اہم مباحث

Questions answered by Dr. Masududdin Uthmani

سوال:ڈاکٹر صاحب یہ جو قرآن میں جو کہا گیا ہے کہ آپس میں تفرقہ نہ ڈالواور نبی صلے الله علیہ و سلم نے بھی تفرقه با زی سے منع کیا ہے بلکہ یہا تک کہا کے صرف ایک گروہ بخشا جا ئے گا باقی سب جھنم میں جائیں گے.اس کے باوجود آج کل یہاں جتنے فرقے بن رہے ہیں یا بن چکے ہیں تو اسکا کیا جواز ہے ؟

جواب:الله تعالی فرماتا ہے: وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا (آل عمران آیت نمبر ١٠٢) مالک ایک خاص بات کہتا ہے کے تم سارے لوگ جو ا یمان کے اقراری ہو سب الله کی رسی یعنی قرآن و حدیث سے چمٹ جاؤ. اور اگر یہ رہا کہ قرآن و حدیث کے علاوہ تمہارے سامنے کسی  فلسفی کی بات تمہارے باپ دادا کی ریت ، کسی بڑے کا قول وغیرہ تم نے دین میں داخل کیا تو یہ تفرقہ ہے . اس سے تمہارے اندر وحدت باقی نہیں رہے گی ، ا کائی ٹوٹ جائے گی .یہ بہت اہم مسلہ ہے . وحدت کی بنیاد یہ ہی حبل الله ہے . الله  تعالی فرماتا ہے تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّه (آل عمران آیت نمبر ٦٤ ) کہ ہم الله کو اکیلا مان لیں اور الله کے ساتھ کسی کوشریک نہ کریں .یہ ایک کلمہ ہے جس میں بتایا ہے کہ اس کی طرف بلاو . پھر جو یہ بات نہ مانے تو قرآن و حدیث سے ہٹ کر کوئی اپنی بات چلانا چاہے تو یہ تفرقہ اندا زی ہے . فرقہ بندی یہ نہیں ہے کہ آپ قرآن و حدیث کی طرف بلائیں کہ الله کے نبی مدینے والی  قبر میں زندہ نہییں ہیں ، درود و سلام نہیں سنتے . اب دوسرا یہ کہتا ہے کہ نیہں صاحب الله کے نبی تو اسی مدینے والی قبر میں زندہ ہیں ، درود و سلام سنتے ہیں ، تو گویا وہ اس حبل الله کو ماننے کے لۓ تیار نہیں جس کو لے کر ہم چل رہے ہیں . اب ہم ان کو اپنے ساتھ لے کر کیسے چل سکتے ہیں . کوئی کہتا ہے کہ قبر میں نبی صلے الله علیہ و سلم پر ازواج مطہرات پیش کی جاتی ہیں . اہل حدیث کہتے ہیں کہ نبی ہی نہیں بلکہ سارے مردے زندہ ہیں ، دیکھتے اور سنتے ہیں …… یہ ساری  باتیں قرآن و حدیث کے خلاف ہیں . یہ تفرقہ بازی ہے . جو بات قرآن و حدیث کے خلاف کہی جاۓ و ہی تفرقہ ہے اور جو عین قرآن و حدیث کے مطابق ہو تو وہ حبل الله ہے جس سے تمسک کا الله نے حکم دیا ہے . لو گوں نے اس حبل الله کو چھوڑ کر اپنی بنائی ہوئی چیزوں کو تھام کر گروہ و فرقے بنا لیے ہیں اور کل حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ (المومنون آیت نمبر ٥٣) الله کے دین کو انہوں نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے اور ہر ایک کےہاتھ  جو آیا ہے وو اسی میں مگن اور خوش ہے اور پھر اس طرح کی باتیں بنائی جاتی ہیں کہ ہم اہلسنّت والجماعت ہیں،ہم نبی صلے الله علیہ و سلم کو نور کا مانتے ہیں…..

دوسرے کہتے ہیں کہ نبی صلے الله علیہ و سلم کی وفات نہیں ہوئی، ہمارے بزرگ قاسم نانوتوی نے آب حیات میں لکھ دیا ہے کہ وفات کے وقت نبی صلے الله علیہ و سلم کی روح جسم سے نہیں نکلی …..تیسرا گروہ سب مردوں کو زندہ مانتا ہے.یہ تینوں گروہ خلاف قرآن بات کہتے ہیں.قرآن کہتا ہے:   وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصَارَى عَلَى شَيْءٍ وَقَالَتِ النَّصَارَى لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ ( البقرہ آیات نمبر ١١٣) یعنی یہودی کہتے ہیں کہ عسائیوں کا عقیدہ غلط ہے انکے پاس کچھ بھی نہیں اور اسی طرح عیسائ کہتے ہیں کہ یہودیوں کا عقیدہ غلط ہے ان کے پاس کچھ بھی نہیں.یہی حال ہمارے یہاں سارے فرقوں کا ہے دیوبندی ہوں، بریلوی ہوں یا اہلحدیث، یہ سب تفرقہ باز ہیں، یہ سب حبل الله کو چھوڑ کر اپنے اپنے مسلک سے تمسک کئے ہوے ہیں.اب اگر کوئی انہیں حبل الله کی طرف بلاتا ہے تو یہ تفرقہ بازی نہیں بلکہ عین دین ہے،دعوت حق ہے،اسلام کی خدمت ہے.

سوال : کیا حرمین کے علما صحیح مسلک  پر ہیں  ؟

 جواب :صحیح  مسلک پر نہیں  ہیں -جیسا  کے میں نے بارہا بتایا ہے .ان میں دو باتیں کفر و  شرک کی موجود ہیں کے الله کے رسول کی مدینے والی قبر میں زندہ مانتے ہیں .دورود و سلام سننے کا بھی عقیدہ رکھتے ہیں اور یہ بھی کے جو دورود دور سے بھیجے  فرشتے اسے پہنچا   دیتے ہیں ………….گویا فرشتے یہ بھول جاتے ہیں کے اللھم صلے علی محمّد پڑھ کر ہم الله سے نبی کے لئے دعا رحمت کرتے ہیں لیکن یہ اسے الله کے بجانے  نبی کے پاس لے جاتے ہیں

سوال :کیا اہل کتاب مشرک شخص کسی مومن کی نماز جنازہ اور نکاح پڑھا سکتا ہے 

جواب :نکاح میں اصل چیز گواہ اور ایجاب و قبول ہے کسی مومن و مشرک سے پڑھوانے کی کوئی قید نہیں .مشرکین سے برأت و بیزاری کے اظہار کے لیے ان سے نکاح بھی نہ پڑھوایا جائے .لیکن اگر مجبوری ہو .مومن نکاح پڑھانے والا نہ ہو اور کوئی مشرک پڑھا دے تو نکاح ہو جاۓ گا .البتہ کسی مومن کی  نماز  جنازہ کوئی مشرک نہیں پڑھاسکتا . یہ کسی طرح بھی جائز نہیں .مومن کو چاہیے کے وصیت کر جائے کہ اسکی نماز جنازہ کوئی مومن ہی پڑھائے

سوال: شرک کے بارے میں بتایں؟

 جواب: الله قرآن میں فرماتا ہے کہ ” وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ”عام طور سے دنیا کے اندر اکثریت جو ہوتی ہے چاہے وہ ایمان کی  دعویدارہو لیکن وہ مشرک ہوتی ہے،آج بھی دیکھ لیں،چاہے اس امّت کا سواد اعظم  ہو،ایک لاکھ میں ایک مشکل سے ملے گا جو الله کو اکیلا ماننے والا ہوگا آپ یہ دیکھ رہے ہیں کہ  ہر طرف یہ قبریں آستانے پوجے جارہے ہیں عرس مناۓ جا رہیں ہیں علی کو مشکل کشا کہا جارہا ہے تو کوئی ان کا داتا ہے ،کوئی دستگیر ہے،کوئی غوث ہے،الله کے گھر کے حج کے بجاۓ انسانوں کے عرس مناے جارہیں ہیں ہر  جگہ یہی مسلہ ہے اور یہی پوری امّت کا قانون بن گیا ہے .جہاں ایمان نہ ہو اور ایمان میں الله کا خوف باقی نہ رہے اور نہ الله کے ساتھ بندگی کا رشتہ صحیح معنوں میں باقی رہ جائے .نہ نبی کی سننت کا نقشہ اپنے سامنے ہو .اور سب سے بڑی بات آخرت کا یہ ”جھمیلا”ہے اور آخرت کی بات سے انسان کتراتا رہے .آپ دیکھ رہے ہیں جب ایمان خراب ہوا ہے تو سب کچھ بگڑ گیا ہے  اور ہر چیز مباح ہے اگر معاشیات کا  معاملہ ہے اگر سود حرام ہے تو وہ من و سلوا بن جائے گا .اگر گانا بجانا مسلمان کی شان کے لائق نہیں ہے تو آج ہر جگا یہ آرٹ اور فن ہے اسی طرح سے الله  کی کتاب اور الله کے نبی بتایں کہ ایمان کے ذریعہ  سے سرفرازی ہوتی ہے،الله کا وعدہ ہے :وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آَمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَكِنْ كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ اگر بستیوں والے ایمان لے آتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم آسمان اور زمین کی برکتوں کے خزانے انڈیل دیتے  وَلَكِنْ كَذَّبُوا لیکن ان ظالموں نے ایمان کی ناقدری کی اور تقویٰ سے دور بھاگے پھر ہم نے ان کو پکڑا ہے اس جرم میں اور پھر ان کو کہیں کا نہ چھوڑا اصلی مسلہ یہ ہے آپ دیکھیں کہیں کسی جگہ پر الله کا دیا ہوا قانون ہے الله کی کتاب کی ایک ایک قدر بدل ڈالی ہے آج جو دنیا کا غالب نظام ہے اس کا حال کیا ہے آپ کی صورت و شکل ہی دیکھ لیں اگر آج ان کے پاس غلامی کی زنجیریں ہیں اور یہ جو جکڑے ہوئے ہیں ان کی شکلیں اگر سفید ہیں تو آج ہمارا ایک کالا آدمی جو ہے وہ بھی پاوڈر اور غازہ و ابٹن ملتا ہے کہ ہماری شکل ایسی ہو جائے کل اگر یہ حبشی حکمران بن جائیں تو یہی قوم ہے جن کے اندر ایمان نہیں ہے یہ اپنے چہرے پر کالک ملیں گے اور بالوں کو گھنگریالے کر ڈالیں گے الله کا دین جو بات بیان کرتا ہے وہ ایک بات ہے جو عزت کی چیز ہے اگر تم سہی معنی میں الله کے بندے ہو اور تو نے ایمان میں خلوص پیدا کر لیا ہے تو تم ہی دھرتی کے نمک ہو اور تم ہی پہاڑی کے چراغ ہو اور الله کے ہاں تمہاری بڑی قدرو قیمت ہے اور تمہارے مقابلے میں پروردگار کے یہاں وہ لوگ جن کے  لیے دنیا سر جھکاتی ہے خزانے جن کے قدموں میں لوٹتے ہیں لیکن ان کے اندر ایمان نہیں ہے وہ مالک کی نگاہ میں ایسے ذلیل ہیں اس گندگی کے کیڑے سے زیادہ حقیر ہے جو گندگی کو اپنی ناک سے ٹھیلتے هوئیے چلتا ہے تو اصل میں ایمان ہو تو یس کا معیار قرآن و حدیث ہے اور اگر ایمان باقی نہ رہے تو پھر معیار بدل جائے گا پھر تو اسی میں خوش ہے کہ کام و دھن کی لذّت اور خوشی ہے آنکھوں کے نظارے ہیں دنیا کی صبح اور شام کے اندر مستی ہے دنیا کی فضاؤں کے اندر یہ سمجھتا ہے ک میں کامیاب ہوں وہ بھول جاتا ہے کہ وہ چند دنوں ک بعد جب یہ ہاتھ ڈھلکنے لگیں گے تو روک نہ پائے گا .

سوال: قرآن میں آتا ہے جو ایمان لائے اور طاغوت سے انکار کیا ،اور کہیں طاغوت کا ذکر بعد میں آتا ہے ،تو طاغوت کا کیا مطلب ہے؟

 جواب : طاغوت ہر وو چیز ہے ،جو الله کے راستے میں رکاوٹ بننے والی ہے.وہ  ساری بادشاہت ہے جو الله کے دین  کے علاوہ کسی اور دین کی  طرف بلائے . وہ یہ سارے حضرات ہیں جو آج ہمارے یہاں ،داتا ،دستگیر اور غوث کہلاتے ہیں.جنھوں نے اپنی لکھی ہوئی کتابوں میں الله کی کتاب کا انکار  کرکے نبی صلی الله علیہ وسلم  تک پر الزام لگایا ہےکہ یہ وہ ہیں جو اپنی طرف سے قرآن بنا کر اپنا شوق پورا کرنے کے لئے زینب کو ننگا نہاتے ہوئے دیکھ لیا اور ساری کتاب بدل ڈالی ،اپنا شوق پورا کرنے کے لئے قرآن کی سوره احزاب خود بنا ڈالی .یہ آج داتا کہلاتے ہیں علی جن کو داتا کہا جاتا ہے یہ لوگ ہیں .یہی طاغوت ہیں بلکل آپ دیکھ رہے ہیں یہ ایک نہیں.یہ تو میں نے مثال کے طور پر بیان کیا ہے ،پوری کتاب بھری ہوئی ہے .

سوال : لوگ کہتے ہیں کہ ہم بزرگوں کو اس لئے پکارتے ہیں کہ یہ الله کہ ہاں ہماری سفارش کرتے ہیں .اس کا کیا جواب ہے؟

جواب :پروردگار نے جو سب سے بڑا شرک بتایا ہے وہ یہی بتایا ہے.یہ لوگ بڑے چالاک اور ہوشیار اور زیرک ہیں.ان کو خود یہ خیال ہے کہ ہم ایسی بات کر رہے ہیں کہ جس کی  وجہ سے ہم پر تہمت لگ سکتی ہے جس کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے.اگر کوئی ان سے یہ پوچھ لے کہ یہ جو تم ان باباؤں کے دن مناتے ہو،انکو پکارتے ہو،انکے جھنڈے اٹھاتے ہو،انکے نام کی نذرونیاز کرتے ہو،مشکل کے وقت انکو آواز دیتے ہو،ساری بندگیاں یہیں انکے آستانوں پر جا کر پوری کرتے ہو،کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ الله کے برابر ہیں تو کہتے ہیں کہ نہیں،یہ حضرت کی درگاہ ہے،یہ ایسی اونچی بارگاہ ہے کہ ہم اس مقام تک کہاں پہنچ سکتے ہیں.ہم غریب لوگ ہیں ،ہماری کون سنتا ہے،یہ الله کہ محبوب ہیں.ہاں ان کو ہم ذریعہ بناتے ہیں.”مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَی” یہ ہم کو الله کے قریب کرتے ہیں.اور ہم انکی بندگی نہ کریں تو یہ کیسے خوش ہوں گے.اس لئے ہم اپنی جان لگا دیتے ہیں ،بندگی کی انتہا کر دیتے ہیں تا کہ یہ حضرات خوش ہو جایئں ،اور اس کے بعد الله کی بارگاہ میں ہماری بات پہنچا دیں .کیونکہ وہاں ہماری پہنچ نہیں سکتی اور ان کی ٹالی نہیں جاتی . اسی بارے میں مالک  فرماتا ہے  وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ  ذرا دیکھو ان کی ہوشیاری کو کہ بندگی اور پوجا ان کی کر رہے ہیں جن کے مطالق  ان کا خود خیال ہے کہ وہ مر گئے  ہیں اور ان کو نہ نقصان سے بچا سکتے ہیں اور نہ نفع پہنچا سکتے ہیں .اور جب ان سے کوئی پوچھے کہ کیا یہ کم عقلی ہے،کے اپنے ہاتھ سے تم نے انکو اپنا معبود بنایا ہے ،تم تو خود ان کے خالق ہو .ان کی قبر اگر کچی پڑی رہتی،تم اس کو پختہ نہ کرتے ،اس کے اوپر گنبد تعمیر نہ کرتے کلس نہ لگاتے،اس کے مجاور نہ بنتے ،خود پہلے چڑھا وا نہ چڑھاتے تو اس کے بعد کون ان کو مانتا.جن کے تم خود ایک مجازی خالق ہو،ان کے آگے ماتھا ٹیک رہے ہو،فرمایا اگر کوئی ان کو چھیڑ دے کہ یہ کیا بے عقلی ہے تو کہتے ہیں”هَؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللَّهِ ”کہ لاریب ،آسمان والے کی بات اور ہے لیکن یہ ہمارے سفارشی ہیں الله تک ہماری بات پہنچاتے ہیں.الله تعالی  فرماتا ہے:” أَتُنَبِّئُونَ اللَّهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ” تم لوگ الله کو اپنی دریافت بتاتے ہو اس کو اپنی سفارشی بتاتے ہو،اس کو ایک ایسی بات کی خبر دیتے ہو کہ اس نے آسمان اور زمین بناے اور اس نے تو کوئی ایسا سفارشی اور بات پہنچانے والا نہیں بنایا کہ بندوں کو جب کوئی تکلیف ہو تو ان کو یہ سہارا مل جاۓ ،یہ حضرت کے پاس جایئں اور حضرت ان کی بات الله تک پہنچا دیں اور میں تو اپنے دوسرے کاموں میں لگا ہوتا ہوں ،میں ہر وقت موجود نہیں ملتا.تم الله کو وہ چیز بتاتے ہو جو اس نے آسمان اور زمین  کو بنانے کے بعد نہیں بنائی .” سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ  فرمایا یہ بہت بڑا  شرک ہے.اور الله اس شرک سے بہت بلند و بالا اور پاک ہے. مالک فرماتا ہے  وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ مَنْ لَا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ یعنی اس سے بڑا بھٹکا ہوا اور کون ہے جو قبروالوں ں،مزاروالوں کو مدد کے لئے پکارے جو قیامت تک انکی پکاروں کا جواب نہیں دے سکتے ،اور جواب دیں بھی کیسے ”وَهُمْ عَنْ دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ  وہ تو انکی پکاروں سے ہی غافل ہیں ،وہ اپنے انجام کو پہنچ چکے ،انکو کیا خبر ،اور ہاں اگر یہ انبیا اور صلحا تھے.تو مالک جب انکو بتاۓ گا کہ تمہارے ساتھ یہ سلوک ہوا ہے وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ اور جب لوگ جمع کے جایئں گے حشر کے میدان میں ،اور الله انکو بتاۓ گا کہ تمہارے ساتھ انھوں نے یہ سلوک کیا،میرا حق تمہاری جھولی میں ڈالا ہے .کیا کہتے ہو،الله فرماتا ہے کہ یہ لوگ اپنے بچاریوں کے دشمن ہو جایئں گے” كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ ” اور ان کی بندگیوں کے سارے طریقوں کا کفر کرینگے اور کہیں گے کہ ہم نے تم کو کب کہا تھا کہ ہماری بندگی کرو ،ہمیں الله کے ساتھ شریک ٹہراؤ ،ہم نے تم کو کہا تھا کہ الله کے بندے بن جاؤ جیسے کہ ہم بندے ہیں .تو یہ سب الله نے بتا دیا اور فرمایا کہ یہ ایسے چالاک ہیں کہ  فوراً کہتے ہیں کہ اچھا ! بادشاہ کے پاس کوئی عرضی پہنچانا ہوتو کیا آپ براہ راست  پہنچ کر بادشاہ کے ہاتھ میں پکڑا دیں گے ،ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ کسی درباری کو ڈھونڈتے ہیں کہ وہ وزیر تک پہنچے ،پھر وزیر بادشاہ تک پہنچتا ہے.مالک کائنات نے اسی بات کو قرآن میں رد کیا ہے،فرمایا: ” فَلَا تَضْرِبُوا لِلَّهِ الْأَمْثَالَ ” کہ تم دنیا کہ درباری وزیر اور بادشاہ پر قیاس کر کے الله کے لئے اس قسم کی مثالیں بیان نہ کرو ،نادانو!اس فرق کو سمجھو کہ”  إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ” کہ سفارش کرنے والا تو وہ ہوتا ہے جو بادشاہ سے جا کر کہتا ہے کہ حضور اختیارات آپ کے پاس زیادہ ہیں لیکن علم میرے پاس زیادہ ہے،یہ میرا بھائی ہے پڑوس میں رہتا ہے بڑا خدمات گزار بھی ہے بڑا ایماندار بھی ہے،آپ کو اختیار میسر ہے،مجھ پر اعتماد کیجئے،آپ اسے نہیں جانتے،میں جانتا ہوں.تو مالک کائنات فرماتا ہے کہ بادشاہ اس لئے وزیر کا خیال کرتا ہے کہ وزیر کے بغیر اس کا کام نہیں چلتا،اسے پوراعلم نہیں ہے کہ اسکی حکومت میں کیا ہو رہا ہے،کہاں بغاوت ہونے والی ہے،کون فرمابردار ہے،خزانے کا کیا حال ہے.اس لئے اس نے وزیر کے ذریعے سے یہ قائدہ مقرر کر دیا ہے کہ وہ وزیر سے پوچھے اور وزیر اسے بتاۓ ،تب اسکو خبر ہوگی لہذا فرمایا : ” إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ” یعنی مالک کائنات تو ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے،اس کو کون بتاۓ گا،وزیر کی طرح سے کہ اختیارات آپ کے پاس زیادہ لیکن علم مجھے ہے.لیکن اس سارے افسانے کو جو انھوں نے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے گھڑ لیا ہے،ان کی ساری دلیلوں کو الله نے قرآن میں رد کر دیا ہے.

سوال : معراج میں کیا نبی صلے الله علیه و سلّم نے اپنے رب کو دیکھا تھا ؟

جواب : عائشہ رضی الله عنہا سے مسروق نے  پوچھا کہ کیا نبی صلے الله علیہ و سلم نے الله  کو  دیکھا  تھا . عائشہ  رضی الله عنہا نے جواب  دیا کہ  میرے تو رونگٹے کھڑے  ہو گئے تم نے یہ کیسی بات کہہ دی ! جس نے یہ کہا کہ نبی صلے الله علیہ و سلم نے الله کو دیکھا ،وہ جھوٹا ہے . ) بخاری ،کتاب التفسیر ،سورہ النجم ( لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ نبی صلے الله علیہ و سلم نے الله سے ہاتھ ملایا ، الله تو پردے میں تھا ، انگوٹھی سے پہچانا ، لیکن یہ انگوٹھی علی  رضی الله عنہ کی تھی ، جب آپ صلے الله علیہ و سلم کا پاؤں پھسلا تو ہمارے غوث صاحب نے  بڑھ کر تھام لیا اسی وجہ سے دستگیر کہلاتے ہیں . اسی قسم کی باتیں یہودیوں کی کتاب عهد نامہ عتیق  میں یعقوب علیہ السلام کے بارے میں بھی لکھی ہیں . یعقوب وہ اس معنی میں لیتے ہیں کہ سب سے بڑا پہلوان . ان کا الله سے کسی بات پر جنت میں تنازع  ہو گیا تو الله سے انہوں نے کشتی لڑی اور نعوذ باللہ الله کو پچھاڑ دیا . ابھی تک ان کی کتاب توریت میں لکھا ہوا ہے . اگر الله تعالیٰ اپنی آخری کتاب قران مجید کی حفاظت نہ فرماتا تو یہ باتیں اس کتاب میں بھی آجاتی .  کیماڑی کے مولوی یعقوب صحاب نے گیارہویں کی ایک محفل میں کہا کہ یہ لوگ کہتے ہیں اولیا الله میں طاقت نہیں جب کہ عالم یہ ہے کہ یہی ” حضور غوث پاک ” جب ماں کے پیٹ میں تھے . والدہ خوبصورت اور جوان تھیں . ایک غیر مرد نے بری نگاہ سے ان کو دیکھا ، ” حضور غوث پاک ” ماں کے پیٹ سے تلوار لے کر باہر آگئے اور اسے قتل کر دیا ! عالم یہ ہے کہ رام پور کے چیف جسٹس نے اپنی کتاب فلاح دارین میں لکھا ہے کہ ” غوث پاک کی پیدائش کے وقت ان کی والدہ درد زہ میں مبتلا ہوئی لیکن ان کی پیدائش نہیں ہوئی . والد پریشان ہو گئے ایک بزرگ کے پاس پہنچے   کہ بیوی تکلیف میں مبتلا ہے یہ معاملہ ہے . انہوں نے مراقبہ کیا اور بتایا کہ اس طرح ولادت نہیں ہو سکتی ، وہ سردار اولیا ہیں اس طرح برہنہ آنا نہیں چاہتے . انھوں نے کہا حضرت کچھ تو کیجئے . انھوں نے کہا اچھا یہ میرا صافہ لے جاؤ . اپنے سیاہ رنگ کے صافے سے ایک بالشت کا ٹکڑا کاٹ کر دیا اور کہا کہ اپنی بیوی سے کہو کہ اسے کھالے . پھر وہ کالا لنگوٹ پہن کر باہر آئے

سوال : گنبد خضراء کی تصویر جو کہ کاغذ اور کپڑے وغیرہ پر بنی ہوتی ہے اس کو اکثر لوگ گھروں میں برکت کیلئے لٹکاتے ہیں کیا اسکو توڑ دینا یا پھاڑ دینا چائیے

  جواب : گنبد خضراء کی تصویر کو پھاڑ دینا چاہیے کیونکہ یہ کھلا شرک ہے اور اس کی فوٹو جو گھروں اور مسجدوں میں لٹکے ہوتے ہیں وو خالص بت پرستی ہے اور اس کے بارے میں دو رائیں ممکن نہیں خود نبی علیہ سلام کی دعا ہے”الھم لا تجعل قبری وثنا یعبد

سوال : کیا نبی صلی الله علیہ و سلم کا سایہ تھا ؟

جواب : حدیث میں آتا ہے کہ الله کے نبی کی زوجہ محترمہ زینب رضی الله عنہا ایک سفر میں تھیں.انکے پاس دو اونٹ تھے.صفیہ رضی الله عنہا بھی الله کے نبی صلی الله علیہ و سلم کے نکاح میں آچکی تھیں.اب وہ بھی ام المو منین بن گئی تھیں.انکا اونٹ انتہائی تھکا ماندہ تھا تو الله کے نبی نے زینب رضی الله عنہا سے کھا کہ ایک اونٹ آپ کے پاس فاضل ہے اسے صفیہ رضی الله عنہا کو دی دیں تو انھوں نے کھا کہ اس یہودیہ کو؟کچھ ایسا انداز تھا جو عموما سوکن کے ساتھ ہوتا ہے.الله کے نبی ناراض ہو گئے.زینب رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک عرصہ گزرگیا نبی علیہ سلام نے مجھ سے التفات نہیں کیا.میں سخت پریشان تھی کہ کیا کروں.زینب رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں اپنے صحن میں بیٹھی ہوئی تھی،دن کا وقت اور سورج موجود تھا کہ میں نے اپنے سامنے ایک سایہ دیکھا اور سائے کا جو انداز تھا اس سے میں نے خیال کیا کہ یہ سایہ تو الله کے نبی کا معلوم ہوتا ہے.جب میں نے آنکھ اٹھا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ آپ صلی الله علیہ و سلم ہی  تشریف لائے ہیں اور آپ نے میری خطاؤں کو معاف کردیا ہے.یہ نبی علیہ سلام کے سائے کا ثبوت ہے

(ادارہ: یہ روایت سنن الکبریٰ نسائی میں ہے)

سوال : تصوف کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں ؟

جواب :”من یشاقق الرسول ….الخ “یعنی الله فرماتا ہے کہ جو شخص ہمارے نبی کی لائی ہوئی بات کو جھٹلادے اس بات کو ماننے سے انکار کرے اور جھگڑا کرے تو یہ نہیں کہ کسی نے انکار کیا اور ہم نے فورا “اس کے بربادی کا حکم صادر کردیا -یہ ہمارا طریقہ نہیں ہے۔ یہ ہماری دنیا اس کی آزمائش کے لئے ہے ۔اگروہ انکار کر کے جانا چاہتا ہے ہماری بات کے مقابلے میں شیطان کے راستے کو اختیار کرتا ہے تو ہم اس راستے کے لئے سہولت مہیا فرماتے ہیں اور آخر کار اس کا انجام یہ ہوگا کہ جہنم کی آگ کا وہ ایندھن  بنے گا اس سے زیادہ بربادی کرنے والی اور کوئی جگہ نہیں ہے۔تو یہ تصووف ہے۔الله فرماتا ہے کہ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ الله کی کوئی مثال نہیں ہے ۔اور یہ تصوف والے کہتےہیں کہ لا موجود الا الله کہ ہر چیز جو اس دنیا میں موجود ہے الله ہے،الله کی ذات کا ٹکرا ہے ۔ وہ ہم ہوں یا آپ ہون یہ گندی نالیوں میں بہتا ہوا نجاست کا انبار ہو یہ بھی الله کی ذات کا ٹکڑا ہے ۔ یہ کتا اور بلی بھی ایک کاغذ کے دس کروڑ حصّے کردو تو ہر حصّہ جو ہے الله کی ذات کا ٹکڑا ہے- یہ دین انہوں  نے ایجاد کیا اور خوش ہوئے کہ اس طرح سے شریعت کو ختم کردیا -جب تم الله کی ذات کے ٹکرے ہو تو سور کھاؤ،شراب پیو ،زنا کاری کی انتہا کردو،باباؤں کے دروں پر دستک ہی نہیں ماتھے ٹیک ٹیک کر مرو غم  کس بات کا ہے جب تم الله کی ذات کے حصّے ہو تو الله اپنی ذات کو تو جہنم کی آگ میں نہیں جلاَے گا -یہ سارا جو دین کا معاملہ ہے اس کو انہوں نے ختم کر ڈالا ہے ۔ کبھی ان تصوف والوں کے دل میں آیا تو شان کے ساتھہ خدائی کا دعویٰ کیا اور کبھی شوق چرایا تو بندگی میں لگ گے اور بندگی بھی ایسی کہ ان کے ہان ایک صلوۃ المعکوس بھی ہے کہ کویں میں الٹے لٹک کر نماز پڑھتے ہیں۔ بتائیں کیا انداز ہے۔ تو یہ تصوف ہے جس نے امّت کو برباد کر ڈالا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ تصوف سارے مسا لک کی رگوں کے اندر آ گیا ہے-اور اس ملک کے اندر یہ غضب ہوا کہ یھاں پہلے تصوف والوں کی خانقاہیں بنیں جو اپنی بربادی کی خواہاں ہوتے وہ وہاں جاتے پابوسی کرتے ،حضرت کے سامنے اپنی گردن جھکا دیتے قرآن و حدیث کے خلاف انکی خدائی کا دم بھرتے،اس طرح یہ لوگ برباد ہوتے۔لیکن اب بد قسمتی یہ خانقا ہیں موبائل ہو گئی ہیں۔متحرک بن گئی ہیں یہاں بھی راستے گلیوںمیں نظرآتی ہیں اور کبھی ایران جا رہی ہیں کبھی جاپان اور کبھی امریکہ اور انگلینڈ جا رہی ہیں تو یہ تصوف کی خانقا ہیں جو متحرک ہو کر ساری دنیا میں پھیل گئی ہیں انکا کیا عقیدہ ہے یہ بتا چکا ہوں انکے ذریعہ سے بندوں کی بربادی کا وہ پیغام ہے کہ الله جسے بچاۓ وہی بچے گا ۔

سوال : ڈاکٹر صاحب کیا سورہ فلق اور سورہ الناس تعویذ کی صورت میں گلے میں لٹکا سکتے ہیں ؟

جواب : بلکل نہیں . تعویذ لٹکانے کو نبی علیہ السلام نے شرک کہا ہے حدیث میں آتا ہے کہ آپ صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا  مَنْ عَلَّقَ تَمِيمَةً فَقَدْ أَشْرَكَ جس نے تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا . قرآن اس لیے نہیں آیا کہ اس کے تعویذ بنا بنا کر گلوں میں لٹکائے جائیں ہاں ان دونوں سورتوں  کو پڑھ کر اپنے اوپر دم کر سکتے ہیں. نبی صلی الله علیہ و سلم کا یہی طریقہ ہے

سوال :عام طور پر غلام رسول اور غلام مصطفیٰ  نام رکھے جاتے ہیں.قرآن و حدیث کی روشنی میں بتائے کہ یہ صحیح ہے یا غلط ؟

جواب : غلام رسول اور غلام مصطفیٰ نام رکھنا بلکل غلط ہے.کوئی بندہ غلام ہو سکتا ہے تو صرف الله کا ،کسی اور کا نہیں اور اگر اسکے معنی صرف نوکر کیلئے جائیں تب بھی صحیح نہیں ہے.الله تعالیٰ فرماتا ہے “لاتقولوا راعنا وقولوا انظرنا ” یعنی راعنا نہ کہا کرو بلکہ انظرنا کہا کرو.ایسی بات جومعنی کے لحاظ سے صحیح ہو اور باطل اس سے فائدہ اٹھانا چاہے تو ایسی بات اختیار کرو جس سے وہ ظالم  فائدہ نہ اٹھاسکے.اسی لئے اگر کوئی اس خیال سے کہ وہ غلام کے معنی بندہ کے نہیں لیتا جو کہ شرک ہے تو تب بھی یہ مشکوک چیز ہے،اسکو چھوڑ دینا چاہیے.غلام رسول کی جگہ غلام الله اور غلام مصطفیٰ کی جگہ غلام الرحمٰن ہوجاۓ تو اس میں کیا ہو جاۓ گا اور کیا چلا جائے گا ایسا اس لئے نہیں کیا جاتا کہ انکے نزدیک ایمان کی کوئی قدرو قیمت نہیں ہے

Questions answered by Abu Shahiryar

 جواب یہ روایت حدیث کی کتب ترمذی ، ابو داود وغیرہ  میں ایک سند سے ہے جس میں عَبَّاسٍ الجُشَمِيِّ  کا تفرد ہے- ان سے قتادہ نے سننے کا دعوی کیا ہے – عَبَّاسٍ الجُشَمِيِّ اس روایت کو ابو ہریرہ رضی الله  عنہ سے نقل کرتے ہیں –  عَبَّاسٍ الجُشَمِيِّ کا حال نا معلوم ہے صرف ان کو ابن حبان نے ثقہ قرار دیا ہے جو ان کا طریقه ہے کہ مجھول کو بھی ثقہ کہتے ہیں- ابن حبان اور حاکم اس روایت کو صحیح کہتے ہیں-

یہ  روایت عَنْ أَبِي الجَوْزَاءِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ کی سند سے بھی ترمذی میں نقل ہوئی ہے کہ

بعض صحابہ نے کسی قبرپراپنا خیمہ نصب کیا اوراس معلوم نہیں تھا کہ یہ قبرہے ، پس اس قبرمیں ایک انسان سورة .{. تبارك الذي بيده الملك .}.پڑھ رہا تھا یہاں تک کہ سورة ختم کردی ، جب حضور صلى الله عليه وسلم.کے پاس تشریف لائے تو عرض کیا يا رسول الله میں نے اپنا خیمہ ایک قبرپرنصب کیا اورمجھے معلوم نہیں تها کہ وه قبر ہے ، پس اس قبرمیں ایک انسان سورة .{. تبارك الذي بيده الملك .}.پڑھ رہا تھا یہاں تک کہ سورة ختم کردی ، رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ سورة عذاب قبرکوروکتی ہے عذاب قبرسے نجات دیتی ہے اس. (.صاحب قبر.). کو عذاب قبرسے نجات دیتی ہے ۔

بخاری،   أَبِي الجَوْزَاءِ  کی روایت کو فیہ نظر کہتے تھے جو ان کی جرح ہے

ایک اور روایت ہے جس میں اس کو الْمَانِعَةَ کہا گیا ہے لیکن اس کی سند میں بھی راوی عَرْفَجَةَ بْنِ عَبْدِ الْوَاحِدِ مجھول ہے

الغرض اس کی تمام اسناد ضعیف ہیں امام ترمذی نے ان کو حسن لکھا ہے لیکن بعد والوں نے حسن کو صحیح کر دیا

حسن روایت پر عقیدہ نہیں بنایا جاتا اس کو صرف لکھا جاتا ہے کیونکہ یہ ضعیف کی صنف سے ہے

جواب

یہ کہنا الله کی تمکنت میں کسی اور کو شریک کرنے کے مترادف ہے کیونکہ اللہ ملک الناس ہے یعنی انسانوں کا بادشاہ

سرور کا مطلب سردار ہے اور کائنات کا بادشاہ کون ہے سوائے الله کے

اسی طرح سرور کونین ، سرور دو عالم ، سرور لولاک کہنا بھی صحیح نہیں

صحیح بخاری کی حدیث  ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَخْنَى الأَسْمَاءِ يَوْمَ القِيَامَةِ عِنْدَ اللَّهِ رَجُلٌ تَسَمَّى مَلِكَ الأَمْلاَكِ

قیامت کے دن اللہ کے ہاں سب سے برے نام والا وہ شخص ہے جس کا نام شہنشاہ رکھا جائے

لیکن اج تو ان کو شہنشاہ سے بھی بڑھا کر کائنات کا سردار کہا جا رہا ہے

کہنے والے کہتے ہیں

نبی صلی الله علیہ وسلم  کے لئے سید کا لفظ حدیث میں آیا ہے ۔

عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مسلم : 2278

   ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا: میں قیامت کے دن بنی آدم کا سید (سردار) ہوں۔

لہذا ان کو کائنات کا سردار کہا جا سکتا ہے

لیکن کیا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے یہ نہیں کہا کہ

جس نے کہا کہ میں یونس بن متی علیہ السلام سے بہتر ہوں وہ جھوٹا ہے

انبیاء میں یونس علیہ السلام وہ نبی تھے جو اپنی ایک بات کی وجہ سے مچھلی کے پیٹ میں پھنس گئے لہذا اگر انبیاء میں کسی پر کوئی اعتراض ہو سکتا ہوتا تو وہ یونس علیہ السلام تھے اسی بنا پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے خاص ان کا ذکر کر کے یہ کہا

جو منقبت قیامت میں ملنے والی ہے اس کو ابھی سے پیش کر کے تمام انبیاء کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے کم تر کرنا مناسب نہیں ہے

جواب بخاری کی حدیث میں یہ بات خاص دور نبوت کے لئے بتائی گئی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی زندگی میں ایسا تھا

بخاری میں دو حدیثیں ہیں

من راٰنی فی المنام فقد راٰنی، فان الشیطان لا یتمثل فی صورتی

          جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے بے شک مجھے ہی دیکھا، کیونکہ شیطان میری شکل  نہیں بنا سکتا صحیح بخاری و صحیح مسلم

دوسری حدیث ہے

من رآني في المنام فسيراني في اليقظة، ولا يتمثل الشيطان بي» قال أبو عبد الله: قال ابن سيرين: «إذا رآه في صورته

جس نے مجھے حالت نیند میں دیکھا وہ جاگنے  کی حالت میں بھی دیکھے گا اور شیطان میری صورت نہیں بنا سکتا امام بخاری کہتے ہیں ابن سیریں کہتے ہیں اگر آپ کی صورت پر دیکھے

 ان دونوں حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بات نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور مبارکہ کی ہے جب بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جو مسلمان ہوئے لیکن نبی صلی الله علیہ وسلم سے  فورا ملاقات نہ کر سکے پھر ان مسلمانوں نے  دور دراز کا سفر کیا اور نبی کو دیکھا. ایسے افراد کے لئے بتایا جا رہا ہے کہ ان میں جو نبی صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھے گا وہ عنقریب بیداری میں بھی دیکھے گا اور یہ بات نبی صلی الله علیہ وسلم کی زندگی تک ہی محدود تھی کیونکہ اب جو ان کو خواب میں دیکھے گا وہ بیداری میں نہیں دیکھ سکتا

حمود بن عبد الله بن حمود بن عبد الرحمن التويجري کتاب الرؤيا میں لکھتے ہیں

المازري کہتے ہیں

احتمل أن يكون أراد أهل عصره ممن يهاجر إليه فإنه إذا رآه في المنام جعل ذلك علامة على أنه سيراه بعد ذلك في اليقظة

اغلبا اس سے مراد ان (نبی صلی الله علیہ وسلم) کے ہم عصر ہیں جنہوں نے ہجرت کی اور ان کو خواب میں دیکھا اور یہ (خواب کا مشاہدہ) ان کے لئے علامت ہوئی اور پھر آپ صلی الله علیہ وسلم کو بیداری میں بھی دیکھا

امام بخاری  نے بھی باب میں امام محمد آبن سیرین کا یہ قول لکھا ہے کہ

  یہ اس صورت میں ہے جب رسول صلى اللہ عليہ وسلم کو آپ ہی کی صورت میں دیکھا جائے

 یعنی شیطان تو کسی بھی صورت میں آ کر بہکا سکتا ہے ہم کو کیا پتا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کیسے تھے؟ صرف شمائل پڑھ لینے سے وہی صورت نہیں بن سکتی . اگر  آج کسی  نے دیکھا بھی تو آج اس کی تصدیق کس صحابی سے کرائیں گے؟

 لیکن جن دلوں میں بیماری ہے وہ اس حدیث سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ  نبی صلی الله علیہ وسلم کو آج بھی خواب میں دیکھنا ممکن ہے اور خواب پیش کرتے ہیں

بلال رضی الله تعالی عنہ کا خواب

ابن عساکر تاریخ الدمشق میں إبراهيم بن محمد بن سليمان بن بلال کے ترجمے میں لکھتے ہیں

إبراهيم بن محمد بن سليمان بن بلال ابن أبي الدرداء الأنصاري صاحب رسول الله (صلى الله عليه وسلم) أبو إسحاق روى عن أبيه روى عنه محمد بن الفيض أنبأنا أبو محمد بن الأكفاني نا عبد العزيز بن أحمد انا تمام بن محمد نا محمد بن سليمان نا محمد بن الفيض نا أبو إسحاق إبراهيم بن محمد بن سليمان بن بلال بن أبي الدرداء حدثني أبي محمد بن سليمان عن أبيه سليمان بن بلال عن أم الدرداء عن أبي الدرداء قال

  لما دخل عمر بن الخطاب الجابية سأل بلال أن يقدم  الشام ففعل ذلك قال وأخي أبو رويحة الذي أخى بينه وبيني رسول الله (صلى الله عليه وسلم) فنزل  داريا في خولان فأقبل هو وأخوه إلى قوم من خولان فقال لهم قد جئناكم خاطبين  وقد كنا كافرين فهدانا الله ومملوكين فأعتقنا الله وفقيرين فأغنانا الله فأن تزوجونا فالحمد لله وأن تردونا فلا حول ولا قوة إلا بالله فزوجوهما ثم إن بلالا رأى في منامه النبي (صلى الله عليه وسلم) وهو يقول له (ما هذه الجفوة يا بلال أما ان لك أن تزورني يا بلال فانتبه حزينا وجلا خائفا فركب راحلته وقصد المدينة فأتى قبر النبي (صلى الله عليه وسلم) فجعل يبكي عنده ويمرغ وجهه عليه وأقبل الحسن والحسين فجعل يضمهما ويقبلهما فقالا له يا بلال نشتهي نسمع اذانك الذي كنت تؤذنه لرسول الله (صلى الله عليه وسلم) في السحر ففعل فعلا سطح المسجد فوقف موقفه الذي كان يقف فيه فلما أن قال (الله أكبر الله أكبر ارتجت المدينة فلما أن قال (أشهد أن لا إله إلا الله) زاد تعاجيجها  فلما أن قال (أشهد أن محمدا رسول الله) خرج العواتق من خدورهن فقالوا أبعث رسول الله (صلى الله عليه وسلم) فما رئي يوم أكثر باكيا ولا باكية بعد رسول الله (صلى الله عليه وسلم) من ذلك اليوم قال أبو الحسن محمد بن الفيض توفي إبراهيم بن محمد بن سليمان سنة اثنتين وثلاثين ومائتين

 أبي الدرداء فرماتے ہیں کہ

جب عمر الجابیہ میں داخل ہوئے تو انہوں نے بلال سے کہا کہ شام آ جائیں پس بلال شام منتقل ہو گئے … پھر بلال نے خواب میں نبی کودیکھا کہ فرمایا اے بلال یہ کیا بے رخی ہے؟ کیا ہماری ملاقات کا وقت نہیں آیا .. پس بلال قبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر گئے اور روئے اور چہرے کو قبر پر رکھا … اس کے بعد حسن و حسین کی فرمائش پر آپ نے اذان بھی دی

 بلال بن رباح الحبشي رضی الله تعالی عنہ کی وفات سن ٢٠ ہجری میں ہوئی  اور ایک قول تاریخ الاسلام از ذھبی میں ہے

قَالَ يحيى بْن بكير: تُوُفيّ بلال بدمشق في الطاعون سنة ثماني عشرة.

بلال کی دمشق میں طاعون  سے سن ١٨ ہجری میں وفات ہوئی

 الذھبی اپنی کتاب سیر الاعلام  ج ١ ص ٣٥٨ میں اس روایت کو بیان کرنے کے بعد کہتےہیں

إِسْنَادُهُ لَيِّنٌ، وَهُوَ مُنْكَرٌ.

اس کی اسناد کمزور ہیں اور یہ منکر ہے

 ابن حجر لسان المیزان میں اور الذھبی میزان  میں اس راوی پر لکھتے ہیں

فيه جهالة

اس کا حال مجھول ہے

 ذھبی کتاب تاریخ الاسلام میں اس راوی پر لکھتے ہیں

مجهول، لم يروِ عنه غير محمد بْن الفيض الغسَّانيّ

مجھول ہے سوائے محمد بْن الفيض الغسَّانيّ کے کوئی اس سے روایت نہیں کرتا

 ام سلمہ رضی الله تعالی عنہا کا خواب

 ترمذی روایت کرتے ہیں

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ قَالَ: حَدَّثَنَا رَزِينٌ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي سَلْمَى، قَالَتْ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ، وَهِيَ تَبْكِي، فَقُلْتُ: مَا يُبْكِيكِ؟ قَالَتْ: رَأَيْتُ رَسُولَ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَعْنِي فِي المَنَامِ، وَعَلَى رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ التُّرَابُ، فَقُلْتُ: مَا لَكَ يَا رَسُولَ الله، قَالَ: “شَهِدْتُ قَتْلَ الحُسَيْنِ آنِفًا” هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ

 سلمی سے روایت ہے کہ میں نے ام المومنین ام سلمہ  رضی الله تعالی عنہا سے رونے کا سبب پوچھا اور کہا : کس شے نے آپ کو گریہ وزاری میں مبتلا کر دیا ہے؟  آپ نے کہا : میں نے خواب میں نبی صلی الله علیہ وسلم کی زیارت کی ہے . کا سر اور ریش مبارک گرد آلود تھی.میں نے عرض کی ، یارسول ،آپ کی کیسی حالت بنی ہوئی ہے ؟ رسول الله نے فرمایا: میں نے ابھی ابھی حسین کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا ہے

 ترمذی اور مستدرک الحاکم میں یہ روایت نقل ہوئی ہے

 اس کی سند میں سَلْمَى الْبَكْرِيَّةِ ہیں

 تحفة الأحوذي بشرح جامع الترمذي میں مبارکپوری لکھتے ہیں

هَذَا الْحَدِيثُ ضَعِيفٌ لِجَهَالَةِ سَلْمَى

سَلْمَى کے مجھول ہونے کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے

 کتاب مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح کے مطابق

 وَمَاتَتْ أُمُّ سَلَمَةَ سَنَةَ تِسْعٍ وَخَمْسِينَ

اور ام سلمہ کی وفات ٥٩ ھ میں ہوئی

 تاریخ کے مطابق حسین کی شہادت سن ٦١ ہجری میں ہوئی

 لہذا یہ ایک جھوٹی روایت ہے

 نور الدین زنگی کا خواب

  علي بن عبد الله بن أحمد الحسني الشافعي، نور الدين أبو الحسن السمهودي المتوفى٩١١ھ  کتاب  وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى  میں سن ٥٥٧ ھ پر لکھتے ہیں

 الملك العادل نور الدين الشهيد نے ایک ہی رات میں تین دفعہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا اور آپ ہر دفعہ فرما رہے ہیں

 أن السلطان محمودا المذكور رأى النبي صلّى الله عليه وسلّم ثلاث مرات في ليلة واحدة وهو يقول في كل واحدة: يا محمود أنقذني من هذين الشخصين الأشقرين تجاهه

اے  قابل تعریف! مجھ کو ان دو شخصوں سے بچا

 یہ دو اشخاص عیسائی تھے جو نبی صلی الله علیہ وسلم کا جسد مطہر حاصل کرنا چاہتے تھے

مثل مشھور ہے الناس علی دین ملوکھم کہ لوگ اپنے بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں اسی طرح یہ قصہ اتنا بیان کیا جاتا ہے کہ گویا اس کی سچائی قرآن و حدیث جیسی ہو

 مقررین حضرات یہ قصہ سنا کر بتاتے ہیں کہ یہودی سازش کر رہے تھے لیکن ریکارڈ کے مطابق یہ نصرانی سازش تھی

 وقد دعتهم أنفسهم- يعني النصارى- في سلطنة الملك العادل نور الدين الشهيد إلى أمر عظيم

اور نصرانیوں نے ایک امر عظیم کا ارادہ کیا بادشاہ عادل نور الدین الشہید کے دور ہیں

 اس کے بعد یہ خواب کا واقعہ بیان کرتے ہیں اور بعد میں پکڑے جانے والے عیسائی تھے

أهل الأندلس نازلان في الناحية التي قبلة حجرة النبي صلّى الله عليه وسلّم من خارج المسجد عند دار آل عمر بن الخطاب

اہل اندلس سے دو افراد دار ال عمر بن خطاب ،حجرے کی جانب مسجد سے باہر ٹھہرے ہوۓ ہیں

  اس قصے میں عجیب و غریب عقائد ہیں.  اول نبی صلی الله علیہ وسلم کو علم غیب تھا کہ دو نصرانی سازش کر رہے ہیں  دوئم انہوں نے الله کو نہیں پکارا بلکہ نور الدین کے خواب میں تین دفعہ ایک ہی رات میں ظاہر ہوئے . سوم نبی صلی الله علیہ وسلم نے نورالدین زنگی کو صلیبی جنگوں میں عیسائی تدبریوں کے بارے میں نہیں بتایا جن سے ساری امت مسلمہ نبرد آزما تھی بلکہ صرف اپنے جسد مطہر کی بات کی

  الله کا عذاب نازل ہو اس جھوٹ کو گھڑنے والوں پر. ظالموں الله سے ڈرو اس کی پکڑ سخت ہے .الله کے نبی تو سب سے بہادر تھے

 دراصل یہ سارا قصہ نور الدین زنگی  کی بزرگی کے لئے بیان کیا جاتا ہے جو صلیبی جنگوں میں مصروف تھے اور ان کے عیسائیوں سے  معرکے چل رہے تھے

 الغرض یہ تین مشھور خواب ناقابل اعتبار ہیں اور ان سے کچھ ثابت نہیں ہوتا خوابوں کی بنیاد پر حدیث کی روایت بھی ناقابل قبول ہے

شاہ عراق فیصل بن حسین المعروف فیصل اول کا خواب

فیصل بن حسین ١٩٢١ ع سے ١٩٣٣ ع تک عراق کے بادشاہ تھے اور شریف المکّہ کے تیسرے بیٹے. شریف المکہ عثمانی خلافت میں ان کی جانب سے حجاز کے امیر تھے. فیصل اول نے خلافت عثمانیہ ختم کرنے میں انگریزوں کا بھر پور ساتھ دیا.   بر صغیر کے مشھور شاعر علامہ اقبال نے ان پر تنقید کی کہ

کیا خوب امیر فیصل کو سنوسی نے پیغام دیا

تو نام و نسب کا حجازی ہے پر دل کا حجازی بن نہ سکا

لیکن روحانیت میں شاہ فیصل کا کچھ اور ہی مقام تھا انگریز بھی خوش اور الله والے بھی خوش

جو لوگ نبی صلی الله علیہ وسلم کا خواب میں انے کا عقیدہ رکھتے ہیں وہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ سن ١٩٣٢ عیسوی میں عراق میں جابر بن عبدللہ اور حذیفہ بن یمان رضوان الله علیھم شاہ عراق کے خواب میں آئے اور انہوں نی اس سے کہا کہ ان کو بچائے کیونکہ نہر دجلہ کا پانی ان کی قبروں تک رس رہا ہے

قبر ١قبر ٢

حیرت کی بات ہے کہ شیعہ حضرات بھی اس خواب کو لہک لہک کر بیان کرتے ہیں لیکن اس سے تو فیصل اول کی الله کی نگاہ میں قدر و منزلت کا اندازہ ہوتا ہے اور فیصل شیعہ عقیدے پر نہیں تھے

ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم خواب میں اتے ہیں اب کہا جا رہا ہے کہ صحابی بھی اتے ہیں گویا جو نبی کی خصوصیت تھی وہ اب غیر انبیاء کی بھی ہو گئی

ہمارے قبر پرست بادشاہوں کو  خوابوں میں انبیاء اور صحابہ نظر آ رہے ہیں اور وہ بھی صرف اپنے جسمکو  بچانے کے لئے

لیکن اب خواب نہیں آیا

حال ہی میں شام میں حکومت مخالف باغیوں نے ایک   قبر کشائی کی  جو صحابی رسول حجر بن عدی  المتوفی 51 ہجری کی طرف منسوب ہے لیکن حیرت ہے اس دفعہ ان  صحابی کو خیال نہیں آیا کہ دوسرے صحابہ تو اپنی قبروں کو بچانے کے لئے خوابوں میں آ جاتے ہیں مجھے بھی یہی کرنا چاہئے یہ صحابی نہ سنیوں کے خواب میں آئے نہ شیعوں کے خواب میں. جب قبر پر پہلا کلہاڑا پڑا اسی وقت خواب میں آ جاتے

قبر ٣

حجر بن عدی رضی اللہ تعالی علیہ سے منسوب قبر ، قبر کی بے حرمتی کے بعد

دوسری طرف یہی قبر پرست  ایک سانس میں کہتے ہیں کہ صحابہ کے جسد محفوظ تھے اور دوسری سانس میں روایت بیان کرتے ہیں الله نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ انبیاء کے جسموں کو کھائے تو بھلا بتاؤ کیا  مانیں اگر غیر نبی کا جسد بھی محفوظ ہے تو یہ انبیاء کی خصوصیت کیسے رہی

 الغرض  نبی صلی  الله علیہ وسلم نے دنیا کی رفاقت چھوڑ کر جنت کو منتخب کیا اور آج امت سے ان کا کوئی  رابطہ نہیں اور نہ ان کو امت کے حال کا پتا ہے ،ورنہ جنگ جمل نہ ہوتی نہ جنگ صفین، نہ حسین شہید ہوتے، بلکہ ہر لمحہ آپ امت کی اصلاح کرتے

انبیاء صحابہ اور اولیاء کا خواب میں انے کا عقیدہ سراسر غلط اور خود ساختہ ہے اور عقل سلیم سے بعید تر قبروں سے فیض حاصل کرنے کا عقیدہ رکھنے والے یہ کہتے ہیں کہ ہم ان قبروں کی عبادت نہیں کرتے بلکہ ان سے دعائیں کروانے جاتے ہیں الله ان کی سنتا ہے لیکن اگر الله ان کی سنتا ہے تو جب ان کی قبر پر پانی اتا ہے یا کوئی دوسرے دین کا شریر شخص شرارت کرنا چاہتا ہے تو اس وقت  بادشاہ لوگ کے خواب میں ان کو آنا پڑتا ہے سوچوں یہ کیا عقیدہ ہے  تمہاری عقل پر افسوس ! الله شرک سے نکلنے کی توفیق دے

نبی صلی الله علیہ وسلم اور امام ترمذی سے ناراضگی

ابو بکر الخلال کتاب السنہ میں بیان کرتے ہیں کہ امام ترمذی اس عقیدے کے خلاف تھے کہ روز محشر نبی صلی الله علیہ وسلم کو نعوذباللہ عرش پر الله تعالی اپنے ساتھ بٹھائے گا. ابو بکر الخلال ، نبی صلی الله علیہ وسلم کا خواب میں آنا نقل کرتے ہیں

وَسَمِعْتُ أَبَا بَكْرِ بْنَ صَدَقَةَ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي أَبُو الْقَاسِمِ بْنُ الْجَبَلِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ صَاحِبِ النَّرْسِيِّ قَالَ: ثُمَّ لَقِيتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ إِسْمَاعِيلَ فَحَدَّثَنِي، قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّوْمِ، فَقَالَ لِي: هَذَا التِّرْمِذِيُّ، أَنَا جَالِسٌ لَهُ، يُنْكِرُ فَضِيلَتِي “

عبدللہ بن اسمعیل کہتے ہیں کہ میرے خواب میں نبی صلی الله علیہ وسلم آئے اور کہا  یہ ترمذی!  میں اس کے لئے  بیٹھا ہوں اور یہ میری فضلیت کا انکاری ہے

ابو بکر الخلال نے واضح نہیں کیا کہ اس خواب میں  نبی صلی الله علیہ وسلم کا کہنا کہ میں بیٹھا ہوں، تو اصل میں وہ کہاں بیٹھے  ہیں . مبہم انداز میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بیٹھا دیا گیا ہے تاکہ امام ترمذی پر جرح ہو سکے

ایک دوسرا خواب بھی پیش کرتے ہیں

أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ الْعَطَّارُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ السَّرَّاجِ، قَالَ: ” رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو بَكْرٍ عَنْ يَمِينِهِ، وَعُمَرُ عَنْ يَسَارِهِ، رَحْمَةُ الله عَلَيْهِمَا وَرِضْوَانُهُ، فَتَقَدَّمْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِ عُمَرَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ الله، إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَقُولَ شَيْئًا فَأَقْبَلَ عَلَيَّ، فَقَالَ: قُلْ، فَقُلْتُ: إِنَّ التِّرْمِذِيَّ يَقُولُ: إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ لَا يُقْعِدُكَ مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ، فَكَيْفَ تَقُولُ يَا رَسُولَ الله، فَأَقْبَلَ عَلَيَّ شِبْهَ الْمُغْضَبِ وَهُوَ يُشِيرُ بِيَدِهِ الْيُمْنَى عَاقِدًا بِهَا أَرْبَعِينَ، وَهُوَ يَقُولُ: «بَلَى وَالله، بَلَى وَالله، بَلَى وَالله، يُقْعِدُنِي مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ، بَلَى وَالله يُقْعِدُنِي مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ، بَلَى وَالله يُقْعِدُنِي مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ، ثُمَّ انْتَبَهْتُ

خواب میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ یہ ترمذی اپ کی فضیلت کا انکاری ہے کہ اپ کو عرش رحمان پر بٹھایا جائے گا نبی صلی الله علیہ وسلم نے کہا بلاشبہ ایسا ہو گا

استغفر الله ! اس طرح کے عقائد کو محدثین کا ایک گروہ حق مانتا آیا ہے

الله کا شکر ہے کہ  بدعتی عقائد پر کوئی نہ کوئی محدث اڑ جاتا ہے اور آج ہم فیصلہ کر سکتے ہیں کہ حق کیا ہے ,مثلا یہ عقیدہ  کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عرش پر بٹھایا جائے گا اور انبیاء کے اجسام سلامت رہنےکا بدعتی عقیدہ جس کو امام بخاری اور ابی حاتم  رد کرتے ہیں

حدیث میں اتا ہے کہ

میری اُمت میں مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو میری وفات کے بعد آئیں گے اور ان کی خواہش ہوگی کہ وہ مجھے دیکھنے کے لئے اپنے اہل و مال سب کچھ صَرف کردیں 

اس سے ظاہر ہے کہ نبی کو خواب میں دیکھنا ممکن نہیں بلکہ اگر کوئی نبی کو دیکھنا چاہتا ہے تو کیا صرف  سوتا رہے  کہ ہو سکتا ہے نبی صلی الله علیہ وسلم خواب میں آ جائیں حدیث میں ہے کہ وہ اہل و مال تک صرف کرنا چاہیں گے کیونکہ وہ دیکھ نہیں پائیں گے

ابن حجر فتح الباری  ص ۳۸۴ میں بتاتے ہیں کہ حاکم روایت کرتے ہیں کہ

فَأَخْرَجَ الْحَاكِمُ مِنْ طَرِيقِ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَنَامِ قَالَ صِفْهُ لِي قَالَ ذَكَرْتُ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ فَشَبَّهْتُهُ بِهِ قَالَ قَدْ رَأَيْتُهُ وَسَنَدُهُ جَيِّدٌ

ایک شخص نے عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں نے حسن بن علی رضی الله عنہ کی شکل کے ایک شخص کو دیکھا ہے اس پر انہوں نے کہا تم نے نبی کو دیکھا ہے حالانکہ حیرت ہے کسی صحیح روایت میں نہیں  کہ خود نبی صلی الله علیہ وسلم اپنے ہی کسی صحابی کے خواب میں  آئے ہوں. کیا وہ صحابہ سے ناراض تھے؟ پھر عبد الله بن عباس اور ابن زبیر میں اپس میں اختلاف پر ابن عباس طائف جا کر قیام پذیر ہوئے لیکن اس اختلاف کو ختم کرنے نبی صلی الله علیہ وسلم نہ ابن عباس کے خواب میں آئے نہ ابن زبیر رضی الله عنہ کے

مستدرک الحاکم کی اس روایت  کو اگرچہ الذھبی نے صحیح کہا ہے لیکن اسکی  سند میں عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ  ہے جو مظبوط راوی نہیں ہے تهذيب التهذيب ج 6/ 434- 435 کے مطابق اس پر  يحيى القطان نے کلام کیا ہے

وقال صالح بن احمد عن علي بن المديني: سمعت يحي بن سعيد يقول: ما رأيت عبد الواحد بن زياد يطلب حديثاً قط بالبصرة ولا بالكوفة، وكنا نجلس على بابه يوم الجمعة بعد الصلاة أذاكره حديث الأعمش فلا نعرف منه حرفاً

صالح بن احمد عن علي بن المديني کہتے ہیں میں نے یحیی کو سنا انہوں نے کہا میں نے کبھی بھی عبد الواحد کو بصرہ یا کوفہ میں حدیث طلب کرتے نہ دیکھا اور ہم  جمعہ کے بعد دروازے پر بیٹھے تھے کہ اس نے الاعمش کی حدیث ذکر کی جس کا ایک حرف بھی ہمیں پتہ نہ تھا

کہا جاتا ہے کہ  علمائے اُمت کا اس پر اجماع ہے کہ اگر خواب میں نبی صلى اللہ عليہ وسلم کسی کو کوئی ایسی بات بتائیں یا کوئی ایسا حکم دیں جو شریعت کے خلاف ہے تو اس پر عمل جائز نہ ہوگا  لیکن یہ احتیاط کیوں اگر حلیہ شمائل کے مطابق ہو اور اپ کا عقیدہ ہے کہ شیطان،  نبی صلی الله علیہ وسلم کی شکل بھی نہیں بنا سکتا تو اس خوابی حکم یا حدیث کو رد کرنے کی کیا دلیل ہے. دوم یہ اجماع کب منعقد ہوا کون کون شریک تھا کبھی نہیں بتایا جاتا

کہا جاتا ہے نبی صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھنا ان کی خصوصیت ہے اس کا مطلب ہوا کہ جو لوگ یہ دعوی کریں کہ کوئی ولی یا صحابی خواب میں آیا وہ کذاب ہیں کیونکہ اگر یہ بھی خواب میں آ جاتے ہوں تو نبی کی خصوصیت کیسے رہی؟

زبیر علی زئی اپنے مضمون محمد اسحاق صاحب جہال والا : اپنے خطبات کی روشنی میں میں لکھتے ہیں

علامہ رشید رضامصری اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ مفتی محمد عبدہ (رحمہ اللہ) نے خواب میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھا اور انہوں نے آپ سے پوچھا : یا رسول اللہ ! اگر احد کے دن اللہ تعالیٰ جنگ کے نتیجہ کے بارے میں آپ کو اختیار دیتا تو آپ فتح پسند فرماتے یا شکست پسند فرماتے ؟ تو آپ نے جواب دیا کہ شکست کو پسند کرتا حالانکہ ساری دنیا فتح کو پسند کرتی ہے ۔(تفسیر نمونہ بحوالہ تفسیر المنار ۹۲/۳)” (خطباتِ اسحاق ج ۲ ص ۱۹۳، ۱۹۴)
تبصرہ : اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ محمد عبدہ (مصری، منکرِ حدیث بدعتی) نے خوا ب میں ضرور بالضرور رسول اللہ ﷺ کو ہی دیکھا تھا ۔ کیا وہ آپﷺ کی صورت مبارک پہنچانتا تھا ؟ کیا اس نے خواب بیان کرنے میں جھوٹ نہیں بولا؟

 اہل حدیث علماء نبی کا خواب میں انا مانتے ہیں ایک منکر حدیث دیکھے تو ان کو قبول نہیں – نبی صلی الله علیہ وسلم کی صورت کس اہل حدیث نے دیکھی ہے یہ زبیر علی نہیں بتایا

غیر مقلدین کا ایک اشتہار نظر سے  گزرا

khwab-ahl-hadith

نبی صلی الله علیہ وسلم منکرین حدیث کے خواب میں آ رہے ہیں اہل حدیث کے خواب میں ا رہے ہیں صوفیاء کے خواب میں آ رہے ہیں عقل سلیم رکھنے والے سوچیں کیا یہ مولویوں کا جال نہیں کہ اپنا معتقد بنانے کہ لئے ایسے انچھر استعمال کرتے ہیں

نبی صلی الله علیہ وسلم اپنی حیات مبارکہ میں صحابہ کو خواب میں نظر آئے  ہوں گے اور پھر صحابہ نے ان کو بیداری میں بھی دیکھا ہو گا لیکن آج ہم میں سے کون اس شرط کو پورا کر سکتا ہے ؟ نبی صلی الله علیہ وسلم کا خواب میں آنا ان کی زندگی تک ہی تھا وہ بھی ان لوگوں کے لئے جو اسلام قبول کر رہے تھے اور انہوں نے نبی کو دیکھا نہیں تھا. نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی صحیح حدیث میں ان کا خواب میں آنا بیان نہیں ہوا . ہم تو صحابہ کا پاسنگ  بھی نہیں!

الله ہم سب کو ہدایت دے

جواب

 ابوالمغیث عبدالله بن احمد بن ابی طاهر جو  حسین بن منصور حلاج کے نام سے مشھور ہے صوفیاء کے مشاہیر میں سے ہے اس کو زندیق اور کافر کہا گیا ہے عقیدے میں حلول کا قائل  تھا، جنید البغدادی کا شاگرد تھا

  الذہبی نے سیر الاعلام النبلاء ج ١٤ ص٣٢٥ پر  الحلاج ( المتوفی ٣٠٩ ھ) کے اشعار نقل کیے ہیں

سبحان من أظهر ناسوته  سر سنا لاهوته الثاقب

تم بدا في خلقه ظاهرا  في صورة الآكل والشارب

حتى لقد عاينه خلقه  كلحظة الحاجب بالحاجب

نہایت پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے ناسوت کو ظاہر کیا         بھڑکتے ہوۓ لاھوت کو چمکتے ہوۓ راز سے

پھر وہ اپنی مخلوق میں ظاہر ہوا                    ایک کھاتے پیتے کی طرح

حتیٰ کہ اس کی مخلوق نے اس کو دیکھا       جسے بھوئیں حرکت کریں

منصور نے یہ بھی کہا

مزجت روحي في روحك كما  تمزج الخمرة بالماء الزلال فإذا مسك شئ مسني  فإذا أنت أنا في كل حال

میری روح، تیری روح میں اس طرح مل گئی ہے جسے شراب پانی میں ، جسے تو محسوس کرتا ہے اسے میں محسوس کرتا ہوں تو. میں  ہوں ، ہر حال میں

 منصور نے اپنے اشعار میں ناسوت کا لفظ استعمال کیا ہے اور لاہوت و ناسوت کی اصطلاحات اسلامی تصوف میں بکثرت استعمال ہوتی ہیں-   ان کا ماخذ کیا ہے اور کیا مفہوم ہے؟

الزبیدی کتاب تاج العروس من جواهر القاموس  ج١ ص ٨٢٤١ میں ان کی وضاحت کرتے ہیں کہ

الصحيح أنه من مولدات الصوفية أخذوها من الكتب الاسرائيلية وقد ذكر الواحدى أنهم يقولون لله لا هوت وللناس ناسوت وهى لغة عبرانية تكملت بها العرب قديما

صحیح بات یہ ہے کہ اس کو صوفیاء نے پیدا کیا ہے اور اس کو انہوں نے اسرائیلی کتب سے اخذ کیا ہے اور بے شک الواحدی نے   بیان کیا ہے کہ یہ لاہوت کو الله کے لئے بولتے ہیں اور ناسوت کو انسانوں کے لئے، اور یہ عبرانی زبان کے الفاظ ہیں اور اسی طرح قدیم عرب میں بولا جاتا تھا

 انجیل  لوقا اصلا یونانی زبان میں لکھی گئی تھی. جب عرب نصرانیوں نے اس کا ترجمہ عربی میں کیا تو انہی قدیم الفاظ کو چنا تاکہ عیسیٰ کی انسانی اور الوہی جہتوں کی وضاحت ھو سکے

داود بن عمر الأنطاكي، المعروف بالأكمه (المتوفى: 1008هـ) اپنی کتاب تزيين الأسواق في أخبار العشاق  میں لکھتے ہیں کہ

والناسوت واللاهوت ألفاظ وقعت في الانجيل فتأولها لوقا

اور الفاظ ناسوت اور لاہوت انجیل میں واقع ہوۓ ہیں  لوقا (کی انجیل) سے رجوع کریں ۔

مزید لکھتے ہیں کہ

فقال أن عيسى ترع الناسوت يعني الحصة البشرية وأخذ اللاهوت يعني الحصة الالهية في ناسوته

انہوں (لوقا)  نے کہا کہ کہ یسوع میں ناسوت تھا یعنی حصہ انسانی اور لاہوت حصہ  لیا،  یعنی الوہی حصہ جو ناسوت میں تھا

اسلام میں وہ پہلا شخص جس نے لاھوت اور ناسوت کی اصطلاحات استعمال کیں وہ منصور بن الحللاج تھا اور اس نے حلول کا دعوی کیا

 ابن خلكان البرمكي الإربلي (المتوفى: 681هـ)  کتاب  وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان میں لکھتے ہیں

وكان في سنة 299 ادعى للناس أنه إله وأنه يقول بحلول اللاهوت في الأشراف من الناس

اور سن ٢٩٩ ھ میں منصور نے الہ ہونے کا دعوی کیا اور کہا کہ  اچھے لوگوں میں لاھوت حلول کرتا ہے

حللاج نے یہ دعوی کیا کہ الله اس میں حلول کر گیا ہے . ابن خلکان نے حللاج کے وہ اشعار نقل کیے ہیں

جو  اس نے سولی کے وقت صلیب پر بولے تھے

وقال أبو بكر ابن ثواية القصري: سمعت الحسين بن منصور وهو على الخشبة يقول:

طلبت المستقر بكل أرض … فلم أر لي بأرض مستقرا  

 أطعت مطامعي فاستعبدتني … ولو أني قنعت لكنت حرا

ابو بکر ابن ثواية القصري  کہتے ہیں کہ میں نے حللاج کو صلیب پر کہتے سنا

میں نے کل زمیں میں مستقر طلب کیا                  پر کوئی مستقر نہ ملا

میں نے اپنے خیال کی اطاعت  کی اوراسکا اسیر ہوا             اگر میں اسی پر قناعت کرتا تو آزاد ہوتا

بہر کیف آخری دم تک حلولی سوچ کی آمد ہوتی رہی

جو بات اہم ہے وہ یہ کہ حللاج کے اس عمل کے بعد وہ گمراہ صوفی سلسلوں میں بہادری کا نشان بن گیا اور اس کی تعریف میں اشعار لکھے گیے

اٹھے گا انا الحق کا نعرہ

 رومی اور عطار نے  انھیں ولی اور شہید حق کہا ہے اور وہ حق ان صوفیاء کے نزدیک یہ ہے کہ الله کی ذات انسان میں جذب و حلول کر جاتی ہے جو عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ صرف عیسیٰ میں ہوا اور ان صوفیاء کے نزدیک ہر انسان میں ہو سکتا ہے اگر وہ سلوک کی منازل طے کر لے

کتاب الطواسین کے نام سے اس کا دیوان بھی چھپ چکا ہے- منصور  کا شعر ہے

میں نے بہ نگاہ قلب رب کو دیکھا

پوچھا: تو کون ہے؟

بولا: تو

یعنی الله نے منصور سے کہا میں تو،  تو ہی ہوں-  یہ ایسا ہی ہے کہ آئنیہ میں عکس انسان اپنا ہی دیکھتا ہے لہذا الله کا پرتو انسان ہو گیا

حلاج کی تعلیمات کو سمجھنے کے لئے اسلامی کتب پڑھنا ایک غیر متعلق ہو گا  کیونکہ حلاج اسلام کا مدعی نہیں تھا وہ اس عقیدے کا دعوی کر رہا تھا جو عوام کا نہیں خواص کا تھا کہ الله کی ذات ہر انسان میں  جذب ہو سکتی ہے

مغرب میں لوئس ماسگنوں نے اس پر کافی تحقیق کی ہے اور اس کو وجہ عیسیٰ علیہ السلام (سے منسوب ) اور حلاج کے دعوی  الوہیت میں مماثلت ہے

 متصوفین کے نزدیک سلوک کی منازل میں ایک درجہ آتا ہے کہ بندہ اس قدر ذات الہی کی فکر میں جذب ہوتا ہے کہ اس حالت میں اس کو ہوش نہیں رہتا- اس کو صحو یا سکر کہا جاتا ہے- اسی کیفیت میں منصور سے خرق عادت واقعات کا ظہور ہوا اور کلمات ادا ہوئے اور اس کیفیت میں ہی اس کو سولی دے دی گئی- مورخین کے مطابق حلاج کا انا الحق کہنا قتل کا موجب نہیں تھا بلکہ عوام کا میلان اس کی طرف ہو رہا تھا جو خرق عادت واقعات کے مسلسل ظہور کی وجہ سے اس کی طرف راغب ہو رہے تھے لہذا منصور کو پابند سلاسل کیا گیا اور کئی سال بعد عباسی خلیفہ مقتدر باللہ کے دور میں وزیر حامد بن عباس کے کان بھرنے کی بنا سولی دی گئی

تصوف اور اس کا سارا لیٹرچر اس پر مبنی ہے کہ دین اسلام میں ایک شریعت ہے، ایک طریقت ہے – منصور طریقت پر عمل کر رہا تھا اور مخالفین شریعت پر عمل کر رہے ہیں- لیکن یہ دین کی تقسیم، بندہ ایجاد ہے اس کی جڑیں قرآن و حدیث میں نہیں

جواب

قرآن کی سوره النحل کی آیت ہے

وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ الله لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ (٢٠) أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ (٢١) النحل

اور جن کویہ لوگ الله کے علاوہ پکار رہے ہیں انہوں نے کچھ تخلیق نہیں کیا ( بلکہ) وہ خود مخلوق ہیں مردہ بے جان ہیں اور انہیں  پتا نہیں کہ کب دوبارہ زندہ ہونگے

ایک صاحب بنام محمّد علی چے چا  لکھتے ہیں

کپٹین صاحب نے اموات غیر احیاء کا ترجمہ ایک جگہ یوں کیا ہے ” موت کے بعد وہ بلکہ مردہ ہیں ان میں جان کی رمق تک باقی نہیں ہے” (حوالہ کتابچہ وفات ختم الرسل صفحہ ٢)  اور دوسری جگہ اس کا معنی کیا ” مردہ ہیں نہ کہ زندہ ” (حوالہ کتابچہ یہ مزار یہ میلے صفحہ ٣) یہ دونوں ترجمے غلط اور مطلب صحیح نہیں ہیں اور یہ دونوں ترجمے اور مطلب کپٹین صاحب کی اپنی ذہنی ایجاد اور اختراع ہے … حقیقت یہ ہے کہ ان آیات سے موت کے بعد کی زندگی کی نفی نہیں ہوتی بلکہ خود یہ آیت موت کے بعد ایک خاص قسم کی زندگی کی دلیل ہے کونکہ آیت کے آخر میں الله تعالی فرماتے ہیں کہ ان کو شعور نہیں کہ وہ قبروں سے کب اٹھائے جائیں گے یعنی ان کو قبروں سے اپنے اٹھنے کا شعور نہیں جزا و سزا کا شعور ہے اور یہ شعور حیات کو (مستلزم) لازم ہے

ایک مولوی قادری تونسوی کتاب اسلام کے نام پر ہوی پرستی میں لکھتا ہے

افسوس کہ موصوف نے اس آیت کے تراجم ملاحظه نہیں کیے

شاہ عبدالقادر  ترجمہ کرتے ہیں مردے ہیں جن میں جان نہیں

اشرف علی تھانوی  ترجمہ کرتے ہیں  وہ (معبودین) مردے (بے جان) ہیں

احمد رضا خان ترجمہ کرتے ہیں   مردے ہیں زندہ نہیں

فتح محمّد جالندھری  ترجمہ کرتے ہیں وہ لاشیں ہیں بے جان

سید شببر احمد ترجمہ کرتے ہیں مردے ہیں زندگی سے عاری

مودودی ترجمہ کرتے ہیں  مردے ہیں نہ کہ زندہ

محمودالحسن ترجمہ کرتے ہیں مردے ہیں جن میں جان نہیں

محمّد جونا گڑھی  ترجمہ کرتے ہیں  مردے ہیں زندہ نہیں

ڈاکٹر عثمانی کے ترجمے  اوپر دیے گئے ترجموں کے عین مطابق ہیں. آیت کا مقصد مشرکین کے عقیدے پر ضرب لگانا ہے کہ جن کو مسند الوہیت پر بٹھا دیا گیا ہے وہ لوگ تو  مخلوق تھے اور اب مردہ ہیں اور غیب سے لا علم ہیں. ہاں عالم ارواح میں (برزخ) میں ان کو سزا  (عذاب) و راحت کا شعور ضرور ہے. اس آیت سے قبر کی جس خاص قسم کی زندگی کا آپ نے استخراج کیا ہے اس کا اس آیت میں کوئی تذکرہ نہیں. فتح محمّد جالندھری  صاحب نے تو لاش کہہ کر کسی بھی شعور کی یکسر نفی کر دی ہے جس سے آپ کے استدلال کی عمارت زمیں بوس ہو جاتی ہے

ایک اہل حدیث عالم لکھتے ہیں

وَمَا یَشْعُرُوْنَ أَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ (النحل:۲۱)[ ’’ اور انہیں شعور نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے۔‘‘ ]خاص شعور کی نفی ہے کہ انہیں اپنے اٹھائے جانے کے وقت کا شعور نہیں۔ اس سے ’’ مردہ ہونے کے بعد شعور ہونے ‘‘ کو اخذ کرنا درست نہیں۔ کیونکہ خاص کی نفی سے عام کی نفی نہیں نکلتی۔ پھر پہلے کتاب و سنت کے دلائل سے ثابت کیا گیا کہ موت کے بعد قبر و برزخ میں ثواب و عذاب ہے، زندگی ہے ، علم و شعور ہے، بلکہ بعض مواقع پر بعض چیزوں کا سماع بھی ہے۔ جیسے قرع نعال اور قلیب بدر والی احادیث میں گزرا۔

 شعور کا تعلق روح سے ہے اور مردہ کا جسد بے جان ہے.  آدم میں زندگی نفخ روح سے آئی اور قبض روح سے چلی گئی. روح شعور کے لئے ضروری ہے یہی وجہ ہے کہ راویوں نے دنیاوی قبر میں سوال جواب کے وقت روح کو لوٹوایا ہے.  قرآن جسد میں شعور کی نفی کر رہاہے . روایات میں اتا ہے کہ میت زائر کو پہچانتی ہے وہ قدموں کی چاپ سنتی ہے وہ قبر سے باہر کھڑے لوگوں سے مانوس ہوتی ہے وہ چیخ مارتی ہے یہ سارے کام شعور کے بغیر ممکن نہیں جبکہ قرآن کہتا ہے کہ اموات ہیں بے جان ہیں اور ان کو شعور نہیں، روح کا تعلق جسد سے ماننے کی صورت میں قرآن کا انکار ہوتا ہے روح کو جسد میں ڈالنے سے قرآن رد ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ روایات کو قرآن کی روشنی میں پرکھنا ضروری  ہے اور یہ سنت صحابہ ہے عائشہ  رضی الله تعالیعنہ نے سماع الموتی کا رد کیا  عمر رضی اللہ تعالی نے ایک صحابی سے   کہا کہ ہم تمہاری روایت کا وبال تم پر ڈالتے ہیں

جواب

ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ  روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا

 جس نے میری قبر کے پاس دورد پڑھا تو میں اسے خود سنتا ہوں اور جس نے مجھ پر دور سے پڑھا تو وہ مجھے پہنچایا جاتا ہے

یہ روایت أمالي ابن سمعون الواعظ، بیہقی کی شعب الإيمان، تاريخ دمشق لابن عساكر،  طبقات الشافعية الكبرى  میں بھی بیان ہوئی ہے لیکن اس کی سند میں محمّد بن مروان السدی ہے جو شدید ضعیف راوی ہے.

 کتاب التَّنويرُ شَرْحُ الجَامِع الصَّغِيرِ  کے مطابق وقال العقيلي: حديث لا أصل له، وقال ابن دحية: موضوع، تفرد به محمَّد  بن مروان السدي  تركوه واتهم بالكذب، ثم أورد له هذا الخبر

اور عقیلی کہتے ہیں حدیث کی کوئی اصل نہیں اورابن دحية کہتے ہیں گھڑی ہوئی ہے اس میں محمّد بن مروان کا تفرد ہے جس کو ترک کیا گیا ہے اور اس پر کذب کا الزام ہے اور پھر وہ اس خبر کے ساتھ آیا ہے

 اس روایت کی ایک دوسری سند بھی پیش کی جاتی ہے جس کو ابن حجر، جید  یعنی اچھی قرار دیتے ہیں  بسند جید (فتح الباری: جلد٦ ص٣٥٢ )۔ سخاوی کہتے ہیں: وسند جید (القول البدیع: ص١١٦)۔ ملاعلی قاریؒ فرماتے ہیں: سند جید (مرقات: جلد٢ص١٠)۔  شبیر احمد عثمانی اس کو بسند جید قرار دیتے ہیں۔ (فتح الملھم: جلد ١ص٣٣٠)

ابو شیخ کی کتاب الثواب یا کتاب الصلاہ اب مفقود ہیں لیکن اس روایت کی سند عون المعبود دار الكتب العلمية – بيروت  کے مطابق ہے

وَأَخْرَجَ أَبُو الشَّيْخ فِي كِتَاب الصَّلَاة عَلَى النَّبِيّ صَلَّى الله عَلَيْهِ آلِهِ وَسَلَّمَ : حَدَّثَنَا عَبْد الرَّحْمَن بْن أَحْمَد الْأَعْرَج حَدَّثَنَا  الحسين بْن الصَّبَّاح حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَة حَدَّثَنَا الْأَعْمَش عَنْ أَبِي صَالِح عَنْ أَبِي هُرَيْرَة قَالَ قَالَ رَسُول الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” مَنْ صَلَّى عَلَيَّ عِنْد قَبْرِي سَمِعْته ، وَمَنْ صَلَّى عَلَيَّ مِنْ بَعِيد أُبْلِغْته ، قَالَ اِبْن الْقَيِّم فِي جَلَاء الْأَفْهَام : وَهَذَا الْحَدِيث غَرِيب جِدًّا .

اس روایت کو ابو الشیخ اصبہانی اپنی  کتاب الصَّلَاة  میں اس سند سے بیان کرتے  ہیں کہ ہم سے عبد الرحمن بن احمد العرج نے بیان کیا ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم سے الحسين بن الصباح نے بیان کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم سے ابو معاویہ نے بیان کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم سے الأعمش نے بیان کیا۔ وہ ابو صالح سے اور وہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ  روایت کرتے ہیں

یہی سند ابن قیم جلاء الافہام میں بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں : وَهَذَا الْحَدِيث غَرِيب جِدًّا یہ حدیث بہت انوکھی ہے

الحسين بْن الصَّبَّاح مجہول راوی ہے.  اس کے بر عکس الحسن بْن الصَّبَّاح بن محمد البزار ، أبو على الواسطى ثم البغدادى المتوفی ٢٤٩  ھ  ثقه ہیں لیکن عبد الرحمن بن أحمد الزهري نے ان سے روایت سنی ہے واضح نہیں

 أبِي الشيخ الأصبهاني (المتوفى: 369هـ) کی   کتاب  طبقات المحدثين بأصبهان والواردين عليها کے مطابق   عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَحْمَدَ الزُّهْرِيُّ يُكْنَى أَبَا صَالِحٍ الْأَعْرَجَ، تُوُفِّيَ سَنَةَ ثَلَاثِمِائَةٍ. عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَحْمَدَ الزُّهْرِيُّ کی وفات ٣٠٠ ھ میں ہوئی لہذا کم از کم ٥١ سال پہلے یہ روایت سنی ہو گی

البانی کتاب سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة  میں   اس روایت کی سند کے پہلے راوی کے لئے لکھتے  ہیں

قلت: ورجال هذا السند كلهم ثقات معروفون غير الأعرج هذا، والظاهر أنه الذي أورده أبو الشيخ نفسه في ” طبقات الأصبهانيين ” (ص 342 / 463) فقال:

عبد الرحمن بن أحمد الزهري أبو صالح الأعرج، ثم روى عنه حديثين ولم يذكر فيه جرحا ولا تعديلا فهو مجهول

میں کہتا ہوں اس روایت کی سند کے تمام راوی ثقہ ہیں سوائے اس  الأعرج کے اور ظاہر ہے اس کو ابو شیخ خود  طبقات الأصبهانيين  ص ٣٤٢ ، ٤٦٣ پر بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں عبد الرحمن بن أحمد الزهري أبو صالح الأعرج پھر اس سے دو حدیثیں روایت کر کے اس پر نہ جرح کرتے ہیں نہ تعدیل تو پس وہ مجھول ہے

 ابو صالح کون ہے

ابو زرعہ الدمشقی اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ احمد کہتے ہیں

وأبو صالح الذي روى عنه الأعمش: سميع

اور ابو صالح جس سے الأعمش روایت کرتا ہے سمیع ہے

یعنی یہ سميع الزیات الکوفی ہے تقریب تہذیب میں ابن حجر اس کو مقبول قرار دیتے ہیں جو ثقاہت کا ادنی درجہ ہے. الأعمش مدلس راوی ہے اور سند میں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کس سے روایت کر رہا ہے.

 الأعمش  ذكوان أبو صالح السمان الزيات المدنى ، مولى جويرية بنت الأحمس الغطفانى سے بھی روایت کرتا ہے جو ثقہ ہیں اور صحیح بخاری کے راوی ہیں لیکن زیر بحث روایت چونکہ انتہائی اہم عقیدہ سے متعلق ہے لہذا اس میں احتیاط ضروری ہے

المباركفوري کتاب مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں لکھتے ہیں

 وقد رواه أبوالشيخ في كتاب الثواب بلفظ الطبراني من رواية أبي معاوية عن الأعمش، قال في الصارم: وهو خطأ فاحش، وإنما هو محمد بن مروان السدي، وهو متروك الحديث، متهم بالكذب. وقال ابن القيم في جلاء الأفهام: هذا الحديث غريب جداً، وقد ظهر بهذا أن قول القاري “بسند جيد” ليس بجيد، وكذا ما قال الحافظ في الفتح في رواية أبي الشيخ “أنه أخرجها بسند جيد” لا يخلو عن نظر وإشكال

اور بے شک اس کو أبوالشيخ نے کتاب، کتاب الثواب میں طبرانی کے الفاظ میں أبي معاوية عن الأعمش سے روایت کیا ہے ، الصارم (المنکی) میں کہا ہے لیکن یہ فحش خطا ہے اور بے شک یہ محمد بن مروان السدي ہے جو متروک الحدیث ہے اور اس پر جھوٹ کا الزام ہے اور ابن قیم نے جلاء الأفهام میں کہا ہے یہ حدیث بہت انوکھی ہے اور اس سے ظاہر ہے کہ (ملا علی) قاری کا کہنا بسند جيد اچھی سند ہے (لیکن یہ روایت) کوئی اچھی نہیں ہے اورایسا فتح (الباری) میں حافظ (ابن حجر) نے جو کہا ہے کہ ابو شیخ نے اس کی تخریج کی ہے اچھی سند سے ، اشکال اور نظر سے خالی نہیں

الغرض اس روایت کے دو راوی عَبْد الرَّحْمَن بْن أَحْمَد الْأَعْرَج اور  الحسين بْن الصَّبَّاح مجھول ہیں اور تیسرے راوی ابو صالح غیر واضح ہیں لہذا اس کو جید اچھی قرار دینا کہاں کا انصاف ہے

افسوس شاید اس روایت کو درست سمجھتے ہوئے ابن تیمیہ فتویٰ میں کہتے ہیں

مجموع الفتاوى ج ٢٧ ص ٣٨٤

 أنه صلى الله عليه وسلم يسمع السلام من القريب

بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم قبر کے قریب پکارا جانے والا سلام سنتے ہیں

آپ کے سوال کے دو حصے ہیں

سوال: الطاغوت کیا ہے اس کے کفر کا کیا مطلب ہے  ؟

جواب: یہ سوال نہایت اہم ہے – سب سے پہلے کتاب الله سے رجوع کرتے ہیں . الله تعالیٰ کا ارشاد ہے

سورة البقرة  : الآيات 256 الى 257

لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انْفِصَامَ لَهَا وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (256) آیت

الدین (اسلام ) میں کوئی  زبردستی  نہیں بے شک ہدایت   گمراہی سے الگ ھو چکی  ہے  پس جس نے طاغوت کا کفر کیا اور الله پر ایمان لایا اس نے مظبوط حلقہ تھام لیا جو ٹوٹنے والا نہیں  اور الله سننے والا جاننے والا ہے

سوره الزمر میں ارشاد ہوتا ہے : «والذين اجتنبوا الطاغوت أن يعبدوها» کہ  جنہوں نے طاغوت کی بندگی سے اجتناب کیا

الطاغوت سے مراد  : كل معبود من دون الله :  الله کے علاوہ سارے معبود (باطل) ہیں –

اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو گمراہ ہیں اور اپنی پرستش کرا رہے ہیں – الله تعالیٰ کا ارشاد ہے : أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا (60)   سورة النساء

کیا تم نے دیکھا جنہوں نے یہ زعم کیا کہ وہ ایمان لے آئے ہیں جو تم پر نازل کیا گیا ہے اور جو تم سے پہلے نازل کیا گیا تھا  چاہتے ہیں کہ طاغوت سے فیصلہ کرایا جائے  اور بے شک ان کو اس کے کفر کا حکم دیا گیا تھا اور شیطان چاہتا ہے کہ ان کو دور کی گمراہی میں لے جائے

یہ بھی کہا : قُلْ هَلْ أُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِنْ ذَلِكَ مَثُوبَةً عِنْدَ اللَّهِ مَنْ لَعَنَهُ اللَّهُ وَغَضِبَ عَلَيْهِ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوتَ أُولَئِكَ شَرٌّ مَكَانًا وَأَضَلُّ عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ (60) سورة المائدة

کہو کیا تم کو بتاؤں الله کے نزدیک اس سے زیادہ شر انگیز (لوگ ) جن پر الله نے لعنت کی اپنا غضب ڈھایا اور ان کو بندر اور سور بنا دیا اور طاغوت کے بندے جن کا برا مقام ہے اور جنہیں راہ راست سے بھٹکا دیا ہے

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ فَمِنْهُمْ مَنْ هَدَى اللَّهُ وَمِنْهُمْ مَنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلَالَةُ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ (36)  سورة النحل

اور بے شک ہم نے ہر امت میں رسول بھیجے کہ الله کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو پس ان میں سے کچھ  کو اللہ نے ہدایت دی اور کچھ پر گمراہی ثبت ہو گئی ، پھرو  زمین پر چلو پھرو دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا

وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ أَنْ يَعْبُدُوها وَأَنابُوا إِلَى اللَّهِ لَهُمُ الْبُشْرى فَبَشِّرْ عِبادِ (17) سورة الزمر

اور جنہوں نے طاغوت کی بندگی سے اجتناب کیا  اور الله سے لو لگائی  ان کے لئے بشارت ہے پس ان کو خوشخبری دے دیں

الذين أُوتُواْ نَصِيباً مِّنَ الكتاب يُؤْمِنُونَ بالجبت والطاغوت

جن کو کتاب میں حصہ دیا گیا وہ جبت اور طاغوت پر ایمان لے آیے

نبی صلّی الله علیہ وسلم کے زمانے میں مدینہ کے منافقین اور یہودیوں کا گٹھ جوڑ تھا – ان کے لیڈر دو یہودی  حیی ابْن اخْطُبْ، اور كَعب ابْن  الاشرف تھے – منافقین جو ایمان لانے کے دعوے دار تھے لیکن بطور  مصلحت اور بزنس کی بڑھوتی کے لئے مدینہ والوں کے ہمدرد بن کر ان کو اندر ہی اندر نبی صلی الله علیہ وسلم کے خلاف ورغلانے میں لگے رہتے تھے ، منافقین  اپنے یہودی لیڈروں سے منسلک تھے اور انکے مدد گار بنے ہوۓ  تھے – ان کے نزدیک اسلام ایک آفت سے کم نہ تھا – مدینہ کا بیشتر بزنس  یہودی ہاتھوں میں تھا اور نبی صلی الله علیہ وسلم یہودیوں کو ہی مدینہ سے نکال رہے تھے  اور وہ قافلے جو قریش کا مال شام لے کر جاتے تھے ان پر حملے ہو رہے تھے – منافقین کے حسابسے  مدینہ میں اسلام کی آمد اس زمانے کے بزنس پلان اور ٹریڈ روٹ پر حملہ تھا  جس سے اندیشہ تھا کہ عربوں کا ہی نقصان ہو گا لہذا منافقین یہودیوں کی مدد کرنا چاہتے تھے – لیکن منصوبہ الہی کچھ اور ہی تھا – وہ انسان کی اس سوچ  سے بہت دور تھا جس پر مال اور اولاد کی بیڑیاں پڑی ہوتی ہیں

 ان یہودی لیڈران کو اسلام نے طاغوت کہا

دوسری طرف عرب کا وہ توھم پرستی  کا معاشرہ تھا جس میں ساحر اور کاہن بھی راج کر رہے تھے  جس طرح آج ہمارے ہاں جن اتارنے والے پیر اور بزرگ مشھور ہیں کہ میڈیا  پر  بھی ان کی رسائی ہے  جو خالصتا پڑے لکھے لوگوں کا پیشہ سمجھا جاتا ہے – اسی کو جبت کہتے ہیں

طاغوت  سے مراد وہ بزرگان دین بھی ہیں جن کو لوگوں نے مسند الوہیت پر بیٹھا دیا ہے – چاہے کتاب الله کچھ بھی حکم دے حدیث رسول میں جو بھی حکم ہو لیکن بات بزرگ کی مانی جائے گی چاہے خلاف قرآن و حدیث ہی کیوں نہ ہو – اور اس مرض میں اک انبوہ کثیر ہے – الله اس سے بچائے

لہذا اپنے دور کے اور اپنے سے پہلے گزرے ہوۓ طواغیت کا کفر للازم ہے

اب اپ کے سوال کے دوسرے حصے پر آتے ہیں کہ ہر انسان سے اس کے عمل کے بارے میں سوال ہو گا

بلا شبہ ہر انسان سے اس کے عمل کا سوال کیا جائے گا – لیکن کیا آپ نے  قرآن میں سؤ الحساب  (برا حساب ) کی اصطلاح نہیں پڑھی – جب حساب کتاب شروع ہو گا تو اس میں ہر چیز داخل ہوتی جائے گی – اور الله سریع الحساب (تیز حساب  کرنے والا ) بھی ہے – ہمارے عمل کا دارومدار عقائد پر ہے  اور طاغوت کا انکار عقیدہ سے تعلّق رکھتا ہے –  اب کچھ تو وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں کوئی انفورمیشن  نہیں کہ کس عقیدے پر تھے ان کے حوالے سے یہی کہا جائے گا ان کے بارے میں الله کو پتا ہے جس طرح فرعون نے موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا کہ  پچھلی پشتوں کا کیا ہو گا ؟ موسیٰ نے کہا اس کا علم اللہ کو ہے

اس میں واضح ہے کہ انبیاء دنیا میں کفر مٹانے کے لئے منتخب ہوۓ اور اس مقصد کو انہوں نے ادا کیا – آج اگر کوئی عیسائی الله کے نبی  عیسیٰ علیہ السلام سے کفر منسوب کرے تو ہم بلا دلیل انکار کریں گے کیوں کہ یہ نا ممکن ہے لیکن  غیر انبیاء کے بارے میں یہ گمان نہیں کیا جا سکتا ان کی تعلیمات اور عقائد کی جانچ کی جائے گی

  وہ لوگ جنہوں نے کتابیں لکھیں اور اپنے گمراہ عقائد کو پھیلایا اور آج لوگ ان کو ان کی تحریروں کی ہی وجہ سے جانتے ہیں تو ان کے بارے میں حسن ظن رکھنا کہاں کا انصاف ہے ؟ یہ تو الله سے بغاوت اور مصلحت کوشی ہے کہ کہیں دنیا والے ناراض نہ ہو جائیں -بہرحال ہم انکار کریں گے اور اسی کی تلقین کریں گے

جواب

صحیح بخاری کی حدیث میں ہے

میرے گھر اور منبر کے درمیان، جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے

گھر سے مراد حجرہ عائشہ رضی الله عنہا ہے لہذا اگر آپ دیکھیں تو گھر اور منبر کے درمیان جنت اصل میں مسجد النبی ہے اور مسجد کو جنت کے باغوں میں سے ایک کہا جا رہا ہے

طبرانی اوسط کی روایت ہے
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ قَالَ: نا أَبُو حَصِينٍ الرَّازِيُّ قَالَ: نا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا بَيْنَ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ، وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي»
لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ ابْنِ خُثَيْمٍ إِلَّا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، تَفَرَّدَ بِهِ: أَبُو حَصِينٍ

ابن عمر رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میری قبر اور منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہے
اس روایت کو عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ سے سوائے يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ کے کوئی روایت نہیں کرتا اور اس میں أَبُو حَصِينٍ الرَّازِيُّ کا تفرد ہے عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ کو دارقطنی ضعیف کہتے ہیں ابن معین کہتے ہیں اس کی احادیث قوی نہیں

جب بھی دو چیزوں کے درمیان کی بات ہوتی ہے تو اس میں وہ دو چیزیں شامل نہیں ہوتیں ورنہ یہ کہنا آسان ہے کہ میری قبر جنت کا حصہ ہے نہ کہ یہ کہ میری قبر اور منبر کے درمیان جنت کا باغ ہے

بعض روایات میں قبر اور منبر کے درمیان کا لفظ ہے جس کے بارے میں راقم کی رائے ہے کہ یہ الفاظ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے نہیں راوی کا اضافہ ہیں اور اس میں کہا گیا ہے قبر اور منبر کے درمیان جنت ہے نہ کہ قبر کو جنت کہا گیا ہے

رسول الله کی روح جنت میں ہے اور وہ مقام الوسیلہ ہے

وفات کے وقت عائشہ رضی الله عنہا کا قول ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا الله سب سے اعلیٰ دوست ہے

اس وقت میں جان گئی کہ آپ نے دنیا کو چھوڑنے کا ارادہ کر لیا

جواب

مشرکین مکہ اللہ کے پجاری تھے وہ رب کعبه کی عبادت کرتے اور ابراہیم اور اسمٰعیل کو مانتے تھے اور بخاری کی حدیث کے مطابق ابراہیم و اسمعیل علیہ السلام کی تصویریں بھی کعبہ میں تھیں جن میں اسمعیل کے ہاتھ میں تیر تھے

تیر کعبہ میں پانسوں کے لئے رکھے جاتے تھے اور اس سے اشارہ لیا جاتا تھا کہ کام کیا جائے یا نہ کیا جائے گویا یہ استخارہ تھا

مشرکین جب الہ یا  کسی کو  لائق عبادت  کہتے تھے تو اس کا مقصد اس کے طفیل الله تک رسائی تھا  سوره الزمر میں ہے

مشرکین کے نزدیک کائنات کو تخلیق کرنے والا صرف الله تھا اور  ہندومت کی طرح ان میں تخلیق کا خدا رزق کا خدا شفا کا خدا دولت کا خدا جنگی فیصلوں کا خدا بارش کا خدا  الگ الگ نہ تھے

سوره ص میں ہے مشرک کہتے

وقالوا ربنا عجل لنا قطنا قبل يوم الحساب

اور وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب ہمارا حصہ جلد یوم حساب سے پہلے دے دے

قرآن کہتا ہے کہ مشرکین حج میں عرفات میں دعائیں کرتے

فمن الناس من يقول ربنا آتنا في الدنيا

اور(مشرك) لوگوں میں ہیں جو کہتے ہیں اے رب ہم کو دنیا میں عطا کر سوره البقرہ آیت ٢٠٠ میں

اسی طرح سوره الزمر میں ہے

والذين اتخذوا من دونه أولياء ما نعبدهم إلا ليقربونا إلى الله زلفى

أور جنہوں نے الله کو چھوڑ کر دوسرے ولی اخیتار کیے ہیں وہ کہتے ہیں ہم ان کی عبادت نہیں کرتے سوائے اس کے کہ یہ الله سے قریب کرتے ہیں

مشرکین فرشتوں کو بھی مانتے تھے اور ان کو الله کی بیٹیاں کہتے تھے

سوره عنکبوت میں ہے

وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۖ فَأَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ 

اور اگر آپ اِن(  مشرکین)  سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا اور سورج اور چاند کو کس نے تابع فرمان بنا دیا، تو وہ ضرور کہہ دیں گے: اﷲ نے، پھر وہ کدھر الٹے جا رہے ہیں؟

مشرکین اللہ کو عرش پر سات آسمانوں پر مانتے تھے

قُلْ مَن رَّبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ [٨٦]سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ  سوره آلمومنؤن

پوچھئے کہ ساتوں آسمانوں کا اور عرشِ عظیم کا مالک کون ہے؟ وہ فوراً کہیں گے: یہ اللہ کا ہے- کہو  پھر تم ڈرتے کیوں نہیں ہو

مشرکین اپنے معبودوں کو الله کے نظم کا حصہ سمجھ کر نہیں پوجتے تھے بلکہ وسیلہ سمجھتے تھے لہذا لات عزی اور منات  کو غرانیق یا بگلے کہتے

تلك الغرانيق العـلى وإن شفاعتهن لترتجى

کہ وہ بگلوں کی طرح آسمان میں بلند ہو کر الله تک جاتی ہیں اور اور ان کی شفاعت عالم بالا میں گونجتی ہے

قرآن میں ہے

إِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ لَيُسَمُّونَ الْمَلَائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنثَىٰ [٢٧]

بیشک جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ فرشتوں کو عورتوں کے نام سے موسوم کر دیتے ہیں۔

مشرکین عرب نوح علیہ السلام کی قوم  اولیاء الله کو بھی پوجتے تھے

سوره نوح میں ہے

وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا

اور کہتے رہے کہ تم اپنے معبودوں کو مت چھوڑنا اور وَدّ اور سُوَاع اور یَغُوث اور یَعُوق اور نَسر  کو (بھی) ہرگز نہ چھوڑنا۔

بخاری کی حدیث ہے

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا هِشَامٌ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ وَقَالَ عَطَاءٌ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ – رضى الله عنهما – صَارَتِ الأَوْثَانُ الَّتِى كَانَتْ فِى قَوْمِ نُوحٍ فِى الْعَرَبِ بَعْدُ ، أَمَّا وُدٌّ كَانَتْ لِكَلْبٍ بِدَوْمَةِ الْجَنْدَلِ ، وَأَمَّا سُوَاعٌ كَانَتْ لِهُذَيْلٍ ، وَأَمَّا يَغُوثُ فَكَانَتْ لِمُرَادٍ ثُمَّ لِبَنِى غُطَيْفٍ بِالْجُرُفِ عِنْدَ سَبَا ، وَأَمَّا يَعُوقُ فَكَانَتْ لِهَمْدَانَ ، وَأَمَّا نَسْرٌ فَكَانَتْ لِحِمْيَرَ ، لآلِ ذِى الْكَلاَعِ . أَسْمَاءُ رِجَالٍ صَالِحِينَ مِنْ قَوْمِ نُوحٍ ، فَلَمَّا هَلَكُوا أَوْحَى الشَّيْطَانُ إِلَى قَوْمِهِمْ أَنِ انْصِبُوا إِلَى مَجَالِسِهِمُ الَّتِى كَانُوا يَجْلِسُونَ أَنْصَابًا ، وَسَمُّوهَا بِأَسْمَائِهِمْ فَفَعَلُوا فَلَمْ تُعْبَدْ حَتَّى إِذَا هَلَكَ أُولَئِكَ وَتَنَسَّخَ الْعِلْمُ عُبِدَتْ

ابن عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ قوم نوح کے بت عربوں میں پھیل گئے جو صالح لوگ قوم نوح کے تھے پس جب وہ ہلاک ہوئے تو شیطان نے القا کیا نوح کی قوم کو کہ اپنی مجلسوں میں ان کے بت نصب کرو اور ان کا نام ان صالحین کے نام پر رکھو

یہ بات قوم نوح میں جاری ہوئی اور وہ غرق ہوئی لیکن بعد میں یہ بت واپس مشرکین عرب میں بھی جاری ساری ہوئے یہ بات ان تک کیسے پہنچی کسی روایت میں نہیں ہے

مشرکین مکہ ارواح کا پرندہ بن جانے کا عقیدہ رکھتے تھے جس کو ہامہ کہتے تھے جو قبر پر رہتا تھا اسی طرح  منات  چٹان نما بت تھی اور سواع ایک عورت نما بت تھی

مشرک اپنے معبودوں کو غائبانہ پکارتے بھی تھے لہذا مشرک لوگ ان کے ہمہ وقت سننے کے قائل تھے جنگ احد میں ابو سفیان رضی الله عنہ دیوی کو پکار رہے تھے

إسلامي تاريخ کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ مشرک جن بتوں کو پوج رہے تھے ان میں سے کوئی شفا کا خدا تھا کوئی اولاد دینے کا خدا تھا کوئی بارش کا کوئی دولت کا وغیرہ ہر شخص آزاد تھا جس بت کو یا بزرگ ہستی کو پوجے اور اس کو وسیلہ مانے لہذا تمام عرب کسی ایک بت پر متفق نہ تھے اور اسی وجہ سے کعبہ میں ٣٦٠ بت جمع ہو چکے تھے جو مختلف قبائل میں پوجے جاتے تھے

سوره یوسف میں ہے

وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِاللَّهِ إِلَّا وَهُم مُّشْرِكُونَ [١٢:١٠٦]

اور ان میں سے اکثر لوگ اﷲ پر ایمان نہیں رکھتے مگر یہ کہ وہ شرک کرتے ہیں۔

یعنی اگرچہ مشرکین الله کے وجود کے قائل ہیں وہ توحید الخالص سے عاری ہیں

جواب

قرآن میں سوره الذاریات میں ہے

وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا توعَدُونَ

اور آسمان ہی میں ہے تمہارا رزق اور وہ جس کا وعدہ کیا گیا ہے

الله تعالی نے انسانوں سے جنت و جہنم کا وعدہ کیا ہے کہ اہل ایمان کو جنت اور کفار کو جہنم میں ڈالے گا

مستدرک حاکم میں ایک شاذ قول عبد اللہ بن سلام رضی الله عنہ سے منسوب کیا گیا ہے

وَإِنَّ الْجَنَّةَ فِي السَّمَاءِ، وَإِنَّ النَّارَ فِي الْأَرْضِ

اور بے شک جنت آسمان میں اور جہنم زمین میں ہے

اسی طرح الجامع لتفسير الإمام ابن رجب الحنبلي کے مطابق

وخرج ابن مندة ، من حديث أبي يحيى القتات عن مجاهد ، قال: قلت لابن عباس: أين الجنة ؟ قال : فوق سبع سموات ، قلت : فأين النار؟ قال: تحت سبعة أبحر مطبقة .

ابن مندہ ایک روایت بیان کی ہے کہ أبي يحيى القتات نے مجاہد سے روایت کیا کہ انہوں نے ابن عباس رضی الله عنہ سے پوچھا کہ جنت کہاں ہے بولے سات آسمانوں سے اوپر .- پوچھا اور جہنم؟ بولے سات  سمندر  کے اندر

اس کی سند میں أبو يحيى القتات المتوفی 130 ھ  ہے ابن سعد طبقات میں کہتے ہیں وفيه ضعف اس میں ضعف ہے – الكامل في ضعفاء الرجال از ا بن عدي کے مطابق  نسائی کہتے ہیں ليس بالقوي  – الذھبی نے   ديوان الضعفاء میں ذکر کیا ہے

لہذا یہ ایک ضعیف روایت ہے

وہابی عالم ابن عثيمين  کتاب الشرح الممتع على زاد المستقنع   کہتے ہیں

” مكان النار في الأرض ، ولكن قال بعضُ أهل العِلْم : إنَّها البحار ، وقال آخرون: بل هي في باطن الأرض ، والذي يظهر: أنَّها في الأرض ، ولكن لا ندري أين هي مِن الأرض على وَجْهِ التعيين.

جہنم کا مکان زمین ہے لیکن بعض اہل علم کہتے ہیں کہ یہ سمندروں میں ہے اور دوسرے کہتے ہیں بلکہ یہ زمین کے اندر ہے اور جو ظاہر ہے کہ یہ زمین میں ہی ہے -لیکن یہ نہیں جنتے کہ زمین میں کہاں  تعین کے طور پر

اسی کتاب میں ابن العثيمين کہتے ہیں کہ اس قول کی مخآلفت کرنے والے کہتے ہیں

وقال: كيف يراها الرَّسولُ صلّى الله عليه وسلّم ليلة عُرِجَ به  وهي في الأرض؟

وأنا أعجب لهذا الاستشكال! ولا سيَّما وقد وَرَدَ مِن طالب عِلم، فإذا كُنَّا ـ ونحن في الطائرة ـ نرى الأرضَ تحتنا بعيدة وندركها، فكيف لا يرى النبيُّ عليه الصَّلاةُ والسَّلامُ النَّارَ وهو في السماء؟!!

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کیسے جہنم کودیکھا اگر یہ زمین میں تھی کیونکہ اس رات تو آپ کو بلند کیا گیا؟

ابن العثيمين کہتے ہیں کہ اس اشکال پر مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے اور یہ طلبہ کی طرف سے ہوتا ہے تو کیا جب ہم ہوائی جہاز میں ہوتے ہیں اوپر سے زمین کو   دیکھتے ہیں دور تک ، تو کیوں نہ نبی  علیہ الصَّلاةُ والسَّلامُ نے جہنم کو اوپر سے دیکھا ہو

انسانوں نے جنت و جہنم دونوں کا وعدہ ہے لہذا اس سے ظاہر ہے کہ جنت و جہنم دونوں آسمان میں ہی ہیں – قرآن میں سوره الاعرآف کے مطابق جنت و جہنم قریب بھی ہوں گی اور الاعرآف کی بلندیوں سے لوگ دونوں جانب دیکھ سکتے ہوں گے

یہود کا قول ہے کہ جہنم زمین میں ہے اور اس کا ایک دروازہ ارض مقدس میں ہے

The statement that Gehenna is situated in the valley of Hinnom near Jerusalem, in the “accursed valley” (Enoch, xxvii. 1 et seq.), means simply that it has a gate there. It was in Zion, and had a gate in Jerusalem (Isa. xxxi. 9). It had three gates, one in the wilderness, one in the sea, and one in Jerusalem (‘Er. 19a).

Jewish Encyclopedia, GEHENNA
http://www.jewishencyclopedia.com/articles/6558-gehenna

یہ عبارت کہ جہنم ہنوم کی وادی میں یروشلم  کے پاس  ہے ، پھٹکار کی وادی میں (انوخ ٢٧ ، ١ )  کا سادہ مطلب ہے کہ وہاں اس (جہنم) کا دروازہ ہے- یہ (جہنم) صیہون (بیت المقدس کا ایک پہاڑ) میں تھی اور دروازہ یروشلم میں تھا (یسیاہ باب ٣١: 9 ). اس کے تین دروازے  (کھلتے) تھے ایک صحرآ میں، ایک سمندر میں، ایک یروشلم میں

کتاب انوخ یہود کی ایک دور میں معتبر کتاب تھی اگرچہ زمانہ حال میں اس کو ایک گھڑی ہوئی کتاب کہا جاتا ہے اس کے مطابق ارض مقدس میں  وادی ہنوم ،اصل میں جہنم کا حصہ ہے

کتاب صفة النار از ابن ابی الدنیا میں ہے

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو هِلَالٍ، عَنْ قَتَادَةَ قَالَ: ” كَانُوا يَقُولُونَ: إِنَّ الْجَنَّةَ فِي السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ، وَإِنَّ جَهَنَّمَ فِي الْأَرَضِينَ السَّبْعِ

عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ کہتے ہیں ان کو ابو ہلال نے خبر دی انہوں نے قتادہ سے روایت کیا کہ کہا کہ   وہ کہتے جنت ساتویں آسمان پر اور جہنم ساتویں زمین پر ہے

اس قول کو بھی بعض علماء پیش کرتے ہیں جبکہ یہ ایک تابعی سے منسوب قول ہے – قتادہ مدلس ہیں اگر روایت عن سے بیان کر دیں تو قبول نہیں ہوتی تو ان کے قول کی کیا حیثیت ہے؟ دوم أبو بكر الأثرم کہتے ہیں أبو هلال الراسبي کے لئے امام احمد کہتے وهو مضطرب الحديث عن قتادة ، قتادہ سے روایت کرنے میں مضطرب الحديث ہیں

کتاب صفة النار از ابن ابی الدنیا میں ادھر ادھر کے اقوال جمع ہیں جن میں جہنم کو سمندر میں زمین میں اور یروشلم میں بتایا گیا ہے اب یہ کس کے قول تھے اور ہماری کتب میں کیوں ہیں یہ کوئی نہیں بتا سکتا ؟ یہ تمام اقوال ضعیفو مجھول اور مدلسین کے ہیں لہذا اہل علم کے لئے پریشانی کا سبب نہیں البتہ ابن رجب حنبلی اور ان کی قبیل کے لوگوں نے ان اقوال کو سر آنکھوں پر رکھا اور تفسیر میں شامل کیا

ایک غیر مقلد عالم ، صحیح مسلم کی حدیث پیش کرتے ہیں کہ جہنم اسی سیارہ یعنی زمین میں ہے

ابو ہریرہ فرماتے ہیں ہم رسول اللہ  کے ساتھ تھے کہ اچانک کسی چیز کے گرنے کی آواز سنی تو نبی نے فرمایا تمہیں معلوم ہے کہ یہ کیا ہے؟ ہم نے کہا اللہ  اور اسکے رسول  زیادہ جانتے ہیں ۔ آپ  نے فرمایا
هَذَا حَجَرٌ رُمِيَ بِهِ فِي النَّارِ مُنْذُ سَبْعِينَ خَرِيفًا، فَهُوَ يَهْوِي فِي النَّارِ الْآنَ، حَتَّى انْتَهَى إِلَى قَعْرِهَا
یہ پتھر تھا , جسے ستر سال قبل جہنم میں پھینکا گیا ,تو وہ اب تک جہنم میں گرتا رہا حتى کہ اسکے پیندے میں پہنچ گیا۔

اس روایت میں یہ کہیں بھی نہیں کہ الله تعالی نے جو آواز سنائی وہ اسی زمین سے بلند ہوئی تھی  لہذا یہ روایت دلیل نہیں بن  سکتی حدیث میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بلال رضی الله عنہ کے قدموں کی چاپ جنت میں سنی جبکہ بلال رضی الله عنہ کو معراج نہیں ہوئی تھی الله تو اسی بھی جگہ کی آواز کسی اور مقام پر سنا سکتا ہے

سوره الاعراف میں ہے اہل جنت اور اہل جہنم کے درمیان
وبينهما حجاب وعلى الأعراف رجال يعرفون كلا بسيماهم ونادوا أصحاب الجنة أن سلام عليكم لم يدخلوها وهم يطمعون ( 46 ) وإذا صرفت أبصارهم تلقاء أصحاب النار قالوا ربنا لا تجعلنا مع القوم الظالمين ( 47
ان کے بیچ پردہ ہو گا اور بلندیوں پر لوگ ہوں گے جو ان سب کو چہروں سے پہچان جائیں گے اور وہاں سے اصحاب جنت کو پکاریں گے تم پر سلامتی ہو وہ جنت میں داخل نہ ہوئے ہوں گے اور اس کے متمنی ہوں گے اور جب ان کی نظریں جہنم کی طرف جائیں گی وہ کہیں گے اے رب ہم کو ظالم لوگوں میں مت کریو

یہ آیات دلیل ہیں کہ جنت وہ جہنم قریب ہوں گی ان کے درمیان کی سطح مرتفع یا بلندیوں پر لوگ بھی ہوں گے جو اتنے قریب ہوں گے کہ جنت و جہنم میں جھانک سکتے اور کلام کر سکتے ہوں گے

اوپر بلاگ میں ہے آسمان میں ہے جس کا وعدہ کیا گیا ہے جنت آسمان میں ہے اور جہنم بھی وہیں ہے

قرآن میں ہے
وَجِيءَ يَوْمَئِذٍ بِجَهَنَّمَ ۚ
اس روز جہنم آئی گی

اگر جہنم زمین میں ہی ہوتی تو اس کو لایا نہیں جاتا اس کو حشر قائم ہونے کے بعد رب العالمین کے حکم پر اہل ارض پر پیش کیا جائے گا الله اس وقت کی سختی سے بچائے

الله سے ہم پناہ مانگتے ہیں کہ وہ جہنم کے سپرد کرے

قرآن نے خضر و موسی کے قصے کا ذکر ہے اس میں کہیں نہیں کہ شریعت کا مقابلہ ایک غیر شرعی کام سے تھا نہ یہ حدیث میں ہے بلکہ حدیث کے مطابق یہ موسی پر جتایا جا رہا تھا کہ ان کو زمین میں الله کا جو عمل دخل ہے اس کی مکمل خبر نہیں ہے وہ صرف اتنا جان سکے ہیں جتنا ان کو علم دیا گیا ہے
صحیح بخاری کی حدیث ہے
بَيْنَمَا مُوسَى فِي مَلَإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ: أَتَعْلَمُ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْكَ؟ قَالَ مُوسَى: لاَ، فَأَوْحَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى مُوسَى: بَلَى، عَبْدُنَا خَضِرٌ
موسی بنی اسرائیل کے سرداروں کے ساتھ تھے کہ ایک آدمی آیا اور کہا کیا اپ جانتے ہیں کسی کو جس کو اپ سے بڑھ کر علم ہو ؟ موسی نے کہا نہیں پس الله نے الوحی کی کہ نہیں خضر ہے

لہذا ایک بندے خضر سے ملنے کا کہا گیا جنہوں نے وہ کام کیے جو الله نے حرام کیے ہیں لیکن ہر کام پر کہا یہ میں نے الله کے حکم سے کیا
اس سے زیادہ قصے میں نہیں ہے چہ جائیکہ اس سے نام نہاد صوفیاء کا استخراج کیا جائے
سوره کہف کے قصے اہل کتاب کے سوالات کے جواب میں بیان ہوئے کہ
اصحاب کہف کون ہیں
خضر کون ہیں
ذوالقرنین کون ہیں

یہود کے مطابق موسی و خضر والے قصے میں موسی کوئی اور ہیں اور خضر ذو القرنین کے سپہ سالار ہیں اس کی وضاحت کی گئی کہ یہ موسی وہی ہیں جن پر شریعت آئی اور خضر کا ذو القرنین سے تعلق نہیں ہے لیکن قرآن نے اس وضاحت میں تعلیم کا نکتہ رکھا
خضر بہت ممکن ہے انسانی شکل میں فرشتہ ہو کیونکہ قرآن میں فرشتوں کو بھی بندہ کہا گیا ہے لیکن تعلیم کے لئے موسی سے ان کی اصلیت چھپا دی گئی حدیث کے مطابق ایک موقعہ پر جبریل ایک اجنبی کی شکل میں آئے اور مسجد النبی میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیے اسی طرح بعض موقعوں پر وہ صحابی دحیہ الکلبی رضی الله عنہ کی شکل میں بھی آئے – ابراہیم و لوط علیہما السلام کے پاس فرشتے انسانی شکلوں میں آئے لیکن وہ پہچان نہ سکے حتی کہ انہوں نے بتایا کہ وہ فرشتے ہیں

موسی علیہ السلام کا یہ دعوی کہ وہ زمین پر سب سے زیادہ علم والے ہیں اس واقعہ کے ذریعہ دور ہوا

اس قسم کی بات نبی صلی الله علیہ وسلم سے اس طرح ہوئی کہ جب اپ سے یہود نے سوال کیا تو اپ نے کہا کل آنا میں جواب دوں گا اس پر الوحی نہیں آئی اور بلاخر کئی دن بعد الوحی آئی اور اس سوره کہف کے ذریعہ رسول الله کی تربیت کی گئی کہ آئندہ ایسا مت کہنا
22) وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَلِكَ غَدًا (23) إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذَا نَسِيتَ وَقُلْ عَسَى أَنْ يَهْدِيَنِ رَبِّي لِأَقْرَبَ مِنْ هَذَا رَشَدًا
أور كسي چیز پر مت کہنا کہ میں کل کر دوں گا سوائے اس کے کہ اگر الله نے چاہا اور اپنے رب کا ذکر کرو اگر بھول جاؤ اور کہو ہو سکتا ہے وہ میرا رب رہنمائی کرے اس میں ہدایت کے قریب تر بات کی طرف

اس واقعہ سے صوفیاء کے گروہ کے وجود کا اثبات کرنا باطل ہے

قرآن میں لقمان کا ذکر ہے کہ انہوں نے جو باتیں کیں وہ حکمت والی تھیں یہ حکمت من جانب الله تھی لیکن یہ الله کا احسان ہے کہ حکمت دیتا ہے اور پھر اس بندے کا کتاب الله میں ذکر کر دیتا ہے لقمان کی نبوت کا قرآن میں کوئی ذکر نہیں ہے نہ حدیث میں ہے ان کو حکیم کہا جاتا ہے
یعنی انسانوں میں بعض کو الله حکمت دیتا ہے کہ وہ کسی کام یا بات یا واقعہ کو دیکھ کر اس کے انجام تک پہنچ جاتے ہیں

اگر خضر انسان تھے تو وہ ایک حکیم تھے جنہوں نے جان لیا کہ اس کشتی کا کیا انجام ہو گا اور وہ اس علاقے کے ہوں گے کہ جانتے ہوں کہ یہ کس کی ہے- اسی طرح دیوار میں یقینا کوئی نشانی مضمر ہو گی جس سے والدین نے چاہا ہو کہ جوان ہو کر بچے اس کی مرمت ضرور کریں گے اور پوشیدہ خزانہ پا لیں گے لیکن خضر اس کو بھانپ گئے کہ کوئی اس طرح کی گرتی دیوار کیوں بنانے گا انہوں نے اس دیوار کو سیدھا کر دیا کہ کہیں کوئی اور اس بات کو بھانپ نہ لے اور قبل از وقت دیوار کی بنیاد کھود دی جائے یا وہ تیز ہوا سے گر جائے- اسی طرح نا بکار بچے کو دیکھ کر انہوں نے اس کو قتل کر دیا
کہتے ہیں پوت کے پاؤں پالنے میں ہی دکھ جاتے ہیں

دور خضر میں اس وقت دنیا میں شریعت موسوی تھی جو بنی اسرئیل کے لئے خاص تھی تمام دنیا کے لئے نہیں تھی – خضر چونکہ اسرئیلی نہیں تھے ان پر شریعت موسوی کی پابندیاں نہیں تھیں وہ اپنے عمل میں آزاد تھے – دور قدیم میں الله تعالی نے خبر دی کہ اس نے مومنوں پر القا کیا مثلا ام موسی کو حکم ہوا کہ موسی کو دریا برد کر دیں – یہ القا نبوت کی مد میں نہیں تھا اسی طرح خضر پر القا ہونا میں کوئی عیب نہیں ہے لیکن خاتم النبین محمد صلی الله علیہ وسلم کے بعد اب کوئی چیز اس میں نہیں رہی سوائے سچے خواب کے – جب سے شریعت محمدی آئی ہے یہ القا والی چیز ختم ہوئی- رسول الله صلی الله علیہ وسلم تمام انسانیت پر حجت ہیں اور ان کی شریعت پر عمل لازم ہے لہذا اب کوئی مکاشفہ دلیل نہیں رہا – کسی صوفی کے مکاشفہ سے قتل ویسے بھی جائز نہیں ہو سکتا اس صوفی پر حد شرعی لگے گی اگر پکڑ لیا جائے – یہ جہالت ہے کہ پھر بھی صوفیوں کی طرف سے واقعہ خضر کو بطور دلیل بار بار پیش کیا جاتا ہے

و اللہ اعلم

وعن عثمان بن حنيف رجلا كان يختلف الي عثمان في حاجة عثمان يلتفت اليه ولا ينظر في حاجته فلقي عثمان بن حنيف فشكا ذالك اليه فقال عثمان بن حنيف انت الميضاة فتوضا ثم انت المسجد فصل ركعتين،واتوجه اليك بنبينا محمد صلي عليه وسلم نبي الرحمة يا محمد اتي اتوجه….الخ
المعجم الصغير طبراني
وروي ابوبكر بن ابن علي قال:المقرى يقول كنت والطبرانى وابولشيخ ،با المدينة ففاق وقت العشا فواصلنا ذالك اليوم فلما كان وقت العشا حضرت القبر وقلت يا رسول الله الجوع فقال طبرانى اجلس فاماان يكون الرزق اوالموت فقمت انا ابوالشيخ…..الخ
سير اعلام
به تحقيق شيخ شعيب ارناؤوط و اكرم..٣٩٨/٣٩٩
جزاك الله خير

وَرُوِيَ عَنْ أَبِي بَكْرٍ بنِ أَبِي عَلِيٍّ، قَالَ: كَانَ ابْنُ المُقْرِئِ يَقُوْلُ: كُنْتُ أَنَا وَالطَّبَرَانِيُّ، وَأَبُو الشَّيْخِ بِالمَدِيْنَةِ، فضَاقَ بِنَا الوَقْتُ، فَوَاصَلْنَا ذَلِكَ اليَوْمَ، فَلَمَّا كَانَ وَقتُ العشَاءِ حضَرتُ القَبْرَ، وَقُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ الجُوْع (1) ، فَقَالَ لِي الطَّبَرَانِيُّ: اجلسْ، فَإِمَّا أَنْ يَكُونَ الرِّزْقُ أَوِ المَوْتُ. فَقُمْتُ أَنَا وَأَبُو الشَّيْخِ، فحضرَ البَابَ عَلَوِيٌّ، فَفَتَحْنَا لَهُ، فَإِذَا مَعَهُ غُلاَمَانِ بِقفَّتَيْنِ فِيْهِمَا شَيْءٌ كَثِيْرٌ، وَقَالَ: شَكَوْتُمُونِي إِلَى النَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -؟ رَأَيْتُهُ فِي النَّوْمِ، فَأَمَرَنِي بِحَمْلِ شَيْءٍ إِلَيْكُمْ.

جواب
أَبِي بَكْرٍ بنِ أَبِي عَلِيٍّ روایت کرتے ہیں کہ ابن المقری نے کہا کہ میں آور طبرانی اور ابو شیخ اصبہانی مدینہ میں تھے کہ وقت ہم پر وقت تنگ ہوا پس ایک روز ہم ملے جب عشاء کا وقت تھا – قبر (النبی) پر حاضر ہوئے اور میں نے کہا اے رسول الله بھوک! اس پر طبرانی نے کہا بیٹھ جاؤ کہ کوئی کھانا دے اور موت آئے- پس میں (المقری) بیٹھ گیا اور ابو شیخ بھی کہ باب علوی سامنے تھا پس وہ کھلا اور دو غلام آئے قفتیں لے کر جس میں کوئی بڑی چیز تھی اور کہا تم نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے شکوہ کیا ان کو نیند میں دیکھا انہوں نے یہ حکم کیا کہ یہ چیز تم کو دوں

شعيب الأرناؤوط تعلیق میں لکھتے ہیں
هذا مردود على قائله إن صح عنه ذلك، فإنه لا خلاف بين أهل العلم، أنه لا يستغاث إلا بالله، ولا يسأل أحد سواه.
یہ کہنا قابل رد ہے اگر صحیح بھی ہو اہل علم میں اس پر کوئی اختلاف نہیں کہ الله سے مدد مانگی جائے گی اور اس کے سوا کسی سے سوال نہ ہو گا

راقم کہتا ہے یہ روایت بلا جرح نقل کرنا الذھبی کے کمزور عقیدے کی نشانی ہے اور جملہ محدثین کے اوپر بھی سوالیہ نشان ہے
کس نے یہ جھوٹ گھڑا ؟ اس قسم کے اقوال سن کر عرب علماء نے ماشاء الله کہا اور لکھ دیا ہم تو ان کو اس قابل بھی نہیں سمجھتے کہ سنا جائے
یہ تینوں اس دور کے ہیں جب محدثین اور صوفیاء کی حدود مل چکی تھیں

عثمان بن حنیف والی روایت پر بہت بحث ہے اس پر وسیلہ کے انکاری تمام لوگوں نے جرح کی ہے جن میں اہل حدیث وہابی اور ڈاکٹر عثمانی شامل ہیں
مزار میلے میں اس پر بحث ہے
اس کے علاوہ انگریری میں
intercession
کے نام سے ایک کتاب ویب سائٹ پر ہے اس میں بھی اس پر بحث ہے
⇑ Weak and Concocted narration about Intercession
https://www.islamic-belief.net/muslim-belief/tauheed-and-rejection-of-taghoot/intercession/

سلیمان علیہ السلام کو جو بادشاہت ملی ایسی دنیا میں کسی کو نہ ملی

ان کے لئے ہوا کو مسخر کر دیا گیا
شریر جنات کو ان کے تحت کر دیا کہ وہ ان کو عذاب بھی دیتے اگر سر کشی کرتے
وہ پرندوں اور حشرات الارض کا کلام سن لیتے وہ بھی فاصلے سے
ان کے دربار میں لوگوں کا علم اس قدر کر دیا گیا کہ وہ ملکہ سبا کا تخت اس کے ملک سے ارض مقدس لے آئے

ایسا انعام سلیمان سے پہلے نہ کسی کو ملا نہ ان کے بعد
———–

دربار میں جو شخص تھا اس کو کتاب الله پر عبور تھا اغلبا زبور پر کہ اس میں کسی آیت سے وہ یہ جان گیا کہ الله کے اسم اعظم سے دعا کی جائے تو الله کے حکم سے یہ چیز پلک چھپکتے میں ہو جائے گی اور جن کو جا کر لانے کی ضرورت نہیں لہذا اس نے پورے یقین کے ساتھ سلیمان علیہ السلام سے کہا کہ اپ پس سبا کی طرف دیکھیے اور اس نے وہ دعا کی اور وہ اسی وقت پوری ہو گئی اور الله کا حکم کن فیکون ہو گیا

بس یہ سادہ سی بات ہے اس میں کتاب الله کو پڑھنے والا ایک مومن شخص ہے جبکہ اہل طریقت تو شریعت الہی کے مخالف ہیں وہ کتاب الله سے علم نہیں لیتے بلکہ تپسیا اور سلوک سے کشف غیب کرتے ہیں اس کتاب الله سے علم لینے مومن سے ان صوفیوں کا کیا مقابلہ

يعني سليمان کتاب الله کی اس آیت سے وہ مفھوم نہیں لے پائے جو اس مومن بندے نے لیا اور وہ واقعی حق ہو گیا یہ الله کا سلیمان پر انعام تھا کہ ان کا درباری بھی علم والا تھا
الله بعض اوقات انبیاء کے متبعین پر جتا دیتا ہے کہ اصلی علم الله ہی کے پاس ہے اور انبیاء کو جو علم مل رہا ہے وہ الله ہی کی طرف سے ہے
ایسا اس وقت ہوتا ہے جب انبیا کے ماننے والے یہ گمان کرتے ہیں کہ اس نبی کو بہت علم ہے

ایسا موسی علیہ السلام کے ساتھ ہوتا ہے وہ تقریر کرتے ہیں لوگوں کو بہت پسند اتی ہے ایک شخص کہہ دیتا ہے اپ سے زیادہ بھی کسی کی علم ہے ؟ موسی کے منہ سے نکل جاتا ہے کہ شاید میں ہی ہوں جس کو اس وقت زمین پر سب سے زیادہ علم ہے! پس مالک کائنات لوگوں پر اور انبیاء پر اس وقت جتا دیتا ہے کہ وہی علیم ہے کوئی اور نہیں اور علم جس کو چاہے دے
لہذا موسی سے کہا جاتا ہے جا کر ایک بندے خضر سے ملو اور قرآن میں بھی اس کو بیان کیا تاکہ لوگ جان لیں کہ علم الله کے پاس ہے جس کو چاہے دے

ان واقعات سے انبیاء کے علم کا محدود ہونا بھی بیان کیا گیا ہے کہ وہ اتنا ہی جان سکے جتنا ان کو علم دیا گیا اس سے زیادہ نہیں

ابن العربی نے اس واقعہ سے نتیجہ اخذ کیا
مقام النبوة في برزخ ** فويق الرسول ودون الولي
طبقات الشعراني ج1 ص 68 ط دار العلم للجميع.
نبوت کا مقام ایک آڑ میں ہے
رسول سے اوپر ولی سے الگ

یعنی ولایت بھی کوئی شی ہے
الله جس کو چاہے گمراہ کرے یہاں قرآن کے ان واقعات سے صوفیا گمراہ ہوئے اور یہ عقیدہ اختیارکر لیا کہ ہم بھی کوئی چیز ہیں زمانے میں
ان کے نزدیک دو طرح کے لوگ ہیں ایک عارفین ہیں جو شریعت پر عمل نہیں کرتے اور دوسرے وہ جو عارف بھی ہیں اور باشرع بھی
اس سے ان کا مقصد خضر اور موسی علیہ السلام کی طرف ہے کہ خضر نے قتل کیا انہوں نے دیوار گرائی انہوں نے کشتی میں چھید کیا یہ سب منکر کام تھے خضر ولی عارف تھے دوسری طرف کتاب الله والے موسی ہیں جو شریعت والے ہیں عارف ہیں

اسطرح ان صوفیوں نے ان چند واقعات سے اپنی پوری دنیا آباد کی – خضر کون تھے ؟ قرآن میں اس پر کوئی کلام نہیں
جو بھی تھے وہ موسی پر جتاتے رہے کہ وہ الله کے حکم سے کر رہے ہیں اور موسی علیہ السلام اس کو جان نہ سکے اور باربار پوچھتے رہے یہ سب کیوں اور کیا ہو رہا ہے؟

اس کا مقصد تھا کہ نظم عالم میں الله تعالی اپنا کام فرشتوں سے کراتا رہتا ہے بظاہر لوگ اس کو سمجھ نہیں پاتے

لہذا ہم صرف یہ کہیں گے کہ الله نے سلیمان کے دربار میں ایک مومن شخص کو کتاب الله یا زبور کی ایک آیت اس وقت یاد دلا دی اور وہ اس نے سلیمان سے بیان کی جس کی طرف ان کا ذہن نہیں گیا تھا اس سے سلیمان نے جان لیا کہ الله نے ان پر احسان کیا کہ ان کے درباری کو اس وقت علم دیا جس کی طرف ان کا ذہن نہیں گیا تھا

قرآن نے خضر و موسی کے قصے کا ذکر ہے اس میں کہیں نہیں کہ شریعت کا مقابلہ ایک غیر شرعی کام سے تھا نہ یہ حدیث میں ہے بلکہ حدیث کے مطابق یہ موسی پر جتایا جا رہا تھا کہ ان کو زمین میں الله کا جو عمل دخل ہے اس کی مکمل خبر نہیں ہے وہ صرف اتنا جان سکے ہیں جتنا ان کو علم دیا گیا ہے
صحیح بخاری کی حدیث ہے
بَيْنَمَا مُوسَى فِي مَلَإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ: أَتَعْلَمُ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْكَ؟ قَالَ مُوسَى: لاَ، فَأَوْحَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى مُوسَى: بَلَى، عَبْدُنَا خَضِرٌ
موسی بنی اسرائیل کے سرداروں کے ساتھ تھے کہ ایک آدمی آیا اور کہا کیا اپ جانتے ہیں کسی کو جس کو اپ سے بڑھ کر علم ہو ؟ موسی نے کہا نہیں پس الله نے الوحی کی کہ نہیں خضر ہے

لہذا ایک بندے خضر سے ملنے کا کہا گیا جنہوں نے وہ کام کیے جو الله نے حرام کیے ہیں لیکن ہر کام پر کہا یہ میں نے الله کے حکم سے کیا
اس سے زیادہ قصے میں نہیں ہے چہ جائیکہ اس سے نام نہاد صوفیاء کا استخراج کیا جائے
سوره کہف کے قصے اہل کتاب کے سوالات کے جواب میں بیان ہوئے کہ
اصحاب کہف کون ہیں
خضر کون ہیں
ذوالقرنین کون ہیں

یہود کے مطابق موسی و خضر والے قصے میں موسی کوئی اور ہیں اور خضر ذو القرنین کے سپہ سالار ہیں اس کی وضاحت کی گئی کہ یہ موسی وہی ہیں جن پر شریعت آئی اور خضر کا ذو القرنین سے تعلق نہیں ہے لیکن قرآن نے اس وضاحت میں تعلیم کا نکتہ رکھا
خضر بہت ممکن ہے انسانی شکل میں فرشتہ ہو کیونکہ قرآن میں فرشتوں کو بھی بندہ کہا گیا ہے لیکن تعلیم کے لئے موسی سے ان کی اصلیت چھپا دی گئی حدیث کے مطابق ایک موقعہ پر جبریل ایک اجنبی کی شکل میں آئے اور مسجد النبی میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیے اسی طرح بعض موقعوں پر وہ صحابی دحیہ الکلبی رضی الله عنہ کی شکل میں بھی آئے – ابراہیم و لوط علیہما السلام کے پاس فرشتے انسانی شکلوں میں آئے لیکن وہ پہچان نہ سکے حتی کہ انہوں نے بتایا کہ وہ فرشتے ہیں

موسی علیہ السلام کا یہ دعوی کہ وہ زمین پر سب سے زیادہ علم والے ہیں اس واقعہ کے ذریعہ دور ہوا

اس قسم کی بات نبی صلی الله علیہ وسلم سے اس طرح ہوئی کہ جب اپ سے یہود نے سوال کیا تو اپ نے کہا کل آنا میں جواب دوں گا اس پر الوحی نہیں آئی اور بلاخر کئی دن بعد الوحی آئی اور اس سوره کہف کے ذریعہ رسول الله کی تربیت کی گئی کہ آئندہ ایسا مت کہنا
22) وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَلِكَ غَدًا (23) إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذَا نَسِيتَ وَقُلْ عَسَى أَنْ يَهْدِيَنِ رَبِّي لِأَقْرَبَ مِنْ هَذَا رَشَدًا
أور كسي چیز پر مت کہنا کہ میں کل کر دوں گا سوائے اس کے کہ اگر الله نے چاہا اور اپنے رب کا ذکر کرو اگر بھول جاؤ اور کہو ہو سکتا ہے وہ میرا رب رہنمائی کرے اس میں ہدایت کے قریب تر بات کی طرف

اس واقعہ سے صوفیاء کے گروہ کے وجود کا اثبات کرنا باطل ہے

قرآن میں لقمان کا ذکر ہے کہ انہوں نے جو باتیں کیں وہ حکمت والی تھیں یہ حکمت من جانب الله تھی لیکن یہ الله کا احسان ہے کہ حکمت دیتا ہے اور پھر اس بندے کا کتاب الله میں ذکر کر دیتا ہے لقمان کی نبوت کا قرآن میں کوئی ذکر نہیں ہے نہ حدیث میں ہے ان کو حکیم کہا جاتا ہے
یعنی انسانوں میں بعض کو الله حکمت دیتا ہے کہ وہ کسی کام یا بات یا واقعہ کو دیکھ کر اس کے انجام تک پہنچ جاتے ہیں

اگر خضر انسان تھے تو وہ ایک حکیم تھے جنہوں نے جان لیا کہ اس کشتی کا کیا انجام ہو گا اور وہ اس علاقے کے ہوں گے کہ جانتے ہوں کہ یہ کس کی ہے- اسی طرح دیوار میں یقینا کوئی نشانی مضمر ہو گی جس سے والدین نے چاہا ہو کہ جوان ہو کر بچے اس کی مرمت ضرور کریں گے اور پوشیدہ خزانہ پا لیں گے لیکن خضر اس کو بھانپ گئے کہ کوئی اس طرح کی گرتی دیوار کیوں بنانے گا انہوں نے اس دیوار کو سیدھا کر دیا کہ کہیں کوئی اور اس بات کو بھانپ نہ لے اور قبل از وقت دیوار کی بنیاد کھود دی جائے یا وہ تیز ہوا سے گر جائے- اسی طرح نا بکار بچے کو دیکھ کر انہوں نے اس کو قتل کر دیا
کہتے ہیں پوت کے پاؤں پالنے میں ہی دکھ جاتے ہیں

دور خضر میں اس وقت دنیا میں شریعت موسوی تھی جو بنی اسرئیل کے لئے خاص تھی تمام دنیا کے لئے نہیں تھی – خضر چونکہ اسرئیلی نہیں تھے ان پر شریعت موسوی کی پابندیاں نہیں تھیں وہ اپنے عمل میں آزاد تھے – دور قدیم میں الله تعالی نے خبر دی کہ اس نے مومنوں پر القا کیا مثلا ام موسی کو حکم ہوا کہ موسی کو دریا برد کر دیں – یہ القا نبوت کی مد میں نہیں تھا اسی طرح خضر پر القا ہونا میں کوئی عیب نہیں ہے لیکن خاتم النبین محمد صلی الله علیہ وسلم کے بعد اب کوئی چیز اس میں نہیں رہی سوائے سچے خواب کے – جب سے شریعت محمدی آئی ہے یہ القا والی چیز ختم ہوئی- رسول الله صلی الله علیہ وسلم تمام انسانیت پر حجت ہیں اور ان کی شریعت پر عمل لازم ہے لہذا اب کوئی مکاشفہ دلیل نہیں رہا – کسی صوفی کے مکاشفہ سے قتل ویسے بھی جائز نہیں ہو سکتا اس صوفی پر حد شرعی لگے گی اگر پکڑ لیا جائے – یہ جہالت ہے کہ پھر بھی صوفیوں کی طرف سے واقعہ خضر کو بطور دلیل بار بار پیش کیا جاتا ہے

و اللہ اعلم

جواب

یہ قول غلط ہے
امام بخاری نے خلق افعال العباد میں توریت و انجیل کا بھی کلام الله کے طور پر ذکر کیا ہے
یہود کے لئے سوره بقرہ میں کہا
أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كانَ فَرِيقٌ مِنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِنْ بَعْدِ ما عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ [البقرة: 75] انہوں نے جان بوجھ کر کلام الله بدلا
سوره النساء میں کہا
مِنَ الَّذِينَ هادُوا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ وَيَقُولُونَ سَمِعْنا وَعَصَيْنا وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ وَراعِنا لَيًّا بِأَلْسِنَتِهِمْ وَطَعْناً فِي الدِّينِ [النساء: 46] .
کلام میں تحریف کی

سوره المائدہ
فَبِما نَقْضِهِمْ مِيثاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنا قُلُوبَهُمْ قاسِيَةً يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ وَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [المائدة: 13] کلام کو مقام سے ہٹایا

تمام مشرکین اس بات کے قائل ہیں کہ اس کائنات کو ایک ہی ہنستی سنبھال سکتی ہے جس کو رب یا معبود یا بھگوان یا گاڈ کہا جاتا ہے
لہذا اس کی صفت کسی غیر میں ممکن نہیں صرف ایک ہی رستہ ہے اس کو رب کی عطا قرار دیا جائے
اس بنا پر قرآن کی بعض آیات سے باطل عقائد کا استخراج کیا جاتا ہے قرآن کہتا ہے کہ الله اپنے علم غیب کی بعض باتوں سے انبیاء کو بتا دیتا ہے مثلا نبی کی دو بیویاں طے کرتی ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب بھی ماریہ قبطیہ کے ہاں سے آئیں گے ہم کچھ طے شدہ بات بولیں گی لیکن الله اس کی خبر نبی کو کر دیتا ہے اور ازواج کو کہا جاتا ہے کہ نبی کے خلاف کوئی بات نہ کرو
اس کا ذکر سوره تحریم میں ہے کہ دو ازواج حیرت سے پوچھتی ہیں کس نے خبر دی تو رسول الله بتاتے ہیں کہ اللہ علیم خبیر نے علم دیا

اسی طرح قرآن میں ہے کہ موسی سے وادی طوی میں دائیں طرف کلام ہوا اس کی خبر نبی کو نہیں تھی حتی کہ بتایا گیا

نبی صلی الله علیہ وسلم کو معراج ہوئی اور اپ کو نئی چیزوں کو دکھایا گیا اگر علم غیب ہوتا تو اپ کہتے یہ تو مجھے پتا ہے ہر دفعہ جبریل نہ بتاتے کہ یہ کون سے نبی ہیں
اسی طرح نبی صلی الله علیہ وسلم کو یہود نے زہر دیا خیبر میں دعوت کے بہانے اپ نے نوالہ منہ میں بھی رکھ لیا یہاں تک کہ الله کی روک دیا

حاطب بن ابی بلتہ مکہ پر حملہ کی خبر مشرکین کو کرنے کے لئے ایک خفیہ خط بھیجتے ہیں رسول الله کو اللہ خبر دیتا ہے اور ایک عورت کے جوڑے میں سے وہ برآمد ہوتا ہے
نبی صلی الله علیہ وسلم کو اس کی خبر مدینہ میں نہیں ہوتی لیکن رستے میں علی کو بھیجتے ہیں کہ اس عورت کو روکو
یعنی رسول الله کو علم نہیں تھا یہاں تک الله نے اپنے رسول کو بعض باتوں کی خبر دی

یہ الله کی عطا ہے جو وہ اپنے رسولوں کی مدد کرنے کے لئے کرتا ہے اس میں دوام نہیں ہوتا کیونکہ یہ بعض اوقات ہوتا ہے جب الله کا حکم ہو

اگر کوئی صفات الہیہ میں وہ عقیدہ نہ رکھے جو قرآن میں ہے تو یقینا ہمارا رب اس سے سوال کر سکتا ہے
لہذا یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا سوال ہو گا اور اس کا نہیں ہو گا ایسا بولنا نہیں چاہیے الله کے سوال و جواب سے الله کی پناہ

اگر كوئى مسلمان لاعلمى كى بناپر كوئى كافرانہ عمل كرے تو
اسكى يہ لاعلمى اس پر كفر كا حكم لگانے سے مانع ہوتى ہے اور پهر يہ اس كےعذاب ميں بهى
مانع ہوگى جو الله تعالى نے روز قيامت كافروں كيلئے تيار كيا ہے كہ وه ہميشہ گمرا ہوں اور
جن پر الله تعالى كا غضب ہوا ہے انكے ساته نار جہنم ميں رہےاهل سنت كے دلائل مندرجہ
ذيل ہيں:
اولاً: الله رب العزت نے سوره مائده ميں حواريوں كى خطاؤں اور انكى اپنے رب كے بارے ميں يہ
لاعلمى كہ وه(ذات عالى) ہر چيز پر قادر ہے اور اسى طرح حضرت عيسى عليہ السلام كى نبوت
كى سچائى ميں انكے شكوك كا قصہ بياں فرمايا ہے علاوه ازيں الله تعالى نے انكے بارے ميں
فرمايا: ﴿إِذْ قَال الْحَوَارِيُّون يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ هَلْ يَسْتَطِيعُ رَبُّكَ أَنْ يُنَزِّلَ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ
.السَّمَاءِ 17 (المائدة 112(
ہمجرت: اور(يہ بهى ياد كر ) جب حواريوں نے كہا اے عيسى ابن مريم كيا تمهارا رب ايسا كر
سكتا ہے كہ هم پر آسمان سے(كهانے كا) خوان اتار دے-
چنانچہ باوجوديكہ اسميں شك كرنا كہ الله تعالى ہر چيز پر قادر ہے كفر ہے ليكن اس سلسلے
ميں حواريوں كى جہالت اور لاعلمى كى وجہ سے انكى تكفير نہيں كى اور اور انكا يہ عذر
شمار كيا گيا.
اثانيً : نبى اسرائيل ميں سے جن لوگوں نے حضرت موسى عليہ سے كہا تها كہ : ﴿اجْعَلْ لَنَا إِلَهاً
.( كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ 18 (الأعراف الآية 138﴾
اے موسى عليہ السلام همارے لئے بهى ايسا(ہى) معبود بناديں جيسے انكے معبود ہيں. موسى
عليہ السلام نے كہا تم يقينًا بڑے جاهل لوگ ہو-”
حضرت موسى سے انكا يہ كہنا اور سوال كرنا كہ انكے لئے الله تعالى كے ساته كوئى معبود
بنادے. واضح كفر ہے جسميں كوئى شك نہيں ليكن انكى لاعلمى كے عذر كى وجہ سے انكى
تكفير نہيں كى گئى.
اثالثً : امام ابن ماجہ نے روايت كى ہے كہ حضرت معاذ جب شام سے تشريف لائے تو انہوں نے
رسول كريم صلى الله عليہ وسلم كو سجده كيا . تو آپ صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا : “ما هذا
يامعاذ”. معاذ يہ كيا ہے، تو آپ نے عرض كى يا رسول صلى الله عليہ وسلم ميں شام سے آيا
ہوں چنانچہ ميں نے ديكها كہ وه اپنے اساقف ( 19 ) اور بطرقوں كو سجد كرتے ہيں تو ميرے جى
ميں بهى آيا كہ هم بهى آپكے لئے ايسا كريں تو رسول كريم صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا : “فلا
تفعلوا فإني لو كنت آمرًا أحدًا أن يسجد لغير الله لأمرت المرأة أن تسجد لزو جها “( 20 ) ترجمہ :
“بس تم ايسا نہ كرو اگر ميں كسى كو الله تعالى كےعلاوه سجدے كا حكم ديتا تو يقينًا عورت
كو حكم ديتا كہ وه اپنے شوهر كو سجده كرے”.
يہ ايك معروف حقيقت هيكہ غير الله كو سجده كرنا كفر ہے ليكن نبى كريم صلى الله عليہ وسلم
نے انہيں يہ باور كرايا كہ سجده كرنا عبادت ہے اور يہ الله تعالى كے سوا كسى اور كيلئے جائز
نہيں مگر آپ صلى الله عليہ وسلم نے ان پر كفر وارتداد كا حكم نہيں لگايا-
ارابعً : بخارى نے حضرت ابن عمر سے روايت كى ہے كہ وه حضرت عمر بن خطاب كے ساته
سوار ہوئے اور وه اپنے باپ كى قسم كها رہے تهے چنانچہ رسول كريم صلى الله عليہ وسلم نے انہيں بلايا اور فرمايا
أَلاَ إِنَّ اللَّهَ يَنْهَاكُمْ أَنْ تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ، فَمَنْ كَانَ حَالِفًا فَلْيَحْلِفْ بِاللَّهِ، وَإِلاَّ فَلْيَصْمُتْ »
.(21) «
كيا الله تعالى نے تمهيں اپنے أبا وأجداد سے منع نہيں فرمايا پس جو كوئى قسم
كهائے تو اسے چاہيے كہ وه الله تعالى كى قسم كهائے وگرنہ چپ رہے.
الله رب العزت كے علاوه كسى اور كى قسم كهانا شرك ہے جيسا كہ اس حديث مباركہ ميں ہے،
آپ صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا : “من حلف بغير الله فقد أشرك “( 22 ) جس نے الله تعالى كے
علاوه كسى اور كى قسم كهائى تو اس نے شرك كيا .” ليكن حضرت عمر كو اس وقت علم نہيں
تها كہ الله تعالى كے علاوه كسى اوركى قسم كهانا شرك ہے اسى حقيقت كى بناپر (انكى لاعلمى
كو) عذر شمار كيا گيا.
يہ اور انكے علاوه اور بہت سے دلائل ہيں جن سے مكمل طور پر واضح ہوتا ہے كہ مسلمان سے
لاعلمى كى بناپر كفر سرزد ہو تو اس پر كفر كا حكم نہيں لگايا جاتا ہے اور نہ ہى اسے كافر
كہا جاتا ہے يہاں تك كہ اسكو بتا كر اس پر حجت قائم كردى جائے . اور اگر لاعلمى كى معتبر
وجوهات اور اسباب ہوں جنهيں دور نہيں كيا جا سكتا تو اس صورت ميں اسكى لاعلمى وجو بطورعذر قبول كى جاتى ہے . تو نتيجةًً اس پر نہ تو كفر كا حكم لگايا جاتا ہے اور نہ ہى اس
كيلئے وعيد اور عذاب ہے.
ےہ اور يہ شيخ ابن عثيمين كى رائے

جواب

حواری جاہل نہیں تھے اطمینان قلب چاہتے تھے لہذا ان کی مثال ابراہیم علیہ السلام کی سی تھی جب انہوں نے کہا کہ میرا رب مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے اور ان کو پرندوں والا حکم دیا گیا
لہذا یہ دلیل صحیح نہی

بنی اسرائیل جو موسی علیہ السلام کے ساتھ تھے ان پر تو بار بار عذاب آیا انہوں الله کو دیکھنے کی خواہش کی اس پر آیا
گوسالہ پرستی پر آیا لہذا یہ دلیل بھی صحیح نہیں

ابن ماجہ کی بیوی کا شوہر کو سجدہ کرنے کی روایت صحیح نہیں

غير الله كي قسم کھانا منع ہے کفر نہیں ہے

کتاب العلل میں ابن ابی حاتم لکھتے ہیں
وسألتُ  أَبِي عَنْ حديثٍ رَوَاهُ أيُّوب ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَوْف، عَنِ ابْنِ أَبِي أَوْفى: أنَّ مُعاذً  قَدِمَ على النبيِّ (ص) ، فسَجد له، فنهاه النبيُّ (ص) وَقَالَ: لَوْ كُنْتُ  آمِرًا  أَحَدًا يَسْجُدُ لأَِحَدٍ؛ لأَمَرْتُ المَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا … ، الحديثَ؟
فقال أبي: يُخالَفُ أيُّوبُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ؛ فَقَالَ هشامٌ
الدَّسْتوائِي  إِسْنَادًا  سِوَى [ذَا].
وَرَوَاهُ النَّهَّاسُ بنُ قَهْم  ، عَنِ [الْقَاسِمِ] بإسنادٍ آخَرَ، والدَّسْتوائِي حافظٌ مُتْقِنٌ، وَالْقَاسِمُ بْنُ عَوْف مضطربُ الْحَدِيثِ، وأخافُ أَنْ يكونَ الاضطرابُ مِنَ الْقَاسِمِ.

اس روایت پر ابی حاتم نے کہا کہ قاسم بن عون کی سند میں اضطراب ہے

کتاب ذخيرة الحفاظ میں ابن القيسراني  کہتے ہیں اس کی ابوہریرہ والی سند بھی ضعیف ہے
رَوَاهُ سُلَيْمَان بن دَاوُد اليمامي: عَن يحيى بن أبي كثير، عَن أبي سَلمَة، عَن أبي هُرَيْرَة. وَسليمَان هَذَا لَيْسَ بِشَيْء فِي الحَدِيث.

. رَوَاهُ نعيم بن حَمَّاد: عَن رشدين بن سعد، عَن عقيل، عَن ابْن
شهَاب، أَبِيه، عَن أبي هُرَيْرَة. وَهَذَا بِهَذَا الْإِسْنَاد عَن رشدين لم يروه عَنهُ غير نعيم. قَالَ الْمُؤلف: وَلَا نعلم لِابْنِ شهَاب عَن أَبِيه. رَوَاهُ عَنهُ أحد
اس کی دوسری سند میں مجھول ہے

اس کی ایک اور سند ہے لیکن اس میں بھی ضعیف راوی ہے
رَوَاهُ صَدَقَة بن عبد الله السمين: عَن سعيد بن أبي عرُوبَة، عَن قَتَادَة، عَن الْقَاسِم الشَّيْبَانِيّ، عَن زيد بن أَرقم. وَصدقَة ضَعِيف.

دارقطنی نے اس کو علل میں بیان کیا ہے اس کے تمام طرق جمع کر کے ان پر بحث کی ہے لیکن کسی کی تحسین نہیں کی

جس نے غیر الله کی قسم کھائی اس نے شرک کیا سندا ضعیف ہے

بیہقی کے مطابق اس کی سند میں انقطاع ہے  اور مشکل آثار میں الطحاوی کے مطابق اس کی سند میں مجھول راوی ہے

دارقطنی کے مطابق بھی یہ ضعیف ہے

یہ حدیث شاہد صحیح سند سے بھی کہیں بیان ہوئی ہے

حدیث میں ارشاد فر ماگیا ہے اگر اللہ کے علاوہ کسی اور کیلئے میں سجدہ کا حکم دیتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے بوجہ اس حق کے جو اللہ نے ان مردوں کا عورتوں پر لکھا ہے

( ابو داؤد ۱؍ ۲۹۱)

بسم اللہ والصلام والسلام علی رسول اللہ اما بعد:
عورت پر اس کے شوہر کے بہت سے حقوق ہیں، حتی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((لا يصلح لبشر أن يسجد لبشر، ولو صلح أن يسجد بشر لبشر لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها من عظم حقه عليها، والذي نفسي بيده لو أن من قدمه إلى مفرق رأسه قرحة تنبجس بالقيح والصديد ثم أقبلت تلحسه ما أدت حقه))
. یعنی کسی بشر کے لیے جائز نہیں کہ کسی دوسرے بشر کو سجدہ کرے، اگر ایسا کرنا درست ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر آدمی کیقدم سے لے کر سر کی چوٹی تک سب پیپ سے بھرا ہوا اور عورت اس سب کو اپنے منہ سے چوس لے تب بھی مرد کا حق نہیں ادا کر سکتی[مسند أحمد:12614 صحیح ابن حبان(4164) سنن دارقطنی(3571) وغیرھا من الکتب]

جواب

ان سب کی اسناد میں
خَلَفُ بْنُ خَلِيفَةَ، عَنْ حَفْصٍ، عَنْ عَمِّهِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ
ہیں اور خلف مظبوط راوی نہیں ہے

امام احمد نے بھی ان کو اختلاط کے عالم میں دیکھا کیونکہ وہ کہتے ہیں
فَسُئِلَ عَنْ حَدِيْثٍ، فَلَمْ أَفْهَمْ كَلاَمَهُ.
میں نے اس سے حدیث پوچھی لیکن اس کا کلام سمجھ نہ سکا

قال ابن عيينة: يكذب
ابن عيينة کہتے تھے جھوٹ بولتا ہے

سنن اربع والوں اور مسلم نے روایت لی ہے
امام مسلم نے تین روایت لکھی ہیں جن میں خلف نے حفص سے کچھ روایت نہیں کیا

بعض محدثین نے روایت میں حفص کو بن عبيد الله ابْن أخي أنس بولا ہے لیکن
امام احمد کے مطابق اس کی سند میں حفص سے سوائے خلف کے کوئی راویات نہیں لیتا
کتاب سؤالات أبي داود للإمام أحمد بن حنبل في جرح الرواة وتعديلهم کے مطابق
سَمِعت أَحْمد يَقُول حَفْص بن عبيد الله الَّذِي روى عَنهُ ابْن إِسْحَاق وَيحيى بن أبي كثير لَيْسَ هُوَ الَّذِي يحدث عَنهُ خلف بن خَليفَة الَّذِي يحدث عَنهُ خلف مَا أعلم أحدا حدث عَنهُ غَيره

لہذا یہ خفص مجھول ہو گیا کیونکہ اس کا صرف خلف کو پتا ہے کسی اور کو نہیں

دارقطنی کے بقول حفص بن عمر بن عبد الله بن أبي طلحة ہے لیکن اس روایت کو علل میں معاذ بن جبل کی سند سے رد کرتے ہیں

سنن دارقطنی سنن الکبری البیہقی سنن الکبری نسائی مصنف ابن أبي شيبة مسند البزار میں یہ ایک اور سند سے بھی ہے
نا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ , وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْوَرَّاقُ , قَالَا: نا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ زَنْجُوَيْهِ , نا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ , نا رَبِيعَةُ بْنُ عُثْمَانَ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ , عَنْ نَهَارٍ الْعَبْدِيِّ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ , أَنَّ رَجُلًا جَاءَ بِابْنَتِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: هَذِهِ ابْنَتِي أَبَتْ أَنْ تَزَوَّجَ , فَقَالَ: «أَطِيعِي أَبَاكِ أَتَدْرِينَ مَا حَقَّ الزَّوْجُ عَلَى الزَّوْجَةِ؟ , لَوْ كَانَ بِأَنْفِهِ قُرْحَةٌ تَسِيلُ قَيْحًا وَصَدِيدًا لَحَسَتْهُ مَا أَدَّتْ حَقَّهُ» , فَقَالَتْ: وَالَّذِي بَعَثَكَ لَا نَكَحْتُ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُنْكِحُوهُنَّ إِلَّا بِإِذْنِهِنَّ»
اس کی سند میں نَهار بْن عَبد اللهِ، العَبديُّ جن کو ابن خراش نے صدوق کہا ہے
اس کی سند میں ربيعة بن عثمان بھی ہے اور مستدرک حاکم میں اسی سند سے ہے جس پر الذھبی لکھتے ہیں
بل منكر قال أبو حاتم ربيعة منكر الحديث
یہ منکر ہے ابو حاتم نے ربيعة بن عثمان کو منکر الحدیث کہا أبو زرعة: ليس بذاك القوى.
ابن معین نے کہا کوئی برائی نہیں

الغرض روایت ضعیف ہے اور اس کی ایک سند کا راوی مجھول ہے اور باقی سندوں میں مختلف فیہ راوی ہے

ایک صاحب کہتے ہیں

جیسا کہ ہم نے پڑھا کہ جادو حرام ہے اور اس کی وجہ ا س میں شرک کی علت کا ہونا ہے۔ ظاہر ہے اللہ تعالی اپنے فرشتوں کے ذریعے اس قسم کا کوئی علم کیسے اتار سکتے ہیں جس میں شرک کی آلائش ہو۔ میری رائے کے تحت ہاروت و ماروت پر اتارا گیا علم پیراسائکلوجی کے جائز علوم میں سے ایک تھا ۔ البتہ اس کا استعمال منفی و مثبت دونوں طریقوں سے کیا جاسکتا تھا۔ جیسا کہ اسی آیت میں ہے:
غرض لوگ ان سے (ایسا) سحر سیکھتے، جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں۔ اور خدا کے حکم کے سوا وہ اس (سحر) سے کسی کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے تھے۔ اور کچھ ایسے سیکھتے جو ان کو نقصان ہی پہنچاتے اور فائدہ کچھ نہ دیتے۔(البقرہ ۱۰۲:۲)
اس آیت میں ہے کہ اس علم سے فائدہ بھی پہنچ سکتا تھا اور نقصان بھی ۔ لیکن انہوں نے صرف نقصان پہنچایا جس میں سرفہرست میاں بیوی میں جدائی تھی۔ اس کی وجہ بھی کچھ علما کے نزدیک یہ تھی کہ بنی اسرائل کو اس دور میں غیر یہودی عورت سے شادی کرنا ممنوع تھا۔ اس وقت خواتین کی کمی تھی اس لَئے لوگ جدائی ڈلواکر اس کی عورت کو اپنی بیوی بنانا چاہتے تھے۔ تو بہر حال وہ علم کسی طور شرکیہ یا ممنوع علم نہ تھا بلکہ اپنی اصل میں جائز تھا۔ اس کے منفی استعمال کی مذمت کی گئی ہے۔ یعنی وہ علم اپنی ذات میں حرام نہیں بلکہ آزمائش تھا ۔ البتہ اس کا منفی استعمال اسے حرام بنا رہا تھا

جواب

ہر علم من جانب الله ہے اور اس کی تاثر بھی من جانب الله ہے سحر الله نے اتارا جو ایک عمل ہے جو راقم کے علم کے مطابق اسماء الحسنی سے شروع ہوتا ہے اور شرک پر منتج ہوتا ہے اس پر یہود کی قدیم کتب سحر دیکھی جا سکتی ہیں یہاں ان کی تفصیل نہیں دی جا سکتی کہ یہ کیا ہے کیونکہ یہ پھر سحر سکھانے کے مترادف ہو سکتا ہے
لیکن یہ علم شرکیہ عمل پر لے کر جاتا ہے اور علم نجوم اس کی قبیل سے ہے اسی لئے حدیث میں علم نجوم سے دور رہنے کے لئے کہا گیا ہے

جادو سحر آج تک یہودی کرتے ہیں مسلمان کرتے ہیں اور اس کا مخزن اگر کوئی اور ہوتا تو قرآن میں صاف آتا اس کو مبہم نہ رکھا جاتا
دوم ساحر کو علم ہوتا ہے کہ وہ شرک کر رہا ہے اور ایک ممنوع عمل ہے اسی لئے جب موسی کا عصا ساحروں کا جادو توڑتا ہے تو وہ کہتے ہیں

إِنَّا آمَنَّا بِرَبِّنَا لِيَغْفِرَ لَنَا خَطَايَانَا وَمَا أَكْرَهْتَنَا عَلَيْهِ مِنَ السِّحْرِ وَاللَّهُ خَيْرٌ وَأَبْقَى
هم اپنے رب پر ایمان لائے کہ وہ ہمارے گناہوں کی مغفرت کر دے اور ہم کو (اے فرعون) تم نے جادو پر مجبور کیا

عبدالله بن شقیق عن ابو هریرة(کان أصحاب محمد صلی الله علیه وسلم لا یرون شیأ من الأعمال ترکه کفر غیر الصلاة)
طبرانی

جواب

دور نبوی میں تارک نماز کفر کی نشانی تھا کیونکہ منافق رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو نبی تسلیم نہیں کرتے تھے اس پر وعید تھی کہ نماز میں تساہل کرتے ہیں
اللہ کو بھول چکے ہیں یتیم کو مال نہیں دیتے جہاد میں مال نہیں دیتے لہذا یہ بات ایک چیک تھی کہ کون نماز پڑھ رہا ہے کون تساہل دکھا رہا ہے

بغوی شرح السنہ میں کہتے ہیں
اختلف أهل العلم في تكفير تارك الصلاة المفروضة عمداً، فذهب إبراهيم النخعي وابن المبارك وأحمد وإسحاق إلى تكفيره … وذهب الآخرون إلى أنه لا يكفَر … وقال حماد بن زيد ومكحول ومالك والشافعي: تارك الصلاة يقتل كالمرتد، ولا يخرج به عن الدين. وقال الزهري: وبه قال أصحاب الرأي: لا يقتل، بل يحبس ويضرب حتى يصلي، كما لا يقتل تارك الصوم والزكاة والحج.

اہل علم کا اختلاف ہے کہ نماز فرض کو جان بوجھ کر ترک کرنے والا کافر ہے یا نہیں پس إبراهيم النخعي وابن المبارك وأحمد وإسحاق تکفیر کی طرف مذھب رکھتے ہیں اور باقی اس پر تکفیر نہیں کرتے … حماد بن زيد ومكحول ومالك والشافعي کہتے ہیں کہ اس کو مرتد کی طرح قتل کیا جائے اور امام الزہری اور اصحاب رائے کہتے ہیں قتل نہیں کیا جائے بلکہ قید کیا جائے اور پٹائی کی جائے یہاں تک کہ نماز پڑھے ایسے ہی جیسے روزہ و زکوه اور حج نہ کرنے والے کو قتل نہیں کیا جاتا

اہل حدیث طالب الرحمان  کا کتاب آئیے عقیدہ سیکھے میں فتوی ہے کہ نماز یا زکواه ادا نہ کرنے والا واجب القتل ہے

 

بخاری جلد اول ابواب التقصیر الصلوۃ ۔۔۔
حسین بن علی رضی سے روایت ہے کہ مجھے علی رضی نے بتایا ایک رات رسولؐ ان کے اور فاطمہؓ کے پاس تشریف لائے اور پوچھا تم دونوں نماز نہیں پڑھتے؟ میں نے عرض کیا ہماری جان اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہے جب اٹھانا چاہتا ہے اُٹھ جاتے ہیں ۔جب ہم نے یہ کہا کہ آپ لوٹ گئے اور ہماری طرف بالکل متوجہ نہ ہوئے پھر میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ران پر ہاتھ مار کر فرما رہے تھے ۔انسان سب سے بڑا جھگڑالو ہے

علی کے حوالے سے بیان کیا جاتا ہے کہ وہ نماز   نہیں پڑھتے تھے

یہ روایت منکر ہے ایسا ممکن نہیں ہے البتہ اس کو پیش کیا ہے  اس حدیث  کو صحیح سمجھا جائے تو کیا  نتیجہ نکلتا ہے غور کریں