کتم علم کی اہل سنت کی دلیل

قرآن میں کتم علم الوحی  پر سخت وعید ہے

اِنَّ الَّـذِيْنَ يَكْـتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْـهُـدٰى مِنْ بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِى الْكِتَابِ ۙ اُولٰٓئِكَ يَلْعَنُهُـمُ اللّـٰهُ وَيَلْعَنُهُـمُ اللَّاعِنُـوْنَ (159 

بے شک جو لوگ ان کھلی کھلی باتوں اور ہدایت کو جسے ہم نے نازل کر دیا ہے اس کے بعد بھی چھپاتے ہیں کہ ہم نے ان کو لوگوں کے لیے کتاب میں بیان کر دیا، یہی لوگ ہیں کہ ان پر اللہ لعنت کرتا ہے اور لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں۔

اِلَّا الَّـذِيْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَبَيَّنُـوْا فَـاُولٰٓئِكَ اَتُوْبُ عَلَيْـهِـمْ ۚ وَاَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيْـمُ (160 

مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کی اور اصلاح کر لی اور ظاہر کر دیا پس یہی لوگ ہیں کہ میں ان کی توبہ قبول کرتا ہوں، اور میں بڑا توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم والا ہوں

مسند احمد کی ایک سند سے معلوم ہوا ہے کہ انس رضی اللہ عنہ نے معاذ سے الوحی غیر متلو میں  ایک حدیث کو سنا تھا

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: أَتَيْنَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، فَقُلْنَا: حَدِّثْنَا مِنْ غَرَائِبِ حَدِيثِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ: نَعَمْ، كُنْتُ رِدْفَهُ عَلَى حِمَارٍ قَالَ: فَقَالَ: ” يَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ ” قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: ” هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ اللهِ عَلَى الْعِبَادِ؟ ” قُلْتُ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: ” إِنَّ حَقَّ اللهِ عَلَى الْعِبَادِ أَنْ يَعْبُدُوهُ وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ” قَالَ: ثُمَّ قَالَ: ” يَا مُعَاذُ ” قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ. قَالَ: ” هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللهِ إِذَا هُمْ فَعَلُوا ذَلِكَ؟ ” قَالَ: قُلْتُ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: ” أَنْ لَا يُعَذِّبَهُمْ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا معاذ ہمارے پاس پہنچے تو ہم نے کہا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی عجیب و غریب حدیث بیان کیجیے – معاذ نے کہا اچھا میں رسول اللہ کے گدھے کا ردیف تھا  یعنی ساتھ چل رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  کیا تم کو معلوم ہے اللہ کا حق بندوں پر کیا ہے ؟  میں نے کہا اللہ اور اس کا رسول جانتے ہیں- آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے   کہ بندے صرف اللہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ شریک نہ کریں – پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ بندوں کا حق اللہ تعالی پر کیا ہے  اگر وہ یہ کریں ؟ میں نے کہا اللہ اور اس کا رسول جانتا ہے – آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حق یہ ہے کہ وہ ان کو عذاب نہ دے 

یہ متن وہ ہے جس انس رضی اللہ عنہ نے معاذ رضی اللہ عنہ سے سنا   لیکن اس حدیث کو چھپایا جائے گا اس  کا اضافہ کسی نے انس سے  بیان  کیا  تھا -تقیہ سے منع کرنے والے اہل سنت کے بعض لوگ کہتے ہیں کہ دین میں کتم علم یا  علم کی باتیں چھپائی جا سکتی ہیں اس کی دلیل صحیح بخاری کی حدیث ہے

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، قَالَ: ذُكِرَ لِي أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ: «مَنْ لَقِيَ اللَّهَ لاَ يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا دَخَلَ الجَنَّةَ»، قَالَ: أَلاَ أُبَشِّرُ النَّاسَ؟ قَالَ: «لاَ إِنِّي أَخَافُ أَنْ يَتَّكِلُوا»
انس رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا مجھ سے ذکر کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ جو شخص اللہ سے اس کیفیت کے ساتھ ملاقات کرے کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو، وہ ( یقیناً ) جنت میں داخل ہو گا، معاذ بولے، یا رسول اللہ! کیا میں اس بات کی لوگوں کو بشارت نہ سنا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، مجھے خوف ہے کہ لوگ اس پر بھروسہ کر بیٹھیں گے۔

راقم کہتا ہے اس حدیث کا آخری حصہ منکر المتن  ہے- ایسی بات چھپانا جس کا تعلق اخروی فلاح سے ہو انبیاء کی سنت نہیں  

مسند احمد میں ہے

حَدَّثَنَاهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: كُنْتُ رِدْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ؟» قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: «أَنْ يَعْبُدُوهُ وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا» قَالَ: «هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ إِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ؟ أَنْ يَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا يُعَذِّبَهُمْ» ، قَالَ مَعْمَرٌ، فِي حَدِيثِهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا أُبَشِّرُ النَّاسَ؟ قَالَ: «دَعْهُمْ يَعْمَلُوا»

معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا پس آپ نے فرمایا کہ کیا تو جانتا ہے کہ اللہ کا بندوں پر کیا حق ہے ؟ میں نے کہا اللہ اور اس کا رسول جانتے ہیں – آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت کرو – پھر آپ نے فرمایا کیا تو جانتا ہے بندوں کا اللہ پر کیا حق ہے اگر وہ ایسا کریں ؟ آپ نے خود ہی جواب دیا کہ وہ ان کی مغفرت کرے ان کو عذاب نہ دے – معمر نے کہا اس حدیث میں کہ معاذ نے کہا میں نے کہا یا رسول اللہ میں لوگوں کو بشارت نہ دے دوں ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کو عمل کرنے دو

اسی طرح مصنف عبد الرزاق میں ہے جو امام بخاری کے مشائخ کے استاد ہیں یعنی یہ روایت بخاری کو ملنے سے پہلے امام عبد الرزاق کو ملی تھی اور ان کی کتاب المصنف میں اس کا متن بھی الگ ہے – معلوم ہوا کہ صحیح بخاری کی روایت میں مسدد نے سمجھنے میں غلطی کی ہے – لوگوں کو عمل کرنے دو کا مطلب یہ تھا کہ بعد میں بتا دینا فوری ضرورت نہیں ہے – اس کو چھپا دینا مراد نہیں تھا

صحیح بخاری میں یہ واقعہ ایک دوسری سند سے ہے کہ معاذ اس علم کی بات کو چھپاتے رہے اور  وفات سے قبل بتایا کہ علم ختم نہ ہو جائے وأخبر بها معاذ عند موته تَأَثُّمًا

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمُعاذٌ رَدِيفُهُ عَلَى الرَّحْلِ، قَالَ: «يَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ»، قَالَ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: «يَا مُعَاذُ»، قَالَ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ ثَلاَثًا، قَالَ: «مَا مِنْ أَحَدٍ يَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ [ص:38] مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، صِدْقًا مِنْ قَلْبِهِ، إِلَّا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ»، قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ: أَفَلاَ أُخْبِرُ بِهِ النَّاسَ فَيَسْتَبْشِرُوا؟ قَالَ: «إِذًا يَتَّكِلُوا» وَأَخْبَرَ بِهَا مُعَاذٌ عِنْدَ مَوْتِهِ تَأَثُّمًا
معاذ نے کہا میں نے کہا یا رسول اللہ میں لوگوں کو خبر نہ دے دوں ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ اسی پر تکیہ کر لیں گے ! اور معاذ نے موت کے وقت کتمان حق کے ڈر سے اس حدیث کا بتایا

سند میں مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، ہے جس کو ابن حجر کہتے ہیں وہم ہوتا ہے – ابن معین کہتے ہیں اس کی حدیث دلیل نہیں ہے
قال الآجُريُّ: قلتُ لأبي داود: معاذ بن هشام عندك حجة؟ قال: أكره أن أقول شيئًا، كان يحيى لا يرضاه.
قال أبو عبيد (الآجُريُّ): لا أدري مَنْ يحيى، يحيى بن معين، أو يحيى القَطَّان. وأظنه يحيى القَطَّان. “سؤالاته” 3/ 263 و 264.
الاجری نے کہا میں نے ابو داود سے معاذ بن ہشام کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اس پر کچھ کہنے سے کراہت کی اور کہا یحیی اس کو پسند نہیں کرتے تھے … میرا خیال ہے امام یحیی بن سعید القطان مراد تھے
قال ابن أبي خيثمة: سئل يحيى بن معين عن معاذ بن هشام فقال: ليس بذاك القوي
ابن معین نے کہا ایسا کوئی قوی راوی نہیں ہے

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی وفات طاعون عمواس میں اردن کے مضافات میں سن 18 ہجری میں ہوئی – انس رضی اللہ عنہ وہاں اس وقت موجود نہیں تھے- جہاں طاعون پھیلا ہو وہاں جانا منع ہے –انس رضی اللہ عنہ نے اس روایت کو خود معاذ رضی اللہ عنہ سے نہیں سنا بلکہ کہا مجھ سے ذکر کیا کسی نے خبر دی

مختصر صحیح بخاری میں البانی نے تعلیق میں لکھا ہے

لأن أنساً كان بالمدينة حين مات معاذ بالشام

انس مدینہ میں تھے جب معاذ کی شام میں وفات  ہوئی

اور صحیح بخاری کی حدیث جو راقم نے سب سے اوپر لکھی ہے اس میں ہے کہ انس نے کہا

قَالَ: ذُكِرَ لِي  مجھ سے ذکر کیا گیا 

معلوم ہوا کہ انس رضی اللہ عنہ نے روایت  کا آخری حصہ خود معاذ سے  نہیں سنا تھا بلکہ کسی نے ان سے ذکر کیا جس کا نام انہوں نے نہیں لیا کہ کون تھا  جس نے اضافہ کیا کہ نبی کا حکم تھا  لوگوں سے ذکر مت کرو وہ اس پر بھروسہ کریں گے

مسند احمد میں یہ قتادہ کی سند ہے کہ لوگ اس بات پر بھروسہ کر لیں گے
حَدَّثَنَا بَهْزٌ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، حَدَّثَهُ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ: «يَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ» قَالَ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: «لَا يَشْهَدُ عَبْدٌ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، ثُمَّ يَمُوتُ عَلَى ذَلِكَ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ» قَالَ: قُلْتُ [ص:336]: أَفَلَا أُحَدِّثُ النَّاسَ؟ قَالَ: «لَا، إِنِّي أَخْشَى أَنْ يَتَّكِلُوا عَلَيْهِ»
قتادہ مدلس نے عنعنہ سے روایت کیا ہے

مسند احمد میں ہے

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو يَعْنِي ابْنَ دِينَارٍ قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ يَقُولُ: أَخْبَرَنَا مَنْ شَهِدَ مُعَاذًا حِينَ حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ. يَقُولُ: اكْشِفُوا عَنِّي سَجْفَ الْقُبَّةِ أُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ مَرَّةً: أُخْبِرُكُمْ بِشَيْءٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَمْ يَمْنَعْنِي أَنْ أُحَدِّثَكُمُوهُ إِلَّا أَنْ تَتَّكِلُوا سَمِعْتُهُ يَقُولُ: ” مَنْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُخْلِصًا مِنْ قَلْبِهِ، أَوْ يَقِينًا مِنْ قَلْبِهِ، لَمْ يَدْخُلِ النَّارَ،

عمرو بن دینار نے کہا میں نے جابر بن عبد اللہ سے سنا کہا ہم کو اس نے خبر دی جس نے مُعَاذً کو ان کی وفات پر پایا کہ وہ کہہ رہے تھے میں تم کو ایک چیز کی خبر کرتا ہوں جس کو میں نے رسول اللہ سے سنا تھا مجھے کسی بات نے منع نہ کیا کہ اس کو تم سے بیان کروں سوائے اس کے کہ تم اس پر حدیث پر تکیہ کر لیتے- مُعَاذً نے پھر حدیث بیان کی

اس روایت کو شعیب نے صحیح کہا ہے – اس روایت میں تاثر دیا گیا  ہے کہ معاذ نے اس کو صرف اپنے بعض شامی شاگردوں کو نہیں سنایا تھا اور مدعا کہ تم اس متن پر تکیہ کر لیتے حدیث رسول نہیں تھے صرف مُعَاذً کا گمان تھا

مسند احمد میں ہے

حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، أَنَّهُ إِذْ حُضِرَ قَالَ: أَدْخِلُوا عَلَيَّ النَّاسَ فَأُدْخِلُوا عَلَيْهِ فَقَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” مَنْ مَاتَ لَا يُشْرِكُ بِاللهِ شَيْئًا جَعَلَهُ اللهُ فِي الْجَنَّةِ ” وَمَا كُنْتُ أُحَدِّثُكُمُوهُ، إِلَّا عِنْدَ الْمَوْتِ وَالشَّهِيدُ عَلَى ذَلِكَ عُوَيْمِرٌ أَبُو الدَّرْدَاءِ، فَأَتَوْا أَبَا الدَّرْدَاءِ، فَقَالَ: صَدَقَ أَخِي وَمَا كَانَ يُحَدِّثُكُمْ بِهِ إِلَّا عِنْدَ مَوْتِهِ
أَبِي صَالِحٍ نے مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ سے روایت کیا جب وہ حضوری پر تھے کہا لوگوں کو یہاں داخل کرو پس لوگ جمع ہوئے مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ نے کہا میں نے رسول اللہ سے سنا تھا جس کو موت آئی کہ شرک نہ کرتا ہو اللہ اس کو جنت میں کرے گا اور یہ حدیث میں نے نہیں سنائی سوائے موت پر اور اس کے گواہ عُوَيْمِرٌ أَبُو الدَّرْدَاءِ ہیں پس عُوَيْمِرٌ أَبُو الدَّرْدَاءِ آئے اور فرمایا سچ کہا بھائی آپ نے میں (بھی) اس کو روایت نہیں کرتا سوائے موت پر

راقم کہتا ہے سند منقطع ہے – أبو صالح ذكوان السمان کا سماع نہ معاذ المتوفی ١٨ ھ  سے ہے نہ عُوَيْمِرٌ أَبُو الدَّرْدَاءِ المتوفی ٣٢  سے ہے

البتہ غالبا یہ قول کہ اس حدیث کو چھپایا جائے انس رضی اللہ عنہ  کو أبو صالح ذكوان السمان سے ملا ہو گا کیونکہ انس مدینہ میں تھے اور معاذ شام میں

بعض راوی نے یہ بھی بیان کر دیا کہ اس حدیث کو انس نے بھی نبی سے سنا تھا جس پر محدث ابن خزیمہ نے جرح کی

ایمان ابن مندہ میں ہے
وَأَنْبَأَ أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ، وَعَلِيُّ بْنُ نَصْرٍ، قَالَا: ثَنَا مُعَاذُ بْنُ الْمُثَنَّى، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْهَالِ، ثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، ثَنَا التَّيْمِيُّ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: ذُكِرَ لِي أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِمُعَاذٍ: وَلَمْ أَسْمَعْهُ مِنْهُ
ابن مندہ کا قول ہے کہ انس نے یہ حدیث معاذ سے نہیں سنی

ایسا ہی قول ابن حجر کا فتح الباری میں ہے – راقم کہتا ہے حدیث سنی لیکن اس کا آخر إِنِّي أَخَافُ أَنْ يَتَّكِلُوا کہ لوگ اس پر تکیہ کر لیں گے (اس کو چھپایا جائے) انس نے نہیں سنا ان سے کسی نے بیان کیا

توحید ابن خزیمہ میں مختلف مقام پر ابن خزیمہ  اس روایت کا ذکر ہے

حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: أَخْبَرَنا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي سَلَمَةُ بْنُ وَرْدَانَ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا مَعَ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ الْأَنْصَارِيِّ فَقَالَ أَنَسٌ: فَجَاءَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ الْأَنْصَارِيُّ مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: مِنْ أَيْنَ جِئْتَ؟ فَقَالَ: مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: مَاذَا قَالَ لَكَ؟ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُخْلِصًا، دَخَلَ الْجَنَّةَ» فَقُلْتُ: أَنْتَ سَمِعْتَهُ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ أَنَسٌ: فَقُلْتُ أَذْهَبُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْأَلُهُ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، فَأَتَاهُ، فَسَأَلَهُ فَقَالَ: «صَدَقَ مُعَاذٌ، صَدَقَ مُعَاذٌ، صَدَقَ مُعَاذٌ، ثَلَاثًا»
سَلَمَةُ بْنُ وَرْدَانَ نے بیان کیا کہ میں انس بن مالک کے ساتھ تھا – انس نے کہا کہ معاذ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے آئے میں نے پوچھا کہاں سے آ رہے ہو ؟ معاذ نے کہا میں رسول اللہ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے پاس سے آ رہا ہوں – میں نے پوچھا کیا فرمایا رسول اللہ نے ؟ معاذ نے کہا کہ رسول اللہ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا جس نے شہادت دی کہ اللہ کے سوا کوئی اله نہیں مخلص ہو کر وہ جنت میں داخل ہوا – میں نے کہا کیا تم نے سنا تھا ؟ معاذ نے کہا ہاں – انس نے کہا چلو رسول اللہ کے پاس ان سے سوال کرتے ہیں – معاذ نے کہا ہاں چلو ، پس ہم رسول اللہ کے پاس پہنچے اور اس حدیث پر سوال کیا – آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا معاذ نے سچ کہا تین بار

قَالَ أَبُو بَكْرٍ قَرَأْتُ عَلَى بُنْدَارٍ أَنَّ ابْنَ أَبِي عَدِيٍّ حَدَّثَهُمْ عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ صَدَقَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ مَاتَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، دَخَلَ الْجَنَّةَ» قَالَ أَبُو بَكْرٍ: صَدَقَةُ، هَذَا رَجُلٌ مِنْ آلِ أَبِي الْأَحْوَصِ كَذَا كَانَ فِي الْكِتَابِ عِلْمِي وَرَوَى سَلَمَةُ بْنُ وَرْدَانَ، وَأَنَا أَبْرَأُ مِنْ عُهْدَةِ هَذَا الْخَبَرِ، عَنْ أَنَسٍ فَأَخْطَأَ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ، فَزَعَمَ أَنَّ أَنَسًا سَمِعَ هَذَا الْخَبَرَ مِنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، ثُمَّ سَمِعَهُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ابن خزیمہ نے کہا میں نے امام بندار پر پڑھا کہ روایت کیا
ابْنَ أَبِي عَدِيٍّ حَدَّثَهُمْ عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ صَدَقَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ مَاتَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، دَخَلَ الْجَنَّةَ
ابن خزیمہ نے کہا … سلمہ بن وردان میں اس کی خبر کے عہد سے بریء ہوں کیونکہ اس نے انس سے روایت میں غلطی کی ہے – پس دعوی کیا ہے کہ انس نے اس حدیث کومُعَاذِ سے سنا پھر نبی صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سے

اسی طرح اہل سنت کے بعض لوگوں نے تقیہ کی دلیل صحیح بخاری میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی لی ہے

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَخِي، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وِعَاءَيْنِ: فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَبَثَثْتُهُ، وَأَمَّا الآخَرُ فَلَوْ بَثَثْتُهُ قُطِعَ هَذَا البُلْعُومُ
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، ان سے ان کے بھائی عبدالحمید ) نے ابن ابی ذئب سے نقل کیا۔ وہ سعید المقبری سے روایت کرتے ہیں، وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ( علم کے ) دو برتن یاد کر لیے ہیں، ایک کو میں نے پھیلا دیا ہے اور دوسرا برتن اگر میں پھیلاؤں تو میرا یہ نرخرا کاٹ دیا جائے

یہ روایت ایک ہی سند سے اتی ہے
عَنْ ابْنِ أبِي ذِئْبٍ، عَنْ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وِعَاءَيْنِ, فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَبَثَثْتُهُ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَلَوْ بَثَثْتُهُ قُطِعَ هَذَا الْبُلْعُومُ.
اول اس میں ابْنِ أبِي ذِئْبٍ، ہے جو مدلس ہے  اس روایت کی تمام اسناد میںاس کا عنعنہ ہے
دوم سعید المقبری ہے جو آخری عمر میں مختلط تھا اور اس دور میں اس کی محدثین کہتے ہیں وہی روایت صحیح ہے جو لیث کے طرق سے ہوں

سوم یہ متن مشکوک ہے کہ ابو ہریرہ نے کہا ہو- ابو ہریرہ رضی الله عنہ کو تو روایات سنانے کا اتنا شوق تھا کہ ایک حدیث میں ہے کہ عائشہ رضی الله عنہا نے کہا کہ گویا لسٹ بنا دی روایات کی- اور پھر امام مسلم کہتے ہیں کعب الاحبار کے اقوال ملا دیے
حدیث رسول میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  کا دوسروں کا (مثلا کعب احبار ) یا اپنا قول ملا دینے کا ذکر خود محدثین و محققین نے کیا ہے

3 thoughts on “کتم علم کی اہل سنت کی دلیل

  1. jawad

    السلام و علیکم و رحمت الله

    بظاھر صحیح مسلم کی یہ دو روایات بھی کتمان علم سے متعلق لگتی ہیں

    پہلی روایت

    حدثني أبو هريرة، قال: كنا قعودا حول رسول الله صلى الله عليه وسلم، معنا أبو بكر، وعمر في نفر، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم من بين أظهرنا، فأبطأ علينا، وخشينا أن يقتطع دوننا، وفزعنا، فقمنا، فكنت أول من فزع، فخرجت أبتغي رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى أتيت حائطا للأنصار [ص:60] لبني النجار، فدرت به هل أجد له بابا؟ فلم أجد، فإذا ربيع يدخل في جوف حائط من بئر خارجة – والربيع الجدول – فاحتفزت، فدخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: «أبو هريرة» فقلت: نعم يا رسول الله، قال: «ما شأنك؟» قلت: كنت بين أظهرنا، فقمت فأبطأت علينا، فخشينا أن تقتطع دوننا، ففزعنا، فكنت أول من فزع، فأتيت هذا الحائط، فاحتفزت كما يحتفز الثعلب، وهؤلاء الناس ورائي، فقال: «يا أبا هريرة» وأعطاني نعليه، قال: «اذهب بنعلي هاتين، فمن لقيت من وراء هذا الحائط يشهد أن لا إله إلا الله مستيقنا بها قلبه، فبشره بالجنة»، فكان أول من لقيت عمر، فقال: ما هاتان النعلان يا أبا هريرة؟ فقلت: هاتان نعلا رسول الله صلى الله عليه وسلم، بعثني بهما من لقيت يشهد أن لا إله إلا الله مستيقنا بها قلبه، بشرته بالجنة، فضرب عمر بيده بين ثديي فخررت لاستي، فقال: ارجع يا أبا هريرة، فرجعت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأجهشت بكاء، وركبني عمر، فإذا هو على أثري، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما لك يا أبا هريرة؟» قلت: لقيت عمر، فأخبرته بالذي بعثتني به، فضرب بين ثديي ضربة خررت لاستي، قال: ارجع، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا عمر، ما حملك على ما فعلت؟» قال: يا رسول الله، بأبي أنت، وأمي، أبعثت أبا هريرة بنعليك، من لقي يشهد أن لا إله إلا الله مستيقنا بها قلبه بشره بالجنة؟ قال: «نعم»، قال: فلا تفعل، فإني أخشى أن يتكل الناس عليها، فخلهم يعملون، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «فخلهم» (مسلم

    اس روایت کے آخری الفاظ (ترجمہ) یہ ہیں کہ

    آپ ﷺ نے پوچھا: اے عمر ! آپ نے ایسا کیوں کیا (یعنی ابو ہریرہ کو کیوں مارا ؟) عمر بولے ۔۔میرے ماں ، باپ آپ پر قربان ۔۔۔کیا آپ نے ابو ہریرہ کو کلمہ شہادت پر جنت کی بشارت سنانے کیلئے بھیجا تھا ؟ فرمایا :ہاں میں نے بھیجا تھا ۔ عرض کیا ،مجھے اندیشہ ہے اس طرح لوگ (غلط فہمی میں ) عمل کی اہمیت چھوڑ کرصرف کلمہ پڑھنے پر اکتفاء کرلیں گے- ۔نبی پاک ﷺ نے فرمایا :ٹھیک ہے

    بظاھر اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ عمر رضی الله عنہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ حدیث عوام میں عام ہو- ورنہ لوگ عمل چھوڑ دیںگے – اور نبی کریم نے بھی اس پر فرمایا ٹھیک ہے- منع نہیں کیا؟؟

    دوسری روایت:

    حدثني عبد الله بن هاشم العبدي، حدثنا يحيى يعني ابن سعيد القطان، عن شعبة، قال: حدثني الحكم، عن ذر، عن سعيد بن عبد الرحمن بن أبزى، عن أبيه، أن رجلا أتى عمر، فقال: إني أجنبت فلم أجد ماء فقال: لا تصل. فقال عمار: أما تذكر يا أمير المؤمنين، إذ أنا وأنت في سرية فأجنبنا فلم نجد ماء، فأما أنت فلم تصل، وأما أنا فتمعكت في التراب وصليت، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «إنما كان يكفيك أن تضرب بيديك الأرض، ثم تنفخ، ثم تمسح بهما وجهك، وكفيك» فقال عمر: ” اتق الله يا عمار قال: إن شئت لم أحدث به ” قال الحكم: وحدثنيه ابن عبد الرحمن بن أبزى، عن أبيه، مثل حديث ذر قال: وحدثني سلمة، عن ذر، في هذا الإسناد الذي ذكر الحكم، فقال عمر: نوليك ما توليت

    سعید بن عبدالرحمن ابن ابزی سے روایت ہے کہ ایک آدمی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ میں جنبی ہوگیا اور میں نے پانی نہیں پایا آپ نے فرمایا نماز نہ پڑھ، تو حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے امیر المومنین کیا آپ کو یاد نہیں کہ جب میں اور آپ ایک سریہ میں جنبی ہو گئے اور ہمیں پانی نہ ملا اور آپ نے نماز ادا نہ کی بہر حال میں مٹی میں لیٹا اور نماز ادا کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیرے لئے کافی تھا کہ تو اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر مارتا پھر پھونک مارتا پھر ان دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مسح کرتا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے عمار اللہ سے ڈر حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے فرمایا- “اگر آپ چاہیں تو میں یہ حدیث نہیں بیان کروں گا”- حکم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت مذکور ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جو ذمہ داری تم نے اٹھائی ہے ہم تم کو وہی ذمہ داری دیتے ہیں۔[صحيح مسلم

    حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا اگر آپ چاہیں تو میں یہ حدیث نہیں بیان کروں گا – یعنی اس روایت کو چھپانے کی کوشش کی- جب کہ انہوں نے خود نبی کریم کا حکم مرفوع سنا – کہ ” تیرے لئے کافی تھا کہ تو اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر مارتا پھر پھونک مارتا پھر ان دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مسح کرتا

    آپ کا تبصرہ درکار ہے- ؟؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      وعلیکم السلام و رحمہ اللہ

      زہیر بن حرب، عمر بن یونس حنفی، عکرمہ بن عمار، ابوکثیر، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے ہمارے ساتھ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر (رض) بھی شامل تھے اچانک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے سامنے سے اٹھ کھڑے ہوئے اور دیر تک تشریف نہ لائے ہم ڈر گئے کہ کہیں (اللہ نہ کرے) آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچی ہو۔ اس لئے ہم گھبرا کر کھڑے ہوگئے سب سے پہلے مجھے گھبراہٹ ہوئی میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تلاش میں نکلا یہاں تک کہ بنی نجار کے باغ تک پہنچ گیا ہر چند باغ کے چاروں طرف گھوما مگر اندر جانے کا کوئی دروازہ نہ ملا۔ اتفاقاً ایک نالہ دکھائی دیا جو بیرونی کنوئیں سے باغ کے اندر جارہا تھا میں اسی نالہ میں سمٹ کر گھر کے اندر داخل ہوا اور آپ کی خدمت میں پہنچ گیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ابوہریرہ! میں نے عرض کیا جی ہاں اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کا کیا حال ہے؟ آپ ہمارے سامنے تشریف فرما تھے اور اچانک اٹھ کر تشریف لے گئے اور دیر ہوگئی تو ہمیں ڈر ہوا کہ کہیں کوئی حادثہ نہ گزرا ہو اس لئے ہم گھبرا گئے۔ سب سے پہلے مجھے ہی گھبراہٹ ہوئی (تلاش کرتے کرتے کرتے) اس باغ تک پہنچ گیا اور لومڑی کی طرح سمٹ کر (نالہ کے راستہ سے) اندر آگیا اور لوگ میرے پیچھے ہیں۔ آپ نے اپنے نعلین مبارک مجھے دے کر فرمایا ابوہریرہ! میری یہ دونوں جوتیاں (بطور نشانی) کے لے جاؤ اور جو شخص باغ کے باہر دل کے یقین کے ساتھ لا الٰہ الّا اللہ کہتا ہوا ملے اس کو جنت کی بشارت دے دو۔ (میں نے حکم کی تعمیل کی) سب سے پہلے مجھے حضرت عمر (رض) ملے۔ انہوں نے کہا اے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ! یہ جوتیاں کیسی ہیں؟ میں نے کہا یہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جوتیاں ہیں۔ آپ نے مجھے یہ جوتیاں دے کر بھیجا ہے کہ جو مجھے دل کے یقین کے ساتھ اس بات کی گواہی دیتا ہوا ملے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کو جنت کی بشارت دے دوں۔ حضرت عمر (رض) نے یہ سن کر ہاتھ سے میرے سینے پر ایک ضرب رسید کی جس کی وجہ سے میں سرینوں کے بل گر پڑا۔ کہنے لگے اے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ! لوٹ جا۔ میں لوٹ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچا اور میں رو پڑنے کے قریب تھا۔ میرے پیچھے عمر (رض) بھی آپہنچے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے ابوہریرہ! کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا میری ملاقات عمر (رض) سے ہوئی اور جو پیغام آپ نے مجھے دے کر بھیجا تھا میں نے ان کو پہنچادیا۔ انہوں نے میرے سینے پر ایک ضرب رسید کی جس کی وجہ سے میں سرینوں کے بل گر پڑا اور کہنے لگے لوٹ جا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے عمرتم نے ایسا کیوں کیا؟ حضرت عمر (رض) نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! کیا آپ نے ابوہریرہ (رض) کو جوتیاں دے کر حکم دیا تھا کہ جو شخص دل کے یقین کے ساتھ لا الہ الا اللہ کہے اس کو جنت کی بشارت دے دینا۔ فرمایا ہاں! حضرت عمر (رض) نے عرض کیا آپ ایسا نہ کریں کیونکہ مجھے خوف ہے کہ لوگ (عمل کرنا چھوڑ دیں گے) اور اسی فرمان پر بھروسہ کر بیٹھیں گے۔ ان کو عمل کرنے دیجئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا (اچھا تو) رہنے دو۔

      يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَبُو كثير السُّحَيميُّ، اليماميُّ الأعمى نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے – اس کا نام بعض نے يزيدُ بن عبد الله ابن أُذينة یا ابن غُفَيْلَة بھی لیا ہے
      یہ شامی ہے اس کو ثقہ کہا گیا ہے

      البتہ اس سے عكرمة بن عمار العجلي، أبو عمار اليمامي بصري الأصل. نے روایت لی ہے جس پر جرح ہے

      عکرمہ بن عمار کو بعض محدثین نے ثقہ کہا ہے لیکن امام بخاری نے مضطرب قرار دیا ہے
      وضَعّفه البخاري جدًّا (السنن الكبرى: 1/ 135).
      بخاری نے اس کی سخت تضعیف کی ہے
      قال البخاريُّ: صاحبُ مناكير. “التاريخ الصغير
      مناکیر کے صاحب ہیں

      قَال صالح بْن مُحَمَّد الأسدي : كان ينفرد بأحاديث طوال، ولم يشركه فيها أحد
      صالح بْن مُحَمَّد الأسدي نے کہا طویل احادیث میں تفرد رکھتا ہے
      ابن خراش : كان صدوقا، وفي حديثه نكرة
      ابن خراش نے کہا صدوق ہے اور اس کی روایات میں نکارت ہے

      المعلمی کا قول ہے
      موصوف بأنه يغلط ويهم
      عکرمہ غلطییوں اور وہم سے متصف ہیں

      ابن حجر کا قول ہے
      “في حفظه مقال”. “الفتح” (10/ 605).
      حافظہ پر کلام ہے

      ابو داود کا قول ہے
      عكرمة مضطرب الحديث

      اس طرح یہ روایت قابل بھروسہ نہیں ہے

      ————–

      حدثني عبد الله بن هاشم العبدي، حدثنا يحيى يعني ابن سعيد القطان، عن شعبة، قال: حدثني الحكم، عن ذر، عن سعيد بن عبد الرحمن بن أبزى، عن أبيه، أن رجلا أتى عمر، فقال: إني أجنبت فلم أجد ماء فقال: لا تصل. فقال عمار: أما تذكر يا أمير المؤمنين، إذ أنا وأنت في سرية فأجنبنا فلم نجد ماء، فأما أنت فلم تصل، وأما أنا فتمعكت في التراب وصليت، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «إنما كان يكفيك أن تضرب بيديك الأرض، ثم تنفخ، ثم تمسح بهما وجهك، وكفيك» فقال عمر: ” اتق الله يا عمار قال: إن شئت لم أحدث به ” قال الحكم: وحدثنيه ابن عبد الرحمن بن أبزى، عن أبيه، مثل حديث ذر قال: وحدثني سلمة، عن ذر، في هذا الإسناد الذي ذكر الحكم، فقال عمر: نوليك ما توليت

      سعید بن عبدالرحمن ابن ابزی سے روایت ہے کہ ایک آدمی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ میں جنبی ہوگیا اور میں نے پانی نہیں پایا آپ نے فرمایا نماز نہ پڑھ، تو حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے امیر المومنین کیا آپ کو یاد نہیں کہ جب میں اور آپ ایک سریہ میں جنبی ہو گئے اور ہمیں پانی نہ ملا اور آپ نے نماز ادا نہ کی بہر حال میں مٹی میں لیٹا اور نماز ادا کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیرے لئے کافی تھا کہ تو اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر مارتا پھر پھونک مارتا پھر ان دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مسح کرتا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے عمار اللہ سے ڈر حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے فرمایا- “اگر آپ چاہیں تو میں یہ حدیث نہیں بیان کروں گا”- حکم سے روایت مذکور ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جو ذمہ داری تم نے اٹھائی ہے ہم تم کو وہی ذمہ داری دیتے ہیں۔[صحيح مسلم

      اس کی سند صحیح ہے اور یہ واقعہ لگتا ہے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو صحیح یاد نہیں رہا – – جب عمر نے واقعہ کا انکار کیا اور عمار کو خود احساس ہوا کہ وہ غلطی کر رہے ہیں اور انہوں نے کہا میں یہ واقعہ بیان نہیں کروں گا
      یہ میرے نزدیک علم چھپانا نہیں ہے بلکہ اپنی یاداشت پر عدم حفظ کا اظہار ہے
      عمار کو اپنے بیان پر شک ہوا جب دیکھا کہ عمر نے اس کو یکسر رد کر دیا ہے
      اس طرح ممکن ہے یہ کوئی خاص واقعہ ہو جس میں صحابی عمر نہ ہوں بلکہ کوئی اور ہو
      عمار کو صحیح یاد نہیں رہا کہ کون صحابی تھے اور کس کے تحت یہ حکم دیا گیا تھا

      Reply
      1. jawad

        جزاک الله – شکریہ

        Reply

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *