ، علی سے منسوب قول سے متصادم ہے- خبر کو محض متن کی بنیاد پر قبول نہیں کیا جائے گا اس کی بھی تحقیق ہو گی کہ کون کہہ رہا ہے اور اس کی بھی تحقیق ہو گی کہ کیا کہہ رہا ہے اور اسی کو علم الحدیث اور علم اسماء الرجال اہل سنت میں کہا جاتا ہے