روح، زندگی، نیند، بے ہوشی

اللہ تعالی نے تخلیق آدم علیہ السلام سے قبل تمام انسانوں کی ارواح کو تخلیق کیا – اور اس وقت یہ ارواح تمام زندگی رکھتی تھیں – دوسری طرف مٹی جس میں کوئی جان نہیں تھی اس سے آدم کا پتلا بنایا جا رہا تھا – آدم ایک بے جان صورت خلق ہو رہے تھے – ابھی ان میں نہ تو زندگی تھی نہ کوئی حرکت تھی نہ دل دھڑکتا تھا نہ سانس تھی – پھر ( بمطابق سوره الحجر ) اللہ تعالی نے فرشتوں کو حکم دیا

فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ
جب میں اس (پتلے) کو متناسب کر دوں اور اس میں اپنی روح پھونکوں تم سجدے میں گر جانا

پتلا یا جسد آدم بے جان حالت میں تھا اور ملائکہ اس لمحہ کا انتظار کر رہے تھے جب نمسہ یا روح آدم میں داخل ہو – جیسے ہی روح آدم میں داخل ہوئی آدم کا پتلا سانس لینے لگا وہ پتلا ایک متنفس بن گیا

اس سانس کو لینا تھا کہ تمام آسمان کے فرشتے آدم کے لئے سجدہ میں گر گئے

اس طرح تخلیق انسانی کا آغاز ہوا اب آدم میں جانے والی روح کو نفس بھی کہا جا سکتا تھا کیونکہ اس سے عمل تنفس جاری ہوا

روح کے اس طرح تین نام ابراہیمی ادیان میں ہیں

روح
نسمہ یعنی  جو ہوا کی مانند ہو
نفس یعنی جس سے سانس کا عمل جاری ہو

انسان کی ارواح عالم بالا میں ابھی بھی  ایک ساتھ ہیں حدیث میں ہے

صحيح البخاري بَابٌ: الأَرْوَاحُ جُنُودٌ مُجَنَّدَةٌ
الأَرْوَاحُ جُنُودٌ مُجَنَّدَةٌ فَمَا تَعَارَفَ مِنْهَا ائْتَلَفَ، وَمَا تَنَاكَرَ مِنْهَا اخْتَلَفَ
روحیں لشکروں کی طرح ہیں جہاں ایک دوسری کو پہچانتی ہیں جس سے التفات کریں اس سے ان کا (زمین پر) تعارف باقی رہتا ہے اور جس سے التفات نہ کریں ان سے (زمین پر ) دور ہو جاتی ہیں

اس طرح یہ اروح کا لشکر کوئی جامد لشکر نہیں ہے بلکہ ایک دوسرے پر سے گزرتی ہیں اور  معلوم ہوا کہ ان ارواح میں شعور ہے – اس کے برعکس جن  جسموں میں یہ جاتی ہیں وہ  بے شعور ہوتے ہیں  اور روح نکلنے کی صورت اسی حالت پر لوٹ جاتے ہیں

اس لشکرارواح  میں سے پیدا ہونے والی روحوں  کو لیا جاتا ہے اور یہ اس لشکر سے مکمل جدا ہو کر سات آسمان نیچے زمین پر رحم مادر میں لے آئی جاتی ہیں

روح کا اولاد آدم میں آنا

انسانی زندگی شروع ہوئی اور اب اولاد آدم کی باری تھی – آدم علیہ السلام کے جسم سے نطفہ نکلا اور حوا علیہ السلام کے رحم میں گیا – وہاں یہ نطفہ بلا روح تھا – اس میں زندگی ایک جرثومہ والی تھی لیکن روح نہیں تھی
حدیث میں اس کی تفصیل ہے کہ رحم مادر میں ٦ ہفتوں میں (٤٢ دن بعد) منی کی آمد کے بعد دل دھڑکنا شروع ہوتا ہے – اس کو آٹھویں ہفتے سے سنا جا سکتا ہے

حذیفہ بن اسید غفاری سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے جب نطفے پر ٤٢ راتیں گزر جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کے پاس ایک فرشتے کو بھیجتاہے جو اس کی صورت،کان ،آنکھ کھال
گوشت اور ہڈیاں بناتا ہے پھر عرض کر تاہے اے رب یہ مرد ہے یا عورت ؟ پھر جو مرضی الٰہی ہوتی ہے وہ حکم ہوتا ہے – فرشتہ لکھ دیتاہے ،پھر عرض کرتاہے ، اے رب اس کی عمر کیاہے؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ جو چاہتاہے حکم فرماتا ہے اورفرشتہ وہ لکھ دیتا ہے پھر عرض کرتاہے کہ اے رب اس کی روزی کیا ہے ؟ پروردگار جو چاہتاہے وہ حکم فرما دیتا ہے اورفرشتہ لکھ دیتاہے – پھر فرشتہ وہ کتاب اپنے ہا تھ میں لے کر باہر نکلتاہے جس میں کسی بات کی نہ کمی ہوتی ہے اورنہ زیادتی ” ( صحیح مسلم باب القدر)

انس بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اﷲ تعالیٰ نے رحم مادر پر ایک فرشتہ مقرر فرما رکھا ہے۔ وہ یہ عرض کرتا رہتا ہے اے میرے (رب ابھی تک) یہ نطفہ (کے مرحلہ میں) ہے۔ اے میرے رب
(اب)یہ علقہ (یعنی جمے ہوئے خون کے مرحلہ میں) ہے۔ اے میرے رب (اب) یہ مضغہ (یعنی گوشت کے لوتھڑے کے مرحلے میں) ہے۔ پھر جب اﷲ تعالیٰ اس کی خلقت کو پورا کرنے کا ارادہ (ظاہر) کرتے ہیں تو فرشتہ پوچھتا ہے اے میرے رب ( اس کے متعلق کیا حکم ہے) یہ مردہو گا یا عورت، بدبخت ہوگا یا نیک بخت، اس کا رزق کتنا ہوگا اور اس کی عمر کتنی ہوگی۔ تو ماں کے پیٹ میں ہی وہ فرشتہ یہ سب باتیں ویسے ہی لکھ دیتا ہے۔ جیسا اسے حکم دیا جاتا ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ہر بچہ اپنا رزق اور عمر لے کر پیدا ہو تا ہے ۔

مضغہ کی حالت (لغوی مفہوم چبایا ہوا مادہ) کے بعد ہی رحم مادر میں دل دھڑکتا ہے – گویا یہ اب ایک بت بن چکا ہوتا ہے جس میں روح اتی ہے – بیالیس دن بعد فرشتہ کا آنا اور اسی پر دل کی دھڑکن کا سنا جانا ایک بات ہے اس طرح حدیث اور سائنس ایک ہی بات کہتے ہیں

نوٹ صحیح بخاری کی ایک شاذ روایت میں ذکر ہے کہ رحم مادر میں ٤ ماہ بعد روح اتی ہے جو صحیح مسلم کی صحیح روایت سے متصادم ہے – یہ روایت ابن مسعود سے منسوب ہے جس کے مطابق ١٢٠ دن بعد یعنی ٤ ماہ بعد روح اتی ہے
حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ المَصْدُوقُ، قَالَ: ” إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَبْعَثُ  اللَّهُ مَلَكًا فَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، وَيُقَالُ لَهُ: اكْتُبْ عَمَلَهُ، وَرِزْقَهُ، وَأَجَلَهُ، وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ، ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ، فَإِنَّ الرَّجُلَ مِنْكُمْ لَيَعْمَلُ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الجَنَّةِ إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ كِتَابُهُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، وَيَعْمَلُ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ  الكِتَابُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الجَنَّةِ ”

تم میں سے ہر ایک کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں مکمل کی جاتی ہے۔ چالیس دن تک نطفہ رہتاہے پھراتنے ہی وقت تک منجمد خون کا لوتھڑارہتا ہے پھر اتنے ہی روز تک گوشت کا لوتھڑا رہتاہے اس کے بعد اللہ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتوں  کا حکم دیا جاتا ہے کہ اس کا عمل اس کا رزق اوراس کی عمر لکھ دے اوریہ بھی لکھ دے کہ بدبخت ہے یا نیک بخت ،اس کے بعد اس میں روح پھونک دی جاتی ہے …. (صحیح بخاری باب بدء الخلق ۔صحیح مسلم باب القدر)

اس روایت کو اگرچہ امام بخاری و مسلم نے صحیح کہا ہے لیکن اس کی سند میں زید بن وھب کا تفرد ہے اور امام الفسوی کے مطابق اس کی روایات میں خلل ہے

طحاوی نے مشکل الاثار میں اس روایت پر بحث کی ہے اور پھر کہا
وَقَدْ وَجَدْنَا هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ رِوَايَةِ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ , عَنِ الْأَعْمَشِ , بِمَا يَدُلُّ أَنَّ هَذَا الْكَلَامَ مِنْ كَلَامِ ابْنِ مَسْعُودٍ , لَا مِنْ كَلَامِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
اور ہم کو ملا ہے جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ , عَنِ الْأَعْمَشِ , سے کہ یہ کلام ابن مسعود ہے نہ کہ کلام نبوی

لیکن طحاوی نے کہا یہ بات ابن مسعود کو نبی صلی الله علیہ وسلم نے بتائی ہو گی

راقم کہتا ہے اس کی جو سند صحیح کہی گئی ہے اس میں زید کا تفرد ہے جو مضبوط نہیں ہے

اس طرح اولاد آدم میں چلا آ رہا ہے کہ ٤٢ دن بعد روح اتی ہے سائنس کہتی ہے کہ انسانی دل پھر دھڑکتا ہے

روح انسانی جسم میں اب موت تک رہتی ہے اس سے نکل نہیں سکتی – اس کو نکالنا بھی فرشتوں کا عمل ہے جس طرح اس کو جسم میں ڈالنا فرشتوں کا عمل تھا

موت پر روح کا جسم سے اخراج  

قرآن میں ہے

حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لا يُفَرِّطُونَ
حتی کہ ان جب موت ان کو اتی ہے تو ان کو ہمارے فرشتے جکرٹتے ہیں اور وہ چوکتے نہیں ہیں

توفی کا مطلب قبضہ میں لینا جکڑنا، مضبوطی سے پکڑنا ہے – یہ لفظ مجازا موت پر بولا جاتا ہے کہ فلاں کی وفات ہو گئی یعنی موت آ گئی

سوره الانعام
کاش تم دیکھ سکو کہ جب ظالم موت کی سختیوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں: لاؤ نکالو اپنا نفس  آج تمہیں ذلت کے عذاب کا صلہ دیا جائے گا اس لیے کہ تم اللہ کے ذمہ ناحق باتیں کہتے تھے اور اس کی آیات سے تکبر کیا کرتے تھے۔

اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنامِها فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرى إِلى أَجَلٍ مُسَمًّى
الله پورا قبضے میں لیتا ہے نفس کو موت کے وقت اور جو نہیں مرا اس کا نفس نیند کے وقت پس پکڑ کے رکھتا ہے اس نفس کو جس پر موت کا حکم لگاتا ہے اور چھوڑ دیتا ہے دوسروں کو اک وقت مقرر تک کے لئے

اللہ اس روح کو پکڑے یا روکے رکھتا ہے جس پر موت کا حکم کرتا ہے یعنی اس کو اب جسم میں واپس نہیں چھوڑا جاتا

اسی بنا پر جسم گل سڑ جاتا ہے – قرآن کہتا ہے
قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْأَرْضُ مِنْهُمْ وَعِنْدَنَا كِتَابٌ حَفِيظٌ
بلا شبہ ہم جانتے ہیں جو زمین ان کے جسموں میں سے کم کرتی ہے اور ہمارے پاس محفوظ کتاب ہے

سنن ابن ماجہ میں ہے

حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ،‏‏‏‏ حدثنا ابو معاوية ،‏‏‏‏ عن الاعمش ،‏‏‏‏ عن ابي صالح ،‏‏‏‏ عن ابي هريرة ،‏‏‏‏ قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ ليس شيء من الإنسان إلا يبلى،‏‏‏‏ إلا عظما واحدا،‏‏‏‏ وهو عجب الذنب،‏‏‏‏ ومنه يركب الخلق يوم القيامة
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انسان کے جسم کی ہر چیز سڑ گل جاتی ہے، سوائے ایک ہڈی کے اور وہ عجب الذنب (ریڑھ کی آخری ہڈی) ہے، اور اسی سے قیامت کے دن انسان کی پیدائش ہو گی

روح کی عالم بالا میں واپسی کا سفر

موت کے بعد روح کو واپس جنت میں پہنچا دیا جاتا ہے

صحیح مسلم کی روایت ہے جو ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا بُدَيْلٌ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: «إِذَا خَرَجَتْ رُوحُ الْمُؤْمِنِ تَلَقَّاهَا مَلَكَانِ يُصْعِدَانِهَا» – قَالَ حَمَّادٌ: فَذَكَرَ مِنْ طِيبِ رِيحِهَا وَذَكَرَ الْمِسْكَ – قَالَ: ” وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَاءِ: رُوحٌ طَيِّبَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ، صَلَّى الله عَلَيْكِ وَعَلَى جَسَدٍ كُنْتِ تَعْمُرِينَهُ، فَيُنْطَلَقُ بِهِ إِلَى رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ يَقُولُ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَلِ “، قَالَ: ” وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا خَرَجَتْ رُوحُهُ – قَالَ حَمَّادٌ وَذَكَرَ مِنْ نَتْنِهَا، وَذَكَرَ لَعْنًا – وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَاءِ رُوحٌ: خَبِيثَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ. قَالَ فَيُقَالُ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَلِ “، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَرَدَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَيْطَةً كَانَتْ عَلَيْهِ، عَلَى أَنْفِهِ، هَكَذَا
: عبیداللہ بن عمر قواریری حماد بن زید بدیل عبداللہ بن شقیق ، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ جب کسی مومن کی روح نکلتی ہے تو دو فرشتے اسے لے کر اوپر چڑھتے ہیں تو آسمان والے کہتے ہیں کہ پاکیزہ روح زمین کی طرف سے آئی ہے اللہ تعالیٰ تجھ پر اور اس جسم پر کہ جسے تو آباد رکھتی تھی رحمت نازل فرمائے پھر اس روح کو اللہ عزوجل کی طرف لے جایا جاتا ہے پھر اللہ فرماتا ہے کہ تم اسے آخری وقت کے لئے لے چلو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کافر کی روح جب نکلتی ہے تو آسمان والے کہتے ہیں کہ خبیث روح زمین کی طرف سے آئی ہے پھر اسے کہا جاتا ہے کہ تم اسے آخری وقت کے لئے لے چلو – ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی چادر اپنی ناک مبارک پر اس طرح لگالی تھی

اس طرح روح کافر کی ہو یا مومن  کی  آسمان یا عالم بالا میں چلی جاتی ہے – اس حالت میں مومن کی روح جنت میں ایک عظیم درخت پر قیامت تک رہتی ہے

المنتخب من مسند عبد بن حميد میں ہے کہ کعب بن مالک أَنَّهُ لَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ، کہ جب ان کی وفات کا وقت تھا اور مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَتْ أُمُّ مُبَشِّرٍ لِكَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، وَهُوَ شَاكٍ: اقْرَأْ عَلَى ابْنِي السَّلَامَ، تَعْنِي مُبَشِّرًا، فَقَالَ: يَغْفِرُ اللهُ لَكِ يَا أُمَّ مُبَشِّرٍ، أَوَلَمْ تَسْمَعِي مَا قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّمَا نَسَمَةُ الْمُسْلِمِ طَيْرٌ تَعْلُقُ فِي شَجَرِ الْجَنَّةِ حَتَّى يُرْجِعَهَا اللهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى جَسَدِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ” قَالَتْ: صَدَقْتَ، فَأَسْتَغْفِرُ اللهَ
أم بشر بنت البراء بن معرور آئیں اور کعب سے کہا میرے (فوت شدہ) بیٹے کو سلام کہیے گا (یعنی جنت جب ملاقات ہو) اس پر کعب نے کہا الله تمہاری مغفرت کرے کیا تم نے سنا نہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلم کی روح پرندہ ہے جنت کے درخت پر لٹکتی ہے یہاں تک کہ روز محشر الله اسکو اس کے جسد میں لوٹا دے ام مبشر نے کہا سچ کہا میں الله سے مغفرت طلب کرتی ہوں

نیند کی حالت

قرآن میں توفی کا لفظ نیند پر بھی بولا گیا ہے کہ اس میں قبض نفس ہوتا ہے – ساتھ ہی ہم کو معلوم ہے کہ نیند میں انسان سانس لیتا ہے ، بڑبڑاتا ہے ، اس کو پسینہ بھی اتا ہے – زندہ ہوتا ہے یعنی یہ عمل قبض وہ نہیں ہے جو عمل قبض موت پر ہوتا ہے

نیند میں قبض نفس جسم میں ہی ہوتا ہے اور روح کو جسم سے الگ نہیں کیا جاتا – جبکہ موت کے عمل میں روح کو جسم سے الگ کیا جاتا ہے تاکہ اسی پتلے والی حالت پر لوٹایا جاۓ جو آدم کی تھی – اسی بنا پر موت کے بعد جسم مٹی ہو جاتا ہے اور نیند
کے بعد ایسا نہیں ہوتا – نیند میں شعور رہتا ہے لیکن تحت شعور محدود ہو جاتا ہے – اسی شعور کی وجہ سے شور پر نیند والا بیدار ہو جاتا ہے

بے ہوشی کی حالت

بے ہوشی بھی نیند ہے لیکن گہری نیند ہے – انسان کا جسم ڈاکٹر اس حالت میں کاٹ بھی دے تو انسان کو خبر نہیں ہوتی – جسم اس عذاب کی کیفیت کو محسوس نہیں کر پاتا – اس دوران روح جسم میں ہی ہوتی ہے لیکن طبیب و ڈاکٹر کے عذاب کو
محسوس نہیں کر پاتی
نیند اور بے ہوشی میں کیا فرق ہے ؟ اس میں صرف شعور کا فرق ہے – نیند میں یادداشت رہتی ہے انسان خواب دیکھتا ہے جس میں اس کو اپنے رشتہ دار و احباب یا وہ لوگ نظر اتے ہیں جن سے اس کو ملاقات ہو یعنی دماغ میں شعور ابھی مکمل ختم نہیں ہوا ہوتا – نیند میں دماغ کا ایک حصہ مکمل کام کرتا ہے اور خواب بنتا ہے

بے ہوشی میں اس کے برعکس  یادداشت کو ختم کر دیا جاتا ہے  – ساتھ ہی  درد کا احساس بھی ختم کر دیا جاتا ہے

بے ہوشی اس طرح گہری نیند ہے جس میں تحت شعور بھی محدود ہو اور شعور بھی

نیند ہو یا بے ہوشی ہو ان دونوں میں روح جسم میں ہی محدود کی جاتی ہے جس کو جکڑنا یا قبض کرنا قرآن میں کہا گیا ہے

قبض کا عربی میں مطلب نہ نکالنا ہے نہ کھیچنا ہے بلکہ اس قبض کا متبادل لفظ انگریری میں
Sieze
کرنا ہے اور اردو میں جکڑنا ہے

زمین مسلسل اللہ کے عذاب میں ہے ؟ 

راقم کی اس تحریر پر ایک معترض نے کہا کہ زمین اللہ تعالی کا حکم مانتی ہے – اس کے پتھر خوف الہی سے گر جاتے ہیں یعنی مٹی میں شعور ہے اور معلوم ہوا کہ مٹی کو عذاب محسوس  ہوتا ہے – اس کا مدعا تھا کہ جسد انسانی خاک ہو  کر بھی عذاب پاتا ہے

راقم نے جوابا کہا کہ ہاں یہ اللہ نے خبر دی ہے کہ مٹی کو شعور ہے اور تمام عالم اس کو سجدہ کرتا ہے یہاں تک کہ کافر کے جسم کا سایہ بھی اللہ کو سجدہ کر رہا ہے لیکن کافر یہ نہیں کر رہا – اس طرح تمام عالم اللہ کا مطیع ہوا لیکن یہ قرآن و حدیث میں نہیں ہے کہ اس زمین کو اللہ کا عذاب محسوس ہوتا ہے جب اللہ کافر پر عذاب نازل کرے یا اس زمین کی کوکھ کو لاوا سے بھر کر وہ زمین کو عذاب نہیں دے رہا بلکہ زمین میں اس نے خاصیت رکھی ہے کہ وہ اس درجہ حدت کو برداشت کرتی ہے اس کو عذاب نہیں کہتی
معلوم ہوا کہ زمین اور اس کی مٹی، اس کے پتھر اللہ کے وجود کا  شعور رکھتے ہیں  لیکن عذاب محسوس نہیں کرتے

اسی طرح درخت ہیں یہ حدیث میں ہے کہ رو سکتا ہے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پاس خطبہ نہ دیا  یعنی درخت بھی شعور رکھتے ہیں – لیکن ہم کو معلوم ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے درخت کاٹنے کا حکم دیا

مَا قَطَعْتُم مِّن لِّينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَىٰ أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ ( 5 ) 

(مومنو) کھجور کے جو درخت تم نے کاٹ ڈالے یا ان کو اپنی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا سو خدا کے حکم سے تھا اور مقصود یہ تھا کہ وہ نافرمانوں کو رسوا کرے

اگر درخت عذاب کو محسوس کرتے تو رسول رحمہ للعالمین ان کو کاٹنے کا حکم نہ کرتے

اسی بنا پر نووی کا قول ہے کہ بلا روح عذاب ممکن نہیں  اور انور شاہ کاشمیری کا قول ہے کہ عذاب جمادات کو نہیں ہوتا

مزید دیکھیں

موت و نیند پر اضطراب

2 thoughts on “روح، زندگی، نیند، بے ہوشی

  1. ابراھیم

    حذیفہ بن اسید غفاری سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے جب نطفے پر ٤٢ راتیں گزر جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کے پاس ایک فرشتے کو بھیجتاہے جو اس کی صورت،کان ،آنکھ کھال
    گوشت اور ہڈیاں بناتا ہے پھر عرض کر تاہے اے رب یہ مرد ہے یا عورت ؟ پھر جو مرضی الٰہی ہوتی ہے وہ حکم ہوتا ہے – فرشتہ لکھ دیتاہے ،پھر عرض کرتاہے ، اے رب اس کی عمر کیاہے؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ جو چاہتاہے حکم فرماتا ہے اورفرشتہ وہ لکھ دیتا ہے پھر عرض کرتاہے کہ اے رب اس کی روزی کیا ہے ؟ پروردگار جو چاہتاہے وہ حکم فرما دیتا ہے اورفرشتہ لکھ دیتاہے – پھر فرشتہ وہ کتاب اپنے ہا تھ میں لے کر باہر نکلتاہے جس میں کسی بات کی نہ کمی ہوتی ہے اورنہ زیادتی ” ( صحیح مسلم باب القدر)

    انس بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اﷲ تعالیٰ نے رحم مادر پر ایک فرشتہ مقرر فرما رکھا ہے۔ وہ یہ عرض کرتا رہتا ہے اے میرے (رب ابھی تک) یہ نطفہ (کے مرحلہ میں) ہے۔ اے میرے رب
    (اب)یہ علقہ (یعنی جمے ہوئے خون کے مرحلہ میں) ہے۔ اے میرے رب (اب) یہ مضغہ (یعنی گوشت کے لوتھڑے کے مرحلے میں) ہے۔ پھر جب اﷲ تعالیٰ اس کی خلقت کو پورا کرنے کا ارادہ (ظاہر) کرتے ہیں تو فرشتہ پوچھتا ہے اے میرے رب ( اس کے متعلق کیا حکم ہے) یہ مردہو گا یا عورت، بدبخت ہوگا یا نیک بخت، اس کا رزق کتنا ہوگا اور اس کی عمر کتنی ہوگی۔ تو ماں کے پیٹ میں ہی وہ فرشتہ یہ سب باتیں ویسے ہی لکھ دیتا ہے۔ جیسا اسے حکم دیا جاتا ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ہر بچہ اپنا رزق اور عمر لے کر پیدا ہو تا ہے ۔

    ان روایات میں 42 دن بعد روح آنے کا واضح ذکر نہیں ہے؟؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      ٤٢ رات یا دن کے بعد یہ سب ہوتا ہے اسی کے بعد روح آتی ہے کیونکہ یہ انسانی شواہد سے معلوم ہے کہ ڈاکٹر دل کی دھڑکن محسوس کرتا ہے
      ظاہر ہے پتلے میں روح اس سے قبل یا ٤٢ دن بعد ہے – بلا روح دل نہیں دھڑک سکتا

      اس کا تقابل ابن مسعود کی شاذ روایت سے ہے جس میں ١٢٠ دن ہیں

      خبر واحد کے لئے بیرونی قرائن درکار ہیں اور اس طرح یہ روایات سائنس کے قریب ہونے کی وجہ سے صحیح ہیں

      Reply

Leave a Reply to ابراھیم Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *