تصوف کی جڑ – حیات فی القبر

ابراہیمی ادیان میں تصوف کی جڑ حیات فی القبر ہے – قبر سے فیض لینا  پریکٹیکل تصوف ہے  اور یہ تبھی ممکن ہے جب صاحب سلوک اس کی منازل طے کرے اور نیکوکار ہو لہذا تصوف کے بنیادی عقائد میں سے ہیں

اول ارواح عالم ارض و سما میں سفر کرتی ہیں

دوم مردے سنتے ہیں

سوم  مردے کلام بھی کر سکتے ہیں

چہارم مردوں سے فیض لیا جا سکتا ہے یعنی ان کو وسیلہ بنا سکتے ہیں چونکہ ان کی ارواح عرش تک جاتی ہیں

تصوف  کے شجر کی جڑیں اصلا ارواح سے متعلق عجیب و غریب عقیدہ میں تھیں کہ حالت نیند میں روح کہیں بھی جا سکتی ہے –  چھٹی صدی اسلامی ہجری کے اختتام تک یہ عقائد پھیل چکے تھے  اور آٹھویں صدی تک ان عقائد کو قبولیت عام مل چکی تھی اگرچہ  بعض احناف متقدمین سماع الموتی کے یکسر خلاف تھے کیونکہ یہ نہ قرآن میں ہے نہ رائےسے اس عقیدہ تک پہنچا جا سکتا ہے – دوسری طرف اہل رائے کے مخالف جو روایت پسند تھے انہوں نے فقہ کے بعد فضائل میں اور عقائد میں بھی ضعیف روایات کو داخل کر دیا تھا

انسانی روح کہیں بھی جا سکتی ہے؟

إس قول کو سب سے پہلے مصنف ابن ابی شیبہ میں عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ سے منسوب کیا گیا

غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ قَمْطَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: «الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ، فَإِذَا مَاتَ الْمُؤْمِنُ يُخْلَى بِهِ يَسْرَحُ حَيْثُ شَاءَ وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ»

دنیا مومن  کا قید خانہ او رکافر کی بہشت ہے۔ جب مومن  مرتاہے اس کی راہ کھول دی جاتی ہے کہ جہاں چاہے سیر کرے

اس کی سند میں يَحْيَى بْنِ قَمْطَةَ کو ابن حبان اور عجلی نے ثقہ قرار دیا ہے

کتاب كشف الخفاء ومزيل الإلباس از إسماعيل بن محمد بن عبد الهادي الجراحي العجلوني الدمشقي، أبو الفداء (المتوفى: 1162هـ)  میں روایت “الدنيا سجن المؤمن، وجنة الكافر کی بحث میں  العجلوني  لکھتے ہیں حدیث میں ہے

فإذا مات المؤمن تخلى سربه يسرح حيث شاء
”جب مسلما ن مرتا ہے اُس کی راہ کھول دی جاتی ہے، جہاں چاہے جائے۔

انہی الفاظ کا ذکر فتاوی رضویہ میں ہے

وھذا لفظ امام ابن المبارك قال ان الدنیا جنۃ الکافر وسجن المؤمن وانما مثل المؤمن حین تخرج نفسہ کمثل رجل کان فی سجن فاخرج منہ فجعل یتقلب فی الارض ویتفسح فیھا١[1]۔ولفظ ابی بکر ھکذا الدنیا سجن المومن وجنۃ لکافر فاذا مات المومن یخلی سربہ یسرح حیث شاء

اور یہ روایت امام ابن مبارك کے الفاظ ہیں۔ ت) بیشك دنیا کافر کی جنت اور مسلمان کی زندان ہے، اور ایمان والے کی جب جان نکلتی ہے توا س کی کہاوت ایسی ہے جیسے کوئی قید خانہ میں تھا اب اس سے نکال دیا گیا کہ زمین میں گشت کرتاا ور بافراغت چلتا پھرتا ہے۔(اور روایت ابوبکر کے الفاظ یہ ہیں۔ ت) دنیا مسلمان کا قید خانہ او رکافر کی بہشت ہے۔ جب مسلمان مرتاہے اس کی راہ کھول دی جاتی ہے کہ جہاں چاہے سیر کرے۔

http://www.dawateislami.net/bookslibrary/1454/page/722

مسلک پرست  غیر مقلدین کے اصول پر موقوف صحابی بھی قابل قبول ہے اور اس سے دلیل بنتی ہے مومن کی روح عالم میں اڑتی پھرتی ہیں  لہذا ابن قیم کتاب الروح میں خواب مين ارواح کی ملاقات والی روایات پر کہتے ہیں

فَفِي هَذَا الحَدِيث بَيَان سرعَة انْتِقَال أَرْوَاحهم من الْعَرْش إِلَى الثرى ثمَّ انتقالها من الثرى إِلَى مَكَانهَا وَلِهَذَا قَالَ مَالك وَغَيره من الْأَئِمَّة أَن الرّوح مُرْسلَة تذْهب حَيْثُ شَاءَت

ان احادیث میں ارواح کا عرش سے الثرى  تک  جانے میں سرعت کا ذکر ہے پھر الثرى سے اس روح کے مکان تک جانے کا ذکر ہے اور اسی وجہ سے امام  مالک اور دیگر ائمہ کہتے ہیں کہ چھوڑی جانے والے روح جہاں جانا چاہتی ہے جاتی ہے

ارواح قدسیہ عالم بالا سے مل جاتی ہیں اور تمام عالم شہود ہوتا ہے؟

کتاب فيض القدير شرح الجامع الصغير  از المناوي القاهري (المتوفى: 1031هـ)  کے مطابق

قوله (وصلوا علي وسلموا فإن صلاتكم تبلغني حيثما كنتم) أي لا تتكلفوا المعاودة إلي فقد استغنيتم بالصلاة علي لأن النفوس القدسية إذا تجردت عن العلائق البدنية عرجت واتصلت بالملأ الأعلى ولم يبق لها حجاب فترى الكل كالمشاهد بنفسها أو بإخبار الملك لها وفيه سر يطلع عليه من يسر له.

اپ صلی الله علیہ وسلم کا قول کہ تمہارا درود مجھ تک پہنچ جاتا ہے جہاں کہیں بھی تم ہو یعنی .. تم جو درود کہتے ہو مجھ پر تو بے شک نفوس قدسیہ ( پاک جانیں) جب بدن کے عَلاقوں سے جدا ہوتی ہیں ، یہ ارواح بلند ہوتی ہیں اور  عالمِ بالا سے مل جاتی ہیں اور ان کے لئے کوئی پردہ نہیں رہتا اور سب کچھ خود  دیکھتی ہیں یا بادشاہت کی خبریں پاتی ہیں اور اس میں راز ہے جس کی اطلاع وہ پاتے ہیں جو کھوج کریں

اب کچھ شبھات کا ذکر کیا جاتا ہے جن میں التباس غیر مقلدین پیدا کرتے ہیں

شبہ نمبر١ : سلف کہتے تھے  قبور انبیاء  سے فیض نہیں لیا جا سکتا

قبور انبیاء سے فیض لینے کے عقیدہ کو امام ابن کثیر نے بھی اپنی کتب میں بیان کیا ہے    اس حوالے سے تفسیر ابن کثیر کا ایک متن پیش کیا جاتا ہے

وقد شرع النبي صلى الله عليه وسلم لأمته : إذا سلموا على أهل القبور أن يسلموا عليهم سلام من يخاطبونه، فيقول المسلم: السلام عليكم دار قوم مؤمنين، وهذا خطاب لمن يسمع ويعقل، ولولا ذلك لكان هذا الخطاب منزلة خطاب المعدوم والجماد، والسلف مجمعون على هذا وقد تواترت الآثار عنهم بأن الميت يعرف زيارة الحي له ويستبشر به.
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہ تعلیم دی ہے کہ جب وہ قبروں والوں کو سلام کہیں تو انہیں اسی طرح سلام کہیں جس طرح اپنے مخاطبین کو سلام کہتے ہیں۔ چنانچہ سلام کہنے والا یہ کہے : اَلسَّلامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمِ مُؤْمِنِينَ”اے مومنوں کے گھروں (قبروں) میں رہنے والو ! تم پر سلامتی ہو۔“ سلام کا یہ انداز ان لوگوں سے اختیار کیا جاتا ہے جو سنتے اور سمجھتے ہیں۔ اگر یہ سلام مخاطب کو کہا جانے والا سلام نہ ہوتا تو پھر مردوں کو سلام کہنا معدوم اور جمادات کو سلام کہنے جیسا ہوتا۔ سلف صالحین کا اس بات پر اجماع ہے۔ ان سے متواتر آثار مروی ہیں کہ میت، قبر پر آنے والے زندہ لوگوں کو پہچانتی ہے اور خوش ہوتی ہے۔

 [ تفسير ابن كثير : 325/6، بتحقيق سامي بن محمد سلامة، طبع دار طيبة للنشر والتوزيع]

غیر مقلد عالم  ابو یحیی نور پوری کے بقول یہ عبارت الحاقی ہے- مضمون مردے سنتے ہیں لیکن،  میں  لکھتے ہیں

تفسیر ابن کشیر کی یہ عبارت الحاقی ہے جو کہ کسی ایسے ناقص نسخے سے لی گئی ہے جس کا ناسخ نامعلوم ہے، لہذا اس کا کوئی اعتبار ہیں۔ اگر ثابت بھی ہو جائے تو اس پر کوئی صحیح دلیل موجود نہیں، لہٰذا یہ عبارت ناقابل استدال والتفات ہے۔
◈ ڈاکٹر اسماعیل عبدالعال تفسیر ابن کثیر کے نسخوں کے بارے میں کہتے ہیں :
وأرى من الواجب على من یتصدى لتحقيق تفسير ابن كثير تحقيقا علميا دقيقا، سيما من المآخذ، أن لا يعتمد على نسخة واحدة، بل عليه أن يجمع كل النسخ المخطوطة والمطبوعة، ويوازن بينها مع إثبات الزيادة والنقص، والتحريف والتصحيف.
’’ جو شخص تفسیر ابن کثیر کی دقیق اور علمی تحقیق کرنا چاہے، خصوصاً مختلف مآخذ کو مدنظر رکھتے ہوئے، تو میرے خیال میں اس پر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کسی ایک نسخے پر اعتماد نہ کر بیٹھے، بلکہ وہ تمام مخطوط اور مطبوع نسخوں کو جمع کرے، پھر زیادت و نقص اور تحریف و تصحیف کو سامنے رکھتے ہوئے سب نسخوں کا موازنہ کرے۔“ [ابن کثیر و منهجه فی التفسیر، ص : 128]
٭پھر تفسیر ابن کثیر جو سامی بن محمد سلامہ کی تحقیق کے ساتھ شائع ہوئی ہے، جس کا حوالہ بھی اوپر مذکور ہے، اس میں محقق نے پندرہ نسخوں کو مدنظر رکھا ہے۔ مذکورہ عبارت لکھنے کے بعد محقق لکھتے ہیں : زيادة منْ ت، أیعنی یہ عبارت نسخہ المحمدیۃ جو ترکی میں ہے، میں مذکور ہے۔ اس نسخے کا ناسخ (لکھنے والا) نامعلوم ہے۔ نیز یہ عبارت نسخہ ولي الله بن جار اللہ میں موجود ہے۔ اس کا ناسخ علی بن یعقوب جو کہ ابن المخلص کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔ یوں یہ دونوں نسخے قابل اعتماد نہ ہوئے۔
تفسیر ابن کثیر جو پانچ محققین کی تحقیق کے ساتھ پندرہ جلدوں میں شائع ہوئی ہے، اس کی پہلی طبع نسخہ أزھریۃ اور نسخہ دارالكتب کے تقابل کے ساتھ چھپی ہے۔ اس میں یہ عبارت نہیں ہے۔ یہ بات بھی اس عبارت کے مشکوک ہونے کی واضح دلیل ہے۔

راقم کہتا ہے کاش ایسا ہی ہوتا لیکن اب مزید دیکھیں کہ ابن کثیر  نے نہ صرف تفسیر لکھی بلکہ دیگر کتب بھی لکھی ہیں

ابن کثیر اپنی کتاب : البداية والنهاية ج ٧ ص ٩١ اور ٩٢  میں روایت نقل کرتے ہیں

وَقَالَ الْحَافِظُ أَبُو بَكْرٍ الْبَيْهَقِيُّ: أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَةَ وَأَبُو بكر الفارسي قالا: حدثنا أبو عمر بْنُ مَطَرٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَلِيٍّ الذُّهْلِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ مَالِكٍ قال: أصاب الناس قحط في زمن عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ اسْتَسْقِ اللَّهَ لِأُمَّتِكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَكُوا فَأَتَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في المنام فقال: ايت عمر فأقره منى السلام وأخبرهم أنهم مسقون، وقل له عليك بالكيس الْكَيْسَ. فَأَتَى الرَّجُلُ فَأَخْبَرَ عُمَرَ فَقَالَ: يَا رب ما آلوا إِلَّا مَا عَجَزْتُ عَنْهُ. وَهَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ.

ابن-کثیر

إس كي سند ضعیف ہے اعمش مدلس عن سے روایت کر رہا ہے جبکہ امام مالک سے عمر رضی الله عنہ تک سند نہیں ہے ابو صالح غیر واضح ہے افسوس ابن کثیر اتنی علتوں کے باوجود اس کو صحیح کہتے ہیں جبکہ قبر پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا سننا ثابت نہیں

لہذا ابن کثیر کی بد عقیدگی کی نشانی ہے

شبہ نمبر ٢ :  سلف کہتے تھے مردے نہیں بولتے

مردے نہیں بولتے پر ابو یحیی نور پوری  مضمون مردے سنتے ہیں لیکن میں  لکھتے ہیں

عہد فاروقی میں ایک نوجوان تھا۔ امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس سے بہت خوش تھے۔ دن بھر مسجد میں رہتا، بعد عشاء باپ کے پاس جاتا۔ راہ میں ایک عورت کا مکان تھا۔ وہ اس پر عاشق ہو گئی۔ ہمیشہ اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتی مگر جوان نہیں دیکھتا تھا۔ ایک رات قدم نے لغزش کی، ساتھ ہو لیا۔ دروازے تک گیا۔ جب اندر جانا چاہا، اللہ تعالیٰ یاد آیا اور بے ساختہ یہ آیت کریمہ زبان سے نکلی : ﴿إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُم مُّبْصِرُونَ﴾ آیت پڑھتے ہی غش کھا کر گرا۔ عورت نے اپنی کنیر کے ساتھ اٹھا کر اس کے دروازے پر پھینک دیا۔ باپ منتظر تھا۔ آنے میں دیر ہوئی۔ دیکھنے نکلا۔ دروازے پر بے ہوش پڑا پایا۔ گھر والوں کو بلا کر اندر اٹھوایا۔ رات گئے ہوش آئی۔ باپ نے حال پوچھا: کہا: خیریت ہے۔ کہا: بتا دے۔ ناچار قصہ بیان کیا۔ باپ بولا: جان پدر ! وہ آیت کون سی ہے ؟ جوان نے پھر پڑھی۔ پڑھتے ہی غش آیا۔ حرکت دی، مردہ حالت میں پایا۔ رات ہی نہلا کر کفنا کر دفن کر دیا۔ صبح کو امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے خبر پائی۔ باپ سے تعزیت کی اور خبر نہ دے کی شکایت فرمائی۔ عرض کی : اے امیر المؤمنین ! رات تھی۔ پھر امیر المؤمنین ساتھیوں کو لے کر قبر پر گئے۔ فقال عمر : يا فلان ! ولمن خاف مقام ربه جنتان . فأجابه الفتي من داخل القبر : يا عمر قد أعطانيهما ربى يا عمر ! ”سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے فلاں ! جو شخص اپنے رب کے سامنے جوابدہی سے ڈر جائے، اس کے لیے دو جنتیں ہیں۔ نوجوان نے قبر کے اندر سے جواب دیا : اے عمر ! اللہ تعالیٰ نے وہ دونوں جنتیں مجھے عنایت فرما دی ہیں۔ [ ذم الهوي لابن الجوزي : 252-253، تاريخ دمشق لابن عساكر : 450/45 ]
تبصرہ : 
٭اس واقعہ کی سند باطل ہے، کیونکہ :
اس میں یحییٰ بن ایوب غافقی مصری (م : 168ھ) کہتے ہیں :
سمعت من يذكر انهٔ كان فى زمن عمر . . . 
”میں نے ایک بیان کرنے والے کو سنا کہ عہد فاروقی میں۔۔۔“
یوں یہ سند سخت ”معضل“ ہے۔ نہ جانے وہ قصہ گو کون تھا اور اس نے کہاں سے یہ حکایات سنی تھی ؟
٭ امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ نے ایک قول کی سند بیان کرتے ہوئے کہا:
سمعت بعض أصحاب عبد الله (ابن المبارك ) . . . 
”میں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کے ایک شاگرد کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا۔۔۔“ [ مقدمة صحيح مسلم : 19 ]
٭ تو اس پر تبصرہ کرتے ہوئے :
٭ حافظ نووی رحمہ اللہ (631-676ھ) کہتے ہیں :
سمعت بعض أصحاب عبد الله، هذا مجهول، ولا يصح الاحتجاج به .
”امام اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ میں نے امام عبداللہ بن مبارک کے ایک شاگرد کو سنا ہے۔ یہ شاگرد مجہول ہے اور اس سند سے دلیل لینا صحیح نہیں۔“ [ شرح صحيح مسلم : 19 ]
مبہم اور نامعلوم لوگوں کی روایات پر اپنے عقائد و اعمال کی بنیاد رکھنا جائز نہیں۔

راقم کہتا ہے نور پوری کی بات صحیح ہے – افسوس عبد الوہاب النجدی کے نزدیک نورپوری ایک جاہل ہیں

عبد الوہاب النجدی نہ صرف سماع الموتی کے قائل تھے وہ مردوں کے کلام کے بھی قائل تھے اپنی کتاب احکام تمنی الموت میں لکھتے ہیں اور ترجمہ بریلوی عالم کرتے ہیں

تاریخ دمشق میں ابن عساکر نے عمرو بن جامع بن عمرو بن محمد بن حرب أبو الحسن الكوفي  کے ترجمہ میں اس روایت کو پیش کیا ہے

سند میں  يحيى بن أيوب الخزاعي مجھول ہے جو عمر رضی الله عنہ کا دور کسی مجھول سے نقل کر رہا ہے جس کا اس نے نام تک نہیں لیا

حیرت ہے کہ اس قسم کی  بے سر و پا روایات النجدی لکھتے ہیں اور دو دو عالم تحقیق میں شامل ہونے کے باوجود ایک بار بھی نہیں کہتے کہ یہ منقطع  روایت ہے مجہولوں کی روایت کردہ ہے

شبہ نمبر ٣ :  سلف کہتے تھے مردے نہیں سنتے

ابن تیمیہ فتاوی الکبریٰ ج ٣ ص ٤١٢ میں لکھتے ہیں

فَهَذِهِ النُّصُوصُ وَأَمْثَالُهَا تُبَيِّنُ أَنَّ الْمَيِّتَ يَسْمَعُ فِي الْجُمْلَةِ كَلَامَ الْحَيِّ وَلَا يَجِبُ أَنْ يَكُونَ السَّمْعُ لَهُ دَائِمًا ، بَلْ قَدْ يَسْمَعُ فِي حَالٍ دُونَ حَالٍ كَمَا قَدْ يُعْرَضُ لِلْحَيِّ فَإِنَّهُ قَدْ يَسْمَعُ أَحْيَانًا خِطَابَ مَنْ يُخَاطِبُهُ ، وَقَدْ لَا يَسْمَعُ لِعَارِضٍ يَعْرِضُ لَهُ ، وَهَذَا السَّمْعُ سَمْعُ إدْرَاكٍ ، لَيْسَ يَتَرَتَّبُ عَلَيْهِ جَزَاءٌ ، وَلَا هُوَ السَّمْعُ الْمَنْفِيُّ بِقَوْلِهِ : { إنَّك لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى } فَإِنَّ الْمُرَادَ بِذَلِكَ سَمْعُ الْقُبُورِ وَالِامْتِثَالِ 

پس یہ نصوص اور اس طرح کی امثال واضح کرتی ہیں کہ بے شک میّت زندہ کا کلام سنتی ہے اور یہ واجب نہیں آتا کہ یہ سننا دائمی ہو بلکہ یہ سنتی ہے حسب حال جیسے  زندہ سے پیش اتا ہے پس بے شک کبھی کھبی یہ سنتی ہے مخاطب کرنے والے کا خطا ب، .. اور یہ سنا ادرک کے ساتھ ہے  اور یہ سننا الله کے قول  { إنَّك لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى}  کے منافی نہیں جس سے مراد قبروں اور الِامْتِثَالِ  (تمثیلوں) کاسننا ہے

ابن تیمیہ مجموع الفتاوى  ج ٤ ص ٢٧٣ پر لکھتے ہیں

أَمَّا سُؤَالُ السَّائِلِ هَلْ يَتَكَلَّمُ الْمَيِّتُ فِي قَبْرِهِ فَجَوَابُهُ أَنَّهُ يَتَكَلَّمُ وَقَدْ يَسْمَعُ أَيْضًا مَنْ كَلَّمَهُ؛ كَمَا ثَبَتَ فِي الصَّحِيحِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: إنَّهُمْ يَسْمَعُونَ قَرْعَ نِعَالِهِمْ

اور سائل کا سوال کہ کیا میت   قبر میں کلام کرتی ہے؟ پس اس کا جواب ہے بے شک وہ بولتی ہے اور سنتی ہے جو اس سے کلام کرے ، جیسا صحیح میں نبی صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سے مروی ہے کہ بے شک وہ جوتوں کی چآپ سنتی ہے

ابن تیمیہ ج ١ ص ٣٤٩ پر لکھتے ہیں

وَقَدْ ثَبَتَ فِي الصَّحِيحَيْنِ وَغَيْرِهِمَا أَنَّ الْمَيِّتَ يَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِهِمْ إذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ فَهَذَا مُوَافِقٌ لِهَذَا فَكَيْفَ يَدْفَعُ ذَلِكَ ؟ وَمِنْ الْعُلَمَاءِ مَنْ قَالَ : إنَّ الْمَيِّتَ فِي قَبْرِهِ لَا يَسْمَعُ مَا دَامَ مَيِّتًا كَمَا قَالَتْ عَائِشَةُ

اور بے شک صحیحین سے یہ ثابت ہے اور دیگر کتب سے بے شک میت جوتوں کی چاپ سنتی ہے جب دفنانے والے پلٹتے ہیں پس یہ موافق ہے اس (سننے ) سے لہذا اس کو کیسے رد کریں؟ اور ایسے علماء بھی ہیں جو کہتے ہیں : بے شک میت قبر میں نہیں سنتی جب تک کہ وہ مردہ ہے جیسے کہ عائشہ  (رضی اللہ تعالی عنہا) نے کہا

 

البانی الایات البینات از نعمان الالوسی میں تعلیق میں لکھتے ہیں

وأما حديث ” من صلى علي عند قبري سمعته ومن صلى علي نائيا أبلغته ” فهو موضوع كما قال شيخ الإسلام ابن تيمية في ” مجموع الفتاوى ” ( 27 / 241 ) وقد خرجته في ” الضعيفة ” ( 203 ) . ولم أجد دليلا على سماعه صلى الله عليه وسلم سلام من سلم عند قبره وحديث أبي داود ليس صريحا في ذلك فلا أدري من أين أخذ ابن تيمية قوله ( 27 / 384 ) : أنه صلى الله عليه وسلم يسمع السلام من القريب

اور جہاں تک حدیث جس نے میری قبر پر درود پڑھا اس کو میں سنتا ہوں اور جس نے دور سے پڑھا وہ مجھے پہنچایا جاتا ہے کا تعلق ہے تو پس وہ  گھڑی ہوئی ہے  جیسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے مجموع الفتاوى ” ( 27 / 241 )  میں کہا اور اس کی تخریج میں نے الضعيفة ” ( 203 ) میں کی اور مجھے اس کی دلیل نہیں ملی کہ نبی صلى الله عليه وسلم قبر کے پاس پڑھے جانے والا درود و سلام سنتے ہیں اور ابو داود کی حدیث اس میں واضح نہیں اور نہیں معلوم کہ ابن تیمیہ نے کہاں سے پکڑ لیا قول ( 27 / 384 )  کہ نبی صلى الله عليه وسلم قریب سے پڑھے جانے والا سلام سنتے ہیں

 

عصر حاضر میں جب ان عقائد پر ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ نے تیشہ چلایا تو نصرت ائمہ کی خاطر علماء کی وہ جماعت جو فکری انتشار کا شکار ہیں انہوں نے انہی شخصیات کا دفاع کرنے کی ٹھانی  لیکن چلتے چلتے  اس کا اقرار کیا کہ امام ابن تیمیہ اور ابن قیم اور شاہ ولی الله کے قلم سے تصوف کے شجر کی آبیاری ہوتی رہی ہے

غیر مقلد عالم عبد الرحمان کیلانی مضمون روح عذاب قبر اور سماع الموتی میں لکھتے ہیں

دوسری طرف علماء کا ایک طبقہ ایسا بھی تھا جس نے کبوتر کی طرح آنکھ بند کر کے التباس پیدا کرنے کی راہ اپنائی چانچہ  زبیر علی زئی لکھتے ہیں

http://www.tohed.com/2014/09/blog-post_80.html

میرے علم کے مطابق ابن تیمیہ اور ابن القیم رحمہما اللہ کی کتابوں میں شرک اکابر کا کوئی ثبوت نہیں ہے ، تاہم ابن القیم کی ثابت شدہ “کتاب الروح” اور دیگر کتابوں میں ضعیف و مردود روایات ضرور موجود ہیں۔ یہ دونوں حضرات مردوں سے مدد مانگنے کے قائل نہیں تھے ، رہا مسئلہ سماع موتیٰ کا تو یہ سلف صالحین کے درمیان مختلف فیہا مسئلہ ہے ،اسے کفر و شرک سمجھنا غلط ہے

سوال یہ ہے کہ  اگر یہ مسئلہ کفر و شرک کا نہیں تو اس پھر علمی ذوق کی تسکین کے لئے کیا مردے سنتے ہیں کیوں لکھی گئی – اس مسئلہ پر تو  پر بحث ہی  بےکار ہے- اسی قبیل کے ایک دوسرے عالم   خواجہ محمد قاسم کی بھی یہی رائے ہے کہ  سماع الموتی کا مسئلہ شرک کا چور دروازہ نہیں وہ کتاب کراچی کا عثمانی مذھب میں لکھتے ہیں

مسعود احمد ذہن پرستی میں لکھتے ہیں

سماع الموتی کے قائلین علماء کا دفاع کرتے ہوئے ایک اہل حدیث عالم لکھتے ہیں

صرف اتنی بات ہے: ﴿إِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰ﴾اور ﴿وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ ﴾ جس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں کے اسماع موتی (مردوں کو سنانے ) کی نفی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ درج بالا آیات سے ایک آیت کریمہ میں آیا ہے: ﴿إِنَّ اللّٰہَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآء ﴾ کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے ، سنادیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے اسماع موتی کا اثبات ہے ، جن مردوں کو اللہ تعالیٰ چاہے سنا دے ، اگر وہ اللہ تعالیٰ کے سنانے سے بھی نہ سنیں تو اللہ تعالیٰ کا سنانا چہ معنی دارد؟ تو جو لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ بعض موتی بعض اوقات بعض چیزیں اللہ تعالیٰ کے سنانے سے سن لیتے ہیں، جیسے خفق نعال اور قلیب بدر والی احادیث میں مذکور ہوا تو ایسے لوگ نہ قرآنِ مجید کی کسی آیت کا انکار کرتے ہیں اور نہ ہی کسی حدیث کا۔ البتہ جو لوگ یہ نظریہ اپنائے ہوئے ہیں کہ کوئی مردہ کسی وقت بھی کوئی چیز نہیں سنتا، حتی کہ اللہ تعالیٰ کے سنانے سے بھی نہیں سنتا تو انہیں غور فرمانا چاہیے کہیں آیت:﴿إِنَّ اللّٰہَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآء﴾اور احادیث خفق نعال اور احادیث قلیب بدر کا انکار تو نہیں کر رہے؟

مسئلہ الله کی قدرت کا نہیں اس کے قانون کا ہے  ان اہل حدیث عالم کی بات جہاں ختم ہوتی ہے وہیں سے بریلوی مکتب فکر کی بات شروع ہوتی ہے

مردے سنتے ہیں ! یہی تو تصوف کی طرف پہلا قدم ہے- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا نے اس بات کا صریح انکار کیا کہ مردے سنتے ہیں اور ابن عمر رضی الله عنہ نے بھی   جب ابن زبیر رضی الله عنہ کی لاش پر اسماء رضی الله عنہا کو  روتے دیکھا تو کہا ارواح اللہ کے پاس ہیں

سننے کے لئے عود روح ضروری سمجھا جاتا ہے لہذا اس سے متعلق البراء بن عازب رضی الله عنہ سے منسوب کردہ شیعہ زاذان کی منکر روایت کا دفاع کیا جاتا ہے

 

شبہ نمبر ٤ :  سلف کہتے تھے مردے نہیں دیکھتے

غیر مقلد عالم ابو یحیی نور پوری  سوال کا جواب دیتے ہیں کہ مردے نہیں دیکھتے

https://www.youtube.com/watch?v=mCeQVoz26Q0

اگر ان کا بولنا دیکھنا دنیا سے تعلق رکھتا ہے تو ان کے پاس رشتہ دار نئے نئے کپڑے پہن کر جائیں …. عقیدہ صرف سننے کا رکھا جاتا ہے

ابن قیّم کتاب الروح میں لکھتے ہیں

وَالسَّلَف مجمعون على هَذَا وَقد تَوَاتَرَتْ الْآثَار عَنْهُم بِأَن الْمَيِّت يعرف زِيَارَة الْحَيّ لَهُ ويستبشر بِهِ

اور سلف کا اس پر اجماع ہے اور متواتر آثار سے پتا چلتا ہے کہ میّت قبر پر زیارت کے لئے آنے والے کو پہچانتی ہے اور خوش ہوتی ہے

كتاب اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم للإمام ابن تيميه ج ٢ ص ٢٦٢  دار عالم الكتب، بيروت، لبنان میں ابن تیمیہ لکھتے ہیں

فأما استماع الميت للأصوات، من القراءة أو غيرها – فحق.

پس میت کا آوازوں کو،  جیسے قرات اور دیگر کا سننا  حق ہے.

ابن تیمیہ مجموع الفتاوى ج ٢٨ ص ١٤٧ میں کہتے ہیں

وَقَالَ: {أَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنْ الصَّلَاةِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَلَيْلَةَ الْجُمُعَةِ فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ. فَقَالُوا: كَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَيْك؟ وَقَدْ أَرِمْت أَيْ بَلِيتَ. قَالَ إنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ} فَأَخْبَرَ أَنَّهُ يَسْمَعُ الصَّلَاةَ وَالسَّلَامَ مِنْ الْقَرِيبِ وَأَنَّهُ يَبْلُغُهُ ذَلِكَ مِنْ الْبَعِيدِ.

رسول الله نے فرمایا مجھ پر جمعہ کے دن درود  کہو اور جمعہ کی رات  کیونکہ تمہارا درود مجھ  پر پیش ہوتا ہے – اصحاب نے کہا اپ پر کیسے پیش ہوتا ہے ؟ جبکہ اپ تو مٹی ہو جائیں گے ؟ فرمایا الله نے زمیں پر حرام کر دیا ہے کہ انبیاء کے جسموں کو کھائے پس اپ صلی الله علیہ وسلم نے خبر دی کہ اس قریب سے کہا جانے والا سلام سنتے ہیں اور دور والا پہنچا دیا جاتا ہے 

كتاب فيه اعتقاد الإمام أبي عبدالله احمد بن حنبل – المؤلف : عبد الواحد بن عبد العزيز بن الحارث التميمي الناشر : دار المعرفة – بيروت  کے مطابق امام احمد کہتے تھے

كان يقول إن الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون وأن الميت يعلم بزائره يوم الجمعة بعد طلوع الفجر وقبل طلوع الشمس

وہ  (امام احمد)کہا کرتے تھے کہ بے شک انبیاء قبروں میں زندہ ہیں نماز پڑھتے ہیں اور میت زائر کو پہچانتی ہے جمعہ کے دن، فجر کے بعد سورج طلوع ہونے سے پہلے

عائشہ رضی الله عنہا کے مسلسل پردہ والی روایت  سے دلیل لیتے ہوئے تھذیب الکال کے مولف  امام المزی کہا کرتے تھے

قال شيخنا الحافظ عماد الدين بن كثير ووجه هذا ما قاله شيخنا الإمام أبو الحجاج المزي أن الشهداء كالأحياء في قبورهم و هذه أرفع درجة فيهم

حافظ ابن کثیر کہتے ہیں اسی وجہ  سے ہمارے شیخ المزی کہتے ہیں کہ شہداء  اپنی قبروں میں زندوں کی طرح ہیں اور یہ ان کا بلند درجہ ہے

الإجابة فيما استدركته عائشة على الصحابة للإمام الزركشي 

منصور بن يونس بن صلاح الدين ابن حسن بن إدريس البهوتى الحنبلى (المتوفى: 1051هـ)  اپنی کتاب كشاف القناع عن متن الإقناع  میں لکھتے ہیں

قَالَ الشَّيْخُ تَقِيُّ الدِّينِ: وَاسْتَفَاضَتْ الْآثَارُ بِمَعْرِفَةِ الْمَيِّتِ بِأَحْوَالِ أَهْلِهِ وَأَصْحَابِهِ فِي الدُّنْيَا وَأَنَّ ذَلِكَ يُعْرَضُ عَلَيْهِ وَجَاءَتْ الْآثَارُ بِأَنَّهُ يَرَى أَيْضًا وَبِأَنَّهُ يَدْرِي بِمَا فُعِلَ عِنْدَهُ وَيُسَرُّ بِمَا كَانَ حَسَنًا وَيَتَأَلَّمُ بِمَا كَانَ قَبِيحًا وَكَانَ أَبُو الدَّرْدَاءِ يَقُولُ ” اللَّهُمَّ إنِّي أَعُوذُ بِك أَنْ أَعْمَلَ عَمَلًا أُجْزَى بِهِ عِنْدَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ رَوَاحَةَ وَكَانَ ابْنَ عَمِّهِ وَلَمَّا دُفِنَ عُمَرُ عِنْدَ عَائِشَةَ كَانَتْ تَسْتَتِرُ مِنْهُ، وَتَقُولُ ” إنَّمَا كَانَ أَبِي وَزَوْجِي فَأَمَّا عُمَرُ فَأَجْنَبِيٌّ ” وَيَعْرِفُ الْمَيِّتُ زَائِرَهُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ قَالَهُ أَحْمَدُ.

ابن تیمیہ کہتے ہیں اور جو اثار ہیں ان سے معلوم ہوتا ہےکہ میت اپنے احوال سے اور دنیا میں اصحاب سے با خبر ہوتی ہے اور اس پر (زندوں کا عمل) پیش ہوتا ہے اور وہ دیکھتی اور جانتی ہے جو کام اس کے پاس ہو اور اس میں سے جو اچھا ہے اس پر خوش ہوتی اور اس میں سے جو برا ہو اس پر الم محسوس کرتی ہے اور ابو الدرداء کہتے تھے اے الله میں پناہ مانگتا ہوں اس عمل سے جس سے میں عبد الرحمان بن رَوَاحَةَ  کے آگے شرمندہ ہوں اور وہ ان کے چچا زاد تھے اور جب عمر دفن ہوئے تو عائشہ ان سے پردہ کرتیں اور کہتیں کہ یہ تو میرے باپ اور شوہر تھے لیکن عمر تو اجنبی ہیں اور امام احمد کہتے ہیں کہ میت زائر کو جمعہ کے دن طلوع سورج سے پہلے پہچانتی ہے

البهوتى حنابلہ کے مشھور امام ہیں

الغرض ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ  کی  بات صحیح ہے کہ سلف امت کے عقائد میں  نصوص کی مخالفت تھی اور ان عقائد کو اپنایا گیا جو تھے ہی غلط اور مقصد ان کا حیات فی القبر کا اثبات تھا

حیرت اس امر پر ہے کہ جب غیر مقلدین کے نزدیک بھی یہ عقائد درست نہیں تو پھر ان  پر بطل پرستی کیوں طاری ہے ؟

دوغلا پن

ایک اسلامی غیر مقلد فورم والوں کا کہنا ہے کہ سلام پر روح لوٹائے جانے والی روایت حسن ہے لنک اور راوی صحیح مسلم کا ہے لنک

اسی فورم پر یہی عالم کہتے ہیں کہ روایت ضعیف ہے لنک

پہلے کہا گیا تھا کہ ویسے یاد رہے صحیح مسلم کے راوی کو ۔۔ضعیف ۔۔قرار دینا کوئی مذاق نہیں لیکن بعد میں یہ مذاق زبیر علی زئی سے منسوب کیا گیا ہے

63 thoughts on “تصوف کی جڑ – حیات فی القبر

  1. وجاہت

    الله آپ کو جزایۓ خیر دے – آپ نے ایک بہت علمی موضوع پر بات کی ہے

    دوسری طرف محدث فورم پر لمبا چوڑا تھریڈ لکھ دیا گیا

    لنک

    http://forum.mohaddis.com/threads/%D9%85%D8%B1%D8%AF%DB%92-%D8%B3%D9%86%D8%AA%DB%92-%DB%81%DB%8C%DA%BA-%D9%84%DB%8C%DA%A9%D9%86-%D8%A7%D8%A8%D9%88%DB%8C%D8%AD%DB%8C%DB%8C%D9%B0-%D9%86%D9%88%D8%B1%D9%BE%D9%88%D8%B1%DB%8C-%EF%B7%BE.35884/

    وہاں اگر کوئی حق بات کرے تو اس کو ماڈریٹ پر لگا دیا جاتا ہے یا بین کر دیا جاتا ہے – میں نے بھی جب حق پیش کیا تو مجھے بھی وہاں ماڈریٹ کر دیا گیا – میری پوسٹس کو منظور نہیں کیا جاتا

    الله ان لوگوں کو ہدایت دے اور وہ اپنے بابوں کی اندھی تقلید سے نکل کر حق بات کو قبول کر سکیں

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      تصوف ایک ایسا لٹریچر ہے جس میں صرف زہد ہوتا ہے – دنیا سے غیر ضروری بے زاری کا ذکر ہوتا ہے اور بس الله تک پہنچنے کا ذکر ہوتا ہے – اب جو الله تک پہنچ گئے یعنی مدفون یا مقبور ان سے متصوفین کا غیر معمولی لگاؤ ہوا – اس کے پیچھے بد نیتی نہیں تھی بس زہد تھا جس کی بنا پر ایسا کیا گیا لیکن اس صنف میں جو کتب تھیں وہ نہایت غلط سلط روایات کا مجموعہ تھیں- لوگوں نے ان کو قبول کر لیا اور پھر صحیح روایات کو بھی اسی سانچے میں ڈھال دیا گیا

      مسلک پرست انہی ضعیف روایات کی عینک سے صحیح کی تشریح کرتے ہیں جس سے وہ مفہوم نکلتا ہے جو قرانی عقائد کے خلاف ہوتا ہے
      اس پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے جو ١١٠٠ سو سال سے چلا آ رہا ہے

      سلف میں ابن تیمیہ قبوری تصوف کے انکاری نہیں تھے وہ روح کو مسلسل ایک کرنٹ کی طرح سمجھتے تھے جو عالم ارض و سما میں کہیں بھی جا سکتی ہے وہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے درود سننے کے قائل تھے اور سماع الموتی میں مردوں کے سلام سننے کے اقراری تھے
      اس طرح وہ تصوف کی تمام شقوں کو قبول کرتے تھے یہاں تک کہ ابن قیم نے تو باقاعدہ تصوف پر کتاب تک لکھی ہے
      یہ لوگ صرف استمداد کے خلاف تھے کہ وسیلہ نہیں لیا جا سکتا ہر چند کہ مردے قبروں میں زندہ ہیں سنتے ہیں قرآن کی قرات سنتے ہیں اور نبی صلی الله علیہ وسلم اذان بھی دیتے ہیں اگر مسجد النبی میں کسی وجہ سے اذان نہ ہو سکے

      اپ نے جس فورم کا ذکر کیا وہاں علماء دوغلے ہیں جو ان عقائد پر جب جرح کرتے ہیں تو ابن تیمیہ و ابن قیم کے حوالوں میں وہ الفاظ چنتے ہیں جن سے لگے کہ گویا یہ حضرات بھی فرقہ اہل حدیث جیسا عقیدہ رکھتے تھے جبکہ ایسا حقیقت میں ہے ہی نہیں
      چونکہ یہ ٹریننگ کا حصہ ہے کہ عوام کو سلفی شخصیت پرست بنا دیا جائے لہذا مقلدین کی برائی کرتے یہ لوگ خود مقلد بن چکے ہیں

      بقول شاعر (ابن تیمیہ و ابن قم کو اہل حدیث) : نظر میں سبھوں کی خدا کر چلے

      Reply
  2. Islamic-Belief Post author

    هُرَيْرَةَ قَالَ إِذَا خَرَجَتْ رُوحُ الْمُؤْمِنِ تَلَقَّاهَا مَلَکَانِ يُصْعِدَانِهَا قَالَ حَمَّادٌ فَذَکَرَ مِنْ طِيبِ رِيحِهَا وَذَکَرَ الْمِسْکَ قَالَ وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَائِ رُوحٌ طَيِّبَةٌ جَائَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْکِ وَعَلَی جَسَدٍ کُنْتِ تَعْمُرِينَهُ فَيُنْطَلَقُ بِهِ إِلَی رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ ثُمَّ يَقُولُ انْطَلِقُوا بِهِ إِلَی آخِرِ الْأَجَلِ قَالَ وَإِنَّ الْکَافِرَ إِذَا خَرَجَتْ رُوحُهُ قَالَ حَمَّادٌ وَذَکَرَ مِنْ نَتْنِهَا وَذَکَرَ لَعْنًا وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَائِ رُوحٌ خَبِيثَةٌ جَائَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ قَالَ فَيُقَالُ انْطَلِقُوا بِهِ إِلَی آخِرِ الْأَجَلِ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ فَرَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَيْطَةً کَانَتْ عَلَيْهِ عَلَی أَنْفِهِ هَکَذَا
    عبیداللہ بن عمر قواریری سے حماد بن زید نے ان سے بدیل نے ان سے عبداللہ بن شقیق نے ان سے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کیا کہ جب مومن کی روح نکلتی ہے تو دو فرشتے اسے لے کر اوپر چڑھتے ہیں- حَمَّادٌ نے کہا پس انہوں نے ذکر کیا اسکی اچھی خوشبو کا اور مسک کا اور ابو ہریرہ نے کہا تو آسمان والے کہتے ہیں کہ پاکیزہ روح زمین کی طرف سے آئی ہے اللہ تعالیٰ تجھ پر اور اس جسم پر کہ جسے تو آباد رکھتی تھی رحمت نازل فرمائے پھر اس روح کو اللہ عزوجل کی طرف لے جایا جاتا ہے پھر اللہ فرماتا ہے کہ تم اسے آخری وقت کے لئے لے جاؤ- آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کافر کی روح جب نکلتی ہے تو آسمان والے کہتے ہیں کہ خبیث روح زمین کی طرف سے آئی ہے پھر اسے کہا جاتا ہے کہ تم اسے آخری وقت کے لئے لے جاؤ – ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر اپنی ناک مبارک پر اس طرح لگالی تھی

    Reply
  3. jawad

    زبیر علی زئی کہتے کہتے ہیں

    “رہا مسئلہ سماع موتیٰ کا تو یہ سلف صالحین کے درمیان مختلف فیہا مسئلہ ہے ،اسے کفر و شرک سمجھنا غلط ہے”

    تو پھر قرآن اپنے پڑھنے والوں سے یہ کیوں کہتا ہے؟؟

    وَٱلَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْ۔ًۭٔا وَهُمْ يُخْلَقُونَ ﴿20﴾أَمْوَٰتٌ غَيْرُ أَحْيَآءٍۢ ۖ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ (سورۃ النحل،آیت20-21)​
    اور جن لوگوں کو یہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ کوئی چیز بھی تو نہیں پیدا کرسکتے بلکہ خود پیدا کیے گئے ہیں- لاشیں ہیں بےجان۔ ان کو یہ بھی نہیں معلوم کہ کب (زندہ کر کے ) اٹھائے جائیں گے

    ظاہر ہے کہ جب مردے کا سننا ثابت ہو گیا تو زندگی ثابت ہو گئی – زندگی ثابت ہو گئی- تو پھر ان کو پکارنا کیوں نہ ہو -گا-؟؟ یعنی ایک طرف شرک کا جواز فراہم کرو، اور جب کوئی شرک کرے تو قصور وار وہ خود ہے

    یہی زبیرعلی زئی ہیں جو سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی تنقیص اوران کو فاسق و فاجر قرار دینے والی روایتوں کو صحیح مانتے ہیں- اور اہل حدیث عالم کفایت الله سنابلی کو جھوٹا کہتے ہیں (اس بنا پر کہ کفایت الله نے سیدنا امیر معاویہ رضی الله عنہ کی تنقیص سے متعلق تمام روایات کو ضعیف و مردود قرار دیا

    الله ایسے عالموں کے فہم سے ہمیں دور رکھے- آمین

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      جی مردے میں شعور نہیں ہے اسی لئے ڈاکٹر عثمانی کہتے تھے کہ قرع النعال والی روایت میں سوال جواب اصل میں عالم بالا میں جہاں روح کا مقام ہے وہاں ہوتا ہے
      اور چونکہ جواب دینے کے لئے شعور ضروری ہے یہ مسالک باطلہ اس کے قائل ہیں کہ مردے میں روح آئی اور اس میں شعور بھی ہے
      کہتے ہیں مردے کو اس کا شعور نہیں کہ کب اٹھے گا بس باقی چیزوں کا ہے

      لیکن قرآن میں اس کی نفی موجود ہے کہ جن کو پکارا جا رہا ہے ان کو یہ سمجھ کر ہی پکارا جا رہا ہے کہ مردے انسانوں کی بات سن سکتے ہیں اور الله تعالی کا فرمان ہے کہ اگر ان کو کچھ معلوم ہوتا تو کم از کم یہ تو پتا ہوتا ہے کہ کب اس گڑھے سے نکلیں گے

      فہم سلف اصل میں سلف کے بعض لوگوں کے کندھوں پر بندوق چلا کر لوگوں کو دھوکہ دینے کا نام ہے
      کیا ابن تیمیہ اس کے قائل نہیں کہ قبر نبوی سے اذان بھی ہوتی ہے بالکل ہیں اس روایت سے اپنے عقائد کا اثبات کرتے تھے
      آج اس کی پردہ پوشی کرتے رہتے ہیں

      Reply
      1. jawad

        آپ کی بات درست ہے

        اصل میں اہل حدیث کے اکثر علماء احادیث نبوی کو اہمیت دیتے دیتے خود قرانی نصوص کے منکر ہو گئے- پچھلی صدی میں جو منکر حدیث پیدا ہوے (جیسے مرزا قادیانی، پرویز چکڑالوی، وحید الدین خان، فراہی، امین اصلاحی وغیرہ) انہوں نے اہل سنّت کی صفوں میں ایسی ہلچل مچائی کہ جس کی بنا پر دور حاضر کے اہل سلف کہلانے والوں میں ایسی ہیجانی کیفیت پیدا ہوئی کہ جو کوئی ان سے چیدہ چیدہ مگر دین کے انتہائی اہم مسائل (سماع موتی وغیرہ ) پر اختلاف کرتا – تو وہ بھی ان کے نزدیک منکرین حدیث میں شامل ہوجاتا – کیوں کہ جو ان کے اکابر کہہ گئے وہی ان کے لئے حرف آخر ہے – اب چاہے معامله سماع موتی کا ہو یا کسی صحابی رسول کی تنقیص کا ہو- اگر ان کے اکابر نے بیان کیا ہے تو کسی صورت قابل رد نہیں – یہ توڑ مڑوڑ کر کسی طرح ضعیف روایات کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش میں ہی اپنا وقت برباد کرتے رہتے ہیں- چاہے اس کے لئے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی الله عنہ کے بارے میں ہی انہیں کہنا پڑے کہ وہ سماع موتی کے معاملے میں اجتہادی غلطی پر تھیں

        Reply
  4. Islamic-Belief Post author

    ⇓ صحیح مسلم کی تخلیق کائنات سے متعلق روایت پر سوال ہے
    https://www.islamic-belief.net/q-a/علم-الحدیث/

    اس میں ہے اور نور بدھ کو تخلیق ہوا
    یہ صحیح ہے
    ——-

    معراج پر ایک نور دیکھا یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ نبی صلی الله علیہ وسلم سدرہ المنتہی سے آگے نہیں گئے جہاں عرش اور اس کا ماحول تھا
    لہذا نہ حجاب عظمت دیکھا نہ اس کا نور دیکھا

    ⇑ صحیح مسلم کی روایت کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے ایک نور دیکھا پر سوال ہے
    https://www.islamic-belief.net/q-a/عقائد/الأسماء-و-الصفات/

    —–
    https://www.islamic-belief.net/شب-معراج-سے-متعلق/
    اس بلاگ میں اس کا تفصیلی رد ہے

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      ⇑ کیا نبی (ص) نے الله کو دیکھا؟
      https://www.islamic-belief.net/q-a/عقائد/الأسماء-و-الصفات/

      کتاب الاایمان ابن مندہ میں روایت ہے کہ

      أَنْبَأَ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ يُوسُفَ الشَّيْبَانِيُّ، ثَنَا أَبِي، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، ثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، ثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ زِيَادِ بْنِ الْحُصَيْنِ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي قَوْلِهِ: {مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى} [النجم: 11] ، قَالَ: «رَأَى مُحَمَّدٌ رَبَّهُ بِقَلْبِهِ مَرَّتَيْنِ» . رَوَاهُ الثَّوْرِيُّ، وَابْنُ نُمَيْرٍ

      ابن عبّاس کہتے ہیں الله کا قول : {مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى} [النجم: 11] اس کے دل نے جھوٹ نہیں ملایا جو اس نے دیکھا کے لئے کہا محمّد صلی الله علیہ وسلم نے اپنے رب کو دو دفعہ قلب سے دیکھا ایسا ہی ثوری اور ابن نمیر روایت کرتے ہیں

      یہ ابن عباس رضی الله عنہ کا تفسیری قول ہے عائشہ رضی الله عنہا کا اس کے خلاف ہے
      یہ اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم کا اس پر اختلاف ہے
      و الله اعلم

      خواب میں رویت باری تعالی پر بہت سی روایات ہیں جن میں کوئی بھی صحیح نہیں ہے
      https://www.islamic-belief.net/خواب-میں-رویت-باری-تعالی/

      Reply
  5. raneem

    بھائی ایک یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ عذاب قبر کے مسئلے پر سلف صالحین نے کفر کا فتوی لگایا؟؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      عذاب قبر کے انکار پر محدثین نے کفر کا فتوی نہیں لگایا – لیکن خلق قرآن پر لگایا ہے
      اب بحث کس بات پر ہے ؟ خلق قرآن کے مسئلہ پر مسلمانوں پر کفر کا فتوی لگانے کی محدثین کے پاس کیا دلیل ہے ؟ پہلے اپ یہ دلیل لے کر آئیں پھر بات ہو گی

      Reply
  6. raneem

    احمد بن حنبل نے قرآن کو مخلوق کہنے والوں پر تکفیر کی اس کا حوالہ چاہیے مہربانی ہو گی.

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      امام احمد کے اپنے بیٹے عبدللہ بن احمد اپنی کتاب السنة میں لکھتے ہیں

      سألت أبي رحمه الله قلت : ما تقول في رجل قال : التلاوة مخلوقة وألفاظنا بالقرآن مخلوقة والقرآن كلام الله عز وجل وليس بمخلوق ؟ وما ترى في مجانبته ؟ وهل يسمى مبتدعا ؟ فقال : » هذا يجانب وهو قول المبتدع ، وهذا كلام الجهمية ليس القرآن بمخلوق

      میں نے اپنے باپ احمد سے پوچھا : آپ کیا کہتے ہیں اس شخص کے بارے میں جو کہتا ہے کہ قرآن کی تلاوت اور ہمارے الفاظ مخلوق ہیں اور قرآن الله عز وجل کا کلام غیر مخلوق ہے – اس کے قریب جانے پر آپ کیا کہتے ہیں اور کیا اس کو بدعتی کہا جائے گا ؟ امام احمد نے جواب میں کہا اس سے دور رہا جائے اور یہ بد عت والوں کا قول ہے اور الجهمية کا قول ہے- قرآن مخلوق نہیں

      [ص:165]

      سَمِعْتُ أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ، يَقُولُ: ” مَنْ قَالَ: الْقُرْآنُ مَخْلُوقٌ فَهُوَ عِنْدَنَا كَافِرٌ
      میں نے باپ کو کہتے سنا جو قرآن کو مخلوق کہے وہ ہمارے نزدیک کافر ہے

      سَمِعْتُ أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ، وَسَأَلَهُ عَلِيُّ بْنُ الْجَهْمِ عَنْ مَنْ قَالَ: بِالْقَدَرِ يَكُونُ كَافِرًا؟ قَالَ: ” إِذَا جَحَدَ الْعِلْمَ، إِذَا قَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يَكُنْ عَالِمًا حَتَّى خَلَقَ عِلْمًا فَعَلِمَ فَجَحَدَ عِلْمَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَهُوَ كَافِرٌ ”
      میں نے باپ سے سنا اور ان سے علی بن الجھم پر سوال ہوا … کہا کافر ہے

      181 – سَمِعْتُ أَبِيَ رَحِمَهُ اللَّهُ يَقُولُ: «مَنْ قَالَ لَفْظِي بِالْقُرْآنِ مَخْلُوقٌ فَهُوَ جَهْمِيُّ»،
      میں نے باپ کو کہتے سنا : جو لفظی با القرآن کا کہے وہ جھمی ہے

      182 – سَمِعْتُ أَبِيَ رَحِمَهُ اللَّهُ، وَسُئِلَ عَنِ اللَّفْظِيَّةِ، فَقَالَ: ” هُمْ جَهْمِيَّةٌ وَهُوَ قَوْلُ جَهْمٍ، ثُمَّ قَالَ: لَا تُجَالِسُوهُمْ “،
      اللفظیہ- یہ جہمیہ میں سے ہیں جو جھم کا قول ہے ان کے ساتھ مت بیٹھو

      183 – سَمِعْتُ أَبِيَ رَحِمَهُ اللَّهُ، يَقُولُ: «كُلُّ مَنْ يَقْصِدُ إِلَى الْقُرْآنِ بِلَفْظٍ أَوْ غَيْرِ ذَلِكَ يُرِيدُ بِهِ مَخْلُوقٌ فَهُوَ جَهْمِيُّ»، ”
      میں نے باپ کو کہتے سنا : جو کوئی بھی اس کا ارادہ کرے کہ قرآن میں لفظ کا کہے یا کچھ اور اس سے مراد مخلوق ہو تو وہ جھمی ہے

      لفظی بالقرآن کے قائل امام بخاری اور امام الکرابیسی ہیں دونوں محدث ہیں اور دونوں امام احمد کے نزدیک جھمی ہیں
      ——
      ⇑ صحیح بخاری اور امام احمد سے رو گردانی
      https://www.islamic-belief.net/history/

      ⇑ آیا قرآن مخلوق ہے یا نہیں۔ اگر مخلوق نہیں ہے تو پھر کیا ہے ؟
      https://www.islamic-belief.net/q-a/عقائد/الأسماء-و-الصفات/

      Reply
  7. raneem

    عذاب قبر کی انکاریوں پر محدثین نے فتوی نہیں لگایا کہ عذاب قبر فروعی مسئلہ ہے یا عقیدہ کا اور کیا ڈاکٹر صاحب نے عذاب قبر کے انکاریوں پر فتوی لگایا ہے

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      ڈاکٹر صاحب نے عذاب قبر کے انکار پر فتوی نہیں لگایا انہوں نے عقیدہ عود روح پر فتوی لگایا ہے جو انبیاء و صالحین میں بھی بقول باطل فرقوں کے ہوتا ہے جو قرآن کا انکار ہے

      Reply
  8. raneem

    احمد بن حنبل طاغوت ہے تو ہھر امام بخاری مسلم اور دوسرے محدثین نے روایات کیوں لیں احمد ..سے؟؟ کیا یہ شرط ہے کسی کتاب میں اصول کی کہ مسلم سے ہی حدیث لی جا سکتی ہیں

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      امام بخاری ، امام احمد کے نزدیک بدعتی عقیدہ رکھتے ہیں – خلق قرآن کے جو حوالے دیے گئے ہیں ان کو غور سے دیکھیں
      احمد سے بخاری نے صحیح میں صرف چار مقام پر بات نقل کی ہے – روایت ایک مقام پر لی ہے اور تین پر احمد کا قول نقل کیا ہے

      امام مسلم نے ١٨ روایات لی ہیں

      طاغوت قرآن کی اصطلاح ہے- اس کو محدثین نے کہیں استعمال نہیں کیا کہ کسی راوی کو طاغوت کہا ہو وہ راوی کو کافر یا زندیق کہتے ہیں طاغوت نہیں
      جب اہل قبلہ موجود ہوں تو انہی سے روایت لی جاتی ہے لیکن کیا اہل کتاب سے قول نقل نہیں کیا جا سکتا؟ قرآن میں ہے
      اہل ذکر سے سوال کرو (یعنی اہل کتاب سے) اگر تم نہیں جانتے

      جب کسی کی بات قرآن کے خلاف ہو اور اس کو پیش کیا جائے اور عقائد کا اثبات کیا جائے تو اس کو رد کرنا مسلم پر لازم ہے اس بنا پر یہ ایک ارتقاء ہے جب عقیدہ عود روح کا رد ہوا تو باطل فرقوں نے کہا یہ تو امام احمد کا عقیدہ بھی کہا جاتا ہے اس پر کہا گیا یہ تو طاغوت بنا دیا گیا
      اور احمد کا یہ عقیدہ ثابت ہے تو احمد طاغوت ہوا

      وہابی علماء الدرر السنية في الأجوبة النجدية میں طاغوت کی تعریف کرتے ہیں

      والطاغوت: عام في كل ما عُبد من دون الله، فكل ما عبد من دون الله، ورضي بالعبادة، من معبود، أو متبوع، أو مطاع في غير طاعة الله ورسوله، فهو طاغوت، والطواغيت كثيرة، ورؤوسهم خمسة
      طاغوت : ہر ایک کے لئے عام ہے جس کی الله کے سوا عبادت ہو – جو اس عبادت پر راضی ہو اس پر بھی جس کو معبود کیا جائے یا اتباع کی جائے یا آطاعت کی جائے الله اور رسول کے سوا تو وہ طاغوت ہے اور طاغوتوں کی تو کثرت ہے اور پانچ ان کے سردار ہیں

      الأول: الشيطان، الداعي إلى عبادة غير الله، والدليل قوله تعالى: {أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَنْ لا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ} [يّس: 60] .
      الثاني: الحاكم الجائر، المغير لأحكام الله تعالى، والدليل قوله تعالى: {أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلالاً بَعِيداً} [النّساء:60] .
      الثالث: الذي يحكم بغير ما أنزل الله، والدليل قوله تعالى: {وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ} [سورة المائدة آية: 44] .
      الرابع: الذي يدعي علم الغيب من دون الله، والدليل قوله تعالى: {عَالِمُ الْغَيْبِ فَلا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَداً إِلاَّ مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَداً} [الجن: 26-27] . وقال تعالى: {وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لا يَعْلَمُهَا إِلاَّ هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلاَّ يَعْلَمُهَا وَلا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الأَرْضِ وَلا رَطْبٍ وَلا يَابِسٍ إِلاَّ فِي كِتَابٍ مُبِينٍ} [الأنعام: 59] .
      الخامس: الذي يُعبد من دون الله، وهو راض بالعبادة، والدليل قوله تعالى: {وَمَنْ يَقُلْ مِنْهُمْ إِنِّي إِلَهٌ مِنْ دُونِهِ فَذَلِكَ نَجْزِيهِ جَهَنَّمَ كَذَلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ} [سورة الأنبياء آية: 29] .
      ایک شیطان
      دوم حاکم جو الله کے احکام کو بدلے
      سوم جو الله نے نازل کیا ہو اس کے علاوہ حکم کرے
      چہارم علم غیب کا مدعی
      پنجم : جس کی عبادت الله کے سوا ہو اور وہ اس پر راضی ہو
      ——-

      اس بنا پر سوم کے تحت ان علماء کو طاغوت کہا جاتا ہے جو عود روح کے قائل ہیں کیونکہ یہ عقیدہ کتاب الله کے خلاف ہے

      Reply
  9. raneem

    عود روح کی بنیاد عذاب قبر ہے؟ ؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      عود روح کی بنیاد زاذان والی روایت ہے عام لوگوں کے لئے لیکن کیا انبیاء کو عذاب ہوتا ہے ؟ نہیں لیکن ان میں بھی عود روح ہوتا ہے
      سلام پر روح لوٹانے والی روایت موجود ہے
      انبیاء کے لئے کہا جاتا ہے وہ قبر میں نماز پڑھتے ہیں
      اس طرح تمام بشر قبروں میں زندہ ہو جاتے ہیں

      Reply
  10. raneem

    جہمی کسے کہتے ہیں اور السنہ احمد بن حنبل کے بیٹے کی کتاب ہے نہ کہ احمد بن حنبل کی؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      اپ کو بنیادی چیزوں کا علم نہیں ہے – پہلے اس پر کتابیں پڑھیں پھر بات کریں تو مناسب ہو گا

      احمد بن حنبل کون ہے ؟ اس کے بارے میں اپ کو معلومات کہاں سے ملیں ؟ کیا اپ نے اس پر کوئی کتاب پڑھی ہے ؟ اس کا نام ذکر کریں

      قرآن و حدیث کی بحث اور محدثین کے ایک دوسرے پر کفر کے ان فتووں کو سن کر شاید بعض کی طبیعت گھبرا رہی ہو
      احمد بن حنبل کو چھوڑئیے بعض لوگ یہاں تک جائیں گے کہ اپنے اپ کا ہی انکار کر دیں گے

      بُھلیا !! کی جانڑاں میں کون
      یہ تصوف میں فنا کا مقام ہے

      Reply
  11. raneem

    احمد بن حنبل نے بدعتی کہا امام بخاری کو کافر تو نہیں کہا یہ سوال ہے مخالفین کا ؟ احمد بن حنبل کا فتوی ہے کہ قرآن کو مخلوق سمجھنے والا کافر ہے لیکن نام تو نہیں لیا پلیز اس اعتراض ک جواب دیجیے گا ضرور

    ہمارے مخالفین سمجھتے ہیں.کہ ہمارا احمد بن حنبل کے بارے میں فتوی صحیح نہیں لیے انکو.باور کروانے کے لیے دلائل.کی ضرورت پڑتی ہے اور آپکی مدد کے ضرورت ہے کچھ باتیں وقتی طور پر پوچھنی پڑتی ہیں

    آپ وہ.بک سینڈ.کر.دیں.جسمیں.یہ.سب ڈیٹیلز.ہوں عربی گرامر تو آتی ہے لیکن ٹوپ.لیول.کی.عربی سمجھنا تھوڑا ابھی مشکل یے ایسی بک جو اردو میں احمد بن حنبل کے بارے میں بتا دیجیے ویسے اصول علم حدیث میں انکے بارے میں پڑھا یےیہ محدث ہیں اور ان کے بارے میں آپکی ویب ہر بھی ہڑھا ہے .انسان عالم بنا بغیر کیا دعوت دے نہیں سکتا اللہ نے ہر علم والے سے بڑھ کر.علم والا پیدا کیا ہے کچھ بیسک باتیں لازمی نہیں ہر ایک.کو.معلوم ہو ایسے نہیں مجھے بالکل معلوم نہیں جہمیوں کے بارے میں لیکن ایک علم کی بات زیادہ سمجھ آتی یے اور بار بار سننے پڑھنے سے اس لیے ہر چیز ہر بار پڑھو تو کوئی نئ ہی بات سمجھ آتی ہے

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      آج کل کسی کو بدعتی لوگ چلتے چلتے کہہ دتیے ہیں دوسرا اس کو سنجیدگی سے نہیں لیتا – لیکن جس دور کی اپ بات کر رہے ہیں اس میں کسی کو بدعتی کہنا اس کو بد عقیدہ قرار دینا ہوتا تھا اور یہی وجہ بنی کہ بہت سے محدثین نے امام بخاری کا بائیکاٹ کیا

      ⇓ کیا امت میں تکفیر محدثین سے شروع ہوئی
      https://www.islamic-belief.net/q-a/علم-الحدیث/

      امام احمد کے بارے میں معلومات کی اصل ماخذ ان کا بیٹا عبدالله اور صالح ہیں – باقی تو جو لوگ ہیں وہ گھر والے نہیں ہیں
      گھر والوں کی گواہی سب سے بڑھ کر ہوتی ہے

      ہم امام احمد کو بد عقیدہ کہتے ہیں کیونکہ وہ تعویذ کے قائل تھے
      ⇑ تعویذ کے بارے میں امام احمد کا کیا موقف تھا؟
      https://www.islamic-belief.net/q-a/عقائد/دم-اور-تعویذ/

      ⇑ کیا زعفران سے برتن پر قرانی آیات لکھ کر پینا صحیح ہے ؟
      https://www.islamic-belief.net/q-a/عقائد/دم-اور-تعویذ/

      وہ حدیث سفینہ پر مذھب رکھتے تھے جس کے تحت معاویہ رضی الله عنہ کو بادشاہ ثابت کیا جاتا ہے
      ⇑ اہل سنت میں رافضیت کے بیج
      https://www.islamic-belief.net/masalik/شیعیت/

      وہ زیارت قبر پر مردے کے دیکھنے کے قائل تھے
      ⇑ کیا میت زائر کو پہچانتی ہے
      https://www.islamic-belief.net/q-a/عقائد/حیات-بعد-الموت/

      احمد کا عقیدہ ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بیٹھا دیا جائے گا
      ⇓ کیا نبی صلی الله علیہ وسلم کو روز محشر عرش عظیم پر بٹھایا جائے گا ؟
      https://www.islamic-belief.net/q-a/عقائد/الأسماء-و-الصفات/

      احمد نبی کا وسیلہ بھی لیتے تھے
      ⇑ کیا امام احمد نبی کا وسیلہ دعاووں میں لیتے تھے ؟
      https://www.islamic-belief.net/q-a/عقائد/عرض-اعمال/

      اور عود روح کا عقیدہ بھی رکھتے تھے جس کا ذکر ڈاکٹر عثمانی نے کیا ہے
      ———

      اب بد عقیدہ کون ہے ؟ ہماری نگاہ میں امام احمد کے عقیدہ میں درستگی نہیں ہے- امام احمد خود تکفیری بھی ہیں یہ الجہمی اور حکومت کو یعنی عباسی خلفاء کی تکفیر کرتے ہیں مسئلہ خلق قرآن پر اسی وجہ سے ان کو کوڑے لگے اور پھر چپ ہوئے اور گھر میں بیٹوں کو فتوے لکھوائے – نام اسی لئے نہیں لئے کہ یہ حکومت کا عقیدہ ہے کہ قرآن مخلوق ہے – نام لیتے تو پھر پھنستے کوڑے لگتے

      امام احمد کو ماننے والے حنبلی لوگ ہیں جن میں ٥٠٠ ہجری میں دو گروہ ہوئے – ان میں اپس میں اسماء و صفات کا جھگڑا ہوا اور دونوں نے ایک دوسرے کو گمراہ قرار دیا
      اس کی تفصیل یہاں ہے
      https://www.islamic-belief.net/q-a/عقائد/الأسماء-و-الصفات/

      ایک گروہ میں ابن جوزی ہیں اور دوسرے میں ابو بکر الخلال اور ابن الزاغوانی ہیں
      ابن جوزی تجسیم کے خلاف ہیں جبکہ باقی اپنے رب کو اعضا والا کہتے ہیں

      آٹھویں صدی میں ابن تیمیہ کا جنم ہوتا ہے یہ بھی مجسمیہ میں سے ہے اور عود روح کا قائل تھا اس نے کتابیں لکھ کر ان عقائد کا اثبات کیا اور پھر اس سے سلفی تحریک بنی جس میں وہابی اور غیر مقلدین اور اخوان المسلمین اتے ہیں

      لہذا یہ سب حنابلہ ہیں اور جتنے بھی اوٹ پٹانگ عقائد امام احمد کے بتائے جاتے ہیں ان سب کا دفاع کرتے ہیں یا بعض کو چھپا دیتے ہیں

      ———-
      اپ طے کریں کہ اپ سخصیت کا دفاع کریں گے یا دین کو اس کی اصلی حالت پر لانا چاہتے ہیں- لہذا جو اس بات میں کلام کرتے ہیں وہ جاہل ہیں انہوں نے خود کچھ نہیں پڑھا صرف جدل کرتے ہیں
      جو مولوی ہیں وہ فرقہ پرست ہیں – ان کی معلومات ناقص ہیں مثلا کہتے ہیں صحیح بخاری کو امام احمد پر پیش کیا انہوں نے پسند کیا
      یہ کذاب ہیں اس قول کی سند کیا ہے ؟
      ایک بدعتی کی کتاب امام احمد پسند کرتے تھے ؟

      یہ لوگ آنکھوں دیکھی مکھی کھا جائیں گے اور اپ سے بولیں گے مکھی تو یہاں نہیں ہے – یہ حال ہے ان کا

      اس ویب سائٹ کو دو ماہ تک پڑھیں پھر سوال کریں کیونکہ یہ معلومات سمجھنے میں ابھی اپ کو وقت درکار ہے

      Reply
  12. raneem

    اوکے بھائی انشاء اللہ آپکا بہت بہت شکریہ

    Reply
  13. anum shoukat

    ظالموں نے یہ بات تک بیان کی ہے کہ الله عرش پر نبی صلی الله علیہ وسلم کو بٹھائے گا .افسوس صوفیوں کو برا کہنے والے اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھیں

    الله تعالی نبی صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا نعوذباللہ

    جھمی کو کافر کہا گیا کیونکہ انہوں نے صفات الہی کا انکار کیا اور ان کی حدیث بھی چھوڑ دی گئی۔

    احمد کا، عقیدہ کہ اللہ تعالیٰ نبی صلی الله عليه وسلم کو عرش پر بٹھائے گا جہمیوں نے صفات الہی کا، انکارکیا ان دونوں عقیدوں میں کوئی فرق ہے دونوں عقائد میں صفات الہی کا انکار نہیں ہو رہا پھر ایک گروہ مسلم دوسرا کافر کیوں؟؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      دونوں میں فرق ہے

      جھمی عرش کو ٹھوس نہیں مانتے – محدثین اور ہم مانتے ہیں – اس بنا پر جھمی کہتے الله کائنات میں سرایت کیے ہوئے ہے – اسی سے وحدت الوجود نکلا ہے
      بہر حال جھمی کو امام احمد اور بخاری کافر کہتے تھے
      ——-

      رسول الله کو عرش پر بٹھایا جائے گا اس اثر سے محدثین دلیل لے رہے تھے عرش ٹھوس ہے اور یہ رسول الله کو منقبت ہے
      احمد اور حنبلی علماء آج تک اس کے قائل ہیں
      —-
      میں نے دونوں پر جرح کی ہے

      Reply
  14. anum shoukat

    آپ میری بات سمجھے نہیں جہمی کفریہ عقائد پر ہی کافر کہلائے امام احمد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عرش پر بٹھائے جانے کا کفریہ عقیدہ رکھے تو آپ انکو اہل قبلہ میں شمار کر رہے ہیں؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      جھمیوں نے عرش کا انکار کیا اس لئے احمد اور بخاری نے ان پر کفر کا فتوی لگایا
      ——

      ابن عباس کے شاگرد مجاہد کا قول ہے
      وقد روي عن مجاهد أن المقام المحمود أن يقعده معه يوم القيامة على العرش،
      ن ” التمهيد ” (19/63-64) .
      رسول الله ، الله تعالی کے ساتھ عرش پر بیٹھیں گے

      حديث محمد بن فضيل عن ليث عن مجاهد في قوله [عَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا] قال يقعده على العرش
      —–
      مجاہد کے اس اثر کو انہوں نے قبول کیا کیونکہ مجاہد ثقہ ہیں
      فتوی لگے گا تو سب سے پہلے مجاہد پر لگے گا
      کیونکہ یہ مجاہد کا قول ہے – احمد نے تو اس کو لیا ہے
      —–
      محدثین کے نزدیک انبیاء کا عرش تک پہنچنا کفر نہیں تھا وہ اس کو منقبت سمجھتے رہے
      عرش پر بیٹھا کر یا اس تک پہنچا کر وہ رسول الله کی یا دیگر انبیاء کی الوہیت کا نہیں کہہ رہے تھے
      یہ ان کا نقطہ نظر تھا اور دلیل مفسر مجاہد کے ایک قول سے لے رہے تھے

      يه قول ان سب کا ہے
      أَبي داود، وأحمد بن أصرم، ويحي بن أبي طالب، وأبي بكر بن حماد، وأبي جعفر الدمشقي، وعياش الدوري، واسحق بن راهويه، وعبدالوهاب الوراق، وإبراهيم الأصبهاني، وإبراهيم الحربي، وهرون بن معروف. ومحمد بن إسماعيل السلمي، ومحمد بن مصعب العايد، وأبي بكر ابن صدقة، ومحمد بن بشر بن شريك، وأبي قلابة، وعلي بن سهل، وأبي عبدالله بن عبدالنور وأبي عبيد، والحسن بن فضل، وهرون بن العباس الهاشمي، واسماعيل ابن ابراهيم الهاشمي، ومحمد بن عمران الفارسي الزاهد، ومحمد بن يونس البصري، وعبدالله بن الامام أحمد، والمروزي، وبشر الحافى، انتهى.
      مزید اس یہ قول ابن جرير الطبري اور دارقطنی کا بھی ہے

      اس قول کی مخالفت میں کوئی محدث نہیں سوائے ترمذی نام کا ایک شخص ہے

      یہ غلو ہے اور ہر غلو کفر نہیں کیونکہ اس میں الوہیت محمد کا عقیدہ نہیں ہے

      ابن کثیر کے تاریخ میں لکھا
      قال ابن كثير في تاريخه (15/ 42) وقعت فتنة ببغداد بين أصحاب أبي بكر المروذي الحنبلي، وبين طائفة من العامة اختلفوا في تفسير قوله تعالى [عَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا] فقالت الحنابلة: يجلسه معه على العرش. وقال الآخرون: المراد بذلك الشفاعة العظمى. فاقتتلوا بسبب ذلك وقتل بينهم قتلى، فإنا لله وإنا إليه راجعون.

      بغداد میں فتنہ ہوا ابو بکر المروزی کے اصحاب میں اور باقی لوگوں میں الله تعالی کے قول کی تفسیر پر پس حنابلہ نے کہا ان کو عرش پر بیٹھا دیا جائے گا – اور باقیوں نے کہا اس سے مراد شفاعت ہے – اس پر ان کے درمیان قتل ہوئے

      ——
      اس روایت کو دیکھیں

      صحیح بخاری کی حدیث ہے
      حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ جَاءَ يَهُودِيٌّ، فَقَالَ: يَا أَبَا القَاسِمِ ضَرَبَ وَجْهِي رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِكَ، فَقَالَ: مَنْ؟ “، قَالَ: رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ، قَالَ: «ادْعُوهُ»، فَقَالَ: «أَضَرَبْتَهُ؟»، قَالَ: سَمِعْتُهُ بِالسُّوقِ يَحْلِفُ: وَالَّذِي اصْطَفَى مُوسَى عَلَى البَشَرِ، قُلْتُ: أَيْ خَبِيثُ، عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَتْنِي غَضْبَةٌ ضَرَبْتُ وَجْهَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ تُخَيِّرُوا بَيْنَ الأَنْبِيَاءِ، فَإِنَّ النَّاسَ يَصْعَقُونَ يَوْمَ القِيَامَةِ، فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الأَرْضُ، فَإِذَا أَنَا بِمُوسَى آخِذٌ بِقَائِمَةٍ مِنْ قَوَائِمِ العَرْشِ، فَلاَ أَدْرِي أَكَانَ فِيمَنْ صَعِقَ، أَمْ حُوسِبَ بِصَعْقَةِ الأُولَى»

      رسول الله نے فرمایا جب میں روز محشر ہوش میں اوں گا تو دیکھوں گا موسی عرش کے قوائم میں سے ایک قائم کو پکڑے ہوں گے
      ——
      اس پر غور کریں عرش عظیم کوئی معمولی چیز نہیں موسی اس تک پہنچ جائیں گے تمام مخلوق سے پہلے – کیسے ؟
      میرے نزدیک صحیح البخاری کی یہ حدیث بھی غلو ہے –
      امام بخاری پر کفر کا فتوی اس وجہ سے نہیں لگے گا کیونکہ یہ غلو ہے کفر نہیں

      ————–

      اہل قبلہ سے مراد کون ہے ؟ وہ جو کعبه کو قبلہ کہتے ہوں اس میں تمام مسلمان ہیں چاہیں شرک و کفر کریں یا نہ کریں
      اس اصطلاح کا امام احمد کے عقیدہ سے کیا تعلق ہے

      Reply
  15. anum shoukat

    تکفیر یعنی کسی کو کافر کہنا ہے میں اہل اسلام کا اختلاف ہے کہ اہل قبلہ کو کیا کافر کہا جا سکتا ہے یا نہیں ۔
    سوال 1 یہاں اہل السلام سے اختلاف سے کون سے فرقے مراد ہیں؟

    یہاں تک کہ خوارج و شیعہ کو بھی کافر کہا گیا جبکہ یہ جملہ محدثین خود رافضی کی روایت صحیح میں لکھتے تھے۔

    سوال 2 خوارج اور شیعہ کی تکفیر کس مسلک نے کی؟

    سوال3 کونسا جملہ محدثین رافضی کی روایت صحیح میں لکھتے تھے؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      سوال 1 یہاں اہل السلام سے اختلاف سے کون سے فرقے مراد ہیں؟

      یہاں تک کہ خوارج و شیعہ کو بھی کافر کہا گیا جبکہ یہ جملہ محدثین خود رافضی کی روایت صحیح میں لکھتے تھے۔

      جواب موجودہ دور کے مسلمانوں کی بات ہے جو کہتے ہیں شیعہ کافر رافضی کافر
      اس قسم کی تقریرین موجود ہیں
      لیکن جب محدثین کو دیکھیں ان کی کسی کتاب میں شیعوں کی یا خارجی کی یا رافضی کی تکفیر نہیں ملتی

      سوال 2 خوارج اور شیعہ کی تکفیر کس مسلک نے کی؟
      جواب موجودہ دور کے اہل سنت کے مسالک نے متقدمین میں سے کوئی نہیں ملا

      ——
      سوال3 کونسا جملہ محدثین رافضی کی روایت صحیح میں لکھتے تھے؟
      جواب تمام محدثین بشمول بخاری و مسلم اور صحاح الستہ کے دیگر مولفین سب لکھتے رہے ہیں
      اور ان کی شیعیت کا عالم دیکھیں
      امام بخاری کے استاد ہیں ان سے صحیح میں احادیث بھی لی گئی ہیں

      صحیح بخاری میں کٹر رافضی سے روایت لی گئی ہے آج اس کو بدلا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ شیعہ اور تھے آج کے اور ہیں جبکہ یہ سب ان لوگوں کی خرافات ہیں رافضی کو کافر نہیں سمجھا جاتا تھا اس کو بد مذھب کہا جاتا تھا ان لوگوں سے سوال ہے کہ کیا کافر کی روایت حدیث میں لی جاتی تھی ؟

      عباد بن یعقوب امام بخاری کے استاد ہیں کٹر رافضی ہیں

      صَالِحٍ جَزَرَةَ، قَالَ: كَانَ عَبَّادٌ يَشْتِمُ عُثْمَان -رَضِيَ اللهُ عَنْهُ
      صَالِحٍ جَزَرَةَ، کہتے ہیں یہ عثمان رضی الله عنہ کو گالیاں دیتے تھے

      اب سنیے ان کا حال سير أعلام النبلاء میں الذھبی لکھتے ہیں

      القَاسِمُ المُطَرِّز، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَبَّادٍ بِالْكُوْفَةِ، وَكَانَ يَمْتَحِنُ الطَّلَبَةَ، فَقَالَ: مَنْ حَفَرَ البَحْرَ؟ قُلْتُ: اللهُ. قَالَ: هُوَ كَذَاكَ، وَلَكِنْ مَنْ حَفَرَهُ؟ قُلْتُ: يَذْكُرُ الشَّيْخُ، قَالَ: حَفرَهُ عَلِيٌّ، فَمَنْ أَجْرَاهُ؟ قُلْتُ: اللهُ. قَالَ: هُوَ كَذَلِكَ، وَلَكِن مَنْ أَجْرَاهُ؟ قُلْتُ: يُفِيْدُنِي الشَّيْخُ. قَالَ: أَجْرَاهُ الحُسَيْنُ، وَكَانَ ضَرِيْراً، فَرَأَيْتُ سَيْفاً وَحَجَفَةً (1) . فَقُلْتُ: لِمَنْ هَذَا؟ قَالَ: أَعْدَدْتُهُ لأُقَاتِلَ بِهِ مَعَ المَهْدِيِّ. فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنْ سَمَاعِ مَا أَرَدْتُ، دَخَلْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَنْ حَفَرَ البَحْرَ؟
      قُلْتُ: حَفَرَهُ مُعَاوِيَةُ -رَضِيَ اللهُ عَنْهُ- وَأَجْرَاهُ عَمْرُو بنُ العَاصِ.

      القَاسِمُ المُطَرِّز نے کہا میں عباد کے پاس کوفہ گیا اور یہ طلبہ کا امتحان لیتے تھے پس پوچھا کس نے سمندر کو گہرا کیا ؟ میں نے کہا الله نے – بولے یہ تو ہے لیکن کس نے گہرا کیا؟ میں نے کہا شیخ بتائیں بولے اس کو علی نے کھودا – کس نے سمندر کو جاری کیا ؟ میں نے کہا الله نے – بولے یہ تو ہے لیکن کس نے جاری کیا ؟ میں نے کہا شیخ ہی فائدہ دیں بولے اس کو حسین نے جاری کیا اور عباد نابینا تھے میں نے ان کے پاس تلوار دیکھی تو پوچھا یہ کس لئے؟ بولے کہ امام مہدی کے ساتھ مل کر قتال کرنے کے لئے پس جب ان سے احادیث کا سماع کر لیا جن کے لئے ان کے پاس گیا تھا ان کے پاس گیا تو انہوں نے پھر پوچھا کس نے سمندر گہرا کیا ؟
      میں نے کہا اس کو معاویہ نے کھودا اور عمرو بن العاص نے جاری کیا

      امام الذہبی اس قصہ کے بعد کہتے ہیں إِسْنَادُهَا صَحِيْحٌ. اس کی اسناد صحیح ہیں – امام بخاری نے بھی کیا یہ ٹیسٹ پاس کیا یا نہیں معلوم نہیں کیونکہ صحیح میں ان سے حدیث لی گئی ہے

      ابن خلفون المعلم میں لکھتے ہیں ابن حبان نے کہا
      قال أبو حاتم البستي: عباد بن يعقوب أبو سعيد كوفي، كان رافضيًا داعية يروي المناكير.
      عباد بن یعقوب ابو سعید الکوفی رافضی تھے داعی تھے اور مناکیر روایت کرتے تھے

      ابو فتح کہتے ہیں
      داعية إلى الرفض، وقد حمل عنه الناس على سوء مذهبه.
      یہ رافضی داعی تھے اور لوگ ان کو بد مذھب لیتے تھے

      الذهبي کہتے ہیں

      وعنه البخاري حديثا في الصحيح مقرونا بآخر
      بخاری نے اس سے اپنی صحیح میں ایک حدیث قرؤنا روایت کی ہے ميزان الاعتدال : 379/2

      مقرونا روایت کرنے سے مراد ہے کہ اس کا ایک دوسرا طرق تھا لہذا اس راوی کی ضرروت نہیں رہی تھی لیکن پھر بھی امام بخاری نے اس کا ذکر کر دیا تاکہ دنیا جان لے کہ ان کے نزدیک بدعتی کی روایت جائز ہے الا کہ اس کی بدعت کے حق میں ہو

      عدی بن ثابت کٹر رافضی ہیں ان سے صحیح بخاری میں ٢٨ روایات لی گئی ہیں
      روى السلمي عن الدارقطني أنه رافضي
      دارقطنی کہتے ہیں یہ رافضی تھے
      ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق

      Reply
  16. anum shoukat

    سوال اہل سنت سے مراد اہل حدیث ہیں کیونکہ اب تو دیو بند بریلویوں کے ساتھ بھی اہل سنت لگا ہوتا ہے.

    سوال تکفیر کرنا محدثین کا کام ہے انکے بعد کوئی عالم نہیں کر سکتا؟

    سوال اگر کوئی عالم محدثین کے طریقے سے ہٹ کر تکفیر کرے گا تو اسکا مطلب ہے وہ محدثین کو فولو نہیں کرتا؟

    سوال امام احمد نے خلق قرآن والوں کی تکفیر کی آپکے علم کے مطابق تکفیر نہیں کرنی چاہیے؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      سوال اہل سنت سے مراد اہل حدیث ہیں کیونکہ اب تو دیو بند بریلویوں کے ساتھ بھی اہل سنت لگا ہوتا ہے.
      جواب اہل سنت سے مراد وہ ہیں جو ابو بکر کو خلیفہ تسلیم کرتے ہیں – انتخاب خلیفہ میں شیخین کی بات مانتے ہیں – سنت اصل میں شیخین کی سنت ہے اس اصطلاح کو امام الاشعری نے مقالات الاسلامین میں أهل السنة والاستقامة کا ذکر کیا ہے یہ علم الکلام کی ایجاد ہے
      محدثین کبھی اپنے اپ کو اہل سنت کہتے تھے اور کبھی اہل حدیث – لیکن مقصد یہ تھا کہ ہم رافضی یا خارجی نہیں
      رافضی اپنے اپ کو شیعہ کہلوانا پسند کرتے تھے اور خارجی اپنے اپ کو اہل الاستقامہ
      یہ لیبل لگا کر تحریروں میں اپنے اپ کو الگ دکھایا جاتا تھا
      ———

      سوال تکفیر کرنا محدثین کا کام ہے انکے بعد کوئی عالم نہیں کر سکتا؟
      جواب : تکفیر کرنا حکومت کا کام ہے
      ⇑ کیا امت میں تکفیر محدثین سے شروع ہوئی
      https://www.islamic-belief.net/q-a/علم-الحدیث/
      کسی عالم کا کام نہیں ہے – لیکن علماء اس کو کرتے ہیں جب حکومت کا عقیدہ صحیح نہ ہو – امام بخاری نے صحیح میں علماء کی جانب سے تکفیر کرنے کے جواز پر ہاتھ پیر مارے ہیں – ابو بکر رضی الله عنہ کی زکوہ کے انکاریوں کی تکفیر سے دلیل لی ہے جبکہ ابو بکر خلیفہ ہیں وہ کر سکتے ہیں لہذا دلیل نہیں بنتی
      میرے نزدیک علماء کا تکفیر کرنا ایک اضطراری عمل ہے جس کی دلیل قیاس پر قائم ہے

      ———————-

      سوال امام احمد نے خلق قرآن والوں کی تکفیر کی آپکے علم کے مطابق تکفیر نہیں کرنی چاہیے؟
      جواب امام احمد نے جھمی کی تکفیر کی لیکن خلفاء بنو عباس کی نہیں جنہوں نے اسی عقیدہ کو اپنایا

      دلیل
      صحيح بخاري کی روایت ہے

      حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يُهْلِكُ النَّاسَ هَذَا الحَيُّ مِنْ قُرَيْشٍ» قَالُوا: فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: «لَوْ أَنَّ النَّاسَ اعْتَزَلُوهُمْ» قَالَ: مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، سَمِعْتُ أَبَا زُرْعَةَ

      مجھ سے محمد بن عبدالرحيم نے بيان کيا ، کہاہم سے ابومعمر اسماعيل بن ابراہيم نے بيان کيا ، کہاہم سے ابواسامہ نے بيان کيا ، کہا ہم سے شعبہ نے بيان کيا ، ان سے ابوالتياح نے ، ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہريرہ رضي اللہ عنہ نے بيان کيا کہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا : اس قريش کا یہ محلہ لوگوں کو ہلاک وبرباد کردے گا ? صحابہ نے عرض کيا : اس وقت کے ليے آپ ہميں کيا حکم کرتے ہيں ؟ نبی صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا : کاش لوگ ان سے الگ رہتے ? محمود بن غيلان نے بيان کيا کہ ہم سے ابوداود طيالسي نے بيان کيا ، کہا ہم کو شعبہ نے خبردي ، انہيں ابوالتياح نے ، انہوں نے ابوزرعہ سے سنا

      مسند احمد میں امام احمد اس کو منکر کہتے ہیں

      حدثنا محمَّد بن جعفر، حدثنا شُعبة، عن أبي التَّيَّاح، قال: سمعت أبا زُرعة، يحدث عن أبي هريرة، عن النبي – صلى الله عليه وسلم -، قال: “يُهلكُ أمتي هذا الحيُّ من قريبٌ”، قالوا: في تأمُرُنا يا رسول الله؟، قال: “لو أن الناس اعتزلوهم”. [قال عبد الله بن أحمد]: وقال أبي- في مرضه الذي مات فيه: اضرب على هذا الحديث، فإنه خلافُ الأحاديث عن النبي – صلى الله عليه وسلم -، يعني قوله: “اسمعوا وأطيعوا واصبروا”.

      ابو ہریرہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میری امت کو یہ محلہ جلد ہی ہلاک کرے گا ہم نے پوچھا آپ ہم کو کیا حکم کرتے ہیں اے رسول الله ! فرمایا کاش کہ لوگ ان سے الگ رہتے عبد الله بن احمد کہتے ہیں میں نے اپنے باپ سے اس حالت مرض میں (اس روایت کے بارے میں) پوچھا جس میں ان کی وفات ہوئی احمد نے کہا اس حدیث کو مارو کیونکہ یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی احادیث کے خلاف ہے یعنی سمع و اطاعت کرو اور صبر کرو

      احمد کے نزدیک صحیح بخاری کی روایت منکر ہے یعنی امام احمد کے نزدیک بد عقیدہ حکمرانوں کی تکفیر نہیں کی جائے گی – امام بخاری نے بھی کسی کتاب میں اپنے دور کے بد عقیدہ خلق قرآن کے قائل عباسی خلفاء کی تکفیر نہیں کی ہے

      Reply
  17. anum shoukat

    آپ نے حبل اللہ شمارہ 7 پڑھا ہے جس میں احمد پر کفر کا فتوی ہے؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      کون سے صفحے پر ہے

      Reply
  18. anum shoukat

    آپکو میرے اس سوال کا جواب ضرور دینا ہو گا پلیز ہاں نہ میں ہی دے دیں حبل اللہ والی بات صحیح ہے یا نہیں پلیز آپکی بہت مہربانی ہو گی۔

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      جی اپ نے اس کو پڑھا ہے – وہاں لکھا ڈاکٹر عثمانی نے لکھا ہے کہ احمد پر فتوی لگایا گیا ہے، ابو داود اور نسائی پر نہیں لگایا گیا کیونکہ ضعیف احادیث پر ان دونوں نے عقیدہ نہیں بنایا احمد نے بنایا ہے

      Reply
  19. anum shoukat

    آپکے نزدیک ڈاکٹر صاحب نے تکفیر نہیں کی؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      ڈاکٹر صاحب نے تکفیر کی ہے – لیکن انہوں نے کتاب میں اس کو صریحا نہیں لکھا – انہوں نے کتاب عذاب البرزخ میں لکھا کہ عود روح کا عقیدہ کفر ہے اور آخر میں فوٹو کاپی لگا دی کہ ان لوگوں کے فتوے یہ ہیں

      اس پر جب اہل حدیث کا خط آیا تو اس مضمون میں احمد کے حوالے سے سوال میں صریح تکفیر کی

      Reply
  20. anum shoukat

    تو آپ نے پھر کیوں کہا کہ ڈاکٹر صاحب نے احمد کی تکفیر نہیں کی پلیز آپ صحیح بتائے آپ کی اس بارے میں کیا، رائے ہے؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      اگرچہ تقریروں میں ڈاکٹر صاحب احمد کو طاغوت کہتے رہے ہیں لیکن سوال اس پر ہوا تھا کہ کیا احمد کو تحریری کافر کہا تو اس تناظر میں مجھ کو ان کی کتب میں صریح لکھا نہیں ملا – حبل الله کی تحریر کا حوالہ سامنے نہیں تھا میں نے جو کہا تھا وہ ڈاکٹر عثمانی کی کتب کی بنیاد پر کہا تھا
      کیونکہ ان کتابوں میں یہ فتوی موجود نہیں ہے حبل الله میں آیا ہے اور حبل الله کا یہ مضمون بہت پہلے پڑھا تھا یاد نہیں رہا لیکن جب اپ نے ذکر کیا تو دیکھا کہ وہاں موجود ہے

      Reply
  21. anum shoukat

    آپ نے اپنے موقف سے رجوع کیا ہے یا ابھی بھی امام احمد سمیت تمام مسالک کو مسلمان سمجھتے ہیں؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      جب علماء مسلمانوں میں سے کسی پر کفر کا فتوی لگاتے ہیں تو اس سے ہمیشہ مراد یہ نہیں کہ وہ مشرکین مکہ کی طرح کافر ہوا – مثلا ڈاکٹر صاحب نے لکھا کتاب ایمان خالص

      الله کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آج اس ملت کے اندر عقیدہ کا مسئلہ علماء کے دو گروہوں میں

      اس میں علماء کی دو قسمیں ہیں – کیا یہ کفار کے علماء ہیں ؟ نہیں یہ مسلمانوں کے علماء ہیں یعنی مسلمانوں میں ہی احمد اور ان کے ہمنوا لوگوں کے عقیدہ پر جرح کی گئی ہے اس کو کفر کہا گیا ہے خارج عن الاسلام نہیں قرار دیا گیا

      بعض اوقات جب کفر کہا جاتا ہے تو اس سے خارج عن الملت قرار نہیں دیا جاتا – عود روح کے قائل علماء کو جن میں امام احمد بھی ہیں ان کو کتاب ایمان خالص کی پہلی سطر میں عالم اور ملت اسلام میں ڈاکٹر عثمانی نے خود لکھا ہے جن کے عقیدہ عود روح سے وہ اختلاف کر رہے ہیں – یہ حکم کہ فلاں عقیدہ کفر ہے اس میں اور ارتاد میں فرق ہے

      یعنی یہ مسلمانوں کے ہی مسلک ہیں جن میں کفر پایا جاتا ہے – اس بنا پر ملت یا اہل قبلہ سے ان کا خروج نہیں سمجھا جائے گا

      اگر احمد کو مشرک مکہ جیسا قرار دیا جاۓ تو تمام جرح و تعدیل اور روایات کو چھوڑنا لازم ہے کیونکہ کفار سے دین نہیں لیا جا سکتا جیسا معلوم ہے کہ قرآن میں ہے فاسق کی روایت کی تحقیق کی جائے تو کافر کی کیسے لی جا سکتی ہے

      لیکن ڈاکٹر عثمانی نے جا بجا احمد کے اقوال کو جرح و تعدیل میں نقل کیا ہے اور مسند احمد کے حوالے دیے ہیں لیکن احمد ہی کے مخصوص عقائد پر کفر کا فتوی لگایا ہے
      مسلمان مسلکوں کے کفر سے ان کو ملت اسلام سے خارج نہیں کیا گیا – ان کے عقائد پر جرح کی گئی ہے اور دین مختار کو بیان کیا گیا ہے

      Reply
  22. anum shoukat

    قادیانی اللہ کے نبی کو نبی بھی مانتے ہیں اور رسول بھی لیکن آخری رسول نہیں مانتے تو وہ کافرجس میں کوئی شک نہیں لیکن کلمہ گو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائے تو وہ پھر بھی مسلم؟ اور وہ کیسے؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      اپ کافی دن سے ایک ہی بات پر بحث کر رہی ہیں
      وہ ہے کہ مسلم، مشرک نہیں ہو سکتا تو میں نے کہا ہو سکتا ہے اس کو اہل قبلہ اور مسلمان ہی کہا جائے گا مشرک مکہ یا اہل کتاب نہیں کہا جائے گا

      مثال: قوم موسی مسلمان تھی جو موسی کے ساتھ مصر سے نکلی لیکن شرک کر بیٹھی اسکو مشرک قوم نہیں کہا گیا مسلمان ہی کہا جائے گا تمام انبیاء کی امت مسلمان تھیں خاص کر انبیاء کی زندگی میں ان کی امتوں کو غیر مسلم نہیں کہا گیا
      شرک کرنے پر ان کو برا کہا گیا نصحت کی گئی ہے

      مثال رسول الله نے فرمایا میری امت ٧٣ فرقوں میں بٹ جائے گی – رسول الله نے یہ نہیں کہا امت غیر مسلم ہو جائے گی- حدیث میں ان کو فرقہ ہونے کے باوجود امت محمد قرار دیا ہے

      یعنی ان دلالیلوں کی وجہ سے میری سمجھ میں اتا ہے فرقہ باوجود کفر و شرک کرنے کے وہ مسلمان – امت محمد ٠ اہل قبلہ میں رہی رہیں گے
      ======

      قادیانی امت محمد میں نہیں رہے وہ امت غلام احمد میں سے ہیں

      Reply
  23. anum shoukat

    آپ نے موڈریشن پر لگا دیا؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      نہیں – مصروفیت ہے

      Reply
  24. anum shoukat

    اللہ جانتا ہے میرا مقصد قطعا بحث کرنا نہیں ہے بس میں حق جاننا چاہتی ہوں ۔
    بنیاد ہوتی کیا ہے؟
    قادیانیوں نے بنیاد کا انکار کیسے کیا ہے؟
    کیا کلمہ گو بنیاد کا انکار نہیں کر رہے؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے ان میں سے کسی کا انکار کرنے سے مسلم نہیں رہتے
      اس میں مضمر ہے کہ رسول الله آخری نبی و رسول ہیں
      اس بنیاد کا انکار قادیانی کرتے ہیں

      Reply
  25. دریائے دیبل

    ڈاکٹرعثمانی صاحب کے موقف کا رد کرنے کیلئے آیت (وَ مَا یَشۡعُرُوۡنَ اَیَّانَ یُبۡعَثُوۡنَ ) کے متعلق عبداللہ جابر دامانوی اھلحدیث نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ ” اس بات کا شعور تو ہم زندوں کو بھی نہیں کہ مردے زندہ کرکے کب اٹھائیں جائیں گے یعنی قیامت کب واقع ہوگی تو صاحب قبر کے اس بات سے لاعلم ہونے سے حیات فی القبر کی نفی کیونکر ہوسکتی ہے”__ آپ دامانوی کی اس بات پر کیا کہیں گے؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      اس پر کتاب سماع آلموتی مین بحث ھے

      Reply
  26. دریائے دیبل

    آپ نے اس پوسٹ پر (وما یشعرون ایان یبعثون)
    کے حوالے سے جو کمنٹ کئے ہیں میں اس پر بات کرنا چاہتا ہوں آپ کے الفاظ ملاحظہ ہوں:۔

    ۔(… لیکن قرآن میں اس کی نفی موجود ہے کہ جن کو پکارا جا رہا ہے ان کو یہ سمجھ کر ہی پکارا جا رہا ہے کہ مردے انسانوں کی بات سن سکتے ہیں اور الله تعالی کا فرمان ہے کہ اگر ان کو کچھ معلوم ہوتا تو کم از کم یہ تو پتا ہوتا ہے کہ کب اس گڑھے سے نکلیں گے)۔

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      جی عرض کریں

      Reply
  27. دریائے دیبل

    عرض یہی ہے کہ یہ بات تو ھم زندوں کو بھی نہیں پتا کہ قیامت کب واقع ہوگی اور مردے زندہ کرکے اٹھائے جائیں گے پھر یہ بات صاحب قبر کے عدم سماع کی دلیل کیسے ہوسکتی ہے؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      عرب مشرکوں کے نزدیک جو مر گیا وہ دوبارہ زندہ نہیں ہو گا البتہ چونکہ وہ رب کے پاس پہنچ گیا اور اس کا ہامہ قبر پر اتا ہے وہ ہماری بات اللہ تک پہنچا سکتا ہے
      اس طرح وہ قبر کے مردوں کے جی اٹھنے سے مایوس تھے
      قَدْ يَئِسُوا مِنَ الآخِرَةِ كَمَا يَئِسَ الْكُفَّارُ مِنْ أَصْحَابِ الْقُبُورِ
      يه آخرت سے مایوس ہیں جیسے کفار قبر والوں سے

      کفار مکہ محشر کے منکر تھے لیکن قبر والوں کے ہامہ کی وجہ سے ان کو سفارشی مانتے تھے
      اللہ تعالی نے ان مردوں کے علم کی نفی کی کہ ان مردوں کو (یا ہامہ کو ) شعور نہیں کیونکہ اگر یہ اللہ کے مقرر کردہ سفارشی ہوتے تو ان کو اس کی خبر ہوتی
      کہ یہ یہاں سے کب نکلیں گے

      Reply
  28. دریائے دیبل

    آپ دوسری طرف چلے گئے میں سوال کو ذرا تبدیل کردیتا ہوں یہ بات تو ھم زندوں کو بھی نہیں پتا کہ قیامت کب قائم ہوگی اور مردے زندہ کرکے اٹھائے جائیں گے پھر یہ بات جسد عنصری کی عدم حیات و سماع کی دلیل کیونکر ہوسکتی ہے؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      میں نے جو کہا اس سے زیادہ مجھے معلوم نہیں

      Reply
  29. دریائے دیبل

    لیکن جناب آپ نے جو کہا اس کی درستگی تو ہوسکتی ہے آپ نے لکھا اگر مردے سنتے ہوتے تو انہیں کم از کم یہ تو پتا ہوتا کہ کب اس گڑھے سے نکلیں گے ___ ایڈمن صاحب اھلحدیث اعتراض یہی تو اٹھاتے ہیں کہ یہ “کم از کم بات” تو ھم زندوں کو بھی نہیں پتا پھر صاحب قبر کو معلوم نہ ہونا کون سی تعجب کی بات ہے۔

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      مجھے سمجھ نہیں آیا کہ آپ مجھ سے کیا لکھوانا چاہ رہے ہیں

      آپ کے نزدیک ہم کو جو اہل حدیث کو جواب دینا چاہیے وہ کیا ہو گا وہ لکھ دیں تاکہ سمجھ آئے آپ کے نزدیک جواب کیا ہو گا

      ———-
      میں نے جو لکھا ہے

      اگر مردے سنتے ہوتے تو انہیں کم از کم یہ تو پتا ہوتا کہ کب اس گڑھے سے نکلیں گے –

      اس جملے میں کیا خرابی ہے ؟ کیونکہ یہ مردے کون ہیں ؟ یہ عام مردے نہیں یہ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللَّهِ ہیں جن کی قبر پر مشرک جا رہے تھے
      اولیاء اللہ کی اگر اللہ تک رسائی ہے تو ان کو ضرور معلوم ہوتا کہ وہ اس قبر سے بھی زندہ ہو کر نکل سکتے ہیں

      اہل حدیث مولوی کا دماغ وہاں تک نہیں جا سکتا جہاں تک اس آیت میں بات کی گئی ہے
      ہم کو نہیں معلوم کب زندہ ہوں گے بلا شبہ نہیں معلوم – لیکن جس عقیدے کا قرآن میں رد کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اگر ہم ولی اللہ ہیں تو مرنے کے بعد ہم سفارشی بن جائیں گے اور ہم کو سب معلوم ہو جائے گا – نہیں اللہ کہتا ہے کہ ان سفارشیوں کو کچھ معلوم نہیں ہے

      Reply
  30. دریائے دیبل

    اھلحدیث کو جواب یہ دینا چاہیئے کہ آیت میں صاحب قبر کی حیات،سماع، علم ،ادراک اور شعور کا رد (اموات غیراحیاء) کے الفاظ سے اور صاحب قبر کے عالم الغیب ہونے کا رد ( ومایشعرون ایان یبعثون) کے الفاظ سے کیا گیا ہے جیسا کہ سورةالنمل آیت65 میں ارشاد ہوتا ہے:-۔

    قُلۡ لَّا یَعۡلَمُ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ الۡغَیۡبَ اِلَّا اللّٰہُ ؕ وَ مَا یَشۡعُرُوۡنَ اَیَّانَ یُبۡعَثُوۡنَ۔

    ایڈمن صاحب مجھے یقین ہے کہ اھلحدیث اس پر وہ اعتراض وارد نہیں کرسکتا جو آپ کی عبارت پر کرتا یے کیونکہ آپ کی عبارت کا سقم اعتراض وارد کرنے کی گنجائش فراھم کررہا ہے۔

    Reply
  31. دریائے دیبل

    آپ نے پوسٹ کے عنوان میں تصوف کی جڑ قبر کی زندگی کے عقیدے کو قرار دیا ہے اس پر دوبارہ غور کرلیں کہ تصوف کی بنیاد حلول، وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے نظریات ہیں یا قبر کی زندگی کا عقیدہ … ڈاکٹر عثمانی صاحب نے بھی لکھا ہے کہ کوئی صوفی ایسا نہیں جو تصوف کے ان تین بنیادی عقائد میں سے کسی کا قائل نہ ہو اور اپنی اسی بات کو ( خدائی = پیرکامل × اتحاد ثلاثہ) کے فارمولے سے بیان کیا ہے۔

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      حلول، وحدت الوجود اور وحدت الشہود تصوف کے چند فلسفیانہ نظریات ہیں لیکن اپنی عملی شکل میں جو عوام جانتے ہیں وہ مزارات ہیں
      میں نے پریکٹکل تصوف کے شرعی دلائل پر بات کی ہے اس کے فلسفہ کی نہیں
      ڈاکٹر عثمانی صاحب کی رائے ہے کہ کوئی صوفی ایسا نہیں جو تصوف کے ان تین بنیادی فلسفوں میں سے کسی کا قائل نہ ہو
      میرا زاویہ الگ ہے میں فلسفوں کی نہیں ان شرعی دلیلوں کی بات کر رہا ہوں جن کا ماخذ روایات ہیں

      Reply

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *