فضائل

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
میں علم کا شہر ہوں ابو بکر اس شہر کی بنیاد ہے عمر اس کی دیوار ہے اور عثمان اسکی چھت ہے
اور علی دروازہ ہے
بخاری جلد ٢ ص ٢١٤

جواب

یہ بخاری کی کسی کتاب میں نہیں ہے

اس کو مسند الفردوس میں بلا سند روایت کیا گیا ہے

وأورد صاحب الفردوس وتبعه ابنه المذكور بلا إسناد، عن ابن مسعود رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: “أنا مدينة العلم وأبو بكر أساسها، وعمر حيطانها، وعثمان سقفها، وعلي بابها”
المقاصد الحسنة في بيان كثير من الأحاديث المشتهرة على الألسنة از سخاوی

اس کے علاوہ کتاب كشف الخفاء ومزيل الإلباس از العجلوني کے مطابق
وروى الديلمي بلا إسناد عن ابن مسعود رفعه: “أنا مدينة العلم, وأبو بكر أساسها, وعمر حيطانها, وعثمان سقفها, وعلي بابها”.
الديلمي نے اس کو بلا سند نقل کیا ہے

کتاب الفردوس بمأثور الخطاب از شيرويه بن شهردار بن شيرو يه بن فناخسرو، أبو شجاع الديلميّ الهمذاني (المتوفى: 509هـ) میں اس کو عبد الله بن سعيد کی روایت کہا گیا ہے

اس روایت کا ایک حصہ کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے اہل سنت و اہل تشیع میں مقبول ہے

ابن حجر عسقلانی صاحب فتح الباری اس کو حسن روایت کہتے تھے اور اس کو ضعیف کہنے والوں پر جرح کرتے تھے
شوکانی الفوائد المجموعة في الأحاديث الموضوعة میں لکھتے ہیں
قال الحافظ ابن حجر: والصواب خلاف قولهما معًا. يعني: ابن الجوزي، والحاكم. وأن الحديث منقسم الحسن، لا يرتقي إلى الصحة، ولا ينحط إلى الكذب، انتهى.
ٹھیک قول ہے کہ یہ حسن ہے اور صحیح تک نہیں جاتی اور نہ ہی کذب ہے

البغوي مصابيح السنة میں کہتے ہیں اس کو ثقہ نے روایت کیا ہے
المُنَاوِي کتاب كَشْفُ المنَاهِجِ وَالتَّنَاقِيحِ في تَخْريِجِ أحَادِيثِ المَصَابِيحِ میں اس کو جید کہتے ہیں اور لکھتے ہیں
وقد ورد من طرق كثيرة صحيحه أن النبي – صلى الله عليه وسلم – لما أمر بسد الأبواب الشارعة في المسجد إلا باب علي، فشق على بعض من الصحابة، فأجابهم في عذره في ذلك
اور بہت سے صحیح طرق سے آیا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم جب یہ حکم کیا کہ مسجد کے رستہ میں جو دروازے ہیں ان سب کو بند کر دیا جائے سوائے علی کے دروازے کے تو اصحاب پر یہ سخت گزرا پس اس کا جواب دیا

سخاوی الأجوبة المرضية فيما سئل السخاوي عنه من الأحاديث النبوية میں اس پر آراء پیش کرتے ہیں پھر کہتے ہیں علی کی فضیلت پر اجماع اہل سنت ہے

یہ اس روایت کے حق میں آراء ہیں

دوسری طرف اس پر جرح کرنے والوں میں متقدمین محدثین میں امام بخاری ہیں اور امام الذھبی ہیں اور عصر حاضر میں البانی اور شعيب الأرناؤوط ہیں
جو اس کو موضوع قرار دیتے ہیں

جواب

صحیح مسلم کی حدیث 2491 ہے
==
حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْيَمَامِيُّ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، عَنْ أَبِي كَثِيرٍ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ، قَالَ: كُنْتُ أَدْعُو أُمِّي إِلَى الْإِسْلَامِ وَهِيَ مُشْرِكَةٌ، فَدَعَوْتُهَا يَوْمًا فَأَسْمَعَتْنِي فِي رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَكْرَهُ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي، قُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ إِنِّي كُنْتُ أَدْعُو أُمِّي إِلَى الْإِسْلَامِ فَتَأْبَى عَلَيَّ، فَدَعَوْتُهَا الْيَوْمَ فَأَسْمَعَتْنِي فِيكَ مَا أَكْرَهُ، فَادْعُ اللهَ أَنْ يَهْدِيَ أُمَّ أَبِي هُرَيْرَةَ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللهُمَّ اهْدِ أُمَّ أَبِي هُرَيْرَةَ» فَخَرَجْتُ مُسْتَبْشِرًا بِدَعْوَةِ نَبِيِّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا جِئْتُ فَصِرْتُ إِلَى الْبَابِ، فَإِذَا هُوَ مُجَافٌ، فَسَمِعَتْ أُمِّي خَشْفَ قَدَمَيَّ، فَقَالَتْ: مَكَانَكَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ وَسَمِعْتُ خَضْخَضَةَ الْمَاءِ، قَالَ: فَاغْتَسَلَتْ وَلَبِسَتْ دِرْعَهَا وَعَجِلَتْ عَنْ خِمَارِهَا، فَفَتَحَتِ الْبَابَ، ثُمَّ قَالَتْ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، قَالَ فَرَجَعْتُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَيْتُهُ وَأَنَا أَبْكِي مِنَ الْفَرَحِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ أَبْشِرْ قَدِ اسْتَجَابَ اللهُ دَعْوَتَكَ وَهَدَى أُمَّ أَبِي هُرَيْرَةَ، فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَقَالَ خَيْرًا، قَالَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ ادْعُ اللهَ أَنْ يُحَبِّبَنِي أَنَا وَأُمِّي إِلَى عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ، وَيُحَبِّبَهُمْ إِلَيْنَا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللهُمَّ حَبِّبْ عُبَيْدَكَ هَذَا – يَعْنِي أَبَا هُرَيْرَةَ – وَأُمَّهُ إِلَى عِبَادِكَ الْمُؤْمِنِينَ، وَحَبِّبْ إِلَيْهِمِ الْمُؤْمِنِينَ» فَمَا خُلِقَ مُؤْمِنٌ يَسْمَعُ بِي وَلَا يَرَانِي إِلَّا أَحَبَّنِي

======

یہ الگ بات ہے کہ یہ ضعیف ہے
اس میں عكرمة بن عمار اليمامي المتوفی ١٦٠ ھ ہے جس کی تضعیف امام احمد نے کی ہے
اس نے یہ روایت يحيى بن أبي كثير سے لی ہے جس پر امام القطان کا کہنا ہے
وقال يحيى بن سعيد القطان أحاديثه عن يحيى بن أبي كثير ضعاف
اس کی احادیث يحيى بن أبي كثير سے ضعیف ہیں
امام احمد نے کہا
أحاديث عكرمة بن عمار عن يحيى بن أبي كثير ضعاف ليست بصحاح
أحاديث عكرمة بن عمار جو يحيى بن أبي كثير سے ہیں ضعیف ہیں صحیح نہیں ہیں
یہ بھی کہا
عكرمة بن عمار، مضطرب الحديث عن يحيى بن أبي كثير. «العلل» (4492)
يحيى بن أبي كثير سے روایت کرنے میں مضطرب الحدیث ہے

الکامل از ابن عدی میں ہے
حَدَّثَنا ابْن حَمَّاد، قَال: حَدَّثَنا أَحْمَد بْن يعقوب بْن الفرجي، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيِّ يَقُولُ إِذَا قَالَ عِكرمَة بْن عمار سمعت يَحْيى بْن أبي كَثِيرٍ فانبذ يدك منه
امام علی المدینی سے پوچھا گیا کہ عِكرمَة بْن عمار نے يَحْيى بْن أبي كَثِيرٍ سے سنا ہے پس انہوں نے ہاتھ جھٹک دیا
اسی کتاب کے مطابق امام بخاری نے اس کو منکر الحدیث بھی کہا
سمعتُ ابن حماد يقول: قال البُخارِيّ قال عَبد اللَّه بن زياد، حَدَّثَنا عِكرمَة بْنُ عَمَّارٍ، عَن يَحْيى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَن أَبِي سَلَمَةَ، عَن أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسلَّمَ فِي الرِّبَا وَالزِّنَا مُنْكَرُ الْحَدِيثِ.

عكرمة بن عمار اليماني مدلس بھی ہے اور مختلط بھی
قال البيهقي: اختلط في آخر عمره وساء حفظه فروى ما لم يتابع عليه
بیہقی نے کہا یہ آخری عمر میں مختلط ہوا اس کا حافظہ خراب ہوا پھر روایت کیا جس کی کوئی متابعت نہیں کرتا

مسند احمد میں (اسی سند سے اس روایت 8242 پر) تعلیق میں أحمد محمد شاكر اوپر جن ائمہ کے اقوال دیے گئے ہیں ان سب پر فتوی لگاتے ہیں
إسناده صحيح، وعكرمة بن عمار ثقة، ومن ضعفه فقد غالى وأخطأ،
اس کی سند صحیح ہے اور عکرمہ ثقہ ہے اور جس نے اس کو ضعیف کہا وہ غالی ہے اور خطاکار ہے

راقم کہتا ہے یہ احمد شاکر کی حماقت ہے اگر ایسا ہے تو الکامل از ابن عدی میں اس سند کی تمام ضعیف روایات کو قبول کرنا پڑے گا جس سے مزید اضطراب پیدا ہو گا

جواب

اس کی سند میں عدي بن ثابت ہے
وقال السُّلَمِيُّ: سألت الدَّارَقُطْنِيّ عن عدي بن ثابت، فقال: ثقة، إلا أنه كان رافضيًا غاليًا فيه.
السُّلَمِيُّ نے کہا کہ میں نے دارقطنی سے اس کے بارے میں پوچھا کہا یہ ثقہ ہے لیکن رافضی غالی تھا

اب یہاں ابن حجر کا قول دیکھتے ہیں جو تہذیب التہذیب میں ابان بن تغلب کے ترجمہ میں ہے جو دارقطنی کے قول کے سراسر خلاف ہے

فالتشيع في عرف المتقدمين هو اعتقاد تفضيل علي على عثمان, وأن عليا كان مصيبا في حروبه وأن مخالفه مخطئ مع تقديم الشيخين وتفضيلهما, وربما اعتقد بعضهم أن عليا أفضل الخلق بعد رسول الله -صلى الله عليهآله وسلم-, وإذا كان معتقد ذلك ورعا دينا صادقا مجتهدا فلا ترد روايته بهذا, لا سيما إن كان غير داعية, وأما التشيع في عرف المتأخرين فهو الرفض المحض فلا تقبل رواية الرافضي الغالي ولا كرامة,
(تهذيب التهذيب الجزء الاول ترجمہ ابان بن تغلب)
متقدمین نے جنہیں شیعہ کہا ہے تو اس سے مراد صرف وہ لوگ ہیں جو علی ؓ کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر فضیلت دیتے تھے، اور جنگوں میں جناب علی کو حق پر اور انکے مخالفین کو خطا پر سمجھتے تھے، لیکن ساتھ ہی شیخین یعنی سیدنا ابو بکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کی فضیلت و برتری کے بھی قائل تھے ، ہاں ان میں بعض کا عقیدہ تھا کہ جناب علی ؓ پیغمبر کے بعد سب سے افضل ہیں ،
اور اگر یہ عقیدہ رکھنے والا نیک اور دیندار ، اور سچا ہو ، تو اسکی روایت رد نہیں کی جائے گی ،خاص کر جب وہ اپنی روایت میں اپنے مذہب کا داعی نہ ہو ۔
اور جہاں تک متاخرین کے دور کے شیعہ کا تعلق ہے تو واضح رہے کہ یہ خالص رافضی ہیں اور رافضی کی روایت کسی صورت قبول نہیں ہوتی ، نہ ان کی کوئی حیثیت ہے

دوسری طرف امام دارقطنی کے نزدیک عدی بن ثابت رافضی ہے

معلوم ہوا ابن حجر یہ دعوی غلط ہے کہ متقدمین میں رافضی نہیں تھے
————-

چونکہ عدی بن ثابت شیعہ و رافضی ہیں اس روایت پر دارقطنی نے کلام کیا ہے

کتاب الإلزامات والتتبع از دارقطنی میں دارقطنی نے امام مسلم کا خاص ذکر کیا کہ اس روایت کو انہوں نے قبول کر لیا ہے جبکہ بخاری نے اس کو نہیں لیا
وأخرج مسلم حديث عدي بن ثابت: والذي فلق الحبة. ولم يخرجه البخاري.

طبرانی المعجم الاوسط میں روایت ہے :
حدثنا عبد الرحمن بن سلم قال: نا أبو الأزهر النيسابوري قال: حدثني عبد الرزاق، وحدي قال: نا معمر، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس قال: نظر النبي صلى الله عليه وسلم إلى علي، فقال: «لا يحبك إلا مؤمن، ولا يبغضك إلا منافق، من أحبك فقد أحبني، ومن أبغضك فقد أبغضني، وحبيبي حبيب الله، وبغيضي بغيض الله، ويل لمن أبغضك بعدي»
لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ إِلَّا أَبُو الْأَزْهَرِ النَّيْسَابُورِيُّ ”

سند میں أحمد بن الأزهر أبو الأزهر النيسابوري. ہے
جس کی روایات يا علي أنت سيد في الدنيا والآخرة پر محدثین کو اعتراض تھا
ابن عدی الکامل میں کہتے ہیں
وأَمَّا هذا الحديث عن عَبد الرَّزَّاق، فعَبد الرَّزَّاق من أهل الصدق، وَهو ينسب إلى التشيع، فلعله شبه عليه لأنه شيعي.
یہ عبد الرزاق سے روایت کرتے- عبد الرزاق تو اہل صدق میں سے ہیں اور ان کو شیعہ سے نسبت دی جاتی ہے تو ممکن ہے لوگوں کو شبہ ہوا ہو کہ یہ بھی شیعہ ہیں

معجم ابن الأعرابي میں ہے
نا عَلِيٌّ، نا أَبُو غَسَّانَ النَّهْدِيُّ، نا إِسْرَائِيلُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: مَا كُنَّا نَعْرِفُ مُنَافِقِي الْأَنْصَارِ إِلَّا بِبُغْضِهِمْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ
سند میں اعمش مدلس کا عنعنہ ہے
ابی صالح کا پتا نہیں کون سا ہے کیونکہ اعمش کئی ابی صالح سے روایت کرتے ہیں
إسرائيل بن يونس بن أبي إسحاق السبيعي کو ابن حزم نے ضعیف قرار دیا ہے يحيى القطان نے اس کو ترک کیا
يَعْقُوْبُ بنُ شَيْبَةَ: صَدُوْقٌ، وَلَيْسَ بِالقَوِيِّ قرار دیا – عَلِيِّ بنِ المَدِيْنِيِّ نے ضعیف قرار دیا

متفق علیہ روایت ہے
“الأنصار لا يحبهم إلا مؤمن، ولا يبغضهم إلا منافق، فمن أحبهم أحبه الله، ومن أبغضهم أبغضه اللهُ
انصار سے سوائے مومن کے کوئی محبت نہیں کرتا پس جو ان سے محبت کرے الله اس سے محبت کرے گا اور ان سے سوائے منافق کوئی بغض نہیں رکھتا

یہ خصوص و عموم کی بحث ہے – انصار کی تو کثیر تعداد ہے جو علی رضی الله عنہ کے خصوص کو ختم کر دیتی ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ انصار والی روایت کی سند ، علی سے متعلق روایت سے بہت بہت بہتر ہے
——–

علی اصحاب رسول میں سے ہیں جن کے ایمان کی گواہی قرآن میں ہے اور تمام اصحاب رسول سے محبت لازم ہے

جواب

dit)
مسند البزار کی روایت ہے
حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْعَمِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا رِبْعِيُّ ابْنُ عُلَيَّةَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَوْفٌ، عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى، رَفَعَهُ قَالَ: «لَمَّا أُخْرِجَ آدَمُ مِنَ الْجَنَّةِ، زُوِّدَ مِنْ ثِمَارِ الْجَنَّةِ، وَعَلَّمَهُ صَنْعَةَ كُلِّ شَيْءٍ، فَثِمَارُكُمْ هَذِهِ مِنْ ثِمَارِ الْجَنَّةِ، غَيْرَ أَنَّ هَذِهِ تَغَيَّرُ وَتِلْكَ لَا تَغَيَّرُ
ابی موسی نے روایت کو بلند کیا کہ جب آدم کو جنت سے نکلے تو ان کو جنت کے پھل دیے گئے اور ہر فن سکھایا گیا پس یہ تمہارے پھل جنت کے پھلوں میں سے ہیں سوائے اس کے کہ یہ خراب ہوتے ہیں اور وہ (جو آدم کے پاس تھے) خراب نہ ہوتے تھے

اس کی سند میں بصری ہیں عَوْفٌ، عَنْ قَسَّامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ اور اس روایت کو ابو موسی سے صرف یہ دونوں نقل کرتے ہیں
جنت کے پھل اس زمین پر ہیں تو وہ ختم نہیں ہو سکتے کیونکہ جنت خرابی کے عیب سے پرے ہے
حدیث میں ہے کہ نماز کسوف میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے سامنے جنت لائی گئی اپ نے اس میں سے انگور کا خوشہ لینے کی کوشش کی لیکن پوری نہ ہوئی بعد میں کہا کہ اگر وہ مل جاتا تو اس کو لوگ کھاتے رہتے یعنی وہ پھل ختم نہ ہوتا
اس سے ظاہر ہے زمین پر ایسا کوئی پھل نہیں جس کی یہ خوبی ہو

لہذا آدم علیہ السلام والی یہ روایت منکر ہے

شجر ممنوعہ کھاتے ہی تمام نعمتیں دور ہو گئی آدم و حوا علیھما السلام کو مع شیطان ہبوط کا حکم ہوا اور کہا
اب زمین رہنے کا مقام ہے ظاہر ہے زمین پر جنت کے مزے نہیں تھے کہ وہ اس کے پھل کھاتے رہتے

جواب

اسد الغابہ کی سند ہے
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي عَلِيٍّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو رُشَيْدٍ عَبْدُ الْكَرِيمِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مَسْعُودٍ سُلَيْمَانُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَيْمَانَ، أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ مَرْدَوَيْهِ الْحَافِظُ، أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ إِسْحَاقَ الْمُفَسِّرُ الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَرْدَوَيْهِ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بِسْطَامَ، أَخْبَرَنَا سَهْلُ بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ مَنْصُورٍ الْعَنْزِيُّ، حَدَّثَنِي أَبُو الْجَنُوبِ عُقْبَةُ بْنُ عَلْقَمَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، يَقُولُ: سَمِعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” لَوْ أَنَّ لِي أَرْبَعِينَ بِنْتًا زَوَّجْتُ عُثْمَانَ وَاحِدَةً بَعْدَ وَاحِدَةٍ، حَتَّى لا يَبْقَى مِنْهُنَّ وَاحِدَةٌ

فضائل الخلفاء الأربعة وغيرهم لأبي نعيم الأصبهاني کی روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُحَمَّدٍ، ثنا محمد بْنُ شِبْلٍ، ثنا الْعَلَاءُ بْنُ عَمْرٍو، ثنا النَّضْرُ بْنُ مُعَاوِيَةَ مَنْصُورٌ الْعَنَزِيُّ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ: «لَوْ أَنَّ لِيَ أَرْبَعِينَ بِنْتًا لِزَوَّجْتُكَ وَاحِدَةً بَعْدَ وَاحِدَةٍ حَتَّى لَا يَبْقَى مِنْهُنَّ وَاحِدَةٌ»

دونوں کی سند میں عقبة بن علقمة اليشكرى ، أبو الجنوب الكوفى ہے جو ضعیف ہے
. أبو حاتم: ضعيف بين الضعف لا يشتغل به.
ابو حاتم کہتے ہیں ضعیف  … اس میں مبتلا مت ہونا

الغرض روایت ضعیف ہے

الصدیق کا لقب اس لئے دیا گیا کیونکہ مشرکین نے کہا کہ محمد نے دعوی کیا کہ ایک رات میں مکہ سے شام گیا یعنی معراج میں اس پر ابو بکر نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے تصدیق سے پہلے ہی تصدیق کر دی

الشريعة از أبو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) کی روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبُو الْقَاسِمِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْبَغَوِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ زَنْجُوَيْهِ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , عَنْ مَعْمَرٍ , عَنِ الزُّهْرِيِّ فِي حَدِيثِهِ عَنْ عُرْوَةَ قَالَ: سَعَى رِجَالٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالُوا لَهُ: هَذَا صَاحِبُكَ يَزْعُمُ أَنَّهُ قَدْ أُسْرِيَ بِهِ اللَّيْلَةَ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ , ثُمَّ رَجَعَ مِنْ لَيْلَتِهِ , فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَوَ قَالَ ذَاكَ؟ قَالُوا: نَعَمْ , قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: فَأَنَا أَشْهَدُ إِنْ كَانَ قَالَ ذَاكَ لَقَدْ صَدَقَ , قَالُوا: تُصَدِّقُهُ أَنَّهُ قَدْ جَاءَ الشَّامَ فِي لَيْلَةٍ وَاحِدَةٍ وَرَجَعَ قِبَلَ أَنْ يُصْبِحَ؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ [ص:1539] عَنْهُ: نَعَمْ , أَنَا أُصَدِّقُهُ بِأَبْعَدَ مِنْ ذَلِكَ , أُصَدِّقُهُ بِخَبَرِ السَّمَاءِ غُدْوَةً وَعَشِيَّةً فَلِذَلِكَ سُمِّيَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: الصِّدِّيقَ

الفاروق کے لقب پر کوئی روایت نہیں ملی اغلبا یہ عوام میں مشھور قول ہے

صحیح بخاری میں بکثرت الصِّدِّيقِ کا لقب ابو بکر رضی الله عنہ کے لئے لکھا گیا ہے البتہ الفاروق کا لقب نہیں ملتا

حضرت فاطہ رضی اللہ عنہا کی حیا کے متعلق تاریخ میں کچھ ثبوت بیان ہوئے ہیں، جن کی تفصیل درج ذیل ہے

ایک ثبوت تو یہی ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کہا کرتیں تھیں کہ مجھے حیا آتی ہے کہ جب میرا انتقال ہو تو لوگ مردوں کی تخت پر لٹا کر اور ایک کپڑا اوڑھا کر مجھے کندھے پر اٹھا لیں۔اس لیے اندیشہ ہے کہ کپڑے کے اوپر سے میرا جسم ظاہر ہو۔
یہی بات انھوں نے ایک دفعہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے کہی ، تو حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا:
جگر گوشہ رسولﷺ ! کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ دکھاؤں جو میں نے ’’ حبشہ ‘‘ میں دیکھی تھی۔حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا ، کیوں نہیں ضرور۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے کھجور کی تازہ ٹہنیاں منگوائیں ، کمان کی شکل میں ان کو موڑ موڑ کر رکھا ، اور ان کے اوپر کپڑا ڈال دیا ، حضرت فاطمہ رضہ اللہ عنہا نے فرمایا ، یہ تو بڑی اچھی چیز ہے ، اس سے مرد و عورت کے جنازہ میں امتیاز ہو جائے گا اور عورت کا جسم بھی چھپ جائے گا۔دیکھو اسماء ! جب میرا انتقال ہو تو تم اور علی میرے غسل میں شریک ہوں، کوئی اور میرے قریب نہ آئے ، اور میری چارپائی پر اسی طرح چھڑیاں رکھ دینا۔
جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے دلہن کے ڈولے کی طرح کی ایک پردہ پوش چادر چارپائی تیار کی ، اور کہا : فاطمہ نے مجھے اس کی وصیت کی تھی۔
(تاریخ مدینہ منورہ1، 105، حلیۃ الاولیاء 2، 43) اسد الغابہ 6 ، 662)

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اسلام میں سب سے پہلی عورت ہیں جن کا جنازہ کسی پردہ پوش چارپائی پر اٹھایا گیا،
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بعد ام لمؤمنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کا جنازہ بھی اسی طرح پردہ کے ساتھ لے جایا گیا، اور ان کے بعد تو یہی طریقہ رائج ہو گیا۔

(الاستیعاب 4، 1898)

جواب

تاریخ مدینہ میں یہ قول ہے
حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ النَّبِيلُ قَالَ: حَدَّثَنَا كَهْمَسُ بْنُ الْحَسَنِ قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ قَالَ: ” كَمِدَتْ فَاطِمَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا بَعْدَ وَفَاةِ أَبِيهَا سَبْعِينَ بَيْنَ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ فَقَالَتْ: إِنِّي لَأَسْتَحِي مِنْ جَلَالَةِ جِسْمِي إِذَا أُخْرِجْتُ عَلَى الرِّجَالِ غَدًا – وَكَانُوا يَحْمِلُونَ الرِّجَالَ كَمَا يَحْمِلُونَ النِّسَاءَ – فَقَالَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ، أَوْ أ ُمُّ سَلَمَةَ: إِنِّي رَأَيْتُ شَيْئًا يُصْنَعُ بِالْحَبَشَةِ، فَصَنَعَتِ النَّعْشَ، فَاتُّخِذَ بَعْدَ ذَلِكَ سُنَّةً ”

یہ يَزِيْدَ بنِ الشِّخِّيْرِ کا قول ہے جو بہت بعد کے ہیں
ایسا کسی حدیث میں دور نبوی کے لئے نہیں اتا

جواب

اس روایت پر

حدیث حسن صحیح امام ترمذی کا قول ہے
البانی نے اس کو ضعیف کہا ہے اس کی سند میں عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ہے جس کو منکر الحدیث کہا گیا ہے

ابن العثيمين  کتاب ریاض الصالحین پر تعلیق میں کہتے ہیں
فهذا حديث ضعيف وإن صححه المؤلف، فطريقة المؤلف رحمه الله له أنه يتساهل في الحكم على الحديث إذا كان في فضائل الأعمال.
یہ حدیث ضعیف ہے اگرچہ مولف یعنی النووی نے اس کو صحیح کہا ہے کیونکہ نووی کا طریقه ہے کہ وہ حدیث پر حکم لگانے میں متساہل ہیں کیونکہ یہ فضائل آعمال میں ہے

تحقیق درکار ہے

حبہ عرفی کہتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو منبر پر اس طرح ہنستے ہوئے دیکھا کہ اس سے قبل انہیں اتنا ہنستے ہوئے کبھی نہیں دیکھا تھا ، یہاں تک کہ ان کے آخری دانت بھی نظر آنے لگے، پھر فرمانے لگے کہ مجھے اپنے والد ابو طالب کی ایک بات یاد آگئی، ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بطن نخلہ میں نماز پڑھ رہا تھا کہ ابوطالب آگئے اور کہنے لگے کہ بھتیجے! یہ تم دونوں کیا کر رہے ہو؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی، وہ کہنے لگے کہ تم دونوں جو کر رہے ہو اس میں کوئی حرج تو نہیں ہے لیکن بخدا! مجھ اپنے کولہے اوپر نہ کئے جاسکیں گے، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے والد کی اس بات پر تعجب سے ہنسی آگئی اور فرمانے لگے کہ اے اللہ! میں اس بات پر فخر نہیں کرتا کہ آپ کے نبی کے علاوہ اس امت میں آپ کے کسی بندے نے مجھ سے پہلے آپ کی عبادت کی ہو، یہ بات تین مرتبہ دہرا کر وہ فرمانے لگے کہ میں نے لوگوں کے نماز پڑھنے سے سات سال پہلے نماز پڑھی ہے۔

مسند احمد : مسند العشرۃ المبشرین بالجنۃ : 757

جواب

مسند احمد کی سند ہے
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ، مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَلَمَةَ يَعْنِي ابْنَ [ص:166] كُهَيْلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، عَنْ حَبَّةَ الْعُرَنِيِّ، قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا، ضَحِكَ عَلَى الْمِنْبَرِ لَمْ أَرَهُ ضَحِكَ ضَحِكًا أَكْثَرَ مِنْهُ، حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ، ثُمَّ قَالَ: ذَكَرْتُ قَوْلَ أَبِي طَالِبٍ، ظَهَرَ عَلَيْنَا أَبُو طَالِبٍ، وَأَنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ نُصَلِّي بِبَطْنِ نَخْلَةَ، فَقَالَ: مَاذَا تَصْنَعَانِ يَا ابْنَ أَخِي؟ «فَدَعَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْإِسْلامِ» ، فَقَالَ: مَا بِالَّذِي تَصْنَعَانِ بَأْسٌ، أَوْ بِالَّذِي تَقُولانِ بَأْسٌ، وَلَكِنْ وَاللَّهِ لَا تَعْلُوَنِي اسْتِي أَبَدًا، وَضَحِكَ تَعَجُّبًا لِقَوْلِ أَبِيهِ، ثُمَّ قَالَ: «اللَّهُمَّ لَا أَعْتَرِفُ أَنَّ عَبْدًا لَكَ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ عَبَدَكَ قَبْلِي غَيْرَ نَبِيِّكَ – ثَلاثَ مِرَارٍ – لَقَدْ صَلَّيْتُ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ النَّاسُ سَبْعًا»
اس میں یحیی بن سملہ بن کھیل متروک ہے
لہذا یہ روایت باطل ہے

لیکن اس میں یحیی کا تفرد نہیں حبة بن جوين العرني الكوفي. المتوفی ٧٦ ھ کا تفرد ہے الذھبی میزان میں اس پر جرح پیش کرتے ہیں

من غلاة الشيعة،
یہ غالی شیعوں میں سے ہے

يحيى بن معين: كان غير ثقة.
و [حدث سلمة] (1) قال النسائي: ليس بالقوي.
وقال ابن معين وابن خراش: ليس بشئ.
وقال أحمد بن عبد الله العجلي: تابعي ثقة.

یعنی بشتر محدثین اس کو غیر ثقہ کہتے ہیں لیکن العجلی جو شیعیت سے متاثر تھے اس کو ثقہ کہتے ہیں
——-

نماز معراج میں فرض ہوئی اس سے قبل نفل تھی معراج کب ہوئی اس میں بھی کوئی حتمی قول نہیں بعض کہتے ہیں نبوت کے شروع میں اور بعض کہتے ہیں عام الحزن کے بعد
علی رضی الله عنہ سے منسوب قول مبہم ہے کہ سات سال پہلے کون سی نماز پڑھی
علی کہا جاتا ہے چار سال کی عمر میں ایمان لائے اور دوسرا قول ہے ١٧ سال کی عمر میں ظاہر ہے وہ جب ایمان لائے تو نماز پڑھی جا رہی تھی

اس روایت کا کیا مطلب ہے؟

‌صحيح البخاري: كِتَابُ المَنَاقِبِ (بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِي الإِسْلاَمِ) صحیح بخاری: کتاب: فضیلتوں کے بیان میں

(باب: آنحضرت ﷺکےمعجزات یعنی نبوت کی نشانیوں کابیان)

3617 . حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ رَجُلٌ نَصْرَانِيًّا فَأَسْلَمَ وَقَرَأَ الْبَقَرَةَ وَآلَ عِمْرَانَ فَكَانَ يَكْتُبُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَادَ نَصْرَانِيًّا فَكَانَ يَقُولُ مَا يَدْرِي مُحَمَّدٌ إِلَّا مَا كَتَبْتُ لَهُ فَأَمَاتَهُ اللَّهُ فَدَفَنُوهُ فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْهُ الْأَرْضُ فَقَالُوا هَذَا فِعْلُ مُحَمَّدٍ وَأَصْحَابِهِ لَمَّا هَرَبَ مِنْهُمْ نَبَشُوا عَنْ صَاحِبِنَا فَأَلْقَوْهُ فَحَفَرُوا لَهُ فَأَعْمَقُوا فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْهُ الْأَرْضُ فَقَالُوا هَذَا فِعْلُ مُحَمَّدٍ وَأَصْحَابِهِ نَبَشُوا عَنْ صَاحِبِنَا لَمَّا هَرَبَ مِنْهُمْ فَأَلْقَوْهُ فَحَفَرُوا لَهُ وَأَعْمَقُوا لَهُ فِي الْأَرْضِ مَا اسْتَطَاعُوا فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْهُ الْأَرْضُ فَعَلِمُوا أَنَّهُ لَيْسَ مِنْ النَّاسِ فَأَلْقَوْهُ

ہم سے ابومعمر نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا کہا ہم سے عبدالعزیز نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک شخص پہلے عیسائی تھا ۔ پھر وہ اسلام میں داخل ہوگیا تھا ۔ اس نے سورہ بقرہ اور آل عمران پڑھ لی تھی اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا منشی بن گیا لیکن پھر وہ شخص مرتد ہوکر عیسائی ہوگیا اور کہنے لگا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے جو کچھ میں نے لکھ دیا ہے اس کے سوا اسے اور کچھ بھی معلوم نہیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی موت واقع ہوگئی اور اس کے آدمیوں نے اسے دفن کردیا ، جب صبح ہوئی تو انہوں نے دیکھا کہ اس کی لاش قبر سے نکل کر زمین کے اوپر پڑی ہے ۔ عیسائی لوگوں نے کہا کہ یہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اس کے ساتھیوں کاکام ہے ۔ چونکہ ان کا دین اس نے چھوڑدیا تھا اس لیے انہوں نے اس کی قبر کھودی ہے اور لاش کو باہر نکال کر پھینک دیا ہے ۔ چنانچہ دوسری قبر انہوں نے کھودی جو بہت زیادہ گہری تھی ۔ لیکن جب صبح ہوئی تو پھر لاش باہر تھی ۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے یہی کہا کہ یہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کے ساتھیوں کا کام ہے چونکہ ان کا دین اس نے چھوڑ دیا تھا اس لیے اس کی قبر کھود کر انہوں نے لاش باہر پھینک دی ہے ۔ پھر انہوں نے قبر کھودی اور جتنی گہری ان کے بس میں تھی کرکے اسے اس کے اندر ڈال دیا لیکن صبح ہوئی تو پھر لاش باہر تھی ۔ اب انہیں یقین آیا کہ یہ کسی انسان کا کام نہیں ہے ( بلکہ یہ میت عذاب خداوندی میں گرفتار ہے ) چنانچہ انہوں نے اسے یونہی ( زمین پر ) ڈال دیا ۔

کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ایسے کاتبین وحی کی تحداد کتنی ہے جو مرتد ہوے

کیا معاویہ رضی الله عنہ کو کاتب الوحی کہنا ان کی فضیلت بن سکتا ہے ؟

جواب

دو افراد کے لئے اتا ہے کہ وہ کاتب الوحی تھے پھر مرتد ہوئے

ایک نصرانی تھا پھر مسلمان ہوا پھر نصرانی ہوا اور مرا یہی روایت اپ نے پیش کی ہے

دوسرے  عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح رضی الله عنہ ہیں ان پر یہ جھوٹا الزام شیعوں کا ہے جس پر تحقیق یہاں ویب سائٹ پر الوحی پر سوالات کے سیکشن میں موجود ہے

کاتب الوحی ہونا مغفرت کی دلیل نہیں ہے

لیکن کاتب الوحی مقرر کیا جانا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے اعتماد کی نشانی ہے لہذا اس کاتب میں جو مرتد ہوا اور معاویہ رضی الله عنہ میں بعد المشرقین ہے معاویہ رضی الله عنہ امیر المومنین کی حثیت میں فوت ہوئے
وللہ الحمد

امام نسائی نے ” الخصائص ” میں اور امام احمد بن حنبل نے مسند میں

عبد اللہ بن بریدہ اسلمی کے طریق سے روایت نقل کری ھے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کو کہتے ہوئے سنا فرمارہے تھے کہ ہم نے خیبر کا محاصرہ کیا ہوا تھا تو حضرت ابوبکر نے جنگ کے لیئے علم تھاما لیکن ان کو فتح نہی ہوئی اگلے دن علم حضرت عمر نے لیا لیکن عمر بھی لوٹ آئے اور فتح نہ ہوسکی اور اس دن لوگوں کو سخت شدت مشکل کا سامنا کرنا پڑا تو رسول اللہ ص نے فرمایا کل میں علم ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ھے اور اللہ اور اسکا رسول اس کو محبوب رکھتے ہیں وہ فتح حاصل کرے بغیر نہی لوٹے گا راوی کہتا ھے کہ ہم نے اطمینان سے رات بسر کری کہ کل ضرور فتح ملے گی پس جب رسول خدا نے صبح کری اور نماز فجر پڑھائی پھر آکر قیام کیا اور علم اٹھایا اس حال میں کہ لوگ اپنی صفوں میں تھے پس ہم میں سے جسکی بھی رسول اللہ ص کے نزدیک تھوڑی سی منزلت تھی وہ یہی امید کررہا تھا کہ پرچم وہ تھامے گا لیکن آپ نے علی بن ابی طالب کو بلایا اس حال میں کہ حضرت علی آشوب چشم میں مبتلا تھے پھر آپ نے انہیں لعاب مبارک لگایا اور انکی آنکھوں پر ہاتھ مبارک پھیرا پھر علم تھمایا اور اللہ نے ان کے ہاتھوں سے فتح عطاء فرمائی راوی کہتا ھے کہ میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جو علم ملنے کے امیدوار تھے۔

اسنادی حیثیت : اس روایت کی سند کو مسند احمد بن حنبل کے محققین شیخ شعیب الارنؤوط اور شیخ احمد شاکر نے صحیح کہا ھے اسیطرح ” خصائص ” کے محقق الدانی بن منیر نے بھی اس روایت کی سند کو صحیح کہا ھے۔

————-

2

[مستدرک حاکم]

روایت کا ترجمہ

امام حاکم نے عبد الرحمان بن أبی لیلی کے طریق سے روایت نقل کری ھے ابی لیلی کہتے ہیں کہ حضرت علی نے کہا کہ ابو لیلی کیا تم ہمارے ساتھ خیبر میں نہی تھے؟؟ ابو لیلی نے کہا قسم بخدا میں آپ حضرات کیساتھ ہی تھا ۔ حضرت علی نے فرمایا کہ رسول خدا نے ابو بکر کو خیبر کیطرف بھیجا پس حضرت ابوبکر لوگوں کیساتھ گئے لیکن ہزیمت سے دوچار ہوگئے یہاں تک کہ واپس لوٹ آئے۔

3

[مستدرک حاکم]

روایت کا ترجمہ

ابو موسی حنفی روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی نے بیان کیا کہ رسول اللہ خیبر کیطرف چلے پس جب پہنچ گئے تو حضرت عمر کو ایک لشکر کیساتھ یہود کے قلعوں کیطرف بھیجا پس انہوں نے قتال کیا اور قریب تھا کہ حضرت عمر اور انکے ساتھی شکست کھاجاتے چنانچہ واپس لوٹ آئے اس حال میں کہ لشکر والے حضرت عمر کو بزدلی کا طعنہ دے رہے تھے اور حضرت عمر لشکر کو بزدلی کا طعنہ دے رہے تھے ۔

اسنادی حیثیت

ان دونوں روایات کو امام حاکم نے صحیح کہا ھے اورانکی تصحیح پر علامہ ذھبی نے بھی تلخیص میں انکی موافقت کری ھے ۔

جواب

امام نسائی نے ” الخصائص ” میں اور امام احمد بن حنبل نے مسند میں

عبد اللہ بن بریدہ اسلمی کے طریق سے روایت نقل کری ھے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کو کہتے ہوئے سنا فرمارہے تھے کہ ہم نے خیبر کا محاصرہ کیا ہوا تھا تو حضرت ابوبکر نے جنگ کے لیئے علم تھاما لیکن ان کو فتح نہی ہوئی اگلے دن علم حضرت عمر نے لیا لیکن عمر بھی لوٹ آئے اور فتح نہ ہوسکی اور اس دن لوگوں کو سخت شدت مشکل کا سامنا کرنا پڑا تو رسول اللہ ص نے فرمایا کل میں علم ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ھے اور اللہ اور اسکا رسول اس کو محبوب رکھتے ہیں وہ فتح حاصل کرے بغیر نہی لوٹے گا راوی کہتا ھے کہ ہم نے اطمینان سے رات بسر کری کہ کل ضرور فتح ملے گی پس جب رسول خدا نے صبح کری اور نماز فجر پڑھائی پھر آکر قیام کیا اور علم اٹھایا اس حال میں کہ لوگ اپنی صفوں میں تھے پس ہم میں سے جسکی بھی رسول اللہ ص کے نزدیک تھوڑی سی منزلت تھی وہ یہی امید کررہا تھا کہ پرچم وہ تھامے گا لیکن آپ نے علی بن ابی طالب کو بلایا اس حال میں کہ حضرت علی آشوب چشم میں مبتلا تھے پھر آپ نے انہیں لعاب مبارک لگایا اور انکی آنکھوں پر ہاتھ مبارک پھیرا پھر علم تھمایا اور اللہ نے ان کے ہاتھوں سے فتح عطاء فرمائی راوی کہتا ھے کہ میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جو علم ملنے کے امیدوار تھے۔

اسنادی حیثیت : اس روایت کی سند کو مسند احمد بن حنبل کے محققین شیخ شعیب الارنؤوط اور شیخ احمد شاکر نے صحیح کہا ھے اسیطرح ” خصائص ” کے محقق الدانی بن منیر نے بھی اس روایت کی سند کو صحیح کہا ھے۔

سند ہے
أخبرنَا مُحَمَّد بن عَليّ بن حَرْب الْمروزِي قَالَ أخبرنَا معَاذ بن خَالِد قَالَ أخبرنَا الْحُسَيْن بن وَاقد عَن عبد الله بن بُرَيْدَة قَالَ سَمِعت أبي بُرَيْدَة يَقُول حاصرنا خَيْبَر فَأخذ اللِّوَاء أَبُو بكر وَلم يفتح لَهُ وَأخذ من الْغَد عمر فأنصرف وَلم يفتح لَهُ وَأصَاب النَّاس يَوْمئِذٍ شدَّة وَجهد فَقَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم إِنِّي دَافع لِوَائِي غَد إِلَى رجل يحب الله وَرَسُوله وَيُحِبهُ الله وَرَسُوله لَا يرجع حَتَّى يفتح لَهُ وبتنا طيبَة أَنْفُسنَا أَن الْفَتْح غَدا فَلَمَّا أصبح رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم صلى الْغَدَاة ثمَّ قَامَ قَائِما ودعا باللواء وَالنَّاس على مَصَافهمْ فَمَا منا إِنْسَان لَهُ منزلَة عِنْد رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم إِلَّا هُوَ يَرْجُو أَن يكون صَاحب اللِّوَاء فَدَعَا عَليّ بن أبي طَالب وَهُوَ أرمد فتفل فِي عَيْنَيْهِ وَمسح عَنهُ وَدفع إِلَيْهِ اللِّوَاء وَفتح الله لَهُ قَالَ وَأَنا فِيمَن تطاول لَهَا

سند میں حسین بن واقد ہے احمد کہتے ہیں بعض روایات منکر ہیں
قَالَ أَحْمَدُ: فِي بَعْضِ حَدِيْثِهِ نَكِرَةٌ.

خود یہ مدلس بھی ہے
احمد العلل میں کہتے ہیں
قال عبد الله بن أحمد: قال أبي: ما أنكر حديث حسين بن واقد، وأبي المنيب، عن ابن بريدة. «العلل» (497
حسین بن واقد کی ابن بریدہ سے روایت منکر ہے

ایک موقعہ پر اس کی روایت امام احمد کے سامنے پیش ہوئی اس پر پوچھا کس نے اس کو روایت کیا بتایا گیا حسین بن واقد نے
وقال: من روى هذا؟ قيل له: الحسين بن واقد. فقال بيده، وحرك رأسه، كأنه لم يرضه. «ضعفاء العقيلي» (300) .
تو امام احمد نے ہاتھ ہلایا گویا اس سے نا خوش ہوں

یعنی یہ راوی ضعیف ہے
————-

2

[مستدرک حاکم]

روایت کا ترجمہ

امام حاکم نے عبد الرحمان بن أبی لیلی کے طریق سے روایت نقل کری ھے ابی لیلی کہتے ہیں کہ حضرت علی نے کہا کہ ابو لیلی کیا تم ہمارے ساتھ خیبر میں نہی تھے؟؟ ابو لیلی نے کہا قسم بخدا میں آپ حضرات کیساتھ ہی تھا ۔ حضرت علی نے فرمایا کہ رسول خدا نے ابو بکر کو خیبر کیطرف بھیجا پس حضرت ابوبکر لوگوں کیساتھ گئے لیکن ہزیمت سے دوچار ہوگئے یہاں تک کہ واپس لوٹ آئے۔

اس کی سند ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ سَالِمُ بْنُ الْفَصْلِ الْآدَمِيُّ، بِمَكَّةَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ، ثنا عَلِيُّ بْنُ هَاشِمٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنِ الْحَكَمِ، وَعِيسَى، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَلِيٍّ أَنَّهُ قَالَ: يَا أَبَا لَيْلَى أَمَا كُنْتَ مَعَنَا بِخَيْبَرَ؟ قَالَ: بَلَى وَاللَّهِ كُنْتُ مَعَكُمْ، قَالَ: فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «بَعَثَ أَبَا بَكْرٍ إِلَى خَيْبَرَ فَسَارَ بِالنَّاسِ وَانْهَزَمَ حَتَّى رَجَعَ»

سند میں عَلِيُّ بنُ هَاشِمِ بنِ البَرِيْدِ العَائِذِيُّ ہے جو شیعہ عالم تھے
وَقَالَ ابْنُ حِبَّانَ فِي (الثِّقَاتِ) : كَانَ غَالِياً فِي التَّشَيُّعِ، وَرَوَى المَنَاكِيْرَ عَنِ المَشَاهِيْرِ.
ابن حبان کہتے ہیں یہ غالی شیعہ تھے اور مشاہیر سے منکر روایت کرتے تھے

الذھبی خود کتاب ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق میں کہتے ہیں
شيعي غال قال محمد بن عبد الله بن نمير وله ما يستنكر
یہ غالی شیعہ تھے اور ابن نمیر نے کہا ان کے پاس ہے جس کا انکار کیا جاتا ہے

لہذا یہ الذھبی کی غلطی ہے

الکامل میں ابن عدی کہتے ہیں
وَعلي بْن هاشم هُوَ من الشيعة المعروفين بالكوفة ويروي فِي فضائل علي أشياء لا يرويها غيره بأسانيد مختلفة
علی کوفہ کے معروف شیعہ ہیں جو فضائل علی میں وہ چیزیں بیان کرتے ہیں جو کوئی اور مختلف اسناد سے روایت نہیں کرتا

3

[مستدرک حاکم]

روایت کا ترجمہ

ابو موسی حنفی روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی نے بیان کیا کہ رسول اللہ خیبر کیطرف چلے پس جب پہنچ گئے تو حضرت عمر کو ایک لشکر کیساتھ یہود کے قلعوں کیطرف بھیجا پس انہوں نے قتال کیا اور قریب تھا کہ حضرت عمر اور انکے ساتھی شکست کھاجاتے چنانچہ واپس لوٹ آئے اس حال میں کہ لشکر والے حضرت عمر کو بزدلی کا طعنہ دے رہے تھے اور حضرت عمر لشکر کو بزدلی کا طعنہ دے رہے تھے ۔

اسنادی حیثیت

ان دونوں روایات کو امام حاکم نے صحیح کہا ھے اورانکی تصحیح پر علامہ ذھبی نے بھی تلخیص میں انکی موافقت کری ھے ۔

اس کی سند ہے
أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْمَحْبُوبِيُّ، بِمَرْوَ، ثنا سَعِيدُ بْنُ مَسْعُودٍ، ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، ثنا نُعَيْمُ بْنُ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْحَنَفِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: «سَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَيْبَرَ، فَلَمَّا أَتَاهَا بَعَثَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ، وَبَعَثَ مَعَهُ النَّاسَ إِلَى مَدِينَتِهِمْ أَوْ قَصْرِهِمْ، فَقَاتَلُوهُمْ فَلَمْ يَلْبَثُوا أَنْ هَزَمُوا عُمَرَ وَأَصْحَابَهُ، فَجَاءُوا يُجَبِّنُونَهُ وَيُجَبِّنُهُمْ فَسَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» الْحَدِيثُ

اس کی سند میں نعيم بن حكيم ہے
میزان میں الذھبی لکھتے ہیں
وثقه ابن معين، وغيره.
وقال الأزدي: أحاديثه مناكير.
وقال ابى سعد: لم يكن بذاك.
وقال النسائي: ليس بالقوي

دوم أَبِي مُوسَى الْحَنَفِيِّ کون ہے ؟ مجھول ہے اس پر کوئی قول نہیں ہے

========

الغرض یہ تمام ضعیف ہیں

کیا یہ حدیث صحیح ہے

جامع الترمذي: أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابُ قَولِ الاَنصَارِ کُنَّا لَنَعرِفُ المُنَافِقِینَ یَغُضُّھُم عَلِیُّ ابنُ أَبِي طَالِب) جامع ترمذی: كتاب: فضائل و مناقب کے بیان میں (باب: انصار کا قول کہ ہم لوگ پہنچاتے ہیں منافقین کو کہ وہ علی سے عداوت رکھتےہیں)

کی روایت ہے
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي هَارُونَ الْعَبْدِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ، قَالَ: إِنْ كُنَّا لَنَعْرِفُ الْمُنَافِقِينَ نَحْنُ مَعْشَرَ الأَنْصَارِ بِبُغْضِهِمْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ.
هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ, وَقَدْ تَكَلَّمَ شُعْبَةُ فِي أَبِي هَارُونَ.
وَقَدْ رُوِيَ هَذَا عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ. حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَبِي نَصْرٍ، عَنِ الْمُسَاوِرِ الحِمْيَرِيِّ، عَنْ أُمِّهِ، قَالَتْ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ، فَسَمِعْتُهَا تَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لاَ يُحِبُّ عَلِيًّا مُنَافِقٌ وَلاَ يَبْغَضُهُ مُؤْمِنٌ.
وَفِي البَابِ عَنْ عَلِيٍّ,.
وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الوَجْهِ.

جواب

شعبہ نے ابو ہارون پر کلام کیا ہے – محدثین کے نزدیک یہ متروک ہے
دوسری کی سند میں المساور مجھول ہے
دونوں ضعیف ہیں

——-

علی کی منقبت کی روایات کوفیوں کی بیان کردہ ہیں – مسند احمد کی روایت ہے
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: “عَهِدَ إِلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ لَا يُحِبُّكَ إِلا مُؤْمِنٌ، وَلا يُبْغِضُكَ إِلا مُنَافِقٌ
علی نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مجھ سے وعدہ کیا کہ مجھ سے مومن محبت کرے گا اور منافق بغض رکھے گا
اس میں الْأَعْمَشُ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ کا تفرد ہے تمام کوفی ہیں
اس کی سند میں عدی بن ثابت غالی شیعہ ہے

صحیح مسلم کی روایت ہے
حديث:242
حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ ح و حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيَی وَاللَّفْظُ لَهُ أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ زِرٍّ قَالَ قَالَ عَلِيٌّ وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَأَ النَّسَمَةَ إِنَّهُ لَعَهْدُ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيَّ أَنْ لَا يُحِبَّنِي إِلَّا مُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِضَنِي إِلَّا مُنَافِقٌ
: ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، ابومعاویہ اعمش، یحیی بن یحیی، ابومعاویہ اعمش عدی، بن ثابت، زر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس نے دانہ کو پھاڑا اور جس نے جانداروں کو پیدا کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے عہد کیا تھا کہ مجھ سے مومن ہی محبت کرے گا اور مجھ سے بغض منافق ہی رکھے گا۔

کتاب الإلزامات والتتبع از دارقطنی میں دارقطنی نے امام مسلم کا خاص ذکر کیا کہ اس روایت کو انہوں نے قبول کر لیا ہے جبکہ بخاری نے اس کو نہیں لیا
وأخرج مسلم حديث عدي بن ثابت: والذي فلق الحبة. ولم يخرجه البخاري.

متفق علیہ روایت ہے
“الأنصار لا يحبهم إلا مؤمن، ولا يبغضهم إلا منافق، فمن أحبهم أحبه الله، ومن أبغضهم أبغضه اللهُ
انصار سے سوائے مومن کے کوئی محبت نہیں کرتا پس جو ان سے محبت کرے الله اس سے محبت کرے گا اور ان سے سوائے منافق کوئی بغض نہیں رکھتا

یہ خصوص و عموم کی بحث ہے – انصار کی تو کثیر تعداد ہے جو علی رضی الله عنہ کے خصوص کو ختم کر دیتی ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ انصار والی روایت کی سند ، علی سے متعلق روایت سے بہت بہت بہتر ہے

یہ تو تھی فنی بحث اب اصول کی بات ہے کہ تمام اصحاب رسول اور امہات المومنین کا احترام لازم ہے
اصحاب رسول کا اپس میں بغض اور وقتی عداوت اس کی دلیل نہیں کہ ان میں ایمان نہیں تھا
خود علی کا قول ہے

مسند احمد کی روایت ہے

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، ثنا شُعْبَةُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي الزُّبَيْرِ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الشَّرِيدِ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَخْطُبُ فَقَالَ: ” إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ [ص:91] أَكُونَ وَعُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، كَمَا قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ {وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَى سُرَرٍ مُتَقَابِلِينَ} [الحجر: 47]

عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الشَّرِيد کہتے ہیں میں نے علی کو کہتے سنا وہ خطبہ دے رہے تھے فرمایا میں امید کرتا ہوں کہ میں اور عثمان وہ ہیں جن پر الله کا قول ہے وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَى سُرَرٍ مُتَقَابِلِينَ

مسند احمد میں ہے
– حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ شَدَّادٍ أَبِي عَمَّارٍ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ، وَعِنْدَهُ قَوْمٌ، فَذَكَرُوا (1) عَلِيًّا، فَلَمَّا قَامُوا قَالَ لِي: أَلَا أُخْبِرُكَ بِمَا رَأَيْتُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: أَتَيْتُ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهَا أَسْأَلُهَا عَنْ عَلِيٍّ، قَالَتْ: تَوَجَّهَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَجَلَسْتُ أَنْتَظِرُهُ حَتَّى جَاءَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ عَلِيٌّ وَحَسَنٌ وَحُسَيْنٌ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُمْ، آخِذٌ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا بِيَدِهِ، حَتَّى دَخَلَ فَأَدْنَى عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ، فَأَجْلَسَهُمَا بَيْنَ يَدَيْهِ، وَأَجْلَسَ حَسَنًا، وَحُسَيْنًا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَلَى فَخِذِهِ، ثُمَّ لَفَّ عَلَيْهِمْ ثَوْبَهُ – أَوْ قَالَ: كِسَاءً – ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ: {إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا} [الأحزاب: 33] وَقَالَ: ” اللهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي، وَأَهْلُ بَيْتِي أَحَقُّ ”
شداد ابی عمار ، واثلہ بن اسقع سے ملے اور اس وقت کچھ لوگ ان کے پاس تھے۔ وہاں علی رضی الله کا ذکر ہوا ، جب وہ چلے گئے تو واثلہ نے ان سے کہا کہ کیا میں تم کو بتاؤں کہ میں نے نبی اکرم سے کیا دیکھا؟ تو شداد نے کہا جی ضرور۔ انہوں نے یہ بیان کیا کہ وہ فاطمہ رضی الله کے پاس علی رضی الله کا پوچھنے گئے۔ جس پر فاطمہ رضی الله نے انہیں کہا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے ہیں۔وہ انتظار میں بیٹھ گئے۔ پھر نبی صلی الله علیہ وسلم ، علی رضی الله اور حسن و حسین رضی الله عنہ کے ساتھ واپس آئے اور انہوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے تھے۔ پھر نبی صلی الله علیہ وسلم نے ان کو چادر میں جمع کیا اور آیت تطہیر کے تلاوت کی، اور کہا کہ یہ میرے اہلبیت ہیں، اور ان کا مجھ پر حق زیادہ ہے

جواب

وقال أبو داود: سمعت أحمد يقول: حديث القرقساني -قال أبو داود: يعني محمد بن مصعب القرقساني – عن الأوزاعي، مقارب
احمد نے کہا محمد بن مصعب کی الأوزاعي سے حدیث سرسری ہے

يَحْيى بْن مَعِين نے کہا مُحَمد بْن مصعب القرقساني ليس بشَيْءٍ کوئی چیز نہیں ہے

یہ بھی کہا لم يكن من أصحاب الحديث یہ محدث بھی نہیں ہے

صالح جزرة: عامة أحاديثه عن الأوزاعي مقلوبة.
جزرة: نے کہا اس کی الأوزاعي  سے روایت مقلوبہ ہیں

مقلوبہ یعنی کسی اور کی روایت پیش کرتا ہے اس نے نہیں لی ہوتی

صالح بن محمد: عامة أحاديث عن الأوزاعي مقلوبة، وقد روى عن الأوزاعي غير حديث كلها مناكير ليس لها أصول.
صالح بن محمد: بیشتر روایات جو الأوزاعي سے نقل کرتا ہے وہ مناکیر ہیں ان کا کوئی اصول نہیں ہے

عبداللہ بن احمد بن حنبل نے مسند میں ایک روایت لائی ہے جس کا متن یوں ہے

” سیدنا علی علیہ السلام اللہ سبحان و تعلی کے اس فرمان ( انما انت منذر ولكل قوم هاد – سورة الرعد : 7 ) تم صرف ڈرانے والے ہو اور ہر قوم کے لے ایک ہادی ہے , کے متعلق فرمایا کہ رسول اللہ صلی علیہ و آلہ فرماتے ہے کہ ڈرانے والا اور ہادی بنی ھاشم میں سے ایک مرد ہوگا ”

المسند میں یہ اس سند سے مروی ہے

حدثنا عبدالله حدثني عثمان بن ابي شيبة حدثنا مطلب بن زياد عن السدي عن عبدخير عن علي عليه السلام في قوله …. الخ

المسند احمد / جلد 1

جواب

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ، حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُطَّلِبُ بْنُ زِيَادٍ، عَنِ السُّدِّيِّ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ، عَنْ عَلِيٍّ، فِي قَوْلِهِ: {إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ} [الرعد: 7] ، قَالَ: ” رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُنْذِرُ، وَالْهَادِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ

اس کی سند میں المطلب بن زياد ہے جو مختلف فیہ ہے عيسى بنَ شاذان اور ابن سعد اس کو ضعیف کہتے ہیں
اور إسماعيل بن عبد الرحمن السدی ہے جس پر بہت جرح ہے

احمد شاکر نے اس کو صحیح کہا ہے شعیب نے ضعیف کہا ہے

قرآن میں ہے ہر قوم کے لئے ہادی ہے تو ظاہر ہے یہ صرف بنو ہاشم کے افراد نہیں ہیں آجکل تو یہ خاندان ویسے بھی معدوم ہے

رمضان پہلا عشرہ رحمت کا دوسرا مغفرت کا تیسرا جہنم سے نجات کا والی حدیث صحیح ہے ؟

جواب

عن سلمان الفارسي رضي الله عنه أنه قال :
{ خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في آخر يوم من شعبان فقال : أيها الناس قد أظلكم شهر عظيم مبارك ، شهر فيه ليلة خير من ألف شهر ،جعل الله صيامه فريضة ، وقيام ليله تطوعاً ، من تقرب فيه بخصلة من الخير كان كمن أدى فريضة فيما سواه ومن أدى فيه فريضة كان كمن أدّى سبعين فريضة فيما سواه ، وهو شهر أوله رحمة وأوسطه مغفرة ، وآخره عتق من النار

یہ روایت صحیح ابن خزیمہ کی ہے لیکن ابن خزیمہ بھی عجیب انسان تھے جس چیز میں ان کو شک ہوتا اس کو شک کے ساتھ صحیح میں لکھتے تھے لہذا اس روایت پر باب قائم کیا
بَابُ فَضَائِلِ شَهْرِ رَمَضَانَ، إِنَّ صَحَّ الْخَبَرُ
ماہ رمضان کے فضائل اگر یہ خبر صحیح ہو
اور سند دی

1887 – ثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ، ثَنَا يُوسُفُ بْنُ زِيَادٍ، ثَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ سَلْمَانَ قَالَ
محدثین کو اس پر شک ہے کہ سعید بن المسیب کا سماع سلمان رضی الله عنہ سے نہیں ہے
سند میں يوسف بن زياد أبو عبد الله البصري ہے – البخاري وأبو حاتم والساجي: منكر الحديث، وقال النسائي: ليس بثقة، وذكره العقيلي وابن حبان في “الضعفاء”.
البتہ الکامل از ابن عدی میں اسکی سند ہے
حَدَّثَنَا مُحَمد بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ ميمون، حَدَّثَنا عُبَيد اللَّهِ بْنُ عُمَر، حَدَّثَنا حَكِيمُ بْنُ خِذَامٍ الْعَبْدِيُّ أنا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ عَنْ سَعِيد بْنِ المُسَيَّب عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ،
لیکن یہاں حكيم بْن خذام الأزدى ہے جس کو امام بخاری نے منکر الحدیث کہا ہے

بہت سے محدثین نے اس کو ضعیف یا منکر کہا ہے جو عصر حاضر کے ہیں
=========

الله کی رحمت اور اس کی مغفرت کو الگ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس کا کسی پر رحم کرنا ہی بندے کو مغفرت کی طرف لاتا ہے اور اس کی رحمت کا مطلب جہنم سے نجات ہے
و الله اعلم

مسند امام احمد، میں ایک روایت یوں ہے

16540 حدثنا محمد بن مصعب قال حدثنا الأوزاعي عن شداد أبي عمار قال دخلت على واثلة بن الأسقع وعنده قوم فذكروا عليا فلما قاموا قال لي ألا أخبرك بما رأيت من رسول الله صلى الله عليه وسلم قلت بلى قال أتيت فاطمة رضي الله تعالى عنها أسألها عن علي قالت توجه إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فجلست أنتظره حتى جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم ومعه علي وحسن وحسين رضي الله تعالى عنهم آخذ كل واحد منهما بيده حتى دخل فأدنى عليا وفاطمة فأجلسهما بين يديه وأجلس حسنا وحسينا كل واحد منهما على فخذه ثم لف عليهم ثوبه أو قال كساء ثم تلا هذه الآية إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا وقال اللهم هؤلاء أهل بيتي وأهل بيتي أحق

حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ شداد ابی عمار واثلہ بن اسقع سے ملے اور اس وقت کچھ لوگ ان کے پاس تھے۔ وہاں حضرت علی رضی الله کا ذکر ہوا ، جب وہ چلے گئے توواثلہ نے ان سے کہا کہ کیا میں تم کو بتاؤں کہ میں نے نبی اکرم سے کیا دیکھا؟ تو شداد نے کہا جی ضرور۔ انہوں نے یہ بیان کیا کہ وہ فاطمہ رضی الله کے پاس علی رضی الله کا پوچھنے گئے۔ جس پر فاطمہ رضی الله نے انہیں کہا کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس گئے ہیں۔وہ انتظار میں بیٹھ گئے۔ پھر نبی پاک علی رضی الله اور امام حسن و حسین رضی الله کے ساتھ واپس آئے اور انہوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے تھے۔ پھر نبی پاک نے ان کو چادر میں جمع کیا اور آیت تطہیر کے تلاوت کی، اور کہا کہ یہ میرے اہلبیت ہیں، اور ان کا مجھ پر حق زیادہ ہے

جواب

وقال أبو داود: سمعت أحمد يقول: حديث القرقساني -قال أبو داود: يعني محمد بن مصعب القرقساني – عن الأوزاعي، مقارب
احمد نے کہا محمد بن مصعب کی الأوزاعي سے حدیث سرسری ہے

يَحْيى بْن مَعِين نے کہا مُحَمد بْن مصعب القرقساني ليس بشَيْءٍ کوئی چیز نہیں ہے

یہ بھی کہا لم يكن من أصحاب الحديث یہ محدث بھی نہیں ہے

صالح جزرة: عامة أحاديثه عن الأوزاعي مقلوبة.
جزرة: نے کہا اس کی سے روایت مقلوبہ ہیں

مقلوبہ یعنی کسی اور کی روایت پیش کرتا ہے اس نے نہیں لی ہوتی

صالح بن محمد: عامة أحاديث عن الأوزاعي مقلوبة، وقد روى عن الأوزاعي غير حديث كلها مناكير ليس لها أصول.
صالح بن محمد: بیشتر روایات جو الأوزاعي سے نقل کرتا ہے وہ مناکیر ہیں ان کا کوئی اصول نہیں ہے

جواب

اس کو بیہقی نے دلائل النبوه میں روایت کیا ہے

وَكَانَ فِي الْغَارِ خَرْقٌ فيه حيات وأفاعي، فَخَشِيَ أَبُو بَكْرٍ أَنْ يَخْرُجَ مِنْهُنَّ شَيْءٌ يُؤْذِي رَسُولَ اللهِ صَلَّى الله عليه وآله وَسَلَّمَ

سند ہے

وأَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ بِشْرَانَ الْعَدْلُ بِبَغْدَادَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سلمان التجار الْفَقِيهُ إِمْلَاءً، قَالَ: قُرِئَ عَلَى يَحْيَى بْنِ جَعْفَرٍ وَأَنَا أَسْمَعُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الرَّاسِبِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي فُرَاتُ بْنُ السَّائِبِ عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنْ ضَبَّةَ بْنِ مِحْصَنٍ الْعَنَزِيِّ، عن عمر ابن الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فِي قِصَّةٍ ذَكَرَهَا

سند میں فرات بن السائب ہے جو متروک ہے
میزان از الذہبی میں ہے
قال البخاري: منكر الحديث.
وقال ابن معين: ليس بشئ.
وقال الدارقطني وغيره: متروك.
وقال أحمد بن حنبل: قريب من محمد بن زياد الطحان، في ميمون، يتهم بما يتهم به ذاك.

جواب

من كنت مولاه فعلي مولاه
یہ روایت جن طرق سے اتی ہے ان پر جرح ہے

سنن ابن ماجہ میں ہے
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ ابْنِ سَابِطٍ وَهُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ: قَدِمَ مُعَاوِيَةُ فِي بَعْضِ حَجَّاتِهِ فَدَخَلَ عَلَيْهِ سَعْدٌ فَذَكَرُوا عَلِيًّا فَنَالَ مِنْهُ فَغَضِبَ سَعْدٌ وَقَالَ تَقُولُ هَذَا لِرَجُلٍ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وعلى آله وَسَلَّمَ يَقُولُ: (مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ الْيَوْمَ رَجُلًا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ) .

لیکن یھاں سند میں بد الرحمن بن سابط ہے جس کا سماع سعد بن ابّی وقاص سے نہیں

——–
عقیلی نے اس کا ایک طرق نقل کیا جو مجہول سے تھا پھر کہا
وَقَدْ رُوِيَ هَذَا بِإِسْنَادٍ أَصْلَحَ مِنْ هَذَا الْإِسْنَادِ
اس کو اس سے اصلح اسناد سے بھی روایت کیا گیا ہے
——

اس کو سُلَيْمَان بن قرم الضَّبِّيّ نے روایت کیا ہے جو متروک ہے
اس کو مُحَمَّد بن سَلمَة بن كهيل نے روایت کیا ہے جو واہی الحدیث ہے
اس کو دَاوُد الأودي نے روایت کیا ہے جو ضعیف ہے
اس کو عَمْرو بن ثَابت نے روایت کیا ہے جو متروک ہے
اس کو مَيْمُون أبي عبد الله نے روایت کیا ہے جو ضعیف ہے
اس کو عمر بن شبيب الْمسلي نے روایت کیا ہے جو متروک ہے
اس کو مالك بن الحسن بن مالك بن الحويرث نے روایت کیا ہے جو منکر الحدیث ہے
اس کو الحسين بن الحسن الأشقر، نے روایت کیا ہے جو منکر الحدیث ہے
اس کو علي بن سعيد بن قتيبة الرّملي نے روایت کیا ہے جو ضعیف ہے
اس کو حميد بن أَبي غنية الأصبهاني نے روایت کیا ہے جو مجہول ہے
=======

جو بہتر اسناد ہیں ان میں ایک مدلس أبو إسحاق السبيعي ہے جس نے اس کو روایت کیا ہے
——

اس کو بہت سی اسناد سے زید بن ارقم سے بھی روایت کیا گیا ہے
معرفہ صحابہ میں ہے
وَرَوَاهُ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ: أَبُو سُلَيْمَانَ زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ، وَأَبُو الضُّحَى، وَيَحْيَى بْنُ جَعْدَةَ، وَسُلَيْمَانُ بْنُ أَبِي الْحَسْنَاءِ وَأَبُو إِسْحَاقَ، وَأَبُو سُلَيْمَانَ الْمُؤَذِّنُ، وَأَبُو عُبَيْدِ اللهِ الشَّيْبَانِيُّ، وَأَبُو لَيْلَى الْحَضْرَمِيُّ، وَأَبُو صَالِحٍ وَأَبُو عَبْدِ اللهِ مَيْمُونٌ، وَعَطِيَّةُ الْعَوْفِيُّ، وَثُوَيْرُ بْنُ أَبِي فَاخِتَةَ، فِي آخَرِينَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ
یہ راوی بہت مضبوط نہیں ہیں
——-

اس کی اسناد بہت ہیں اور کہا جاتا ہے یہ متواتر ہے الذہبی تذکرہ الحفاظ میں کہتے ہیں اس کے کثرت طرق نے مجھے حیران کر دیا ہے

وقد حكم عليه غير واحد بالتواتر، منهم الذهبي في “النبلاء” (8/ 335)، والسيوطي في “قطوف الأزهار المتناثرة في الأخبار المتواترة” ص (277)، والكتاني في “نظم المتناثر” برقم (232)، والعجلوني في “كشف الخفاء” (2/ 261)، والألباني في “الصحيحة” (4/ 343).
ان سب نے اس کو متواتر کہا ہے

ابن حجر نے کہا
ابن حجر في “الفتح” (7/ 74): هو كثير الطرق جدًا، وقد استوعبها ابن عقدة في كتاب مفرد، وكثير من أسانيدها صحاح وحسان اهـ.
اس کے طرق بہت ہیں … اور سندیں صحیح یا حسن ہیں

الزيلعي (المتوفى: 762هـ) نے نصب الراية میں کہا
وَحَدِيثِ: مَنْ كُنْت مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ3، بَلْ قَدْ لَا يُزِيدُ الْحَدِيثَ كَثْرَةُ الطُّرُقِ إلَّا ضَعْفًا،
حدیث من کنت مولاہ کا حال یہ ہے کہ اس کے جتنے طرق ہوں اس کا ضعف بڑھتا ہے

مناقب امام الشافعی میں اس کی تاویل ہے
أخبرنا أبو عبد الرحمن السلمي، قال: أخبرنا محمد بن محمد بن يعقوب؛ قال: حدثنا العباس بن يوسف الشِّكْلِي (2)، قال: سمعت الربيع بن سليمان، يقول:
سمعت الشافعي، يقول في معنى قول النبي، صلى الله عليه وسلم، لعلي بن أبي طالب، رضي الله عنه: «من كنت مولاه فعلى مولاه (3)» يعني بذلك وَلاَءَ الإِسلام.
وذلك قول الله تعالى: {ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَأَنَّ الْكَافِرِينَ لَا مَوْلَى لَهُمْ
امام شافعی نے کہا مولا سے مراد ہے کہ یعنی ایسا اسلام میں لگاؤ(اطاعت) ہے اور الله کا قول ہے
سوره محمد
یہ اس لئے کہ الله مولی ہے ایمان والوں کا اور کافروں کا کوئی مولی نہیں ہے

قاسم بن سلام غريب الحديث میں کہتے ہیں مولی کا مطلب الْعصبَة (خون کے تعلق سے رشتہ دار) ہے
فَكل وليّ للْإنْسَان هُوَ مَوْلَاهُ مثل الْأَب وَالْأَخ وَابْن الْأَخ والعَم وَابْن الْعم وَمَا وَرَاء ذَلِك من الْعصبَة كلّهم وَمِنْه قَوْله تَعَالَى: {وَإنِّي خِفْتُ الموَالِي من ورائي}
ہر انسان کا جو وليّ ہے وہ مولاہ ہے جیسے اس کا باپ یا بھائی یا بھتیجا یا چچا یا کزن اور اسی طرح خونی رشتہ والے جیسے الله کا قول ہے کہ زکریا نے کہا
اور میں اپنے بعد اپنے بھائی بندوں سے ڈرتا ہوں

یعنی مولاہ مطلب بھائی بند

یعنی رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہا علی میرا کزن میرا بھائی بند ہے اور جس طرح یہ میرا جگری خاندان کا ہے

سادہ الفاظ میں
میں جن رشتہ میں جڑا ہوں اس میں علی بھی جڑا ہے

یاد رہے کہ یہ روایت اگر صحیح ہے تو یہ خمس کے جھگڑے کی وجہ سے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو کہنا پڑا
⇑ یہ غدیر خم کا اصل قصہ کیا ہے
https://www.islamic-belief.net/q-a/تاریخ/

یہ راقم کو سمجھ آیا ہے

 

کتاب المجموع المغيث في غريبي القرآن والحديث از محمد بن عمر بن أحمد بن عمر بن محمد الأصبهاني المديني، أبو موسى (المتوفى: 581هـ) کے مطابق
قوله عليه الصلاة والسلام: “مَن كنتُ مَولَاه فَعَلِىٌّ مَوْلاهُ”. (3)
(2 قيل: أي مَن كنتُ أتولّاه فعَلِىٌّ يتولّاه.
والمَولَى على وُجُوهٍ: منها ابنُ العَمّ، قال الله تعالى في قصّةِ زكَرِيّاء عليه الصّلاة والسّلام: {وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِنْ وَرَائِي} (1)،
وأنشَدَ: مَوَالِينا إذا افتَقَرُوا إلينا
فإن أثْرَوْا فَليسَ لنا مَوالِ (2)
الثانى: المعتِق؛ ومَصْدَرُه الوَلَايَةُ (3).
والثالث: المُعتَقُ؛ ومَصْدَرُه الوَلَاءُ.
والرابع: المُحِبُ.
كقوله عليه الصّلاة والسَّلام (4): “مُزينَةُ وأسْلَمُ وَجُهَيْنَةُ وغِفَار مَوَالى الله تعالَى ورَسُولِه”
والخَامسُ: الجَارُ، كَما أنشدَ:
هُمُ خلطُونا بالنفوس وأَلْجَئُوا
إلى نَصْرِ مولاهُم مُسَوَّمَةً جُرْدَا
السّادِسُ: الناصِرُ، قال الله تعالى: {ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا …} (5) الآية.
السَّابع: المأوى، قال الله تعالى: {مَأْوَاكُمُ النَّارُ هِيَ مَوْلَاكُمْ}
وقيل: أي مَن كان يتولاَّنى تولَّاه
کہا جاتا ہے کہ میں نے جس سے دوستی کی اس سے علی نے کی
اور جس نے مجھ سے دوستی کی اس سے علی کی ہوئی
اور مولی کے کئی رخ ہیں یعنی چچا زاد قرآن میں زکریا کے قصہ میں ہے
اس سے مراد آقا ہے جو آزاد کرے
اس سے مراد محبت کرنے والا ہے
اس سے مراد پڑوسی ہے
اس سے مراد مددگار ہے
اس کے مراد ماوی و ملجا ہے

اس کے اور بھی مفہوم ہیں یہ آقا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں سوره النحل ٧٦ میں ہے

وَضَرَبَ اللّـٰهُ مَثَلًا رَّجُلَيْنِ اَحَدُهُمَآ اَبْكَمُ لَا يَقْدِرُ عَلٰى شَىْءٍ وَّهُوَ كَلٌّ عَلٰى مَوْلَاهُۙ اَيْنَمَا يُوَجِّهْهُّ لَا يَاْتِ بِخَيْـرٍ ۖ هَلْ يَسْتَوِىْ هُوَ وَمَنْ يَّاْمُرُ بِالْعَدْلِ ۙ وَهُوَ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْـمٍ (76)
اور اللہ ایک اور مثال دو آدمیوں کی بیان فرماتا ہے کہ ایک ان میں سے گونگا ہے کچھ بھی نہیں کر سکتا اور اپنے آقا پر ایک بوجھ ہے، جہاں کہیں اسے بھیجے اس سے کوئی خوبی کی بات بن نہ آئے، کیا یہ اور وہ برابر ہے جو لوگوں کو انصاف کا حکم دیتا ہے، اور وہ خود بھی سیدھے راستے پر قائم ہے۔

الفاظ ہیں مولاہ کا ترجمہ آقا کیا ہے
——

یہ تمام مفہوم مولاہ میں ہیں

والله اعلم

جواب

أَنَّ أَبَا غَسَّانَ مَالِكَ بْنَ يَحْيَى الْهَمْدَانِيَّ حَدَّثَنَا قَالَ: ثنا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ , قَالَ: أنا عِمْرَانُ بْنُ حُدَيْرٍ , عَنْ عِكْرِمَةَ أَنَّهُ قَالَ: كُنْتُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ عِنْدَ مُعَاوِيَةَ نَتَحَدَّثُ حَتَّى ذَهَبَ هَزِيعٌ مِنَ اللَّيْلِ , فَقَامَ مُعَاوِيَةُ , فَرَكَعَ رَكْعَةً وَاحِدَةً , فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «مِنْ أَيْنَ تُرَى أَخَذَهَا الْحِمَارُ»
عمران نے عکرمہ سے روایت کیا کہ میں ابن عباس اور معاویہ کے ساتھ تھا ہم نے کلام کیا یہاں تک کہ رات آئی پس معاویہ کھڑے ہوئے اور ایک رکعت پڑھی ابن عباس نے کہا اس گدھے نے کہاں سے یہ لیا

1720 – حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرَةَ، قَالَ: ثنا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: ثنا عِمْرَانُ، فَذَكَرَ بِإِسْنَادِهِ مِثْلَهُ إِلَّا أَنَّهُ لَمْ يَقُلِ الْحِمَارُ وَقَدْ يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ قَوْلُ ابْنِ عَبَّاسٍ «أَصَابَ مُعَاوِيَةُ» عَلَى التَّقِيَّةِ لَهُ , أَيْ أَصَابَ فِي شَيْءٍ آخَرَ لِأَنَّهُ كَانَ فِي زَمَنِهِ , وَلَا يَجُوزُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا أَنْ يَكُونَ مَا خَالَفَ فِعْلَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي قَدْ عَلِمَهُ عَنْهُ صَوَابًا. وَقَدْ رُوِيَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي الْوِتْرِ أَنَّهُ ثَلَاثٌ
اسی کو أَبُو بَكْرَةَ، قَالَ: ثنا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: ثنا عِمْرَانُ نے عکرمہ سے روایت کیا ہے اس میں گدھا نہیں ہے اور جائز ہے ابن عباس نے کہا ٹھیک کیا معاویہ نے – ، بطور تقیہ – یعنی اس دور میں یہ کر سکتے ہیں اور ہمارے نزدیک جائز نہیں جو رسول الله کے عمل کے مخالف ہو جو انہوں نے ہم کو سکھایا اور ابن عباس سے روایت کیا گیا ہے کہ وتر تین ہیں
==========================

صحیح بخاری میں ہے
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، قِيلَ لِابْنِ عَبَّاسٍ: ” هَلْ لَكَ فِي أَمِيرِ المُؤْمِنِينَ مُعَاوِيَةَ، فَإِنَّهُ [ص:29] مَا أَوْتَرَ إِلَّا بِوَاحِدَةٍ؟ قَالَ: «أَصَابَ، إِنَّهُ فَقِيهٌ»
ابن عباس سے کہا گیا کہ معاویہ نے ایک وتر پڑھا تو انہوں نے کہا ٹھیک کیا وہ فقیہ ہیں

بیہقی نے معرفہ سنن و الاثار میں کہا
وَلَا يَحِلُّ لِأَحَدٍ أَنْ يَحْمِلَ قَوْلَ ابْنِ عَبَّاسٍ عَلَى التُّقْيَةِ مِنْهُ؛ فَابْنُ عَبَّاسٍ كَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْ أَنْ يَخَافَ مُعَاوِيَةَ فِي سُكُوتِهِ عَنْ فِعْلٍ أَخْطَأَ فِيهِ،
اور کسی کے لئے حلال نہیں کہ ابن عباس کے قول کو تقیہ قرار دے کیونکہ وہ لوگوں اس سے سب سے دور تھے کہ معاویہ سے خوف کھاتے اور ان کی غلطی پر چپ رہتے

سنن دارقطنی میں ہے
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ , ثنا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ , ثنا مُحَمَّدُ [ص:361] بْنُ يَزِيدَ , ثنا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ , عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ , قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِابْنِ عَبَّاسٍ: أَلَا تَعْجَبُ مِنْ مُعَاوِيَةَ إِنَّهُ يُوتِرُ بِرَكْعَةٍ , قَالَ: «أَحْسَنَ إِنَّهُ فَقِيهٌ»
ابن عباس نے کہا اچھا کیا یہ فقیہ ہیں

صحیح بخاری کی دوسری روایت ہے
حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا المُعَافَى، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: أَوْتَرَ مُعَاوِيَةُ بَعْدَ العِشَاءِ بِرَكْعَةٍ، وَعِنْدَهُ مَوْلًى لِابْنِ عَبَّاسٍ، فَأَتَى ابْنَ عَبَّاسٍ فَقَالَ: «دَعْهُ فَإِنَّهُ قَدْ صَحِبَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»
ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ نے کہا کہ معاویہ نے عشاء کے بعد ایک وتر پڑھا اور وہاں ابن عباس کا ایک مولی تھا (راقم کہتا ہے یہ عکرمہ ہو گا ) وہ ابن عباس کے پاس پہنچا اور ان سے سوال کیا ابن عباس نے کہا معاویہ کو تو نبی صلی الله علیہ وسلم کی صحبت حاصل ہے

ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ اور عکرمہ کے بیان میں فرق ہے عکرمہ کہتا ہے یہ وتر پرھنا ابن عباس کے سامنے ہوا اور جب معاویہ پڑھ رہے تھے ابن عباس نے سرگوشی میں ان کو گدھا کہا جبکہ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ کے مطابق عکرمہ وہاں اکیلا تھا بعد میں ابن عباس کے پاس آ کر اس نے سوال کیا

راقم کے خیال میں اس بات کو عکرمہ مولی ابن عباس نے بدلا ہے کیونکہ وہ خوارج جیسی سوچ رکھتا تھا لہذا عکرمہ نے ابن عباس کے الفاظ کو بدل دیا
عکرمہ اگر خارجی تھا تو اس کے نزدیک تقیہ یا کتمن جائز تھا – ابن عباس کے دیگر شاگرد ایسا بیان نہیں کرتے – ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ نے ابن عباس سے الگ قول منسوب کیا ہے

الکامل از ابن عدی میں عکرمہ پر سخت جرح ہے

ان کو كَانَ يرى رأي الخوارج رأي الصفرية کہا گیا یعنی گمراہ
ان کو ابن سیرین نے کذاب کہا
ان کا جنازہ اکثریت نے چھوڑ دیا

جواب

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتْ النَّصَارَى عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ، فَقُولُوا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
مسند حمیدی میں ہے
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ يَقُولُ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَلَى الْمِنْبَرِ يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ فَقُولُوا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ»
ابن عباس نے عمر کو منبر پر کہتے سنا کہ ایسا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
——
یہ روایت سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ کی سند سے ہے لیکن هشيم بن بشير الواسطي کہتے ہیں کہ امام الزہری نے گمان کیا کہ یہ نے ابن عبّاس سے روایت کیا تھا
مسند احمد میں ہے
حدثنا هُشَيم قال: زعم الزهري عن عبيد الله بن عبد الله بن ُعُتبة بن مسعود عن ابن عباس عن عمر أن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – قال: “لا تُطروني كما أطرت النصارى عيسى ابن مريم، فإنما أنا عبدُ الله ورسولُه

احمد شاکر کہتے ہیں
إسناده صحيح، هشيم بن بشير الواسطي: ثقة حجة، إلا أنهم تكلموا في سماعه من الزهري، وأنه سمع منه صحيفة فطارت منه فلم يحفظ منها إلا قليلا، وأنه يدلس في بعض روايته. وقوله هنا “زعم الزهري” قد يؤيد أنه لم يسمعه منه، ولكن الحديث ورد بأسانيد أخرى عن الزهري، فتبين أنه صحيح عنه.
اس کی اسناد صحیح ہیں – هشيم بن بشير الواسطي ہیں جو ثقہ حجت ہیں خبردار ان کے امام الزہری سے سماع پر کلام ہے انہوں نے ان سے بعض صحیفے سنے پھر کھو دیے اور یاد نہ رکھ سکے اور روایات میں ان سے تدلیس کرتے اور ان کا قول کہ زہری نے گمان کیا اس کی تائید کرتا ہے کہ ان کا سماع نہیں ہوا لیکن یہ حدیث صحیح ہے دوسری سند سے پس واضح ہوا یہ ان سے صحیح ہے

هشيم بن بشير الواسطي نے ایک حدیث سقیفہ بھی روایت کی ہے اس میں ابوبکر کی خلافت، رجم کے مسئلہ اور اس زیر بحث روایت کا ذکر ہے اس میں پر امام احمد کا کہنا ہے

وقال ابن هانىء: قلت (يعني لأبي عبد الله) ، كم منح لهشيم من حديث الزهري؟ قال: أربعة أحاديث حديث السقيفة: قد سمعه بطوله وقال، في الرجم منه: أخبرنا الزهري، وفي بعضه قال: ذكر الزهري، وسمعه بطوله، فلم يقل: أخبرنا الزهري.
ابن ھانی نے کہا میں نے امام احمد سے پوچھا کتنی بار هشيم بن بشير الواسطي پر امام زہری کی حدیث پر آزمائش کی گئی ؟ احمد نے کہا چار بار حدیث سقیفہ اس کو طوالت سے سنا اور اس میں رجم کا ذکر کیا اور کہا اخبرنا زہری اور بعض دفعہ کہا ذکر زہری اور پھر اخبرنا نہیں کہا

الغرض یہ روایت سفیان بن عیننہ کی سند سے صحیح ہے هشيم بن بشير الواسطي کی سند سے قابل قبول نہیں ہے