قرآن اور قرات عشرہ

قرآن کے حوالے سے ایک مسلم کو علم ہونا چاہیے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

إِنَّ الْقُرْآنَ أُنْزِلَ على سَبْعَةِ أَحْرُفٍ فاقرؤوا منه ما تَيَسَّرَ
قرآن سات حروف پر نازل ہوا جیسا آسان ہو پڑھو صحیح البخاری

اس کی تعبیر و تشریح کسی صحیح حدیث میں نہیں ہے لیکن احادیث میں ہے کہ اس کی بنا پر قرآن کی بعض قرات دوسری سے الگ محسوس ہوتی تھیں یہاں تک کہ ایک موقع پر عمر رضی الله عنہ نے ایک دوسرے صحابی کو برا بھلا کہا اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس بھی پیش کیا اپ نے دونوں کی الگ الگ قرات سنی اور دونوں کو صحیح قرار دیا

قرآن کو دور صدیقی میں مصحف کی صورت میں جمع کیا گیا کیونکہ یہ ایک کتاب کی صورت میں نہ تھا

تلفظ اور لحن کے مسئلہ پر عثمان رضی الله عنہ نے قرآن کو واپس ایک کیا اور نہ صرف مصحف ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کو لیا بلکہ بعد میں کوئی اعتراض نہ کرے زید بن ثابت رضی الله عنہ کی ڈیوٹی لگائی کہ مسجد النبی میں بیٹھ کر ہر آیت پر دو گواہیاں طلب کرو کہ وہ گواہی دیں کہ قرآن کا حصہ ہیں –  لہذا نہایت احتیاط سے جمع ہوا

اس خط کو خط حجازی کہا جاتا ہے جو زیر زبر کے بغیر تھا جو اپ نیچے دیکھ سکتے ہیں کہ اصل میں نقطۂ اور اعراب نہیں تھے

قرآن کے قدیم ترین نسخے ١٩٧٢ میں صنعا یمن سے ملے ہیں

سناء

قرآن مصحف کی صورت نہیں پھیلا تھا وہ قرات سے مسلم علاقوں تک پہنچا تھا لہذا تلاوت کرنا سب کو اتا تھا اور اس کو حفظ کیا جاتا تھا لیکن جب مصحف میں لکھا گیا تو نقطے لگائے گئے جو ایک روایت  کے مطابق علی رضی الله عنہ کا خیال تھا اور دوسری  کے مطابق عبد الملک کا خیال تھا

قرطبی لکھتے ہیں

عبدالملک مروان نے مصحف کے حروف کو متشکل کرنے اور ان پر نقطے لگانے کا حکم دیا ، اس نے اس کام کے لیے حجاج بن یوسف کو شہر واسط سے  فارغ کیا (تاکہ اعراب کا کام صحیح طور پر ہو)  ۔اس نے بہت محنت و لگن سے اس کام کو انجام دیا اور اس میں احزاب کا اضافہ کیا اس وقت حجاج عراق کا گورنر تھا ۔ اس نے حسن اور یحیی ابن یعمر کے ذمہ  یہ کام لگایا ، اس کے بعد واسط میں ایک کتاب لکھی ، جس میں قراءت کے متعلق مختلف روایات کو جمع کیا ، بڑے عرصہ تک لوگ اس کتاب پر عمل کرتے رہے ، حتی کہ ابن مجاہدنے قراءت میں ایک کتاب لکھی

تفسیر القرطبی

 ابن خلکان لکھتے ہیں

ابوالاسود الدولی وہ پہلے شخص ہیں ، جنہوں نے سب سے پہلے علم نحو کو وضع کیا ، علی رضی اللہ عنہ نے ان کو بتایا کہ  کلام کی کل تین قسمیں ہیں : اسم ، فعل اور حرف، اور فرمایا : اس پر تم قواعد تحریر کرو ،

وفیات الاعیان از ابن خلکان

اعراب اور بعض اوقات نقطے لال رنگ سے لگائے گئے تھے اور متن کالی سیاہی سے لکھا جاتا تھا تاکہ واضح کیا جائے کہ نئی چیز کیا ہے

اب یہخط،  خط کوفی کہلایا

تشکیل١

https://ar.wikipedia.org/wiki/مخطوطات_صنعاء#/media/File:Sanaa_-_manuscript_Surat_al_Maida.jpg

قرآن پر اعراب کا لگنا  سامی زبانوں میں ایک ترقی تھی کیونکہ آج تک عبرانی بغیر نقطوں اور اعراب کے لکھی جاتی ہے اس کے برعکس عرب مسلمانوں نے نقطے اور اعراب کو داخل کیا اور قرآن میں جو تلفظ کے مسائل تھے ان کو دور کیا یہاں تک کہ اختلاف معنی نہ ہوا

ابن تیمیہ فتوی ج 3 ص ٤٠٢ میں لکھتے ہیں

تشکیل2

مسلمانوں نے (قرآن) مصحف (کی صورت) لکھا اور نقطے نہ  لگآنا اور اور(تشکیل) اعراب نہ لگانا جائز تھا کیونکہ صحابہ نے اپنے مصحف نقطوں اور اعراب کے بغیر لکھے تھے کیونکہ وہ عرب تھے اور لحن (لہجوں میں اختلاف) نہ کرتے تھے- اور ایسے تھے یہ مصاحف جو عثمان نے بھیجے اور تابعین کے دور تک تھے- پھر کھڑا ہوا لحن (لہجوں میں اختلاف)  کا مسئلہ لہذا مصاحف پر نقطے لگائے گئے اور نقطوں کو لال لکھا، پھر ان کو حروف کی طرح ہی لکھا جانے لگا (یعنی جس سیاہی میں خط ہوتا اسی میں نقطے) پس علماء کا تنازع ہوا اس پر کراہت کے حوالے سے جو امام احمد کا اس کے خلاف  آیا ہے الله رحم کرے، اور دیگر علماء کی جانب سے کہا جاتا ہے وہ کراہت کرتے تھے کیونکہ یہ بدعت ہے، اور کہا جاتا ہے کہ وہ کراہت نہ کرتے تھے کیونکہ اس کی ضرورت تھی، اور کہا جاتا ہے وہ کراہت کرتے تھے نقطوں سے بغیر اعراب کے  

مخطوطات صنعاء کی دو باتیں بہت اہم اور قابل توجہ ہیں اول یہ اس وقت قرآن کے سب سے قدیم نسخوں میں سے ہے دوم اس میں عبد الله ابن مسعود کی قرات ہے جس پر یمن میں قرآن پڑھا جاتا تھا اور سوم اس پر دو تحریریں ہیں ایک کو مٹا کر دوسری کو لکھا گیا ہے

سناء٣

https://ar.wikipedia.org/wiki/مخطوطات_صنعاء#/media/File:Qur%27anic_Manuscript_-_3_-_Hijazi_script.jpg

چونکہ ایک مخصوص فرقہ کی جانب سے قرآن کے حوالے سے متضاد بیان اتے رہتے ہیں کہ اس کو دور اول میں تبدیل کیا گیا تھا لہذا اس میں تمام دنیا کی دلچسپی پیدا ہوئی اور ہارورڈ اور ستانفورڈ یونیورسٹی نے ان مخطوطات کو حاصل کیا اور ان پر سائنسی انداز میں تحقیق کی نہ صرف نچلی تحریر پڑھی بلکہ کاربن ڈیٹنگ بھی ہوئی

سوچا یہ جا رہا تھا کہ نچلی تحریر میں کوئی دوسرآ قرآن ہو گا جس کو مٹا کر حکم عثمان پر نیا قرآن لکھا گیا

الغرض  جو نتائج نکلے وہ  اچھے تھے

اول نسخے دور صحابہ  کے ہیں

 دوم نسخوں کی نچلی تحریر آج کے قرآن سے الگ نہیں اور ان میں نقطے اور اعراب نہیں ہیں

مخطوطات صنعاء پر محقیقین لکھتے ہیں

In any case, textual criticism suggests that the standard version is the most faithful representation, among the known codices, of the Quran as recited by the Prophet.

کسی بھی صورت میں تحریری تنقید بتاتی ہے کہ جو سٹندرد قرآن ہے وہ بہت ایمان و احتیاط کے ساتھ لکھا گیا ہے جیسا کہ رسول نے اس کی تلاوت کی

Behnam Sadeghi and Uwe Bergmann, The Codex of a Companion of the Prophet and the Qur’a n of the Prophet, Arabica 57 (2010) 343-436, Brill Publisher.

قابل غور ہے کہ یہ تحقیق امریکا کی  یونیورسٹیز میں ہوئی ہے جس کے لئے اہل اسلام کو ان کی تعریف کرنی چاہیے کیونکہ تحقیق کا اصول ہے کہ اس کو کسی بھی تعصب سے الگ ہو کر کیا جائے- مذہبی اورمسلکی تعصب بعض اوقات انسان کے اندر سمجھنے کی صلاحیت کم کر دیتا ہے

دس متواتر قراتیں

قرآن کی قرات بہت سے صحابہ تابعین اور تبع تابعین سے ہم تک آئی ہے جس کو دس متواتر قرات کہا جاتا ہے

سوره الفاتحہ کی دس قرات یو ٹیوب پر اس طرح موجود ہیں

اہل مدینہ کی قرات

نافع بن عبد الرحمن بن أبي نعيم المدني  المتوفی ١٦٩ ھ  ان کی قرات کی سند ابی بن کعب اور ابو ہریرہ رضی الله عنہما تک جاتی ہے

ان کی قرات کی سند قالون سے ہے

https://www.youtube.com/watch?v=jjbu_5eKZKE

اور

ورش سے ہے

https://www.youtube.com/watch?v=vaXUaw_rXbo

https://archive.org/details/mos7af_warch_maghribi_by_Morocco-Islamic.com

افریقہ کے ممالک میں ان کی قرات پر قرآن پڑھا جاتا ہے

نافع حدیث میں ضعیف ہیں اور امام احمد کہتے ہیں

قال أبو طالب: سألت أحمد، يعني ابن حنبل، عن نافع بن عبد الرحمن، قال: كان يؤخذ عنه القراءة، وليس في الحديث بشيء. «الجرح والتعديل» 8/ (2089)

ان سے قرات لی جائے اور حدیث میں کوئی چیز نہیں

أبو جعفر يزيد بن القعقاع المدني المتوفی ١٣٠ ھ کی قرات ابن عبّاس، ابو ہریرہ اور عیاش بن ابی ربیعہ رضی الله عنہما سے ہے

ان کی قرات کی سند عيسى بن وردان المدني، أبو الحارث الحذاء سے ہم تک آئی  ہے

https://www.youtube.com/watch?v=lM-Apn5gmco

اور

ابن جمّاز سے ہے

https://www.youtube.com/watch?v=1rNqqFmsVwM

أهل مكة کی قرات

عبد الله بن كثير الداري المكي المتوفي ١٢٠ هجرة کی قرات مجاهد و درباس مولى ابن عباس سے ہے

ان کی قرات البزي   کی سند سے ملی ہے

https://www.youtube.com/watch?v=jmaN5GM3M6U

ان کی قرات  قنبل  کی سند سے ملی ہے

https://www.youtube.com/watch?v=ubZXRYrfdw0

العلل میں امام احمد ان کے لئے کہتے ہیں

ذكرا أنهما عرضا على درباس مولى ابن عباس، وقرأ درباس على عبد الله بن عباس، وقرأ عبد الله بن عباس على أصحاب النبي – صلى الله عليه وسلم -. «العلل» (408) .

ان سب نے قرات کو درباس مولی ابن عباس پر پیش کیا اور درباس نے ابن عباس پر اور ابن عباس نے اصحاب رسول پر پیش کیا

اہل شام کی قرات

عبد الله بن عامر اليحصبي الشامي المتوفی ١١٨ ھ کی قرات کی سند  ابو الدرداء رضی الله عنہ تک جاتی ہے

یہ  قاضي دمشق في أيام الوليد بن عبد الملك، وإمام مسجد دمشق، ورئيس أهل المسجد تھے

ان کی قرات کی سند هشام بن عمار  اور

https://www.youtube.com/watch?v=oDHGFedU9ws

  ابن ذكوان سے ہے

https://www.youtube.com/watch?v=5YA7qBOYewo

اہل بصرہ کی قرات

أبو عمرو بن العلاء البصري المتوفی ١٦٨ ھ کی قرات کی سند سعید بن جبیر اور مجاہد تک جاتی ہے

ان کی سند  حفص بن عمر بن عبد العزيز  الدوري  سے ہے

https://www.youtube.com/watch?v=g4rhOizucAU

اور

 السوسي   سے ہے

https://www.youtube.com/watch?v=q_IGe7x_Wqo

مندرجہ ذیل لنک سے اس قرات پر مصحف دیکھا جا سکتا ہے

https://upload.wikimedia.org/wikisource/ar/8/8b/المصحف_برواية_السوسي_عن_أبي_عمرو.pdf

يعقوب بن اسحاق الحضرمي البصری المتوفی ٢٠٥ ھ کی قرات  عاصم بن ابی النجود سے ہے

ان کی قرات کی سند رويس سے ہے

https://www.youtube.com/watch?v=W2XubMdqPT4

اور

أبو الحسن الهذلي سے ہے

https://www.youtube.com/watch?v=7AUyY7Eor4A

اہل کوفہ کی قرات

عاصم بن أبي النَّجود الأسدي الكوفي المتوفی  ١٢٥ ھ  کی سند علی بن ابی طالب اور زر بن حبیش کی سند سے  ابن مسعود رضی الله عنہما تک جاتی ہے

ان کی قرات کی سند حفص بن سلیمان الاسدی سے ہے

https://www.youtube.com/watch?v=ve4K3TV-kU4

اور

شعبة سے ہے

https://www.youtube.com/watch?v=zB4Jr4FcLH8

ان کی قرات سب سے مشھور ہے

عاصم حدیث میں ضعیف ہیں لیکن قرات کے امام ہیں

حمزة  بن حبيب الزيات المتوفي ١٥٦ هجره کی قرات الاعمش سے ہے

ان کی قرات  خلف بن هشام المتوفي ٢٢٩ هجرة  کی سند سے ملی ہے

https://www.youtube.com/watch?v=mbDfcBJzy_U

أحمد العلل میں کہتے ہیں

 قال المروذي: قال أبو عبد الله: حمزة الزيات، ثقة في الحديث، ولكني أكره قراءته. «سؤالاته» (191

مروزی کہتے ہیں امام احمد نے کھا حمزہ حدیث میں ثقہ ہیں لیکن ان کی قرات سے کراہت کرتا ہوں

تہذیب التہذیب کے مطابق سلمة بن شبيب کہتے ہیں امام احمد ایسے قاری کے پیچھے نماز پڑھنے ہی میں کراہت کرتے

أبو الحسن علي بن حمزة الكسائي النحوي الكوفي المتوفی ١٨٩ ھ   کی سند صحابی رسول أبي حيوة شريح بن يزيد رضی الله عنہ تک جاتی ہے

ان کی قرات أبو الحارث الليث بن خالد البغدادي  سے ملی ہے

https://www.youtube.com/watch?v=2nWEPXNxoFM

اور

حفص بن عمر الدوري،

https://www.youtube.com/watch?v=g2tRx7Prom0

اہل بغداد کی قرات

خلف بن ہشام اصل میں المفضل الضبی الكوفي المتوفي ١٧٨ هجري کی قرات ہے

ان کی قرات اسحاق بن ابراہیم اور  ادریس بن عبد الکریم کی سند سے آئی ہے

خلف ،  حمزة  بن حبيب الزيات المتوفي  كي قرات كي راوي بھی ہیں

الغرض ان  قراتوں میں جو اختلاف ہے صوتی ہے معنوی نہیں ہے لیکن یہ تبدیلی سات حروف میں تنزیل کی طرف اشارہ دیتی ہے

——————————————————————————————————-

مختلف قرات پر قرآن یہاں سے پڑھ سکتے ہیں

http://www.nquran.com/index.php?group=othm_view&rewaya=24&sora_no=1

4 thoughts on “قرآن اور قرات عشرہ

  1. وجاہت

    صحابہ کرام وازواج مطہرات باقائدہ زبرزیرسے استدلال کرتے تھے

    صحیح بخاری

    حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ: أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرَأَيْتِ قَوْلَهُ: (حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِّبُوا) أَوْ كُذِبُوا؟ قَالَتْ: «بَلْ كَذَّبَهُمْ قَوْمُهُمْ» ، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَقَدِ اسْتَيْقَنُوا أَنَّ قَوْمَهُمْ كَذَّبُوهُمْ، وَمَا هُوَ بِالظَّنِّ، فَقَالَتْ: «يَا عُرَيَّةُ لَقَدِ اسْتَيْقَنُوا بِذَلِكَ» ، قُلْتُ: فَلَعَلَّهَا أَوْ كُذِبُوا، قَالَتْ: ” مَعَاذَ اللَّهِ، لَمْ تَكُنِ الرُّسُلُ تَظُنُّ ذَلِكَ بِرَبِّهَا، وَأَمَّا هَذِهِ الآيَةُ، قَالَتْ: هُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ، الَّذِينَ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَصَدَّقُوهُمْ، وَطَالَ عَلَيْهِمُ البَلاَءُ، وَاسْتَأْخَرَ عَنْهُمُ النَّصْرُ، حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَتْ مِمَّنْ كَذَّبَهُمْ مِنْ قَوْمِهِمْ، وَظَنُّوا أَنَّ أَتْبَاعَهُمْ كَذَّبُوهُمْ، جَاءَهُمْ نَصْرُ اللَّهِ

    یحیی بن بکیر لیث عقیل ابن شہاب عروہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے زوجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ بتائے (فرمان خداوند ی) جب رسول مایوس ہو گئے اور انہیں یہ گمان ہوا کہ انکی قوم انہیں جھٹلا دے گی میں کذبوا کے ذال پر تشدید ہے یا نہیں؟ یعنی کذبوا ہے یا تو انہوں نے فرمایا (کذبوا ہے) کیونکہ انکی قوم تکذیب کرتی تھی میں نے عرض کیا بخدا رسولوں کو تو اپنی قوم کی تکذیب کا یقین تھا (پھر ظنوا کیونکر صادق آئیگا) تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا اے عریہ (تصغیر عروہ) بیشک انہیں اس بات کا یقین تھا میں نے عرض کیا تو شاید یہ کذبوا ہے عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا معاذ اللہ انبیاء اللہ کے ساتھ ایسا گمان نہیں کر سکتے (کیونکہ اس طرح معنی یہ ہوں گے کہ انہیں یہ گمان ہوا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا یعنی معاذ اللہ خدا نے فتح کا وعدہ پورا نہیں کیا لیکن مندرجہ بالا آیت میں ان رسولوں کے وہ متبعین مراد ہیں جو اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے تھے اور پیغمبروں کی تصدیق کی تھی پھر ان کی آزمائش ذرا طویل ہوگئی اور مدد آنے میں تاخیر ہوئی حتیٰ کہ جب پیغمبر اپنی قوم سے جھٹلانے والوں کے ایمان سے مایوس ہو گئے اور انہیں یہ گمان ہونے لگا کہ ان کے متبعین بھی ان کی تکذیب کر دیں گے تو اللہ کی مدد آ گئی ۔

    http://www.gowister.com/hadith/bukhari/3321/

    http://islamicurdubooks.com/Sahih-Bukhari/Sahih-Bukhari-.php?hadith_number=3389

    اماں عائشہ رضی اللہ عنہا یہاں اعراب کی ہی بحث کر رہی ہیں

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      اس حدیث میں اعراب کی بحث ہو ہی نہیں رہی – اس میں تلفظ اور اصل لفظ کا ذکر ہے

      اہل زبان جب کلام کرتے ہیں تو ان میں جاہل سے جاہل تک صحیح تلفظ میں کلام کر سکتا ہے اس کو حروف تہجی یا اعراب سکھانے کی ضرورت نہیں ہوتی – اعراب تو عجمیوں کی وجہ سے لگائے گئے ہیں کہ صحیح تلفظ سے پڑھ سکیں ورنہ مطلب ہی بدلتا چلا جاتا

      Reply
  2. Haider Ali

    جزاک اللہ خیر۔۔ ایک مزید سوال ہے کہ کیا قرآن نبی صلی اللہ آلہ علیہ آلہ وسلم نے جمع نہیں کیا تھا؟ اور جو حديث ہے کہ یمامہ کی جنگ کے بعد حضرت ابوبکر کے دور میں جمع کیا گیا اس پر کی عیسائی اعتراض بھی کرتے ہیں اور حفاظت قرآن کو مشکوک بناتے ہیں۔۔ کیا یہ حديث صحيح ہے؟

    (3)Chapter: The collection of the Qur’an(3)باب جَمْعِ الْقُرْآنِ
    ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا ، ان سے عبید بن سباق نے اور ان سے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جنگ یمامہ میں ( صحابہ کی بہت بڑی تعداد کے ) شہید ہو جانے کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے بلا بھیجا ۔ اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ یمامہ کی جنگ میں بہت بڑی تعداد میں قرآن کے قاریوں کی شہادت ہو گئی ہے اور مجھے ڈر ہے کہ اسی طرح کفار کے ساتھ دوسری جنگوں میں بھی قراء قرآن بڑی تعداد میں قتل ہو جائیں گے اور یوں قرآن کے جاننے والوں کی بہت بڑی تعداد ختم ہو جائے گی ۔ اس لئے میرا خیال ہے کہ آپ قرآن مجید کو ( باقاعدہ کتابی شکل میں ) جمع کرنے کا حکم دے دیں ۔ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ ایک ایسا کام کس طرح کریں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اپنی زندگی میں ) نہیں کیا ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا یہ جواب دیا کہ اللہ کی قسم یہ تو ایک کارخیر ہے ۔ عمر رضی اللہ عنہ یہ بات مجھ سے باربار کہتے رہے ۔ آخر اللہ تعالیٰ نے اس مسئلہ میں میرا بھی سینہ کھول دیا اور اب میری بھی وہیں رائے ہو گئی جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تھی ۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا آپ ( زید رضی اللہ عنہ ) جوان اور عقلمند ہیں ، آپ کو معاملہ میں متہم بھی نہیں کیا جا سکتا اور آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی لکھتے بھی تھے ، اس لئے آپ قرآن مجید کو پوری تلاش اور محنت کے ساتھ ایک جگہ جمع کر دیں ۔ اللہ کی قسم ! اگر یہ لوگ مجھے کسی پہاڑ کو بھی اس کی جگہ سے دوسری جگہ ہٹانے کے لئے کہتے تو میرے لئے یہ کام اتنا مشکل نہیں تھا جتنا کہ ان کا یہ حکم کہ میں قرآن مجید کو جمع کر دوں ۔ میں نے اس پر کہا کہ آپ لوگ ایک ایسے کام کو کرنے کی ہمت کیسے کرتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نہیں کیا تھا ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا ، اللہ کی قسم ، یہ ایک عمل خیر ہے ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یہ جملہ برابر دہراتے رہے ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرا بھی ان کی اور عمر رضی اللہ عنہ کی طرح سینہ کھول دیا ۔ چنانچہ میں نے قرآن مجید ( جو مختلف چیزوں پر لکھا ہوا موجود تھا ) کی تلاش شروع کر دی اور قرآن مجید کو کھجور کی چھلی ہوئی شاخوں ، پتلے پتھروں سے ، ( جن پر قرآن مجید لکھا گیا تھا ) اور لوگوں کے سینوں کی مدد سے جمع کرنے لگا ۔ سورۃ التوبہ کی آخری آیتیں مجھے ابوخزیمہ انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس لکھی ہوئی ملیں ، یہ چند آیات مکتوب شکل میں ان کے سوا اور کسی کے پاس نہیں تھیں لقد جاء كم رسول من أنفسكم عزيز عليه ما عنتم‏ سے سورۃ براۃ ( توبہ ) کے خاتمہ تک ۔ جمع کے بعد قرآن مجید کے یہ صحیفے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس محفوظ تھے ۔ پھر ان کی وفات کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب تک وہ زندہ رہے اپنے ساتھ رکھا پھر وہ ام المؤمنین حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا کے پاس محفوظ رہے ۔
    حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ أَرْسَلَ إِلَىَّ أَبُو بَكْرٍ مَقْتَلَ أَهْلِ الْيَمَامَةِ فَإِذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عِنْدَهُ قَالَ أَبُو بَكْرٍ ـ رضى الله عنه ـ إِنَّ عُمَرَ أَتَانِي فَقَالَ إِنَّ الْقَتْلَ قَدِ اسْتَحَرَّ يَوْمَ الْيَمَامَةِ بِقُرَّاءِ الْقُرْآنِ وَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَسْتَحِرَّ الْقَتْلُ بِالْقُرَّاءِ بِالْمَوَاطِنِ، فَيَذْهَبَ كَثِيرٌ مِنَ الْقُرْآنِ وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَأْمُرَ بِجَمْعِ الْقُرْآنِ‏.‏ قُلْتُ لِعُمَرَ كَيْفَ تَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ عُمَرُ هَذَا وَاللَّهِ خَيْرٌ‏.‏ فَلَمْ يَزَلْ عُمَرُ يُرَاجِعُنِي حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِذَلِكَ، وَرَأَيْتُ فِي ذَلِكَ الَّذِي رَأَى عُمَرُ‏.‏ قَالَ زَيْدٌ قَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنَّكَ رَجُلٌ شَابٌّ عَاقِلٌ لاَ نَتَّهِمُكَ، وَقَدْ كُنْتَ تَكْتُبُ الْوَحْىَ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَتَتَبَّعِ الْقُرْآنَ فَاجْمَعْهُ فَوَاللَّهِ لَوْ كَلَّفُونِي نَقْلَ جَبَلٍ مِنَ الْجِبَالِ مَا كَانَ أَثْقَلَ عَلَىَّ مِمَّا أَمَرَنِي مِنْ جَمْعِ الْقُرْآنِ قُلْتُ كَيْفَ تَفْعَلُونَ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ فَلَمْ يَزَلْ أَبُو بَكْرٍ يُرَاجِعُنِي حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِلَّذِي شَرَحَ لَهُ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ فَتَتَبَّعْتُ الْقُرْآنَ أَجْمَعُهُ مِنَ الْعُسُبِ وَاللِّخَافِ وَصُدُورِ الرِّجَالِ حَتَّى وَجَدْتُ آخِرَ سُورَةِ التَّوْبَةِ مَعَ أَبِي خُزَيْمَةَ الأَنْصَارِيِّ لَمْ أَجِدْهَا مَعَ أَحَدٍ غَيْرَهُ ‏{‏لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ‏}‏ حَتَّى خَاتِمَةِ بَرَاءَةَ، فَكَانَتِ الصُّحُفُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ ثُمَّ عِنْدَ عُمَرَ حَيَاتَهُ ثُمَّ عِنْدَ حَفْصَةَ بِنْتِ عُمَرَ ـ رضى الله عنه ـ‏.‏
    Reference : Sahih al-Bukhari 4986
    In-book reference : Book 66, Hadith 8
    USC-MSA web (English) reference : Vol. 6, Book 61, Hadith 509
    (deprecated numbering scheme)
    Report Error | Share
    ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد عوفی نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ امیرالمؤمنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اس وقت عثمان ارمینیہ اور آذربیجان کی فتح کے سلسلے میں شام کے غازیوں کے لئے جنگ کی تیاریوں میں مصروف تھے ، تاکہ وہ اہل عراق کو ساتھ لے کر جنگ کریں ۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ قرآن مجید کی قرآت کے اختلاف کی وجہ سے بہت پریشان تھے ۔ آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ امیرالمؤمنین اس سے پہلے کہ یہ امت ( مسلمہ ) بھی یہودیوں اور نصرا نیوں کی طرح کتاب اللہ میں اختلاف کرنے لگے ، آپ اس کی خبر لیجئے ۔ چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حفصہ رضی اللہ عنہا کے یہاں کہلایا کہ صحیفے ( جنہیں زید رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حکم سے جمع کیا تھا اور جن پر مکمل قرآن مجید لکھا ہوا تھا “ ) ہمیں دے دیں تاکہ ہم انہیں مصحفوں میں ( کتابی شکل میں ) نقل کروا لیں ۔ پھر اصل ہم آپ کو لوٹا دیں گے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے وہ صحیفے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دئیے اور آپ نے زید بن ثابت ، عبداللہ بن زبیر ، سعد بن العاص ، عبدا لرحمن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ وہ ان صحیفوں کو مصحفوں میں نقل کر لیں ۔ حضر ت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس جماعت کے تین قریشی صحابیوں سے کہا کہ اگر آپ لوگوں کا قرآن مجید کے کسی لفظ کے سلسلے میں حضرت زید رضی اللہ عنہ سے اختلاف ہو تو اسے قریش ہی کی زبان کے مطابق لکھ لیں کیونکہ قرآن مجید بھی قریش ہی کی زبان میں نازل ہوا تھا ۔ چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور جب تمام صحیفے مختلف نسخوں میں نقل کر لئے گئے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان صحیفوں کو واپس لوٹا دیا اور اپنی سلطنت کے ہر علاقہ میں نقل شدہ مصحف کا ایک ایک نسخہ بھیجوا دیا اور حکم دیا کے اس کے سوا کوئی چیز اگر قرآن کی طرف منسوب کی جاتی ہے خواہ وہ کسی صحیفہ یا مصحف میں ہو تو اسے جلا دیا جائے ۔
    حَدَّثَنَا مُوسَى، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، حَدَّثَهُ أَنَّ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ قَدِمَ عَلَى عُثْمَانَ وَكَانَ يُغَازِي أَهْلَ الشَّأْمِ فِي فَتْحِ إِرْمِينِيَةَ وَأَذْرَبِيجَانَ مَعَ أَهْلِ الْعِرَاقِ فَأَفْزَعَ حُذَيْفَةَ اخْتِلاَفُهُمْ فِي الْقِرَاءَةِ فَقَالَ حُذَيْفَةُ لِعُثْمَانَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَدْرِكْ هَذِهِ الأُمَّةَ قَبْلَ أَنْ يَخْتَلِفُوا فِي الْكِتَابِ اخْتِلاَفَ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى فَأَرْسَلَ عُثْمَانُ إِلَى حَفْصَةَ أَنْ أَرْسِلِي إِلَيْنَا بِالصُّحُفِ نَنْسَخُهَا فِي الْمَصَاحِفِ ثُمَّ نَرُدُّهَا إِلَيْكِ فَأَرْسَلَتْ بِهَا حَفْصَةُ إِلَى عُثْمَانَ فَأَمَرَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ وَسَعِيدَ بْنَ الْعَاصِ وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ فَنَسَخُوهَا فِي الْمَصَاحِفِ وَقَالَ عُثْمَانُ لِلرَّهْطِ الْقُرَشِيِّينَ الثَّلاَثَةِ إِذَا اخْتَلَفْتُمْ أَنْتُمْ وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ فِي شَىْءٍ مِنَ الْقُرْآنِ فَاكْتُبُوهُ بِلِسَانِ قُرَيْشٍ فَإِنَّمَا نَزَلَ بِلِسَانِهِمْ فَفَعَلُوا حَتَّى إِذَا نَسَخُوا الصُّحُفَ فِي الْمَصَاحِفِ رَدَّ عُثْمَانُ الصُّحُفَ إِلَى حَفْصَةَ وَأَرْسَلَ إِلَى كُلِّ أُفُقٍ بِمُصْحَفٍ مِمَّا نَسَخُوا وَأَمَرَ بِمَا سِوَاهُ مِنَ الْقُرْآنِ فِي كُلِّ صَحِيفَةٍ أَوْ مُصْحَفٍ أَنْ يُحْرَقَ‏.‏
    Reference : Sahih al-Bukhari 4987
    In-book reference : Book 66, Hadith 9
    USC-MSA web (English) reference : Vol. 6, Book 61, Hadith 510
    (deprecated numbering scheme)

    ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے خارجہ بن زید بن ثابت نے خبر دی ، انہوں نے حضرت زید بن ثابت سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ جب ہم ( عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ) مصحف کی صورت میں قرآن مجید کو نقل کر رہے تھے ، تو مجھے سورۃ الاحزاب کی ایک آیت نہیں ملی ، حالانکہ میں اس آیت کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کرتا تھا اور آپ اس کی تلاوت کیا کرتے تھے ، پھر ہم نے اسے تلاش کیا تو وہ خزیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس ملی ۔ وہ آیت یہ تھی من المؤمنین رجال صدقوا ما عاھدوا اللہ علیہ چنانچہ ہم نے اس آیت کو سورۃ الاحزاب میں لگا دیا ۔
    قَالَ ابْنُ شِهَابٍ وَأَخْبَرَنِي خَارِجَةُ بْنُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، سَمِعَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ، قَالَ فَقَدْتُ آيَةً مِنَ الأَحْزَابِ حِينَ نَسَخْنَا الْمُصْحَفَ قَدْ كُنْتُ أَسْمَعُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقْرَأُ بِهَا فَالْتَمَسْنَاهَا فَوَجَدْنَاهَا مَعَ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ الأَنْصَارِيِّ ‏{‏مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ‏}‏ فَأَلْحَقْنَاهَا فِي سُورَتِهَا فِي الْمُصْحَفِ‏.‏
    Reference : Sahih al-Bukhari 4988
    In-book reference : Book 66, Hadith 10
    USC-MSA web (English) reference : Vol. 6, Book 61, Hadith 510
    (deprecated numbering scheme)

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      یہ روایات صحیح ہیں – قرآن دور نبوی میں بعض اصحاب رسول نے جمع کیا تھا
      نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پر نازل ہوا تھا ان کو تمام یاد تھا اور اس کی ترتیب بھی من جانب اللہ ان کو بتا دی گئی تھی
      بعض اصحاب رسول نے جمع کیا تھا جن میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ بھی ہیں جو دور عمر میں کوفہ منتقل ہوئے

      نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چند ماہ پہلے تک نزول قرآن جاری تھا حتی کہ سورہ المائدہ آخر میں نازل ہوئی
      اس کے چند ماہ بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور مسیلمہ کذاب نے دور نبوی میں ہی نبی ہونے کا دعوی کر دیا تھا

      وفات النبی کے بعد مسیلمہ کو مارنے لشکر بھیجا اس میں جنگ یمامہ ہوئی أور إس مين قرآن كي حافظ شہید ہوئے
      اس کا خیال زور پکڑ گیا کہ قرآن کو جمع کیا جائے لہذا اس کو لکھا گیا اور زید بن ثابت انصاری صحابی نے اس کو جمع کیا اور ان کے پاس ہی اس کا مسودہ رہا
      پھر عثمان رضی اللہ عنہ نے اس نسخہ کی نقول کروائیں ان میں آیات پر دو گواہ طلب کیے کہ کسی نے ان کو سنا کہ نبی نے ان کو پڑھا ہو
      پھر تمام بلاد میں اس کو بھیجا گیا

      ————-
      اس جمع القرآن پر جو اعتراض ہوئے ہیں ان کو اس کتاب میں درج کیا گیا ہے
      https://www.islamic-belief.net/%D8%A7%D9%85%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D9%84%D9%85%D9%88%D9%85%D9%86%DB%8C%D9%86-%D8%B9%D8%AB%D9%85%D8%A7%D9%86-%D8%B1%D8%B6%DB%8C-%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81-%D8%B9%D9%86%DB%81/

      ——
      جمع القرآن عجمیوں کا مسئلہ ہے – اصحاب رسول کا نہیں تھا
      ان کو قرآن یاد تھا اور عرب ہونے کی وجہ سے اس حفظ کرنا بھی ان پرآسان تھا
      جب عجم والے مسلمان ہونے لگے تو یہ مسئلہ بڑھا کہ ان کا تلفظ عربوں سے الگ تھا
      یہ مسئلہ دور عثمان میں ہوا جہاں ارمینا وغیرہ کے لوگوں کا تلفظ عربوں سے بہت الگ تھا
      اور امکان تھا آہستہ آہستہ عرب و عجم میں متن بدل سکتا کیونکہ ایک عجمی غلط قرات کرے گا دوسرا عجمی سن کر غلط ہی یاد کر لے گا
      لہذا اس کا لکھا ہوا دیکھ کر پڑھنا ضروری ہوا

      فارسیوں کا تلفظ عربی کے قریب تھا اور فارس والوں کی عرب میں بہت تجارت تھی بلکہ دور نبوی سے قبل وہ یمن میں قبضہ بھی کیے ہوئے تھے قیصرو کسری کی جنگوں کی وجہ سے پھر رومیوں و حبشیوں کا قبضہ ہوا
      لہذا قرآن پڑھنے میں فارسی و حبشی کو اتنا مسئلہ نہیں تھا (یہ عربی جاننے والے لوگ تھے ) جتنا رومی عراق سے اوپر ازربیجان و ارمینیا والوں کو تھا

      عربی زبان ابراہیم علیہ السلام سے بھی قدیم ہے اور بعثت نبوی سے قبل عراق و عرب و شام و مصر میں یہی بولی جاتی تھی

      Reply

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *