کیا وفات النبی پر اجماع امت ہے ؟

دین میں اصحاب رسول کے متفقہ موقف کی اہمیت ہے – سورہ النساء کی آیت ہے

ومن يشاقق الرسول من بعد ما تبين له الهدى ويتبع غير سبيل المؤمنين نوله ما تولى ونصله جهنم وساءت مصيرا

اور جو کوئی رسول کی مخالفت کرے،  بعد اس کے کہ اس پر سیدھی راہ کھل چکی ہو اور مسلمانوں کے راستہ کے خلاف چلے، تو ہم اسے اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا ہے اور اسے جهنم میں ڈالیں گے، اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے

یقینا مسلمانوں کی راہ چھوڑنا گمراہی ہے لیکن یہ آیت  اصل صحیح العقیدہ مسلمان یعنی  اصحاب رسول  کی بات ہے-  آج جس قسم کے قبر پرست، پیر پرست مسلمان ہیں کیا ان کا اجماع حجت ہے؟ یقینا یہ بات غلط ہے-  اس لئے اگر کوئی اجماع ، امت میں حجت ہے ، تو وہ صرف اجماع صحابہ ہے

اس امت کا سب سے اہم اجماع تھا جب وفات النبی پر اختلاف ہوا اور عمر رضی الله عنہ نے اس کا انکار کیا پھر ابو بکر صدیق رضی الله عنہ نے اس پر خطبہ دیا اور تمام صحابہ نے وفات النبی صلی الله علیہ وسلم کا عقیدہ قبول کیا

اسی اجماع صحابہ کا ذکر عثمانی صاحب نے اس طرح کیا

افسوس امت میں اس کا بھی صریح انکار کر کے رسول الله کو قبر النبی میں زندہ کی صفت دی گئی ہے لہذا ایک اہل حدیث عالم کہتے ہیں[1]

[1] http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/2368/0/

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع والی بات تو …..اس وقت ابھی رسول اللہ ﷺ قبر میں داخل ہی نہیں کیے گئے تھے، پھر وہ اجماع رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی موت اور دنیاوی زندگی کے ختم ہونے پر تھا

یعنی ان عالم کے مطابق اجماع تو تدفین سے پہلے ہوا اس کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم قبر میں زندہ ہو گئے

دیوبندی کہتے ہیں کہ روح نبوی جسد مبارک سے نکلی ہی نہیں بلکہ قلب میں سمٹ گئی

گویا فرشتے خالی لوٹ گئے

امام بیہقی کتاب الاعتقاد والهداية إلى سبيل الرشاد على مذهب السلف وأصحاب الحديث  میں لکھتے ہیں

 وَالْأَنْبِيَاءُ عَلَيْهِمُ السَّلَامُ بَعْدَمَا قُبِضُوا رُدَّتْ إِلَيْهِمْ أَرْوَاحُهُمْ فَهُمْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ كَالشُّهَدَاءِ

اور انبیاء علیھم السلام کی روحیں قبض ہونے کے بعد واپس لوٹا دی گئیں اور اب وہ شہید کی طرح اپنے رب کے ہاں زندہ ہیں

بیہقی کیا  کہہ رہے ہیں؟ اس کی کوئی دلیل نہیں شاید ان کے نزدیک روحیں قبض ہونے کے بعد فرشتے زمیں و آسمان میں بھٹکتے رہے پتا نہ کر پائے کہ ان کو کہاں رکھیں لہذا واپس قبروں میں انبیاء کے جسد میں ہی روحیں   لوٹا    دی گئیں-

ایک مومن کے نزدیک صرف اصحاب رسول کی اہمیت ہے – متاخرین کے متجدد عقائد اور صوفی صفت محدثین کے عقائد کی کوئی اہمیت نہیں ہے

البانی کے مطابق  انبیاء قبروں میں نماز پڑھ رہے ہیں-  الصحیحہ (2/ 190،178) میں اس پر کہتے ہیں
اعلم أن الحياة التي أثبتها هذا الحديث للأنبياء عليهم الصلاة والسلام، إنما هي حياة برزخية، ليست من حياة الدنيا في شيء،
جان لو اس روایت میں انبیاء کی جس زندگی کا اثبات کیا گیا ہے یہ برزخی زندگی ہے جس میں دنیا کی زندگی کی کوئی چیز نہیں

قاعدہ جلیلہ فی التوسل و الوسیلہ میں ابن تیمیہ لکھتے ہیں

وكذلك الأنبياء والصالحون ، وإن كانوا أحياء في قبورهم ، وإن قدر أنهم يدعون للأحياء وإن وردت به آثار فليس لأحد أن يطلب منهم ذلك ، ولم يفعل ذلك أحد من السلف
اور اسی طرح (فرشتوں کی طرح) انبیاء اور صالحین کا معاملہ ہے ہر چند کہ وہ اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور یہ بھی مقدر کر دیا گیا ہے کہ وہ زندوں کے لئے دعائیں کریں اور اس بات کی تصدیق میں روایتیں بھی آئی ہیں مگر کسی کے لئے اس کی اجازت نہیں ہے کہ وہ ان سے کچھ طلب کرے اور سلف میں سے کسی ایک نے بھی ان سے کچھ طلب نہیں کیا

دیو بندیوں کے ایک  محقق نے تقریر میں کہا

مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں امتی فوت ہوا ہے اس کی روح کو پورے بدن سے نکال لیا گیا ہے۔ نبی فوت ہوا ہے اس کی روح کو پورے بدن سے دل میں سمیٹ دیا گیا ہے۔ ارے اگرچہ موت آگئی ہے لیکن دل پہ وفات نہیں آئی اگر نبی ہے تو روح کو سمیٹ کے دل میں رکھ دیا گیا اور اگر امتی ہے تو بدن سے روح کو نکال لیا گیا لیکن نبی کو جو حیات ملتی ہے اسی روح کو پھیلا دیا جاتا ہے اور جب امتی کو حیات ملتی ہے۔امتی کی روح کو لوٹا دیا جاتا ہے “

راقم  کہتا ہے
یہ تو انبیاء کی نشانی ہے کہ زندگی میں ان کا دل سونے کی حالت میں بھی الله کے کنٹرول میں ہوتا ہے    اس میں ان پر شیطان کا القا نہیں ہو سکتا  – اس لئے ا  ن   کے دل کی  بھی حفاظت کی گئی   کیونکہ قرآن کا   یا الوحی نزول دل پر ہوتا ہے-

سورہ بقرہ  :

قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَىٰ قَلْبِكَ

کہو (اس سے ) جو جبریل کا دشمن  ہو کہ اسی  (جبریل) نے اس قرآن کو میرے دل پر اتارا ہے

 اللہ تعالی نے  قرآن  میں   انبیاء پر لفظ موت کا اطلاق کیا ہے –  آنکھ کا سونا یعنی دماغ پر سونے کی کیفیت کا ظہور ہونا ہے   اور قلب کا جاگنا اس کا کسی بھی شیطانی القا سے دور رہنا ہے –  یہی وجہ ہے کہ مومن کو برا خواب  آتا ہے انبیاء کو نہیں آتا-     عمر رضی الله عنہ اگر   نبی صلی الله علیہ وسلم کی زندگی کے حوالے سے صحیح تھے ان کی بات کے پیچھے یہ فلسفہ تھا  کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر موت واقع نہیں ہوئی  تو ابو بکر  رضی الله عنہ  کی تقریر پر وہ  چپ نہ رہتے اور تمام اصحاب رسول کا وفات النبی پر اجماع بھی نہ ہونے پاتا-   ابو بکر رضی الله عنہ نے صحیح کہا تھا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور عمر رضی اللہ عنہ کا رد کیا کہ اب رسول پر دو موتیں جمع نہ ہوں گی جیسا تم کہہ رہے ہو کہ وہ زندہ ہو جائیں گے –

معلوم ہوا کہ ان فرقوں کا اجماع ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح ان کے جسد سے الگ نہیں ہے وہ قبر میں زندہ ہیں جبکہ اصحاب رسول کا اجماع وفات النبی پر ہے روح النبی کے جسم اطہر سے الگ ہونے پر اجماع ہے

حدیث میں ہے

سنن ترمذی میں ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الجَعْدِ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ  صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَنْ فَارَقَ الرُّوحُ الجَسَدَ وَهُوَ بَرِيءٌ [ص:139] مِنْ ثَلَاثٍ: الكَنْزِ، وَالغُلُولِ، وَالدَّيْنِ دَخَلَ الجَنَّةَ ” هَكَذَا قَالَ سَعِيدٌ: الكَنْزُ، وَقَالَ أَبُو 
عَوَانَةَ فِي حَدِيثِهِ: الكِبْرُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ مَعْدَانَ وَرِوَايَةُ سَعِيدٍ أَصَحُّ

ثَوْبَانَ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جس کی روح جسم سے الگ ہوئی اور وہ تین چیزوں سے  بَرِيءٌ تھا خزانہ ، غنیمت میں خیانت، اور قرض سے تو وہ جنت میں داخل ہوا – ترمذی نے کہا سعید نے روایت میں خزانہ بولا ہے اور … سعید  کی سند سے روایت اصح ہے

کیا یہ انصاف  ہے امتی تو جنتوں کے مزے لیں اور انبیاء کو اس فانی زمین میں رکھا جائے ؟

ایک طرف تو ہمارے ساتھ رہنے والے یہ فرقے ہیں اور دوسری طرف اصحاب رسول ہیں

فاطمہ رضی اللہ عنہا کا عقیدہ ہے کہ نبی جنت الفردوس میں ہیں

عائشہ رضی اللہ عنہا کا عقیدہ ہے کہ نبی نے آخرت کی زندگی کو پسند کیا نہ کہ دنیا کی

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے نکل گئے

یہ عقائد صحیح بخاری میں درج ہیں اور فرقوں کو معلوم ہیں لیکن ان فرقوں نے قبوری زندگی کا عقیدہ عوام میں پھیلا دیا  ہے اور معاشرہ میں قبوری کلچر انہی مولویوں کی وجہ سے پنپ رہا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *