جنات

جواب

قرآن كا فیصلہ ہےإنه يراكم هو وقبيله من حيث لا ترونهم إنا جعلنا الشياطين أولياء للذين لا يؤمنون ( 27

بے شک یہ (ابلیس) اور اس کا گروہ تمہیں دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے

اس کے برعکس ابن تیمیہ فتاوی میں کہتے ہیں

إذْ وُجُودُهُمْ ثَابِتٌ بِطُرُقِ كَثِيرَةٍ غَيْرِ دَلَالَةِ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ فَإِنَّ مِنْ النَّاسِ مَنْ رَآهُمْ وَفِيهِمْ مَنْ رَأَى مَنْ رَآهُمْ وَثَبَتَ ذَلِكَ عِنْدَهُ بِالْخَبَرِ وَالْيَقِينِ. وَمِنْ النَّاسِ مَنْ كَلَّمَهُمْ وَكَلَّمُوهُ وَمِنْ النَّاسِ مَنْ يَأْمُرُهُمْ وَيَنْهَاهُمْ وَيَتَصَرَّفُ فِيهِمْ: وَهَذَا يَكُونُ لِلصَّالِحِينَ وَغَيْرِ الصَّالِحِينَ

ان  (جنات) کا وجود کتاب سنت کے علاوہ بھی بہت سے طرق سے ثابت ہے کیونکہ لوگوں میں سے کچھ نے ان کو دیکھا ہے — کچھ نے کلام کیا ہے

اس کے برعکس امام الشافعی کا قول ہے

من زعم من أهل العدالة أنّه يرى الـجن ردّت شهادته

جس نے اہل عدالت میں سے یہ دعوی کیا کہ اس نے جن دیکھا تو اس کی شہادت رد کر دو

بحوالہ مناقب امام الشافعی

حدیث میں ہے کہ ابو ہریرہ نے شیطان کو انسانی چور کی صورت دیکھا نہ کہ اس کی اصلی شکل میں – آیت الکرسی کی فضلت کے حوالے سے یہ مخصوص حدیث متنا منکر ہے – اس کی سند ہے عُثْمَانُ بْنُ الهَيْثَمِ أَبُو عَمْرٍو، حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

اور اس میں عُثْمَانُ بْنُ الهَيْثَمِ أَبُو عَمْرٍو کا تفرد ہے  جو بصری ہے

قال الساجي: صدوق، ذكر عند أحمد بن حنبل، فأومأ إلى أنه ليس بثبت، وهو من الأصاغر الذين حدثوا عن ابن جريج وعوف، ولم يحدث عنه. «تهذيب التهذيب» 7/ (312) .

الساجی نے کہا  .. میں نے امام احمد سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے اس کو غیر مضبوط قرار دیا اور کہا یہ الأصاغر میں سے ہے جو عوف سے روایت کرتا ہے

دارقطنی نے اس کو كثير الخطأ قرار دیا ہے اور بندار اس کی حدیث نہیں لکھتے تھے    الكواكب النيرات في معرفة من الرواة الثقات از ابن  الكيال (المتوفى: 929هـ) کے مطابق آخری عمر میں یہ مختلط بھی تھا

قال أبو حاتم: صدوق غير انه بأخرة كان يتلقن ما يلقن

ابو حاتم نے کہا صدوق ہے لیکن آخر میں جو بھی ملتا اس کو بیان کر دیتا

اسی طرح  الاغتباط بمن رمي من الرواة بالاختلاط از  المؤلف: برهان الدين الحلبي أبو الوفا   (المتوفى: 841هـ) میں بھی اس کو مختلط لکھا گیا ہے

آیت الکرسی کی فضیلت  کے حوالے سے حدیث بیان کرنے میں اس کا تفرد ہے اور اس کا متن منکر ہے

قابل غور ہے کہ امام بخاری نے حدثنا یا اخبرنا سے یہ روایت نہیں لی بلکہ  وَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ الهَيْثَمِ أَبُو عَمْرٍو سے لی  ہے اور محدثین کا کہنا یہ اس وجہ سے ہے جب ان کو سند پر کچھ احتمال ہو تو ایسا کرتے ہیں – راقم کے نزدیک یہ مذاکرے کی بات ہے اس لئے قال لنا ہے اور ممکن ہے امام بخاری نے شاگرد کو سنائی ہو اور صحیح الجامع کے متن میں سے ہے یہ امام کی مراد نہ ہو – صحیح میں ایک روایت پر امام بخاری نے کہا  وقال لي علي بن عبد اللَّه –  جب امام بخاری و قال لنا یا قال لی کہتے ہیں تو اس کی یہ وجہ بیان کی گئی ہے
منذری کا کہنا ہے
فقال: وقال لي علي بن عبد اللَّه -يعني ابن المديني- فذكره- وهذه عادته فيما لم يكن على شرطه،

امام بخاری نے کہا ہے : مجھ سے کہا امام علی یعنی ابن المدینی نے اور ذکر کیا اور یہ ان کی عادت ہے کہ جب روایت ان کی شرط پر نہیں ہوتی

یعنی یہ آیت الکرسی والی روایت جامع الصحیح کی وہ روایت نہیں جو امام بخاری کی شرط پر صحیح ہے – البتہ لوگوں نے اس کو ایسی صحیح سمجھ لیا ہے کہ گویا اس میں سب ثابت ہے

اس کی سند میں  عوف بن أبى جميلة  بھی ہے جو بصری ہے لیکن

قال بندار كان قدريا رافضيا شيطانا

بندار کہتے قدری رافضی شیطان ہے

محمد بن بشار بن عثمان  أبو بكر العبدي البصري بندار المتوفی ٢٥٢ ھ کے نزدیک اس کی سند میں دونوں بصری متروک ہیں  – بندار خود بھی بصری ہیں اور اہل شہر  بصرہ کی اس منفرد روایت کو رد کرتے تھے

باقی بعض لوگوں کا انبیاء کے دیکھنے سے دلیل لینا صحیح نہیں کیونکہ ان کو جو دکھایا جاتا ہے وہ ان کے لئے خاص ہے

وَخْزُ أَعْدَائِكُمْ مِنَ الْجِنِّ

طاعون  دشمن جنوں کی سوئی ہے

 الجامع الصغیر و قال البانی صحیح

جواب
منکر ہے
طبرانی کبیر میں ہے
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بن إِبْرَاهِيمَ بن يَزْدَادَ الطَّبَرَانِيُّ الْخَطِيبُ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بن أَيُّوبَ النَّصِيبِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بن عِصْمَةَ النَّصِيبِيُّ ، عَنْ بِشْرِ بن حَكَمٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بن أَبِي حُرَّةَ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ : فَنَاءُ أُمَّتِي فِي الطَّعْنِ وَالطَّاعُونِ ، قُلْنَا : قَدْ عَرَفْنَا الطَّعْنَ فَمَا الطَّاعُونُ ؟ ، قَالَ : وَخْزُ أَعْدَائِكُمْ مِنَ الْجِنِّ ، وَفِي كُلٍّ شَهَادَةٌ ، لَمْ يَرْوِهِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بن أَبِي حُرَّةَ ، إِلا بِشْرٌ ، وَلا عَنْ بِشْرٍ ، إِلا عَبْدُ اللَّهِ بن عِصْمَةَ
سند میں إِبْرَاهِيمَ بن أَبِي حُرَّةَ ضعیف ہے
——مسند احمد میں اور دیگر کتاب میں ابو موسی رضی الله عنہ سے منسوب ہےدارقطنی نے علل میں بحث کی ہے
وسئل عن حديث كردوس عن المغيرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال قال فناء أمتي بالطاعون والطعن فقال يرويه زياد بن علاقة واختلف عنه
فرواه أبو أحمد الزبيري عن الثوري عن زياد بن علاقة عن كردوس عن المغيرةورواه إسماعيل بن زكريا عن مسعر والثوري عن زياد بن علاقة عن كردوس عن أبي موسىورواه وكيع عن الثوري ورواه أبو بكر النهشلي عن زياد بن علاقة عن أسامة بن شريك عن أبي موسىورواه أبو حنيفة عن زياد بن علاقة عن عبد الله بن الحارث عن أبي موسىورواه سعاد بن سليمان عن زياد بن علاقة عن يزيد بن الحارث عن أبي موسىورواه أبو شيبة إبراهيم بن عثمان عن زياد بن علاقة عن اثنى عشر رجلا من بني ثعلبة عن أبي موسىورواه الحكم بن عتيبة عن زياد بن علاقة عن رجل من قومه لم يسمه عن أبي موسى
زياد بن علاقة نے اس کو چھ لوگوں سے سنا ہے اور سند بدلتا رہا ہے اور یہ بھی کہا بني ثعلبة کے ١٢ لوگوں سے سنا

ثم قال الدارقطني: والاختلافُ فيه من قِبَلِ زياد بن علاقة، ويُشبه أن يكون حَفِظَهُ عن جماعة، فمرةً يرويه عن ذا، ومرة يرويه عن ذا.
دارقطنی نے کہا اس میں اختلاف زياد بن علاقة کی وجہ سے ہے اور لگتا ہے کہ اس نے اس کو ایک جماعت سے حفظ کیا ہے تو کبھی کچھ نام لیا کبھی کچھ لیا

 شعيب الأرنؤوط نے مسند احمد میں اس کو کوئی حکم نہیں لگایا
لیکن حسين سليم أسد نے مسند ابو یعلی میں اس کو ضعیف کہا ہے

زياد بن علاقة بن مالك الثعلبي کو ثقہ کہا گیا ہے لیکن بد مذھب بھی کہا گیا ہےقال أبو الفتح الأزدي: سيئ المذهب
شیطان کا کام بیماری نازل کرنا نہیں ہے – اہل کتاب کو اس طرح کا ابہام ہے کہ بیماری شیطان کی طرف سے ہوتی ہے لہذا وہ شیطان کے نام پر ایک بھیڑ جبل المنتر سے نیچے پھینکتے تھے اس کو

Goat of Atonement

کہا جاتا ہے
جنات اگر بیماری نازل کرتے ہیں تو ظاہر ہے لوگ ان کے نام نذر بھی کریں گےراقم کو علم ہے کہ مسلمان بھی جنات کو خوش کرنے کے لئے بعض علاقوں میں ایسا کرتے ہیں

جواب اس پر کوئی واضح دلیل نہیں ایک روایت پیش کی جاتی ہے
اَلْجِنُّ ثَلَاثَۃُاَصْنَافٍ: صِنْفٌ یَطِیْرُفِیْ الْھَوَآءِ وَصِنْفٌ حَیَّاتٌ وَّکِلَابٌ وَصِنْفٌ یَحُلُّوْنَ وَیَظْعَنُوْنَ۔
جنات تین قسم کے ہوتے ہیں۔  ایک قسم وہ ہے جو ہوا میں اڑتے ہیں ایک وہ ہے جو سانپوں اور کتوں کی شکل میں ظاہرہوتے ہیں   اور ایک قسم وہ ہے جو  ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے ہیں

 (طبرانی ،حاکم ، بیھقی : باب الا سماء والصفات)

میزان الاعتدال از الذھبی کے مطابق

اس کی سند میں معاوية بن صالح   ہیں امام یحیی القطان اس سے خوش نہ تھے الذھبی کہتے ہیں وكان يحيى القطان يتعنت  -ولا يرضاه.  وقال أبو حاتم: لا يحتج به اور ابو حاتم اس کو ناقابل دلیل کہتے ہیں

اس کے علاوہ ایک روایت پیش کی جاتی ہے

ابوسعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم  فرمایا : اِنَّ بِالْمَدِیْنَۃِجِنًّا قَدْاَسْلَمُوْافَاِذَارَاَیْتُمْ مِّنْ ھٰذِہِ الْھَوَامِّ شَیْءًا فَأْذَنُوْہُ ثَلَاثًافَاِنْ بَدَالَکُمْ فَاقْتُلُوْہُ
مدینہ منورہ میں کچھ جنات مسلمان ہوگئے ہیں۔ لہذاتم اگر گھر میں کوئی سانپ دیکھوتو اسے تین بارمتنبہ  کرو اگر پھر بھی ظاہر ہوتو اسے مارڈالو۔(مسلم شریف : کتاب السلام ،سنن ابی داود ۔کتاب الادب ، موطأ امام مالک : کتاب الاستیذان )۔

روایت میں جنا کا لفظ ہے جس سے مراد سانپ ہیں نہ کہ جنات

صحیح مسلم کی روایت میں ہے

إن لهذه البيوت عوامر فإذا رأيتم شيئا منها فحرجوا عليها ثلاثا فإن ذهب وإلا فاقتلوه فإنه كافر

ان گھروں میں سانپ ہیں لہذا جب تم دیکھو تو ان کو تین دن دو اگر نہیں جائیں تو قتل کر دو کیونکہ یہ کافر ہیں

ابن منظور لسان العرب میں کہتے ہیں کہ عوامر  سے مراد ہے العَوامِرُ الحيّات التي تكون في البيوت  یعنی وہ سانپ جو گھروں میں ہوتے ہیں اسی طرح جنا سے مراد بھی سانپ ہیں مثلا قرآن میں ہے کہ موسی کا عصآ تَهْتَزُّ كأَنها جانٌّ ایک سانپ کی طرح ہلنے لگا

اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ جنات سانپ بن جاتے ہیں صحیح نہیں ابن حبان صحیح میں اس روایت پر باپ قائم کرتے ہیں

ذكر الأمر بقتل المرء الحيه إذا راها في داره بعد إعلامه إياها ثلاثة أيام

ذکر کہ آدمی سانپ کو قتل کر دے جب اس کو خبردار کرنے کے تین دن بعد گھر میں دیکھے

ایک اور روایت پیش کی جاتی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

اَلْکَلْبُ الْاَسْوَدُشَیْطَانٌ کالا کتا شیطان ہوتاہے۔

صحیح مسلم : کتاب الصلوۃ ، سنن ابی داود : کتاب الصلوہ ، سنن الترمذی : کتاب الصید ، سنن نسائی : کتاب القبلۃ ، سنن ابن ماجۃ : کتاب الاقامۃ ، مسند احمد

ابو الوفا ابن عقیل کتاب الفنون میں اس پر کہتے ہیں

 هذا على طريق التشبيه لها بالشياطين، لأن الكلب الأسود أشرّ الكلاب وأقلعها نفعاً، والإبل تشبه الجن في صعوبتها وصولتها، كما يقال: فلان شيطان ؛ إذا كان صعباً شريراً

اس کا مقصد شیاطین سے  تشبیہ ہے کہ کالا کتا کتوں میں سب سے برا ہوتا ہے اور اس کافائدہ کم ہے اور اسی طرح اونٹ کو تشبیہ دی جاتی ہے کہ جن کی طرح مشقت اٹھا سکتا ہے جیسے کہ کوئی کہے یہ تو شیطان ہے

صحیح مسلم میں ہے

حَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدَةَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللهِ: ” إِنَّ الشَّيْطَانَ لِيَتَمَثَّلُ فِي صُورَةِ الرَّجُلِ، فَيَأْتِي الْقَوْمَ، فَيُحَدِّثُهُمْ بِالْحَدِيثِ مِنَ الْكَذِبِ، فَيَتَفَرَّقُونَ، فَيَقُولُ الرَّجُلُ مِنْهُمْ: سَمِعْتُ رَجُلًا أَعْرِفُ وَجْهَهُ، وَلَا أَدْرِي مَا اسْمُهُ يُحَدِّثُ “

عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے فرمایا : بلاشبہ شیطان کسی آدمی کی شکل اختیار کرتا ہے ، پھر لوگوں کے پاس آتا ہے اور انہیں جھوٹ ( پر مبنی ) کوئی حدیث سناتا ہے ، پھر وہ بکھر جاتے ہیں ، ان میں سے کوئی آدمی کہتا ہے : میں نے ایک آدمی سے ( حدیث ) سنی ہے ، میں اس کا چہرہ تو پہنچانتا ہوں پر اس کا نام نہیں جانتا ، وہ حدیث سنا رہا تھا ۔

میزان الاعتدال از الذھبی میں ہے
عامر بن عبدة [م، ق] البجلي. عداده في التابعين. فيه جهالة. له عن ابن مسعود. تفرد عنه المسيب بن رافع.
سند میں عامر بن عبدة مجہول ہے

مسند احمد میں ہے
حَدَّثَنِي عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ مُحَمَّدٍ يَعْنِي الْخَطَّابِيَّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ رَجُلًا خَرَجَ فَتَبِعَهُ رَجُلانِ، وَرَجُلٌ يَتْلُوهُمَا، يَقُولُ: ارْجِعَا، قَالَ: فَرَجَعَا، قَالَ: فَقَالَ لَهُ: إِنَّ هَذَيْنِ شَيْطَانَانِ، وَإِنِّي لَمْ أَزَلْ بِهِمَا حَتَّى رَدَدْتُهُمَا، فَإِذَا أَتَيْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقْرِئْهُ السَّلامَ، وَأَعْلِمْهُ أَنَّا فِي جَمْعِ صَدَقَاتِنَا، وَلَوْ كَانَتْ تَصْلُحُ لَهُ، لَأَرْسَلْنَا بِهَا إِلَيْهِ، قَالَ: ” فَنَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عِنْدَ ذَلِكَ عَنِ الْخَلْوَةِ “

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی خیبر سے نکلا، دو آدمی اس کے پیچھے چل پڑے اور ایک ان دونوں کے پیچھے۔ (آخری آدمی) ان دو سے کہتا رہا: لوٹ آؤ،لوٹ آؤ۔ (یہاں تک کہ) انہیں لوٹا دیا، پھر وہ پہلے آدمی کو جا ملا اور اسے کہا: یہ دو شیطان تھے، میں ان کو پھسلاتا رہا، حتیٰ کہ ان کو واپس کر دیا۔ جب تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہنچے تو آپ کو میرا سلام دینا اور بتلانا کہ میں ادھر زکوۃ جمع کر رہا ہوں، اگر وہ آپ کے لیے مناسب ہوں تو ہم بھیج دیں گے۔ جب وہ آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو سارا واقعہ بیان کیا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلوت سے منع کر دیا۔

أخرجه الحاكم (2 / 102) والبيهقي في ” الدلائل ” (2 / 2 / 229 / 2) وكذا
البزار في ” مسنده ” (رقم 2022 – كشف الأستار) من طريقين عن عبيد الله بن
عمرو الرقي عن عبد الكريم عن عكرمة عن ابن عباس رضي الله عنهما

اس کی سند میں عبد الكريم بن مالك الجزري. جس کی توثیق کرنے میں ابن حبان کو تردد تھا
الذھبی کہتے ہیں ابن حبان نے اس سے دلیل لینے میں توقف کیا ہے
.
توقف في الاحتجاج به ابن حبان،

دوسری طرف عالم یہ ہے کہ ابن حبان مجہول تک کو ثقہ کہتے ہیں
قال أبو أحمد الحاكم: ليس بالحافظ عندهم.
وفي ” كتاب الساجي ” عن يحيى بن معين: ضعيف

وَعَنْ أَسْلَمَ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ – رضي الله عنه – قَالَ: كَانَ عُمَرُ – رضي الله عنه – يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَصْلِحُوا عَلَيْكُمْ مَثَاوِيكُمْ (1) وَأَخِيفُوا هَذِهِ الْجِنَّانَ (2) قَبْلَ أَنْ تُخِيفَكُمْ، فَإِنَّهُ لَنْ يَبْدُوَ لَكُمْ مُسْلِمُوهَا، وَإِنَّا وَاللهِ مَا سَالَمْنَاهُنَّ مُنْذُ عَادَيْنَاهُنَّ.
صَحْيح الْأَدَبِ الْمُفْرَد

اس کی سند میں زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، ہے جو اپنے باپ سے منکرات نقل کرتا ہے

سیرت  اور  کتب  تفسیر میں ایک روایت ہے کہ  غزوۂ بدر کے موقعہ پر شیطان ایک عرب سردار سراقۃ بن مالک کی شکل میں مشرکینِ مکہ کے پاس آیا اس کو سوره انفعال کی آیت کے سلسلے میں پیش کیا جاتا ہے

اور یاد کرو جب شیطان نے ان (مشرکین مکہ ) کے لئے ان کے (برے ) اعمال کو خوبصورت بناکر پیش کیا اور کہا : آج تم پر کوئی غالب نہیں آسکتااور یہ کہ میں بھی تمہارے ساتھ ہوں ۔(الانفال : ۴۸)۔

اور دوسری آیات ہیں

جب دونوں فوجیں آمنے سامنے صف آراء ہوئیں تووہ (شیطان ) الٹے پاؤں بھاگ کھڑا ہوا اور کہنے لگا میرا تمہارے ساتھ کوئی تعلق نہیں ، میں وہ دیکھ رہا ہوں جوتم نہیں دیکھ رہے اور میں اللہ سے ڈررہا ہوں۔

شیطان انسان کو اکساہٹ اور وسوسہ سے گمراہ کرتا ہے

لیکن سندآ یہ قصہ ثابت نہیں ہے

تفسير طبری میں اسکی سند ہے

حدثني المثنى قال، حدثنا عبد الله بن صالح قال، حدثني معاوية، عن علي بن أبي طلحة، عن ابن عباس

 جبکہ علی بن ابی طلحہ کا ابن عباس سے سماع ثابت نہیں دیکھئے جامع التحصیل اور میزان الاعتدال

کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از  العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق

علي بن أبي طلحة قال دحيم لم يسمع التفسير من بن عباس وقال أبو حاتم علي بن أبي طلحة عن بن عباس مرسل

علی بن ابی طلحہ  –  دحیم کہتے ہیں اس نے ابن عباس سے تفسیر نہیں سنی اور ابو حاتم کہتے ہیں علی بن ابی طلحہ ابن عبّاس سے مرسل ہے

معلوم ہوا روایت ضعیف ہے

کہا جاتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے قتل پر اکسانے کے لئے شیطان فَلَمَّا دَخَلُوا الدَّارَ اعْتَرَضَهُمُ الشَّيْطَانُ فِي صُورَةِ رَجُلٍ جَمِيلٍ ایک خوبصورت مرد کی صورت بن کر آیا بعض نے لکھا ہے نجدی شیخ کی صورت آیا اس کو البیہقی نے سندآ دلائل النبوه میں نقل کیا ہے جہاں اس کی سند ہے

حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدِ بْنِ جَبْرٍ الْمَكِّيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ

کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از العلائي (المتوفى: 761هـ) کے مطابق

 عبد الله بن أبي نجيح يسار المكي ذكره بن المديني فيمن لم يلق أحدا من الصحابة رضي الله عنهم وقال إبراهيم بن الجنيد قلت ليحيى بن معين أن يحيى بن سعيد يعني القطان يزعم أن بن أبي نجيح لم يسمع التفسير من مجاهد

 عبد الله بن أبي نجيح يسار المكي علی  بن المديني  نے ان کا ذکر کیا ہے کہ ان کی کسی بھی صحابی رضي الله عنهم سے ملاقات نہیں ہوئی اور  إبراهيم بن الجنيد کہتے ہیں میں نے يحيى بن معين سے کہا کہ  يحيى بن سعيد يعني القطان دعوی کرتے تھے ابن أبي نجيح نے مجاہد سے تفسیر نہیں سنی  ..

یہ بھی ضعیف ہے

الغرض شیطان یا جنات کا کسی مرئی صورت میں آنا صحیح ثابت نہیں ہے

عمر رضی الله عنہ کو ایک کاہن نے بتایا کہ اس پر جنیہ آئی اور وہ بہت گھبرائی ہوئی تھی  لیکن اس روایت میں یہ نہیں کہ کاہن نے اس کو دیکھا بھی تھا بلکہ آواز سے بھی گھبراہٹ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے

صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ ابو ہریرہ رضی الله عنہ نے شیطان کو چور کی صورت دیکھا جو ایک مخصوص واقعہ ہے

یہ حدیث کتب ستہ میں صرف صحیح بخاری میں ہے اور اس کی سند میں عوف بن ابی جمیلہ الاعرابی کا تفرد ہے جو مختلف فیہ ہے اور امام بخاری نے اس کو صحیح میں تین مقام پر نقل کیا ہے

جواب اس کی کوئی دلیل نہیں بلکہ کچھ ضعیف روایات سے یہ استنباط کیا گیا ہے

مسند احمد اور مسند ابی یعلی کی روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے خالد بن الولید کو بھیجا کہ جا کر عزی کا مندر ڈھا دیں وہاں سے ایک برہنہ عورت نکلی رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تِلْكَ الْعُزَّى یہ عزی تھی

اس کی سند میں ابو طفیل  عَامِرُ بنُ وَاثِلَةَ الكِنَانِيُّ ہے جن کا سماع رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے ثابت  نہیں ہے اور صحابی ہونے میں بھی بعض کو اختلاف ہے

امام احمد کے مطابق

وقال عبد الله: حدثني أبي. قال: حدثنا أبو سعيد مولى بني هاشم. قال: حدثني مهدي بن عمران المازني. قال: سمعت أبا الطفيل، وسئل هل رأيت رسول الله – صلى الله عليه وسلم -؟ قال: نعم، قيل: فهل كلمته؟ قال: لا. «العلل» (5822) .

ابو طفیل  عَامِرُ بنُ وَاثِلَةَ الكِنَانِيُّ نے صرف رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا کوئی بات چیت نہیں ہوئی

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے وقت  عَامِرُ بنُ وَاثِلَةَ  آٹھ سال کے تھے تاریخ الکبیر از بخاری کے مطابق

 أدركتُ ثمان سنين من حياة رَسُول اللهِ صَلى اللَّهُ عَلَيه وسَلم،

کتاب الأعلام از الزركلي  کے مطابق یہ مختار ثقفی کذآب (جس کو مصعب بن زبیر نے جہنم واصل کیا) کے ساتھ بھی مل گئے تھے

 ثم خرج على بني أمية مع المختار الثقفي

دارقطنی العل میں کہتے ہیں قال الدَّارَقُطْنِيّ: أبو الطفيل رأى النبي – صلى الله عليه وسلم – وصحبه، فأما السماع فالله أعلم

أبو الطفيل نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا تھا اور اور ان کی صحبت میں رہے لیکن جہاں تک سماع کا تعلق ہے تو وہ الله کو پتا ہے

ابو طفیل سے سننے والے  الوليد بن جميع ابن عبد الله بن جميع الزهري الكوفي ہیں جو مختلف فیہ ہیں بعض نے ثقہ کہا ہے لیکن ابن حبان جو خود متساہل ہیں ان کو کہتے ہیں

 فحش تفرده فبطل الاحتجاج به.

اس کا تفرد فحش ہے اس سے دلیل باطل ہے

یہاں عزی ایک عورت ہونے  والی روایت میں اس کا تفرد ہے  ان وجوہات کی بنا پر یہ حدیث صحیح ثابت نہیں ہے

دوسری حدیث ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے نائلہ جو عربوں کی دیوی تھی اس کو بھی ایک عورت کہا

کتاب أخبار مكة وما جاء فيها من الأثار از الأزرقي  کے مطابق رسول الله نے فرمایا

تِلْكَ نَائِلَةُ، قَدْ أَيِسَتْ أَنْ تُعْبَدَ بِبِلَادِكُمْ أَبَدًا

یہ نائلہ اس سے مایوس ہے کہ اس شہر میں واپس اس کی پوجا ہو

گویا نائلہ کوئی زندہ جن  ہے اس کی سند میں مجھول راوی ہیں سند ہے حَدَّثَنِي جَدِّي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِدْرِيسَ، عَنِ الْوَاقِدِيِّ، عَنْ أَشْيَاخِهِ  یعنی واقدی اپنے بعض شیوخ سے روایت کرتے ہیں الذھبی کتاب تاریخ الاسلام میں اس روایت کو کہتے ہیں  مُنْقَطِعٌ

ج  ٢ ص٥٥٤  پر

لہذا یہ بات صحیح نہیں کہ جنات عورتوں کی صورت میں مشرکین کو گمراہ کرتے تھے

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

علامہ كمال الدين الدميري (المتوفى: 808هـ) اپنی کتاب حياة الحيوان الكبرى میں أسد الغابة کے حوالے سے لکھتے ہیں:

عن أنس بن مالك رضي الله تعالى عنه قال: «كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم خارجا من جبال مكة، إذ أقبل شيخ يتوكأ على عكازه فقال النبي صلى الله عليه وسلم مشية جني ونغمته، قال: أجل فقال النبي صلى الله عليه وسلم: من أي الجن؟
قال أنا هامة بن الهيم أو ابن هيم بن لاقيس بن ابليس. فقال: لا أرى بينك وبينه إلا أبوين قال: أجل. قال كم أتى عليك؟ قال أكلت الدنيا إلا أقلها، كنت ليالي قتل قابيل هابيل غلاما ابن أعوام، فكنت أتشوف على الآكام وأورش بين الأنام. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: بئس العمل؟ فقال يا رسول الله دعني من العتب فإني ممن آمن بنوح وتبت على يديه وإني عاتبته في دعوته فبكى وأبكاني وقال: إني والله لمن النادمين وأعوذ بالله أن أكون من الجاهلين ولقيت هودا وآمنت به، ولقيت ابراهيم وكنت معه في النار إذ ألقي فيها، وكنت مع يوسف إذ ألقي في الجب، فسبقته إلى قعره ولقيت شعيبا وموسى، ولقيت عيسى بن مريم، فقال لي: إن لقيت محمدا فاقرئه مني السلام وقد بلغت رسالته، وآمنت بك فقال النبي صلى الله عليه وسلم: على عيسى وعليك السلام، ما حاجتك يا هامة قال: إن موسى علمني التوراة، وعيسى علمني الإنجيل، فعلمني القرآن. فعلمه». وفي رواية أنه صلى الله عليه وسلم علمه عشر سور من القرآن وقبض رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم ينعه إلينا فلا نراه، والله أعلم، إلا حيا
(حیوۃ الحيوان، باب الجيم: الجن)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں مکہ مکرمہ کے پہاڑوں سے باہر (دور) نکلا۔ یکایک ایک بوڑھے شخص سے سامنا ہوا جس نے اپنی لاٹھی پر ٹیک لگا رکھا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسکی چال ڈھال اور آواز جنوں کی سی ہے۔ اس نے کہا ہاں! (آپ کا اندازہ صحیح ہے). تو نبی اکرم صلی علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ تم جنوں کے کس گروہ سے ہو. اس نے کہا: میرا نام ہامہ بن ہیم بن لاقیس بن ابلیس ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تیرے اور ابلیس کے درمیان صرف دو پشتوں کا فاصلہ دیکھ رہا ہوں. اس نے کہا: ہاں! (آپ کی بات درست ہے). پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ تیری عمر کتنی ہے؟ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میری عمر دنیا کی عمر سے کچھ سال ہی کم ہوگی۔ جس رات قابیل نے ہابیل کو قتل کیا تھا ان دنوں میری عمر چند برس کی تھی۔ میں پہاڑوں میں دوڑتا پھرتا تھا اور لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈال دیا کرتا تھا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تو بہت برا عمل تھا۔ اس جن نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا مجھے ملامت نہ فرمائیے کیونکہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو حضرت نوح علیہ السلام پر ایمان لائے تھے اور انکے ہاتھوں توبہ کرلی تھی۔ اور دعوت (دین) کے کام میں ان کے ساتھ تعاون کیا تھا۔ اس کے بعد وہ جن خود بھی رویا اور ہمیں بھی رلایا۔ اس جن نے کہا اللہ کی قسم میں بہت شرمندہ ہوں اور میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں جاہلوں میں سے ہو جاؤں۔ اور میں نے حضرت ہود علیہ السلام سے ملاقات کی اور ان پر ایمان لایا۔ اور (اسی طرح) میں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بھی ملاقات کی اور جس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا جا رہا تھا میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ اور جب حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں ڈالا گیا تو میں بھی ان کے ساتھ تھا اور حضرت یوسف علیہ السلام سے پہلے اس کنویں میں پہنچ گیا تھا۔ (اسی طرح) میں نے حضرت شعیب علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بھی ملاقات کی تھی. اور (اسی طرح) میں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بھی ملاقات کی. اور حضرت عیسی علیہ السلام نے مجھ سے کہا تھا کہ اگر تمہاری ملاقات محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو تو ان کو میری طرف سے سلام کہنا۔ چنانچہ میں نے انکا پیغام پہنچا دیا اور میں آپ پر ایمان لایا.
پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عیسیٰ علیہ السلام پر سلام ہو اور تجھ پر بھی سلام ہو۔ اے ہامہ تیری کیا حاجت ہے؟ اس جن نے عرض کہا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مجھے تورات سکھائی تھی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مجھے انجیل سکھائی تھی۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) مجھے قرآن سکھا دیجئے۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جن کو قران مجید کی تعلیم دی.
اور ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جن کو قرآن کی دس سورتیں سکھائی تھیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئ۔ لیکن (اس واقعہ کے بعد) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہامہ کے بارے میں پھر کچھ نہیں فرمایا۔ ہم سمجھتے ہیں -واللہ اعلم- وہ زندہ ہے.

جواب

ابن ابی الدنیا پہلے شخص ہیں جو اس کو هواتف الجنان میں بیان کرتے ہیں
وہاں سند محمد بن عبد الله بن المثنى الأنصاري جن کو ابو داود کہتے ہیں تغير تغيرا شديدا بہت تغیر کا شکار تھے
ان صاحب کو جنات سے کچھ زیادہ ہی لگاؤ تھا لہذا ان کی ایک اور روایت بھی ہے جس میں یہ جن چڑھنے کا ذکر کرتے ہیں

سنن ابن ماجہ کی روایت ہے

حدثنا محمد بن بشار . حدثنا محمد بن عبد الله الأنصاري . حدثني عيينة بن عبد الرحمن . حدثني أبي عن عثمان بن أبي العاص قال لما استعملني رسول الله صلى الله عليه و سلم على الطائف جعل يعرض لي شيء في صلاتي حتى ما أدري ما أصلي . فلما رأيت ذلك رحلت إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم . فقال : ( ابن أبي العاص ؟ ) قلت نعم يا رسول الله قال ( ماجاء بك ؟ ) قلت يا رسول الله عرض لي شيء في صلواتي حتى ما أدري ما أصلي . قال ( ذاك الشيطان . ادنه ) فدنوت منه . فجلست على صدور قدمي . قال فضرب صدري بيده وتفل في فمي وقال ( اخرج . عدو الله ) ففعل ذلك ثلاث مرات . ثم قال ( الحق بعملك ) قال فقال عثمان فلعمري ما أحسبه خالطني بعد

عثمان بن ابی العاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھ کو نماز پڑھنے میں مشکل ہوتی اس کا ذکر نبی صلی الله وسلم سے کیا تو اپ میرے سینے ضرب لگائی اور کہا نکل اے الله کے دشمن ! ایسا تین دفعہ کیا … اس کے بعد نماز میں کوئی مشکل نہ ہوئی

ان دونوں کی سند میں مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ ہے جو کسی ذہنی بیماری کا شکار ہوئے
جنات سے خوف زدہ عصر حاضر کے علماء نے ان روایات کو صحیح قرار دے دیا ہے

————-

بحر کیف ابلیس کے رشتہ دار والی یہ روایت ابن عمر رضی الله عنہ سے بھی مروی ہے جس کا ذکر گھڑی ہوئی روایت کی حیثیت سے کیا جاتا ہے

امام عقیلی اس راوی کا ذکر منکر الحدیث کے طور پر کرتے ہیں
قَالَ ابْن حبَان: الْأنْصَارِيّ يروي عَن الثِّقَات مَا لَيْسَ من حَدِيثهمْ.
ابن حبان کہتے ہیں یہ ثقات سے وہ روایت کرتے ہیں جو انکی حدیث میں نہیں ہوتا

اگرچہ سو سال پہلے امام عقیلی اس روایت کوالضعفاء میں رد کر چکے ہیں اس روایت کا دور دورہ پھر شروع ہوتا ہے
سن ٤٠٠ ہجری کے بعد مسلمانوں کو یہ مرض لاحق ہوا کہ کسی بھی طرح اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم کو تمام انبیاء سے افضل بنایا جائے
چنانچہ دلائل النبوه نام سے لأبي نعيم الأصبهاني اور البیہقی نے کتب لکھیں ان میں ضعیف و موضوع روایات کی بھر مار کر دی
ان کو صوفیاء نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور ایسی دو نمبر کتابوں کا بڑا چرچا ہوا
لأبي نعيم الأصبهاني اپنی کتاب میں باب باندھتا ہے
الْقَوْلُ فِيمَا أُوتِيَ سُلَيْمَانُ عَلَيْهِ السَّلَامُ فَإِنْ قِيلَ: فَإِنَّ سُلَيْمَانَ قَدْ أُعْطِيَ مُلْكًا لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِهِ. قُلْنَا: إِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُعْطِيَ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ فَأَبَاهَا وَرَدَّهَا اخْتِيَارًا لِلتَّقَلُّلِ وَالرِّضَا بِالْقُوتِ وَاسْتِصْغَارًا لَهَا بِحَذَافِيرِهَا وَإِيثَارًا لِمَرْتَبَتِهِ وَرِفْعَتِهِ عِنْدَ اللَّهِ تَعَالَى
اگر کوئی کہے کہ سلیمان کو ایسی بادشاہت ملی جو کسی کو نہ ملی ان کے بعد تو ہم کہیں گے کہ بے شک محمد صلی الله علیہ وسلم کو زمیں کے خزانوں کی چابیاں دی گئیں لیکن انہوں نے وہ رد کیں اختیارا
اس کے بعد موصوف جنات کے قصے بیان کرتے ہیں جن میں سے ایک یہ ابلیس کی اولاد کا بھی ہے

یہ صرف غلو ہے اور داد ملنی چاہیے محدثین کی کھال میں ان صوفیوں کو یعنی ابو نعیم کو جنہوں نے یہ رطب و یابس جمع کیا
وہاں اسناد میں أَبُو مَعْشَرٍ الْمَدَنِيُّ ہے جو نافع سے اور وہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں
اسی طرح یہ سعید المقبری سے بھی روایت کرتا ہے

العلل ومعرفة الرجال از احمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ) کے مطابق
سَأَلت يحيى بن معِين عَن أبي معشر الْمَدِينِيّ الَّذِي يحدث عَن سعيد المَقْبُري وَمُحَمّد بن كَعْب فَقَالَ لَيْسَ بِقَوي فِي الحَدِيث

الموضوعات میں ڈیڑھ سو سال بعد ابن جوزی اس کو گھڑی ہوئی کہتے ہیں

ابن جوزی کے ٧٠ سال بعد تفسير القرطبي ج ١٦ ص ٢١٥ میں امام قرطبی نے اس روایت سے دلیل لی کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے ابلیس کے پڑ پوتے کو قرآن کی سورتیں سکھائیں
وعلمه سورة” إِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ” [الواقعة: 1] و” الْمُرْسَلاتِ” [المرسلات: 1] و” عَمَّ يَتَساءَلُونَ” [النبأ: 1] و” إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ” [التكوير: 1] و” الْحَمْدُ” [الفاتحة: 1] و” المعوذتين” [الفلق: 1 – والناس: 1]

اسلام علیکم
(ان الشيطن يجرى من الانسان مجرى الدم.. بخارى و مسلم)
كيا اے روایت اس بات کا دلیل ہے کہ جن انسان کے جسم مے داخل ہو سکتا ہے؟

جواب

و علیکم السلام

بہت سے علماء کے نزدیک یہ دلیل ہے کہ جن انسان میں داخل ہو جاتا ہے – راقم کی رائے میں ایسا نہیں ہے – اس حدیث کے سیاق و سباق میں ہے کہ ایک رات نبی صلی الله علیہ وسلم اپنی بیوی صفية بنت حيي رضي الله عنها کے ساتھ نکلے جبکہ اپ معتكف بھی تھے اور کچھ انصاری صحابہ نے ان کو دیکھا اور تیزی سے جانے لگے- تو آپ نے کہا یہ میری بیوی ہیں اور کہا کہ شیطان انسان میں ایسے دوڑتا ہے (یعنی انسان کو ایسے بہکآتا ہے) کہ اس کے خوں میں ہوں

تفصیل کے لئے دیکھیے
⇑ آسیب چڑھنا
https://www.islamic-belief.net/masalik/غیر-مقلدین/

کتاب العرف الشذي شرح سنن الترمذي از محمد أنور شاه بن معظم شاه الكشميري الهندي (المتوفى: 1353هـ) کے مطابق
قال الغزالي: إن الشيطان يدخل في جوف الإنسان، وقال ابن حزم: إنه لا يدخل
غزالی نے کہا شیطان انسان کے پیٹ میں داخل ہو جاتا ہے اور ابن حزم نے کہا نہیں ہوتا
محمد أنور شاه بن معظم شاه الكشميري الهندي کے مطابق غزالی کی رائے صحیح ہے

کتاب التَّنويرُ شَرْحُ الجَامِع الصَّغِيرِ از محمد بن إسماعيل بن صلاح بن محمد الحسني، الكحلاني کے مطابق
(إن الشيطان يجري من ابن آدم مجرى الدم) هو على ظاهره وإن الله تعالى جعل له قدرة ولطافة جسم يلج بواطن ابن آدم، وقيل: أنه مجاز عن كثرة إغوائه ووسوسته فكأنه لا يفارق الإنسان كما لا يفارقه دمه، وقيل: إنه يلقي وسوسته في المسام فتصل الوسوسة إلى القلب،
شیطان انسان میں ایسا دوڑتا ہے جیسے خون اور یہ ظاہر پر ہے کہ الله نے اس میں قدرت کی ہے اس کے جسم کی لطافت کی بنا پر ابن آدم کے پیٹ میں گزر جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ مجاز ہے اس کی کثرت وسوسہ کی وجہ سے کہ انسان کو جس طرح خون سے الگ نہیں کیا جا سکتا اسی طرح شیطان کو بھی

کتاب شرح الطيبي على مشكاة المصابيح از شرف الدين الحسين بن عبد الله الطيبي (743هـ) کے مطابق
والمعنى: أن الشيطان يتمكن في إغواء الإنسان وإضلاله تمكنا تاما، ويتصرف فيه تصرفا لا مزيد فيه.
وعلى الثاني: يجوز أن يكون حقيقة، فإنا لا ننكر أن الله قادر على أن يخلق أجساما لطيفة يسري في بدن الإنسان سريان الدم فيه
اس کا معنی ہے کہ شیطان تمکن پاتا ہے انسان کے اغوا پر اور اس کی مکمل گمراہی پر … اور دوسرا کہنا ہے کہ جائز ہے کہ یہ حقیقت ہو

کتاب مطالع الأنوار على صحاح الآثار از ابن قرقول (المتوفى: 569هـ) کے مطابق
قوله: “الشَّيْطَانُ يَجْرِي مِنَ ابن آدمَ مَجْرى الدَّمِ” (1) قيل: علي ظاهره.
وقيل: بل هو مثل (2) لتسلطه وغلبته لا أنه يتخلل جسمه، والله أعلم.
قول کہ شیطان انسان میں خون کی طرح دوڑتا ہے کہا جاتا ہے ظاہر (مفہوم) ہے اور کہا جاتا ہے کہ بلکہ مثال ہے کہ اس پر تسلط اور غلبہ پاتا ہے نہ کہ جسم میں خلل کرتا ہے و اللہ اعلم

کتاب إِكمَالُ المُعْلِمِ بفَوَائِدِ مُسْلِم از قاضی عياض بن موسى بن عياض بن عمرون اليحصبي السبتي، أبو الفضل (المتوفى: 544هـ) کے مطابق
قيل: هو على ظاهره، فإن الله جعل له قوة وقدرة فى الجرى فى باطن الإنسان فى مجارى دمه، وقيل: هذا على الاستعارة لكثرة إغوائه ووسوسته، فكأنه لا يفارق الإنسان كما لا يفارقه دمه.
کہا جاتا ہے یہ ظاہر پر ہے کیونکہ اللہ نے اس کے قدرت کی ہے کہ انسان بطن میں دوڑے …. اور کہا جاتا ہے یہ الاستعارة ہے کہ وہ انسان سے الگ نہیں ہوتا جیسے خون

البانی  کی ناقص تحقیق ہے    کبھی شیطان انسان کی شکل اختیار کرتا ہے اور اس میں داخل ہوجاتا ہے ، گرچہ مومن اور صالح آدمی ہی کیوں نہ ہو۔ (دیکھیں : سلسلہ الاحادیث الصحیحہ 2918)

الغرض اس میں دو آراء چلی ا رہی ہیں
راقم اس کو مثال اور الاستعارة کہتا ہے ظاہر نہیں مانتا

جواب

بعض احادیث میں انسانوں کو شیطان کہا گیا ہے مثلا

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم میں سے کوئی شخص سترہ کی جانب نماز پڑھ رہا ہو اور کوئی بندہ تمھارے اور سترہ کے درمیان سے گزرنا چاہے تو تم اس کو روکو، اگر وہ نہ رکے تو اس سے لڑائی کرو کیونکہ وہ شیطان ہے
[بخاری، کتاب الصلاۃ، باب یردالمصلی من مر بین یدیہ، حدیث: ۵۰۹]

یہ حدیث صحیح مفھوم سے نقل نہیں ہوئی اس کو سن کر ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا نے بتایا کہ

لقد رأيت النبي عليه السلام يصلي وإني لبينه وبين القبلة

میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا وہ نماز پڑھتے تھے اور میں ان کے اور قبلے کے درمیان ہوتی تھی

اسی  طرح بعض روایات میں ہے کہ کالا کتا یا اونٹ  شیطان ہے

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کالا کتا “شیطان ” ہے۔
[صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب قدر ما یستر المصلی، حدیث: ۵۱۰]

قال أبو الوفاء ابن عقيل  هذا على طريق التشبيه لها بالشياطين، لأن الكلب الأسود أشرّ الكلاب وأقلعها نفعاً، والإبل تشبه الجن في صعوبتها وصولتها، كما يقال: فلان شيطان ؛ إذا كان صعباً شريراً

ابن عقیل کہتے ہیں یہ تشبیہ ہے شیطان سے کیونکہ کالا کتا کتوں میں سب سے شری ہوتا ہے اس کا فائدہ کم ہے اور اونٹ کو جن سے تشبیہ دی گئی ہے کہ وہ مشقت اٹھاتا ہے

ابن حبان صحیح  میں کہتے ہیں

قال أبو حاتم قوله صلى الله عليه وسلم فإنها خلقت من الشياطين أراد به أن معها الشياطين وهكذا قوله صلى الله عليه وسلم فليدرأه ما استطاع فإن أبى فليقاتله فإنه شيطان ثم قال في خبر صدقة بن يسار عن بن عمر فليقاتله فإن معه القرين ذكر البيان بأن قوله صلى الله عليه وسلم فإنها خلقت من الشياطين لفظة أطلقها على المجاورة لا على الحقيقة

نبی صلی الله علیہ وسلم کا قول کہ اونٹ کو شیاطین سے خلق کیا گیا ہے تو ان کا مقصد ہے وہ شیطان کے ساتھ ہے (یعنی شیطان اونٹوں کے بیچ چھپتے ہیں) اور اسی طرح کا قول ہے کہ ( نماز میں آگے سے گزرنے والے کو) ہاتھ سے روکے اگر نہ رکے تو لڑے کیونکہ وہ شیطان ہے پھر کہا اس خبر میں جو صدقه بن یسار سے ان کی ابن عمر سے روایت ہے  … پس یہ الفاظ مجاز ہیں نہ کہ حقیقت

صحيح مسلم كي روایت ہے

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ أَبِي عَبْدِ اللهِ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى امْرَأَةً، فَأَتَى امْرَأَتَهُ زَيْنَبَ، وَهِيَ تَمْعَسُ مَنِيئَةً لَهَا، فَقَضَى حَاجَتَهُ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: «إِنَّ الْمَرْأَةَ تُقْبِلُ فِي صُورَةِ شَيْطَانٍ، وَتُدْبِرُ فِي صُورَةِ شَيْطَانٍ، فَإِذَا أَبْصَرَ أَحَدُكُمُ امْرَأَةً فَلْيَأْتِ أَهْلَهُ، فَإِنَّ ذَلِكَ يَرُدُّ مَا فِي نَفْسِهِ»،

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عورت شیطان کی صورت میں آتی جاتی ہے، جب تم میں سے کوئی ایک کسی عورت کو دیکھے تو وہ اپنے اہل کو آئے ۔ یہ عمل اس کے دل میں داخل شدہ خیالات کو ختم کردے گا۔
[صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب ندب من رأی امراۃ فوقعت فی نفسہ أن یأتی أھلہ، حدیث: ۱۴۰۳]

یہ روایت صحیح نہیں ہے یہ ابوزبیر مدلس کی سند سے ہے اور محدثین کہتے ہیں کہ ان کی لیث بن سعد کی سند سے ہی روایت لی جائے امام مسلم نے اس اصول کو نہیں مانا جس کی وجہ سے صحیح مسلم میں اس قسم کی بعض عجوبہ روایات ہیں

صحیح مسلم میں ہے

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ يُحَنِّسَ، مَوْلَى مُصْعَبِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ نَسِيرُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْعَرْجِ إِذْ عَرَضَ شَاعِرٌ يُنْشِدُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خُذُوا الشَّيْطَانَ، أَوْ أَمْسِكُوا الشَّيْطَانَ لَأَنْ يَمْتَلِئَ جَوْفُ رَجُلٍ قَيْحًا خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَمْتَلِئَ شِعْرًا»

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول الہ ﷺ کے ساتھ “عرج” نامی جگہ سے گزر رہے تھے کہ اچانک ایک شاعر سامنے آیا۔ وہ شعر گوئی کررہا تھا، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: شیطان کو پکڑ یا اس شیطان کو روکو، تم میں سے اگر کوئی شخص اپنے پیٹ کو پیپ کے ساتھ بھر لے جو اس کی آنتوں کو کاٹ کے رکھ دے ، یہ اس کے لیے اشعار یاد کرنے سے بہتر ہے۔
[مسلم ، کتاب الشعر، بابٌ، حدیث: ۲۲۵۹]

اس روایت میں بھی شیطان کا لفظ مجاز پر ہے

سنن ابو داود اور صحیح ابن حبان کی ایک روایت میں کبوتر سے کھیلنے پر شیطان کہا گیا ہے

حدَّثنا موسى بنُ إسماعيل، حدَّثنا حماد، عن محمَّد بن عمرو، عن أبي سلمة عن أبي هريرة، أن رسولَ الله -صلى الله عليه وسلم – رأى رجلاً يَتبَعُ حمامةً، فقال: “شيطان يَتبَعُ شيطانةً”

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک آدمی کبوتری کے پیچھے بھاگتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: شیطان ، شیطانہ (یعنی کبوتری) کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔
[ابوداؤد، کتاب الأدب، باب فی اللعب بالحمام، حدیث: ۴۹۴۰]

اس کی سند میں  محمَّد بن عمرو ابن علقمة بن وقاص ہے جو حسن الحدیث ہے اس کی روایت اگر منفرد ہو تو رد کی جائے گی –  کسی پاک جانور کو شیطان کہنا منکر روایت ہے نبی صلی الله علیہ وسلم نے چیزوں کا عیب دار نام رکھنے سے منع کیا ہے

ابن حبان صحیح میں  کہتے ہیں

 وَإِطْلَاقُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْمَ الشَّيْطَانِ عَلَى الْحَمَامَةِ لِلْمُجَاوَرَةِ، وَلِأَنَّ الْفِعْلَ مِنَ الْعَاصِي بِلَعِبِهَا تَعَدَّاهُ إِلَيْهَا

اور کبوتری پر شیطان کا نام کا اطلاق قربت کے طور ہے کہ اس سے  بہت کھیلنے  والا  فعلا گناہ گار  ہے

الذھبی  کتاب سیر الاعلام النبلاء ج ٣ ص ١٤١ میں مُحَمَّدُ بنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ  کی سند سے ایک روایت نقل کرتے ہیں اور لکھتے ہیں

فِي إِسْنَادِهِ مُحَمَّدٌ لاَ يُحْتَجُّ بِهِ وَفِي بَعْضِهِ نَكَارَةٌ بَيِّنَةٌ

اس کی سند میں محمد ہے جو  نہ قابل احتجاج   اور اس میں بعض جگہ واضح نکارت ہے

لہذا یہ کبوتری والی روایت منکر ہے

مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ہے

حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنِ الطُّفَاوِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَحَدُكُمْ يُخْبِرُ بِمَا صَنَعَ بِأَهْلِهِ؟ وَعَسَى إِحْدَاكُنَّ أَنْ تُخْبِرَ بِمَا صَنَعَ بِهَا زَوْجُهَا» فَقَامَتِ امْرَأَةٌ سَوْدَاءُ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُمْ لَيَفْعَلُونَ، وَإِنَّهُنَّ لَيَفْعَلْنَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِمَثَلِ ذَلِكَ؟ مَثَلُ ذَلِكَ كَمَثَلِ الشَّيْطَانِ لَقِيَ شَيْطَانَةً، فَوَقَعَ عَلَيْهَا فِي الطَّرِيقِ، وَالنَّاسُ يَنْظُرُونَ فَقَضَى حَاجَتَهُ مِنْهَا، وَالنَّاسُ يَنْظُرُونَ

سول اللہ ﷺ نے فرمایا: “شاید کہ تم میں سے کوئی ایک اس کو لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہو جو اس نے اپنی بیوی کے ساتھ کیا ہوتا ہے اور شایدکہ تم (عورتوں )میں سے کوئی ایک بھی ایسا کرتی ہے۔ تو ایک سیاہ رنگ کی عورت کھڑی ہوئی اور کہنے لگی: “اے اللہ کے رسول ﷺ! مرد بھی اور عورتیں بھی ایسا کرتی ہیں ۔” تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “ان کی مثال اس شیطان کی طرح ہے جو شیطانہ سے راستہ میں اپنی حاجت کو پورا کرے اور لوگ دیکھ رہے ہوں۔

الطُّفَاوِيِّ صحابی ہیں یا نہیں اس میں اختلاف ہے

 المنذر بن مالك أبو نضرة العبدي  کا سماع بھی تمام اصحاب رسول سے نہیں جن سے یہ روایت کرتے ہیں لہذا یہ تدلیس کرتے ہیں الجریری آخری عمر میں اختلاط کا شکار تھے ان علتوں کی بنا پر یہ روایت صحیح نہیں ہے

مسند احمد میں اس کی سند ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَفْصٌ السَّرَّاجُ، قَالَ: سَمِعْتُ شَهْرًا، يَقُولُ: حَدَّثَتْنِي أَسْمَاءُ بِنْتُ يَزِيدَ، أَنَّهَا كَانَتْ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ قُعُودٌ عِنْدَهُ فَقَالَ: ” لَعَلَّ رَجُلًا يَقُولُ: مَا يَفْعَلُ بِأَهْلِهِ، وَلَعَلَّ امْرَأَةً تُخْبِرُ بِمَا فَعَلَتْ مَعَ زَوْجِهَا فَأَرَمَّ الْقَوْمُ ” فَقُلْتُ: إِي وَاللهِ يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّهُنَّ لَيَقُلْنَ وَإِنَّهُمْ لَيَفْعَلُونَقَالَ: ” فَلَا تَفْعَلُوا فَإِنَّمَا مِثْلُ ذَلِكَ مِثْلُ الشَّيْطَانُ  لَقِيَ شَيْطَانَةً فِي طَرِيقٍ فَغَشِيَهَا وَالنَّاسُ يَنْظُرُونَ

شعيب الأرنؤوط – عادل مرشد، وآخرون کہتے ہیں سند ضعیف ہے

مسند احمد کی حدیث ہے

حَدَّثَنَا سَيَّارُ بْنُ حَاتِمٍ أَبُو سَلَمَةَ الْعَنَزِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ يَعْنِي ابْنَ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو التَّيَّاحِ، قَالَ: قُلْتُ: لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ خَنْبَشٍ التَّمِيمِيِّ، وَكَانَ كَبِيرًا، أَدْرَكْتَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: قُلْتُ: كَيْفَ صَنَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ كَادَتْهُ الشَّيَاطِينُ، فَقَالَ: إِنَّ الشَّيَاطِينَ تَحَدَّرَتْ تِلْكَ اللَّيْلَةَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْأَوْدِيَةِ، وَالشِّعَابِ، وَفِيهِمْ شَيْطَانٌ بِيَدِهِ شُعْلَةُ نَارٍ، يُرِيدُ أَنْ يُحْرِقَ بِهَا وَجْهَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَهَبَطَ إِلَيْهِ جِبْرِيلُ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ قُلْ، قَالَ: ” مَا أَقُولُ؟ ” قَالَ: ” قُلْ: أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّةِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ، وَذَرَأَ وَبَرَأَ، وَمِنْ شَرِّ مَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ، وَمِنْ شَرِّ مَا يَعْرُجُ فِيهَا، وَمِنْ شَرِّ فِتَنِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ، وَمِنْ شَرِّ كُلِّ طَارِقٍ إِلَّا طَارِقًا يَطْرُقُ بِخَيْرٍ، يَا رَحْمَنُ “، قَالَ: فَطَفِئَتْ نَارُهُمْ، وَهَزَمَهُمُ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى

أَبُو التَّيَّاحِ کہتے  ہیں میں نے  عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ خَنْبَشٍ  سے  کہا  اور وہ بوڑھے تھے کہ اپ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو پایا ؟ انہوں نے کہا ہاں – میں نے پوچھا کہ اس رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کیا تھا جس میں شیاطین نے کروائی   کی ؟ انہوں نے کہا  اس رات …. شیطانوں نے حملہ کیا … اور ان میں ابلیس بھی تھا جس کے ہاتھ میں اگ تھی وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے چہرے کو جلانا چاہتا تھا پس جبریل نازل ہوئے اور کہا اے محمد کہو  رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا کیا؟ جبریل علیہ السلام نے کہا بولو ….

اس کی سند میں  جعفر بن سليمان: وهو الضبعي کا تفرد ہے جو مظبوط نہیں ہے

بخاری کہتے ہیں اس کی روایت پر نظر ہے

 شعيب الأرنؤوط کہتے ہیں یہ   إسناده ضعيف سند ضعیف ہے

حدیث کی بعض کتب میں یہ روایت  المسيب بن واضح اور  مصعب بن شيبة بن جبير بن شيبة  کی سند سے بھی ہے جو  دونوں ضعیف ہیں

جواب

کتاب المعجم الأوسط اور المعجم الكبير  از الطبراني  کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَجَّاجِ السَّامِيُّ قَالَ: نا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الْحَيَّاتُ مَسْخُ الْجِنِّ، كَمَا مُسِخَتِ الْقِرَدَةُ وَالْخَنَازِيرُ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ»

عکرمہ نے کہا کہ ابن عباس نے کہا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا سانپ مسخ جن ہیں جیسے سور و بندر مسخ شدہ بنی اسرائیل ہیں

صحیح ابن حبان میں ہے

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُوسَى بعسكر مكرم حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بن الْمُخْتَار حَدَّثَنَا خَالِدٍ الْحَذَّاءِ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: “الْحَيَّات مسخ الْجِنّ كَمَا مسخت الْخَنَازِير والقردة” قلت وَقد تقدم الْأَمر بقتل الْحَيَّة وَالْعَقْرَب فِي الصَّلَاة

عکرمہ نے کہا کہ ابن عباس نے کہا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا سانپ مسخ جن ہیں جیسے سور و بندر مسخ شدہ ہیں

مسند احمد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الله حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَجَّاجِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْحَيَّاتُ مَسْخُ الْجِنِّ»

عکرمہ نے کہا کہ ابن عباس نے کہا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا سانپ مسخ جن ہیں

 شعيب الأرنؤوط  کہتے ہیں موقوف صحیح ہے

العلل میں ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ ابو زرعة نے کہا

قال ابن أبي حاتم: سمعت أبا زرعة يقول: هذا الحديث هو موقوف، لا يرفعه إلا عبدُ العزيز بن المختار، ولا بأس بحديثه.

یہ حدیث موقوف ہے اس کو مرفوع صرف عبدُ العزيز بن المختار نے کیا ہے جس کی حدیث میں برائی نہیں ہے

البانی نے اس کو صحیحہ میں نقل کیا ہے کہتے ہیں

واعلم أن الحديث لَا يعني أن الحيات الموجودة الآن هي من الجن الممسوخ، وإنما يعني أن الجن وقع فيهم مسخٌ إلى الحيات , كما وقع في اليهود مسْخُهُم قردة وخنازير، ولكنهم لم ينسلوا كما في الحديث الصحيح: ” إن الله لم يجعل لمسخ نسلا ولا عقبا، وقد كانت القردة والخنازير قبل ذلك

اور جان لو کہ اس حدیث میں وہ سانپ مراد نہیں ہیں جو ابھی ہیں کہ وہ مسخ شدہ جن ہیں بلکہ مطلب ہے کہ یہ جن تھے جن کو مسخ کر کے سانپ کر دیا گیا جیسا یہود کو مسخ کر کے بندر و سور بنا دیا گیا تھا لیکن ان کی نسل نہ چلی جیسا صحیح حدیث میں ہے کہ بے شک الله نے ان کی نسل نہ کی نہ کوئی ان میں چھوڑا اور بندر و سور تو ان سے پہلے بھی تھے

راقم کہتا ہے یہ روایت سرے سے صحیح ہے ہی نہیں اور البانی کی تشریح روایت کے الفاظ کے خلاف ہے کیونکہ اس میں یہ نہیں ہے کہ آج جو سانپ ہیں وہ الگ ہیں بلکہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ آج بھی جو سانپ ہیں وہ جن تھے

روایت خالد الْحَذَّاءِ کی غلط سلط روایات میں سے ہے

خالد بن مهران الحذاء بصری مدلس ہے اور آخری عمر میں اختلاط کا شکار تھے
یہ مختلف فیہ ہے میزان الاعتدال کے مطابق
قال أحمد: ثبت.
وقال ابن معين والنسائي: ثقة.
وأما أبو حاتم فقال: لا يحتج به.
احمداور ابن معین اور نسائی نے ثقہ کہا ہے جبکہ ابی حاتم کہتے کہ یہ نہ قابل دلیل ہے
یعنی بغداد والوں نے ثقہ کہا ہے

اس کے شہر کے لوگ یعنی بصریوں  میں حماد بن زید ،  ابن علية اور شعبہ نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے اسی طرح نیشاپور والوں نے بھی اس کو ضعیف قرار دیا ہے

وقال يحيى بن آدم: قُلْتُ لِحَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ: مَا لِخَالِدٍ الْحَذَّاءِ فِي حَدِيثِهِ؟ قَالَ: قَدِمَ عَلَيْنَا قَدْمَةً مِنَ الشَّامِ، فَكَأَنَّا أَنْكَرْنَا حِفْظَهُ.
بصرہ کے حماد بن زید کہتے کہ خالد جب شام سے آیا تو ہم نے اس کے حافظہ کا انکار کیا

کتاب إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال از مغلطاي کے مطابق
قال شعبة: خالد يشك في حديث عكرمة عن ابن عباس
شعبہ نے کہا کہ خالد کو عکرمہ کی ان کی ابن عباس سے حدیث پر شک رہتا تھا

جواب

بعض لوگ یہ موقف رکھتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کلام میں مجاز کا استعارہ کا استعمال نہیں کرتے تھے لہذا انہوں نے بہت سی احادیث کو ظاہر پر لیا ہے مثلا
نماز میں شیطان کا صف میں بکری کی طرح گھسنا
اذان پر شیطان کا گوز مار کر بھاگنا
جمائی پر شیطان کا منہ میں گھسنا
شیطان کا انسان کے ساتھ کھانا
شیطان کا کان میں پیشاب کرنا
شیطان کا گرہ لگانا
وغیرہ

اسی طرح اسماء و صفات میں الله تعالی سے متعلق جو بھی حدیث میں ہے اس کو بھی ظاہر پر لیتے ہیں
اس طرح ان میں اور ہم میں فرق اتا ہے ہم انہی کو کلام کا انداز، مجاز اور استعارہ قرار دیتے ہیں

اب یہ کیسے ممکن ہے کہ رسول الله وہ عربی بولتے تھے جو ان کے ماحول کے لوگ نہیں بولتے تھے یعنی اصحاب رسول تو کلام میں مجاز و استعارہ استعمال کریں لیکن رسول الله نہ کریں؟

ان لوگوں نے جب شروحات لکھیں تو ہر چیز اصل بن گئی کوئی چیز مجاز نہ رہی
یہاں تک کہ یہ لوگ اس کے بھی قائل ہوئے کہ شیطان اور عورت اپس میں زنا کرتے ہیں ان سے بچے بھی ہوتے ہیں مثلا امام ابن تیمیہ اس کے قائل ہیں

⇑ امام ابن تیمیہ اور جنات کی دنیا
https://www.islamic-belief.net/masalik/غیر-مقلدین/

[EXPAND  کیا جنات کے جانور ہیں ؟ روایت میں ہے ]

Sahih Muslim Hadees # 1007

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى عَنْ دَاوُدَ، عَنْ عَامِرٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَلْقَمَةَ هَلْ كَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ شَهِدَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْجِنِّ؟ قَالَ: فَقَالَ عَلْقَمَةُ، أَنَا سَأَلْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ فَقُلْتُ: هَلْ شَهِدَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْجِنِّ؟ قَالَ: لَا وَلَكِنَّا كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَفَقَدْنَاهُ فَالْتَمَسْنَاهُ فِي الْأَوْدِيَةِ وَالشِّعَابِ. فَقُلْنَا: اسْتُطِيرَ أَوِ اغْتِيلَ. قَالَ: فَبِتْنَا بِشَرِّ لَيْلَةٍ بَاتَ بِهَا قَوْمٌ فَلَمَّا أَصْبَحْنَا إِذَا هُوَ جَاءٍ مِنْ قِبَلَ حِرَاءٍ. قَالَ: فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللهِ فَقَدْنَاكَ فَطَلَبْنَاكَ فَلَمْ نَجِدْكَ فَبِتْنَا بِشَرِّ لَيْلَةٍ بَاتَ بِهَا قَوْمٌ. فَقَالَ: «أَتَانِي دَاعِي الْجِنِّ فَذَهَبْتُ مَعَهُ فَقَرَأْتُ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنَ» قَالَ: فَانْطَلَقَ بِنَا فَأَرَانَا آثَارَهُمْ وَآثَارَ نِيرَانِهِمْ وَسَأَلُوهُ الزَّادَ فَقَالَ: لَكُمْ كُلُّ عَظْمٍ ذُكِرَ اسْمُ اللهِ عَلَيْهِ يَقَعُ فِي أَيْدِيكُمْ أَوْفَرَ مَا يَكُونُ لَحْمًا وَكُلُّ بَعْرَةٍ عَلَفٌ لِدَوَابِّكُمْ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَلَا تَسْتَنْجُوا بِهِمَا فَإِنَّهُمَا طَعَامُ إِخْوَانِكُمْ»

۔ عبد الاعلیٰ نے داؤد سے اور انہوں نے عامر ( بن شراحیل ) سے روایت کی ، کہا : میں نے علقمہ سے پوچھا : کیا جنوں ( سے ملاقات ) کی رات عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ رسول اللہ کے ساتھ تھے؟ کہا : علقمہ نے جواب دیا : میں نے خود ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے پوچھا : کیا آپ لوگوں میں سے کوئی لیلۃ الجن میں رسول اللہﷺ کے ساتھ موجود تھا؟ انہوں نے کہا : نہیں ، لیکن ایک رات ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے تو ہم نے آپ کو گم پایا ، ہم نے آپ کو وادیوں اور گھاٹیوں میں تلاش کیا ، ( آپ نہ ملے ) تو ہم نے کہا کہ آپ کو اڑا لیا گیا ہے یا آپ کو بے خبری میں قتل کر دیا گیا ہے ، کہا : ہم نے بدترین رات گزاری جو کسی قوم نے ( کبھی ) گزاری ہو گی ۔ جب ہم نے صبح کی تو اچانک دیکھا کہ آپ حراء کی طرف سے تشریف لا رہے ہیں ، انہوں نے کہا کہ ہم نے عرض کی : اے اللہ کے رسول! ہم نے آپ کوگم پایا تو آپ کی تلاش شروع کر دی لیکن آپ نہ ملے ، اس لیے ہم نے وہ بدترین رات گزاری جو کوئی قوم ( کبھی ) گزار سکتی ہے ۔ اس پر آپ نے فرمایا : میرے پاس جنوں کی طرف سے دعوت دینے والا آیا تو میں اس کے ساتھ گیا اور میں نے ان کے سامنت قرآن کی قراءت کی ۔ انہوں نے کہا : پھر آپ ( ﷺ ) ہمیں لے کر گئے اور ہمیں ان کے نقوش قدم اور ان کی آگ کے نشانات دکھائے ۔ جنوں نے آپ سے زاد ( خوراک ) کا سوال کیا تو آپ نے فرمایا : تمہارے لیے ہر وہ ہڈی ہے جس ( کے جانور ) پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اور تمہارے ہاتھ لگ جائے ، ( اس پر لگا ہوا ) گوشت جتنا زیادہ سے زیادہ ہو اور ( ہر نرم قدموں والے اونٹ اور کٹے سموں والے ) جانور کی لید تمہارے جانوروں کا چارہ ہے ۔
پھر رسول اللہﷺ نے ( انسانوں سے ) فرمایا : تم ان دونوں چیزوں سے استنجا نہ کیا کرو کیونکہ یہ دونوں ( دین میں ) تمہارے بھائیوں ( جنوں اور ان کے جانوروں ) کا کھانا ہیں ۔ ‘

جواب
یہ روایت مضطرب ہے اور البانی نے اس کا شمار الضعیفہ میں کیا ہے

قال الألباني في الضعيفة (3/ 133) ح1038: حديث: ” لَكُمْ (يعني الجن) كُلُّ عَظْمٍ ذُكِرَ اسْمُ اللهِ عَلَيْهِ يَقَعُ فِي أَيْدِيكُمْ أَوْفَرَ مَا يَكُونُ لَحْمًا , وَكُلُّ بَعْرَةٍ عَلَفٌ لِدَوَابِّكُمْ “. أخرجه مسلم 150 – (450) (2/ 36) , وابن خزيمة في ” صحيحه ” (رقم 82) , والبيهقي (1/ 108 – 109) , ضعيف

قلت: ووجه المخالفة أن ظاهره أن العظم والروثة زاد وطعام للجن أنفسهم، وليس شيء من ذلك لدوابهم

البانی نے کہا یہ جن کے کھانے ہیں ان کے جانور کے نہیں ہیں

[/EXPAND]