دم اور تعویذ

ایک صاحب کہتے ہیں

پہلی بات تو یہ ہے کہ دنیا کے بے شمار علوم ایسے ہیں جو انسان کے نفع کے لئے بنائے گئے ہیں ۔ انسان ان سے حسب ضرورت استفادہ کرسکتا ہے۔ دین اس وقت ان علوم میں مداخلت کرتا ہے جب ان میں کوئی اخلاقی یا شرعی قباحت پائی جائے۔ جیسے میڈیا سائنسز ایک نیوٹرل علم ہے جس کے پڑھنے یا نہ پڑھنے پر مذہب کا کوئی مقدمہ نہیں۔ اگر یہ علم انسانوں کو نقصان پہنچانے میں استعمال ہو اور اس سے محض فحاشی و عریانیت اور مادہ پرستی ہی کو فروغ مل رہا ہو تو مذہب مداخلت کرکے اس کے استعمال پر قدغن لگاسکتا اور اسے جزوی طور پر ممنوع کرسکتا ہے۔
میرے فہم کے مطابق کچھ ایسا ہی معاملہ نفسی علوم کا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یہ علم سحر کی حیثیت سےیہود اور کچھ مشرکین کے پاس تھا ۔ چونکہ کسی پیغمبر کی بعثت کو ایک طویل عرصہ گذرچکا تھا اس لئے ان علوم پر بھی شیاطین کا قبضہ تھا ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اصلاح معاشرہ اور تطہیر کا کام کیا تو اس علم پر بھی خاص طور پر توجہ دی۔ اس زمانے میں تعویذ ، گنڈے اور دیگر چیزیں مشرکانہ نجاست رکھتی تھیں اس لئے انہیں ممنوع اور حرام قرار دے دیا گیا۔ اصل علت یا وجہ جادو یا شرک تھا تعویذ کا استعمال نہ تھا۔
اس کی بہترین مثال تصویر ہے۔ تصویریں اس زمانے میں بنائی ہی شرک کی نیت سے جاتی تھیں اس لئے جاندار کی تصویر بنانا ممنوع کردیا گیا۔ لیکن بعد میں جب تصویروں میں علت نہیں رہی تو علما نے اسے جائز قرار دے دیا۔ یہی معاملہ تعویذ گنڈوں کےساتھ بھی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ تعویذ وغیرہ کا براہ راست دین سے کوئی تعلق نہیں اور یہ نفسی علوم کا ایک طریقہ اور ٹول ہے۔ چنانچہ اگر کوئی تعویذ شرکیہ نجاستوں سے پاک ہے تو اس پر وہی حکم لگے گا جو دم درود یا دیگر روحانی علوم پر لگتا ہے۔

جواب

ہمارے علماء کے نزدیک وہ کیا ذرائع ہیں جن سے وہ اہل کتاب یا یہود کے بارے میں معلومات لیتے ہیں اگر آپ تحقیق کریں تو معلوم ہو گا کہ کتب حدیث اور ابن اسحاق کی کتب یا واقدی کی کتب ہیں جو اسلامی نقطہ نگاہ سے لکھی گئی ہیں اور بسا اوقات ان کتابوں کو پڑھتے ہوئے مفروضے بھی قائم کر لئے جاتے ہیں مثلا یہ کہ یہود عزیر کو الله کا بیٹا کہتے تھے تو یقینا عزیر الله کا کوئی نبی ہو گا اور پھر عزیر علیہ السلام لکھنا بھی شروع کر دیا اور اس کے نام پر اپنے بچوں کے نام بھی رکھنے شروع کر دے – اس کے بر عکس ابی داود کی صحیح حدیث میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ عزیر نبی تھا یا نہیں – اسی طرح جب تعویذ کی بات ہوتی ہے تو اس کو جادو شرک سے ملا دیتے ہیں جبکہ اس پر کوئی دلیل نہیں دوم اہل کتاب یہود کو مسلسل شرک کرنے والا کہتے ہیں – یہ علماء کی آراء اب اس قدر جڑ پکڑ چکی ہیں کہ ان کو ہی حقیقت سمجھا جاتا ہے اور آزادنہ تحقیق مفقود ہے-
یہود کو جاننے کے لئے علماء میں یہود کی کتب پڑھنے کا کوئی رجحان نہیں اور چونکہ ان کے بارے میں معلومات ناقص ہیں لہذا مفروضوں پر عمارت قائم کر لیتے ہیں –تعویذ کے سسلے میں تلمود کو دیکھا جائے جو رسول الله کے دور میں اور ان کے بعد تک مرتب ہوئی ہے اور اس میں علمائے یہود کے فتوی جمع ہیں اس کو آپ فتاوی علمائے یہود کہہ سکتے ہیں – تلمود ظاہر ہے ایک وسیع کام ہے اور اپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ اس میں تعویز پر بھی بحث ہے
یہود کا تعویذ کلام الہی پر مبنی ہوتا ہے جو ہو سکتا ہے شرک سے پاک ہو اور تلمود میں ایسے تعویذ بتائے گئے ہیں جن میں توریت کی آیات ہیں اور شرک سے پاک ہیں – بعض یہودی علم اعداد بھی استعمال کرتے ہیں جو جادو کی ایک قسم ہے جو بابل سے آئی ہے لہذا یہ ممکن ہے کہ شرکیہ تعویذ بھی ہوں – الغرض دونوں طرح کے تعویذ یہودی استعمال کرتے تھے- رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے تعویذ کو مطلقا منع کیا اس میں کلام الہی والے کا استثنا نہیں ہے
اس پر بات کو گھمایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ جس طرح شرکیہ دم منع ہیں اور بعد میں دم کی اجازت دی گئی اسی طرح غیر شرکیہ تعویذ کر سکتے ہیں- لیکن دم دعا ہے اور تعویذ ایک عمل ہے دونوں میں فرق ہے جس میں اس کو لٹکایا جاتا ہے- کلام الہی صرف جہنم کی اگ سے بچانے کے لئے اترا ہے کسی دنیاوی ضرر سے بچانے کے لئے نہیں- ورنہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی انگلی زخمی نہ ہوئی دانت پر احد کے دن ضرب نہ لگتی-

جواب نہیں سوره الفاتحہ دم نہیں

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سوره الفاتحہ سے دم نہیں کیا- آخری وقت تک آپ صلی الله علیہ وسلم معوذتین  سے دم کرتے رہے اور یہی عائشہ رضی الله عنہا نے مرض وفات میں کیا

ایک روایت میں ہے کہ صحابہ ایک سفر میں تھے اور انہوں نے ایک مقام پر پڑاؤ کیا اور قبیلہ والوں سے کھانے پینے کو مانگا جس کا انہوں نے انکار کر دیا اتفاق سے ان کے سردار کو بچھو نے کاٹا اور وہ علاج یا ٹوٹکا پوچھنے صحابہ کے پاس بھی آئے جس پر ایک صحابی نے  (اپنی طرف سے) سوره الفاتحہ سے دم کر دیا اور وہ سردار ٹھیک کو گیا واپس آ کر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو سب بتایا گیا تو آپ نے کہا تم کو کیسے پتا کہ سوره الفاتحہ دم ہے؟

یعنی یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا حکم نہ تھا – مزید یہ کہ نہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے، نہ صحابہ نے، سوره الفاتحہ سے  بعد میں دم  کیا

خارجہ بن صلت تمیمی رضی اللہ عنہ کے چچا سے مروی ہے : وہ نبی ﷺ کے پاس آئے اور اسلام قبول کیا ۔ پھر

آپ ﷺ کے پاس سے واپس لوٹ گئے ۔ ان کا گذر ایک قوم کے پاس سے ہوا جن کے پاس ایک آدمی جنوں کی وجہ سے لوہے سے بندھا تھا۔ ان لوگوں نے کہا کہ بتلایا گیا ہے کہ تمہارے ساتھی (نبی ﷺ) نے بھلائی لایاہے ۔ تو کیا آپ کے پاس کچھ ہے جس کے ذریعہ آپ اس کا علاج کرسکیں ؟ تو میں نے اس پرسورہ فاتحہ کے ذریعہ دم کردیا ۔ پس ٹھیک ہوگیاتو انہوں نے مجھے ایک سو بکریاں دی ۔ میں نبی ﷺ کے پاس آیا اور آپ کو خبر دی ۔ پس آپ نے کہا: کیا یہی تھا۔ مسدد نے کہا دوسری جگہ ہے : کیا اس کے علاوہ بھی پڑھا تھا؟ تو میں نے کہا : نہیں ، آپ نے فرمایا: اسے لے لو۔ میری عمر کی قسم ! جس نے باطل دم کے ذریعہ کھایا(اس کا بوجھ اور گناہ اس پر ہے)، تو نے تو صحیح دم کے ذریعہ کھایا(تم پر کوئی گناہ نہیں)۔

جواب

اس روایت میں خارجہ بن صلت کے چچا کا صحابی ہونا ثابت نہیں کیونکہ یہ واحد روایت ہے جس سے اس کے بارے میں پتا چلا کہ خارجہ کا چچا صحابی تھا علم حدیث کا اصول ہے کہ صحابی مجھول الاسم نہیں ہونا چاہئے اور معروف ہونا چاہیے
بہت سے لوگوں کی روایات اس بنیاد پر مرسل قرار دی گئیں ہیں کہ انہوں نے رسول الله کو دیکھا کچھ سنا نہیں

ایک اور مسئلہ اس میں یہ ہے کہ مسند احمد میں اس کی سند
خَارِجَةَ بْنِ الصَّلْتِ، قَالَ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ: عَنْ عَمِّهِ
کے مطابق خارجہ بن صلت نے ایک مجہول الحال یحیی التمیمی سے اس نے ان کے چچا سے سنا تھا

لہذا ابو داود کی سند منقطع بھی ہے

سوم آپ نے خارجہ کو رضی الله عنہ لکھا ہے یعنی آپ نے اس کو صحابی کر دیا
ابو نعیم معرفہ الصحابہ میں کہتے ہیں
خَارِجَةُ بْنُ الصَّلْتِ عِدَادُهُ فِي الْكُوفِيِّينَ زَعَمَ بَعْضُ الْمُتَأَخِّرِينَ أَنَّهُ أَدْرَكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَرَهُ , حَدِيثُهُ عِنْدَ الشَّعْبِيِّ
خارجہ بن صلت کا شمار کوفیوں میں ہوتا ہے بعض متاخرین کا دعوی ہے کہ اس نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو پایا لیکن دیکھا نہیں اور اس کی حدیث شعبی سے ہے

یعنی یہ صحابی کب سے ہو گئے بہت سے بہت تابعی ہیں

لہذا یہ ضعیف روایت ہے

جواب

صحیح بخاری کی حدیث ہے

عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ كَانَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم نَاقَةٌ‏.‏ قَالَ وَحَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا الْفَزَارِيُّ وَأَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ عَنْ أَنَسٍ قَالَ كَانَتْ نَاقَةٌ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم تُسَمَّى الْعَضْبَاءَ، وَكَانَتْ لاَ تُسْبَقُ، فَجَاءَ أَعْرَابِيٌّ عَلَى قَعُودٍ لَهُ فَسَبَقَهَا، فَاشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ وَقَالُوا سُبِقَتِ الْعَضْبَاءُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ إِنَّ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ لاَ يَرْفَعَ شَيْئًا مِنَ الدُّنْيَا إِلاَّ وَضَعَهُ

انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اونٹنی تھی جس کا نام ” عضباء “ تھا ( کوئی جانور دوڑ میں ) اس سے آگے نہیں بڑھ پاتا تھا ۔ پھر ایک اعرابی اپنے اونٹ پر سوار ہو کر آیا اور وہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی سے آگے بڑھ گیا ۔ مسلمانوں پر یہ معاملہ بڑا شاق گزرا اور کہنے لگے کہ افسوس عضباء پیچھے رہ گئی ۔ رسول الله  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر یہ لازم کر لیا ہے کہ جب دنیا میں وہ کسی چیز کو بڑھاتا ہے تو اسے وہ گھٹاتا بھی ہے ۔

آپ دیکھیں اس میں نظر لگنے کا عمل ہے- صحابہ کی نظر، رسول الله کی اونٹنی، کو لگ گئی کہ اتنی بہتر تھی لیکن وہ رفتار میں  کم پڑ گئی- یہی عرف عام میں نظر لگنا ہے کہ ہر وہ چیز جس پر انسانوں کا تصور ہو جائے کہ بہت خوبی والی ہے اس میں عیب آ جاتا ہے کیوں کہ  کسی بھی عیب سے پاک صرف الله کی ذات ہے

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا
نظر بد حق ہے
(بخاری/5740, مسلم/2188)

جواب

یہ بدعت ہے

لیکن بعض علماء ایسا کرتے تھے مثلا امام ابن تیمیہ کتاب إيضاح الدلالة في عموم الرسالة میں لکھتے ہیں

ibn-temiah-zafran

قال عبد الله بن أحمد بن حنبل – قال أبي : حدثنا أسود بن عامر بإسناده بمعناه وقال يكتب في إناء نظيف

فيسقى … قال عبد الله رأيت أبي يكتب للمرأة في حام أو شئ نظيف

عبد الله بن احمد کہتے ہیں میرے باپ نے کہا ہم سے اسود نے روایت کیا….. اور کہا اور وہ صاف برتن پر لکھتے اور پھر پیتے عبد الله کہتے ہیں میرے باپ بارک چیز یا صاف چیز پر لکھتے

ابن تیمیہ اس کی تائید میں کہتے ہیں

يجوز أن يكتب للمصاب وغيره شئ من كتاب الله وذكره بالمداد المباح – ويسقى

اور یہ جائز ہے کہ مصیبت زدہ کے لئے کتاب الله اور ذکر کو مباح روشنائی سے لکھے اور پی لے

اس کو ابن قیم نے بھی کتاب  زاد المعاد میں جائز کہا ہے

بن باز فتوی میں کہتے ہیں

http://aliftaweb.org/Urdo/Pages/PermanentCommittee.aspx?languagename=ur&View=Page&PageID=130&PageNo=1&BookID=3

اور جہاں تک کاغذ یا تختی یا پلیٹ پر قرآنی آیات یا مکمل سورت لکھنے، اور پھر اس کو زعفران یا پانی سے دھو کر برکت، یا علم سے استفادہ یا آمدنی کے وسائل کی فراوانی، یا صحت وعافیت وغیرہ کی امید اس دھلے پانی کو پینے کا سوال ہے، تو اس بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ نے اس طرح اپنے لئے یا کسی اور کے لئے کیا ہو، اور نہ آپ نے اپنے صحابہ میں کسی کو اس طرح کرنے کی اجازت دی ہے، اور نہ آپ نے اپنی امت کو اس میں چھوٹ دی ہے، جب کہ اس طرح کئے جانے کے بہت سے اسباب موجود تھے، نیز ہمارے علم کے مطابق صحابہ رضی الله عنهم سے منقول صحیح اقوال میں کسی سے یہ ثابت ہے کہ انہوں نے اس طرح کیا ہے اور کسی کو اس کی چھوٹ دی ہے، اس مذکورہ تفصیل کی روشنی میں اس کام کو چھوڑنا ہی بہتر ہے،

ہمارے نزدیک بن باز کی بات درست ہے کہ یہ بدعت ہے اور اس میں امام احمد اور ابن تیمیہ مبتلا رہے ہیں

جواب

حدیث میں آتا ہے کہ

«نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم  أَنْ یُّتَنَفَّسَ فِي الْإِنَاء أَوْ یُنْفَخَ فِیْهِ  “صحيح الجامع ” (6820

نبی صلی الله علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ پانی میں سانس لیا جائے یا اس میں پھونک ماری جائے۔

کہا جاتا ہے کہ عام پینے والے پانی میں سانس لینا یا اس میں پھونک مارنے کی ممانعت ہے لیکن جس پانی پر دم کرنا ہو وہ مستثنی ہے ، یعنی دم کرتے وقت پانی پر پھونک مار سکتے ہیں۔ لیکن اس حدیث میں اس میں کوئی تخصیص بیان  نہیں ہوئی لہذا حکم  ممانعت عام ہے – پانی پر پھونکنا یا عرف عام میں دم کرنا منع ہے

بعض کا اصرار ہے کہ جائز ہے ان کی دلیل ہے کہ  سنن ابی داود  باب ما جاء في الرقى  کی حدیث ہے

حدَّثنا أحمدُ بنُ صالح وابنُ السرحِ -قال أحمدُ: حدَّثنا ابن وهب، وقال ابن السرح: أخبرنا ابنُ وهب- حدَّثنا داودُ بنُ عبدِ الرحمن، عن عمرو ابنِ يحيى، عن يوسفَ بنِ محمد -وقال ابن صالح: محمدُ بنُ يوسف بن ثابت ابنِ قيس بنِ شماس- عن أبيهِ عن جَدِّه، عن رسولِ الله – صلَّى الله عليه وسلم – أنه دخلَ على ثابتِ بنِ قيس -قال أحمدُ: وهو مريض- فقالَ: “اكْشِفِ البَاْسَ ربَّ النَّاسِ، عن ثابت بنِ قيس بنِ شمَّاس” ثم أخذ تراباً من بُطحانَ فجعله في قَدَحٍ، ثم نَفَثَ عليه بماءِ، ثم صبَّه عليهِ

احمد بن صالح نے اور ابن السرح نے روایت کیا کہا احمد نے کہا حدثنا ابن وھب اور ابن   السرح نے کہا اخبرنا ابن وھب- داود بن عبد الرحمان نے عمرو بن یحیی سے روایت کیا انہوں نے یوسف بن محمد سے روایت  کیا ، اور ابن صالح نے کہا انہوں نے محمد بن یوسف بن قیس بن شماس سے انہوں نے  اپنے باپ سے ، اپنے دادا سے روایت کیا  کہ نبی صلی الله علیہ وسلم، ثابتِ بنِ قيس کے پاس داخل ہوئے-  احمد کہتے ہیں: وہ مریض تھے، پس اپ صلی الله علیہ وسلم نے کہا: اے انسانوں کے رب ! تکلیف کو دور کر، ثابت بن قیس پر سے،  پھر بُطحانَ کی مٹی لی اس کو ایک  قدح میں ڈالا، پھر اس میں پانی پر پھونکا ، پھر اس کو ان کے سر پر انڈیلا

اس روایت کو پانی پر دم کرنے کی دلیل پر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ اس کی سند ضعیف ہے اس روایت  پر تعلیق میں شعَيب الأرنؤوط اور محَمَّد كامِل قره بللي  لکھتے ہیں

إسناده ضعيف لجهالة يوسف بن محمد بن ثابت بن قيس بن شماس

اس کی اسناد يوسف بن محمد بن ثابت بن قيس بن شماس کے مجھول ہونے کی وجہ سے ضعیف ہیں

البانی اس کو ضعیف الاسناد کہتے ہیں اور ابن حجر فتح الباری میں اس روایت کو حسن کہتے ہیں جو ان کی ناقص تحقیق ہے

ابو داود سنن  میں کہتے ہیں  قَالَ أَبُو دَاوُدَ: «قَالَ ابْنُ السَّرْحِ يُوسُفُ بْنُ مُحَمَّدٍ وَهُوَ الصَّوَابُ

 ابن السرح نے یوسف  بن محمّد  کہا ہے جو صواب ہے

یہ واحد روایت ہے جس میں پانی پر دم کا ذکر ہے لیکن جب راوی ہی مجھول ہے تو دلیل نہیں بن سکتی

وہابی مفتی  عبدالعزیز بن باز  اسی حدیث کی بنیاد پر کہتے  ہیں

لا حرج في الرقية بالماء ثم يشرب منه المريض أو يغتسل به، كل هذا لا بأس به، الرقى تكون على المريض بالنفث عليه، وتكون في ماء يشربه المريض أو يتروَّش به، كل هذا لا بأس به، فقد ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه رقى ثابت بن قيس بن شماس في ماء ثم صبه عليه، فإذا رقى الإنسان أخاه في ماء ثم شرب منه أو صبه عليه يرجى فيه العافية والشفاء، وإذا قرأ على نفسه على العضو المريض في يده أو رجله أو صدره ونفث عليه ودعا له بالشفاء هذا كله حسن.
http://www.binbaz.org.sa/noor/8858

پانی سے دم میں حرج نہیں ہے جب یہ پانی مریض کو  پلایا جائے یا اس پانی سے غسل دیا جائے اس سب میں کوئی برائی نہیں ہے –  دم مریض پر پھونکنے سے بھی ہوتا ہے اور پانی پر بھی جس کو مریض کو پلایا جاتا ہے یا اس پر بہایا جاتا ہے اس سب میں کوئی برائی نہیں ہے – پس یہ ثابت ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے آپ (صلی الله علیہ وسلم)  نے قیس بن ثابت (رضی الله عنہ ) پر پانی سے دم کیا   پھر ان پر انڈیلا –  پس اگر انسان پر اس کے بھائی  پینے کے پانی پر دم کریں یا  پانی پر دم کریں جس کو انڈیلا جائے تو اس میں عافیت و شفا کی امید ہے اور اگروہ خود پڑھیں  یا مریض کے عضو پر  جیسے ہاتھ ، پیر یا سینہ اور اس پر پھونک دیں  اور شفا کی دعا کریں تو یہ سب اچھا ہے

راقم کہتا ہے ابن باز نے ضعیف حدیث سے دلیل لی ہے

بخاری نے تاریخ الکبیر میں اس روایت کو نقل کیا ہے اور اس میں پانی پر دم کرنے کے الفاظ نہیں ہیں

ایک دوسری روایت بھی پانی پر دم کرنے کے لئے پیش کی جاتی ہے جس کو البانی صحیحہ میں نقل کرتے ہیں

علی ؓسے مروی ہے انہوں نے کہاکہ نبی صلی الله علیہ وسلم  نماز ادا فرمارہے تھے ایک بچھو نے آپکو ڈنک لگا دیا‘ آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بچھو پر لعنت کرے جو نہ نبی کو نہ کسی دوسرے کو چھوڑتا ہے‘ پھر آپ نے پانی سے بھرا ہوا ایک برتن طلب فرمایا جس میں نمک آمیز کیا ہوا تھا اور آپ اس ڈنک زدہ جگہ کو نمک آمیز پانی میں برابر ڈبوتے رہے اور قل ھو اللہ احد اور معوذ تین پڑھ کر اس پر دم کرتے رہے یہاں تک کہ بالکل سکون ہوگیا

معجم الصغير الطبرانی میں اس کی سند ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ الْأَشْنَانِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ يَعْقُوبَ الْأَسَدِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ طَرِيفٍ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْروٍ، عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ، عَنْ عَلِيٍّ

اول اس کی سند میں المنھال بن عمرو ہے جو امام  شعبہ کے نزدیک متروک  ہے- بعض کے نزدیک ثقہ ہے لیکن المنھال،  محمّد بن الحنفیہ سے کتاب الدعا از الطبرانی میں ایک روایت  نقل کرتا ہے

 حَدَّثَنَا الْمِقْدَامُ بْنُ دَاوُدَ الْمِصْرِيُّ، ثنا أَسَدُ بْنُ مُوسَى، ثنا فُضَيْلُ بْنُ مَرْزُوقٍ، عَنْ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُوعَكُ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَلَا أُعَلِّمُكَ رُقْيَةً رَقَانِي بِهَا جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ» قَالَ: بَلَى، يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَعَلَّمَهُ بِسْمِ اللَّهِ أَرْقِيكَ، وَاللَّهُ يَشْفِيكَ مِنْ كُلِّ دَاءٍ يُؤْذِيكَ، خُذْهَا فَلْتُهْنِيكَ “

منہال بن عمرو، محمّد بن الحنفیہ سے  روایت کرتا ہے وہ عمار رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم ان کے پاس آئے اور وہ بیمار تھے پس ان سے رسول الله نے کہا کہ میں تم کو ایک دم سکھاؤں جس سے جبریل نے مجھے دم کیا کہا ضرور یا رسول الله پس آپ صلی الله علیہ وسلم نے سکھایا الله کے نام سے تم کو دم کرتا ہوں اور الله ہی تم کو ہر ایذا سے شفا دیتا  ہے اس کویاد کر لو اور اپنے اوپر جھاڑو

نبی صلی الله علیہ وسلم تو دم  دعا سے کر رہے ہیں اور اس میں پانی کا ذکر بھی نہیں

دوم مُطَرِّفُ بنُ طَرِيْفٍ الكُوْفِيُّ المتوفی ١٤١ ھ  ہے جو مدلس ہے اور عن سے روایت کرتا ہے

اس میں بھی پانی پر براہ راست دم نہیں کیا گیا بلکہ دم ڈنک کی جگہ کو کیا جا رہا ہے

پانی پر دم کی دلیل میں یہ احادیث بھی پیش کی جاتی ہیں

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے بستر پر تشریف لے جاتے تو اپنے دونوں ہاتھوں پر پھونکتے اور معوذات پڑھ کر اپنے جسم پر دونوں ہاتھوں کو مل لیتے۔ صحیح بخاری حدیث نمبر 1269

رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ دم کرنے میں کوئی حرج نہیں جبتک اس میں کوئی شرک نہ ہو ۔ صحیح مسلم : ۲۲۰

حالانکہ یہ بھی ہاتھوں سے دم کرنا ہے نہ کہ کسی پینے والی چیز پر دم کرنا لہذا پانی پر دم کرنے کی دلیل نہیں ہے

الغرض پانی پر دم کرنا حدیث سے  ثابت نہیں لہذا ایک بدعت ہے جو نصاری کے ہاں رائج ہے جس کو ہولی واٹر کہا جاتا ہے-  سن ٤٠٠ ب م میں اس کی نصرانی کتب میں حوالہ ملتا ہے

http://en.wikipedia.org/wiki/Holy_water

گویا یہ عمل نصاری کے ہاں نبی صلی الله علیہ وسلم سے پہلے سے معروف و مشھور چلا آ رہا ہے

عجب تماشہ ہے کہ دیوبندی اور بریلوی پانی پر دم کرنے کی اجرت لیتے ہیں اور اہل حدیث اس کو رد کرتے ہیں لیکن یہ تضاد ہے کیونکہ دینی امور پر اجرت کی دلیل ایک دم والے واقعہ سے ہی لی جاتی ہے

امام بخاری الصحيح  میں ابُ الشَّرْطِ فِي الرُّقْيَةِ بِقَطِيعٍ مِنَ الغَنَمِ روایت کرتے ہیں کہ

ابن عباس اور ابو سعید الخدری رضی الله تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ  نبی الله علیہ وسلم کے کچھ اصحاب سفر میں تھے – دوران سفر انہوں نے اک قبیلے کے پاس پڑاؤ کیا – صحابہ نے چاہا کہ قبیلہ والے ان کو مہمان تسلیم کریں  لیکن قبیلہ والوں نے صاف انکار کر دیا – ان کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا

قبیلہ والوں نے اصحاب رسول سے  ہی علاج کے لئے مدد طلب کی جس پر ایک صحابی نے سوره الفاتحہ  پڑھ کر سردار کو دم کیا اور وہ اچھا بھی ہو گیا – انہوں نے تیس بکریاں بھی لے لیں – صحابہ نے اس پر کراہت کا اظہا ر کیا اور مدینہ پہنچ کر آپ صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا آپ نے قصہ سننے کے بعد کہا  

إِنَّ أَحَقَّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا كِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ

جواب

النووی  ’’ المجموع شرح المہذب ‘‘ میں لکھتے ہیں
 وروى البيهقي بإسناد صحيح عن سعيد بن المسيب أنه كان يأمر بتعليق القرآن وقال لا بأس به قال البيهقي هذا كله راجع إلى ما قلنا إنه إن رقى بما لا يعرف أو على ما كانت عليه الجاهلية من إضافة العافية إلى الرقى لم يجز وإن رقى بكتاب الله أو بما يعرف من ذكر الله تعالى متبركا به وهو يرى نزول الشفاء من الله تعالى فلا بأس به‘‘۔

اور بیہقی نے صحیح اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے سعيد بن المسيب سے کہ وہ قرآن کو لٹکانے کا حکم کرتے تھے اور کہا اس میں کوئی برائی نہیں ہے بیہقی نے کہا یہ سب جاتا ہے اس بات پر جو ہم نے کی کہ جب دم کیا جائے اس سے جس کا پتا نہ ہو یا ان سے جن سے جاہلیت میں عافیت لی جاتی تھی تو وہ جائز نہیں ہے لیکن اگر دم کیا جائے کتاب الله سے اس ذکر الہی سے جس کو جانتے ہوں تو وہ متبرک ہے اور وہ اس میں شفا کا نزول دیکھتے ہیں، الله کی طرف سے، پس اس میں کوئی برائی نہیں

سنن الکبری البیہقی میں ہے

 أَخْبَرَنَا أَبُو زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ الْحَسَنِ قَالَا: ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ الْأَصَمُّ، ثنا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ، ثنا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي نَافِعُ بْنُ يَزِيدَ، أَنَّهُ سَأَلَ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ عَنِ الرُّقَى وَتَعْلِيقِ الْكُتُبِ، فَقَالَ: كَانَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ يَأْمُرُ بِتَعْلِيقِ الْقُرْآنِ وَقَالَ: لَا بَأْسَ بِهِ. قَالَ الشَّيْخُ رَحِمَهُ اللهُ: وَهَذَا كُلُّهُ يَرْجِعُ إِلَى مَا قُلْنَا مِنْ أَنَّهُ إِنْ رَقَى بِمَا لَا يُعْرَفُ أَوْ عَلَى مَا كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ مِنْ إِضَافَةِ الْعَافِيَةِ إِلَى الرُّقَى لَمْ يَجُزْ , وَإِنْ رَقَى بِكِتَابِ اللهِ أَوْ بِمَا يَعْرِفُ مِنْ ذِكْرِ اللهِ مُتَبَرِّكًا بِهِ وَهُوَ يَرَى نُزُولَ الشِّفَاءِ مِنَ اللهِ تَعَالَى فَلَا بَأْسَ بِهِ، وَبِاللهِ التَّوْفِيقُ

نافع بن یزید ( الكلاعي أبو يزيد المصري المتوفی ١٦٨ ھ یا کوئی مجھول)  نے یحیی بن سعید المتوفی ١٩٨ ھ  سے دم اور تعویذ پر سوال کیا انہوں نے کہا کہ سعید بن المسیب قرآن لٹکانے کا حکم کرتے تھے – یہ روایت ہی منقطع ہے کیونکہ یحیی بن سعید سے ابن مسیب تک کی سند نہیں ہے اس کے علاوہ نافع بن یزید خود یحیی سے کافی بڑے ہیں ان کا سوال کرنا بھی عجیب لگ رہا ہے

بیہقی نے جس روایت کو صحیح کہہ دیا ہے وہ اصل  میں مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي عِصْمَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ عَنِ التَّعْوِيذِ، فَقَالَ: «لَا بَأْسَ إِذَا كَانَ فِي أَدِيمٍ»

ابو بکر کہتے ہیں ہم سے عقبہ بن خالد نے روایت کیا انہوں سے شعبہ سے انہوں نے أَبِي عِصْمَةَ  سے کہا میں نے سعید بن المسیب سے تعویذ کے بارے میں پوچھا  پس کہا اگر چمڑے میں ہو تو کوئی برائی نہیں ہے

اس کی سند میں ابو عصمہ راوی ہیں  احمد العلل میں کہتے ہیں

 وقد روى شعبة، عن أبي عصمة، عن رجل، عن ابن المسيب، في التعويذ. «العلل» (1460) .

اور بے شک شعبہ نے ابی عصمہ سے انہوں کسی آدمی سے اس نے ابن مسیب سے تعویذ پر روایت کیا ہے

 ابو عصمہ عن رجل عن ابن المسیب سے تعویذ کی روایت کرتے ہیں

معلوم ہوا کہ اس روایت میں مجھول راوی ہے لہذا ابن مسیب سے منسوب یہ قول ثابت نہیں ہے

نوح بن أبي مريم، أبو عصمة المروزي، القرشي مولاهم ایک ضعیف راوی ہے جو مناکیر بیان کرنے کے لئے مشھور ہے

جواب

 كتاب الفروع  از ابن مفلح الحنبلي (المتوفى: 763هـ ) میں ہے

وَقَالَ ابْنُ مَنْصُورٍ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: هَلْ يُعَلِّقُ شَيْئًا مِنْ الْقُرْآنِ؟ قَالَ: التَّعْلِيقُ كُلُّهُ مَكْرُوهٌ، وَكَذَا قَالَ فِي رِوَايَةِ صَالِحٍ. وَقَالَ الْمَيْمُونِيُّ: سَمِعْت مَنْ سَأَلَ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عَنْ التَّمَائِمِ تُعَلَّقُ بَعْدَ نُزُولِ الْبَلَاءِ فَقَالَ: أَرْجُو أَنْ لَا يَكُونَ بِهِ بَأْسٌ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَقَدْ رَأَيْت عَلَى ابْنٍ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ وَهُوَ صَغِيرٌ تَمِيمَةً فِي رَقَبَتِهِ فِي أُدُمٍ، قَالَ الْخَلَّالُ: قَدْ كَتَبَ هُوَ مِنْ الْحُمَّى بَعْدَ نُزُولِ الْبَلَاءِ، وَالْكَرَاهَةُ مِنْ تَعْلِيقِ ذَلِكَ قَبْلَ نُزُولِ الْبَلَاءِ هُوَ الَّذِي عَلَيْهِ الْعَمَلُ، انْتَهَى

المروزی نے امام احمد سے پوچھا کیا قرآن میں سے کچھ لٹکایا جائے ؟ امام احمد نے کہا ہر لٹکانے والی چیز مکروہ ہے اور ایسا ہی  صالح نے روایت کیا ہے اور میمونی نے کہا میں نے امام احمد سے تعویذ پر سوال کیا کہ آفت نازل ہونے کے بعد لٹکا لیا جائے انہوں نے کہا اس میں امید ہے کوئی برائی نہیں اور امام ابو داود کہتے ہیں انہوں نے احمد کے چھوٹے بیٹے کے گلے میں چمڑے کا تمیمہ دیکھا  الخلال کہتے ہیں اور امام احمد  تمیمہ لکھتے بخآر کے لئے آفت کے نزول کے بعد اور اس سے کراہت کرتے کہ اس کو نزول بلا سے پہلے لٹکایا جائے اور اسی پر (حنابلہ کا) عمل ہے انتھی

إسحاق بن منصور بن بهرام أبو يعقوب الكوسج کی وفات ٢٥١ ھ میں ہوئی اور ان کے مطابق امام احمد قرانی تعویذ نہیں کرتے تھے

أبو داود سليمان بن الأشعث بن إسحاق المتوفی ٢٧٥ ھ  کہتے ہیں امام احمد کے بیٹے کے گلے میں ایک تمیمہ ہوتا تھا

سوال ہے کہ اگر قرانی تعویذ نہیں تھا تمیمہ تھا تو کس نوعیت کا تھا؟

ایک اہل  حدیث عالم تمیمہ کی وضاحت کرتے ہیں

مشہور و معروف لغت دان مجد الدین فیرزآبادی القاموس المحیط میں لکھتے ہیں

والتمیم التام الخلق ، والشدید ، وجمع تمیمة کا لتمائم لخرزة رقطاء تنظم فی السیر ، ثم یعقد فی العنق

تمیمہ کا لفظ دھاری دار کرزہ ومنکہ جو چمڑے کی تندی میں پرولیا جاتا، پھر گردن میں باندھ دیا جاتا ہے پر بولا جاتا ہے تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اس قسم کے خرزات و منکوں ، کوڈوں اور گھک منکوں کے لٹکانے کو شرک قرار دے رہے ہیں نہ کہ کاغذوں یا چمڑوں میں لکھے ہوئے کتاب و سنت کے کلمات لٹکانے کو۔

http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/2368/0/

  امام احمد ہی کے  فرزند نے اپنے باپ سے پوچھے گئے فتووں  پر کتاب تالیف کی،  جس کا نام المسائل امام احمد بن حنبل ہے – اس میں امام احمد نے با قاعدہ تعویذ بتایا کہ

كِتَابَةالتعويذة للقرع والحمى وللمراة اذا عسر عَلَيْهَا الْولادَة

حَدثنَا قَالَ رَأَيْت ابي يكْتب التعاويذ للَّذي يقرع وللحمى لاهله وقراباته وَيكْتب للمراة اذا عسر عَلَيْهَا الْولادَة فِي جَام اَوْ شَيْء لطيف وَيكْتب حَدِيث ابْن عَبَّاس

کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ کو تعویذ لکھتے دیکھا گنج پن ، بیماری یا درد زہ کے لئے – خاندان والو اور رشتہ داروں کے لئے اور ان عورتوں کے لئے جن کو جننے میں دشواری ہو ان کے لئے وہ ایک برتن یا باریک کپڑے پر ابن عبّاس کی روایت لکھتے تھے

امام احمد کا نقطہ نظر وقت کے ساتھ تبدیل ہوتا گیا اور وہ تعویذ لکھنے لگے گھر والوں یا اہل بیت کی گواہی سب سے بڑھ کر ہے

جواب

ایک وقت تھا جب اس امّت کا چار دانگ عالم میں رعب تھا – ایمان کا نور تھا – علماء نفس پرست اور شکم پرور نہ تھے – اگر کسی کا خوف تھا تو وہ صرف الہ واحد کا تھا – کسی بھی نقصان اور تکلیف کو با ذن الله سمجھا جاتا تھا – آج جو اس امت کا حال ہے وہ سب کے سامنے ہے – ایک مشکل اور پریشان حال کیفیت ہے – اغیار تو اغیار خود ہم مذہب بھی مارتے ہیں – الغرض ہر طرف ایک بے کلی و بے بسی کی سی کیفیت ہے-  سب سے افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ  ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ  یہ امّت قوم یونس کی طرح الله کی طرف پلٹی اور اس سے لو لگاتی ، اس امّت کے سواد ا عظم نے یہ مان لیا ہے کہ  مصیبت  میں الله کے بجاے دوسروں کو پکارا جائے الله کے علاوہ غیر الله کی خوشنودی حاصل کی جائے اور الله  کے کلام اور اسما الحسنیٰ  کو گلے میں لٹکایا جائے – الله کے کلام کو پانی پر پھونکا جائے – امّت کے ان عجیب و غریب  اعمال کی اصلاح کی ذمہ داری علماء کی تھی – شومئی  قسمت  علماء نے تو خود اس گمراہی کو بڑوھتی  دی ہے اور اس امّت کی قد آور شخصیات نے نہ صرف تعویذ سے متعلق عقائد کو محراب و منبر سے بیان کیا ہے بلکہ اس کے جائز ہونے پر فتوے اور کتابیں لکھیں ہیں-

تعویذ

تعویذ کا مطلب ہے جس کے ذریعے پناہ لی جائے – عرف عام میں اس سے مراد ہوتا ہے کہ قرآنی یا غیر قرآنی آیات پر مشتمل ورق کو چمڑے میں سی کر گلے یا جسم کے کسی اور جز میں باندھا جائے -تعویذ کسی صورت جسم سے علیحدہ نہیں کیا جاتا حتیٰ کہ اسی حالت میں بیت الخلا ء بھی جاتے ہیں – نا پاکی کی حالت میں بھی یہ جسم پر لٹکا ہوتا ہے

گنڈا 

دھاگے پر کلمات پڑھنے کے بعد جسم سے باندھا جاتا ہے – یہ طریقہ ہندووں کے ہاں مروج ہے اور بر صغیر میں معروف ہے

حالانکہ سوره الفلق میں گرہ لگا کر پھونکنے والیوں کے شر سے پناہ مانگی گئی ہے

تولہ

محبت کا تعویذ جو سحر کی ایک قسم ہے

واضح رہے کہ الله کے نبی کا واضح حکم ہے کہ

إِنَّ الرُّقَى وَالتَّمَائِمَ وَالتِّوَلَةَ شِرْكٌ  سنن ابی داود

بے شک منتر اور  تعویذ اور توله شرک ہیں

ابن قتیبہ کہتے ہیں  کہ محدث   أبي عبيد جنہوں نے احادیث کے مشکل الفاظ پر کتاب لکھی ہے ان کے مطابق  حدیث کے لفظ  التَّمَائِمَ سے مراد  تعویذ ہے جو گلے میں لٹکایا جائے

قال أبو محمد ابن قتيبة في إصلاح الغلط ص 54: وهذا يدل أن التمائم عند أبي عبيد المعاذات التي يكتب فيها وتعلق

یہی نقطۂ نظر عربی زبان کے معروف محقق الخليل الفراهيدي  کا ہے جو اپنی کتاب کتاب العین میں لکھتے ہیں

التميمة: قلادة من سيور، وربما جعلت العوذة التي تعلق في أعناق الصبيان

التميمة: کانٹوں کا قلادہ ، اورہو سکتا ہے کہ بنایا جائے ایک بچانے والی شے جس کو بچوں کے گلے میں لٹکایا جائے

عصر حاضر کے اک محقق ناصر الدین  البانی اپنی تالیف الصحیحہ میں تبصرہ کرتے ہیں کہ

التمائم : جمع تميمة واصلها خرزات تعلقها العرب على رأس الولد لدفع العين ثم توسعوا فيها فسموا بها كل عوذة . ومن ذلك تعليق نعل الفرس أو الخرز الأزرق وغيره . والأرجح أنه يدخل في المنع أيضا الحجب إذا كانت من القرآن أو الأدعية الثابت

التمائم : تميمة کی جمع ہے اور اصلاً گھونگھے ہیں جو عرب اپنے اولاد کے سروں پر دفع نظر بد کے لیے لٹکاتے تھے پھر اس میں وسعت ہوئی اور یہ نام ہوا ہر اس چیز کا جس کے ذریعے پناہ لی جائے – اور اس میں شامل ہے گھوڑے کی نعل اور نیلے گھونگھے اور راجح ہے کہ منع میں شامل ہے حفاظت چاہے قرآن سے ہو یا ثابت دعاؤں سے

معلوم ہوا کہ قدیم محدثین اور موجودہ محققین سب اس پر متفق ہیں کہ تعویذ سے مراد قرآنی تعویذ بھی ہیں – ان واضح نصوص کے باوجود کچھ حضرات کا اصرار ہے کہ تميمة  کے مفہوم  کو صرف گھونگوں اور کانٹوں تک ہی محدود کر دیا جائے -حالانکہ ان کے پاس اس محدودیت کی نہ کوئی دلیل ہے نہ کوئی برہان – حقیقت میں یہ مطالبہ محبوب شخصیا ت کے دفاع کے لیے کیا جاتا ہے-

امام احمد بن حنبل امّت کی مشہور شخصیت ہیں – معتزلہ کی فلسفیا نہ  موشگافیوں کے خلاف تقریباً تمام محدثین تھے لیکن ساکن بغداد ہونے کی وجہ سے عباسی خلفاء کی خاص توجہ ان پر مذکور رہی – امام احمد اپنے موقف پر ڈٹے رہے – اس بنا پر اپنے زمانے میں بہت  مشہور ہوۓ اور  پھر  اسی شہرت کے  سحر کے زیر اثر امام بخاری کو بد عقیده تک قرار دیا-

امّت کو امام احمد کی شحصیت پرستی سے نکلنے  کے لئے امام بخاری نے کتاب  خلق أفعال العباد لکھی جس   میں     نہ  صرف  معتزلہ  بلکہ  امام  احمد  کے  موقف  سے  ہٹ  کر  وضاحت  کی گئی

امام بخاری نے امام احمد کا نام   صرف  چار مقام پر صحیح بخاری میں لکھا اور وہ بھی امام احمد کی  سطحی  علمیت کو ظاہر کرنے کے لئے – گھر کے بھیدی امام احمد کے اپنے بیٹے عبدللہ بن احمد اپنی کتاب السنة  میں لکھتے ہیں

سألت أبي رحمه الله قلت : ما تقول في رجل قال : التلاوة مخلوقة وألفاظنا بالقرآن مخلوقة والقرآن كلام الله عز وجل وليس بمخلوق ؟ وما ترى في مجانبته ؟ وهل يسمى مبتدعا ؟ فقال : » هذا يجانب وهو قول المبتدع ، وهذا كلام الجهمية ليس القرآن بمخلوق

میں نے اپنے باپ احمد سے پوچھا : آپ کیا کہتے ہیں اس شخص کے بارے میں جو کہتا ہے کہ قرآن کی تلاوت اور الفاظ مخلوق ہیں اور قرآن الله عز وجل کا کلام غیر مخلوق ہے – اس کے قریب جانے پر آپ کیا کہتے ہیں اور کیا اس کو بدعتی کہا جائے گا ؟ امام احمد نے جواب میں کہا اس سے دور رہا جائے اور یہ بد عت والوں کا قول ہے اور الجهمية کا قول ہے- قرآن مخلوق نہیں

یہاں شخص سے مراد امام بخاری میں کیونکہ یہ ان ہی کا موقف تھا کا الفاظ قرآن مخلوق ہیں لیکن قرآن الله کا کلام غیر مخلوق ہے

    امام احمد نے خلق القرآن کے اپنے موقف میں وسعت پیدا کی اور بات یہاں تک پہنچی  کہ قرآن کی آیات کودھو دھو کر پیا جائے اور با وجود یہ کہ یہ ایک بدعت تھی انہوں نے ہی اس شجر کی آبیاری کی-  امام احمد ہی کے  فرزند نے اپنے باپ سے پوچھے گئے فتووں  پر کتاب تالیف کی،  جس کا نام المسائل امام احمد بن حنبل ہے – اس میں امام احمد نے با قاعدہ تعویذ بتایا کہ

كِتَابَةالتعويذة للقرع والحمى وللمراة اذا عسر عَلَيْهَا الْولادَة

حَدثنَا قَالَ رَأَيْت ابي يكْتب التعاويذ للَّذي يقرع وللحمى لاهله وقراباته وَيكْتب للمراة اذا عسر عَلَيْهَا الْولادَة فِي جَام اَوْ شَيْء لطيف وَيكْتب حَدِيث ابْن عَبَّاس

کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ کو تعویذ لکھتے دیکھا گنج پن ، بیماری یا درد زہ کے لئے – خاندان والو اور رشتہ داروں کے لئے اور ان عورتوں کے لئے جن کو جننے میں دشواری ہو ان کے لئے وہ ایک برتن یا باریک کپڑے پر ابن عبّاس کی روایت لکھتے تھے

امام احمد کا دفاع کرنے والوں نے ایک عجیب و غریب موقف اختیار کیا ہوا ہے کہ امام احمد تعویذ نہیں  بتا سکتے ہیں کیونکہ  اپنی مسند احمد میں وہ خود تعویذ کے رد میں روایات بیان کرتے ہیں – شخصیت پرستی بھی بری شے ہے جو عقل سلب کر لیتی ہے . امام احمد نے مسند کو ہر طرح کے رطب و یابس سے بھر دیا ہے-  ان کا سارا زور ایک ضخیم مسند لکھنے پر ہی رہا  ہے جس میں ہر طرح کی روایات ہیں – دیکھا یہ جاتا ہے کہ آیا محدث نے اس پر عقیدہ بنایا ہے یا نہیں

ابی داوود مسائل الإمام أحمد رواية أبي داود السجستاني میں کہتے ہیں کہ میں نے

رَأَيْتُ عَلَى ابْنٍ لِأَحْمَدَ، وَهُوَ صَغِيرٌ تَمِيمَةً فِي رَقَبَتِهِ فِي أَدِيم

میں نے احمد کے بیٹے جبکہ وہ چھوٹے تھے ایک    چمڑے کا  تَمِيمَةً  (تعویذ ) گلے میں دیکھا

كتاب الفروع ومعه تصحيح الفروع لعلاء الدين علي بن سليمان المرداوي میں صاحب کتاب بتاتے ہیں کہ
وَقَالَ الْمَيْمُونِيُّ: سَمِعْت مَنْ سَأَلَ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عَنْ التَّمَائِمِ تُعَلَّقُ بَعْدَ نُزُولِ الْبَلَاءِ فَقَالَ: أَرْجُو أَنْ لَا يَكُونَ بِهِ بَأْسٌ

میمونی کہتے ہیں کہ میں نے سنا جس نے احمد سے تعویذ کے بارے میں سوال کیا   آفت نازل ہونے کے بعد

پس انہوں نے کہا : امید ہے کہ اس میں کوئی برائی نہیں

قَالَ الْخَلَّالُ: قَدْ كَتَبَ هُوَ مِنْ الْحُمَّى بَعْدَ نُزُولِ الْبَلَاءِ، وَالْكَرَاهَةُ مِنْ تَعْلِيقِ ذَلِكَ قَبْلَ نُزُولِ الْبَلَاءِ
الخلال کہتے ہیں: احمد بخار کے لئے تعویذ  لکھتے تھے آفت آنے کے بعد،        اور کراہت کرتے تھے  آفت آنے سے پہلے  تعویذ     لٹکانے پر

بیہقی سنن الکبریٰ میں عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا سے روایت بیان کرتے ہیں کہ

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، وَأَبُو سَعِيدِ بْنُ أَبِي عَمْرٍو قَالَا: ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ , ثنا هَارُونُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ثنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ:

لَيْسَتْ التَّمِيمَةُ مَا يُعَلَّقُ قَبْلَ الْبَلَاءِ إنَّمَا التَّمِيمَةُ مَا يُعَلَّقُ بَعْدَ الْبَلَاءِ لِتَدْفَعَ بِهِ الْمَقَادِيرَ

تعویذ نہیں جو آفت سے پہلے لٹکایا جائے بلکہ تعویذ تو وہ ہے جو آفت کے بعد دفع کے لئے لٹکایا جائے

اس کے برعکس حاکم مستدرک میں روایت بیان کرتے ہیں

وَحَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ، ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: «لَيْسَتِ التَّمِيمَةُ مَا تَعَلَّقَ بِهِ بَعْدَ الْبَلَاءِ، إِنَّمَا التَّمِيمةُ مَا تَعَلَّقَ بِهِ قَبْلَ الْبَلَاءِ

عائشہ رضی الله روایت کرتی ہیں کہ تعویذ نہیں جو آفت کے بعد  لٹکایا جائے بلکہ تعویذ تو وہ ہے جو آفت سے پہلے  لٹکایا جائے

اس روایت کی صحت کی بحث سے قطع نظر جو چیز واضح ہے وہ یہ کہ امام احمد کا عمل   کسی بھی طرح  درست نہیں   تھا-  امام احمد کی دیکھا دیکھی    

امام ابن تیمیہ نے فتویٰ دیا کہ تعویذ جائز ہے  فتاویٰ ابن تیمیہ جلد ١٩ ص ٦٤ -٦٥

عبد القادر جیلانی نے غنیہ الطالبین میں امام احمد کے حوالے سے بخار کا تعویذ لکھا

شاہ ولی الله نے قول الجمیل میں میں اصحاب کہف کے  ناموں پر مبنی تعویذ پیش کیا

امّت کی ان جیسی  قد آور شخصیات نے جب تعویذ لکھے تو پھر کوئی اور کیوں نہ لکھے؟ – لہذا اہل حدیث حضرت نے  بھی اس گمراہی کو  پھیلانے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا –    سوال یہ ہے کہ کس صحابی نے گلے میں تعویذ  لٹکاے ؟ کس نبی نے تعویذ پہنا ؟    اور جس نبی پر قرآن نازل ہوا کیا اس کے دانت شہید نہ ہوۓ ؟

واضح رہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے دم کرنے کی اجازت دی تھی کیونکہ دم دعا کے مترادف ہے  لہذا وہ دم جن میں شرکیہ الفاظ نہ ہوں ان کی اجازت دی گئی ہے-    اس کے برعکس تعویذ ایک شے ہے جو لٹکائی جاتی ہے-   تعویذ اگر اسی ہی کارگر شے ہوتا تو الله کے نبی نے بتایا بھی ہوتا  جبکہ  اس کے برعکس نبی صلی الله علیہ وسلم سے قولی حدیث میں اس کی ممانعت آ رہی ہے-

جواب

اس روایت میں دو صحابیوں کا ذکر ہے عامر بن ربیعہ اور سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ  رضی الله عنہم کا

قصہ  کے دو ورژن ہیں

عامر بن ربیعہ کے خاندان کا ورژن

مسند ابو یعلی میں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ رُزَيْقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِيسَى، عَنْ أُمَيَّةَ بْنِ هِنْدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: انْطَلَقْتُ أَنَا وَسَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ نَلْتَمِسُ الْخَمْرَ، فَوَجَدْنَا خَمْرًا وَغَدِيرًا، وَكَانَ أَحَدُنَا يَسْتَحْيِي أَنْ يَغْتَسِلَ وَأَحَدٌ يَرَاهُ [ص:153]، فَاسْتَتَرَ مِنِّي، فَنَزَعَ جُبَّةً عَلَيْهِ، ثُمَّ دَخَلَ الْمَاءَ، فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ , فَأَصَبْتُهُ مِنْهَا بِعَيْنٍ، فَدَعَوْتُهُ، فَلَمْ يُجِبْنِي، فَأَخْبَرْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَاهُ فَضَرَبَ صَدْرَهُ، ثُمَّ قَالَ: «اللَّهُمَّ أَذْهِبْ حَرَّهَا وَبَرْدَهَا، وَوَصَبَهَا»، ثُمَّ قَالَ: «قُمْ»، فَقَامَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ مِنْ نَفْسِهِ أَوْ مَالِهِ أَوْ أَخِيهِ مَا يُعْجِبُهُ فَلْيَدْعُ بِالْبَرَكَةِ، فَإِنَّ الْعَيْنَ حَقٌّ»

مسند احمد میں ہے

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِيسَى، عَنْ أُمَيَّةَ بْنِ هِنْدِ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: انْطَلَقَ عَامِرُ بْنُ رَبِيعَةَ وَسَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ يُرِيدَانِ الْغُسْلَ، قَالَ: فَانْطَلَقَا يَلْتَمِسَانِ الْخَمَرَ، قَالَ: فَوَضَعَ عَامِرٌ جُبَّةً كَانَتْ عَلَيْهِ مِنْ [ص:466] صُوفٍ، فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ، فَأَصَبْتُهُ بِعَيْنِي، فَنَزَلَ الْمَاءَ يَغْتَسِلُ، قَالَ: فَسَمِعْتُ لَهُ فِي الْمَاءِ فَرْقَعَةً فَأَتَيْتُهُ، فَنَادَيْتُهُ ثَلَاثًا فَلَمْ يُجِبْنِي، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ قَالَ: فَجَاءَ يَمْشِي فَخَاضَ الْمَاءَ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى بَيَاضِ سَاقَيْهِ، قَالَ: فَضَرَبَ صَدْرَهُ بِيَدِهِ ثُمَّ قَالَ: «اللَّهُمَّ أَذْهِبْ عَنْهُ حَرَّهَا، وَبَرْدَهَا، وَوَصَبَهَا» قَالَ: فَقَامَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ مِنْ أَخِيهِ، أَوْ مِنْ نَفْسِهِ، أَوْ مِنْ مَالِهِ مَا يُعْجِبُهُ، فَلْيُبَرِّكْهُ فَإِنَّ الْعَيْنَ حَقٌّ

اس میں دھون کا ذکر نہیں ہے صرف دعا کا ذکر ہے

سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ کے خاندان کا ورژن

یہ موطآ  تحقیق محمد مصطفى الأعظمي میں ہے

مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ؛ [ق: 170 – ب] أَنَّهُ قَالَ: رَأَى عَامِرُ بْنُ رَبِيعَةَ، سَهْلَ بْنَ حُنَيْفٍ يَغْتَسِلُ. فَقَالَ: مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ وَلاَ جِلْدَ مُخَبَّأَةٍ. فَلُبِطَ بِسَهْلٍ. [ص: 58 – ب] فَأُتِيَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ. هَلْ لَكَ فِي سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ؟ وَاللهِ مَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ. فَقَالَ: «هَلْ تَتَّهِمُونَ بِهِ (1) أَحَداً؟» قَالُوا: نَتَّهِمُ عَامِرَ بْنَ رَبِيعَةَ. قَالَ: فَدَعَا رَسُولُ اللهِ (2) صلى الله عليه وسلم عَامِراً، فَتَغَيَّظَ عَلَيْهِ. وَقَالَ: «عَلاَمَ يَقْتُلُ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ؟ أَلاَّ بَرَّكْتَ. اغْتَسِلْ لَهُ». فَغَسَلَ عَامِرٌ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ (3)، وَمِرْفَقَيْهِ وَرُكْبَتَيْهِ، وَأَطْرَافَ رِجْلَيْهِ، وَدَاخِلَةَ إِزَارِهِ، فِي قَدَحٍ. ثُمَّ صُبَّ عَلَيْهِ. فَرَاحَ سَهْلٌ مَعَ النَّاسِ، لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ.

موطآ میں دھون کا ذکر  ابو مصعب الزہری کی سند سے  ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو مُصْعَبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ بن أنس، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَاهُ أبا أمامة، يَقُولُ: اغْتَسَلَ أَبِي، سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ، بِالْخَرَّارِ فَنَزَعَ جُبَّةً كَانَتْ عَلَيْهِ، وَعَامِرُ بْنُ رَبِيعَةَ يَنْظُرُ، قَالَ: وَكَانَ سَهْلٌ رَجُلًا أَبْيَضَ حَسَنَ الْجِلْدِ، قَالَ: فَقَالَ عَامِرُ: مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ وَلاَ جِلْدَ عَذْرَاءَ، فَوُعِكَ سَهْلٌ مَكَانَهُ، وَاشْتَدَّ وَعْكُهُ، فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلى الله عَلَيه وَسَلم فَأُخْبِرَ أَنَّ سَهْلًا وُعِكَ، وَأَنَّهُ غَيْرُ رَائِحٍ مَعَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَتَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلى الله عَلَيه وَسَلم فَأَخْبَرَهُ سَهْلٌ بِالَّذِي كَانَ مِنْ شأن عَامِرٍ بن ربيعة، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلى الله عَلَيه وَسَلم: عَلاَمَ يَقْتُلُ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ؟ أَلَّا بَرَّكْتَ إِنَّ الْعَيْنَ حَقٌّ، تَوَضَّأْ لَهُ، فَتَوَضَّأَ لَهُ، فَرَاحَ سَهْلٌ بن حنيف مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلى الله عَلَيه وَسَلم لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ.

طحاوی نے مشکل الآثار میں دونوں ورژن ملا کر دو الگ واقعات کہا ہے اور دھون کو منسوخ عمل کہا ہے

قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: فَفِي هَذَا الْحَدِيثِ اكْتَفَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِسَهْلٍ بِالدُّعَاءِ وَفِي حَدِيثِ أَبِي أُمَامَةَ أَمْرُهُ عَامِرًا بِالِاغْتِسَالِ لَهُ , وَقَدْ يَحْتَمِلُ أَنْ يَكُونَ جَمَعَهُمَا لَهُ جَمِيعًا , وَقَدْ يَحْتَمِلُ أَنْ يَكُونَ كَانَ ذَلِكَ مَرَّتَيْنِ أَدْرَكَ سَهْلًا فِي كُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا مِنْ عَامِرٍ مَا أَدْرَكَهُ مِنْهُ , فَفَعَلَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي كُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا مَا فَعَلَ فِيهَا مِنْ دُعَاءٍ , وَمِنْ أَمْرٍ بِاغْتِسَالٍ , وَيَحْتَمِلُ أَنْ يَكُونَ الِاغْتِسَالُ كَانَ , ثُمَّ نُسِخَ بِغَيْرِهِ

اغلبا یہ عمل منسوخ ہے و الله اعلم