Q & A

You may also send us your questions and suggestions via Contact form

Post for Questions 

قارئین سے درخواست ہے کہ سوال لکھتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ سوال دینی مسئلہ پر ہونا چاہیے- وقت قیمتی شی ہے لہذا بے مقصد سوال سے پرہیز کریں – سوالات کے سیکشن کو غور سے دیکھ لیں ہو سکتا ہے وہاں اس کا جواب پہلے سے موجود ہو –

یاد رہے کہ دین میں غیر ضروری سوالات ممنوع ہیں اور انسانی علم محدود ہے

 اپ ان شرائط پر سوال کر سکتے ہیں

اول سوال اپ کا اپنا ہونا چاہیے کسی ویب سائٹ یا کسی اور فورم کا نہیں ہونا چاہیے کہ اس کا مواد  اپ وہاں سے یہاں کاپی کریں

دوم : جو جواب ملے اس کو اپ کسی اور ویب سائٹ پر پوسٹ کر کے اس پر سوال نہیں کریں گے نہ ہی اس ویب سائٹ کے کسی بلاگ کو پوسٹ کر کے کسی دوسری سائٹ سے جواب طلب کریں گے – یعنی اپ سوال کو اپنے الفاظ میں منتقل کریں اس کو کاپی پیسٹ نہ  کریں اگر اپ کو کسی اور سے یہی بات پوچھنی ہے تو اپنے الفاظ میں پوچھیں

سوم کسی عالم کو ہماری رائے سے “علمی” اختلاف ہو تو اس کو بھی اپنے الفاظ میں منتقل کر کے اپ اس پر ہمارا جواب پوچھ سکتے ہیں

چہارم نہ ہی اپ ہماری ویب سائٹ کے لنک پوسٹ کریں کہ وہاں دوسری سائٹ پر لکھا ہو “اپ یہ کہہ رہے ہیں اور وہ یہ کہہ رہے ہیں ” یہ انداز مناظرہ کی طرف لے جاتا ہے جو راقم کے نزدیک دین کو کھیل تماشہ بنانے کے مترادف ہے

تنبیہشرائط کی خلاف ورزی کی صورت میں جوابات پر پابندی لگا دی جائے گی

6 thoughts on “Q & A

    1. Islamic-Belief Post author

      wallaikumasalam

      Reply
  1. Abdullah

    السلام عليكم
    صدقہ فطر جب فرض نہیں تو اس کا مطلب شرک کرنے والے کو بھی دے سکتے ہیں؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      وعلیکم السلام

      صدقہ فطر واجب ہے اور اس کو اسلامی حکومت کو دینے کا حکم نہیں ہے بلکہ اس کو عام فقراء کو خود دیا جاتا ہے
      بعض فقہاء کا موقف ملتا ہے کہ واجب صدقات مثلاً نذر، صدقہ فطر، اور کفارہ وغیرہ کا مصرف صرف مسلمان ہیں
      بعض کے نزدیک اہل کتاب کو دے سکتے ہیں

      مصنف ابن أبي شیبة: (ما قالوا في الصدقة یعطي منها أهل الذمة، رقم الحدیث: 10410)
      عن إبراهیم بن مهاجر قال: سألت إبراهیم عن الصدقة علی غیر أهل الإسلام، فقال: أما الزکاة فلا، وأما إن شاء رجل أن یتصدق فلا بأس
      ابراہیم النخعی کا قول ہے کہ غیر اسلام کو زکوات نہیں دی جا سکتی البتہ صدقہ میں کچھ بھی دیا جا سکتا ہے

      جہاں تک مسلمانوں کے فرقوں کا تعلق ہے تو ان کے فقراء کو دیا جا سکتا ہے
      و اللہ اعلم

      Reply
  2. محمد نعیم

    اسلام علیکم
    کنا قعودا نکتب ما سمع من النبی فخرج علینا،فقال ما هذا تکتبون فقلنا ما نسمع منک فقال اکتاب مع کتاب الله؟ امحضوا
    اکتاب الله واخلصوه
    مسلم. ابن ماجه احمد
    اس روایت کچھ وضاحت کردیں
    جزاک الله خیر

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      السلام علیکم

      مسند احمد میں یہ روایت ملی ہے

      حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كُنَّا قُعُودًا نَكْتُبُ مَا نَسْمَعُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَجَ عَلَيْنَا، فَقَالَ: «مَا هَذَا تَكْتُبُونَ؟» فَقُلْنَا: مَا نَسْمَعُ مِنْكَ، فَقَالَ: «أَكِتَابٌ مَعَ كِتَابِ اللَّهِ؟» فَقُلْنَا: مَا نَسْمَعُ، فَقَالَ: «أَكِتَابٌ غَيْرُ كِتَابَ [ص:157] اللَّهِ امْحِضُوا كِتَابَ اللَّهِ، وَأَخْلِصُوهُ» قَالَ: فَجَمَعْنَا مَا كَتَبْنَا فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ، ثُمَّ أَحْرَقْنَاهُ بِالنَّارِ، قُلْنَا: أَيْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَتَحَدَّثُ عَنْكَ؟ قَالَ: «نَعَمْ تَحَدَّثُوا عَنِّي وَلَا حَرَجَ، وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ» قَالَ: فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَتَحَدَّثُ عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ؟ قَالَ: «نَعَمْ، تَحَدَّثُوا عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا حَرَجَ، فَإِنَّكُمْ لَا تَحَدَّثُونَ عَنْهُمْ بِشَيْءٍ إِلَّا وَقَدْ كَانَ فِيهِمْ أَعْجَبَ مِنْهُ»

      ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم بیٹھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنتے تھے وہ لکھ لیتے تھے – آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے تھے اور پوچھا کہ تم لوگ کیا لکھ رہے ہو ؟ ہم نے کہا: ہم نے جو اپ سے سنا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا (قرآن) اللہ کی کتاب سے لکھا ہے؟ ہم نے کہا، “نہیں، لیکن ہم سب لکھتے ہیں جو ہم سنتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کچھ تم نے لکھا ہے اسے مٹا دو اور صرف کتاب اللہ رہنے دو ۔ لہٰذا ہم نے جو کچھ اقوال نبی میں لکھا تھا اسے ایک جگہ جمع کیا اور اسے آگ سے جلا دیا۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہمیں حدیث بیان کرنے کی اجازت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں میرے بارے میں حدیث بیان کرو اور اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن جو شخص جان بوجھ کر میرے بارے میں جھوٹ بولتا ہے وہ دوزخ میں اپنا مقام تیار کر لے۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم بنی اسرائیل کے بارے میں بیان کر سکتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں بنی اسرائیل کے بارے میں بیان کرو اور اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ تم ان کے بارے میں کچھ حیرت انگیز بات کے سوا بیان نہیں کرتے۔

      روایت اس سند سے ضعیف ہے – اس میں عبد الرحمن بن زيد بن أسلم العدوي ہے جو کمزور راوی ہے
      البتہ اس روایت کے بعض حصے دیگر صحیح اسناد سے معلوم ہیں مثلا جس نے مجھ پر جھوٹ بولا اس کا انجام جہنم ہے
      یا بنی اسرائیل سے روایت کرنے میں حرج نہیں وغیرہ

      ——–

      ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نئے نئے سن 6 یا 7 ہجری میں ایمان لائے اور اصحاب صفہ میں آ کر بیٹھ گئے جو فقراء تھے وہاں کبھی کبھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم جاتے ان کو قرآن و حدیث بیان کرتے – ابو ہریرہ اور بعض اور اصحاب رسول قرآن اور حدیث کو ملا کر ایک ہی صفحہ یا مقام پر لکھ دیتے – اس میں خطرہ یہ تھا کہ بعد میں لوگ حدیث کو قرآن سمجھ لیں گے اور معلوم نہ ہو سکے گا کتاب اللہ کیا ہے اور قول نبی کیا ہے – لہذا اس سے بچنے کے لئے ابو ہریرہ کو منع کیا گیا کہ قرآن کے سوا کچھ مت لکھو

      بعد میں معلوم ہے جب قرآن مکمل ہوا اور سورہ المائدہ میں آیا کہ دین مکمل ہوا تو ایک صحابی ابو شاہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھ کو خطبہ حجہ الوداع لکھوا دیں تو اپ نے حکم دیا کہ اس کو لکھا جائے
      اسطرح واپس حدیث لکھنے کی عام اجازت امت کو دے دی گئی – علی رضی اللہ عنہ نے زکوات سے متعلق احکام اپنی نیام میں رکھ لئے
      اور اصحاب رسول نے بھی جز بنا لئے
      اور بنی اسرائیلیون کے اقوال بیان کرنے کی بھی اجازت دی گئی جو اسلام کے مطابق ہوں

      و اللہ اعلم

      Reply

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *