Q & A

You may also send us your questions and suggestions via Contact form

Post for Questions 

قارئین سے درخواست ہے کہ سوال لکھتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ سوال دینی مسئلہ پر ہونا چاہیے- وقت قیمتی شی ہے لہذا بے مقصد سوال سے پرہیز کریں – سوالات کے سیکشن کو غور سے دیکھ لیں ہو سکتا ہے وہاں اس کا جواب پہلے سے موجود ہو –

یاد رہے کہ دین میں غیر ضروری سوالات ممنوع ہیں اور انسانی علم محدود ہے

 اپ ان شرائط پر سوال کر سکتے ہیں

اول سوال اپ کا اپنا ہونا چاہیے کسی ویب سائٹ یا کسی اور فورم کا نہیں ہونا چاہیے کہ اس کا مواد  اپ وہاں سے یہاں کاپی کریں

دوم : جو جواب ملے اس کو اپ کسی اور ویب سائٹ پر پوسٹ کر کے اس پر سوال نہیں کریں گے نہ ہی اس ویب سائٹ کے کسی بلاگ کو پوسٹ کر کے کسی دوسری سائٹ سے جواب طلب کریں گے – یعنی اپ سوال کو اپنے الفاظ میں منتقل کریں اس کو کاپی پیسٹ نہ  کریں اگر اپ کو کسی اور سے یہی بات پوچھنی ہے تو اپنے الفاظ میں پوچھیں

سوم کسی عالم کو ہماری رائے سے “علمی” اختلاف ہو تو اس کو بھی اپنے الفاظ میں منتقل کر کے اپ اس پر ہمارا جواب پوچھ سکتے ہیں

چہارم نہ ہی اپ ہماری ویب سائٹ کے لنک پوسٹ کریں کہ وہاں دوسری سائٹ پر لکھا ہو “اپ یہ کہہ رہے ہیں اور وہ یہ کہہ رہے ہیں ” یہ انداز مناظرہ کی طرف لے جاتا ہے جو راقم کے نزدیک دین کو کھیل تماشہ بنانے کے مترادف ہے

تنبیہشرائط کی خلاف ورزی کی صورت میں جوابات پر پابندی لگا دی جائے گی

378 thoughts on “Q & A

  1. Shahzadkhan

    السلام و علیکم ابو شہریار بھائی ڈاکٹر صاحب نے سورہ الحجرات کے حوالے سے اپنے کتابچے میں لکھا ہے کہ دوسرے لفظوں میں یہ حضرات امنو باللہ ورَسُسولہ کے بجائے آمنو باللہ ورُسُولہ کی تلقین کرتے ہیں لیکن ہم اس کو صحیح نہیں سمجھتے ۔۔

    اس تحریر کو بنیاد بنا کر ڈاکٹر صاحب پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ قرآن کی آیت کے انکاری تھے جس کے مطابق تمام انبیاء پر ایمان لانا فرض ہے ۔۔

    برائے مہربانی اس کی وضاحت فرما دیں

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      و علیکم السلام

      زبان و ادب میں
      context
      میں دیکھا جاتا ہے کہ کیا کہا جا رہا ہے

      ہم تمام انبیاء پر ایمان لاتے ہیں لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل انبیاء سے منسوب سنتوں میں کیاصحیح ہے معلوم نہیں ہے – ان انبیاء سے منسوب سنتیں ان کے امتوں کی سند سے ہیں
      عثمانی صاحب نے کہا کہ اب قیامت تک سنت محمد پر عمل ہو گا – گزشتہ انبیاء سے منسوب سنت میں بھی اسی سنت پر عمل ہو گا جو رسول اللہ نے ادا کی
      اس طرح بتایا گیا کہ دین کی اصل قرآن و صحیح حدیث ہی ہے

      عثمانی صاحب کے مخاطب اصلا وہ لوگ ہیں جو بائبل و توریت سے بھی دین اخذ کرنا چاہتے ہیں مثلا امین احسن اصلاحی صاحب کا یہی منہج ہے
      ان کے نزدیک وہ عمل انبیاء جس کا علم صرف بائبل سے ہو اس کو بھی دین میں حجت سمجھا جائے گا
      لہذا ہم نے دیکھا کہ غامدی جو امین احسن کے شاگرد ہیں وہ اپنی کتب میں سنت رسول سے مراد ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل کے انبیاء کی سنت بھی لیتے ہیں
      ہم اس مھنج کے خلاف ہیں اور جس اقتباس کا آپ نے ذکر کیا اس میں اس منہج کا رد ہے

      اس کو بھی دیکھ لیں
      https://www.islamic-belief.net/%db%81%d9%85-%d8%a7%d9%84-%d8%af%d8%a7%d9%88%d8%af-%da%a9%db%92-%d8%ad%da%a9%d9%85-%d9%be%d8%b1-%d8%ad%da%a9%d9%85-%da%a9%d8%b1%d8%aa%db%92-%db%81%db%8c%da%ba/

      http://alsharia.org/2006/sep/ghamidi-sahib-tasawur-sunnat-hafiz-m-zubair

      یاد رہے کہ جماعت اسلامی چھوڑنے کے بعد عثمانی صاحب کو اپروج کیا جارہا تھا کہ وہ امین احسن اصلاحی کے ساتھ ہو لیں لیکن عثمانی صاحب نے شریعت کے مصادر کے حوالے سے امین کی لچک کو رد کیا اور واضح کیا کہ وہ اس منہج پر نہیں جا سکتے

      اسی اقتباس کو بعد میں سلفی جاہل ملا دامانوی نے بغیر سمجھے فتنہ پھیلانے کے لئے اپنی خود کردہ غلط تشریح کے ساتھ پھیلایا
      یہاں تک کہ آج اہل حدیث خود اس کا رد کر رہے ہیں کہ سابقہ انبیاء کی سنتوں کے حوالے سے امین احسن اور غامدی کا موقف غلط ہے

      Reply
  2. Shahzadkhan

    جزاک اللہ ۔۔ابو شہریار بھائی ڈاکٹر صاحب نے اپنی تحریر میں مودودی صاحب کا ذکر کیا کیا مومودی صاحب کی اس حوالے سے کوئی تحریر مل سکتی ہے نیز کیا امین احسن اصلاحی اور غامدی صاحب کی اس حوالے سے کوئی تحریر مل سکتی ہے

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      اس قسم کے حوالے کھل کر نہیں لکھے جاتے تھے ان کو مبہم انداز میں بولا جاتا تھا البتہ جب انسان ان لوگوں کے سوالات کے جوابات کو پڑھے تو جو نتائج نکلتے ہیں وہ کچھ اسی قسم کے ہیں – غامدی کے حوالے تو اب مشہور ہیں
      یہاں بہت سے لوگوں نے ان کو کوٹ کیا ہے

      http://alsharia.org/2006/sep/ghamidi-sahib-tasawur-sunnat-hafiz-m-zubair

      اس طرح کے حوالے سردست میرے پاس موجود نہیں ہیں

      امین احسن پر یہ ملا ہے
      https://magazine.mohaddis.com/home/articledetail/1469

      سنت کی بنیاد احادیث پر نہیں ہے جن میں صدق و کذب دونوں کا احتمال ہوتا ہے جیسا کہ اوپر معلوم ہوا بلکہ اُمت کے عملی تواتر پر ہے

      ——
      لہذا تواتر اہل کتاب سے بھی ان لوگوں کے ہاں دلیل لی جاتی ہے

      میرا خیال ہے کہ یہ زیر بحث اقتباس لکھتے تھے عثمانی صاحب کے ذہن میں مودودی نہیں امین احسن اصلاحی ہیں

      Reply
  3. ayesha butt

    bukhari mn wajah mujood k Nabi s.aw ki qabr hujre mn kyun bnae gi. phir yeh hadith jhn jaan nikle wahein dafn kia jae kia sahih hai
    or agr nae
    to hazrat umr o abubakr ki wahn qabr q bnae gai. kia esko. hazrat aisha r.a ki ijtahadi khata kha jae ga

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      hadith jhn jaan nikle wahein dafn kia jae kia sahih hai – sahih nahi ha.

      عائشہ رضی اللہ عنہا کا اس تدفین سے کوئی تعلق نہیں
      یہ تو ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہ کی خواہش تھی کہ ان کی تدفین بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہو
      اور اس کی ام المومنین نے اجازت دے دی

      Reply
  4. aysha butt

    apki kitab. shab e barat mn hai k jab banu umayya ka takht ulta hai or abbas r.a khalifa hoty hain. to majoos paarsi or yahod nauroz manaty hai . us roz 14 shabn hota hai or muslim es din ki ehmiat mn. ibadt krty
    to kia ehmiat es waqie ki thi k banu. umayya ka takht ult k khilafat banu abbas ko milli jesa k unki chaht thi. es lie ibadat ki gae
    or bad mn yeh shab e barat ki riwayts mashoor hoi vanu abbas k dour mn

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      نو روز کی بدعت مسلمان قبول نہیں کرتے لیکن جشن منانے کے رات کو جگا دیا گیا
      مسلمان عبادت میں رہے اور مجوس اپنے نو روز میں

      Reply
  5. aysha butt

    تفسیر عکرمہ پہ آپ کو کچھ معلومات ہیں
    کیا یہ مسند تفسیر ہے

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      عکرمہ یہ ابن عباس کا شاگرد تھا لیکن علم حدیث میں مختلف فیہ ہے بعض کے نزدیک سخت مجروح ہے
      اس کے ہم عصر محدثین نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی تھی تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے اقوال کی کیا حیثیت ہو گی

      Reply
  6. aysha butt

    ibn e maaja ki koi riwayt hai k. Hazrat aysha ne farmya k 4 raatein ba barkt ha. aarfa dono eidon ki or 15 shabn ki
    kesi hai

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      میرے علم میں نہیں

      Reply
  7. Zameer

    السلام علیکم

    نبیﷺ کے زمانے میں سونے اور چاندی کے سکے ہوتے تھے۔ اس حساب سے زکوٰۃ ہوتی تھی۔ آج کے دور میں جدید -1- کرنسی ہے۔ آج کے دور میں کس طرح زکوٰۃ ادا کی جاسکتی ہے؟
    کیونکہ 52 تولہ چاندی 1 لاکھ بھی نہیں بنتی اور ساڈھے سات تولہ سونا 8 لاکھ کے قریب بنتا ہے۔

    صاحب نصاب کو کیسے کلکولیٹ کیا جائے؟ -2 –

    احادیث میں غلہ کی مقدار الگ ہے، بکریوں اور اونٹ پر زکوٰۃ الگ ہے۔ یعنی ہر چیز کی الگ -3-
    calculation
    ہے۔ پھر پاکستان کے بینک صاحب نصاب 44000 یا 45000 روپے والے کو کس طرح شمار کرتے ہیں؟

    -4- اگر کسی کے پاس 40 تولہ چاندی ہے، 4 تولہ سونا ہے اور 6 لاکھ نقد رقم ہے،
    تو وہ زکوٰۃ کس طرح کلکولیٹ کریگا؟ کیونکہ نہ چاندی اپنے نصاب پر پہیچتی ہے اور نہ سونا

    جزاک اللہ

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      یہ سوالات غور طلب ہیں اور کسی عالم سے معلوم کریں
      میرا علم اس مسئلہ پر محدود ہے

      زکوات کا نصاب سونے و چاندی سے مقرر کر لی گئی ہے کیونکہ یہ سب سے قیمتی عام استعمال کی دھاتیں ہیں
      دور نبوی میں زکوات جنس و قسم سے حساب سے الگ الگ تھی

      دور نبوی میں سونے کو سونے سے بدلہ جا سکتا تھا اس کی قیمت درہم میں یا چاندی میں لینا سود سمجھا جاتا تھا
      لہذا یہ مسائل دقیق ہیں
      اسی طرح صدقہ فطر ہے جس میں دینار و درہم نہیں دیا جاتا تھا بلکہ گندم کا صاع دیا جاتا تھا ہر چند کہ درہم موجود تھا

      Reply
  8. aysha butt

    aesi koi hadith hai k ik shkhs ne qible ki samt thoka to ap s.aw. ne pocha kon hai yeh. to kha gya imamat krata hai to kehny lagy es ko imamat se hatta do
    mishkt se hai
    es ka status kia hai

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      صحیح بخاری میں ہے

      “عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رَأَى نُخَامَةً فِي الْقِبْلَةِ فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَيْهِ حَتَّى رُئِيَ فِي وَجْهِهِ، فَقَامَ فَحَكَّهُ بِيَدِهِ، فَقَالَ: إِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا قَامَ فِي صَلاَتِهِ، فَإِنَّهُ يُنَاجِي رَبَّهُ، أَوْ إِنَّ رَبَّهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ – فَلاَ يَبْزُقَنَّ أَحَدُكُمْ قِبَلَ قِبْلَتِهِ وَلَكِنْ عَنْ يَسَارِهِ، أَوْ تَحْتَ قَدَمَيْهِ، ثُمَّ أَخَذَ طَرَفَ رِدَائِهِ فَبَصَقَ فِيهِ ثُمَّ رَدَّ بَعْضَهُ عَلَى بَعْضٍ فَقَالَ: أَوْ يَفْعَلْ هَكَذَا”. (1/112)

      ترجمہ: انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کی جانب میں کچھ تھوک دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناگوار ہوا، یہاں تک کہ غصہ کا اثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے میں ظاہر ہوا، چناں چہ آپ کھڑے ہو گئے اور اس کو اپنے ہاتھ سے صاف کردیا، پھر فرمایا کہ تم میں سے کوئی جب اپنی نماز میں کھڑا ہوتا ہے، تو وہ اپنے پرودگار سے مناجات کرتا ہے، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ اس کا پرودگار اس کے اور قبلہ کے درمیان میں ہے؛ لہذا اسے قبلہ کے سامنے نہ تھوکنا چاہیے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر کا کنارہ لیا اور اس میں تھوک کر اسے مل ڈالا اور فرمایا کہ یا اس طرح کرے۔

      اس کا تعلق اس سے ہے کہ کسی نے نماز میں سجدہ کے مقام پر تھوک دیا اور اس کو اسی طرح چھوڑ کر چلا گیا – اس کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو ہٹایا

      Reply
  9. Zeeshan

    السلام علیکم

    کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ یہ ابن حبان972 میں بھی موجود ہے۔ ابو یعلی میں بھی موجود ہے۔ مسند احمد میں بھی موجود ہے۔

    ۔ (۵۵۷۶)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَا أَصَابَ أَحَدًا قَطُّ ہَمٌّ وَلَا حَزَنٌ، فَقَالَ: اَللّٰھُمَّ إِنِّی عَبْدُکَ وَابْنُ عَبْدِکَ وَابْنُ أَمَتِکَ، نَاصِیَتِی بِیَدِکَ، مَاضٍ فِیَّ حُکْمُکَ، عَدْلٌ فِیَّ قَضَاؤُکَ، أَسْأَلُکَ بِکُلِّ اسْمٍ ہُوَ لَکَ سَمَّیْتَ بِہِ نَفْسَکَ، أَوْ عَلَّمْتَہُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِکَ، أَوْ أَنْزَلْتَہُ فِی کِتَابِکَ، أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِہِ فِی عِلْمِ الْغَیْبِ عِنْدَکَ، أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِیعَ قَلْبِی، وَنُورَ صَدْرِی، وَجِلَائَ حُزْنِی، وَذَہَابَ ہَمِّی، إِلَّا أَذْہَبَ اللّٰہُ ہَمَّہُ وَحُزْنَہُ، وَأَبْدَلَہُ مَکَانَہُ فَرَجًا۔)) قَالَ: فَقِیلَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ! أَلَا نَتَعَلَّمُہَا، فَقَالَ:(( بَلٰی یَنْبَغِی لِمَنْ سَمِعَہَا، أَنْ یَتَعَلَّمَہَا۔)) (مسند أحمد: ۳۷۱۲)

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      حَدَّثَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا فُضَيْلُ بْنُ مَرْزُوقٍ، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ الْجُهَنِيُّ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ‏عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَا أَصَابَ أَحَدًا قَطُّ هَمٌّ ‏وَلَا حَزَنٌ، فَقَالَ: اللهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ، ابْنُ (2) عَبْدِكَ، ابْنُ أَمَتِكَ، نَاصِيَتِي بِيَدِكَ، مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ، ‏عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ، أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ، أَوْ ‏أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ، أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ‏‎
      اے الله میں تجھ سے تیرے ہر نام کے واسطے سے سوال کرتا ہوں جو تو اپنے نفس کے ‏رکھے یا اپنی کتاب میں نازل کیے یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھائے یا وہ جو تیرے ‏علم غیب میں جمع ہیں
      جواب
      دارقطنی العلل میں اس کو ضعیف کہتے ہیں اس کی سند میں أَبُو سَلَمَةَ الْجُهَنِيُّ جو ‏مجھول ہے
      سند کا دوسرا راوی فضيل بن مرزوق بھی مجھول ہے مسند احمد کی تعلیق میں شعیب ‏اس کو ضعیف روایت کہتے ہیں اور فضيل بن مرزوق پر لکھتے ہیں
      ‎ ‎فقال المنذري في “الترغيب والترهيب” 4/581: قال بعض مشايخنا: لا ندري من هو، وقال ‏الذهبي في “الميزان” 4/533، والحسيني في “الإكمال” ص 517: لا يدرى من هو، وتابعهما ‏الحافظ في “تعجيل المنفعة‎”‎
      حسين سليم أسد الدّاراني – عبده علي الكوشك کتاب موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان میں ‏اس کی تعلیق میں أبو سلمة الجهني پر کہتے ہیں
      والحق أنه مجهول الحال، وابن حبان يذكر أمثاله في الثقات، ويحتج به في الصحيح إذا كان ما ‏رواه ليسَ بمنكر”. وانظر أيضاً “تعجيل المنفعة” ص‎. (‎‏490‏‎ – ‎‏491‏‎).‎
      حق یہ ہے کہ یہ مجھول الحال ہے اور ابن حبان نے ان جیسوں کو الثقات میں ذکر کر دیا ‏ہے اور صحیح میں اس سے دلیل لی ہے
      اس روایت کی بعض اسناد میں عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاقَ بھی ہے جو ضعیف ہے
      لہذا روایت ضعیف اور مجھول لوگوں کی روایت کردہ ہے
      ‎ ‎جب الله کو پکارا جاتا ہے تو اس کو رحمت مانگتے وقت یا القہار نہیں کہا جاتا جبکہ ‏یہ بھی الله کا نام ہے – مسند احمد کی روایت کے مطابق الله کو پکارتے وقت اس کے ‏تمام ناموں کو پکارا گیا ہے جو سنت کا عمل نہیں
      صحیح حدیث کے مطابق الله تعالی کے ٩٩ نام ہیں لیکن اس مسند احمد کی ضعیف ‏روایت کے مطابق بے شمار ہیں

      روایت منکر ہے – متن صحیح احادیث کے خلاف ہے – راوی مجہول ہیں یا ضعیف ہیں

      Reply
  10. Zeeshan

    السلام علیکم
    آپ نے فجر کی اذان کے میں جو الفاظ آئے ہیں اس حوالے سے لکھا کہ

    ابی داود کی تیسری سند ہے

    حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي مَحْذُورَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ جَدِّي عَبْدَ الْمَلِكِ بْنَ أَبِي مَحْذُورَةَ، يَذْكُرُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا مَحْذُورَةَ، يَقُولُ: ” أَلْقَى عَلَيَّ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَذَانَ

    اس میں عَبد الْمَلِكِ بْنِ أَبي مَحذُورَة، ہے جن کا ذکر تو محدثین نے کیا ہے لیکن توثیق کہیں نہ ملی سوائے ابن حبان کی کتب کے جو مجھول راویوں کی توثیق کے لئے مشھور ہیں لہذا ان کا درجہ مجھول کا ہے

    —– ان کا ذکر تاریخ الکبیر امام بخاری میں بھی ہے اور تقريب التهذيب – ابن حجر العسقلاني نے بھی کیا ہے۔ —-

    عبد الملك بن أبي محذورة القرشي عن أبيه وعن بن محيرز روى عنه ابنه محمد والنعمان بن راشد وإسماعيل بن عبد الملك وإبراهيم بن عبد العزيز المكي

    ——–
    عبد الملك بن أبي محذورة الجمحي مقبول من الثالثة عخ د ت س
    ——-
    تهذيب التهذيب – ابن حجر —– عبد الملك بن أبي محذورة الجمحي روى عن أبيه وعن عبد الله بن محيريز عنه وعنه أولاده عبد العزيز ومحمد وإسماعيل وحفيداه إبراهيم بن إسماعيل وإبراهيم بن عبد العزيز والنعمان بن راشد ونافع بن عمر وأبو البهلول الهذيل بن بلال ذكره بن حبان في الثقات >> عخ د ت س البخاري في خلق أفعال العباد وأبي داود والترمذي والنسائي

    — یہ تابعی ہیں۔ مجھول تو نہ ہوئے۔ —
    جزاک اللہ

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      تابعی ہونے کا مطلب ہے صحابی کو دیکھا ہے – مجہول کا مطلب ہے احوال معلوم نہیں
      یہ دو الگ چیزیں ہیں

      علم حدیث میں صحابی بھی اگر غیر معروف ہو تو اس کی حدیث کو قبول کرنے پر اختلاف ہے

      ذيل لسان الميزان «رواة ضعفاء أو تكلم فيهم، لم يذكروا في كتب الضعفاء والمتكلم فيهم»
      المؤلف: حاتم بن عارف بن ناصر الشريف العوني
      الناشر: دار عالم الفوائد للنشر والتوزيع، مكة المكرمة – المملكة العربية السعودية

      إسماعيل بن عبد الملك بن أبي محذورة:
      روى عن: أبيه عبد الملك بن أبي محذورة.
      ذكره المزّي في سياق الرواة عن أبيه، في تهذيب الكمال (18/ 397).
      قال علي بن المديني -في سؤالات محمَّد بن عثمان بن أبي شيبة (رقم 142) -: “بنو محذورة الذين يُحدّثون عن جدِّهم كلهم ضعيف ليس بشيء

      امام علی المدینی کے بقول وہ تمام بنی محذورة جو دادا کے نام سے روایت کرتے ہیں وہ ضعیف ہیں
      لہذا اس اسمعیل بن عبد الملک کو ضعیف قرار دیا گیا اور محققین نے اس قول کو اس کے ترجمے میں ذکر کیوں کیا ہے
      غور کریں یہ ضعیف راوی ایک مجہول کا نام لے کر روایت کرتے تھے

      Reply
  11. aysha butt

    namaz meraj mn farz hoi
    ummat. e mosa mn 5namazein thi kia
    aap s aw phle jo namz prhte wo galibn tajaud thi .. q k waqia e meraj mn bhi hai k mn kaaba mn letha tha…
    ik admi ne sawal uthaya k. whn to bot thy bothon k huye huye woh namaz prhte to ab agr koi mezar oe sajda krta to unki niyat pe q shak hai…. butt to fath makkah pe toray gy …. button ki mujoodgi mn sab namaz prhte jo us waqt eman lae thy

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      سوال اردو میں لکھ کر بھیجیں – پڑھا نہیں جا رہا

      Reply
      1. aysha butt

        اعتراض یہ کیا گیا کہ اپ علیہ سلام معراج سے قبل جو نماز پڑھتے تھے وہ کعبہ
        میں بتوں کے ہوٹے ہوئے پڑھی بت فتح مکہ پہ ٹوٹے جب وہ ایسے ہی نماز پڑھ سکتے۔ تو اگر کوئی مزار پہ سجدہ کرے تو ہم انکی نیت پ شک کیون کرتے
        ہییں؟ جب ان کا ایمان ایمان رہاتو اب کیوں کافر کہا جاتا
        ہے
        امت موسی پہ پانچ نماز تھی کیا
        کیونکہ شیعی نہ کہا کہ معراج پہ پانچ ہی نمازملی پچاس۔ نہیں

        Reply
        1. Islamic-Belief Post author

          ہم کعبہ کو قبلہ ماں کر سجدہ اللہ کے حکم کی وجہ سے کر رہے ہیں
          مزارات پر سجدوں کی کیا دلیل ہے ؟

          Reply
  12. Raheel

    السلام علیکم

    کیا کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتے ہیں؟
    اور اگر کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتے ہیں تو اس کا کیا طریقہ ہے؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      معذوری یا کسی مجبوری پر کیا جا سکتا ہے

      Reply
  13. aysha butt

    اللہ کو کسی کام کا پہلے سے علم نہیں ہوتا جب تک
    کہ وہ ہو نہ جائے
    shia ka yeh aqeda asool e kafi mn hai
    kia yeh bt aisy hi hai… agr aisi hi bt hai toh kufr ka fatwa kia kaiz hai un pe

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      حوالہ درکار ہے

      Reply
      1. aysha butt

        usool e kafi
        yeh kitab kia imam jafer sadiq se theak mansob hai

        Reply
        1. Islamic-Belief Post author

          اصول کافی کا اہل تشیع میں وہی درجہ ہے جو صحیح البخاری کا ہے – اس کی سند ثابت نہیں ہے
          اور یہ الکلینی کی تالیف ہے جو امام بخاری کے بعد پیدا ہوئے ہیں

          Reply
  14. Azam

    السلام علیکم

    سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

    “اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

    ’’وہ شخص جس کے جسم کو میں تندرست بناتا ہوں اور جسے میں کافی رزق دیتا ہوں لیکن پانچ سال گزر جاتے ہیں اور وہ میرے پاس نہیں آتا [عمرہ یا حج کے لیے میرے گھر جانا] درحقیقت محروم ہے۔

    (صحیح ابن حبان؛ الاحسان، حدیث: 3703)

    آپ کیا کہتے ہیں؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      خْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ مَوْلَى ثَقِيفٍ قَالَ: حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ خَلِيفَةَ عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ:
      (قَالَ اللَّهُ: إِنَّ عَبْدًا صحَّحتُ لَهُ جِسْمَهُ ووسَّعت عَلَيْهِ فِي الْمَعِيشَةِ يَمْضِي عَلَيْهِ خمسة أعوام لا يَفِدُ إليَّ لَمَحْرُومٌ)
      = (3703) [68: 3]

      علل ابو حاتم میں ہے
      إِنَّمَا هُوَ الْعَلاءُ بْنُ المسيَّب، عَنْ يُونُسَ بْنِ خَبَّاب، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، مُرْسَلٌ مرفوع

      اس کی سند میں یونس بن خباب ہے جو ضعیف ہے

      مزید کہا
      قلتُ لأَبِي: لَمْ يَسْمَعْ يونسُ مِنْ أَبِي سَعِيدٍ؟
      قَالَ: لا.

      یونس کا سماع ابو سعید سے نہیں ہے

      لہٰذا یہ منقطع ہے

      علل دارقطنی میں اس پر ہے اس پر کوئی صحیح روایات نہیں ہے

      وَسُئِلَ عَنْ حَدْيثِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ اللَّهُ: إِنَّ عَبْدًا أَصْحَحْتُ لَهُ جِسْمَهُ وَأَوْسَعْتُ عَلَيْهِ فِي الْمَعِيشَةِ، فَأَتَى عَلَيْهِ خَمْسَةُ أَعْوَامٍ لَا يَفِدُ إِلَيَّ؛ لَمَحْرُومٌ.
      فَقَالَ: يَرْوِيهِ الْعَلَاءُ بْنُ الْمُسَيَّبِ، وَاخْتُلِفَ عَنْهُ؛
      فَرَوَاهُ خَلَفُ بْنُ خَلِيفَةَ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ.
      وَكَذَلِكَ رُوِيَ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِيهِ.
      وَغَيْرُهُ يَرْوِيهِ عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ الْمُسَيَّبِ مِنْ قَوْلِهِ.
      وَرَوَاهُ ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ خَبَّابٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ.
      وَقَالَ الْأَخْنَسِيُّ: عَنِ ابْنِ فُضَيْلٍ، عَنِ الْعَلَاءِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ خَبَّابٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَلَا يَصِحُّ مِنْهَا شَيْءٌ.

      Reply
  15. aysha butt

    .kia abu bakr. umer r.a ne aap s.aw pr janaza nae prha…. or wo hadith kesi hai
    jis mn hai k hazrt ayesha ne kaha beljo k chlne se khbr hoi k tadfeen ho ch uki hai…..
    kia hzrt abu bakr r.a ne fatima r.a ka janaza nae prha tha. ya sirf unko khbr nae ki gae ya wesy hi rat k andhre mn qabr mn utara gya . jesy k bukhari o muslim hi hadith mn hai ….

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      میری تحقیق کے مطابق انبیاء کی نماز جنازہ کا کوئی تصور نہیں ہے
      نماز جنازہ کا مقصد مغفرت کرنا ہے چونکہ انبیاء مغفور ہیں ان کی نماز جنازہ کا کوئی تصور اسلام میں نہیں ہے

      jis mn hai k hazrt ayesha ne kaha beljo k chlne se khbr hoi k tadfeen ho ch uki hai…..
      اس روایت کی سند ضعیف ہے

      ابو بکر رضی اللہ عنہ کو تدفین کے بعد علی رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی ہے تدفین کر دی گئی ہے
      ایسا روایات میں ہے – ان کی سند کی صحت کا مجھ کو علم نہیں

      Reply
  16. Azam

    السلام علیکم

    کیا یہ حدیث صحیح ہے؟

    مجمع الزوائد:

    “وعن أبي وائل قال : جاء رجل من بجيلة إلى عبد الله – يعني ابن مسعود – فقال : إني تزوجت جاريةً بكراً وإني خشيت أن تفركني، فقال عبد الله: ألا إن الإلف من الله، وإن الفرك من الشيطان؛ ليكره إليه ما أحل الله، فإذا دخلت عليها فمرهافلتصل خلفك ركعتين. قال الأعمش : فذكرته لإبراهيم [ فقال ]: قال عبد الله : وقل : اللهم بارك لي في أهلي وبارك لهم في، اللهم ارزقهم مني وارزقني منهم، اللهم اجمع بيننا ما جمعت إلى خير، وفرق بيننا إذا فرقت إلى الخير”. رواه الطبراني ورجاله رجال الصحيح”. (کتاب النکاح، باب ما يفعل إذا دخل بأهله :۴/ ۵۳۶، ط: دار الفكر، بيروت)

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّبَرِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، عَنِ الثَّوْرِيِّ، وَمَعْمَرٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ بَجِيلَةَ إِلَى عَبْدِ اللهِ، فَقَالَ: إِنِّي تَزَوَّجْتُ جَارِيَةً بِكْرًا، وَإِنِّي قَدْ خَشِيتُ أَنْ تَفْرِكَنِي، فَقَالَ عَبْدُ اللهِ: «إِنَّ الْإِلْفَ مِنَ اللهِ، وَإِنَّ الْفَرْكَ مِنَ الشَّيْطَانِ، لِيُكَرِّهَ إِلَيْهِ مَا أَحَلَّ اللهُ لَهُ، فَإِذَا دَخَلْتَ عَلَيْهَا فَمُرْهَا فَلْتُصَلِّ خَلْفَكَ رَكْعَتَيْنِ» قَالَ الْأَعْمَشُ: فَذَكَرْتُهُ لِإِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ: قَالَ عَبْدُ اللهِ: ” وَقُلْ: اللهُمَّ بَارِكْ لِي فِي أَهْلِي، وَبَارِكْ لَهُمْ فِيَّ، اللهُمَّ ارْزُقْنِي مِنْهُمْ وَارْزُقْهُمْ مِنِّي، اللهُمَّ اجْمَعَ بَيْنَنَا مَا جَمَعْتَ إِلَى خَيْرٍ، وَفَرِّقْ بَيْنَنَا إِذَا فَرَّقْتَ إِلَى خَيْرٍ ”
      سند ضعیف ہے
      إسحاق بن إبراهيم الدبري
      پر کلام ہے کہ یہ عبد الرزاق سے منکرات نقل کرتا ہے

      Reply
  17. Asif

    سیدنا بریدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بیٹھا ہواتھا، میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: سورۂ بقرہ سیکھو، اس کی تعلیم حاصل کرنا باعث ِ برکت ہے اور اسے چھوڑنا باعث ِ حسرت ہے، باطل پرست اس پر غالب نہیں آ سکتے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کچھ دیر کے لیے ٹھہر گئے اور پھر فرمایا: سورۂ بقرہ اور سورۂ آل عمران سیکھو،یہ دونوں چمکدار اور خوبصورت سورتیں ہیں،یہ روز قیامت اپنے پڑھنے والوں کواس طرح ڈھانپ لیں گی گویا کہ دو بادل ہوں یا دو سایہ دار چیزیں یا پر پھیلائے ہوئے پرندوں کے دو غول ہوں اور یقیناقرآن مجید قیامت کے دن تلاوت کرنے والے کو اس وقت ملے گا، جب اس کی قبر پھٹے گی، وہ کمزور اوررنگت تبدیل شدہ آدمی کی مانند ہوگا اور بندے سے کہے گا: کیا تو مجھے پہچانتا ہے؟ وہ کہے گا: میں نہیں پہچانتا، قرآن پھر کہے گا: کیا تو مجھے پہچانتا ہے؟ یہ کہے گا: میں نہیں پہچانتا، وہ کہے گا: میں تیرا ساتھی قرآن ہوں، جس نے تجھے دوپہر کے وقت پیاسا رکھا اورتجھے رات کو جگاتا رہا، آج ہر تاجر اپنی تجارت کے پیچھے ہے (یعنی ہر تاجر اپنی تجارت سے نفع حاصل کرنے کی امید رکھتا ہے) اور آج تو ہر تجارت کے پیچھے ہو۔ (یعنی آج تجھے ہر تجارت سے بڑھ کر فائدہ حاصل ہوگا) پھر اسے دائیں ہاتھ میں بادشاہت اور بائیں ہاتھ میں ہمیشگی دی جائیگی، اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جائے گا، اور اس کے والدین کو دو عمدہ پوشاکیں پہنائی جائیں گی، وہ اس قدر بیش قیمت ہوں گی کہ دنیا ومافیہا (کی قیمت) ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ وہ کہیں گے: اے ہمارے ربّ! یہ پوشاکیں ہمارے لیے کیوں ہیں؟ انہیں بتایا جائے گا کہ تمہارے بیٹے کے قرآن پڑھنے کی وجہ سے پہنایا گیا ہے، پھر اس سے کہا جائے گا پڑھتا جا اور جنت کی منزلیں طے کرتا جا، وہ جنت کے بالا خانوں میں چڑھتا جائے گا، جب تک پڑھتا جائے گا، چڑھتا جائے گا، تیز پڑھے یا آہستہ پڑھے۔

    Musnad Ahmed#8482

    What will you about this hadith? is it authentic?

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      یہ روز قیامت اپنے پڑھنے والوں کواس طرح ڈھانپ لیں گی گویا کہ دو بادل ہوں

      Yes authentic

      My Tafseer of Surah Al-Baqarah and Surah Aal-Imran is named after this hadith

      Two illuminated Clouds of Quran

      Reply
  18. Shahzad

    السلام علیکم

    آپ کی خدمت میں عورت اور مرد کی نماز میں فرق کے حوالے سے کچھ حوالے پیش کر رہا ہوں۔

    ابن همام، فتح القدير، 1 : 246

    ’’تکبیر تحریمہ کے وقت، عورت کندھوں کے برابر اپنے ہاتھ اٹھائے یہ صحیح تر ہے کیونکہ اس میں اس کی زیادہ پردہ پوشی ہے۔‘‘

    فإن کانت إمرأة جلست علی إليتهاالأيسری و أخرجت رجليها من الجانب الأيمن لأنه أسترلها.

    ابن همام، فتح القدير، 1 : 274

    ’’اگر عورت نماز ادا کر رہی ہے تو اپنے بائیں سرین پر بیٹھے اور دونوں پاؤں دائیں طرف باہر نکالے کہ اس میں اس کا ستر زیادہ ہے۔‘‘

    والمرأة تنخفض فی سجودها و تلزق بطنها بفخذ يها لأن ذلک أسترلها.

    مرغينانی، هدايه،1 : 50

    ’’عورت اپنے سجدے میں بازو بند رکھے اور اپنے پیٹ کو اپنی رانوں سے ملا دے کیونکہ یہ صورت اس کے لئے زیادہ پردہ والی ہے۔‘‘

    علامہ کاسانی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

    فأما المرأة فينبغی أن تفترش زرا عيها و تنخفض ولا تنتصب کإنتصاب الرجل و تلزق بطنها بفخذيها لأن ذلک أسترلها.

    الکاسانی، بدائع الصنائع، 1 : 210

    ’’عورت کو چاہیے اپنے بازو بچھا دے اور سکڑ جائے اور مردوں کی طرح کھل کر نہ رہے اور اپنا پیٹ اپنے رانوں سے چمٹائے رکھے کہ یہ اس کے لئے زیادہ ستر والی صورت ہے۔‘‘

    عورت سجدہ میں کیسے ہو؟ احادیث مبارکہ کی روشنی میں
    عن علی رضی الله عنه قال اذا سجدت المرأة فلتحتفر ولتضم فخذيها.

    ابن ابي شيبه، المصنف، 1 : 241، الرقم : 2777

    ’’حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے جب عورت سجدہ کرے تو سمٹ کر کرے اور اپنی ران (پیٹ اور پنڈلیوں) سے ملائے رکھے۔‘‘

    عن ابن عباس أنه سئل عن صلاة المرأة فقال تجتمع وتحتفر.

    ابن ابی شيبه، المصنف، 1 : 241، الرقم : 2778

    ’’ابن عباس سے عورت کی نماز کے بارے میں پوچھا گیا، انہوں نے فرمایا جسم کوسکیٹر کر اور سمٹا کر نماز ادا کرے۔‘‘

    عن مغيرة عن ابراهيم قال إذا سجدت المرأة فلتضم فخذيها والتضع بطنها عليها.

    ابن ابی شيبه، المصنف، 1 : 242، الرقم : 2779

    ’’جب عورت سجدہ کرتے تو اپنے ران جوڑ کر اپنا پیٹ ان پر رکھے۔‘‘

    عن مجاهد أنه کان يکره أن يضع الرجل بطنه علی فخذيه إذا سجد کما تضع المرأة.

    ابن ابی شيبه، المصنف، 1 : 242، الرقم : 2780

    ’’(ابن عباس کے شاگرد) مجاہد کہتے ہیں مرد سجدہ میں اپنا پیٹ عورتوں کی طرح رانوں پر رکھے، یہ مکروہ ہے۔‘‘

    عن الحسن (البصری) قال المرأة تضم فی السجود.

    ابن ابی شيبه، المصنف، 1 : 242، الرقم : 2781

    ’’عورت سجدہ میں سمٹ جڑ کر رہے۔‘‘

    عن إبراهيم قال إذا سجدت المرأة فلتلزق بطنها بفخذيها ولا ترفع عجيزتها ولا تجا فی کما يجافی الرجل.

    ابن ابی شيبه، المصنف،1 : 242، الرقم : 2782

    ’’جب عورت سجدہ کرے تو پیٹ اپنے زانوؤں سے ملائے اور اپنی پیٹھ (سرین) مرد کی طرح بلند نہ کرے۔‘‘

    عورت نماز میں کیسے بیٹھے؟ احادیث کی روشنی میں
    عن خالد بن اللجلاج قال کن النسآء يؤمرن أن يتربعن إذا جلسن فی الصلوة ولا يجلسن جلوس الرجل علی أور اکهن يتقی علی ذلک علی المرأة مخافة أن يکون منها الشی…

    ابن ابی شبيه، المصنف، 1 : 242، الرقم : 2783

    ’’عورتوں کو نماز میں چوکڑی بھر کر (مربع شکل میں) بیٹھنے کا حکم تھا اور یہ کہ وہ مردوں کی طرح سرینوں کے بل نہ بیٹھیں تاکہ اس میں ان کی پردہ پوشی کھلنے کا ڈر نہ رہے۔‘‘

    عن نافع ان صفية کانت تصلی وهی متربعة.

    ابن ابی شبيه، المصنف،1 : 242، الرقم : 2784

    ’’نافع سے روایت ہے حضرت سیدہ صفیہ نماز میں مربع شکل میں بیٹھا کرتی تھیں۔‘‘

    عورت کو رکوع و سجود میں جسم کھلا نہیں رکھنا چاہیے
    قال إبراهيم النخعی کانت المرأة تؤمر إذا سجدت أن تلزق بطنها بفخذيها کيلا ترتفع عجيزتها ولا تجا فی کما يجا فی الرجل.

    بيهقی، السنن الکبری، 2 : 223

    ’’ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کہتے ہیں عورت کو حکم تھا یہ سجدہ کرتے وقت اپنا پیٹ رانوں سے ملائے رکھے تاکہ اس کی پیٹھ بلند نہ ہو۔ اس طرح بازو اور ران نہ کھولے جیسے مرد۔‘‘

    قال علی رضی الله عنه إذا سجدت المرأة فلتضم فخذيها.

    بيهقی، السنن الکبری، 2 : 222، الرقم : 3014

    ’’حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا عورت سجدہ میں سکڑ کر رہے اعضاء کو ملا کر رکھے۔‘‘

    عن ابی سعيد الخدری صاحب رسول اﷲ عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم أنه قال خير صفوف الرجال الاول و خير صفوف النساء الصف الأخر وکان يامر الرجال أن يتجا فوا فی سجودهم يأمر النسآء أن ينخفضن فی سجود هن وکان يأمر الرجال أن يفر شوا اليسریٰ وينصبوا اليمنی فی التشهدو يأمر النسآء أن يتربعن وقال يا معشر النسآء لا ترفعن أبصار کن فی صلاتکن تنظرن إلی عورات الرجال.

    بيهقی، السنن الکبری،2 : 222، الرقم : 3014

    ’’ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نماز میں مردوں کی سب سے بہتر صف پہلی عورتوں کی سب سے بہتر صف آخری ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرکار مردوں کو نماز میں سجدہ کے دوران کھل کھلا کر رہنے کی تلقین فرماتے اور عورتوں کو سجدوں میں سمٹ سمٹا کر رہنے کی۔ مردوں کو حکم فرماتے کہ تشہد میں بایاں پاؤں بچھائیں اور دایاں کھڑا رکھیں اور عورتوں کو مربع شکل میں بیٹھنے کا حکم دیتے اور فرمایا عورتو! نماز کے دوران نظریں اٹھا کر مردوں کے ستر نہ دیکھنا۔‘‘

    حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

    إذا جلست المرأة فی الصلاة وضعت فخذها علی فخذها الاخریٰ و إذا سجدت الصقت بطنها فی فخذيها کأستر مايکون لها وإن اﷲ تعالی ينظر إليها ويقول يا ملآ ئکتی أشهد کم إنی قد غفرت لها.

    بيهقی، السنن الکبری، 2 : 222، الرقم : 3014

    ’’جب عورت نماز میں اپنا ایک ران دوسرے ران پر رکھ کر بیٹھتی ہے اور دوران سجدہ اپنا پیٹ رانوں سے جوڑ لیتی ہے جیسے اس کے لئے زیادہ ستر والی صورت ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی ط…

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      و علیکم السلام

      تمام اسناد ضعیف ہیں

      عورت سجدہ میں کیسے ہو؟ احادیث مبارکہ کی روشنی میں

      حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: «إِذَا سَجَدَتِ الْمَرْأَةُ فَلْتَحْتَفِرْ وَلْتَضُمَّ فَخِذَيْهَا»‏
      ابن ابي شيبه، المصنف، 1 241، الرقم 2777‏

      ‎ ‎عی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جب عورت سجدہ کرے تو سمٹ کر کرے اور اپنی ران (پیٹ اور پنڈلیوں) سے ملائے رکھے۔
      سند ضعیف ہے – أَبِي إِسْحَاقَ مدلس عن سے روایت کر رہا ہے – ‏

      حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: نا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَيُّوبَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ ‏سُئِلَ عَنْ صَلَاةِ الْمَرْأَةِ، فَقَالَ: «تَجْتَمِعُ وَتَحْتَفِرُ»‏
      ابن ابی شيبه، المصنف، 1 241، الرقم 2778‏
      سند ضعیف ہے – يَزِيدَ بْنِ حَبِيبٍ مجہول ہے ‏

      ‏ عباس سے عورت کی نماز کے بارے میں پوچھا گیا، انہوں نے فرمایا جسم کوسکیٹر کر اور سمٹا کر نماز ادا کرے۔ ‏

      حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: نا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: «إِذَا سَجَدَتِ الْمَرْأَةُ فَلْتَضُمَّ فَخِذَيْهَا، وَلْتَضَعْ بَطْنَهَا عَلَيْهِمَا»‏
      ابن ابی شيبه، المصنف، 1 242، الرقم 2779‏
      ‏ عورت سجدہ کرتے تو اپنے ران جوڑ کر اپنا پیٹ ان پر رکھے ‏
      ‏ سنده ضعيف، فمغيرة بن مِقْسم مدِّلس ولم يُصَرِّح بالسماع
      بيهقی، السنن الکبری، 2 223‏
      ‏ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، أنبأ أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ الْفَقِيهُ، أنبأ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ زِيَادٍ قَالَ: ثنا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، ثنا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي ‏إِسْحَاقَ، عَنِ الْحَارِثِ قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ ” إِذَا سَجَدْتِ الْمَرْأَةُ فَلْتَضُمَّ فَخِذَيْهَا ” وَقَدْ رُوِيَ فِيهِ حَدِيثَانِ ضَعِيفَانِ لَا يُحْتَجُّ بِأَمْثَالِهِمَا

      ‏ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کہتے ہیں عورت کو حکم تھا یہ سجدہ کرتے وقت اپنا پیٹ رانوں سے ملائے رکھے تاکہ اس کی پیٹھ بلند نہ ‏ہو۔ اس طرح بازو اور ران نہ کھولے جیسے مرد۔‎‘‘‎
      ‏ سنده ضعيف، فمغيرة بن مِقْسم مدِّلس ولم يُصَرِّح بالسماع

      حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: نا جَرِيرٌ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّهُ كَانَ يَكْرَهُ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ بَطْنَهُ عَلَى فَخِذَيْهِ إِذَا سَجَدَ كَمَا تَضَعُ الْمَرْأَةُ ‏
      ابن ابی شيبه، المصنف، 1 242، الرقم 2780‏

      ‏ (ابن عباس کے شاگرد) مجاہد کہتے ہیں مرد سجدہ میں اپنا پیٹ عورتوں کی طرح رانوں پر رکھے، یہ مکروہ ہے ‏
      سند میں لَيْث بن أبي سُلَيم ہے ‏
      قال ابن سعد: كان ليث رجلا صالحا عابدا وكان ضعيفا في الحديث
      وقال يحيى بن معين: ليس حديثه بذاك ضعيف
      وقال أبو حاتم وأبو زرعة لا يشتغل به هو مضطرب الحديث
      وقال الإمام أحمد مضطرب الحديث

      حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: نا ابْنُ مُبَارَكٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: «الْمَرْأَةُ تَضْطَمُّ فِي السُّجُودِ»‏
      ابن ابی شيبه، المصنف، 1 242، الرقم 2781‏

      ‏ عورت سجدہ میں سمٹ جڑ کر رہے۔‎‘‘‎
      سند ضعیف ہے – وهشام هو ابن حسان، لكن رواية هشام عن الحسن فيها مقال
      ہشام کا سماع حسن سے ثابت نہیں ہے ‏

      ‏ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: نا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: «إِذَا سَجَدَتِ الْمَرْأَةُ فَلْتَلْزَقْ بَطْنَهَا بِفَخِذَيْهَا، وَلَا تَرْفَعْ عَجِيزَتَهَا، وَلَا ‏تُجَافِي كَمَا يُجَافِي الرَّجُلُ
      ابن ابی شيبه، المصنف،1 242، الرقم 2782‏

      ‏ جب عورت سجدہ کرے تو پیٹ اپنے زانوؤں سے ملائے اور اپنی پیٹھ (سرین) مرد کی طرح بلند نہ کرے ‏
      سند میں سفیان ثوری کا عنعنہ ہے جو مدلس ہے لہذا ضعیف ہے ‏

      ‏ ‏
      حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: نا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ زُرْعَةَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلَاجِ، قَالَ: «كُنَّ النِّسَاءُ يُؤْمَرْنَ أَنْ ‏يَتَرَبَّعْنَ إِذَا جَلَسْنَ فِي الصَّلَاةِ، وَلَا يَجْلِسْنَ جُلُوسَ الرِّجَالِ عَلَى أَوْرَاكِهِنَّ، يُتَّقَى ذَلِكَ عَلَى الْمَرْأَةِ مَخَافَةَ أَنْ يَكُونَ مِنْهَا الشَّيْءُ
      ابن ابی شبيه، المصنف، 1 242، الرقم 2783‏

      ‏ عورتوں کو نماز میں چوکڑی بھر کر (مربع شکل میں) بیٹھنے کا حکم تھا اور یہ کہ وہ مردوں کی طرح سرینوں کے بل نہ بیٹھیں ‏تاکہ اس میں ان کی پردہ پوشی کھلنے کا ڈر نہ رہے۔‎‘‘‎

      سند ضعیف ہے – زرعة بن إبراهيم پر محدث أبو حاتم کا قول ہے ليس بالقوى.‏

      ‏ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: نا أَبُو خَالِدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنْ نَافِعٍ، «أَنَّ صَفِيَّةَ، كَانَتْ تُصَلِّي وَهِيَ مُتَرَبِّعَةٌ»‏
      ابن ابی شبيه، المصنف،1 242، الرقم 2784‏

      ‏ نافع سے روایت ہے سیدہ صفیہ نماز میں مربع شکل میں بیٹھا کرتی تھیں ‏
      نافع کی ملاقات صفیہ رضی اللہ عنہا سے ثابت نہیں ہے ‏
      ابن عجلان پر امام مالک کا کہنا ہے یہ بیروکریٹ تھا اس کو حدیث کا اتا پتا نہیں ہے ‏

      ‏ ‏

      قال علی رضی الله عنه إذا سجدت المرأة فلتضم فخذيها‎.‎

      بيهقی، السنن الکبری، 2 222، الرقم 3014‏

      ‏ علی نے فرمایا عورت سجدہ میں سکڑ کر رہے اعضاء کو ملا کر رکھے۔ ‏
      ‏ حَدَّثَنَاهُ أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللهِ بْنُ يُوسُفَ بْنِ أَحْمَدَ الْأَصْبَهَانِيُّ، أنبأ أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ الْحَسَنِ الْقَطَّانُ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَارِثِ الْبَغْدَادِيُّ، ‏ثنا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، ثنا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّهُ ‏سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى شَيْءٍ يُكَفِّرُ اللهُ [ص:26] بِهِ الْخَطَايَا وَيَزِيدُ بِهِ فِي الْحَسَنَاتِ؟ ” قَالُوا: بَلَى يَا ‏رَسُولَ اللهِ، قَالَ: ” إِسْبَاغُ الْوُضُوءِ عِنْدَ الْمَكَارِهِ، وَكَثْرَةُ الْخُطَا إِلَى هَذِهِ الْمَسَاجِدِ، وَانْتِظَارُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ، مَا مِنْكُمْ مِنْ رَجُلٍ يَخْرُجُ مِنْ ‏بَيْتِهِ مُتَطَهِّرًا فَيُصَلِّي مَعَ الْمُسْلِمِينَ الصَّلَاةَ فِي جَمَاعَةٍ، ثُمَّ يَقْعُدُ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ يَنْتَظِرُ الصَّلَاةَ الْأُخْرَى إِلَّا أَنَّ الْمَلَائِكَةَ تَقُولُ: اللهُمَّ اغْفِرْ لَهُ ‏اللهُمَّ ارْحَمْهُ، فَإِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاعْدِلُوا صُفُوفَكُمْ وَأَقِيمُوهَا، وَسُدُّوا الْفُرَجَ فَإِنِّي أَرَاكُمْ مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِي، فَإِذَا قَالَ إِمَامُكُمْ: اللهُ أَكْبَرُ فَقُولُوا ‏اللهُ أَكْبَرُ، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا: اللهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ، وَإِنَّ خَيْرَ صُفُوفِ الرِّجَالِ الْمُقَدَّمُ وَشَرَّهَا الْمُؤَخَّرُ، ‏وَخَيْرَ صُفُوفِ النِّسَاءِ الْمُؤَخَّرُ وَشَرَّهَا الْمُقَدَّمُ، يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ إِذَا سَجَدَ الرِّجَالُ فَاخْفِضْنَ أَبْصَارَكُنَّ لَا تَرَيْنَ عَوْرَاتِ الرِّجَالِ مِنْ ضِيقِ الْأُزُرِ
      عن ابی سعيد الخدری صاحب رسول اﷲ عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم أنه قال خير صفوف الرجال الاول و خير صفوف ‏النساء الصف الأخر وکان يامر الرجال أن يتجا فوا فی سجودهم يأمر النسآء أن ينخفضن فی سجود هن وکان يأمر الرجال أن يفر شوا ‏اليسریٰ وينصبوا اليمنی فی التشهدو يأمر النسآء أن يتربعن وقال يا معشر النسآء لا ترفعن أبصار کن فی صلاتکن تنظرن إلی عورات ‏الرجال‎.‎

      بيهقی، السنن الکبری،2 222، الرقم 3014‏

      ‏ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نماز میں مردوں کی سب سے بہتر ‏صف پہلی عورتوں کی سب سے بہتر صف آخری ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرکار مردوں کو نماز میں سجدہ کے دوران ‏کھل کھلا کر رہنے کی تلقین فرماتے اور عورتوں کو سجدوں میں سمٹ سمٹا کر رہنے کی۔ مردوں کو حکم فرماتے کہ تشہد میں ‏بایاں پاؤں بچھائیں اور دایاں کھڑا رکھیں اور عورتوں کو مربع شکل میں بیٹھنے کا حکم دیتے اور فرمایا عورتو! نماز کے دوران ‏نظریں اٹھا کر مردوں کے ستر نہ دیکھنا۔‎‘‘‎

      ‏ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا‎ ‎

      حَدِيثُ أَبِي مُطِيعٍ الْحَكَمِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الْبَلْخِيِّ، عَنْ عُمَرَ بْنِ ذَرٍّ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِذَا ‏جَلَسَتِ الْمَرْأَةُ فِي الصَّلَاةِ وَضَعَتْ فَخِذَهَا عَلَى فَخِذِهَا الْأُخْرَى، وَإِذَا سَجَدَتْ أَلْصَقَتْ بَطْنَهَا فِي فَخِذَيْهَا كَأَسْتَرِ مَا يَكُونُ لَهَا، وَإِنَّ اللهَ تَعَالَى ‏يَنْظُرُ إِلَيْهَا وَيَقُولُ: يَا مَلَائِكَتِي أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَهَا ‏‎.‎

      بيهقی، السنن الکبری، 2 222، الرقم 3014‏

      ‏ جب عورت نماز میں اپنا ایک ران دوسرے ران پر رکھ کر بیٹھتی ہے اور دوران سجدہ اپنا پیٹ رانوں سے جوڑ لیتی ہے جیسے ‏اس کے لئے زیادہ ستر والی صورت ہے ‏

      سند ضعیف ہے ‏
      أَبُو مُطِيعٍ الْحَكَمُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْبَلْخِيُّ ضَعِيفٌ‏
      حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنُ حَنْبَلٍ قَالَ: سَأَلْتُ أَبِي، عَنْ أَبِي مُطِيعٍ الْحَكَمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَلْخِيِّ قَالَ: ” لا يَنْبَغِي أَنْ يَرْوِيَ عَنْهُ

      باقی تمام متاخرین احناف کی انہی ضعیف آثار پر ارا ہیں
      لیکن اس میں کوئی بھی مرفوع قول نبوی نہیں ہے
      لہذا یہ احادیث نہیں ہیں اثار ہیں

      Reply
  19. aysha butt

    kaha ja raha k marwan bin hakm k lie quran mn shajr e khabeesah ki misal di gi. kia yeh bt sahi hai

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      اس کی کوئی دلیل نہیں ہے

      Reply
  20. Abdullah

    السلام عليكم

    نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص سورت بقرہ کی دو آیات پڑھے گا تو اس کو ہر مانگی ہوئی چیز مل جائے گی۔
    اس حدیث کو ظاہری لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن جسمانی بیماریوں کیلئے بھی شفا ہے؟؟؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      سلام علیکم
      مجھے اس میں جسم کا کوئی ذکر نہیں نظر آ رہا

      Reply
  21. سلیمان

    السلام عليكم

    بعض کے نزدیک خبر واحد پر عقیدہ بنایا تو کسی دوسرے عالم نے اس روایت کو ضعیف قرار دے دیا تو اس کے عقیدے کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی جبکہ اگر قرآن پر عقیدہ بنایا جائے اسکو کوئی قیامت تک ریجیکٹ نہیں کر سکتا اس کی کوئی آیت ضعیف وغیرہ نہیں ہے اس بارے میں تفصیل سے وضاحت آپ کی درکار ہے جزاک اللہ۔

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      سلام علیکم

      خبر واحد – خبر ہے لہذا اس کو قبول کیا جائے گا مثلا اہل کتاب کی خبر قبول کرنے کا ذکر قرآن میں ہے کہ اہل ذکر سے پوچھ لو
      اس طرح عبد اللہ بن سلام نے جنت کی خبر کی تصدیق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کرائی کہ جنتی کو کیا کھانے کو ملے گا
      خبر اس طرح سچی تھی لیکن حق تھی یا نہیں اس میں اشکال تھا
      اصولی طور پر خبر کو لیا جائے گا الا یہ کہ کوئی علت معلوم ہو

      جہاں تک غلط عقائد کا تعلق ہے تو لوگ ان تک کو قرآن سے ثابت کرتے ہیں مثلا شہداء قبروں میں زندہ ہیں بعض کے نزدیک لیکن ہم خبر واحد سے ثابت کرتے ہیں صحیح مسلم کی روایت کہ شہداء جنت میں ہیں پرندوں میں ہیں

      Reply
  22. aysha butt

    faraat k kinare kutta b mar jae to mn uska zemadar hon hazrat umr ne kaha. kia ye qol sahi hai

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      مجھے اس کی سند کا علم نہیں

      Reply
  23. سلیمان

    خبر واحد کا درجہ قرآن جیسا نہیں ہے قرآن لاریب ہے خبر واحد لاریب نہیں ہوسکتی ۔تو پھر خبر واحد پر عقیدہ کیسے بنایا جاسکتا ہے؟؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      خبر واحد ایک سائن بورڈ کی طرح ہے – آپ رستہ پر جا رہے ہیں آگے جا کر دو رستے ہو جاتے ہیں تو خبر واحد آپ کو ایک صحیح سمت دے سکتی ہے
      مثلا جو شہید ہو گئے وہ زندہ ہیں مگر کیا قبر میں ہیں یا جنت میں
      خبر واحد یہاں صحیح عقیدہ تک لے جاتی ہے

      خبر واحد کا مطلق منکر ، منکر حدیث کہا جائے گا اور یہ صحیح منہج نہیں ہے

      Reply
  24. سلیمان

    اس سے
    Related
    ایک اور سوال ہے کہ خبر واحد پر بنائے گے عقیدے کا حکم کیا ہے؟
    حنفی عالم نے ایک کتاب لکھی ہے
    اصول فقہ پر ایک نظر جس میں ہےکہ خبر واحد کے منکر کی تکفیر نہیں ہوگی؟؟؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      کون سی خبر واحد ہے ؟ عمل کی یا عقیدے کی ؟ عقائد میں خبر واحد کو رد کرتا تحقیق طلب ہے
      مثلا میں نے نزول مسیح کو رد نہیں کیا لیکن اس کی کچھ روایات کو رد کر دیا ہے
      یہ خبر واحد کا انکار ہے لیکن نزول مسیح کا انکار نہیں جو دیگر خبر واحد سے مل رہا ہے
      لہذا کیا تمام کی تمام اس عقیدہ کی خبر واحد کو رد کر دیا گیا ہے
      یہ دیکھنا پڑے گا

      Reply
  25. Asif

    السلام علیکم

    اگر فجر کی سنت رہے جائے اور جماعت کھڑی ہوجائے تو کیا جماعت کے ساتھ فرض نماز پڑھ کر، اس کے بعد سنت نماز پڑسکتے ہیں؟

    ترمزی شریف 422 کو امام ترمزی نے ضعیف کہا ہے۔ جبکہ ابوداود 1267 اور ابن ماجہ 1154 بھی ہے۔
    تو کیا اس کی کوئی صحیح یا حسن موجود ہے؟

    کیا قیس جو راوی ہیں، ان کے دو نام ہیں؟

    مہربانی فرما کر رہنمائی کریں۔ شکریہ

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      و علیکم السلام

      فرض نماز کے بعد پڑھ سکتے ہیں جس طرح حدیث میں ہے کہ رات کے نفل رہ جائیں تو دن میں پڑھ لئے جائیں
      واللہ اعلم

      حدیث کا عربی متن کیا ہے ؟

      Reply
      1. Asif

        ترمزی 422
        ——
        حدثنا محمد بن عمرو السواق البلخي، قال: حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن سعد بن سعيد، عن محمد بن إبراهيم، عن جده قيس، قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم فاقيمت الصلاة فصليت معه الصبح، ثم انصرف النبي صلى الله عليه وسلم فوجدني اصلي، فقال: ” مهلا يا قيس اصلاتان معا “، قلت: يا رسول الله إني لم اكن ركعت ركعتي الفجر، قال: ” فلا إذا ” قال ابو عيسى: حديث محمد بن إبراهيم لا نعرفه مثل هذا إلا من حديث سعد بن سعيد، وقال سفيان بن عيينة: سمع عطاء بن ابي رباح، من سعد بن سعيد هذا الحديث، وإنما يروى هذا الحديث مرسلا، وقد قال قوم من اهل مكة بهذا الحديث: لم يروا باسا ان يصلي الرجل الركعتين بعد المكتوبة قبل ان تطلع الشمس. قال ابو عيسى: وسعد بن سعيد هو اخ ويحيى بن سعيد الانصاري، قال: وقيس هو جد يحيى بن سعيد الانصاري ويقال: هو قيس بن عمر، ويقال: هو قيس بن قهد، وإسناد هذا الحديث ليس بمتصل، محمد بن إبراهيم التيمي لم يسمع من قيس، وروى بعضهم هذا الحديث، عن سعد بن سعيد، عن محمد بن إبراهيم، ان النبي صلى الله عليه وسلم خرج فراى قيسا، وهذا اصح من حديث عبد العزيز، عن سعد بن سعيد.
        قیس (قیس بن عمرو بن سہل) رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور جماعت کے لیے اقامت کہہ دی گئی، تو میں نے آپ کے ساتھ فجر پڑھی، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پلٹے تو مجھے دیکھا کہ میں نماز پڑھنے جا رہا ہوں، تو آپ نے فرمایا: ”قیس ذرا ٹھہرو، کیا دو نمازیں ایک ساتھ ۱؎ (پڑھنے جا رہے ہو؟)“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے فجر کی دونوں سنتیں نہیں پڑھی تھیں۔ آپ نے فرمایا: ”تب کوئی حرج نہیں“ ۲؎۔
        امام ترمذی کہتے ہیں:
        ۱- ہم محمد بن ابراہیم کی حدیث کو اس کے مثل صرف سعد بن سعید ہی کے طریق سے جانتے ہیں،
        ۲- سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ عطاء بن ابی رباح نے بھی یہ حدیث سعد بن سعید سے سنی ہے
        ———
        ———
        ترمزی 423
        ——-
        ) حدثنا عقبة بن مكرم العمي البصري، حدثنا عمرو بن عاصم، حدثنا همام، عن قتادة، عن النضر بن انس، عن بشير بن نهيك، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” من لم يصل ركعتي الفجر فليصلهما بعد ما تطلع الشمس “. قال ابو عيسى: هذا حديث لا نعرفه إلا من هذا الوجه، وقد روي عن ابن عمر انه فعله، والعمل على هذا عند بعض اهل العلم، وبه يقول: سفيان الثوري , وابن المبارك , والشافعي , واحمد , وإسحاق، قال: ولا نعلم احدا روى هذا الحديث عن همام بهذا الإسناد نحو هذا إلا عمرو بن عاصم الكلابي، والمعروف من حديث قتادة، عن النضر بن انس، عن بشير بن نهيك، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ” من ادرك ركعة من صلاة الصبح قبل ان تطلع الشمس فقد ادرك الصبح.
        ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو فجر کی دونوں سنتیں نہ پڑھ سکے تو انہیں سورج نکلنے کے بعد پڑھ لے“ ۱؎۔
        امام ترمذی کہتے ہیں:
        ۱- یہ حدیث ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں،
        ——–
        اس حدیث کی سند میں ایک راوی قتادہ ہیں جو مدلس ہیں، انہوں نے نصر بن انس سے عنعنہ کے ساتھ روایت کیا ہے، نیز یہ حدیث اس لفظ کے ساتھ غیر محفوظ ہے، عمرو بن عاصم جو ہمام سے روایت کر رہے ہیں، ان الفاظ کے ساتھ منفرد ہیں، ہمام کے دیگر تلامذہ نے ان کی مخالفت کی ہے اور اسے ان لفاظ کے علاوہ دوسرے الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے اور وہ الفاظ یہ ہیں «من أدرك ركعة من صلاة الصبح قبل أن تطلع الشمس فقد أدرك الصبحَ» ”جس آدمی نے سورج طلوع ہونے سے پہلے صبح کی نماز کی ایک رکعت پالی اس نے صبح کی نماز پا لی (یعنی صبح کے وقت اور اس کے ثواب کو) نیز یہ حدیث اس بات پر بصراحت دلالت نہیں کرتی ہے کہ جو اسے صبح کی نماز سے پہلے نہ پڑھ سکا ہو وہ سورج نکلنے کے بعد ہی لازماً پڑھے، کیونکہ اس میں صرف یہ ہے کہ جو اسے نہ پڑھ سکا ہو وہ سورج نکلنے کے بعد پڑھ لے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو اسے وقت ادا میں نہ پڑھ سکا ہو یعنی سورج نکلنے سے پہلے نہ پڑھ سکا ہو تو وہ اسے وقت قضاء میں یعنی سورج نکلنے کے بعد پڑھ لے، اس میں کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس سے صبح کی نماز کے بعد ان دو رکعت کو پڑھنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے اس کی تائید دارقطنی، حاکم اور بیہقی کی اس روایت سے ہوتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں «من لم يصل ركعتي الفجرحتى تطلع الشمس فليصلهما» ”جو آدمی سورج طلوع ہونے تک فجر کی دو رکعت سنت نہ پڑھ سکے وہ ان کو (سورج نکلنے کے بعد) پڑھ لے
        ———-
        یہ دونوں روایت آپ کے سامنے ہیں۔

        جزاک اللہ

        Reply
        1. Islamic-Belief Post author

          shukriya

          Reply
  26. سلیمان

    السلام عليكم

    زازان کیلئے تابعی کا لفظ بولنا درست ہے حدیث میں خیر القرون میں تابعی بھی آتے ہیں جو راوی بدعقیدہ ہو اسے خیر قرون میں کیسے شامل کیا جاسکتا ہے؟ لیکن اصول حدیث کے تحت تو وہ تابعی ہی ہیں ۔

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      تابعی سے مراد اتبع کرنے والا ہے – زاذان اس طرح تابعی نہیں ہے لیکن اگر تعریف یہ کرو کہ اصحاب رسول کو دیکھنے والا تو کہا جاتا ہے یہ لشکر علی میں موجود تھا
      بالکل اسی طرح جس طرح ابن سبا موجود تھا

      Reply
  27. سلیمان

    والرسخون فی العلم کے بارے میں تفسیر احسن البیان میں لکھا ہے کہ مضبوط علم والے بھی متشابہات کا علم جانتے ہیں اس آیت کی صحیح تفسیر کر دیجیئے شکریہ

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      والرسخون فی العلم

      جو علم میں راسخ ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ متشابھات آیات بھی من جانب اللہ ہیں ان پر ایمان لاتے ہیں
      اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان کو متشابھات کا علم ہے

      یہ عقیدے ان کے کے ایجاد کردہ ہیں جنہوں نے متشابھات کی تشریح کی کوشش کی ہے اور اس میں فتنہ پیدا کیا ہے مثلا یہ کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے یا معراج پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم عرش تک چلے گئے
      ان عقائد کو متشابھات سے نکالا جاتا ہے
      میری کتاب
      توحید اسماء الحسنی میں اس پر تفصیل ہے

      Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      ہر رسم جو بلا نیکی کے تصور میں محض رسم پر کی جاتی ہو وہ بدعت نہیں ہے
      اس کو معروف کہتے ہیں جو ہر معاشرہ میں الگ الگ ہوتا ہے

      Reply
  28. Ahsan

    امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے متعلق اہل علم کی آرا:

    سر پھرے عثمانی صاحبان تو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو بد عقیدہ مشرک ،شرک کا داعی اور طاغوت کہتے ہیں لیکن دوسری طرف اہل علم ، محدثین و آئمہ دین وغیرہ کا اجماع ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ صالح و عادل مومن و مسلم اور مبلغ اسلام تھے۔

    (1) امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ جو امام بخاری رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں وہ کہتے ہیں:

    هو إمام و هو حجة،

    ”وہ احمد بن حنبل امام اور حجت ہیں ۔“

    (الجرح والتعديل لابن أبي حاتم الرازي :جلد 2 صفحہ 70 ،و سنده صحيح)

    نیز فرماتے ہیں:

    إذا رأيتم الرجل يحب أحمد بن حنبل فاعلم أنه صاحب سنة

    ”جب تم کسی آدمی کو دیکھو کہ وہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے محبت کرتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ صاحب سنت ہے۔

    (الجرح والتعديل لابن ابی حاتم الرازي :308/1،و سنده صحيح)

    (2) امام نسائی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

    الثقة المأمون أحد الائمة

    احمد بن حنبل ثقہ مامون اماموں میں سے ایک ہیں ۔“

    (تہذیب التہذیب لابن حجر :75/1)

    (3) امام یحیی بن آدم رحمہ اللہ کہتے ہیں:

    ”احمد بن حنبل اللہ ہمارے امام ہیں ۔“

    (تہذیب التہذیب لابن حجر: 73/1)

    (4) امام قتیبہ بن سعید رحمہ اللہ کہتے ہیں:

    احمد بن حنبل رحمہ اللہ دنیا کے امام ہیں ۔“

    (الجرح والتعديل لابن أبي حاتم :295/1 ، و سندہ صحیح)

    (5) امام بخاری رحمہ اللہ نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو ائمہ اہل سنت میں شامل کیا ہے۔

    ( جز رفع الیدین ،ص:64)

    (6) محدث دورقی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

    من سمعتموه يذكر أحمد بسوء فاتهموه على الإسلام،

    ” جب تم کسی کو سنو کہ وہ احمد بن حنبل کا برائی کے ساتھ ذکر کر رہا ہے تو اس کے اسلام پر تہمت لگاؤ۔

    ( مناقب الامام احمد ابن الجوزی صفحہ 495,494، و سندہ صحیح)

    (7) امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:

    من أبغض أحمد بن حنبل فهو كافر

    امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے بغض رکھنے والا کافر ہے ۔

    (طبقات الحنابلة : 7/1)

    اس وقت معتزلہ وغیرہ گمراہ اور بد عقیدہ فرقے امام احمد رحمہ اللہ کا ذکر برائی سے کرتے تھے اور امام صاحب سے انتہائی درجہ کا بغض رکھتے تھے، آج اس دور میں عثمانی فرقہ ان کے نقش قدم پر چل رہا ہے۔

    (8) نیز فرماتے ہیں:

    أحمد إمام في ثمان خصال إمام في الحديث إمام في الفقه إمام في اللغة إمـام فـي الـقـرآن إمـام فـي الـفـقـر امـام فـي الزهـد إمـام فـي الورع إمام في السنة ”

    امام احمد بن حنبل : آٹھ خصائل: حدیث ،فقہ ،لغت،قرآن فقر ، زہد، تقوی اور سنت میں امام ہیں ۔

    (طبقات الحنابلة :5/1)

    اختصار کے پیش نظر یہاں چند اقوال نقل کئے گئے ہیں، ورنہ اگر دوسرے اہل علم کے اقوال بھی نقل کیے جاتے تو ایک کتاب بن جاتی ،اب اس بات کا جواب عثمانی فرقہ کے ذمہ ہے کہ جو اہل علم امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو امام قرار دیتے ہیں، کیا وہ کافر تھے یا مسلمان ………

    اور ان اہل علم میں سر فہرست ہیں

    امام شافعی رحمہ اللہ

    امام بخاری رحمہ اللہ

    امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ جو امام بخاری رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں

    اور امام نسائی رحمہ اللہ جن کو دنیا جانتی اور مانتی ہے ؟؟؟؟

    لگاؤ فتوی

    یہ ایک احمد بن حنبل کا مقلد کی پوسٹ ہے اس پر تبصرہ فرما دیجئے جزاک اللہ۔

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      طبقات حنابلہ میں امام شافعی کے قول کی مکمل سند ہی نہیں ہے
      وقال الربيع بن سليمان قَالَ الشافعي من أبغض أحمد بن حنبل فهو كافر فقلت: تطلق عليه أسم الكفر فقال نعم من أبغض أحمد بن حنبل عاند السنة ومن عاند السنة قصد الصحابة ومن قصد الصحابة أبغض النَّبِيّ ومن أبغض النَّبِيّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – كفر بالله العظيم

      قتیبہ کے قول کی سند بھی نہیں ہے
      وقال قتيبة بن سعيد أحمد بن حنبل إمامنا من لم يرض به فهو مبتدع.

      کیا احمد کے ایک ایک عقیدہ کا ان محدثین کو علم تھا یہ دعوی تو آج ہم بھی نہیں کرتے ہم تو صرف جو تقریر میں سنا اس کی ہی گواہی دے سکتے ہیں

      مثلا امام احمد کا تعویز کرنا امام ابو داود اور احمد کے گھر والوں نے بیان کیا ہے تمام محدثین کو اس کا علم نہ تھا
      امام احمد فرشتوں کو بیاباں میں پکارتے تھے گھر والوں نے ذکر کیا ہے تمام محدثین کو اس کا علم نہ تھا

      اس طرح گھر والوں کی گواہی سب سے بڑھ کر ہے

      کوئی سوال کرے کہ معتزلہ کا عقیدہ خلق قرآن درست تھا تو ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ غلط تھا امام احمد کا موقف بہتر تھا

      اس طرح یہ اقوال جو جمع کیے جاتے ہیں یہ کسی تناظر میں ہوتے ہیں اور ان کو ان کی حد میں ہی سمجھا جا سکتا ہے

      امام احمد جرح و تعدیل کے امام ہیں اس میں ان کا قول لیا جائے گا لیکن مسئلہ خلق قرآن میں جب ان کو کوڑے لگے تو ان کی عقل چلی گئی تھی اور انہوں نے جو عقائد پیش کیے ان پر اہل علم نے امام احمد کا نام لئے بغیر نکیر کی ہے
      مثلا امام بخاری کو امام احمد کے خلق قرآن کے اس موقف پر اعتراض تھا کہ قرآن کی تلاوت کو بھی مخلوق نہ کہا جائے
      یہ موقف امام بخاری و امام الذھبی نے رد کیا ہے

      رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عرش پر بیٹھا دیا جائے گا یہ امام احمد کا عقیدہ کہا جاتا ہے
      امام ابن تیمیہ و امام الذھبی نے اس عقیدے کو رد کیا ہے

      امام احمد تعویذ کرتے تھے اس عمل کو آج تک امت میں متعدد علماء کی جانب سے شرک کہا جاتا ہے

      امام احمد کا معلوم ہوا فرشتوں کو پکارتے تھے اس پر اجماع اہل علم ہے کہ یہ بھی شرک ہے

      توحید باری تعالی کے معاملے میں کوئی کومپرومائز نہیں ہو گا یہ بات یاد رہے
      فرقے یہ فریاد کیوں کرتے رہتے ہیں کہ امام احمد امام تھے ؟ امام احمد مر کھپ چکے ہیں لیکن یہ احمد کے عقائد کو چھپاتے ہیں
      یا ان کا غیر ضروری دفاع کرتے ہیں
      ان کو کوئی احساس ندامت نہیں کیونکہ یہ ان کا پیشہ ہے کہ حق کو چھپا کر لوگوں کو علماء کی پوجا میں لگا دیا جائے

      Reply
    2. Ahsan

      جزاک اللہ شیخ

      شیخ یہ ساری پی ڈی ایف اٹیچ کردی جائے اسکے جواب میں؟؟

      احمد کے مشرکانہ عقائد انکی ہی کتب سے آپ نے جواب دے دیا ہے کئی سال پہلے- موصوف کو فرصت نہیں ملی پڑھنے کی۔

      Reply
      1. Islamic-Belief Post author

        send kar dain

        Reply
  29. Waleed

    السلام عليكم

    کسی روایت کو ایک راوی بیان کرے تو کیا اس پر
    عمل نہیں کیا جاسکتا؟

    جیسے اپ نے ایت الکرسی کے متعلق کہا اپنی کتاب میں کہ صرف ایک راوی اس کی فضیلت بیان کر رہا ہے جبکہ اتنی فضیلت والی روایت کو سب کو بیان کرنا چاہیے؟؟(کتاب بدعات)

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      و علیکم السلام

      کیا جا سکتا ہے – فضائل میں جب کسی عمل کو بڑھا کر بیان کیا گیا ہو تو اس کا علم سب کو ہو گا یہ ایک انسانی تجربہ کی بات ہے

      Reply
  30. Abdullah

    السلام عليكم

    حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى أَبُو مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنِي الْحُسَيْنُ بْنُ وَاقِدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مَرْوَانُ يَعْنِي ابْنَ سَالِمٍ الْمُقَفَّعَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ يَقْبِضُ عَلَى لِحْيَتِهِ فَيَقْطَعُ مَا زَادَ عَلَى الْكَفِّ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَفْطَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ .

    مروان بن سالم مقفع کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ وہ داڑھی کو اپنی مٹھی میں لیتے اور اس سے جو بڑھی ہوئی ہوتی اسے کاٹ ڈالتے ۔ اور بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب روزہ افطار کرتے تو یہ دعا پڑھتے تھے : «ذهب الظمأ وابتلت العروق وثبت الأجر إن شاء الله» ’’ پیاس بجھ گئی ‘ رگیں تر ہو گئیں اور اللہ نے چاہا تو اجر بھی ثابت ہو گیا ۔“

    Sunnan e Abu Dawood#2357

    اس روایت کی سند صحیح ہے؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author


      ‏ ‏
      Sunnan e Abu Dawood Hadees # 2357‎
      حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى أَبُو مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ ‏الْحَسَنِ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنِي الْحُسَيْنُ بْنُ وَاقِدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مَرْوَانُ يَعْنِي ابْنَ سَالِمٍ ‏الْمُقَفَّعَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ يَقْبِضُ عَلَى لِحْيَتِهِ فَيَقْطَعُ مَا زَادَ عَلَى ‏الْكَفِّ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَفْطَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ‏ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ‏‎ .‎
      میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا، وہ اپنی داڑھی ‏کو مٹھی میں پکڑتے اور جو مٹھی سے زائد ہوتی اسے کاٹ دیتے، ‏اور کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب افطار کرتے تو ‏یہ دعا پڑھتے: «ذهب الظمأ وابتلت العروق وثبت الأجر إن شاء ‏الله» پیاس ختم ہو گئی، رگیں تر ہو گئیں، اور اگر اللہ نے چاہا تو ‏ثواب مل گیا ۔
      یہ حسن ہے

      Reply
  31. aysha butt

    ap ki kitab mn shahdat e usman wale qisse mn ik hadith hai jis mn ik shkhs ne yeh tasur dia k. k mavia r.a ne planning se usman r.a ko shaheed kia
    yeh kaisi hai …
    or kaha yeh ja raha usman r a ne apno ko ameer muqarar kiaor fyda dia or marwan bin hakm ko apna damad bnaya or sari hukomat us k. control mn thi hzrt usman r.ak control nae tha….. yeh shia manty hai.

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      کس کتاب میں کس صفحہ پر ہے ؟

      اس قسم کی روایت معلوم نہیں

      Reply
  32. aysha butt

    sulah e hassan ki ik hadith hai bukhari mn us ka sahi. tarjma kr dein..
    us mn hai yehmere sathi mall o marah k elawa razi na hongy …..
    is se tohyeh niklta k hzrt umr r.a ne wazaif mn tabqat bna kr tafreeq paida ki…. ap kia khty hai

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      حدیث کا متن کیا ہے نمبر کیا ہے ؟

      Reply
      1. aysha butt

        2704 sahih bukhari
        yeh b maloom hai k hazrt mr r.a ne husnain r.a ka wazifa ashab e bdr jitna rakha tha

        Reply
  33. aysha butt

    sulah e hassan 2704 sahih bukhariiiii
    Apki kitb. hazrat Ali mm bait e khilaft k qisso mn. safa no 64 pe hai woh hadith

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      بیعت علی پر کوئی صحیح روایت نہیں
      میں نے روایات جمع کر کے ان پر بحث کی ہے
      مضطرب ہیں متن تاریخ سے بھی غلط ثابت ہوتا ہے

      Reply
  34. Usman

    السلام عليكم

    ابو شہریار صاحب

    احمد کے خط کو قرآن کے مقابلے میں غیر یقینی کہنا کیا طاغوت کا دفاع کرنا ہے؟؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      و علیکم السلام

      قرآن یقینا من جانب اللہ ہے لیکن بہت سی اور خبروں کو بھی’ علم یقین مانا جاتا ہے
      اس کی مثال قرآن میں ہی ہے کہ ہدہد نے سلیمان علیہ السلام سے کہا میں یقینی خبر لایا ہوں
      کہ ملکہ سبا و اس کی قوم مشرک ہے
      سلیمان نے خبر قبول کی اور دھمکی آمیز خط ملکہ کو بھیجا

      موسی علیہ السلام کو ایک شخص نے خبر دی کہ دربار فرعون میں ان کے قتل پر بات ہو رہی ہے – موسی ایک شخص کی بات پر مصر چھوڑ گئے

      لہذا خبر واحد سے بھی یقینی خبر مل جاتی ہے کہ فلاں مشرک ہے

      احمد کا معاملہ صرف خط تک محدود نہیں رہا ہے ٠ ااحمد کے وہ عقائد بھی معلوم ہوئے ہیں جو ڈاکٹر عثمانی کے علم میں نہیں تھے لیکن شرک ہیں
      مثلا
      تعویذ کرنا
      فرشتوں کو پکارنا
      اس پر گواہ احمد کے بیٹے ہیں گھر والے ہیں
      جن کو گواہی کو لیا جاتا ہے

      اس طرح اگر خط کو غیر یقینی کھو تو کیا کہنے والا مردے کی حیات فی القبر پر احمد کی اس عقیدے پر نسبت کو رد کر رہا ہے ؟ تو اس سے اس کے خلاف دلیل طلب کی جائے کہ اس کو کیسے علم ہوا کہ یہ احمد کا عقیدہ ممکن ہے نہ ہو ؟
      اس طرح تو ہر مشہور شخص پر شک کا اظہار ہو گا
      منصور حلاج سے ہماری ملاقات نہیں لیکن تمام صوفیا کہتے ہیں اس کا نعرہ انا الحق تھا

      جب کسی عقیدے کی نسبت ایک شخص سے مشہور ہو جائے اور سارا عالم کہے کہ یہ اس شخص کا عقیدہ ہے تو ہم اسی قول مشہور کو لیں گے

      اس طرح یہ خبر واحد کی بحث احمد سے اس کے عقیدہ کی نسبت کو ختم نہیں کر سکتی

      میرے نزدیک یہ خبر واحد کی یہاں بحث چھیڑنا احمد سے اس عقیدے کی نسبت کو مشکوک قرار دینا ہے
      اس کا کوئی فائدہ نہیں
      کیونکہ ہم کو صحیح کہنے کا حکم ہے
      اگر ہم نے نوٹ کیا کہ کسی نے غلط عقیدہ دیا ہے تو ہم اس عقیدے کی نسبت اس شخص یعنی احمد سے ہی کریں گے

      اس طرح خلط مبحث نہیں کریں گے

      بعض قوانین حدیث کے لئے ہیں – علماء کے اقوال پر تحقیق کے لئے نہیں ہیں
      خبر واحد کی بحث حدیث و روایات کے لئے ہے

      علماء سے منسوب ان کے مشہور عقیدوں کے لئے نہیں ہے

      لب لباب ہوا کہ اس قسم کے علمی شوشوں سے طاغوت کو غیر طاغوت بنا کر پیش کیا جا سکتا ہے اور بہتر ہے کہ علم حدیث کو حدیث پر لگایا جائے نہ کہ مشہور شخصیت کی خبروں پر

      Reply
  35. Usman

    جزاک اللہ

    بعض کے نزدیک قران کی خبر واحد قطعی اور یقینی ہے اور اس سے اختلاف کفر ہے لیکن حدیث میں جو خبر واحد آئے وہ لا ریب نہیں نہ ہی اس سے اختلاف کفر ہے وضاحت درکار ہے جزاک اللہ شیخ

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      کسی حدیث کا متن منکر ہو تو ایسا کیا جا سکتا ہے ورنہ قول نبوی کا پھر کیسے علم ہو گا اگر سب صحیح احادیث مشکوک ہیں ؟

      صادق راوی کی خبر واحد – نبا یقین ہے جیسا ہدہد کے قصے میں ہے یعنی سچی خبر

      اب اس میں اشکال نہیں ہے

      محدثین نے حدیث پر جرح کی ہے تو اس کی دلیل بھی دی ہے لہذا دلیل کے تحت بات کی جاتی ہے
      بلا دلیل سب مجموعہ احادیث کو غیر یقینی مشکوک نہیں کہہ سکتے

      Reply
  36. aysha butt

    insan ko ik nafs se bnaya phir us se uska jora bnaya is ka mutlb kia hai … is se kya us hadith se mutabiqt hoti k aurt pasli se bni… i hadith sahi hai k nahi.. ya dono ka khameer matti se utha ik nafs se bnnae ka yeh mutlb hai
    or phir ek sath roh phonki gae q k yeh hai k tumor tumhari bivi jannt mn raho

    yeh jannat ka hukm toh adams k asma btane or satan ka raz fash hone or adam ko sajda krne k bad jannat mn rehne ko bola gya yani jab yeh sab ho raha tab hawa a.s bhi wahn thi

    or ehd alst kia us waqpt hoa jab kalamt seekh kr galti ki maafi mangi to phle ehd hoa phir zameen pe utara gya

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      عورت کو آدم پسلی سے بنایا صحیح روایت نہیں

      قرآن میں ہے کہ ایک نفس سے بنایا – اس کا مکمل علم اللہ کو ہے ہم ایمان لاتے ہیں
      کس طرح تخلیق ہوا کسی صحیح حدیث میں نہیں ہے

      Reply
  37. aysha butt

    شادی کے وقت ام المومنین حضرت عائشہ کی عمر 15 یا 16سال کے قریب تھی اور رخصتی کے وقت 18 یا 19 سال۔

    بخاری کی 6 اور 9 سال کی روایت خود بخاری کی پانچ مستند روایات سے متصادم ھے۔اگر اس روایت کو درست مانا جاۓ کہ ام المومنین کی عمر شادی کے وقت 9 سال تھی تو پھر اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ ان کی پیدائش اعلان نبوت کے پانچ سال بعد ہوئی ہو گی۔جبکہ تاریخ طبری میں لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر کی تمام اولاد زمانہ جاہلیت میں ہوئی تھی، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت سے پہلے ہی سیدہ عائشہ پیدا ہو چکی تھیں اور اس حساب سے ان کی نکاح کے وقت عمر 18 یا 19 سال بنتی ہے۔

    1: بخاری کی 9 سال والی روایت کو بخاری میں موجود مواد ھی رد کرتا ھے۔ سورۃ القمر 5 نبوی میں نازل ہوئی، بخاری کی روایت نمبر 4876 میں سیدہ عائشہ بیان کرتی ہیں کہ جب سورہ قمر نازل ہوئی تو میں اس وقت کھیلتی پھرتی تھی۔

    یعنی سیدہ عائشہ عمر کے اس حصے میں تھیں کہ جہاں وہ اپنی ہم عمر لڑکیوں کے ساتھ کھیلتی بھی تھیں ۔ اس سورۃ کے نزول کے وقت اگر ہم سیدہ عائشہ کی عمر چھ سال بھی فرض کریں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کے وقت 15 یا 16سال کے قریب عمر بنتی ھے اور رخصتی کے وقت 18 یا 19 سال۔

    2: بخاری میں ہی ایک روایت (بخاری – 2880) موجود ہے کہ سیدہ عائشہ غزوہ احد میں شریک تھیں اور زخمیوں کو پانی پلانے کیلئے مشکیزے بھر بھر کر لا رہی تھیں۔ یاد رھے کہ غزوہ احد 3 ھجری میں ھوا۔ اب 9 سال میں شادی کو مانیں تو عمر 10 سال بنتی ھے جبکہ بخاری کی ہی ایک روایت (بخاری – 2664) میں موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ احد میں پندرہ سال سے کم عمر بچوں کو جانے کی اجازت نہیں دی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ احد کے وقت سیدہ عائشہ کی عمر 15 سال سے زیادہ تھی۔

    3: یہ محکم حقیقت ھے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی بڑی بہن سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے9 یا 10 سال چھوٹی تھیں۔سیدہ اسماء کی وفات 73 ہجری میں ہوئی جب ان کی عمر99 یا 100 سال تھی۔
    ثابت یہ ہوا کہ اگر 73 ہجری میں ان کی عمر 100 سال تھی تو پھر ہجرت کے وقت ان کی عمر 26 یا 27 سال ہو گی، اور سیدہ عائشہ ان سے 9 یا 10 سال چھوٹی تھیں تو ان کی عمر ہجرت کے وقت 15 سے 16 سال ہو گی۔ اور ہجرت کے تقریباً دو یا تین سال بعد سیدہ عائشہ کی رخصتی ہوئی تھی یعنی اس وقت ان کی عمر 18 یا 19 سال تھی۔
    (ابن کثير، البدايه والنهايه 8 / 346)
    (علامه ابن حجر عسقلانی، تهذيب التهذيب 12 ص 426)
    (محمد ابن سود الکاتب الواقدی 168ه م 230ه الطبقات الکبریٰ ج 8 / 255)
    (امام ابن الجوزی، اسدالغايه فی معرفة الصحابة ج 5 ص 392)
    (سيرة ابن هشام م 1 ص 271 طبع بيروت)

    4۔ حضرت عائشہ رض کی حضور ص سے نسبت سے پہلے ایک منگنی ٹوٹ چکی تھی اور کچھ حوالوں میں نکاح ھو کر رخصتی سے پہلے طلاق ھوچکی تھی۔ یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ یہ معاملات چھ سال کی عمر میں ھوئے ھوں۔ جبکہ حضور سے نکاح اور رخصتی ان معاملات سے بعد ھوئی۔

    نوٹ۔ اس تحریر میں میں نے سات مختلف تحاریر و تقاریر سے استفادہ کیا ھے ۔ چونکہ ان افادات میں آپس میں تضاد بھی تھا اس لئے ان معلومات کو
    باربط بنا کر لکھا ھے۔
    is pr ap kia khty hai

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      سورہ قمر کب نازل ہوئی کسی صحیح روایت سے معلوم نہیں
      ان روایات پر بحث ام المومنین پر کتاب میں موجود ہے

      Reply
  38. Abdullah

    https://youtu.be/MskG3HYNhEc

    السلام عليكم

    یہاں وگ کو جائز قرار دیا گیا ہے جبکہ یہ تو حرام ہے وضاحت درکار ہے۔

    مندرجہ ذیل روایت ضعیف ہے؟

    سنن نسائي
    كتاب الزينة من السنن
    کتاب: زیب و زینت اور آرائش کے احکام و مسائل
    41. بَابُ : مَنْ أُصِيبَ أَنْفُهُ هَلْ يَتَّخِذُ أَنْفًا مِنْ ذَهَبٍ
    41. باب: کیا جس کی ناک کٹ جائے وہ سونے کی ناک لگوا سکتا ہے؟
    حدیث نمبر: 5165
    پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
    اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا يزيد بن زريع، عن ابي الاشهب , قال: حدثني عبد الرحمن بن طرفة، عن عرفجة بن اسعد بن كريب، قال: وكان جده , قال: حدثني انه راى جده اصيب انفه يوم الكلاب في الجاهلية، قال: فاتخذ انفا من فضة، فانتن عليه , فامره النبي صلى الله عليه وسلم ان يتخذه من ذهب”.
    عبدالرحمٰن بن طرفہ کہتے ہیں کہ انہوں نے دیکھا کہ جاہلیت میں جنگ کلاب کے دن ان کے دادا (عرفجہ بن اسد رضی اللہ عنہ) کی ناک کٹ گئی، تو انہوں نے چاندی کی ناک بنوائی، پھر اس میں بدبو آ گئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ سونے کی ناک بنوا لیں۔

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      روایت حسن درجہ پر ہے
      سونا مجبوری کی وجہ سے یہاں اجازت کے بعد استعمال ہوا ہے
      زیبائش کے لیے نہیں

      Reply
  39. aysha butt

    shohr bulay or aurt rukh pher ley ya na jae to farishte raat bhar lant krty hai
    kesi riwayt hai
    agr begum quran online claas mn buzy ho ya kisi es se mutalka kaam mn ho tab b yehi hadith wala hulagay ga

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فَأَبَتْ فَبَاتَ غَضْبَانَ عليها لَعَنَتْهَا الملائكة حتى تصبح

      صحیح روایت ہے

      Reply
  40. Azam

    السلام علیکم

    میرا سوال لایف انشورنس ، ہیلتھ انشورنس کے حوالے سے ہے۔ کیا یہ جائز ہے؟؟

    کہتے ہیں کہ انشورنس حرام ہے۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی انشورنس بھی ہے۔ جس کا کوئی اسلامی نام دے دیا ہے۔ اس میں بھی سب لوگ پیسے جمع کرواتے ہیں ۔ اور فائدہ اٹھاتے ہیں۔

    اگر انشورنس کو اس لئے حرام قرار دیا گیا ہے کہ وہ کمپنی سود لیتی ہے یا سودی کاروبار کرتی ہے۔ توجو سود لیتا ہے۔ اس کا گناہ اسی پر ہوتا ہے۔
    مثال کے طور پر
    پاکستان قرضہ لیتا ہے۔ سود پر پھر وہ پیسے عوام پر لگائے جاتے ہیں۔ اب جس نے سود لیا ہے وہ ذمہ دار۔ پاکستان کی عوام تو ذمہ دار نہیں۔

    ایک انشورنس کمپنی لاکھوں لوگوں سے پیسے لیتی ہے۔ وہ ان پیسوں سے بزنس کر کہ اپنی کمپنی کے خرچے اور بل نکالتی ہے۔ لاکھوں لوگوں کے پیسے ہیں، تو جو انشورنس کلیم کرتا ہے۔ پیسے اسی کے پاس جاتے ہیں۔

    میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی کمپنی سود لیتی ہے تو اس کے ذمہ دار ہم کیسے؟

    جزاک اللہ

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      لایف انشورنس ، ہیلتھ انشورنس کی اسلام میں ضرورت نہیں بلکہ بالکل بے مقصد ہے
      مجبوری میں لی جا سکتی ہے مثلا کسی نوکری میں سب پر لازم کو ہیلتھ انشورس لیں تو یہ مجبوری ہے

      اللہ تعالی نے فرعوں کے جرم میں اس کی قوم کو شامل کیا ہے

      Reply
  41. aysha butt

    Quran mn fasiq ki jhooti khbr ka shan nuzool waleed bin uqba k lie hai musaand ahmed mn shan e nuzool mn in k waqie ka zikr hai yeh hadith kesi hai
    or es k baap se. mutaliq hai k us ne camel ki ojriAap s aw pr rakhi phr fatimaelr.a ne aa k hattai
    kia fatah maqqa pr muslim hony walo ko tulaqa kha gya hai. or es lafz ka maani kia hai .. kia in ko munfiqeen mn gina jana drust hai

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      waleed bin uqba

      کے حوالے سے آیت کے شان نزول کی روایات مشکوک و ضعیف ہیں

      Reply
  42. Mueez

    السلام عليكم

    ذیل میں حدیث کی تحقیق درکار ہے جزاک اللہ
    صحيح مسلم حدیث نمبر 4245

    وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ، وَاللَّفْظُ لِزُهَيْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: كَانَتْ ثَقِيفُ حُلَفَاءَ لِبَنِى عُقَيْلٍ، فَأَسَرَتْ ثَقِيفُ رَجُلَيْنِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَسَرَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رَجُلًا مِنْ بَنِي عُقَيْلٍ، وَأَصَابُوا مَعَهُ الْعَضْبَاءَ، فَأَتَى عَلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الْوَثَاقِ، قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، فَأَتَاهُ، فَقَالَ: «مَا شَأْنُكَ؟» فَقَالَ: بِمَ أَخَذْتَنِي، وَبِمَ أَخَذْتَ سَابِقَةَ الْحَاجِّ؟ فَقَالَ: «إِعْظَامًا لِذَلِكَ أَخَذْتُكَ بِجَرِيرَةِ حُلَفَائِكَ ثَقِيفَ»، ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْهُ، فَنَادَاهُ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، يَا مُحَمَّدُ، وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَحِيمًا رَقِيقًا، فَرَجَعَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: «مَا شَأْنُكَ؟» قَالَ: إِنِّي مُسْلِمٌ، قَالَ: «لَوْ قُلْتَهَا وَأَنْتَ تَمْلِكُ أَمْرَكَ أَفْلَحْتَ كُلَّ الْفَلَاحِ»، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَنَادَاهُ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، يَا مُحَمَّدُ، فَأَتَاهُ، فَقَالَ: «مَا شَأْنُكَ؟» قَالَ: إِنِّي جَائِعٌ فَأَطْعِمْنِي، وَظَمْآنُ فَأَسْقِنِي، قَالَ: «هَذِهِ حَاجَتُكَ»، فَفُدِيَ بِالرَّجُلَيْنِ، قَالَ: وَأُسِرَتِ امْرَأَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ وَأُصِيبَتِ الْعَضْبَاءُ، فَكَانَتِ الْمَرْأَةُ فِي الْوَثَاقِ وَكَانَ الْقَوْمُ يُرِيحُونَ نَعَمَهُمْ بَيْنَ يَدَيْ بُيُوتِهِمْ، فَانْفَلَتَتْ ذَاتَ لَيْلَةٍ مِنَ الْوَثَاقِ، فَأَتَتِ الْإِبِلَ، فَجَعَلَتْ إِذَا دَنَتْ مِنَ الْبَعِيرِ رَغَا فَتَتْرُكُهُ حَتَّى تَنْتَهِيَ إِلَى الْعَضْبَاءِ، فَلَمْ تَرْغُ، قَالَ: وَنَاقَةٌ مُنَوَّقَةٌ فَقَعَدَتْ فِي عَجُزِهَا، ثُمَّ زَجَرَتْهَا فَانْطَلَقَتْ، وَنَذِرُوا بِهَا فَطَلَبُوهَا فَأَعْجَزَتْهُمْ، قَالَ: وَنَذَرَتْ لِلَّهِ إِنْ نَجَّاهَا اللهُ عَلَيْهَا لَتَنْحَرَنَّهَا، فَلَمَّا قَدِمَتِ الْمَدِينَةَ رَآهَا النَّاسُ، فَقَالُوا: الْعَضْبَاءُ نَاقَةُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِنَّهَا نَذَرَتْ إِنْ نَجَّاهَا اللهُ عَلَيْهَا لَتَنْحَرَنَّهَا، فَأَتَوْا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرُوا ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: «سُبْحَانَ اللهِ، بِئْسَمَا جَزَتْهَا، نَذَرَتْ لِلَّهِ إِنْ نَجَّاهَا اللهُ عَلَيْهَا لَتَنْحَرَنَّهَا، لَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَةٍ، وَلَا فِيمَا لَا يَمْلِكُ الْعَبْدُ»، وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ حُجْرٍ: «لَا نَذْرَ فِي مَعْصِيَةِ اللهِ

    مجھے زہیر بن حرب اور علی بن حجر سعدی نے حدیث بیان کی ۔۔۔ الفاظ زہیر کے ہیں ۔۔۔ ان دونوں نے کہا : ہمیں اسماعیل بن ابراہیم نے حدیث سنائی ، کہا : ہمیں ایوب نے ابوقلابہ سے حدیث بیان کی ، انہوں نے ابومہلب سے اور انہوں نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : ثقیف ، بنو عقیل کے حلیف تھے ، ثقیف نے رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے دو آدمیوں کو قید کر لیا ، ( بدلے میں ) رسول اللہ ﷺ کے اصحاب نے بنو عقیل کے ایک آدمی کو قیدی بنا لیا اور انہوں نے اس کے ساتھ اونٹنی عضباء بھی حاصل کر لی ، رسول اللہ ﷺ اس آدمی کے پاس سے گزرے ، وہ بندھا ہوا تھا ، اس نے کہا : اے محمد ! آپ ﷺ اس کے پاس آئے اور پوچھا :’’ کیا بات ہے ؟‘‘ اس نے کہا : آپ نے مجھے کس وجہ سے پکڑا ہے اور حاجیوں ( کی سواریوں ) سے سبقت لے جانے والی اونٹنی کو کیوں پکڑا ہے ؟ آپ نے ۔۔۔ اس معاملے کو سنگین خیال کرتے ہوئے ۔۔۔ جواب دیا :’’ میں نے تمہیں تمہارے حلیف ثقیف کے جرم کی بنا پر ( اس کے ازالے کے لیے ) پکڑا ہے ۔‘‘ پھر آپ وہاں سے پلٹے تو اس نے ( پھر سے ) آپ کو آواز دی اور کہا : اے محمد ! اے محمد ( ﷺ ) ! رسول اللہ ﷺ بہت رحم کرنے والے ، نرم دل تھے ۔ پھر سے آپ اس کے پاس واپس آئے اور فرمایا :’’ کیا بات ہے ؟‘‘ اس نے کہا : ( اب ) میں مسلمان ہوں ۔ آپ نے فرمایا :’’ اگر تم یہ بات اس وقت کہتے جب تم اپنے مالک آپ تھے ( آزاد تھے ) تو تم پوری بھلائی حاصل کر لیتے ( اب بھی ملے گی لیکن پوری نہ ہو گی ۔ ) ‘‘ پھر آپ پلٹے تو اس نے آپ کو آواز دی اور کہا : اے محمد ! اے محمد ( ﷺ ) ! آپ ( پھر ) اس کے پاس آئے اور پوچھا :’’ کیا بات ہے ؟‘‘ اس نے کہا : میں بھوکا ہوں مجھے ( کھانا ) کھلائیے اور پیاسا ہوں مجھے ( پانی ) پلائیے ۔ آپ نے فرمایا :’’ ( ہاں ) یہ تمہاری ( فوراً پوری کی جانے والی ) ضرورت ہے ۔‘‘ اس کے بعد ( معاملات طے کر کے ) اسے دونوں آدمیوں کے بدلے میں چھوڑ دیا گیا ۔ ( اونٹنی پیچھے رہ گئی اور رسول اللہ ﷺ کے حصے میں آئی ۔ لیکن مشرکین نے دوبارہ حملے کر کے پھر اسے اپنے قبضے میں لے لیا ۔ )
    کہا : ( بعد میں ، غزوہ ذات القرد کے موقع پر ، مدینہ پر حملے کے دوران ) ایک انصاری عورت قید کر لی گئی اور عضباء اونٹنی بھی پکڑ لی گئی ، عورت بندھنوں میں ( جکڑی ہوئی ) تھی ۔ لوگ اپنے اونٹ اپنے گھروں کے سامنے رات کو آرام ( کرنے کے لیے بٹھا ) دیتے تھے ، ایک رات وہ ( خاتون ) اچانک بیڑیوں ( بندھنوں ) سے نکل بھاگی اور اونٹوں کے پاس آئی ، وہ ( سواری کے لیے ) جس اونٹ کے بھی قریب جاتی وہ بلبلانے لگتا تو وہ اسے چھوڑ دیتی حتی کہ وہ عضباء تک پہنچ گئی تو وہ نہ بلبلائی ، کہا : وہ سدھائی ہوئی اونٹنی تھی تو وہ اس کی پیٹھ کے پچھلے حصے پر بیٹھی ، اور اسے دوڑایا تو وہ چل پڑی ۔ لوگوں کو اس ( کے جانے ) کا علم ہو گیا ، انہوں نے اس کا تعاقب کیا لیکن اس نے انہیں بے بس کر دیا ۔ کہا : اس عورت نے اللہ کے لیے نذر مانی کہ اگر اللہ نے اس اونٹنی پر اسے نجات دی تو وہ اسے ( اللہ کی رضا کے لیے ) نحر کر دے گی ۔ جب وہ مدینہ پہنچی ، لوگوں نے اسے دیکھا تو کہنے لگے : یہ عضباء ہے ، رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی ۔ وہ عورت کہنے لگی کہ اس نے یہ نذر مانی ہے کہ اگر اللہ نے اسے اس اونٹنی پر نجات عطا فرما دی تو وہ اس اونٹنی کو ( اللہ کی راہ میں ) نحر کر دے گی ۔ اس پر لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو یہ بات بتائی تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ سبحان اللہ ! اس عورت نے اسے جو بدلہ دیا وہ کتنا برا ہے ! اس نے اللہ کے لیے یہ نذر مانی ہے کہ اگر اللہ نے اس کو اس اونٹنی پر نجات دے دی تو وہ اسے ذبح کر دے گی ، معصیت میں نذر پوری نہیں کی جا سکتی ، نہ ہی اس چیز میں جس کا بندہ مالک نہ ہو ۔‘‘
    ابن حجر کی روایت میں ہے :’’ اللہ کی معصیت میں کوئی نذر ( جائز ) نہیں ۔‘‘

    دوسرا سوال

    کیا مندرجہ بالا حدیث کا متن اس حدیث سے نہیں ٹکرا رہا جس میں ہے کہ صحابہ نے ایک کافر کو قتل کردیا جبکہ اس نے کلمہ پڑھ لیا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا تو فرمایا کیوں ایسا کیا صحابی نے کہا اس نے قتل کے ڈر سے پڑھا نبی نے فرمایا کہ تم نے اس کا سینہ چیر کا دیکھا تھا؟

    اب اس حدیث میں راوی کہہ رہا ہے کہ جب ایک کافر نے کہا کہ میں مسلمان ہوتا ہوں اسے کہا گیا کہ تو غلام ہے تو ایسا کہہ رہا ہے آزاد ہوکر کہو تو تمہارا اسلام مانا جائے گا

    کیا شیخ یہ کنٹروڈکشن نہیں ہے متن میں؟

    یہ حدیث ہے وہ ملاحظہ فرمائیں 👇🏻

    اسامہ بن زید بن حارثہ رضی اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں :​
    بَعَثَنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إِلَی الْحُرَقَةِ مِنْ جُهَيْنَةَ، فَصَبَّحْنَا الْقَوْمَ، فَهَزَمْنَاهُمْ، وَلَحِقْتُ أَنَا وَرَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ رَجُلًا مِنْهُمْ، فَلَمَّا غَشِيْنَا قَالَ : لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ. فَکَفَّ عَنْهُ الأَنْصَارِيُّ، وَطَعَنْتُهُ بِرُمْحِي حَتَّی قَتَلْتُهُ. قَالَ : فَلَمَّا قَدِمْنَا، بَلَغَ ذَالِکَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ لِي : يَا أُسَامَةُ، أَقَتَلْتَهُ بَعْدَ مَا قَالَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ؟ قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّمَا کَانَ مُتَعَوِّذًا. قَالَ : فَقَالَ : أَقَتَلْتَهُ بَعْدَ مَا قَالَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ؟ قَالَ : فَمَا زَالَ يُکَرِّرُهَا عَلَيَّ حَتَّی تَمَنَّيْتُ أَنِّي لَمْ أَکُنْ أَسْلَمْتُ قَبْلَ ذَالِکَ الْيَوْمِ.​

    بخاری، الصحيح، کتاب المغازي، باب بعث النّبيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أسامة بن زيد إلی الحرقات من جهينة، 4 : 1555، رقم : 40212. بخاری، کتاب الديات، باب قول اﷲ تعالی : ومن أحياها، 6 : 2519، رقم : 64783.​
    ابن حبان، الصحيح، 11 : 56، رقم : 4751​

    ”رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں جہاد کے لیے مقام حرقہ کی طرف روانہ کیا جو قبیلہ جہینہ کی ایک شاخ ہے۔ ہم صبح وہاں پہنچ گئے اور (شدید لڑائی کے بعد) انہیں شکست دے دی۔ میں نے اور ایک انصاری صحابی نے مل کر اس قبیلہ کے ایک شخص کو گھیر لیا، جب ہم اس پر غالب آگئے تو اس نے کہا : لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ. انصاری تو (اس کی زبان سے) کلمہ سن کر الگ ہو گیا لیکن میں نے نیزہ مار کر اسے ہلاک کر ڈالا۔ جب ہم واپس آئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اس واقعہ کی خبر ہو چکی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا : اے اسامہ! تم نے اسے کلمہ پڑھنے کے باوجود قتل کیا؟ میں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! اس نے جان بچانے کے لئے کلمہ پڑھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا : تم نے اسے کلمہ پڑھنے کے باوجود قتل کیا؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بار بار یہ کلمات دہرا رہے تھے اور میں افسوس کر رہا تھا کہ کاش آج سے پہلے میں اِسلام نہ لایا ہوتا۔”​

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      و علیکم السلام

      اگر کوئی قیدی مشرک بولے کہ میں مسلمان ہوں تو اس کو قتل نہیں کیا جائے گا
      ان روایات میں کوئی مشکل نہیں ہے

      Reply
  43. aysha butt

    mustadrak hakim ki. riwayt 4802 jis mn. khutba hasan hai sanadan or matan kesi hai

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      امام الذھبی نے اس کو غیر صحیح کہا ہے

      حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى ابْنِ أَخِي طَاهِرٍ الْعَقِيقِيُّ الْحَسَنِيُّ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، حَدَّثَنِي عَمِّي عَلِيُّ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنِي الْحُسَيْنُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ قَالَ: خَطَبَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ النَّاسَ حِينَ قُتِلَ عَلِيٌّ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: «لَقَدْ قُبِضَ فِي هَذِهِ اللَّيْلَةَ رَجُلٌ لَا يَسْبِقُهُ الْأَوَّلُونَ بِعَمَلٍ وَلَا يُدْرِكُهُ الْآخِرُونَ، وَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِيهِ رَايَتَهُ فَيُقَاتِلُ وَجِبْرِيلُ عَنْ يَمِينِهِ وَمِيكَائِيلُ عَنْ يَسَارِهِ، فَمَا يَرْجِعُ حَتَّى يَفْتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ، وَمَا تَرَكَ عَلَى أَهْلِ الْأَرْضِ صَفْرَاءَ وَلَا بَيْضَاءَ إِلَّا سَبْعَ مِائَةِ دِرْهَمٍ فَضَلَتْ مِنْ عَطَايَاهُ أَرَادَ أَنْ يَبْتَاعَ بِهَا خَادِمًا لِأَهْلِهِ» ، ثُمَّ قَالَ: ” أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ عَرَفَنِي فَقَدْ عَرَفَنِي وَمَنْ لَمْ يَعْرِفْنِي فَأَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، وَأَنَا ابْنُ النَّبِيِّ، وَأَنَا ابْنُ الْوَصِيِّ، وَأَنَا ابْنُ الْبَشِيرِ، وَأَنَا ابْنُ النَّذِيرِ، وَأَنَا ابْنُ الدَّاعِي إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ، وَأَنَا ابْنُ السِّرَاجِ الْمُنِيرِ، وَأَنَا مِنْ أَهْلِ الْبَيْتِ الَّذِي كَانَ جِبْرِيلُ يَنْزِلُ إِلَيْنَا وَيَصْعَدُ مِنْ عِنْدِنَا، وَأَنَا مِنْ أَهْلِ الْبَيْتِ الَّذِي أَذْهَبَ اللَّهُ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَهَّرَهُمْ تَطْهِيرًا، وَأَنَا مِنْ أَهْلِ الْبَيْتِ الَّذِي افْتَرَضَ اللَّهُ مَوَدَّتَهُمْ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ فَقَالَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: {قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى وَمَنْ يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَزِدْ لَهُ فِيهَا حُسْنًا} [الشورى: 23] فَاقْتِرَافُ الْحَسَنَةِ مَوَدَّتُنَا أَهْلَ الْبَيْتِ ”
      [التعليق – من تلخيص الذهبي]
      4802 – ليس بصحيح

      Reply
  44. Waleed khan

    السلام عليكم

    مسجد کو فنڈ دینا جائز ہے دلیل درکار ہے جزاک اللہ

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      فی سبیل اللہ کی مد میں دیا جا سکتا ہے
      فی سبیل اللہ میں کافی چیزیں آ جاتی ہیں

      Reply
  45. aysha butt

    hadith adam a.s apni olad mn se qayamt k roz 1000mnne 999 iktrf or1ik trf kry. .. taweel ki gae. k woh 999 hajooj majooj hai q k wo. bhi bni adm hai
    kia aisa hai

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      یہ متن چار اصحاب رسول سے منسوب ہے لیکن اس کی تمام سندوں میں مسائل ہیں – صحیح البخاری والی سند ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے لیکن اس سند میں علت ہے
      کتاب المنتخب میں ہے کہ راوی کو شک ہے کہ یہ قول نبوی ہے یا نہیں

      کتاب یاجوج و ماجوج میں اس پر تفصیلی بحث ہے وہاں دیکھیں

      —–
      میرے نزدیک یہ شاذ و مضطرب روایت ہے

      Reply
  46. Waleed khan

    السلام عليكم

    سورت ال عمران کی آیت 50 کی تفسیر درکار ہے۔

    کیا نبی شارع مجاز تھے؟ ایسا کوئی سوال ویب پر موجود تھا وہ لنک بھی درکار ہے شکریہ

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      دین میں غلو مت کرو
      میں اس پا کلام ہے

      احادیث میں اتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احکام دے جو خاص تھے عام سے الگ تھے مثلا ایک شخص نے عید کی نماز سے پہلے قربانی کی اور جب اس کو پتا چلا کہ نماز کے بعد قربانی ہے تو اس نے سوال کیا اب کیا کرے؟
      اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیری قربانی ہو گئی لیکن کسی اور کی نہ ہو گی
      اس قسم کے واقعات سے بعض فرقوں نے یہ نکالا ہے کہ رسول اللہ شرع میں ایسا حکم کر سکتے تھے جو اللہ لے مقرر کردہ حکم سے الگ ہو

      اس کے بعد وہ رسول اللہ کو شارع مجاز کہتے ہیں

      ہم ایسا نہیں سمجھتے کیونکہ رسول اللہ اپنی مرضی سے نہیں بلکہ اللہ کے حکم کے تحت کرتے تھے
      اور مخصوص واقعات کو ہم الوحی کے تحت ہی سمجھتے ہیں

      Reply
  47. Waleed khan

    السلام عليكم

    یوسف علیہ السلام کے وزیر خزانہ کے متعلق دو الگ باتیں کی جاتی ہیں کہ وہ طاغوتی نظام میں وزیر خزانہ بنے اس لیے وزیر بن سکتے ہیں مشرکانہ حکومت میں بھی۔

    اور دوسرا موقف یہ بیان کیا جاتا ہے کہ یوسف علیہ السلام وزیر خزانہ بنے تھے نہ کہ وزیراعظم اور وزیر خزانہ اور وزیراعظم کے عہدے میں فرق ہے اور اسکو فروعی مسئلہ بھی کہا گیا۔میری سمجھ سے باہر ہے کہ وزیر خزانہ ہو یا وزیر اعظم بنے تو مشرکانہ حکومت کا حصہ ہی تھے نہ؟ کیا وزیر خزانہ حکومت کےا نڈر کام نہیں کرتا؟

    کنفوجن یہ ہے کہ ایک مومن مشرکانہ نظام کا حصہ کیسے بن سکتا ہے اور یہ مسئلہ فروعی کیوں بنایا گیا ہے یہ تو عقیدے کا مسئلہ ہے ۔مندرجہ بالا وضاحت لنک میں موجود ہے:

    https://forum.mohaddis.com/threads/%D8%AC%D9%85%DB%81%D9%88%D8%B1%DB%8C%D8%AA-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D8%AF%DB%8C%D9%86%D9%90-%D8%AC%D8%AF%DB%8C%D8%AF.11616/page-4

    اپ کی کتاب میں یہ ٹوپک ہے تو پیج نمبر کے ساتھ بتائیے گا جزاک اللہ۔

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      یوسف علیہ السلام کا مشن الگ تھا
      ان کو مصر میں من جانب اللہ اس مقام پر پہنچایا گیا تھا اور اس منصوبے کا مقصد آگے بنی اسرائیل کو مصر لانا تھا

      Reply
  48. Shabana

    االسلام علیکم

    آپ نے لکھا ہے کہ
    صحیح حدیث کے مطابق حائضہ اور جنبی قرآن نہیں پڑھے گا

    یہ صحیح حدیث کہاں ہے؟
    —————
    1. نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
    «لاَ تَقْرَأِ الحَائِضُ، وَلاَ الجُنُبُ شَيْئًا مِنَ القُرْآنِ
    ’’حائضہ عورت اور جنبی دونوں قرآن سے کچھ نہ پڑھیں۔‘‘
    اس روایت کو بعض حضرات نے اس کے کچھ متابعات کی بنیاد پر صحیح کہا ہے لیکن محدث عصر شیخ البانی﷫ نے اُنہیں بھی غیر معتبر قرار دے کر اس روایت کو ضعیف ہی قرار دیا ہے
    یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ اسماعیل بن عیاش حجازیوں سے روایت کرتے ہیں، اور اس کا حجازیوں سے روایت کرنا ضعیف ہے
    بلکہ تعلیقاتِ مشکاۃ میں امام احمد﷫ کے حوالے سے اسے باطل کہا ہے۔
    حافظ ابن حجرنے بھی امام طبری کے حوالے سے اس روایت کی بابت کہا: “ضعیف من جمیع طرقه”
    ’’جتنے بھی طرق سے یہ روایت آتی ہے، سب ضعیف ہیں۔‘‘

    2. سیدنا علی﷜ سے مروی ہے:
    کان ﷺ یقضی حاجته ثم یخرج فیقرأ القرآن ویأکل معنا اللحم ولا یحجبه، وربما قال: لا یحجزه من القرآن شيء لیس الجنابة. (رواه الخمسة)]
    ’’نبیﷺ قضائے حاجت سے فارغ ہو کر نکلتے تو قرآن پڑھتے اور ہمارے ساتھ گوشت تناول فرماتے اور آپﷺ کے قرآن پڑھنے میں سوائے جنابت کے کوئی چیز رکاوٹ نہ بنتی تھی۔‘‘
    اس روایت کی بابت حافظ ابن حجر﷫ لکھتے ہیں:
    ’’اسے اصحاب السنن نے روایت کیا ہے اور ترمذی، ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے اور بعض نے اس کے بعض راویوں کی تضعیف کی ہے اور حق بات یہ ہے کہ یہ روایت حسن کے قبیل سے ہے جو حجت کے قابل ہوتی ہے۔‘‘
    حافظ ابن حجر﷫ کی اس رائے کی وجہ سے اکثر علماء اس روایت سے استدلال کرتے ہیں، لیکن شیخ البانی﷫ نے ابن حجر ﷫کی اس رائے کا رد کرتے ہوئے دیگر محدثین کی تائید سے اسکو ضعیف قرار دیا ہے۔

    3. تیسری حدیث جو مذکورہ حدیث کے متابع کے طور پر پیش کی جاتی ہے اور اسے علمائے معاصرین میں سے بعض نے صحیح اور بعض نے حسن کہا ہے،یہ مسند احمد (۱؍۱۱۰) کی روایت ہے۔ اس کے الفاظ حسب ذیل ہیں:
    ’’حضرت علی﷜ کے پاس وضو کا پانی لایا گیا، پس آپ نے کلی کی اور تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالا، تین مرتبہ اپنا چہرہ دھویا اور اپنے دونوں ہاتھ اور دونوں بازو تین تین مرتبہ دھوئے، پھر اپنے سرکا مسح کیا، پھر اپنے دونوں پیر دھوئے، پھر فرمایا: میں نے رسول اللّٰہﷺ کو اسی طرح دیکھا ہے کہ آپﷺ نے وضو کیا۔ پھر قرآن کریم سے کچھ پڑھا اور فرمایا: یہ (قرآن کا پڑھنا) اس شخص کے لیے ہے جو جنبی نہیں ہے۔ رہا جنبی تو وہ ایک آیت بھی نہیں پڑھ سکتا۔‘‘
    اس روایت کو بعض علماء نے صحیح قرار دیا ہے، جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا۔ لیکن شیخ البانی نے ضعیف راوی ابو الغریب[8] کی وجہ سے اس سے بھی اختلاف کیا ہے اور کہا ہے کہ
    ثانیاً:… اگر یہ روایت صحیح بھی ہو، تب بھی اس کا مرفوع ہونا صریح نہیں۔
    ثالثاً:… اس کا مرفوع ہونا بھی اگر صریح ہو تو یہ شاذ یا منکر ہے، اس لیے کہ عائذ بن حبیب اگرچہ ثقہ ہے لیکن ابن عدی نے اس کی بابت کہا ہے کہ اس نے کئی منکر روایات بیان کی ہیں۔

    بعض اہل علم حائضہ عورت کے لیے قرآن مجید کی تلاوت جائز قرار دیتے ہیں، امام مالک کا مسلک یہی ہے، اور امام احمد سے بھی ایک روایت ہے

    ———————-
    اس مسلئے پر صحیح حکم کیا ہے؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      کیا حائضہ نماز پڑھ سکتی ہے ؟ نہیں پڑھ سکتی کیونکہ یہ ناپاکی کی حالت ہے – اس حالت میں قرآن پڑھنا بھی اسی لئے منع ہے
      اس پر جو روایات ہیں وہ اگر حسن درجے کی بھی ہوں تو ان کو قبول کیا جائے گا

      جو حائضہ و جنبی کے لئے قرآن پڑھنا جائز کر رہے ہیں ان کے دلائل بھی بودے ہیں مثلا ان کی دلیل ہے
      مشہور حدیث ہے کہ سفر حج کے دوران ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کو حیض آگیا ۔ وہ رونے لگیں کہ اب حج نہیں کر پائیں گی ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے انہیں تسلی دی ۔ اس موقع پر آپؐ نے فرمایا :
      فَاقضِي مَا یَقضِي الحَاجُّ، غَیرَ أن لَا تَطُوفِي بِالبَیتِ
      (بخاری:294،مسلم:1211)
      (وہ سب کرو جو حاجی کرتا ہے ، بس طواف نہ کرو

      اس روایات کو دلیل بنایا جاتا ہے کہ قرآن کو پڑھا جا سکتا ہے جبکہ معلوم ہے کہ اس حالت میں بھی نماز نہیں پڑھی جا سکتی
      اس طرح یہ دلیل نہیں بنتی

      میری سمجھ میں نہیں اتا کہ اس قسم کے مسائل پر بحث کیوں ہوتی ہے – جس کو قرآن پڑھنا ہو وہ غسل کرے اور پڑھ لے اس میں چند منٹ لگیں گے اور طہارت کے بھی قریب ہے
      اپنی توجہ ضروری مسائل پر مذکور کریں

      Reply
  49. Waleed khan

    السلام عليكم

    اس حدیث میں کن فتنوں کے متعلق بات ہو رہی ہے جو سمندر کی موجوں کی طرح امنڈ آئے گے؟

    صحیح البخاری
    کتاب: روزے کا بیان
    باب: باب: روزہ گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے۔
    حدیث نمبر: 1895

    حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا جَامِعٌ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَنْ يَحْفَظُ حَدِيثًا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْفِتْنَةِ قَالَ حُذَيْفَةُ أَنَا سَمِعْتُهُ يَقُولُ فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ وَجَارِهِ تُکَفِّرُهَا الصَّلَاةُ وَالصِّيَامُ وَالصَّدَقَةُ قَالَ لَيْسَ أَسْأَلُ عَنْ ذِهِ إِنَّمَا أَسْأَلُ عَنْ الَّتِي تَمُوجُ کَمَا يَمُوجُ الْبَحْرُ قَالَ وَإِنَّ دُونَ ذَلِکَ بَابًا مُغْلَقًا قَالَ فَيُفْتَحُ أَوْ يُکْسَرُ قَالَ يُکْسَرُ قَالَ ذَاکَ أَجْدَرُ أَنْ لَا يُغْلَقَ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ فَقُلْنَا لِمَسْرُوقٍ سَلْهُ أَکَانَ عُمَرُ يَعْلَمُ مَنْ الْبَابُ فَسَأَلَهُ فَقَالَ نَعَمْ کَمَا يَعْلَمُ أَنَّ دُونَ غَدٍ اللَّيْلَةَ

    ترجمہ:
    ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے جامع بن راشد نے بیان کیا، ان سے ابو وائل نے اور ان سے حذیفہ (رض) نے کہ عمر (رض) نے پوچھا فتنہ کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی حدیث کسی کو یاد ہے ؟ حذیفہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے سنا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ انسان کے لیے اس کے بال بچے، اس کا مال اور اس کے پڑوسی فتنہ (آزمائش و امتحان) ہیں جس کا کفارہ نماز روزہ اور صدقہ بن جاتا ہے۔ عمر (رض) نے کہا کہ میں اس کے متعلق نہیں پوچھتا میری مراد تو اس فتنہ سے ہے جو سمندر کی موجوں کی طرح امنڈ آئے گا۔ اس پر حذیفہ (رض) نے کہا کہ آپ کے اور اس فتنہ کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔ (یعنی آپ کے دور میں وہ فتنہ شروع نہیں ہوگا) عمر (رض) نے پوچھا وہ دروازہ کھل جائے گا یا توڑ دیا جائے گا ؟ حذیفہ (رض) نے بتایا کہ توڑ دیا جائے گا۔ عمر (رض) نے فرمایا کہ پھر تو قیامت تک کبھی بند نہ ہو پائے گا۔ ہم نے مسروق سے کہا آپ حذیفہ (رض) سے پوچھئے کہ کیا عمر (رض) کو معلوم تھا کہ وہ دروازہ کون ہے، چناچہ مسروق نے پوچھا تو آپ (رض) نے فرمایا ہاں ! بالکل اس طرح (انہیں علم تھا) جیسے رات کے بعد دن کے آنے کا علم ہوتا ہے۔

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      بیشتر شارحین کا کہنا ہے کہ یہ قتل عثمان رضی اللہ عنہ سے متعلق ہے

      Reply
  50. aysha butt

    kia qabeel ne habil ka qatl aurt k lie kia tha

    eski kia haqiqt hai

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      is par koi sahih riwayat nahi.

      Reply
  51. Waleed khan

    السلام عليكم

    قرآن کو تحریف شدہ کہنا اور قرآن میں تحریف کرنا کیا دونوں کفر برابر ہیں؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      جی ہاں

      Reply
  52. Waleed khan

    السلام عليكم

    میرا سوال یہ تھا کہ شیعہ کہتے ہیں جو قران ہم پڑھتے ہیں یہ تحریف شدہ ہے اصلی قرآن انکا بارہواں امام لائے گا جب غار سے نکلے گا۔۔۔۔۔۔

    دوسری بات یہ ہے کہ احمد رضا خان نے تحریف کی ہے کہ قل انما انا بشر مثلکم یوحی الیّ میں

    کہ ایک لفظ انما کو دو لفظ بنا کر ان ما کرکے ترجمہ کیا

    اے نبی کہہ دو میں تحقیق نہیں ہوں میں تم جیسا بشر۔۔۔۔

    کیا دونوں کا کفر اسلام سے خارج کرتا ہے؟؟؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      شیعہ کہتے ہیں جو قران ہم پڑھتے ہیں یہ تحریف شدہ ہے اصلی قرآن انکا بارہواں امام لائے گا جب غار سے نکلے گا۔

      جواب
      جواب جہاں تک مجھے معلوم ہے یہ شیعوں کا کوئی غالی فرقہ ہے تمام کا قول نہیں ہے
      جو تحریف کے قائل ہیں وہ اسلام سے خارج ہیں

      دوسری بات یہ ہے کہ احمد رضا خان نے تحریف کی ہے کہ قل انما انا بشر مثلکم یوحی الیّ میں

      کہ ایک لفظ انما کو دو لفظ بنا کر ان ما کرکے ترجمہ کیا

      اے نبی کہہ دو میں تحقیق نہیں ہوں میں تم جیسا بشر۔۔۔۔
      جواب
      قرآن کے متن کو بدلنا کہ ترجمہ بدل کر کچھ اور اپنی مرضی کا لکھنا بھی کفر ہے

      Reply
  53. Shabana

    السلام علیکم
    فأخرج ابن جریر وابن أبی حاتم وابن مردویہ عن ابن عباس فی ہذہ الآیة قال : أمر اللّٰہ نساء الموٴمنین اذا خرجن من بیوتہن فی حاجة أن یغطین وجوہہن من فوق روٴوسہن بالجلابیب ویبدین عینًا واحدة۔

    حضرت عبداللہ بن عباساس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مومنین کی عورتوں کو یہ حکم فرمایا ہے کہ جب وہ کسی ضرورت سے اپنے گھروں سے باہر نکلیں تو چادروں کے ذریعے اپنے چہروں کو اپنے سروں کے اوپر سے ڈھانپ لیں اور صرف ایک آنکھ کھولیں

    –آپ نے جلباب کے حوالے سے جو کتاب لکھی ہے اس کا صفہ نمبر 71-72-73 میں نے دیکھا ہے۔ اس میں بتائے گئے راوی اور اس میں بتائی گئی سند مختلف ہے۔ کیا یہ سند صحیح ہے؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      وعلیکم السلام
      ہر مقام پر اس کی سند میں علی بن ابی طلحہ ہے اور اس کا سماع ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے

      Reply
      1. Shabana

        فتح القدیر میں یہ سند بھی آئی ہے

        فأخرج ابن جریر وابن أبی حاتم وابن مردویہ عن ابن عباس

        اس سند میں علی بن ابی طلحہ نہٰں ہے بلکہ ابن مردویہ ہے۔

        Reply
        1. Islamic-Belief Post author

          یہ سند نہیں ہے

          اس عبارت میں لکھا ہے کہ (ابن جریر اور ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابن عباس سے روایت کیا ہے)

          لیکن جب ان کتب میں سند دیکھیں تو ان میں سماع منقطع ہے

          Reply
  54. Asif

    ترمزی 1519
    —–
    بن الحسين لم يدرك علي بن ابي طالب.
    علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن کی طرف سے ایک بکری عقیقہ کیا، اور فرمایا: ”فاطمہ! اس کا سر مونڈ دو اور اس کے بال کے برابر چاندی صدقہ کرو“، فاطمہ رضی الله عنہا نے اس کے بال کو تولا تو اس کا وزن ایک درہم کے برابر یا اس سے کچھ کم ہوا

    —— اس کی سند متصل نہیں ہے، اور راوی ابوجعفر الصادق محمد بن علی بن حسین نے علی بن ابی طالب کو نہیں پایا ہے۔ —–
    لیکن مستدرک الحاکم 4828 میں بھی یہی روایت ہے کسی دوسری سند کے ساتھ۔ کیا وہ صحیح ہے یا حسن لغیرہ ہے؟
    قابل قبول ہے؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      مستدرک حاکم
      ٤٨٢٨
      کی سند ہے
      حَدَّثَنَا أَبُو عَلِيٍّ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحَافِظُ، أَنَا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ صَاعِدٍ، ثنا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، ثنا حُسَيْنُ بْنُ زَيْدٍ الْعَلَوِيُّ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَقَالَ: «زِنِي شَعْرَ الْحُسَيْنِ وَتَصَدَّقِي بِوَزْنِهِ فِضَّةً، وَأَعْطِي الْقَابِلَةَ رِجْلَ الْعَقِيقَةِ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ ”
      [التعليق – من تلخيص الذهبي]
      4828 – ليس بصحيح
      امام الذھبی نے اس کو غیر صحیح لکھا ہے

      Reply
  55. Waleed

    السلام عليكم
    اپ کی کتاب الصوم میں لکھا ہے کہ عرفہ عاشورہ اور شوال کے
    روزے ثابت نہیں ہیں لیکن بعض کے نزدیک تعامل امت کی وجہ سے عرفہ اور عاشورہ اور شوال کے روزے رکھنا سنت ہے اپ کیا کہے گے اس بارے میں؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      تعامل اس وقت ہوتا ہے جب تمام امت میں اس کو مان لیا جائے مثلا اہل سنت رکوع سے کھڑے ہو کر ہاتھ کھول دیتے ہیں

      یہاں ایسا نہیں ہے – امام مالک نے موطا میں اس کا ذکر کیا ہے کہ شوال کے روزے ثابت نہیں
      اور بات مالکیہ میں بیان کی جاتی ہے

      Reply
  56. محمد نعیم

    اسلام علیکم
    ابن ماجه ابوداود کے حدیث هے
    پیشاب موقع پر بات کرنا الله متعال کی غضب باعث هے کی
    اے حدیث صحیح ہےا

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      عن أبي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يخرج اثنان إلى الغائط فيجلسان يتحدثان كاشفين عورتهما فإن الله عز وجل يمقت على ذلك (مجمع الزوائد، الرقم: ۱٠۲۱)[19]

      حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دو آدمی قضائے حاجت کے لیے (ایسی جگہ) نہ جائے کہ دونوں قضائے حاجت کے دوران ستر کھولے ہوئے آپس میں بات چیت کرے، بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ عمل ناپسندیدہ ہے۔
      سند ضعیف ہے
      راوی هلال بن عياض مجھول ہے

      Reply
  57. aysha butt

    qayamt us waqt tk na qayam hoga jab tk faraat se sonay ka pahaar na nikle.. jung hogi or 99 qatl hogy 100 mn se…. kesi hadith hai es hadith ka kia mutlb hai

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      عن أبي هريرة رضي الله عنه مرفوعاً: «لا تقوم الساعة حتى يحسر الفرات عن جبل من ذهب يُقْتَتَلُ عليه، فَيُقْتَلُ من كل مائة تسعة وتسعون، فيقول كل رجل منهم: لعلي أن أكون أنا أنجو». وفي رواية: «يوشك أن يحسر الفرات عن كنز من ذهب، فمن حضره فلا يأخذ منه شيئا».

      ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ دریائے فرات سے سونے کا پہاڑ نہ نکل آئے جس پر لڑ ائی ہوگی اور ہر سو ميں سے ننانوے آدمی مارے جائيں گے۔ ان میں سے ہر ایک یہ
      سوچے گا کہ شاید میں بچ جاؤں“۔ ایک اور روایت میں ہے کہ: ”قريب ہے کہ دریائے فرات (خشک ہوکر) سونے کے خزانے کو ظاہر کردے۔ لہٰذا جو شخص اس وقت موجود ہو، اس میں سے کچھ بھی نہ لے

      میرے نزدیک اس حدیث کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح نہیں – کتب احادیث میں اسناد دیکھنے سے پتا چلتا ہے کہ اس روایت پر راوی کو شک رہا ہے

      حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ يُوسُفَ، ثنا عِمْرَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، ثنا الْحُسَيْنُ بْنُ حَفْصٍ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، لَا أَعْلَمُهُ إِلَّا قَدْ رَفَعَهُ قَالَ: ” يَحْسِرُ الْفُرَاتُ عَنْ جَبَلٍ مِنْ ذَهَبٍ , قَالَ: فَيَتَقَاتَلُونَ عِنْدَهُ , فَيُقْتَلُ مِنْ كُلِّ مِائَةٍ تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ كُفَّارًا

      الفاظ لَا أَعْلَمُهُ إِلَّا قَدْ رَفَعَهُ سے ظاہر ہو رہا ہے کہ اس روایت پر راوی کو شک ہے کہ یہ مرفوع ہے یا نہیں کیا ابو ہریرہ نے اس کو رفع کر کے حدیث بنا دیا ہے

      میرے نزدیک یہ مرفوع نہیں بلکہ کسی اور کا قول ہے لیکن ابو ہریرہ نے اس کو حدیث کی طرح بیان کیا اور شک پیدا ہوا

      Reply
  58. Nasir

    السلام علیکم
    نماز کے دوران خاص طور پر تراویح یا قیام الیل میں امام ہاتھ میں قرآن اٹھا کر جماعت کے ساتھ نماز پڑھا سکتا ہے یا نہیں؟
    دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ اگر امام تلاوت کر رہا ہو تو بیچھے کوئی مقتدی قرآن ہاتھ میں رکھ سکتا ہے یا نہیں تاکہ جب امام تلاوت کرے تو وہ قرآن سے دیکھ سکے یا اگر امام بھول جائے تو امام کہ لقمہ دے سکے۔

    ———-
    اس حوالے سے ایک دلیل تو ہے کہ زکون جو عائیشہ (رضی) کا غلام تھا
    وہ قرآن دیکھ کے پڑھتا امامت کرتا تھا۔
    اس کو امام بخاری لے کر آئے ہیں۔
    اس کے علاوہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ایک ساتھ بہت سی روایات آئی ہیں۔
    حدیث نمبر 7292 سے 7300 تک، یعنی 9 روایات بھی اسی حوالے سے آئی ہیں۔
    ——-
    اگر تو کوئی ایک بھی روایت صحیح ہے، چاہے امام بخاری کی ہو اور امت کے لئےآسانی ہو تو ہمیں لوگوں کے لئے آسانی ہی رکھنی چاہیئے۔
    باقی آپ اپنا موقف بتا دیں روایات آپ کے سامنے ہیں۔

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      تراویح یا قیام الیل میں امام ہاتھ میں قرآن اٹھا کر جماعت کے ساتھ نماز پڑھا سکتا ہے یا نہیں؟

      یہ بدعت ہے – سنت میں اس کی دلیل نہیں ہے

      قرآن ہاتھ میں اٹھا کر پڑھنا کی کوئی صحیح روایت نہیں – صحیح بخاری میں جو روایت ہے وہ معلق روایت ہے
      البتہ اس میں اختلاف چلا آ رہا ہے
      دور نبوی میں البتہ کوئی دلیل نہیں ہے کسی نے ایسا کیا ہو
      یا اس کام کو مجمع میں کیا گیا ہو اور سب نے دیکھا ہو

      Reply
      1. Nasir

        سیدہ عائشہؓ کے بارے میں روایت ہے:
        کانت عائشۃ یؤمّھا عندھا ذکوان من المصحف۔
        ‘‘ سیدہ عائشہؓ کے غلام ذکوانؓ ان کی امامت قرآن مجید سے دیکھ کر کرتے تھے۔’’

        (صحیح البخاری، کتاب الاذان/ بَابُ إِمَامَةِ الْعَبْدِ وَالْمَوْلَى، قبل الحدیث -692)
        باب: غلام کی اور آزاد کئے ہوئے غلام کی امامت کا بیان)
        ( مصنف ابن ابی شیبۃ:337،338ص/2ج )
        (کتاب المصاحف لابن داوٗد: 797)
        (السنن الکبرٰی للبیھقی: 253/2، وسندہٗ صحیحٌ)

        حافظ نوویؒ (خلاصۃ الاحکام: ۵۵۰/۱) نے اس کی سند کو ‘‘ صحیح’’ اور حافظ ابن حجرؒ (تغلیق التعلیق: 291/2) نے اس روایت کو ‘‘صحیح’’ قرار دیا ہے۔

        مام ایوب سختیانیؓ فرماتے ہیں:
        کان محمّد لا یری بأسا أن یؤمّ الرجل القوم، یقرأفی فی المصٖف۔
        ‘‘ امام محمد بن سرین تابعیؒ اس میں کوئی حرج خیال نہیں کرتے تھے کہ آدمی قوم کو امامت کروائے اور قرأت قرآن مجید سے دیکھ کر کرے۔’’
        (مصنف ابن ابی شیبۃ: 338/2، وسندہٗ صحیحٌ)

        امام شعبہؒ، امام حکم بن عتیبہ تابعیؒ سے اس امام کے بارے میں روایت کرتے ہیں، جو رمضان المبارک میں قرآن مجید سے دیکھ کر قرآت کرتا ہے۔ آپؒ اس میں رخصت دیتے تھے۔’’
        (مصنف ابن ابی شیبۃ: 338/2، وسندۃٗ صحیحٌ)

        مام حسن بصری تابعیؒ اور امام محمد بن سیرین تابعیؒ فرماتے ہیں کہ نماز میں قرآن مجید پکڑ کر قرائت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔’’
        (مصنف ابن ابی شیبۃ: 338/2، وسندہٗ صحیحٌ)

        امام عطاء بن ابی رباح تابعیؒ کہتے ہیں کہ حالت نماز میں قرآن مجید سے دیکھ کر قرائت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
        (مصنف ابن ابی شیبۃ:337/2، وسندہٗ صحیحٌ)

        وقال ابن وهب:
        قال ابن شهاب : كان خيارنا يقرءون في المصاحف في رمضان
        ابن وہب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
        “ابن شہاب رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ: ہمارے بہترین ساتھی رمضان میں قرآن مجید سے دیکھ کر پڑھا کرتے تھے
        (المدونۃ،ص1ج/224)

        امام یحیٰی بن سعید الانصاریؒ فرماتے ہیں:لا أری بالقراءۃ من المصحف فی رمضان بأسا۔
        میں رمضان المبارک میں قرآن مجید سے دیکھ کر قرائت کرنے میں کوئی حرج خیال نہیں کرتا۔’’
        (کتاب المصاحف لابن ابی داوٗد: 805، وسندہٗ صحیحٌ)

        محمد بن عبداللہ بن مسلم بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام زہریؒ سے قرآن مجید سے قرأت کر کے امامت کرانے کے بارے میں پوچھا تو آپؒ نے فرمایا:
        لم یزل الناس منذ کان الإسلام، یفعلون ذلک۔
        ‘‘ اسلام کے شروع سے لے کر ہر دور میں مسلمان ایسا کرتے آئے ہیں۔’’
        ( کتاب المصاحف لابن ابی داوٗد: 806، وسندہٗ حسنٌ)

        امام مالکؒ سے ایسے انسان کے بارے میں سوال ہوا، جو رمضان المبارک میں قرآن مجید ہاتھ میں پکڑ کر امامت کراتا ہے۔ آپؒ نے فرمایا:
        لابأس بذلک، وإذا ضطرّوا إلی ذلک۔
        ‘‘ مجبوری ہو تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔’’
        (کتاب المصاحف لابن ابی داوٗد: 808، وسندہٗ صحیحٌ)

        امام ایوب سختیانیؒ فرماتے ہیں:
        کان ابن سیرین یصلّی، والمصحف إلی جنبہ، فإذا تردّد نظر فیہ۔
        ‘‘ امام محمد سیرینؒ نماز پڑھتے تو قرآن مجید ان کے پہلو میں پڑا ہوتا۔ جب بھولتے تو اس سے دیکھ لیتے۔’’
        (مصنف عبد الرزاق: ۴۲۰/۲، ح: 3931، وسندہٗ صحیحٌ)

        كان محمد ينشر المصحف فيضعه إلى جانبه فإذا شك نظر فيه وهو في صلاة التطوع
        محمد بن سیرین رحمہ اللہ مصحف کو کھول کر اپنے پہلو میں رکھ لیتے تو جب انکو شک ہوتا تو اس میں سے دیکھ لیتے اور یہ نفلی نماز کی بات ہے۔
        (المصاحف ح 811 , دوسرا نسخہ 691 ) واسناد صحیح

        وقال النووي: “لو قرأ القرآن من المصحف لم تبطل صلاته سواء كان يحفظه أم لا ، بل يجب عليه ذلك إذا لم يحفظ الفاتحة, ولو قلَّب أوراقه أحيانا في صلاته لم تبطل …… هذا مذهبنا ومذهب مالك وأبي يوسف ومحمد وأحمد ” انتهى من
        امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
        “اگر کوئی قرآن مجید سے دیکھ کر قراءت کرے تو اسکی نماز باطل نہیں ہوگی، چاہے اسے قرآن مجید یاد ہو یا نہ یاد ہو، بلکہ ایسے شخص کیلئے دیکھ کر تلاوت کرنا واجب ہوگا جسے سورہ فاتحہ یاد نہیں ہے، اس کیلئے اگر اسے بسا اوقات صفحات تبدیل کرنے پڑیں تو اس سے بھی نماز باطل نہیں ہوگی۔۔۔ یہ ہمارا [شافعی] مالک، ابو یوسف، محمد، اور امام احمد کا موقف ہے” انتہی مختصراً
        “المجموع” (4/27)

        امام ثابت البنانی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : کان أنس یصلی وغلامہ یمسک المصحف خلفہ فإذا تعایا فی آیۃ فتح علیہ(مصنف ابن ابی شیبہ 2/338 , السنن الکبرى للبیھقی 3/212 )
        سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نماز پڑھتے تھے ۔ انکا غلام انکے پیچھے قرآن مجید پکڑ کر کھڑا ہو جاتا تھا۔ جب آپ کسی آیت پر رک جاتے تو تو ہ لقمہ دے دیتا تھا۔

        —— یہ بہت سارے دلائل ہیں۔ کیا یہ ساری روایات ضعیف ہیں؟ تابعی کے فتاوی موجود ہیں اور انہوں نے جو کچھ سیکھا ہے وہ صحابی سے سیکھا ہے۔ یا پھر ہم یہ کہیں کہ سارے تابعی اور امام جن کہ ذکر ہے وہ سب کے سب بدعتی تھے؟ ہمارے پاس کوئی کتاب نہیں جس میں نبیﷺ کے حوالے سےاس معاملے میں کوئی دلیل ہولیکن تابعی کو تو کتاب کی ضرورت نہیں تھی صحابی وہاں موجود تھے۔ لہزا اس معاملے میں کسی نہ کسی حد تک رخصت موجود ہے۔ باقی سچ بات اللہ ہی جاننے والا ہے۔

        Reply
        1. Islamic-Belief Post author

          و علیکم السلام
          سیدہ عائشہؓ کے بارے میں روایت ہے

          کانت عائشۃ یؤمّھا عندھا ذکوان من المصحف۔
          سیدہ عائشہؓ کے غلام ذکوانؓ ان کی امامت قرآن مجید سے دیکھ کر کرتے تھے۔

          (صحیح البخاری، کتاب الاذان/ بَابُ إِمَامَةِ الْعَبْدِ وَالْمَوْلَى، قبل الحدیث 692)

          صحیح بخاری میں یہ قول معلق ہے اور معلق روایات ضروری نہیں کہ صحیح بھی ہو

          باب غلام کی اور آزاد کئے ہوئے غلام کی امامت کا بیان)
          ( مصنف ابن ابی شیبۃ 337،338ص/2ج )
          (کتاب المصاحف لابن داوٗد 797)
          (السنن الکبرٰی للبیھقی 253/2ٌ)

          اس کی سند ہے

          حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ أَيُّوبَ، قَالَ: سَمِعْتُ الْقَاسِمَ، يَقُولُ: «كَانَ يَؤُمُّ عَائِشَةَ عَبْدٌ يَقْرَأُ فِي الْمُصْحَفِ»

          ایوب سختیانی نے کہا قاسم کو سنا کہ عائشہ کا غلام ان کے لئے مصحف سے قرآن پڑھ کر امامت کرتا تھا

          اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا حجرہ عائشہ میں جہاں قبر نبوی کی بھی تھی وہاں کیا ایک امام بن کر امامت کرتا تھا ؟ ایسا ممکن نظر نہیں اتا کیونکہ مسجد النبی تو برابر میں ہی تھی

          ابن حجر نے اس پر کہا ہے
          ومنع منه آخرون لكونه عملا كثيرا في الصلاة صلى الله عليه وسلم
          اس طرح مصحف اٹھا کر دوران نماز پڑھنے سے منع کیا ہے کیونکہ نماز جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہے اس میں یہ کثیر عمل ہے

          دور اصحاب رسول میں مصحف کوئی آج کے دور کی طرح کا کوئی چھوٹے سائز کا نہ ہوتا تھا بلکہ اس قدر کاغذ ہوتا تھا کہ اس مصحف کو ہاتھ میں اٹھایا نہیں جا سکتا تھا ممکن ہے کہ چند اوراق اٹھا لئے گئے ہوں اگر اس کو صحیح بھی مان لیا جائے – لیکن اس سے توجہ نماز سے ہٹ جاتی ہے – دوران نماز اگر نظر کسی نقش پر بھی پڑ جائے تو سنت میں اس نقش تک کو ہٹا دینے کا ملتا ہے
          اگر نماز میں کوئی بھول جائے تو اس کو کئی آیتوں کو دیکھنا ہو گا ایک سورت سے دوسری سورت میں جاتا ہو گا مصحف اٹھا کر پھر رکھنا بھی ہو گا
          اس سے نماز میں مسلسل عمل کثیر ہو گا – دور اصحاب رسول میں علم ہے کہ نماز کے خشوع پر کوئی کمپرومائز نہیں تھا

          دوم جن لوگوں نے رخصت دی ہے وہ بھی اس کی اضطر کی کیٹگری میں دے رہے ہیں یعنی مجبوری میں

          ایوب سختیانیؓ فرماتے ہیں
          کان محمّد لا یری بأسا أن یؤمّ الرجل القوم، یقرأفی فی المصحٖف۔
          امام محمد بن سرین تابعیؒ اس میں کوئی حرج خیال نہیں کرتے تھے کہ آدمی قوم کو امامت کروائے اور قرأت قرآن مجید سے دیکھ کر کرے۔
          (مصنف ابن ابی شیبۃ 338/2 )
          سند میں ایوب مدلس ہے اور مقلوم نہیں کہ یہ ان کو کہاں سے معلوم ہوا ہے

          حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنِ الْحَكَمِ، «فِي الرَّجُلِ يَؤُمُّ فِي رَمَضَانَ يَقْرَأُ فِي الْمُصْحَفِ، رَخَّصَ فِيهِ»
          امام شعبہؒ، امام حکم بن عتیبہ تابعیؒ سے اس امام کے بارے میں روایت کرتے ہیں، جو رمضان المبارک میں قرآن مجید سے دیکھ کر قرآت کرتا ہے۔ آپؒ اس میں رخصت دیتے تھے۔
          (مصنف ابن ابی شیبۃ 338/2، )

          اس میں امام شعبہؒ نے روایت کیا ہے نہ کہ اس کو ان کا قول بنا کر پیش کیا جائے
          حکم نے اس عمل کی رخصت دی ہے

          حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنِ الْحَسَنِ، وَمُحَمَّدٍ، قَالَا: «لَا بَأْسَ بِهِ»
          امام عطاء بن ابی رباح تابعیؒ کہتے ہیں کہ حالت نماز میں قرآن مجید سے دیکھ کر قرائت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
          (مصنف ابن ابی شیبۃ 337/2ٌ)

          سند مين مَنْصُورِ بْنِ الْأَشَلِّ مجهول ہے

          حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ رَبَاحِ بْنِ أَبِي مَعْرُوفٍ، عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: «لَا بَأْسَ بِهِ»
          اس میں رَبَاحِ بْنِ أَبِي مَعْرُوفٍ کی ابن معین نے تضعیف کی ہے

          مصنف میں یہ بھی ہے
          حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّهُ كَرِهَهُ، وَقَالَ: «هَكَذَا تَفْعَلُ النَّصَارَى
          حسن بصری اس سے کراہت کرتے کہ یہ نصاری کا عمل ہے

          امام یحیٰی بن سعید الانصاریؒ فرماتے ہیں لا أری بالقراءۃ من المصحف فی رمضان بأسا۔
          میں رمضان المبارک میں قرآن مجید سے دیکھ کر قرائت کرنے میں کوئی حرج خیال نہیں کرتا۔
          (کتاب المصاحف لابن ابی داوٗد 805،

          یحیٰی بن سعید الانصاری نہ تابعی ہے نہ صحابی ہے

          حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ حَدَّثَنَا أَبُو الطَّاهِرِ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَمِّهِ: عَنْ رَجُلٍ يُصَلِّي لِنَفْسِهِ أَوْ يَؤُمُّ قَوْمًا، هَلْ يَقْرَأُ فِي الْمُصْحَفِ؟ فَقَالَ: «نَعَمْ، لَمْ يَزَلِ النَّاسُ يَفْعَلُونَ ذَلِكَ مُنْذُ كَانَ الْإِسْلَامُ»
          محمد بن عبداللہ بن مسلم بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام زہریؒ سے قرآن مجید سے قرأت کر کے امامت کرانے کے بارے میں پوچھا تو آپؒ نے فرمایا
          لم یزل الناس منذ کان الإسلام، یفعلون ذلک۔
          اسلام کے شروع سے لے کر ہر دور میں مسلمان ایسا کرتے آئے ہیں۔
          ( کتاب المصاحف لابن ابی داوٗد 806،

          جبکہ یہ قول مشکوک ہے کیونکہ اس جواب کے نیچے حوالہ جات موجود ہیں اس کو نصاری کا عمل کہا جاتا تھا

          حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ: سَمِعْتُ مَالِكًا، وَسُئِلَ عَمَّنْ يَؤُمُّ النَّاسَ فِي رَمَضَانَ فِي الْمُصْحَفِ؟ فَقَالَ: ” لَا بَأْسَ بِذَلِكَ إِذَا اضْطُرُّوا إِلَى ذَلِكَ قَالَ: وَكَانَ الْعُلَمَاءُ يَقُومُونَ لِبَعْضِ النَّاسِ فِي رَمَضَانَ فِي الْبُيُوتِ ”
          امام مالکؒ سے ایسے انسان کے بارے میں سوال ہوا، جو رمضان المبارک میں قرآن مجید ہاتھ میں پکڑ کر امامت کراتا ہے۔ آپؒ نے فرمایا
          لابأس بذلک، وإذا ضطرّوا إلی ذلک۔
          مجبوری ہو تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
          (کتاب المصاحف لابن ابی داوٗد 808 )

          امام ایوب سختیانیؒ فرماتے ہیں
          کان ابن سیرین یصلّی، والمصحف إلی جنبہ، فإذا تردّد نظر فیہ۔
          امام محمد سیرینؒ نماز پڑھتے تو قرآن مجید ان کے پہلو میں پڑا ہوتا۔ جب بھولتے تو اس سے دیکھ لیتے۔
          (مصنف عبد الرزاق ۴۲۰/۲، ح 3931)

          اس اثر میں کہاں ہے کہ ہاتھ میں قرآن اٹھا کر دوران نماز پڑھتے تھے ؟

          كان محمد ينشر المصحف فيضعه إلى جانبه فإذا شك نظر فيه وهو في صلاة التطوع
          محمد بن سیرین رحمہ اللہ مصحف کو کھول کر اپنے پہلو میں رکھ لیتے تو جب انکو شک ہوتا تو اس میں سے دیکھ لیتے اور یہ نفلی نماز کی بات ہے۔
          (المصاحف ح 811 , دوسرا نسخہ 691 ) واسناد صحیح

          اس اثر میں کہاں ہے کہ ہاتھ میں قرآن اٹھا کر دوران نماز پڑھتے تھے ؟

          دو نمازوں کے دوران دیکھا جا سکتا ہے

          حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ طَهْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، قَالَ: «كَانَ أَنَسٌ يُصَلِّي وَغُلَامُهُ يُمْسِكُ الْمُصْحَفَ خَلْفَهُ، فَإِذَا تَعَايَا فِي آيَةٍ، فَتَحَ عَلَيْهِ»

          امام ثابت البنانی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کان أنس یصلی وغلامہ یمسک المصحف خلفہ فإذا تعایا فی آیۃ فتح علیہ(مصنف ابن ابی شیبہ 2/338 , السنن الکبرى للبیھقی 3/212 )
          سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نماز پڑھتے تھے ۔ انکا غلام انکے پیچھے قرآن مجید پکڑ کر کھڑا ہو جاتا تھا۔ جب آپ کسی آیت پر رک جاتے تو تو ہ لقمہ دے دیتا تھا۔

          عيسى بن طهمان پر ابن حبان کا قول ہے لا يجوز الاحتجاج به اس سے ل=دلیل نہیں لی جا سکتی

          مصنف ابن ابی شیبہ میں یہ بھی ہے
          حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، «أَنَّهُ كَرِهَ أَنْ يَؤُمَّ فِي الْمُصْحَفِ»
          ابو عبد الرحمان اس سے کراہت کرتے کہ ہاتھ میں قرآن لے کر نماز میں پڑھا جائے

          حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ «أَنَّهُ كَرِهَ أَنْ يَؤُمَّ الرَّجُلُ فِي الْمُصْحَفِ، كَرَاهَةَ أَنْ يَتَشَبَّهُوا بِأَهْلِ الْكِتَابِ»
          ابراھیم نخعی اس عمل سے کراہت کرتے اور کہتے یہ اہل کتاب سے مشابہت ہے

          حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ «أَنَّهُ كَانَ يَكْرَهُ أَنْ يَؤُمَّ الرَّجُلُ فِي الْمُصْحَفِ»
          مجاہد کہتے کہ وہ اس عمل سے کراہت کرتے ہیں

          حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: نا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قَالَ: «إِذَا كَانَ مَعَهُ مَنْ يَقْرَأُ ارْدُدُوهُ، وَلَمْ يَؤُمَّ فِي الْمُصْحَفِ
          سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ مصحف پکڑ کر امامت نہ کرتے

          لب لباب یہ ہے کہ اس عمل پر تابعین کے درمیان بھی اختلاف تھا اور شدید تھا بعض اس کو عیسایوں کا عمل کہہ رہے تھے
          یعنی سراسر بدعت قرار دیتے تھے
          اب جب اس قدر شدید مخالفت تھی تو غور کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ رخصت کے جواز کو اصلا بصریوں نے بیان کیا ہے اور وہ اسناد جو عائشہ یا امام زہری یا امام مالک تک ہیں ان میں بھی بصری ہی ہیں

          و اللہ اعلم

          Reply
  59. Azam

    السلام علیکم
    کیا وتر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھی جاسکتی ہے؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      قیام اللیل میں نماز وتر کو جماعت سے پڑھا جا سکتا ہے

      Reply
  60. ولید

    السلام عليكم
    سورت کہف کے تین یا آخری دس آیات یا شروع کی دس آیات فتنہ دجال سے بچنے کیلئے پڑھ سکتے ہیں ؟؟ البتہ روایات میں اضطراب پایا جاتا ہے جیسا کہ اپ نے دجال والی بک میں بتایا ہے؟ شیخ اپ پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں اپ پلیز یہ بھی اپنی تحقیق کے ساتھ اپ اپنا point of veiw یا conclusion بتایا ضرور کرے تاکہ قاری کسی نتیجہ تک پہنچ سکے خالی اضطراب لکھنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا بعض ضعیف روایات پر بھی عمل ہوتا ہے ۔

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      و علیکم السلام
      جب کسی عمل کے حوالے سے روایات میں اضطراب ظاہر ہو جائے تو پھر اس روایت پر عمل نہیں کیا جاتا ان تمام روایات کو رد کیا جاتا ہے

      اس طرح میرے نزدیک پورا قرآن ہی دجال کے خلاف ہو گا صرف ایک سورت نہیں

      صحیح حدیث میں ہے
      دجال کعبہ کا طواف کرے گا

      اس پر ظاہر ہے جو بیت اللہ تک ا جائے وہ وہاں نماز بھی پڑھ سکتا ہے اس میں سورہ کہف کی قرات بھی ہو سکتی ہے

      دجال امت کے لئے ایک آزمائش ہو گا یعنی بعض اس کو مسلم سمجھیں گے یہاں تک کہ کعبہ تک لے آئیں گے اور بعض اس کو سراسر کافر کہیں گے اور اس سے دور رہیں گے
      حدیث میں ہے کہ جو اس کی خبر سنے وہ دور رہے
      اس طرح یہ ایک بہت بڑی آزمائش ہو گی جس کی منتہی پر دجال دعوی کرے گا کہ وہ الوہی ہے
      اس پر اس کی بیہودہ شکل جس پر ایک آنکھ ابلی پڑی ہو گی وہ اہل حق کی دلیل ہو گی کہ ہمارا رب کانا نہیں
      یعنی اللہ تعالی میں کوئی عیب نہیں

      ہمارے لئے دلیل سورو الاعراف کی آیات ہوں گی کہ موسی نے اپنے رب سے التجا کی کہ وہ زمین پر اتر آئے لیکن زمین اس رب کی تجلی کو برداشت نہ کر سکی اس کا پہاز ہی ہوا میں اڑ گیا
      اس طرح ہمارا رب کبھی بھی کسی سیارے پر نہیں آ سکتا ورنہ یہ سب بھسم ہو جائے گا
      وہ عرش پر ہے اور عرش وہ واحد شی ہے جب پر رب تعالی مستوی ہے

      اس سب کو سمجھنے کے بعد دجال کے دعوی کی انشا اللہ مومنوں نے نزدیک کوئی حثیت نہ ہو گی
      اللہ ہم کو تمام فتنوں سے بچائے امین

      Reply
  61. aysha butt

    kia ammar ra a ka sar. maviya r.a k samne esh kia gya es pr koi. hadith hai kia. agr hai to uska status kia hai

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      اس قسم کی کوئی صحیح حدیث نہیں

      Reply
  62. Waleed khan

    السلام علیکم کیا یہ بات درست ہے👇
    کہ رمضان کا روزہ جان بوجھ کر چھوڑ دیا یعنی نہیں رکھا تو یہ بہت بڑا گناہ ہے لیکن اس پر کفارہ واجب نہ ہوگا، بلکہ چھوڑنے پر صرف قضا لازم ہوتی ہے ہاں اگر رمضان کا روزہ رکھ کر قصداً توڑدے تو اس صورت میں کفارہ اور قضا دونوں واجب ہوتے ہیں یعنی مسلسل ۶۰/ روزے رکھنے پڑیں گے، اور ایک روزہ قضا کا رکھنا ہوگا۔

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      جان بوجھ کر چھوڑنا بہت بڑا گناہ ہے توبہ کرنی چاہیے ۔ اور قضاء کرنی چاہیے

      Reply
  63. Shahzadkhan

    [4/10, 5:18 PM] عاطف شبیر: مرقاۃ المفاتیح: (1222/3، ط: دار الفکر)
    عن ابن مسعود قال: والله فكأني أرى رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة تبوك وهو في قبر عبد الله ذي البجادين، وأبو بكر وعمر، يقول: أدنيا مني أخاكما، وأخذه من قبل القبلة، حتى أسنده في لحده، ثم خرج رسول صلى الله عليه وسلم وولاهما العمل، فلما فرغ من دفنه استقبل القبلة رافعا يديه يقول: «اللهم إني أمسيت عنه راضيا فارض عنه»
    [4/10, 5:19 PM] عاطف شبیر: ابن مسعود سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: خدا کی قسم، گویا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگ تبوک میں دیکھا جب آپ عبداللہ ذوالبجادین کی قبر میں تھے۔ ابوبکر اور عمر نے کہا: اپنے بھائی کو میرے قریب لاؤ، اور اسے قبلہ کی طرف لے جاؤ، یہاں تک کہ اس نے اس کی قبر میں اسے سہارا دیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو کام پر مامور کیا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو دفن کر چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کی طرف منہ کر کے دونوں ہاتھ اٹھائے اور فرمایا: اے اللہ میں اس سے راضی ہو گیا ہوں، لہٰذا اس سے راضی ہو جا

    بھائی روایت کی تحقیق درکار ہے اک فرقہ پرست کی جانب سے اس روایت کو تدفین کے موقع پر میت کے لیے دعا کرنے کے جواز کے طور پر پیش کیا گیا ہے
    نیز تدفین کے وقت میت کے لیے دعا کے کیا احکامات ہیں؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      سلام علیکم

      یہ روایت کتاب حلية الأولياء از ابو نعیم میں ہے

      حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ جَعْفَرَ، َثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَفْصٍ، ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ثَنَا سَعْدُ بْنُ الصَّلْتِ، ثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: ” وَاللهِ لَكَأَنِّي أَرَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، وَهُوَ فِي قَبْرِ عَبْدِ اللهِ ذِي الْبِجَادَيْنِ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُمْ، يَقُولُ: «أَدْلِيَا مِنِّي أَخَاكُمَا»، وَأَخَذَهُ مِنْ قِبَلِ الْقِبْلَةِ حَتَّى أَسْنَدَهُ فِي لَحْدِهِ، ثُمَّ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَلَّاهُمَا الْعَمَلَ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ دَفْنِهِ اسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ رَافِعًا يَدَيْهِ يَقُولُ: «اللهُمَّ إِنِّي أَمْسَيْتُ عَنْهُ رَاضِيًا فَارْضَ عَنْهُ»، وَكَانَ ذَلِكَ لَيْلًا، فَوَاللهِ لَقَدْ رَأَيْتُنِي وَلَوَدِدْتُ أَنِّي مَكَانُهُ، وَلَقَدْ أَسْلَمْتُ قَبْلَهُ بِخَمْسَةَ عَشَرَ سَنَةً ”

      اس کی سند میں سَعْدُ بْنُ الصَّلْتِ ہے جس کو ابن حجر نے ضعیف کہا ہے
      ضعّفه الحافظ في “النتائج

      الْأَعْمَشُ مدلس کا عنعنہ بھی ہے
      ——-

      ایک دوسری کتاب میں ہے

      أَخْبَرنا أَبِي رَحِمَهُ الله، أَخْبَرنا إبْرَاهِيمُ بنُ مُحمَّدٍ الدَّيْبُلِيُّ، وهَارُونَ بنُ مُحمَّدٍ الجُرْجَانِيُّ، قالَا: حدَّثنا أَحْمَدُ بنُ زَيْدِ بنِ هَارُونَ، حدَّثنا إبْرَاهِيمُ بنُ المُنْذِرِ، حدَّثنا إبْرَاهِيمُ بنُ عَلِيٍّ الرَّافِعيُّ، حدَّثني كَثِيرُ بنُ عَبْدِ الله بنِ عَمْرو بنِ عَوْفٍ، عَنْ أَبيهِ، عَنْ جَدِّه، عَنْ عَبْدِ الله ذِي البِجَادَيْنِ رَضِيَ الله عَنْهُمَا: أنَّهُ هَلَكَ في غَزْوَةِ تَبُوكَ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ، فَنَزَلَ رَسُولُ اللهِ – صلى الله عليه وسلم – في حُفْرَتَهُ، فقالَ لأَبي بَكْرٍ وعُمَرَ رَضِىَ الله عَنْهُمَا: أَدْلِيَا إليَّ أَخَاكُمَا، حَتَّى وَضَعَهُ رَسُولُ اللهِ – صلى الله عليه وسلم – في لحدِه، وقَالَ: اللَّهُمَّ إنِّي رَاضٍ عَنْهُ فَارْضَ عَنْهُ، قالَ أَبو بَكْرٍ الصدِّيقِ رَضِيَ الله عنهُ: لَوَدِدْتُ أَنِّي صَاحِبُ الحُفْرَةِ

      سند كَثِيرُ بنُ عَبْدِ الله بنِ عَمْرو بنِ عَوْفٍ میں ہے جس کو کذاب کہا گیا ہے

      Reply
  64. Azam

    السلام علیکم

    کیا یہ حدیث حسن درجہ کی ہے؟ کیا قرآن مکمل نہیں؟ یہ آیات قرآن میں کیوں شامل نہیں؟ اگر یہ منسوخ ہیں تو اس کا ذکر کہاں ہے؟

    حضرت عائشہ‬ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، انہوں نے فرمایا : رجم کی آیت اور بڑی عمر کے لڑکے کو دس بار دودھ پلانے کے مسئلہ پر مشتمل آیت نازل ہوئی تھی ۔ یہ دونوں آیتیں ایک کاغذ پر لکھی ہوئی میرے بستر پر پڑی تھیں ۔ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی ، ہم آپ ﷺ کے غسل و کفن وغیرہ میں مشغول ہو گئے ۔ ایک بکری آئی اور وہ کاغذ کھا گئی ۔

    Sunan Ibn e Majah#1944

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      و علیکم السلام

      ام المومنین کے حوالے سے متعدد جھوٹ محمد بن اسحاق نے بولے ہیں جن کی تفصیل ام المومنین پر میری کتاب میں ہے

      قصہ مختسر یہ روایت کذب ہے

      Reply
  65. aysha butt

    kia ali or aal ecali k naam pe naam rakhne walon k sar uraye jate thy .. mufti hanif qureshi ka yeh bayn hai or kaha k muhadiseen ne yeh bayn kia hai
    agr bila sand b hai to bataye tasfseel iski

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      جھوٹ کا پلندہ ہے
      اس قسم کی کوئی روایت نہیں

      Reply
  66. Waleed

    السلام عليكم
    ڈیٹا انٹری میں کونسا کام حرام ہے اور کونسا حلال؟ وضاحت درکار ہے

    گرافک ڈائزننگ کی جاب میں بہت کم ہوتا ہے کہ تصویر نہ لگائی جائے اپ نے اسکول کھولنا ہے وہاں بچوں کی تصویر لگی ہوتی ہے بینر banner پر ۔ الیکشن ہو تب تصویر لگانی ہوتی ہے کوئی اشتہار بنانا ہو تو تصویر لازما استعمال ہوتی ہے زیادہ تر تصویر استعمال ہوتی ہے صرف ٹائٹل نہیں دیا جاتا مگر بہت کم ۔یہ جاب کرنے والا شخص خود چاہے بینرز پوسٹر پرنٹ نہ کرتا ہو تو بھی وہ وہ کام کر کے دے رہا ہے جو اسکو پتہ ہے کہ اس کا بینر بنے گا اور زیادہ تر خواتین کی تصاویر ہوتی ہیں ۔

    تو ایسی جاب کرنا درست ہوگا؟ کیونکہ یہ مجبوری نہیں اپ نے جاب کیلئے خود یہ فیلڈ choose کی ہے ۔

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      تصویر سازی اور پکچر میں فرق ہے
      ایک ہاتھ سے بنانا ہے ایک عکس ہے
      میرے نزدیک کیمرے یا موبائل کی تصویر عکس ہے اور تصویر سازی کے زمرے میں نہیں اتا

      خواتین کا چھرے کا پردہ انفرادی چوائس ہے
      اس پر مکمل کتاب ہے

      خواتین چہرہ کھلا رکھتی تھیں خاص کر لونڈی کا اسلام میں کوئی پردہ نہیں اور آزاد عورت پر صرف جلباب کا حکم ہے جو سر چھپانا ہے

      لھذا اس جاب میں کوئی مسئلہ نہیں ہے

      Reply
  67. Waleed

    میرا سوال یہ بھی تھا کہ جو تصویر پوسٹر پر پرنٹ ہوتی ہے
    کیا اپ کے نزدیک پوسٹر پر پرنٹ کی گی تصویر بھی عکس ہے
    تصویر سازی نہیں ہے۔مثلا کاغذ پر یا پلاسٹک کور کے بینرbannar پر پرنٹ کی گی پکچر تصویر سازی نہیں عکس ہے؟؟
    فوٹو اور
    وڈیو ایڈیٹنگ کیا یہ بھی جائز ہے تصویر کسی اور کی ہے اس پر کسی اور کا چہرہ لگا دیا جاتا ہے یہ گرافک میں سکھایا جاتا ہے اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہے؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      فوٹو عکس ہے یہ حرام نہیں ہے
      ——–
      وڈیو ایڈیٹنگ کیا یہ بھی جائز ہے تصویر کسی اور کی ہے اس پر کسی اور کا چہرہ لگا دیا جاتا ہے یہ گرافک میں سکھایا جاتا ہے اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہے

      یہ ناجائز عمل ہے ممنوع ہے

      Reply
  68. Waleed

    یعنی کیمرہ سے لی گی تصویر کا پرنٹ نکلوانا گناہ نہیں ہے؟؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      اس کو ہاتھ سے بنی تصویر کیسے کہہ سکتے ہیں ؟؟ خود بھی غور کریں

      Reply
    2. Shahzadkhan

      آلسلام و علیکم ابو شہریار بھائی صدقات اور خیرات کی ڈیفینیشن بتا دیجیئے کہا جاتا ہے کہ صدقات بلاوں کو ٹال دیتا ہے بُرائی کے دروازے بند کر دیتا ہے وغیرہ وغیرہ نیز صدقات اور خیرات میں کیا فرق ہے اور ادائیگی کے کیا احکامات ہیں ؟

      Reply
      1. Islamic-Belief Post author

        و علیکم السلام

        صدقات یا خیرات وہ مال ہے جو زائد ہے اور اپ کسی بھی غریب کو بلا تفریق مذھب دے سکتے ہیں
        صدقہ عربی میں بولا جاتا ہے
        اور خیرات اس کا فارسی یا اردو ترجمہ کہا جا سکتا ہے

        صدقہ کی مقدار کوئی متعین نہیں ہے نہ کوئی وقت مقرر ہے
        کبھی بھی دے سکتے ہیں

        ادائینگی کے احکام یہی ہیں کہ احسان نہ جتایا جائے
        چھپ کر دیا جائے

        و اللہ اعلم

        Reply
  69. Shahzadkhan

    حدیث نمبر: 3221

    حدیث نمبر: 3221
    حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا هِشَامٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَحِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هَانِئٍ مَوْلَى عُثْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَإِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِ الْمَيِّتِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَفَ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اسْتَغْفِرُوا لِأَخِيكُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَسَلُوا لَهُ بِالتَّثْبِيتِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ الْآنَ يُسْأَلُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ بَحِيرٌ ابْنُ رَيْسَانَ.

    ترجمہ:
    عثمان بن عفان ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب میت کے دفن سے فارغ ہوتے تو وہاں کچھ دیر رکتے اور فرماتے: اپنے بھائی کی مغفرت کی دعا مانگو، اور اس کے لیے ثابت قدم رہنے کی دعا کرو، کیونکہ ابھی اس سے سوال کیا جائے گا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں: بحیر سے بحیر بن ریسان مراد ہیں۔
    تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ٨٩٤٠) (صحیح )

    Assalam o alikum abu shehryar bhai is rawayat ki tehqeeq darkar hy
    Jazak allah o khaira

    Reply
  70. aysha butt

    kia hazrt ali ne kisi asr mn bola hai
    mera or maviya ka mamla Allah ki adalt mn fausla hoga. musanif ibn abi shebah ka asr hai kia rae muhadiseen ki es pr

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      ابھی میرے علم میں نہیں

      لیکن یہ ایک نیوٹرل جملہ ہے

      قیامت میں تو اللہ ہر ایک کا فیصلہ کر دے گا

      Reply
  71. Mueez

    السلام عليكم

    اگر کوئی لیلۃ القدر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے کہے کہ ہزار مہینے 83 سالوں کے برابر ہیں اس لیے آخری عشرہ خوب عبادت کرے تو ہزار مہینوں کو 83 سال کے برابر کہنا متشابہات کے پیچھے لگنا ہے اور قرآن سے باہر نکلنا ہوگا؟؟

    دوسرا سوال قرآن میں کوئی بھی شخص اپنی مرضی سے کسی ایت کو متشابہات بنا سکتا ہے؟ جو آیت کسی فرقے کے خلاف ہوتی ہے وہ اسے متشابہات بنا دیتا ہے یہ قرآن کے ساتھ کیسا مزاق ہو رہا ہے اسکا سلوشن کیا ہے؟

    ہم نے ایک کتاب پڑھی ہے جس میں باقاعدہ متشابہات والی آیات پورے قرآن سے نکالی گئیں ہیں کیا ایسا کرنا درست ہے؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      سلام علیکم

      ہزار مہینے 83 سالوں کے برابر ہیں

      قرآن میں ہے کہ لَيْلَةُ الْقَدْرِ ہزار مہینوں سے بہتر ہے اور سال میں ١٢ ماہ ہیں

      ١٠٠٠/١٢ = ٨٣

      اس طرح یہ مدت ٨٣ سال سے زائد ہے

      لہذا درست قول ہوا کہ
      لَيْلَةُ الْقَدْرِ ٨٣ سال سے زائد بہتر ہے یہ قرآن میں ہی ہے
      اس کو متشابہ نہیں کہہ سکتے

      لیکن جب اللہ تعالی کہتے ہیں کہ فرشتے اس کی طرف بلند ہوتے ہیں ٥٠ ہزار سال میں تو یہ متشابہ ہے
      اسی طرح قیامت ١٠٠٠ سال کا دن والی آیت کیونکہ اب ہم مسافت و مدت کا تعیین نہیں کر سکتے

      متشابھات وہ آیات ہیں جن کے صحیح معنی و تاویل کا علم اللہ کو ہے ہم کو صرف بتایا گیا کہ ایسا ہے اور ہم ایمان لائے
      مثلا سات آسمان
      چھ دن میں تخلیق
      اللہ تعالی سے متعلق آیت

      وغیرہ جن پر انسانی ذہن نہیں جا سکتا

      متشابھات پر کتاب پڑھ کر علم میں اضافہ ممکن نہیں ہے کیونکہ ان کا علم نہیں دیا گیا

      ہاں بس ایمان ہے

      بہتر ہے کہ ہم یاد رکھیں
      و اللہ اعلم بالصواب
      بے شک اللہ ہی سب صحیح جانتا ہے

      Reply
  72. Waleed

    السلام عليكم

    صدقہ فطر کو احناف واجب کہتے ہیں اہل حدیث فرض ۔احناف کے نزدیک جو چیز حدیث میں آئے گی وہ واجب کا درجہ رکھے گی اور قرآن میں آئے گی تو فرض کیا ایسا فرق کرنا درست ہے؟اور آپ کے نزدیک صدقہ فطر فرض ہے یا واجب؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      و علیکم السلام

      فرض تو زکوات ہے
      اس کے سوا تمام صدقات ہیں
      اور صدقہ فطر بھی صدقہ ہے
      میں اس کو فرض کے درجے میں نہیں رکھتا

      Reply
  73. Waleed

    اپ کی بات درست ہے کہ صدقہ فطر اگر فرض کے درجہ پر ہے تو زکوہ کی کیا اہمیت رہے گی لیکن حدیث رسولؐ میں فَرَضَ کے الفاظ ہیں تو اس بارے میں اپ کیا کہے گے اور اپ کے نزدیک فرض اور واجب میں فرق ہے؟

    صحیح البخاری
    کتاب: زکوۃ کا بیان
    باب: باب: صدقہ فطر کا فرض ہونا۔
    حدیث نمبر: 1503

    حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ السَّکَنِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَهْضَمٍ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ نَافِعٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَکَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَی الْعَبْدِ وَالْحُرِّ وَالذَّکَرِ وَالْأُنْثَی وَالصَّغِيرِ وَالْکَبِيرِ مِنْ الْمُسْلِمِينَ وَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤَدَّی قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَی الصَّلَاةِ

    ترجمہ:
    ہم سے یحییٰ بن محمد بن سکن نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے محمد بن جھضم نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا ‘ ان سے عمر بن نافع نے ان سے ان کے باپ نے اور ان سے عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فطر کی زکوٰۃ (صدقہ فطر) ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو فرض قرار دی تھی۔ غلام ‘ آزاد ‘ مرد ‘ عورت ‘ چھوٹے اور بڑے تمام مسلمانوں پر۔ آپ ﷺ کا حکم یہ تھا کہ نماز (عید) کے لیے جانے سے پہلے یہ صدقہ ادا کردیا جائے۔

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      اس روایت میں اختلاف الفاظ موجود ہے
      صحیح بخاری کی ہی سند و متن ہے
      حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِزَكَاةِ الفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ» قَالَ عَبْدُ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: «فَجَعَلَ النَّاسُ عِدْلَهُ مُدَّيْنِ مِنْ حِنْطَةٍ»

      ابن ماجہ میں بھی امر کے الفاظ ہیں صحابی بھی دوسرے ہیں

      حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدِ بْنِ عَمَّارٍ الْمُؤَذِّنِ قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ سَعْدٍ مُؤَذِّنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَمَرَ بِصَدَقَةِ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ سُلْتٍ»

      فرض کے الفاظ صرف ابن عمر کی سند سے ہیں

      اس میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا
      اس سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ لیث یا اوپر کے راویوں نے الفاظ کو بدل دیا ہے
      امر یا حکم کرنا اور فرض کرنے میں فرق ہے
      لہذا یہاں اختلاف کیا گیا ہے

      قیس رضی اللہ عنہ سے مروی دوسری حدیث ہے
      مسند احمد میں ہے
      حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَيْمِرَةَ، عَنْ أَبِي عَمَّارٍ، قَالَ: سَأَلْتُ قَيْسَ بْنَ سَعْدٍ عَنْ صَدَقَةِ الْفِطْرِ، فَقَالَ: ” أَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ تَنْزِلَ الزَّكَاةُ، ثُمَّ نَزَلَتِ الزَّكَاةُ، فَلَمْ نُنْهَ عَنْهَا، وَلَمْ نُؤْمَرْ بِهَا، وَنَحْنُ نَفْعَلُهُ
      صدقہ فطر کا حکم اس دور میں تھا جب زکوات فرض نہیں ہوئی تھی اس کے بعد نہ تو اس کا حکم کیا جاتا نہ منع کیا جاتا تھا
      اس سند کو صحیح کہا گیا ہے

      اس طرح گمان غالب ہے کہ راوی نے ابن عمر کے مدعا کو سمجھنے میں غلطی کی اور امر کو فرض کہہ دیا

      بحر الحال اگر اس کو دیا جائے گا تو ایک صاع جو کے دانوں یا کھجور میں دیا جائے گا

      درہم روپیہ یا ڈالر میں نہیں

      کیونکہ اگر ہم مان رہے ہیں کہ یہ حکم ہے تو اسی شکل میں پورا ہو گا جس شکل میں دینے کا حکم نبوی ہے

      عرب علماء کے نزدیک ایک صاع تین کلو ہے
      و اللہ اعلم

      Reply
  74. Aqsa

    السلام عليكم
    عید مبارک
    کیا خواتین گھر میں عید کی نماز پڑھ سکتی ہیں اور پڑھ سکتی ہیں تو اس کا طریقہ کیا ہے کتنی رکعتیں ہیں وضاحت درکار ہے؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      و علیکم السلام

      عید مبارک

      عید کی نماز گھر میں نہیں پڑھی جا سکتی – سنت کے تحت میدان میں ہی ہو گی یا مجبورا مسجد میں
      نماز کا طریقہ نماز کی کتاب میں اس ویب سائٹ پر موجود ہے

      Reply
  75. عثمان

    السلام عليكم

    آپ کے علم میں ایسی بچوں کی پی ڈی ایف ہے جس میں قرآن کے قصے قرآن وحدیث کی روشنی میں دئیے گئے ہو پلیز لنک پیسٹ کر دیجیے یا پھر کتاب اور مصنف کا نام بتا دیں

    کیا اپ قرآن کا ترجمہ آڈیو میں ریکارڈ کر سکتے ہیں صرف ترجمہ تاکہ یو ٹیوب پر اپلوڈ کیا جائے اور سب سن سکے۔

    اگر اپ ایک پی ڈی ایف قصص القرآن پر قرآن وحدیث کی روشنی میں بنا دیں تو بہت بڑی بات ہوگی۔

    ایک پی ڈی ایف عذاب قبر عود روح برزخ وغیرہ پر سوالوں کی شکل میں بنا دیجیے ۔جیسے زبیر علی زئی نے کتاب 210 سوال ال دیو بند کے نام سے بنائی ہے

    آپ غیر مقلدین کے خلاف بنا دیں جزاک اللہ شیخ

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      و علیکم السلام
      یہ پروجیکٹس بہت بڑے ہیں

      Reply
  76. Waleed

    السلام عليكم اپ نے اپنی کتاب الصلاۃ میں لکھا ہے کہ بخاری کی وہ روایت منقطع ہے جس میں نماز میں ہاتھ گھنٹے رکھنے سے پہلے رکھنے کا ذکر ہے تو کیا ہاتھ گھٹنوں سے پہلے نہیں رکھے جائیں گے سجدے میں جانے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟

    https://magazine.mohaddis.com/home/articledetail/3687

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      اس کی تفصیل میرے علم کے مطابق صحیح روایات میں نہیں ہے
      جس طرح آسانی ہو کیا جا سکتا ہے

      Reply
  77. Waleed

    اپ نے لکھا کہ

    جس طرح آسانی ہو کیا جا سکتا ہے۔

    کس base پر ہم خود سے سجدہ کر سکتے ہیں؟ یعنی ان ضعیف احادیث کی بنیاد پر ہی گھٹنے رکھنے سے پہلے ہاتھ یا ہاتھ رکھنے سے پہلے گھٹنے رکھنے میں جو used to ہو کر لینا چاہیے؟؟؟؟

    دوسرا سوال

    رات بارہ یا 1 بجے سحری کھا کر سوجانا کیا درست ہے؟

    https://www.banuri.edu.pk/readquestion/raat-ko-sehri-kar-k-sona-144109202215/13-05-2020

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      جب صحیح روایت نہ ہو تو ضعیف پر عمل کیا جا سکتا ہے لیکن اس پر اسرار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ہی صحیح طریقہ ہے

      سحری کرنا سنت ہے اس کر برکت کہا گیا ہے – فرض نہیں ہے لہذا بغیر سحری کا روزہ ہو جاتا ہے

      Reply
  78. Waleed

    سوال:کیا ہمارا دین ضعیف احادیث کے بغیر نہیں چل سکتا صحابہ نے تو صحیح احادیث پر عمل کیا لیکن ہمیں ضعیف احادیث پر عمل کرنا پڑ رہا ہے؟

    Surat No 29 : سورة العنكبوت – Ayat No 25

    وَ قَالَ اِنَّمَا اتَّخَذۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَوۡثَانًا ۙ مَّوَدَّۃَ بَیۡنِکُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ ثُمَّ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یَکۡفُرُ بَعۡضُکُمۡ بِبَعۡضٍ وَّ یَلۡعَنُ بَعۡضُکُمۡ بَعۡضًا ۫ وَّ مَاۡوٰىکُمُ النَّارُ وَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ نّٰصِرِیۡنَ ﴿٭ۙ۲۵﴾

    اور اُس نے کہا کہ تم نے دنیا کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے سوا بتوں کو ( معبود ) بنایا ہے ، دنیا کی زندگی میں اپنے درمیان دوستی کی وجہ سے ، قیامت کے دن تم میں سے کوئی کسی دوسرے کا انکار کرے گا اور تم میں سے کوئی دوسرے پر لعنت کرے گا اور آگ تمہارا ٹھکانہ ہو گی ۔ اور تمہارے لیے کوئی مددگار نہ ہو گا ۔

    سوال
    یہاں لفظ اوثانا ایا ہے جو وثن کی جمع ہے سوال یہ ہے کہ ابراھیم کی قوم صرف مٹی کے بتوں کو پوج رہی تھی یا ان بتوں کے پیچھے. شخصیات تھیں؟ عربی لغت میں بھی بت وثن کے معنی کیے گئے ہیں وہاں کلئیر نہیں ہیں کہ صرف مٹی کے بت تھے یا شخصیات پر مبنی بت تھے جنکی قوم ابراھیم عبادت کر رہی تھی ؟؟
    جزاک اللہ

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      وثن ایسے بت جن پر جاندار کی شکل نہ ہو – پتھر یا چٹان ہوں ان کو وثن کہتے ہیں
      وثن لغت کے تحت پتھر لکڑی یا دھواں وغیرہ کا ہوتا تھا

      معجم اللغة العربية المعاصرة
      المؤلف: د أحمد مختار عبد الحميد عمر (المتوفى: 1424هـ) بمساعدة فريق عمل

      وَثَن [مفرد]: ج أوثان ووُثْن ووُثُن: تمثال يُعبَد سواء أكان من خشب أم حجر أم نُحاس أم غير ذلك، وقد يُقال لما يُعبد من غير التماثيل

      بلا شکل والے معبود کو وثن کہتے ہیں

      قوم ابراہیم کا کہا جاتا ہے اجرام فلکی کی پجاری تھی تو ممکن ہے ان کو محض پتھر یا چٹان کی شکل میں رکھا ہو

      و الله اعلم

      Reply
  79. محمد نعیم

    اسلام علیکم
    بھایے:پلیزاس روایت کو وضاحت کردے
    صنفان من اهل النار لم ارهما قوم معهم سیاط کاذنات البقر یضربون بهاالناس…الخ
    مسلم2128
    جزاک الله خیر

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      و علیکم السلام

      ) حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «صِنْفَانِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ لَمْ أَرَهُمَا، قَوْمٌ مَعَهُمْ سِيَاطٌ كَأَذْنَابِ الْبَقَرِ يَضْرِبُونَ بِهَا النَّاسَ، وَنِسَاءٌ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ مُمِيلَاتٌ مَائِلَاتٌ، رُءُوسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ الْمَائِلَةِ، لَا يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ، وَلَا يَجِدْنَ رِيحَهَا، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ كَذَا وَكَذَا

      حدیث میں ہے کہ دو طرح کے جہنمی لوگ ہیں جن کو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھی نہیں دیکھا
      ایک وہ ہیں جن کے پاس گائے کی دموں جیسے کوڑے ہیں جس سے لوگوں کو مار رہے
      دوسری عورتیں ہیں جو ننگ لباس ہیں

      اغلبا یہ اس امت کے مستقبل کے متشدد مرد و عورتوں کے حوالے سے ہے جن میں اس طرح افراط ہو جائے گی کہ کچھ عورتیں لباس کے حوالے سے احتیاط نہ رکھیں گی اور متشدد حاکم مرد ہوں گے جو لوگوں کو جانوروں کی طرح ماریں گے ہانکیں گے

      Reply
  80. Waleed

    میرے سوال کا اپ نے جواب نہیں دیا صحابہ نے ضعیف روایات پر عمل کیا اگر انہوں نے نہیں کیا تو اج ہم کیوں کرے ضعیف احادیث پر عمل؟

    اگر وثن جاندار کی شکل کو نہیں کہہ سکتے تو بخاری قوم نوح کے اولیاء ود سواع یغوث یعوق نسر کیلئے پھر لفظ وثن کیوں استعمال کیا گیا ملاحظہ فرمائیں :
    بخاری 4920
    حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ ، وَقَالَ عَطَاءٌ : عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، صَارَتِ الْأَوْثَانُ الَّتِي كَانَتْ فِي قَوْمِ نُوحٍ فِي الْعَرَبِ بَعْدُ أَمَّا وَدٌّ كَانَتْ لِكَلْبٍ بِدَوْمَةِ الْجَنْدَلِ ، وَأَمَّا سُوَاعٌ كَانَتْ لِهُذَيْلٍ ، وَأَمَّا يَغُوثُ فَكَانَتْ لِمُرَادٍ ، ثُمَّ لِبَنِي غُطَيْفٍ بِالْجَوْفِ عِنْدَ سَبَإٍ ، وَأَمَّا يَعُوقُ فَكَانَتْ لِهَمْدَانَ ، وَأَمَّا نَسْرٌ فَكَانَتْ لِحِمْيَرَ لِآلِ ذِي الْكَلَاعِ ، أَسْمَاءُ رِجَالٍ صَالِحِينَ مِنْ قَوْمِ نُوحٍ ، فَلَمَّا هَلَكُوا أَوْحَى الشَّيْطَانُ إِلَى قَوْمِهِمْ أَنِ انْصِبُوا إِلَى مَجَالِسِهِمُ الَّتِي كَانُوا يَجْلِسُونَ أَنْصَابًا وَسَمُّوهَا بِأَسْمَائِهِمْ ، فَفَعَلُوا فَلَمْ تُعْبَدْ حَتَّى إِذَا هَلَكَ أُولَئِكَ ، وَتَنَسَّخَ الْعِلْمُ عُبِدَتْ .

    نبی علیہ السلام نے فرمایا
    اللھم لا تجعل قبری وثنا یعبد

    (مسند احمد)

    سوال نمبر 3

    بچوں کو پہلے عقیدہ کی تعلیم دینی چاہیے یا نماز کی؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      ضعیف احادیث پر بحث بہت ہے – اس پر مجبورا عمل کیا جاتا ہے ان کی جانب سے جو فقہ میں رائے پر عمل نہیں کرنا چاہتے

      اس روایت سے ثابت ہوا کہ وثن کا لفظ متشکل بتوں پر بھی ہے

      بچوں کو عقیدہ کی تعلیم دی جائے گی یعنی توحید و رسالت کی اور ساتھ ساتھ نماز کی

      Reply
  81. Mueez

    السلام عليكم

    قوم لوط کا شرک کیا تھا؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      فما وجدنا فيها غير بيت من المسلمين

      وہاں مسلمانوں کا صرف ایک گھر تھا جو لوط علیہ السلام کا تھا

      ان کا شرک یقینا ہو گا لیکن قوم لوط کا مسافروں سے ظلم کی وجہ سے ان پر عذاب آیا

      Reply
  82. Waleed Khan

    السلام عليكم العکنبوت آیت 45 میں فحش اور منکر لفظ آئے ہیں ان میں کیا فرق ہے؟

    کیا منکر شرک کیلئے بھی آتا ہے؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      منکر – قبل اسلام معاشرہ میں برا سمجھا جاتا تھا مثلا
      جھوٹ بولنا
      غبن کرنا
      جھوٹا الزام لگانا
      چوری کرنا
      اس کو منکر کہا جاتا تھا
      – شرک منکر میں شمار نہیں جاتا تھا – مشرکین کا معاشرہ خود توحید پر قائم نہیں تھا
      مثلا مشرکین مکہ کے ہاں معروف معلوم تھے یعنی جو معاشرہ میں اچھی باتیں ہیں ان کی ضد منکرات ہیں
      لیکن باوجود اس کے کہ مشرکین منکرات کو جانتے تھے وہ شرک کرتے تھے

      اسلام میں منکر وہ سب ہیں جو شرک و گناہ ہیں

      ——-
      فحش یعنی بے حیانی و بے لباس ہونا یا اس پر مبننی بات کرنا

      Reply
  83. Waleed khan

    مکی سورت کا کیا مطلب ہے وہ سورتیں جو مکہ میں نازل ہوئیں
    یا وہ سورتیں جو ہجرت سے پہلے نازل ہوئیں چاہے مکہ میں نازل
    ہوئیں یا مدینہ میں؟

    جزاک اللہ

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      وہ سورتیں جو مکہ میں نازل ہوئیں

      Reply
  84. Mosa

    بخاری حدیث نمبر 1393 میں ہے کہ مردوں کو برا نہ کہو ۔۔۔جبکہ بخاری میں ہی ہے نبی علیہ السلام نے 24 سرداران قریش کو برا بھلا کہا اور قرآن میں بھی آزر ابو لہب سامری فرعون قارون کو گمراہ کہا گیا ہے 1393 حدیث کی وضاحت کر دیجیے

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      مردوں کو برا نہ کہو

      یہ حکم وفات شدہ مومن کے لئے ہے

      حديثِ النسائيِّ عن عائشةَ رَضيَ اللهُ عنها، عن النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: «لا تَذكُروا هَلْكاكم إلَّا بخَيرٍ
      عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
      اپنے ہلاک ہو جانے والوں کا ذکر خیر کرو

      یہ احادیث خاص ان مومنوں کے لئے ہے جو ہلاگ ہوئے یعنی گر کر مر گئے ڈوب کر مر گئے
      ان کے لئے اکثر کہا جاتا ہے کہ کاش پانی میں نہیں جاتا تو بچ گیا ہوتا
      یا کرنٹ اس لئے لگا کیونکہ اس کا ہاتھ گیلا تھا
      وغیرہ اس میں لوگوں کی ہلاکت ہو جاتی ہے اور اس حوالے سے حکم ہے کہ اس پر مومن کو برا نہ کہا جائے

      Reply
  85. Asim

    السلام علیکم

    آپ نے کھڑے ہو کر پانی پینے والی ایک روایت کو ضعیف کہا۔ مسلم 5279 کو۔ لیکن اس سے پہلی ایک اور حدیث ہے۔ صحیح مسلم 5275

    حدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا عبد الاعلى ، حدثنا سعيد ، عن قتادة ، عن انس ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه: ” نهى ان يشرب الرجل قائما “، قال: قتادة، فقلنا: فالاكل، فقال: ” ذاك اشر او اخبث “.

    حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ انسان کھڑا ہو کر پانی پیے، قتادہ کہتے ہیں: ہم نے پوچھا: تو کھانا، انہوں نے کہا: وہ زیادہ برا یا خبیث ہے۔

    یہ روایت توصحیح ہے اور معمانیت بھی موجود ہے۔ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نہی کی احادیث سے جواز کی احادیث منسوخ ہو گئیں کیونکہ اشیاء میں اصل اباحت ہے۔ ابن حزم کے مطابق کھڑے ہو کر پانی پینا حرام ہے۔

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      اس روایت میں قتادہ مدلس کا عنعنہ ہے لہذا یہ بھی سندا ضعیف ہے
      اصول حدیث کے تحت

      امام مسلم کا صحیح میں اصول رہا ہے کہ وہ تین طرح کی روایات لکھیں گے جیسا کہ مقدمہ میں انہوں نے واضح کیا ہے جن میں اس قسم کی روایات کو بھی انہوں نے لکھ دیا ہے

      البتہ لگتا ہے کہ اصحاب رسول میں سے بہت سے کھڑے ہو کر پانی پیتے تھے مثلا علی رضی اللہ عنہ اور اس کو سنت ہی کہتے تھے
      اہل بیت یا گھر والے کافی ہیں اس حوالے سے
      صحیح بخاری کی حدیث موجود ہے
      علی نے کھڑے ہو کر پانی پیا اور کہا
      إِنَّ أُنَاسًا يَكْرَهُونَ الشُّرْب قَائِمًا، وَإِنَّ رَسُول الله – صلى اللهُ عليه وسلَّم – صَنَعَ كَمَا صَنَعْت
      لوگ کھڑے ہو کر پانی پینے سے کراہت کرتے ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا جیسا میں نے کیا

      غور طلب ہے کہ ممانعت اور کراہت میں فرق ہے
      انس سے منسوب حدیث میں نھی کا لفظ ہے اور علی نے ذکر کیا کراہت کا
      لہذا میرے نزدیک صحیح یہی ہے کہ کھڑے ہو کر پانی پینا سنت ہے

      Reply
  86. Abdullah

    السلام عليكم

    ناخن بڑھانا حرام ہے دلیل کیا ہے؟
    بعض کے نزدیک حرام نہیں ہے اپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے۔جزاک اللہ

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      و علیکم السلام

      انسؓ بیان کرتے ہیں:( رسول اللہ ﷺ نے)ہمارے لیے مونچھیں تراشنے ،ناخن کاٹنے ،بغل کے بال اکھاڑنے (یا مونڈھنے) زیرِ ناف مونڈھنے کی انتہائی مدت یہ مقرر فرمائی کہ ہم چالیس دن سے تجاوز نہ کریں‘‘۔(صحیح مسلم:258)

      چالیس دن کے اندر اندر بڑھا کر کاٹ سکتے ہیں – اس سے اوپر نہیں

      Reply
  87. Abdullah

    جزاک اللہ

    حدیث کے الفاظ ہیں

    أَنْ لَا نَتْرُكَ

    یہ الفاظ حرام ہونے کی دلیل ہے؟؟
    میرا سوال دراصل یہ ہے کہ کونسے الفاظ ہوتے ہیں جس سے کوئی کام حرام ہوجاتا ہے ؟

    اگر اپ فقہ کے اصول پر ایک کتاب بھی لکھ دیں تو بہت بڑا دین کا کام ہوسکتا ہے

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      ان کو کاٹنا ترک نہ کرے چالیس دن میں

      یہ الفاظ ظاہر ہے کہ ممانعت پر ہیں

      Reply
  88. Mueez

    السلام عليكم
    فاریکس ٹریڈنگ کا کاروبار شرعا کیسا ہے؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      و علیکم السلام

      اس حوالے سے میری معلومات نہیں ہیں

      Reply
      1. Abdullah

        السلام عليكم :

        معجزہ” مخلوق ھے یاغیر مخلوق ھے؟”

        Reply
        1. Islamic-Belief Post author

          و علیکم السلام

          معجزہ مخلوق کا عمل ہے یا اللہ کا عمل ہے ؟ اس سوال پر غور کرنے سے ظاہر ہے کہ یہ اللہ کا عمل ہے اس کے اذن و حکم سے ہے
          حکم ربی اللہ کے کلام کی صفت میں سے ہے
          اور کلام اللہ یا حکم اللہ غیر مخلوق ہے

          لہذا جب معجزہ ہو تو مطلب ہوتا ہے کہ مخلوق کو اللہ کا حکم فرشتوں کے بغیر ملا اور اس کو وہ کرنا تھا
          مثلا اگ کو اللہ کا حکم ملا کہ ابراہیم پر ٹھنڈی ہو جا اور اگ کو یہ کرنا پڑا زمین کو حکم ملا کہ آسمان سے الگ ہو اور زمین و آسمان کو یہ کرنا تھا
          مردہ جسم کو حکم ملا کہ جیسے ہی عیسیٰ بولے اللہ کہ حکم سے زندہ ہو تو جسم میں اس کی روح واپس عود کر آئے
          سمندر کو اللہ کا حکم ملے کہ جیسے ہی موسی عصا کو تم پر مارے تو پھٹ جاو

          ان امثال میں حکم و خبر ہے – انبیاء کو خبر دی گئی کہ اللہ نے معجزہ کا حکم مخلوق کو دے دیا ہے اور انبیاء نے اس کی خبر قوم کو دی
          اس طرح ہمارے نزدیک معجزہ اللہ کا عمل و اذن ہے غیر مخلوق ہے

          أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ
          خبردار اسی کے لئے خلق و امر ہے

          اللہ کے سوا امر یا حکم یا صفت معجزہ کسی نبی یا انسان کے لئے نہیں ہے

          وَ مَا کَانَ لِرَسُوۡلٍ اَنۡ یَّاۡتِیَ بِاٰیَۃٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰ
          اور کسی رسول کا یہ ( مقدور ) نہ تھا کہ کوئی معجزہ اللہ کی اجازت کے بغیر لا سکے

          لہذا معجزہ – اللہ کا امر و حکم و اذن ہے غیر اللہ کی صفت ممکن نہیں ہے

          Reply
  89. Waleed

    السلام عليكم

    العنکبوت آیت 25 کی تفسیر میں اکثر مفسر نے لکھا ہے عابد معبود ایک دوسرے پر لعن طعن کرینگے میرے نزدیک یہ جملہ غلط ہے کیونکہ معبود تو پتھر ہیں وہ کیسے عابدوں پر لعن طعن کر سکتے ہیں؟

    میرے نزدیک صحیح جملہ یہ ہوگا کہ عابدین ایک دوسرے پر لعن طعن کرینگے کہ تجھے دیکھ کر میں بھی بتوں کی عبادت کرنے لگا ہماری محبت کی وجہ یہ بت ہی تھے تو اصل وجہ بتوں کی عبادت عابدین کی اپس کی مجںت تھی کیا یہ تفسیر درست کی ہے میں نے؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      و علیکم السلام

      صحیح یہی معلوم ہوتا ہے کہ عبادات کرنے والے پجاریوں پر لعنت کریں گے اور وہ ان پر

      و اللہ اعلم

      Reply
  90. Waleed

    السلام عليكم

    کیا ضرورت پڑنے پر میت کے گھر تین دن چولہا جلانا جائز نہیں ہے؟

    ساحل عدیم کا عذاب قبر کے متعلق موقف ملاحظہ فرمائیں

    https://youtu.be/YtRxYDOzJkY

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      سورہ ملک سے متعلق عذاب قبر والی احادیث ضعیف ہیں

      اس پر کتاب اثبات عذاب قبر دیکھیں

      اللہ کی آیات ہمارے نزدیک تعویذ (بچانے والی چیز ) نہیں کہ اللہ ہی کے عذاب سے بچا سکیں
      اس میں کوئی لوجک ہے ؟ جب اللہ ہی عذاب دے رہا ہے تو اس کی آیت کیسے اس کے خلاف جا کر کام کر رہی ہے ؟ اس قسم کی روایات قبر کے مجاوروں کی بیان کردہ ہیں جن کا عراق میں دور دورہ عباسی خلافت کے دور میں ہوا

      Reply
  91. محمد نعیم

    اسلام علیکم
    قربانی کرنے کا ارادہ ہو او سے چاہے کہ اپنے بالوں اور نخونو کو روکے رکہی

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      و علیکم السلام

      حدیث میں یہی ہے کہ بال اور ناخن قربانی کے بعد کاٹے جائیں

      Reply
  92. محمد نعیم

    کیا ناخون روکنا سنت ہے یا فرض؟؟؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      یہ سنت ہے

      Reply
  93. aysha butt

    akhri ayat qurai konsi hai .. kia hijjatul widah k bd b quran utra…
    ae rusool jo wahi ki gae puncha dije. shia khty gadeer e khum pe utri ayat eska shan nuzool kia hai
    kia usman r.a ki shahdt 18 zilhaj ki hai or khum ka waqia bhi 18 ka hai.
    or umr r.a ki shahdt 25 zilhaj hai k /1st muharram

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      سورہ النصر کو کہا جاتا ہے کہ آخری سورت ہے

      سورہ مائدہ کی آیت کا مطلب ہے کہ شرع کے احکامات مکمل ہوئے

      غدیر خم کا واقعہ کس تاریخ کو ہوا صحیح معلوم نہیں ہے

      Reply
  94. Shahzad Niazi

    السلام و علیکم ابو شہریار بھائی عدم رفع الیدین پر مسلم شریف کی صحیح روایت دکار ہے ۔۔

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      صحيح بخاری کتاب الآذان باب وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ فِي الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا‏‎
      حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ‎
      أَنَّ رَجُلًا دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَصَلَّى وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ‏نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ فَجَاءَ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ فَقَالَ لَهُ ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ ‏فَرَجَعَ فَصَلَّى ثُمَّ سَلَّمَ فَقَالَ وَعَلَيْكَ ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ قَالَ فِي ‏الثَّالِثَةِ فَأَعْلِمْنِي قَالَ إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ فَأَسْبِغْ الْوُضُوءَ ثُمَّ اسْتَقْبِلْ ‏الْقِبْلَةَ فَكَبِّرْ وَاقْرَأْ بِمَا تَيَسَّرَ مَعَكَ مِنْ الْقُرْآنِ ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ ‏رَاكِعًا ثُمَّ ارْفَعْ رَأْسَكَ حَتَّى تَعْتَدِلَ قَائِمًا ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ‏ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَسْتَوِيَ وَتَطْمَئِنَّ جَالِسًا ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ‏ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَسْتَوِيَ قَائِمًا ثُمَّ افْعَلْ ذَلِكَ فِي صَلَاتِكَ كُلِّهَا۔‎
      ابوہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ ‏علیہ وسلم (مسجد نبوی میں) تھے کہ ایک آدمی مسجد میں ‏داخل ہؤا اور نماز پڑھی اور آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‏کو سلام کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دیا ‏اور فرمایا کہ جا ۔۔۔ جاکر نماز پڑھ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ گیا ‏اور جا کر نماز پڑھی اور پھر آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‏کو سلام کیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب ‏دیا اور پھر فرمایا کہ جا ۔۔۔ جاکر نماز پڑھ تو نے نماز نہیں پڑھی ‏۔ تیسری دفعہ یا تیسری دفعہ کے بعد اس شخص نے کہا کہ یا ‏رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے نماز سکھلائیے۔ رسول اللہ ‏صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “جب نماز کے لئے کھڑا ہو تو اچھی ‏طرح وضو کر۔ پھر قبلہ رو کھڑا ہو۔ پھر اللہ اکبر کہہ۔ پھر قرآن ‏سے پڑھ جو تجھے یاد ہو پھر رکوع کر یہاں تک کہ سکون سے ‏رکوع کرنے والا ہو پھر کھڑا ہو یہاں تک کہ سیدھا کھڑا ہوجائے۔ ‏پھر سجدہ کر یہاں تک کہ سکون سے سجدہ کرنے والا ہو۔ پھر ‏سجدہ سے اٹھ کر سکون سے تشہد کی حالت میں بیٹھ جا۔ پھر ‏سجدہ کر یہاں تک کہ سکون سے سجدہ کرنے والا ہو۔ پھر سجدہ ‏سے اٹھ کر سیدھا کھڑا ہو جا۔ اسی طرح کر اپنی تمام نماز میں

      اس روایت میں رفع کا حکم نہیں کیا یعنی یعنی رفع الیدین نماز کا ایسا عمل تھا جس کو کرنا ضروری نہیں تھا یہی وجہ ‏ہے کہ بعض صحابہ اس کو سجدوں میں بھی کر رہے تھے اور بعض صحابہ اس ‏کو چھوڑ چکے تھے

      Reply
  95. aysha butt

    sir kia umyaad kandan k log ab b mujood hai . jesy hashmi or siddiqui or usmani hain
    ik blog prha jis mn hai yeh arai mn zum hogae
    baz schlor khty. k umyad ki nasl madoom ho gyi zulm mit gya koi unka naam lene wala nahi

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      ispain ki saltnat banu umayya nai qaim ki thi. lihaza yeh log ispan wa marakash ma ja kar bass gai thay.

      Reply
  96. jawad

    السلام و علیکم و رحمت الله

    محترم ابو شہریار صاحب- امید کرتا ہوں آپ خیریت سے ہونگے

    ایمان ابو طالب سے متعلق ایک عالم کا یہ کلپ سننے کو ملا- اس پر آپ کی تحقیق اور راے چاہیے -کیا یہ عالم صحیح کہہ رہا ہے یا روایات کو پرکھنے میں ڈنڈی مار رہا ہے-؟؟

    https://www.youtube.com/watch?v=CTlBcgpAfcs

    آپ کے جواب کا انتظار رہے گا -جزاک الله

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      و علیکم السلام

      شکریہ
      الحمد للہ خیریت ہے

      شیعہ میں اختلاف ہے کہ ابو طالب مومن تھا یا کافر

      راقم کہتا ہے ٣٠٠ ہجری تک اہل تشیع بھی یہی کہتے تھے کہ ابو طالب کافر تھے – مشہور شیعہ مفسر ابي الحسن علي بن ابراهيم القمي المتوفی ٣٢٩ ھ کی تفسیر میں ہے کہ (انك لا تهدي من أحببت) آپ جس کو محبوب کریں اس کو ہدایت پر نہیں کر سکتے یہ آیت ابو طالب کے لئے ہے
      واما قوله: (انك لا تهدي من أحببت) قال نزلت في ابي طالب عليه السلام فان رسول الله صلى الله عليه وآله كان يقول يا عم قل لا إله إلا الله بالجهر نفعك بها يوم القيامة فيقول: يا بن اخي أنا أعلم بنفسى، (وأقول بنفسى ط) فلما مات شهد العباس بن عبدالمطلب عند رسول الله صلى الله عليه وآله انه تكلم بها عند الموت بأعلى صوته، فقال رسول الله صلى الله عليه وآله: اما انا فلم اسمعها منه وأرجو ان تنفعه يوم القيامة، وقال صلى الله عليه وآله: لو قمت المقام المحمود لشفعت في ابي وامي وعمي وأخ كان لي مواخيا في الجاهلية

      الله تعالی کے قول آپ جس کو محبوب کریں اس کو ہدایت نہیں دے سکتے- کہا یہ آیت ابو طالب کے لئے نازل ہوئی ہے کیونکہ رسول الله صلى الله عليه وآله کہتے اے چچا کہہ دیں با آواز بلند لا إله إلا الله میں روز محشر آپ کو فائدہ دوں گا … ابو طالب کہتے مجھے اپنا پتا ہے – پس جب ان کی وفات ہوئی تو عباس نے دیکھا ابو طالب بات کر رہے تھے اونچی آواز سے لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے نہیں سنا انہوں نے کیا کہا اور امید ہے کہ میں ان کو روز محشر فائدہ دوں

      اس طرح ابو طالب مومن تھا اس پر کئی قرون تک شیعہ کا کوئی اجماع نہیں ہے

      ——————-

      اہل سنت میں بھی اختلاف ہے

      قرآن کی آیت انك لا تهدي من أحببت پر مفسرین میں سے بہت ہیں جو کہتے یہ ابو طالب کے لئے ہے

      ابو طالب ، مخالف اسلام تھا مخالف رسول نہیں تھا
      ابو لھب مخالف اسلام و رسول تھا

      دونوں میں فرق ہے ایک کٹر مخالف ہے اور ایک سوفٹ مخالف ہے – ہر خاندان میں ایسا ہوتا ہے

      ابو لھب نے پیدائش رسول پر لونڈی آزاد کی اس کا ذکر امام بخاری نے معلق روایت میں کیا ہے اور ایسا تب ہوتا ہے جب روایت امام بخاری کے اصول کے تحت صحت پر نہیں ہوتیں

      صحیح بخاری کی روایت ٣٨٨٤ ہے

      حَدَّثَنَا مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ ابْنِ المُسَيِّبِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ أَبَا طَالِبٍ لَمَّا حَضَرَتْهُ الوَفَاةُ، دَخَلَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ أَبُو جَهْلٍ، فَقَالَ: «أَيْ عَمِّ، قُلْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، كَلِمَةً أُحَاجُّ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ» فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ: يَا أَبَا طَالِبٍ، تَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ المُطَّلِبِ، فَلَمْ يَزَالاَ يُكَلِّمَانِهِ، حَتَّى قَالَ آخِرَ شَيْءٍ كَلَّمَهُمْ بِهِ: عَلَى مِلَّةِ عَبْدِ المُطَّلِبِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ، مَا لَمْ أُنْهَ عَنْهُ» فَنَزَلَتْ: {مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الجَحِيمِ} [التوبة: 113]. وَنَزَلَتْ: {إِنَّكَ لاَ تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ} [القصص: 56]

      ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزق نے بیان کیا، انہیں معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں سعید بن مسیب نے اور انہیں ان کے والد مسیب بن حزن صحابی رضی اللہ عنہ نے کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے۔ اس وقت وہاں ابوجہل بھی بیٹھا ہوا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چچا! کلمہ لا الہٰ الا اللہ ایک مرتبہ کہہ دو، اللہ کی بارگاہ میں (آپ کی بخشش کے لیے) ایک یہی دلیل میرے ہاتھ آ جائے گی۔ اس پر ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا: اے ابوطالب! کیا عبدالمطلب کے دین سے تم پھر جاؤ گے! یہ دونوں ان ہی پر زور دیتے رہے اور آخری کلمہ جو ان کی زبان سے نکلا، وہ یہ تھا کہ میں عبدالمطلب کے دین پر قائم ہوں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ان کے لیے اس وقت تک مغفرت طلب کرتا رہوں گا جب تک مجھے اس سے منع نہ کر دیا جائے گا۔ چنانچہ (سورۃ براۃ میں) یہ آیت نازل ہوئی «ما كان للنبي والذين آمنوا أن يستغفروا للمشركين ولو كانوا أولي قربى من بعد ما تبين لهم أنهم أصحاب الجحيم‏» نبی کے لیے اور مسلمانوں کے لیے مناسب نہیں ہے کہ مشرکین کے لیے دعا مغفرت کریں خواہ وہ ان کے ناطے والے ہی کیوں نہ ہوں جب کہ ان کے سامنے یہ بات واضح ہو گئی کہ وہ دوزخی ہیں۔ اور سورۃ قصص میں یہ آیت نازل ہوئی «إنك لا تهدي من أحببت‏» بیشک جسے آپ چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے
      ———-
      کمرے میں ہو سکتا ہے صحابی موجود نہیں تھا ؟؟
      مسیب بن حزن صحابی رضی اللہ عنہ نے ابو طالب کی وفات کا ذکر کیا جن پر اعتراض ہے کہ انہوں نے اسلام دیر سے قبول کیا تو یہ بے جا ہے کیونکہ واقعہ مکی ہے اور یہ صحابی بھی مکہ کے ہیں جو مکہ میں ہوا اس کو بیان کر رہے ہیں

      ابو طالب پر عذاب کم ہوا ان روایات میں الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ سے مروی ہے جو خود فتح مکہ یا اس سے چند دن قبل ایمان لائے یعنی یہ اعتراض ایک ہی قسم کا لگ رہا ہے دونوں طرح کی روایات پر لہذا کلعدم ہوا

      معراج کی روایات بیشتر انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی ہیں جو مدینہ میں ایمان لائے لہذا یہ ظن والی بات بے کار ہے

      ———–

      میرے نزدیک ابو طالب کے انجام کے حوالے سے روایات میں کافی اضطراب بھی ہے اور خلاف قرآن بھی ہیں مثلا دیکھیں

      https://www.islamic-belief.net/%d9%85%d8%b4%d8%b1%da%a9-%da%a9%db%8c-%d8%b4%d9%81%d8%a7%d8%b9%d8%aa/

      شفاعت سے متعلق روایات سندا مضبوط نہیں ہیں

      غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شفاعت ابو طالب سے متعلق روایات عبد الملک بن عمیر نے روایت کی ہے جو مختلط ہو گیا تھا دوم مجالد بن سعید نے کیا ہے جو کٹر شیعہ مشھور ہے
      عبد الله بن محمد بن عقيل بن أبى طالب القرشى الهاشمى نے اس کو روایت کیا ہے لیکن محدثین کا حکم ہے قال ابن خزيمة : لا أحتج به اس کی روایت قابل دلیل نہیں ہے

      میں ان روایات کو رد کرتا ہوں جن میں ہے کہ ہماری شفاعت سے ابو طالب کا عذاب کم ہوا

      ماں کا درجہ دین میں چچا سے بڑھ کر ہے اور حدیث ہے

      حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ كَيْسَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” اسْتَأْذَنْتُ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ أَنْ أَسْتَغْفِرَ لِوَالِدَتِي فَلَمْ يَأْذَنْ لِي، وَاسْتَأْذَنْتُهُ أَنْ أَزُورَ قَبْرَهَا فَأَذِنَ لِي

      نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اپنی اماں کی دعا استغفار کی اجازت طلب کی تو وہ مجھے نہیں ملی لیکن زیارت قبر کی اجازت مل گئی

      ——

      ابو طالب رسول اللہ کی حفاظت کے لئے بستر بدل دیتے تھے یہ لفاظی ہے کسی روایت میں اس کا ذکر نہیں ہے
      ———

      نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو طالب سے کہا کہ کافروں کو بولیں کہ کافر کلمہ پڑھیں ؟

      ترمذی ٣٢٣٢ کی رویت کا ذکر کیا
      3232 –
      حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ المَعْنَى وَاحِدٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ يَحْيَى، قَالَ عَبْدٌ: هُوَ ابْنُ عَبَّادٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: [ص:366] مَرِضَ أَبُو طَالِبٍ فَجَاءَتْهُ قُرَيْشٌ، وَجَاءَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَ أَبِي طَالِبٍ مَجْلِسُ رَجُلٍ، فَقَامَ أَبُو جَهْلٍ كَيْ يَمْنَعَهُ قَالَ: وَشَكَوْهُ إِلَى أَبِي طَالِبٍ، فَقَالَ: يَا ابْنَ أَخِي مَا تُرِيدُ مِنْ قَوْمِكَ؟ قَالَ: «إِنِّي أُرِيدُ مِنْهُمْ كَلِمَةً وَاحِدَةً تَدِينُ لَهُمْ بِهَا العَرَبُ، وَتُؤَدِّي إِلَيْهِمُ العَجَمُ الجِزْيَةَ». قَالَ: كَلِمَةً وَاحِدَةً؟ قَالَ: «كَلِمَةً وَاحِدَةً» قَالَ: ” يَا عَمِّ يَقُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ” فَقَالُوا: إِلَهًا وَاحِدًا مَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي المِلَّةِ الآخِرَةِ إِنْ هَذَا إِلَّا اخْتِلَاقٌ. قَالَ: فَنَزَلَ فِيهِمُ القُرْآنُ: {ص وَالقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي عِزَّةٍ وَشِقَاقٍ} [ص: 2]- إِلَى قَوْلِهِ – {مَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي المِلَّةِ الآخِرَةِ إِنْ هَذَا إِلَّا اخْتِلَاقٌ} [ص: 7]. هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ، وقَالَ يَحْيَى بْنُ عُمَارَةَ

      [حكم الألباني] : ضعيف الإسناد

      البانی نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے

      اس روایت کی سند میں مسائل ہیں
      قال عبد هو ابن عباد عن سعيد بن جبير عن ابن عباس

      عبد بن عباد نام کا راوی مجہول ہے

      دوسرا راوی يحيي بن عمارة جو عبد سے روایت لے رہا ہے وہ بھی مجہول ہے
      یہ روایت مسند احمد میں اسی قسم کی سند سے ہے شعيب الأرنؤوط نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے
      إسناده ضعيف، يحيي بن عمارة، ويقال: يحيي بن عباد، ويقال: عباد، تفرد عنه الأعمش فهو في عداد المجهولين وإن ذكره ابن حبان في “الثقات

      لب لباب ہے کہ ابو طالب کی ترمذی والی روایت سندا ضعیف ہے سند میں دو دو مجہول ہیں

      Reply
      1. jawad

        جزاک الله

        کیا حتمی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ابو طالب جہنمی ہے ؟؟ – وقت موت ویسے بھی توبہ یا کلمہ حق قابل قبول نہیں ہوتا -جیسے فرعون نے بھی مرتے وقت کلمہ حق پڑھا تھا لیکن اس کا عمل رد کریا گیا – بالفرض اگر ابو طالب نے کلمہ حق زبان سے کہہ بھی دیا ہو تو مرتے وقت نبی کریم کا یہ کہنا کہ “چچا کلمہ پڑھ لو یہ تمہاری شفاعت کی دلیل ہو گا” – ان روایات کو کیسے مان لیں ؟؟

        Reply
        1. Islamic-Belief Post author

          دور نبوی کے تمام مشرک جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بھی طرح مدد کی یعنی ان کا مخالف قبائل و اشخاص کے خلاف ساتھ دیا وہ سب جہنمی ہیں
          کیونکہ ان پر قرآن کی آیات حجت ہیں کہ جس نے اللہ کو ایک نہیں مانا وہ مشرک و جہنمی ہے

          زمین پر اللہ کا حکم آ چکا ہے
          سورة البينة پڑھ لیں

          Reply
  97. aysha butt

    حدثنا حدثنا واصل بن عبد الاعلى، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن عمارة بن عمير، قال: ” لما جيء براس عبيد الله بن زياد , واصحابه نضدت في المسجد في الرحبة , فانتهيت إليهم وهم يقولون: قد جاءت قد جاءت، فإذا حية قد جاءت تخلل الرءوس حتى دخلت في منخري عبيد الله بن زياد , فمكثت هنيهة , ثم خرجت , فذهبت حتى تغيبت، ثم قالوا: قد جاءت قد جاءت، ففعلت ذلك مرتين او ثلاثا. هذا حسن صحيح.
    عمارہ بن عمیر کہتے ہیں کہ جب عبیداللہ بن زیاد اور اس کے ساتھیوں کے سر لائے گئے ۱؎ اور کوفہ کی ایک مسجد میں انہیں ترتیب سے رکھ دیا گیا اور میں وہاں پہنچا تو لوگ یہ کہہ رہے تھے: آیا آیا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک سانپ سروں کے بیچ سے ہو کر آیا اور عبیداللہ بن زیاد کے دونوں نتھنوں میں داخل ہو گیا اور تھوڑی دیر اس میں رہا پھر نکل کر چلا گیا، یہاں تک کہ غائب ہو گیا، پھر لوگ کہنے لگے: آیا آیا، اس طرح دو یا تین بار ہوا

    (ترمذی: 3780)

    امام ترمذی کہتے ہیں:
    یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

    قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
    yeh hadith kesi hai

    اسلام

    علازمہ جوزی رحمہ اللہ اپنی کتاب الرَّدُّ عَلَى المتعصَّب الَعِنيدْ المَانِعِ مِنْ ذَمَّ يَزيد میں حسن سند کے ساتھ ایک روایت لائے ہیں جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک لایا گیا اور یزید بن معاویہ کے سامنے رکھا گیا تو اس نے ایک شعر پڑھا۔

    ’’اے کاش بدر میں قتل ہونے والے میرے اشیاخ بنو خزرج کا نیزوں کی ضربوں سے چیخنا چلانا دیکھتے پس وہ خوشی سے نعرے بلند کرتے اور خوشی سے ان کے چہرے دمک اٹھتے پھر غائبانہ طور پر مجھے دعا دیتے ہوئے کہتے کہ تمہارے ہاتھ کبھی بیکار نہ ہوں
    مجاہد تابعی کہتے ہیں یزید نے پھر اس معاملے میں منافقت کا سہارا لیا اور اپنے لشکر کے ہر فرد کو ملامت کی اور بُرا بھلا کہا (اخبار الطوال ص 267، البدایۃ و النہایۃ 8 – 192)

    eska b batein

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      إس پر سوال کیا ہے ؟

      راوی صرف بیان کر رہا ہے کہ ایک سانپ وہاں مسجد میں دیکھا گیا
      اس کا ان مقتولین سے کوئی تعلق نہیں
      سانپ ہمارے نزدیک موذی جانور زندوں کے لئے ہے مردوں کے لئے نہیں

      اخبار الطوال مجہولین کی روایت کردہ روایات کا مجموعہ ہے

      Reply
  98. Abdullah

    Asslamualikum
    Allaah ap ko jannat ul firdos mein jaga dy ameen. Allaah ap ko mazeed dein ki fiqh dy. Sheikh Mary lea bhi dua kr dija ga. Allaah mujy bhi gahri fiqh dy ameen

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      Wallaikum Assalam

      Allah ap ki madad karay aur fiqah mai izafah karay.

      Ameen

      Reply
  99. jawad

    السلام و علیکم و رحمت الله

    صحیح بخاری کی ایک روایت کے حوالے سے متعلق ایک عالم کا یہ کلپ سننے کو ملا- اس پر آپ کی تحقیق اور راے چاہیے

    https://www.youtube.com/watch?v=YiMRx3M9N3s

    آپ کے جواب کا انتظار رہے گا -جزاک الله

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      و علیکم السلام

      صحیح بخاری میں ہے

      حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ سِيرِينَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، – وَعَنْ رَجُلٍ آخَرَ هُوَ أَفْضَلُ فِي نَفْسِي مِنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ -: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ النَّاسَ فَقَالَ: «أَلاَ تَدْرُونَ أَيُّ يَوْمٍ هَذَا» قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، فَقَالَ: «أَلَيْسَ بِيَوْمِ النَّحْرِ» قُلْنَا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «أَيُّ بَلَدٍ هَذَا، أَلَيْسَتْ بِالْبَلْدَةِ الحَرَامِ» قُلْنَا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ، وَأَمْوَالَكُمْ، وَأَعْرَاضَكُمْ، وَأَبْشَارَكُمْ، عَلَيْكُمْ حَرَامٌ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، أَلاَ هَلْ بَلَّغْتُ» قُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ: «اللَّهُمَّ اشْهَدْ، فَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الغَائِبَ، فَإِنَّهُ رُبَّ مُبَلِّغٍ يُبَلِّغُهُ لِمَنْ هُوَ أَوْعَى لَهُ» فَكَانَ كَذَلِكَ، قَالَ: «لاَ تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا، يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ» فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ حُرِّقَ ابْنُ الحَضْرَمِيِّ، حِينَ حَرَّقَهُ جَارِيَةُ بْنُ قُدَامَةَ، قَالَ: أَشْرِفُوا عَلَى أَبِي بَكْرَةَ، فَقَالُوا: هَذَا أَبُو بَكْرَةَ يَرَاكَ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: فَحَدَّثَتْنِي أُمِّي عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، أَنَّهُ قَالَ: لَوْ دَخَلُوا عَلَيَّ مَا بَهَشْتُ بِقَصَبَةٍ

      اس روایت کی سند میں کٹر اہل سنت ہیں

      اس مولوی کے مطابق امام ابن سیرین – علی رضی اللہ عنہ کے خلاف روایت گھڑ رہے تھے

      یہ مولوی جاہل ہیں یہ وہ کبوتر ہیں جو بلی دیکھ کر آنکھ بند کر رہے ہیں
      کیا امام بخاری ناصبی تھے ؟
      کسی نے یہ امام بخاری پر الزام نہیں دیا

      اور صحیح سند سے متعدد لوگوں نے علی کے ان غیر شرعی احکام کا ذکر کیا اور شرحیں لکھی گئیں کہ علی کو صحیح حکم سنت نہیں پہنچا تھا

      علی رضی اللہ عنہ نے غالی لوگوں کو بھی جلوایا تھا اور ابن عباس رضی اللہ عنہ جو بصرہ میں علی کے گورنر تہے جب ان کو خبر ملی تو انہوں نے کہا کہ اللہ کے نبی نے جلوانے سے منع کیا ہے

      علی کو یہ حدیث نہیں پہنچی تھی اور وہ لوگوں کو جلوا رہے تھے

      ابن سبا کو بھی علی نے جلوایا

      اگر یہ علی کی کریکٹر کو صحیح رخ سے نہیں دیکھا جا رہا اور یہ ناصبی روایات ہیں تو شیعان علی کے لٹریچر کو دیکھیں جس میں موجود ہے کہ علی نے کوفہ میں لوگوں کو جلانے کا حکم دیا اور یہ مورخین و محدثین نے بھی
      لکھا ہے

      ابن حجر نے بھی اس واقعہ کو رد نہیں کیا ہے بلکہ کسی شارح نے نہیں کیا

      Reply
      1. jawad

        جزاک الله

        لیکن روایت میں ہے یہ کہ انہوں نے اہل شام کے اس گروہ کو جن میں ایک صحابی’رسول ابن الحضرمی رضی الله عنہ بھی شامل تھے کو زندہ جلوا دیا – آخر ان کا کیا قصور تھا؟؟ کیا بغاوت کے جرم میں ایسا کیا گیا تھا ؟؟ جبکہ بغاوت تو عثمان غنی رضی الله عنہ کے خلاف بھی رچی گئی تھی ؟؟

        غالی فرقہ بنو حنفیہ اور عبدللہ ابن سبا تو مرتد ہوگئے تھے- علی رضی الله عنہ کو انہوں رب تسلیم کرلیا تھا -اس لئے علی رضی الله عنہ نے ان کو زندہ جلوانے کی سزا دی – لیکن بعد میں رجوع بھی کرلیا تھا اپنی اس غلطی سے

        بعض شیعہ علما اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ علی رضی الله عنہ سے اجتہادی غلطی صادر ہوئی تھی کہ انہوں نے بعض لوگوں کو زندہ جلوایا تھا – لیکن ان کے مطابق اس فعل میں صرف علی رضی الله عنہ منفرد نہیں – ان کا کہنا ہے کہ بعض خلفا راشدین (غالباً) عمر رضی الله عنہ نے ایک ہیجڑے کو لواطت کے جرم میں زندہ جلوانے کا حکم بھی دیا تھا – ؟؟

        آپ کے جواب کا انتظار ہے ؟؟

        Reply
        1. Islamic-Belief Post author

          ابن الحضرمی رضی الله عنہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے کیمپ میں تھے اور قصاص عثمان کے حوالے سے لوگوں کو اپروچ کر رہے تھے
          اس سے ان کو روکا گیا اور وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک گھر میں جمع ہو گئے وہاں اس گھر کو ہی اگ لگا دی گئی
          جس میں یہ سب جل کر شہید ہو گئے

          آپ نے لکھا
          – لیکن بعد میں رجوع بھی کرلیا تھا اپنی اس غلطی سے

          اس کی دلیل نہیں ہے

          خلفاء نے کسی کو ہم جنسیت میں سزا دی ہو اس پر کوئی صحیح السند روایات نہیں ہیں

          كتب خالد بن الوليد إلى أبي بكر الصديق رضي الله عنهما , أنه وجد رجلاً في بعض ضواحي العرب ينكح كما تنكح المرأة , فجمع لذلك أبو بكر أصحاب الرسول صلى الله عليه وسلم وفيهم علي بن أبي طالب رضي الله عنه فقال: إن هذا الذنب لم تعمل بهِ أمة إلا أمة واحدة ففعل الله بهم ما قد علمتم , أرى أن نحرقه بالنار , فأمر به أبو بكر أن يحرق بالنار , فحرقه خالد بن الوليد رضي الله عنه

          یہ روایت دو جگہ ہے
          الخرائطي في كتابه مساوئ الأخلاق بَابُ مَا فِي اللِّوَاطِ مِنَ التَّغْلِيظِ وَأَلِيمِ الْعَذَابِ

          البهقي في شعب الإيمان من طريق ابن ابي الدنيا
          سند منقطع ہے
          https://al-maktaba.org/book/31615/28828#p3

          Reply
  100. aysha butt

    انساب اشراف میں ہے کہ آونٹ والے پہ لعنت مہار والے پہ اور ہانکنے والے پہ اس میں معاویہ ان کے باپ اور بھائی پہ لعنت ہے کیسی حدیث ہے
    اسر دوسری بات یہ کہ آپ کی بکس ڈوانلوڈ نہیں ہورہی
    کیا مسئلہ ہے

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      آونٹ والے پہ لعنت مہار والے پہ اور ہانکنے والے

      اس قسم کی روایت کا علم نہیں

      میرے پاس داؤن لوڈ ہو رہی ہیں

      کون سی کتاب نہیں ہو رہی اس کا بتائیں

      Reply
      1. aysha butt

        book ka naam btya hai
        ansab ul ashraf mn hai yeh riwayt oont wali
        mirza jhelmi ne bayn ki hai tv pe …
        ik or bhi hai jis mn hai k agr kisi k dil mn ahlebayt ka bughz ho uski namzon or rozon ka koi fyda nahi yeh kaisihai….
        or apki koi b kitab download nahi ho rahi… jesy hi download ko press kro to ik pg khulta hai jis pr likha ata . this is something embressing… like
        ap k pas apni jitni books k pdf save hai laptop mn wo es email pe bejh dein…..

        Reply
        1. Islamic-Belief Post author

          انساب الاشراف میں اس کی کوئی سند نہیں ہے

          قصہ گو کا قول ہے

          Downloading issues are fixed – please check

          Reply
  101. ھانیہ

    https://youtu.be/fh8bPcXFdlw

    دوسرا وڈیو

    السلام عليكم

    ایک مولوی طارق مسعود فرما رہے ہیں کریڈٹ کارڈ کی قیمت وقت پر ادا نہ کرنا سود ہے یعنی اپ نے agreement کیا کہ اس وقت تک pay کر دونگا اور pay نہیں کیا تو اس پر اپ کو ایکسڑا پے منٹ کرنی ہوتی ہے اور وہ سود ہے

    https://youtu.be/O2vGyr7S_5Q

    غامدی کی بات زیادہ مناسب لگ رہی ہے کہ کہ جیسے بجلی کا بل وقت پر ادا نہیں کرنے سے اپ جرمانہ ادا کرتے ہیں بالکل ایسے ہی کریڈٹ کارڈ کا معاملہ ہے سود کہاں سے شمار ہوگا اپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      credict

      کا مطلب ہے کہ بینک آپ کو قرض دے رہا ہے اور ظاہر ہے جب وقت پر آپ پیسے واپس نہیں کریں گے تو جرمانہ ہوتا ہے
      لہذا یہ جرمانہ ہے سود نہیں ہے

      بعض بینک اپنی طرف سے سود شامل کر سکتے ہیں مطلقا اس میں سود نہیں ہوتا

      Reply
  102. aysha butt

    hazrat abu bakr ki hukmat 2 saal rahi to kia khumas or maal e feh ka hissa ahlebayt ko nahi mil raha tha k unhon ne mutalba kia k humaye humara hissa dia jaye jese k uner r.a ne bd mn mn un k sipurd b kia

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      مال فی اور خمس کے حق دار صرف اہل بیت نہیں ہیں اس میں مسافر کا مسکین کا اللہ کا اس کے رسول کا بھی حصہ ہے
      مطالبہ یہ تھا اس کے اکاؤنٹس مکمل کنٹرول اہل بیت کو دے دیا جائے وہی باقی لوگوں بھی دے دیں گے
      یہ مطالبہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے نزدیک قابل قبول نہیں تھا کیونکہ اہل بیت کو نہ تو امت کے مسکین کا علم ہے نہ مسافر کا
      یہ تو ایک حکومت ہی کر سکتی ہے جس کا مطالبہ علی رضی اللہ نے کیا

      Reply
  103. aysha butt

    https://youtu.be/DrsqfHKLi84
    abuzar k baray mn yeh. malomat kia drust hai.. k unko kaha gya nabi s aw ki trf. se k apko 2 br shehr bdr kia gya or wo sahaba k maal jorne k khilaf the…. unko madina se syria bejha gya whn maal jaama krne se mana krty mavia r.a ko. to unko letter likga usman r.a k inko wapis bula lein in ki shahdt usman r a k dour mn hoi thi kia… wo maal k jorne ko aesho eshrat se tabber krty the
    or saad bin ubadah ko kia teer maar ki shaheed kia gya tha yani qatl kia gya es mn kitni sachai hai.

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      ابو ذر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ روایات سندا صحیح نہیں ہیں

      ان روایات میں اضطراب متن ہے اور بعض اسلام و قرآن کے خلاف ہیں مثلا کسی بھی صحابی کا یہ موقف رکھتا کہ سونا رکھنا حرام ہے خلاف قرآن ہے

      اسی وجہ سے ان قصوں کو بیان کیا جاتا ہے تاکہ ثابت کیا جا سکے کہ قرآن بدلا گیا ہے

      ان قصوں میں ثابت کیا جاتا ہے کہ عثمان و معاویہ رضی اللہ عنہم نے ابو ذر کو ملک بدر کر دیا تھا اور اس عمل کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو ذر رضی اللہ عنہ کو دے چکے تھے
      یہ سب جھوٹ و فریب ہے – جب متن کو جمع کیا جائے تو کسی میں کچھ ہے کسی میں کچھ اور مضطرب روایات رد ہوتی ہیں ان کو ملا کر ایک لمبا خود ساختہ قصہ نہیں بنایا جا سکتا

      یہ پروپیگنڈا ہے جو عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف کیا گیا

      مکمل تفصیل عثمان رضی اللہ عنہ پر میری کتاب صفحہ ١٠٣ پر ہے
      https://www.islamic-belief.net/asbooks3/

      Reply
  104. Nasir

    السلام علیکم

    اس روایت کے بارے میں آپ کیا کہینگے؟ اور اس حوالے سے سچ کیا ہے؟

    حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْأَصْبَهَانِيُّ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ الْجَهْمِ، ثنا الْحُسَيْنُ بْنُ الْفَرَجِ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ أُمِّ بَكْرٍ بِنْتِ الْمِسْوَرِ قَالَتْ: «كَانَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ سُمَّ مِرَارًا كُلُّ ذَلِكَ يَفْلِتُ حَتَّى كَانَتِ الْمَرَّةُ الْأَخِيرَةُ الَّتِي مَاتَ فِيهَا، فَإِنَّهُ كَانَ يَخْتَلِفُ كَبِدُهُ، فَلَمَّا مَاتَ أَقَامَ نِسَاءُ بَنِي هَاشِمٍ النَّوْحَ عَلَيْهِ شَهْرًا» قَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ قَالَ: «مَكَثَ النَّاسُ يَبْكُونَ عَلَى الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ وَمَا تَقُومُ الْأَسْوَاقُ» قَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَحَدَّثَتْنَا عُبَيْدَةُ بِنْتُ نَائِلٍ، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ سَعْدٍ قَالَتْ: «حَدَّ نِسَاءُ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ سَنَةً» قَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَثَنَا دَاوُدُ بْنُ سِنَانٍ، سَمِعْتُ ثَعْلَبَةَ بْنَ أَبِي مَالِكٍ قَالَ: «شَهِدْنَا الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ يَوْمَ مَاتَ وَدَفَّنَاهُ بِالْبَقِيعِ وَلَوْ طُرِحَتْ إِبْرَةٌ مَا وَقَعَتْ إِلَّا عَلَى رَأْسِ إِنْسَانٍ» قَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَحَدَّثَنِي مَسْلَمَةُ، عَنْ مُحَارِبٍ قَالَ: «مَاتَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ سَنَةَ خَمْسِينَ خَلَوْنَ مِنْ رَبِيعِ الْأَوَّلِ، وَهُوَ ابْنُ سِتٍّ وَأَرْبَعِينَ سَنَةٍ وَصَلَّى عَلَيْهِ سَعِيدُ بْنُ الْعَاصِ وَكَانَ يَبْكِي وَكَانَ مَرَضُهُ أَرْبَعِينَ يَوْمًا

    مستدرک الحاکم – 4804

    جزاک اللہ

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      ان اسناد میں مجہولین ہیں
      أُمِّ بَكْرٍ بِنْتِ الْمِسْوَرِ
      عُبَيْدَةُ بِنْتُ نَائِلٍ

      Reply
  105. aysha butt

    saad bin ubadah kis bina pr shaheed hoye kia qissa es k peechey
    or khalid bin walid ne malik bin nuwaira ko maar dala glt information milne pr k wo un mn se hai jo qabail zakat nae de rahy thy daur e abu bakr mn

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      سعد بن عبادہ کسی تیل کو پیتے تھے – عربوں میں تیل پینے کا رواج تھا – حدیث میں کلونجی کے تیل کا بہ ذکر ہے
      سعد کے لئے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ضرورت سے زائد کاسٹر آئل پیا جس میں ان کی وفات ہو گئی

      خالد کے قصے کا علم نہیں

      Reply
  106. aysha butt

    sahaba mn 12 munafiq hai es pr tafseel de dein. us blog ka link dedein

    Reply
  107. aysha butt

    kia hazrat umer r a ne ik shkhs ko es lie maar dala k woh surah عبس ki tilawat krta tha br br … unhon ne es ko Nabi a.s ki toheen samjha kesi hadith hai yeh..
    malik bin nuwaira sihabi the kia or kesy qatal hoye…
    toheen ki tareef kia hogi ap k nazdeek…
    kia sahaba k glt faislo pe tankeex krna ya unko us bunyad pr glti pr samjhna toheen hogi… ya un k lie glt ilfaz ka estamal toheenkhilae ga….

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      کہا جا رہا ہے کہ بعض منافقین صرف سورہ عبس پڑھتے تھے اس پر ان کو قتل کر دیا گیا

      تفسير سورة عبس من كتاب حدائق الروح والريحان في روابي علوم القرآن المعروف بـحدائق الروح والريحان .
      لمؤلفه محمد الأمين الهرري . المتوفي سنة 1441 هـ
      روي أن عمر بن خطاب – رضي الله عنه – بلغه أن بعض المنافقين يؤم قومه، فلا يقرأ فيهم إلا سورة عبس، فأرسل إليه فضرب عنقه، لما استدل بذلك على كفره

      اس قصے کی سند نہیں ہے محض بے پر کی اڑا دی ہے

      اصحاب رسول رضی اللہ عنہ کے فیصلوں پر تنقید خوارج کا عمل ہے چاہے عثمان رضی اللہ عنہ پر تقید ہو یا معاویہ رضی اللہ عنہ پر

      مالك بن نويرة دور نبوی میں مسلمان ہوا لیکن پھر یہ شخص مرتد ہوا اور دور ابو بکر رضی اللہ عنہ میں اس کا قتل دیگر مرتدوں کے ساتھ ہوا

      واختلف فى مالك بن نويرة، فقيل قتل كافرا، وقيل مسلما.
      العقد الثمين فى تاريخ البلد الأمين

      اس کے قتل میں اختلاف ہے کہ مسلمان قتل ہوا یا کافر

      آجکل میڈیا میں دور ابی بکر میں جن مرتدین کا قتل ہوا ان کو مسلمان ثابت کیا جا رہا ہے یہ ایک مہم ہے اس کا اختتام اس نتیجہ پر ہو گا کہ دعوی نبوت کرنے والوں کو بھی قتل نہ کیا جائے گا مثلا غلام احمد کی مثال موحود ہے

      Reply
  108. jawad

    السلام و علیکم و رحمت الله

    امید ہے آپ خیریت سے ہونگے

    امام ابن کثیر البدایہ والنہایہ میں ابنِ عساکر کے حوالے سے یہ خواب بیان کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں

    قال ابن عَسَاكِرَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْفَضْلِ مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْفَضْلِ بْنِ الْمُظَفَّرِ الْعَبْدِيُّ قَاضِي الْبَحْرَيْنِ- مِنْ لَفْظِهِ وَكَتَبَهُ لِي بِخَطِّهِ- قَالَ: رَأَيْتُ يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ فِي النَّوْمِ فَقُلْتُ لَهُ: أَنْتَ قَتَلْتَ الْحُسَيْنَ؟
    فَقَالَ: لَا! فَقُلْتُ لَهُ: هَلْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ؟ قَالَ: نَعَمْ، وَأَدْخَلَنِي الْجَنَّةَ.

    مگر مجھے یہ خواب ابنِ عساکر کی تاریخ میں کہیں نہیں ملا ؟؟؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      و علیکم السلام

      اس کا ذکر ابن کثیر نے البدایہ میں کیا ہے

      وقال ابن عساكر: حدثنا أبو الفضل محمد بن محمد بن الفضل بن المظفر العبدي قاضي البحرين من لفظه وكتبه لي بخطه – قال: رأيت يزيد بن معاوية في النوم فقلت له: أنت قتلت الحسين؟

      فقال: لا!

      فقلت له: هل غفر الله لك؟

      قال: نعم، وأدخلني الجنة.

      لیکن یہ ضروری نہیں کہ یہ تاریخ دمشق کی روایت ہو – ابن عساکر کی کسی اور کتاب میں بھی ہو سکتا ہے جو معدوم ہو گئی

      Reply
      1. jawad

        جزاک الله

        کیا یہ بات صحیح ہے کہ تاتاریوں نے اندلس اور مشرق وسطیٰ پر حملوں میں بہت سی اسلامی کتب دریا برد کردیں تھیں اور اسلامی تاریخ کا بڑا حصّہ اسی میں برباد ہو گیا-؟؟

        Reply
        1. Islamic-Belief Post author

          تاتاریوں کے حملے میں شہر کے شہر تباہ ہوئے اور عمارات کو اگ لگائی گئی اس میں کافی کچھ جل گیا
          ممکن ہی کہ اسلامی تاریخ بعض ایسی کتب ہوں جو جل گئی ہوں جن کے نسخے صرف چند مقام پر تھے
          امکان ہے ثبوت نہیں ہے

          Reply
  109. Shabana

    السلام علیکم، اس حدیث کے حوالے سے آپ کیا کہینگے

    أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ الشَّيْبَانِيُّ، ثَنَا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى الذُّهْلِيُّ، ثَنَا مُسَدَّدٌ، ثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ حَكِيمٍ، حَدَّثَتْنِي جَدَّتِي الرَّبَابُ، قَالَتْ: سَمِعْتُ سَهْلَ بْنَ حُنَيْفٍ، يَقُولُ: مَرَرْنَا بِسَيْلٍ فَدَخَلْتُ فَاغْتَسَلْتُ فِيهِ، فَخَرَجْتُ مَحْمُومًا، فَنُمِيَ ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «مُرُوا أَبَا ثَابِتٍ يَتَعَوَّذَ» قَالَ: فَقُلْتُ: يَا سَيِّدِي وَالرُّقَى صَالِحَةٌ؟ فَقَالَ: «لَا رُقَى إِلَّا فِي نَفْسٍ أَوْ حُمَةٍ أَوْ لَدْغَةٍ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخْرِجَاهُ “” [التعليق – من تلخيص الذهبي] 8270 – صحيح

    سدرک الحاکم 8270

    اس کے علاوہ حدیث نمبر 8282 – 8283
    حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَفَّانَ الْعَامِرِيُّ، ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، ثَنَا أَبُو خَالِدِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّالَانِيُّ، وَحَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِي، ثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحُسَيْنِ، ثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، ثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: “” مَنْ عَادَ مَرِيضًا لَمْ يَحْضُرْ أَجَلُهُ، فَقَالَ عِنْدَهُ سَبْعَ مَرَّاتٍ: أَسْأَلُ اللَّهَ الْعَظِيمَ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ أَنْ يَشْفِيَكَ وَيُعَافِيَكَ، إِلَّا عَافَاهُ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ الْمَرَضِ «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَلَمْ يُخْرِجَاهُ بَعْدَ أَنِ اتَّفَقَا عَلَى حَدِيثِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو بِإِسْنَادِهِ، كَانَ يُعَوِّذُ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ» [التعليق – من تلخيص الذهبي] 8282 – على شرط البخاري ومسلم

    جزاک اللہ

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      و علیکم السلام

      دم جس میں شرکیہ الفاظ نہ ہوں جائز ہے

      دونوں روایات میں دم کا ذکر ہے اور اللہ تعالی سے دعا کی گئی ہے

      Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      و علیکم السلام

      علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اجماع امت دور اصحاب رسول میں نہیں
      تھا – عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور متعدد اصحاب رسول نے مدینہ میں ہونے کے باوجود ان کی بیعت نہیں کی تھی – اس کی وجہ ظاہر ہے کہ معلوم ہے کہ خلیفہ وقت کو قتل کرنے والوں سے قوت حاصل کر کے علی رضی اللہ عنہ خلیفہ ہو گئے تھے

      اس پر جب جنگ ہوئی اور جنگ ختم ہوئی تو ١٠٠ – ٢٠٠ سال کے اندر روایات مشہور ہوئیں جن میں روایات ہیں کہ عمار کو قتل باغی گروہ کرے گا اس روایت کو صحیح البخاری کی تدوین کے بعد میں کہیں ڈالا گیا ہے کیونکہ یہ صحیح کے تمام نسخوں میں نہیں – اس پر مکمل بحث عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا میں ہے

      https://www.islamic-belief.net/%d8%b9%d9%85%d8%a7%d8%b1-%da%a9%d9%88-%d8%a8%d8%a7%d8%ba%db%8c-%da%af%d8%b1%d9%88%db%81-%d9%82%d8%aa%d9%84-%da%a9%d8%b1%db%92-%da%af%d8%a7/

      اسی طرح صحیح بخاری کے تمام ابواب امام بخاری کے قائم کردہ نہیں ہیں اس کی وضاحت الباجی نے کی ہے

      ‏ کتاب التعديل والتجريح , لمن خرج له البخاري في الجامع الصحيح از أبو ‏الوليد سليمان بن خلف بن سعد بن أيوب بن وارث التجيبي القرطبي الباجي ‏الأندلسي (المتوفى: 474هـ) کے مطابق ‏
      وَقد أخبرنَا أَبُو ذَر عبد بن أَحْمد الْهَرَوِيّ الْحَافِظ رَحمَه الله ثَنَا أَبُو إِسْحَاق الْمُسْتَمْلِي إِبْرَاهِيم بن ‏أَحْمد قَالَ انتسخت كتاب البُخَارِيّ من أَصله كَانَ عِنْد مُحَمَّد بن يُوسُف الْفربرِي فرأيته لم يتم بعد ‏وَقد بقيت عَلَيْهِ مَوَاضِع مبيضة كَثِيرَة مِنْهَا تراجم لم يثبت بعْدهَا شَيْئا وَمِنْهَا أَحَادِيث لم يترجم عَلَيْهَا ‏فأضفنا بعض ذَلِك إِلَى بعض وَمِمَّا يدل على صِحَة هَذَا القَوْل أَن رِوَايَة أبي إِسْحَاق الْمُسْتَمْلِي وَرِوَايَة ‏أبي مُحَمَّد السَّرخسِيّ وَرِوَايَة أبي الْهَيْثَم الْكشميهني وَرِوَايَة أبي زيد الْمروزِي وَقد نسخوا من أصل ‏وَاحِد فِيهَا التَّقْدِيم وَالتَّأْخِير وَإِنَّمَا ذَلِك بِحَسب مَا قدر كل وَاحِد مِنْهُم فِي مَا كَانَ فِي طرة أَو رقْعَة ‏مُضَافَة أَنه من مَوضِع مَا فأضافه إِلَيْهِ وَيبين ذَلِك أَنَّك تَجِد ترجمتين وَأكْثر من ذَلِك مُتَّصِلَة لَيْسَ بَينهمَا ‏أَحَادِيث وَإِنَّمَا أوردت هَذَا لما عني بِهِ أهل بلدنا من طلب معنى يجمع بَين التَّرْجَمَة والْحَدِيث الَّذِي ‏يَليهَا وتكلفهم فِي تعسف التَّأْوِيل مَا لَا يسوغ وَمُحَمّد بن إِسْمَاعِيل البُخَارِيّ رَحمَه الله وَإِن كَانَ من ‏أعلم النَّاس بِصَحِيح الحَدِيث وسقيمه فَلَيْسَ ذَلِك من علم الْمعَانِي وَتَحْقِيق الْأَلْفَاظ وتمييزها بسبيل ‏فَكيف وَقد روى أَبُو إِسْحَاق الْمُسْتَمْلِي الْعلَّة فِي ذَلِك وَبَينهَا إِن الحَدِيث الَّذِي يَلِي التَّرْجَمَة لَيْسَ ‏بموضوع لَهَا ليَأْتِي قبل ذَلِك بترجمته وَيَأْتِي بالترجمة الَّتِي قبله من الحَدِيث بِمَا يَلِيق بهَا

      أَبُو ذَر عبد بن أَحْمد الْهَرَوِيّ نے خبر دی الْمُسْتَمْلِي نے کہا میں نے وہ نسخہ نقل کیا جو الْفربرِي ‏کے پاس تھا پس میں نے دیکھا یہ ختم نہیں ہوا تھا اور اس میں بہت سے مقامات پر ترجمہ یا ‏باب قائم کیے ہوئے تھے جس میں وہ چیزیں تھیں جو اس باب کے تحت ثابت نہیں تھیں اور ‏احادیث تھیں جن کے تراجم (یا ابواب) نہ تھے پس ہم نے ان میں اضافہ کیا بعض کا بعض میں ‏اور اس قول کی صحت پر دلالت کرتا ہے کہ الْمُسْتَمْلِي اور السَّرخسِيّ اور الْكشميهني اور أبي زيد ‏الْمروزِي نے سب نے ایک ہی نسخہ سے نقل کیا ہے جس میں تقدیم و تاخیر تھی اور یہ اس ‏وجہ سے تھا کہ ان سب کی حسب مقدار جو طرة میں تھا یہ اضافی رقْعَة پر موجود تھا جو اس ‏مقام پر لگا تھا اس کا اضافہ کیا گیا اور اس کی تبین ہوتی ہے کہ دو ابواب ایک سے زیادہ مقام ‏پر ہیں اور ابواب ملے ہیں حدیث نہیں ہے اور ایسا ہی مجھ کو ملا جب اہل شہر نے مدد کی ‏کہ ابواب کو حدیث سے ملا دیں اور تاویل کی مشکل جھیلی جو امام بخاری کے نزدیک تھی اور ‏اگرچہ وہ لوگوں میں حدیث کے صحیح و سقم کو سب سے زیادہ جانتے تھے لیکن علم معنی ‏اور تحقیق الفاظ اور تمیز میں ایسے عالم نہیں تھے تو کیسے (ابواب کی تطبیق حدیث سے ) ‏کرتے – اور الْمُسْتَمْلِي نے اس کی علت بیان کی کہ ایک حدیث اور اس سے ملحق باب میں ‏حدیث ہوتی ہے جو موضوع سے مناسبت نہیں رکھتی
      معلوم ہوا کہ صحیح بخاری کے ابواب کا بہانہ نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ اس میں ابہام ہے کہ کون سا باب لوگوں کا ‏قائم کردہ ہے اور کون سا امام بخاری نے خود قائم کیا ہے ‏

      اب جب اس روایت پر ہی کہا جا ہے کہ اس کو بعد میں کسی کتابت میں شامل کر دیا تھا یعنی
      کاتب کی شرارت تھی تو پھر اس بنیاد پر معاویہ رضی اللہ عنہ پر تنقید حق بجانب نہیں

      تَقْتُلُكَ الفِئَةُ البَاغِيَةُ”
      پر امام احمد کا موقف ہے کوئی بھی سند صحیح نہیں ہے
      .
      قَالَ يَعْقُوْبُ بنُ شَيْبَةَ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بنَ حَنْبَلٍ سُئِلَ، عَنْ هَذَا فَقَالَ: فِيْهِ غَيْرُ حَدِيْثٍ صَحِيْحٍ، عَنِ النَّبِيِّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وَكَرِهَ أَنْ يَتَكَلَّمَ فِي هَذَا بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا

      اللہ تعالی نے اصحاب رسول کو راشدوں یعنی ہدایت یافتہ کہا ہے صرف چار مردوں کو نہیں کہا
      لہذا اصحاب رسول تمام راشد ہیں اور ان کی اپس کی جنگوں کے فیسلے اللہ کرے گا کہ کون حق پر تھا – ابھی یہ فیصلہ ہونا باقی ہے -ہم کو حق نہیں کہ ہم کہیں کہ فلاں حق پر تھا اور فلاں باغی تھا
      جب قتل ہو قصاص فرض ہے اور حاکم کا قصاص نہ کرنا گناہ کبیرہ ہے یہ بھی معلوم ہے
      لہذا اس پر اب ہم کیا بولیں – دلائل دونوں طرف ہیں ایک طرف روایات ہیں جن میں شک ہے کہ بعد میں صحیح میں شامل کی گئی ہیں اور دوسری طرف قرآن ہے

      قصاص کا حکم قرآن کا ہے اور کلام اللہ سب پر حاوی ہے

      Reply
  110. Shabana

    السلام علیکم

    کیا آدمؑ کا جنت میں لباس ناخن تھے؟

    (۳۳۲۰) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو صَادِقِ بْنِ أَبِی الْفَوَارِسِ الْعَطَّارُ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ: مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ عَفَّانَ حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ عَنْ سُفْیَانَ أَظُنُّہُ عَنْ عَمْرِو بْنِ قَیْسٍ الْمُلاَئِیِّ عَنِ الْمِنْہَالِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: کَانَ لِبَاسُ آدَمَ وَحَوَائَ عَلَیْہِمَا السَّلاَمُ الظُّفُرَ ، فَلَمَّا أَکَلاَ الشَّجَرَۃَ لَمْ یَبْقَ مِنْہُ شَیْئٌ إِلاَّ مِثْلَ الظُّفُرِ فَطَفِقَا یَخْصِفَانِ عَلَیْہِمَا مِنْ وَرَقِ الْجَنَّۃِ قَالَ: وَرَقُ التِّینِ۔ [صحیح۔ اخرجہ الحاکم ۲/ ۳۵۰]

    أَخْبَرَنِي عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَلِيٍّ الْبَزَّازُ، بِبَغْدَادَ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْحَمِيدِ الْجُعْفِيُّ، ثنا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبَانَ، ثنا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ الْمُلَائِيُّ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «كَانَ لِبَاسُ آدَمَ وَحَوَّاءَ مِثْلَ الظُّفُرِ، فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ، جَعَلَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا، مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ» . قَالَ: هُوَ وَرَقُ التِّينِ «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخْرِجَاهُ»
    [التعليق – من تلخيص الذهبي] 3245 – صحيح

    حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوّا علیہا السلام کا لباس ناخنوں کی طرح ہوتا تھا جب انہوں نے شجر ممنوعہ چکھ لیا تو وہ اپنے بدن پر جنت کے ( درختوں کے ) پتے چپکانے لگے ( راوی ) فرماتے ہیں : وہ زیتون کے درخت کے پتے تھے ۔
    ٭٭ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اسے نقل نہیں کیا ۔”

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      راویت میں ہے کہ لباس مثل ناخن تھا اور پھر شجر ممنوعہ کھاتے ہی صرف ناخن رہ گئے
      سند کمزور ہے سفیان مدلس کا عنعنہ ہے

      ناخن اگر جنت کا باقی رہ گیا لباس ہوتا تو اسلام میں اس کو فطرت سمجھا جاتا کہ اس کو کاٹا نہیں جاتا
      صحیح حدیث میں ہے کہ فطرت میں سے ہے ناخن کاٹنا – اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو فطرت پر ہی پیدا کیا
      ناخن اس طرح نہیں ہو سکتا کہ آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق گندگی بن جائے اور اس کو جسم سے ہٹایا جائے

      لہٰذا مستدرک حاکم کی روایت صحیح حدیث کے خلاف ہے منکر ہے

      المنھال بن عمرو سبائی عقائد اس امت میں پھیلاتا رہا ہے مثلا عود روح کا عقیدہ اور اسی طرح آدم و حوا کا لباس ناخن جتنا رہ گیا ایک یہودی حکایت ہے

      The Torah states that when Adam and Eve sinned in the Garden of Eden and realized they were naked, God clothed them in כותנות עור/kutnot or, “garments of leather,” to hide their shame. Midrashic interpreters enjoyed a little word play, swapped a letter alef for ayin, and said that up until they sinned, Adam and Eve wore כותנות אור/kutnot or, “garments of light.” “They were smooth as nail and radiant like pearls” [Bereshit Rabbah 20.12].

      تورات میں بتایا گیا ہے کہ جب آدم اور حوا نے عدن کے باغ میں گناہ کیا اور انہیں احساس ہوا کہ وہ ننگے ہیں، خدا نے انہیں “کتنوت عور” یعنی “چمڑے کے لباس” میں اوڑھ کر ان کی شرم چھپائی۔ مدرشی مفسرین نے ایک چھوٹا لفظی کھیل کیا، ایک حرف ‘الف’ کو ‘عین’ کے ساتھ تبدیل کیا، اور کہا کہ جب تک انہوں نے گناہ نہیں کیا، آدم اور حوا “کتنوت اور” یعنی “روشنی کے لباس” پہنتے تھے۔ “وہ ناخن کی طرح ہموار اور موتیوں کی طرح چمکدار تھے” [بریشت ربہ 20.12]۔

      یعنی عبرانی کے کسی لفظ میں الف کو ع سے بدل کر یہ تفسیری تشریح کسی یہودی مولوی کی تھی جو کسی عبارت پر کی گئی – تلمود و مدرش دور نبوی میں تدوین ہو رہی تھی
      لہذا اس مستدرک حاکم والی روایت کا مصدر تلمود ہے

      According to Jewish lore, our nails are a little enduring remnant of our bygone Adamic (Evely?) perfection. A simple allusion comes from a medieval legal authority R. Mordecai b. Hillel

      Adam was garbed in garments of nail, which were luminous like the clouds of glory. And when he was separated from them, “they knew that they were naked.”

      https://anschechesed.org/adams-fingernails/

      Adam HaRishon was created covered by nail like material over his skin. After the sin it was removed, remaining only on his fingers and toes.
      https://yaacovhaber.com/rth/fingernail-fun-facts/

      ناخن لباس نہیں جسم پر چھلکا ہے اور آدم و حوا علیھما السلام کو بہشت میں لباس ملا تھا
      قرآن میں اس کو لباس کہا گیا ہے اور لباس عربی میں
      garment
      کو کہتے ہیں

      أَخْرَجَ أَبَوَيْكُم مِّنَ الْجَنَّةِ يَنزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْآتِهِمَا

      قرآن قریش کی عربی میں ہے اور لباس کسی بھی عربی لغت میں ناخن نہیں ہے

      Reply
  111. محمد نعیم

    اسلام علیکم
    بہائی
    اسلام کے رول سے اور تاریخ میں فلسطین اور اسرائیل جو حالات ہےاور اتنا خون خرابہ قیمتے جاننے جاننا ک کیسا ہے
    اور حق کیا ہے پلیز کچھ وضاحت کردیں
    جزاک الله خیر

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      و علیکم السلام

      تاریخ قبلتین کا مطالعہ کریں – اس پیج پر ہے

      https://www.islamic-belief.net/asbooks3/

      اسلام میں کافر و اہل کتاب عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کا قتل حرام ہے
      نفرت و جنگ میں شریعت کو نہیں بدل سکتے

      Reply
  112. Shahzad Niazi

    حدثني عمرو الناقد، وزهير بن حرب ، جميعا عن ابن عيينة ، قال عمرو : حدثنا سفيان، عن الزهري ، عن سعيد ، عن ابي هريرة ، يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم: ” لا تشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد: مسجدي هذا، ومسجد الحرام، ومسجد الاقصى “.
    پروفیسر سلطان محمود جلالپوری
    مولانا عبد العزیز علوی
    سفیان نے زہری سے انھوں نے سعید (بن مسیب) سے انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی وہ اس (سلسلہ روایت) کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے تھے کہ (عبادت کے لیے) تین مسجدوں کے سوا رخت سفر نہ باندھا جائے: میری یہ مسجد، مسجد حرا م اور مسجد اقصیٰ۔”

    ابو شہریار بھائی اسی طرح اور بھی روایات ہیں جن میں مسجد اقصی کی جانب سفر کا ذکر ہے ۔۔جبکہ آپ کے بلاگ میں میں نے پڑھا کہ عمر فاروفاروق رضی نے سوائے مسجد الحرام کے منع فرمایا بھائی اس معاملے کی وضاحت فرما دیں کہ ان روایات کی حیثیت کیا ہے اگر صحیح ہیں تو ان میں مسجد الاقصی سے کیا مراد ؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      سب سے اول یہ ذہن میں رکھیں کہ اس روایت کا اردو میں ترجمہ اکثر جان بووجھ کر غلط کیا جاتا ہے
      روایات میں سفر یا رخت سفر کے الفاظ سرے سے نہیں ہیں
      بلکہ ہے
      لا تشد الرحال
      سواری نہیں کسی جائے گی
      یا جانور پر جب رحل
      saddle
      رکھا جاتا ہے
      تو اس کو
      tight
      کیا جاتا ہے تاکہ ہلے نہیں
      عربی لغت میں ہے
      وشد “الرحال” روى بحاء جمع رحل بمعنى البعير، قيل: هو ما يوضع على البعير، ثم يعبر به عن البعير
      یہ الفاظ خاص خچر پر سواری کے لئے ہیں

      درست ترجمہ ہے
      Saddle shall not be tightened
      زین کو خچر پر نہیں کسا یا جمایا جائے گا

      ———

      اصلا مسجد الاقصی کسی کو نہیں معلوم یروشلم میں کہاں تھی
      جب ایک عمارت معدوم ہو تو اس کے سفر کوئی معنی نہیں رکھتا

      عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد الاقصی نہیں بنائی تھی انہوں نے مسجد القبلی بنائی تھی
      بعد میں ٢٠٠ سال کے اندر روایات مشہور ہوئیں جن میں یہ روایت بھی ہے جس کا ذکر اپ نے کیا
      دور شیخین یعنی ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما میں یہ روایات رسول اللہ سے منسوب نہیں تھیں

      دارقطنی علل میں کہتے ہیں لا تشد الرحال کی
      وَالصَّحِيحُ حَدِيثُ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، وَقَالَ أَبُو شِهَابٍ الْحَنَّاطُ عَنْ دَاوُدَ بْنِ ‏أَبِي هِنْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ
      اور صحیح ہے حَدِيثُ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، وَقَالَ أَبُو شِهَابٍ الْحَنَّاطُ عَنْ دَاوُدَ ‏بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ
      لیکن دارقطنی کی بات صحیح نہیں ہے- کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل از العلائي (المتوفى: ‏‏761هـ) کے مطابق
      محمد بن المنكدر قال بن معين وأبو زرعة لم يسمع من أبي هريرة ولم يلقه
      محمد بن المنكدر : ابن معین اور أبو زرعة کہتے ہیں اس نے ابو ہریرہ سے نہیں سنا نہ ان سے ملاقات ‏ہوئی
      لہذا روایت اس سند سے ضعیف ہے
      اور اسی کتاب میں دارقطنی اس کی دو اور سندیں دیتے ہیں

      حدثنا النيسابوري، حدثنا محمد بن يحيى، حدثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، ‏عَنِ ابن المسيب، عن أبي هريرة، قال رسول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ‏ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ: مَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَمَسْجِدِي هَذَا، وَمَسْجِدِ الأقصى‎.‎
      صحیح بخاری و مسلم معمر بن راشد کی امام الزہری سے حدیث لکھی گئی لہذا یہ سند صحیح ہے اگرچہ تمام ‏محدثین کے نزدیک ایسا نہیں تھا- امام احمد کہتے ہیں کہ ابن مبارک نے کہا
      ما رأيت أحدًا أروى عن الزهري من معمر، إلا ما كان من يونس، فإن يونس كتب كل شيء. ‏‏«العلل» (109‏
      میں نے نہیں دیکھا کہ کوئی معمر کی امام الزہری کی روایت لکھتا ہو سوائے وہ جو یونس کی سند سے ‏ہوں
      علل دارقطنی کی دوسری سند ہے
      حدثنا محمد بن إسماعيل الفارسي، حدثنا أبو أسامة الحلبي، حدثنا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا جَدِّي، ‏عَنِ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى ‏اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: إِنَّمَا الرِّحْلَةُ إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ: إلى المسجد الحرام، ومسجدي هذا، ‏وإيلياء‎.‎
      اس روایت کی سند میں حجاج بن يوسف بن أبى منيع ، نَا جَدِّي (عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ) ‏المتوفی ١٥٩ ھ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ہے
      تاریخ الکبیر از امام بخاری کے مطابق عُبَيد اللهِ بْن أَبي زِياد، الشامي پر نہ جرح ہے نہ تعدیل ہے لیکن ‏دارقطنی نے ان کو ثقہ کہا ہے تاریخ الاسلام از الذھبی کے مطابق ولينه بعضهم بعض نے ان کو ‏کمزور کہا ہے- دوسری طرف حجاج بن يوسف بن أبى منيع کو
      الساجي: متروك الحديث کہتے ہیں
      ابن السمعاني: منكر الحديث، تركوا حديثه منکر الحدیث ہے حدیث ترک کر دو
      لہذا یہ روایت اس سند سے ضعیف ہے

      ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات کا مسئلہ ہے کہ ان کو واضح کلام کی صلاحیت حاصل نہیں تھی بسا اوقات یہ کعب احبار کے اقوال بیان کر رہے ہوتے تھے جن کو لوگ سمجھتے کہ حدیث رسول ہے
      اس کا ذکر امام مسلم نے اپنی کتاب التمیز میں کیا ہے

      کتاب التمييز( ص /175 ) کے مطابق امام مسلم نے بسر بن سعيد کا قول بیان کیا‎
      حَدثنَا عبد الله بن عبد الرَّحْمَن الدَّارمِيّ ثَنَا مَرْوَان الدِّمَشْقِي عَن اللَّيْث بن سعد حَدثنِي بكير بن ‏الاشج قَالَ قَالَ لنا بسر بن سعيد اتَّقوا الله وتحفظوا من الحَدِيث فوَاللَّه لقد رَأَيْتنَا نجالس أَبَا هُرَيْرَة ‏فَيحدث عَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم عَن كَعْب وَحَدِيث كَعْب عَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ ‏وَسلم‎
      بكير بن الاشج نے کہا ہم سے بسر بن سعيد نے کہا : الله سے ڈرو اور حدیث میں حفاظت کرو – ‏الله کی قسم ! ہم دیکھتے ابو ہریرہ کی مجالس میں کہ وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے ‏روایت کرتے اور وہ (باتیں) کعب ( کی ہوتیں) اور ہم سے کعب الاحبار ( کے اقوال) کو روایت ‏کرتے جو حدیثیں رسول الله سے ہوتیں
      احمد العلل میں کہتے ہیں
      وقال عبد الله: حدثني أبي. قال: حدثنا أبو أسامة، عن الأعمش. قال: كان إبراهيم صيرفيا في الحديث، ‏أجيئه بالحديث. قال: فكتب مما أخذته عن أبي صالح، عن أبي هريرة. قال: كانوا يتركون أشياء من ‏أحاديث أبي هريرة. «العلل‎» (‎‏946‏‎) .‎
      احمد نے کہا ابو اسامہ نے کہا اعمش نے کہا کہ ابراھیم النخعي حدیث کے بدلے حدیث لیتے ‏‏– وہ حدیث لاتے – اعمش نے کہا : پس انہوں نے لکھا جو میں نے ابو صالح عن ابو ہریرہ سے ‏روایت کیا – اعمش نے کہا : ابراھیم النخعي، ابوہریرہ کی احادیث میں چیزوں کو ترک کر ‏دیتے

      اغلبا یہ کعب احبار کا قول ہے جو ایک سابقہ یہودی تھا اور اس نے مسجد القبلی کو مسجد الاقصی مشہور کیا اور ابو ہریرہ نے جب بیان کیا تو لوگ اس کو حدیث سمجھ بیٹھے

      اصل الفاظ ہیں لا تشد الرحال سواری نہیں کسی جائے گی سوائے تین مسجدوں کے لئے یعنی جانور پر بیٹھ کر نہیں جایا جائے گا
      جبکہ ہم کو ملتا ہے سواری پر بیٹھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد قبا بھی گئے ہیں

      صحيح بخاري ميں ہے
      كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِي مَسْجِدَ قُبَاءٍ كُلَّ سَبْتٍ، مَاشِيًا وَرَاكِبًا
      نبي صلي اللہ عليہ وسلم ہر ہفتہ کو سواري پر يا پيدل مسجد قبا جاتے تھے
      اصحاب رسول بھي ايسا کرتے مثلا صحيح بخاري ميں ہے کہ ابن عمر رضي اللہ عنہ پر ہفتے مسجد قباء جاتے ‏تھے
      فَإِنَّهُ كَانَ يَأْتِيهِ كُلَّ سَبْتٍ
      اس طرح معلوم ہوا کہ سواري کسي بھي مسجد کے لئے کسي جا سکتي ہے اور لا تشد الرحال والي ‏روايت شاذہ پر خود نبي صلي اللہ عليہ وسلم کا اور ان کے اصحاب کا عمل نہيں ہے

      أحاديث معلة ظاهرها الصحة
      المؤلف: أبي عبدالرحمن مقبل بن هادي الوادعي
      میں محقق نے ان روایات کو جمع کیا ہے جو بظاہر صحیح لگتی ہیں لیکن علت ہے
      اس میں اس لا تشد الرحال کو بھی معلول روایت قرار دیا گیا ہے

      قال أبو عبد الرحمن: هذا الحديث إذا نظرت إلى سنده وجدتهم رجال الصحيح، ولكن الإمام البزار قال عقب الحديث: وهذا الحديث لا نعلمه يروى عن عمر إلا من هذا الوجه، من هذا الإسناد، وهو خطأ أتى خطؤه من حبان، لأن هذا الحديث إنما يرويه همام، وغيره عن قتادة عن قزعة عن أبي سعيد.
      ثم قال الحافظ ابن كثير كما في “مسند الفاروق” (ج1ص327) قلت: وروى الإسماعيلي من حديث الثوري، عن أبي سنان ضرار، عن عبد الله بن أبي الهذيل قال: سمعت عمر خطبنا بالروحاء فقال: لا تشد الرحال إلا إلى البيت العتيق. وهكذا رواه موقوفاً على عمر رضي الله عنه.
      اور محقق نے عمر رضی اللہ عنہ کا قول بھی نقل کیا ہے

      Reply
  113. aysha butt

    rafzi ki term malom hai zain ul abdeen ne bola to chl nikli . magr yeh nasbiat kesay or kb shru hoi.

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      ناصبی کی اصطلاح کا علم نہیں کہاں سے آئی ہے البتہ اس کا استعمال سب سے اول اہل تشیع نے کیا پھر ان کی کتب سے زبان و ادب میں یہ داخل ہوئی
      پھر اہل سنت کی کتب میں آئی
      سن دو سو ہجری کے اس پاس مخالف علی کو اہل سنت حروری کہتے تھے – محدثین کی کتب میں یہی الفاظ ملتے ہیں ناصبی کا لفظ متاخرین نے استعمال کیا ہے مثلا ابن حجر و غیرھم

      Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      اصحاب کہف زندہ تھے سو رہے تھے جب اٹھے تو نیند سے اٹھے تھے
      اس کا سماع الموتی سے کوئی تعلق نہیں ہے

      بے ہوشی موت کے قریب ہے لیکن اس سے جب بیدار ہو تو کوئی چیز معلوم نہیں ہوتی کہ کیا کیا ہوا

      Reply
  114. aysha butt

    hadith imamat e jibril sanadan kesi hai
    or us mn hai k bait ul Allah k samne namaz prhai
    es ka mutlb hijrat se phle b bayt ullah mn namaz prhi hai rusool a.s ne

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ان سے ابن شہاب نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دن عصر کی نماز کچھ دیر کر کے پڑھائی ۔ اس پر عروہ بن زبیر رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے کہا ۔ لیکن جبرئیل علیہ السلام ( نماز کا طریقہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھانے کے لیے ) نازل ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے ہو کر آپ کو نماز پڑھائی ۔ حضرت عمرو بن عبدالعزیز نے کہا ، عروہ ! آپ کو معلوم بھی ہے آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟ عروہ نے کہا کہ ( اور سن لو ) میں نے بشیر بن ابی مسعود سے سنا اور انہوں نے ابومسعود رضی اللہ عنہ سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ فرما رہے تھے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور انہوں نے مجھے نماز پڑھائی ۔ میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی ، پھر ( دوسرے وقت کی ) ان کے ساتھ میں نے نماز پڑھی ، پھر ان کے ساتھ میں نے نماز پڑھی ، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی ، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی ، اپنی انگلیوں پرآپ نے پانچوں نمازوں کو گن کر بتایا ۔

      مسجد الحرام میں ہجرت سے قبل نماز پڑھی ہے مشرکین مکہ ہر وقت وہاں نہیں ہوتے تھے – کعبہ میں رات میں تالا لگایا جاتا تھا اسی وجہ سے اس کی چابی کا ذکر ملتا ہے
      لہذا ممکن ہے کہ یہ سب رات میں ہوا ہو جب مشرک سو رہے ہوں

      و اللہ اعلم

      Reply
  115. aysha butt

    sunan abi dawod or muslim mn razaht se mutaliqp riwayt hai sunan mn 2061 number hai
    kindly es ki sanad ka bta dein

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      سند ضعیف ہے
      ام المومنین پر کتاب میں اس سب پر بحث ہے

      Reply
  116. aysha butt

    malik bin nawarah k mutalik yeh malomat hai k wo banu tamim se k sadqat madine lane pr mamor thy magr jab abu bkr r.a khalifa hoye to unhon ne sadqat lane se mana kr dia q k wo chahte k Ali rma khalifa hon. magr abubakr r.a ne khalid bin waliid to bejha.unhon ne unko mar dala bawijood es k unhon ne apna muslim hona qubool kia…. bad mn khalid rma ne malik r.a ki bivi layla se eddat k baghair nikha kia….. jab khabr umer r a ko punchi to unhon ne saza dene ka bola magr abu bakr rma ne maaf krdia

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      مالک بن نویرہ زکوات نہ دینے کی وجہ سے مرتد قرار پایا اور اس کی بیوی کو لونڈی کی طرح لیا گیا
      بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ مالک نے نبوت کا دعوی کیا

      احمد شاکر نے اس پر لکھا ہے

      إن خالدا أخذها هي وابنها ملك يمين بوصفها سبية ، إذ إن السبية لا عدة عليها ، وإنما يحرم حرمة قطعية أن يقربها مالكها إن كانت حاملا قبل أن تضع حملها ، وإن كانت غير حامل حتى تحيض حيضة واحدة ، ثم دخل بها وهو عمل مشروع جائز لا مغمز فيه ولا مطعن ، إلا أن أعداءه والمخالفين عليه رأوا في هذا العمل فرصتهم ، فانتهزوها وذهبوا يزعمون أن مالك بن نويرة مسلم ، وأن خالدا قتله من أجل امرأته وأما ما ذكره من تزوجه بامرأته ليلة قتله ، فهذا مما لم يعرف ثبوته . ولو ثبت لكان هناك تأويل يمنع الرجم . والفقهاء مختلفون في عدة الوفاة : هل تجب للكافر ؟ على قولين . وكذلك تنازعوا : هل يجب على الذمية عدة وفاة ؟ على قولين مشهورين للمسلمين ، بخلاف عدة الطلاق ، فإن تلك سببها الوطء ، فلا بد من براءة الرحم . وأما عدة الوفاة فتجب بمجرد العقد ، فإذا مات قبل الدخول بها فهل تعتد من الكافر أم لا ؟ فيه نزاع . وكذلك إن كان دخل بها ،وقد حاضت بعد الدخول حيضة .
      هذا إذا كان الكافر أصلياً . وأما المرتد إذا قتل ، أو مات على ردته ، ففي مذهب الشافعي وأحمد وأبي يوسف ومحمد ليس عليها عدة وفاة بل عدة فرقة بائنة ، لأن النكاح بطل بردة الزوج ، وهذه الفرقة ليست طلاقاً عند الشافعي وأحمد ، وهي طلاق عند مالك وأبي حنيفة ، ولهذا لم يوجبوا عليها عدة وفاة ، بل عدة فرقة بائنة ، فإن كان لم يدخل بها فلا عدة عليها ، كما ليس عليها عدة من الطلاق .
      ومعلوم أن خالدا قتل مالك بن نويرة لأنه رآه مرتداً ، فإذا كان لم يدخل بامرأته فلا عدة عليها عند عامة العلماء ، وإن كان قد دخل بها فإنه يجب عليها استبراء بحيضة ، لا بعدة كاملة ، في أحد قوليهم ، وفي الآخر : بثلاث حيض ، وإن كان كافراً أصلياً فليس على امرأته عدة وفاة في أحد قوليهم . وإذا كان الواجب استبراء بحيضة فقد تكون حاضت . ومن الفقهاء من يجعل بعض الحيضة استبراء ، فإذا كانت في آخر الحيض جعل ذلك استبراء لدلالته على براءة الرحم .
      وبالجملة فنحن لم نعلم أن القضية وقعت على وجه لا يسوغ فيها الاجتهاد ، والطعن بمثل ذلك من قول من يتكلم بلا علم ، وهذا مما حرمه الله ورسوله )

      ‏ اگر خالد نے مالک بن نویرہ کی بیوی اور اس کے بیٹے کو غنیمت کے طور پر اپنی ملک یمین میں لے لیا ہو، تو لونڈی کے ‏لئے کوئی عدت (انتظار کا وقت) نہیں ہے۔ اگر وہ حاملہ ہو تو اس سے قربت کرنا بالکل حرام ہے۔ اگر وہ حاملہ نہ ہو ‏تو اسے ایک دفعہ ماہواری ہونے تک انتظار کرنا ہوگا، اس کے بعد وہ اس سے نکاح کر سکتا ہے، اور یہ عمل قانونی طور پر ‏جائز ہے، اور اس میں کوئی اعتراض یا نقد نہیں ہے۔ پھر بھی خالد کے مخالفین نے اس عمل میں موقع دیکھا اور انہوں ‏نے دعویٰ کیا کہ مالک ابن نویرہ مسلمان تھا اور خالد نے اس کو اس کی بیوی کو حاصل کرنے مار دیا۔ جو بھی بات کی گئی ‏کہ اس نے اس کو اسی رات مار دیا جب وہ اس سے شادی کرنا چاہتا تھا، یہ ایک ایسی بات ہے جس کی حقیقت کو جانا ‏نہیں جا سکتا‏

      اگر کافر اصل میں مرتد مارا گیا ہو یا اس کی موت ہو جائے، تو شافعی، احمد، ابو یوسف، اور محمد کے مذہب میں اس کے ‏لئے کوئی موت کی عدت نہیں ہے، ‏

      اسی فقہ کو یہاں لیا گیا ہے

      ہمارے نزدیک ابو بکر رضی اللہ عنہ حق پر تھے

      Reply
  117. aysha butt

    mahdi se mutalik kitabche mn ap ne3 hadith btai hai
    jin mn2mn sihaba ko mahdi ki dua di gai hai or ikrsa a.s ko mahdi kha hai in k hawalajat de dijiekhn se hai yeh hadiths.
    or ik ik jagh apne ibne saba se mutaliq hazrat Ali ka qol lokha tha uska hawala de dein

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      نبی صلی الله علیہ وسلم نے ابی سلمہ رضی الله عنہ کے لئے دعا کی ‏
      اللهم اغفر لأبي سلمة وارفع درجته في المهديين
      اے اللہ ابی سلمہ کی مغفرت کر اور ان کا درجہ مہدیوں میں کر دے

      ‏ نبی صلی الله علیہ وسلم نے جریر بن عبد الله رضی الله عنہ کے لئے ان الفاظ کے ساتھ دعا کی ‏
      اللهم ثبته واجعله هاديا مهديا
      اے الله اس کو ثابت قدم رکھ اور اس کو ہدایت دینے والا مہدی بنا

      نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ‏
      يُوشِكُ مَنَ عَاشَ مِنْكُمْ أَنْ يَلْقَى عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ إِمَاماً مَهْدِيًّا
      مجھے شک ہے کہ تم میں سے کوئی زندہ رہے کہ اس کی عیسیٰ ابن مریم جو ہدایت دینے ‏والے امام ہیں سے ملاقات ہو ‏
      ———

      حدثنا عَمْرو بن مروزق حدثنا شُعبة، عَن سلمة بن كهيل عن زيد بن وهب قال: قال علي بن أبي طالب رضي ‏الله عنه: ما لي ولهذا الخبيث الأسود، يعني عبد الله بن سبأ – كان يقع في أبي بكر وعمر‎.‎
      زيد بن وهب نے کہا علی نے کہا میرے اور اس کالے خبیث کے بیچ کیا ہے یعنی عبد الله بن سبا – جو ‏ابو بکر اور عمر پر بد کلام کرتا ہے ‏

      Reply
      1. aysha butt

        mein ne khutb ka pocha tha kin kutb se hai yeh riwayts
        or malik bin nuwarah mn dawa e nubuwat kia kia yeh bt sabti hai orkis book mn likha hai

        Reply
        1. Islamic-Belief Post author

          جی تاریخ کی کتب میں یہ بھی موجود ہے
          سرے دست حوالہ پاس نہیں ہے

          Reply
  118. aysha butt

    theak hai isrealiat se aqeda pr riwayt nahi li ja sakti… lekin koi kehne wala keh sakta k agr hum whn se daleel le b rahy hai to Quran. mn hai in ka yani Nabi a.s k sathion ka zikr torato injee mn hai.. es lie mn estadlal krty hai … to ap kia khty es baray mn

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      اس میں وہی لیا جا سکتا ہے جس کی تائید قرآن سے ہو اس کے سوا نہیں
      مثلا کوئی قصہ جو قرآن میں نہ ہو اس کو بیان کیا جائے لیکن سننے والا سمجھ ہی نہ سکے کہ یہ سازش ہے تو کیا کریں ؟ مثلا ابن سبا نے اسرائیلیات ہی پھیلائی ہیں جن سے منکر و بد عقیدگی پھیلی

      Reply
  119. aysha butt

    Ik majous ki 3 talaqein ik hi hai ya talaq hogi
    Es pr ap ki rae kia hai

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      ایک مجلس میں تین طلاق تین ہی ہیں – ایک نہیں ہے

      Reply
  120. aysha butt

    Hajr e aswad ki tanseeb seutalik ik wawia milta to Jo masla aap s.a.w ne hul krwaya tha kia woh sahih hai
    Or Shia aalim ik hadithka tazkra kr Raha hai bukhri ki. Ka Kaaba ki tameer k waqt zyda blocks utany MN mushkil MN pr rae Rasool a s to un k chacha me kha k tehbnd khol k kandhe pe dal ki blocks rako unhon ne aisa kia or jab kid pr nazr pri tobehosh ho gye

    Kia yeh riwat bukhari MN hai k nahi sand kesi hai
    https://vt.tiktok.com/ZSNxCEoVK/

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      صحيح ہے

      Reply
  121. aysha butt

    أخبرنا محمد بن عمر. أخبرنا المنذر بن عبد الله الحزامي عن موسى بن عقبة عن أبي حبيبة مولى الزبير قال: سمعت حكيم بن حزام يقول: تزوج رسول الله – صلى الله عليه وسلم – خديجة وهي ابنة أربعين سنة ورسول الله – صلى الله عليه وسلم – ابن خمس وعشرين سنة. وكانت خديجة أسن مني بسنتين. وولدت قبل الفيل بخمس عشرة سنة وولدت أنا قبل الفيل بثلاث عشرة سنة.

    أخبرنا هشام بن محمد بن السائب عن أبيه عن أبي صالح عن ابن عباس قال:كانت خديجة يوم تزوجها رسول الله – صلى الله عليه وسلم – ابنة ثمان وعشرين سنة

    Yeh Hadith sahih hai
    Q k shiaaalimne bola k hazrat khadijaki umr nikah k waqt 28 saalthi

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      یہ تاریخی روایات ہیں اور ان میں بعض سندا صحیح ہیں اور بعض قبول کر لی گئی ہیں کیونکہ ان کے مخالف روایات اہل سنت میں نہیں تھیں

      خود اہل تشیع کے پاس صحیح سند سے نہیں ہے کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ٢٨ سال کی تھیں

      Reply
  122. aysha butt

    Sir adeem shab khty Hain Kik mozdu pr 4se 5 zaif Hadith ho to us or aml hota or usko mana jata
    khty wesy zaif. Hadith keh k radd kr dairy hai wo Shaq ul qamr ka wawia tasleem kr lety hai jab k us pr mujood ajadith zaif hai
    Ap kia kehty

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      عمل میں ضعیف احادیث کو بعض محدثین نے سن ٢٠٠ ہجری کے بعد لیا ہے لیا ہے جب صحیح السند روایت اس مسئلہ میں نہ ہو
      امام مالک اور امام ابو حنیفہ کا یہ ملسک نہیں ہے
      ان دونوں نے ضعیف کو تسلیم نہیں کیا ہے
      ٠——-
      شق القمر کا واقعہ تو سورہ القمر میں ہے

      اس کو ہم قرآن کی وجہ سے تسلیم کرتے ہیں

      Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      ‎ ‎اس جاہل نے کہا کہ میرے بندے جب میرے بارے میں سوال کریں تو ان سے کہومیں ان کے قریب ہوں ‏
      پھر اس نے اس سے یہ استخراج کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدد کے لئے پکارا جا سکتا ہے ‏

      افسوس قرآن کی وہ آیات جن سے بتایا جا رہا ہے کہ صرف اللہ کو ہی مدد کے لئے پکارو انہی آیات سے یہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ ‏انبیاء کو مدد کے لئے پکارا جائے – دوسری طرف قرآن میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اللہ تعالی کو ہی مدد کے ‏لئے پکارا ہے – ‏

      Reply
  123. aysha butt

    Sir ap ki Kisi book MN Ravi urwa bin Zubair ki hazrat Aisha se riwayt pe likha tha k in Ka sama umm ul momineen se nahi hai. Toh phir in ki hi Hadith fadak wali k faima o Abbas r.a gaye
    Fadak k lie
    Us pe ap ne mukammal tabsara kia hai. To kia yeh Hadith Sahi hai

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      علم حدیث کے تحت یہ ممکن ہے کہ راوی کا سماع کسی سے کسی ایک روایت پر ہو لیکن دوسری پر نہ ہو
      میں نے عبد اللہ بن زبیر کی اس روایت کا انکار کیا تھا جس میں ان کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض باتیں امت سے
      چھپا لیں تھیں

      عبد اللہ بن زبیر اور عروہ بن زبیر دو الگ شخص ہیں

      Reply
  124. aysha butt

    Bukhari MN Hadith hai k unr r.a ne khaiber pr ummahat or ikhtyar dia. Yeh Hadith kesi hai

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      مکمل روایت کیا ہے

      Reply
      1. aysha butt

        علی بن مسہر نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں عبیداللہ نے نافع سے حدیث بیان کی اور انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر (کی زمین) اس پیداوار کے آدھے حصے پر دی جو وہاں سے پھلوں اور کھیتی کی صورت میں حاصل ہو گی۔ آپ اپنی ازواج کو ہر سال ایک سو وسق دیتے، اسی (80) وسق کھجور کے اور بیس وسق جو کے۔ بعد ازاں جب خیبر کی تقسیم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ذمہ داری میں آئی تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کو اختیار دیا کہ ان کے لیے زمین اور پانی کا حصہ مقرر کر دیا جائے یا ان کو ہر سال (مقررہ) وسق مل جانے کی ضمانت دیں۔ تو ان کا (ان دونوں میں سے انتخاب کرنے میں) باہم اختلاف ہو گیا۔ ان میں سے کچھ نے زمین اور پانی کو منتخب کیا اور کچھ نے ہر سال (مقررہ) وسق لینے پسند کیے۔ حضرت حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنھن ان میں سے تھیں جنہوں نے زمین اور پانی کو چنا

        Reply
        1. Islamic-Belief Post author

          صحیح ہے

          Reply
          1. aysha butt

            کسی حیث میں ہے کہ فدک اور خیبر پہ انتظام علی اور عباس علیہ سلام۔کے سپرد کیا گیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی جانب سے
            جیسے کہ امہات کو دیئے گئے اختیار کا ذکر ہے
            حوالے کے ساتھ بتائیں

          2. Islamic-Belief Post author

            صحیح مسلم
            بَابُ حُكْمِ الْفَيْءِ
            وحَدَّثَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ الضُّبَعِيُّ، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَنَّ مَالِكَ بْنَ أَوْسٍ، حَدَّثَهُ، قَالَ: أَرْسَلَ إِلَيَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَجِئْتُهُ حِينَ تَعَالَى النَّهَارُ، قَالَ: فَوَجَدْتُهُ فِي بَيْتِهِ جَالِسًا عَلَى سَرِيرٍ مُفْضِيًا إِلَى رُمَالِهِ، مُتَّكِئًا عَلَى وِسَادَةٍ مِنْ أَدَمٍ، فَقَالَ لِي: يَا مَالُ، إِنَّهُ قَدْ دَفَّ أَهْلُ أَبْيَاتٍ مِنْ قَوْمِكَ، وَقَدْ أَمَرْتُ فِيهِمْ بِرَضْخٍ، فَخُذْهُ فَاقْسِمْهُ بَيْنَهُمْ، قَالَ: قُلْتُ: لَوْ أَمَرْتَ بِهَذَا غَيْرِي، قَالَ: خُذْهُ يَا مَالُ، قَالَ: فَجَاءَ يَرْفَا، فَقَالَ: هَلْ لَكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فِي عُثْمَانَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَالزُّبَيْرِ، وَسَعْدٍ؟ فَقَالَ عُمَرُ: نَعَمْ، فَأَذِنَ لَهُمْ فَدَخَلُوا، ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: هَلْ لَكَ فِي عَبَّاسٍ، وَعَلِيٍّ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَأَذِنَ لَهُمَا، فَقَالَ عَبَّاسٌ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا الْكَاذِبِ الْآثِمِ الْغَادِرِ الْخَائِنِ، فَقَالَ الْقَوْمُ: أَجَلْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، فَاقْضِ بَيْنَهُمْ وَأَرِحْهُمْ [ص:1378]، فَقَالَ مَالِكُ بْنُ أَوْسٍ: يُخَيَّلُ إِلَيَّ أَنَّهُمْ قَدْ كَانُوا قَدَّمُوهُمْ لِذَلِكَ، فَقَالَ عُمَرُ: اتَّئِدَا، أَنْشُدُكُمْ بِاللهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ، أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ»، قَالُوا: نَعَمْ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى الْعَبَّاسِ، وَعَلِيٍّ، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا بِاللهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ، أَتَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَاهُ صَدَقَةٌ»، قَالَا: نَعَمْ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّ اللهَ جَلَّ وَعَزَّ كَانَ خَصَّ رَسُولَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخَاصَّةٍ، لَمْ يُخَصِّصْ بِهَا أَحَدًا غَيْرَهُ، قَالَ: {مَا أَفَاءَ اللهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ} [الحشر: 7]- مَا أَدْرِي هَلْ قَرَأَ الْآيَةَ الَّتِي قَبْلَهَا أَمْ لَا – قَالَ: فَقَسَمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَكُمْ أَمْوَالَ بَنِي النَّضِيرِ، فَوَاللهِ، مَا اسْتَأْثَرَ عَلَيْكُمْ، وَلَا أَخَذَهَا دُونَكُمْ، حَتَّى بَقِيَ هَذَا الْمَالُ، فَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْخُذُ مِنْهُ نَفَقَةَ سَنَةٍ، ثُمَّ يَجْعَلُ مَا بَقِيَ أُسْوَةَ الْمَالِ، ثُمَّ قَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ، أَتَعْلَمُونَ ذَلِكَ؟ قَالُوا: نَعَمْ، ثُمَّ نَشَدَ عَبَّاسًا، وَعَلِيًّا، بِمِثْلِ مَا نَشَدَ بِهِ الْقَوْمَ، أَتَعْلَمَانِ ذَلِكَ؟ قَالَا: نَعَمْ، قَالَ: فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجِئْتُمَا تَطْلُبُ مِيرَاثَكَ مِنِ ابْنِ أَخِيكَ، وَيَطْلُبُ هَذَا مِيرَاثَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَاهُ صَدَقَةٌ»، فَرَأَيْتُمَاهُ كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا، وَاللهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ، ثُمَّ تُوُفِّيَ أَبُو بَكْرٍ وَأَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَوَلِيُّ أَبِي بَكْرٍ، فَرَأَيْتُمَانِي كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا، وَاللهُ يَعْلَمُ إِنِّي لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ، فَوَلِيتُهَا ثُمَّ جِئْتَنِي أَنْتَ وَهَذَا وَأَنْتُمَا جَمِيعٌ وَأَمْرُكُمَا وَاحِدٌ، فَقُلْتُمَا: ادْفَعْهَا إِلَيْنَا، فَقُلْتُ: إِنْ شِئْتُمْ دَفَعْتُهَا إِلَيْكُمَا عَلَى أَنَّ عَلَيْكُمَا عَهْدَ اللهِ أَنْ تَعْمَلَا فِيهَا بِالَّذِي كَانَ يَعْمَلُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذْتُمَاهَا بِذَلِكَ، قَالَ: أَكَذَلِكَ؟ قَالَا: نَعَمْ، قَالَ: ثُمَّ جِئْتُمَانِي لِأَقْضِيَ بَيْنَكُمَا، وَلَا وَاللهِ لَا أَقْضِي بَيْنَكُمَا بِغَيْرِ ذَلِكَ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ، فَإِنْ عَجَزْتُمَا عَنْهَا فَرُدَّاهَا إِلَيَّ،

  125. Abdullah

    السلام عليكم
    مندرجہ ذیل روایت کے متلعق اپ کی تحقیق چاہیے اس روایت سے یہ ثابت کیا جاتا ہے جنات انسان کو برہنہ دیکھ کر اس پر سوار ہو جاتے ہیں خاص طور پر عورتوں کے اور کپڑے تبدیل کرتے وقت بسم اللہ پڑھے تو جنات سوار نہیں ہوتے ۔
    جزاک اللہ

    “جنات کی آنکھوں اور انسان کی شرمگاہوں کے درمیان حجاب کی صورت یہ ہے کہ آدمی جب اپنے کپڑے بدلے تو بسم اللہ پڑھ لے المعجم الاوسط للطبرانی :7066

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، ثَنَا سَهْلُ بْنُ عُثْمَانَ، ثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَسْلَمَةَ الْأُمَوِيُّ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ الْعَمِّيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «سَتْرُ مَا بَيْنَ عَوْرَاتِ بَنِي آدَمَ وَالْجِنِّ، إِذَا وَضَعَ أَحَدُهُمْ ثَوْبَهُ أَنْ يَقُولَ: بِسْمِ اللَّهِ»
      لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ الْأَعْمَشِ إِلَّا سَعِيدُ بْنُ مَسْلَمَةَ، وَسَعِيدُ بْنُ الصَّلْتِ ”

      سند ضعیف ہے
      سمعت أبا يعلى يقول سئل يَحْيى بْن مَعِين يعني، وَهو حاضر عن زيد العمي فقال ليس بشَيْءٍ.
      حَدَّثَنَا ابن الْعَرَّادِ، حَدَّثَنا يَعْقُوبُ بْنُ شَيْبَةَ، حَدَّثني عَبد اللَّه بن شُعَيب قال قرأ علي يَحْيى بن مَعِين زيد العمي يضعف.
      راوی کوئی چیز نہیں

      Reply
  126. Abdullah

    ۔شیخ اپ کیسے ہیں اللہ اپ پر رحمت نازل فرمائے ۔امین

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      Alhamdullilah

      Reply
  127. aysha butt

    اعبدوا ربکم و اکرموا اخاکم
    Yeh Hadith k ilfaz hai musand ahmed MN hai
    Kesi hai sand . K sajdaAllah ko kro or nahi ki tazeem kro

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      مسند احمد میں ہے

      حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، وَعَفَّانُ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ قَالَ عَفَّانُ: أَخْبَرَنَا الْمَعْنَى، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي نَفَرٍ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ، فَجَاءَ بَعِيرٌ، فَسَجَدَ لَهُ، فَقَالَ أَصْحَابُهُ: يَا رَسُولَ اللهِ،
      تَسْجُدُ لَكَ الْبَهَائِمُ وَالشَّجَرُ، فَنَحْنُ أَحَقُّ أَنْ نَسْجُدَ لَكَ، فَقَالَ: ” اعْبُدُوا رَبَّكُمْ، وَأَكْرِمُوا أَخَاكُمْ، وَلَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا، أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا، وَلَوْ أَمَرَهَا أَنْ تَنْقُلَ مِنْ جَبَلٍ أَصْفَرَ إِلَى جَبَلٍ أَسْوَدَ، وَمِنْ جَبَلٍ أَسْوَدَ إِلَى جَبَلٍ أَبْيَضَ، كَانَ يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تَفْعَلَهُ

      شعیب کے مطابق سند ضعیف ہے
      وهذا إسناد ضعيف لضعف علي بن زيد

      Reply
  128. aysha butt

    Kia aurt ki pasli se banae Jane wali. Hadith Sahi hai
    Ya isrealiat MN se hai

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      israiliyaat mai say ha. Kitab Qarn Awal dekhain

      Reply
  129. aysha butt

    Kitabeen Quran kitny thy Nabi a s k era. Mein
    Yeh list milli hai Sahi hai kia
    کر صدیق
    عمر بن خطاب
    عثمان بن عفان
    علی بن ابی طالب
    ابی بن کعب
    عبد اللہ بن ابی سرح
    زبیر بن العوام
    خالد بن سعید
    ابان بن سعید بن العاص
    حنظلہ بن ربیع
    معیقیب بن ابی فاطمہ
    عبداللہ بن ارقم
    شرحبیل بن حسنہ
    عبداللہ بن رواحہ [7]
    عامر بن فہیرہ
    عمرو بن العاص
    ثابت بن قیس
    مغیرہ بن شعبہ
    خالد بن ولید
    معاویہ بن ابی سفیان [8]
    زید بن ثابت [6]
    Or Kitne sahaba Nabi a.s ki wafat pe aisy thy. Jinhein Quran pora Hafiz tha

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      کاتب قرآن میں کون کون اصحاب رسول شامل تھے کسی صحیح سند سے معلوم نہیں ہے
      سوائے معاویہ رضی اللہ عنہ کے

      ظاہر ہے کہ متعدد اصحاب رسول نے لکھا لیکن بعض رواات میں ملتا ہے کہ مکمل قرآن صرف چند کے پاس تھا
      ابن مسعود
      علی
      ابی بن کعب
      رضی اللہ عنہما

      Reply
  130. محمد نعیم

    اسلام علیکم
    جو ناسا کا ادعا ہے کہ زمین گول ھے
    کیا اے بات قرآن کے خلاف بات ہے؟
    پلیز کچھ وضاحت کردیں

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      سلام علیکم

      زمین بیضوی یا گول ہے یہ سائنس میں تسلیم کیا جاتا ہے البتہ اس پر قرآن میں کوئی صریح مخالف آیت نہیں ہے کہ اس بات کو خلاف قرآن کہا جائے

      اللہ تعالی جب اس زمین کو تخلیق کر رہا تھا تو اس نے اس پر کیے عمل کیے
      اس کو بنا کر دبایا
      وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ دَحَاهَا
      اور اس کے بعد زمین کو دبایا

      اس سے اس کا پانی اور اس کا چارا نکالا

      اس نے زمین کو ہموار کیا
      وإلى الأرض كيف سُطحت

      إس نے اس میں پہاڑ نکالے

      اس تمام کو ہم دیکھ سکتے ہیں

      لیکن زمین مکمل سیارہ کی شکل میں کس طرح ہے اس کا قرآن میں ذکر نہیں ہے
      مزید دیکھیں
      https://www.islamic-belief.net/%d9%be%da%be%d8%b1-%d8%a7%d8%b3-%d9%86%db%92-%d8%b2%d9%85%db%8c%d9%86-%da%a9%d9%88-%d8%af%d8%a8%d8%a7%db%8c%d8%a7/

      Reply
      1. محمد نعیم

        والی الارض کیف سطحت
        کچھ لوگ کا کہنا ہےکہ زمین کو گول مانا اسے آیت قرآنی کے خلاف ہے
        پلیز رہنمائی فرمائیں

        Reply
        1. Islamic-Belief Post author

          لغت المعجم الوسيط میں سطحت کا مطب ہے سطحا بَسطه وسواه یعنی ہموار سطح اور برابر کیا

          آیت کا ترجمہ ہو گا

          اور زمین کو اس نے کیسا ہموار و برابر کیا

          یہ میدان میں کھڑے شخص کی نظر کے حوالے سے ہے کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے
          اگر کوئی شخص پہاڑی علاقے میں ہے تو اس کو زمین ہموار نظر نہیں آئے گی لیکن اس کو بھی علم ہے کہ بیشتر زمین ہموار ہے

          ایسا قرآن میں انسانی لحاظ سے کہا جاتا ہے مثلا ذو القرنین نے دیکھا کہ سورج پانی میں ڈوب رہا ہے
          حَتّــٰٓى اِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِىْ عَيْنٍ حَـمِئَةٍ
          حتی کہ وہ سورج غروب ہونے کے مقام پر پہنچا تو وہ ایک کھولتے چشمے میں ڈوب رہا تھا

          معلوم ہے کہ سورج زمین میں کسی پانی میں نہیں جاتا بلکہ اگر ایسا ہو تو تمام سمندر بھاپ بن کر اڑ جائے گا

          لہذا ان آیات میں انسان کو جو نظر آتا ہے اسی کو بیان کیا گیا ہے n
          و اللہ اعلم

          Reply
  131. aysha butt

    Sir namaz MN hath rakhne ki jagh kia hai Kuch seene pe Kuch naafk neeche Kuch maide k Sath bandhte hai Konsa Tariq sahih hai

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      نماز میں ہاتھ باندھنے پر کوئی صحیح روایت نہیں ہے
      اس حوالے سے ضعیف احادیث پر عمل کیا جاتا ہے کیونکہ اس پر تامل امت چلا آ رہا ہے لہذا ہاتھ باندھنے میں کہیں بھی رکھے جا سکتے ہیں

      Reply
  132. aysha butt

    ہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں کو دوزخ میں ڈالا جائے گا ( دوسری سند ) اورمجھ سے خلیفہ بن خیاط نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے ‘ ان سے قتادہ نے ‘ ان سے انس رضی اللہ عنہ نے ۔ ( تیسری سند ) اور خلیفہ بن خیاط نے اس حدیث کو معتمر بن سلیمان سے روایت کیا ‘ کہا میں نے اپنے والد سے سنا ‘ انہوں نے قتادہ سے ‘ انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دوزخیوں کو برابر دوزخ میں ڈالا جاتا رہے گا اور وہ کہے جائے گی کہ کیا ابھی اور ہے ۔ یہاں تک کہ رب العالمین اس پر اپنا قدم رکھ دے گا اور پھر اس کا بعض بعض سے سمٹ جائے گا اور اس وقت وہ کہے گی کہ بس بس ‘ تیری عزت اور کرم کی قسم ! اور جنت میں جگہ باقی رہ جائے گی ۔ یہاں تک کہ اللہ اس کے لیے ایک اور مخلوق پیدا کر دے گا اور وہ لوگ جنت کے باقی حصے میں رہیں گے ۔
    یہ حدیث صحیح ہے
    بخآری کی ہے

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      روایت متشابھات کے قبیل کی ہے – اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے- ‏کوئی صفت کا عقیدہ اس پر نہ لیا جائے کہ ہم اپنے رب کو اعضا والا کہنے لگیں‎

      ہمارا رب جہنم پر اپنا قدم رکھے گا یہاں تک وہ کہے گی بس بس
      يَضَعَ قَدَمَهُ فِيهَا‎
      یا‎
      حَتَّى يَضَعَ رِجْلَهُ فَتَقُولُ: قَطْ قَطْ‎
      حَتَّى يَأْتِيَهَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى فَيَضَعَ قَدَمَهُ عَلَيْهَا فَتُزْوَى، فَتَقُولُ: قَدِي قَدِي‎
      حَتَّى يَأْتِيَهَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى فَيَضَعُ قَدَمَهُ عَلَيْهَا فَتُزْوَى، فَتَقُولُ: قَدْنِي قَدْنِي،
      والی روایت ابو ہریرہ اور أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ (حم) 11099 اور انس رضی الله عنہما سے ‏مروی ہے کئی سندوں سے ہے – یہ سندا صحیح ہے- اگر یہ قول نبی ہے تو اس کی تاویل ‏الله کو معلوم ہے

      Reply
  133. aysha butt

    Mein ne 2 se 3 jagh pr sunao hai . K Ansari wafat UN Nabi a s k bad hazrat Ali ko khalifa bnane ki khuwaish rakhhty thy or Kuch muhajreen MN se bhi
    Kia aesa Kisi Hadith ya tareekh k kitab MN hai k wo hazrat Ali k lie yeh mansab chahty thy…..
    Agr aisa tha toh jab abubakr r.a ne kaha k khalifa Qureshi Hoga to UN k samne b toh kaha gya Hoga k hum es es ko khalifa krna chahty hai to wo hzrt Ali k behalf pe bayt Le lete
    Wese muhajreen ne kin ka naam suggest kia tha
    Q k Ansari ki trf se toh Saad bin ubada the.

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      کتب اہل سنت میں اس قسم کی کوئی روایت مجھے معلوم نہیں جس میں ہو کہ انصار علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ چاہتے تھے
      انصار میں کئی اقوال تھے ایک یہ بھی تھا کہ دو خلیفہ مقرر کر دو اگر ایک انصار میں سے اور ایک مہاجرین میں سے
      بعض انصار سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر کرنا چاہتے تھے
      خلفاء قریش میں سے ہوں گے یہ حدیث اہل تشیع اور اہل سنت میں متفق علیہ ہے
      خوارج کے نزدیک یہ حدیث نہیں ہے

      انصار علی کو خلیفہ مقرر کرنا چاہتے تھے اور اس قسم کی کوئی روایت ہوتی تو اہل تشیع لاکھوں بار اس کو کوٹ کر چکے ہوتے اور ایسا ان کی بھی کسی کتاب میں روایت نہیں ہے

      Reply
      1. aysha butt

        Shia khateeb ne ik interview MN toh yhn tk kaha hai yeh Hadith ahle tashu MN hai magr ilfaz MN izafa.
        خلیفہ من ایش بنی ہاشم
        Es lie wo UN ko bila fazal khalifa Tyr rusool manty hai

        Reply
        1. Islamic-Belief Post author

          اس جملے کی عربی صحیح نہیں – ڈھونڈنے پر شیعہ کتب میں ملی بھی نہیں
          البتہ اس قسم کی روایات علی کی زندگی میں معلوم نہیں تھیں
          ان کو بہت بعد میں عباسی دور میں گھڑا گیا ہے

          بنی ہاشم میں تو بہت سے لوگ تھے عباس رضی اللہ عنہ کا درجہ علی سے بڑا سمجھا جاتا تھا اور ان کو شوری میں عمر نے رکھا ہوا تھا

          Reply
  134. aysha butt

    Sir kia esa a.s yahya a.s or yasah. A.s ik hi dour k Nabi Hain…. Yani hum asr Nabi hai… Yeh 3no anbiya kis qoom pr bejhe gye

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      الیسع علیہ السلام کا دور ٨٩٢ قبل مسیح کا کہا جاتا ہے

      عیسیٰ و یحیی علیھما السلام ہم عصر ہیں اور رشتہ دار ہیں
      زوجہ زکریا نصرانی روایات کے مطابق مریم کی کزن تھیں

      Reply
      1. aysha butt

        Yaseen MN hai qarya ki trf 3 Nabi a.e log keh Rahe wo hazrat esa a.s k havrio MN se thy
        Drust hai kia… Or yeh kis basti ka zikr hai…
        Or kia Nabi a.s ne apni talwar Ali ko di thi….

        Reply
        1. Islamic-Belief Post author

          عیسیٰ علیہ السلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کوئی نبی معلوم نہیں
          بستی کا کسی صحیح حدیث میں ذکر نہیں

          رسول اللہ نے اپنی تلوار کسی کو دی ہو صحیح سند سے معلوم نہیں

          Reply
  135. aysha butt

    Sir sunan kubra MN hai k tmra Ameer naik or ya fasiq us se peeche namaz prho….sahih hai kia
    Or Hassan basri ka qol hai k biddati k peeche namaz prho
    Or Usman r.a k mehsoor k dino MN ik sihabind kaha k hum in sorish psndo k peeche namaz prhe jab k ap imam ha sahih hai kia

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      فاسق ہونا فسادی ہونا یا شریر ہونا یا ظالم ہونا – ایمان و عقیدے سے اس کا تعلق نہیں ہے
      لہذا ظالم امام کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے

      مکمل روایت عربی میں دیں تو سند دیکھ سکتا ہوں

      Reply
  136. aysha butt

    Sir imam Abu hanifa samra bin jundab ki riwayt q nahi lety thy .. jab. K Sahi MN mujood hai…
    Kia waja thi riwayt na lene ki

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ اور سمرہ بن جندب دو الگ لوگ ہیں

      امام ابو حنیفہ کا موقف تھا کہ جابر بن سمرہ کی بات دلیل نہیں ہے کیونکہ ان سے منسوب بعض روایات صحیح نہیں تھیں

      Reply
  137. aysha butt

    Jis ne Ali ko sataya us ne muje sataya
    Hadith kesi hai
    Kiya namaz tasshud MN khtm Hoti thi Jesus k tasshud MN hath se Salam krne ka zikr hai.
    Durood or Dua tasshud k Sath prhna kia amli tawatur hai ya Nabi ams se bhi sabit hai . Ya yeh kb shru hoa

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      جس نے علی کو ستایا اس نے مجھے ستایا
      من آذى عليّاً فقد آذاني
      ضعیف باطل موضوع کے تین درجوں پر ہے
      یہ حکم محقق اس پر لگا چکے ہیں

      نماز تشهد بر ختم كي جا سكتي ہے – ضروری نہیں کہ درود و دعا کی جائے
      تشہد میں دعا تمام مسلمین پر کی جا چکی ہوتی ہے

      درود و دعا فقہ احناف میں ضروری جز نماز نہیں یہی میرا قول و عمل ہے

      Reply
      1. aysha butt

        مگر سر مشکوہ میں درود اور دعا پہ باب موجود ہے
        پھر کیسے یہ نماز کا حصہ نہیں۔۔اورتشہد پہ نماز پوری ہو جاتی ہے۔
        پھر حدیث میں ہے درود ایسے سکھایا جاتا جیسےنماز۔۔۔
        اور اگر تشہد میں نماز مکمل ہو جاتی تو بماز سے نکلنے کا کیا طریقہ ہے پھر۔۔۔ کیوں عام طور پہ دونوں کندھوں پہ سلام کیا جاتا ہے۔۔ اور اگر نماز میں بھی حدث پیش آجائے تو کہتے کہ ایک کندھے پہ سلام پھیر کر باہر نکلو۔۔
        یہ بات واضح کر دیں

        Reply
        1. Islamic-Belief Post author

          تشہد پر نماز مکمل ہو جاتی ہے اس کے بعد ظاہر ہے سلام پھیرا جاتا ہے
          اس کے بعد سب زائد ہے جس میں آپ کوئی بھی دعا کر سکتے ہیں جس میں درود بھی شامل ہے
          حدیث ہے کہ تشہد ایسے سکھایا جاتا تھا جیسے سورت ہو
          درود کے حوالے سے یہ کہاں لکھا ہے ؟

          نماز میں حدث پر نماز ختم – ایک سلام کی کوئی ضرورت نہیں
          یہ کسی حدیث میں نہیں کہ ایک سلام پھیر لو

          Reply
  138. Imran

    السلام علیکم
    —1—
    کیا یہ بات درست ہے کہ حدیثِ موقوف اصطلاح کے اعتبار سے تو جدا نام رکھتی ہے، لیکن خلافِ قیاس امور (یعنی عبادات و اعمال اور عقائد و امورِ آخرت وغیرہ) میں حدیثِ موقوف بھی حدیثِ مرفوع کے حکم میں ہوتی ہے –
    —2—
    — حدیث موقوف ضعیف کیوں نہیں ہوتی کیونکہ اس کی سند نبیﷺ تک تو نہیں جاتی تو جب یہ قول نبیﷺ تک نہیں جاتی تو حدیث تو نہیں ہوگی، صرف صحابی کا قول ہوگا۔
    –3–
    ایک صحابی کا قول کن معملات میں حجت ہوگا اور کن معملات میں حجت نہیں ہوگا؟ جبکہ ایسی کوئی بھی بات قرآن و احادیث میں صحیح یا حسن سے ثابت نہ ہوتی ہو۔

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      سوال حدیثِ موقوف بھی حدیثِ مرفوع کے حکم میں ہوتی ہے

      جواب
      ہرگز نہیں – حدیث موقوف میں شک کا احتمال باقی رہتا ہے کہ الفاظ کس کے ہیں
      ایک حدیث امام بخاری نے مرفوع سجھی تھی کہ جنت کی کوئی حور اس زمین پر جھانک لے تو اس کے پردے سے زمین و آسمان روشن ہو جائیں
      امام ابو حاتم نے اس کی صحت کا رد کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ قول ابن مسعود ہے حدیث رسول نہیں
      اس طرح ایک حدیث موقوف ہے کہ عرش کے گرد سانپ لپٹا ہے
      اس کو بھی قبول نہیں کیا جائے گا کیونکہ قرآن میں اس کی کوئی دلیل نہیں
      اور غیب کی بات جب تک صحیح مرفوع قول رسول نہ ہو نہیں لیا جا سکتا

      حدیث موقوف کی مکمل سند ضعیف و صحیح و معلول ہو سکتی ہے

      قول صحابی دیکھنا پڑے گا کہ کس چیز کے بارے میں ہے ہر چیز پر نہیں لیا جا سکتا
      کیونکہ تمام اصحاب کی فقه کا درجہ ایک سا نہیں ہے
      ابن عباس و معاویہ کو فقیہ کہا جاتا ہے غیر معروف اصحاب رسول کو فقیہہ بلا دلیل نہیں سمجھا جاتا
      عدول و فقہ دو الگ چیزیں ہیں

      Reply
  139. Imran

    السلام علیکم

    جمعہ کے دن سورۃ الکھف تلاوت کرنے کے حوالے سے کچھ خاص فضائل کا ذکر ہے، کیا کوئی صحیح حدیث یا روایت موجود ہے یا سب ضعیف ہیں؟ ابن عباس(رضی)، حسن(رضی) اورابو سعید خدری(رضی) کا بھی قول ہے، جو کہ حدیث موقوف ہے۔ کیا ان میں کوئی صحیح روایت ہے؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      و علیکم السلام

      روایت عربی میں پیش کریں کون سی روایت ؟

      Reply
      1. imran

        من قرأ سورة الكهف في يوم الجمعة أضاء له من النور ما بين الجمعتين ” .
        رواه الحاكم ( 2 / 399 ) ومعرفة السنن و الآثارللبيهقي ( ج4 ص 418)
        ترجم ہ
        جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
        جس نے جمعہ کے دن سورۃ الکھف پڑھی اسے کے لیے دوجمعوں کے درمیان نور روشن ہوجاتا ہے۔
        جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات میں سورۃ الکہف پڑھنے کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح احادیث وارد کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے

        💢عن أبي سعيد الخدري قال :
        ” من قرأ سورة الكهف ليلة الجمعة أضاء له من النور فيما بينه وبين البيت العتيق ”
        ’’سیدنا ابوسعید خدری رض بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا :
        ( جس نے جمعہ کی رات سورۃ الکھف پڑھی اس کے اور بیت اللہ کے درمیان نور کی روشنی ہوجاتی ہے )
        (سنن دارمی،حدیث _ 3407 )
        (علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح الجامع ( 6471 ) میں اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔‘‘

        💢 فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ سلم،
        من قرأ سورة الكهف في يوم الجمعة أضاء له من النور ما بين الجمعتين “.:
        (جس نے جمعہ کے دن سورۃ الکھف پڑھی اسے کے لیے دوجمعوں کے درمیان نورروشن ہوجاتا ہے )
        (مستدرک الحاکم _2 ج/ 399 )
        (سنن بیھقی ( 3ج / 249 )
        اس حدیث کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی ” تخریج الاذکار ” میں کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے ، اور ان کا کہنا ہے کہ سورۃ الکہف کے بارہ میں سب سےقوی یہی حديث ہے ۔
        دیکھیں ” فیض القدیر ” ( 6 / 198 )
        اور علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح الجامع ( 6470 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے

        فيض القدير (6/ 198):

        “مَنْ قَرَأَ سُورَةَ الْكَهْفِ فِي يَوْمِ الجُمُعَةِ أَضَاءَ لَهُ مِنَ النُّورِ مَا بَيْنَ الجُمُعَتَيْنِ”. (ك هق) عن أبي سعيد”.

        (من قرأ سورة الكهف في يوم الجمعة أضاء له من النور ما بين الجمعتين) فيندب قراءتها يوم الجمعة وكذا ليلتها كما نص عليه الشافعي رضي الله عنه، قال الطيبي: وقوله: “أضاء له”، يجوز كونه لازمًا، وقوله: “ما بين الجمعتين” ظرف؛ فيكون إشراق ضوء النهار فيما بين الجمعتين بمنزلة إشراق النور نفسه مبالغةً، ويجوز كونه متعديًا، والظرف مفعول به، وعليهما فسر: {فلما أضاءت ما حوله} … (ك) في التفسير من حديث نعيم بن هشام عن هشيم عن أبي هاشم عن أبي مجلز عن قيس بن عبادة عن أبي سعيد (هق عن أبي سعيد) الخدري قال الحاكم: صحيح، فردّه الذهبي، فقال: قلت: نعيم ذو مناكير، وقال ابن حجر في تخريج الأذكار: حديث حسن، قال: وهو أقوى ما ورد في سورة الكهف”.

        رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: جس نے جمعہ کے دن سورۃ الکہف پڑھی اس کے لیے دوجمعوں کے درمیان نورروشن ہوجاتا ہے۔

        Reply
        1. Islamic-Belief Post author

          حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْمُؤَمَّلِ، ثنا الْفَضْلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الشَّعْرَانِيُّ، ثنا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، ثنا هُشَيْمٌ، أَنْبَأَ أَبُو هَاشِمٍ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عَبَّادٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ مَنْ قَرَأَ سُورَةَ الْكَهْفِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَضَاءَ لَهُ مِنَ النُّورِ مَا بَيْنَ الْجُمُعَتَيْنِ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخْرِجَاهُ ”
          [التعليق – من تلخيص الذهبي]
          3392 – نعيم ذو مناكير

          اس میں منکر راوی ہے

          عن أبي سعيد الخدري قال :
          ” من قرأ سورة الكهف ليلة الجمعة أضاء له من النور فيما بينه وبين البيت العتيق ”
          ’’سیدنا ابوسعید خدری رض بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا :
          ( جس نے جمعہ کی رات سورۃ الکھف پڑھی اس کے اور بیت اللہ کے درمیان نور کی روشنی ہوجاتی ہے )

          لاحق بن حميد بن سعيد بن خالد بن كثير بن حُبيش بن عبد الله بن سَدوس السَّدوسي، أبو مجلز البصري الأعور.
          قال الحسين بن حبان عن ابن معين: مضطرب الحديث

          سندیں ضعیف ہیں

          Reply
  140. aysha butt

    Ap ne kaha hanfion MN tasshud pr namaz khtm ho jati hai. Es ka koi hawala dijjie
    Agr tasshud pe namaz pori hojati to. Durood or tasshud k bad Dua pr baap q hai… Or yeh Hadith k durood aisay sikhaya gya jesay namaz
    Namaz se nikle ka tareka kia hai. Q k kandhon pe Salam b perha jata hai. Yehi namaz se nikle ka tareka hai
    Eski wazaht krdein

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      سنن دارمی مسند احمد میں ہے‎
      أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ حُرٍّ، حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ مُخَيْمِرَةَ، قَالَ ‏‏ أَخَذَ عَلْقَمَةُ، بِيَدِي، فَحَدَّثَنِي أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ، أَخَذَ بِيَدِهِ وَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ ‏عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ بِيَدِ عَبْدِ اللَّهِ، فَعَلَّمَهُ التَّشَهُّدَ فِي الصَّلَاةِ «التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ، وَالصَّلَوَاتُ، ‏وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ ‏اللَّهِ الصَّالِحِينَ» قَالَ زُهَيْرٌ أُرَاهُ قَالَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا ‏عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، – أَيْضًا شَكَّ فِي هَاتَيْنِ الْكَلِمَتَيْنِ – إِذَا فَعَلْتَ هَذَا أَوْ قَضَيْتَ، فَقَدْ ‏قَضَيْتَ صَلَاتَكَ، [ص 847] إِنْ شِئْتَ أَنْ تَقُومَ، فَقُمْ، وَإِنْ شِئْتَ أَنْ تَقْعُدَ، فَاقْعُدْ‎
      قاسم نے کہا علقمہ نے میرا ہاتھ پکڑا اوربیان کیا کہ ابن مسعود رضی الله عنہ ‏نے میرا ہاتھ پکڑا اور بیان کیا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ان کا ہاتھ ‏پکڑا اور بیان کیا کہ تشہد سکھایا نماز والا‎
      التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ، وَالصَّلَوَاتُ، وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، ‏السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ» قَالَ زُهَيْرٌ أُرَاهُ قَالَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، ‏وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، … پس جب یہ کیا تو نماز پوری ہوئی – چاہو ‏تو بیٹھ رہو یا اٹھ جاو‎
      حسين سليم أسد الداراني اور شعيب الأرنؤوط – عادل مرشد اس کو صحیح ‏کہتے ہیں‎

      نماز میں درود کو صرف امام شافعی نے فرض کہا ہے
      البحر الرائق شرح كنز الدقائق
      المؤلف: زين الدين بن إبراهيم بن محمد، المعروف بابن نجيم المصري (المتوفى: 970هـ)
      قَوْلُهُ وَالصَّلَاةُ عَلَى النَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -) أَوْ هُوَ قَوْلُ عَامَّةِ السَّلَفِ وَالْخَلَفِ، وَقَالَ الشَّافِعِيُّ إنَّهَا فَرْضٌ تَبْطُلُ الصَّلَاةُ بِتَرْكِهَا، وَقَدْ نَسَبَ قَوْمٌ مِنْ الْأَعْيَانِ الْإِمَامَ الشَّافِعِيَّ فِي هَذَا إلَى الشُّذُوذِ وَمُخَالَفَةِ الْإِجْمَاعِ مِنْهُمْ أَبُو جَعْفَرٍ الطَّحَاوِيُّ وَأَبُو بَكْرٍ الرَّازِيّ وَأَبُو بَكْرِ بْنُ الْمُنْذِرِ وَالْخَطَّابِيُّ وَالْبَغَوِيُّ وَابْنُ جَرِيرٍ الطَّبَرِيُّ وَهَذِهِ عِبَارَتُهُ: أَجْمَعَ جَمِيعُ الْمُتَقَدِّمِينَ وَالْمُتَأَخِّرِينَ مِنْ عُلَمَاءِ الْأُمَّةِ عَلَى أَنَّ الصَّلَاةَ عَلَيْهِ غَيْرُ وَاجِبَةٍ فِي التَّشَهُّدِ وَلَا سَلَفَ لِلشَّافِعِيِّ فِي هَذَا الْقَوْلِ وَلَا سُنَّةَ يَتَّبِعُهَا

      اور قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود تو یہ قول ہے سلف و خلف کا -اور شافعی کا کہنا ہے کہ اگر درود نہ پڑھا تو نماز باطل ہے
      متقدمین و متاخرین کے علماء اس بات پر متفق ہیں کہ تشہد میں (نماز میں بیٹھنے پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دعا کرنا واجب نہیں ہے اور اس قول میں شافعی کا کوئی پیش رو نہیں ہے اور نہ ہی اس پر مسلسل عمل کرنے کی کوئی سنت ہے

      یعنی نماز پڑھنے والا تشہد کے بعد درود پڑھ سکتا ہے اور ضروری نہیں کہ اس کو لازم جز نماز سمجھا جائے

      مشكاة المصابيح» للتبريزي: أبي عبد الله ولي الدين محمد بن عبد الله الخطيب العمري التبريزي الشافعي (ت741هـ)
      يه کتاب فقہ شافعی کے تحت مرتب کردہ ہے

      Reply
  141. aysha butt

    حدثنا ابو الخطاب زياد بن يحيى البصري، حدثنا ابو عتاب سهل بن حماد، حدثنا المختار بن نافع، حدثنا ابو حيان التيمي، عن ابيه، عن علي، قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ ” رحم الله ابا بكر زوجني ابنته،‏‏‏‏ وحملني إلى دار الهجرة،‏‏‏‏ واعتق بلالا من ماله، ‏‏‏‏‏‏رحم الله عمر يقول الحق،‏‏‏‏ وإن كان مرا تركه الحق،‏‏‏‏ وما له صديق، ‏‏‏‏‏‏رحم الله عثمان تستحييه الملائكة، ‏‏‏‏‏‏رحم الله عليا اللهم ادر الحق معه حيث دار “. قال ابو عيسى:‏‏‏‏ هذا غريب، ‏‏‏‏‏‏لا نعرفه إلا من هذا الوجه، ‏‏‏‏‏‏والمختار بن نافع شيخ بصري كثير الغرائب، ‏‏‏‏‏‏وابو حيان التيمي اسمه:‏‏‏‏ يحيى بن سعيد بن حيان التيمي كوفي وهو ثقة.(سنن الترمذي ، حدیث نمبر: 3714)
    Hadith kesi hai
    Or ik Hadith hai k Ali haq k Sath hai or haqAli k Sath hai

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      حدیث ترمذی کی سند میں ضعیف راوی ہے
      المختار بن نافع.
      * قال البخاري: منكر الحديث

      عليٌّ مع الحق، والحق مع عليٍّ.
      یہ بھی ضعیف ہے اس کی سند میں مجہول راوی ہے
      وقد رواه البزار في مسنده، وقال عنه الهيثمي في مجمع الزوائد، ومنبع الفوائد (7/ 236): رواه البزار، وفيه سعد بن شعيب، ولم أعرفه

      ابويعلى الموصلى المتوفی 307 هـ یقول فی مسنده هکذا :

      حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ الْمَكِّيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ ، عَنْ صَدَقَةِ بْنِ الرَّبِيعِ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : كُنَّا عِنْدَ بَيْتِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فِي نَفَرٍ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ ، وَالأَنْصَارِ ، فَخَرَجَ عَلَيْنَا ، فَقَالَ : أَلا أُخْبِرُكُمْ بِخِيَارِكُمْ ؟ قَالُوا : بَلَى ، قَالَ : خِيَارُكُمُ الْمُوفُونَ الْمُطَيَّبُونَ ، إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْخَفِيَّ التَّقِيَّ ، قَالَ : وَمَرَّ عَلَيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ، فَقَالَ : الْحَقُّ مَعَ ذَا ، الْحَقُّ مَعَ ذَا

      سند میں عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ امام ابن جزم کے مطابق ضعیف ہے

      مستدرک حاکم میں ہے
      قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: رَحِمَ اللَّهُ عَلِيًّا اَللَّهُمَّ أَدِرِ الْحَقَّ مَعَهُ حَيْثُ دَارَ
      أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ كَامِلٍ الْقَاضِي، ثنا أَبُو قِلَابَةَ، ثنا أَبُو عَتَّابٍ سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ، ثنا الْمُخْتَارُ بْنُ نَافِعٍ التَّمِيمِيُّ، ثنا أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رَحِمَ اللَّهُ عَلِيًّا اللَّهُمَّ أَدِرِ الْحَقَّ مَعَهُ حَيْثُ دَارَ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ ”
      [التعليق – من تلخيص الذهبي]
      4629 – مختار بن نافع ساقط
      ضعیف ہے

      Reply
  142. aysha butt

    Ali naam rakhny pe pbndi thi umvi for MN .
    Ali ka naam pesh se likha jata raha

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      اس کی کوئی دلیل نہیں محض فسانہ
      متعدد راوی ہیں جن کا نام علی ہے یا ان کے باپ کا نام علی ہے دور بنو امیہ کے ہیں

      Reply
      1. aysha butt

        Jesy k Kon konse hai.. Ravi Jin ka naam Ali tha
        Or ik bt MN ne ap k Kisi blog MN ya book MN es k mutaliq prha tha jis MN ap ne isko.misri. Propanga kaha tha k k Ali naamvwesy zabr se likha jata tha Lekin wo pesh se likhty thy.,. Agr apko wo book yad ho to batein
        Link dein

        Reply
        1. Islamic-Belief Post author

          رجال کی کتب میں اس کی پوری لسٹ ہے

          جس نے یہ دعوی کیا ہے کہ علی کا نام نہیں رکھا جاتا تھا اس کی دلیل کیا روایات ہیں

          جب تک اصل مخالف قول کی سند سامنے نہ ہو تو شوشے کا کیا جواب دیا جائے؟

          Reply
          1. aysha butt

            Ap chand ik k Naam bta dein to umvi dour MN Ali Naam k log the

          2. Islamic-Belief Post author

            على بن الحزور الغنوى الكوفى المتوفي ١٣٠ هجري

            على بن أبي على القرشي
            وتوفي علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب رضي الله عنهم سنة اثنتين وتسعين وقيل سنة أربع وتسعين

            بنو امیہ کے دور کے راوی ہیں

            بنو امیہ کا دور ١٣١ ہجری تک ہے یعنی علی نام کے لوگ ان کے دور میں تھے – علی نام کے تو کئی محدث تھے

  143. Imran

    السلام علیکم

    کیا میت کو غسل دینے کے بعد خود غسل کرنا لازم ہے؟ یا وضو کافی ہے یا صرف ہاتھ دھو لینا کافی ہے؟

    صحیح احادیث اس حوالے سے کیا کہتی ہیں؟ کیونکہ ہمیں تینوں قول ملتے ہیں۔
    کیا تمام فقہہ ایک ہی رائے رکھتے تھے؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      و علیکم السلام

      سنن ابو داود
      حدَّثنا عثمانُ بن أبي شَيبةَ، حدَّثنا محمدُ بن بِشير، حدَّثنا زكريا، حدَّثنا مُصعبُ بن شيبةَ، عن طَلْقِ بن حبيبٍ العَنَزيِّ، عن عبد الله بن الزبير
      عن عائشة، أنها حدَّثته: أن النبي -صلَّى الله عليه وسلم- كان يغتسل من أربعٍ: من الجنابةِ، ويومِ الجمعة، ومن الحجامةِ، وغسلِ الميت
      ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چار باتوں سے غسل کیا کرتے تھے ۔ جنابت سے ، جمعہ کے روز ، سینگی لگوا کر اور میت کو غسل دے کر

      یہ ضعیف ہے

      قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا نَأْخُذُ، لا بَأْسَ أَنْ تُغَسِّلَ الْمَرْأَةُ زَوْجَهَا إِذَا تُوُفِّيَ، وَلا غُسْلَ عَلَى مَنْ غَسَّلَ الْمَيِّتَ وَلا وُضُوءَ إِلا أَنْ يُصِيبَهُ شَيْءٌ مِنْ ذَلِكَ الْمَاءِ فَيَغْسِلَهُ
      امام محمد کہتے ہیں غسل دینے والے کو غسل کرنے کی ضرورت نہیں

      Reply
      1. Imran

        حدثنا محمد بن عبد الملك بن ابي الشوارب، حدثنا عبد العزيز بن المختار، عن سهيل بن ابي صالح، عن ابيه، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ” من غسله الغسل، ومن حمله الوضوء يعني الميت “. قال: وفي الباب، عن علي، وعائشة. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن، وقد روي عن ابي هريرة موقوفا، وقد اختلف اهل العلم في الذي يغسل الميت، فقال بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم: إذا غسل ميتا فعليه الغسل، وقال بعضهم: عليه الوضوء. وقال مالك بن انس: استحب الغسل من غسل الميت ولا ارى ذلك واجبا، وهكذا قال الشافعي: وقال احمد: من غسل ميتا ارجو ان لا يجب عليه الغسل، واما الوضوء فاقل ما قيل فيه، وقال إسحاق: لا بد من الوضوء، قال: وقد روي عن عبد الله بن المبارك، انه قال: لا يغتسل ولا يتوضا من
        غسل الميت
        .
        ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میت کو نہلانے سے غسل اور اسے اٹھانے سے وضو ہے“۔

        امام ترمذی کہتے ہیں:
        ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے،
        ۲- ابوہریرہ رضی الله عنہ سے یہ موقوفاً بھی مروی ہے،

        Reply
        1. Islamic-Belief Post author

          یہ سندا ضعیف ہے – بعض فقہاء نے اس کو لیا اس لئے اس کو حسن کہا گیا ہے
          وضو نماز کے سوا کسی اور کام کے لئے معلوم نہیں ہے

          قرآن میں وضو کا حکم صرف نماز پر ہے

          Reply
  144. aysha butt

    کتاب مسند احمد
    حدیث نمبر 9772

    ۔ عباد بن کثیر شامی، جو کہ فلسطین کا ایک باشندہ تھا، اپنے خاندان کی فسیلہ نامی ایک خاتون سے روایت کرتا ہے، اس نے اپنے باپ واثلہ بن اسقع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سوال کیا اور کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! کیا آدمی کا اپنی قوم سے محبت کرنا عصبیت میں سے ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، عصبیت تو یہ ہے کہ بندہ ظلم پر اپنی قوم کی مدد کرے۔
    Hadith sahih hai

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      حديث حسن، عباد بن كثير الشامي متابع، وفُسَيلة- ويقال: جميلة وبه ترجم لها المزي، ويقال: خُصَيلة- روى عنها جمع، وذكرها ابن حبان في “الثقات”

      Reply
  145. aysha butt

    Kia umer r.a ka nikah hazrat Ali r.a ki beti se HOA..
    Kia Abu bakr or umr ne hzrt fatima r.a k lie rishtabejha tha
    Btaya jata hai. Wo kamsin thi. Es lie Nabi a.s neinkar kia

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      انساب کی کتب میں ہے کہ عمر ، علی کے داماد ہو گئے تھے
      اس کو اہل سنت قبول کرتے ہیں

      رشتہ فاطمہ کے حوالے سے کوئی صحیح السند روایات نہیں ہیں

      Reply
  146. Abdullah

    السلام عليكم

    مردوں کو زندہ کرنے کی صفت اللہ نے عیسیٰ علیہ السلام کو دی ایسا کہنا یقیناََ شرک ہو گا کیونکہ اللہ اپنی صفات میں یکتا ہے لیکن قرآن میں اتا ہے کہ عیسی علیہ السلام اللہ کے اذن سے مردوں کو زندہ کرتے تھے۔

    میری سمجھ میں
    یہ نہیں ارہا کہ اللہ کے ازن سے عیسی مردوں کو زندہ کر رہے ہیں اللہ نے مردوں کو زندہ کرنے کی صفت دی تو ہی زندہ کرتے تھےنہ عیسی علیہ السلام ؟۔

    اس ٹوپک کو تفصیل سے سمجھائے پلیز کیا ایسی آیات مشابہات میں سے ہونگی؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      و علیکم السلام

      اللہ تعالی اپنی صفت میں شرک نہیں کرتا وہ انبیاء کو خبر کرتا ہے کہ اللہ کی نشانی کے طور پر فلاں مقام پر جب وہ یہ کام کریں گے تو یہ یہ ہو گا

      اسی طرح عیسیٰ کو خبر کر دی گئی کہ وہ کہیں گے کہ مردے، اللہ کے حکم سے کھڑا ہو جا
      تو وہ زندہ ہو جائے گا

      ہم یہ نہیں کہیں گے کہ اللہ کی صفت اللہ نے مخلوق کو دینے کے لئے تخلیق کی – یہ شرکیہ جھل ہے کیونکہ زندہ کرنا مارنا اللہ کے حکم سے ہوتا ہے اور حکم میں اللہ شریک نہیں کرتا – عیسیٰ علیہ السلام نے جو کیا وہ اللہ کے حکم کے اندر ہی کیا

      معجزہ اللہ کے حکم سے ہوتا ہے
      عیسیٰ جب مردے کو زندہ کرنے کی بات کرتے تھے تو وہ سب حکم الہی کے تحت تھا کہ مردہ جسم کھڑا ہو جاتا تھا کیونکہ اس جسم کی روح کو اللہ کا حکم ملتا تھا کہ اب
      جسم میں عود کر جاو اور فرشتے اس روح کو چھوڑ دیتے تھے

      اس طرح معجزہ حکم الہی کے تحت ہے اس وجہ سے کہ اللہ کا حکم اس اللہ کی نشانی کے ظہور پر آ چکا ہوتا ہے

      حکم کرنا – کلام کرنا اللہ کی صفت ہے اور اللہ کی صفات میں کوئی شریک نہیں ہے
      معجزہ اللہ کے امر و حکم و اذن کی وجہ سے ہے – معجزہ غیر اللہ کی صفت ممکن نہیں ہے

      وَ مَا کَانَ لِرَسُوۡلٍ اَنۡ یَّاۡتِیَ بِاٰیَۃٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰ
      اور کسی رسول کا یہ ( مقدور ) نہ تھا کہ کوئی معجزہ اللہ کی اجازت کے بغیر لا سکے

      یعنی معجزہ صرف اللہ کے حکم سے ہی ممکن ہے
      جو چیز صرف اللہ ہی کر سکتا ہو کوئی اور نہیں وہی اللہ کی صفت کہی جاتی ہے

      عیسیٰ علیہ السلام کو تو صرف بتایا گیا تھا کہ اللہ کا حکم مردہ اجسام کو دیا جا چکا ہے وہ جب ان مردہ جسموں کو کہیں گے کہ میرے رب کے حکم سے جی اٹھ تو من جانب اللہ اس کی روح برزخ سے اس مردہ جسم میں آ جائے گی
      اس میں عیسیٰ کو صفت الہی نہیں دی جا رہی بلکہ ان کو اور امت عیسیٰ کو خبر کی جا رہی ہے کہ اب یہ کمال من جانب اللہ ہو گا کہ مردہ بولے گا زندہ ہو جائے گا

      یہ خبریں متشابھات نہیں ہیں بلکہ اللہ کی نشانی پر ہیں

      Reply
  147. aysha butt

    دعوت ذو اکعشیرہ کیا ہے۔۔ںکہس جاتا کہ ابو طالب کے گھر ہوئی اور 22 رجب کو اس کی یاد میں کونڈے ہوتے ہیں

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      کتب تاریخ کے مطابق جب حکم ملا
      وانذر عشيرتك الاقربين
      اپنے رشتہ داروں کو ڈراؤ

      تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دعوت کی جس میں رشتہ داروں کو مدعو کیا اور اس کو
      اردو کتب میں دعوت ذو عَشِيرَہ لکھا گیا ہے

      یقینا یہ رسول اللہ نے کسی کھلے مقام پر کی ہو گی کیونکہ گھر اس دور میں بڑے نہ تھے
      کسی صحیح و ضعیف روایات میں مقام کی البتہ خبر نہیں ہے کہ کہاں دعوت ہوئی

      Reply
  148. Abdullah

    السلام عليكم

    معجزہ یا کرامت در اصل خرق عادت یا ما فوق الفطرۃ جو چیز ظاہر ہو اس کو کہتے ہیں کبھی ایسا ہوتا ہے صاحب معجزہ یا کرامت کو معجزہ و کرامت کے ظہور کا علم بھی نہیں ہوتا ہے اور کبھی کبھی معلوم بھی ہوتا ہے اور جب معلوم ہوتا ہے تو اس میں دو فعل ہوتے ہیں ایک کا نام فعل خلق اور دوسرے کا نام فعل خالق، جو فعل خلق ہے وہ تو عام فعل ہوتا ہے در اصل معجزہ تو فعل خالق ہی ہوتا ہے چستی صاحب مغالطہ بازی کر کے دونوں کو ایک سمجھ بیٹھے ہیں یا سمجھانا چاہتے ہیں اس کو مثال کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے مثلاً حضرت موسی علیہ السلام کا گریبان میں ہاتھ ڈالنا یا ڈنڈا زمیں پر پھینکنا فعل خلق ہے لیکن ہاتھ کا روشن کرنا یا ڈنڈے کا ازدہا بنا دینا فعل خالق ہے “قم بإذن اللہ ” فعل خلق ہے اور مردے کا کھڑا کر دینا فعل خالق، چاند کی طرف اشارہ کرنا فعل خلق ہے اور چاند کے دو ٹکڑے کر دینا فعل خالق ہے، کبھی صاحب معجزہ کو معلوم بھی نہیں ہوتا اور معجزہ یا کرامت ظاہر ہو جاتے ہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نہیں معلوم تھا آگ ٹھنڈی ہونے والی ہے یا بیٹے کی جگہ دنبہ ذبخ ہونے والا ہے؟ اگر چستی صاحب مصر ہیں کہ نہیں یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام و اسماعیل علیہ السلام کو معلوم تھا تو یہ باطل محض ہے اور ایسی صورت میں کوئی آزمائش نہیں ہوئی!

    رہی بات حضرت سلیمان علیہ السلام کی کہ اللہ نے ان کے لئے ہواؤں کو مسخر کردیا تھا یقیناً یہ ہمارے اور آپ کے اعتبار سے معجزہ تھا لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے نہیں، کبھی کبھی ایک ہی چیز ایک مخلوق کے لئے معجزہ ہوتی ہے جبکہ دوسری کے لئے نہیں جیسے پلک جھپکتے ہی میلوں کا فاصلہ طے کرنا ہمارے لئے خرق عادت، ما فوق الفطرۃ ہے معجزہ کرامت ہے لیکن جنوں کے لئے نہیں، آسمانوں کی سیر کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے معجزہ ہے لیکن فرشتوں کے لئے نہیں ایسے ہی بات کرنا انسان کی عام بات ہے جبکہ جانوروں کے لئے کرامت، اللہ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو ہواؤں پر اختیار دیا تھا لہذا وہ جب چاہتے اپنے اس اختیار کو استعمال کرتے تھے جیسے ہم بولتے، دو پیروں پر چلتے دوڑتے ہیں جبکہ چوپائے گونگے ہیں وہ دو پر نہیں چار پر چلتے ہیں۔

    اس تحریر کے متعلق اپ کی رائے درکار ہے ؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      معجزہ کا تعلق انسان سے ہے کہ اس وہ جو دیکھتا ہے روز مرہ میں یا قدرت میں تو کیا اس سے الگ ہوا یا نہیں
      اگر ہوا تو یہ عجیب بات ہوئی

      اور اگر من جانب انبیا اس چیز کو بتایا گیا کہ اللہ تعالی نے ہم کو خبر کی کہ آج ایک اوٹنی ظاہر ہو گی تو یہ اللہ کا کارنامہ ہے
      معجزہ کا تعلق فرشتوں سے نہیں ہے
      اس کا تعلق انسانوں سے ہے
      اور انبیاء کے لئے بھی معجزہ ہے کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ یہ معمول سے ہٹ کر ہو رہا اللہ ان کے ذریعہ ہم کو اور باقی مخلوق کو دکھارہا ہے کہ وہ ہی اصل قدرت رکھتا ہے

      Reply
  149. aysha butt

    “میرے بعد جو چیزیں باعث اختلاف ہوں گی ، ان میں علی (علیہ السلام) کی عدالت سب سے بہترین ہے” ۔
    (کنز اعمال جلد 13، صفحہ 120)
    Aisha Butt “علی( علیہ السلام ) پرہیز گاروں کا پیشوا ، مومنین کے ولی ، اور نورانی چہروں کے رہبر ہے”۔
    حوالہ:- (مستدرک الحاکم جلد 3،صفحہ 138)
    Sahi hai

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      ضعیف سندیں ہیں

      Reply
  150. aysha butt

    خلیفہ قریش سے ہوں گے۔۔ اور دوسری روایت ہے بارہ خلفاء قریشی ہوں گے۔ اور سب بنو ہاشم سے ہوں گے
    شیخ سلیمان کندوزی حنفی۔ یناہی الموتی میں ہے
    بنی ہاشم والی
    https://youtu.be/uttgv_fNsfM?si=BZrWuIIJ3lzT9NOa
    37منٹ پہ ذکر ہے کتاب کا نام دیکھ لیں مجھے سننے میں غلطی لگ سکتی

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      اہل سنت میں بنو ہاشم کے ١٢ خلفاء کی قسم کی کوئی صحیح السند روایت نہیں

      Reply
  151. aysha butt

    عبدالرحمٰن بن ابزیٰ بیان کرتے ہیں کہ ہم عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تھے ۔ ایک آدمی آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا :
    اے امیرالمومنین ! بسا اوقات ہم ایک ایک ، دو دو مہینے گزار دیتے ہیں اور پانی نہیں ملتا ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تو جب پانی نہیں پاتا ، نماز نہیں پڑھتا حتی کہ پانی پا لوں ۔ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما نے کہا :
    اے امیرالمومنین ! کیا آپ کو یاد ہے کہ جب آپ فلاں جگہ میں تھے اور ہم اونٹ چرا رہے تھے تو آپ کو علم ہے کہ ہم جنبی ہو گئے تھے ؟ انھوں نے فرمایا : ہاں ! چنانچہ میں تو مٹی میں خوب لتھڑا تھا ، پھر ہم نبی ﷺ کے پاس آئے ۔ آپ ہنسے اور فرمایا :’’ تحقیق تجھے مٹی کافی تھی ۔‘‘ یہ کہہ کر آپ نے زمین پر ہتھیلیاں ماریں ، پھر ان میں پھونکا ، پھر وہ ہاتھ اپنے چہرے اور کچھ بازوؤں پر مل لیے ۔
    عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے : اے عمار ! اللہ سے ڈر ۔
    عمار نے کہا : امیرالمومنین ! اگر آپ چاہیں تو میں یہ واقعہ ذکر نہ کروں ۔ انھوں نے فرمایا : نہیں ، ہم تمھیں ذمے دار بناتے ہیں ، اس چیز کا جس کے تم ذمے دار بنے ہو ۔

    Sunan Nasai#317
    کتاب: طہارت سے متعلق احکام و مسائل

    Status: صحیح

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      اس پر کیا سوال ہے ؟

      Reply
      1. aysha butt

        Yeh Sahi Hadith hai
        Rafzi es se sabit kr Rahe k Muslim ne aisy khalifa ko chuna jis ko bunyadi masle ka nahi pta

        Reply
        1. Islamic-Belief Post author

          جنبی پر شرع میں غسل ہے

          عبدالرحمٰن بن ابزیٰ بیان کرتے ہیں کہ ہم عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تھے ۔ ایک آدمی آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا :
          اے امیرالمومنین ! بسا اوقات ہم ایک ایک ، دو دو مہینے گزار دیتے ہیں اور پانی نہیں ملتا ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تو جب پانی نہیں پاتا ، نماز نہیں پڑھتا حتی کہ پانی پا لوں ۔ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما نے کہا :
          اے امیرالمومنین ! کیا آپ کو یاد ہے کہ جب آپ فلاں جگہ میں تھے اور ہم اونٹ چرا رہے تھے تو آپ کو علم ہے کہ ہم جنبی ہو گئے تھے ؟ انھوں نے فرمایا : ہاں ! چنانچہ میں تو مٹی میں خوب لتھڑا تھا ، پھر ہم نبی ﷺ کے پاس آئے ۔ آپ ہنسے اور فرمایا :’’ تحقیق تجھے مٹی کافی تھی ۔‘‘ یہ کہہ کر آپ نے زمین پر ہتھیلیاں ماریں ، پھر ان میں پھونکا ، پھر وہ ہاتھ اپنے چہرے اور کچھ بازوؤں پر مل لیے ۔
          عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے : اے عمار ! اللہ سے ڈر ۔
          عمار نے کہا : امیرالمومنین ! اگر آپ چاہیں تو میں یہ واقعہ ذکر نہ کروں ۔ انھوں نے فرمایا : نہیں ، ہم تمھیں ذمے دار بناتے ہیں ، اس چیز کا جس کے تم ذمے دار بنے ہو

          یہاں عمار نے اس پر ریت میں لوٹ لگا لی تو سب حیران ہوئے کہ وضو تو اس طرح تیمم سے کیا جا سکتا ہے
          غسل کب کیا جا سکتا ہے
          لہذا جب عمار سے پوچھا کہ ایسا کیوں کیا تو انہوں نے کہا اس طرح پہلے بھی ہوا تھا
          عمر حیران ہوئے اور کہا کہ ہم تمہاری اس روایت کو قبول نہیں کریں گے
          کیونکہ اگر ایسا ہوا تی یہ خاص حکم ہوا اور عام حکم غسل کا ہی رہے گا

          شرع میں وہی عمل لیا جاتا ہے جو عامہ صحابہ کے علم میں ہو

          ایسا قول جو صرف ایک صحابی بیان کرے اس کو خاص اس وقت کا حکم سمجھا جاتا تھا عام قبول نہیں کیا جاتا تھا
          پھر عمر صرف ایک خبر کو قبول نہ کرتے تھے
          اس پر گواہ طلب کرتے تھے تو احتیاط کا عمل ہے

          اس حدیث سے عمر کی فضیلت ثابت ہوتی ہے

          Reply
          1. aysha butt

            لیکن سر عمار رض کا مسئلہ ٹھیک لگ رہا مجھے۔۔۔ کیونکہ آنے والے نے کہا کہ دو یا سین مہینے تک پانی نہیں ملتا۔۔۔ جب پانی ہو ہی نہیں۔ پھر تو جنبی بھی تیمم ہی کرے گا۔۔۔
            ورنہ پاک کیسے ہوگا پانی تو ہے نہیں غسل کے لیے۔۔۔
            بلکل پانی نہ ہونے کی صورت میں ہی تو تیمم کا طریقہ اترا تھا۔
            اور مسلم 6224 آپ کے مطابق مروانی دور کی روایت ہے مگر کیسے۔ مروان بن حکم دوبار معاویہ کے زمانے میں دو بار گورنر بنا اور دونوں بار معزول ہوا ۔ اور خود اس کا اپنا دور ایک سال سے بھی کم تھا۔ تو پھر یہ طعن ہوئی کب۔۔۔ ۔سہل بن سعد پیدائش سے موت تک مدینہ میں رہے ۔۔ حدیت عن سے روایت ہے ابی حازم کے ساتھ بھی اور سہل بن سعد کے ساتھ بھی۔۔ تو کیاسماع کی تصریح۔ موجود ہے۔۔۔ ۔

          2. Islamic-Belief Post author

            جو حکم جس کام لے لئے ہے اس کو اسی حد تک لیا جائے گا تیمم کی آیات وضو کے حوالہ سے ہیں غسل کے لئے یہ نہیں ہے
            لہذا یہ اختلاف صحابہ اس میں ہوا
            عمار کی راویت منفرد تھی کسی اور صحابی نے بھی وہاں امیر المومنین عمر کو نہیں کہا کہ جنبی تیمم کر لے

            لہذا اس کو سمجھ کر پڑھیں
            بیشتر اصحاب رسول کا موقف یہ مل رہا ہے کہ جب تک پانی نہ ملے غسل جنابت نہ ہو گا
            تیمم سے غسل نہ ہو گا
            وضو ہو گا
            لہذا جنبی پانی ملے گا تو نماز پڑھے گا قضاء کرے گا

            دوسری حدیث پر کافی بحث میں کر چکا ہوں اور یہ ثابت کر دیا تھا کہ نماز عید کا یہ واقعہ دور عثمان کا ہے
            https://www.islamic-belief.net/chargesheet/

            اور مسلم 6224 آپ کے مطابق مروانی دور کی روایت ہے مگر کیسے۔ مروان بن حکم دوبار معاویہ کے زمانے میں دو بار گورنر بنا اور دونوں بار معزول ہوا
            اپ نے کٹ پیسٹ کیا ہے یا تہذیب کا لحاظ نہیں رکھا
            جس کو گورنر ، عثمان رضی اللہ عنہ نے بنایا ہو اس کو اپ نے بد تہذیبی کے ساتھ کیوں بیان کیا ہے
            گورنر بنا ، معزول ہوا وغیرہ

            آئندہ اس کا خیال رکھیں کہ رافضی انداز تحریر بنو امیہ کے لئے نہ لکھا جائے

  152. imran

    السلام علیکم
    حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ الصَّغَانِيُّ، ثنا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَةَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:

    ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب لوگ میت کو دفن کر کے واپس پلٹتے ہیں تو میت ان کے قدموں کی آہٹ سنتی ہے پھر اگر وہ مومن ہو تو نماز اس کے سر کی جانب اور روزہ دائیں جانب اور زکوۃ بائیں جانب اور دیگر نیک کام یعنی صدقہ ، نوافل ، صلہ رحمی اور دیگر نیکیاں اور حسن سلوک اس کے پاؤں کی جانب آ جاتی ہیں پھر اس کے سر کی طرف سے ( قبر میں ) کوئی ( تکلیف دہ ) چیز آنا چاہتی ہے تو نماز کہتی ہے : میری طرف سے کوئی راستہ نہیں ہے ۔ پھر وہ دائیں طرف سے آتی ہے تو روزہ کہتا ہے : میری طرف سے کوئی راستہ نہیں ہے ۔ پھر وہ بائیں جانب سے آتی ہے تو زکوۃ کہتی ہے : میری طرف سے کوئی راستہ نہیں ہے ۔ پھر اس کو کہا جاتا ہے : اٹھ کر بیٹھو ۔ تو وہ اٹھ جاتا ہے اور اس کو سورج یوں محسوس ہوتا ہے جیسا غروب ہونے کے قریب ہو ، پھر اس کو کہا جاتا ہے : تو اس شخص کے بارے میں کیا کہتا تھا ؟ جو تمہارے اندر موجود تھے اور تو ان کے بارے میں کیا گواہی دیتا ؟ وہ کہے گا مجھے چھوڑ دو تاکہ میں نماز پڑھ لوں ۔ وہ کہیں گے : تو یہ کام تھوڑی دیر بعد کر لینا ، ہمیں ہمارے سوال کا جواب دو ، وہ کہے گا : تم مجھ سے کیا سوال کر رہے ہو ؟ وہ کہیں گے : ہم نے جو تم سے سوال کیا ہے اس کا جواب دو ۔ وہ کہے گا : مجھے چھوڑو مجھے ابھی نماز پڑھنی ہے ، وہ کہیں گے : نماز بعد میں پڑھ لینا پہلے ہمارے سوال کا جواب دو ، وہ کہے گا : پوچھو کیا پوچھتے ہو ، وہ کہیں گے : تو ہمیں بتا کہ اس شخص کے بارے میں تو کیا کہتا ہے جو تمہارے اندر تھے اور تو ان کے بارے میں کیا گواہی دیتا ہے جو تمہارے اندر تھے ، وہ کہے گا : وہ محمد ﷺ ہیں ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے ہیں اور وہ اللہ کی طرف سے حق لے کر آئے ، اس کو کہا جائے گا : تو اسی نظریے پر زندہ رہا ، اسی پر تجھے موت آئی اور ان شاء اللہ ! اسی پر تو قیامت میں اٹھایا جائے گا ، پھر اس کے لیے دوزخ کی طرف سے ایک دروازہ کھولا جائے گا اگر تو نافرمان ہوتا ( تو یہ تیرا مقام ہوتا ) تو اپنے اس مقام کو اور اس میں جو کچھ اللہ نے تیار کر رکھا ہے اس کو دیکھ لے ، تو اس کی خوشی اور مسرت بڑھ جائے گی پھر جب وہ اس کو دیکھ لے گا تو اس کی خوشی میں اور اضافہ ہو جائے گا اور یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے قول :’’ يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا، وَفِي الْآخِرَةِ، وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ ‘‘ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو قول ابت کے ساتھ دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں ثابت قدمی عطا فرمائے گا اور اللہ ظالموں کو گمراہ کرتا ہے اور اللہ وہی کرتا ہے جو چاہتا ہے ( راوی کہتے ہیں کہ ابوالحکم کی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت میں یوں ہے ) پھر اس کو کہا جائے گا : تو اس دلہن کی طرح سو جا جس کو صرف وہی شخص بیدار کرتا ہے جو اس کے تمام رشتہ داروں سے زیادہ عزیز ہے ۔ ( ان الفاظ کے بعد دوبارہ اسی حدیث کی طرف آئے جو ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اگر وہ شخص کافر ہو گا تو کوئی چیز ( یعنی کوئی تکلیف دہ چیز ) اس کے سر کی جانب سے آئے گی تو اس کی جانب کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی ، دائیں جانب سے آئے گی تو وہاں بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی پھر بائیں سے آئے گی تو بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی پھر قدموں کی طرف سے آئے گی تو وہاں بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی ۔ اس کو کہا جائے گا : اٹھ کر بیٹھو ، وہ مرعوب اور خوفزدہ ہو کر بیٹھے گا ۔ اس کو کہا جائے گا : تو اس شخص کے بارے میں بتا ، جو تمہارے اندر مبعوث ہوئے ، اس کو کچھ سمجھ نہیں آئے گی ، وہ کہیں گے : محمد ﷺ ۔ وہ کہے گا : میں لوگوں کو کچھ کہتے ہوئے سنا کرتا تھا جو کچھ وہ کہتے تھے ، میں بھی وہ ہی کہا کرتا تھا ۔ وہ کہیں گے : تو اسی پر زندہ رہا اور اسی پر مرا ہے اور ان شاء اللہ اسی پر قیامت کے دن اٹھایا جائے گا ۔ پھر اس کے لیے ( قبر میں ) جنت کی طرف سے ایک دروازہ کھولا جائے گا اور اس کو کہا جائے گا اگر تو اطاعت گزار ہوتا تو دیکھ یہ تیری منزل ہوتی اور یہ سب کچھ جو اللہ نے تیار کر رکھا ہے ، تیرے لیے ہوتا ۔ اس کی حسرت و یاس بڑھ جائے گی ۔ ( رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ) پھر اس کی قبر اس قدر تنگ کر دی جائے گی کہ اس کی پسلیاں ٹوٹ کر ایک دوسرے میں پیوست ہو جائیں گی ۔ اور یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے قول ’’ فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا، وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى ‘‘ بے شک اس کے لیے زندگی تنگ ہے اور ہم قیامت کے دن اس کو اندھا کر کے اٹھائیں گے ۔

    اس حوالے سے میں نے آپکی ویب سائٹ پر کوئی تفصیل دیکھنے کی کوشش کی ہے جو کہ مجھے نہیں ملی۔ برائے مہربانی اس حدیث کے ھوالے سے رہنمائی فرما دیں۔ شکریہ

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      ضعیف ہے
      https://www.islamic-belief.net/q-a/%d8%b9%d9%82%d8%a7%d8%a6%d8%af/%d8%ad%db%8c%d8%a7%d8%aa-%d8%a8%d8%b9%d8%af-%d8%a7%d9%84%d9%85%d9%88%d8%aa/
      پر

      سوال کیا یہ روایت درست ہے ؟
      میں اس کی تفصیل ہے

      محمد بن عمرو بن علقمة بن وقاص الليثي أبو عبد الله، ويقال أبو الحسن المدني، ت 144 أو 145 هـ. سئل يحيى بن معين عنه فقال: “مازال الناس يتقون حديثه. قيل له وما علة ذلك؟ قال: كان محمد بن عمرو يحدث مرة عن أبي سلمة بالشيء رأيه ثم يحدث به مرة أخرى، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة

      امام ابن معین نے کہا لوگ محمد بن عمرو کی روایات سے بچتے تھے ، پوچھا اس کی وجہ کیا تھی ؟ بولے محمد بن عمرو ایک مرتبہ روایت کو ابو سلمہ تک لے جاتا ، پھر بعد میں اس کو ابو ہریرہ تک

      یہاں بھی سند ابو سلمہ سے ہے اور ابو ہریرہ تک جا رہی ہے لہذا ہم روایت کو عقیدے میں نہیں لیتے

      ابن جوزی نے اس راوی کا ترجمہ الضعفاء والمتروكون میں قائم کیا ہے

      امام احمد کا کہنا ہے
      محمد بن عمرو مضطرب الحديث.
      “مسائل ابن هانئ” (2330).

      قال أحمد: لم يرو شعبة عن محمد بن عمرو إلا حديثًا واحدًا.
      امام شعبة نے اس کی صرف ایک روایت لی

      Reply
  153. imran

    السلام علیکم

    آپ نے عبادات والے سیکشن میں اعتکاف کے حوالے سے لکھا کہ
    راقم کے علم ميں شريعت ميں مسجد ميں عورت کے اعتکاف کي دليل نہيں ہے

    ابو داود 2473 کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
    حدثنا وهب بن بقية، اخبرنا خالد، عن عبد الرحمن يعني ابن إسحاق، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، انها قالت:” السنة على المعتكف ان لا يعود مريضا ولا يشهد جنازة ولا يمس امراة ولا يباشرها ولا يخرج لحاجة إلا لما لا بد منه، ولا اعتكاف إلا بصوم، ولا اعتكاف إلا في مسجد جامع”. قال ابو داود: غير عبد الرحمن بن إسحاق، لا يقول فيه: قالت: السنة. قال ابو داود: جعله قول عائشة.

    اس حدیث کے مطابق تو یہی لکھا ہے کہ جامع مسجد کے علاوہ کہیں اعتکاف نہیں۔
    اس کے علاوہ تحفتہ الاشراف ۷۳۵۴ بھی ملاحظہ کریں۔

    اگر آپ کے نزدیک کوئی بھی ضعیف ہوئی تو پھر اس حوالے سے کیا کہیں گے اگر کسی مسلئے پر صحیح حدیث موجود نہ ہو تو ضعیف حدیث سے مسلئے کا جواب لیں گے۔

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      و علیکم السلام

      ہم تک جو روایات آئی ہیں ان میں کہیں نہیں دیکھتے کہ وفات النبی کے بعد امھات المومنین نے مسجد میں اعتکاف کیا ہو
      جبکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات سن ٥٣ یا ٥٧ ھ کی ہے
      ایک بھی راوی نہیں جو کہتا ہو کہ ام المومنین سے مسجد میں ملا

      اس کی وجہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری سال شوال میں اعتکاف کیا اور جب دیکھا کہ ازواج النبی نے رمضان میں مسجد میں خیمہ لگا لیا ہے
      عائشہ رضي اللہ عنہا سے روايت ہے، بيان فرماتي ہيں‎:
      ‎’’‎كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَعْتَكِفُ فِي العَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ ‏رَمَضَانَ، فَكُنْتُ أَضْرِبُ لَهُ خِبَاءً فَيُصَلِّي الصُّبْحَ ثُمَّ يَدْخُلُهُ، فَاسْتَأْذَنَتْ ‏حَفْصَةُ عَائِشَةَ أَنْ تَضْرِبَ [ص:49] خِبَاءً، فَأَذِنَتْ لَهَا، فَضَرَبَتْ خِبَاءً، ‏فَلَمَّا رَأَتْهُ زَيْنَبُ ابْنَةُ جَحْشٍ ضَرَبَتْ خِبَاءً آخَرَ، فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّبِيُّ صَلَّى ‏اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى الأَخْبِيَةَ، فَقَالَ: «مَا هَذَا؟» فَأُخْبِرَ، فَقَالَ النَّبِيُّ ‏صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَلْبِرَّ تُرَوْنَ بِهِنَّ» فَتَرَكَ الِاعْتِكَافَ ذَلِكَ الشَّهْرَ، ‏ثُمَّ اعْتَكَفَ عَشْرًا مِنْ شَوَّالٍ‎‘‘??
      ‏[صحيح البخاري، الاعتکاف، باب اعتکاف النساء، رقم الحديث: ‏‏2033] ‏
      نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم رمضان کے آخري عشرہ ميں ‏اعتکاف کيا کرتے تھے- ميں آپ صلي اللہ عليہ وسلم کے ليے ‏‏(مسجد ميں) ايک خيمہ لگا ديتي اور آپ صلي اللہ عليہ وسلم ‏صبح کي نماز پڑھ کے اس ميں چلے جاتے تھے پھر حفصہ رضي اللہ ‏عنہا نے بھي عائشہ رضي اللہ عنہا سے خيمہ کھڑا کرنے کي (اپنے ‏اعتکاف کے ليے) اجازت چاہي عائشہ رضي اللہ عنہا نے اجازت ‏دے دي اور انہوں نے ايک خيمہ کھڑا کر ليا جب زينب بنت ‏جحش رضي اللہ عنہا نے ديکھا تو انہوں نے بھي (اپنے ليے) ايک ‏خيمہ کھڑا کر ليا صبح ہوئي تو رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے ‏کئي خيمے ديکھے تو فرمايا، يہ کيا ہے؟ آپ کو ان کي حقيقت کي ‏خبر دي گئي – آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: کيا تم سمجھتے ‏ہو يہ خيمے ثواب کي نيت سے کھڑے کئے گئے ہيں؟ پس آپ ‏صلي اللہ عليہ وسلم نے اس مہينہ (رمضان) کا اعتکاف چھوڑ ديا ‏اور شوال کے عشرہ کا اعتکاف کيا ‏

      اس طرح اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل کو پسند نہیں کیا اور ازواج النبی نے بھی پھر اعتکاف نہیں کیا

      ابو داود کی روایت ضعیف ہے
      عبد الرحمن بن إسحاق بن عبد الله بن الحارث، العامري، القُرَشِيّ، مولاهم، ويقال الثقفي، المَدَنِيّ، ويقال له عباد بن إسحاق.
      • ذكره الدَّارَقُطْنِيّ في «الضعفاء والمتروكين» (341) ، وقال يعرف بعباد، يرمى بالقدر، ضعيف الحديث
      قال العجلي: يُكتب حديثه، وليس بالقوي.

      جب صحیح حدیث نہ ہو تو شواہد کو دیکھا جاتا ہے کہ کیا اس قسم کو عمل مسجد میں کیا گیا

      مسجد کی عبادات کے حوالے سے اصول یہ ہے کہ اس کو بیان کرنے والے متعدد لوگ ہونے چاہیے ہیں – صرف ایک دو راوی کہہ دیں تو اس کو قبول نہیں کیا جاتا
      اس کے لئے حدیث مشہور درکار ہے

      تحفہ الاشرف میں ہے
      عمر نے کعبہ میں اعتکاف کی منت مانی تھی
      اور کسی ایک رویت میں ہے
      وتلك الجارية فأرسلها
      ایک لونڈی کو بھیجا

      اس روایت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ لونڈی بھی معتکف تھی
      مزید یہ کہ سند میں عبد الله بن بديل کمزور راوی ہے

      Reply
      1. imran

        السلام علیکم

        آپ نے کہا اپنی تحریر میں کہا تھا کہ ازواج النبیﷺ کا اعتکاف مسجد میں ثابت نہیں۔ جبکہ ام سلمہ (رضی) نے آپﷺ کے ساتھ مسجد میں اعتکاف کیا تھا۔
        بخاری شریف حدیث –
        309-310-311-2037
        میں دلیل موجود ہے۔

        Reply
        1. Islamic-Belief Post author

          اعتکاف کے مسائل کا بیان باب : کیا مستحاضہ عورت اعتکاف کرسکتی ہے؟ ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے خالد نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے ایک خاتون ( ام سلمہ رضی اللہ عنہا ) نے جو مستحاضہ تھیں، اعتکاف کیا۔ وہ سرخی اور زردی ( یعنی استحاضہ کا خون ) دیکھتی تھیں۔ اکثر طشت ہم ان کے نیچے رکھ دیتے اور وہ نماز پڑھتی رہتیں۔

          ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے خالد کے واسطہ سے بیان کیا، وہ عکرمہ سے وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ بعض امہات المومنین نے اعتکاف کیا حالانکہ وہ مستحاضہ تھیں۔
          م سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے خالد سے، وہ عکرمہ سے، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کی ازواج میں سے ایک نے اعتکاف کیا۔ وہ خون اور زردی ( نکلتے ) دیکھتیں، طشت ان کے نیچے ہوتا اور نماز ادا کرتی تھیں۔
          ——————–

          ان روایات میں یہ نہیں لکھا کہ مسجد میں اعتکاف کیا تھا – مزید یہ کہ اس روایت میں زمانے کا تعین نہیں ہے کب یہ اعتکاف ہوا کیونکہ رسول اللہ کا آخری عمل لیا جاتا ہے

          حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری سال شوال میں اعتکاف کیا اور جب دیکھا کہ ازواج النبی نے رمضان میں مسجد میں خیمہ لگا لیا ہے
          عائشہ رضي اللہ عنہا سے روايت ہے، بيان فرماتي ہيں‎:
          ‎’’‎كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَعْتَكِفُ فِي العَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ ‏رَمَضَانَ، فَكُنْتُ أَضْرِبُ لَهُ خِبَاءً فَيُصَلِّي الصُّبْحَ ثُمَّ يَدْخُلُهُ، فَاسْتَأْذَنَتْ ‏حَفْصَةُ عَائِشَةَ أَنْ تَضْرِبَ [ص:49] خِبَاءً، فَأَذِنَتْ لَهَا، فَضَرَبَتْ خِبَاءً، ‏فَلَمَّا رَأَتْهُ زَيْنَبُ ابْنَةُ جَحْشٍ ضَرَبَتْ خِبَاءً آخَرَ، فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّبِيُّ صَلَّى ‏اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى الأَخْبِيَةَ، فَقَالَ: «مَا هَذَا؟» فَأُخْبِرَ، فَقَالَ النَّبِيُّ ‏صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَلْبِرَّ تُرَوْنَ بِهِنَّ» فَتَرَكَ الِاعْتِكَافَ ذَلِكَ الشَّهْرَ، ‏ثُمَّ اعْتَكَفَ عَشْرًا مِنْ شَوَّالٍ‎‘‘??
          ‏[صحيح البخاري، الاعتکاف، باب اعتکاف النساء، رقم الحديث: ‏‏2033] ‏
          نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم رمضان کے آخري عشرہ ميں ‏اعتکاف کيا کرتے تھے- ميں آپ صلي اللہ عليہ وسلم کے ليے ‏‏(مسجد ميں) ايک خيمہ لگا ديتي اور آپ صلي اللہ عليہ وسلم ‏صبح کي نماز پڑھ کے اس ميں چلے جاتے تھے پھر حفصہ رضي اللہ ‏عنہا نے بھي عائشہ رضي اللہ عنہا سے خيمہ کھڑا کرنے کي (اپنے ‏اعتکاف کے ليے) اجازت چاہي عائشہ رضي اللہ عنہا نے اجازت ‏دے دي اور انہوں نے ايک خيمہ کھڑا کر ليا جب زينب بنت ‏جحش رضي اللہ عنہا نے ديکھا تو انہوں نے بھي (اپنے ليے) ايک ‏خيمہ کھڑا کر ليا صبح ہوئي تو رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے ‏کئي خيمے ديکھے تو فرمايا، يہ کيا ہے؟ آپ کو ان کي حقيقت کي ‏خبر دي گئي – آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: کيا تم سمجھتے ‏ہو يہ خيمے ثواب کي نيت سے کھڑے کئے گئے ہيں؟ پس آپ ‏صلي اللہ عليہ وسلم نے اس مہينہ (رمضان) کا اعتکاف چھوڑ ديا ‏اور شوال کے عشرہ کا اعتکاف کيا ‏

          اس طرح اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل کو پسند نہیں کیا اور ازواج النبی نے بھی پھر اعتکاف نہیں کیا

          ——–
          غور طلب ہے کہ اگر امہات المومنین اعتکاف کر رہی تھیں تو دیگر مسلمان عورتیں بھی کرتی ہوں گی لیکن کسی روایت میں نہیں کہ مسجد النبی میں عورتوں کے خیمے لگ گئے ہوں
          ایسا نہ دور خلفاء میں ملتا ہے نہ ان کے بعد اس پر کوئی تعامل امت ملا ہے

          یہ متن ایک ہی سند ہے
          اس روایت کو امام بخاری ، ابو داود اور ابن ماجہ نے ایک ہی سند خَالِدُ بنُ مِهْرَانَ أَبُو المُنَازِلِ البَصْرِيُّ الحَذَّاءُ عن عکرمہ مولی ابن عباس کی سند سے روایت کیا ہے – اور بہت سے محدثین کو اس سند پر اعتراض ہے – خَالِدُ بنُ مِهْرَانَ کے لئے امام ابو حاتم کا کہنا ہے – لا يحتج به اس سے دلیل مت لینا – خالد مدلس بھی ہیں اور اس اعتکاف والی روایت کی تمام سندوں میں اس کا عنعنہ ملا ہے
          يحيى بن آدم، قلت لحماد بن زيد: ما لخالد الحذاء في حديثه! فقال: قدم علينا قدمة من الشام فكأنا أنكرنا حديثه.
          امام حماد بن زید کا کہنا تھا جب سوال ہوا کہ خالد حدیث میں کیسا تھا ؟ کہا : یہ شام سے ہمارے پاس پہنچا اور ہم اس کی حدیثوں کا انکار کرتے تھے
          امام بخاری نے اس اعتکاف والی خالد کی روایت کو لکھا ہے مگر ان سے قبل ہے اور ان کے ہم عصر محدثین کے تحت اس کی حدیث قابل قبول نہیں ہے

          Reply
  154. aysha butt

    Ap ne Hadith. Mavia r.a ka pait na bharry wali Hadith MN kaha k matan munkar hai Mavia r.a jawan thy jab Madina aye…. Jab k us MN waqia ibn e Abbas bta rahy k MN bachon MN khel Raha tha. Na k hazrat mavia r.a
    To matan to munkir na hoa

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      جی اپ نے درست کہا – روایت متنا منکر نہیں ہے – اس کی تصحیح کر دی ہے

      Reply
  155. محمد نعیم

    اسلام علیکم
    محمد شیخ کا ترجمه اور تفسیر کے بار ے کچھ وضاحت کردیں
    جزاک الله خیر

    Reply
  156. Abdullah

    السلام عليكم

    یہ روایت ترجمۃ الباب میں نقل کی گی ہے کیا یہ روایت درست ہے سندا متنا؟

    :اور ابوہریرہ ؓ سے مرفوعاً یوں مروی ہے کہ اگر کسی نے رمضان میں کسی عذر اور مرض کے بغیر ایک دن کا بھی روزہ نہیں رکھا تو ساری عمر کے روزے بھی اس کا بدلہ نہ ہوں گے اور ابن مسعودؓ کا بھی یہی قول ہے اور سعید بن مسیب، شعبی اور ابن جبیر اور ابراہیم اور قتادہ اور حمام  نے بھی فرمایا کہ اس کے بدلہ میں ایک دن روزہ رکھنا چاہئے۔

    یہ روایت بخاری میں ہے۔

    اور اپ کی کتاب الصوم اوپن نہیں ہو رہی

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      https://www.islamic-belief.net/wp-content/uploads/2020/06/%DA%A9%D8%AA%D8%A7%D8%A8-%D8%A7%D9%84%D8%B5%D9%88%D9%85.pdf

      میرے پاس کتاب کھل رہی ہے

      —————-

      یہ صحیح کی معلق روایت ہے

      صحيح البخاري
      كِتَاب الصَّوْمِ — کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
      29. بَابُ إِذَا جَامَعَ فِي رَمَضَانَ:
      باب: جان بوجھ کر اگر رمضان میں کسی نے جماع کیا؟
      وَيُذْكَرُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَفَعَهُ مَنْ أَفْطَرَ يَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ وَلَا مَرَضٍ، لَمْ يَقْضِهِ صِيَامُ الدَّهْرِ وَإِنْ صَامَهُ، وَبِهِ قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: وَقَالَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، وَالشَّعْبِيُّ، وَابْنُ جُبَيْرٍ، وَإِبْرَاهِيمُ، وَقَتَادَةُ، وَحَمَّادٌ: يَقْضِي يَوْمًا مَكَانَهُ.
      ‏‏‏‏ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً یوں مروی ہے کہ اگر کسی نے رمضان میں کسی عذر اور مرض کے بغیر ایک دن کا بھی روزہ نہیں رکھا تو ساری عمر کے روزے بھی اس کا بدلہ نہ ہوں گے اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا بھی یہی قول ہے اور سعید بن مسیب، شعبی اور ابن جبیر اور ابراہیم اور قتادہ اور حماد رحمہم اللہ نے بھی فرمایا کہ اس کے بدلہ میں ایک دن روزہ رکھنا چاہئے۔

      امام بخاری نے سند نہیں دی کیونکہ ان کے نزدیک یہ صحیح میں اس درجے پر نہیں کہ اس کو جامع الصحیح میں لکھا جائے

      البتہ منذری نے امام بخاری کے اقوال نقل کیے ہیں کہ اس میں راوی کا سماع ثابت نہیں ہے
      مختصر سنن أبي داود
      المؤلف: الحافظ عبد العظيم بن عبد القوي المنذري (المتوفى: 656 هـ)

      باب التغليظ فيمن أفطر عمدًا [2: 288]
      2396/ 2290 – عن أبي هريرة قال: قال رسول اللَّه -صلى اللَّه عليه وسلم-: “من أفطر يومًا من رمضان من غير رُخْصَةٍ رَخَّصَهَا اللَّهُ له، لم يقض عنه صِيَامُ الدهر”. [حكم الألباني: ضعيف]
      • وأخرجه الترمذي (723) والنسائي (3281، 3282، 1715 – الكبرى) وابن ماجة (1672). وذكره البخاري تعليقًا [في الباب (29) إذا جامع في رمضان]، قال: ويُذكر عن أبي هريرة رَفعه: “من أفطر يومًا من رمضان من غير عذر ولا مرض، لم يقضه صيام الدهر، وإن صامه”. وقال الترمذي: لا نعرفه إلا من هذا الوجه، وسمعت محمدًا -يعني البخاري- يقول: أبو المطوَّس: اسمه يزيد بن المطوس، ولا أعرف له غير هذا الحديث، وقال البخاري أيضًا: تفرد أبو المطوس بهذا الحديث، ولا يعرف له غيره، ولا أدري سمع أبوه من أبي هريرة أم لا؟

      Reply
  157. محمد نعیم

    اسلام علیکم
    کیا ہم منکر حدیث کو کافر کہ سکتے ہے؟ ؟
    جو لوگ صرف قرآن کو مانتا ہے اور صحیح حدیث کو بھی نہیں مانتے ہیں؟ ؟

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      و علیکم السلام

      جو قرآن کو مانتا ہو لیکن حدیث کو اپنے کسی شک کی بنا پر رد کرے اس کو کافر نہیں کہا جا سکتا
      کیونکہ وہ اصل قول نبوی کو رد نہیں کر رہا بلکہ صرف یہ کہہ رہا ہے کہ اس کو یقین نہیں کہ یہ روایت واقعی قول نبی ہے

      Reply
  158. محمد نعیم

    اسلام علیکم
    اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ قرآن کی علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بات در باب شریعت اگر صحیح طریقے سے ثابت بہی ہو پہر بہی وحی الہی نہی ہے کیونکہ اگر وحی ہوتا ضرور ی تہا کے قرآن میں لکھا ہوتا
    اور ایک روایت میں ہے کے رسول اللہ علیہ وسلم قرآن کی علاوہ کسی اور چیز کو لکھنے سے منع کیا تہا
    اگر حدیث وحی ہوتا ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسکو قرآن میں لکھا ہوتا
    اس شخص کی اس شبہ کی کچھ وضاحت کردیں
    جزاک اللہ خیر

    Reply
    1. Islamic-Belief Post author

      تمام انبیاء پر الوحی آئی ہے یا نہیں ؟ اس شخص سے یہ سوال کریں
      پھر پوچھیں موسی پر کیا کتاب نازل ہوئی
      پھر پوچھیں کب توریت ملی خروج مصر سے پہلے یا بعد
      پھر پوچھیں مصر میں اللہ کا حکم آیا یا نہیں ؟ مثلا گھروں کو قبلہ کرو ، سمندر پر عصا مارو وغیرہ یہ الوحی ہے یا نہیں

      ممکن ہے اس کی سمجھ آ جائے

      Reply

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *