معاملات

الراشی والمرتشی فی النار رشوت لینے والا اور دینے والا جہنی ہے یہ حدیث کہاں ہے اور صحیح حدیث ہے یا ضعیف؟

جواب

مسند احمد اور سنن ابو داود میں ہے
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ خَالِهِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: ” لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّاشِيَ وَالْمُرْتَشِيَ
رسول الله نے فرمایا الله کی لعنت ہو رشوت دینے لینے والے پر

کتاب المعجم الأوسط از طبرانی میں اسی سند میں اضافہ ہے

الرَّاشِي وَالْمُرْتَشِي فِي النَّارِ
یہ دونوں اگ میں ہیں

اور ابوہریرہ رضی الله کی روایت مسند احمد میں ہے
لَعَنَ اللهُ الرَّاشِيَ وَالْمُرْتَشِيَ فِي الْحُكْمِ
یہ رشوت کا حکم فیصلہ کے حوالے سے ہے

روایت حسن ہے

جواب

جنت ماں کے قدموں تلے ثابت حدیث نہیں ہے
الفوائد الموضوعة في الأحاديث الموضوعة
المؤلف: مرعي بن يوسف بن أبى بكر بن أحمد الكرمى المقدسي الحنبلى (المتوفى: 1033هـ)
” الْجَنَّةُ تَحْتَ أَقْدَامِ الأُمَّهَاتِ “. قَالَ ابْنُ تَيْمِيَةَ] : مَا أَعْرِفُ هَذَا اللَّفْظَ بِإِسْنَادٍ ثَابِتٍ
ابن تیمیہ کہتے ہیں سند ثابت نہیں ہے

ذخيرة الحفاظ از ابن قیسرانی میں اس کو منکر کہا گیا ہے

اس کی سند میں ایک راوی موسى بن محمد بن عطاء الدمياطي پر جرح ہے جو حدیث چور مشھور ہے

جواب

ایک عمومی قول ہے کہ اس سے مراد علماء ہیں

امام کا لفظی مطلب رہنما ہے – الله تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کو امام کہا ہے تو یہ بات رہنما کی یا لیڈر شپ کی ہی ہے – آج یہود ، نصرانیوں اور مسلمانوں تینوں مدھب اپنے اپ کو ابراھیم علیہ السلام سے جوڑتے ہیں – الله نے ان کو امام ، آزمائش کی بنا پر کیا اور کہا وہ نہ یہودی تھے نہ نصرانی – یہ بات ابراہیم کے مدھب سے متعلق ہے کہ وہ مسلم تھے

لیکن جب اس لفظ کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم استعمال کرتے ہیں تو نبی صلی الله علیہ وسلم کے قول کی تائید دیگر روایات سے بھی ہوتی ہے کہ اپ کا مقصد گمراہ حکمران تھے
کیونکہ اس دور میں یہ لفظ علم والوں یا علماء کے لیے استعمال نہیں ہوتا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ اصحاب رسول تمام علم والے ہی تھے
نبی صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا ابو بکر نماز پڑھائیں
آج ہم یہ مانتے ہیں کہ اس میں ان کی خلافت کا عندیہ پوشیدہ تھا
یعنی نماز کا امام ، مسلموں کا امیر اور امام بنے گا

أَئِمَّةً مُضِلِّينَ یعنی گمراہ کرنے والے ائمہ یا حکمران مراد ہیں کیونکہ دور نبوی میں ائمہ کا لفظ امراء کے لئے استمعال ہوتا تھا نہ کہ علماء کے لئے

ایک دوسری حدیث میں ہے
انظر صَحِيح الْجَامِع: 1553 , والصحيحة: 1127
إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي فِي آخِرِ زَمَانِهَا: إيمَانًا بِالنُجُومِ , وَحَيْفَ السُّلْطَانِ , وَتَكْذِيبًا بِالْقَدَرِ
آخری زمانے میں مجھے خوف ہے ظالم سلطان سے

اور ایک حدیث میں ہے
وَعَنْ عمرو بن سفيان السلمي – رضي الله عنه – قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ – صلى الله عليه وسلم -: ” مَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي إِلَّا ثَلَاثا: شُحٌّ مُطَاعٌ (1) وَهَوًى مُتَّبَعٌ، وَإِمَامٌ ضَالٌّ
خوف ہے لالچی کا ، بہکے ہوئے کا، اور امام گمراہ کا

امام یعنی حاکم

صحیح بخاری میں ہے
وَعَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ قَالَ: دَخَلَ أَبُو بَكْرٍ – رضي الله عنه – عَلَى امْرَأَةٍ مِنْ أَحْمَسَ , يُقَالُ لَهَا: زَيْنَبُ , فَرَآهَا لَا تَكَلَّمُ , فَقَالَ: مَا لَهَا لَا تَكَلَّمُ؟ , قَالُوا: حَجَّتْ مُصْمِتَةً (1) فَقَالَ لَهَا: تَكَلَّمِي , فَإِنَّ هَذَا لَا يَحِلُّ, هَذَا مِنْ عَمَلِ الْجَاهِلِيَّةِ , فَتَكَلَّمَتْ فَقَالَتْ: مَنْ أَنْتَ؟ , قَالَ: امْرُؤٌ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ , قَالَتْ: أَيُّ الْمُهَاجِرِينَ؟ , قَالَ: مِنْ قُرَيْشٍ , قَالَتْ: مِنْ أَيِّ قُرَيْشٍ أَنْتَ؟ , قَالَ: إِنَّكِ لَسَئُولٌ (2) أَنَا أَبُو بَكْرٍ , فَقَالَتْ: مَا بَقَاؤُنَا عَلَى هَذَا الْأَمْرِ الصَّالِحِ (3) الَّذِي جَاءَ اللهُ بِهِ بَعْدَ الْجَاهِلِيَّةِ؟ , قَالَ: بَقَاؤُكُمْ عَلَيْهِ مَا اسْتَقَامَتْ بِكُمْ أَئِمَّتُكُمْ (4)
قَالَتْ: وَمَا الْأَئِمَّةُ؟ , قَالَ: أَمَا كَانَ لِقَوْمِكِ رُءُوسٌ وَأَشْرَافٌ يَأمُرُونَهُمْ فَيُطِيعُونَهُمْ؟ , قَالَتْ: بَلَى , قَالَ: فَهُمْ مِثْلُ أُولَئِكِ عَلَى النَّاسِ

ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے اور ان سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ قبیلہ احمس کی ایک عورت سے ملے ان کا نام زینب بنت مہاجر تھا۔ آپ نے دیکھا کہ وہ بات ہی نہیں کرتیں دریافت فرمایا کیا بات ہے یہ بات کیوں نہیں کرتیں؟ لوگوں نے بتایا کہ مکمل خاموشی کے ساتھ حج کرنے کی منت مانی ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: اجی بات کرو اس طرح حج کرنا تو جاہلیت کی رسم ہے، چنانچہ اس نے بات کی اور پوچھا آپ کون ہیں؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں مہاجرین کا ایک آدمی ہوں۔ انہوں نے پوچھا کہ مہاجرین کے کس قبیلہ سے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ قریش سے، انہوں نے پوچھا قریش کے کس خاندان سے؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس پر فرمایا تم بہت پوچھنے والی عورت ہو، میں ابوبکر ہوں۔ اس کے بعد انہوں نے پوچھا جاہلیت کے بعد اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں یہ دین حق عطا فرمایا ہے اس پر ہم (مسلمان) کب تک قائم رہ سکیں گے؟ آپ نے فرمایا اس پر تمہارا قیام اس وقت تک رہے گا جب تک تمہارے
امام (الْأَئِمَّةُ) حاکم سیدھے رہیں گے۔ اس خاتون نے پوچھا امام (الْأَئِمَّةُ) سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا: کیا تمہاری قوم میں سردار اور اشراف لوگ نہیں ہیں جو اگر لوگوں کو کوئی حکم دیں تو وہ اس کی اطاعت کریں؟ اس نے کہا کہ کیوں نہیں ہیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ امام (الْأَئِمَّةُ) سے یہی مراد ہیں۔

جواب

یہ التباس ہے جو پیدا کیا جاتا ہے

مسائل دو طرح کے ہیں ایک فروعی اور ایک عقیدہ کے

فروع میں اختلاف میں اجر مل سکتا ہے لیکن عقیدہ غلط دیا جائے تو الله کا غضب ہے

یہاں وقت نہیں لیکن یہ فرقہ پرست بھی اسی کے قائل ہیں کہ غلط عقیدہ پر تکفیر کی جائے گی مثلا امام احمد، خلق قرآن کے قائل جو اہل قبلہ اور کلمہ گو تھے ان کو جھمی کافر کہنے میں چوک نہیں کرتے

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ

(بَابُ قَوْلِهِ نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ وَقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ)

صحیح بخاری: کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں

(باب: نساءکم حرث لکم فاتواحرثکم انی شئتم )الخ)

4526 . حدثنا إسحاق، أخبرنا النضر بن شميل، أخبرنا ابن عون، عن نافع، قال كان ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ إذا قرأ القرآن لم يتكلم حتى يفرغ منه، فأخذت عليه يوما، فقرأ سورة البقرة حتى انتهى إلى مكان قال تدري فيما أنزلت‏.‏ قلت لا‏.‏ قال أنزلت في كذا وكذا‏.‏ ثم مضى‏.‏
حکم : صحیح

ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا ، کہا ہم کو نضربن شمیل نے خبر دی ، کہا ہم کو عبد اللہ ابن عون نے خبر دی ، ان سے نافع نے بیان کیا کہ جب ابن عمر رضی اللہ عنہما قرآن پڑھتے تو اور کوئی لفظ زبان پر نہیں لاتے یہاں تک کہ تلاوت سے فارغ ہو جاتے ۔ ایک دن میں ( قرآن مجید لے کر ) ان کے سامنے بیٹھ گیا اور انھوں نے سورۃ بقرہ کی تلاوت شرو ع کی ، جب اس آیت نسا ءکم حرث لکم الخ پر پہنچے تو فرمایا ، معلوم ہے یہ آیت کس کے بارے میں نازل ہوئی تھی ؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں ، فرمایا کہ فلاں فلاں چیز ( یعنی عورت سے پیچھے کی طرف سے جماع کرنے کے بارے میں ) نازل ہوئی تھی اور پھر تلاوت کرنے لگے ۔

اس حدیث میں یہ الفاظ کہاں سے لئے گیۓ

( یعنی عورت سے پیچھے کی طرف سے جماع کرنے کے بارے میں )

——-

ابن حجر نے فتح الباری میں جب اس کا ذکر کیا، تو کہا کہ
قوله : ( حدثني إسحاق ) هو ابن راهويه

پھر یہ ہے

فقد أخرجها إسحاق بن راهويه في مسنده وفي تفسيره بالإسناد المذكور وقال بدل قوله حتى انتهى إلى مكان حتى انتهى إلى قوله نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أني شئتم فقال أتدرون فيما أنزلت هذه الآية قلت لا قال نزلت في إتيان النساء في أدبارهن وهكذا

جواب

صحیح بخاری میں امام بخاری نے جابر رضی الله عنہ کا بھی قول دیا ہے
عن جابرٍ – رضي الله عنه – قَالَ: كَانَتِ الْيَهُودُ تَقُولُ: إِذَا جَامَعَهَا مِنْ وَرَائِهَا؛ جَاءَ الْوَلَدُ أَحْوَلَ، فَنَزَلَتْ: (نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ).
یہود کہتے کہ جو بیوی سے پیچھے سے جماع کرے اس کا لڑکا بھینگا ہو گا

اگر دبر کو استمعال کیا جائے تو اولاد نہیں ہو گی لہذا یھاں مراد فرج کو استمعال کرنا ہے

بعض روایت ابن عباس سے مروی ہیں کہ عمر آئے اور نبی صلی الله علیہ وسلم سے کہا کہ میں ہلاگ ہوا
وَأَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ الْحَرْبِيُّ أَنَّ هِبَةَ اللَّهِ أَخْبَرَهُمْ أبنا الْحَسَنُ أبنا أَحْمَدُ ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ حَدَّثَنِي أَبِي ثَنَا حَسَنٌ ثَنَا يَعْقُوبُ يَعْنِي الْقُمَّيِّ عَنْ جَعْفَرٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ جَاءَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلَكْتُ قَالَ وَمَا الَّذِي أَهْلَكَكَ قَالَ حولت رحلي البارحة قَالَ فَلم يلم يَرُدَّ عَلَيْهِ شَيْئًا قَالَ فَأُوحِيَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ الآيَةَ {نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ} أَقْبِلْ وَأَدْبِرْ وَاتَّقِ الدُّبُرَ وَالْحَيْضَةَ
اس پر یہ آیت نازل ہوئی

اس کی سند میں يعقوب بن عبد الله القمي ہے جو ضعیف ہے البانی نے سنن الترمذي
میں اس روایت کو حسن کہا ہے

تحقیق چاہیے

مسند احمد ۔ جلد نہم ۔ حدیث 6585

حضرت ام سلمہ کی مرویات

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ قَالَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ شَقِيقٍ قَالَ دَخَلَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ فَقَالَ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ إِنِّي أَخْشَى أَنْ أَكُونَ قَدْ هَلَكْتُ إِنِّي مِنْ أَكْثَرِ قُرَيْشٍ مَالًا بِعْتُ أَرْضًا لِي بِأَرْبَعِينَ أَلْفَ دِينَارٍ فَقَالَتْ أَنْفِقْ يَا بُنَيَّ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ مِنْ أَصْحَابِي مَنْ لَا يَرَانِي بَعْدَ أَنْ أُفَارِقَهُ فَأَتَيْتُ عُمَرَ فَأَخْبَرْتُهُ فَأَتَاهَا فَقَالَ بِاللَّهِ أَنَا مِنْهُمْ قَالَتْ اللَّهُمَّ لَا وَلَنْ أُبَرِّئَ أَحَدًا بَعْدَكَ

حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عبدالرحمن بن عوف ان کے پاس آئے اور کہنے لگے اماں جان مجھے اندیشہ ہے کہ مال کی کثرت مجھے ہلاک نہ کردے۔ کیونکہ میں قریش میں سب سے زیادہ مالدار ہوں انہوں نے جواب دیا کہ بیٹا اسے خرچ کرو کیونکہ میں نے نبی علیہ السلام کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے بعض ساتھی ایسے بھی ہوں گے کہ میری ان سے جدائی ہونے کے بعد وہ مجھے دوبارہ کبھی نہ دیکھ سکیں گے، حضرت عبدالرحمن بن عوف جب باہر نکلے تو راستے میں حضرت عمر سے ملاقات ہوگئی انہوں نے حضرت عمر کو یہ بات بتائی حضرت عمر خود حضرت ام سلمہ کے پاس پہنچے اور گھر میں داخل ہو کر فرمایا اللہ کی قسم کھا کر بتائیے کیا میں بھی ان میں سے ہوں ؟ انہوں نے فرمایا نہیں لیکن آپ کے بعد میں کسی کے متعلق یہ بات نہیں کہہ سکتی۔

====================

دوسری حدیث

====================

مسند احمد ۔ جلد نہم ۔ حدیث 6518
حضرت ام سلمہ کی مرویات
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ قَالَ دَخَلَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ فَقَالَتْ لَهُ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ مِنْ أَصْحَابِي مَنْ لَا يَرَانِي بَعْدَ أَنْ يُفَارِقَنِي قَالَ فَأَتَى عُمَرَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ قَالَ فَأَتَاهَا عُمَرُ فَقَالَ أُذَكِّرُكِ اللَّهَ أَمِنْهُمْ أَنَا قَالَتْ اللَّهُمَّ لَا وَلَنْ أُبْلِيَ أَحَدًا بَعْدَكَ
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے نبی علیہ السلام کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے بعض ساتھی ایسے بھی ہوں گے کہ میری ان سے جدائی ہونے کے بعد وہ مجھے دوبارہ کبھی نہ دیکھ سکیں گے، حضرت عبدالرحمن بن عوف جب باہر نکلے تو راستے میں حضرت عمر سے ملاقات ہوگئی انہوں نے حضرت عمر کو یہ بات بتائی حضرت عمر خود حضرت ام سلمہ کے پاس پہنچے اور گھر میں داخل ہو کر فرمایا اللہ کی قسم کھا کر بتائیے کیا میں بھی ان میں سے ہوں ؟ انہوں نے فرمایا نہیں لیکن آپ کے بعد میں کسی کے متعلق یہ بات نہیں کہہ سکتی۔

جواب

اس روایت کو صحیح سمجھنا غلط ہے یہ منقطع ہے اس کی تمام اسناد میں شقيق بن سلمة الأسدي، أبو وائل الكوفي ہیں جن کا صحابہ میں سے بعض سے سماع نہیں ہے

ان کا أبي الدرداء رضی الله عنہ سے عائشہ رضی الله عنہا سے علی رضی الله عنہ سے ابو بکر رضی الله عنہ سے سماع نہیں ہے یہ مدلس بھی ہیں
جامع التحصيل في أحكام المراسيل
شقيق بن سلمة الأسدي، أبو وائل الكوفي نے ان اصحاب رسول سے سنا ہے جو کوفہ گئے جیسے ابن مسعود رضی الله عنہ وغیرہ
اور ابو نعیم کتاب معرفة الصحابة میں کہتے ہیں شقیق کی وفات تُوُفِّيَ سَنَةَ تِسْعٍ وَسَبْعِينَ ٧٩ ہجری میں ہوئی
قَالَ ابْن سعد توفّي زمن الْحجَّاج بعد الجماجم
ابن سعد کہتے ہیں حجاج بن یوسف کے دور میں ہوئی جماجم کے بعد

شقیق نے مدینہ کا سفر کیا ہو کسی نے بیان نہیں کیا لہذا یہ روایت منقطع ہے

عبد الرحمان بن عوف رضی الله عنہ کی وفات سن ٣٢ یا ٣٣ ہجری کی ہے یہ کوفہ یا عراق نہیں گئے مدینہ میں ہی رہے ہیں

Sunnan e Ibn e Maja Hadees # 1969

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هَمَّامٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ كَانَتْ لَهُ امْرَأَتَانِ يَمِيلُ مَعَ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى، ‏‏‏‏‏‏جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَحَدُ شِقَّيْهِ سَاقِطٌ .

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس دو بیویاں ہوں اور ایک کو چھوڑ کر دوسری کی طرف مائل رہے، تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک دھڑ گرا ہوا ہو گا ۔

جواب

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: “مَنْ كَانَتْ لَهُ امْرَأَتَانِ يَمِيلُ مَعَ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى، جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَحَدُ شِقَّيْهِ سَاقِطٌ

اس کو البانی – شعيب الأرنؤوط – عادل مرشد – محمَّد كامل قره بللي – عَبد اللّطيف حرز الله نے صحیح کہا ہے

———

بعض محدثین کے نزدیک بشیر کا سماع ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے نہیں لہذا کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل میں ہے
قال أتيت أبا هريرة بكتاب وقلت له هذا حديث أرويه عنك قال نعم والإجازة
بشیر نے کہا میں ابو ہریرہ کے پاس گیا ایک کتاب کے ساتھ اور ان سے کہا یہ حدیث ہے جو میں اپ سے روایت کرتا ہوں انہوں ننے اجازت دی

یعنی بشیر نے سماع سے اخذ نہیں کیا بلکہ یہ اجازہ کہلاتا ہے

اس کے علاوہ ابو حاتم نے بشير بن نهيك کے لئے کہا
أبو حاتم فقال لا يحتج به
اس سے دلیل مت لو

خیال رہے بشير بن نهيك صحیح کا راوی ہے لیکن نیشاپور میں اس سے منع کیا جاتا تھا کہ اس سے دلیل لی جائے

جواب

جواب

جواب

جواب

جواب

جواب

جواب

جواب

جواب

جواب

جواب

جواب

جواب

جواب